اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت حضرت علاّمہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رَضوی دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ’’سیّدی قُطبِ مدینہ ‘‘ میں بحوالہ جَمْعُ الْجَوامِعْ دُرود پاک کی فضیلت ذکر فرماتے ہیں : سلطانِ دوجہان، مدینے کے سلطان، رَحمتِ عالَمِیان، سروَرِ ذیشان صَلَّی اللہ تَعالٰی عَلیہ واٰلہٖ و سلَّم کا فرمانِ جنَّت نشان ہے: جو مجھ پر جُمُعہ کے دن اور رات 100 مرتبہ دُرُود شریف پڑھے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا، 70 آخِرت کی اور 30 دُنیا کی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ایک فِرِشتہ مقرَّر فرمادے گا جو اُس دُرُودِ پاک کو میری قبر میں یوں پہنچائے گا جیسے تمہیں تحائف پیش کئے جاتے ہیں ، بِلاشبہ میرا علم میرے وِصال کے بعد وَیسا ہی ہو گا جیسا میری حیات میں ہے۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۷ ص۱۹۹ حدیث۲۲۳۵۵ )
صَلُّوْاعَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
مرکزالاولیاء (لاہور) کے علاقے محلہ بابا چراغ دین جلوموڑ کے مقیم
اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں آنے سے قبل مجھے نمازوں کی ادائیگی کااحساس تھا نہ ہی دیگر شرعی احکامات کی خلاف ورزی کا کچھ پاس ۔ میری زندگی کے انمول لمحات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانیوں میں بسر ہو رہے تھے۔ فلموں کا جنون کی حد تک رسیا تھا۔ گناہوں کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے کرائے پر فلموں کی کیسٹیں اور VCDs لینے میرا اکثر ویڈیو سینٹر آنا جانا لگا رہتا جس کی وجہ سے پہلے پہل تو ویڈیوسینٹر کے مالک سے جان پہچان ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ علاقے کے بڑے ویڈیو سینٹر والے سے میرے اس قدر تعلقات بن گئے کہ ہماری آپس کی شناسائی دوستانے کی صورت اختیار کر گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے جس گناہ کے لئے رقم خرچ کرنی پڑتی تھی اب وہ مفت میں ’’گلے پڑا ڈھول‘‘ بن گیا جسے میں مَعَاذَاللہ بصد شوق بجایا کرتا کیونکہ اب توجو بھی نئی فلم آتی کرائے پر لینے کی بجائے میں اسی کے پاس بیٹھ کر دیکھ لیا کرتا۔ ان بے ہودہ فلموں کا میرے کردار پر گہرا اثر پڑا ، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈالنے اور ڈانس کرنے میں بھی دلچسپی لینے لگا۔رفتہ رفتہ ایسی شہرت حاصل ہوئی کہ علاقے میں ہونے والے ناچ گانے کے ہر پروگرام میں مجھے پیش پیش رکھا جانے لگا۔ میری اصلاح کا سبب کچھ اس طرح بنا کہ ایک دن میرے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ آج ہماری مسجد میں دعوتِ اسلامی
کے عاشقانِ رسول اسلامی بھائیوں کا ایک مدنی قافلہ آیا ہے، ان سب کے سروں پر سبز سبز عمامے جگمگا رہے ہیں اور سبھی سفید لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر نجانے کیوں مجھے ان کی زیارت کاشوق ہوا اور میں مسجد جا پہنچا۔ عاشقانِ رسول نے آگے بڑھ کر نہایت گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔ سلام دعا کے بعد نیکی کی دعوت دیتے ہوئے انہوں نے محبت بھرے انداز میں مجھے مغرب کے بعد ہونے والے سنّتوں بھرے بیان میں شرکت کی دعوت پیش کی۔ چونکہ وہ ہمارے علاقے میں مہمان کا درجہ رکھتے تھے اور اچھی بات کی دعوت دے رہے تھے نیز ان کے حسنِ اخلاق اور میٹھی گفتار سے میں پہلے ہی گھائل ہو چکا تھا لہٰذا ان کی بات ٹالنا مجھے گوارا نہ ہوا اور میں فوراً بیان سننے کے لیے آمادہ ہو گیا۔ نمازِ مغرب کے بعد ایک مبلغِ دعوتِ اسلامی نے سنّتوں بھرا بیان فرمایا جو مجھے بہت اچھا لگا۔ اختتامِ بیان پر انہوں نے انفرادی کوشش کرتے ہوئے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی پرخلوص دعوت دی، میں ان کی سیرت اور سراپا سنّت صورت سے متأثر ہو چکا تھا لہٰذا ان کے ساتھ اجتماع میں جانے کے لے تیار ہو گیا۔ جب سنّتوں بھرے اجتماع میں پہنچا تو مجھے وہاں بہت قلبی سکون ملا ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے میں گناہوں کے تپتے صحرا سے نکل کر سنّتوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں آ گیا ہوں۔ پرسوزبیان، ذکر اور رقت انگیز دعا نے میرے دل کی دنیا زیر و زبر
کردی۔ خوفِ خدا کے باعث میری عجیب حالت ہو گئی۔ میں نے اپنے تمام گناہوں سے سچے دل سے توبہ کی اور امیرِاہلسنّت سے مرید ہو کر قادری عطاری ہو گیا۔ اسلامی بھائیوں کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر مدنی ماحول کی محبت و عقیدت میرے دل میں گھر کر گئی، گناہوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقامت پانے کے لیے میں مدنی ماحول سے منسلک ہوگیا۔ داڑھی و عمامہ سجا کر سنّت کے مطابق سفید لباس زیبِ تن کر لیا۔ مرشد کی فیضِ نظر سے چھبیس ماہ کے مدنی قافلے میں سفر کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ تقریباً تیس دن کے چھ، سات اورتین دن کے بے شمار مدنی قافلوں میں بھی سفر کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ تادمِ تحریر علاقائی مشاورت کے نگران کی حیثیت سے مدنی کاموں کی دھومیں مچا رہا ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
مرکز الاولیاء (لاہور) کے ایک اسلامی بھائی نے اپنی خزاں رسیدہ زندگی میں بہار آنے کا تذکرہ کچھ یوں کیا کہ میں گناہوں کے تپتے صحرا میں سرگرداں تھا۔ فیشن کادلدادہ، معاشرے کا بگڑا ہوا نوجوان تھا۔ علمِ دین سے دوری
کے باعث میرے شب و روز گناہوں میں بسر ہو رہے تھے۔ نہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف کوئی توجہ تھی اور نہ ہی حقوق العباد کی فکر۔ مَعَاذَ اللہ فرض نمازوں کی ادائیگی سے غفلت اور روزے نہ رکھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی مول لے رہا تھا۔ دوسری طرف والدین کی نافرمانی اور بہن بھائیوں کو مار پیٹ کر ان کی سخت دل آزاری کا باعث بنتا تھا۔ ساری ساری رات گھر سے باہر آوارہ گردی کرتا مجھے ڈھونڈنے کے لیے کبھی بھائی تو کبھی والدہ ماری ماری پھرتی۔ یوں تو پہلے ہی شب و روز گناہوں میں سیاہ کر رہا تھا مگر بد قسمتی سے اب برے دوستوں کی صحبت میں پڑ کر’’ بدکاری‘‘ جیسے گھناؤنے فعل کا بھی عادی بن چکا تھا۔ علاوہ ازیں اسی صحبتِ بد کے باعث میں اسنوکر کلب جانا شروع ہوا۔ ابتداً تو ویسے کھیلتا رہا مگر وہاں کے مُخَرِّبُ الْاَخْلَاق ماحول نے مجھ میں ایسا بگاڑ پیدا کر دیا کہ میں جوا لگانا شروع ہو گیا۔ اسی طرح کرکٹ کا جنون کی حد تک رسیا تھا اور وہ بھی بغیر جوا لگائے نہیں کھیلتا تھا۔ عید ہو یا رمضان المبارک غرض کوئی دن ایسا نہ تھا کہ جس میں میں جوا نہ کھیلتا ۔ اس حرام کی مجھے ایسی لت پڑی تھی کہ جوئے کی دنیا میں میرا نام علامت بن چکا تھا۔ اس کارِحرام میں میری اس قدر شہرت ہو چکی تھی کہ لوگ میرے بارے میں یہ کہنے لگے کہ اس کے ماتھے پر ’’حرام‘‘ لکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ جیت جاتا ہے۔ مزید یہ کہ میں
لڑائی جھگڑوں میں بھی پیش پیش رہتا اسی وجہ سے بعض اوقات میری سرِعام جوتوں سے پٹائی بھی ہوئی مگر میں تو ’’نہ سدھرے ہیں نہ سدھریں گے قسم کھائی ہے ‘‘ کا مصداق بن چکا تھا۔ اس کردارِ بد کی وجہ سے والدین، رشتے دار، محلے دار الغرض ہر ایک مجھے بری نگاہ سے دیکھتا مگر میں تھا کہ ٹس سے مس نہ ہوتا، کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنے کالے کرتوت جاری رکھتا۔ میری سعادتوں کی معراج کا سفر کچھ یوں شروع ہوا کہ ایک روز ایک باریش و باعمامہ مبلغِ دعوتِ اسلامی سے میری ملاقات ہو گئی ، سلام و مصافحے کے بعد انہوں نے انفرادی کوشش کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی دعوت پیش کی مگر میری شقاوت قلبی کہ میں نے صاف انکار کر دیا۔ اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کے جذبے سے سرشار اسلامی بھائی نے ہمت نہ ہاری اور وقتاً فوقتاً مجھے نیکی کی دعوت پیش کر کے اپنا ثواب کھرا کرتے رہے۔ میں تھا کہ ہر بار ہی ٹال دیتا مگر ان کی مسلسل نیکی کی دعوت کی بدولت مجھ پر اتنا اثر ضرور ہوا کہ اب میں نے نمازیں پڑھنا شروع کر دیا، لیکن ان کے ساتھ ہفتہ وار اجتماع میں جانے کو تیار نہ ہوتا، بالآخر ان کی پیہم انفرادی کوشش رنگ لائی اور ایک دن میں نے سوچا کیوں نہ آج چل کے دیکھتا ہوں کہ آخر یہ مجھے بار بار ہفتہ وار اجتماع کی دعوت کیوں دیتے ہیں ؟ چنانچہ میں اسلامی بھائیوں کے ساتھ اجتماع میں شریک
ہو گیا۔ تلاوت و نعت کے بعد ہونے والے سنّتوں بھرے بیان میں بڑا لطف آیا۔ بیان کے بعد تصور مدینہ کر کے الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہ ، الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللہ پڑھنے میں مجھے اتنا سکون ملا کہ اس سے قبل ایسا اطمینان نہ ملا تھا، اور ذکر کے دوران لگائی جانے والی اللہ ، اللہ کی ضربوں نے میرے دل کی سیاہی کو دور کرنا شروع کر دیا جونہی رقت انگیز دعا شروع ہوئی میرے گناہوں کی طویل فہرست میری نظروں کے سامنے گھومنے لگی اور مجھے احساسِ ندامت ہونے لگا، مجھ پر خوفِ خدا کا غلبہ ہونے کے باعث میرا دل دہل گیا، گناہوں کی بھیانک سزائیں یاد کر کے میری آنکھوں کی وادیوں سے آنسوؤں کے چشمے بہہ نکلے۔ میں نے صدقِ دل سے گناہوں سے توبہ کی اور اختتامِ اجتماع پر سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ میں مرید ہونے کے لئے اپنا نام پیش کر دیا۔ اس کے بعد میں ہفتہ وار اجتماع میں پابندی سے شرکت کرنے لگا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ سر پر سبز سبز عمامے کا تاج سجا لیا اور داڑھی کے نور سے اپنے چہرے کو مزین کر لیا۔ مدنی ماحول کی برکت سے اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ نہ صرف نماز روزے کا پابند ہو گیا ہوں بلکہ اپنے علاقے کی مسجد میں درس و بیان کی سعادتیں بھی پانے لگا ہوں۔ والدین سے معافی تلافی کر کے ان کی عزت کرنے لگا ہوں بلکہ امیرِ اہلسنّت کے عطاکردہ مدنی انعام کی ترغیب کی
برکت سے اپنی والدہ کے قدم اور والد صاحب کے ہاتھ چومنے کی سعادت پاتا ہوں۔ مزید یہ کہ روزانہ صدائے مدینہ بھی لگانا شروع کر دی ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم اور دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول کی برکت سے رشتہ دار و محلے دار سبھی کے نزدیک باوقار و عزت دار بن گیا۔ علاوہ ازیں سنّتوں کی خوب خوب خدمت کرنے اور اس پر استقامت پانے کے لیے میں نے 63 روزہ تربیتی کورس میں داخلہ لے لیا۔ تربیتی کورس میں بے شمار برکتوں کے ساتھ ساتھ قراٰن پاک صحیح تلفظ سے پڑھنا سیکھا، نماز روزے کے فرائض و واجبات سیکھے اور بے شمار سنّتیں اور دعائیں یاد کر لیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تادمِ تحریر حلقہ مشاورت کے ذمہ دار کی حیثیت سے مدنی کاموں کی دھومیں مچانے میں مصروف ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
ملیر (باب المدینہ کراچی) کے علاقے اعظم پورہ، سبز ٹاؤن کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے قبل میری زندگی کے رات دن گناہوں میں بسر ہو رہے تھے۔ خوش قسمتی سے میری
قسمت کا ستارہ چمک اٹھا جس کا سبب کچھ یوں بنا کہ میں ایک روز اپنے چچا زاد بھائی سے ملنے باب المدینہ (کراچی) آیا، انہیں دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول نصیب تھا۔ انہوں نے میرے ساتھ خیر خواہی کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضا نِ مدینہ میں ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی نہ صرف زبانی طور پر دعوت پیش کی بلکہ عملی طور پر مجھے اپنے ساتھ ہی اجتماع میں لے گئے اور یوں زندگی میں پہلی بار مجھے فیضانِ مدینہ میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ فیضانِ مدینہ کی بارونق فضاؤں میں میری دلی کیفیت بدل گئی وہاں مجھے بہت قلبی سکون مل رہا تھا۔ پرسوز تلاوت ونعت، اصلاح سے بھرپور بیان، دل کو جِلا دینے والے ذکر اور رقت انگیزدعا نے میری زندگی میں مدنی انقلاب برپا کردیا۔ میں نے اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی اور مدنی ماحول سے منسلک ہو گیا، سر پر سبزسبز عمامے کا تاج سجالیااور اپنے چہرے کوداڑھی شریف کے نور سے روشن کر لیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تادمِ تحریر حلقہ مشاورت میں مدنی انعامات کے خادم (نگران) کی حیثیت سے مدنی کاموں کی ترقی کے لئے کوشاں ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
قصور (پنجاب، پاکستان) کے ایک گاؤں کیسر گڑھ میں مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستگی سے قبل میں برے دوستوں کی صحبت کی وجہ سے عصیاں بھری زندگی گزار رہا تھا۔ نماز جیسی اہم عبادت میں کوتاہی ، والدین کی نافرمانی ، بات بات پر نہ صرف توتکار بلکہ گالم گلوچ کرنا اور بالآخر لڑائی جھگڑے مول لینا میرے کردار کا حصہ تھا۔ صحبتِ بد کی نحوست نے میرے اطوار میں اس قدر بگاڑ پیدا کردیا تھا کہ میں نے چوری چکاری بھی شروع کر دی۔ فلموں ڈراموں کاتو ایسا رسیا ہو چکا تھا کہ پہلے پہل تو صرف دن ہی کا اکثر حصہ ہوٹلوں پر فلم بینی میں گزرتا تھا مگر پھر رفتہ رفتہ ایسا چسکا پڑا کہ میری راتیں بھی ہوٹلوں کی نذر ہونے لگیں۔ میرے اس طرزِ عمل کو دیکھ کر گھر والوں نے مجھے بار بار زبانی کلامی سمجھانے کی کوشش کی مگرمیں ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا۔ میرے اس رویے سے عاجز آ کر گھر والوں نے میری اصلاح کے لیے مختلف حربے بھی آزمائے، حتی کہ کئی بار تو رات کے وقت گھر کے دروازے پر اس غرض سے تالے بھی لگا ئے کہ میں باہر نہ جاؤں مگر ان تمام تر سختیوں کے باوجود میں دیوار پھلانگ کر حسبِ عادت ہوٹل پر پہنچ جاتا اور فلموں میں حیا سوز مناظر دیکھ کر اپنی
عاقبت برباد کرتا ۔ الغرض رات دن گناہ کر کر کے اپنا نامۂ اعمال سیاہ کیے چلا جا رہا تھا۔ وہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کرم فرمائے دعوتِ اسلامی اور بالخصوص امیرِاہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ پر کہ جن کی بدولت میں وادیٔ عصیاں سے نکل کر نیکیوں کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ میری اصلاح کا سامان کچھ یوں ہوا کہ میٹرک کے دوران دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ایک عاشقِ رسول اسلامی بھائی نے مجھے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی دعوت پیش کی ان کی پر خلوص دعوت نے نجانے مجھ پر کیا ایسا جادو کیا کہ میں انکار نہ کر سکا اور لبیک کہتے ہوئے اجتماع میں حاضر ہوگیا، وہاں کے نورانی ماحول میں میری آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئی ہر طرف سبز سبز عماموں کی بہاریں تھیں۔ باعمل اسلامی بھائیوں کی صحبتِ بابرکت سے میرے دل میں عمل کا جذبہ بیدار ہوا، فکرِ آخرت کی دولت نصیب ہوئی اور عشقِ رسول میں تڑپنے کا قرینہ مل گیا۔ اجتماع کے اختتام پر مانگی جانے والی رقت انگیز دعا میں میں نے اپنے سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کر لی۔ ہفتہ وار اجتماع میں پابندی سے شرکت کی برکت سے آہستہ آہستہ مدنی ماحول سے منسلک ہو گیا۔ خوش قسمتی سے انہی دنوں ہمارے علاقے میں دعوتِ اسلامی کے تحت مدرستہ المدینہ کا افتتاح ہوا میں چونکہ میٹرک کے امتحان سے فارغ ہو چکا تھا لہٰذا موقع غنیمت جان کر قراٰنِ پاک کی تعلیم کے ساتھ ساتھ
اخلاقی تربیت حاصل کرنے کے لئے مدرسۃ المدینہ میں داخلہ لے لیا۔ مدنی ماحول کی برکت سے میرے اندر پیدا ہونے والے مدنی انقلاب کو دیکھ کر تمام گھروالے حیران تھے۔ پہلے تو یہ حال تھا کہ گھر والے نماز کا کہہ کہہ کر تھک جاتے مگر میں نہ پڑھتا، اب نہ صرف خود نمازیں پڑھتا ہوں بلکہ دوسروں کو بھی نماز کی دعوت دیتا ہوں۔ مدرستہ المدینہ میں تجوید کاکورس مکمل کرنے کے بعد جامعۃ المدینہ میں عالم کورس کے لیے داخلہ لے لیاہے ۔ تادمِ تحریر اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ درجہ سادسہ کا طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ حلقہ مشاورت کے خادم (نگران) کی حیثیت سے مدنی کاموں میں مصروف ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
دربار والی فرید پارک (ضلع شیخوپورہ، پنجاب، پاکستان) مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے پہلے میں ایک بینڈ پارٹی میں تھا۔ شادی بیاہ اور دیگر پروگراموں میں خوب دادِ تحسین وصول کرتا اسی وجہ سے میں موسیقی کا بے حد شوقین تھا۔ الغرض زندگی کے ایام گناہوں میں کٹ رہے تھے اور مجھے اپنے
قیمتی لمحات کے ضائع ہونے کا کچھ احساس نہ تھا۔ علمِ دین سے دوری کی وجہ سے نہ خوفِ خدا تھا، نہ شرمِ مصطفی، مَعَاذَاللہ اپنے ماں باپ کی بھی نافرمانی کیا کرتا تھا۔ پھر مجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہو گیا، ہوا یوں کہ ایک دن میں کہیں جانے کے لئے موٹرسائیکل رکشے میں سوار ہوا اس میں پہلے سے کچھ سبز عمامے والے اسلامی بھائی بھی سوار تھے وہ فیضانِ مدینہ شیخوپورہ میں ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں جا رہے تھے۔ انہوں نے محبت بھرے انداز میں مجھے بھی سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی دعوت پیش کی۔ میں ان کے مدنی حلیے اور گفتگو کے منفرد انداز سے پہلے ہی متأثر ہو چکا تھا لہٰذا ان کی دعوت قبول کر لی اور ہاتھوں ہاتھ اجتماع میں شریک ہو گیا۔ اجتماع میں مبلغِ دعوتِ اسلامی کا سنّتوں بھر ابیان جاری تھا، میں توجہ سے سننے لگا، بیان کے پر تاثیر الفاظ میری سماعتوں کے راستے میرے دل میں اترتے چلے گئے۔ فکرِ آخرت سے متعلق بیان سن کر میری آنکھوں سے آنسوؤں کے دھارے بہ نکلے۔ میرے دل کی دنیا زیرو زبر ہو گئی۔ میں نے صدقِ دل سے گناہوں سے توبہ کرکے اپنے چہرے کو سنّتِ مصطفی کے نور سے منوّر کرنے کی نیت کر لی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے توبہ پر ایسی استقامت بخشی کہ بینڈ باجے بجانے کے گناہوں بھرے حرام روزگار کو ترک کر دیا، نیز ماں باپ کی فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ والد صاحب کے ہاتھ
اور والدہ کے پاؤں بھی چومنے لگا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تادمِ تحریر میں حلقہ مشاورت میں مدنی قافلہ ذمہ دار کی حیثیت سے نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں مصروف ہوں۔
انہی اسلامی بھائی کا کہنا ہے کہ میری زوجہ امید سے تھیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کے ہاں اولاد بغیر آپریشن نہیں ہو گی۔ میں نے تعویذاتِ عطاریہ کی بہاریں سن رکھی تھیں چنانچہ تعویذات کے بستے پر حاضر ہو کر وہاں موجود اسلامی بھائی کو اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ انہوں نے تسلی دیتے ہوئے تعویذاتِ عطاریہ دئیے اور استعمال کا طریقہ سمجھا دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعویذات کے استعمال کی برکت سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بغیر آپریشن اولاد کی نعمت عطا فرما دی ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
گوجرانوالہ (پنجاب، پاکستان) کے علاقے احمد پورہ کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میری زندگی کے شب و روز گناہوں کی تاریکی میں گزر رہے تھے۔ مَعَاذَ اللہ دین سے دوری کا یہ عالم تھا کہ عام دنوں کی
نمازیں تو ایک طرف میں تو جمعے کی نماز کے لئے بھی مسجد کی حاضری سے محروم رہتا۔ شادی بیاہ کے بیہودہ فنکشنوں میں بصد شوق شرکت کرنا میرا وتیرہ اور ان میں گانوں پر ڈانس کرنا میرا طرۂ امتیاز تھا۔ نیز فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننا، نت نئے فیشن اپنانا میری زندگی کا جُزْوِ لَایُنْفَک بن چکے تھے۔ فلموں ڈراموں سے دلچسپی کا عالم تو یہ تھا کہ ایک مرتبہ مالی حالات ابتر ہونے کی وجہ سے گھر والوں نے مجبوراً ٹی وی فروخت کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے گھریلو حالت اور وقت کی نزاکت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ٹی وی نہ بیچنے کی ضد شروع کر دی اور رونے لگا، ناچار گھر والوں کو میری بے حسی اور بے جا ہٹ دھرمی کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے اور ٹی وی بیچنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ الغرض زندگی کے ایام عصیاں میں گزرتے چلے جا رہے تھے۔ حسنِ اتفاق کہ ایک روز میری ملاقات دعوتِ اسلامی سے وابستہ ایک اسلامی بھائی سے ہوئی، انہوں نے انفرادی کوشش کرتے ہوئے محبت بھرے انداز میں مجھے مدرسۃ المدینہ (بالغان) میں پڑھنے کی دعوت دی میرا دل شاید عصیاں سے سیاہ ہو چکا تھا شاید اسی وجہ سے ان کی نصیحت آمیز گفتگو کا میرے دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے ان کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ میری اس بے توجہی سے وہ مایوس نہ ہوئے اور وقتاً فوقتاً تشریف لا کر مجھے نیکی کی دعوت دیتے رہے مگر میں تھا کہ ہر بار ٹال دیا کرتا۔ مجھے اندازہ نہ تھا
کہ میری ڈھٹائی کے مقابلے میں ان کا جذبۂ اصلاح کہیں زیادہ تھا۔ انہوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ ان کی پیہم انفرادی کوشش کے نتیجے میں بالآخر میرا دل پسیج ہی گیا اور میں نے مدرسۃ المدینہ (بالغان) میں پڑھنا شروع کر دیا جہاں قراٰن پاک کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی تربیت بھی ہوتی رہی نیز عاشقانِ رسول کی صحبت کی برکت سے وقتاً فوقتاً دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں حاضری کی سعادت بھی ملتی رہتی۔ ہفتہ وار اجتماع میں ہونے والے سنّتوں بھرے اصلاحی بیانات نے مجھے بہت متأثر کیا اور آخر میں ہونے والے ذکر اور رقت انگیز دعا نے تو میری زندگی میں مدنی انقلاب برپا کر دیا میں نے رو رو کر اپنے گناہوں سے سچی توبہ کی۔ کل تک ٹی وی کی محبت میں رونے والا فیشن کا دلدادہ مجھ جیسا گناہ گار آج مدنی ماحول کی برکت سے خوفِ خدا اور عشقِ مصطفٰے میں رونے والا اور سرکار صَلَّی اللہ تَعالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَسلَّم کی سنّتوں کا متوالا بن چکا تھا۔ تادمِ تحریر اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں علاقائی مشاورت میں مدنی انعامات کی ذمہ داری سرانجام دیتے ہوئے نیکی کی دعوت کی دھومیں مچا رہا ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
سردار آباد (فیصل آباد، پنجاب) کے علاقہ راجہ ٹاؤن کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے کہ 2006ء میں مجھے سخت پریشانیوں کاسامنا تھا ان میں سب سے بڑا مسئلہ ایک کیس تھا جو6 سال سے کورٹ میں چل رہا تھا مگر ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا جس کے باعث میں سخت اذیت میں مبتلا تھا۔ ایک روز اسی سلسلے میں وکیل کے پاس پہنچا تو وہاں ایک سبزعمامے والے اسلامی بھائی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے جب میرا مسئلہ سنا تو تسلی دیتے ہوئے مجھے اپنے آفس میں آنے کو کہا۔ میں اسی روز ان کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے میرے کیس کے متعلق کافی اطمینان بخش گفتگو فرمائی اور ایسے محبت بھرے انداز میں تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی دعوت پیش کی کہ میں انکار نہ کر سکا اور اگلے ہی روز دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ہونے والے سنّتوں بھرے اجتماع میں شریک ہوگیا۔ سنّتوں بھرے بیان اور رقت انگیز دعا نے میرے دل کی دنیا زیر و زبر کر دی، بالخصوص عاشقانِ رسول کی محبت بھری ملاقاتوں نے بڑا متأثر کیا اور یوں میں سنّتوں بھرے اجتماع میں پابندی کے ساتھ شرکت کرنے لگا۔ غالباً تیسرے ہفتے انہی اسلامی بھائی کی ترغیب پر میں نے امیرِ اہلسنّت دَامَت
بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے مرید ہونے کے لیے نام بھی پیش کردیا اور یوں سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ میں داخل ہو کر حضورِ غوث پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا غلام بن گیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مدنی ماحول اور ایک ولیٔ کامل کے دامن سے وابستگی کی برکت سے وہ کیس جو چھ سال سے کسی صورت حل ہوتا نظر نہیں آرہا تھا اور تقریباً میں مایوس ہو چکا تھا صرف 2 ہفتوں میں اس کا فیصلہ ہمارے حق میں ہو گیا۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
نیو کراچی (باب المدینہ کراچی) کے علاقے سرجانی ٹاؤن کے رہائشی اسلامی بھائی کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ میری شروع ہی سے نماز پڑھنے کی عادت تو تھی لیکن مَعَاذَ اللہ گناہوں سے نہیں بچ پاتا تھا۔ ٹی وی پر گانے باجے سننے، فلمیں ڈرامے دیکھنے میں اپنا قیمتی وقت برباد کرتا رہتا۔ فلموں کا تو اس قدر چسکا پڑا تھا کہ فلم دیکھنے کے لئے اکثر سنیما گھر پہنچ جاتا۔ بس زندگی کے شب و روز گناہوں میں بسر ہو رہے تھے۔ میں لاعلمی میں ایک نام نہاد پیر کا مرید ہو گیا پھر جب مجھے پتہ چاکہ یہ شخص خود بے عملی کی
وادیوں میں بھٹک رہا ہے مزید اس کی کچھ خلاف شرع حرکتیں دیکھیں تو ایسا بدظن ہوا کہ میں نے ارادہ کر لیا اب کسی کا مرید نہیں بنوں گا۔ خوش نصیبی سے میرے بچوں کو دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول میسر آگیا، وہ پابندی سے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرتے۔ ایک بار انہوں نے مجھے بھی سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی میں نے انہیں صاف منع کردیا مگر انہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ابوجان آپ ایک بار ہمارے ساتھ چل کر تو دیکھیں۔ ان کی ’’مدنی ضد‘‘ کے سامنے مجھے ہتھیار ڈالنا ہی پڑے چنانچہ ۱۴۳۰ ھ کے رجب کا مہینہ تھا میں بچوں کے ساتھ اجتماع میں شرکت کے لئے روانہ ہوگیا۔ جب وہاں پہنچے تو سنّتوں بھرے اجتماع کے روحانی ماحول اور پرسوز بیان و ذکر اور رقت انگیز دعا نے مجھے بہت متأثر کیا، اختتامِ اجتماع پر میرے بچوں نے میری ملاقات علاقائی ذمہ دار اسلامی بھائی سے کرائی انہوں نے محبت بھرے انداز میں مجھ پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کی بہاریں بیان کیں۔ ان کے اس محبت وپیار اور دیگر اسلامی بھائیوں کی ملاقات کے دلنشین انداز دیکھ کر میں نے سوچا کہ جب مرید ایسے پیارے اور باعمل ہیں تو پیر کا کیا عالم ہو گا؟ اب میں پابندی سے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں حاضر ہونے لگا۔ اجتماع کی برکت سے رمضان
المبارک میں عاشقانِ رسول کے ساتھ 10 روزہ اجتماعی اعتکاف میں بیٹھ گیا۔ میں غائبانہ طور پر امیرِ اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا گرویدہ تو ہو چکا تھا دورانِ اعتکاف مدنی مذاکرے میں جب آپ دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رخِ زیبا کی زیارت کی تو ان کے جلووں میں کھو گیا۔ دل نے گواہی دی کہ یہ سچے پیر اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کامل ولی ہیں۔ مدنی مذاکرے کے اختتام پر امیرِ اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے بیعت کروائی تو میں بھی مرید ہوکر عطاری بن گیا اور دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو گیا۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
سردار آباد (فیصل آباد پنجاب) کی تحصیل چک جُھمرہ کے علاقے رستم آباد شریف کے ایک نوجوان اسلامی بھائی کی تحریر کاخلاصہ پیش خدمت ہے: مدنی ماحول سے پہلے میں بری صحبت کے باعث گناہوں بھری زندگی گزار رہا تھا، کون سی ایسی برائی تھی جو میرے اندر نہ تھی، والدین کا انتہائی گستاخ، مزاج غصیلا اورگندی گالیاں بکنا علاقے بھر میں میری پہچانِ بد بن چکی تھی۔ اسی وجہ سے محلہ میں میری کسی سے نہیں بنتی تھی، ذرا ذرا سی بات پر مرنے مارنے پر
اتر آتا۔ غیر تو غیر میری اس عادت سے میرے دوست بھی تنگ تھے۔ انتہائی زبان دراز تھا کبھی کبھی محلے کی مسجد کے امام صاحب سمجھانے کی کوشش کرتے تو انتہائی بدتمیزی کے ساتھ بات کاٹ کر اول فول بکنے لگتا۔ ایک بار تو غصے میں یہاں تک بول دیا کہ مولانا صاحب آپ کو سمجھانے کے سوا آتا کیا ہے آئندہ سمجھانے کی ہمت کی تو جان سے مار دوں گا۔ لوگوں کو ستانے کے نت نئے طریقے سوچا کرتا۔ گھر والوں نے میرے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے قراٰن پاک کی تعلیم کے لیے 3 مئی 1999ء کو ایک مدرسے میں داخل کروا دیا۔ کچھ عرصے بعد دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ایک اسلامی بھائی میری گناہوں بھری تاریک زندگی میں ہدایت کا چمکتا ستارہ بن کر طلوع ہوئے اور میری شام غریباں کو صبح بہاراں میں بدل دیا وہ یوں کہ انہوں نے مجھے تبلیغ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی دعوت پیش کی، اس وقت سنّتوں بھرا اجتماع جامع مسجد بلال میں ہوتا تھا، میرے بھاگ جاگ اٹھے کہ میں نے انکار کرنے کی بجائے ان کی دعوت قبول کی اور اجتماع میں جا پہنچا، وہاں مبلغِ دعوتِ اسلامی سنّتوں بھرے بیان میں گناہوں کی تباہ کاریاں بتا کر اس کی مذمت بیان فرما رہے تھے، انداز ایسا دلنشین اور پر تاثیر تھا کہ دل میں اترتا چلا گیا، میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے کانپ
اٹھا، آپ یقین کریں نہ کریں میری آنکھوں سے آنسو کی جھڑی لگ گئی اجتماع کے اختتام تک میرا دل چوٹ کھا چکا تھا۔ میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کر لیا اور سچ کہتا ہوں : میرے دل کی دنیا ایسی بدلی کہ میں جو کل تک والدین کا گستاخ تھا، اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ایسا فرمانبردار بن گیا کہ اب لوگ اپنے بچوں کو میرے باادب انداز کی مثالیں دیتے ہیں۔ جو لوگ مجھ سے کتراتے اور نفرت کیا کرتے تھے اب محبت میں بچھ بچھ جاتے ہیں ، عاشقانِ رسول کی شفقتوں نے مجھ پر ایسا مدنی رنگ چڑھا دیا کہ فرض نمازیں باجماعت پڑھنے کی عادت کے ساتھ ساتھ نوافل پڑھنے کا بھی معمول بن گیا۔ داڑھی رکھ لی اور عمامے شریف کا تاج بھی سجا لیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تادمِ تحریر میں تربیتی کورس کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
چنیوٹ (پنجاب، پاکستان) کے مقیم اسلامی بھائی اپنی زندگی میں پیدا ہونے والے مَدَنی انقلاب کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے پہلے مَعَاذَاللہ میں اکثر شراب کے نشے میں دھت رہتا۔ مجھے
نہ تو اپنا کچھ ہوش ہوتا اور نہ ہی گھر والوں کی کچھ خبر۔ خوامخواہ لوگوں سے لڑائی مول لینا، بات بات پر مار دھاڑ پر اتر آنا میرے معمولات میں سے تھا۔ علاوہ ازیں میرا تعلق بد مذہب گھرانے سے تھا، اسی وجہ سے میں اکثر ان کے ساتھ کئی کئی دن ’’گھومتا ‘‘رہتا مگر وہاں مجھے چین نہیں ملتا تھا۔ ہمارے محلے میں ایک پیر صاحب رہتے تھے جن کے گھر ماہانہ گیارہویں شریف کے سلسلے میں ختم ہوا کرتا تھا جس میں مختصر سی محفلِ ذکر و نعت ہوتی تھی۔ میں اگرچہ بدمذہبیت کا شکار تھامگر مجھے نعت پڑھنے کابہت شوق تھا اس لئے میں کبھی کبھار چھپ کر ان کی محفل میں شریک ہوتا اور وہاں نعت بھی پڑھتا۔ میرے ایک دوست جو کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ تھے ایک مرتبہ انہوں نے مجھے کہا کہ چلو آج آپ کو ایک بڑی محفل میں نعت پڑھواتے ہیں ، میں ان کے ساتھ چل دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ وہاں نعت شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ جب وہاں موجود ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرے دوست سے کہا کہ آپ ان سے اس طرح کھلے عام نعت نہ پڑھوایا کریں کیونکہ اس کے خاندان والے نعت پڑھنے والوں کے دشمن ہیں کہیں اس کے بارے میں پتہ چل گیا تو اسے مار دیں گے۔ خیر ہم جب وہاں سے روانہ ہوئے تو میرے دوست نے مجھ پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے
اجتماع کی دعوت پیش کی۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر ہاں کر دی۔ جب جمعرات آئی تو میں ان کا انتظار کرتا رہا مگر وہ شاید کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آسکے پھر جب اس سے اگلی جمعرات آئی تو وہ اسلامی بھائی میرے گھر تشریف لائے اور میرا ذہن بنا کر ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں ساتھ لے گئے۔ میں سنّتوں بھرے اجتماع میں پر سوز بیان اور ذکر سے بہت متأثر ہوا پھر جب رقت انگیز دعا شروع ہوئی تو رہی سہی کسر اس نے پوری کردی اور میرے دل کی دنیا کوزیر و زبر کردیا، میں نے سچے دل سے بد مذہبیت و معصیت سے توبہ کرلی اور دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو گیا۔ جب پہلی بار مجھے عاشقانِ رسول کے ہمراہ مدنی قافلے میں سفر کرنے کی سعادت ملی تو قافلے کی برکت سے میں نے عمامے کے تاج سے سر’’ سبز‘‘ کر لیا۔ جب میں اس حالت میں گھر پہنچا تو میرے والد غصّے سے آگ بگولا ہو گئے انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجھے مارنا شروع کر دیا بالآخر مجھے گھر سے نکال دیا۔ جب گھر واپسی کی کوئی سبیل نہ بنی تو جان بچانے کے لیے میں باب المدینہ (کراچی) جا پہنچا اور وہاں دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کی مدنی تربیت گاہ میں اپنا وقت سنّتوں کی تربیت حاصل کرنے میں بسر کرنے لگا۔ کچھ عرصے بعد میری امی جان نے مجھ سے بات کی اور مجھے بتایا کہ بیٹا آپ کے ابو کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا ہے
اب گھر آ جاؤ۔ میں امی جان کے فرمان پر گھر واپس چلا گیا۔ اب میں وقتاً فوقتاً اپنی امی جان پر انفرادی کوشش کرتارہتا اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ کچھ ہی عرصے میں امی جان دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ہو گئیں۔ تادمِ تحریر اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں علاقائی سطح پر مدنی انعامات کے ذمہ دار (نگران) کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
فرید ٹاؤن (پنجاب پاکستان) کے رہائشی اسلامی بھائی کے تحریری بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مدنی ماحول میں آنے سے پہلے بدقسمتی سے میں گناہوں کی اندھیری وادیوں میں بھٹک رہاتھا۔ دنیا کی رنگینیوں میں ایسا گُم تھا کہ نہ نمازوں کی کوئی فکر تھی اورنہ ہی سنّتوں پر عمل کا شعور۔ زندگی انہی پرپیچ اور تاریک راہوں میں بھٹکتے ہوئے گزر رہی تھی۔ میری قسمت کا ستارہ چمکنے کا سبب کچھ یوں ہوا کہ ایک دن میں نماز ادا کرنے مسجد گیا، جب اپنے رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوا تو مجھ پر رحمتوں کی برسات شروع ہو گئی، میرے دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی ، مجھے نہایت اطمینان
و سکون نصیب ہونے لگا۔ جب میں نے نماز مکمّل کی تو دیکھا کہ سنّتوں کی خدمت کے جذ بے سے سرشار سبز عمامے والے ایک اسلامی بھائی نے درس دینا شروع کیا ۔ میں بھی درس میں شریک ہو گیا، درس کے الفاظ تھے کہ رحمت کاپانی جو میرے دل پر جمی گناہوں کی کائی دور کرنے لگے، جس سے میرا دل نرم پڑگیا۔ درس کے بعد اس اسلامی بھائی نے محبت بھرے اندازمیں مجھ سے ملاقات کی اور انفرادی کوشش کرتے ہوئے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی ترغیب دلائی۔ ان کی محبت بھری دعوت کے سامنے میں انکار نہ کر سکا اور ہامی بھر لی۔ پھر جب سنّتوں بھرے اجتماع میں حاضر ہوا تو وہاں کا روحانی منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ ہر طرف سبز سبز عماموں کے تاج اور اسلامی بھائیوں کا ازدحام، سنّتوں کی بہاریں ، تلاوت قراٰن، ذکر وبیان، صلوٰۃوسلام غرض ایک پرکیف روح پرور سماں تھا۔ مجھے اس ماحول نے بہت متأثر کیا، میری آنکھوں سے غفلت کی پٹی کھل گئی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے میں بھی مدنی ماحول سے وابستہ ہو گیا۔ سر پر سبز عمامہ شریف، زُلفیں اور چہرے پر داڑھی شریف سجالی۔ یہ بیان دیتے وقت اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تیس دن کے مدنی قافلے کا مسافر ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
گولی مار(باب المدینہ کراچی) کے علاقے فردوس کالونی کے مقیم اسلامی بھائی نے اپنی داستانِ عشرت کے خاتمے کے احوال کچھ یوں تحریر کیے ہیں کہ میں ایک کلاسیکل گلوکار تھا، میوزیکل شوز اور فنکشنز میں گانے گاتا تھا۔ یونہی زندگی کے انمول ایام برباد ہوتے جا رہے تھے دل ودماغ پر غفلت کے کچھ ایسے پردے پڑے ہوئے تھے کہ نہ’’جنّت میں لے جانے والے اعمال‘‘کی فکراورنہ ہی ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال ‘‘سے بچنے کا ذہن تھا۔ اس عظیم لمحے پر لاکھوں سلام کہ جب مجھے سبز عمامہ شریف کا تاج سجائے، سفید مدنی لباس میں ملبوس ایک اسلامی بھائی ملے اور انہوں نے دلنشین انداز میں محبت اور پیار سے انفرادی کوشش کرتے ہوئے نیکی کی دعوت پیش کی اور ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی دعوت دی۔ میں ان کے حسنِ اخلاق سے پہلے ہی متأثر ہو چکا تھا لہٰذا میں نے ان کی دعوت قبول کر لی اور سنّتوں بھرے اجتماع میں حاضر ہو گیا۔ یہاں فیضانِ مدینہ کا روحانی سماں مجھے بہت اچھا لگا، ہر طرف سنّتوں کے پیکرمبلغین، حدِ نگاہ تک سبز عماموں کی بہاریں تھیں ان پر کیف مناظر نے میرا دل موہ لیا۔ اجتماع میں ہونے والی تلاوت، نعت، سنّتوں بھرے بیان اور ذکر و دعا نے میرے دل کی دنیا کو تہ وبالا کر دیا، میری زندگی
میں مدنی انقلاب برپا ہو گیا، میں نے سچے دل سے توبہ کرلی اور خود کو دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں رنگ لیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تقریباً ہر ماہ مدنی قافلے میں سفر کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
باب المدینہ (کراچی) کے علاقے رزاق آباد بن قاسم ٹاؤن کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے: شروع ہی سے میرا تعلق خوش عقیدہ سنی خاندان سے ہے مگر میری بدنصیبی کہ میں بدمذہبوں کی صحبت میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اُن کی تحریر وتقریر عشقِ مصطفی کی چاشنی سے ناآشنا تھی۔ اولیاء ُاللہ سے نسبت قائم کرنا، اُن کے نزدیک توحید کے مُنافی تھا۔ ایسے بد عقیدہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے میری آنکھوں پر بھی تعصب کی پٹی بندھی ہوئی تھی جو مجھے راہِ حق دیکھنے سے باز رکھے ہوئے تھی۔ اسی دوران ایک اسلامی بھائی سے میری راہ ورسم بڑھی تو میں نے ان کو بھی بدمذہبیت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے مجھے ان کے کفریہ وگمراہ کن عقائدکے بارے میں بتایا، حسبِ ضرورت کتابیں بھی دکھائیں۔ پھر انہوں نے محبت بھرے انداز میں ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں
شرکت کی دعوت دی تو میں انکار نہ کرسکا لہٰذا میں ان کے ساتھ اجتماع میں حاضر ہو گیا مگر میرا دل یہاں نہیں لگ رہا تھا یوں ہی وقت گزار کر لوٹ آیالیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور مجھے دوبارہ اجتماع میں ساتھ لے گئے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اب کی بار میری زندگی میں مدنی انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ میں یوں ہی باہر گھوم پھر رہا تھا کہ یک لخت رقت انگیز دعا کی پر سوز آواز میری سماعت سے ٹکرائی، میرا دل اسی جانب کھنچتا چلا گیا اور میں بھی دعا میں شریک ہو گیا۔ پھر کیا تھا رقت انگیز دعا کے جملے تاثیر کا تیر بن کر میرے دل میں پیوست ہو گئے۔ اب میری آنکھیں کھلیں کہ میں تو اپنی آخرت برباد کئے بیٹھا ہوں۔ میں نے بدمذہبیت سے توبہ کی، سر پر سبز سبز عمامے کا تاج سجا لیا اور داڑھی شریف کی نیت کر کے رفتہ رفتہ سنت کے مطابق ایک مشت داڑھی شریف سجانے میں کامیاب ہو گیا۔ تادمِ تحریر علاقائی مشاورت کے خادم (نگران) کی حیثیت سے مدنی کاموں میں مصروف عمل ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
مجلسِ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیّہ {دعوتِ اسلامی} شعبہ امیرِاہلسنّت
۵ شعبان المعظم۱۴۳۳ ھ بمطابق 26جون 2012ء
خربوزے کودیکھ کرخربوزہ رنگ پکڑتاہے،تِل کوگلاب کے پھول میں رکھ دو تو اُس کی صُحبت میں رَہ کرگلابی ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہو کر عاشقانِ رسول کی صُحبت میں رہنے والا بے وَقعت پتّھر بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم کی مہربانی سے انمول ہیرا بن جاتا، خوب جگمگاتا اور ایسی شان سے پَیکِ اَجَل کو لَبَّیْک کہتاہے کہ دیکھنے سننے والا اس پر رَشک کرتا اور ایسی ہی موت کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ آپ بھی تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔ اپنے شہر میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتماع میں شرکت اور راہِ خدا میں سفر کرنے والے عاشقانِ رسول کے مَدَنی قافلوں میں سفر کیجئے اور شیخِ طریقت امیرِاہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کے عطا کردہ مَدَنی انعامات پر عمل کیجئے، اِن شآء اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو دونوں جہاں کی ڈھیروں بھلائیاں نصیب ہونگی۔
مقبول جہاں بھرمیں ہودعوتِ اسلامی
صدْقہ تجھے اے ربِّ غفّارمدینے کا
جواسلامی بھائی فیضانِ سنّت یاامیرِاہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کے دیگرکُتُب و رسائل سن یاپڑھ کر،بیان کی کیسٹ سن کریاہفتہ وار،صوبائی وبَین الاقوامی اجتماعات میں شرکت یا مَدَنی قافِلوں میں سفریادعوتِ اسلامی کے کسی بھی مَدَنی کام میں شمولیت کی بَرَکت سے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوئے،زندگی میں مَدَنی انقلاب برپاہوا،نمازی بن گئے،داڑھی،عمامہ وغیرہ سج گیا ،آپ کو یا کسی عزیزکوحیرت انگیزطورپرصحت ملی،پریشانی دُورہوئی،یامرتے وقت کَلِمَۂ طَیِّبَہ نصیب ہوا یا اچھی حالت میں رُوح قبض ہوئی،مرحوم کواچھی حالت میں خواب میں دیکھا،بَشارت وغیرہ ہوئی یا تعویذاتِ عطاریہکے ذریعے آفات وبَلِیّات سے نَجات ملی ہوتوہاتھوں ہاتھ اس فارم کو پُر کر دیجئے اور ایک صفحے پَرواقعہ کی تفصیل لکھ کراس پتیپربھجواکراِحسان فرمائیے ’’مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیّۃ‘‘عالمی مَدَنی مرکز فیضان مدینہ ،محلہ سوداگران،پُرانی سبزی منڈی بابُ المدینہ کراچی۔‘‘
نام مع ولدیت:_________________عمْر___کِن سے مریدیاطالب ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔خط ملنے کاپتا______________________________
فون نمبر(مع کوڈ)________:ای میل ایڈریس ___________________
انقلابی کیسٹ یارسالہ کانام:__________سننے،پڑھنے یاواقعہ رونما ہونے کی تاریخ مہینہ/سال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے دن کے مدنی قافلے میں سفرکیا:___موجودہ تنظیمی ذمہ داری________ مُنْدَرجہ بالا ذرائع سے جوبَرَکتیں حاصل ہوئیں ،فُلاں فُلاں برائی چھوٹی وہ تفصیلاًاورپہلے کے عمل کی کیفیت(اگرعبرت کے لیے لکھناچاہیں )مثلاًفیشن پرستی،ڈکیتی وغیرہ اور امیرِاہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کی ذاتِ مبارَکہ سے ظاہرہونے والی بَرَکات وکرامات کے’’ایمان افروزواقعات‘‘مقام وتاریخ کے ساتھ ایک صفحے پرتفصیلاًتحریرفرمادیجئے۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ شیخِ طریقت،امیرِاہلسنّت حضرت علامہ مولاناابوبلال محمدالیاس عطّارقادِری رَضَوی دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ دورِحاضرکی وہ یگانۂ روزگار ہستی ہیں کہ جن سے شرفِ بیعت کی بَرَکت سے لاکھوں مسلمان گناہوں بھری زندگی سے تائب ہو کر اللہُرَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے اَحکام اوراُس کے پیارے حبیب ِلبیب صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم کی سُنَّتوں کے مُطابِق پُرسُکون زندگی بسرکررہے ہیں۔خیرخواہی ٔ مسلم کے مُقَدَّس جذبہ کے تحت ہمارا مَدَنی مشورہ ہے کہ اگرآپ ابھی تک کسی جامع شرائط پیرصاحب سے بَیْعت نہیں ہوئے تو شیخِ طریقت،امیرِاہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کے فُیُوض و بَرَکات سے مُسْتَفِیْدہونے کے لیے ان سے بَیْعت ہوجائیے۔اِن شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دُنیاو آخرت میں کامیابی وسرخروئی نصیب ہوگی۔
اگرآپ مُریدبنناچاہتے ہیں ،تواپنااورجن کومُریدیاطالب بنواناچاہتے ہیں ان کا نام نیچے ترتیب وارمع ولدیت وعمرلکھ کر’’مکتب مجلس مکتوبات وتعویذاتِ عطّارِیہ،عالمی مَدَنی مرکز فیضان مدینہ محلہ سوداگران پرانی سبزی منڈی باب المدینہ(کراچی)‘‘کے پتے پرروانہ فرما دیں ،تواِن شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بھی سلسلہ قادِریہ رَضویہ عطّاریہ میں داخل کر لیا جائے گا۔ (پتاانگریزی کے کیپٹل حروف میں لکھیں )
E.Mail : Attar@dawateislami.net
{۱}نام وپتابال پین سے اوربالکل صاف لکھیں ،غیرمشہورنام یاالفاظ پرلازماً اِعراب لگائیں۔ اگر تمام ناموں کیلئے ایک ہی پتاکافی ہوتودوسراپتالکھنے کی حاجت نہیں۔{۲}ایڈریس میں مَحرم یا سرپرست کانام ضرورلکھیں {۳}الگ الگ مکتوبات منگوانے کیلئے جوابی لفافے ساتھ ضرور اِرسال فرمائیں۔
مبرشمار |
نام |
مرد/ عورت |
بن / بنت |
باپ کانام |
عمر |
مکمل ایڈریس |
|
|
|
|
|
|
|
مَدَنی مشورہ :اس فارم کومحفوظ کرلیں اوراس کی مزیدکاپیاں کروالیں۔