اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی، شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمّد الیا س عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنے مخصوص انداز میں سنتوں بھر ے بیانات ، علْم وحکمت سے معمور مَدَ نی مذاکرات اور اپنے تربیت یافتہ مبلغین کے ذَرِیعے تھوڑے ہی عرصے میں لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں مدنی انقلاب برپا کر دیا ہے، آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کثیر اسلامی بھائی وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر ہونے والے مَدَنی مذاکرات میں مختلف قسم کے موضوعات مثلاً عقائدو اعمال، فضائل و مناقب ، شریعت و طریقت، تاریخ و سیرت ،سائنس و طِبّ، اخلاقیات و اِسلامی معلومات، روزمرہ معاملات اور دیگر بہت سے موضوعات سے متعلق سُوالات کرتے ہیں اور شیخِ طریقت امیر اہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہانہیں حکمت آموز اور عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے جوابات سے نوازتے ہیں۔
امیرِاہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ان عطاکردہ دلچسپ اور علم و حکمت سے لبریز مَدَنی پھولوں کی خوشبوؤں سے دنیا بھرکے مسلمانوں کو مہکانے کے مقدّس جذبے کے تحت المدینۃ العلمیہ کا شعبہ ’’ فیضانِ مدنی مذاکرہ‘‘ ان مَدَنی مذاکرات کو ضروری ترمیم و اضافے کے ساتھ’’ملفوظاتِ امیر اہلسنّت ‘‘ کے نام سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ان تحریری گلدستوں کا مطالعہ کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ عقائد و اعمال اور ظاہر و باطن کی اصلاح، محبت ِالٰہی و عشقِ رسول کی لازوال دولت کے ساتھ ساتھ مزید حصولِ علمِ دین کا جذبہ بھی بیدار ہوگا۔
پیشِ نظر رسالے میں جو بھی خوبیاں ہیں یقیناً ربِّ رحیمعَزَّ وَجَلَّاور اس کے محبوبِ کریم صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی عطاؤں ، اولیائے کرامرَحِمَہُمُ اللہ السَّلَام کی عنایتوں اور امیراہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شفقتوں اور پُرخُلوص دعاؤں کا نتیجہ ہیں اور خامیاں ہوں تو اس میں ہماری غیر ارادی کوتاہی کا دخل ہے۔
شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ
۹ ربیع الاوّل ۱۴۳۶ھ/01 جنوری 2015 ء
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رسالہ(۳۲ صفحات) مکمل پڑھ لیجیے
اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
نبیوں کے سلطان ،رحمتِ عالمیان،سرورِ ذیشان صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا فرمانِ عبرت نشان ہے:جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں پھر اُس میں نہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذِکر کرتے ہیں اور نہ ہی اُس کے نبی(صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پر دُرُودِ پاک پڑھتے ہیں قیامت کے دن وہ مجلس اِن کے لیے باعثِ حسرت ہوگی۔(اللہ عَزَّوَجَلَّ)چاہے تو اِن کو عذاب دے اور چاہے تو بخش دے۔([1])
پڑھتا رہوں کثرت سے دُرُود اُن پہ سَدا مَیں
اور ذِکْر کا بھی شوق پئے غوث ورضا دے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عرض:اَدْعِیَہ ماثورہ سے کیا مُراد ہے؟نیز انہیں پڑھنے کے فوائد وبرکات بھی بیان فرمادیجیے۔
ارشاد: اَدْعِیَہ ماثورہ سے مُراد وہ دُعائیں ہیں جوحضور نبیٔ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسْلِیم سے منقول ہیں خواہ انہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے پڑھایا ان کے پڑھنے کا حکم دیایا اُن کوپڑھنے کی فضیلت یا فائدہ اورثواب بیان فرمایا ہے۔([2])دوسری دُعاؤں کی بہ نسبت ماثور دعائیں پڑھنے کے بے شمار فوائد وبرکات ہیں،اس ضمن میں تین اَدْعیہ ماثورہ مع فضیلت ملاحظہ کیجیے:
٭… حضرتِ سیِّدُنا اَنس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جب کوئی شخص اپنے گھر سے نکلے اوریہ دُعا پڑھ لے: ”بِسْمِ اللہ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ (اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام سے شُروع ، میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بھروسا کیا ،گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت نہیں مگر اللہعَزَّوَجَلَّ کی مدد سے)“تو اُسے اس وقت نِدادی جاتی ہے کہ(اے بندۂ خدا!) تجھے سیدھی راہ
کی ہدایت دی گئی،تجھے غموں سے کِفایت کر دیا گیا، تیری حفاظت کی گئی اور شیاطین کو تجھ سے دُور کر دیاگیا۔ پس ایک شیطان دوسرے سے کہتاہے: ایسے شخص کو کیسے گمراہ کیاجاسکتاہے جسے ہدایت دی گئی، کفایت کیاگیااور محفوظ کردیاگیا ہو۔([3])
٭… اَمیرُالْمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ شَہَنْشاہِ خوش خِصال، دافِعِ رنج و مَلالصَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو بندہ ہردن کی صُبح اورہررات کی شام تین بار یہ دُعا پڑھے: بِسْمِ اللہ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نام سے شروع کہ اس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کو ئی بھی چیز نقصان نہیں دیتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے)تواُسے کوئی چیز نقصان نہ دے گی۔([4])
٭…- اَمیرُالْمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمررضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ والا تَبار، شفیعِ روزِ شُمارصَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ خوشبودار ہے: جس شخص نے کسی مُصِیْبَت زَدہ کودیکھ کریہ دُعا پڑھی: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا(تمام تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے جس نے مجھے اس بیماری سے بچایا جس میں تُو مبتلا ہے اور مجھے اپنی مخلوق میں سے کثیر لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی) تو جب تک زندہ ہے، اس مُصِیْبت سے اَمان میں رہے گا۔([5])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! احادیثِ مبارکہ میں وارد دُعائیں اگر یقینِ کامل اور صدقِ دل کے ساتھ پڑھی جائیں تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان کے بیان کردہ فضائل بھی ضرور حاصل ہوں گے کیونکہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبانِ حقِ ترجمان کُنْ کی کُنْجی ہے یعنی جو فرماتے ہیں ہوکر رہتا ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:
وہ زَبان جس کو سب کُنْ کی کنجی کہیں
اُس کی نافِذ حکومت پہ لاکھوں سلام (حَدائِقِ بَخْشش)
عرض:سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین پر یقینِ کامل سے متعلق کو ئی واقعہ ارشاد فرما دیجیے تاکہ ہمارے لیے ترغیب کا سامان
ہو جائے۔
ارشاد: سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین پر اعتقاد و یقینِ کامل سے متعلق اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت، عاشقِ ماہِ نُبُوَّت ، پروانۂ شمعِ رسالت، مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کے دو واقعات ملاحظہ کیجیے، چنانچہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں: ’’(مجھے) بخار بہت شدید تھا اور گلے کے پیچھے گلٹیں۔ میرے منجھلے (مجھ سے چھوٹے) بھائی (مولانا حسن رضا خان ) مرحوم ایک طبیب کو لائے ،اُن دنوں بریلی میں مَرَضِ طاعون بشدّت تھا ، اِن صاحِب نے بغور دیکھ کر سات آٹھ مرتبہ کہا : یہ وُہی ہے ، وُہی ہے ،وُہی ہے یعنی مرضِ طاعون ۔ میں بالکل کلام نہ کرسکتا تھا اس لئے انہیں جواب نہ دے سکا حالانکہ میں خوب جانتا تھا کہ یہ غلط کہہ رہے ہیں، نہ مجھے طاعون ہے ، نہ اِنْ شَآءَ اللہُ الْعَزِیْز کبھی ہوگا، اِس لئے کہ میں نے طاعون زدہ کو دیکھ کر با رہا وہ دُعا پڑھ لی ہے جسے حُضُور سرورِ عالم صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تعلیم فرمایاکہ جو شخص کسی بلا رَسیدہ (مصیبت زدہ) کو دیکھ کر یہ دُعا پڑھ لے گا اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس بَلا سے محفوظ رہے گا۔ وہ دُعا یہ ہے :اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ
وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا([6])جن جن اَمراض کے مریضوں، جن جن بَلاؤں کے مبتَلاؤ ں کو دیکھ کر میں نے اِسے پڑھا ،بِحَمْدِہٖ تَعَالٰیآج تک اِن سب سے محفوظ ہوں اور بِعَوْنہٖ تَعَالٰی(یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد سے) ہمیشہ محفوظ رہوں گا۔‘‘([7])
مزید فرماتے ہیں :میرے پاس اِن عَمَلِیات کے ذخائر بھرے ہیں لیکن بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰی آج تک کبھی اِس طر ف خیال بھی نہیں کیا۔ ہمیشہ اُن دُعاؤں پر جواَحادیث میں اِرشاد ہوئیں عمل کیا ۔ میری تو تمام مُشکِلات اِنہیں سے حل ہوتی رہتی ہیں ۔(اِسی تذکرے میں فرمایا) دوسری بار جب کعبہ معظمہ حاضر ہوا ، یکایک(یعنی اچانک) جانا ہو گیا ، اپنا پہلے سے کوئی اِرادہ نہ تھا۔ پہلی بار کی حاضری حضرات والدین ماجِدَیْن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما کے ہمراہ رِکاب (یعنی ہمراہی میں) تھی ۔ اُس وقت مجھے تئیسواں سال تھا۔ واپسی میں تین دن طوفان شدید رہا تھا، اِس کی تفصیل میں بہت طُول ہے ۔ لوگوں نے کَفَن پہن لئے تھے۔ حضرت والدہ ماجدہ کا اِضْطِراب(یعنی پریشانی) دیکھ کر اُن کی تسکین (یعنی تسلی)کیلئے بے ساختہ میری زبان سے نکلا کہ آپ اِطْمِینان رکھیں، خدا کی
قَسم!یہ جہاز نہ ڈوبے گا ۔ یہ قَسَم میں نے حدیث ہی کے اِطْمِینان پر کھائی تھی جس میں کشتی پر سوار ہوتے وقت غرق(یعنی ڈوبنے) سے حِفاظت کی دُعا([8]) اِرشاد ہوئی ہے۔ میں نے وہ دُعا پڑھ لی تھی لہٰذا حدیث کے وعدۂ صادِقہ(یعنی سچے وعدے) پر مطمئن تھا ۔ پھر بھی قَسَم کے نکل جانے سے خود مجھے اندیشہ ہوا اور معاًحدیث یاد آئی :مَنْ یَّتأَلَّ عَلَی اللہِ یُکْذِبُہ (یعنی) جو اللہ تعالیٰ پر قسم کھائے ، اللہ اُس کی قسم کو رد فرما دیتا ہے۔([9])حضرت عزّت (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف رُجوع کی اور سر کارِ رِسالت(صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے مدد مانگی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ (عَزَّ وَجَلَّ)کہ وہ مخالف ہَوا کہ تین دن سے بَشِدَّت چل رہی تھی دو گھڑی میں بالکل مَوقُوف ہوگئی(یعنی رُک گئی)اور جہاز نے نَجات پائی ۔([10])
اَلْبَحْرُ عَلَا وَالْمَوْجُ طَغٰی، مَن بے کس وطوفاں ہوشربا
مَنجْدَھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا ، موری نَیَّا پار لگاجانا (حَدائِقِ بَخْشش)
(یعنی سمندر چڑھاہواہے اورموجیں طغیانی پرہیں۔مَیں بے کس ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والاہے۔ میں بھنور میں پھنس گیا ہوں اورہوا بھی مخالف سمت چل رہی ہے۔ یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ایسی حالت میں آپ میری کشتی کو کنارے لگا دیجیے۔)
عرض:شَیْخَـیْن،طَرَفَین،صاحِبَیْن،صَحِیْحَیْناورصِحاح سِتَّہ سے کیامُراد ہے؟
ارشاد: خلفاءِ راشدِین میں سے امیرالْمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق اور امیرالْمؤمنین حضرتِ سیِّدُنافاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما کو ،مُحَدِّثِیْن میں سے اِمام محمد بن اِسمٰعیل بُخاری اور اِمام مسلم بن حَجَّاج قُشَیریرَحِمَہُمَا اللہ تعالٰی کواور اَئمہ میں سے امامِ اعظم نعمان بن ثابِت و امام ابویوسفرَحِمَہُمَا اللہ تعالٰی کو شَیْخَـیْن کہا جاتا ہے ۔
حضرتِسیِّدُناامامِ اعظم ابوحنیفہ و حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمدبن حسن شیبانی رَحِمَہُمَا اللہ تعالٰی کو طَرَفَین اورحضرتِ سَیِّدُنا اِمام ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبا نیرَحِمَہُمَا اللہ تعالٰی کو صَاحِبَیْن کہتے ہیں۔
احادیثِ مبارکہ کی دو مشہورکتابوں صحیح بُخاری اور صحیح مُسلِم کو ’’صَحِیْحَیْن‘‘ کہا جاتا ہے اور اگر ان کے ساتھ سُنَنِ اَرْبَعہ(سنن ابو داؤد،
سنن ترمذی ،سنن اِبنِ ماجہ اورسنن نَسائی)بھی شامل ہوں تو اِن چھ کُتُبِ احادیث کو ’’صِحاح سِتَّہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
عرض:قرآنِ پاک کو چُومنااور چہرے پر مَس کرناکیساہے؟
ارشاد:قرآنِ پاک کو چُومنااور چہرے پر مَس کرناصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے فعل سے ثابت ہے چنانچہ فقۂ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب دُرِّمُختار میں ہے :امیرُالْمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظمرضی اللہ تعالٰی عنہ روزانہ صبح کو مُصْحَف (یعنی قرآنِ مجید)کو بوسہ دیتے تھے اور کہتے یہ میرے رب کا عہد اور اس کی کتاب ہے۔اَمیرُالْمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمان غنیرضی اللہ تعالٰی عنہ بھی مُصْحَف کو بوسہ دیتے اور چہرے سے مس کرتے تھے ۔([11])
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت ، مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:’’ مُصْحَف( یعنی قرآن ) شریف کو تَعْظِیماً سر اور آنکھوں اور سینے سے لگانااور بو سہ دینا جائزومُستحَب ہے کہ وہ اَعظم شعائِر سے ہے اور تعظیمِ شعائر تَقْوَی الْقُلُوْب (دلوں کی پرہیز گاری)سے۔‘‘([12])
سلسلۂ عالیہ چِشتیہ کے عظیم پیشوا،خواجہ خواجگان، سلطانُ الہند حضرت سیِّدُنا خواجہ غریب نواز حسن سَنْجَری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی کافرمان ہے: جو شخص قرآنِ شریف کو دیکھتا ہے اللہتعالیٰ کے فَضْل و کرم سے اس کی بِینا ئی زیادہ ہو جاتی ہے اور اس کی آنکھ کبھی نہیں دُکھتی اور نہ خشک ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک بُزرگ سجادے پر بیٹھے ہو ئے تھے اور سامنے قرآن شریف رکھا تھا۔ ایک نابینا نے آکر اِلتماس کی کہ میں نے بہت علاج کئے مگر آرام نہیں ہوا اب آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ میری آنکھیں ٹھیک ہو جا ئیں۔ مَیں آپ سے فاتحہ کے لیے ملتجی(درخواست گزار)ہوں۔اس بُزرگ نے قِبلہ رُخ ہو کر فاتِحہ پڑھی اور قرآن شریف اُٹھا کر اس کی آنکھوں پر مَلاجس سے اس کی دونوں آنکھیں رو شن ہو گئیں۔([13])
عرض:قُرآنِ پاک جس صندوق یا اَلْماری میں ہو اُس کے اُوپر سامان کا تھیلا (Bag)وغیرہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
ارشاد: قُرآنِ پاک جس صندوق یا اَلْماری میں ہو اُس کے اُوپر سامان کا تَھیلا (Bag)وغیرہ رکھنا تو دور کی بات فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ السَّلَام فرماتے
ہیں اُس پر کپڑا بھی نہ رکھا جائے چنانچہ صَدْرُالشَّریعہ، بَدْرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: قرآنِ مجید جس صندوق میں ہو اُس پر کپڑاوغیرہ نہ رکھا جائے۔([14])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اپنے دلوں میں قرآن ِ مجید کی عظمت پیدا کیجیے اور خوب خوب اس کا ادب واحترام بجالائیے، ہو سکتا ہے کہ یہی عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں قبول ہوجائے اور ہماری مغفرت کاسبب بن جائے۔ دلیلُ العارفین میں ہے کہ پہلے زمانے میں ایک فاسِق نوجوان تھا جس کی بدکاری سے مسلمانوں کو نفرت آتی تھی۔ اسے بَہُت منع کرتے لیکن وہ ایک نہ سُنتا۔اَلْغرض جب اس کا اِنتقال ہو گیا تو کسی نے اِسے خواب میں دیکھا کہ سر پر تا ج رکھے فِرِشتوں کے ہَمراہ جنّت میں جا رہا ہے ،اِس سے پوچھا کہ تُو تو بد کار تھا،یہ دولت کہاں سے نصیب ہو ئی ؟ جواب دیا : دنیا میں مجھ سے ایک نیکی ہو ئی وہ یہ کہ جہاں کہیں قرآن شریف پرمیری نگاہ پڑتی ، کھڑے ہو کر تعظیم کی نظرسے اسے دیکھتا۔ اللہتعالیٰ نے مجھے اس کی بدولت بخش دیا اور یہ دَرَجہ عِنایت فرمایا ۔ ([15])
عرض:کیا قرآنِ پاک پرکوئی دینی کتاب بھی نہیں رکھ سکتے ؟
ارشاد: قرآنِ پاک پرکوئی دینی کتاب بلکہ ترجمہ و تفسیر بھی نہیں رکھ سکتے۔ سب سے اُوپر قرآن ِ پاک ہونا چاہیے اس کے نیچے درجہ بدرجہ دیگر کتابیں رکھی جائیں ۔کتابوں کے ایک دوسرے پر رکھنے کی ترتیب بیان کرتے ہوئے صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں :لغت و نحو و صرف کاایک مرتبہ ہے، ان میں ہر ایک کی کتاب کو دوسرے کی کتاب پر رکھ سکتے ہیں اور ان سے اوپر علمِ کلام کی کتابیں رکھی جائیں، ان کے اوپر فقہ اور احادیث و مَواعظ و دعواتِ ماثورہ فقہ سے اوپراور تفسیر کو ان کے اوپر اور قرآنِ مجید کو سب کے اوپر رکھیں۔قرآنِ مجید جس صندوق میں ہو اس پر کپڑاوغیرہ نہ رکھا جائے۔([16])
عرض:قرآنِ پاک ہاتھوں سے چھوٹ جائے تو اس کا کیا کَفّارہ ہے؟
ارشاد: قرآنِ پاک ہاتھوں سے چھوٹ جائے تو شرعاًاِس کاکوئی کفّارہ نہیں البتہ کچھ
نہ کچھ صدقہ کر دینا بہترہے تاکہ اس معاملے میں جو غفلت یا کوتاہی ہوئی وہ مُعاف ہو جائے۔ بعض علاقوں میں قرآنِ مجیدہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر تشریف لے آئے تو گندم یاآٹا قرآنِ مجید کے برابر تول کر صَدَقہ کر دیتے ہیں۔ گندم یا آٹا صدقہ کرنا اچّھاعمل ہے مگر قرآنِ مجید کے برابر تول کر خیرات کرنا ضروری نہیں بلکہ کمی بیشی کے ساتھ بھی صدقہ و خیرات کر سکتے ہیں ۔
عرض:ننگے سر بیتُ الخلا میں جانا کیسا ہے؟
ارشاد: ننگے سر بیتُ الخلاء میں جانا ممنوع ہے۔صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں:ننگے سر پاخانہ ،پیشاب کو جانا یا اپنے ہمراہ ایسی چیز لے جانا جس پر کوئی دُعا یا اللہ و رسول یا کسی بزرگ کا نام لکھا ہو ممنوع ہے۔ یوہیں کلام کرنا مکروہ ہے۔([17])لہٰذا بیت الخلا میں جاتے وقت سر کو کسی چیز سےڈھانپ لینا چاہیےکہ یہ سنّت ہے چنانچہ مُفَسِّر شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: سر ڈھک کر پاخانے جانا سنّت ہے، ننگے سر پاخانے جانے والا
اس سنّت میں عمل نہ کر سکا۔([18])
عرض:کیا عورت اپنے شوہر کا نام لے تو طلاق پڑجاتی ہے؟
ارشاد:عورت اپنے شوہر کا نام لے کر پُکارے تو اس سے طلاق نہیں پڑتی البتہ عورَت کا اپنے شوہر کو نام لے کر پکارنا مَکروہ ہے چنانچہ صَدْرُالشَّرِیْعَہ، بَدْرُالطَّریْقَہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’عورت کو یہ مَکْرُوہ ہے کہ شوہَر کو نام لے کر پُکارے۔ بعض جاہِلوں میں یہ مشہور ہے کہ عورت اگر شوہر کا نام لے لے تو نِکاح ٹوٹ جاتا ہےیہ غَلَط ہے،شاید اسے اس لئے گھڑا ہو کہ اِس ڈر سے کہ طلاق ہوجائے گی، شوہر کا نام نہ لے گی۔“ ([19])
پہلے کی خواتین اپنے شوہر کا نام لینے سے شرماتی تھیں لیکن آج کل اکثر عورَتیں ’’میرا شوہر، میرا شوہر‘‘ کہتے تھکتی ہیں نہ لجاتی ہیں بلکہ شادی کے بعد بطورِ نسبت اپنے والِد کا نام لینا تو کُجا اپنا نام بھی بھُول جاتی ہیں اور لفظِ مِسِز یا بیگم کے ساتھ بِلا جھجک اپنے شوہر کا نام لیتی ہیں مثلاً مِسز جمیل یا بیگم
خلیل۔ اپنے شوہَر کے نام کے ساتھ مشہور ہونے میں عقلاً بھی نقصان ہے کہ اگر خدانخواستہ شوہرِ نامدار نے طلاق دیدی یا شوہر پہلے فوت ہوگیاتو پھر؟ کیونکہ مرنے سے نِکاح ٹوٹ جاتا ہے لہٰذا عافیت اِسی میں ہے کہ عورت شادی کے بعد بھی پکارنے میں اپنے والدِگرامی کے ساتھ ہی نِسبت کا اِظہار کرے مثلاً ’’بنتِ قاسِم اور بنتِ ہاشِم‘‘وغیرہ۔ اسی طرح شوہر کو بھی چاہیے کہ بِلاضَرورت ’’میری بیوی(Wife)‘‘ کہنے کے بجائے حسبِ ضرورت ’’میرے گھر والے یا میرے بچوں کی امّی‘‘ وغیرہ کلِمات کہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنو!اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں ایسی ہی پیاری سوچ دی جاتی ہے آپ بھی دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے ہردم وابستہ ہوجائیے،مدنی ماحول میں جہاں اسلامی بھائیوں کی اصلاح ہورہی ہے وہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اسلامی بہنوں کی بھی اصلاح ہو رہی ہے، آپ کی ترغیب وتحریص کے لیے ایک مدنی بہار پیش کی جاتی ہے ملاحظہ فرمائیے : چنانچہ بابُ المدینہ (کراچی )کی ایک اسلامی بہن کے بیان کا لبِّ لُباب ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی رنگ میں رنگنے سے پہلے بہت سی عورتوں کی طرح میں بھی بے پردگی،فیشن زدگی اور فحش کلامی جیسی برائیوں میں ملوث تھی ۔فلمیں ڈرامے دیکھنا میرا شوق اور گھروالوں
سے لڑنا جھگڑنا میرا محبوب مشغلہ تھا ،اپنے بچوں کے ابو سے زبان دَرازی کرنے کو گویامیں اپنا حق سمجھتی تھی ۔علمِ دین سے کوسوں دُور اور فکرِ آخرت سے یکسر غافل تھی ۔ میرے سُدھرنے کی ترکیب یوں بنی کی ایک دن میں اپنی بہن کے ساتھ ان کی سہیلی کے گھر گئی ۔ان کی سہیلی جو ایک باحیااور پُر وقار شخصیت کی مالک تھیں ، بڑی مِلَنْساری سے پیش آئیں۔
دورانِ گفتگو اِنکشاف ہوا کہ وہ دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہیں۔میں ان کی خوش اخلاقی اور عاجِزی و اِنکساری سے بڑی متأثر ہوئی۔انہوں نے بڑے دھیمے اور محبت بھرے لہجے میں ہمیں دعوتِ اسلامی کے اسلامی بہنوں کے ہفتہ وارسنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی ۔ان کی اس مختصر سی اِنفرادی کوشش کے نتیجے میں مجھے اتوار کے روز ہونے والے سنّتوں بھرے اجتماع میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔وہاں پر میں نے تلاوتِ قرآن ،نعت شریف اور بیان سنا ،جب ذِکْرُ اللہ کے بعد اجتماعی دعا میں کی جانے والی گریہ وزاری سنی تو میرے دل کی دنیا زیروزَبر ہوگئی ،مجھ پر عجیب رِقَّت طاری تھی ،پچھلی زندگی کے گناہ میری نگاہوں میں گھوم رہے تھے ،مارے شرم کے میں پانی پانی ہوگئی، آنکھوں سے اشکِ ندامت بہہ نکلے ۔میں نے خُوب گڑاگڑا کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ
سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگی اور توبہ کر لی ۔اجتماع کے بعد میں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ،جس میں نمازوں کی پابندی تھی، پردے کی عادت تھی،بڑوں کا ادب چھوٹوں پر شفقت تھی ، گُفْتار میں نرمی تھی، نگاہوں کی حفاظت تھی الغرض قدم قدم پر شریعت کی پاسداری کی کوشش تھی ۔دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول پرقربان ، جس کی بدولت مجھے سدھرنے کا موقع ملا ۔
عرض:جُھوٹا خواب گڑھ کر بیان کرنا کیسا ہے ؟
ارشاد:جھوٹا خواب گڑھ کر سُنانے والا سخت گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحْبوب، دانائے غُیُوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:’’جو جُھوٹا خواب بیان کرے اُسے بروزِ قِیامت جَوکے دو دانوں میں گانٹھ لگانے کی تکلیف دی جائیگی اور وہ ہرگز گانٹھ نہیں لگاپائے گا۔‘‘([20])
ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:’’ایک شخص ایسا کلام کرتا ہے جس میں (یعنی کلام کی قباحت اور اس کے انجام کے بارے میں ) وہ غور و فِکْر نہیں کرتا تو وہ
اِس بات کے سبب جہنم میں اِس مِقْدار سے بھی زِیادہ گرے گا جس قَدَرمَشْرِق ومَغْرِب کے دَرمِیان فاصِلہ ہے۔‘‘ ([21])ياد ركھیے!خواب سُنانے والے سے قَسَم کا مطالَبہ کرنا شرعاً واجِب نہیں،جو مَعَاذَاللہ عَزَّ وَجَلَّجھوٹاہو گا وہ اپنے اس جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے جُھوٹی قَسم بھی کھالے گا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جھوٹا خواب بیان کرنے اور اس کی تعبیر پوچھنے سے بچنا چاہیے کہ جھوٹے خواب کی بھی اگر تعبیر بیان کر دی جائے تو وہ واقع ہوجاتی ہے ، اس ضمن میں ایک حکایت ملاحظہ کیجیے چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ہِشام علیہ رَحْمَۃُ اللہ السَّلَام فرماتے ہیں : ایک شخص نے حضرتِ سیِّدُنا محمد بن سِیْرین علیہ رَحمَۃُ اللہ المُبین سے ایک خواب بیان کیا ، کہنے لگا: میں نے خواب دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک شیشے کا پیالہ ہے، جس میں پانی بھی موجود ہے ، وہ پیالہ توٹوٹ گیا ہے ، مگر پانی جوں کا توں موجود ہے ، یہ سن کر آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا :اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈر ، (اور جھوٹ نہ بول ) کیونکہ تو نے ایسا کوئی خواب نہیں دیکھا ، وہ شخص کہنے لگا :سُبْحٰنَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میں آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ سے ایک خواب بیان کر رہا ہوں اور آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ فرمارہے ہیں کہ تو نے کوئی خواب نہیں دیکھا ؟ آپ رحمۃُ اللّٰہ
تعالٰی علیہ نے فرمایا: بلا شبہ یہ جھوٹ ہے لہٰذااس جھوٹ کے نتیجے کا میں ذمہ دار نہیں ہوں، اگر تو نے واقعی یہ خواب دیکھا ہے ، تو تیری بیوی ایک بچہ جنے گی ، پھر وہ مر جائے گی اور بچہ زندہ رہے گا ۔ اس کے بعد وہ شخص جب آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس سے چلا گیا تو اس نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں نے تو ایسا کوئی خواب نہیں دیکھا تھا ، یہ سن کر کسی نے کہا: لیکن آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے تعبیر تو بیان کر دی ہے ، حضرتِ سیِّدُنا ہِشام علیہ رَحْمَۃُ اللہ السَّلَام فرماتے ہیں : اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس شخص کی بیوی نے ایک بچہ جنا ، پھر وہ مر گئی اور بچہ زندہ رہا۔ ([22])
عرض:ایسی صورت میں تو یِہی مُناسِب معلوم ہوتاہے کہ لوگوں میں بیان کرنے کے بجائے خواب کو صیغۂ راز میں رکھا جائے۔
ارشاد:یہ مَحض ایک وَسْوَسَہ ہے،اچّھے اور سچے خواب بیان کرنے اور سننے میں کوئی مضایقہ نہیں البتہ خواب دیکھنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنا خواب تعبیر جاننے والے یا اپنے کسی خیر خواہ کے سامنے ہی بیان کرے جو اس کے اچھے خواب کو بری تعبیر سے نہ بدل دے ۔حضرتِ سَیِّدُنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ
سے روایت ہے کہ رسولِ کریم، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰو ۃِ وَالتَّسْلِیْم کا فرمانِ عظیم ہے :اچھا خواب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور بُرا خواب شیطان کی طرف سے تو جب تم میں سے کوئی پسندیدہ چیز دیکھے تو اپنے پیارے کے سوا کسی سے بیان نہ کرے اور جب ناپسند بات دیکھے تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پناہ مانگے اور تین بار تھوک دے اور اس کی خبرکسی کو نہ دے تو وہ خواب اسے مضر نہ ہوگا۔([23])
اس حدیثِ پاک کے تحت حضرت عَلَّامَہ ابو الحسن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْجَلَال فرماتے ہیں:جب کوئی اچھا خواب دیکھے توصرف اسی شخص سے بیان کرے جو اس سے محبت کرتا ہے اس لیے کہ محبت کرنے والے کو وہ بات بری نہیں لگے گی جو اس کے دوست کو خوش کرنے والی ہے بلکہ وہ اس کی شادمانی پر خوش ہوگا اور اس بات کا حریص نہیں ہوگا کہ وہ اس کے اچھے خواب کی کوئی بُری تعبیر بیان کرے۔ اگراس نے اپنا خواب کسی ایسے شخص سے بیان کیا جو اس سے محبت نہیں کرتا تو وہ اس خطرے سے محفوظ نہیں ہوگا کہ وہ (اپنے بغض وعناد اور حسد کی وجہ سے )اس کے اچھے خواب کی کوئی بُری تعبیر بیان کر دے اور وہ اسی کے موافق رونما ہوجائے جیساکہ
حدیثِ پاک میں ہے: خواب کا ظہور پہلی تعبیر بیان کرنے والے کے مطابق ہوتا ہے۔([24])
میرے آقائے نعمت،اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰنفتاویٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 270پرارشاد فرماتے ہیں: ’’احادیثِ صَحِیْحَہ سے ثابِت حُضُور ِ اَقدس صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِسے (یعنی خواب کو ) اَمْرِ عظیم جانتے اور اس کے سُننے، پوچھنے، بتانے ، بیان فرمانے میں نہایت دَرْجے کااِہْتِمام فرماتے۔ صحیح بُخاری وغیرہ میں حضرتِ سیِّدُنا سَمُرہ بن جُنْدَب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رِوایت ہے ،حُضُور صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نمازِ صُبْح پڑھ کر حاضِرین سے دریافت فرماتے: ’’آج کی شَب کسی نے کوئی خواب دیکھا ؟‘‘جس کسی نے دیکھاہوتا عرض کردیتا ، حُضور صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمتعبیربیان فرماتے۔([25])
حضرتِ سیِّدُناابو سعید خُدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حُضُورِ اکرم ،نورِ مجسم صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے :’’اچھا خواب
نُبُوَّت کا 70 واں ٹکڑاہے ۔جو کوئی اچھا خواب دیکھے اُسے چا ہیے کہ اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد بجا لائے اور لو گوں کے سا منے بیان کرے اور جو اِس کے علاوہ دیکھے تو اپنے خواب سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پناہ ما نگے اور کسی کے سامنے بیان نہ کرے تا کہ وہ اُسے نقصان نہ دے ۔‘‘ ([26])
قرآنِ کریم، احادیثِ مبارَکہ اور بُزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللہ الْمُبِین کی کتابوں میں خوابوں کا بکثرت تذکِرہ ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا امام ابو القاسِم قُشَیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی نے ’’رِسالۂ قُشَیْرِیَّہ ‘‘میں ایک باب بنام ”رُؤْیَا الْقَوم“قائم کیا ہے جس میں66اَولیائے کرام کے خواب نَقْل فرمائے ہیں۔حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الوَالِی نے احیاء العلوم کی جلد4 صَفْحَہ 540تا 543 پرایک باب بنام ’’مَنَامَاتُ المَشائِخ ‘‘ قائم کیا ہے جس میں انہوں نے 49 خواب نَقْل کئے ہیں۔ اسی طرح ’’حَیاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ (مطبوعہ مکتبۂ نَبَویّہ گنج بخش روڈ مرکز الاولیاء لاہور ) کے صَفْحَہ نمبر 424تا 432 پرمیر ے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت،مُجَدِّدِ دین ومِلّت،مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کے 14خواب خود آپ ہی کی زَبانی مَروی ہیں۔
عرض:پتنگ اُڑانا اوراس کی ڈور لوٹنا کیسا ہے؟
ارشاد:پتنگ اُڑانالَہوولعِب ہے جو کہ ناجائزہے اور اس کی ڈور لُوٹنا حرام ہے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن سے کَنْ کَیَّا(کَنْ۔کَیْ۔یَا) یعنی پتنگ اُڑانے اوراس کی ڈور لوٹنے کے بارے میں سُوال ہواتو ارشاد فرمایا:’’کَنْ کَیَّا اُڑانالَہْو و لَعِب اور’’لہو‘‘ ناجائز ہے۔حدیث میں ہے: ’’ کُلُّ لَھْوِ الْمُسْلِمِ حَرَامٌ اِلَّا ثَلَاثَۃٌ مسلمان کے لئے کھیل کی چیزیں سوائے تین چیزوں کے سب حرام ہیں۔“ ([27])ڈور لوٹنانہبٰی(لوٹ مار) اورنہبیٰ حرام ہے کہ حُضورِ پُرنور ، شافِعِ یومُ النُّشُورصَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لوٹ مار سے منع فرمایا۔([28]) (اس صورت میں) لوٹی ہوئی ڈَور کامالک اگر معلوم ہو تو فرض ہے کہ اسے دے دی جائے اور اگر نہ دی اور بغیر اس کی اجازت کے اس سے کپڑا سیاتو اس کپڑے کا پہننا حرام ہے، اسے پہن کر نماز مکروہِ تحریمی ہے جس کا پھیرناواجب ہے ا س وجہ سے کہ اس
میں حرام شامل ہوگیاہے جیسے کسی کی غَصَب شُدہ زمین پرنَماز پڑھنا اور اگر مالک نہ ہوتو وہ لُقْطہ ہے یعنی پڑی پائی چیز ،واجب ہے کہ اسے مشہور کیا جائے یہاں تک کہ مالک کے ملنے کی اُمّید قَطْع(ختم) ہو۔ اس وقت وہ شخص غنی ہے تو فقیرکودیدے اور اگر فقیرہے تو اپنے صَرف (استعمال) میں لا سکتا ہے پھر جب مالک ظاہرہواور فقیرکے صرف میں آنے پرراضی نہ ہوتو اپنے پاس سے اس کا تاوان(یعنی اِسی طرح کی اتنی ہی ڈور یا اس کی رقم) دینا ہوگا۔([29])
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:’’کَنْ کَیَّا( پتنگ )اُڑانا منع اور لڑانا گناہ اوراس کالوٹنا حرام ہے۔ خود آکر گر جائے تو اسے پھاڑ ڈالے اور اگر معلوم نہ ہو کہ کس کی ہے تو ڈور کسی مسکین کو دے دے کہ وہ کسی جائز کام میں صرف کر لے اور خود مسکین ہو تو اپنے صرف میں لائے پھر جب معلوم ہو کہ فُلاں مسلم کی ہے اور وہ اس تصدُّق (صدقہ کرنے)یا اس مسکین کے اپنے صَرف میں لانے پر راضی نہ ہو تو دیناہوگی اور کَنْ کَیَّا( پتنگ )کا مُعاوَضہ بَہَرحال کچھ نہیں۔‘‘ ([30])
عرض:بَسَنْت منانے اور اس میں پتنگ با زی کرنے کے با رے میں کچھ ارشاد فرما دیجیے۔
ارشاد:بَسَنْت میلا یہ ایک گستاخِ رسول کی یادگار ہے اسے جاری کرنے والے مرکھپ کر اپنے کیفرِ کردار کو پہنچ گئے مگر افسوس !صد کروڑ افسوس !اپنی یقینی اور اٹل موت سے غافل مسلمانوں نے اسے جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا اور کررہے ہیں جس کی وجہ سے اب بھی یہ گناہوں بھرا سلسلہ تمام تر ہلاکت خیزیوں کے ساتھ اپنی نحوستیں لُٹا رہا ہے۔آج مسلمان کہلانے والے’’بَسَنْت‘‘ کے نام سے غیر مسلموں کے اس تہوارکوفخریہ طورپر بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں جس میں پتنگ بازی کے خوب خوب مقابلے ہوتے ہیں،ایک دوسرے کی ڈَوریں کاٹی اورلوٹی جاتی ہیں، مکانوں کی چھتوں پر ڈیک لگا کرفُحش گانے چلائے جاتے ہیں۔ پتنگ کٹ جانے پر اتنی خوشی منائی جاتی ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے مل کررَقْص کرتے ہیں،مرد تو مرد خواتین بھی اس کارِگناہ میں مردوں سے پیچھے رہ جانے کو گویاخلافِ شان خیال کرتی ہیں، بڑے بڑے شہروں میں پہلے ہی سے ہوٹل اوراونچی اونچی عمارتوں کی چھتیں بک ہوجاتی ہیں، جس میں ملک کے طول و
عرض سے بے شمار لوگ شریکِ مَعاصی (گناہ) ہوتے ہیں، الغرض بے حیائی و فحاشی اور دیگر گناہوں کا بازار خوب گرم ہوتا ہے کہ اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ ۔
ہرسال اس منحوس تہوار کے باعث بے شمار افراد چھتوں سے گرکر، پتنگ کی ڈورپھنسنے ، بجلی کی تاروں کے گِرنے یا مقابلہ بازی کے دوران آپس میں لڑجھگڑکر موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، نہ جانے کتنے ہی بچّوں کی شہ رَگیں تیز ڈور سے کٹ جاتی ہیں، بیسیوں افراد ٹانگیں یابازو تُڑواکر عمربھر کے لئے اَپاہج اور والدَین اور دیگر اہلِ خانہ کیلئے وبالِ جان بن جاتے ہیں اورکئی ماں باپ اپنے بچّے کو اس منحوس تہوارکی نَذرکر کے پوری زندگی کے لیے دل پراولادکی جُدائی کاداغ لیے پھرتے ہیں۔ اہم شخصیتوں کے علاوہ غیرملکی سفیروں کوبھی مدعُو کر کے پتنگ بازی کے نظارے کی زحمت دی جاتی ہے اوروہ لوگ اس قوم کی ان کارستانیوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں کہ اس قوم کابچّہ بچّہ ہزاروں کا مقروض ہے لیکن یہ قوم اپنے ملک کوبچانے کے بجائے کروڑوں روپے پتنگ بازی کی نذر کر رہی ہے۔ الغرض نفس وشیطان کی چال میں آکر بے شمار مسلمان اپنا وقت اور پیسہ ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ بسااوقات اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ سبھی مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطافرمائے اور ان فضول و بیہودہ کاموں
سےخود بھی بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطافرمائے ۔ ([31])
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
عرض: ایمان پر خاتمہ کے لیے کوئی وظیفہ ارشاد فرما دیجیے۔
ارشاد: دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 561 صَفحات پر مشتمل کتاب”ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت“(مکمل) صَفْحَہ 311پر شہزادۂ اعلیٰ حضرت، تاجدارِ اہلسنّت،حُضُور مفتیٔ اعظم ہند مولانا مصطَفٰے رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ایک روز بعد فراغ نماز عشاء لوگ دست بوس ہو رہے تھے اِس مجمع میں سے ایک صاحِب نے(حُضُور اعلیٰ حضرت کی)خدمت با بَرکت میں عرض کی:حُضُور!میں”ضِلع ہوشنگ آباد“ کا رہنے والا ہوں، مجھے حُضُور کی”جبل پور“تشریف آوَری کی رَیل (ٹرین) میں خبر ملی لہٰذا ڈاک سے صِرف دُعا کے واسِطے حاضِر ہوا ہوں کہ خُداوندِ کریم(عَزَّ وَجَلَّ)
ایمان کے ساتھ خاتِمہ بِالخیر کرے۔
حُضُور نے دُعا دی اور ارشاد فرمایا: اکتالیس بار صبح([32]) کو” یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ “اوَّل و آخِر دُرُود شریف، نیز سوتے وَقت اپنے سب اَوراد کے بعد سورۂ کافرون روزانہ پڑھ لیا کیجیے اس کے بعد کلام (گفتگو) وغیرہ نہ کیجئے ہاں اگر ضَرورت ہو تو کلام(بات) کرنے کے بعد پھر سورۂ کافرون تلاوت کر لیں کہ خاتِمہ(اختِتام )اسی پر ہو، اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ خاتِمہ ایمان پر ہو گا اور تین بار صبح اور تین بار شام اس دُعا کا وِرد رکھیں: ” اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ نُّشْرِکَ بِکَ شَیْأً نَّعْلَمُہُ وَنَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا نَعْلَمُ۔“([33])
آپ بھی اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت کے ارشاد فرمودہ وظائف بیان کردہ طریقے کے مطابق پابندی کے ساتھ کیجیے اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ خاتمہ بالخیر نصیب ہوگا ۔اس کے علاوہ حضرتِ سیِّدُنا خِضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام مع کُنْیَت و وَلدِیَّت ولقب یاد کرلیجیے کہ تفسیرِ صاوی میں ہے: جو کوئی حضرتِ سیِّدُنا خِضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام مع کُنْیَت و
وَلدِیَّت ولقب یاد رکھے گا اُس کا خاتِمہ ایمان پر ہو گا۔ آپ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام مع کُنْیَت و وَلدِیّت و لقب یہ ہے:
” اَبُوالْعَبَّاس بَلْیَا بِنْ مَلْکَان اَلْخِضْر۔“([34])
آنکھوں میں جلوہ شاہ کا اور لب پہ نعت ہو
جب روح تن سے ہو جدا یاربِّ مصطَفٰے
اے کاش! زیرِ گنبدِ خضرا پئے ضیا
ایمان پر ہو خاتِمہ یاربِّ مصطَفٰے (وسائلِ بخشش)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذ رازی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْہَادِی فرماتے ہیں:تم سے مؤمِنوں کواگر تین فوائد حاصِل ہو ں تو تممُحْسِنِیْن(یعنی اِحسان کرنے والوں)میں شمارکیے جاؤ گے(۱)اگر انہیں نَفع نہیں پہنچا سکتے تو نقصان بھی نہ پہنچاؤ(۲)انہیں خوش نہیں کر سکتے تو رنجیدہ بھی نہ کرو (۳)ان کی تعریف نہیں کر سکتے تو بُرائی بھی مت کرو۔(تَنبِیہُ الْغافِلین، ص۸۸)
|
نام کتاب |
مصنف /مؤلف |
مطبوعہ |
1 |
حاشیۃ الصاوی علی الجلالین |
احمد بن محمد صاوی مالکی خلوفی،متوفّٰی ۱۲۴۱ھ |
دار الفکر بیروت۱۴۲۱ھ |
2 |
صحیح البخاری |
امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری ،متوفّٰی۲۵۶ھ |
دارا لکتب العلمیۃ بیروت۱۴۱۹ ھ |
3 |
صحیح مسلم |
امام مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری،متوفّٰی۲۶۱ھ |
دارابن حزم بیروت ۱۴۱۹ھ |
4 |
سنن الترمذی |
امام محمد بن عیسٰی ترمذی ، متوفّٰی۲۷۹ھ |
دارالفکر بیروت۱۴۱۴ھ |
5 |
سنن ابی داود |
امام ابوداود سلیمان بن اشعث سجستانی، متوفّٰی۲۷۵ھ |
داراحیاء التراث العربی۱۴۲۱ھ |
6 |
سنن ابن ماجہ |
امام محمد بن یز ید القزوینی ابن ماجہ ،متوفّٰی۲۷۳ھ |
دارالمعرفۃ بیروت۱۴۲۰ھ |
7 |
مسندامام احمد |
امام احمد بن محمد بن حنبل ، متوفّٰی۲۴۱ھ |
دا رالفکربیروت۱۴۱۴ھ |
8 |
المستدرک |
امام ابو عبداللہ محمد بن عبد اللہ حاکم،متوفّٰی۴۰۵ھ |
دارالمعرفۃ بیروت۱۴۱۸ھ |
9 |
کنز العمال |
علامہ علاء الدين علی بن حسام الدين ہندی متوفّٰی۹۷۵ھ |
دارالکتب العلمیۃ ۱۴۱۹ھ |
10 |
شرح ابن بطال |
امام علی بن خلف بن عبدالمالک بن بطال،متوفّٰی ۴۴۹ھ |
ریاض |
11 |
تاریخ مدینہ دمشق |
حافظ ابوالقاسم علی بن حسن ابن عساکر شافعی متوفّٰی۵۷۱ھ |
دارالفکر بیروت۱۴۱۶ھ |
12 |
مراٰۃ المناجیح |
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی،متوفّٰی۱۳۹۱ھ |
ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور |
13 |
الدر المختار |
محمد بن علی المروف بعلاء الدین حصکفی متوفّٰی۱۰۸۸ھ |
دار المعرفۃ بیروت۱۴۲۰ھ |
14 |
فتاوٰی رضویہ |
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، متوفّٰی۱۳۴۰ھ |
رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور |
15 |
احکام شریعت |
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، متوفّٰی۱۳۴۰ھ |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
16 |
ملفوظات اعلیٰ حضرت |
مفتیٔ اعظم ہند محمد مصطفی رضا خان،متوفّٰی۱۴۰۲ھ |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
17 |
بہار شریعت |
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی،متوفّٰی۱۳۶۷ھ |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
18 |
تنبیہ الغافلین |
فقیہ ابو اللیث نصر بن محمد سمرقندی،متوفّٰی ۳۷۳ھ |
پشاور |
19 |
دلیل العارفین از ہشت بہشت |
ملفوظات خواجہ معین الدین اجمیری متوفّٰی ۶۳۳ھ |
شبیر برادرز مرکز الاولیا لاہور |
20 |
بہشت کی کنجیاں |
شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
[1] … تِرمِذی، ج۵،ص۲۴۷، حدیث۳۳۹۱
[2] … بہشت کی کنجیاں،ص ۱۵۷،ملخصاً
[3] … اَ بُوْداوٗد،ج۴،ص۴۲۰،حدیث ۵۰۹۵
[4] … اِبْنِ ماجَہ، ج ۴،ص۲۸۴،حدیث ۸
[5] … تِرمِذی،ج۵، ص۲۷۲،حدیث ۳۴۴۲
[6] … تِرمِذی،ج ۵، ص۲۷۲،حدیث ۳۴۴۲
[7] … ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص ۶۹
[8] … کشتی میں سوار ہوتے وقت کی دُعا: بِسْمِ اللہِ الْمَلِکِ الرَّحْمٰنِ مَجْرٖھَا وَمُرْسَاھَا اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ترجمہ: اللہ مالک ومہربان کے نام پر اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا بیشک میرا رب ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔ (کنزالعمّال،ج۶،ص۳۰۳،حدیث۱۷۵۳۴)
[9] … کنز العمّال،ج۱۵،ص۳۸۸ ،حدیث۴۳۵۸۰(یعنی خواہ مخواہ حکمِ قطعی کرے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ضرور ایسا کرے گا جیسے کوئیاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم کھاکر کہے کہ فلاں شخص جنت میں جائے گا ، فلاں دوزخ میں ۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
[10] … ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص ۱۸۱۔۱۸۲
[11] … دُرِّمختار ،ج۹،ص۶۳۴
[12] … فتاویٰ رَضَوِیّہ، ج۲۲،ص۵۶۳
[13] … دَلیْلُ الْعارِفِیْن اَزْ ہَشت بَہِشْت، ص۸۰
[14] … بہارِشریعت، ج۳،ص۴۹۵
[15] … دَلیْلُ الْعارِفِیْن اَزْ ہَشت بَہِشْت، ص۸۰
[18] … مِرآۃُ المناجیح ،ج۱،ص ۱۷۸
[20] … بخاری،ج۴،ص۴۲۲،حدیث۷۰۴۲
[21] … بخاری ، ج۴،ص ۲۴۱،حدیث۶۴۷۷
[22] … تاریخ دمشق، ج٥٣،ص٢٣٢
[23] … مُسلِم،ص۱۲۴۲،حدیث۲۲۶۱
[24] … ابنِ ماجہ،ج۴،ص۳۰۵،حدیث۳۹۱۵ شرح ابن بطال،ج۹، ص۵۵۷
[25] … بخاری ،ج۱،ص۴۶۷،حدیث۱۳۸۶
[26] … مُسْندِ احمد، ج۲،ص۵۰۲، حدیث۶۲۲۳
[27] … سوائے تین کھیلوں کے دنیا کا ہر کھیل باطل ہے (۱) اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا(۲) اپنے گھوڑے کو شائستگی سکھانا(۳)اپنی گھر والی یعنی اہلیہ کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں جائز ہیں۔ (مستدرکِ حاکم، ج۲، ص۴۱۹،حدیث۲۵۱۳)
[28] … بخاری،ج۲،ص۱۳۷، حدیث۲۴۷۴
[29] … اَحْکامِ شَرِیْعَت، حصّہ اوّل ،ص۳۷
[30] … فتاویٰ رضویہ،ج۲۴،ص۶۶۰،ملخصاً
[31] … مزید تفصیلات جاننے کے لیے شیخِ طریقت، امِیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ”بَسَنْت میلا“ کا مطالعہ کیجیے ۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ )
[32] … آدھی رات ڈھلے سے سورج کی پہلی کرن چمکنے تک صُبح کہلاتی ہے اور دوپہر ڈھلنے سے غروبِ آفتاب تک شام کہلاتی ہے۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ )
[33] … مسندِ احمد ، ج۷،ص۱۴۶،حدیث۱۹۶۲۵
[34] … تَفْسیرِ صاوی، ج۴ ،ص ۱۲۰۷