اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
چڑیا اور اندھا سانپ
شیطٰن لاکھ سستی دلائے یہ رسالہ (33 صَفْحات) مکمَّل پڑھ لیجئے
اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر حال میں ’’ راضی برضا‘‘ رہنے کا جذبہ بڑھے گا۔
مدینے کے سُلطان، رَحمت عالَمِیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عَظَمت نشان ہے:جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے مجھ پر کثرت سے دُرُود پڑھنا چاہئے کیونکہ مجھ پر دُرُودپڑھنا مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے والا ہے ۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص ۴۱۴،بستان الواعظین للجوزی ص۲۷۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ڈاکوؤں کا ایک گروہ ڈکیتی کے لیے ایسے مقام پر پہنچا جہاں کھجور کے تین درخت تھے ایک درخت ان میں خشک (یعنی بِغیر کھجوروں کے) تھا۔ ڈاکوؤں کے سردار کا بیان ہے: میں
نے دیکھا کہ ایک چڑیا پھل دار درخت سے اُڑ کر خشک درخت پر جا بیٹھتی ہے اور تھوڑی دیر بعد اُڑ کر پھل دار درخت پر آتی ہے پھر وہاں سے اڑ کر دوبارہ اُسی خشک درخت پر آجاتی ہے۔ اِسی طرح اس نے بہت سارے چکّر لگائے ۔ میں تعجُّب کے مارے خشک درخت پر چڑھا تو کیادیکھتا ہوں کہ وہاں ایک اندھا سانپ منہ کھولے بیٹھا ہے اورچڑیا اس کے منہ میں کھجور رکھ جاتی ہے ۔ یہ دیکھ کر میں رو پڑا اور اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا: یاالٰہی!ایک طرف یہ سانپ ہے جس کو مارنے کا حکم تیرے نبیِّ محترم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا ہے ،مگرجب تُو نے اس کی آنکھیں لے لیں تو اس کے گزارے کے لئے ایک چڑیا مقرَّرفرما دی ،دوسری طر ف میں تیرا مسلمان بندہ ہونے کے باوُجود مسافِروں کو ڈرادھمکا کرلوٹ لیتا ہوں ۔اُسی وَقت غیب سے ایک آواز گونج اٹھی: اے فُلاں !توبہ کیلئے میرا دروازہ کُھلا ہے ۔یہ سن کر میں نے اپنی تلوار توڑ ڈالی اور کہنے لگا : ’’میں اپنے گناہوں سے باز آیا،میں اپنے گناہوں سے باز آیا۔‘‘ پھر وُہی غیبی آواز سنائی دی:’’ ہم نے تمہاری توبہ قَبول کرلی ہے ۔ ‘‘ جب اپنے رُفَقاکے پاس آ کر میں نے ماجرا کہا تو وہ کہنے لگے: ہم بھی اپنے پیارے پیارے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے صُلْح کرتے ہیں ۔ چُنانچِہ اُنہوں نے بھی سچّے دل سے توبہ کی اورسارے حج کے ارادے سے مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی جانب چل پڑے۔ تین دن سفر کرتے ہوئے ایک گاؤں میں پہنچے، تو وہاں ایک نابینا بڑھیا دیکھی جو میرا نام لے کر پوچھنے لگی کہ کیا اس قافلے میں وہ بھی ہے؟میں نے آگے بڑھ کر
کہا:جی ہاں وہ میں ہی ہوں کہو کیا بات ہے؟ بڑھیا اٹھی اورگھر کے اندر سے کپڑے نکال لائی اور کہنے لگی: چند روز ہوئے میرا نیک فرزند انتقال کر گیا ہے، یہ اُسی کے کپڑے ہیں ، مجھے تین رات متواتِر سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواب میں تشریف لا کر تمہارا نام لے کر ارشاد فرمایا ہے کہ’’ وہ آرہا ہے ، یہ کپڑے اُسے دے دینا۔‘‘میں نے اُس سے وہ مبارَک کپڑے لئے اور پہن کر اپنے رُفَقا سمیت مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف روانہ ہوگیا۔ (رَوْضُ الرَّیاحِین ص۲۳۲)اللّٰہُ ربُّ العِزّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
واہ میرے مولیٰ تیری بھی کیا شان ہے! تو نے چڑیا کواندھے سانپ کی خادمہ بنا دیا! تیرے رزق فراہم کرنے کے انداز بھی کیا خوب ہیں !
بے روزگاری اور روزی کی تنگی پر گھبرانے والو! شیطان کے وسوسوں میں نہ آئو!بارہویں پارے کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے:
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا
ترجَمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والاکوئی ایسا نہیں جس کا رِزْق اللہ کے ذمّۂ کرم پر نہ ہو ۔
اِس آیتِ کریمہ کے تحتمُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان ’’نور العرفان میں ‘‘ فرماتے ہیں : زمین پر چلنے والے کا اس لیے ذِکر فرمایا کہ ہم کو انہیں کا مُشاہَدہ ہوتا (یعنی دیکھنا ملتا) ہے، ورنہ جِنّات، ملائکہ وغیرہ سب کو رب(عَزَّوَجَلَّ) روزی دیتا ہے۔ اس کی رزّاقِیَّت (یعنی رزق دینے کی صفت) صِرْف حیوانوں میں مُنحصر (مُنْ۔حَ ۔ صَر یعنی موقوف) نہیں ، جو جس روزی کے لائق ہے اُس کو وُہی ملتی ہے۔ بچّے کو ماں کے پیٹ میں اور قسم کی روزی ملتی ہے اور پیدائش کے بعد دانت نکلنے سے پہلے اور طرح کی، بڑے ہو کر اور طرح کی، غر ضیکہ دَآبَّۃ (یعنی زمین پر چلنے والا) میں بھی عُمُوم(یعنی ہر کوئی شامل) ہے اور رِزْق میں بھی۔ (نور العرفان ص ۳۵۳بتغیر قلیل)
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں ایک بار فُقَرائِ صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اپنا قاصِد (یعنی نُمایَندہ)بھیجا جس نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی: میں فُقَرا(یعنی غریبوں ) کا نمایَندہ بن کر حاضِر ہوا ہوں ۔ مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہیں بھی مرحبااور اُنہیں بھی جن کے پاس سے تم آئے ہو! تم ایسے لوگوں کے پاس سے آئے ہو جن سے میں مَحَبَّت کرتا ہوں ۔‘‘ قاصِد نے عرض کی: ’’ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! فُقَرا (یعنی غریبوں)نے یہ گزارِش کی ہے کہ مال دار حضرات جنّت کے دَرَجات لے گئے!وہ
حج کرتے ہیں اور ہمیں اس کی اِستِطاعت (یعنی طاقت و قدرت ) نہیں ، وہعمرہ کرتے ہیں اور ہم اس پر قادِر نہیں ، وہ بیمار ہوتے ہیں تو اپنا زائد مال صَدَقہ کر کے آخِرت کے لئے جمع کر لیتے ہیں ۔‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میری طرف سے فُقَرا کو پیغام دو کہ ان میں سے جو(اپنی غُربت پر)صَبْر کرے اور ثواب کی امّید رکھے اُسے تین ایسی باتیں ملیں گی جو مال داروں کو حاصل نہیں :{۱} جنّت میں ایسے بالاخانے(یعنی بلند محلّات) ہیں جن کی طرف اہلِ جنّت ایسے دیکھیں گے جیسے دنیا والے آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہیں ، ان میں صرف فَقْر(یعنی غُربت) اختیار کرنے والے نبی ، شہید فقیر اور فقیر مومِن داخِل ہوں گے{۲} فُقَرا مال داروں سے قِیامت کے آدھے دن کی مقدار یعنی 500سال پہلے جنّت میں داخِل ہوں گے{۳} مال دار شخص سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبر کہے اور یِہی کلمات (کَ ۔ لِ۔ مات)فقیربھی ادا کرے تو فقیر کے برابر ثواب مالدارنہیں پا سکتا ، اگر چِہ وہ 10ہزار درہم (بھی ساتھ میں )صَدَقہ کرے۔ دیگر تمام نیک اعمال میں بھی یِہی مُعامَلہ ہے۔‘‘ قاصِد نے واپَس جا کر فُقَرا(یعنی غریبوں ) کو یہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سنایا تو انہوں نے کہا: ہم راضی ہیں ، ہم راضی ہیں۔(اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ص۵۹۶،۵۹۷ مکتبۃ المدینہ، بحوالہ قُوتُ الُقُلوب ج۱ص۴۳۶)
میں بڑا امیرو کبیر ہوں ، شہِ دو سرا کا اسِیر ہوں
درِ مصطَفٰے کا فقیر ہوں ، مِرا رِفعَتوں پہ نصیب ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!فقیروں کے تو دنیا وآخِرت میں وارے ہی نیارے ہیں !یاد رہے! فقیر وُہی اچّھا ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا پر راضی رہتے ہوئے صبر وقناعت اختیار کر ے اورگِلے شِکوے سے بچا رہے ۔یاد رہے! یہاں فقیروں سے مُراد بھکاری نہیں ہیں فقر کی تعریف یہ ہے کہ ’’ جس شے کی حاجت ہے وہ موجود نہ ہو۔‘‘جس چیز کی ضَرورت ہی نہیں اگر وہ نہ پائی جائے تو اُسے’’ فَقْر‘‘ نہیں کہا جاتانیزجس شخص کے پاس مطلوبہ شے موجودبھی ہو اور اس کے قابومیں بھی ہو توایسا شخص فقیر نہیں کہلاتا۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۵۶۲)
{۱} ’’اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جسے اسلام کی طرف ہِدایت حاصل ہے ، اس کی روزی بقدرِ کِفایت ہے اور وہ اس پرقَناعت کرتا ہے۔‘‘ (تِرمِذی ج۴ ص ۱۵۶ حدیث ۲۳۵۶ ) قناعت کی تعریف آگے آ رہی ہے۔
{۲} اے فُقَراکے گروہ!دل سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تقسیم پر راضی رہوگے تو اپنے فَقْر کا ثواب پاؤ گے ورنہ نہیں۔(اَلْفِرْدَوْس بمأثور الْخَطّاب ج۵ص۲۹۱حدیث۸۲۱۶)
{۳} ہر چیز کی ایک چابی ہوتی ہے اور جنّت کی چابی مساکین اور فُقَراسے ان کے صَبْر کی
وجہ سے مَحَبَّت کرنا ہے،یہ لوگ قیامت کے دن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے قُرب میں ہوں گے۔ (ایضاً ج۳ ص ۳۳۰حدیث۴۹۹۳)
{۴} اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ فقیر ہے جو اپنی روزی پرقَناعت اختیار کرتے ہوئے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی رہے۔ (قُوتُ الُقُلوب ص۳۲۶ )
{۵} اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!آلِ محمد کو بقدرِکفایت رِزْق عطا فرما۔ (مُسلِم ص۱۵۸۸ حدیث ۱۰۵۵)
{۶}فقیر اگر راضی(برضائے الٰہی)ہو تو اس سے افضل کوئی نہیں ۔(قُوتُ الُقُلوب ج ۲ص ۳۲۳ )
{۷}فقر دنیا میں مومن کا تحفہ ہے۔ (اَلْفِرْدَوْس بمأثور الْخَطّاب ج۲ ص۷۰حدیث :۲۳۹۹)
{۸} قِیامت کے دن ہرشخص چاہے امیرہو یا غریب، اِس بات کی تمنّا کرے گا کہ کاش! اُسے دنیا میں صرف بَقَدرِ کِفایت روزی دی جاتی۔ (اِبن ماجہ ج۴ص۴۴۲حدیث۴۱۴۰)
{۹}میری اُمَّت کے فُقَرا امیروں سے500سال پہلے جنّت میں داخل ہوں گے۔ [تِرمِذی ج۴ ص۱۵۸حدیث۲۳۶۰] (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص۵۸۸ تا۵۹۰،۵۷۲ مکتبۃ المدینہ )
دولتِ دنیا سے بے رغبت مجھے کر دیجئے
میری حاجت سے مجھے زائد نہ کرنا مال دار (وسائلَ بخشش (مرمَّم) ص ۲۱۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
نہ تو مال میں ایسی رغبت ہو کہ مال ملنے پر خوشی محسوس ہو اور نہ ہی ایسی نفرت ہو کہ مال کے ملنے پرتکلیف ہو اور اسے لینے سے انکار کردے۔ایسی حالت والے شخص کوراضی کہا جاتا ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۵۶۳)
قَناعت کا لُغوی معنٰی:اِکتِفا کرنا(یعنی کافی سمجھنا)۔صَبْر کرنا۔تھوڑی چیز پر راضی اور خوش رہنا، جو ملے اُسی میں گزارہ کرنا،زیادہ طلبی اور حِرْص سے بچے رہناقناعت کہلاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ ج۳ ص۴۰۰)
قَناعت کی دو تعریفات{۱}خدا کی تقسیم پر راضی رہنا قَناعت کہلاتا ہے۔ (التعریفات لِلجُرجانی ص ۱۲۶){۲}جو کچھ ہو اُسی پر اِکتفا کرنا قناعت ہے۔
جس کے گھر والے بچھڑ جائیں ، اکیلا رہ جائے ، کنگال اور بے حال ہو جائے اُسے بھی ربِّ ذوالجلال عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صَبْر، صَبْراورصِرْف صَبْر کرنا چاہئے ، اور خدائے مجید عَزَّوَجَلَّ سے اُمّید رکھنی چاہئے کہ وہ اِسے اپنے پیارے بندوں میں شامل فرما لے۔ چُنانچِہ نبیِّ اکرم،شاہِ آدم و بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے: اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے مَحَبَّت فرماتا ہے تو اُسے آزمائش میں مبتَلافرماتا ہے اور جب اُس سے زیادہ مَحَبَّت
فرماتا ہے تو اُسے’’ چُن‘‘ لیتا ہے۔عرض کی گئی:’’چُننے ‘‘سے کیا مُراد ہے؟ارشاد فرمایا: ’’اُس کے لئے نہ اَہْل وعِیال(یعنی بال بچّے ۔ گھر کے افراد) چھوڑتا ہے نہ مال۔‘‘(اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۵۷۸)
وہ عشقِ حقیقی کی لذّت نہیں پا سکتا
جو رنج و مُصیبت سے دوچار نہیں ہوتا (وسائل بخشش (مُرمم) ص ۱۶۴)
پیارے پیارے غریبو! سچ پوچھو تو غربت بھی بَہُت بڑی نعمت ہے جب کہ صَبْر و رضا کی سعادت بھی ساتھ ملے کیوں کہ غریب ومسکین مگر صابِر و شاکر بندے پر اللہربُّ العزّت کی کامِل(یعنی پوری) نظرِ رحمت ہوتی ہے۔ چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو پتّھرکوتکیہ بنائے ، چادر اوڑھے، زمین پر سورہا تھا،اُس کا چِہرہ اور داڑھی گَرد آلود تھے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلام نے بارگاہِ ربُّ الانام عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:’’یا اللہ عَزَّوَجَلَّ!تیرا یہ بندہ دنیا میں ضائِع ہو گیا ہے ۔‘‘ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی:’’اے موسٰی! کیا آپ نہیں جانتے کہ جب میں اپنے بندے کی طرف کامِل (یعنی پورے)طور پر نظرِ رَحمت کرتا ہوں تو دنیا کو اُس سے مکمَّل طور پر دور کردیتا ہوں ۔‘‘ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۵۷۵)
حضرتِسیِّدُنا عبد اللّٰہ بن مُغَفَّل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فر ماتے ہیں کہ ایک شخص نے
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ سراپا رحمت میں عرض کی :’’ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خدا کی قسم !میں آپ سے مَحَبَّت کرتا ہوں ۔‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو! عرض کی: خدا کی قسم!میں آ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مَحَبَّت کرتا ہوں ۔اُس نے تین مرتبہ اسی طرح کہا۔اِس پر مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ اگر تُو مجھ سے مَحَبَّت کرتا ہے تو فَقر کے لیے پہنا وا (یعنی لباس)تیار کر لے ، کیونکہ جو مجھ سے مَحَبَّتکرتا ہے، اُس کی طرف فَقراس سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے جس طرح سیلاب اُس جگہ کی طرف جاتاہے جہاں اسے ختم ہونا ہوتاہے۔‘‘ (تِرمِذی ج ۴ص ۱۵۶حدیث ۲۳۵۷)
دولتِ عشق سے دل غنی ہے، میری قسمت ہے رشکِ سکندر
مِدحتِ مصطَفٰے کی بدولت، مل گیا ہے مجھے یہ خزینہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُناابوسُلَیْمان دارانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں : جس(جائز) خواہِش کے پورا کرنے پر قدرت حاصل نہ ہواس سے محرومی پر حسرت سے فقیر کی نکلنے والی آہ مال دار کی ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے ۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۶۰۲)
حضرت سیِّدُنا ضَحّا ک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :جو شخص بازار جائے اور کسی چیز کو دیکھ کراُسے خریدنے کی دل میں خواہش پیدا ہولیکن ثواب کی امّید پروہ صَبْر کرے تو اس کیلئے یہ عمل راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں ایک ہزار دینا ر صَدَقہ کرنے سے افضل ہے۔(اِحیاءُ الْعُلوم ج ۴ ص ۶۰۲ )
حضرتِ سیِّدُنا بِشر بن حارِث حافی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکا فی کی خدمت میں کسی نے عرض کی کہ میرے لئے دعا فرمائیے کیونکہ میں اَہْل وعِیال کے اَخراجات کی وجہ سے پریشا ن ہوں ۔آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:’’جب گھر والے تم سے کہیں کہ ہمارے پاس نہ تو آٹا ہے اور نہ ہی روٹی تواُس وقت تم میرے لئے دعا کرنا کیونکہ تمہاری اُس وقت کی دعا میری دعا سے افضل ہے۔‘‘(اَیضاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ظاہر ہے کہ جوسخت تنگدستی کا شکار ہو گا وہ دُکھی اور غمگین بھی ہو گا اور دکھیاروں کی دعا قَبول ہوتی ہے جیسا کہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 318 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ فضائلِ دعا‘‘ صَفْحَہ 218پر جن لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ان میں سب سے پہلے نمبر پر لکھا ہے،اوّل: مُضْطَر
(یعنی دکھیارا ) ۔اس کے حاشیے میں سرکاراعلیٰ حضرت،امام اہلِ سنّت ، مولاناشاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :اس (یعنی دکھیارے اور ناچار وناشاد(یعنی غمزدہ)کی دعا کی قَبولیَّت) کی طرف توخود قراٰنِ کریم میں ارشاد موجود ہے:
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ (پ۲۰ اَلنَّمل ۶۲)
ترجَمۂ کنزالایمان:یا وہ جو لاچار کی سنتا ہے، جب اسے پکارے اور دور کردیتا ہے برائی۔
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ایک صاحِب ساداتِ کرام سے اکثر میرے پاس تشریف لاتے اور غربت واِفلاس کے شا کی رہتے(یعنی شکایت کرتے)۔ ایک مرتبہ بہت پریشان آئے ، میں نے اُن سے دریافت کیا کہ جس عورت کو باپ نے طلاق دے دی ہو کیا وہ بیٹے کو حلال ہوسکتی ہے ؟ فرمایا: ’’نہیں ۔‘‘ میں نے کہا: حضرت امیرالمؤمنین مولا علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)نے جن کی آپ اولاد میں ہیں ،تنہائی میں اپنے چہرۂ مبارَک پر ہاتھ پھیر کر اِرشاد فرمایا:’’ اے دنیا! کسی او رکو دھوکا دے میں نے تجھے وہ طلاق دی جس میں کبھی رَجْعَت (یعنی واپَسی)نہیں۔‘‘پھر ساداتِ کرام کا اِفلاس (یعنی تنگدستی میں مبتلا ہونا) کیا تعجُّب کی بات ہے!سیِّد صاحب نے فرمایا :’’وَاللّٰہ! میری تسکین ہوگئی ۔‘‘وہ اب زندہ موجود ہیں اس روز سے کبھی شاکی نہ ہوئے ۔(یعنی تنگدستی کی شکایت نہیں کی) (ملفوظات اعلٰی حضرت ص۱۲۷تا۱۲۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دوسروں کو خواہ مخواہ اپنے دُکھڑے سنانے سے پریشانی تو دُور ہونے سے رہی الٹا مصیبت چُھپانے اور صَبْر کرنے کے ذریعے اَجْر کمانے کا موقع ضائع ہوجاتا ہے ، کیونکہ کسی ایک فرد کو بھی بِلا وجہ اپنا مرض یا دُکھ بیان کر دیا یا بے سبب اپنی زبان،چہرے یا دیگر اعضا سے اُس کے آگے بے چینی اور بے قرار ی ظاہر کی تو صَبْر کا اجْر جاتا رہا۔دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 318 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ فضائلِ دعا‘‘ صَفْحَہ 263پرہے:فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’بھوکا اور حاجت مند اگر اپنی حاجت لوگوں سے چھپائے، خدائے تعالیٰ رزقِ حلال سال بھر تک اُسے عنایت کرے ۔ ‘‘(شُعَبُ الْاِیمان ج۷ ص۲۱۵ حدیث۱۰۰۵۴)
بے روزگاری سے تنگ آنے، تنگدستی سے گھبرانے،کاروبار کی کمی کے باعِث غم کھانے،مالداروں کو دیکھ کر اپنی غربت پر دل جلانے والے اپنے غمگین دل کو تسلّی دلانے کیلئے ایک ایمان افروز حکایت مُلاحظہ فرمائیں ، حضرتِ سیِّدُنا عَطا خُراسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :ایک نبی عَلَیْہَ الصَّلَاۃ ُوَالسَّلَامدریاکے کَنارے سے گزرے تو دیکھاکہ ایک شخص مچھلی کا شکار کررہا ہے،اُس نے بِسْمِ اللّٰہ(یعنی اللّٰہ کے نام سے شروع کرتا ہوں ) کہہ کر دریا
میں جال پھینکا لیکن کوئی مچھلی نہ آئی۔پھرایک اور شکاری کے پاس سے گزرے،اس نے شیطان کا نام لے کر جال ڈالا تو اتنی زیادہ مچھلیاں نکلیں کہ اُن کا وزْن کرنا مشکل ہوگیا۔اُن نبیعَلَیْہَ الصَّلَاۃ ُوَالسَّلَامنے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:’’یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ! یہ تو معلوم ہے کہ یہ سب تیری ہی طرف سے ہے لیکن اس کی حکمت جاننا چاہتا ہوں ۔ ‘‘اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرِشتوں سے ارشادفرمایا:’’میرے بندے کو اُن دونوں (مچھلی پکڑنے والوں ) کا اُخروی (اُخ۔رَ۔وی) مقام دکھاؤ!‘‘جب انہوں نے بِسْمِ اللّٰہ پڑھ کرجال ڈالنے والے کو ملنے والی آخِرت کی عزّت وعَظَمت اورشیطان کا نام لے کر جال ڈالنے والے کو ملنے والی آخِرت کی رُسوائی و ذِلَّت مُلاحَظہ فرمائی تو عرض گزار ہوئے:’’اے ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ! میں راضی ہوں ۔‘‘ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۵۷۷)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب،دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’میں نے جنّت میں جھانکا تو وہاں زیادہ ترغریب لوگ دیکھے اور دوزخ مُلاحَظہ کی تو وہاں مال داروں اور عورتوں کو زیادہ پایا۔‘‘ (مُسندِ اِمام احمدج ۲ ص ۵۸۲حدیث۶۶۲۲) ایک رِوایت میں ہے،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :میں نے پوچھا: مال دار لوگ کہاں ہیں ؟توبتایا گیا:انہیں ان کی مال دار ی نے روک رکھا ہے۔ (قُوتُ الُقُلوب ج۱ ص ۴۰۴) ایک
روایت میں ہے کہ میں نے دوزخ میں عورَتوں کی کثرت دیکھ کرسبَب پوچھاتوبتایاگیا: انہیں دوسُرخ چیزوں یعنی سونے اور زعفران ( یعنی ان کو زیورات اور خاص قسم کے رنگین لباس ) نے روک رکھا ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۵۷۷ مکتبۃ المدینہ)
سونا جمع کرنے کی شوقین مگر فرض ہونے کے باوُجُود اِس کی زکوٰۃ نہ دینے والی اسلامی بہنوں کو اِس حدیثِ پاک سے درس لیتے ہوئے ڈرجانا چاہئے ۔ یاد رہے !زکوٰۃ فرض ہونے کیلئے کمانا یا کمانے کے قابِل ہونا شرط نہیں ،بلکہ سونے چاندی کے پہننے کے زیورات پر بھی شرائط پائے جانے کی صورت میں زکوٰۃ دینی ضروری ہے۔حرص کے سبب سونا جمع کرنے والیوں کو دنیا میں کم ہی سونا کام آتا ہے، زکوٰۃ نہ دیکر لالچی عورَتیں عذابِ آخِرت کابَہُت بڑا خطرہ مول لے رہی ہیں ! ایک فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حصہ ہے:’’جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اُس کا حق ادا نہ کرے تو جب قِیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پَتْر بنائے جائیں گے اُن پر جہنَّم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور اُن سے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دیے جائیں گے۔ یہ مُعامَلہ اُس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنَّت کی طرف جائے یا جہنَّم کی طرف ۔‘‘ (بہارِ شریعت ج۱ ص ۸۶۹ بحوالہ صحیح مسلم ص۴۹۱ حدیث۹۸۷)
مشہور صَحابی حضرتِ سیِّدُنا ابو دَرْداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہایک روز اپنے اَحباب (یعنی دوستوں ) میں تشریف فرماتھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی زوجۂ محترمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاآئیں اور کہنے لگیں : ’’آپ یہاں ان لوگوں میں تشریف فرما ہیں اور بخدا گھر میں مُٹّھی بھر بھی آ ٹا نہیں ۔‘‘ اُنہوں نے جواب دیا:’’ یہ کیوں بھولتی ہو کہ ہمارے سامنے ایک نہایت دُشوار گزار گھاٹی ہے جس سے ہلکے سامان والوں کے سِوا کوئی نَجات نہیں پائے گا ۔‘‘ یہ سُن کر وہ خوشی کے ساتھ واپَس چلی گئیں۔(رَوْضُ الرَّیاحِین ص۲۴) اللّٰہُ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! صَحابیٔ رسول حضرتِ سیِّدُنا ابو دَرْداءرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکس قَدَر قناعت پسند تھے اور آ پرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی اَہلیۂ محترمہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی کیسی اِطاعت گزار تھیں کہ گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہ ہونے کے باوُجُود شوہرِ نامدارکا خوفِ خدا_سے مَملو(یعنی بھر پور) جُملہ سُن کر بَطِیبِ خاطِر(یعنی خوشی خوشی )واپَس لو ٹ گئیں ۔ ہمیں بھی تنگدستیوں اور گھریلو پریشانیوں سے گھبرا کر شِکوہ و شکایت کرنے کے
بجائے ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا پر راضی رَہنا چاہئے ۔ ؎
زَباں پر شِکوۂ رنج و اَلَم لایا نہیں کرتے
نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جس طرح روزی میں بَرَکت کی وُجُوہات ہیں اِسی طرح روزی میں تنگی کے بھی کچھ اسباب ہیں ،اگر ان اسباب سے بچنے کی ترکیب فرمائیں گے تو __روزی کی تنگی سے حفاظت ہو گی۔ چُنانچِہ تنگدستی کے 44اَسباب مُلاحظہ فرمایئے:{۱}بِغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا{۲}ننگے سر کھانا {۳} اندھیرے میں کھانا کھانا {۴}دروازے پر بیٹھ کر کھانا{۵}میِّت کے قریب بیٹھ کر کھانا{۶} جَنابَت کی حالت میں (یعنی احتلام وغیرہ کے بعد غسل سے قبل)کھانا کھانا{۷} چارپائی پر بِغیر دستر خوان بچھائے کھانا{۸} دسترخوان پر نکلا ہوا کھاناکھانے میں دیر کرنا {۹}چار پائی پر خود سرہانے(یعنی سر رکھنے کی جگہ) بیٹھنا اور کھانا پائینتی (پا۔اِیں ۔تی۔ یعنی جس طرف پائوں کئے جاتے ہیں اُس حصّے ) کی جانب رکھنا {۱۰} دانتوں سے روٹی کُتَرنا (برگر وغیرہ کھانے والے بھی اِحتیاط فرمائیں تو اچّھا) {۱۱}چینی یا مِٹّی کے ٹوٹے ہوئے برتن استعمال میں رکھنا خواہ اُس میں پانی پینا(برتن یا کپ کے ٹوٹے ہوئے حصّے کی طرف سے پانی، چائے وغیرہ پینا مکر وہ ِتنزیہی ہے،
مِٹّی کے دَراڑوالے یا ایسے برتن جن کے اندرونی حصّے سے تھوڑی سی بھی مِٹّی اُکھڑی ہوئی ہو اُس میں کھاناکھانے سے بچنا مناسب کہ ایسی جگہوں میں مَیل کچیل جمع ہوتا ہے اور وہاں جراثیم پیدا ہو کرپیٹ میں جاکر بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں ) {۱۲} کھائے ہوئے برتن صاف نہ کرنا۔ حدیثِ پاک میں ہے:کھانے کے بعد جو شخص برتن چاٹتا ہے تو وہ برتن اُس کیلئے دُعا کرتا ہے اور کہتا ہے : اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے جہنَّم کی آگ سے آزاد کرے جس طرح تُو نے مجھے شیطان سے آزاد کیا ۔(جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۱ص۳۴۷حدیث ۲۵۵۸) اور ایک رِوایَت میں ہے کہ برتن اُس کیلئے اِسْتِغْفار (یعنی مغفِرت کی دعا)کرتاہے۔(اِبن ماجہ ج۴ ص۱۴ حدیث ۳۲۷۱){۱۳}جس برتن میں کھانا کھایا اُسی میں ہاتھ دھونا {۱۴}خِلال کرتے وَقت دانتوں سے نکلے ہوئے ریشے و ذرّات وغیرہ پھر منہ میں رکھ لینا{۱۵}کھانے پینے کے برتن کُھلے چھوڑ دینا {۱۶}روٹی کو ادھر اُدھر اِس طرح ڈال دیناکہ بے ادَبی ہو اور پائوں میں آئے۔ (مُلَخّص از: سنّی بہشتی زیور ص ۶۰۰ تا ۶۰۵ )
حضرتِ سیِّدُنا امام بُرہان ُالدّین زَرنُوجی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے تنگدستی کے جو اَسباب بیان فرمائے ہیں اُن میں یہ بھی ہیں :{۱۷}زیادہ سونے کی عادت( اس سے حافِظہ کمزور ہوتا اور جہالت بڑھتی ہے) {۱۸}ننگے سونا{۱۹}بے حیائی کے ساتھ پیشاب کرنا(عام راستوں پر بلا تکلُّف پیشاب کرنے والے غور فرمائیں ) {۲۰}دستر خوان پر گرے ہوئے دانے اور کھانے کے ذرّے وغیرہ اُٹھانے میں سُستی کرنا {۲۱}پیاز اور لہسن کے چھلکے جلانا{۲۲}گھر میں رومال سے جھاڑو نکالنا{۲۳}رات کو جھاڑو دینا{۲۴}کُوڑا گھر
ہی میں چھوڑدینا{۲۵}مَشائخ کے آگے چلنا {۲۶}والِدَین کو ان کے نام سے پُکارنا {۲۷}ہاتھوں کو گارے یا مِٹّی سے دھونا {۲۸}دروازے کے ایک حصّے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہونا {۲۹}بیتُ الخَلا(wash room) میں وُضو کرنا (گھروں میں آج کل اٹیچ باتھ ہونے کی وجہ سے یہ عام ہے،ممکن ہو تو گھر میں الگ سے وُضو کا انتظام کرنا چاہئے) {۳۰} بدن ہی پر کپڑا وغیرہ سی لینا {۳۱}پہنے ہوئے لباس سے چہرہ خشک کرلینا{۳۲}گھر میں مکڑی کے جالے لگے رہنے دینا{۳۳}نَماز میں سُستی کرنا {۳۴}نَمازِ فَجر کے بعد مسجِد سے جلدی نکل جانا {۳۵} صبح سویرے بازار پہنچ جانا{۳۶}دیر گئے بازار سے آنا {۳۷} اپنی اولادکو ’’کوسنیں ‘‘ (یعنی بددعائیں ) دینا(اکثر عورَتیں بات بات پر اپنے بچوں کو بد دعائیں دیتی ہیں اور پھر تنگدستی کے رونے بھی روتی ہیں ) {۳۸}گناہ کرنا خُصُوصاً جھوٹ بولنا {۳۹} چَراغ (یا موم بتّی )کو پھونک مار کر بُجھا دینا {۴۰} ٹُوٹی ہوئی کنگھی استِعمال کرنا {۴۱} ماں باپ کیلئے دعائے خیر نہ کرنا{۴۲}عِمامہ بیٹھ کر باندھنا اور {۴۳} پاجامہ یا شلوار کھڑے کھڑے پہننا {۴۴}نیک اعمال میں ٹالم ٹول کرنا۔ (تَعْلِیْمُ الْمُتَعَلِّم ص ۱۲۳ تا ۱۲۶)
بعض اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بجا لانے سے تنگ دستی دور ہوتی ہے ، جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللّٰہابنِ عبّاس(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: کھانے سے پہلے اور بعد میں وُضُو کرنا(یعنی دونوں
ہاتھ گِٹّوں تک دھونا) محتاجی (تنگدستی ) دور کرتا ہے اور یہ مُرسلین (یعنی رسولوں ) علَیھمُ السّلامکی سنّتوں میں سے ہے۔ (مُعْجَم اَوْسَط ج۵ص۲۳۱حدیث۷۱۶۶)
زبردست مُحَدِّث حضرتِ سیِّدُنا ہُدبہ بن خالِدعَلَیہ ِرَحْمۃ ُاللہ ِانْماجِدکو خلیفۂ بغداد مامون رشید نے اپنے ہاں مدعو کیا، طَعام(یعنی کھانے) کے آخِر میں کھانے کے جو دانے وغیرہ گر گئے تھے، مُحَدِّثِ صاحِب چُن چُن کر تناوُل فرمانے(یعنی کھانے) لگے۔ مامون نے حیران ہوکر کہا: اے شیخ! کیا آپ کا ابھی تک پیٹ نہیں بھرا؟ فرمایا: کیوں نہیں ! دراصل بات یہ ہے کہ مجھ سے حضرتِ سیِّدُنا حَمّاد بن سَلَمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک حدیث بیان فرمائی ہے: ’’جو شخص دسترخوان کے نیچے گِرے ہوئے ٹکڑوں کو کھائے گا وہ فقر (یعنی تنگدستی) سے بے خوف ہوجائے گا۔‘‘ (تاریخ اصبھان للاصبہانی ج۲ص۳۳۳)
حضرتِ سیِّدُنا سَہل بن سَعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبُوَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ با بَرَکت میں حاضِر ہو کر اپنی تنگدستی کی شکایت کی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ جب تم گھر میں داخِل ہونے لگواور گھر میں کوئی ہو تو سلام کر کے داخِل ہوا کرواور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو مجھ پر سَلام عرض کرواور ایک بار قُلْ هُوَ اللّٰهُ شریف پڑھو۔‘‘ اُس شَخص نے ایسا ہی کیا پھر
اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اُس کو اتنا مالا مال کر دیا کہ اُس نے اپنے ہمسایوں (یعنی پڑوسیوں )کی بھی خدمت کی۔ (تفسیر قرطبی ج۱۰ص۱۸۳)
خالی گھر میں سلام کرنے کے دو طریقے پیش کئے جاتے ہیں : دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ 32 صَفحات پر مشتمل رسالے ، ’’101مدنی پھول‘‘ صَفْحَہ 24پر ہے :اگر ایسے مکان(خواہ اپنے خالی گھر) میں جانا ہو کہ اس میں کوئی نہ ہو تو یہ کہئے: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْن (یعنی ہم پر اوراللہ عَزَّ وَجَلَّکے نیک بندوں پر سلام )فِرِشتے اس سلام کا جواب دیں گے۔(رَدُّالْمُحتارج۹ ص ۶۸۲) یا اس طرح کہئے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّـھَا النَّبِیُّ )یعنی یا نبی آپ پر سلام ) کیونکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رُوحِ مبارَک مسلمانوں کے گھروں میں تشریف فرما ہوتی ہے۔ (بہارِشریعت حصّہ۶ا ص۹۶، شرح الشّفاء للقاری ج۲ص۱۱۸)
اے مدینے کے تاجدار سلام اے غریبوں کے غم گُسار سلام
میرے پیارے پہ میرے آقا پر میری جانب سے لاکھ بار سلام
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ہر مال داربُرا نہیں ہوتا اور ہر غریب اچّھا نہیں ہوتا ۔ اگر کسی مالدار کا دل مال کی
مَحَبَّت سے خالی ہو ، اُس کا مال اُس کو ربِّ ذوالجلال سے غافِل نہ کرے اوروہ اپنے مال کے تمام شرعی حُقُوق بھی بجا لاتا ہو تو یقینا وہ ایک اچّھا مسلمان ہے، لیکن کسی دولت مند کا ایسا ہونانہایت مشکل ہے۔ دولت مندوں کے پاس غریبوں کے مقابلے میں عُمُوماً گناہوں کے اسباب زیادہ ہوتے ہیں ۔ جس کے پاس گناہوں کے اسباب زیادہ ہوں اُس کا گناہوں سے بچنا زیادہ دشوار ہوتا ہے ۔نیز دنیا میں جس کے پاس مال زیادہ اس پر آخِرت میں حساب کا وبال بھی زیادہ ۔چُنانچہِ
حضرتِ سیِّدُناابودَرْدا ء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :میں تو اِس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ مسجد کے دروازے ہی پر میری دُکان ہو،تا کہ کاروبار مجھے نماز اورذِکرُاللّٰہ سے غافل نہ کرے نیز ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ناپسند ہے کہ مجھے اس دکان سے روزانہ 50دینار(یعنی 50سونے کی اشرفیوں ) کا نفع بھی حاصل ہو رہا ہو جسے میں راہِ خدا میں صَدَقہ کردیا کروں ! عرض کی گئی:آپ اس بات(یعنی اِس قدر آسان ، حلال اور نیکیوں بھری کثیر کمائی) کو کیوں ناپسند فرماتے ہیں ؟ فرمایا: ’’آخِرت کے حساب کتاب کی سختی کی وجہ سے۔‘‘ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص۶۰۳)کیوں کہ آخِرت کا حساب حلال مال پر بھی ہے اور جو حرام مال ہے اُس پر تو عذاب ہے۔
صَدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے (حدائقِ بخشش ص۱۷۱ مکتبۃ المدینہ)
آج کل مالداری کے سبب بے شمار گناہ کئے جا رہے ہیں ، انہیں گناہوں میں یہ بھی ہے کہ بعض مالدار کئی مواقِع پر مال کے تعلُّق سے جھوٹ بولتے سنائی دیتے ہیں : اس کی 16مثالیں مُلاحَظہ ہوں لیکن کسی بات کوگناہ بھراجھوٹ اُسی صورت میں کہا جائے گا جبکہ وہ بات سچ کی اُلٹ ہو اور جان بوجھ کر کہی گئی ہواور اس میں شَرْعی اجازت ورخصت کی بھی کوئی صورت نہ ہو مَثَلاً{۱}مجھے مال سے کوئی مَحَبَّت نہیں {۲} میں تو صرف بچّوں کیلئے کماتا ہوں {۳} میں تو صرف اس لئے کماتا ہوں کہ ہر سال مدینے جا سکوں {۴} میں تو راہِ خدا میں لٹانے کیلئے کماتا ہوں ( حالانکہ سالانہ فقط ڈھائی فیصد زکوٰۃ نکالنے کو بھی جی نہیں چاہتا، غریبوں کو خوب دھکّے کھلائے جارہے ہوتے ہیں ){۵}چوری ہونے، ڈاکا پڑنے،آتَش زدَگی یا کسی بھی سبب سے مالی نقصان ہو جانے پر کہنا ـ : ’’مجھے اِس کاکوئی غم نہیں ‘‘ (حالانکہ واویلا بھی جاری ہو تا ہے){۶} شاندار کوٹھی( بنگلا) بنا کر یانئے ماڈل کی بہترین کار حاصل کر نے کے بعد کہنا: ’’یار! اپنا کیا ہے! یہ تو بس بچّوں کا شوق پورا کیا ہے۔‘‘ (حالانکہ خود اپنا دل خوب آسائش پسند ہوتا ہے){۷}اِتنا کمالیا ہے کہ بس اب جی بھر گیا ہے(حالانکہ کہنے والا بڑے جذبے کے ساتھ کمانے کا سلسلہ جاری رکھتا اور نئے نئے کاروبار شروع کئے جارہا ہوتا ہے ) {۸} میں بالکل فُضول خرچی نہیں کرتا (جب کہ جینے کااندازکچھ اور ہی داستان سنا رہا ہوتاہے!){۹}اللہ نے بَہُت کچھ دیا
ہے لیکن ہم سادگی پسند ہیں (حالانکہ تن کے کپڑے ،کھانے کے برتن وغیرہ بہ بانگِ دُہُل ’’سادَگی‘‘ کا منہ چِڑارہے ہوتے ہیں ) {۱۰}میں نے اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی بَہُت سادَگی سے کی ہے (حالانکہ جتنا شاہی خرچ اس شادی پر ہوا ہوتا ہے اُس رقم میں غریب گھرانے کی شاید 100شادیاں ہو جائیں ) {۱۱} بس جی ! سب کچھ بچوں کے حوالے کردیا ہے ،کاروبار سے اپنا کوئی لینا دینا ہی نہیں !(یہ بات کہنے والے کو کوئی اس وقت دیکھے جب یہ اپنی اولاد سے کاروبار کا باقاعدہ حساب لے رہے ہوتے اور ان کے کان کھینچ رہے ہوتے ہیں ) {۱۲}مالداری کی وجہ سے کبھی تکبُّر نہیں کیا ( ایسا کہنے والے کو کوئی اُس وقت دیکھے جب یہ کسی غریب رشتے دار کوحقارت سے دھتکار رہے ہوں ،اس سے ہاتھ ملانا اپنی کسرِشان قرار دے رہے ہوں ،یا اپنے ملازمین پر برس رہے ہوں ){۱۳}جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینے جابسوں (واقعی جی چاہتا ہو تو مرحبا! ورنہ جھوٹ) {۱۴}کبھی کسی پر اپنی مالداری کا رعب نہیں ڈالا ( کسی کے یہاں شادی بیاہ وغیرہ کی تقریب میں حسبِ منشا آؤبھگت نہ ہونے کی صورت میں ان کے منہ سے جھڑنے والے پھولوں کو کوئی دیکھے یا کسی جگہ یہ اپنا تعارُف خود کرواتے دکھائی دیں کہ مابدولت اتنی اتنی فیکٹریوں کے مالک ہیں وغیرہ وغیرہ تو اس جملے کی حقیقت سامنے آجائے گی ){۱۵}یہ مالداری توبس ظاہِری ہے، دل کاتومیں فقیر ہوں (ان کاروحانی سی ٹی اسکین کریں تو شاید حرص ولالچ سرفہرست ہوں){۱۶}ہم اپنے ملازِموں کو نوکر نہیں گھر کا فرد سمجھتے ہیں (اُن کے ملازموں کا دل ٹٹولا جائے توڈھول کاپول سامنے آجائے گا کہ ان بے چاروں کے ساتھ کس طرح کتّوں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہوتا ہے )
{۱} یَا مُسَبِّبَ الْاَسْبَاب500 بار، اوّل آخِر درود شریف 11،11بار، بعد نَمازِ عشا قِبلہ رُو با وُضو ننگے سر ایسی جگہ پڑھئے کہ سراورآسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو،یہاں تک کہ سر پر ٹوپی بھی نہ ہو۔اسلامی بہنیں ایسی جگہ پڑھیں جہاں کسی اجنبی یعنی غیرمَحرم کی نظر نہ پڑے۔
{۲} یَا بَاسِطُ 100 بار نَمازِ چاشْتْ کے بعد پڑھ لیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ روزی میں بَرَکت ہوگی۔
{۳}یَا ذَاالْجِلَالِ وَالْاِکْرَام 100بار ہر نماز کے بعد پڑھ کر حلال روزگار کیلئے دعا کرنے والے کو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ رزقِ حلال ملے گا ۔
{۴}یَا اللہُ 786 بار بعد جمعہ لکھ لیجئے۔ اسے دکان یا مکان میں رکھنے سے رِزق بڑھتا اور مال و دولت میں بَرَکت ہوتی ہے۔
{۵} صبحِ صادِق کے بعد نمازِ فجر سے پہلے اپنے مکان کے چاروں کونوں میں کھڑے ہو کر
یَا رَزَّاقُ10بار پڑھئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کبھی اس گھر میں تنگدستی نہ آئے گی۔ طریقہ یہ ہے کہ گھر میں سیدھے ہاتھ کے کونے سے قبلہ رُخ کھڑے ہوکر شروع کیجئے اوراِس کونے سے دوسرے کونے تک اس طرح ترچھے چل کر جایئے کہ چہرہ قبلہ رخ ہی رہے اور ہر
کونے میں قبلہ رُخ کھڑ ے ہو کر پڑھئے۔
{۶} مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ اَحَمَدُ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔ جو شخص بعد نماز جمعہ پاک صاف ہو کر35بار یہ لکھ کر اپنے پاس رکھے خدا خداتَعَالٰیاُسے غیب سے رِزق عطا فرمائے گا اور وہ شیطان کے شر سے بھی محفوظ رہے گا۔
{۷} یَا لَطِیْفُ100بار پڑھ کر ایک مرتبہ اَللّٰهُ لَطِیْفٌۢ بِعِبَادِهٖ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ ([1])
۱؎؎ پڑھنے سے رِزق میں بَرَکت ہوتی ہے ۔
{۸} یَا لَطِیْفُ 100بار روزانہ بعد نمازِ فجر و مغرب پڑھ کر تین مرتبہ یہ دعا پڑھنا رِزق میں برَکت کے لیے نہایت مفید ہے۔ اَللّٰهُمَّ وَسِّعْ عَلَيَّ رِزْقِيْ، اَللّٰهُمَّ عَطِّفْ عَلَيَّ خَلَقَكَ كَمَا صُنْتَ وَجْهِيَ عَنِ السُّجُوْدِ لِغَيْرِكَ، فَصُنْهٗ عَنْ ذُلِّ السُّوَالِ لِغَيْرِكَ، بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن۔
{۹} یَا حَییُّ، یَا قَیُّوُمُ اور یَا وَ ھَّا بُ روز انہ ایک ایک ہزار بار پڑھنا کشائشِ رِزْق کے لیے فائدے مند ہے۔
{۱۰}ہر نماز کے بعد یہ آیاتِ مبارکہ پڑھنا رِزْ ق کے لیے بَہُت اچھا ہے۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ ﱙ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠(۱۲۹)(پ۱۱سُورۃالتَّوبَۃ آیت: ۱۲۸۔۱۲۹)
{۱۱}بعد نماز فجر اوّل آخر 14 مرتبہ درود شریف اور پھر یَا وَ ھَّا بُ 1400بارپڑھئے یَا وَ ھَّا بُ کبھی رِزق میں برکت سے محرومی نہ ہو گی،بلکہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے اس کی نسلیں بھی روزی کی کثر ت کے سبب شاد کام رہیں گی۔
ایک صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! دنیا نے مجھ سے پیٹھ پھیرلی ۔ فرمایا: کیا وہ تسبیح تمہیں یا دنہیں جو تسبیح ہے فرشتوں اور مخلوق کی جس کی بَرَکت سے روزی دی جاتی ہے، جب صبحِ صادق طلوع ہو تو یہ تسبیح ایک سو بار پڑھا کرو، ’’سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ،سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ،اَسْتَغْفِرُاللہَ ‘‘دنیا تیرے پاس ذلیل ہو کر آئے گی۔ وہ صحابی چلے گئے کچھ مدّت ٹھہر کر دوبارہ حاضر ہوئے،عرض کی : صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! دنیا میرے پاس اس کثرت سے آئی، میں حیران ہوں ،کہاں اُٹھائوں کہاں رکھوں ! (الخصائصُ الکُبرٰی ج۲ص۲۹۹ مُلَخّصاً)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس تسبیح کا وِرْد حتَّی الامکان طُلُوع صبحِ صادِق کے ساتھ ہو ،ورنہ صبح سے پہلے ،جماعت قائم ہوجائے تو اُس میں شریک ہوکر بعد کوعَدَد پورا کیجئے اور جس دن قبلِ نماز بھی نہ ہوسکے تو خیر طُلُوعِ شمس (یعنی سورج نکلنے )سے پہلے۔ (ملفوظات ِ اعلیٰ حضرت ص ۱۲۸ مُلَخّصاً)
جوشخص طُلُوعِ آفتاب کے وَقت بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط 300بار
اور دُرُود شریف300 بار پڑھے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کوایسی جگہ سے رِزق عطافرمائے گا جہاںاس کا گمان بھی نہ ہو گا اور (روزانہ پڑھنے سے) اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ایک سال کے اندر اندر امیر و کبیر ہوجائے گا۔ (شمس المَعارِف الکبری ولطائف العوارف ص۳۷)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط کاغذ پر35 بار لکھ کر گھرمیں لٹکا دیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ شیطان کا گزر نہ ہوگا اور (رزق حلال میں) خوب بَرَکت ہوگی، اگر دکان میں لٹکائیں گے اور جائز کاروبار ہواتو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ خوب چمکے گا۔ (اَیضاً ص۳۸)
لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ 97 بار پڑھ کر تجوری، غلّے (یعنی اناج)، گودام، مال وغیرہ پر دم کرنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آفت ومصیبت سے مال و دولت کی حفاظت ہوگی۔
(غیرِ مکروہ وقت میں) دو۲ رَکْعَت نَفْل ادا کیجئے اور سلام پھیرنے کے بعد یاَ لَطِیْفُ 182 بار (اوّل آخِر ایک بار دُرُود شریف )پڑھ کر جائز اور آسان ملازَمت یا حلال روزگار ملنے کے لئے دعا کیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ دُعاقَبول ہو گی۔
ظہر کی نَماز کے بعد11 یا21 یا41بارہر بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
کے ساتھسُوْرَۃُ اللَّھَب پڑھئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ حسبِ خواہِش تبادَلہ ہوجا ئے گا۔
جائزملازَمت وغیرہ کی خاطر انٹر ویو دینے کیلئے جانا ہو تو پہلے یہ پڑھ لیجئے : اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط كٓهٰیٰعٓصٓ۔ حٰمٓ۔ عٓسٓقٓ۔ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔کامیابی حاصِل ہوگی۔
سُوْرَۃ ُالتَّوْبۃ لکھ یا لکھواکرپلاسٹک کوٹنگ کروا کراپنے سامان میں رکھئے ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ چوری سے محفوظ رہے گا۔
{۲۰}یا جَلِیْلُ ( اے بزرگی والے)10 بارپڑھ کر اپنے مال واَسباب اوررقم وغیرہ پردم کردیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ چوری سے محفوظ رہے گا۔
{۲۱} مال چوری یا مال گم ہوجائے،یہ آیتِ مبارَکہ بے شمار پڑھنے سے مل جائے گا،اِن شَاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ۔ یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶) (پ۲۱سُورۃُ لُقمٰن آیت: ۱۶)
یا اللہُ101بار کاغذ پر لکھ کر تعویذ بنا کربازو پر باندھ لیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
جائز کام دھندے اور حلال نوکری میں دل لگ جائے گا۔
اگر گھر میں بیماری اور غربت و ناداری نے بسیرا کر لیا ہو توبِلا ناغہ7روز تک ہرنَماز کے بعد یَارَزَّقُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَاسَلَامُ 112 بار پڑھ کر دعا کیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ بیماری ،تنگدستی و نادار ی سے نَجات حاصِل ہو گی۔
افسر (یا نگران) جس سے خَفا ہو وہ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط بکثرت پڑھا کرے یا ایک مرتبہ لکھ کر بازو پر باندھ لے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کا افسر (یانگران)مہربان ہوجائے گا ۔
{۲۵}اگر افسریا سیٹھ بات بات پر غصّہ کرتا اور جھاڑتاہو تو اٹھتے بیٹھتے ہر وقت یَا حَییُّ، یَا قَیُّوُمُ پڑھتے رہئے اور تصوُّر میں افسر یا سیٹھ کا چِہرہ لاتے رہئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ وہ آپ پر مِہربان ہو جائے گا ۔
{۲۶} لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھ کر یا لکھ کر بازو وغیرہ پر باندھ کر ضرورتاً کسی ظالم افسر کے دفتر میں جانے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے شر سے حفاظت ہو گی۔
فَلَمَّا اسْتَیْــٴَـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِیًّاؕ-قَالَ كَبِیْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ
عَلَیْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَ مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَۚ-فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى یَاْذَنَ لِیْۤ اَبِیْۤ اَوْ یَحْكُمَ اللّٰهُ لِیْۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(۸۰) (پ۱۳یُوسُف : ۸۰) یہ آیتِ مبارَکہ پڑھ کر سامان یا گاڑی پر دم کر دیجئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ سامان جلد فروخت ہو جائے گا۔
بچّہ یا بڑا گُم ہو جائے تو سارے گھر والے بے شمار بار یَا جَامِعُ یَا مُعِیْدُ کا وِرْد کریں۔ اللہ تعالٰینے چاہا تو مل جائے گا۔
یَا وَھَّابُ300بار بعد نمازِ فجر پڑھئے۔ اِنْ شَآءَاللہ تَعَالٰیروزگار کی پریشانی دور ہوگی۔ (مدّت: 40دن)
مکان یا دکان وغیرہ میں لگی ہوئی دیمک کا اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ خاتمہ ہو گا، کاغذ پر یہ اسمائِ مبارَکہ لکھ کر وہاں لٹکا دیجئے: اوّل خلیفہ سیِّدنا حضرت ابوبکر صدّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ۔ دُوُم خلیفہ سیِّدنا حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ۔سوم خلیفہ سیِّدنا حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ۔ چہارم خلیفہ سیِّدناحضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ۔پنجم خلیفہ سیِّدناحضرت حسن بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔ششم خلیفہ سیِّدنا حضرت امیرمعاویہ بن ابوسفیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔
لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ 41بار پڑھ کر ذخیرہ کی ہوئی چیزوں اور کتابوں وغیرہ پر دم کر دیا جائے تو دیمک اور دوسرے کیڑے مکوڑوں سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ حفاظت ہو گی۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط خریداری کرتے وقت پڑھتے رہنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ چیز اچھی اور وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق ملے گی۔
یہ رسالہ پڑھ لینے کے بعدثواب کی نیت سے کسی کو دے دیجئے۔
غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و
بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب
۲۸ ربیع الاخر ۱۴۳۶ھ
2015-02-18
کتاب |
مطبوعہ |
کتاب |
مطبوعہ |
قراٰن مجید |
|
روض الریاحین |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
تفسیر قرطبی |
دار الفکر بیروت |
بستان الواعظین |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
نور العرفان |
پیر بھائی کمپنی مرکز الاولیاء لاہور |
القول البد یع |
مؤسسۃ الریان بیروت |
مسلم |
دار ابن حزم بیروت |
التعریفات |
دار المنار |
ترمذی |
دار الفکر بیروت |
تعلیم المتعلم |
باب المدینہ کراچی |
ابن ماجہ |
دار المعرفۃ بیروت |
خصائص الکبرٰی |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
مسند امام احمد |
دار الفکر بیروت |
شرح الشفاء للقاری |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
معجم اوسط |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
شمس المعارف الکبری |
کوئٹہ |
شعب الایمان |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
ردالمحتار |
دار المعرفۃ بیروت |
الفردوس بمأثور الخطاب |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
ملفوظات اعلیٰ حضرت |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
جمع الجوامع |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
بہار شریعت |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
تاریخ اصبہان |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
سنی بہشتی زیور |
فرید بک اسٹال مرکز الاولیاء لاہور |
قوت القلوب |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
فرہنگ آصفیہ |
سنگ میل پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور |
احیاء العلوم |
دار صادر بیروت |
حدائق بخشش |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |