حضرتِ ابواَیُّوب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی پہرا داری

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جس درجہ عقیدت ومحبت تھی اور یہ شمع رسالت کے پَروانے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لئے ہر وَقْت جس طرح تیار رہتے تھے تاریخ کے صَفْحات اس کی مِثَال بیان کرنے سے قاصِر ہیں۔ آئیے! گروہِ صحابہ کے ایک برگزیدہ صحابی حضرتِ سیِّدُنا ابواَیُّوب خالِد بن زَیْد انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے عشق رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ایک ایمان اَفْرَوز واقعہ ملاحظہ کیجئے، چنانچہ تاجدارِ رِسالَت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب مقامِ صہبا میں پڑاؤ کیا تو یہ شمع رسالت کے پَروانے ساری رات گلے میں تلوار لٹکائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حِفاظت کے لئے جاگتے رہے


 

اور خیمے کے گرد چکر لگاتے رہے حتی کہ جب صبح ہوئی اور رسولِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ ابواَیُّوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو ملاحظہ کیا تو دَرْیَافْت فرمایا: اے ابواَیُّوب! کیا ہوا؟ عرض کیا: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے ان خاتون کی طرف سے اندیشہ ہوا کیونکہ ان کا باپ، شوہر اور قوم کے دیگر افراد مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں نیز یہ نئی نئی مُشَرَّف بہ اسلام ہوئی ہیں اس لئے میرے دِل میں ان کی طرف سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جان پر اندیشہ گزرا۔ رِوایَت میں ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اس جانثار کی عظیم سوچ کو آفْرِین (خوش آمدید) کرتے ہوئے بارگاہِ رَبِّ ذُوْالجلال میں دُعا کی: ”اَللّٰھُمَّ احْفَظْ اَبَا اَیُّوْبَ کَمَا بَاتَ یَحْفَظُنِیْ اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ! جیسے ابوایوب نے ساری رات جاگ کر میری حِفاظت کی ہے تُو بھی اس کی حِفاظت فرما۔“([1])

اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دُعا کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے حضرتِ ابواَیُّوب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی ایسی حِفاظت کا انتظام فرمایا کہ دیکھنے اور سننے والے اَنگُشْت بَہ دَنْدَاں (یعنی حیران) رہ گئے۔ اس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ ہجرت کے 50ویں سال حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعَاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے قُسْطَنْطِیْنَہ (قُسْ-طَنْ-طِیْ-نَہ۔ نیا نام ”استنبول“) کو فتح کرنے کے لئے جو لشکر روانہ فرمایا اس میں ميزبانِ رسول حضرتِ سیِّدُنا ابواَیُّوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ بھی


 

شامِل تھے، یہاں پہنچ کر ان کا انتقال ہو گیا۔ انتقال سے قبل آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے وصیت فرمائی کہ اِنہیں رُوْم سے قریب ترین مقام پر دَفْن کیا جائے، حسبِ وصیت دَفْن کر دیا گیا۔ اہل رُوْم نے جب ان کے بارے میں دَرْیَافْت کیا تو مسلمانوں نے کہا: یہ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اکابِر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں سے ایک برگزیدہ صحابی ہیں۔ بولے: تم لوگ کس قدر احمق ہو، کیا تمہیں اس بات کا بالکل خوف نہیں کہ ہم تمہارے بعد ان کی قبر کھود کر لاش کی بےحرمتی کریں گے؟ جب لشکرِ اِسْلام کے سپہ سالار کو یہ بات پہنچی تو ان کی طرف کہہ بھیجا: اگر تم نے ایسا کرنے کی جرأت کی تو ہم عرب کی سرزمین میں موجود تمہارے ہر گِرْجے كو گِرا کر زمین بَوس کر دیں گے اور تمہارے بزرگوں کی قبریں کھود ڈالیں گے۔ یہ سُن کر اہل رُوْم کے دِلوں میں مسلمانوں کی دَہْشَت بیٹھ گئی اور اُنہوں نے حضرتِ سیِّدُنا ابواَیُّوب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی مُبَارَک قبر کی حِفاظت کرنے اور اِکْرَام بجا لانے کی قسم کھائی۔ رِوَایَت میں ہے کہ اہل رُوْم حضرتِ سیِّدُنا ابو اَیُّوب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی قبر کے وسیلے سے بارِش کی دُعا مانگتے اور اِنہیں بارِش سے سیراب کیا جاتا۔([2])

لمحۂ فکریہ

اس واقِعِے سے پہلے کے مسلمانوں کے جَاہ وجَلال اور ہیبت وعَظَمَت کا پتا چلا کہ طاقت وَر ترین قوموں کے دِلوں پر بھی ان کی عَظَمَت کا سکّہ بیٹھا ہوا تھا اور ان


 

کی ہیبت سے کُفّار کے سینے دَہل کر رہ جاتے تھے لیکن آج اس کے بالکل برعکس بُزْدِل سے بُزْدِل اور کمزور سے کمزور قوم بھی مسلمانوں کو آنکھیں دِکھا رہی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ قرآن اور صاحِبِ قرآن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعلیمات کو بُھلا بیٹھنا اور ان پر عمل نہ کرنا ہے۔آہ! صد آہ!

؏نِشانِ راہ دِکھاتے تھے جو سِتاروں کو

ترس گئے ہیں کسی مردِ  راہ  دَاں  کے  لئے([3])

یاد رکھئے! یہ نازُک صورتِ حَال ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر اب بھی ہم نے قرآن کی تعلیمات کو بُھلائے رکھا اور صاحِبِ قرآن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرامین پر عمل نہ کرتے ہوئے گویا انہیں پس پشت ڈالے رکھا تو ایک وَقْت آئے گا جب ہمارا نِشان تک مِٹ جائے گا۔ آئیے! سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرامین پر جی جان سے عمل کر کے اس نازُک صورتِ حَال سے نمٹنے کے لئے تبلیغ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اِسْلامی کے مہکے مہکے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! زمانے میں ایک بار پھر مَدَنی اِنْقِلاب برپا ہو جائے گا اور اَسْلافِ کِرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی طرح آج کا مسلمان بھی آنے والی نسلوں کے لئے سنہری تاریخ رقم کرے گا۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

برکت والا ولیمہ

پیارے آقا، دوعالَم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مقامِ صہبا میں رات گُزَار کر صبح ولیمے کا اہتمام فرمایا، حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اس بابَرَکت دعوت کا ذِکْر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ولیمے کی دعوت دی، اس مُبَارَک ولیمے میں نہ تو روٹی تھی اور نہ گوشت، صرف یہ تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ بِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو دستر خوان بچھانے کا حکم دیا تو وہ بچھا دیا گیا، پھر اس پر کھجوریں، پنیر اور کچھ گھی رکھا گیا([4]) اور مسلمانوں نے اسے کھایا۔ یہ مدینے کے تاجدار، دوعالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مُبَارَک ولیمہ تھا۔([5])

مدینے کے قریب حادِثہ

صہبا کے مقام پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین۳ شب قیام فرمایا اور پھر مدینے کی طرف چل پڑے۔([6]) حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں: جب ہمیں مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کے دَر ودِیوار نظر آنے لگے تو ہمارے دِل اس کی طرف کھنچنے لگے جس کی وجہ سے ہم نے اپنی سواریوں


 

کو تیز کر دیا اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی اپنی سواری کو تیز فرما دیا۔ اُمُّ المؤمنین حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھیں کہ اچانک جانور نے ٹھوکر کھائی جس سے رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا زمین پر تشریف لے آئے۔ فرماتے ہیں: لوگوں میں سے کسی نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی طرف نہیں دیکھا حتی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کھڑے ہو کر اِنہیں پَردہ کرایا پھر ہم آئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کوئی نقصان نہیں ہوا۔([7])

مدینے شریف میں آمد

جب سلطانِ انبیاء، محبوبِ کِبْرِیَاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں آمد ہوئی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِنہیں حضرتِ حارِثہ بن نعمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے گھر میں ٹھہرایا۔ انصار کی عورتوں نے جب ان کے اور ان کے حسن وجمال کے بارے میں سنا تو دیکھنے کے لئے آنے لگیں۔([8])

رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی لختِ جگر کو تحفہ

جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا خيبر سے آئیں اس وَقْت آپ کے کانوں میں


 

سونے کی بالیاں تھیں۔ رِوایَت میں ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے یہ بالیاں رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی لختِ جگر حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اور اِن کے ساتھ والی عورتوں کو تحفے میں دے دیں۔([9])

زندگی کے حسین لمحات

پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آ کر کاشانۂ نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخِل ہونے کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنی زندگی کے حسین ترین لمحات کا آغاز کیا، شب وروز سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ہوئے عِبادتِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کا ذَوق و شوق حاصِل کیا اور صبح وشام خالِقِ کائنات جَلَّ جَلَالُہٗ کی پاکی بَیَان کرتے ہوئے گُزَارنے لگیں نیز پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علمی ورُوْحَانی فیضان سے بھی خُوب خُوب بہرہ وَر ہونے لگیں، ایک دفعہ کا ذِکْر ہے کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے اس وَقْت حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس چار۴ ہزار گٹھلیاں پڑی ہوئی تھیں جن پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر سیِّدِ عالَم، نُورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: جب سے میں تمہارے پاس کھڑا ہوں اس دَوران میں نے تم سے زِیادہ ربّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کی پاکی بَیَان کر لی ہے۔ اِسے سن کر حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا عرض کرنے لگیں:


 

یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے بھی سکھائیے۔ اِرْشاد فرمایا کہ اس طرح کہو: ”سُبْحٰنَ اللہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ پاکی ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کو جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہے۔“([10])

قیامت خیز سانحہ

شب وروز اسی طرح ہنسی خوشی بسر ہو رہے تھے کہ وہ دِل فگار واقعہ پیش آیا جس سے شمع رسالت کے حقیقی پَروانوں کے دِل دَہل کر رہ گئے اور ان پر قیامت سے پہلے ایک قیامت آ گئی۔ یہ واقعہ صاحِبِ لَوْلَاک، سَیَّاحِ اَفْلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے ظاہِری پردہ فرمانے کا ہے۔ ذرا سوچئے! وہ عاشِقانِ رسول جو کچھ دیر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے رُخِ انور کا دیدار نہ کر پاتے تو بےتاب ہو جاتے، اس قیامت خیز سَانِحِے سے ان پر کیا بیتی ہو گی، یقیناً ان کی دنیا ہی وِیْرَان ہو کر رہ  گئی ہو گی، لیکن قربان جائیے کہ اس نازُک مرحلے میں بھی اپنے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ان سچے پیروکاروں نے شریعت کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اس طرح صبر وحوصلے کی بےمِثال تاریخ رقم کی۔ وفاتِ اقدس سے کچھ پہلے جب بیماری آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جسم نازنین سے بَرَکت لینے آئی تو اُسی وَقْت عاشِقانِ رسول کے دِل بےتاب ہو گئے، ان کے بس میں نہ تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو لاحِق ہونے والے اس مَرَض شریف کو اپنے اُوپر لے لیتے، اسی دَور کی بات ہے کہ ایک دفعہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پاک اَزْوَاج آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس جمع تھیں اتنے میں حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بےقرار ہو کر عرض کرنے لگیں: اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! بخدا! میں چاہتی ہوں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ مرض مجھے لاحِق ہو جائے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی عطا سے دِلوں کے راز جاننے والے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: ”وَاللہِ اِنَّھَا لَصَادِقَۃٌ یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی قسم! یہ سچ کہتی ہیں۔“([11])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تَعَارُفِ سیِّدَتُنا صَفِیَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا 

پیاری پیاری اسلامی بہنو! گُزَشتہ صَفْحات میں آپ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پاکیزہ حیات کے چند خوش نما عنوان ملاحظہ کئے، ان میں ایک نمایاں بات پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ عشق ومحبت، پیار اور الفت کا دَرْس ہے۔ اِسْلام لا کر اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے جس طرح اپنی زندگی کے شب وروز بسر کئے حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیان کا لفظ لفظ جانِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ محبت والفت کا دَرْس دیتا ہے اور ان کے حرف حرف سے عشق رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چھلکتا ہے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ہمیں بھی نصیب فرمائے۔ آئیے! اب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نام ونسب اور خاندان کے حوالے


 

سے سیرت کی چند ابتدائی اور بنیادی باتیں ملاحظہ کیجئے، چنانچہ

نام ونسب

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نام صفیہ ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نام زینب تھا پھر جب قیدی ہو کر آئیں اور سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں اپنے لئے منتخب فرمایا تو صفیہ کہا جانے لگا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد کا نام حیی اور والِدہ ضَرَّہ بنتِ سَمَوْاَل (سَ-مَوْ-اَلْ) ہیں۔ حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بنی اسرائیل میں سے حضرتِ سیِّدُنا ہارون بن عمران عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اَوْلاد میں سے ہیں۔([12]) نسب اس طرح ہے: ”صَفِيَّة بنتِ حُيَىّ بن اَخْطَب بن ابو يحيٰى بن كَعْب بن خَزْرَج بن ابوحبيب بن نَضِیر بن خَزْرَج بن ضَرِيحِ بن تُومَان بن سِبْط بن يَسَع بن سَعْد بن لَاویٰ بن جُبَيْر بن نَحَّام بن بَنْحُوم بن عَزْرىٰ بن هَارُون بن عِمْرَان بن بَصْهَر بن قَهْث بن لَاویٰ بن يَعْقُوب بن اِسْحَاق بن اِبْرَاهِيم(عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)([13])

رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کا اِتِّصَال

حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں جا کر آپ


 

رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب حُضُور احمدِ مجتبیٰ، محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مل جاتا ہے، کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بنی اسرائیل (بنی یعقوب بن اِسْحاق بن ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) میں سے ہیں اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنی اسماعیل (بنی اسماعیل بن ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) میں سے ہیں۔

قبیلہ اور وِلادت

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا تَعَلُّق مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کے ایک یہودی قبیلے بنی نَضِیر سے تھا۔ پیچھے گزر چکا کہ جس وَقْت سرورِ کائنات، شاہِ مَوْجُودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ نِکاح فرمایا اس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عمر 17سال تھی اور چونکہ یہ سات۷ ہجری کا واقعہ ہے لہٰذا اس اعتبار سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وِلادت حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اِعْلانِ نبوت کے تقریباً دو۲ سال بعد بنتی ہے۔ وَاللہُ  وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ.

حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ماموں جان

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ماموں جان حضرتِ سیِّدُنا رِفاعہ بن سَمَوْاَل قُرَظِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ ایمان لا کر شرفِ صحابیت سے مُشَرَّف ہوئے۔([14])

رِوَایتِ حدیث

اَحَادیث کی رائج کِتابوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے مروی اَحَادیث کی


 

کُل تعداد دس ہے، جن میں سے ایک بخاری ومسلم دونوں میں ہے اور باقی نو۹ دیگر کِتابوں میں دَرْج ہیں۔([15]) جنہوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے احادیث رِوَایَت کی ہیں اُن میں حضرتِ سیِّدُنا اِمام زَیْنُ الْعَابِدین بن حسین بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم جیسی عظیم ہستی بھی شامِل ہیں۔([16])

چند مُتَفَرِّق فضائل و مَنَاقِب

جب عام سی مٹی کچھ عرصہ کسی پُھول کی صحبت میں رہتی ہے تو اس کی خُوشبو سے مہک اٹھتی ہے تو جو پیارے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت سے بہرہ وَر ہو وہ کیونکر محروم رہ سکتا ہے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے بھی سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چشمۂ عِلْم وعمل سے سیراب ہو کر شب وروز اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی عِبادت میں گُزَارے اور اپنے بعد کے زمانے والوں کے لئے ایک اعلیٰ مِثال رقم کی، یہی وجہ ہے کہ زُہْد وعِبادت وغیرہ اَوْصَافِ عالیہ کے حوالے سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا شُمار اُن عورتوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ان صِفاتِ عالیہ میں تمام عورتوں کی سرداری کا دَرْجہ پایا، جیسا کہ تاریخ ابنِ کثیر میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بارے میں مذکور ہے: ”کَانَتْ مِنْ سَیِّدَاتِ النِّسَاءِ عِبَادَۃً وَّ وَرَعًا وَّ زَھَادَۃً وَّبَرًا وَّصَدَقَۃً حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا عِبادت، تقویٰ، زُہْد، نیکی اور صَدَقے کے اعتبار سے اُن عورتوں میں سے تھیں


 

جو تمام عورتوں کی سردار ہیں۔“([17]) اور حضرتِ سیِّدُنا علّامہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں: ”کَانَتْ صَفِیَّۃُ عَاقِلَۃً حَلِیْمَۃً فَاضِلَۃً حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بہت عقل مند، بُرْدبَار اور صاحِبِ فضل وکمال خاتون تھیں۔“([18]) آئیے! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چند اور فضائل ومَنَاقِب ملاحظہ کیجئے، چنانچہ

رضائے رسول کی طلب

پیاری پیاری اسلامی بہنو! سرورِ کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضی ایمان کے لئے سخت تباہ کن ہے یہی وجہ تھی کہ صحابہ وصحابیات رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہمیشہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضی سے بچتے رہتے تھے، ہر بات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پسندیدگی وناپسندیدگی کا خیال رکھتے تھے اور اگر کبھی کسی موقعے پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضی کا شبہ بھی ہو جاتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو راضی و خوش کرنے کی ہر کوشش کر ڈالتے، آئیے! اس سلسلے میں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی ایک ایمان اَفْرَوز اور سبق آمَوز حِکَایَت ملاحظہ کیجئے، چنانچہ رِوایَت کا خُلاصہ ہے کہ جب سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی پاک اَزْوَاج رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کو ساتھ لے کر حج کے لئے روانہ ہوئے تو راستے میں


 

حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا اُونٹ گر پڑا جس سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا رَو پڑیں۔ رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے دستِ رحمت سے ان کے آنسو پُونچھنے لگے لیکن یہ روتی رہیں۔ جب رونا بہت زیادہ ہو گیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سختی سے منع فرمایا اور لوگوں کو پڑاؤ کرنے کا حکم دے دیا حالانکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پڑاؤ کا ارادہ نہ تھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ایک خیمہ نصب کیا گیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس میں تشریف لے گئے۔ یکایک حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضی کا خوف لاحِق ہوا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دِل میں خوشی داخِل کرنے کے لئے اپنی باری کا دِن حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ہبہ کر دیا، چنانچہ رِوَایَت میں ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس جا کر کہا: آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو مَعْلوم ہے کہ میں رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ اپنی باری کا دِن کبھی کسی شے کے بدلے نہیں دے سکتی لیکن میں یہ آپ کو اس شرط پر دیتی ہوں کہ آپ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مجھ سے راضِی کر دیں۔([19])

پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کرم نوازی

ماہِ رَمَضان کے آخری عشرے کی بات ہے کہ جب سرکارِ مدینہ، راحتِ


قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھے، ایک رات حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کے لئے حاضِر ہوئیں، تھوڑی دیر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے گفتگو کی پھر جب واپس جانے کے لئے کھڑی ہوئیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی اُٹھ کر ان کے ساتھ چلے اور مسجد کے دروازے تک صحبتِ بابَرَکت سے نوازا۔([20])

عفو و درگزر

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی حِلْم وبُرْد بَاری اور عَفْو و دَرْگُزَر کی صفت بہت نمایاں تھی، دوسروں کی خطاؤں پر چَشْم پَوشی کرنا اور مُعَاف کر دینا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے اَخْلَاق کا ایک دَرَخْشاں (دَرَخْ-شَاں۔ روشن) پہلو تھا، چنانچہ ایک دفعہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی ایک باندی نے امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عُمَر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے پاس آ کر حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بارے میں کوئی جھوٹی بات کہی، بعد میں جب انہیں اس کا عِلْم ہوا تو اُس باندی سے پوچھا: تمہیں ایسا کرنے پر کس نے اکسایا؟ کہنے لگی: شیطان نے۔ اس پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عَفْو و دَرْگُزَر کی قابل تقلید مِثال قائم کرتے ہوئے فرمایا: ”اِذْھَبِیْ، فَاَنْتِ حُرَّۃٌ جاؤ! تم آزاد ہو۔“([21])


 

سَفَرِ آخِرَت

زمانے کو اپنے عِلْم وتقویٰ اور زُہْد وعِبادت کے نُور سے جگمگاتے ہوئے بالآخر رَمَضَانُ الْمُبَارَک کے مہینے میں بقولِ صحیح 50 ہجری کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اس جہانِ فانی سے کوچ فرمایا، یہ حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعَاوِیّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کا دورِ حکومت تھا۔بوقتِ وفات عمر مُبَارَک 60برس تھی۔ مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً کے مشہور قبرستان جَنَّتُ الْبَقِیْع میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو دفن کیا گیا۔([22]) اللہ عَزَّ  وَجَلَّ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی تُرْبَتِ مُبَارَک پر کروڑ ہا کروڑ رحمتیں اور برکتیں نازِل فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم.

حضرتِ ابن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کا عمل

جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے انتقال کی خبر حضرتِ سیِّدُنا عبد الله  بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا كو پہنچی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے اِسے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نِشانیوں میں سے بڑی نِشانی قرار دیا اور بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں سربسجود ہو گئے چنانچہ اس کا واقعہ ذِکْر کرتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں: ایک دفعہ ہمیں مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں کوئی آواز سنائی دی۔ حضرتِ عبد الله  بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا مجھ سے فرمانے لگے: اے عکرمہ! دیکھو، یہ کیسی آواز


 

ہے؟ فرماتے ہیں: میں گیا تو پتا چلا کہ پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجۂ مطہرہ حضرتِ صفیہ بنتِ حیی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہو گیا ہے۔ جب میں واپس آیا تو حضرتِ عبد الله  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو سجدے میں پایا حالانکہ ابھی سُورج طُلُوع نہیں ہوا تھا، اس لئے میں نے (تَعَجُّب کے طور پر) کہا: سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! آپ سجدہ کرتے ہیں، حالانکہ ابھی سُورج نہیں نکلا...؟ حضرتِ سیِّدُنا عبد الله  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے ارشاد فرمایا: کیا پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ نہیں فرمایا کہ جب تم کوئی نِشانی دیکھو تو سجدہ کرو۔ ”فَاَیُّ اٰیَۃٍ اَعْظَمُ مِنْ اَنْ یَخْرُجْنَ اُمَّھَاتُ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ بَیْنَ اَظْھُرِنَا وَ نَحْنُ اَحْیَاءٌ اس سے بڑی نِشانی اور کون سی ہو گی کہ اُمَّہَاتُ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ دنیا سے تشریف لے گئی ہیں اور ہم ابھی زندہ ہیں...؟“ ([23])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پیاری پیاری اسلامی بہنو! گُزَشتہ صَفْحات میں آپ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سیرت کے چند باب ملاحظہ کئے، سرورِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت کی بَرَکت سے ان کی زندگی عِبادت ورِیاضت اور زُہْد وتقویٰ کے نُور سے کس قدر نُورانی اور کس درجہ پاکیزہ تھی...!! اے کاش! ان کے صَدْقے ہماری زندگی بھی گُناہوں کی نجاست سے


 

 پاک ہو کر عِبادت اور تقویٰ کی خوشبوؤں سے مہک اُٹھے، ہمارے دِلوں سے گُناہوں کی میل دُھل جائے اور سینہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت کا خَزِینہ بن جائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم. پیاری پیاری اسلامی بہنو! اِن قُدسِی صِفات شخصیات کے طریقے کے مُطَابِق اپنے طرزِ حیات کو ڈھالنے کے لئے دعوتِ اِسْلامی کے مہکے مہکے اور پیارے پیارے مَدَنی ماحَول سے منسلک ہو جائیے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ  وَجَلَّ! اس مَدَنی ماحَول کی بَرَکت سے ہزاروں لاکھوں اِسْلامی بہنوں کی زندگیوں میں مَدَنی اِنْقِلاب برپا ہو گیا ہے اور گُناہوں کی دلدل میں دَھنسی ہوئی بےشُمار اِسْلامی بہنیں اس سے نکل کر حُضُور رِسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پاک ومقدس اَزْوَاج رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی سیرت کے سانچے میں ڈَھل گئی ہیں، آئیے! ایک ایسی ہی اِسْلامی بہن کی مَدَنی بہار ملاحظہ کیجئے:

میری اصلاح ہو گئی

دعوتِ اِسْلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 32 صَفْحات پر مشتمل رِسالے ”میں حَیَادار کیسے بنی؟“ کے صَفْحہ 15 پر ہے: باب المدینہ (کراچی) کے علاقے رنچھوڑ لائن (بغدادی) کی ایک اسلامی بہن کا کچھ اس طرح بیان ہے کہ میں گناہوں کے دلدل میں بری طرح دھنسی ہوئی تھی۔ نت نئے فیشن کی دلدادہ تھی۔ علم دین سے دُوری کی وجہ سے دنیا کی چکا چوند زندگی کو ہی اولین مقصد سمجھتی تھی جس کے باعث دنیا کی محبت دل میں گھر کر چکی تھی۔ میری اصلاح کی


 

صورت کچھ یوں ہوئی کہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے منسلک ایک اسلامی بہن کی انفرادی کوشش سے دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی اور دل کی کایا ہی پلٹ گئی۔ کل تک دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتی تھی، اس کی رنگینیوں کی طرف میلان تھا لیکن دعوت اسلامی کے مدنی ماحول کی برکتوں سے یاوہ گوئی، فیشن پرستی جیسے بُرے افعال سے چھٹکارا نصیب ہو گیا۔ نیت کی ہے کہ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! آخری دم تک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ رہوں گی۔

٭٭٭٭٭٭

چار فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

٭حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔

٭صدقہ برائیوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔

٭نماز مؤمن کا نور ہے       اور

٭روزہ دوزخ سے ڈھال ہے۔

[سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب الحسد، ص۶۸۳، الحديث:۴۲۱۰]


 

سیرتِ حضرت مَیْمُونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

سیر وسیاحت کرنے والے فِرِشتے

سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالِی شان ہے: ”اِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِیْنَ فِی الْاَرْضِ یُبَلِّغُوْنِیْ مِنْ اُمَّتِیَ السَّلَامَ یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے کچھ فِرِشتے زمین میں سیر وسیاحت کرتے ہیں جو میری اُمّت کا سَلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔“([24])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صلح حدیبیہ

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ذُوْالقعدۃُ الْحَرَام چھ۶ ہجری کی بات ہے کہ پیارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا پر حضرتِ عبد الله  بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو اپنا خلیفہ مُقَرَّر کیا اور چودہ سو (1400) سے زائد صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو اپنے ساتھ لے کر عمرہ کرنے کے لئے مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کی طرف روانہ ہوئے،([25]) لیکن کُفّارِ بد اَطوار آڑے آئے اور مسلمانوں کو مکہ شریف میں داخِل ہونے سے روک دیا، پھر کُفّار اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا ایک مُعَاہَدہ طے پایا


 

جسے تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مُعَاہدے کے مُطَابِق اس سال مسلمانوں کو بغیر عمرہ کئے ہی واپس جانا ہو گا البتہ آیندہ سال عمرہ کرنے آئیں گے لیکن صرف تین۳ دِن ٹھہر کر واپس چلے جائیں گے۔ جب صلح نامہ مکمل ہو گیا تو نبی محترم، شفیع معظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حدیبیہ کے میدان میں ہی اِحْرَام کھولا، قربانی کی اور پھر اپنے اَصْحاب رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے ساتھ واپس مدینہ شریف تشریف لے آئے۔([26])

واپسی کے بعد...

اس صلح کے بعد چونکہ کُفّارِ قُرَیش کی جانِب سے جنگ وجِدال کے خطرات ٹل گئے تھے اور ایک طرح سے اَمْن وسُکُون کی فِضا پیدا ہو گئی تھی اس لئے اب سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دُور دَراز کے علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو بھی اِسْلام کی دعوت دینے کا اِرادہ فرمایا کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورِسَالَت کسی ایک علاقے، شہر اور  ملک میں مَحْدُوْد نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورِسَالت کا دائرہ تو تمام عالَم کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تمام مخلوقات کے نبی ہیں اور کائنات کی کوئی شے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورِسَالت پر ایمان لانے سے بےنیاز نہیں۔ چنانچِہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عرب وعجم کے مختلف سَلَاطِیْن اور بادشاہوں کی طرف خُطُوط روانہ فرمائے اور اُنہیں اِسْلام کی طرف


 

بُلایا۔ صلح حدیبیہ کے بعد بادشاہوں کو دعوتِ اسلام دینے کے علاوہ اور بھی کئی واقعات پیش آئے جن میں سے ایک مشہور واقعہ غزوۂ خیبر اور اس کے بعد حضرتِ صفیہ بنتِ حیی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح کا ہے۔ بہرحال وَقْت رفتہ رفتہ گزرتا رہا اور آیندہ سال روانگی کے دِن قریب آتے رہے اور پھر انتظار کے دن بِیْت (گزر) گئے اور وہ سُہَانی گھڑی بھی آ ہی گئی جب ماہِ ذُوْ القعدۃُ الْحَرَام سات۷ ہجری کا چاند نظر آتے ہی طیبہ کے چاند صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان كو رَخْتِ سفر باندھنے کا فرمایا اور عمرہ کی تیاری کرنے کا حکم دیا۔

عمرۃ القضا

رِوَایت میں ہے کہ جب ذُوْالقعدۃُ الْحَرَام کا چاند نظر آیا تو شاہِ بحر وبر، محبوبِ ربِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اَصْحاب رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کو حکم فرمایا کہ ”اپنے گُزَشتہ عمرے کی قضا کریں اور جو لوگ حدیبیہ میں مَوْجود تھے اُن میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔“ فرمانِ رسول پر لبیک کہتے ہوئے سب ہی عمرے کے لئے نکل کھڑے ہوئے سِوائے اُن حضرات کے جو غزوۂ خیبر میں جامِ شہادت نَوش فرما چکے تھے یا جن کا انتقال ہو چکا تھا، بہت سارے وہ لوگ بھی ان کے ساتھ ہو لئے جو حدیبیہ میں مَوْجود نہ تھے۔ اس طرح عورتوں اور بچوں کے سِوا کُل تعداد دو۲ ہزار (2,000) تک پہنچ گئی۔([27]) پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا پر حضرتِ ابورُہْم کلثوم بن حصین


 

غِفَاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ یا کسی اور صحابی کو اپنا خلیفہ ونائب مُقَرَّر کیا اور جانِبِ مکہ سفر کا آغاز فرما دیا۔([28])

حضرتِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی درخواست

اس سفر کا ایک مشہور واقعہ شہنشاہِ ذِی وَقار، محبوبِ رَبُّ العباد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمانا ہے جس کی وجہ سے اس سفر کی شہرت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے چنانچہ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو شرفِ ہم راہی سے نوازتے ہوئے جُحْفَہ([29]) کے مقام پر پہنچے تو یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا حضرتِ عبّاس بن عَبْدُالْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ملاقات کی اور حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے عرض کیا کہ اُن کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اُن سے نِکاح کی درخواست کی۔([30]) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے قبول فرما لیا۔

حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو پیغامِ نِکاح

ایک رِوَایَت کے مُطَابِق جب سرورِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ


 

 وَسَلَّم یَاْجَج([31]) کے مقام پر پہنچے تو یہاں سے حضرتِ جعفر بن ابوطالِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی طرف بھیجا تا کہ وہ اِنہیں سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نِکاح کا پیغام دیں۔([32]) مروی ہے کہ جس وَقْت اِنہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف سے نِکاح کا پیغام پہنچا اُس وَقْت یہ اُونٹ پر سوار تھیں، یہ جاں اَفْرَوز خبر پا کر خود کو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ہبہ کرتے ہوئے کہنے لگیں: ”اَلْبَعِيْرُ وَمَا عَلَيْهِ لِلّٰهِ وَلِرَسُوْلِهٖ اُونٹ اور جو اس پر ہے خُدا عَزَّ وَجَلَّ اور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہے۔“([33]) اس پر اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے یہ آیَتِ مُبَارَکہ نازِل فرمائی: ([34])

وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَاۗ-خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ- (پ۲۲، الاحزاب:۵۰)

 ترجمۂ کنزالایمان:اور ایمان والی عورت اگر وہ اپنی جان نبی کی نذر کرے اگر نبی اسے نِکاح میں لانا چاہے یہ خاص تمہارے لئے ہے اُمّت کے لئے نہیں۔

مروی ہے کہ حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنا مُعَامَلہ حضرتِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے سپرد کر (کے اُنہیں اپنے نِکاح کا وکیل بنا) دیا، پھر حضرتِ عبّاس


 

رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ان کا نِکاح کر دیا([35]) اور چار۴ یا پانچ۵ سو دِرْہَم مہر مُقَرَّر کیا۔([36])

مکہ شریف آمد اور قیام

حُضُور شہنشاہِ موجودات، باعِثِ خَلْقِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سفر کی تمام مَنَازِل طے کر کے چار۴ ذُوْالقعدۃُ الْحَرَام کی صبح کو مکہ شریف پہنچے۔([37]) جب یہ حضراتِ قدسیہ مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں داخِل ہوئے تو کفر وشرک کی نجاست سے آلود کُفّار ومُشْرِکِیْن کے دِل غیظ وغضب سے بھر گئے، اِسْلام اور پیغمبر اِسْلام کے خِلَاف اُن کے دِلوں میں جو نفرت وعداوت کی آگ جل رہی تھی اور زِیادہ بھڑک اُٹھی حتی کہ رِوَایَت میں ہے کہ مُشْرِکِیْن کے سرداروں میں سے بعض بدبخت غیظ وغضب اور حسد کی وجہ سے دُور چلے گئے تا  کہ جانِ رَحْمَت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نہ دیکھ پائیں۔ بہرحال سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین۳ روز تک مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں قیام فرمایا۔([38])


 

چوتھے دن ظہر کے وَقْت سُھَیْل بن عَمْرو اور حُوَیْطِب بن عَبْدُالْعُزّٰی آئے، اس وَقْت پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انصار کی مجلس میں تشریف فرما تھے اور حضرتِ سَعْد بِن عُبَادَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے گفتگو کر رہے تھے، وہ آ کر کہنے لگے: آپ کی مدت ختم ہو گئی ہے لہٰذا ہمارے پاس سے چلے جائیے۔ نبی محترم، شفیع معظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اگر تم مجھے کچھ دیر اور رہنے دو تا کہ میں یہاں رَسْمِ عَرُوْسِی ادا کر سکوں تو اس میں تمہارا کیا جاتا ہے، نیز اس کے بعد میں تمہارے لئے کھانے کا بھی اہتمام کروں گا...؟ اُنہوں نے کہا: ہمیں آپ کے کھانے کی کوئی حاجت نہیں، بس! ہمارے ہاں سے چلے جائیے، اے مُحَمَّد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)! ہم آپ کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور اس عہد کا واسطہ دیتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہوا تھا کہ ہماری زمین سے  چلے جائیے کیونکہ معاہدے کے تین۳ دِن پورے ہو چکے ہیں۔ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ اُن کی سخت کلامی دیکھ کر حضرتِ سَعْد بن عُبَادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ غضب ناک ہو گئے اور سہیل سے کہنے لگے: تُو نے جھوٹ کہا ہے، یہ زمین تیری ہے نہ تیرے باپ کی، خُدائے ذُوْالجلال کی قسم! ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے مگر اپنی خوشی ورِضا سے۔

مکہ سے روانگی اور مقامِ سرف میں قیام

حضرتِ سَعْد بن عُبَادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کا جواب سَماعَت فرما کر پیارے آقا، دوعالَم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اے سَعْد! ان لوگوں کو


 

 تکلیف مَت دو جو ہماری جائے قیام میں ہم سے ملنے آئے ہیں، پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ ابورافِع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو کُوچ ( کا اِعْلان کرنے) کا حکم دیا اور فرمایا کہ کسی مسلمان کو یہاں شام نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سوار ہو کر چلے حتی کہ مقامِ سرف([39]) میں پہنچ کر ٹھہرے، تمام لوگ بھی پہنچ گئے صرف حضرتِ ابورافِع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پیچھے چھوڑ دیا تھا تا کہ وہ حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو لے آئیں۔ حضرتِ ابورافِع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ شام تک وہاں ٹھہرے رہے پھر شام کے وَقْت حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو لے کر  چلے([40]) اور مقامِ سرف میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضِر ہو گئے۔ اس مقام پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رَسْمِ عَرُوْسِی ادا فرمائی اور پھر رات کے ابتدائی حصے میں جانِبِ مدینہ سفر کا آغاز فرما دیا۔([41])

سیرتِ صحابہ  کے چند روشن باب

پیاری پیاری اسلامی بہنو! گُزَشتہ صَفْحات میں آپ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے سرکارِ نامدار، دوعالَم کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح کا واقعہ ملاحظہ کیا، اس سے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ


 

 الرِّضْوَان کی سیرت کے ایسے بہت سے روشن وچمک دار باب ہمارے سامنے آتے ہیں جن پر عمل کے نتیجے میں ہماری دنیا بھی سنور سکتی ہے اور آخرت بھی۔ آئیے! ان میں سے چند ایک ملاحظہ کیجئے:

}مَعْلُوم ہوا کہ اِنہیں پیارے آقا، دوعالَم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے انتہائی محبت بلکہ عشق تھا حتی کہ اپنے مال، جان، اَوْلاد اور ہر چیز سے بڑھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو عزیز جانتے تھے، جیسا کہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عمل سے پتا چلتا ہے کہ جب اِنہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پیغام پہنچا تو فرطِ محبت وشوق سے پُکار اُٹھیں: ”اَلْبَعِيْرُ وَمَا عَلَيْهِ لِلّٰهِ وَلِرَسُوْلِهٖ اُونٹ اور جو کچھ اس پر ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہے۔“([42])

}یہ بھی ان حضرات کا عشق رسول ہی تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں بےاَدَبی کا ایک جملہ بھی گوارا نہ کرتے تھے جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا سَعْد بن عُبَادَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے عمل سے پتا چلتا ہے کہ جب کُفّار کے نمائندوں نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کچھ سخت کلامی کی تو یہ غضب ناک ہو گئے اور اُنہیں منہ توڑ جواب دیا۔

}نیز مَعْلُوم ہوا کہ یہ حضراتِ قدسیہ رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت وفرمانبرداری اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم کی بجا آوری کو ہر چیز پر ترجیح دیتے تھے اور ہمیشہ ہر معاملے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا وخُوشْنُودی کا حُصُول ان کے پیش نظر ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا وآخرت میں اِنہیں شرف وکرامت کا وہ عالی وبلند مقام نصیب ہوا کہ بڑے سے بڑا ولی ان کی گردِ راہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تَعَارُفِ سیِّدَتُنا مَیْمُونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ابھی آپ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ بنتِ حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی زندگی میں آنے والی اس دِل افروز ساعت کے بارے میں پڑھا جس کے بعد اِنہیں ایک نیا نام اور نئی پہچان حاصِل ہوئی، وہ عالی وبلند مقام نصیب ہوا جس سے یہ اُمُّ المؤمنین (تمام مؤمِنوں کی ماں ہونے) کے اَعْلیٰ منصب پر فائز ہو گئیں اور شب وروز سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اقدس میں گزارتے ہوئے دین و دنیا کی بھلائیاں سمیٹنے لگیں۔ آئیے! اب ان کے نام ونسب اور خاندان کے حوالے سے چند ابتدائی باتیں ملاحظہ کیجئے:

نام ونسب

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا  کانام پہلے بَرَّہ تھا،سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تبدیل فرما کر میمونہ رکھا۔ والِد کانام حارِث ہے اور والِدہ ہِند بنتِ عَوف


 

ہیں۔ والِد کی طرف سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب اس طرح ہے: ”مَیْمُونَه بنتِ حارِث بن حَزَن بن بُجَیربن ھُزَم بن رُوَیْبَه بن عبد اللہ بن هِلال بن عامِربن صَعْصَعَه بن مُعَاوِیّه بن بَكْر بن هَوَازِن بن منصور بن عِكْرِمَه بن خَصَفَه بن قيس بن عَيْلان بن مُضَر“ اور والِدہ کی طرف سے یہ ہے: ”هِند بنتِ عَوْف بن زُھَیْر بن حارِث بن حماطہ بن حِمْیَر([43])

رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کا اِتِّصَال

حضرتِ مُضَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ میں جا کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے مِل جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت مُضَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے 18ویں جَدِّ محترم ہیں۔

کاشانۂ نَبَوِی میں آنے سے پہلے...

جب اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے بچپنے کی سیڑھیوں کو پھلانگ کر شُعُور کی وادیوں میں قدم رکھا تو سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح مَسْعُود بن عمرو ثقفی سے ہوا لیکن کسی وجہ سے دونوں میں علیٰحدگی ہو گئی پھر ابو رُہْم بن عَبْدُ الْعُزّٰی کے نِکاح میں آئیں، کچھ عرصہ بعد جب اس کا انتقال ہو گیا تو سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتۂ اِزْدِوَاج


 

میں منسلک ہوئیں۔([44])

خاندانی شرافت وعَظَمَت

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا تَعَلُّق اُس معزز گھرانے سے تھا جسے شرافت و عَظَمت نے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے اس عالی رتبہ خاندان کو ایسے بہت سے اعزازات سے نوازا تھا جن پر زمانہ رشک کرتا ہے چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی والِدہ ہند بنتِ عَوف کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ سسرالی رشتوں کے اعتبار سے سب سے معزز خاتون ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ  ان کی دو۲ بیٹیاں حضرتِ سیِّدَتُنا زینب بنتِ خُزَیْمہ اور حضرت سیِّدَتُنا میمونہ بنتِ حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا تو سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آئیں کہ جب حضرت سیِّدَتُنا زینب بنتِ خُزَیْمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہو گیا تو پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نکاح فرمایا اور دیگر بیٹیاں بھی مُعَزّز تَرِین اَفْرَاد کے ساتھ رشتۂ اِزْدِوَاج میں منسلک تھیں، چنانچہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا حضرتِ سیِّدُنا عبّاس اور حضرتِ سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا نیز  حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق، حضرتِ سیِّدُنا عَلِیُّ المرتضیٰ، حضرتِ سیِّدُنا جعفر بن ابوطالِب اور حضرتِ سیِّدُنا شَدَّاد بن ہَاد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم جیسے عمائدینِ اِسْلام بھی


 

 ان کے دامادوں میں شامِل ہیں۔([45])

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے قرابت داروں میں  ایسے بہت سے مَردوں اور عورتوں کے نام آتے ہیں  جو اِسْلام لا کر شرفِ صحابیّت سے مُشَرَّف ہوئے اور پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَجِلّہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی فَہْرِسْت میں شامِل ہوئے، یہاں ان میں سے چند کا ذِکْر کیا جاتا ہے، چنانچہ

٭حضرتِ اُمِّ فضل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سگی بہن ہیں۔ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے چچا جان حضرتِ سیِّدُنا عبّاس بن عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کی زَوْجہ اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے شہزادے، جلیل القدر صحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا عبد الله  بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کی والِدہ ماجِدہ ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نام لُبَابَہ ہے اور لُبَابَۃُ الْکُبْریٰ کہا جاتا تھا۔ قدیمُ الْاِسْلام صحابیات میں سے ہیں، ایک قول کے مُطَابِق اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بعد سب سے پہلے اِسْلام قبول کرنے والی خاتون آپ ہی ہیں۔رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے گھر قیلولہ (دوپہر کے وَقْت کا آرام) فرمایا کرتے تھے۔([46])

٭حضرتِ سلمیٰ بنتِ عمیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

اُمُّ  المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی اَخْیَافِی (ماں شریک) بہن


 

ہیں، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا جان سیِّدُ الشہدا حضرتِ سیِّدُنا حمزہ بن عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کی زوجۂ محترمہ تھیں اور ان کی شہادت کے بعد حضرتِ سیِّدُنا شدّاد لیثی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے نِکاح میں آئیں۔([47])

٭حضرتِ اَسْماء بنتِ عمیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا

یہ بھی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی اَخْیَافی (ماں شریک) بہن ہیں۔ قَدِیْمُ الْاِسْلام صحابیہ ہیں۔ پہلے حضرتِ سیِّدُنا جعفر بن ابوطالِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے نِکاح میں تھیں اور اِنہیں کے ساتھ حبشہ اور مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً کی طرف ہجرت کی، جب یہ کسی غزوے میں شہادت سے سرفراز ہوئے تو امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیْق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے نِکاح میں آئیں اور جب ان کا انتقال ہو گیا تو حضرتِ سیِّدُنا عَلِیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْـکَرِیْم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمایا۔([48])

نوٹ

مذکورہ بالا تینوں صحابیات اور حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو سرکارِ عالی وقار، محبوبِ رَبُّ العباد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اَلْاَخَوَاتُ الْمُؤْمِنَات کے عَظِیْمُ الشَّان خِطاب سے نوازا ہے۔([49])


 

٭حضرتِ عَبدُالله  بن  عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ

یہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھانجے ہیں اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سگی بہن حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ فضل لُبَابَۃُ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے صاحبزادے ہیں۔ ہجرت سے تین۳ سال پہلے وِلادت ہوئی اور آقائے دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے ظاہِری پردہ فرمانے کے وَقْت 13برس کے تھے۔ حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے لئے عِلْم وحکمت کی دُعا فرمائی تھی۔ دو۲ مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زیارت کی سَعَادت حاصِل کی۔ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو بہت زیادہ قرب حاصِل تھا حتی کہ اَجِلّہ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ساتھ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو بھی مشورے میں شامِل رکھتے تھے۔ آخِرِ عمر میں نابینا ہو گئے تھے اور 68ہجری کو 71 سال کی عمر پاکر طائف میں وفات پائی۔([50])

٭حضرتِ خالِد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ

یہ بھی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھانجے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں قریش کے سرداروں میں سے تھے، پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو سَیْفُ اللہ کے عَظِيْم لقب سے نوازا تھا۔


 

خِلَافتِ فاروقی میں 21ہجری میں وفات پائی([51]) اور سو (100) لشکروں میں شریک ہوئے، بوقتِ وفات جِسْمِ مُبَارَک میں بالشت بھر جگہ بھی ایسی نہیں تھی جس پر چوٹ، نیزے یا تلوار کا نِشان نہ ہو۔([52])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مُتَفَرِّق فضائل ومَنَاقِب

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خُدائے ذُوْالجلال نے اپنے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پاک اَزْوَاج کو بہت عالِی رتبہ صفات سے نوازا تھا، احکامِ شرع کی پاس داری، تقویٰ وپرہیزگاری، زُہْد وعِبادت الغرض ایسی بےشُمار صفات ہیں کہ اگر اُن کے زاویے میں اُمّت کی اِن مقدس ماؤں کو دیکھا جائے تو دنیا جہاں کی سب عورتوں سے نمایاں اور اُونچے مقام پر نظر آئیں گی۔ زیرِ نظر بَیَان چونکہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سیرتِ طَیِّبَہ پر مشتمل ہے جو اُمَّہَاتُ المؤمنین کے سلسلے کی آخری کڑی ہے چنانچہ یہاں اِنہیں کی ایک عالِی رتبہ صفت کا تذکرہ کیا جاتا ہے، ملاحظہ کیجئے:

شریعت کی پاس دَاری

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا ایک بہت ہی نمایاں وَصْف شریعت کی پاس داری ہے، ایک دفعہ کا ذِکْر ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا کوئی قریبی  عزیز آپ کے پاس


 

آیا، اُس کے منہ سے شراب کی بُو آ رہی تھی جس پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اُسے فوراً شرعِی عَدَالت میں حاضِر ہو کر اِعْتِرَافِ جُرْم کرنے اور اُس کی سزا پانے کا حکم دیا حتی کہ رِوَایَت میں ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے فرمایا: ”لَئِنْ لَّمْ تَخْرُجْ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ فَیَجْلِدُوْکَ لَا تَدْخُلْ عَلٰی بَیْتِیْ اَبَدًا اگر تم مسلمانوں کے پاس نہ گئے تا کہ وہ تجھے کوڑے لگائیں،تو آیندہ کبھی میرے گھر نہ آنا۔ “([53])

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ...! حکم شرعی کے سلسلے میں کسی کی رِعَایَت نہ کرنا اور ہر تعلق ورشتے داری کو بالائے طاق رکھ کر اس پر خود بھی عمل کرنا اور دوسروں کو بھی عمل کا درس دینا وہ بنیادی وَصْف ہے جو دین اِسْلام کے اَوَّلِیْن پیروکاروں حضراتِ صحابۂ کرام اور صحابیات رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی عَظَمت کا سکہ ہمارے دِلوں میں اور زیادہ پختہ کرتا ہے اور دشمن بھی ان کی عَظَمَت کا اِعْتِرَاف کئے بغیر نہیں رہتا لیکن بدقسمتی سے آج کا مسلمان اپنے اَسْلاف کے طریقے سے ہٹتا چلا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ کُفّار کے دِلوں میں اِسْلام کی ہیبت وعَظَمَت کا جو سکہ وہ حضرات اپنے عمل سے بِٹھا گئے تھے آج وہ خَتْم ہوتا جا رہا ہے اور دین اِسْلام کے ماننے والوں کو ہر طرف سے پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا ہے۔ آہ...!!

؏گنوا دِی ہم نے جو اَسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو  دے  مارا([54])


 

حالتِ احرام میں نِکاح

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ اعزاز بھی حاصِل ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کو متعدد مسائل کا حل آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ذریعے سے مِلا ہے جن میں سے ایک مسئلہ حالتِ اِحْرَام میں نِکاح کرنے کا ہے چونکہ پیارے آقا، دوعالَم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمایا اس وَقْت حالتِ اِحْرَام میں تھے جیسا کہ بخاری شریف کی رِوَایَت میں ہے: ”تَزَوَّجَ مَيْمُوْنَةَ وَ هُوَ مُحْرِم سرکارِ والا تبار، مکے مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے حالتِ اِحْرَام میں نِکاح فرمایا۔“([55]) چنانچہ اس سے یہ مسئلہ مَعْلُوم ہو گیا کہ مُحْرِم (جس نے حج یا عمرے کا اِحْرَام باندھا ہو اُس) کو اس حالت میں نِکاح کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔

سنّتِ مسواک

مِسْواک پیارے آقا  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی  بہت ہی پیار ی سنّت ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خود بھی کثرت  سے  اس کا استعما ل فرمایا ہے اور اُمَّت کو بھی اس کی بہت  تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا: اگر مجھے مؤمنین کو مشقت میں ڈالنے کا خوف نہ ہوتا تو اِنہیں نمازِ عشا تاخیر سے پڑھنے اور ہر نماز کے وَقْت مِسْواک کرنے  کا حکم دیتا۔([56])


 

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! اس سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مِسْواک سے محبت کا پتا چلتا ہے، یہی وجہ تھی کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جو  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی  ہر ہر ادا  کو   دیوانہ وار اپنا تےتھے ، یہ کیونکر ممکن تھا  کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس قدر  تاکید ی حکم کو  پس پشت ڈال  دیتے  اور عمل سے روگردانی کرتے  ...؟اُن شمع رسالت  کے پروانوں  نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس حکم پر عمل کے حوالے سے بھی  تقلیدی کردار ادا کیا ہے اور تاریخ کے صفحا ت  میں ایک اَعْلیٰ مِثال رقم کی  ہے۔آئیے اس سلسلے میں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا عمل ملا حظہ کیجیے، چنانچہ رِوَایَت میں ہے کہ آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا مِسْواک کو پانی میں بھگو کر رکھتی تھیں اگر نماز یا کسی اور کام میں مشغولیت نہ ہوتی تو مِسْواک اُٹھا کر کرنے لگتیں۔([57])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سیِّدَتُنا مَیمُونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی

پاکیزہ  حَیَات کے چند نمایاں پَہْلُو

}آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا حُضُور سیِّد المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجۂ مطہرہ اور اُمُّ المؤمنین (تمام مؤمِنوں کی امّی جان) ہیں۔

}رسولِ رَحمت، شفیع اُمّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سب سے آخری زوجۂ مطہرہ ہیں۔


 

}اُن عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے خُود کو پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ہبہ کر دیا تھا۔

}پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے حالتِ احرام میں نِکاح فرمایا۔([58])

}اُن چار۴ بہنوں میں سے ہیں جنہیں سیدِ عَالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اَلْاَخَوَاتُ الْمُؤْمِنَات کے دِل نشین خِطَاب سے نوازا تھا۔([59])

}آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ خُصُوصیت حاصِل ہے کہ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مقامِ سرف میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمایا، اسی مقام پر رَسْمِ عَرُوْسِی ادا فرمائی، پھر اسی مقام پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہوا۔([60]) اور اسی مقام پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی مُبَارَک تُرْبَت (قبر) بنی۔

سفرِ آخِرَت

زمانہ ایک عرصے تک آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عِلْم وعمل، زُہْد وعِبَادت اور تقویٰ وپرہیزگاری کے نور سے چمکتا دمکتا رہا بالآخر وہ وَقْت قریب آیا جس میں آپ نے اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا تھا، اس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا مَکَّۃُ


 

الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً میں تھیں، رِوَایَت میں ہے کہ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے مرضِ وفات نے شدت اختیار کی تو فرمانے لگیں: مجھے مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً سے باہر لے جاؤکیونکہ میرے سرتاج، صاحِبِ مِعْرَاج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے بتایا ہے کہ میرا انتقال مکہ میں نہیں ہو گا۔ چنانچہ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو مکہ شریف سے باہر مقامِ سرف میں اُس دَرَخت کے پاس لایا گیا جس کے نیچے ایک خیمے میں رسولِ رحمت، شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ رَسْمِ عَرُوْسِی ادا فرمائی تھی تو آپ کا انتقال ہو گیا۔([61])

سالِ وفات

صحیح قول کے مُطَابِق 51ہجری کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پیکِ اَجَل کو لبیک کہا اور اپنے آخرت کے سفر کا آغاز فرمایا۔([62]) یہ حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعَاوِیَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کا دورِ حکومت تھا۔

حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت کا احترام

رِوَایَت میں ہے کہ اُمُّ المؤمنین  حضرتِ سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے انتقال کے بعد آپ کے بھانجے حضرتِ سیِّدُنا عبد الله  بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا نے لوگوں سے فرمایا: یہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجہ پاک


 

ہیں، جب تم ان کا جنازہ اُٹھاؤ تو نہ زور سے ہِلاؤ نہ جھٹکے دو، ان پر بہت نرمی کرو۔([63])

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ...! اس سے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے عشق رسول کا پتا چلتا ہے کہ ان حضراتِ قدسیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم کے قُلُوب واَذْہَان میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی الفت ومحبت اس قدر پختہ تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت کا بھی اِحْتِرَام کرتے تھے۔ یاد رکھئے! شمع رسالت کے ان حقیقی پروانوں حضراتِ صحابۂ کرام و صحابیات رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کا طریقہ ہمارے لئے بہترین راہ عمل ہے اور یہ ہمیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہر ہر نسبت کا اَدَب واِحْتِرَام بجا لانے کی تلقین کرتا ہے۔

نمازِ جنازہ اور تدفین

عَظِیْم صحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا عبد الله  بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور پھر قبر میں بھی اُترے۔([64])

رِوَایتِ حدیث

احادیث کی رائج کُتُب میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے مروی احادیث کی کُل تعداد 76ہے جن میں سے سات۷ مُتَّفَقٌ عَلَیْه (یعنی بخاری ومسلم دونوں میں) ہیں۔([65])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

 پیاری پیاری اسلامی بہنو! سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِن پاک اَزواج  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی سیرت  ہمارے  لئے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہے، ہمیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ان پاک و طیب ازواج رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی سیرت کے مطابق اپنے طرزِ حیات کو ڈھالنا چاہئے تا کہ دنیا وآخرت میں فلاح وکامرانی سے ہم کنار ہوں اور روزِ قیامت جب میدانِ حشر میں حاضِر ہوں تو ربّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کی رحمت کے سائے تلے ہوں۔ آئیے! اپنی زندگی کو سیرتِ اَسْلاف کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے دعوتِ اِسْلامی کے مہکے مہکے مَدَنی ماحول سے منسلک ہو جائیے کیونکہ اس مَدَنی ماحول کی برکت سے بےشُمار اِسْلامی بھائیوں اور اِسْلامی بہنوں کی زندگیوں میں مَدَنی انقلاب برپا ہو گیا اور فلموں ڈراموں، گانے باجوں اور فیشن کے رسیا لاکھوں افراد مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّتوں کے دیوانے بن گئے ہیں۔ آئیے! ایک ایسی ہی اِسْلامی بہن کی مَدَنی بہار ملاحظہ کیجئے:

اِنْفِرَادی کوشِش کی بَرَکت

باب المدینہ (کراچی) میں رہائش پذیر ایک اِسْلامی بہن کے بیان کا خُلاصہ ہے کہ دعوتِ اِسْلامی کے مشکبار مَدَنی  ما حول  سے وابستگی سے قبل ہمارے  گھر والے بدعملی کا شِکار تھے، گھر میں ہر وَقْت فلموں ڈراموں اور گانے باجوں کی آوازیں   گونجتی رہتیں، سبھی گھر والے اپنی قبر کے امتحان کو بُھلائے غفلت کی چادر  تانے اپنے انمول ہیرے  ٹی وی دیکھتے ہوئے ضائع کر دیتے  تھے۔ یہی وجہ تھی کہ


 

 گھر میں بےسُکُونی اور وحشت کی فضا قائم رہتی، گھر کی خواتین بی بی فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی اداؤں کو اپنا کر اپنی قبر وآخرت کو سنوارنے کے بجائے فلمی بےحیا اداکاراؤں کی بےہودہ  حرکات و سکنات کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں۔ گھر کا ہر فرد فیشن  کی دنیا میں سرگرداں تھا ، کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو بارگاہِ الٰہی میں سربسجود ہونے کی سَعَادت پاتا ہو، نمازوں کی ادائیگی کا دُور دُور تک ذہن نہ تھا، روزانہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ   کے گھر سے مُنَادِی فلاح و کامیابی کی دعوت  دیتا مگر ہمارے کان تو گانے باجے کے اس قدر عادی ہو چکے  تھے کہ ان نورانی صداؤں کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ الغرض سارا گھر گناہوں کی نُحُوست میں ڈوب چکا تھا۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ   دعوتِ اِسْلامی کو ترقی و عُرُوج  عطا فرمائے جو اس پُر فِتَن دَور میں لوگوں کو گناہوں کی دلدل سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، خوش قسمتی سے ایک دن دعوتِ اِسْلامی کے مشکبار مَدَنی ماحول سے وابستہ ایک باپَردہ اِسْلامی بہن نے ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دی، انہوں نے دِل موہ لینے والے انداز میں سلام کرتے ہوئے اندر آنے کی اجازت طلب کی، اجازت ملنے پر وہ گھر میں داخِل ہوئیں اور گھر کی تمام خواتین کو قریب آنے کی اور  نیکی کی دعوت سننے کی دعوت پیش کی۔ اُن کی پُر اثر زبان سے فکرِ آخرت کی باتیں سن کر دِل میں ایک ہلچل سی مچ گئی، اُنہوں نے دعوتِ اِسْلامی کے تحت ہونے والے اِسْلامی بہنوں کے سنّتوں  بھرے اجتماع میں شریک ہو کر عِلْمِ دِین کی بَرَکَتیں سمیٹنے کا ذہن دیا، ان کی پُرخُلُوص دعوت کی بَرَکَت یوں ظاہِر ہوئی کہ ہم بہت جلد ہی سنّتوں  بھرے اجتماع میں جانے لگیں ،


 

اجتماع میں ہونے والے پُرسَوز بیانات اور رِقّت انگیز دُعاؤں نے دِل پر چھائے ”غفلت“ کے پردے چاک کر دئیے، جس کے سبب گناہوں سے نفرت اور نیکیوں سے محبت ہو گئی،فلمیں ڈرامے، گانے باجے دیکھنے سننے سے سبھی نے توبہ کرلی، نمازوں کی پابندی شروع کر دی اور بےپردگی کو چھوڑ کر شرعی پردہ کرنے لگیں، گھر میں سکون کی  فضا قائم ہو گئی، ہمارا  سارا گھرانا سنّت کا گہوارہ بن گیا، گھر کا ہر  ایک فرد قبر وآخرت کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ  وَجَلَّ! تادمِ تحریر سب گھر والے دعوتِ اِسْلامی سے بےپناہ محبت کرتے اور مَدَنی کاموں کی ترقی وعروج کے لیے اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ میرا چھوٹا بھائی مدرسۃ المدینہ میں حفظ کی سَعَادت پا رہا ہے۔ یہ سب فیضان دعوتِ اِسْلامی ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی غُلامی پر استقامت اور دعوتِ اِسْلامی کے مشکبار مَدَنی ماحول میں رہ کر خوب خوب نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔([66])

٭٭٭٭٭٭

زیادہ ہنسنے کی ممانعت

فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: زیادہ نہ ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مُردہ کر دیتا ہے۔ [سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب الحزن والبكاء، ص۶۸۱، الحديث:۴۱۹۳]

٭٭٭٭٭٭

فرمانِ مصطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اس عِلْم کا سوال کرو جو فائدہ پہنچائے اور اس عِلْم سے پناہ مانگو جو فائدہ نہ پہنچائے۔ [سنن ابن ماجة، كتاب الدعاء، باب ما تعوذ منه...الخ، ص۶۱۶، الحديث:۳۸۴۳]

 

مآخذ و مراجع

٭

القرآن الكريم

كلامِ بارى تعالىٰ

٭٭٭

ترجمۂ قرآن وتفاسیر

1

كنـزالايمان فى ترجمة القرآن

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، متوفی۱۳۴۰ھ

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۳۲ھ

2

تفسير البغوى

امام محی السنۃ  ابو محمد حسین بن مسعود بغوی، متوفی ۵۱۶ھ

پشاور۱۴۲۳ھ

3

الدر المنثور

امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابوبکر سیوطی شافعی ، متوفی ۹۱۱ھ

دار الفکر بیروت ۱۴۳۲ھ

4

تفسير روح المعانى

شہاب الدین ابو فضل سید محمود  آلوسی بغدادی ، متوفی۱۲۷۰ھ

دار احیاء التراث العربی بیروت

5

خزائن العرفان

مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، متوفی۱۳۶۷ھ

       مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۳۲ھ

 

6

نور العرفان

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

نعیمی کتب خانہ گجرات

7

تفسیر نعیمی

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

نعیمی کتب خانہ گجرات

احادیث وشُرُوحات

8

المؤطا برواية يحيی بن يحيی الليثى

امام دارِ ہجرت مالک بن انس بن مالک مدنی، متوفی۱۷۹ھ

دار المعرفہ بیروت ۱۴۳۳ھ

9

المصنف فى الأحاديث والآثار

امام عبدالله  بن محمد ابن ابو شیبہ،

     متوفی۲۳۵ھملتان پاکستان

10

المسند

امام ابو عبدالله  احمد بن محمد بن حنبل، متوفی۲۴۱ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۹ھ

11

صحيح البخاری

امام ابو عبد الله  محمد بن اسماعیل بخاری، متوفی۲۵۶ھ

دار المعرفہ بیروت۱۴۲۸ھ

 

12

الأدب المفرد   

امام ابو عبدالله  محمد بن اسماعیل بخاری، متوفی۲۵۶ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۰ ھ

 

13

صحيح مسلم

امام ابو حسین مسلم بن حجاج قشیری، متوفی۲۶۱ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت 2008ء

 

14

سنن ابن ماجه

امام ابن ماجہ محمد بن یزید قزوینی، متوفی۲۷۳ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت 2009ء

 

15

سنن ابی داؤد    

امام ابو داود سلیمان بن اشعث سجستانی،متوفی ۲۷۵ھ      

دار الکتب العلمیہ بیروت2007ء

 

16

سنن الترمذی

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، متوفی۲۷۹ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت2008ء

 

17

سنن النسائى

امام ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب نسائی، متوفی۳۰۳ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت 2009ء

 

 


 

18

السنن الکبریٰ

 

امام ابو  عبدالرحمٰن  احمد بن شعیب نسائی،  متوفی۳۰۳ھ

مؤسسۃ الرسالہ بیروت۱۴۲۱ھ

19

المسند

حافظ ابو یعلیٰ احمد بن  علی تمیمی،

متوفى 307ھ

دار الفکر بیروت۱۴۲۲ھ

 

20

المسند

امام ابو عوانہ یعقوب بن اسحاق اسفرائینی، متوفی۳۱۶ھ

دار المعرفہ بیروت ۱۴۱۹ھ

21

صحيح ابن حبان

امام ابو حاتم محمد بن حبان ، متوفی ۳۵۴ھ

دار المعرفہ  بیروت ۱۴۲۵ھ

22

المعجم الاوسط

امام ابو قاسم سلیمان بن احمد طبرانی، متوفی۳۶۰ھ    

   دار الفکر عمان۱۴۲۰ھ

 

                                                                     

23

المعجم الکبير

امام ابو قاسم سلیمان بن احمد طبرانی، متوفی۳۶۰ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت2007ء

24

المستدرك علی الصحيحين

امام ابو عبدالله  محمد بن عبدالله  حاکم نیشاپوری، متوفی۴۰۵ھ         

دار المعرفہ بیروت۱۴۲۷ھ

25

السنن الکبریٰ

امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی، متوفی۴۵۸ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۴ھ

26

شعب الايمان

امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی، متوفی۴۵۸ھ 

  دار الکتب العلمیہ بیروت2008ء

27

فردوس الأخبار

ابو شجاع شیرویہ بن شہردار دیلمی، متوفی ۵۰۹ھ

دار الکتاب العربی ۱۴۰۷ھ


 

28

تتمه جامع الاصول

امام مجد الدین ابوسعادات مبارک بن محمد ابن اثیر جزری، متوفی ۶۰۶ھ

دار الفکر بیروت

29

المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية

امام  احمد بن علی بن حجر عسقلانی،متوفی ۸۵۲ھ

 

دار العاصمہ  عرب شریف ۱۴۱۹ھ

30

كنـز العمال

علاء الدین علی متقی بن حسام الدین ہندی، متوفی۹۷۵ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۴ھ

31

فتح البارى

امام احمد بن علی بن حجر عسقلانی، متوفی۸۵۲ھ

دار السلام عرب شریف ۱۴۲۱ھ

32

ارشاد السارى

امام شہاب الدين ابوعباس احمد بن محمد قسطلانى، متوفى ۹۲۳ھ               

دار الفکر بیروت ۱۴۲۷ھ

33

مرقاة المفاتيح

شیخ ابو الحسن علی بن سلطان محمد قاری، متوفی۱۰۱۴ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت2007ء

34

مراٰۃ المناجیح

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

نعیمی کتب خانہ گجرات

سِیَر، تاریخ ومغازی

35

السيرة النبوية

ابو بكر محمد بن اسحاق مدنی، متوفی۱۵۱ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۴ھ

36

كتاب المغازى

ابو عبد الله  امام محمد بن عمر واقدی، متوفی ۲۰۷ھ

عالم الکتب  بیروت ۱۴۰۴ھ

37

السيرة النبوية

ابو محمد جمال الدین عبد الملک بن ہشام حمیری، متوفی۲۱۳ھ

دار الفجرمصر ۱۴۲۵ھ


 

38

الطبقات الکبریٰ

ابو عبد الله  محمد بن سعد ہاشمی بغدادی، متوفی۲۳۰ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۰ھ

39

شرف المصطفٰی

ابو سعد عبدالملک بن  ابوعثمان نیشاپوری، متوفی۴۰۶ھ

دار البشائر الاسلامیہ۱۴۲۴ھ

40

دلائل النبوة

حافظ ابو نعیم احمد بن عبد الله  اصفہانی، متوفی ۴۳۰ھ

دار النفائس بیروت۱۴۰۶ھ

41

معرفة الصحابة

امام ابو نعیم احمد بن عبد الله  اصفہانی، متوفی۴۳۰ھ

دارالوطن عرب شریف ۱۴۱۹ھ

42

دلائل النبوة

امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی، متوفی۴۵۸ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۹ھ

43

الاستيعاب فی معرفة الاصحاب

ابو عمر یوسف بن عبد الله  ابن عبد البر قرطبی، متوفی۴۶۳ھ

دار الجیل بیروت۱۴۱۲ھ

44

تاريخ مدينة دمشق

ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر شافعی، متوفی۵۷۱ھ

دارالفکر بیروت ۱۴۱۵ھ

45

الروض الأنف

ابو قاسم عبد الرحمٰن بن عبد الله  سُہَیلی، متوفی۵۸۱ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت

46

الوفا بأحوال المصطفٰی

جمال الدین عبدالرحمٰن بن علی  بن محمد جوزی، متوفی۵۹۷ھ

المکتبۃ العصریہ بیروت۱۴۳۲ھ

47

صفة الصفوة

جمال الدین عبد الرحمٰن بن علی جوزی، متوفی ۵۹۷ھ

دار الکتب العلمیہ ۱۴۲۷ھ


 

48

أسد الغابة فی معرفة الصحابة

ابو حسن علی بن محمد ابن اثیر جزری، متوفی۶۳۰ ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۹ھ

49

الكامل فى التاريخ

ابو حسن علی بن محمد ابن اثیر جزری، متوفی۶۳۰ ھ

دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۰۷ھ

50

عيون الاثر في فنون المغازى والسير

حافظ ابوفتح محمد بن محمد بن محمد یعمری، متوفی ۷۳۴ھ

مکتبہ دار التراث المدینۃ المنورہ

51

الاکمال فی أسماء الرجال

امام ابو عبد الله  محمد بن عبد الله  خطیب تبریزی ، متوفی۷۴۱ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۸ھ

52

سير أعلام النبلاء

ابو عبد الله  محمد بن احمد ذہبی، متوفی۷۴۸ھ

مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴۰۵ھ

53

البداية والنهاية

ابو فِداء اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی، متوفی ۷۷۴ھ

دار المعرفہ بیروت ۱۴۲۶ھ

54

امتاع الأسماع

تقی الدین ابو عباس احمد بن علی  مقریزی، متوفی۸۴۵ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۰ھ

55

الاصابة فی تمييز الصحابة

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی، متوفی۸۵۶ھ

المکتبۃ التوفیقیہ مصر

56

تاريخ الخلفاء

امام جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابو بکر سیوطی، متوفی۹۱۱ھ

دار الکتب العلمیہ2008ء

57

المواهب اللدنية

امام شہاب الدين ابوعباس احمد بن محمد قسطلانى، متوفى ۹۲۳ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت 2009ء


 

58

سبل الهدی والرشاد

امام محمد بن یوسف صالحی شامی، متوفی۹۴۲ھ

لجنۃ احياء التراث الاسلامی ۱۴۱۸ھ

59

تاريخ الخميس

شيخ حسین بن محمد بن حسن دیاربکری، متوفی۹۶۶ھ

مؤسسۃ شعبان بیروت

60

السيرة الحلبيه

نور الدین علی بن ابراہیم حلبی، متوفی۱۰۴۴ھ

دار الکتب العلمیہبیروت 2008ء

61

مدارج النبوۃ

شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی، متوفی۱۰۵۲ھ

النوریۃ الرضویہ لاہور 1997ھ

62

شرح الزرقانی علی المواهب

ابو عبد الله  محمد بن عبد الباقی زرقانی، متوفی۱۱۲۲ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۷ھ

63

سیرتِ سیِّد الانبیاء

شیخ کبیر علامہ محمد ہاشم ٹھٹھوی، متوفی۱۱۷۴

مظہر علم لاہور ۱۴۲۱ھ

64

شانِ حبیب الرحمٰن

حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

نعیمی کتب خانہ گجرات

65

اجمال ترجمہ اکمال

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

نعیمی کتب خانہ گجرات

66

سیرتِ مصطفےٰ  

شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی، متوفی ۱۴۰۶ھ

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۲۹ھ

67

فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ

المدینۃ العلمیہ

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۳۵ھ


 

عقائد، فقہ وفتاوی

68

جاء الحق

حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

قادِری پبلشرز لاہور2003ء

69

کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

امیر اہلسنّت ابو بلال محمد الیاس عطاؔر قادِری

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی۱۴۳۰ھ

70

نهاية المطلب

امام الحرمین عبد الملک بن عبد الله  جوینی، متوفى ۴۷۸ھ

دار المنہاج عرب شریف۱۴۲۸ھ

71

احياء علوم الدين

حجۃ الاسلام ابو حامِد امام محمد بن محمد غزالی، متوفی۵۰۵ھ

دار الکتب العلمیہ 2008ء

72

الايضا          ح فی منا   سک الحج والعمرة

امام  محی الدین یحییٰ بن شرف نووی،  متوفی۶۷۶ھ

دار البشائر الاسلامیہ ۱۴۱۴ھ

73

بہارِ شریعت

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۲۹ھ

74

جنتی  زیور

شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی، متوفی۱۴۰۶ھ

مکتبۃ المدینہ باب ا المدینہ کراچی ۱۴۲۷ھ

 

75

پردے کے بارے میں سوال جواب

امیر اہلسنّت ابو بلال محمد الیاس عطاؔر قادِری

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۳۰ھ

76

رفیق المعتمرین

امیرِ اہلسنّت ابو بلال محمد الیاس عطاؔر قادِری

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۳۳ھ

77

وُضو کے بارے میں وسوسے اور ان کا علاج                 

امیر اہلسنّت ابو بلال محمد الیاس عطاؔر قادِری

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی


 

78

اسلامی بہنوں کی نماز

امیر اہلسنّت ابو بِلال محمد الیاس عطاؔر قادِری

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۲۹ھ

79

فتاویٰ رضویہ

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، متوفی۱۳۴۰ھ

رضا فاؤنڈیشن لاہور

80

فتاوی ملک العلماء

ملک العلماء مفتی محمد ظفر الدین بہاری، متوفی ۱۳۸۲ھ

شبیر برادرز لاہور ۱۴۲۶ھ

کُتُبِ اشعار

81

نورِ ایمان

مولانا محمد عبد السمیع بیدل رامپوری، متوفی۱۳۱۷ھ

دار الاسلام لاہور ۱۴۳۳ھ

82

ذوقِ نعت

شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان، متوفی۱۳۲۶ھ

شبیر برادرز لاہور۱۴۲۸ھ

83

حدائِقِ بخشش

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، متوفی۱۳۴۰ھ

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۳۳ھ

84

دیوانِ سالِک

حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

نعیمی کتب خانہگجرات

85

ماہنامہ نعت لاہور(کافی کی نعت)

علامہ کفایت علی کافی شہید، متوفی ۱۸۵۷ء

راجا رشید محموداکتوبر 1995ء

86

کلیاتِ اقبال

شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال، متوفی1938ء

استقلال پریس لاہور ۱۴۱۰ھ


 

87

بہارِ عقیدت

سیِّد محمد مرغوب اختر الحامدی

 

 

 

 

 

88

برہانِ رحمت

محمد عبدالقیوم طارق  سلطانپوری

رضا اکیڈمی لاہور ۱۴۲۵ھ

89

شاہنامۂ اسلام

ابو الاثر حفیظ جالندھری

الحمد پبلی کیشنز 2006ء

90

وسائل بخشش

امیرِ اہلسنّت ابو بِلال محمد الیاس عطاؔر قادِری

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۳۲ھ

مُتَفرّق کُتُب

91

الصلات والبشر

شیخ الاسلام مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی، متوفی ۸۱۷ھ

مکتبہ اشاعۃ القرآن لاہور

92

القول البديع

امام شمس الدین محمد بن عبدالرحمٰن سخاوی، متوفی ۹۰۳ھ

دار الکتاب العربی۱۴۰۵ھ

93

الجوهرة فی نسب النبى

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

محمد بن ابوبکر انصاری تلمسانی، متوفی۶۴۵ھ

دار الرفاعی عرب شریف ۱۴۰۳ھ

94

نسب قريش

ابو عبد الله  مُصْعَب بن عبد الله  ، متوفی۲۳۶ھ

دار المعارف قاہرہ

95

نسب معد واليمن الكبير

ابو منذر ہشام بن محمد بن سائب کلبی،متوفی ۲۰۴ھ

عالم الکتب ۱۴۰۸ ھ

96

معجم البلدان

شہاب الدین ياقوت بن عبد الله  حموی، متوفی۶۲۶ھ

دار صادر بیروت۱۳۹۷ھ

97

جامع العلوم والحكم

حافظ عبد الرحمٰن بن شہاب الدین ابن رجب بغدادی، متوفی۷۹۵ھ

مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴۱۹ھ

98

صحابۂ کرام کا عشق رسول

مولانا محمد اکرم رضوی

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ۱۴۲۷ھ


 

99

شفاءُ القلوب

مولانا محمد نبی بخش حلوائی

مکتبہ نبویہ لاہور ۱۴۲۷ھ

100

غفلت

امیر اہلسنّت ابو بلال محمد الیاس عطاؔر قادِری

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

101

شرح کلامِ رضا

مفتی غلام حسن قادِری

مشتاق بک کارنر لاہور

102

رسائل نعیمیہ

حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

نعیمی کتب خانہ گجرات

103

لسان العرب

جمال الدين ابو فضل محمد بن مکرم افریقی، متوفی ۷۱۱ھ

کوئٹہ

مجلسِ المدینۃ العلمیۃ کے شعبہ فیضانِ صحابیات وصالِحات کی طرف سے پیش کردہ کُتُب ورسائل

(۱)...فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا (کل صفحات:84)

(۲)...فیضانِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا (کل صفحات:608)

(۳)...شانِ خاتونِ جنت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا (کل صفحات:501)

٭٭٭٭٭٭

 



[1]...السيرة النبوية لابن هشام، بناء رسول الله صلى الله عليه وسلم بصفية، المجلد الثانى، ۳/۲۲۵.

[2]...الروض الأنف، ابو ايوب فی حراسة النبى صلى الله عليه وسلم، ۴/۹۴، ملخصًا.

[3]...کلیاتِ اقبال، بالِ جبریل، ص۳۸۰.

[4]...صحيح البخارى، كتاب المغازى، باب غزوة خيبر، ص١٠٥٤، الحديث:۴۲۱۳.

[5]...مسند ابى عوانة، كتاب النكاح ومايشاكله، باب ايجاب اتخاذ الوليمة...الخ، ۳/۵۵، الحديث:۴۱۷۴.

[6]...صحيح البخارى، كتاب المغازى، باب غزوة خيبر، ص۱۰۵۴، الحديث:۴۲۱۳.

[7]...صحيح مسلم، كتاب النكاح، باب فضيلة اعتاقه...الخ، ص۵۳۳، الحديث:۱۳۶۵.

[8]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر ازواجه رسول الله صلى الله عليه وسلم...الخ، ۴۱۳۵-صفية بنت حيى، ۸/۱۰۰.

[9]...المرجع السابق.

[10]...مسند ابى يعلى، حديث صفية بنت حيی...الخ، ۵/۳۲۹، الحديث:۷۱۱۳.

[11]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر الحزن على رسول الله صلى الله عليه وسلم...الخ، ۲/۲۳۹ ملتقطًا.

[12]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه، ۴/۴۲۸، ملتقطًا.

[13]...معرفة الصحابة لابى  نعيم، ذكر الصحابيات من البنات والزوجات، ۳۷۵۵-صفية بنت حيى بن اخطب، ۶/۳۲۳۲.

[14]...اسد الغابة، باب الراء والفاء، ۱۶۹۰-رفاعه بن سموال،۲/۲۸۳.

[15]...سیرتِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، انیسواں باب، حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، ص۶۸۳.

[16]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه...الخ، ٤/۴۳۵.

[17]...البداية والنهاية، السنة الخمسين للهجرة، صفية بنت حيى، المجلد الرابع، ۸/۴۳۵.

[18]...الاصابة، كتاب النساء، حرف الصاد المهملة، ۱۱۴۰۷-صفية بنت حيى، ۸/۲۳۳.

[19]...مسند احمد، مسند النساء، حديث صفية...الخ، ۱۱/۱۲۳، الحديث:۲۷۶۲۲، ملخصًا.

[20]...صحيح البخارى، كتاب الاعتكاف، باب هل يخرج المعتكف لحوائجه الى باب المسجد، ص۵۳۱، الحديث:۲۰۳۵، بتقدم وتاخر.

[21]...الاصابة، كتاب النساء، حرف الصاد المهملة، ۱۱۴۰۷-صفية بنت حيى، ۸/۲۳۳، ملخصًا.

[22]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه الطاهرات...الخ، ۴/۴۳۶، ملتقطًا.

سیرتِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، انیسواں باب، حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، ص۶۸۳.

[23]...السنن الكبرىٰ للبيهقى، كتاب صلاة الخسوف، باب من استحب الفزع...الخ، ۳/۴۷۷، الحديث:۶۳۷۹، ملتقطًا.

[24]...سنن النساء، كتاب السهو، باب السلام على النبى صلى الله عليه وسلم، ص۲۱۹، الحديث:۱۲۷۹.

[25]...المواهب اللدنية، المقصد الاول، صلح الحديبية، ۱/۲۶۶، ملتقطًا.

[26]...الكامل فى التاريخ، ذكر عمرة الحديبية،۲/۹۰، ملخصًا.

[27]...فتح البارى، كتاب المغازى، باب عمرة القضاء، ۷/۶۲۷، تحت الحديث:۴۲۵۲ملتقطًا.

[28]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الاول، باب عمرة القضاء، ۳/۳۱۴، ملتقطًا.

[29]...جُحْفَه مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا سے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا کی طرف چار۴ منزل کی دُوری پر واقع ہے۔ یہ مصر اور شام کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے۔ [معجم البلدان، ۲/۱۱۱١]

[30]...الاستيعاب، باب الميم، ۴۰۹۹-ميمونة بنت الحارث، ۴/۱۹۱۷، ملخصًا.

[31]...یہ مقام مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا سے آٹھ۸ میل کے فاصلے پر ہے۔

[معجم البلدان، ۵/۴۲۴]

[32]...السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، عمرة القضاء...الخ، ۳/۹۱.

[33]...المستدرک للحاکم، کتاب معرفة الصحابة، توفيت ميمونة...الخ، ۴/۳۹، الحديث:۶۸۷۴.

[34]...مدارج النبوۃ، قسم پنجم، باب دُوُم در ذکرِ ازواجِ مطہرات، ۲/۴۸۵.

[35]...المستدرک للحاکم، کتاب معرفة الصحابة، توفيت ميمونة...الخ، ۵/۴۰، الحديث:۶۸۷۴، ملتقطاً.

[36]... شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه الطاهرات، ميمونة ام المؤمنين، ۴/۴۲۳، ملتقطًا.

[37]...البداية والنهاية، السنة السابعة للهجرة، عمرة القضاء، المجلد الثانى، ۴/۶۲۲.

[38]... المرجع السابق، ص۶۲۰، ملتقطًا.

[39]...یہ مقام مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا سے چھ۶ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ 

[معجم البلدان، ۳/۲۱۲]

[40]...المغازى للواقدى، غزوة القضية، ۲/۷۴۰، ملتقطًا.

[41]...البداية والنهاية، السنة السابعة للهجرة، عمرة القضاء، المجلد الثانى، ۴/۶۲۰، ملتقطًا.

[42]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، ذكر ازواجه الطاهرات، ميمونة ام المؤمنين، ۴/۴۲۳، ملتقطًا.

[43]...سبل الهدى والرشاد، جماع ابواب ذكر ازواجه، ۱۲/۱۸ و ۱۱۷، بتقدم وتاخر.

[44]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه الطاهرات...الخ، ميمونة ام المؤمنين، ۴/۴۱۹ و ۴۲۲، ملتقطًا.

[45]...اسد الغابة، حرف اللام، ۷۲۵۲-لبابة بنت الحارث، ٧/۲۴۶، بتغير قليل.

[46]...المرجع السابق، ملتقطًا.

[47]...المرجع السابق، حرف السين، ۷۰۱۲-سلمى بنت عميس، ص۱۴۹، ملتقطًا.

[48]...المرجع السابق، حرف الهمزة، ۶۷۱۳-اسماء بنت عميس، ص۱۲، ملتقطًا.

[49]...معرفة الصحابة لابى نعيم، باب السين، ۳۹۰۴-سلمى بنت عميس الخثعمية، ۶/۳۳۵۴، الحديث:۷۶۷۶.

[50]...الاكمال، حرف العين، فصل فى الصحابة، ۵۰۷-عبد الله بن عباس، ص۶۳، ملتقطًا.

[51]...المرجع السابق، حرف الخاء، ۲۱۶-خالد بن الوليد، ص۲۹، ملتقطًا.

[52]...اسد الغابة، باب الخاء، ۱۳۹۹-خالد بن الوليد...الخ، ۲/۱۴۳.

[53]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ٤١٣٧-ميمونة بنت الحارث، ۸/۱۱۰.

[54]...کلیاتِ اقبال، بانگ درا، ص۱۹۲.

[55]...صحيح البخارى، كتاب جزاء الصيد، باب تزويج المحرم، ص۴۹۰الحديث:۱۸۳۷.

[56]...سنن ابى داؤد،كتاب الطهارة،باب السواك،ص۴۲،الحديث:۴۶.

[57]...مصنف ابن ابى شيبة،كتاب الطهارات،ماذكر  فى السواك،۱/۱۹۷، الحديث:۲۰.

[58]...صحيح البخارى، كتاب الصيد، باب تزويج المحرم، ص۴۹۰، الحديث:۱۸۳۷.

[59]...معرفة الصحابة لابى نعيم، باب السين، ۳۹۰۴-سلمى بنت عميس الخثعمية، ۶/۳۳۵۴، الحديث:۷۶۷۶.

[60]...المعجم الاوسط للطبرانى، باب العين، من اسمه العباس، ۳/۱۷۲، الحديث:۴۲۲۵.

[61]...دلائل النبوة للبيهقى، باب ما جاء في اخباره...الخ، ۶/۴۳۷.

[62]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه...الخ، ۴/۴۲۳

[63]...صحيح البخارى، كتاب النكاح، باب كثرة النساء، الحديث:۵۰۶۷.

[64]...شرح الزّرقانی علی المواھب، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه...الخ، ام المؤمنين ميمونة، ۴/۴۲۴.

[65]...مدارج النبوۃ، قسم پنجم، باب دوم در ذکرِ ازواجِ مطہرات، ۲/۴۸۴، ملتقطًا.

[66]...انوکھی کمائی، ص۷.