یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ

 ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ حاضِر ہو جب تک اِذْن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لئے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو، ہاں! جب بلائے جاؤ تو حاضِر ہو اور جب

لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ-(پ۲۲، الاحزاب:۵۳)

 کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ، بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔

بابَرَکت حلوہ

اس موقعے پر سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ایک عظیم الشان معجزے کا ظُہُور بھی ہوا چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں کہ جب رحمتِ عالَم، شفیع مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمایا تو (والِدۂ ماجِدہ) حضرتِ اُمِّ سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے مجھ سے فرمایا: کاش! ہم حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کریں۔ میں نے عرض کی: ایسا ہی کیجئے۔ پس اُنہوں نے کھجوریں، گھی اور پنیر لیا اور انہیں ہانڈی میں ڈال کر حلوہ تیار کیا اور پھر اسے میرے ہاتھ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بھیج دیا۔ میں اسے لے کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضِر ہو گیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: اسے رکھ دو۔ پھر حکم دیتے ہوئے فرمایا: فلاں فلاں آدمیوں کو بلا لاؤ اور اِن کے عِلاوہ اور جتنے ملیں اُنہیں بھی۔ حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں: میں نے وہی کیا جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حکم فرمایا تھا، جب میں لوٹ کر واپس آیا تو اس وَقْت کاشانۂ اقدس آدمیوں سے کھچا کھچ بھرا


 

ہوا تھا۔ میں نے رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس حلوے پر اپنا دستِ اقدس رکھا اور جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے چاہا اس کے ساتھ کلام فرمایا۔ پھر آپ نے اس میں سے کھانے کے لئے دس دس آدمیوں کو بلایا اور اُن سے فرمایا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا نام لے کر کھاؤ اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے۔([1]) مسلم شریف کی رِوَایَت میں ہے، حضرتِ اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے سیر  ہو کر کھایا حتی کہ جب سب کھا چکے تو رسولِ اکرم، فخر بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: اے انس! اِسے اُٹھا لو۔جب میں نے اُٹھایا تو معلوم نہیں رکھتے وَقْت زیادہ تھا یا اُٹھاتے وَقْت۔([2])

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! ... پیاری پیاری اسلامی بہنو! اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس قدر کثیر معجزے عطا فرمائے تھے جو حَد وشمار سے باہَر ہیں، بلاشبہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سراپا معجزہ تھے کہ

؏دئیے معجزے انبیا کو خدا نے

ہمارا نبی معجزہ بن کے آیا

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ان لاتعداد معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ قلیل کھانا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دستِ پُرانوار اور دُعا سے اس قدر برکت والا ہو جاتا ہے کہ سینکڑوں ہزاروں افراد شکم سیر ہو کر کھاتے تب بھی ختم نہ ہوتا۔ بارہا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس معجزے کا ظُہُور


 

ہوا جن میں سے ایک واقعہ ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا ، آئیے! اس سے حاصِل ہونے والے چند مَدَنی پُھول بھی ملاحظہ کیجئے:

}معلوم ہوا کہ کسی تحفے کو حقیر اور چھوٹا سمجھتے ہوئے ردّ نہیں کرنا چاہئے بلکہ بھیجنے والے کے خُلُوص پر نظر کرتے ہوئے خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہئے کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی اَرْفَع و اعلیٰ شان کے باوجود غلاموں کے معمولی نذرانوں کو بھی ردّ نہ فرماتے تھے ایسی خوشی وشادمانی سے قبول فرماتے تھے کہ لانے والے کا دل باغ باغ ہو جاتا تھا۔

}یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے کو سامنے رکھ کر کچھ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ خود حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فعل مُبَارَک سے ثابت ہے، مُحَدِّثِ جلیل، حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ علامہ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْحَنَّان حدیث شریف کے اس حصّے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ خبر نہیں کہ کیا پڑھا، دُعَاءِ بَرَکت ہی فرمائی ہو گی۔ معلوم ہوا کہ کھانا سامنے رکھ کر دُعا کرنا، قرآنِ مجید پڑھنا جائز بلکہ سنّتِ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہے۔ فاتحہ میں یہ  ہی ہوتا ہے کہ  کھانا سامنے رکھ کر دُعا کرنا، قرآنِ مجید پڑھتے ہیں اور ایصالِ ثواب کی دُعا کرتے ہیں، حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قربانی کر کے جانور کو سامنے رکھ کر فرماتے تھے کہ مولیٰ! یہ میری اُمَّت کی طرف سے ہے اسے قبول فرما، یہ ہے ایصال ثواب۔([3])


 

}دو۲ مَدَنی پُھول یہ بھی حاصِل ہوئے کہ کھانا بِسْمِ اللّٰهِ  شریف پڑھ کے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہئے، بیچ سے یا دوسرے کے سامنے سے اٹھا کر نہ کھایا جائے۔

بےمِثَال نِکاح

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات والا تبار سے کس قدر والہانہ محبت اور عشق تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ اپنے نِکاح کی خبر سنتے ہی اپنا سارا زیور خوش خبری سنانے والی باندی کو دے دیا اور اس نعمت کے شکرانے میں دو۲ ماہ کے روزے بھی رکھے، اس بات کو سامنے رکھ کر اگر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی اُس ہچکچاہٹ اور تامّل (تَ-اَمْ-مُل) کو دیکھا جائے جو آپ نے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پیغامِ نِکاح سن کر کیا تھا تو پتا چلتا ہے کہ یہ ہچکچاہٹ اور تامّل ناپسندیدگی کی بِنا پر نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حُقُوق کی بجاآوری میں کوتاہی کا خوف تھا کہ کہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آنے کے بعد شب وروز آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رفاقت میں بسر کرتے ہوئے مجھ سے کوئی ایسا کلمہ نہ سرزد ہو جائے جو میرے ایمان کے خَرْمَن کو جَلا کر خاکستر (خَا-کِسْ-تَر۔ راکھ)کر دے تبھی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے بارگاہِ ربِّ ذُوْالْجلال میں سجدہ ریز ہو کر یہ دُعا مانگی تھی کہ باری تعالیٰ! اگر میں تیرے اَوْلیٰ و اَعْلیٰ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت کے لائق ہوں تَو تُو ان کے ساتھ میرا نِکاح فرما دے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی یہ


 

عاجزی اور بارگاہِ رِسالَت عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ بےمِثَال ادب خالِقِ کائنات عَزَّ وَجَلَّ کی پاک بارگاہ میں مقبول ہوا اور اُس خالِقِ بےنیاز عَزَّ وَجَلَّ نے اس مخلصانہ دُعا کو شرفِ قبولیت سے نواز کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو وہ بےپایاں اعزاز اور بےمثال فضیلت عطا فرمائی کہ اس پر جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے یہی وجہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اس پر فخر کرتے ہوئے اکثر وبیشتر فرمایا کرتی تھیں: میں رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دیگر ازواجِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی طرح نہیں ہوں کیونکہ ان کے نِکاح مہروں کے ساتھ ہوئے اور ان کے اَوْلِیَاء (یعنی باپ دادا وغیرہ) نے ان کے نِکاح کئے جبکہ میرا نِکاح خود ربّ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ فرمایا اور میرے بارے میں قرآنِ کریم کی آیات نازِل فرمائیں جنہیں مسلمان پڑھتے ہیں اور ان میں کسی قسم کی تغییر وتبدیل ممکن نہیں۔([4])

نِکاح میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خصوصیت

خیال رہے کہ نِکاح کی شرائط میں سے دو۲ مرد یا ایک مرد اور دو۲ عورتیں گواہ ہونا بھی ہے لیکن سیِّدُ الْاَنبیاء، محبوبِ کِبْرِیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے یہ شرط نہیں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نِکاح بغیر گواہوں کے ہی منعقد ہو جاتا ہے۔ امامُ الْحَرَمَیْن حضرتِ سیِّدُنا عبد الملک بن عبد الله  جُوَیْنی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


 

فرماتے ہیں: زیادہ صحیح یہ ہے کہ رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نِکاح بغیر گواہوں کے ہی مُنْعَقِد ہو جاتا ہے کیونکہ گواہ مقرر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نِکاح سے انکار نہ کیا جا سکے اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جانب سے ایسا ہونا ناممکن ومحال ہے، اگر اسے عورت کی طرف سے فرض کیا جائے تو یہ حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تکذیب ہو گی اور جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تکذیب کرے وہ کافِر ہے (لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نِکاح میں گواہوں کی شرط نہیں)۔([5])

ایک مذموم رسم کا خاتمہ

اس بابرکت نِکاح سے زمانۂ جاہلیت کی ایک مذموم رَسْم کا خاتمہ بھی ہو گیا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ دَورِ جاہلیت میں لوگ اپنے مُتَبَنّٰی (منہ بولے بیٹے) کو بھی صلبی و اصلی بیٹے کی طرح سمجھتے تھے اور اس کی مطلقہ (طلاق یافتہ) یا بیوہ سے نِکاح کو حرام جانتے تھے۔ مِرْاٰۃُ المناجیح میں ہے: ”حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)نے حضرتِ زید (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ) کو اپنا بیٹا بنایا تھا اور عَرَب میں دَسْتُور تھا کہ اپنے منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے، اسے میراث بھی ملتی تھی، اس کی بیوی کو اپنی بَہُو سمجھتے تھے، اپنی طرف اس کی نسبت کرتے تھے۔ اس قاعِدے سے لوگ حضرتِ زید (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ) کو زید بِن محمد کہتے تھے۔ جب حضرتِ


 

زید بن حارِثہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ) نے جنابِ زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو طلاق دی اور وہ حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نِکاح میں آئیں، تب لوگوں نے کہنا شروع کردیا ( کہ) حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی بَہُو سے نِکاح کرلیا۔“([6]) ان کے رَدّ میں اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے متعدد آیات نازِل فرمائیں، ایک مقام پر فرمایا:

فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآىٕهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًاؕ- (پ۲۲، الاحزاب:۳۷) ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو ہم نے وہ تمہارے نِکاح میں دے دی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لےپالکوں (منہ بولے بیٹوں) کی بیبیوں میں، جب ان سے ان کا کام خَتْم ہو جائے۔

بہرحال اس تمام تر تفصیل سے یہ مسئلہ مَعْلوم ہوگیا کہ لےپالک اور منہ بولے بیٹے کے وہ اَحکام نہیں ہوتے جو حقیقی بیٹے کے ہیں، جو لوگ یہ فرق ملحوظ نہیں رکھتے تھے ان کی اس غَلَط سوچ اور جاہلی رِوَاج کو داعِیِ اِسْلام،محبوبِ  رَبُّ الْاَنام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے عمل سے چیلنج کر کے اس کا خاتمہ فرمایا اور اُمَّت پر یہ واضح ہو گیا کہ حضرتِ زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو اگرچِہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کمالِ شفقت ومہربانی سے اپنا بیٹا کہہ کر یاد فرمایا ہے لیکن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے لئے وہ اَحْکام نہیں جو حقیقی بیٹے


 

کے لئے ہوتے۔([7])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                    صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حسین ترین لمحات

کاشانۂ نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں آنے کے بعد اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے زندگی کے حسین ترین لمحات کا آغاز کیا اور شب وروز مدینے کے چاند صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے انوار سے فیض پا کر دل میں عشق مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شمع کو مزید روشن اور چمک دار بنانے لگیں، آفتابِ رسالت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت محبت فرماتےتھے چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرتِ زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت پسند فرماتے تھے اور کثرت سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا ذِکْر فرمایا کرتے تھے۔([8])


 

واقعۂ اِفک میں سیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا مؤقف

شعبان المعظم، پانچ۵ ہجری جبکہ حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آئے ابھی تقریباً نو۹ یا دس ماہ ہی ہوئے تھے([9]) کہ بعض بدباطن لوگوں نے سرکارِ ذی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سب سے محبوب زوجۂ مطہرہ حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا پر انتہائی گِھناؤنی تہمت لگائی اور وہ بازارِ بدتمیز بپا کیا کہ دِل دَہْل کر رہ جائیں، مُنَافقین کا سردار عبد الله  بن اُبَیّ بن سَلُول خاص طور پر اس تہمت میں پیش پیش رہا اس کے پاس تہمت سے متعلق باتیں کی  جاتیں اور پھر انہیں پھیلایا جاتا جس سے بعض بھولے بھالے مخلص مسلمان بھی ان سیاہ باطنوں کے دامِ فریب میں پھنس کر تہمت میں شریک ہو گئے لیکن پھر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پاک دامنی کے بیان میں قرآنِ کریم کی 18 آیات نازِل فرمائیں جس سے منافقین کی اس سازِش کا قلع قمع ہو گیا، ان کے دامِ فریب میں پھنسے ہوئے بھولے بھالے مسلمان تائب ہو کر سچے دل سے بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں رُجُوع لائے اور اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو وہ عظیم مرتبہ عطا ہوا کہ اب جو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پاک دامنی وعِفَّت مآبی میں ذرہ بھر بھی شک کرے دائرہ اسلام سے خارِج ہو کر کفر کے تاریک گڑھے میں جا پڑے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بَرَاءَت نازِل ہونے سے


 

 پہلے جب سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے بارے میں حضرتِ زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی رائے دریافت فرمائی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں دیکھے اور سنے بغیر کوئی بات کہنے (یعنی جھوٹ بولنے) سے اپنے کانوں اور آنکھوں کی حِفاظَت کرتی ہوں، وَاللہِ مَا عَلِمْتُ اِلَّا خَیْرًا خدائے ذُوْلْجلال کی قسم! میں ان میں سراسر بھلائی ہی دیکھتی ہوں۔([10])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                    صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تَعَارُفِ سیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

پیاری پیاری اسلامی بہنو! آپ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پاکیزہ حیات کے چند انمول لمحات ملاحظہ کئے کہ کس طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم کے آگے اپنا سر خم کر دیا اور حضرتِ سیِّدُنا زید بن حارِثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے نِکاح کر لیا لیکن جب یہ شادی نبھائی نہ جا سکی اور بالآخر حضرتِ سیِّدُنا زید بن حارِثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو طلاق دے کر رشتۂ اِزْدِواج سے آزاد کر دیا تو پھر بمُطابِقِ رِضائے الٰہی رسولِ رحمت، شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو شرفِ زوجیت سے نوازا اور اس طرح سرکارِ


 

اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتۂ اِزْدِوَاج میں منسلک ہونے کی وجہ سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ”اُمُّ المؤمنین“ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئیں۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا پر کروڑوں رحمتوں اور بَرَکتوں کا نُزُول ہو اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے صدقے ہمارے گناہوں کی بخشش ہو۔ اب آئیے! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نام ونسب اور خاندان کے بارے میں بھی چند ضروری باتیں ملاحظہ فرمائیے، چنانچہ

نام ونسب

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نام بَرَّہ تھا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تبدیل فرما کر زینب رکھا۔([11])  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد کا نام جحش اور والِدہ کا نام اُمَیْمَہ ہے جو سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پھوپھی ہیں۔([12]) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب اس طرح ہے: ”زينب بنتِ جَحْش بن رِيَاب بن يَعْمَر بن صبِرة بن مُرَّة بن كبير بن غَنْم بن دُوْدَان بن اسد بن خُزَيمة([13])

رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کا اِتِّصَال

حضرتِ خُزَیْمَہ میں جا کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ حضرتِ خُزَیْمَہ،


 

رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے 15ویں دادا جان ہیں اور والِدہ کی طرف سے دوسری پشت میں ہی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی والِدہ اُمَیْمَہ، حضرتِ عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی بیٹی اور حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پھوپھی ہیں۔

کنیت والقاب

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی کنیت اُمِّ حَکَم ہے، سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اَوَّاھَہ کے لقب سے نوازا ہے چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا عبد الله  بن شدّاد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے رِوایَت ہے کہ رحمتِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ عُمَر بن خطّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے ارشاد فرمایا: ”اِنَّ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ لَاَوَّاھَۃٌ زینب بنتِ جحش اَوَّاھَہ ہے۔“ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اَوَّاھَہ سے کیا مُراد ہے؟ اِرْشاد فرمایا: ”اَلْمُتَخَشِّعُ الْمُتَضَرِّعُ خُشُوع کرنے والی اور خُدا کے حُضُور گڑگڑانے والی۔([14])

مروی احادیث کی تعداد

احادیث کی مُرَوَّجہ کُتُب میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے مروی احادیث کی تعداد 11 ہے جن میں سے دو۲ مُتَّفَقٌ عَلَیْه (یعنی بخاری و مسلم دونوں میں) اور بقیہ نو۹ 


 

دیگر کِتابوں میں ہیں۔([15])

چند اَفْرادِ خانہ کا تَذْکِرَہ

خَلْقِی وخُلْقِی اَوْصافِ حمیدہ (یعنی حسن صورت وحسن سیرت) کے ساتھ ساتھ خاندانی عظمت وشرافت سے بھی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو خوب نوازا تھا کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی والِدہ اُمَیْمَہ بنتِ عَبْدُ الْمُطَّلِب، رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پھوپھی ہیں، اس لحاظ سے آپ، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پھوپھی زاد بھی ہوئیں، نیز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے  خاندان کے کئی افراد اسلام کے نور میں نہا کر آسمانِ ہِدایَت کے روشن ستارے بن کر ابھرے جن میں سے چند کا یہاں ذِکْر کیا جاتا ہے، چنانچہ

٭حضرتِ عبد الله  بن جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھائی ہیں، حُضُورِ اقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دارِ ارقم میں داخِل ہونے سے پہلے مُشَرَّف بہ اسلام ہو چکے تھے، حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں نیز ہجرتِ مدینہ میں شریک رہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں ایک لشکر پر امیر بنا کر بھیجا تھا اور یہ پہلے شخص ہیں جنہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے امیرِ لشکر بنایا، غزوۂ بدر و اُحُد میں بھی شریک ہوئے اور اُحُد میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔([16])


 

٭حضرتِ ابو احمد بن جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ بھی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھائی ہیں، حبشہ اور مدینہ کی ہجرتوں میں اپنے بھائی حضرتِ عبد الله  بن جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے ہمراہ تھے، شاعِر اور اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں سے ہیں، مروی ہے کہ آپ نابینا تھے مگر بغیر کسی قائد (رَہْ نُما) کے مکہ کی اونچی نیچی جگہوں میں گُھوم پِھر لیا کرتے تھے۔([17])

٭حضرتِ حمنہ بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بہن ہیں، جلیل القدر صحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا مُصْعَب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے نِکاح میں تھیں، اِنہوں نے غزوۂ اُحُد میں جامِ شہادت نوش فرمایا پھر عشرۂ مبشرہ میں سے ایک جلیل القدر صحابِیِ رسول حضرتِ طلحہ بن عُبَیْدُ الله  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ سے نِکاح کیا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بطن سے حضرتِ سیِّدُنا طلحہ بن عُبَیْدُ الله  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے دو۲ بیٹے محمد اور عمران پیدا ہوئے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا حمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا خود بھی غزوۂ اُحُد میں شریک ہوئیں اور پیاسوں کو پانی پِلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کی خدمات سرانجام دیں۔([18])


 

٭حضرتِ اُمِّ حبیبہ بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بہن ہیں۔ حضرتِ سیِّدُنا امام زُہْرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی رِوَایَت کے مُطَابِق آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، عشرۂ مبشرہ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبد الرّحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے نِکاح میں تھیں۔([19])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                      صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 مُتَفَرِّق فضائل و مَنَاقِب

دنیا سے بے رغبتی اور بےمِثَال سخاوت

پیاری پیاری اسلامی بہنو! یوں تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے بہت سے اعلیٰ اَوْصَاف عطا فرمائے تھے لیکن ان میں سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا وہ وَصْف جو بہت ہی نمایاں تھا وہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی دنیا سے بےرغبتی اور بےمثال سخاوت ہے۔ دنیا کی عارِضی آسائشیں اور اس کی زیب وزینت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی نظر میں کچھ وقعت (عزت) نہ رکھتی تھیں اس لئے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اس فانی دنیا میں دل لگانے کے بجائے ہمیشہ اور ہر وَقْت آخرت میں بلند وبالا مرتبوں کے حُصُول کے لئے کوشاں رہتی تھیں چنانچہ حضرتِ سیِّدَتُنا بَرْزَہ بنتِ رافِع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے


 

رِوَایَت ہے کہ ایک دفعہ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی طرف کوئی عطیہ بھیجا، جب وہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس پہنچا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے فرمایا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ، عُمَر کی بخشش فرمائے، میری دوسری بہنیں اس کی مجھ سے زیادہ حق دار ہیں۔ لوگوں نے عرض کی: یہ سب آپ ہی کا ہے۔ اس پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے سُبْحٰنَ اللہِ کہا اور اس سے پَردہ کر لیا اور کہا: اس پر کپڑا ڈال دو۔ پھر حضرتِ برزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے کہنے لگیں کہ اس  میں سے مٹھیاں بھر بھر کر بنوفلاں اور بنو فلاں کے پاس لے جاؤ، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے قریبی رشتے دار اور کچھ یتیم بچے تھے۔ (حضرت برزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اسے تقسیم کرتی رہیں) حتی کہ جب عطیے کا تھوڑا سا مال باقی رہ گیا تو عرض کیا: اے اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا! بخدا، اس میں ہمارا بھی حق ہے۔ فرمایا: جو کچھ کپڑے کے نیچے بچا ہے تمہارا ہے، پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنے دستِ مُبَارَک آسمان کی طرف اٹھا دئیے اور عرض کی: مولیٰ! آیندہ سال عمر کا کوئی ہدیہ مجھ تک نہ پہنچے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی دُعا کو قبول فرمایا اور پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہو گیا۔([20])

دست کاری کر کے صدقہ

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سخاوت سے


 

متعلق ایک یہ بات بہت مشہور ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا دست کاری (ہاتھ سے کام) کرتی تھیں اور پھر راہِ خدا میں صدقہ كر دیتیں چنانچہ روایت ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا دست کاری کرنے والی خاتون تھیں، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کھالیں دباغ كر انہیں سلائی کرتیں اور پھر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی راہ میں صدقہ کر دیتیں۔([21])

مقام ومرتبہ

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بعد بارگاہِ رسالت عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں ایک خاص مقام حاصِل تھا حتی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سب سے محبوب زوجہ حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں مقام ومرتبے کے اعتبار سے یہ میرے برابر تھیں۔ اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چند اعلیٰ اَوْصاف کا تذکِرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں: میں نے ان سے بڑھ کر دین دار، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  سے ڈرنے والی، حق بات کہنے والی، صلہ رحمی کرنے والی اور صدقہ وخیرات کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔([22])

حضرتِ سيِّدَتُنا زينب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے وفات پانے کے بعد ایک بار حضرتِ سیِّدُنا عُرْوَہ بن زُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے عرض کیا: خالہ جان! رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی


 

اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کون سی زوجہ مطہرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا زیادہ محبوب تھیں؟ فرمایا: میں اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی، ہاں! زینب بنتِ جحش اور اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں خاص مقام حاصل تھا اور میرا خیال ہے کہ میرے بعد یہ دونوں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔([23])

پابندیٔ شریعت

شریعت نے میت پر تین۳ دن تک سوگ کرنے کی اجازت دی ہے، کوئی چاہے کیسی ہی بزرگ ہستی کیوں نہ ہو تین۳ دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں، ہاں! بیوی کو خاوند کی وفات پر چار۴ ماہ اور دس دن تک سوگ کرنا واجِب ہے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی جائز نہیں۔ اُمَّتِ مسلمہ کا سب سے پہلا گروہ جو کہ صحابہ وصحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمْ اَجْمَعِیْن پر مشتمل تھا، انہوں نے دیگر احکامِ شرعیہ کی طرح اس حکم شرعی پر بھی عمل کر کے قابل تقلید نمونہ پیش کیا ہے، آئیے! اس سلسلے میں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا عمل ملاحظہ کیجئے، چنانچہ رِوایَت ہے کہ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھائی کا انتقال ہوا تو (غَالِباً تین۳ دن کے بعد) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خوشبو منگوا کر لگائی اور فرمایا: خدائے ذُوْالْجلال کی قسم! مجھے خوشبو کی کوئی حاجت نہیں، مگر میں نے اپنے


 

سرتاج، صاحبِ مِعْراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ”لَایَحِلُّ لِاِمْرَاَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ اِلَّا عَلٰی زَوْجٍ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّعَشْرًا یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین۳ دن سے زیادہ سوگ کرے مگر خاوند کا سوگ چار۴ ماہ اور دس دن ہے۔“([24])

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! کیسا جذبہ اور احکامِ شرع پر عمل کا کس قدر شوق ہے، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ان کے صدقے ہمیں بھی شریعت کی پابندی اور سنّتوں سے محبت وعشق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی

پاکیزہ حَیَات کے چند نُمایاں پَہْلو

}آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا حُضُور سیِّد المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجۂ مطہرہ اور اُمُّ المؤمنین (تمام مؤمنوں کی امی جان) ہیں۔

}رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح خود ربّ تعالیٰ نے فرمایا اور حضرتِ سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس نِکاح کے گواہ ہیں۔

}جب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی


 

 عَنۡہَا سے نِکاح کے بعد ولیمہ فرمایا تو اس موقعے پر آیتِ حجاب نازِل ہوئی جس سے غیر محرم عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ فرض ہو گیا۔

}آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نانا جان اور رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دادا جان ایک ہی شخص حضرتِ سیِّدُنا عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ ہیں۔

}آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں سے ہیں۔([25])

}آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں اور ان کے بعد ہجرتِ مدینہ میں بھی شرکت فرمائی۔([26])

}رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے ظاہِری پردہ فرمانے کے بعد ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ میں سے سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہوا۔([27])

سفرِ آخِرَت

رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیشین گوئی

پیاری پیاری اسلامی بہنو! انسانی فطرت ہے کہ انسان ہر تکلیف دہ چیز کو ناپسند کرتا اور اس سے دُور بھاگتا ہے لیکن جب کوئی تکلیف محبوب کا قرب پانے اور اس


 

سے ملاقات کا ذریعہ ہو تو پھر یہ دُکھ نہیں بلکہ کیف وسُرور دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ موت کے نہایت تکلیف دہ شے ہونے کے باوجود اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے برگزیدہ بندوں کو اس کا شدت سے انتظار رہتا تھا کیونکہ دنیا ان کے لئے قید خانہ اور موت اس قید سے رہائی کا پروانہ ہوا کرتی ہے نیز یہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے وِصال (ملاقات) کا ذریعہ بھی ہے، اسی لئے رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس دنیا سے پردۂ ظاہِری فرما جانے کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواجِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کو شدت سے اس کا انتطار رہا اور یہ جاننے کے لئے کہ کون آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ سب سے جلد ملیں گی، وہ اپنے ہاتھوں کو آپس میں ناپا کرتی تھی کیونکہ انہیں ان کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ غیبی خبر دی تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ سب سے پہلے وہ زوجہ مطہرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ملیں گی جن کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں چنانچہ ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ نے اس فرمانِ عالی کا ظاہِری معنیٰ مراد لے کر اپنے ہاتھوں کو ناپنا شروع کر دیا لیکن جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب سے پہلے حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہوا تب انہیں معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مراد زیادہ صدقہ کرنا تھی جیساکہ بخاری شریف میں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے رِوایت ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کسی زوجہ مطہرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی


 

: ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ملے گی؟ فرمایا: جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔ انہوں نے چھڑی لے کر ہاتھوں کو ناپا تو حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ہاتھ سب سے لمبے نکلے لیکن بعد میں ہم نے جانا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد زیادہ صدقہ دینا تھا اور ہم میں سب سے پہلے وہی (حضرتِ زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ملیں۔([28])

انتقالِ پُرملال

رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پردۂ ظاہِری فرمانے کے تقریباً 10سال بعد 20ھ کو زمانۂ خلافتِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پیکِ اجل کو لبیک کہا اور اس دارِ ناپائیدار سے رخصت ہو کر اپنے آخرت کے سفر کا آغاز فرمایا۔ انتقال سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے چند وصیتیں کیں، فرمایا: میں نے اپنا کفن تیار کر رکھا ہے، ہو سکتا ہے کہ حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ بھی کفن بھیجیں اگر وہ بھیجیں تو کسی ایک کو صدقہ کر دینا اور مجھے قبر میں اتارنے کے بعد اگر میرا پٹکا بھی صدقہ کر سکو تو کر دینا۔  مزید فرمایا کہ مجھے رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی چارپائی پر اٹھایا جائے اور اس پر نَعْش([29]) بنائی جائے۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہو گیا تو امیر المؤمنین


 

حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے خزانے میں سے کفن کے لئے کپڑے بھیجے انہیں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو کفن دیا گیا اور جو کفن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خود تیار کر رکھا تھا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بہن حضرتِ سیِّدَتُنا حمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حسبِ وصیت اسے صدقہ کر دیا۔([30])

قبر پر نصب ہونے والا پہلا خیمہ

جس دن اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہوا تھا وہ شدید گرمی کا دِن تھا اس لئے پہلی مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی تُرْبَت مُبَارَک پر خیمہ لگایا گیا چنانچہ رِوَایَت میں ہے کہ جب حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ قبر بنانے والوں کے پاس سے گزرے جو سخت گرم دِن میں حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے لئے قبر بنا رہے تھے تو فرمانے لگے کہ مجھے ان پر خیمہ لگا دینا چاہئے۔ یہ پہلا خیمہ تھا جو جَنَّتُ الْبَقِیْع میں کسی قبر پر لگایا گیا۔([31])

حضرتِ ابواحمد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی عقیدت ومحبت

جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا جنازہ لے جایا گیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھائی حضرتِ سیِّدنا ابواحمد بن جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے بھی چارپائی کو اُٹھا رکھا تھا اور


 

روتے جا رہے تھے، یہ نابینا تھے، حضرتِ سیِّدُنا عُمَر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے ان سے فرمایا: اے ابواحمد! آپ چارپائی سے دُور ہو جائیے تاکہ چارپائی پر لوگوں کی بھیڑ آپ کو مشقت میں نہ ڈالے۔ حضرتِ ابواحمد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے فرمایا: ”یَاعُمَرُ! ھٰذِہِ الَّتِیْ نِلْنَا بِھَا کُلَّ خَیْرٍ وَّاِنَّ ھٰذَا یُبَرِّدُ حَرَّ مَا اَجِدُ اے عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ! یہ وہ ہیں کہ ہمیں ہر بھلائی انہیں کے وسیلے سے ملی ہے اور ان کے جنازے کی چارپائی کو اُٹھا کر چلنا اس دُکھ کی گرمی کو ٹھنڈا کر دے گا جو میں ان کی جدائی کی وجہ سے محسوس کرتا ہوں۔“ ایک بھائی کے اپنی بہن کے ساتھ یہ پیار ومحبت اور عقیدت بھرے جذبات دیکھ کر حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے فرمایا: پکڑے رکھو، پکڑے رکھو۔([32])

نمازِ جنازہ اور تدفین

حضرتِ سیِّدُنا عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور چار۴ تکبیریں کہیں، پھر جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو تدفین کے لئے قبر کے پاس لایا گیا تو حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر پہلے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: جب یہ پاک بی بی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بیمار ہوئیں تو میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دیگر ازواجِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کے پاس ایک قاصِد کو یہ پوچھنے کے لئے  بھیجا کہ ان کی تیمارداری اور دیکھ بھال کون کرے گا؟ اُمَّہَاتُ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی


 

عَنۡہُنَّ نے فرمایا: ہم کریں گی۔ اور میں نے جان لیا کہ انہوں نے سچ کہا ہے۔ پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو میں نے قاصِد کو پوچھنے کے لئے بھیجا کہ کون انہیں غسل دے کر خوشبو لگائے گا اور کفن پہنائے گا؟ اُمَّہَاتُ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ نے کہلا بھیجا کہ یہ سب کام ہم کریں گی۔ اور میں نے جان لیا کہ انہوں نے سچ کہا ہے۔ پھر میں نے ان کی طرف قاصِد کو بھیجا کہ کون ان کی قبر میں اتر سکتا ہے؟ اُمَّہَاتُ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ نے فرمایا: جسے ان کی حیاتِ ظاہِری میں ان کے پاس آنا جائز تھا۔ میں نے جان لیا کہ انہوں نے سچ فرمایا ہے لہٰذا اے لوگو! تم الگ ہو جاؤ۔ پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے لوگوں کو ان کی قبر مبارک کے قریب سے ہٹا دیا۔([33])

تدفین کے وَقْت حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دیگر اکابر صحابۂ کِرَام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی قبر مبارک کے پاؤں کی طرف کھڑے ہوئے تھے اور حضرتِ ابواحمد بن جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ قبر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر حضرتِ عمر بن محمد بن عبد الله  بن جحش (اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھتیجے)، حضرتِ اُسَامہ (سوتیلے بیٹے)، حضرتِ عبد الله  بن ابواحمد بن جحش (بھتیجے)، حضرتِ محمد بن طلحہ بن عُبَیْدُ الله  (بھانجے) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم نے قبر میں اتر کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو قبر میں اتارا۔([34])


 

مالِ وراثت

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے وراثت میں کوئی مال نہیں چھوڑا صرف ایک گھر تھا جسے بعد میں وُرَثَاء نے ولید بن عبد الملک کے ہاتھ فروخت کر دیا چنانچہ حضرتِ عثمان بن عبد الله  جحشی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنت جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ترکے میں کوئی درہم ودینار نہیں چھوڑا، ان سے جتنا ہو سکتا صدقہ کر دیا کرتی تھیں آپ مسکینوں کی پناہ گاہ تھیں۔ ترکے میں آپ نے اپنا گھر چھوڑا جب ولید بن عبد الملک نے مسجد نبوی شریف کو شہید کر کے وسیع کیا تو آپ کے وُرَثَاء نے پچاس ہزار دِرْہَم کے بدلے وہ گھر اس کے ہاتھ بیچ دیا۔([35])

سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی افسردگی

جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وفات ہوئی تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اس موقعے پر افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ایک قابلِ تعریف اور فقید المثال خاتون چل بسی جو یتیموں اور بیواؤں کی پناہ گاہ تھیں۔ نیز حضرت سيِّدنا عُروہ بن زُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے روایت ہے کہ جب اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہوا تو اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا انہیں یاد کر کے رو رہی تھیں اور ان کے لئے دُعائے رحمت کر رہی تھیں، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے اس


 

بارے میں کچھ کہا گیا تو فرمایا: زینب نیک خاتون تھیں۔([36])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پیاری پیاری اسلامی بہنو! رسولِ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواجِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی پاکیزہ حیات ہمیں زندگی گزارنے کے لئے بہترین راہِ عمل فراہم کرتی ہے، ہمیں ان کی پاکیزہ سیرت وکردار کے سانچے میں ڈھل کر زندگی گُزارنی چاہئے، دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول یہی سوچ وفِکْر دیتا ہے اور  اس کی یہی کوشش ہیں کہ مسلمان اپنے اسلافِ کِرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی راہ پر چلیں اور ان کے طریقے کو اپنا حرزِ جاں بنا کر دنیا وآخرت میں سرخروئی حاصل کریں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ  وَجَلَّ! بےشمار اسلامی بہنیں اس مَدَنی ماحول کے ساتھ منسلک ہو کر اس مَدَنی مقصد کے حُصُول کے لئے کوشاں ہیں اور اسلافِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی سیرت کے خوشنما پھولوں سے خوشبو پا کر اپنی زندگیوں کو خوشبودار بنا رہی ہیں، آئیے! ایک ایسی ہی اسلامی بہن کی مَدَنی بہار مُلَاحظہ کیجئے، چنانچہ

صلٰوۃ و سَلام کی عاشِقہ

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 32 صَفْحات پر مشتمل رِسالے ”صلوٰۃ وسلام کی عاشقہ“ صفحہ ایک پر ہے: باب المدینہ(کراچی) کے علاقہ رنچھوڑ لائن کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا خُلاصہ ہے کہ میری حقیقی بہن (عمر تقریباً 22سال) نے غالِباً 1994ء میں شیخ طریقت، امیر اہلسنّت، بانِیِ


 

دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادِری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے بیعت ہوکر عطّاریہ بننے کا شرف حاصِل کیا، اس عطّاری نسبت کی برکت سے ان کی زندگی میں مَدَنی اِنْقِلاب برپا ہوگیا، پنج وقتہ نماز پابندی سے پڑھنے لگیں اور جب یہ پتا چلاکہ میرے پیر ومُرْشِد امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ T.V کو سخت ناپسند فرماتے ہیں تو اسی دن سے میری بہن شبانہ عطّاریہ نے T.V دیکھنا چھوڑ دیا، گھر کے افراد T.V  چلاتے تو یہ دوسرے کمرے میں چلی جاتیں ۔

1995 ء میں ان کی طبیعت خراب ہوئی، عِلاج کروایا مگر دن بدن حالت بگڑتی چلی گئی حتی کہ اس قد رکمزور ہوگئیں کہ بغیر سہارے کے بیٹھ بھی نہیں سکتی تھیں۔ وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کی برکت سے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کثرت سے دُرُود وسلام پڑھا کرتیں۔ جمعہ کے دن جب عاشقانِ رسول کی مَسَاجِد سے بعدِ نمازِ جمعہ پڑھے جانے والے صلوٰۃ وسلام ...

؏مصطفےٰ جانِ رَحمت پہ لاکھوں سلام

شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

 کی مَدھ بھری صدائیں ان کے کانوں تک پہنچتیں توان پر سُرور کی کیفیت طاری ہوجاتی۔وہ شدید تکلیف و کمزوری کے باوجود کھڑکی کا سہارا لے کرپردے کی احتیاط کے ساتھ اَدَباً کھڑی ہوجاتیں اور صلوٰۃ وسلام کی صداؤں میں گم ہو جاتیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جار ی ہو جاتے حتی کہ بارہا روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں اور جب تک مختلف مَسَاجِد سے  صلوٰۃ وسلام  کی آوازیں آنا بند نہ


 

ہوتیں وہ اسی طرح ذوق و شوق اور رِقّت کے ساتھ صلوٰۃ وسلام  میں حاضِر رہتیں۔ گھر والے ترس کھا کر بیٹھنے کا مشورہ دیتے تو روتے ہوئے انہیں منع کردیتیں۔ ان کی زبان پروقتاً فوقتاً  بِسْمِ اللہِ ،کلمہ طیبہ اور دُرُودِ پاک کا وِرْد جاری رہتا۔

15 رَمَضانُ المبارَک 1415ھ کو اُنہوں نے بڑی بہن سے پانی مانگا،پانی پینے سے قبل دوپٹا سر پر رکھا،  بِسْمِ اللہِ شریف پڑھی اور پھر پانی پی کر ایک دم لیٹ گئیں۔  بہن نے سنبھالنے کی کوشش کی تودیکھا کہ اُن کی رُوْح قَفَسِ عُنْصُرِی سے پروا ز کرچکی تھی۔ عرصہ دراز تک بیمار رہنے کے باعث میری بہن سُوکھ کر کانٹا بن چکی تھی۔ چہرے کی ہڈیاں نکل آئی تھیں، پھنسیاں بھی ہو گئیں تھیں اور رنگت سِیَاہی مائل ہوچکی تھی مگر جب انہیں بعدِ وفات غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو ہم نے دیکھا کہ حیرت انگیز طور پر میری بہن کاچہر ہ پُرگوشت اور روشن ہو گیا اور چہرے کی تمام پھنسیاں بھی حیرت انگیز طور پر صاف ہو چکی تھیں۔

٭٭٭٭٭٭

عاجزی اختیار کرنے کی فضیلت

فرمانِِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔ [المعجم الاوسط، ۳/۳۸۲، الحديث:۴۸۹۴]


 

سیرتِ حضرت جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا 

نورانی چہرے والا شخص

امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عَلِیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْـکَرِیْم سے رِوایَت ہے کہ جس شخص نے روزِ جمعہ نبی اکرم، شفیع معظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر 100 مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر نوروں میں سے ایک نور ہو گا جسے دیکھ کر لوگ حیرت سے کہیں گے: یہ کیا عمل کرتا تھا (جس کی وجہ سے اس کا چہرہ اس قدر پُرنور ہے)؟ ([37])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مسلمانوں کے اپنے پیارے وطن مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا سے ہجرت کر آنے کے بعد بھی ظالم وفتنہ پرداز کفار اور  مُشْرِکِین چَین سے نہ بیٹھے بلکہ اس کے بعد تو وہ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہو گئے جس کے نتیجے میں اِسْلام وکفر کے درمیان کئی فیصلہ کن جنگیں ہوئیں اور سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بنفس نفیس ان میں شرکت فرما کر اسلام کے پرچم کو بلند فرمایا۔ خیال رہے کہ وہ جنگ جس میں خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی شریک ہوں، غزوہ کہلاتی ہے۔ ان غزوات میں سے ایك غزوۂ بنی مُصْطَلق بھی ہے اور اسے غزوۂ مُرَیْسِیع (مُ-رَیْ-سِیْ-عْ) بھی کہا جاتا ہے۔


 

غزوۂ مُرَیْسِیْع

مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْمًا سے تقریباً آٹھ۸ منزل کے فاصلے پر ایک کنواں ہے، جسے مُرَیْسِیع کہا جاتا ہے۔([38]) چونکہ قبیلہ بنی مصطلق کے ساتھ یہ غزوہ اسی مقام پر ہوا تھا اسی لئے اسے غزوۂ مُرَیْسِیع بھی کہا جاتا ہے۔

غزوۂ مریسیع کا پس منظر

قبیلہ بنی مصطلق کے ساتھ یہ کارزار (جنگ) برپا ہونے کاسبب یہ بات تھی کہ رسولِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خبر پہنچی کہ قبیلہ بنی مُصْطَلق کے سردار حارِث بن ابوضِرَار نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ جنگ کے لئے اپنی قوم اور دیگر اہل عرب میں سے حتی المقدور افراد کو جمع کر لیا ہے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خبر کی تصدیق اور حالات معلوم کرنے کی غرض سے حضرتِ بُرَیْدَہ بِن حُصَیْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو بھیجا۔ چلتے وَقْت حضرتِ بُرَیْدَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بوقتِ ضرورت ایسی بات کہنے کی اجازت طلب کی جو واقِع کے خِلاف ہو تاکہ پکڑے جانے کی صورت میں خِلافِ واقِع بات کر کے کافِروں کے شر سے چھٹکارا پا سکیں، رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اجازت عطا فرما دی چنانچہ پھر یہ سفر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔


 

سیِّدُنا بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ قبیلہ بنی مصطلق میں...

چلتے چلتے جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ قبیلہ بنی مُصْطَلق میں پہنچے تو وہاں ایک لشکر دیکھا۔ بنی مصطلق کے لوگوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو دیکھ کر پوچھا: کون ہو؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے جواب دیا: تم ہی میں سے ہوں، جب مجھے مُحَمَّد بن عبد الله  (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے خِلاف تمہاری لشکر کشی کی خبر پہنچی تو میں چلا آیا۔ میں اپنی قوم اور ان لوگوں میں جا کر پِھروں گا جو میری بات مانتے ہیں اس طرح ہم سب یک جان ہو کر اُنہیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے۔ حضرتِ سیِّدُنا بُرَیْدَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی بات سن کر خاندانِ بنی مصطلق کا سردار حارِث بن ابو ضِرَار کہنے لگا: ہم بھی یہی چاہتے ہیں، لہٰذا اس کام میں دیر مت کرو۔ حضرتِ سیِّدُنا بُرَیْدَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے کہا: میں ابھی جا کر اپنی قوم کا ایک بڑا لشکر تمہارے پاس لے آتا ہوں۔ اس پر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔

رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اِطِّلاع

پھر حضرتِ سیِّدُنا بُرَیْدَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ واپس آئے اور سلطانِ  مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اُن کے ناپاک ارادوں کے بارے میں بتایا جسے سن کر پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لوگوں کو جنگ کے لئے بلایا تو یہ شمع رسالت کے پروانے جو ہر وَقْت جان کی بازی  لگانے کے لئے تیار رہتے تھے، فوراً لبیک کہتے ہوئے حاضِرِ خدمت ہو گئے۔ یہ پانچ۵ ہجری کا واقعہ تھا جبکہ شعبان کی دو۲ راتیں گزر چکی تھیں۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان گھوڑے


 

بھی ساتھ لائے، یہ کُل 30گھوڑے تھے جن میں سے 10 مُہَاجِرِین کے تھے اور ان میں سے دو۲ گھوڑے لِزَاز اور ظَرِب سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اور 20 گھوڑے انصار کے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا پر اپنے پیچھے حضرتِ زید بن حارِثَہ، حضرتِ ابوذرغفاری یا حضرتِ نُمَیْلَہ (نُ-مَیْ-لَہ) بن عبد الله  لیثی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم میں سے کسی کو خلیفہ مُقَرَّر فرمایا اور ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ میں سے حضرتِ عائشہ اور حضرتِ اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کو اپنے ساتھ لیا۔

غزوے میں مُنَافقین کی شرکت

اس غزوے میں بہت سے ایسے مُنَافقین بھی شریک ہوئے جو پہلے کبھی کسی غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے ان میں سے عبد الله  بن اُبَیّ بن سَلُوْل اور زَیْد بن صَلْت بھی تھے۔ انہیں جہاد میں شركت كا كوئی شوق نہیں تھا بلکہ ان کی غرض تھوڑے سفر سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دُنْیَوی مال ومتاع کا حُصُول تھا۔

لشکرِ اسلام کا پڑاؤ اور ایک شخص کا قبولِ اسلام

نبیوں کے سلطان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سفر کرتے ہوئے جب اس مقام پر پہنچے جہاں پڑاؤ کرنا تھا تو یہاں قبیلہ عَبْدُ القیس کے ایک آدمی نے حاضِر ہو کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سلام عرض کیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دَرْیَافْت فرمایا: تمہارا گھربار کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: رَوْحَاء کے مقام میں۔ فرمایا: کہاں کا اِرَادہ ہے؟ عرض کیا: آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے


 

پاس ہی آنا چاہتا تھا اور میں اس لئے حاضِر ہوا ہوں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لاؤں اور جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لائے ہیں اس کے حق ہونے کی گواہی دوں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَعِیَّت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دشمنوں سے لڑوں۔ اس پر پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَاکَ لِلْاِسْلَامِ سب خوبیاں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے لئے ہیں جس نے تمہیں اسلام کی ہدایت فرمائی۔“([39])

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اس طرح کفر کی تاریک اور ٹیڑھی راہوں میں بھٹکنے والا یہ شخص حُضُورِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دستِ حق پرست پر بیعت ہو کر صِرَاطِ مستقیم کی روشن ومنور راہ پر گامزن ہو گیا۔

بنی مصطلق کے جاسوس کا سر تن سے جُدا

سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس مشرکین کا ایک جاسوس پکڑ کر لایا گیا، اسے قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ابوضِرَار نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارے میں خبر لانے کے لئے بھیجا تھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے لشکرِ کفار کے بارے میں پوچھا اس نے کچھ نہ بتایا پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے اِسْلام قبول کرنے کی دعوت دی اس نے اس سے بھی انکار کر دیا تو مدینے کے تاجدار، دوعالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ


 

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو حکم فرمایا اور انہوں نے اس کا سر تن سے جُدا کر دیا۔ جب حارِث کو رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جنگ کے لئے کُوْچ فرمانے اور اپنے جاسوس کے قتل کا عِلْم ہوا تو وہ اور اس کے ساتھ والے بہت رنجیدہ وملول  ہوئے، انہیں بہت زیادہ خوف لاحِق ہوا جس کی وجہ سے اس کے ساتھیوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس سے الگ ہو گئی اور انہوں نے جنگ میں شریک ہو کر اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔

مُہَاجِرین وانصار کے جھنڈے

جب لشکرِ اِسْلام مُرَیْسِیع کے میدان میں پہنچا تو وہاں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے چمڑے سے بنا ہوا ایک قبہ نصب کیا گیا، حضرتِ عائشہ اور حضرتِ اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھیں۔ پھر مسلمانوں نے جنگ کی تیاری کی۔ سلطانِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مُہَاجِرین کا جھنڈا حضرتِ ابوبکر صِدِّیق یا حضرتِ عمّار بن یاسِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کو اور انصار کا جھنڈا حضرتِ سَعْد بن عُبَادَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے ہاتھ میں دیا اور حضرتِ عمر بن خطّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو حکم فرمایا کہ وہ یہاں قیام پذیر لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ  کا اِقْرَار کرو (یعنی اسلام قبول کر لو) اس سے تم لوگ اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کر لو گے۔

جنگ کا منظر اور نتائج

فرمانِ رسول کے مُوَافِق حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے


 

انہیں دعوتِ اِسْلام پیش کی لیکن انہوں نے اِسْلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی لمحے دونوں طرف سے تیر اندازی شروع ہو گئی پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اَصْحَاب کو حکم فرمایا تو انہوں نے یکبارگی حملہ کر دیا بالآخر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ مسلمانوں کی طرف سے کوئی جان ضائع نہ ہوئی([40]) جبکہ کفار کے دس افراد ہلاک ہوئے اور بقیہ سب عورتیں، مرد اور بچے جن کی تعداد 700 یا اس سے زیادہ تھی، قیدی بنا لئے گئے، ان کے جانور ہانک لائے گئے جو دو۲ ہزار اونٹ اور پانچ۵ ہزار بکریاں تھیں۔ رسولِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے غلام حضرتِ شُقْرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو ان پر نگران مُقَرَّر فرمایا۔ قیدیوں میں قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی  بھی تھی۔ رسولِ محتشم، تاجدارِ عرب وعجم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے قیدیوں کے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ دئیے گئے اور حضرتِ بُرَیْدَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان پر نگران مُقَرَّر فرمایا، بعد میں انہیں تقسیم کر دیا گیا۔

سردارِ قبیلہ کی بیٹی بَرَّہ بنتِ حارِث

قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی بَرَّہ بنتِ حارِث تقسیم


 

غنیمت میں حضرتِ سیِّدُنا ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کے حصّے میں آئیں، حضرتِ سیِّدُنا ثابِت  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے ان کے حصّے کے بدلے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کے اپنے کھجوروں کے دَرَخْت انہیں دے دئیے اور پھر نو۹ اُوْقِیَہ سونے پر انہیں مُکَاتَبہ([41])کر دیا۔

بَرَّہ بنتِ حارِث بارگاہِ رسالت میں

اس قدر کثیر مال ادا کرنا ان کی بِسَاط سے باہر تھا چنانچہ یہ اِسْتِعانت (مدد مانگنے) کے لئے مدینے کے تاجدار، دوعالَم کے مالِک و مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دربارِ گوہر بار میں حاضِر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے سِوا کسی کے معبود نہ ہونے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا رسول ہونے کی گواہی دے کر اسلام قبول کر لیا ہے۔  میں سردارِ قوم حارِث بن ابوضِرَار کی بیٹی بَرَّہ ہوں۔ ہمیں جو مُعَاملہ درپیش آیا ہے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس کا عِلْم ہے۔ تقسیم غنیمت میں، میں حضرتِ ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کے حصّے میں آئی تھی  پھر حضرتِ ثابِت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے اپنے چچا زاد بھائی کو اپنے مدینے میں کھجوروں


 

کے دَرَخْت دے کر مجھے خالص اپنی مِلک میں لے لیا اس کے بعد اس قدر کثیر مال کے عِوَض مجھے مُکَاتَبہ کیا کہ جسے ادا کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں لیکن میں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ سے پُراُمِّید ہوں لہٰذا میرا بدلِ کِتَابَت ادا کرنے کے سلسلے میں میری اِعَانَت (مدد) فرمائیے...!! ([42])

نِکاح کی پیشکش

حضرتِ سیِّدَتُنا بَرَّہ بنتِ حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عرض ومعروض سننے کے بعد نبیوں کے سلطان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کرم بالائے کرم کرتے ہوئے فرمایا: وہ کام کیوں نہیں کر لیتی جو تمہارے لئے اس سے بہتر ہے۔ عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! وہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: میں تمہارا بدلِ کِتَابَت اَدا کر کے تم سے شادی کر لیتا ہوں؟ اس پر انہوں نے راضی خوشی اس پیش کش کو قبول کرتے ہوئے عرض کیا: میں یہ ضرور کروں گی۔([43])

غُلامی سے نجات اور نِکاح

ان کی رِضا مَعْلوم کرنے کے بعد شہنشاہِ ابرار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو بُلا کر ان سے حضرتِ بَرَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو طلب فرمایا۔ حضرتِ ثابِت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ


 

 وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر قربان ہوں، یہ آپ ہی کی ہے۔ لیکن پیارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سخی وفیاض طبیعت نے بِلاعِوَض لینا گوارا نہ کیا، چنانچہ مروی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا تمام بدلِ کِتَابَت ادا کیا اور پھر آزاد فرما کر اپنے نِکاح میں لے لیا۔ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نِکاح کے وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عمر مُبَارَک 20 سال تھی۔([44])

بَرَّہ سے جُوَیریہ

سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ”بَرَّہ“ نام رکھنے کو ناپسند فرماتے تھے اور اگر کسی کا یہ نام ہوتا تو تبدیل فرما دیتے اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کانام بھی تبدیل فرما دیا اور رِوَایَت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا نام تبدیل فرما کر جُوَیْرِیہ (جُ-وَیْ-رِیْ-یَہ) رکھا۔([45]) پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ نام کیوں ناپسند تھا اور کیوں اسے تبدیل فرما دیا کرتے تھے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مُحَدِّثِ جلیل، حکیمُ الْاُمّت حضرتِ علّامہ مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی فرماتے ہیں: حُضُورِ انور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے بَرَّہ نام اس لیے بدل دیا کہ اگر آپ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اپنی ان بیوی صاحِبہ کے پاس سے تشریف لائیں تو (یہ) نہ کہا


 

جاوے کہ آپ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ”بَرَّہ“ یعنی نیک کے یا نیکی کے پاس سے آئے کہ اس کا مطلب یہ بن جاتا ہے کہ نیکی سے نکل کر آئے تو نَعُوْذُ بِاللّٰہ بُرائی میں آئے۔([46])

نِکاح کی خیر وبرکت

حُضُور رِسالَت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حضرتِ جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ نِکاح فرمانے کی خبر جب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو پہنچی تو ان شمع نبوت کے پروانوں کو یہ بات گوارا نہ ہوئی کہ جس قبیلے میں سردارِ دو جہان، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نِکاح فرمائیں اس قبیلے کا کوئی فرد ان کی غُلامی میں رہے چنانچہ ان کے پاس جتنے لونڈی غُلام تھے سب کو یہ کہہ کر آزاد کر دیا کہ یہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَصہَار (سسرالی رشتے دار) ہیں۔([47]) چونکہ اس نِکاح کی برکت سے خاندانِ بنی مُصْطَلق کے بہت سے اَفْرَاد نے غُلامی کی زِنْدَگی سے نجات پائی اس لئے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اسے بہت زیادہ خیر وبَرَکَت والا نِکاح قرار دیتے ہوئے فرماتی ہیں: ”فَمَا رَاَیْنَا اِمْرَاَۃً کَانَتْ اَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا قوم پر خیر وبَرَکَت لانے والی کوئی عورت ہم نے حضرتِ جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بڑھ کر نہیں دیکھی۔([48])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

مَدَنی پھول

پیاری پیاری اسلامی بہنو! گُزَشتہ سُطُور میں مَرْقُوم (لکھے گئے) واقِعِے سے بےشمار ایمان اَفْرَوز مَدَنی پُھول حاصِل ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک دَرْج ذیل ہیں:

٭صحابہ کی جانثاری وعشق رسول

معلوم ہوا کہ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا اِطَاعَتِ رسول کا جذبہ بےمثال تھا۔ یہ جذبہ ان کے اندر اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور یہ حضرات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم کی بجاآوری کے لئے ہر وَقْت اس طرح مُسْتَعِد وتیار رہتے تھے کہ صرف ایک پکار پر کسی بھی شے کو خاطِر میں نہ لاتے ہوئے، انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں میدانِ کارزار میں کُود پڑتے اور جان کی بازی تک لگا دیتے، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنا آقا ومالِک اور خود کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مملوک وغلام جانتے نیز ان حضراتِ قُدْسِیَّہ کے دِلوں میں عشق مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شمع اس قدر فَروزاں (روشن) تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت کا بھی دل وجان سے احترام کرتے کہ وہ خاندان جس سے حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا رشتۂ مُصَاہَرَت (سسرالی رشتہ) قائم ہو گیا اس کے کسی فرد کو غُلام رکھنا تک گوارا نہ کیا اور بِلاچُوں و چَرا اور کسی کے کچھ کہے بغیر ہی اس کے ہر ہر فرد کو غُلامی سے آزادی دے دی جیساکہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں: ”وَاللہِ مَا کَلَّمْتُہٗ فِـیْ قَوْمِیْ حَتّٰی کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ ھُمُ الَّذِیْنَ اَرْسَلُوْھُمْ خُدائے ذُوْالْجلال کی قسم! میں نے


 

اپنی قوم کے سلسلے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کوئی بات نہیں کی، مسلمانوں نے خود ہی انہیں آزاد کر دیا۔“([49])

٭خود ستائی کے نام نہ رکھے جائیں

یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے نا م جن سے بدفالی (بدشگونی) نکلتی ہو، نہیں رکھنے چاہئے۔ نیز ایسے نام بھی نہیں رکھنے چاہئے جن میں تزکیۂ نفس اور خُودستائی (اپنی تعریف) پائی جاتی ہو کہ ایسے ناموں کو نبیوں کے سالار، محبوبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ناپسند فرماتے تھے اور تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔

٭بوقتِ ضرورت جھوٹ بولنا...

یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بوقتِ ضرورت جھوٹ بولنا یعنی ایسی بات کہنا جو حقیقت میں واقِع کے خِلَاف ہو، جائز ہے۔ ان ضرورت کی جگہوں کا بیان کرتے ہوئے خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرِ شریعت، بدرِ طریقت حضرتِ علّامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی فرماتے ہیں: تین۳ صورتوں میں جُھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گناہ نہیں:

}ایک جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مُقَابِل کو دھوکا دینا جائز ہے، اسی طرح جب ظالم ظلم کرنا چاہتا ہو اس کے ظلم سے بچنے کے لیے بھی جائز ہے۔

}دوسری صورت  یہ ہے کہ دو۲ مسلمانوں میں اِخْتِلَاف ہے اور یہ ان دونوں


 

میں صلح کرانا چاہتا ہے، مثلاً ایک کے سامنے یہ کہدے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے، تمہاری تعریف کرتا تھا یا اس نے تمہیں سلام کہلا بھیجا ہے اور دوسرے کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تا کہ دونوں میں عداوت کم ہو جائے اور صلح ہو جائے۔

}تیسری صورت یہ ہے کہ بی بی کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات خِلَافِ واقِع کہدے۔([50])

٭فتح وکامرانی کا حُصُول

ایک بات یہ بھی سیکھنے کو ملی کہ جب کوئی بندہ خُلُوْصِ دل سے اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  اور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا کے حُصُول کے لئے کوشش کرتا ہے تو کامیابی ہر میدان میں اس کے قدم چُومتی ہے، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی غیبی اِمداد اس کے شامِلِ حال ہوتی ہے اور بظاہِر اسباب نہ ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ فلاح وکامرانی سے ہم کنار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں کہ کیسے وہ بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود دشمن کی بھاری تعداد پر فتح پاتے رہے...!! تاریخ کے اَوْرَاق پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنی کمی یا کثرت پر نظر کئے بغیر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خوشنودی پانے کے لئے اور شہادت کے شوق میں میدانِ کارزار میں کُودتے تھے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کُفّار کے دلوں میں ان کا رُعْب ودبدبہ ڈال دیتا۔


 

غزوۂ مُرَیْسِیع بھی اِنہیں میں سے ایک ہے جیسا کہ حضرتِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں: جب رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے پاس تشریف لائے میں نے لوگوں اور گھوڑوں کی اس قدر کثیر تعداد دیکھی کہ بَیَان نہیں کر سکتی پھر جب میں اسلام لے آئی اور رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے نِکاح فرما لیا تو میں نے دوبارہ مسلمانوں کو دیکھا تو دَرْحقيقت وہ اتنے نہیں تھے جتنے پہلے دیکھے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ یہ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کی طرف سے مُشْرِکِیْن کے دلوں میں رُعْب ڈالا گیا تھا۔ نیز قبیلہ بنی مصطلق کے ایک اور شخص نے مُشَرَّف بہ اسلام ہونے کے بعد اِظْہَار کیا کہ ہم چتکبرے (سیاہ وسفید) گھوڑوں پر سوار ایسے نُورانی اَفْرَاد کو دیکھتے تھے جنہیں نہ پہلے کبھی دیکھا تھا نہ بعد میں۔([51])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تَعَارُفِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

نام ونسب اور قبیلہ

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نام بَرَّہ تھا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تبدیل فرما کر جُوَیْرِیہ رکھا۔ قبیلہ بنی مصطلق سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا تَعَلُّق ہے جو خُزَاعَہ کی ایک شاخ ہے۔ والِد کا نام حارِث ہے اور نسب اس طرح ہے: حارِث بن ابو ضِرَار بن حبيب بن عائِذ بن مالِك بن جَذِيْمة (مُصْطَلق)


 

 بن سَعْد بن كَعْب بن عَمْرو بن ربيعه (لُحَی) بن حارِثة بن عَمْرو (مُزَيْقيا) بن عامِر (مَاءُ السَّمَاء) ([52]) بن حارِثه (غِطْرِيف) بن اَمْرِىءُ الْقَيْس بن ثَعْلَبَه بن مازِن بن اَزْد بن غوث بن نَبْت بن مالِك بن زيد بن كَهْلَان بن سَبَاَ (عامِر) بن يَشْجُب بن يَعْرُب بن قَحْطَان بن عَابِر، کہا گیا ہے کہ یہ (یعنی عابِر) حضرتِ سیِّدُنا ہُوْد  عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔([53])

وِلادت اور نِكاح

حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، مُسَافِع بن صفوان کے نِکاح میں تھیں، مُسَافِع غزوۂ مُرَیْسِیع میں حالتِ کفر میں ہی ہلاک ہوا۔([54]) پانچ۵ ہجری کو جب حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمایا اس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عمر 20 سال تھی اس اعتبار سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی وِلادت بعثتِ نبوی سے تقریباً دو۲ سال پہلے 608ء کو بنتی ہے۔

حسن و جمال

خُلْقِی حُسْن (حُسْنِ اَخْلاق) کے ساتھ ساتھ خَلْقِی حُسْن (یعنی ظاہِری خوبصورتی) سے بھی اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو بہت نوازا تھا، حُسْن وجَمال


 

میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اپنی مثال آپ تھیں چنانچہ  اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا آپ کے حُسْن کا تذکِرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ”کَانَتِ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُّلَاحَۃً لَّا یَکَادُ یَرَاھَا اَحَدٌ اِلَّا اَخَذَتْ بِنَفْسِہٖ حضرتِ جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نِہَایَت شِیریں و ملیح حسن والی عورت تھی جو بھی انہیں دیکھتا گَرْوِیدہ ہوئے بغیر نہ رہتا۔“([55])

والِد اور بہن بھائیوں کا قبولِ اسلام

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد حارِث بن ابوضِرَار، دو۲ بھائی عمرو بن حارِث اور عبد الله  بن حارِث اور ایک بہن عَمْرَہ بنتِ حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم سبھی مسلمان ہو کر شرفِ صَحَابِیَّت سے سربلند ہوئے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھائی عبد الله  بن حارِث کے اسلام لانے کا واقِعہ بہت ہی دلچسپ اور تعجب خیز ہے چنانچہ مروی ہے کہ یہ اپنی قوم کے قیدیوں کو چُھڑانے کے لئے دربارِ رسالت میں حاضِر ہوئے ان کے ساتھ چند اُونٹ اور ایک سیاہ لونڈی تھی۔ انہوں نے ان سب کو راستے میں ہی چُھپا دیا اور پھر بارگاہِ رِسالَت عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حاضِر ہو کر اَسِیْرانِ جنگ کی رہائی کے لئے درخواست پیش کی۔ سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِسْتِفْسَار فرمایا: تم (قیدیوں کے فِدیے کے لئے) کیا لائے ہو؟ کہا: کچھ بھی نہیں۔ یہ سن کر پیارے غیب دان آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: تمہارے وہ اونٹ کہاں ہیں اور وہ سِیَاہ لونڈی


 

کدھر گئی جنہیں تم نے فلاں مقام پر چُھپایا تھا؟  زبان رِسالَت سے یہ عِلْمِ غیب کی خبر سن کر عبد الله  بن حارِث فوراً پکار اٹھے: ”اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّكَ رَسُوْلُ اللہُ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے سِوا کوئی معبود نہیں اور بےشک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے رسول ہیں۔“ اور اس غیبی خبر پر حیرت زدہ ہوتے ہوئے عرض کیا: ”وَاللہِ! مَا کَانَ مَعِیَ اَحَدٌ وَّلَا سَبَقَنِیْ اِلَیْکَ اَحَدٌ خدائے ذُوْالْجلال کی قسم! نہ تو میرے ساتھ کوئی تھا اور نہ مجھ سے آگے نکل کر کوئی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس پہنچا ہے۔“([56])

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ!...پیاری پیاری اسلامی بہنو! اس واقِعِے سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا بھی یہی عقیدہ تھا اور کُفّار بھی اس بات سے بخوبی واقِف تھے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے جن مُبَارَک ہستیوں کو نبوت ورِسالَت کے لئے منتخب فرمایا ہے انہیں عُلُوْمِ غیبیہ سے بھی نوازا ہے یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عبد الله  بن حارِث کو غیب کی بات بتائی تو ان کے دل نے گواہی دی کہ یہ غیبوں سے خبردار مُبَارَک ہستی جھوٹی نہیں ہو سکتی، ضرور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے انہیں نبوت ورسالت کے تاجِ


 

کرامت سے نوازا ہے جس سے ان کے سینے کی تاریک وادی میں ایمان کا نور جگمگایا اور زبان پر کلمۂ شہادت ”اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّكَ رَسُوْلُ اللہِ“ جاری ہو گیا۔ آئیے! انبیاء ومرسلین صَلَوَاتُ اللہِ تَعَالٰی وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کو عِلْمِ غیب دئیے جانے پر ایک قرآنی شہادت بھی ملاحظہ کیجئے، چنانچہ اللہ رَبُّ الْعِزّت قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ   ۪-  (پ۴، اٰلِ عمران:۱۷۹)

 ترجمۂ کنزالایمان:اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو! تمہیں غیب کا عِلْم دے دے، ہاں! اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔

اس آیت میں صاف وروشن طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اپنے رسولوں کو غیب کا عِلْم عطا فرماتا ہے تو پھر تمام رسولوں کے سردار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کیا شان ہو گی...؟ یقیناً اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو زمین وآسمان، مشرِق ومغرِب بلکہ لوحِ محفوظ کے تمام سربستہ رازوں سے آگاہ فرمایا ہے۔ بَرادَرِ اعلیٰ حضرت، اُستاذِ زَمَن حضرتِ سیِّدُنا علّامہ حَسَن رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْحَنَّان کیا خُوب فرماتے ہیں:

؏عَالِمُ الْغَیب نے ہر غیب سے آگاہ کیا

صدقے  اِس  شان  کی  بینائی  و  دانائی  کے([57])


 

رِوایَتِ حدیث

احادیث کی رائج کُتُب میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے مروی احادیث کی تعداد سات۷ ہیں، جن میں سے ایک بخاری شریف میں، دو۲ مسلم شریف میں اور بقیہ احادیث کی دوسری کِتابوں میں ہیں۔([58]) حضرتِ سیِّدُنا عبد الله  بن عبّاس، حضرتِ سیِّدُنا جابِر بن عبد الله ، حضرتِ سیِّدُنا عبد الله  بن عُمَر اور حضرتِ سیِّدُنا عبید بن سبّاق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے روایات لی ہیں۔([59])

مُتَفَرِّق فضائل ومَنَاقِب

گود میں چاند

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ بنتِ حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے بہت سے فضائل اور کثیر برکات سے نوازا تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح سے چند روز پہلے ہی ایک خواب کے ذریعے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اس فضیلتِ بےپایاں کی بشارت دے دی گئی تھی چنانچہ خود انہیں سے رِوایَت ہے، فرماتی ہیں کہ سیِّدُالْاَنبیاء، محبوبِ کِبْرِیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تشریف لانے سے تین۳ شب پہلے میں نے ایک خواب دیکھا: گویا کہ ایک چاند مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ


 

 شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا سے چلتا ہوا آ رہا ہے حتی کہ میری گود میں آ پڑا۔ میں نے لوگوں میں سے کسی کو اس خواب کے بارے میں بتانا مُنَاسِب نہ سمجھا حتی کہ جب رسولِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری ہوئی اور ہم قیدی ہو گئے تو مجھے اپنا خواب پورا ہونے کی اُمِّید ہو گئی۔([60])

کثرتِ عِبادت

پیاری پیاری اسلامی بہنو! بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ مسلمان جنہیں کثرت سے ربّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کی عِبادت کی توفیق عطا ہوتی ہے، یہ ایسی عظیم نعمت ہے جو انسان کو زمین کی انتہائی گہرائیوں سے اُٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر لا کھڑا کرتی ہے اور اس مقام پر فائز کر دیتی جہاں فِرِشتے بھی اس پر رشک کرتے ہیں، ان رشکِ ملائکہ افراد میں کثیر تعداد ہمیں سیِّدُ الْاِنْسِ وَالْجَان، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَہْلِ بیت اور اَصْحَاب کی نظر آتی ہے، اس مقدس گروہ کے جس فرد کی بھی سیرت اُٹھا دیکھی جائے عِبَادت ورِیَاضت کی اعلیٰ مِثال رَقْم کرے گی۔ اُمُّ  المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی عِبَادت ورِیَاضت کی خوشبوؤں سے خوشبودار گلستان کی ایک مہکتی ہوئی کلی ہیں۔ آئیے! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عِبَادت سے متعلق ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے، چنانچہ ایک بار مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نمازِ فجر کے بعد ان کے


 

 حجرے سے تشریف لے گئے یہ اس وَقْت اپنی سجدہ گاہ میں تھیں پھر چاشت کے وَقْت واپس تشریف لائے یہ اب بھی اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے استفسار فرمایا: تم اُس وَقْت سے یہیں بیٹھی ہوئی ہو جبکہ میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: میں نے یہاں سے جانے کے بعد چار۴ ایسے کلمات تین۳ بار پڑھے ہیں کہ اگر اُنہیں تمہاری سارے دن کی عبِادت کے ساتھ وزن کیا جائے تو وہ بھاری نکلیں، (وہ کلمات یہ ہیں): ”سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَ رِضَا نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ([61])

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! یہ تھا اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا ذوقِ عِبادت۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اُمّت کی اس عظیم ماں کے صدقے ہمیں بھی کثرتِ عِبادت کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم.

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

جمعہ کے دن کا روزہ

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا جُوَیْرِیہ بنتِ حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے رِوایَت ہے کہ رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جمعہ کے روز ان کے پاس تشریف لائے اور وہ روزے سے تھیں۔ استفسار فرمایا: کیا کل روزہ رکھا تھا؟ عرض کی: نہیں۔ فرمایا: آیندہ کل رکھنے کا اِرادہ ہے؟ عرض گُزَار ہوئیں: نہیں۔


 

 فرمایا: تو روزہ اِفْطار کر لو۔([62])

پیاری پیاری اسلامی بہنو! رَمَضَانُ الْمُبَارَک کے فرض روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر ایّام کے نفلی روزوں کی بھی کثرت کرنی چاہئے کہ یہ مُوْجِبِ خیر وبَرَکت اور ربّ تعالیٰ اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا کا باعِث ہے لیکن خیال  رہے کہ تنہا جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھنا بہتر ہے، چنانچہ دعوتِ اِسْلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صَفْحات پر مشتمل کِتاب ”فیضانِ سنّت“ جلد اوّل صَفْحہ 1416 پر شیخ طریقت، امیر اہلسنت حضرتِ علّامہ ابوبِلال محمد الیاس عطّاؔر قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تحریر فرماتے ہیں: جس طرح عَاشُورا کے روزے کے پہلے یا بعد میں ایک روزہ رکھنا ہے اسی طرح جمعہ میں بھی کرنا ہے کیوں کہ خُصُوصیت کے ساتھ تنہا جمعہ یا صرف ہفتہ کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی(یعنی شرعاً ناپسندیدہ) ہے۔ ہاں اگر کسی مخصوص تاریخ کو جمعہ یا ہفتہ آ گیا تو تنہا جمعہ یا ہفتہ کا روزہ رکھنے میں کراہت نہیں۔ مثلاً 15 شعبان المعظم، 27رَجَبُ المرجب وغیرہ۔

سفرِ آخِرَت

اسلام لا کر رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا شب وروز اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِطَاعَت وفرمانبرداری کرتے ہوئے زندگی بسر


 

 کرتی رہیں اور پھر سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے ظاہِری پردہ فرمانے کے کم وبیش 40 سال بعد ربیع الاوّل 50ھ میں 65برس کی عمر پا کر سفرِ آخرت کو روانہ ہوئیں، مروان بن حکم جو اس وَقْت مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کا حاکِم تھا اس نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور جَنَّتُ الْبَقِیْع میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا مزارِ اقدس بنا۔([63]) اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ان پر کروڑہا کروڑ رحمتوں اور بَرَکتوں کا نُزُول فرمائے اور ان کے صدقے ہم گنہگاروں کی مغفرت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پیاری پیاری اسلامی بہنو! آپ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ بنتِ حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی مُبَارَک حَیَات سے حاصِل ہونے والے مَدَنی پُھولوں سے اپنے دل کے گلدستے کو سجایا، دیگر صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سیرت سے بھی ہمیں زندگی بسر کرنے کے لئے ایسے سنہری خُطُوط حاصِل ہوتے ہیں جن کی پیروی کرنے سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا وخوشنودی پائی جا سکتی ہے، آئیے! ان مُبَارَک ہستیوں کی سیرت کی روشنی میں زندگی گزارنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے اور پیارے پیارے مَدَنی ماحول سے منسلک ہو جائیےکہ اس مَدَنی


 

 ماحول کی بَرَکت سے لاکھوں انگریزی طَوْر وطریقے اور فیشن کے رَسیا (شوقین) لوگ اپنی زندگیوں کو اَسْلافِ کِرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے طریقے کے مُطَابِق ڈھال چکے ہیں جس کے باعِث بعض دفعہ انہیں ربّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کی طرف سے ایسے ایسے اِنْعَامات عطا ہوتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والا عَشْ عَشْ کر اٹھتا ہے، اس سلسلے میں ایک مَدَنی بہار ملاحظہ کیجئے،  چُنَانچِہ

عطّاریہ پر کرم

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 32 صَفْحات پر مُشْتَمِل رِسَالے ”مدینے کا مُسَافِر“صفحہ 10 پر ہے: ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خُلَاصَہ ہے کہ ہمارا سارا گھرانا امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کا مرید ہے۔ ہماری والِدہ جن کو (کئی)سال سے ہیپاٹائٹس c اور شوگر کا مرض تھا، 13ربیع الغوث  1425ھ کو اچانک قومہ میں چلی گئیں۔ انہیں C.M.H ہسپتال I.T.C رُوْم میں داخِل کروا دیا گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میڈیکل (یعنی عِلْمِ طب)کی رو سے یہ بالکل ختم ہوچکی ہیں مگر 12 دن قومہ میں رہنے کے بعد ان کو خود ہی ہوش آ گیا۔ سب ڈاکٹر حیران تھے کہ ان کا جگر بالکل ختم ہوچکا ہے پھریہ کیونکر ہوش میں آگئیں؟امی جان ہوش میں آنے کے بعد ہر کسی سے یہی کہتی تھیں کہ اگر میں قومہ کی حالت میں مر جاتی تو مجھے تو کلمہ طَیِّبہ پڑھنا بھی نصیب نہ ہوتا ۔ حالت بہتر ہونے پر ہم اِنہیں اسپتال سے گھر لے آئے ۔اُس کے بعد سے میری والِدہ اپنے ایمان کی حفاظت کی دُعا کرتی رہتیں، گھر میں اسلامی بہنوں کا اجتماعِ ذکر ونعت بھی کرواتیں۔


 

اسپتال سے آنے کے ایک ماہ 22دن بعد بروز ہفتہ رات کے وَقْت انہوں نے شیخ طریقت امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی بین الاقوامی شہرت یافتہ تالیف فیضانِ سنّت کا دَرْس سنا پھر سورۂ رحمٰن شریف کی تلاوت سنی اور اس کے بعد انہوں نے حُضُورِ غوثِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی شان میں لکھی ہوئی منقبت پڑھی (جسے ٹیپ میں ریکارڈ کر لیا گیا)۔ پھر دُعا کرنے لگیں:اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ! مجھے صِحَّت دے کہ میں پنجگانہ نما زبآسانی ادا کروں، دَوْرانِ دُعا انہوں نے جھوٹ، غیبت، چغلی، حسد سے توبہ بھی کی اور یہ شعر پڑھنے لگیں:

؏اے سبز گنبد والے منظور دُعا کرنا

جب وقتِِ نَزْع آئے دیدار عطا کرنا

اور یااللہ عَزَّ وَجَلَّ! میری قبر کو نور سے بھردے، میری قبر کو کیڑے مکوڑوں سے محفوظ فرما۔کافی دیر تک اسی طرح ایمان وعافیت کے ساتھ موت کی دُعاکرتی رہیں۔ اس کے بعد انہوں نے باآوازِ بلند کلمہ طیبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ پڑھا اور سونے کیلئے لیٹ گئیں۔ رات کم وبیش ساڑھے بارہ بجے وہ دوبارہ قومہ میں چلی گئیں اور قومہ کی ہی حالت میں چھ۶ بج کر 20منٹ پر میری امّی جان کا اِنتِقال ہوگیا۔غسل کے بعد ان کا چہرہ ایسا لگ رہا تھا جیسے مسکرارہی ہوں۔

٭٭٭٭٭٭

نفاقِ اعتقادی کی تعریف

زبان سے اسلام کا دعویٰ کرنا اور دل میں اسلام سے انکار کرنا نفاق ہے۔

(بہارِ شریعت، ۱/۱۸۲)


 

سیرتِ حضرت اُمِّ حَبِیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا 

مجلس دُرُود کا اِعزاز

حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابوالحسن نَہَاوَنْدِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک شخص کی حضرتِ سیِّدُنا خضر عَلَیْہِ السَّلَام سے ملاقات ہوئی تو اس نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کیا کہ اعمال میں سے افضل عمل پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اتباع (اِتْ-تِ-بَاعْ) اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود بھیجنا ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا خضر عَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرمایا: اور افضل دُرُود وہ ہے جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حدیث شریف بیان کرتے اور لکھواتے وَقْت زبان سے پڑھا اور كِتاب میں لِکھا جائے، نیز اسے بہت زِیادہ پسند کیا جائے اور اس پر بہت زِیادہ خوش ہوا جائے۔ جب لوگ اس کام کے لئے کسی جگہ اکٹھے ہوتے ہیں تو میں اس مجلس میں ان کے ساتھ موجود ہوتا ہوں۔([64])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اِسْلام کے ابتدائی دَور میں جبکہ ابھی بہت تھوڑے لوگ مُشَرَّف بہ اسلام ہوئے تھے اور مسلمان افرادی و اِقْتِصَادی قوت کے اعتبار سے بہت کمزور تھے، کفارِ مکہ نے انہیں اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنا رکھا تھا، طرح طرح سے اذیتیں دے کر اِنہیں اِسْلام سے برگشتہ کرنے کی کوششیں کرتے


 

رہتے۔ اُنہوں نے اِسْلام کو صحیفۂ ہستی سے مِٹانے کی جان توڑ کوششیں کر ڈالیں مگر خُدائے ذُوْالْجلال کو کچھ اور ہی منظور تھا چنانچہ اسلام کو مِٹانے کی اُن کی تمام تَر کوششیں خاک میں مل گئیں، اُن کے حَد سے زیادہ مظالم بھی مسلمانوں کو دین اِسْلام سے برگشتہ کرنے میں کارگر نہ ہوئے اور ساتویں صدی عیسوی کی پہلی دَہائی میں لگایا ہوا اِسْلام کا یہ پودا اسی طرح پھلتا پُھولتا رہا۔ خُدا کی قدرت کہ جو لوگ اِسْلام کو نیست ونابود کرنے کے سلسلے میں پیش پیش تھے، جنہوں نے اِسْلام کو صحیفۂ ہستی سے مِٹانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اُنہیں کے گھروں سے شجرِ اِسْلام نے نمو (سیرابی کو) پایا اور خُوب پھلا پُھولا۔

ابوسُفْیَان صخر بن حَرْب اُمَوی جو قُرَیْش کے سرداروں میں سے تھے اور اِسْلام کے خِلَاف کئی جنگوں میں کُفّار کے قائد کی حیثیت سے شریک ہوتے رہے، بہارِ نبوت نے ان کے گھرانے کو بھی محروم نہ چھوڑا، ان کا گھرانہ بھی چشمۂ نبوت سے سیراب ہوا چنانچہ ابتدائے اِسْلام میں ہی جبکہ اِسْلام کی اَفْرَادی قوت کفر کے مُقَابَلے میں بہت کم تھی، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے ان کی بیٹی رَمْلہ کا دِل کھول دیا جس سے ان پر اِسْلام کی حَقّانِیّت واضح ہو گئی اور اُنہوں نے مشرکین مکہ کا دین ترک کر  دیا اور اپنے شوہر عُبَیْدُ الله  بن جحش کے ساتھ اِسْلام قبول کر کے اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ صَحَابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی فَہْرِسْت میں شامِل ہو گئیں؛ یہ وہ صحابہ ہیں جن کے بارے میں اللہ ربُّ العزّت کا فرمانِ عَظَمت نشان ہے:

وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ

ترجمۂ کنزالایمان:اور سب میں اگلے پہلے


 

 الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ۱۱،التوبة:۱۰۰)

 مُہَاجِر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو (پیروی کرنے والے) ہوئے، اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ہجرتِ حبشہ اور اس کا پس منظر

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اس دَور میں مسلمانوں کو بہت آزمائشوں کا سامنا تھا، کُفّار کے ظلم وستم تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے بلکہ دن بدن بڑھتے ہی جا رہے تھے، جو بھی دائرہ اِسْلام میں داخِل ہوتا کفر وشِرْک کی نجاست سے آلودہ لوگ اس کا جِیْنا دُوْبَھر کر کے رکھ دیتے۔ بالآخِر جب مسلمانوں پر ان کے مَظَالم انتہا کو پہنچ گئے تو نبِیِّ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِنہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کے لئے کہا کیونکہ اس وَقْت حبشہ میں ایک ایسے عادِل ونیک دِل بادشاہ کی حکومت تھی جس کی سلطنت میں کسی پر ظُلْم نہیں ہوتا تھا، جیسا کہ رِوایَت میں ہے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ بِاَرْضِ الْحَبَشَةِ مَلِكًا لَا يُظْلَمُ اَحَدٌ عِنْدَهٗ فَالْحَقُوْا بِبِلَادِهٖ حَتّٰى يَجْعَلَ اللہُ لَكُمْ فَرَجاً وَّمَخْرَجًا


 

 مِمَّا اَنْتُمْ فِيْهِ سرزمین حبشہ میں ایسا عادِل بادشاہ ہے کہ اس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا، تم لوگ اس کے ملک میں چلے جاؤ حتی کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  تمہارے لئے کُشَادْگی اور اِن مَصائِب سے  نکلنے کا راستہ بنا دے جس میں تم مبتلا ہو۔“([65])  سركارِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے مسلمانوں نے دو۲ مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی، پہلی بار 11مرد اور چار۴عورتیں اور دوسری بار 83مرد اور 18 عورتیں ہجرت کے اس قافلے میں شریک ہوئیں۔ اس دوسری بار کی ہجرت میں حضرتِ سیِّدَتُنا رَمْلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اور ان کے شوہر عُبَیْدُ الله  بن جحش بھی شریکِ قافلہ تھے۔([66])

حبشہ کی زندگی

حبشہ کی زمین مسلمانوں كے لئے نہایت امن و آشتی کی جگہ ثابت ہوئی اور مسلمان یہاں کے پُرسُکُون ماحول میں بغیر کسی خوف اور ڈر کے خُدائے واحِد عَزَّ وَجَلَّ کی عِبَادت میں مصروف ہو گئے۔ یہ دونوں میاں بیوی بھی امن وسُکُون میں اپنی زندگی کے دن گزارنے لگے تھے کہ  یکایک حالات نے پلٹا کھایا، زمانے نے اپنا رنگ بدلا اور سیِّدَتُنا رَمْلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی زندگی میں ایک ایسا كٹھن مرحلہ آیا جس نے تمام سُکون وآرام بُھلا کر رکھ دیا۔ یہ ایک پریشان کُن خواب تھا جس سے حضرت سیِّدَتُنا رَمْلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی زندگی میں انتہائی سنگین حالات کا دَور شروع ہوا۔


 

خواب اور اس کی بھیانک تعبیر

ہوا کچھ یوں کہ ایک رات آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خواب میں اپنے شوہر عُبَیْدُ الله  بن جحش کو بڑی بھیانک صورت میں دیکھا جس سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت خوف لاحِق ہوا اور دل میں کہنے لگی: بخدا! ضرور اس کی حالت تبدیل ہو گئی ہے۔ جب صبح ہوئی تو عُبَیْدُ الله  بن جحش کہنے لگا: اے اُمِّ حبیبہ (حضرتِ رَمْلَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی کنیت)! میں نے دین کے معاملے میں بہت غور وفکر کیا ہے مجھے تو سب سے بہتر دین عیسائیت ہی مَعْلوم ہوا۔ پہلے میں اسی دین میں تھا پھر دین محمدی (عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) میں داخِل ہو گیا اور اب پھر عیسائی ہو چکا ہوں۔ یہ ہولناک خبر سن کر حضرتِ سیِّدَتُنا رَمْلَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا دِل ڈوب گیا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بہت پریشان ہو گئیں اور اسے بہت سمجھایا بجھایا، جیسا کہ رِوایَت میں ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اُس سے کہا: تیرے لئے کوئی بھلائی نہیں اور اپنا وہ خواب سنایا جو اس کے بارے میں دیکھا تھا لیکن اس نے ذرا تَوَجُّہ نہ کی، لگاتار شراب کے نشے میں مست رہنے لگا اور بالآخر اسی حالت میں مر گیا۔([67])  نَسْاَلُ اللہَ الْعَفْوَ وَالعَافِيَةَ فِیْ الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ (ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دین، دنیا اور آخرت میں عَفْو اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔)

سیِّدَتُنا رَمْلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا عزم واستقلال

شوہر کے کفر واِرْتِداد کی گہری کھائی میں کود پڑنے کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا


 

رَمْلَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی زندگی خوشیوں سے یکسر  ویران ہو کر رہ گئی، پَرائے دیس میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بالکل تنہا رہ گئیں، والِدَین کا ساتھ تو ایمان لانے کے ساتھ ہی خَتْم ہو چکا تھا ایک شوہر کا ساتھ تھا اور وہ بھی جاتا رہا۔ غور کیجئے! اس وَقْت کیسی کڑی آزمائش سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا دوچار ہوں گی، کیسی کیسی کٹھن پریشانیوں کا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو سامنا ہو گا...؟ پیاری پیاری اسلامی بہنو! یہ وہ وَقْت ہوتا ہے جب بڑے بڑے سورماؤں (بہادروں) کے حوصلے بھی پست ہو جاتے ہیں، ایسے پُرآزمائش اَوْقات میں اُن کے بھی قدم ڈگمگا جاتے ہیں، اُن کے پایۂ ثبات میں بھی لَغْزِش آ جاتی ہے لیکن یہاں ایسا ہرگز نہیں ہوا، قربان جائیے حضرتِ سیِّدَتُنا رَمْلَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی ثَابِت قدمی پر کہ ایسی کڑی آزمائش میں بھی اپنے ایمان کے لہلہاتے چمن کو کفر کی آگ کی آنچ تک نہ آنے دی اور اس سلسلے میں کسی پریشانی ومصیبت کو خاطِر میں نہ لاتے ہوئے نہایت ہی عزم واستقلال کے ساتھ صِرَاطِ مستقیم پر قائم رہیں۔ غور کیجئے کہ آخر وہ کون سا جذبہ تھا، وہ کون سی قوت اور وہ کون سی طاقت تھی جس نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے حوصلے کو پست نہ ہونے دیا، آخر کس کے آسرے پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے تمام پریشانیوں ومصیبتوں کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا...؟ یاد رکھئے! وہ جذبہ، جذبۂ ایمانی اور وہ طاقت اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت کی طاقت تھی اور یہی وہ آسرا تھا جس کے بھروسے پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے تاریخ کے سنہرے اَوْراق میں عزم واستقلال کی ایک بہترین مِثَال رقم کی۔


 

ایک خوش آئین خواب

حضرتِ سیِّدَتُنا رَمْلَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نِہَایَت صبر و استقلال کے ساتھ تمام پریشانیوں ومصیبتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گزار رہی تھیں کہ ایک بار پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی زندگی میں بہار کے دن آنے لگے اور خوشیوں کے پُھول کھلنے لگے چنانچہ ایک رات آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص اِنہیں اُمُّ الْمُؤمنین کہہ کر پکارتا ہے۔ بیدار ہونے کے بعد انہوں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ تاجدارِ رِسالَت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے اپنے نِکاح میں لائیں گے۔([68])

خواب حقیقت کے رُوپ میں

 پیغامِ نِکاح

خواب نے حقیقت کا رُوپ کیسے دَھارا اور حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے یہ دَارَین (دونوں جہان) کی سَعَادت کیسے پائی...؟ اس کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ذُوْالحجہ چھ۶ ہجری کو جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بادشاہوں کو دعوتِ اِسْلام دینے کے لئے مکتوب روانہ فرمائے تو شاہِ حبشہ اصحمہ نجاشی کی طرف حضرتِ عمرو بن اُمَیَّہ ضمری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو([69]) دو۲ مکتوب دے کر روانہ کیا، ایک میں اُسے اِسْلام کی دعوت دی اور قرآنِ کریم کی کچھ آیات بھی


 

لکھیں اور دوسرے مکتوب میں حکم فرمایا کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح کر دیں۔ جب نجاشی کے پاس سرکارِ رِسَالَت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گرامی نامہ (یعنی مُبَارَک مکتوب) پہنچے تو انہوں نے نہایت اَدَب واحترام کے ساتھ لے کر اپنی آنکھ پر رکھ لئے، از راہِ تَوَاضُع وانکساری تخت سے نیچے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے اور حق کی گواہی دیتے ہوئے مُشَرَّف بہ اِسْلام ہو گئے۔([70]) اس کے  بعد دوسرے فرمانِ نبوت کی تعمیل کے لئے اپنی باندی ابرہہ کو حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی خدمت میں بھیجا۔

ابرہہ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس حاضِر ہو کر عرض کیا: بادشاہ سلامت نے آپ کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ میرے پاس اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے آخری رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گرامی نامہ تشریف لایا ہے کہ میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نِکاح آپ کے ساتھ کر دوں۔ یہ مسرور کن اور فرحت بَخْش خبر سن کر حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ابرہہ کو دُعا دیتے ہوئے فرمایا: ”بَشَّرَکِ اللہُ بِخَیْرٍ یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  تمہیں بھی خوش خبری نصیب فرمائے۔“ پھر ابرہہ نے کہا: بادشاہ نے کہا ہے کہ اپنی طرف سے کسی کو وکیل بنا دیں جو آپ کا نِکاح کر دے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حضرتِ خالِد بن سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو بُلا کر وکیل بنایا اور یہ فرحت بخش خبر سنانے کی خوشی میں چاندی کے دو۲ کنگن اور دیگر زیورات جو اس وَقْت پہن رکھے تھے، ابرہہ کو تحفے میں دئیے۔


 

خطبۂ نِکاح

شام کو حضرتِ نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے حضرتِ سیِّدُنا جعفر بن ابوطالِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور حبشہ میں موجود دیگر مسلمانوں کو جمع کیا اور توحید ورِسَالَت کی گواہی پر مشتمل ایک جاندار خطبہ دیتے ہوئے کہا: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ السَّلَامِ الْمُؤْمِنِ الْمُھَیْمِنِ الْعَزِیْزِ الْجَبَّارِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَقَّ حَمْدِہٖ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاَنَّہُ الَّذِیْ بَشَّر بِہٖ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمام تعریفیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے لئے ہیں جو بادشاہِ حقیقی، تمام عیبوں اور بُرائیوں سے پاک، اپنی مخلوق کو سلامتی دینے والا، اپنے فرمانبردار بندوں کو عذاب سے امان بخشنے والا، حِفاظَت فرمانے والا اور عزت وعَظَمَت والا ہے، اُسی کی حَمْد ہے جس قدر حَمْد کا وہ حق دار ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے سِوا کوئی معبود نہیں اور بےشک حضرتِ مُحَمَّد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہی وہ ہستی ہیں جن کی حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خوش خبری دی تھی۔“

خطبہ دینے کے بعد حضرتِ سیِّدُنا نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے فرمایا: نبیوں کے سلطان، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے خط لکھا ہے کہ میں حضرتِ اُمِّ حبیبہ بنتِ ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نِکاح کر دوں۔ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرمان پر لبیک کہتا ہوں اور ان کا مہر 400 دینار مقرر کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر حضرتِ سیِّدُنا نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے


 

400 دینار لوگوں کے سامنے رکھ دئیے۔ پھر حضرتِ سیِّدُنا خالِد بن سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَحْمَدُہٗ وَاَسْتَعِیْنُہٗ وَ اَسْتَنْصِرُہٗ وَاَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اَرْسَلَہٗ بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ تمام تعریفیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے لئے ہیں، میں اسی کی حمد کرتا ہوں، اسی سے مدد طلب کرتا اور اسی کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے سِوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرتِ مُحَمَّد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں اس نے ہِدایَت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اِسے سب دینوں پر غالِب کرے اگرچہ مُشْرِکِیْن بُرا مانیں۔“ خطبہ دینے کے بعد حضرتِ سیِّدُنا خالِد بن سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے کہا: میں نے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے حضرتِ اُمِّ حبیبہ بنتِ ابوسُفیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ کر دیا۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بَرَکتیں عطا فرمائے۔ پھر حضرتِ سیِّدُنا نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے وہ 400 دینار حضرتِ سیِّدُنا خالِد بن سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے حوالے کر دئیے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا پھر لوگوں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو حضرتِ سیِّدُنا نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ! انبیائے کِرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنّتِ مُبَارَکہ ہے کہ وہ شادی کے بابَرَکت موقعے پر کھانے کا اہتمام فرماتے ہیں، پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے


 

 کھانا منگوایا اور لوگ کھانا کھا کر رخصت ہوئے۔

ابرہہ کو تحفہ

جب حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَمْلہ بنتِ ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس مال آیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ابرہہ کو بُلا کر فرمایا: پہلے میں نے تمہیں جو تھوڑا بہت مال دیا تھا وہ ایسا وَقْت تھا کہ خود میرے پاس بھی کچھ نہ تھا، اب یہ پچاس مثقال سونا ہے اِسے لو اور کام میں لاؤ۔ یہ سن کر ابرہہ نے ایک تھیلی نکالی جس میں وہ سب چیزیں تھیں جو حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے انہیں عطا فرمائی تھیں، ابرہہ نے اِنہیں واپس کرتے ہوئے کہا: بادشاہ سلامت نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ میں آپ سے کچھ نہ لوں اور میں تو بادشاہ کی خدمت گار ہوں۔ مزید کہا: میں نے دِیْنِ محمدی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی اختیار کرتے ہوئے خالِص اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی رِضا کے لئے اِسْلام قبول کر لیا ہے۔ اور کہا: بادشاہ سلامت نے اپنی اَزْوَاج کو حکم فرمایا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود ہر قسم کی خوشبو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی خدمت میں بھیجیں۔ اگلے روز حضرتِ سیِّدَتُنا ابرہہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کثیر مِقْدار میں عُود، زَعْفَرَان، عنبر اور زَباد (خوشبویات کے نام) لے کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی خدمت میں حاضِر ہوئیں، انہیں پیش کرتے ہوئے حضرتِ ابرہہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عرض کیا: آپ سے میری ایک حاجت ہے وہ یہ کہ رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں میرا سلام عرض کیجئے گا اور بتائیے گا کہ میں نے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دین کی پیروی اختیار کر لی ہے۔ اس کے بعد یہ جب


 

 بھی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو عرض کرتیں: میری آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے جو حاجت ہے اسے بھولئے گا مت۔([71])

کاشانۂ نبوی میں...

کاشانۂ نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حاضِری کے لئے حضرتِ سَیِّدَتُنا ابرہہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ہی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو تیار کیا([72]) اور پھر شاہِ حبشہ حضرتِ نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے حضرتِ شرحبیل بن حسنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے ہمراہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اقدس میں بھیج دیا۔([73]) جب حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، شاہِ آدم وبنی آدم، رسولِ محتشم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں حاضِر ہوئیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نِكاح كا پیغام ملنے اور حضرتِ ابرہہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے حُسْنِ سُلوک کے بارے میں بتایا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تَبَسُّم فرمایا، حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حضرتِ ابرہہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا سلام عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”وَعَلَیْھَا السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ


 

تَعَالٰی عَنۡہَا وہ تمام اشیاء لے کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضِر ہوئی تھیں جو شاہِ حبشہ حضرت نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بارگاہ میں پیش کی تھیں، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِنہیں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس اور اِسْتِعمال میں دیکھتے تھے لیکن ناپسند نہ فرماتے۔([74])

نِکاح پر ابوسفیان کا ردِّعمل

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے اپنے پیارے محبوب، حُضُور احمدِ مجتبیٰ، محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہر لِحَاظ سے کامِل واکمل بنایا ہے، جس اعتبار سے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا جائے اَوَّلِیْن وآخِرِین میں کوئی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ثَانِی و ہم سَر نظر نہیں آتا، کیونکہ

؏وہ خُدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو مِلے نہ کسی کو مِلا

کہ کلامِ مجید نے کَھائی شہا! تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم([75])

اور سچ ہے کہ

؏تجھے   یَک   نے   یَک   بنایا([76])

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صُورت میں بھی اَعْلیٰ تھے، سیرت میں بھی اَعْلیٰ تھے، خاندانی شرافت میں بھی اَعْلیٰ تھے اور نسب میں بھی سب سے پاک


 

 واطہر نسب کے حامِل تھے الغرض اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہر عیب ونقص سے پاک  اور تمام کمالات وخوبیوں کا جامع بنایا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جانی دشمن تھے وہ بھی  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسبت کو باعِثِ فخر خیال کرتے تھے چُنانچِہ جب رحمتِ عالَم، نورِ مجسم، شفیع معظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حضرت اُمِّ حبیبہ رَمْلہ بنتِ ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ نِکاح کی خبر ان کے والِد ابوسُفْیَان کو پہنچی تو باوُجود اس کے کہ یہ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے اور اسلام کے سخت مُخَالِف تھے، اس رشتے کو ناپسند نہیں کیا بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا: ”ذَاکَ الْفَحْلُ لَا یُقْرَعُ اَنْفُہٗ (حضرتِ) مُحَمَّد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ایسے شرف وعزت والے بلند رتبہ کُفُو ہیں  جن کا پیغامِ نِکاح ٹھکرایا نہیں جاتا۔“([77])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تعظیم مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم وتکریم جُزْوِ ایمان ہے، جب تک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سچی تعظیم دِل میں نہ ہو اگرچِہ عمر بھر عِبَادت و رِیَاضت میں گزرے سب بے کار و مردود ہے۔ قرآنِ


 

 کریم کی کئی آیات میں اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے مؤمنین کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم وتوقیر بجا لانے کا حکم فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 26، سورۂ فتح  کی آیت نمبر آٹھ۸ اور نو۹ میں اپنے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان بیان فرماتے ہوئے اور مؤمنین کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) (پ۲۶، الفتح:۸ ،۹)

ترجمۂ کنزالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضِر وناظِر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اللہ کی پاکی بولو۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! صحابۂ کرام وصحابیات رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جو اَحْکاماتِ الٰہیہ کی بجاآوری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے، اس حکم الٰہی پر عمل کے سلسلے میں بھی انہوں نے قابِل تقلید کِردار ادا کیا، حُضُور رِسالَت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ والا کی تعظیم کا تو بیان ہی کیا...؟ جس شے کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسبت ہو جاتی اس کی تعظیم وتوقیر اور اَدَب واحترام بھی یہ حضرات اپنے اوپر لازِم جانتے اور حُدُودِ شرع کی رِعَایَت کے ساتھ حَد درجہ تعظیم وتوقیر بجا لاتے، چنانچہ ایک دَفْعَہ کا ذِکْر ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد ابوسُفْیَان صخر بن حَرْب اِسْلام لانے سے پہلے جب صلح


 

حدیبیہ کی مدت میں اِضافے کے سلسلے میں بات چیت کرنے رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں حاضِر ہوئے تو اس کے بعد اپنی بیٹی حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس بھی گئے، جب یہ رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بسترِ مُبَارَک پر بیٹھنے لگے تو سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اُسے لپیٹ دیا۔ اس پر ابوسُفْیَان نے کہا: بیٹی! معلوم نہیں، تم نے اس بستر کو مجھ سے بچایا ہے یا مجھے اس بستر سے بچایا ہے؟ اس پر اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عشق مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بھرپور بڑا ہی ایمان اَفْروز جواب دیا، فرمایا: ”بَلْ ھُوَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اللہِ وَ اَنْتَ مُشْرِکٌ نَّجِسٌ فَلَمْ اُحِبَّ اَنْ تَجْلِسَ عَلٰی فِرَاشِہٖ یہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے پاک رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مُبَارَک بستر ہے اور آپ ناپاک مُشْرِک ہیں اس لئے میں نے اِس پاکیزہ بستر پر آپ کا بیٹھنا گوارا نہ کیا۔“([78])

تَعَارُفِ سیِّدَتُنا اُمِّ حَبِیْبَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

وِلادت

سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِعْلانِ نبوت سے 17سال پہلے مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کی مُبَارَک سرزمین میں آپ رَضِیَ


 

 اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وِلادت ہوئی۔([79])

نام ونسب اور کنیت

مشہور رِوایَت کے مُطَابِق آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نام رَمْلہ ہے، والِدِ مُحْتَرَم کا نام صخر ہے یہ اپنی کنیت ابوسُفْیَان سے زِیَادہ مشہور تھے اور والِدہ کا نام صفیہ ہے یہ امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی پُھوپھی ہیں۔ والِد  کی طرف سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب اس طرح ہے: ”ابوسُفْيَان صَخْر بن حَرْب بن اُمَيَّة بن عَبْدِ شَمْس بن عَبْدِ مناف بن قُصَىّ بن كِلاب بن مُرَّة بن كَعْب بن لُؤَىّ بن غالِب“ اور والِدہ کی طرف سے یہ ہے: ”صَفِيَّة بنتِ اَبُوالْعَاص بن اُمَيَّة بن عَبْدِ شَمْس بن عَبْدِ مناف

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی کنیت اُمِّ حبیبہ ہے، نام کے بجائے کنیت سے ہی زِیَادہ معروف تھیں۔([80])

رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کا اِتِّصَال

نسب کے حوالے سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو یہ فضیلت حاصِل ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے حضرتِ عَبْدِ مناف میں ہی مل جاتا ہے جبکہ دیگر تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کا نسب حضرتِ عَبْدِ مناف سے آگے جا کر حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ


 

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ملتا ہے، واضح رہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نسب کے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف کے ساتھ ملنے میں چار۴ واسطے پائے جاتے ہیں:       (۱)...ابوسُفْیَان       (۲)...حَرْب

                       (۳)...اُمَیَّہ       (۴)...عَبْدِ شَمْس۔

پانچویں جَدِّ مُحْتَرَم حضرتِ عَبْدِ مناف میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نسب شریف سے ملتا ہے جو حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چوتھے دادا جان ہیں جبکہ حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی نسبت کچھ اوپر جا کر ملتا ہے لیکن سب سے کم واسِطوں سے ملتا ہے کہ اس میں صرف تین۳ واسطے پائے جاتے ہیں: (۱)...خُوَیْلِد  (۲)...اسد       (۳)...عَبْدُ الْعُزّی

چوتھے جَدِّ مُحْتَرَم حضرت قُصَیّ ہیں جو حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پانچویں دادا جان ہیں۔

شَرَفِ صَحَابِیَّت پانے والے چند قَرابت دار

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا تَعَلُّق عرب کے سب سے مُعَزّز قبیلے قریش کی ایک ذَیْلی شاخ بنواُمَیَّہ سے تھا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد زمانۂ جاہلیت میں قریش کے سرداروں میں سے تھے اس لحاظ سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے گھرانے کا شُمار نہایت عزّت دار گھرانوں میں ہوتا تھا، زمانۂ اسلام میں بھی اس نے بہت سی فضیلتیں پائیں، اس کے بہت سے افراد نے سرکارِ


 

نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صَحَابِیَّت کا شرف بھی حاصِل کیا، یہاں اِنہیں میں سے چند ایک کا ذِکْر کیا جاتا ہے، چنانچِہ

٭حضرتِ ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِدِ مُحْتَرَم ہیں، زمانۂ جاہلیت میں قُرَیْش کے سرداروں کے عَلَم بَرْدَار تھے، واقعۂ فیل سے 10 سال پہلے ان کی وِلادت ہوئی، فتح  مکہ کے دِن ایمان لائے، غزوۂ حنین میں حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھے۔ اس کے بعد غزوۂ طائف میں بھی شرکت کی اور اس میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی اور کچھ عرصے بعد حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے دَورِ خِلَافت میں غزوۂ یَرْمُوْک میں دوسری آنکھ بھی شہید ہو گئی۔ 34ھ کو مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں وفات پائی اور جَنَّتُ الْبَقِیْع میں دَفْن ہوئے۔([81])

٭حضرتِ مُعَاوِیَّہ بن ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے باپ شريك بھائی ہیں۔ اُن صَحَابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں سے ہیں جنہوں نے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر نازِل ہونے والی وحی کو لکھنے کا شرف حاصل کیا۔ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عُمَر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے دَورِ خِلَافت میں اپنے بھائی  حضرتِ


 

سیِّدُنا یزید بن ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کے بعد شام کے حاکم مُقَرَّر ہوئے اور وِصَال شریف تک رہے۔ رَجَبُ المرجب، 60 ہجری کو دمشق میں وفات پائی۔([82])

٭حضرتِ عتبہ بن ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے باپ شریک اور حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعَاوِیَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے سگے بھائی ہیں۔ رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُبَارَک زمانے میں ہی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی وِلادت ہوئی، امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عُمَر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے آپ کو طائف كا حاكم بنایا تھا پھر حضرتِ سیِّدُنا مُعَاوِیَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے حضرتِ عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی وفات کے بعد مصر کا حاکم بنا دیا، ایک سال تک اس منصب پر قائم رہے پھر وہیں انتقال فرمایا۔ بنو اُمَیَّہ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے بڑا خطیب کوئی نہ تھا۔([83])

٭حضرتِ یزید بن ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا

یہ بھی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے باپ شریک بھائی ہیں۔ فتح  مکہ کے دن ایمان لائے اور پھر غزوۂ حنین میں رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ شرکت کی سعادت بھی حاصِل کی۔ 12 ہجری میں حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے انہیں لشکرِ اِسْلام کے ساتھ


 

فلسطین کی طرف بھیجا، حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اَعْظَم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے انہیں فلسطین اور اس کے بعد شام پر حاکم بنایا۔([84])

رِوایتِ حدیث

اَحَادِیث کی رائج کُتُب میں حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے مروی احادیث کی تعداد 65 ہے، جن میں سے دو۲ مُتَّفَقٌ عَلَیْه (یعنی بخاری ومسلم دونوں میں)، ایک صرف مسلم شریف میں اور بقیہ دیگر کِتابوں میں ہیں۔([85]) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے احادیث روایت کرنے والوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی صاحبزادی حضرتِ سیِّدَتُنا حبیبہ بنتِ عُبَیْدُ الله ، بھائی حضرتِ سیِّدُنا مُعَاوِیَّہ اور حضرت سیِّدُنا عتبہ، بھانجے حضرتِ سیِّدُنا ابوسُفْیَان بن سعید ثقفی، حضرت سیِّدَتُنا صفیہ بنتِ شیبہ اور حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم جیسی عَظِیْم شخصیات شامِل ہیں۔([86])

فرمانِ مصطفٰے پر عَمَل

محبت ایک ایسا عُنْصَر ہے جو مُحِبّ کو محبوب کی اِطَاعَت وفرمانبرداری اور اس کے قَول وفعل کی پیروی کرنے پر اُبھارتا ہے اور رَفتہ رَفتہ پَروان چڑھتی ہوئی جب یہ اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو پھر مُحِبّ کی ہر ہر ادا محبوب کی اداؤں کی آئینہ دَار بن


 

جاتی ہے، تو یہ شمع رسالت کے حقیقی پروانے صحابۂ کرام وصحابیات رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَداؤں کو ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے ان سے یہ کب ممکن تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کسی حکم کو بجا لانے اور کسی فرمان کی پیروی کرنے میں معمولی سی بھی کوتاہی کرتے...!! آئیے اس سلسلے میں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَمْلَہ بنتِ ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کا عمل ملاحظہ کیجئے، چنانچہ بخاری شریف کی رِوایَت میں ہے کہ جب ملكِ شام سے حضرتِ ابوسُفْیَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی وفات کی خبر آئی تو تیسرے دن حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے زَرد رَنگ منگوا کر اپنے رخساروں اور کلائیوں پر مَلا اور فرمایا: مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں تھی اگر میں نے رسولِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور آخرت کے دِن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ سِوائے شوہر کے کسی اور پر تین۳ دِن سے زِیادہ سَوگ منائے البتہ شوہر پر چار۴ مہینے دس دن تک سَوگ کرے گی۔([87])

سَوگ کے دن کتنے...؟

پیاری پیاری اسلامی بہنو! دین اسلام میں مَیِّت پر سَوگ کرنے کے لئے تین۳ دن مُقَرَّر ہیں کوئی کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو تین۳ دن سے زِیادہ سَوگ کرنے کی ہرگز اِجَازت نہیں البتہ عورت کو شوہر کی وفات پر چار۴ ماہ اور دس دِن تک سوگ


 

 کرنا ضروری ہے۔ آسمانِ ہِدایَت کے رَوْشن ستاروں صحابہ وصحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم نے اس حکم شرعی اور فرمانِ نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے کے سلسلے میں بھی اَعْلیٰ مِثَال رقم کی ہے اور راہِ ہِدایَت کے متلاشیوں کو زندگی بسر کرنے کے لئے بہترین راہِ عمل فراہم کی ہے کہ کیسی ہی پریشانی ہو، کیسا ہی مشکل اور کٹھن مرحلہ ہو اور زندگی کیسا ہی خطرناک موڑ کیوں نہ لے ہمیشہ، ہر حال میں شریعت کے دامن کو تھامے رکھو اور فرمانِ رسول سے سرتابی ہرگز ہرگز مت کرو۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ہمیں ان عظیم لوگوں کی عظیم سیرت کی پیروی کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی

پاکیزہ حَیَات کے چند نُمَایاں پَہْلُو

}آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا حُضُور سیِّدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجہ مطہرہ اور اُمُّ المؤمنین (تمام مؤمنوں کی امّی جان) ہیں۔

}آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو ان چھ۶ ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ میں سے ہونے کا شرف حاصل ہے جن کا تَعَلُّق قبیلہ قریش سے تھا۔

}ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا مہر سب سے زِیادہ تھا۔

}آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ خُصُوصِیَّت  بھی حاصِل ہے کہ جب سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ سے نِکاح فرمایا اس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قیام گاہ سے دس ﷺ ہ میں مکین لمؤمنین (تمام مؤمنوں کی امّی جان) ہیں۔بہت دُور سرزمین حبشہ میں مقیم تھیں۔

} اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی فَہْرِسْت میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا بھی شمار ہوتا ہے۔([88])

سفرِ آخِرت

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے تقریباً چار۴ برس تک آفتابِ رِسَالَت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رفاقت وہمراہی میں رہنے کی سَعَادت حاصِل کی پھر زمانے پر قیامت سے پہلے ایک قیامت آئی کہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دنیا سے ظاہِری پردہ فرما گئے۔ اس قیامت خیز سَانِحِے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کم وبیش 34 برس تک حیات رہیں۔ پھر حضرتِ سیِّدُنا امیرمُعَاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے دَورِ حکومت میں 44 ہجری کو اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا۔([89]) اللہ رَبُّ الْعِزّت کی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا پر کروڑوں رحمتوں اور بَرَکتوں کا نُزُول ہو اور آپ کے صدقے ہماری بےحِسَاب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


 

وفات شریف سے کچھ پہلے...

وفات شریف سے کچھ پہلے حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حضرت عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بلایا  اور کہنے لگیں: ہمارے درمیان اور حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دوسری ازواج رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کے درمیان بعض اوقات کوئی نامُنَاسِب بات ہو جاتی تھی، ایسی جتنی بھی باتیں ہیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ان میں میری اور آپ کی مغفرت فرمائے۔ حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے کہا: رَبِّ کریم عَزَّ وَجَلَّ ان سب میں آپ کی بخشش ومغفرت فرمائے، آپ سے درگزر فرمائے اور آپ کے ذِہْن سے اس خلش کو دُور کر دے۔ اس پر حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے کہا: آپ نے مجھے خوش کیا ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  آپ کو خوش کرے پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حضرتِ اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بلا کر ان سے بھی یہی باتیں کیں۔([90])

تَذْکِرۂ اولاد

عُبَیْدُ الله  بن جحش سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ایک بیٹی حضرتِ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا كی وِلادت ہوئی، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی کنیت اُمِّ حبیبہ اِنہی کی نسبت سے ہے۔ حضرتِ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنے والِدَین کے ساتھ ہجرتِ حبشہ کی پھر اپنی والِدہ حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ ہی مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ


 

 زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا چلی آئیں۔([91])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مَدَنی پھول

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پاکیزہ ومُبَارَک حَیَات سے ایک بہت اہم یہ مَدَنی پُھول حاصِل ہوتا ہے کہ جب اِسْلام کی راہ میں کسی پر بلائیں ومصیبتیں نازِل ہوں پھر وہ ثابِت قدم رہے اور ان سے گھبرا کر اپنے پایۂ ثبات میں لرزِش نہ آنے دے، راہِ اِسْلام پر مضبوطی سے قائم رہے تو ایک وَقْت آتا ہے کہ جب اُسے ان مصیبتوں پر صبر کرنے کا پھل ملتا ہے تو وہ تمام بلائیں ومصیبتیں اس کی نظروں میں ہیچ ہو جاتی ہیں اور اِنْعَاماتِ الٰہیہ کی اس پر ایسی چھما چھم بارشیں ہوتی ہیں کہ زمانہ اس کی قسمت پر ناز کرنے لگ جاتا ہے۔ اب آئیے! اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر شیخ الحدیث حضرتِ علّامہ عبد المصطفیٰ اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا بڑا ہی بصیرت افروز وفکر آموز اور نصیحتوں کے مَدَنی پُھولوں سے بھرپور تبصرہ ملاحظہ کیجئے اور عمل کا ذِہْن بنائیے، فرماتے ہیں: اللہُ اَکْبَر! حضرت بی بی اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی زندگی کتنی عبرت خیز اور تعجب انگیز ہے، سردارِ مکہ کی شہزادی ہو کر دین کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر حبشہ کی دُور دراز جگہ میں


 

ہجرت کر کے چلی جاتی ہیں اور پناہ گُزِینوں کی ایک جھونپڑی میں رہنے لگتی ہیں پھر بالکل ناگہاں یہ مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ شوہر جو پردیس کی زمین میں تنہا ایک سہارا تھا، عیسائی ہو کر الگ تھلگ ہو گیا اور کوئی دوسرا سہارا نہ رہ گیا مگر ایسے نازک اور خطرناک وَقْت میں بھی ذرا بھی ان کا قدم نہیں ڈگمگایا اور پہاڑ کی طرح دین اِسْلام پر قائم رہیں، ایک ذرا بھی ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا نہ انہوں نے اپنے کافِر باپ کو یاد کیا نہ اپنے کافِر بھائیوں بھتیجوں سے کوئی مدد طلب کی، خُدا پر تَوَکُّل کر کے ایک نامانوس پردیس کی زمین میں پڑی خدا کی عِبَادت میں لگی رہیں یہاں تک کہ خُدا کے فضل وکرم اور رحمت للعالمین کی رحمت نے ان کی دستگیری کی اور بالکل اچانک خداوندِ قُدُّوْس نے ان کو اپنے محبوب کی محبوبہ بی بی اور ساری امت کی ماں بنا دیا کہ قیامت تک ساری دنیا ان کو اُمُّ المؤمنین (مؤمنوں کی ماں) کہہ کر پکارتی رہے گی اور قیامت میں بھی ساری خُدائی (مخلوق) خُدا کے اس فضل وکرم کا تماشا دیکھے گی۔

اے مسلمان عورتو! دیکھو ایمان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے اور خدا پر تَوَکُّل کرنے کا پھل کتنا میٹھا اور کس قدر لذیذ ہوتا ہے اور یہ تو دنیا میں اجر ملا ہے ابھی آخرت میں ان کو کیا کیا اجر ملے گا اور کیسے کیسے دَرَجات کی بادشاہی ملے گی؟ اس کو خدا کے سِوا کوئی نہیں جانتا ہم لوگ تو ان درجوں اور مرتبوں کی بلندی وعَظَمَت کو سوچ بھی نہیں سکتے۔ اللہُ اَکْبَر...! اللہُ اَکْبَر...! ([92])


 

بُرائیوں سے نجات

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ان پاک باز ہستیوں کی سیرت سے رُوْشَناس ہو کر اپنے طرزِ حیات کو ان کی سیرت کے مُطَابِق ڈھالنے کے لئے دعوتِ اِسْلامی کے سنّتوں بھرے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ  وَجَلَّ! اس مَدَنی ماحول کی بَرَکت سے لاکھوں اِسْلامی بہنوں کی زندگیوں میں مَدَنی اِنْقِلاب برپا ہو گیا ہے چنانچِہ دعوتِ اِسْلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 32 صَفْحات پر مشتمل رسالے ”میں حیادار کیسے بنی؟“ کے صفحہ 25 پر ہے: گجرات (پنجاب، پاکستان) کی ایک اِسْلامی بہن کے بَیَان کا خُلاصہ ہے کہ دعوتِ اِسْلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہونے سے قبل مجھ سمیت گھر کے افراد فلمیں ڈرامے دیکھنے، گانے باجے سننے کے جُنُون کی حد تک شوقین تھے۔ گھر کی خَوَاتِین بےپردگی کے گناہ میں بھی مبتلا تھیں۔ ہمیں دعوتِ اسلامی کا مہکا مہکا مَدَنی ماحول تو کیا میسر آیا ہمارے تو دن ہی پِھر گئے، رَفتہ رَفتہ ہمارا گھرانہ مَدَنی ماحول کے سانچے میں ڈھلتا چلا گیا، فلموں ڈراموں، گانوں باجوں اور بے پردگی جیسے گناہوں کی نحوست سے جان چھوٹ گئی، گھر کے مرد اِسْلامی بھائیوں کے اور عورتیں اِسْلامی بہنوں کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے لگیں۔ مَدَنی ماحول سے وابستگی کے بعد جہاں اِن بُرائیوں سے نجات ملی وہیں فوت شدہ رشتے داروں سے بذریعہ خواب دعوتِ اِسْلامی کے متعلق بشارتیں بھی حاصِل ہوئیں۔ ہمیں مَدَنی ماحول سے منسلک ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ میری والِدہ کو خواب


 

میں  میری نانی جان کا دیدار ہوا تو انہوں نے میری والِدہ سے پوچھا کہ تمہاری بیٹیاں دعوتِ اِسْلامی کے اجتماع میں جاتی ہیں؟ خواب میں یہ بات سن کر میری والِدہ حیران ہوئیں کیونکہ ہم مَدَنی ماحول سے 2000ء میں وابستہ ہوئے تھے اور نانی جان کا انتقال 1992ء میں ہوا تھا جبکہ اس وَقْت ہم دعوتِ اِسْلامی کے متعلق جانتے بھی نہیں تھے۔ جب والِدہ نے یہ خواب مجھے سنایا تو میں نے کہا کہ امّی جان ہم اجتماعات میں جو ثواب فوت شدہ رشتہ داروں کو ایصال کرتے ہیں وہ یقیناً انہیں ملتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ  وَجَلَّ! تادم تحریر مجھے باب المدینہ (کراچی) میں 12 دن کا تربیتی کورس کرنے کی سَعَادت حاصل ہو رہی ہے۔

٭٭٭٭٭٭

تین۳ نفع بخش چیزیں

فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: جب آدمی انتقال کرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر تین۳ عمل جاری

 رہتے ہیں:٭صدقہ جاریہ

یا        ٭علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو

یا        ٭نیک بچہ جو اس کے لئے دُعا کرتا ہو۔

[صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب مايلحق الانسان...الخ، ص۶۳۸، الحديث:۱۶۳۱]


 

سیرتِ حضرت صَفِیَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

رات  دن کے گناہ مُعَاف

حضرتِ سیِّدُنا ابو کاہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے رِوَایَت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک بار شہنشاہِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابوکاہل! جس نے ہر دن اور ہر رات مجھ پر محبت وشوق سے تین۳ تین۳ بار دُرُود پڑھا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  پر حق ہے کہ اس کے اس دن اور اس رات کے گناہ بخش دے۔([93])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

قبیلہ بنی نَضِیر کے دو۲ شخص صبح منہ اندھیرے ہی اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے، سارا دن غائب رہے، پھر شام کو جب سورج ڈوبنے کے ساتھ بےحَد تھکے ماندے، غمگین اور افسردہ حالت میں گھر واپس آئے تو باتوں میں اس قدر گم تھے کہ اپنے سامنے کھڑی اپنی سب سے لاڈلی اور پیاری بیٹی کی بھی خبر نہ ہوئی جسے وہ اپنی تمام اَوْلاد سے زیادہ پیار کرتے تھے اور جب بھی یہ ان میں سے کسی کے پاس آتی تو اس کی تَوَجُّہ، پیار اور شفقت کا محور ومرکز سب کو چھوڑ چھاڑ کر یہی پیاری سی بچی بن جاتی۔ ان دنوں مدینے شریف میں پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آمد ہوئی تھی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بنی عمرو بن عَوف کے محلے میں قیام فرمایا تھا۔ صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلنے


 

والے یہ دونوں شخص یہیں حالات کا جائزہ لینے آئے تھے اور سارا دن گُزَار کر شام کو جب گھر پہنچے تو حسبِ معمول اُس بچی نے اِنہیں خوش آمدید کہا لیکن باتوں میں مگن ہونے کی وجہ سے اِنہیں اس کی کچھ خبر نہ ہو سکی۔ اسی دوران بچی نے ان میں سے ایک کو جو اس کا چچا تھا، یہ کہتے سنا: کیا یہ وہی ہیں؟ دوسرا شخص جو اس بچی کا باپ تھا، اس نے جواب دیا: ہاں! بخدا یہ وہی شخص ہیں۔ اس نے پھر پوچھا: کیا تم اِنہیں اچھی طرح پہچانتے ہو؟ کہا: ہاں۔ پوچھا: پھر تمہارے دِل میں ان کے بارے میں کیا ہے؟ کہا: بخدا جب تک زندہ رہا دشمن رہوں گا۔([94]) وَقْت گزرتا رہا اور پھر وہ زمانہ بھی آیا جب ان کی وہ لاڈلی اور پیاری بیٹی بیاہ کر اپنے گھر کی ہو گئی لیکن کسی وجہ سے دونوں میاں بیوی میں نِبھا نہ ہو سکا اور آپس میں جُدائی واقِع ہو گئی پھر کچھ عرصے بعد ایک اور نوجوان کے ساتھ اس کا نِکاح ہو گیا۔ ایک دن جب وہ اپنے شوہر  کی گود میں سر رکھے سو رہی تھی تو اس نے ایک خواب دیکھا کہ گویا ایک چاند اس کی گود میں آ پڑا ہے۔ بیدار ہونے پر جب اُس نے اپنے شوہر کو اس بارے میں بتایا تو چونکہ حُضُور سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ نوربار ان پر چودھویں رات کے چاند کی طرح بالکل ظاہِر وعیاں تھی اس لئے چاند سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ والا تبار مُراد لینا کچھ مشکل نہ تھا چنانچہ اُس نے جان لیا کہ اِس سے حضرتِ مُحَمَّد عربی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نورانی ذات مُراد ہے اور چاند کے گود میں آ پڑنے کا مطلب ہے کہ عنقریب یہ


 

لڑکی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتۂ اِزْدِواج میں منسلک ہو گی۔ اس پر یہ بدبخت آدمی حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے غیض وغصّے سے بھر گیا اور اُس بےگناہ کے چہرے پر اِس زَور سے تھپڑ رسید کیا کہ نشان پڑ گیا پھر کہنے لگا: تُو شاہِ یثرب (یعنی تاجدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے خواب دیکھ رہی ہے...!! ([95])

حق سے منہ پھیرنے والے بدبخت لوگ

کیا آپ کو معلوم ہے کہ صبح منہ اندھیرے گھروں سے نکلنے والے وہ دو۲ شخص کون تھے، جنہوں نے حق کو پہچاننے کے باوُجود اس سے منہ پھیرا اور باطِل پر قائم رہے؟ ان دونوں کا تَعَلُّق یہودی گھرانے سے تھا، ان میں سے ایک قبیلہ بنی نَضِیر کا سردار حیی بن اخطب، دوسرا اس کا بھائی ابویاسر بن اخطب تھا، اِسْلام کے خلاف ان دونوں بھائیوں کی دشمنی حَد سے بڑھی ہوئی تھی اور وہ پیاری سی بچی حیی بن اخطب کی بیٹی صَفِیَّہ بنتِ حُیَی تھی۔([96]) جب یہ بچی بڑی ہوئی تو ایک یہودی شخص سَلّام بن مشکم قُرَظِی کے نِکاح میں آئی لیکن آپس میں نِبھا نہ ہونے کی وجہ سے جب دونوں میں جُدائی واقِع ہوئی تو پھر ایک اور یہودی شخص کِنانہ بن ابوحقیق کے ساتھ اس کا نِکاح ہوا، یہ کِنانہ وہی بدنصیب آدمی ہے جس نے خواب سن کر


 

 اور اس کی روشن تعبیر سمجھ کر اِنہیں تھپڑ رسید کیا تھا۔([97])

یہودیوں کی اسلام دشمنی

پیاری پیاری اسلامی بہنو! آپ نے ملاحظہ کیا کہ کُفّارِ بداَطوار یہودِ ناہنجار نے کس طرح حق کو پہچاننے کے باوُجود اس سے رُوْگردانی کی۔ دَرْاَصْل جب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے اپنے پیارے رسول و نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا تو ان یہودیوں کے دِل بغض وکینہ سے بھر گئے، سینے حسد کی آگ میں جلنے لگے اور وہ عظیم ہستی جن کے وسیلے سے دُعائیں مانگ کر یہ دشمن پر فتح پایا کرتے تھے، انہی کی جان کے درپے ہو گئے، انہی کے دین کو صفحۂ ہستی سے مِٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یوں تو تقریباً سب ہی کُفّار اِسْلام اور مسلمانوں کو نابُود کرنے کے سلسلے میں پیش پیش تھے لیکن یہود اور ان میں بھی خاص طور پر یہ دونوں بھائی حیی بن اخطب اور ابویاسر بن اخطب اس مُہِمّ میں تمام کفار سے بڑھ کر تھے، یہ دونوں مسلمانوں کو اِسْلام سے برگشتہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے اور ہمیشہ ایسے موقعے کی تلاش میں رہتے جس سے مسلمانوں کو کسی طرح نقصان پہنچ سکتا ہو جس کے نتیجے میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان کئی دفعہ میدانِ کارزار (جنگ کا میدان) برپا ہوا اور ہر دفعہ ان یہودِ بےبہبود کو منہ کی کھانی پڑی لیکن ان سب واقعات سے عبرت پکڑ کر بھی یہودی بیٹھ نہیں رہے بلکہ اور زیادہ انتقام کی آگ ان کے سینوں میں بھڑکنے لگی چنانچہ


 

غزوۂ خیبر کا مختصر بیان

سات۷ ہجری کا واقعہ ہے جب یہودیوں نے انتقام کی آگ بجھانے کے لئے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا پر حملہ کر کے مسلمانوں کو تہس نہس کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لئے عرب کے ایک بہت ہی طاقت ور اور جنگ جُو قبیلے غطفان کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ جب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خبر ہوئی کہ خیبر([98]) کے یہودی قبیلہ غطفان کو ساتھ لے کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں تو ان کی اس چڑھائی کو روکنے کے لئے سولہ سو (1,600) صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا لشکر ساتھ لے کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خیبر روانہ ہوئے، رات کے وَقْت خیبر کی حُدود میں پہنچے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد شہر میں داخِل ہوئے، کئی روز کی جنگ کے بعد بالآخر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔([99])

سردارِ قبیلہ کی بیٹی

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی جو مِٹی سے پُھول پیدا فرماتا


 

 ہے، اس پر بھی قادِر ہے کہ کفر کے بیابانوں میں ایمان کی کلی کِھلا دے۔ آج یہاں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہونے والا تھا کہ سردارِ قبیلہ کی بیٹی ایمان کے نور سے منور ہونے والی تھی، آج اس کے دل میں ایمان کی بہار آنے والی تھی، اس کی سَعَادت کی مِعْرَاج ہونے والی تھی اور شرف و کرامت کا وہ تاج عطا ہونے والا تھا جس سے اِنہیں اُمُّ المؤمنین یعنی قیامت تک آنے والے تمام مؤمِنوں کی ماں ہونے کا اعزاز حاصِل ہوا۔ جب خیبر کے قیدیوں کو جمع کیا گیا تو حضرتِ سیِّدُنا دحیہ کلبی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے پیارے آقا، دو عالَم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضِر ہو کر عرض کیا: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ان میں سے ایک باندی مجھے عنایت فرما دیجیے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِنہیں اختیار دیتے ہوئے فرمایا: خود جا کر کوئی باندی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنتِ حیی کو لے لیا۔([100])

صحابہ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی عَرض ومَعروض

صفیہ بنتِ حیی قبیلہ بنی نَضِیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں اور ان کی والِدہ قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کی بیٹی تھیں اس لحاظ سے انہیں دونوں قبیلوں کی رئیسہ ہونے کا اعزاز حاصِل تھا، نیز یہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے ایک پیارے نبی حضرتِ سیِّدُنا ہارون عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے تھیں اور نہایت حسین


 

 وجمیل بھی تھیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ عورتوں میں  سب سے زیادہ روشن وچمک دار رنگت والی تھیں۔ اس لئے جب حضرتِ سیِّدُنا دحیہ کلبی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے اِنہیں منتخب کیا تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے دل میں خیال گزرا کہ اس قدر کثیر شرف وکرامات کی حامِل خاتون حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں ہی ہونی چاہئے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان تمام اَوْصَاف بلکہ ہر اچھی صفت میں سب سے کامِل واَکمل تر ہیں، چنانچِہ ایک شخص دربارِ رسالت میں حاضِر ہو کر عرض گزار ہوئے: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ نے قبیلہ بنی قُریظہ اور بنی نَضِیر کی رئیسہ صفیہ بنتِ حیی، حضرتِ دحیہ کلبی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو دے دی ہیں، وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سِوا کسی اور کے لائق نہیں۔

پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ دحیہ کلبی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو عام باندیوں میں سے کسی کے لینے کا اختیار دیا تھا لیکن جب انہوں نے حسب ونسب اور حسن وجمال کے اعتبار سے سب سے نفیس باندی کو لیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کئی حکمتوں کے پیشِ نظر صفیہ کو ان سے واپس طلب فرمانے کا ارادہ کیا تا کہ یہ سارے لشکر پر ممتاز نہ ہوں کیونکہ لشکر میں ان سے افضل صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی موجود تھے، چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بُلا لاؤ۔ جب وہ دربارِ رِسَالَت میں حاضِر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا کہ


 

صفیہ کے عِلاوہ کسی اور باندی کو منتخب کر لو۔([101])

رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کریمانہ شان

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اللہ رَبُّ الْعِزّت نے اپنے پیارے محبوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کونین کا مالِک ومختار بنایا ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جس کو جو چاہیں، جب چاہیں عطا فرما دیں اور جس کو جب چاہیں منع فرما دیں، کائنات میں کسی کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شہنشاہی کے سامنے پس وپیش کی گنجائش نہیں کہ

؏خالِقِ کل نے آپ کو مالِکِ کل بنا دیا

دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضہ  و  اختیار میں([102])

لیکن یہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کریمانہ شان ہے کہ کسی کو محروم نہیں فرماتے اور اگر کسی حکمت کے پیش نظر کسی سے کچھ طلب فرماتے بھی ہیں تو اسے بہترین بدل عطا فرماتے ہیں، یہاں بھی جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ دحیہ کلبی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے صفیہ بنتِ حیی کو واپس طلب فرمایا


 

 تو ان کی دِل جُوئی کے لئے اِنہیں نو۹ اَفْرَاد عطا فرمائے۔([103])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

نفرت محبّت میں کیسے بدلی...؟

صفیہ بنتِ حیی کے والِد، بھائی اور شوہر جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے اس لئے ان کے دِل میں مسلمانوں خُصُوصاً سیِّدُ الْمُسْلِمِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے سخت بُغْض وعدات تھی لیکن حسن اخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اعلیٰ اخلاق اورحکیمانہ طرزِ گفتار نے اِنہیں اس قدر متاثر کیا کہ چند لمحوں میں ہی ان کے خیالات کا بہاؤ پلٹنے لگا، دِل کے وِیْرانے میں سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت کے پُھول کھلنے لگے اور دِل میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت کا ایسا دریا مَوْج زَن ہوا کہ بُغْض وعداوت کی میل دُھل کر بالکل صاف وستھرا ہو گیا، جیسا کہ رِوَایَت میں ہے، فرماتی ہیں: مجھے، رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ سب سے زیادہ عداوت تھی کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (کے لشکر) نے میرے شوہر، باپ اور بھائی کو ہلاک کر ڈالا تھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دیر تک میرے سامنے ان کے قتل کی وُجُوہات بیان فرماتے رہے، فرمایا: تمہارے باپ نے عربوں کو میری دشمنی پر اُبھارا، اکسایا اور جمع کیا اور ایسے کیا،


 

ایسے کیا...حتی کہ وہ بُغْض وعداوت میرے دِل سے جاتی رہی۔([104]) دوسری رِوَایت میں فرمایا: اور جب میں اپنی جگہ سے اُٹھی تو مجھے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زِیادہ محبوب کوئی نہ تھا۔([105])

مَدَنی پُھول

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! سرورِ ذیشان، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر صفتِ محمود کی طرح عمدہ سیرت وکِردار اور حُسْنِ اَخْلَاق میں بھی اُس اعلیٰ مقام پر فائز تھے جس میں کوئی آپ کا ہم سَر وہم پلہ نہیں اور یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اخلاقِ حسنہ ہی تھے کہ دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا اور جان کا دشمن پل بھر میں جان قُربان کرنے والا بن جاتا۔ اس سے مَعْلوم ہوا کہ اِسْلام نے تیر وشمشیر کے زور پر دنیا کے کونے کونے میں رسائی نہیں پائی بلکہ شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حسن وجمال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بےمثل وبےمثال حُسْنِ اَخْلَاق کی بدولت ہر دِل عزیز بنا ہے۔ اس میں ہمارے لئے یہ مَدَنی پُھول بھی ہے کہ ہمیں اپنے آقا ومالِک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیروی کرتے ہوئے حُسْنِ اَخْلَاق کا ایسا پیکر بننا چاہئے جس سے ہماری بداعمالیوں کے اندھیرے چھٹ جائیں اور ہمارے ہر ہر قول وفعل سے اِسْلام کا حقیقی حُسْن آشکارا ہو اور اے کاش! ایسا ہو جائے کہ جو کافِر بھی ہمیں دیکھے اِسْلام کا حُسْن اس


 

کے دِل میں بیٹھ جائے اور اے کاش...! اے کاش...!! وہ کفر وگمراہی کے اندھیروں سے نکل کر اِسْلام کے اُجالوں میں آ جائے۔

؏دُور دنیا کا میرے دَم سے اندھیرا ہو جائے

ہر  جگہ  میرے  چمکنے  سے  اُجالا  ہو  جائے([106])

اسلام کے سایۂ رحمت میں...

پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حُسْنِ اخلاق اور حکیمانہ طرزِ گفتار سے جب ان کے دِل سے بُغْض وعَداوت کی آگ بجھ گئی تو محبت کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا سمندر رَواں ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انہیں سب لوگوں سے زِیادہ محبوب ہو گئے اور پھر یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حَد درجہ تعظیم وتکریم بجا لانے لگیں، چنانچِہ دِل کے اندر اس سمندر کو رَواں ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی کہ سرکارِ والا تبار، مکے مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے پاس تشریف لائے تو یہ جس شے پر بیٹھی ہوئی تھیں اُسے اپنے نیچے سے نِکال کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے بچھا دیا۔

سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِنہیں دو۲ باتوں کا اختیار دیا کہ یا تو انہیں آزاد کر دیا جائے اور یہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جائیں یا پھر یہ اِسْلام قبول کر لیں تو حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انہیں اپنے لئے خاص فرما لیں۔ اس پر انہوں نے کہا: ”اَخْتَارُ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور


 

اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اختیار کرتی ہوں۔([107]) اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں آزاد کر کے نِکاح فرما ليا۔([108]) اس وَقْت ان کی عمر 17سال کے قریب تھی۔([109])

حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اَدَب و اِحترام

پیاری پیاری اسلامی بہنو! رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم اور ہر چیز سے بڑھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ محبت کرنا ایمان کی جان ہے، اس سلسلے میں صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سیرت ہمارے لئے بہترین راہ نُما ہے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ بنتِ حیی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا  جنہیں مُشَرَّف بہ اسلام ہوئے ابھی بہت تھوڑا وَقْت ہوا تھا اور اس تھوڑے سے وَقْت میں ہی ان کے دِل میں رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت اس قدر پختہ ہو گئی جس نے تاریخ میں تعظیم وتکریم کی اعلیٰ مِثال رقم کی، چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن عُمَر واقِدِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی کی رِوَایَت کے مُطَابِق جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خیبر سے واپسی کا ارادہ فرمایا،([110]) اُونٹ قریب لایا گیا،


 

 شاہِ غیور، محبوبِ ربِّ غفور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اپنے کپڑے سے پردہ کرایا اور زانوئے مُبَارَک (گھٹنے کے اُوپر کی ہڈی، ران) کو قریب کیا تا کہ حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اس پر پاؤں رکھ کر اُونٹ پر سُوار ہو جائیں۔([111]) لیکن قُربان جائیے حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے اَدَب وتعظیم مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کے عشق رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے دِل نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنا پاؤں حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُبَارَک زَانُو پر رکھیں، چنانچہ رِوایَت میں ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے رسولِ پاک، صاحِبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم کے پیش نظر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زانوئے مُبَارَک پر پاؤں نہیں رکھا بلکہ گھٹنا رکھ کر سوار ہوئیں۔([112])

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ...اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ بنتِ حیی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے صدقے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ہمیں بھی ہر قسم کی بےاَدَبِی سے محفوظ ومامون فرمائے اور ہر ہر بات میں حَدِّ ادب کی رِعَایَت کی توفیق عطا فرمائے کہ ہے

؏با اَدَب با نصیب

بے اَدَب بے نصیب

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

قافلے کی واپسی

حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو سوار کرانے کے بعد سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی اُونٹ پر سوار ہوئے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِن پر اپنی مُبَارَک چادر ڈال دی اور پھر واپسی کے لئے چل پڑے۔([113]) دورانِ سفر یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اُونگھ آنا شُروع ہو گئی جس سے بار بار ان کا سر کجاوے کے پچھلے حصے سے ٹکرانے لگا۔ فرماتی ہیں: میں نے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زیادہ اچھے اخلاق والا کوئی شخص نہیں دیکھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے رحمت بھرے ہاتھوں سے مجھے چُھو کر فرماتے: ”یَا ھٰذِہٖ مَھْلًا یَا بِنْتَ حُیَیٍّ اے لڑکی...! اے حیی کی بیٹی...! ٹھہرو، انتظار کرو۔“ حتی کہ جب مقامِ صہبا([114]) آیا تو فرمانے لگے: اے صفیہ! کیا میں نے تجھ سے اس کی وُجُوہات بیان نہیں کی جو تمہاری قوم کے ساتھ کیا ہے...؟ انہوں نے مجھے ایسے ایسے کہا تھا۔([115])

مقامِ صہبا میں قیام

اس مقام پر پہنچ کر پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رَسْمِ عَرُوْسِی ادا فرمانے کا اِرادہ کیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے ایک خادِمِ خاص اور جلیل القدر صحابی حضرتِ اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی والِدہ حضرتِ اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو کنگھی وغیرہ کر کے تیار کرنے کے لئے کہا۔ حضرتِ اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ان کے کنگھی کی اور عِطْر لگا کر تیار کر دیا، پھر اسی مقام پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رَسْمِ عَرُوْسِی ادا فرمائی۔([116])



[1]...صحيح البخارى، كتاب النكاح، باب الهدية للعروس، ص۱۳۲۸، الحديث:۵۱۶۳.

[2]...صحيح مسلم، كتاب النكاح، باب زواج زينب...الخ، ص۵۳۵، الحديث:۱۴۲۸.

[3]...مراٰة المناجيح، معجزوں كا بيان، پہلی فصل، ۸/۲۲۸.

[4]...الطبقات الكبرىٰ ، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ۴۱۳۲-زينب بنت جحش،  ۸/۸۱.

[5]...نهاية المطلب، كتاب النكاح، باب ما جاء فى امر رسول الله صلى الله عليه وسلم وازواجه فى النكاح، ۱۲/۱۷.

[6]...مراٰۃ المناجیح، اہل بیت کے فضائل، پہلی فصل، ۸/۴۶۶.

[7]...واضِح رہے کہ یہ حکم خالی منہ بولے بیٹے یا بیٹی کا ہے، رِضَاعَت (یعنی دُودھ کے رِشتے) کا حکم اس سے علیحدہ ہے؛ اس میں دُودھ پِلانے والی عورت بچے کی ماں بن جاتی ہے اور اُس کی اولاد اِس کے بھائی بہن، جس کی وجہ سے ان کا آپس میں نِکاح حرام ہو جاتا ہے۔ حُرْمَتِ رِضَاعَت کے تفصیلی اَحْکام جاننے کے لئے دعوتِ اِسْلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ 1182 صَفْحات پر مشتمل کِتاب ”بہارِ شریعت“ جلد دُوُم کے صفحہ نمبر 36 تا 42 کا مُطَالَعہ کیجئے۔

[8]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ۴۱۳۲-زينب بنت جحش، ۸/۸۱.

[9]... سیرتِ سیِّد الانبیا، حصہ دُوُم، باب سِوُم، فصل چہارم، ص۳۵۰، ماخوذًا.

[10]...صحيح البخارى، كتاب المغازى، باب حديث الافك، ص۱۰۴۰، الحديث:۴۱۴۱.

ارشاد السارى، كتاب المغازى، باب حديث الافك، ۷/۲۹۰، الحديث:۴۱۴۱.

[11]...صحيح البخارى، كتاب الادب، باب تحويل الاسم...الخ، ص۵۳۲، الحديث:۶۱۹۲.

[12]...اسد الغابة، حرف الزاء، ۶۹۵۵-زينب بنت جحش، ۷/۱۲۶.

[13]...الطبقات الكبرىٰ ، ذكر ازواج رسول الله  صلى الله عليه وسلم، ۴۱۳۲-زينب بنت جحش، ۸/۸۰.

[14]...اسد الغابة، حرف الزاء، ۶۹۵۵-زينب بنتِ جحش، ۷/۱۲۸.

[15]...مدارج النبوة، قسم پنجم، باب دُوُم در ذکرِ ازواجِ مطہرات، ۲/۴۷۹.

[16]...اسد الغابة، باب العين والباء، ۲۸۵۸-عبد الله بن جحش، ۳/۱۹۵، ملتقطًا.

[17]...المرجع السابق، حرف الهمزة، ۵۶۶۹-ابو احمد بن جحش، ۶/۵.

[18]...المرجع السابق، حرف الحاء، ۶۷۵۷-حمنة بنت جحش، ۷/۷۱، ملتقطًا.

[19]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة رضى الله عنهم، ۲۸۷۷-ذكر ام حبيبة واسمها...الخ، ۵/۸۳، الحديث:۶۹۹۱.

[20]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ٤١٣٢-زينب بنت جحش، ۸/۸۶، ملتقطًا.

[21]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، ٢٨٠٧-كانت زينب صناعة اليد، ٥/٣٢، الحديث:٦٨٥٠.

[22]...صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب فى فضائل عائشة، ص٩٥٠، الحديث:٢٤٤٢.

[23]...الطبقات الكبرىٰ ، ذكر ازواج رسول الله  صلى الله عليه وسلم، ۴۱۳۲-زينب بنت جحش، ۸/۹۱.

[24]...صحيح البخارى، کتاب الجنائز، باب حد المرأة...الخ، ص۳۶۳، الحديث:۱۲۸۲.

[25]...اسی کتاب کا صفحہ نمبر 24 ملاحظہ کیجئے۔

[26]...اسد الغابة، باب العين، ۲۸۵۸-عبد الله بن جحش، ۳/۱۹۵.

[27]...تفصیل آگے آ رہی ہے۔.

[28]...صحيح البخارى، كتاب الزكاة، باب صدقة الشحيح الصحيح، ص۳۹۷، الحديث:۱۴۲۰.

[29]...جنازے کی چارپائی پر دَرَخْت کی ٹہنیوں کو باندھ کر کپڑا ڈال دیا جاتا ہے جس سے یہ قبے کی طرح بن جاتا ہے، اسے نَعْش کہتے ہیں۔

[30]...الطبقات الکبری، ذكر ازواج رسول الله  صلى الله عليه وسلم، ۴۱۳۲-زينب بنت جحش، ۸/۸۰.

[31]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، ۲۸۰۴-نكاح النبى بزينب بنت جحش، ۵/۳۱، الحديث:۶۸۴۶.

[32]...المرجع السابق، الحديث:۶۸۴۷.

[33]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ٤١٣٢-زينب بنت جحش، ۸/۸۷.

[34]...المرجع السابق، ص۹۰.

[35]...المرجع السابق.

[36]...المرجع السابق، ص۹۱.

[37]...شعب الايمان، باب الحادى والعشرون، فصل فى فضل الصلوات على النبى صلى الله عليه وسلم ليلة الجمعة، ۳/۱۱۲، الحديث:۳۰۳۶.

[38]...طبقات الكبرىٰ، ذكر عدد مغازى رسول الله صلى الله عليه وسلم، غزوة رسول الله صلى الله عليه وسلم المريسيع، ۲/۴۸.

[39]...السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق، ۲/۳۷۷، ملتقطًا.

[40]...ایک رِوَایَت کے مُطَابِق مسلمانوں میں سے ایک شخص جنہیں ہِشَام بن صُبَابَہ کہا جاتا تھا، شہید ہوئے۔ انہیں ایک انصاری شخص نے دشمن کا آدمی سمجھ کر غلطی سے شہید کر ڈالا تھا۔[البداية والنهاية، سنة ست من الهجرة، غزوة بنى المصطلق من خزاعة، المجلد الثانى، ۴/۵۴۴].

[41]...آقا اپنے غُلام سے مال کی ایک مقدار مُقَرَّر کر کے یہ کہدے کہ اتنا ادا کر دے تو آزاد ہے اور غُلام اسے قبول بھی کر لے اب یہ مُکَاتَب ہو گیا جب کُل ادا کر دے گا آزاد ہو جائے گا اور جب تک اس میں سے کچھ بھی باقی ہے، غلام ہی ہے۔

 [بہارِ شیریعت، حصّہ نہم، آزاد کرنے کا بیان، ۲/۲۹۲].

[42]...السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق، ۲/۳۷۸، ملتقطًا.

[43]...سنن ابى داؤد، كتاب العتق، باب في بيع المكاتب...الخ، ص۶۱۹، الحديث:۳۹۳۱.

[44]...السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق، ۲/۳۷۸، ملتقطًا.

[45]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، ۲۸۱۱-رؤيا جويرية سقوط القمر فی حجرها، ۵/۳۶، الحديث:۶۸۶۱.

[46]...مراٰۃ المناجیح، ناموں کا بیان، پہلی فصل، ۶/۴۱۰.

[47]...سنن ابى داؤد، كتاب العتق، باب فى بيع المكاتب....الخ، ص۶۱۹، الحديث:۳۹۳۱.

[48]...المرجع السابق.

[49]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، ۲۸۱۱-رؤيا جويرية سقوط القمر فى حجرها، ۵/۳۵، الحديث:۶۸۵۹.

[50]...بہارِ شریعت، جھوٹ کا بیان، حصّہ۱۶، ۳/۵۱۷.

[51]...المغازى للواقدى، باب غزوة المريسيع، ۱/۴۰۸.

[52]...سبل الهدى والرشاد، جماع ابواب ذكر ازواجه، الباب الاول، ۱۲/۱۸.

[53]...نسب معد واليمن الكبير، ۱/۱۳۱، ۳۴۲،۳۶۲.  ۲/۴۳۹، ۴۵۵.

[54]...امتاع الاسماع، فصل فى ذكر ازواج رسول الله، ام المؤمنين جويرية...الخ، ۶/۸۴.

[55]...صحيح ابن حبان، كتاب النكاح، باب ذكر اباحة للامام...الخ، ص۱۱۰۱، الحديث:۴۰۵۴.

[56]...الاستيعاب فى معرفة الاصحاب، باب العين والباء، ۳/۸۸۴.

نوٹ: کچھ فرق کے ساتھ یہی واقِعہ حضرتِ جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد ماجِد حضرتِ سیِّدُنا حارِث بن ابوضِرَار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے بارے میں بھی ہے، دیکھئے: [شرف المصطفٰى، جامع ابواب المغازى...الخ، فصل فى غزوة المريسيع، ۳/۴۴، الحدیث:۷۳۹] وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَال.

[57]...ذوقِ نعت، ص۱۶۹.

[58]...سير اعلام النبلاء، ۳۹-جويرية ام المؤمنين، ۲/۲۶۳.

[59]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه صلى الله عليه وسلم...الخ، ۴/۴۲۸.

[60]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، ۲۸۱۱-رؤيا جويرية سقوط القمر فى حجرها، ۵/۳۵، الحديث:۶۸۵۹.

[61]...صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء...الخ، باب التسبيح اول النهار وعند النوم، ص۱۰۴۷، الحديث:۲۷۲۶.

[62]...صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب صوم يوم الجمعة، ص٥٢٢، الحديث:۱۹۸۶.

[63]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه صلى الله عليه وسلم، ۴/۴۲۸، ملتقطًا.

[64]...الصلات والبشر، الباب الرابع، الاثار الواردة فى فضائل...الخ، ص۱۷۱.

[65]...السنن الكبرىٰ للبيهقى، كتاب السير، باب الاذن بالهجرة، ۹/۱۶، الحديث:۱۷۷۳۴.

[66]...المواهب اللدنية، المقصد الاول، هجرته صلى الله عليه وسلم، ۱/۱۲۵ و ۱۳۲، ملتقطًا.

[67]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، ٢٧٩٩-خطبه النجاشى على نكاح ام حبيبة، ۵/۲۶، الحديث:۶۸۳۷.

[68]...المرجع السابق، ص۲۷.

[69]...سیرتِ سیِّد الانبیا، حصّہ دُوُم، باب سِوُم، فصل ششم ۶ھ کے واقعات، ص۳۸۵.

[70]...الوفاء باحوال المصطفٰى، ابواب مكاتبته الملوك، الباب الرابع، ۲/۲۶۷، ملتقطًا.

[71]... المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، خطبة النجاشى على نكاح ام حبيبة، ۵/۲۷، الحديث:۶۸۳۷، ملتقطًا.

[72]...المرجع السابق، ص۲۸.

[73]...سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب الصداق، ص٣٣٦، الحديث:۲۱۰۷.

[74]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، خطبة النجاشى على نكاح ام حبيبة، ۵/۲۷، الحديث:۶۸۳۷، بتقدم وتاخر.

[75]...حدائِقِ بخشش، ص۸۰.

[76]...المرجع السابق، ص۳۶۳.

[77]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، كان صداق النبى صلى الله عليه وسلم لازواجه...الخ، ٥/٢٩، الحديث:٦٨٤١.

[78]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ۴۱۳۱-ام حبيبة بنت ابى سفيان، ۸/۷۹.

ودلائل النبوة للبيهقى، جماع ابواب فتح مكة...الخ، باب نقض قريش ما عاهدوا...الخ، ۵/۸.

[79]...الاصابة، کتاب النساء، حرف الراء، ۱۱۱۹۱-رملة بنت ابى سفيان، ۸/۱۵۴.

[80]...سبل الهدى والرشاد، جماع ابواب ذكر ازواجه، الباب السادس، ۱۲/۹۷، ملتقطًا.

[81]...الاكمال فى اسماء الرجال، حرف السين، فصل فى الصحابة، ۳۵۵-ابوسفيان بن حرب، ص۴۵، ملتقطًا.

[82]...المرجع السابق، حرف الميم، فصل فى الصحابة، ۸۳۲-معاويه بن ابى سفيان، ص۹۹.

[83]...اسد الغابة، باب العين مع التاء، ۳۵۴۶-عتبة بن ابى سفيان، ۳/۵۵۴، ملتقطًا.

[84]...امتاع الاسماع، فصل فى ذكر اصهار رسول الله صلى الله عليه وسلم، اخوة ام حبيبة، ۶/۲۶۲.

[85]...مدارج النبوۃ، قسم پنجم، باب دُوُم در ذکر ازواجِ مطہرات، ۲/۴۸۲.

[86]...شرح الزرقانى، على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازوجه صلى الله عليه وسلم، ۴/۴۰۹.

[87]...صحيح البخارى، كتاب الجنائز، باب حد المرأة...الخ، ص۳۶۳، الحديث:۱۲۸۰.

[88]...اسی کتاب کا صفحہ نمبر 24 ملاحظہ کیجئے۔

[89]...المستدرك للحاكم، كتاب معرفة الصحابة، كان صداق النبى صلى الله عليه وسلم...الخ، ۵/۲۹، الحديث:۶۸۴۲.

[90]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ٤١٣١-ام حبيبة بنت ابى سفيان، ۸/۷۹.

[91]...الاستيعاب، كتاب النساء وكناهن، باب الحاء، ۳۲۹۱-حبيبة بنت عبيدالله..الخ، ۴/۱۸۰۹، ملتقطًا.

[92]...جنّتی زیور، تذکرۂ صالحات، حضرتِ ام حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، ص۴۹۰.

[93]...الصلات والبشر، الباب الثانى فى ذكر الاحاديث...الخ، الحديث الخامس والستون، ص۸۹.

[94]...السيرة النبوية لابن هشام، شهادة عن صفية، المجلد الاول، ۲/۱۲۶.

[95]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه الطاهرات، ۴/۴۳۴، بتغير قليل.

صحيح ابن حبان، كتاب المزارعة، ذكر خبر ثالث...الخ، ص۱۴۰۷، الحديث:۱۵۹۹، مختصرًا.

[96]...السيرة النبوية لابن هشام، شهادة عن الصفية، ۲/۱۲۶.

[97]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه الطاهرات...الخ، ۴/۴۲۹.

[98]...خیبر مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا سے شام کی طرف آٹھ۸ منزل کی دُوری پر ہے۔ [معجم البلدان، ۲/۴۰۹] ایک انگریز سیاح نے لکھا ہے کہ خیبر مدینہ سے 320 کیلومیٹر دُور ہے۔ یہ بڑا زرخیز علاقہ تھا اور یہاں عمدہ کھجوریں بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ عرب میں یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز یہی خیبر تھا۔ [سیرتِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، بارہواں باب، جنگ خیبر، ص۳۸۰].

[99]...سیرتِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، بارہواں باب، جنگ خیبر، ص۳۸۱-۳۸۴، ملخصاً.

[100]...سنن ابى داؤد، كتاب الخراج...الخ، باب ما جاء فى سهم الصفى، ص۴۸۳، الحديث:۲۹۹۸.

[101]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه الطاهرات...الخ، ۴/۴۲۹، بتقدم وتاخر.

سنن ابى داؤد، كتاب الخراج...الخ، باب ما جاء فى سهم الصفى، ص۴۸۳، الحديث:۲۹۹۸، مختصرًا.

[102]...رسائل نعیمیہ، سلطنتِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، ص۱۴.

[103]...السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه صلى الله عليه وسلم، غزوة خيبر، ۳/۶۴.

[104]...صحيح ابن حبان، كتاب المزارعة، ذكر خبر ثالث...الخ، ص۱۴۰۷، الحديث:۵۱۹۹.

[105]...مسند ابى يعلى، ۱۷۷-حديث صفية بنت حيى، ۵/۳۱۸، الحديث:۱۷۰۹.

[106]...کلیاتِ اقبال، بانگِ درا، ص۶۵.

[107]...صفة الصفوة، ١٣٣-صفية بنت حيى...الخ، المجلد الاول، ۲/۳۶.

[108]...صحيح البخارى، كتاب المغازى، باب غزوة خيبر، ص۱۰۵۱، الحديث:۴۲۰۰، ماخوذًا.

[109]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه...الخ، ٤/۴۳۶.

[110]...دُوسری رِوایَت کے مُطَابِق یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مقامِ صہبا میں قیام فرما کر آگے روانگی کا ارادہ کیا، دیکھئے: [صحيح البخارى، كتاب المغازى، باب غزوة خيبر، ص۱۰۵۳، الحديث: ۴۲۱۱] وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ عَزَّ وَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم.

[111]...المغازى للواقدى، غزوة خيبر، انصراف رسول الله صلى الله عليه وسلم...الخ ، ۲/۷۰۸.

[112]...المعجم الكبير للطبرانى، احاديث عبد الله بن العباس...الخ، مقسم عن ابن عباس، ۱۱/۳۸۲، الحديث:۱۲۰۶۸.

[113]...صفة الصفوة، ۱۳۳-صفية بنت حيى...الخ، المجلد الاول، ۲/۳۷.

المغازى للواقدى، غزوة خيبر، انصراف رسول الله صلى الله عليه وسلم...الخ، ۲/۷۰۸.

[114]...”مقامِ صہبا“ خیبر سے 12 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ [كتاب المغازى، غزوة خيبر، انصراف رسول الله صلى الله عليه وسلم...الخ، ٢/۷۰۸]

[115]...مسند ابى يعلى، حديث صفية بنت حيى، ۵/۳۲۰، الحديث:۷۱۱۵، ملتقطًا.

[116]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم...الخ، ۴۱۳۵-صفية بنت حيى، ۸/۹۶، ملتقطًا.