کرسی پر نماز پڑھنے کے شرعی مسائل پر ایک جامع اور اَہم فتویٰ

 

 

کرسی پر نماز

پڑھنے کے اَحکام

 

 

از: مفتی فضیل رضا قادری عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی

 

 

 

پیشکش

مجلسِ اِفتاء (دعوتِ اسلامی )

 

 

ناشر

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی


 

  نام رسالہ:       کرسی پر نماز پڑھنے کے اَحکام

  از:              مفتی فضیل رضا قادری عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی

  پیشکش:                      مجلسِ اِفتاء (دعوتِ اسلامی )

  سن طباعت:     ۲۱جمادَ ی الاخری۱۴۳۶،  11  مارچ  2015ء

  ناشر :            مکتبۃ المدینہ فیضانِ مدینہ باب المدینہ کراچی

مکتبۃُ الْمد    ینہ کی شاخیں

کراچی :  شہید مسجد، کھارا در، باب المدینہ کراچی                   فون: ـ32203311021-

لا ہو  ر : داتا دربار مارکیٹ، گنج بخش روڈ                               فون: 37311679042-

سردار آباد : (فیصل آباد)امین پور بازار                              فون: 2632625041-

کشمیر : چوک شہیداں ، میر پور                                   فون: 37212058274-

حیدر آباد : فیضانِ مدینہ،آفندی ٹاؤن                              فون: 2620122022-

ملتان : نزد پیپل والی مسجد، اندرون بوہڑ گیٹ                      فون: 4511192061-

اوکا  ڑہ : کالج روڈبالمقابل غوثیہ مسجد، نزد تحصیل کونسل ہال          فون: 2550767044-

راولپنڈی : فضل داد پلازہ، کمیٹی چوک، اقبال روڈ                 فون: 5553765051-

خان پور : دُرانی چوک، نہر کنارہ                                    فون: 5571686068-

نواب شاہ : چکرا بازار، نزد  MCB                               فون: 43621450244-

سکھر : فیضانِ مدینہ،بیراج روڈ                                   فون: 5619195071-

                                  گوجرانوالہ : فیضانِ مدینہ،شیخوپورہ موڑ،گوجرانوالہ     فون: 4225653055-

       پشاور : فیضانِ مدینہ،گلبرگ نمبر1،النور اسٹریٹ، صدر

E.mail: ilmia@dawateislami.net

www.dawateislami.net

مد نی التجاء : کسی اور کو یہ کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں


تقریظ جلیل

عالم نبیل، فاضل ِجلیل اُستاذ العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نسیم مصباحی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیْہ

(رئیس دار الافتاء جامعہ اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ، ہند)

 


یاد داشت

دورانِ مطالعہ ضرورتاً انڈر لائن کیجئے، اشارات لکھ کر صفحہ نمبر نوٹ فرما لیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ علم میں  ترقی ہوگی۔

عنوان

صفحہ

عنوان

صفحہ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

کرسی پر نماز پڑھنے کے اَحکام

       کیا فرماتے ہیں  علماءِ دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ کرسی پر بیٹھ کرنماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ آج کل مساجد میں  اس کا بہت رواج ہوگیا ہے لہٰذا وضاحت کے ساتھ اس کاجواب دیں  تاکہ عوامُ النّاس کو اس حوالے سے شرعی رہنمائی حاصل ہوجائے ؟نیزکرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا شخص پورا قیام یا بعض صف سے آگے ہوکر کرے تواس کا کیا حکم ہے؟اور مساجد میں  معذور افراد کیلئے کرسیاں  کہاں  رکھنی چاہئیں ؟مزید یہ کہ کرسی کے ساتھ لگے ہوئے تختوں  پر بعض لوگ سر رکھ کر سجدہ کرتے ہیں  اس کا کیا حکم ہے، یہ کہنا کہ مکروہِ تحریمی و گناہ ہے درست ہے یا نہیں ؟                                سائل: محمد عبداللہ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

اَلْجَوَاب بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّاب اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَاب

       فرائض وواجبات اور سنّتِ فجر میں  قیام فرض ہے۔ ان نمازوں  کو اگر بلاعذرِ شرعی بیٹھ کر پڑھیں  گے تو ادا نہ ہوں  گی اور اگر خود کھڑے ہوکر نہیں  پڑھ سکتے مگر عصایا دیوار یا آدمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن ہو تو جتنی دیر اس طرح سہارے سے کھڑا ہوسکتا ہے اتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، یہاں  تک کے صرف تکبیر ِتحریمہ


کھڑے ہوکر کہہ سکتا ہے تو اتنا ہی قیام فرض ہے اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو یعنی نہ خود کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوسکتا ہے اگرچہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ یونہی کھڑے ہونے میں  پیشاب کا قطرہ آتا ہے یا چوتھائی سَتْر ُکھلتا ہے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایسا لاغر و کمزور ہوچکا ہے کہ کھڑا تو ہوجائے گا مگر قراء ت نہ کر پائے گا تو قیام ساقط([1]) ہوجائے گا۔مگر اس بات کا خیال رہے کہ ُسستی و کاہلی اور معمولی دِقَّت کو مجبوری بنانے سے قیام ساقط نہیں  ہوتا بلکہ اس بات کاگمان غالب ہو کہ قیام کرنے سے مرض میں  زیادتی ہوجائے گی یا دیر میں  اچھا ہو گا یا ناقابلِ برداشت تکلیف ہو گی تو بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ملتی ہے۔

       اس فرضیت ِقیام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کے لئے جائے گا تو قیام نہ کرسکے گا، گھر میں  پڑھے تو قیام کے ساتھ پڑھ سکتا ہے تو شرعاً حکم یہ ہے کہ گھر میں  قیام کے ساتھ نماز پڑھے، اگر گھر میں  جماعت میسر آجائے تو فَبِہَا ورنہ تنہا ہی قیام کے ساتھ گھر میں  پڑھنے کا حکم ہے۔

        الغرض سچی مجبوریوں  کی بناء پر قیام ساقط ہوتا ہے، اپنی مَن گھڑت بنائی ہوئی نام کی مجبوریوں  کا شرعاً کسی قسم کا کوئی لحاظ نہیں  ہوتا۔

       تنبیہ: قیام کے ساقط ہونے کی ایک اہم صورت یہ بھی ہے کہ اگرچہ قیام پر قادر ہو مگر سجدہ زمین پر یا زمین پر اتنی اونچی رکھی ہوئی چیز پر کہ جس کی اونچائی بارہ اُنگل سے زیادہ نہ ہو کرنے سے عاجز ہو تو اس سجدۂ حقیقی سے عاجز ہونے کی صورت میں  اصلاً قیام ساقط ہوجاتا ہے اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ورنہ جب


قیام کے اوپر ذکر کئے گئے مسائل بیان کئے جاتے ہیں  کہ’’ اگرچہ تکبیر ِتحریمہ کھڑے ہوکر کہہ سکتا ہے تو اتنا قیام فرض ہے ورنہ نماز نہ ہوگی ‘‘ اور اس قسم کے مسائل جو اوپر ذکر کئے گئے تو ان مسائل کی بناء پر سجدہ نہ کرسکنے کی صورت میں  عوامُ الناس کو یہ شبہ لاحق([2]) ہوتا ہے کہ قیام پر قدرت کے باوجود قیام کیسے ساقط ہورہا ہے اور کَمَا حَقُّہٗ وہ ان مسائل کو سمجھ نہیں  پاتے اس لئے دونوں  صورتوں  میں  فرق ملحوظ رکھنا چاہئے۔

       کرسی پر یا اس کے علاوہ بیٹھ کر پڑھنے کے حکمِ شرعی کی مزید وضاحت کے لئے دو جامع صورتیں  ذکر کی جاتی ہیں  اس باب کے مسائل کا لُبِّ لُباب ان سے اچھی طرح ذہن نشین ہوسکتا ہے۔

(1)قیام پر قدرت نہ ہو، بالکل قادر نہ ہو یا کچھ قیام پر قادر ہو پھر قدرت نہ رہے، مگر رکوع و سجدہ پر قادر ہے۔

       اس صورت میں  مریض جتنا قیام کرسکتا ہے اتنا قیام کرکے باقی نماز بیٹھ کر تو پڑھ سکتا ہے مگر چونکہ رکوع و سجود پر قادر ہے اس لئے درست طریقے سے پیٹھ جھکاکر رکوع کرنا ہوگا اور سجدہ بھی زمین ہی پر کرنا ہو گا زیادہ سے زیادہ بارہ اُنگل اونچی رکھی ہوئی چیز پر بھی سجدہ کرسکے تو اسی پر سجدہ کرنا ضروری ہے رکوع و سجود کی جگہ اشارہ کرنے سے اس کی نماز نہ ہوگی۔

       اب اگر تَأَمُّل سے کام لیا جائے تو اس صورت میں  اگر بیٹھنے والا زمین پر بیٹھا ہو تو رکوع اور سجدے کرنے میں  اسے کوئی دِقَّت نہ ہوگی لیکن اگر کرسی پر بیٹھا ہو تو سجدہ کرنے کے لئے اسے کرسی پر سے اُترنا پڑے گا اور سجدہ زمین پر درست

 

طریقے سے کرنے کے بعد دوبارہ کرسی پر بیٹھنا ہوگا، اس میں  چونکہ دِقَّت بھی ہے اور جماعت کے ساتھ پڑھنے والا اس طرح کرے تو بڑا عجیب و غریب منظر دِکھائی دیتا ہے، سجدہ بھی اسے صف سے آگے نکل کر کرنا پڑتا ہے، یوں  صف کی درستگی میں  بھی خلل آجاتا ہے۔

       پھر اہم بات یہ کہ جب وہ سجدہ زمین پر کرنے پر قادر ہے تو قیام کے بعد اسے کرسی پر بیٹھنے کی ضرورت ہی کیا ہے جب بیٹھنا ہی اس کا غیر ضروری لغو وفضول ہے تو اسے ہرگز کرسی پر نہیں  بیٹھنا چاہئے، اس طرح بیٹھنے والے یا تو بلاوجہ کی دِقَّتوں  میں  پڑتے ہیں  یا قادر ہونے کے باوجود رکوع و سجود کرسی پر بیٹھے بیٹھے اشاروں  سے کرتے ہیں ، یوں  اپنی نماز وں  کو فاسد کرتے ہیں۔

        لہٰذا ایسوں  کو زمین ہی پر بیٹھ کر رکوع و سجود درست طریقے سے بآسانی ادا کرکے نماز پڑھنی چاہئے تاکہ فساد اور ہر قسم کے خلل سے ان کی نماز محفوظ رہے۔

(2)رکوع وسجود دونوں پر قدرت نہ ہو یا صرف سجدے پر قادر نہ ہو تو اگرچہ کھڑا ہوسکتا ہواس سے اصلاً قیام ساقط ہوجاتا ہے۔

        لہٰذا اس صورت میں  مریض بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے بلکہ اس کے لئے افضل بیٹھ کر پڑھنا ہے اور ایسا مریض اگر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے تو اس کی بھی گنجائش ہے کہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے رکوع و سجود بھی اشارہ سے بآسانی کئے جاسکتے ہیں ، یوں  پوری نماز بیٹھے بیٹھے ادا ہوجائے گی، پہلی صورت کی طرح بے جا دِقَّتوں  اور فسادِ نماز وغیرہ کا اندیشہ اس صورت میں  نہیں  ہوتا۔


       مگرچونکہ حتی الامکان دو زانوں  بیٹھنا چاہئے کہ مستحب ہے اس لئے کرسی پر پاؤں  لٹکاکر بیٹھنے سے احتراز کرنا چاہئے، جس طرح آسان ہو زمین ہی پر بیٹھ کر نماز ادا کی جائے، دو زانوں  بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو تو دو زانوں  بیٹھنا مستحب ہے ورنہ جس میں  آسانی ہو چار زانو ں  یا اُکڑوں  یا ایک پاؤں  کھڑا کرکے ایک بچھا کر اسی طرح بیٹھ جائے، ہاں  اگر زمین پر بیٹھا ہی نہ جائے تو اس دوسری صورت میں کرسی یااِسٹول یا تخت وغیرہ پر پاؤں  لٹکاکر بیٹھ سکتے ہیں  مگر بلا وجہ ٹیک لگانے سے پھر بھی احتراز کیا جائے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کی جنہیں  اجازت ہوتی ہے حتی الامکان انہیں  ٹیک لگانے سے احتراز کرنا چاہئے اور ادب و تعظیم اور سنت کے مطابق اَفعال بجا لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

       اس صورت میں  چونکہ بیٹھ کر پڑھنے کی رخصت ملنے کا اصل سبب رکوع وسجود پر قادر نہ ہونا ہے اس لئے رکوع و سجود کا اشارہ کرنا ہوگا اور سجدے کے اشارہ میں  رکوع سے زیادہ سر جھکانا ضروری ہے، اس بات کا بھی خیال رکھا جائے ورنہ نماز نہ ہوگی۔

کرسی پر بیٹھنے والا پورا قیام یا کچھ قیام صف سے آگے نکل کر کرے تو اس کا حکم

        ممکنہ دو صورتیں  بنتی ہیں : (1)صف کی سیدھ میں  کرسی ہونے کی وجہ سے وہ خود صف سے آگے جداہوکرکھڑاہوگا جیسا کہ عام طور پر لوگ کھڑے ہوتے ہیں  (2)یاپھرکرسی صف سے پیچھے کرکے خودصف کی سیدھ میں  کھڑاہوگا توبیٹھنے کی صورت


میں  صف سے جداہوگا اور اس کی کرسی کی وجہ سے پچھلی صف بھی خراب ہوگی۔

        لہٰذا دونوں  صورتوں  میں  صف بندی میں  خلل کی مکروہ صورت کا ارتکاب لازم آئے گا جبکہ صف کی درستگی کی احادیث میں  بہت تاکیدآئی ہے کہ صف برابر ہو، مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں ، سب کی گردنیں ، کندھے، ٹخنے آپس میں  محاذی یعنی ایک سیدھ میں  ہوں۔

       اب کرسی پر بیٹھنے والوں  کا جائزہ لیا جائے توجوشخص زمین پرسجدہ کرنے پرقادرنہیں  اگر وہ مجبوراً کرسی پر نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو اسے کرسی پر بیٹھ کراشاروں  سے نمازپڑھنی چاہئے تاکہ کھڑے ہونے کی صورت میں صف بندی میں  خلل نہ آئے اور کراہت کا مرتکب نہ ہو۔ اور ہوسکے تو بغیر کرسی کے نماز پڑھے کہ اس صورت میں  قیام کرنے اور پھر بیٹھ جانے دونوں  صورتوں  میں  صف بندی میں  خلل نہیں  آتا۔

       اور جو سجدہ پر قادر ہے پورے قیام پر قادر نہیں  بعض پر قادر ہے اس کے لئے چونکہ ضروری ہے کہ جتنے پر قادر ہے اتنا قیام کرے یہاں  تک کے تکبیرِ تحریمہ کہہ سکتا ہو تو وہی کھڑے ہوکر کہے ورنہ اس کی نماز نہ ہوگی لہٰذا ایسے شخص کے لئے جماعت کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے میں  شرعاً کوئی مجبوری نہیں  ہوسکتی کہ جب سجدے پر وہ قادر ہے کچھ قیام بھی کرسکتا ہے تو قیام کے بعد اسے زمین ہی پر بیٹھنا ہوگا تو پھر کرسی کس کام کی ہے دوسروں  کی رِیس میں  محض راحت کے لئے بیٹھنا کیا عذر بن سکتا ہے ہرگز نہیں ! اگر بیٹھنے اور اُٹھنے میں  دِقَّت ہوگی اس لئے تھوڑی دیر کے لئے

 

قیام کے بعد کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں  تو انہیں  تھوڑی دِقَّت برداشت کرلینی چاہئے۔

       لہٰذا ایسے حضرات صف میں  زمین پر نماز پڑھیں ، جتنا قیام کرسکتے ہوں  صف میں  کھڑے ہوں ، باقی بیٹھ جائیں  اور رکوع و سجود حقیقتاً کرکے اپنی نماز مکمل کریں ، ہوسکتا ہے کہ بہت سے اس قسم کے لوگ محض کرسی کے چَکر میں  رکوع و سجود پر قادر ہونے کے باوجود اشارے سے نماز پڑھتے ہوں  ان کی تو یوں  نمازیں  بھی ضائع ہوجاتی ہیں۔ انہیں  جو درست مسئلہ بتائے، سمجھائے، اس پر عمل کی راہ دِکھائے، کرسی کی نفسیات کی وجہ سے بعض لوگ اسے دشمن سمجھتے ہیں  انہیں  ہوش کرنا چاہئے، سمجھانے والا ان کا دشمن نہیں  خیر خواہ ہے، ان کی نمازوں  کا تحفظ چاہتا ہے، انہیں  اپنا عمل درست کرلینا چاہئے۔

مسجد میں  دورانِ جماعت کرسیاں  کہاں  رکھنی چاہئیں

       کرسیاں صف کے کناروں  پر رکھی جائیں ، صف کے درمیان رکھنے کی وجہ سے بلاوجہ نمازیوں  کو وحشت ہوگی، صف درست کرنے میں  بعض اوقات درمیان میں  رکھی ہوئی کرسی کی وجہ سے خلل آتا ہے، صف بناتے ہوئے کھڑے کھڑے سرکنا آسان ہوتا ہے مگر کرسی بیچ میں  رکھی ہو تو اسے سَرکاتے ہوئے صف درست کرنا مشکل کام ہے، عام طور پر کرسیاں  کنارے ہی پر رکھی جاتی ہیں  یہی مناسب ہے مگر بعض مساجد میں  دائیں  بائیں  کے کناروں  پر لائن سے چار پانچ کرسیاں  سجائی ہوتی ہیں  بعض کرسی پر بیٹھنے والے تکبیر ِاُولیٰ سے پہلے آجاتے ہیں  بعض کرسیاں  خالی ہوتی ہیں  عین نماز شروع ہوتے وقت وہی دِقَّت کہ خالی کرسیوں  کو اُٹھانے


میں  کرنی پڑتی ہے، بعض لاپرواہی سے ایسے ہی نیت باندھ لیتے ہیں  صف پوری نہیں  کرتے، اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے، پہلے سے کرسیاں  نہ سجائی جائیں ، کوئی معذور و مریض ہوگا تو پہلی دوسری تیسری جس صف میں  اسے جگہ ملے گی اسی کے کنارے اپنی کرسی رکھ لے گا۔

       عام طور پر کرسیوں  کی دیکھ بھال بھی مسجد کے مؤذن اور خادم کو کرنی ہوتی ہے یہ بھی بلا وجہ کی ایک دِقَّت ان کے سر ڈالنا ہے، بعض اوقات بعض بزرگوں  کی مسجد کے مؤذن یا خادم سے اُلجھنے اور انہیں  جھاڑنے کی خبریں  بھی ملتی رہتی ہیں  اور بہت سے لوگوں  نے ہوسکتا ہے اس کا مشاہدہ بھی کیا ہو، اس لئے کرسی پر اگر مسجد میں  بیٹھنا ہی ہے تو تمام تر شرعی اور عقلی تقاضوں  اور احتیاطوں  کے ساتھ بیٹھا جائے تاکہ نماز بھی درست ادا ہو اور دوسرے نمازیوں  کو بھی کسی قسم کی پریشانی و وحشت نہ ہو۔

       ایک اور مسئلہ جو عام طور پر جُمُعہ کی نماز میں  دیکھا جاتا ہے کہ کرسیاں  چونکہ اگلی صفوں  میں  کناروں  پر رکھی ہوتی ہیں  اور بعض معذور و مجبور حضرات دیر میں  آتے ہیں  اور دورانِ خطبہ اپنی کرسی تک پہنچنے کے لئے گردنوں  کو پھلانگتے ہوئے جاتے ہیں ، یہ بھی جائز نہیں  کہ حدیث شریف میں  ہے کہ ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں  کی گردنیں  پھلانگیں  اس نے جہنم کی طرف پل بنایا۔‘‘([3]) صدر الشریعہرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں  کہ حدیث میں  لفظ ’’اتخذ جسرًا‘‘ واقع ہوا ہے اس کو معروف و مجہول دونوں  طرح پڑھ سکتے ہیں  اور یہ ترجمہ معروف


کا ہے اور مجہول پڑھیں  تو مطلب یہ ہوگا کہ خود پل بنادیا جائے گا یعنی جس طرح لوگوں  کی گردنیں  اس نے پھلانگی ہیں  اس کو قیامت کے دن جہنم میں  جانے کا پل بنایا جائے گا کہ اس کے اوپر سے چڑھ کر لوگ جائیں۔

       ایک اور حدیث شریف میں  ہے کہ ایک شخص لوگوں  کی گردنیں  پھلانگتے ہوئے آئے اور حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  خطبہ فرمارہے تھے، ارشاد فرمایا: بیٹھ جا! تونے ایذا پہنچائی([4])۔([5])

       تنبیہ: جماعت سے نماز پڑھنے والا کرسی پر بیٹھ کر پڑھے۔ اس حوالے سے کافی تفصیل بیان ہوچکی کہ جس کا پڑھنا جائز بھی ہے اُسے بھی چاہئے کہ  صف بندی میں  خلل نہ آئے، نمازیوں  کو وحشت نہ ہو اس کا خیال رکھے! لیکن منفرد ہو یا جماعت کے ساتھ پڑھنے والا اگر مجبوراً کرسی پر بیٹھ کر نماز احتیاط کے ساتھ پڑھے کہ اس کی گنجائش ہے اس میں  حرج نہیں ،تو ایسوں  کو کرسی پر سے اُٹھانے میں  بے جا شدت برتنا اور انہیں  متنفر کرنے کی بھی ہرگز اجازت نہیں۔ فساد کی، کراہت و خلل پر مشتمل اور اجازت کی صورتوں  کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے! انہیں  خَلْط مَلْط نہ کیا جائے۔

         اس فتویٰ میں  مسائل کافی سَہْل کر کے بیان کئے گئے ہیں  مگر پھر بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں  کو کسی مُعْتَمَد عالِم یا مُسْتَنَد مفتی سے سمجھنے کی حاجت رہے۔


       نوٹ: چونکہ ان اَہم مسائل سے بہت سے لوگ غافل ہیں  اور دوسروں  کی رِیس میں  کرسی پر سوار تو ہوجاتے ہیں  مگر ضروری مسائل سے غافل ہو کر اپنی نمازوں  کو خراب کرتے ہیں ،اس لئے ان مسائل کی بھرپور طریقے سے اِشاعت کرکے عامَّۃُ النَّاس کو غلطیوں  سے بچانا چاہیے۔ بالخصوص مساجد کے ائمہ و خُطَباء اگر وقتاً فوقتاً انہیں  بیان کرتے رہیں  تو بہت سے لوگوں  کا بھلا ہوگا بلکہ ضروری مسائل بغیر دَلائل کے علیحدہ کرکے مساجد وغیرہ اَہم جگہوں  پر آویزاں  کرنا بھی مفید ثابت ہوگا۔

متعلقہ جُزئِیَّات

        چنانچہ بخاری شریف میں  ہے: عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ قال کانت بی بواسیر فسألت النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن الصلاۃ فقال صل قائمًا فإن لم تستطع فقاعدًا فإن لم تستطع فعلی جنب یعنی حضرت عمران بن حُصَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں  کہ مجھے بواسیر کی بیماری تھی تو میں  نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے (اس مرض میں ) نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگرتمہیں  اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر پڑھو۔([6])

        کنز الدقائق میں  ہے: ’’تعذر علیہ القیام أو خاف زیادۃ المرض صلی قاعدًا یرکع ویسجد ومومیًا ان تعذر وجعل سجودہ اخفض ولا


 یرفع الی وجھہ شیئًا یسجد علیہ فان فعل وھو یخفض رأسہ صح والا لا‘‘ یعنی (مریض) پر اگر قیام کرنا مُتَعَذَّر ہو یا اسے قیام کرنے کی صورت میں  مرض بڑھ جانے کا خوف ہو تو بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرے، اور اگرحقیقتاً رکوع و سجود بھی متعذر ہوں  تو اشارے سے نماز پڑھے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کی بنسبت پست کرے، اور کوئی چیزپیشانی کے قریب اُٹھا کر اس پر سجد ہ کرنے کی اجازت نہیں  لیکن اگر کوئی چیز اُٹھاکر اس پر سجدہ کرلیتا ہے تو اگر سجدہ میں  بنسبت رکوع کے زیادہ سرجھکایا تو نماز ہوگئی ورنہ نہیں  ہوگی۔([7])

        منیہ کی شرح حلبی کبیر میں  عُمْدَۃُ الْمَحَقِّقِین علاّمہ فہامہ ابراہیم حلبی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں : (والثانیۃ) من الفرائض (القیام ولو صلی الفریضۃ قاعدًا مع القدرۃ علی القیام لا تجوز) صلٰوتہ بخلاف النافلۃ علی ما یاتی ان شاء اللہ تعالٰی (وان عجز المریض عن القیام) عجزًا حقیقیًا او حکمیًا کما اذا قدر حقیقۃً لکن یخاف بسببہ زیادۃ مرض او بطؤ برء او یجد المًا شدیدًا (یصلی قاعدًا یرکع و یسجد) لحدیث عمران بن حصین اخرجہ الجماعۃ الا مسلمًا قال کانت بی بواسیر فسألت النبی صلی اللہ  علیہ وسلم عن الصلٰوۃ فقال صل قائمًا فان لم تستطع فقاعدًا فان لم تستطع فعلی جنب زاد النسائی فان لم تستطع فمستلقیا لایکلف اللہ نفسًا الا وسعہا اما اذا کان یقدر علی القیام لکن یلحقہ نوع مشقۃ من غیر الم شدید ولا خوف


ازدیاد مرض او بطؤ برء فلا یجوز لہ ترک القیام ولو قدر علیہ متکئًا علی عصا او خادم قال الحلوانی الصحیح انہ یلزمہ القیام متکئًا ولو قدر علی بعض القیام لا کلہ لزمہ ذلک القدر حتی لو کان لا یقدر الا علی قدر التحریمۃ لزمہ ان یتحرم قائمًا ثم یقعد (فان لم یستطع الرکوع والسجود) قاعدًا ایضًا (اومی براسہ) لھما ایماء (وجعل السجود اخفض من الرکوع و لا یرفع الی وجھہ شیئًا یسجد علیہ) من وسادۃ او غیرھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (وان قدر) المریض (علی القیام دون الرکوع و السجود) ای کان بحیث لو قام لایقدر ان یرکع ویسجد (لم یلزمہ القیام عندنا) بل یجوز ان یومی قاعدًا وھو افضل خلافًا لزفر والثلاثۃ۔۔۔۔۔ (و ذکر فی الذخیرۃ) انہ (اذا قدر علی القیام والرکوع دون السجود) یعنی یقدر ان یقوم واذا قام یقدر ان یرکع ولکن لا یقدر ان یسجد (لم یلزمہ القیام وعلیہ ان یصلی قاعدًا بالایماء) فقولہ لم یلزمہ القیام یفھم منہ انہ یجوز لہ الایماء فی کل من القیام و القعود وقولہ وعلیہ ان یصلی قاعدًا یفھم منہ ان القعود لازم وانہ لا یجوز الایماء قائمًا (و) لکن (اکثرالمشایخ علی انہ) لایجب علیہ الایماء قاعدًا بل (یخیر ان شاء صلی قائمًا بالایماء وان شاء صلی قاعدًا بالایماء) لکن الایماء قاعدًا افضل لقربہ من السجود یعنی فرائضِ نماز میں  سے (دوسرا فرض قیام ہے، اگر کوئی شخص قیام پر قدرت رکھنے کے باوجود بیٹھ کر فرض نماز ادا کرے گا تو )اس کی وہ نماز (درست نہیں  ہوگی) بخلاف نفل کے، اس کی تفصیل اِنْ شَآءَ اللہ آگے(اس کے مقام پر) مذکور ہوگی۔

 

 

(اگر مریض قیام کرنے سے عاجز ہو)، چا ہے وہ عجز حقیقی ہو یا حکمی مثلاً: فی نَفْسِہٖ قیام پر قادر تو ہے مگر قیام کی وجہ سے مرض بڑھ جانے یا دیر سے صحت یاب ہونے کا خوف ہو، یا قیام کی وجہ سے شدید درد محسوس ہوتا ہو تو ان صورتوں  میں  (بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرے گا)، اس کی دلیل حضرت عمران بن حُصَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روایت ہے کہ جسے امام مسلم کے علاوہ محدثین کی جماعت نے روایت کیا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ مجھے بواسیر کی بیماری تھی تو میں  نے حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر اس کی اِستطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر نماز پڑھو، نسائی شریف کی روایت میں  مزید اس بات کا بھی اضافہ ہے کہ اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو تو چت لیٹ کر نماز پڑھو، اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں  ڈالتا۔‘‘ البتہ اگر قیام پر قادر بھی ہواور تھوڑی بہت مشقت اسے ہوتی ہے مگر قیام کی وجہ سے اسے درد شدید نہیں  ہوگا اور نہ ہی مرض بڑھنے یا دیر سے شفایاب ہونے کا خوف ہے تو (اس معمولی سی تکلیف کی وجہ سے) قیام ترک کرنے کی اجازت نہیں  ہوگی بلکہ عصا یا خادم پر ٹیک لگا کر قیام کرسکتا ہو تو امام حَلْوانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں  کہ صحیح قول کے مطابق اس شخص پر ٹیک لگا کر قیام کرنا لازم ہے، اور اگر کچھ دیر کھڑا ہوسکتا ہے تو اسی قدر قیام لازم ہے حتّٰی کہ اگر صرف تکبیر ِتحریمہ کھڑے ہوکر کہہ سکتا ہے تو اتنا ہی لازم ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر ِتحریمہ کہے پھر بیٹھ جائے۔ (اور اگر مریض رکوع و


سجود پر بھی قادر نہ ہو تو) بیٹھ کر (اشارے سے نماز پڑھے اورسجدہ کا اشارہ رکوع کی بنسبت زیادہ پست کرے اور سجدہ کے لئے پیشانی کی طرف) تکیہ وغیرہ (کوئی چیز نہ اُٹھائے)۔۔۔۔۔ اور مریض (اگرکھڑا ہوسکتا ہے مگر رکوع و سجود نہیں  کرسکتا تو ہمارے نزدیک اس پر قیام لازم نہیں )، وہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھ سکتا ہے بلکہ یہی اس کے لئے افضل ہے برخلاف امام زُفَر اور اَئِمَّۂ ثَلَاثہ کے۔۔۔۔۔ (ذخیرہ میں  مذکور ہے کہ جو شخص قیام و رکوع پر قادر ہو مگر سجدہ پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس پر قیام لازم نہیں ہے، اس پر لازم ہے کہ بیٹھ کر اشارے سے نماز ادا کرے)، اھ۔ صاحب ِذخیرہ کے فرمان ’’لم یلزمہ القیام‘‘ سے یہ سمجھ میں  آتا ہے کہ اسے دونوں  صورتوں  کی اجازت ہے کہ کھڑے ہو کر اشارے سے نماز پڑھے یا بیٹھ کر بہر صورت جائز ہے لیکن آگے ذکر کردہ عبارت ’’علیہ ان یصلی قاعدًا‘‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس پر قعود لازم ہے، کھڑے ہو کر اشارے سے ادا کرنے کی اجازت نہیں ، لیکن (اکثر مشائخ کا مذہب یہ ہے کہ) اس پربیٹھ کر نماز ادا کرنا واجب نہیں  ہے (اسے اختیار ہے کہ کھڑے ہو کر اشارے سے نماز ادا کرے یا بیٹھ کر) البتہ بیٹھ کر ادا کرنا افضل ہے کہ یہ سجدہ کی حالت سے زیادہ قریب ہے۔([8])

       تنویر الابصار و دُرِّمختار میں  ہے: ’’(ومنھا القیام فی فرض) وملحق بہ وسنۃ فجر فی الاصح (لقادر علیہ) وعلی السجود، فلو قدر علیہ دون السجود ندب ایماؤہ قاعدًا وکذا من یسیل جرحہ لو سجد وقد یتحتم القعود کمن یسیل جرحہ اذا قام او یسلس بولہ او یبدو ربع عورتہ او


یضعف عن القراء ۃ اصلًا او عن صوم رمضان و لو اضعفہ عن القیام الخروج لجماعۃ صلی فی بیتہ قائمًا بہ یفتی خلافًا للاشباہ‘‘ یعنی انہیں  فرائض میں  سے نماز فرض اوراس سے ملحق (یعنی واجب) اور اَصَح قول پر سنّتِ فجر میں  بھی قیام پر قادر شخص کیلئے قیام فرض ہے اور قادر سے مراد وہ شخص ہے کہ جو قیام اور سجدہ دونوں  پر قادر ہو لہٰذا اگر کوئی شخص قیام پر تو قادر ہے مگر سجدہ پر قادر نہیں  تو اس کے لئے بیٹھ کر اشارے سے نماز ادا کرنا مستحب ہے یونہی وہ شخص کہ سجدہ کرنے کی صورت میں  جس کا زخم بہتا ہو (اس کے لئے بھی بیٹھ کر اشارے سے نماز ادا کرنا مستحب ہے) اور کبھی بیٹھ کر نماز ادا کرنا ہی متعین و لازم ہوجاتا ہے جیسا کہ وہ شخص کہ کھڑے ہونے سے جس کا زخم بہتا ہو یا پیشاب کے قطرے آتے ہوں  یاکھڑے ہونے کی وجہ سے چوتھائی سَتْر ُکھل جائے گا یا قیام کرنے کی صورت میں  قرائَ ت بالکل بھی نہیں  کرسکے گا یا رمضان کے روزے نہیں  رکھ پائے گا (تو ان صورتوں  میں  بیٹھ کر ہی نماز پڑھنا لازم ہے) اور اگر جماعت میں  جانے کی وجہ سے قیام کرنے میں  ضعف پیدا ہوتا ہے (یعنی اگر مسجد میں  حصولِ جماعت کے لئے جائے گا تو قیام نہیں  کرسکے گا جبکہ یہاں  گھر میں  پڑھتا ہے تو قیام کے ساتھ نماز ادا کرلے گا) تو اس صورت میں  حکم یہ ہے کہ گھر میں  کھڑے ہوکر نماز ادا کرے گا اسی پر فتویٰ دیا گیا ہے، اشباہ میں  مذکور قول کے بر خلاف۔([9])

       متن کی عبارت ’’لقادر علیہ‘‘ کے تحت علاّمہ شامی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے


ہیں : ’’فلو عجز عنہ حقیقۃً وھو ظاہر او حکمًا کما لو حصل لہ بہ الم شدید او خاف زیادۃ المرض وکالمسائل الآتیۃ فی قولہ ’’وقد یتحتم القعود۔۔۔الخ‘‘ فانہ یسقط وقد یسقط مع القدرۃ علیہ فیما لو عجز عن السجود کما اقتصر علیہ الشارح تبعًا للبحر و یزداد مسالۃ اخری وھی الصلاۃ فی السفینۃ الجاریۃ فانہ یصلی فیھا قاعدًا مع القدرۃ علی القیام عند الامام‘‘ یعنی اگر کوئی شخص حقیقتاً قیام سے عاجز ہو اور یہ صورت ظاہر ہے یا حکماً عاجز ہو جیسے قیام کی وجہ سے اسے شدید درد ہوگا یا مرض بڑھ جانے کا خوف ہے اسی طرح ’’دُر‘‘ کی عبارت ’’وقد یتحتم‘‘ میں  جو صورتیں  آرہی ہیں  تو وہ بھی عجز ِحکمی میں  داخل ہیں  ان صورتوں  میں  بھی قیام ساقط ہوجائے گا، اور کبھی قیام پر قدرت کے باوجود بھی قیام ساقط ہوجاتا ہے جیسا کہ سجدہ سے عاجز ہونے کی صورت میں  قیام ساقط ہوجاتا ہے، شارح عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے ’’بحر‘‘ کی اتباع میں  صرف اسی پر اقتصار کیا ہے اور اس پر ایک دوسرا مسئلہ اضافہ کیا جائے گا وہ چلتی ہوئی کَشْتی میں  نماز ادا کرنے کا ہے کہ اگرچہ قیام پر قادر ہو امام اعظم عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے نزدیک بیٹھ کر نماز ادا کرسکتا ہے۔

       اور ’’فلو قدر علیہ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : ’’ای علی القیام وحدہ او مع الرکوع کما فی المنیۃ‘‘ یعنی صرف قیام پر قادر ہو یا قیام کے ساتھ رکوع پر بھی قادرہو (بہر صورت حکم ایک ہے کہ جب سجدہ سے عاجز ہے تو قیام ساقط ہوجائیگا) جیسے کہ ’’منیہ‘‘ میں  مذکور ہے۔([10])


        اسی میں  ’’صَلٰوۃُ الْمَرِیْض‘‘ کے باب میں  ایک مسئلہ کی تحقیق کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ان کان الموضوع مما یصح السجود علیہ کحجر مثلًا ولم یزد ارتفاعہ علی قدر لبنۃ اولبنتین فھو سجود حقیقی۔۔۔۔۔۔۔ بل یظہر لی أنہ لو کان قادرًا علی وضع شیٔ علی الأرض مما یصح السجود علیہ أنہ یلزم ذلک‘‘ کہ اگر وہ زمین پر رکھی چیز ایسی ہے کہ جس پر سجدہ کرنا درست ہے مثلاً پتھر پر کیا اور وہ ایک یا دو اینٹوں  سے زیادہ بلند بھی نہیں  تو اس پر کیا جانے والا سجدہ حقیقی سجدہ ہے۔۔۔۔۔ بلکہ میرے لئے تو یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ اگر کوئی شخص زمین پر ایسی چیز کہ جس پر سجدہ صحیح ہو رکھ کر سجدہ کرسکتا ہے تو اس پر ایسا کرنا لازم ہے۔([11])

       امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ اپنے ایک تحقیقی فتوے میں  فرضیت ِقیام میں  کوتاہی کرنے والوں  کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’آج کل بہت جہال([12]) ذَرا سی بے طاقتی ٔمرض یا کِبَرِ سِن([13]) میں  سرے سے بیٹھ کر فرض پڑھتے ہیں  حالانکہ اولاً ان میں  بہت ایسے ہیں  کہ ہمت کریں  تو پورے فرض کھڑے ہوکر ادا کر سکتے ہیں اور اس ادا سے نہ ان کا مرض بڑھے نہ کوئی نیا مرض لاحق ہو نہ گر پڑنے کی حالت ہو نہ دورانِ سَر([14])وغیرہ کوئی سخت اَلم شدید ہو صرف ایک گونہ([15]) مشقت و تکلیف ہے جس سے بچنے کو صراحۃً نمازیں  کھوتے ہیں ہم نے مشاہدہ کیا ہے وہی لوگ جنہوں  نے بحیلۂ ضعف و مرض فرض بیٹھ کر پڑھتے اور وہی باتوں  میں  اتنی دیرکھڑے رہے کہ اُتنی دیر میں  دس بارہ رکعت ادا کرلیتے ایسی حالت میں  ہر گز قعود کی اجازت نہیں  بلکہ فرض ہے کہ پورے فرض قیام سے ادا کریں۔ ’’کافی شرح وافی‘‘ میں  ہے: ’’ان لحقہ نوع مشقۃ لم یجز ترک القیام‘‘ اگر ادنیٰ مشقت لاحق ہو تو ترک ِ قیام جائز نہ ہوگا۔ (ت)

       ثانیاً: مانا کہ انہیں  اپنے تجربۂ سابقہ خواہ کسی طبیب مسلمان حاذِق عادِل مستور الحال([16]) غیر ظاہر الفسق([17])کے اِخبار([18]) خواہ اپنے ظاہر حال کے نظر ِصحیح سے جو کم ہمتی و آرام طلبی پر مبنی نہ ہو بَظَنِّ غالب معلوم ہے کہ قیام سے کوئی مرضِ جدید یا مرضِ موجود شدید و مدید([19]) ہوگا مگر یہ بات طولِ قیام میں  ہوگی تھوڑی دیر کھڑے ہونے کی یقیناً طاقت رکھتے ہیں  تو ان پر فرض تھا کہ جتنے قیام کی طاقت تھی اُتنا ادا کرتے یہاں  تک کہ اگر صرف اللہُ اَکْبَر کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے تو اتنا ہی قیام میں  ادا کرتے جب وہ غلبہ ٔظن کی حالت پیش آتی تو بیٹھ جاتے یہ ابتدا سے بیٹھ کر پڑھنا بھی ان کی نماز کا مفسد ہوا۔

       ثالثاً: ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ بقدرِ تکبیر بھی کھڑے ہونے کی قوت نہیں  رکھتا مگر عصا کے سہارے سے یا کسی آدمی خواہ دیوار یا تکیہ لگا کر کل یا بعض قیا م پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سہارے یا تکیہ کے ذریعے سے کرسکے بجالائے، کل تو کل یا بعض تو بعض ورنہ صحیح مذہب میں اس کی نماز نہ ہوگی ’’فقد مر من الدر ولو متکئًا علی عصا او حائط‘‘ (دُر کے حوالے سے گزرا اگرچہ عصا یا دیوار کے سہارے سے کھڑا ہوسکے۔ ت)


       تبیین الحقائق میں  ہے: ’’لو قدر علی القیام متکئًا (قال الحلوانی) الصحیح انہ یصلی قائمًا متکئًا ولا یجزیہ غیر ذٰلک وکذٰلک لو قدر ان یعتمد علی عصا او علی خادم لہ فانہ یقوم ویتکیٔ‘‘ اگر سہارے سے قیام کرسکتا ہو (حلوانی نے کہا) تو صحیح یہی ہے کہ سہارے سے کھڑے ہو کر نماز ادا کرے اس کے علاوہ کفایت نہ کریگی اور اسی طرح اگر عصا یا خادم کے سہارے سے کھڑا ہوسکتا ہے تو قیام کرے اور سہارے سے نماز ادا کرے۔(ت)

       یہ سب مسائل خوب سمجھ لئے جائیں  باقی اس مسئلہ کی تفصیلِ تام([20]) و تحقیق ہمارے فتاویٰ میں ہے جس پر اطلاع نہایت ضرور واَہم کہ آجکل ناواقفی سے جاہل بعض مدعیانِ علم بھی ان احکام کا خلاف کرکے ناحق اپنی نمازیں  کھوتے اور صراحۃً مرتکب ِگناہ و تارِک الصلوٰۃ ہوتے ہیں۔([21])

       صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ بہارِ شریعت میں  ’’فرضیت ِ قیام کے بیان‘‘ میں  فرماتے ہیں :

(1)فرض و وتروعیدین و سنّتِ فجر میں  قیام فرض ہے کہ بلا عذر ِصحیح بیٹھ کر یہ نماز یں  پڑھے گا، نہ ہوں  گی۔

(2)اگر اتنا کمزور ہے کہ مسجد میں  جماعت کے لئے جانے کے بعد کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکے گا اور گھر میں  پڑھے تو کھڑا ہو کر پڑھ سکتا ہے تو گھر میں  پڑھے، جماعت میسر ہو تو جماعت سے ورنہ تنہا۔


 (3)کھڑے ہونے سے محض کچھ تکلیف ہونا عذر نہیں ،بلکہ قیام اس وقت ساقط ہوگا کہ کھڑا نہ ہو سکے یا سجدہ نہ کر سکے یا کھڑے ہونے یا سجدہ کرنے میں  زخم بہتا ہے یا کھڑے ہونے میں  قطرہ آتا ہے یا چوتھائی سَتْر ُکھلتا ہے یا قراء ت سے مجبورِ محض ہو جاتا ہے۔ یوہیں  کھڑا ہوتوسکتا ہے مگر اس سے مرض میں  زیادتی ہوتی ہے یا دیر میں  اچھا ہو گا یا ناقابلِ برداشت تکلیف ہو گی، تو بیٹھ کر پڑھے۔

(4)اگر عصا یا خادم یا دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑا ہو سکتا ہے، تو فرض ہے کہ کھڑا ہو کر پڑھے۔ اگر کچھ دیر بھی کھڑا ہو سکتا ہے اگرچہ اتنا ہی کہ کھڑا ہو کر اللہُ اَکْبَر کہہ لے، تو فرض ہے کہ کھڑا ہو کر اتنا کہہ لے پھر بیٹھ جائے۔

       تنبیہ ضروری ’’آج کل عموماً یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ جہاں  ذَرا بخار آیا یا خفیف سی تکلیف ہوئی بیٹھ کر نماز شروع کر دی، حالانکہ وہی لوگ اسی حالت میں  دس دس پندرہ پندرہ منٹ بلکہ زیادہ کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر کی باتیں  کر لیا کرتے ہیں  ان کو چاہیے کہ ان مسائل سے متنبہ ہوں  اور جتنی نمازیں  باوجودِ قدرتِ قیام بیٹھ کر پڑھی ہوں  ان کا اِعادہ فرض ہے۔ یوہیں  اگر ویسے کھڑا نہ ہوسکتا تھا مگر عصاء یا دیوار یا آدمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن تھا تو وہ نمازیں  بھی نہ ہوئیں  ان کا پھیرنا فرض۔‘‘([22])

        بہارِ شریعت میں  ’’مریض کی نماز کے بیان ‘‘میں  بھی اس حوالے سے ضروری مسائل درج ہیں  چند منتخب مسائل ملاحظہ ہوں :

(5)جو شخص بوجہ بیماری کے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں  کہ کھڑے ہوکر


پڑھنے سے ضَرَر ([23])لاحق ہوگا یا مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں  اچھا ہوگا یا چکر آتا یا کھڑے ہوکر پڑھنے سے قطرہ آئے گا یا بہت شدید درد ناقابل برداشت پیدا ہوجائے گا تو ان سب صورتوں  میں  بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھے۔

(6)اگر اپنے آپ بیٹھ بھی نہیں  سکتا مگر لڑکا یا غلام یا خادم یا کوئی اجنبی شخص وہاں  ہے کہ بٹھا دے گا تو بیٹھ کر پڑھنا ضروری ہے اور اگربیٹھا نہیں  رہ سکتا تو تکیہ یا دیوار یا کسی شخص پر ٹیک لگا کر پڑھے یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر پڑھے اور بیٹھ کر پڑھنا ممکن ہو تو لیٹ کر نماز نہ ہوگی۔

(7)بیٹھ کر پڑھنے میں  کسی خاص طور پر بیٹھنا ضروری نہیں  بلکہ مریض پر جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھے۔ ہاں  دو زانو بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو تو دو زانو بہتر ہے ورنہ جو آسان ہو اختیار کرے۔

(8)کھڑا ہو سکتا ہے مگر رکوع و سجود نہیں  کر سکتا یا صرف سجدہ نہیں  کرسکتا مثلاً حَلْق وغیرہ میں  پھوڑا ہے کہ سجدہ کرنے سے بہے گا تو بھی بیٹھ کر اشارہ سے پڑھ سکتا ہے بلکہ یہی بہتر ہے اور اس صورت میں  یہ بھی کرسکتا ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے اور رکوع کے لیے اشارہ کرے یا رکوع پر قادر ہو تو رکوع کرے پھر بیٹھ کر سجدہ کے لیے اشارہ کرے۔

(9)اشارہ کی صورت میں  سجدہ کا اشارہ رکوع سے پست ہونا ضروری ہے (سجدے کے لئے زیادہ سر نہ جھکایا تو اشارے سے سجدہ ادا ہی نہ ہوگا نماز بھی نہ ہوگی) مگر یہ ضرور نہیں  کہ سر کو بالکل زمین سے قریب کر دے سجدہ کے لئے تکیہ وغیرہ کوئی چیز پیشانی کے قریب اُٹھاکر اس پر سجدہ کرنا مکروہِ تحریمی (گناہ) ہے خواہ خود اسی نے وہ چیز اُٹھائی


ہو یا دوسرے نے۔

(10)اگر کوئی اونچی چیز زمین پر رکھی ہوئی ہے اُس پر سجدہ کیا اور رکوع کے لیے صرف اشارہ نہ ہوا بلکہ پیٹھ بھی جھکائی تو صحیح ہے بشرطیکہ سجدہ کے شرائط پائے جائیں  مثلاً اس چیز کا سخت ہونا جس پر سجدہ کیا کہ اس قدر پیشانی دب گئی ہو کہ پھر دبانے سے نہ دبے اور اس کی اونچائی بارہ اُنگل سے زیادہ نہ ہو۔ ان شرائط کے پائے جانے کے بعد حقیقۃً رکوع و سجود پائے گئے، اشارہ سے پڑھنے والا اسے نہ کہیں  گے اور کھڑا ہو کر پڑھنے والا اس کی اِقتدا کر سکتا ہے اور یہ شخص جب اس طرح رکوع و سجود کرسکتا ہے اور قیام پر قادر ہے تو اس پر قیام فرض ہے یا اَثنائے نماز([24]) میں  قیام پر قادر ہوگیا تو جو باقی ہے اسے کھڑے ہو کر پڑھنا فرض ہے لہٰذا جو شخص زمین پر سجدہ نہیں  کر سکتا مگر شرائطِ مذکورہ کے ساتھ کوئی چیز زمین پر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے، اس پر فرض ہے کہ اسی طرح سجدہ کرے اشارہ جائز نہیں  اور اگر وہ چیز جس پر سجدہ کیا ایسی نہیں  تو حقیقۃً سجود نہ پایا گیابلکہ سجدہ کے لیے اشارہ ہوا لہٰذا کھڑا ہونے والا اس کی اقتدا نہیں  کر سکتا اور اگر یہ شخص اَثنائے نماز میں  قیام پر قادر ہوا تو سرے سے پڑھے۔

(11)پیشانی میں  زخم ہے کہ سجدہ کے لیے ماتھا نہیں  لگا سکتا تو ناک پر سجدہ کرے اور ایسا نہ کیا بلکہ اشارہ کیا تو نماز نہ ہوئی۔([25])

بہارِ شریعت سے یہ کل گیارہ مسائل بیان ہوئے جو فرضیت ِقیام اور مریض کی نماز کے علیحدہ علیحدہ بیان میں  مذکور ہیں ، سہولت کے لئے ترتیب کے


ساتھ ان پر نمبر ڈال دئیے ہیں ، صرف ان گیارہ مسائل کو اگر تکرار کے ساتھ سمجھ کر ذہن نشین کرلیا جائے توبیٹھ کر یا اشاروں  سے نماز پڑھنے والوں  پر ان کی نمازوں  کا حکم صاف ظاہر ہوجائے گابلکہ جو مریض و مجبور نہیں  ہیں  انہیں  بھی ان مسائل کو سیکھ لینا چاہئے کہ کبھی خود بھی ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے ورنہ دوسرے مسلمان مریضوں  کی حتی الامکان شرعی رہنمائی کے حوالے سے کام آئیں  گے۔

کرسی کے آگے لگی ہوئی تختی پر سر رکھ کر سجدہ کرنے کا حکم

       کرسی کے آگے سجدے کیلئے ٹیبل نما تختی جو لگی ہوتی ہے کرسی پر بیٹھنے والے اس پر سر جما کر سجدہ کرلیتے ہیں  ان کا یہ طریقہ درست نہیں  کیونکہ یہ حقیقتاً سجدہ نہیں  بلکہ سجدے کا اشارہ ہے۔ اور اشارہ سر سے کرنا ہوتا ہے اس کے ساتھ کمر جھکانا ضروری نہیں ، رکوع کے اشارے میں  سر کو جھکائیں  اور سجدے کے اشارے میں  اس سے زیادہ جھکائیں ، تو کرسی کے ساتھ لگی تختی پر سر رکھنا بالکل غیر ضروری ہے اور عام طور پر وہ لوگ ایسا کرتے ہیں  جو مریض کی نماز پڑھنے کے ضروری مسائل سے واقف نہیں  ہوتے انہیں  نرمی کے ساتھ سمجھا دیاجائے کہ وہ ایسا نہ کریں۔

       اور حقیقتاً سجدہ جن پر کرنا ضروری ہوتا ہے ان کا اس تختی پر سر رکھنے کو کافی سمجھنا اعلیٰ درجے کی جہالت ہے، ان کی نماز ہی نہیں  ہوتی ہے، کرسی کی تختی پر سر رکھنے سے حقیقتاً سجدہ ادا نہیں  ہوتا، جب سجدہ ادا نہیں  ہوتا تو نمازبھی نہیں  ہوتی، سجدہ زمین پر یا زمین پر رکھی ہوئی کسی ایسی چیز پر جس کی بلندی بارہ اُنگل سے زیادہ نہ ہو کیا جائے تو حقیقی سجدہ ادا ہوتا ہے، اس پر قادر نہ ہو تو قیام بھی اصلاً ساقط ہوجاتا


ہے، رکوع و سجود کے اشارے کرنے ہوتے ہیں  جیسا کہ اس حوالے سے کافی تفصیل اوپر گزر چکی۔

       لہٰذا سجدہ کا اشارہ کرنے والوں  کا کرسی کی تختی پر سر رکھنا لغوو بے جا ہے مگر چونکہ اشارہ پایا گیا اس لئے ان کی نماز ہوجاتی ہے جبکہ حقیقی سجدہ پر قادر حضرات کا ایسا کرنا واضح طور پر ناجائز ہے، ان کی نمازیں  اس سے برباد ہوتی ہیں۔

       یاد رہے کہ جو مسئلہ حدیث شریف ا ور فقہی جُزئِیَّات میں  مذکور ہے کہ نمازی کا کوئی چیز اُٹھاکر سجدہ کرنا یا دوسرے کا اس کے لئے اُٹھانا مکروہِ تحریمی ہے اس کا کرسی کی تختی سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ خود اس کے ہاتھ میں  یا کسی اور کے ہاتھ میں  اس کے لئے بلند نہیں  ہوتی بلکہ زمین پر رکھی کرسی کے ساتھ ہی لگی ہوتی ہے، اگر کوئی کرسی کی تختی پر سر رکھے گا تو اس بناء پر ا سے مکروہِ تحریمی قرار دینا درست نہیں  ہے۔

        چنانچہ ’’ملتقی الابحر‘‘ میں  ہے: ’’ولا یرفع إلی وجھہ شیئًا للسجود۔‘‘ یعنی معذور شخص سجدہ کرنے کیلئے اپنے چہرے کی طرف کسی چیز کو بلند نہیں  کرے گا۔([26])

        اس کے تحت علامہ عبد الرحمن بن محمد کلیبولی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ ایک روایت نقل کرتے ہیں : ’’أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم عاد مریضًا فراٰہ یصلی علی و سادۃ فأخذھا فرمی بھا، وأخذ عودًا لیصلی علیہ فأخذہ فرمی بہ، وقال صل علی الأرض إن استطعت و إلا فأوم و اجعل سجودک أخفض من رکوعک۔‘‘ یعنی نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک بیمار شخص کی عیادت کے


لئے گئے آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اسے دیکھا کہ وہ سامنے تکیہ رکھ کر نماز پڑھ رہاہے آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اس سے تکیہ لے کر پھینک دیا۔ اس نے ایک لکڑی لے لی۔ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اس لکڑی کو بھی لے کر پھینک دیا اور ارشاد فرمایا کہ سجدہ زمین پر کرو اگر اِستطاعت ہے ورنہ اشارے سے پڑھو اور سجدہ کرنے میں  رکوع سے زیادہ جھکو۔([27])

       اسی میں  بحوالہ قُہُسْتانی مذکورہے کہ ’’ لو سجد علی شیٔ مرفوع موضوع علی الأرض لم یکرہ۔‘‘ یعنی اگر کسی ایسی بلند چیز پر سجدہ کیا جو زمین پر رکھی ہوئی ہے تو مکروہ نہیں۔([28])

       علامہ ابن نُجَیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بحرالرائق میں  نقل فرماتے ہیں : ’’روی ان عبد اللہ بن مسعود دخل علی اخیہ یعودہ فوجدہ یصلی ویرفع الیہ عود فیسجد علیہ فنزع ذٰلک من ید من کان فی یدہ وقال ھٰذا شیٔ عرض لکم الشیطان اوم بسجودک وروی ان ابن عمر رأی ذٰلک من مریض فقال اتتخذون مع اللہ الھۃ و استدل للکراھۃ فی المحیط بنھیہ علیہ السلام عنہ وھو یدل علی کراھۃ التحریم۔‘‘ یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں  مروی ہے کہ آپ اپنے بھائی کی عیادت کرنے کے لئے گئے تو ان کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ کوئی شخص ان کی طرف لکڑی بڑھاتا ہے اوروہ اس پر سجدہ کرتے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس


کے ہاتھ سے لکڑی پکڑ لی اور فرمایا یہ چیز تمہیں  شیطان نے پیش کی ہے بس تم اشارے سے ہی سجد ہ کرو۔اسی طرح حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کسی کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو خدا ٹھہراتے ہو۔ اور محیط میں  اس کراہت پر نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے منع فرمانے سے اِستدلال کیا گیا ہے اورآپ کاوہ فرمان کراہت ِتحریمی پر دلالت کرتا ہے۔([29])

       علاّمہ فہامہ علاؤ ُالدین حَصْکَفی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ بھی دُرِّ مختار میں  فرماتے ہیں : ’’(ولا یرفع الی وجھہ شیئًا یسجد علیہ) فإنہ یکرہ تحریمًا (فإن فعل) بالبناء للمجہول ذکرہ العینی (وہو یخفض برأسہ لسجودہ أکثر من رکوعہ صح) علی أنہ إیماء لا سجود إلا أن یجد قوۃ الأرض‘‘ یعنی اپنی پیشانی کی طرف سجدہ کرنے کے لئے مریض کوئی چیز نہیں  اُٹھائے گا کیونکہ ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، پھر اگر سجدہ کے لئے کوئی چیز اُٹھائی گئی (مجہول کا صیغہ ہے جیسا کہ علامہ عینی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اسے ذکر فرمایا ہے) تو اگر رکوع کی بنسبت سجدہ کے لئے زیادہ پست ہوا تھا تو نماز درست ہوئی مگر یہ اشارہ ہی قرار پائے گا (حقیقی سجدہ نہیں ) اِلاَّ یہ کہ اس چیز سے زمین کی طرح سختی محسوس ہو (کہ اب یہ حقیقی سجدہ ہے)۔ ([30])

’’دُر‘‘ کی عبارت ’’یکرہ تحریمًا‘‘ کے تحت رَدُّالمحتار میں  ہے: ’’قال فی البحر واستدل للکراھۃ فی المحیط بنھیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام عنہ وھو یدل علی کراھۃ التحریم اھـ وتبعہ فی النھر اقول: ھذا محمول علی  ما


اذا کان یحمل الی وجھہ شیئًا یسجد علیہ بخلاف ما اذا کان موضوعًا علی الارض یدل علیہ ما فی الذخیرۃ حیث نقل عن الاصل الکراھۃ فی الاول، ثم قال: فان کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الارض وکان یسجد علیہا جازت صلاتہ قد صح ان ام سلمۃ کانت تسجد علی مرفقۃ موضوعۃ بین یدیہا لعلۃ کانت بھا ولم یمنعھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ذٰلک اھـ فان مفاد ھٰذہ المقابلۃ والاستدلال عدم الکراھۃ فی الموضوع علی الارض المرتفع ثم رأیت القھستانی صرح بذٰلک‘‘ یعنی بحر میں  فرمایا کہ محیط میں  اس کراہت پر نبی ِمکرم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نہی کی بناء پر اِستدلال کیا گیا ہے اور وہ نہی کراہت ِتحریمی پر دلالت کرتی ہے۔۔۔ اھ۔ اور نہر الفائق میں  بھی اسی کی پیروی کی ہے۔ علاّمہ شامی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں  کہ ’’میں  کہتا ہوں  ‘‘ کہ کراہت اس صورت پر محمول ہے کہ جب سجدہ کے لئے کوئی چیز پیشانی کی طرف اُٹھائی جائے، برخلاف اس صورت کے کہ جب وہ چیز زمین پر رکھی ہو (اس صورت میں  یہ کراہت نہیں  ہے) ذخیرہ کی عبارت بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے چنانچہ انہوں  نے پہلی صورت کے متعلق ’’اصل‘‘ سے کراہت کا قول اسی پہلی صورت کے بارے میں  نقل کیا اور پھر فرمایا: ’’تو اگر تکیہ زمین پر رکھا ہوا ہو اور مریض اس پر سجدہ کرے تو نماز درست ہوجائے گی کہ صحیح حدیث میں  ہے کہ اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیماری کی وجہ سے سامنے زمین پر رکھے ہوئے تکیہ پر سجدہ فرماتی تھیں  اور نبی ِاکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے انہیں  اس سے منع نہیں


فرمایا۔۔۔ اھ۔ (یہ نقل کرنے کے بعد علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی فرماتے ہیں :) تو صاحب ذخیرہ کا اس صورت کو صورتِ اول کے مقابل ذکر کرنا پھر حدیث ِاُمِّ سلمہ سے اِستدلال کرنے کا مفاد یہ ہے کہ زمین پر رکھی ہوئی کسی بلند چیز پر سجدہ کرنا مکروہ نہیں  ہے، پھر اسی بات کی تصریح میں  نے قُہُسْتانی میں  بھی ملاحظہ کی (جو مجمع الانہر کے حوالے سے میں  نے اوپر ذکر کی ہے۔ فضیل رضا)۔

       اور ’’دُر‘‘ کی عبارت ’’الا ان یجد قوۃ الارض‘‘ کے تحت علامہ شامی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا: ’’ہذا الاستثناء مبنی علی أن قولہ: ولا یرفع إلخ شامل لما إذا کان موضوعًا علی الأرض وہو خلاف المتبادر بل المتبادر کون المرفوع محمولًا بیدہ أو ید غیرہ، وعلیہ فالاستثناء منقطع لاختصاص ذٰلک بالموضوع علی الأرض ولذا قال الزیلعی: کان ینبغی أن یقال إن کان ذٰلک الموضوع یصح السجود علیہ کان سجودًا و إلا فإیماء ا ھـ وجزم بہ فی شرح المنیۃ. واعترضہ فی النہر بقولہ وعندی فیہ نظر لأن خفض الرأس بالرکوع لیس إلا إیماء و معلوم أنہ لا یصح السجود بدون الرکوع ولو کان الموضوع مما یصح السجود علیہ.اھـ.‘‘

       یعنی یہ اِستثناء اس صورت پر مبنی ہے کہ متن کی عبارت ’’ولایرفع‘‘ زمین پر رکھی ہوئی چیز پر سجدہ کرنے کی صورت کو بھی شامل ہو جبکہ یہ خلاف ِ متبادر ہے، بلکہ متبادر صورت یہ ہے کہ وہ بلند چیز کہ جس پر سجد ہ کیا ہے خود نمازی کے یا کسی اور شخص کے ہاتھ میں  بلند ہو اور اس تقدیر پر زمین پر رکھی ہوئی چیز کے ساتھ اس کے


خاص ہونے کی وجہ سے یہ اِستثناء مُنْقَطع ہے، اسی لئے امام زَیْلَعی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا: مناسب ہے کہ یوں  کہا جائے کہ اگر اس رکھی ہوئی چیز پر سجدہ کرنا درست ہے تو وہ سجدہ ہے ورنہ اشارہ۔۔۔ اھ۔ اسی پر شرح منیہ میں  جزم فرمایا، اور نہر میں  علامہ زیلعی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس عبارت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک اس میں  نظر ہے کیونکہ رکوع کے لئے پست ہونا اشارہ ہی ہے اور یہ بات بھی مخفی نہیں  کہ رکوع کے بغیر سجدہ درست نہیں  اگرچہ وہ ایسی چیز پر کیا جائے کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو۔۔۔ اھ۔

       (یعنی جب رکوع کرنا حقیقتاً نہ پایا گیا اس کا اشارہ ہی مُتَحَقَّق ہے تو سجدہ کے بارے میں  یہ تفصیل کرنا کہ ’’موضوع علی الارض‘‘  اگر ایسی چیز ہے کہ اس پر سجدہ ہوسکتا ہے تو سجدہ درست نہیں  کہ حقیقتاً رکوع کے بغیر حقیقتاً سجدہ نہیں  پایا جاتا اگرچہ وہ چیز ایسی ہو کہ اس پر سجدہ کرنا درست ہو۔ فضیل رضا )

       مزید علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی اپنی تحقیق درج فرماتے ہیں  کہ ’’اقول الحق التفصیل و ھو انہ ان کان رکوعہ بمجرد ایماء الرأس من غیر انحناء و میل الظھر فھذا ایماء لا رکوع فلا یعتبر السجود بعد الایماء مطلقًا و ان کان مع الانحناء کان رکوعًا معتبرًا حتی انہ یصح من المتطوع القادر علی القیام فحینئذ ینظر ان کان الموضوع مما یصح السجود علیہ کحجر مثلًا ولم یزد ارتفاعہ علی قدر لبنۃ اولبنتین فھو سجود حقیقی فیکون راکعًا ساجدًا لا مومئًا حتی انہ یصح اقتداء


القائم بہ واذا قدر فی صلاتہ علی القیام یتمھا قائمًا وان لم یکن الموضوع کذلک یکون مومئًا فلا یصح اقتداء القائم بہ واذا قدر فیھا علی القیام استانفھا بل یظہر لی أنہ لو کان قادرًا علی وضع شیٔ علی الأرض مما یصح السجود علیہ أنہ یلزم ذلک لأنہ قادر علی الرکوع والسجود حقیقۃ ولا یصح الإیماء بھما مع القدرۃ علیھما بل شرطہ تعذرھما کما ھو موضوع المسئلۃ۔‘‘ (علامہ شامی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں :) ’’میں  کہتا ہوں :‘‘ اس مسئلہ میں  حق بات یہ ہے کہ اس میں  تفصیل ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر رکوع میں  محض سر سے اشارہ کیا اس کے ساتھ پشت کو جھکائے بغیر تو یہ اشارہ ہے حقیقتاً رکوع نہیں  تو رکوع کے اشارہ کے بعد مطلقاً حقیقی سجدہ معتبر نہیں  اور اگر رکوع میں  پشت کو جھکایا بھی تو یہ رکوع حقیقتاً معتبر ہے حتّٰی کہ قیام پر قادر شخص کیلئے نفل نماز میں  اس کی مطلقاً اجازت ہے۔ تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ اگر وہ زمین پر رکھی چیز ایسی ہے کہ جس پر سجدہ کرنا درست ہے مثلاً پتھر پر کیا اور وہ ایک یا دو اینٹوں  سے زیادہ بلند بھی نہیں  تو اس پر کیا جانے والا سجدہ حقیقی سجدہ ہے اور نمازی اشارہ کرنے والا نہیں  رکوع و سجدہ کرنے والا قرار پائے گا حتّٰی کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کے لئے ایسے کی اقتداء کرنا صحیح ہے اور جب وہ دورانِ نماز قیام پر قادر ہو جائے تو بقیہ نماز کھڑے ہو کر مکمل کرے گا (نئے سرے سے پڑھنے کی حاجت نہیں )، اور اگر وہ زمین پر رکھی ہوئی چیز ایسی ہے کہ جس پر حقیقتاً سجدہ درست نہیں  ہوسکتا تو اب یہ اشارہ سے نماز پڑھنے والا ہوگالہٰذا اب قائم اس کی اقتدا نہیں  کرسکتا اور اگر یہ دورانِ نماز


قیام پر قادر ہوجائے تو نماز دوبارہ نئے سرے سے پڑھے گا، بلکہ میرے لئے تو یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ اگر کوئی شخص زمین پر ایسی چیز کہ جس پر سجدہ صحیح ہو رکھ کر سجدہ کرسکتا ہے تو اس پر ایسا کرنا لازم ہے کہ یہ شخص حقیقتاً رکوع و سجود پر قادر ہے اور ان پر قادر ہوتے ہوئے اشارہ کرنا درست نہیں  ہوتا کہ اشارہ کی اجازت رکوع وسجود دونوں  کے تعذر کے وقت ہے جیسا کہ مسئلہ کا موضوع ہی یہ ہے۔ ([31])

       حاصل یہ کہ  علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی کی اس تحقیق ِاَنیق سے جو قولِ فیصل کا درجہ رکھتی ہے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حدیث شریف کی ’’نہی‘‘ اس پر محمول ہے کہ جب کوئی چیز نمازی کے یا کسی دوسرے کے ہاتھ میں  بلند ہو اور اس پر نمازی سر رکھے نہ کہ زمین پر رکھی ہوئی چیز پر۔ یونہی ’’دُر‘‘ کی وَہْم میں  ڈالنے والی عبارت ’’الا ان یجد قوۃ الارض‘‘ سے پیدا ہونے والے اس مفہوم کو کہ ’’فلا یرفع‘‘ کہنا زمین پر رکھی ہوئی بلند چیز کو بھی شامل ہے، خلافِ مُتَبَادِر قرار دینا اور مفہومِ متبادر کی صراحت کرنا کہ مُصَلِّی کے اپنے ہاتھ میں  یا دوسرے کے ہاتھ میں  کوئی چیز مرفوع ہونا ہی ’’یرفع‘‘ کا محمل ہے، اس سے بخوبی ظاہر ہوجاتا ہے کہ زمین پر رکھی ہوئی کسی چیز پر سر رکھنا اس ’’نہی‘‘ کی بناء پر مکروہِ تحریمی و گناہ نہیں  ہے، اگر بارہ اُنگل تک اونچی چیز ہو تو اس پر سجدہ کرنا سجدۂ حقیقی ہی کہلاتا ہے جب تک اس پر قدرت ہو اشارہ کرنا کفایت نہیں  کرتا نماز نہیں  ہوتی اور اس سے اونچی چیز جیسا کہ کرسی کے ساتھ لگے ہوئے تختہ ہوتے ہیں  اس پر سر رکھنا اشارہ کرنے ہی کے زُمرے میں  آتا ہے اگرچہ اشارہ کرنے والے کو اس طرح کرنا نہیں  چاہئے مگر


اس کا ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہرگز نہیں  ہے۔

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَم وَ رَسُوْلُــــــہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              کتبــــــــــــــــــــــــــہ

                              ابوالحسن فضیل رضا القادری العطاری عفا عنہ الباری

                                            ۲۸جمادی الاولٰی۱۴۳۶ھ20/مارچ 2015ء

ماخذ و مراجع

نام کتاب

مصنف/مؤلف

مطبوعہ

صحیح البخاری

امام ابوعبداللہ  محمد بن اسماعیل بخاری ،متوفی ۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیہ ، بیروت ۱۴۱۹ھ

سنن الترمذی

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، متوفی ۲۷۹ھ

دار المعرفہ، بیروت۱۴۱۴ھ

سنن ابی داود

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی، متوفی ۲۷۵ھ

دار احیاء التراث العربی،بیروت ۱۴۲۱ھ

ملتقی الابحر

علامہ ابراہیم بن محمد حلبی، متوفی ۹۵۶ ھ

کوئٹہ

مجمع الانہر

علامہ عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان کلیبولی، متوفی ۱۰۷۸ھ

کوئٹہ

بحر الرائق

علامہ زین الدین بن نجیم، متوفی ۹۷۰ ھ

کوئٹہ،۱۴۲۰ھ

حلبی کبیر

علامہ محمد ابراہیم بن حلبی، متوفی ۹۵۶ ھ

سہیل اکیڈمی لاہور

تنویر الابصار

علامہ شمس الدین محمد بن عبداللہ تمرتاشی،متوفی۱۰۰۴ھ

کوئٹہ

درمختار

علامہ علاء الدین محمد بن علی حصکفی، متوفی ۱۰۸۸ ھ 

کوئٹہ

رد المحتار

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی، متوفی ۱۲۵۲ ھ 

کوئٹہ

فتاویٰ رضویہ

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان ،متوفی ۱۳۴۰ھ

رضا فاؤنڈیشن لاہور،۱۴۱۸ھ

بہارِ شریعت

مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ،۱۴۳۵ھ

فہرست

عنوان

صفحہ

عنوان

صفحہ

کرسی پر بیٹھنے والا پورا قیام یا کچھ قیام صف سے آگے نکل کر کرے تو اس کا حکم

7

کرسی کے آگے لگی ہوئی تختی پر سر رکھ کر سجدہ کرنے  کا حکم

25

مسجد میں  دورانِ جماعت کرسیاں  کہاں  رکھنی چاہئیں

9

ماخذ و مراجع

34

متعلقہ جزئیات

12

 

 

 



[1]……… یعنی معاف ہونا

[2]……… یعنی درپیش ہونا۔

[3]……… سنن الترمذی، ابواب الجمعۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ التخطی یوم الجمعۃ، ۲/ ۴۸، الحدیث: ۵۱۳۔

[4]……… سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ، ۱/۴۱۳، الحدیث: ۱۱۱۸۔

[5]……… بحوالہ بہار ِشریعت، حصہ چہارم، ۱ / ۷۶۱ ، ۷۶۲۔

[6]……… صحیح البخاری، کتاب تقصیر الصلاۃ، باب اذا لم یطق قاعدًا صلی علی جنب، ۱ / ۳۸۰، الحدیث: ۱۱۱۷۔

 

[7]……… کنز الدقائق مع شرحہ بحر الرائق،  ۲ / ۱۹۷۔

 

[8]……… از: حلبی کبیر، ص۲۶۱۔۲۶۶، ملتقطًا۔

 

[9]……… تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، ۲ / ۱۶۳، ۱۶۴، ۱۶۵، ملتقطًا۔

 

 

[10]……… رد المحتار، ۲ / ۱۶۴۔

 

 

[11]……… رد المحتار، ۲ / ۶۸۶۔        

[12]……… یعنی نا واقف لوگ ۔

[13]……… بڑھاپا۔         

[14]……… سَر گھومنا/چکرانا۔

[15]……… ایک طرح کی۔

 

 

[16]……… جس کا نیک یا بد ہونا لوگوں پرظاہر نہ ہو۔

[17]……… جس کا فسق ظاہر نہ ہو۔                      

[18]……… بتانا۔

[19]……… طویل۔

[20]……… مکمل تفصیل۔

[21]……… فتاویٰ رضویہ، ۶/ ۱۶۰،۱۶۱۔

 

[22]……… بہارِ شریعت، حصہ۳، ۱ / ۵۱۰، ۵۱۱۔

 

[23]……… نقصان۔

 

[24]……… دورانِ نماز۔                   

[25]……… بہار ِ شریعت، ۱/۷۲۰-۷۲۲، مختصراً۔

 

[26]……… ملتقی الابحر مع شرحہ مجمع الانہر، ۱ / ۲۲۸۔

 

[27]……… مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر، ۱ / ۲۲۸۔

[28]……… مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر، ۱ / ۲۲۸۔

 

[29]……… بحر الرائق شرح کنز الدقائق، ۲ / ۲۰۰۔

[30]……… در مختار مع رد المحتار، ۲ / ۶۸۵، ۶۸۶۔

 

[31]……… در مختار مع رد المحتار، ۲ / ۶۸۵، ۶۸۶۔