اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

غیبت سے باز رکھے گا

      حضرتِ علّامہ مَجدُالدّین فیروز آبادی علیہ رحمۃُ اللہِ الہادی سے مَنقول ہے : جب کسی مجلس میں (یعنی لوگوں میں )بیٹھوتو یوں کہو:  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم وَ صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد  اللہعَزَّوَجَلَّتم پر ایک فِرِشتہ مقرّر فرمادے گا جو تم کو غیبت سے بازرکھے گا،اور جب مجلس سے اُٹھو تو کہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم وَ صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو فِرِشتہ  لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے بازرکھے گا ۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع،ص۲۷۸)

کون جانے دُرود کی قیمت          ہے عجب دُرِ شاہوار درود

ہم کو پڑھنا خدا نصیب کرے              دَم بدم اور بار بار درود

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(1نقصان اپنا ہے

        حضرت مولانا جلالُ الدین رُومی علیہ رحمۃُ اللہِ القوی نے مَثنوی شریف میں ایک سبق آموز حکایت لکھی ہے کہ مٹی کھانے کا شوقین شخص ایک دکان سے شکر(چینی) خریدنے کے لئے گیا تو دکاندار نے کہا کہ میرے باٹ مٹی کے ہیں ، اگر منظور ہوتو اسی سے تول دوں ؟ یہ سن کر گاہگ کہنے لگا :مجھے شکر سے مطلب ہے چاہے کسی بھی باٹ


سے تولو۔ اُدھر دکاندار شکر لینے دکان کے اندر گیا اِدھر مٹی کھانے کے شوقین گاہگ نے مٹی کے باٹ کو چاٹنا شروع کیا ،ساتھ ہی ساتھ وہ ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں دکاندار کو پتا نہ چلے کہ میں اس کا نقصان کررہا ہوں۔ دوسری طرف دکاندار اسے مٹی کھاتے ہوئے دیکھ چکا تھا اور جان بوجھ کر شکر ڈالنے میں تاخیر کررہا تھا کہ یہ نادان شخص جتنی مٹی کھائے گا اتنا ہی باٹ کا وزن کم ہوجائے گا اور اسے شکرکم مقدار میں ملے گی اور جب گھر جاکر یہ شکر تولے گا تو اسے پتا چلے گا کہ حقیقت میں یہ اپنا ہی نقصان کر آیا ہے ۔(مثنوی مولوی معنوی ، دفتر چہارم،ص ۷۱،۷۲)

جیسی کرنی ویسی بھرنی

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا  دارُالْعَمَل (یعنی عمل کرنے کی جگہ)ہے اور آخرت دَارُالْجَزَائ(یعنی بدلہ ملنے کا مقام)  ہم دنیا میں جواچھا یا بُرابیج بوئیں گے اس کی فصل آخرت میں کاٹیں گے بعض اوقات تو دنیا میں بھی بدلہ مل جاتا ہے ، اچھا یا بُرا بدلہ ملنے کو ہمارے ہاں ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘، ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘،’’جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے ‘‘ اور’’مُکافاتِ عمل ‘‘ جبکہ عربی زبان میں ’’کَمَا تَدِینُ تُدَان‘‘،’’بِالْکَیْلِ الَّذِی تَکْتَالُ یُکَالُ لَک‘‘اور انگریزی زبان میں ،’’As you sow so shall you reap‘‘ کہا جاتا ہے ۔

جیسا کرے گا ویسا بھرے گا

        یہی بات ہمارے سَرکارِ والاتبار، دوعالَم کے مالک ومختارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ


واٰلہٖ وسلَّم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:اَ لْبِرُّ لا یَبْلَی وَالاِ ثْمُ لا یُنْسَی وَالدَّیَّانُ لَا یَمُوتُ فَکُنْ کَمَا شِئْتَ کَمَا تَدِینُ تُدَانُیعنی نیکی پرُانی نہیں ہوتی اور گناہ بھلایا نہیں جاتا ، جزا دینے والا (یعنی اللہعَزَّوَجَلَّ )کبھی فنانہیں ہوگا، لہٰذا جو چاہو بن جاؤ، تم جیسا کروگے ویسا بھروگے۔‘‘   (مصنف عبدالرزاق،کتاب الجامع،باب الاغتیاب والشتم،۱۰ / ۱۸۹،حدیث: ۲۰۴۳۰)

        حضرت علّامہ عبدُالرؤف مَناوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الباری’’اَلتَّیْسِیْر شَرْحُ الْجَامِعِ الصَّغِیْر ‘‘میں ’’ کَمَا تَدِینُ تُدَانُ‘‘کی وضاحت میں لکھتے ہیں :یعنی جیسا تم کام کرو گے ویسا تمہیں اس کا بدلہ ملے گا،جو تم کسی کے ساتھ کرو گے وہی تمہارے ساتھ ہوگا ۔(التیسیر ،۲/۲۲۲ )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

جو کسی کو رُسوا کرتا ہے وہ خود بھی ذلیل ہوتا ہے

        سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکافرمانِ عبرت نشان ہے :جو کسی مسلمان کو ایسی جگہ رُسوا کرے جہاں اس کی بے عزتی اور آبرو ریزی کی جارہی ہو تو  اللہعَزَّوَجَلَّ اسے ایسی جگہ ذلیل کرے گا جہاں وہ اپنی مدد چاہتا ہوگااورجو کسی مسلمان کی ایسی جگہ مددکرے جہاں اس کی عزت گھٹائی جارہی ہو اور اس کی آبرو ریزی کی جارہی ہو تو  اللہعَزَّوَجَلَّ ایسی جگہ اس کی مدد کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کا طلب گار ہوگا ۔( ابوداوٗد،کتاب الادب،باب من رد۔۔الخ،۴/۳۵۵،حدیث:۴۸۸۴)

      


مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :اس طرح کہ جب کچھ لوگ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کررہے ہوں تو یہ بھی انکے ساتھ شریک ہوکر ان کی مدد کرے ان کی ہاں میں ہاں ملائے۔( ’’  اللہعَزَّوَجَلَّ اسے ایسی جگہ میں ذلیل کرے گا جہاں وہ اپنی مدد چاہتا ہوگا‘‘کے تحت مفتی صاحب لکھتے ہیں :)یعنی  اللہتعالٰی اس جرم کی سزا میں اسے ایسی جگہ ذلیل کرے گا جہاں اسے عزت کی خواہش ہوگی۔خیال رہے کہ یہ احکام مسلمان کے لئے ہیں۔کفار،مُرتدین،بے دین لوگوں کی  اللہتعالیٰ کے ہاں کوئی عزت نہیں ان کی بے دینی ظاہرکرنا عبادت ہے۔غرضکہکَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ  جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔کَرْدَنِیْ خَوِیْش آمَدَنِیْ پِیْشمسلمان بھائی کی عزت کرو اپنی عزت کرالو،اسے ذلیل کرو اپنے کو ذلیل کرالو۔جگہ عام ہے دنیا میں ہو یا آخرت میں جہاں بھی اسے مدد کی ضرورت ہوگی رب تعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا، صرف ایک بار نہیں بلکہ ہمیشہ۔(مراٰۃ المناجیح ،۶/۵۶۹)

گَنْدَمْ اَزْ گَنْدَمْ بِرُوْجَوْزجَوْ!   اَزْمُکَافَاتِ عَمَلْ غَافِلْ مَشُو

(ترجمہ: گندم سے گندم اور جو سے جو اُگتے ہیں مکافاتِ عمل سے غافل مت ہو )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                       صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

دوسروں کے ساتھ اچھابرتاؤ کیجئے

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں چاہئے کہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ دیں ، اس کی چیز نہ چُرائیں ،اسے دھوکہ نہ دیں ،اس پر جھوٹا اِلزام نہ لگائیں ، اس کا قرض نہ دبائیں ،


اس کی زمین پر قبضہ نہ کریں ، اس کی گھریلو زندگی میں زہر نہ گھولیں ،بدگمانیاں نہ پھیلائیں ،کسی کا دل نہ دکھائیں ،پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں نہ کریں ،اس کا مذاق اڑا کر اس کی عزت کا جنازہ نہ نکالیں ،سازشیں کرکے اس کی ترقی میں روڑے نہ اَٹکائیں اور اس کی برائیاں لوگوں میں پھیلا کر بدنام نہ کریں کیونکہ جو آج ہم کسی کے ساتھ کریں گے کل ہمارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوسکتا ہے ۔اس کے برعکس اگر ہم کسی کی عزت کا تحفظ کریں گے ، اس کے مال میں خیانت نہیں کریں گے ، اسے دھوکہ نہیں دیں گے ، اس سے سچ بولیں گے ،اس کی غیبت نہیں کریں گے ،اس کے بارے میں حُسنِ ظن رکھیں گے ، اس کی خیرخواہی کریں گے تو ہمیں بھی بھلائی کی اُمید رکھنی چاہئے ۔ ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘)[1](رسالے میں اسی عنوان پر 54 سبق آموز حکایات مع مختصر دَرْس پیش کی گئی ہیں ، انہیں خوب توجہ سے پڑھئے اور ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ‘‘ کے مَدَنی مقصد کو پانے کے لئے کوشاں ہوجائیے ۔

       اِس رسالے کو نہ صرف خود پڑھئے بلکہ دوسرے اسلامی بھائیوں کو اس کے مُطَالَعَہ کی ترغیب دے کر ثواب ِ جَارِیہ کے مُسْتَحِق بنئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں مَدَنی اِنعامات پر عمل کرنے اور مَدَنی قَافِلوں کا مُسَافِر بنتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

شعبہ اِصلاحی کتب (المدینۃ العلمیۃ)


(2) زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والی اندھی ہوگئی

         اَرْوٰی نامی ایک عورت نے حضرت سیِّدُنا سعید بن زیدرضی اللہ تعالٰی عنہ سے گھر کے بعض حصے کے متعلق جھگڑا کیا۔آپ نے ارشاد فرمایا: یہ زمین اسی کو دے دو،میں نے رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا ہے:مَنْ اَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْاَرْضِ بِغَیْرِ حَقِّہِ طُوِّقَہُ فِیْ سَبْعِ اَرَضِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یعنی جس شخص نے ایک بالشت زمین بھی ناحق لی قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا۔اس کے بعدآپ نے دعا فرمائی:اَ للّٰہُمَّ إِنْ کَانَتْ کَاذِبَۃً فَأَعْمِ بَصَرَہَا وَاجْعَلْ قَبْرَہَا فِی دَارِہَایعنی یااللہعَزَّوَجَلَّ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کو اندھا کردے اور اسکی قبر اسی گھر میں بنادے۔راوی کہتے ہیں :میں نے دیکھا کہ وہ عورت اندھی ہوچکی تھی ،دیواروں کو ٹٹولتی پھرتی تھی اور کہتی تھی:مجھے سعید بن زید کی بددعا لگ گئی ہے،آخر کار ایک دن گھر میں چلتے ہوئے وہ کنویں میں گر کر مرگئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا۔( مسلم،کتاب المساقاۃ،باب تحریم الظلم، ص۸۹۶،حدیث:۱۶۱۰)

       مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان لکھتے ہیں : زمین کے سات طبقے اوپر نیچے ہیں صرف سات ملک نہیں ،پہلے تو اس غاصب کو زمین کے سات طَبق کا طوق پہنایا جائے گا پھر اسے زمین میں دھنسایا جائے گا، لہٰذا جن احادیث میں ہے کہ اسے زمین میں دھنسایا جائے گا وہ احادیث اس حدیث کے


خلاف نہیں ،اللہ تعالٰی اس غاصِب کی گردن اتنی لمبی کردے گا کہ اتنی بڑی ہنسلی اس میں آجائے گی معلوم ہوا کہ زمین کا غصب دوسرے غصب سے سخت تر ہے ۔(مراۃ المناجیح،۴/۳۱۳)

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!فی زمانہ زمینوں پر ناجائز قبضے کے واقعات کی کثرت ہے ، اپنی جمع پونچی خرچ کر کے ذاتی مکان کا خواب آنکھوں میں سجائے کوئی شخص جب زمین خریدنے میں کامیاب ہوہی جاتا ہے تو اسے یہ فکر سونے نہیں دیتی کہ قبضہ گروپ سے اپنی زمین کو محفوظ کس طرح رکھا جائے ؟ اِحتیاطی تدابیر اپنانے کے باوجود اگر اس کی زمین پر قبضہ ہوجائے تو منت سماجت کرنے پر بھی بے شرم قبضہ خوروں کو اس پر ترس نہیں آتا بلکہ اسی کی زمین اسے واپس کرنے کے لئے بھاری رقم طلب کی جاتی ہے ، اگر وہ مظلوم شخص قبضہ چھڑانے کے لئے کورٹ کچہری کا دروازہ کھٹکھٹائے تو ایسے ایسے تاخیری حربے اختیار کئے جاتے ہیں کہ زمین کا اصل مالک زمین میں جاسوتا ہے لیکن اسے زمین واپس نہیں ملتی ۔زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کو سنبھل جانا چاہئے کہ آج جس زمین پر قبضہ کرکے وہ خوش ہورہے ہیں اور مظلوم کی بددعائیں لے رہے ہیں کل مرنے کے بعد یہی زمین گلے کا طوق بن کر رسوائی کا سبب نہ بن جائے ۔بسا اوقات دنیا میں ہی قبضہ گروپوں کا انجام قتل وغارت اور قید کی صورت میں دوسروں کو درسِ عبرت دیتا ہے ۔ اگر بالفرض انہیں دنیا میں اپنے کئے کی سزا نہ بھی ملے تو کل مرنے کے بعد انہیں زمین میں ہی دفن ہونا ہے اور بعدِ مرگ اس


حرام وناجائز فعل کی جو سزائیں ملیں گی وہ بھی کان کھول کر سن لیں ، چنانچہ

(۱)سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا

      سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا فرمانِ عبرت نشان ہے: جو زمین کا کچھ حصہ ناحق لے لے اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔(بخاری،کتاب المظالم،باب اثم۔۔الخ،۲/۱۲۹،حدیث:۲۴۵۴)

       مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :یہ عذاب تو قیامت کے دن ہوگا بعد میں دوزخ کا عذاب اس کے علاوہ ہے کیونکہ حقوق العباد میں بڑا فرق ہے کہ اور چیزیں فانی ہیں ،زمین پشت ہا پشت تک باقی رہتی ہے،اس کی سزا بھی زیادہ۔لمعات میں فرمایا گیا کہ بعض غاصبینِ زمین کو دھنسانے کی سزا دی جائے گی اور بعض کے گلے میں (زمین) طوق بناکر ڈالی جائے گی لہٰذا یہ حدیث طوق والی حدیث کے خلاف نہیں۔(لمعات) اور ہوسکتا ہے کہ ایک ہی غاصِب کو دو وقت میں یہ دو عذاب ہوں۔(مراٰۃ المناجیح ، ۴/۳۲۳)

(۲)طوق گلے میں ڈالا جائے گا

        سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جو شخص ظلمًا بالِشت بھر زمین لے لے  اللہعَزَّوَجَلَّاُسے اس بات کاپابند کرے گا کہ وہ


اس زمین کو سات زمینوں کی تہہ تک کھودے پھر قیامت کے دن اس کا طوق پہنائے گا حتیّٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے۔(مسنداحمد،حدیث یعلی بن مرۃ،۶/۱۸۰،حدیث:۱۷۵۸۲)

       مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :یہ غاصبِ زمین کا تیسرا عذاب ہے یا ایک ہی شخص کو یہ تینوں عذاب تین وقت میں دیئے جائیں گے یا کسی کو وہ گزشتہ عذاب اور کسی کو یہ یعنی یہ شخص خود سات تہہ زمین تک بورنگ(Boring)کرے اور خود ہی اپنے گلے میں طوق بنا کر پہنے پھرے۔ (مراٰۃ المناجیح ، ۴/۴ ۳۲)

(۳)مٹی اٹھا کر میدانِ حشر میں لائے

        سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس نے ناحق زمین لی قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ اس کی مٹی اٹھا کر میدان حشر میں لائے۔ (مسند احمد،حدیث یعلی بن مرۃ،۶/۱۷۷،حدیث:۱۷۵۶۹)

(۴)فرض قبول ہوتے ہیں نہ نفل

        ایک حدیث میں ہے ، رسولُاللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو تھوڑی مقدار زمین بھی ناجائز طور پرلے لے توساتوں زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا، نہ اس کا فرض قبول ہو گانہ نفل۔(مسند ابی یعلی،۱/۳۱۵، حدیث:۷۴۰)


گلے میں بیس پچیس سیر مٹی ڈال کر دیکھ لو

        میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنزمین پر قبضہ کرنے والے کو جھنجھوڑتے ہوئے فتاویٰ رضویہ جلد 19 صفحہ 665 پرلکھتے ہیں :اللہقہار وجبار کے غضب سے ڈرے، ذرا من دو من نہیں بیس پچیس ہی سیرمٹی کے ڈھیلے گلے میں باندھ کر گھڑی دو گھڑی لئے پھرے، اُس وقت قیاس کرے کہ اس ظلم شدید سے بازآنا آسان ہے یازمین کے ساتوں طبقوں تک کھود کر قیامت کے دن تمام جہان کا حساب پورا ہونے تک گلے میں مَعَاذَ اللہ یہ کروڑوں مَن کا طوق پڑنا اور ساتویں زمین تک دھنسا دیا جانا، والعیاذباللہ تعالٰی، واللہ تعالٰی اعلم۔(فتاوی رضویہ ،۱۹/۶۶۵)؎

ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے واسِطے اٹّھیں

بچانا ظلم و ستم سے مجھے سدا یارب(وسائل بخشش ،ص۷۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(3)جھوٹا الزام لگانے کی سزا

        ایک شخص نے حضرت سیدنا مُطَرِّف بن عبداللہ بن شِخِّیرعلیہ رَحْمَۃُ اللہ القدیر پر جھوٹا الزام لگایا تو آپ نے ارشاد فرمایا:اگر تم جھوٹے ہو تو  اللہعَزَّوَجَلَّ تمہیں جلدی موت عطا فرمائے،آپ کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ اس شخص کی موت واقع ہوگئی۔(جامع العلوم والحکم،ص۴۵۷)


(4)بہتان لگانے کی سزا

        حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ  پرایک شخص نے تین جھوٹے الزامات لگائے:(۱)یہ لشکرِ اسلام کے ساتھ جہاد میں شریک نہیں ہوتے (۲)مالِ غنیمت برابر تقسیم نہیں کرتے (۳)مقدمات کا فیصلہ کرنے میں عدل سے کام نہیں لیتے۔یہ سن کر حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا: سنو! اللہعَزَّوَجَلَّکی قسم!میں اس کے خلاف تین دعائیں کرتا ہوں : یااللہعَزَّوَجَلَّ!اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے،دکھانے اور سنانے کیلئے کھڑا ہوا ہے تو(۱) اس کی عمر دراز فرمادے(۲)اس کے فَقْر میں اِضافہ فرمادے اور(۳) اسے فتنوں میں مبتلا فرما۔ جب کوئی اس سے اس کا حال پوچھتا تووہ کہا کرتا تھا : میں کیا بتاؤں ؟ میں وہ بوڑھا ہوں جو فتنوں میں مبتلا ہوں کیونکہ مجھ کو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی بد دعا لگ گئی ہے ۔حضرتِ سیدنا عبدالملک بن عمیر تابعیرضی اللہ تعالٰی عنہ  کا بیان ہے :اس دعا کا میں نے یہ اثر دیکھا کہ’’ابو سَعدہ‘‘نامی وہ شخص اس قدر بوڑھا ہوچکا تھا کہ بڑھاپے کی و جہ سے اس کی دونوں بھویں اس کی دونوں آنکھوں پر لٹک پڑی تھیں ،وہ دربدر بھیک مانگ کر انتہائی فقیر ی اور محتاجی کی زندگی بسر کرتاتھا اور اس بڑھاپے میں بھی وہ راہ چلتی ہوئی جوان لڑکیوں کو چھیڑتااوران کے بدن میں چٹکیاں بھرتا رہتا تھا ۔

(بخاری،کتاب الاذان،باب وجوب القرأۃ۔۔الخ ،۱/۲۶۶، حدیث:۷۵۵)

       


اس حکایت سے لوگوں پر جھوٹے الزام لگانے کے عادی افراد کو عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ جو موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں پرجھوٹے الزام لگانا شروع کردیتے ہیں ،نہ اس کے منصب کا لحاظ رکھتے ہیں نہ رُتبے کا خیال ،شاید ایسا کرنے والوں کے دل ودماغ میں ایک ہی بات سمائی ہوتی ہے کہ ’’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ‘‘ انہیں ڈرنا چاہئے کہ ہمارے ساتھ بھی اسی طرح مُکافاتِ عمل ہوسکتا ہے جیسا اس بوڑھے کے ساتھ ہوا، تہمت دھرنے والے کو  آخرت میں جو سزا ملے گی اسے سن کر خائفین کے بدن میں جھرجھری آجاتی ہے ، چنانچہ

دوزخیوں کی پیپ میں رہنا پڑے گا

         نبیِّ رَحمت ،شفیعِ امّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہعَزَّوَجَلَّ اس وقت تک رَدْغَۃَ الْخَبَال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابوداوٗد،کتاب الاقضیۃ،باب فیمن یعین علی خصومۃ ۔۔الخ،۳ /۴۲۷، حدیث: ۳۵۹۷ )

رَدْغَۃَ الْخَبَال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔(مراٰ ۃ المناجیح، ۵/۳۱۳)

توبہ ضروری ہے

      دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ  1199


صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت(جلد3)حصّہ 16میں صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہحضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :بُہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور مُعافی مانگنا ضَروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضَرور ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فُلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔(بہارِ شریعت،۳/۵۳۸)؎

حسد، وعدہ خِلافی، جھوٹ، چُغلی، غیبت و تہمت

مجھے ان سب گناہوں سے ہو نفرت یارسولَ اللہ(وسائل بخشش ص۳۳۲)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(5)بیوی کو شوہر کے خلاف بھڑکانے والی اندھی ہوگئی

        ایک عورت نے حضرت سیدناابو مسلم خولانیقدس سرہ النورانی کی زوجہ کو آپ کے خلاف بھڑکا دیا تھا،آپ نے اس عورت کی بینائی زائل ہونے کی دعا فرمائی تو وہ اسی وقت اندھی ہوگئی۔پھر وہ آپ کی خدمت میں آکر فریاد کرنے لگی اور آپ سے دعا کی درخواست کی۔آپ کو اس کے حال پر رحم آگیا اور  اللہعَزَّوَجَلَّ سے دعا فرمائی تو اس کی بینائی لوٹ آئی اور آپ کی زوجہ بھی واپس آگئیں۔(جامع العلوم والحکم،ص۴۵۷)

عورت کو اس کے خاوند کے خلاف ابھارنے والا ہم سے نہیں

        سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد


فرمایا: لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ اِمْرَأَۃً عَلی زَوْجِہَا اَوْعَبْدًا عَلٰی سَیِّدِہٖیعنی جو عورت کو اس کے خاوند یاکسی غلام کو اس کے آقا کے خلاف اُبھارے وہ ہم سے نہیں۔(ابوداؤد، کتاب الطلاق،باب فیمن خبب ۔۔الخ، ۲/۳۶۹، حدیث: ۲۱۷۵)

دو دلوں کو جوڑنے کی کوشش کرو

          مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان  فرماتے ہیں :یعنی ہماری جماعت سے یا ہمارے طریقہ والوں سے یا ہمارے پیاروں سے نہیں یا ہم اس سے بیزار ہیں وہ ہمارے مقبول لوگوں میں سے نہیں ،یہ مطلب نہیں کہ وہ ہماری امت یا ہماری ملت سے نہیں کیونکہ گناہ سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ (مراٰۃ المناجیح ،۶/۵۶۰)مفتی صاحب اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :خاوند بیوی میں فساد ڈالنے کی بہت صورتیں ہیں :عورت سے خاوند کی برائیاں بیان کرے، دوسرے مردوں کی خوبیاں ظاہر کرے کیونکہ عورت کا دل کچی شیشی کی طرح کمزور ہوتا ہے یا ان میں اختلاف ڈالنے کے لئے جادو تعویذ گنڈے کرے سب حرام ہے، اور غلام یا لونڈی کی بگاڑنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے بھاگ جانے پر آمادہ کرے ، اگر وہ خود بھاگنا چاہیں تو ان کی اِمداد کرے ، بہرحال دو دلوں کو جوڑنے کی کوشش کرو توڑ و نہ۔( مراٰ ۃ المناجیح ،۵/۱۰۱)

تُو برائے وَصل کَردن آمدی         نے برائے فَصل کردن آمدی

(یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا ہے توڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا۔ )


تُوکتنا اچھا ہے!!

         جو لوگ عورت کو بھڑکاتے شوہر کے خلاف اُبھارتے ہیں وہ شیطان کے پیارے ہیں ،حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا :شیطان پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے ،پھر اپنے لشکر بھیجتا ہے۔ ان لشکروں میں شیطان کے زیادہ قریب اس کا دَرَجہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ باز ہوتاہے ۔ اس کاایک لشکر واپس آکر بتاتا ہے کہ میں نے فلاں فتنہ بَرپا کیا تو شیطان کہتا ہے :تونے کچھ بھی نہیں کیا۔پھر ایک اور لشکر آتا ہے اور کہتا ہے :میں نے ایک آدمی کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی ۔یہ سن کر شیطان اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے:تُوکتنا اچھا ہے ، اور اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے ۔(مسلم،کتاب صفۃ القیامۃ۔۔الخ،باب تحریش الشیطان۔۔۔الخ،ص۱۵۱۱، حدیث: ۲۸۱۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(6)لوگوں کو ستانے کی سزا

         ایک شخص حضرت سیِّدُنا حَسَن بصری علیہ رحمۃُ اللہِ القوی کی مجلس میں آکر لوگوں کو تکلیف دیا کرتا تھا،جب اس کی شرارتوں کا سلسلہ حد سے بڑھنے لگا تو آپ نے دعا فرمائی:اے اللہعَزَّوَجَلَّ! تو اس شخص کی اِیذا رسانی سے خوب واقف ہے،تو جس طرح چاہے ہمیں اس کے معاملے میں کفایت فرما۔اُسی وقت وہ شخص کھڑے


کھڑے گر کر مرگیا اور اس کی لاش چارپائی پر رکھ کر اس کے گھر لے جائی گئی۔(جامع العلوم والحکم،ص۴۵۷)

        مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں کو خبردار ہوجانا چاہئے کہ سلطانِ دو جہان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا فرمانِ عبرت نشان ہے: مَنْ  اٰذَی مُسْلِمًا فَقَدْ  اٰذَانِیْ  وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللہ(یعنی) جس نے (بِلاوجہِ شَرعی) کسی مسلمان کو ایذاء دی اُس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اُس نے اللہعَزَّوَجَلَّ کو ایذاء دی۔‘‘ ( اَلْمُعْجَمُ الْاَوْسَط،۲/۳۸۷، حدیث: ۳۶۰۷) اللہ ورسولعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ایذاء دینے والوں کے بارے میں اللہعَزَّوَجَلَّ پارہ22 سورۃُ الْاَحزاب آیت 57 میں ارشاد فرماتاہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷)

ترجَمۂ کنزالایمان: بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کوان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اورآخرت میں اور اللہ نے ان کیلئے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

معافی مانگ لیجئے

        پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اگر آپ کبھی کسی مسلمان کی بِلا جہ شرعی دل آزاری کر بیٹھے ہیں تو آپ کا چاہے اس سے کیسا ہی قریبی رشتہ ہے ، بڑے بھائی ہیں ، والِد ہیں ، شوہر ہیں ،سُسر ہیں یا کتنے ہی بڑے رُتبے کے مالک ہیں ، چاہے


صدر ہیں یا وزیر ہیں ، استاذ ہیں یا پیرہیں ، مؤذِّن ہیں یا امام وخطیب ہیں جو کچھ بھی ہیں بِغیر شرمائے توبہ بھی کیجئے اور اُس بندے سے مُعافی مانگ کر اس کو راضی بھی کر لیجئے ورنہ جہنَّم کا ہولناک عذاب برداشت نہیں ہوسکے گا ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(7)  ٹھٹھہ مسخری کرکے ستانے والے کی سزا

         ایک شخص حضرت سیدنا ابو محمدحبیب عجمیعلیہ رحمۃُ اللہِ القویسے اکثر ہنسی مذاق اور تفریح کرکے آپ کو تنگ کرتا تھا،آپ نے دعا فرمائی تو وہ بَرَص کے مرض میں مبتلا ہوگیا۔(جامع العلوم والحکم،ص۴۵۸)

لوگوں کا مذاق اُڑانے والے کا انجام

       سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بلا شبہ لوگوں کا مذاق اُڑانے والے کے لئے جنت کا دروازہ کھول کر اسے بلایا جائے گا:آؤ ،قریب آؤ،جب وہ آئے گا تودروازہ بند کر دیا جائے گا ،اسی طرح کئی بار کیا جائے گا یہاں تک کہ جب اس کے لئے پھر دروازہ کھول کر اسے بلایاجائے گا:آؤ آؤ قریب آؤ، تو وہ نااُمیدی اور مایوسی کے مارے نہیں آئیگا۔ (شعب الایمان،باب فی تحریم اعراض الناس،فصل فیما ورد من الاخبار۔۔الخ، ۵/۳۱۰،حدیث: ۶۷۵۷)

مذاق میں بھی ڈرانے سے روکا

        حضرتِ سیِّدُناابن ابی لیلی رضی اللہ تعالٰی عنہمافرماتے ہیں : صحابہ کرام


عَلَیْہِمُ الرِّضوَان  کابیان ہے کہ وہ حضرات رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم  کے ساتھ سفر میں تھے ،اس دوران ان میں سے ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ سو گئے تو ایک دوسرے صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہان کے پاس رکھی اپنی ایک رسی لینے گئے ، جس سے وہ گھبرا گئے (یعنی اس سونے والے کے پاس رسی تھی یا اس جانے والے کے پاس تھی اس نے یہ رسی سانپ کی طرح اس پر ڈالی وہ سونے والے اسے سانپ سمجھ کر ڈر گئے اور لوگ ہنس پڑے۔)[2]()تو آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے ۔ (ابوداوٗد،کتاب الادب،باب من یاخذ۔۔الخ،۴/۳۹۱، حدیث: ۵۰۰۴)

             مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :اس فرمانِ عالی کا مقصد یہ ہے کہ ہنسی مذاق میں کسی کو ڈرانا جائز نہیں کہ کبھی اس سے ڈرنے والا مرجاتا ہے یا بیمار پڑ جاتا ہے،خوش طبعی وہ چاہیے جس سے سب کا دل خوش ہوجائے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی دل لگی ہنسی کسی سے کرنی جس سے اس کو تکلیف پہنچے مثلًا کسی کو بیوقوف بنانا اس کے چپت لگانا وغیرہ حرام ہے۔(مراٰۃ المناجیح ،۵/۲۷۰)

بھائیوں کا دل دکھانا چھوڑ دو

اور تَمَسْخُر  بھی  اُڑانا  چھوڑ  دو(وسائل بخشش ص۷۱۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

 


(8)  مشکیزہ کیا ہے؟

         حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہبن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما  فرماتے ہیں : ایک مرتبہ دورانِ سفر میرا گزر زمانۂ جاہلیت کے قبرستان سے ہوا ۔یکایک ایک مُردہ قَبْر سے باہَر نکلا، اُس کی گردن میں آگ کی رنجیربندھی ہوئی تھی ، میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا۔ جب اُس نے مجھے دیکھا تو کہنے لگا :’’ اے عبدُاللہ ! مجھے تھوڑا سا پانی پلا دو!‘‘میں نے دل میں کہا: اس نے میرا نا م لے کر مجھے پکارا ہے یا تو یہ مجھے جانتا ہے یا عَرَبوں کے طریقے کے مطابق ’’عبدُاللہ‘‘ کہہ کر پکار رہا ہے ۔ پھر اچانک اسی قَبْرسے ایک اور شخص نکلا ،اُس نے مجھ سے کہا:’’ایعبدُاللہ! اس نافرمان کو ہر گز پانی نہ پلانا ،  یہ کافر ہے۔‘‘ دوسرا شخص پہلے کو گھسیٹ کر واپسقَبْر میں لے گیا۔ میں نے وہ رات ایک بڑھیا کے گھر گزاری، اس کے گھر کے قریب ایکقَبْر تھی ،میں نےقَبْر سے یہ آواز سنی:بَوْلٌ وَّمَا بَوْل؟شَنٌ وَّمَا شَنْ ؟یعنی’’ پیشاب! پیشاب کیا ہے ؟ مشکیزہ! مشکیزہ کیا ہے ؟‘‘  اِس آوا زکیمُتَعَلِّق بڑھیا سے پوچھا تو اُس نے کہا : یہ میرے شوہر کی قَبْر ہے، اسے دو خطا ؤ ں کی سز امل رہی ہے۔ پیشاب کرتے وقت یہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا ، میں اس سے کہتی کہ تجھ پر افسوس! جب اُونٹ پیشاب کرتا ہے تو وہ بھی اپنے پاؤ ں کُشادہ کر کے چھینٹوں سے بچتا ہے ،لیکن تُواس مُعامَلے میں بِالکل بھی اِحتیاط نہیں کرتا ، میرا شوہر میری ان باتوں پر کوئی تو جُّہ نہ دیتا، پھر یہ مرگیا تو مرنے کے بعد سے آج تک اس کی قَبْر سے روزانہ اسی طرح کی


آوازیں آتی ہیں۔ میں نے پوچھا: شَنٌ وَّمَا شَنْ ؟یعنی’’مشکیزہ! مشکیزہ کیا ہے؟‘‘کی آواز آنے کا کیا مقصد ہے؟ بڑھیانے کہا: ایک مرتبہ اِس کے پاس ایک پیاسا شخص آیا، اس نے پانی مانگا تو(اِس نے اُس کو پریشان کرنے کیلئے خالی مشکیزے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کہا : جاؤ!اِس مشکیزے سے پانی پی لو ، وہ پیاسا بے تا با نہ مشکیزے کی طرف لپکا، جب اُٹھایا تو اُسے خالی پایا، پیاس کی شدّت سے وہ بے ہوش ہو کر گِر گیا اور اس کی موت واقِع ہوگئی ۔ پھرجب سے میرا شوہر مرا ہے آج تک روزانہ اُس کیقَبْر سے آواز آتی ہے : شَنٌ وَّمَا شَنْ یعنی’’مشکیزہ! مشکیزہ کیا ہے ؟‘‘(عُیونُ الْحِکایات،ص۳۰۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے

        رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا فرمانِ عالیشان ہے:تم پر سچ بولنا لازِم ہے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنُمائی کرتا ہے اور نیکی جنَّت کاراستہ دکھاتی ہے، آدَمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کی جُستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کے نزدیک صِدِّیق(یعنی بہت سچا) لکھ دِیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنَّم میں پہنچا دیتے ہیں ، آدَمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ


اللہعَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کَذَّاب (یعنی بہت بڑا جھوٹا)لکھ دیا جاتا ہے۔(ترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ما جاء فی الصدق والکذب،۳ /۳۹۱، حدیث: ۱۹۷۸)

سچے آدمی کی بات دشمن کے بارے میں بھی قبول کی جاتی ہے

        حضرت سیدنا اَحنف رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے بیٹے سے ارشاد فرمایا:اے میرے بیٹے!سچ کی فضیلت کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ سچے آدمی کی بات اس کے دشمن کے بارے میں بھی قبول کی جاتی ہے جبکہ جھوٹ کے بُرا ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جھوٹے شخص کی بات نہ تو اس کے دوست کے بارے میں قبول کی جاتی ہے اور نہ دشمن کے بارے میں۔(التذکرۃ الحمدونیۃ الباب الثامن فی الصدق والکذب،۳/۶۴)؎

غیبت سے اور تُہمت و چغلی سے دُور رکھ

خُوگر تُو سچ کا دے بنا یاربِّ مصطَفٰے(وسائل بخشش، ص۱۳۲)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

کسی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار

        حضرتِ سیِّدُنا واثِلہ بن اَسْقَع رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار مت کرو ،ورنہ اللہعَزَّوَجَلَّ  اس پر رحم کردے گا اور تجھے مبتلا کردے گا۔(ترمذی ، کتاب صفۃ القیامۃ ، باب (ت : ۱۱۹) ، ۴/ ۲۲۷ ، حدیث : ۲۵۱۴)

         


مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : یعنی کسی مسلمان کو دینی یا دنیاوی آفت میں مبتلا دیکھ کر اس پر خوشی میں طعن نہ کرو ! بعض دفعہ خوشی میں بھی کسی پر لَاحَوْل پڑھی جاتی ہے ۔ مفتی صاحب مزیدفرماتے ہیں : اگر ملامت کرنا اس کی فہمائش کے لیے ہو تب جائز ہے جب کہ اس طریقہ سے اس کی اِصلاح ہوسکے ۔ مزید فرماتے ہیں : یہ ہے مسلمان کی آفت پر خوشی منانے کا انجام ! کہ خوشی منانے والا خودگرفتار ہوجاتا ہے ، بارہا کا آزمودہ ، ہمیشہ خدا سے خوف کرنا چاہیے ۔  (مراٰۃ المناجیح ، ۶/ ۴۷۴)مشہور ہے : ’’مَنْ ضَحِکَ ضُحِکَ‘‘ یعنی جو دوسرے پر ہنستا ہے اس پر بھی ہنسا جاتا ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(9)  بدگوئی کی سزا

        حضرت سیدنا ابو محمدحبیب عجمیعلیہ رحمۃُ اللہِ القویایک دفعہ حضرت سیدنا مالک بن دینارعَلَیْہِ رَحمَۃُاللہ الغفّارکے پاس موجود تھے کہ اتنے میں ایک شخص وہاں آدھمکا اور حضرت سیدنا مالک بن دینارعَلَیْہِ رَحمَۃُاللہ الغفّارپر کچھ دراہم کے معاملے میں سختی کرنے لگا جو انہوں نے تقسیم فرمادئیے تھے۔جب اس کی بدگوئی کا سلسلہ نہ رکا توحضرت سیدنا ابو محمدحبیب عجمیعلیہ رحمۃُ اللہِ القوی  نے بارگاہِ خداوندی میں دستِ دعا دراز کیا اور عرض کی:یااللہعَزَّوَجَلَّ!اس شخص نے ہمیں تیرے ذکر سے روک دیا ہے،توجس طرح چاہے اس کے معاملے میں ہم پر رحم فرما۔اسی وقت وہ شخص منہ کے


بل زمین پر گرا اور اس کا دم نکل گیا۔(جامع العلوم والحکم،ص۴۵۸)

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جارحانہ اور طنزیہ انداز ِگفتگو اختیار کرتے وقت ہم اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کرتے کہ ہماری زبان کی ’’تیز دھار‘‘سے نہ جانے کتنے مسلمانوں کے دل گھائل ہوجاتے ہوں گے ! کس سے کس وقت کس انداز میں بات کرنی ہے ہمیں شاید معلوم ہی نہیں ،یاد رکھئے کہ تیروتلوار کے گھاؤتو کچھ عرصے میں مندمل ہوجاتے ہیں لیکن زبان سے لگنے والا زخم بعض اوقات مرتے دم تک نہیں بھرتا ، کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَھَا الْتِیَام                 وَلَایَلْتَامُ مَاجَرَحَ اللِّسَان

(یعنی نیزوں کے زخم تو بھرجاتے ہیں ، زبان کے گھاؤنہیں بھرتے )

        بَہرحال ہمیں بات کرنے کی بھی تربیّت لینی ہو گی اور اس کی اِحتیاطیں بھی سیکھنی ہوں گی، جی ہاں اندازِ گفتگو کو یکسر بدل کر اِس پر عاجِزی و نرمی کا پانی چڑھانا اور حُسنِ اخلاق سے آراستہ کرنا ہوگا ۔ یقین مانئے آج ہماری غالِب اکثریت کو شریعت و سنَّت کے مطابِق بات چیت کرنا ہی نہیں آتی، معمولی سا خلافِ مزاج مُعاملہ ہوتے ہی اچّھا خاصا مذہبی وَضع قطع کا آدمی بھی ایک دم جارحانہ انداز پر اُتر آتا ہے!ایک غیبت ہی نہیں ، تہمت ،چغلی ، بدگمانی ، جھوٹامُبالَغہ ،دل آزاری اور اِیذائے مُسلم کے تعلُّق سے بَہُت ساری چیزیں آج کل کی جانے والی اکثر گفتگو کا حصّہ ہوتی ہیں۔لہٰذا دل برداشتہ ہوئے بِغیر اوّلاًاس با ت کو تسلیم کر لیجئے کہ ہمیں دُرُست بولنا ہی نہیں آتاپھر ہم


مسلسل جِدو جہد کریں گے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّشَریعت وسنَّت کے مطابِق بات کرنا سیکھ ہی جائیں گے۔

 نرمی کی فضیلت

        مسلم شریف میں ہے:جس چیز میں نَرمی ہوتی ہے اُسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے جُدا کرلی جاتی ہے اُسے عیب دار بنادیتی ہے ۔ ( مسلم ،کتاب البر والصلۃ،باب فضل الرفق،ص۱۳۹۸،حدیث:۲۵۹۴)

مزاج میں نرمی پیدا کرنے کا نسخہ

        بکری (بکرا)اورمَینڈھے کی کھال پر بیٹھنے اور پہننے سے مِزاج میں نرمی اور اِنکساری پیدا ہوتی ہے۔ (بہار شریعت ،۱/۴۰۳ ملخصاً)

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(10) کل کا فقیر آج کا امیر

        ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ بُھنی ہوئی مرغی کھارہا تھا کہ اتنے میں دروازے پر ایک سائل آگیا۔اس شخص نے باہر نکل کر سائل کو جھڑک دیا جس پر سائل واپس چلا گیا۔اس واقعے کے بعد وہ شخص محتاجی میں مبتلا ہوگیا،اس کی دولت جاتی رہی اور اس نے اپنی بیوی کو بھی طلاق دیدی جس نے ایک اور شخص سے شادی کرلی۔ یہ


 عورت ایک دن اپنے اس دوسرے شوہر کے ساتھ کھانا کھارہی تھی اور ان کے سامنے بھنی ہوئی مرغی رکھی تھی کہ ایک سائل نے دروازے پر صدا لگائی۔شوہر نے اپنی بیوی سے کہاکہ یہ مرغی اس مانگنے والے کو دیدو۔بیوی نے مرغی اس سائل کے حوالے کی اور روتی ہوئی واپس آئی۔جب شوہر نے رونے کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ یہ سائل اس کا سابقہ شوہر ہے اور پھر یہ واقعہ بیان کیاکہ اس کے پہلے شوہر نے ایک سائل کو جھڑک کر واپس کردیا تھا۔عورت کے دوسرے شوہر نے یہ سن کر کہا:اللہعَزَّوَجَلَّکی قسم!میں ہی وہ سائل ہوں۔(المستطرف،۱/۲۰) گردشِ زمانہ کا ایک عجیب نظارہ یہ تھاکہ اللہعَزَّوَجَلَّ نے اس بَدمَست مالدار کی ہرچیز ، مال ، کوٹھی ، حتیّٰ کہ بیوی بھی چھین کر اس شخص کو دے دیا جو فقیر بن کر اس کے گھر پر آیا تھا اور چند سال بعد اللہعَزَّوَجَلَّ اس شخص کو فقیر بنا کراسی کے دَر پر لے آیا۔ واقعی دولت پر غرور نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ہِرتی پِھرتی چھاؤں ہے ، آج اِس کے پاس تو کل اُس کے پاس !تاریخ ایسے سبق آموز واقعات سے بھری پڑی ہے اب یہ انسان کا کام ہے کہ ان سے عبرت پکڑے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(11) بدکاری کی تہمت لگانے کا انجام

        مدینۂ منورہ میں ایک نیک پرہیز گار عورت کا انتقال ہوا،غسل دینے والی عورت نے اپنی کسی دشمنی کی وجہ سے اس نیک عورت کی پردے کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر کہا :


یہ کس قدر بدکارتھی۔فوراً ہی غسل دینے والی عورت کا ہاتھ وہاں ایسا چمٹ گیا کہ ہزاروں کوششوں کے باوجود جدا نہیں ہوا۔تمام علمائے مدینہ اس کا سبب اور تدبیر معلوم کرنے سے عاجز رہے لیکن حضرت سیدناامام مالک رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہنے اپنے کشف و کرامت سے معلوم کرلیااور فرمایا:اس غسل دینے والی عورت کو حدِ قذف (یعنی وہ سزا جو شریعت نے زنا کی تہمت لگانے والے کے لئے مقرر کی ہے)لگائی جائے، چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق جب اس غسل دینے والی کو 80 کوڑے لگائے گئے تو خود بخود اس کا ہاتھ مرنے والی عورت سے جدا ہوگیا اور سب کے دلوں میں حضرت سیدناامام مالک رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کی امامت و کرامت کا نور جگمگانے لگا۔(بستان المحدثین،ص۱۶)

 تمہار ے عیب کھل جائیں گے

         رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہعَزَّوَجَلَّ اس کے عیب فاش فرمادے گا اور جس کے عیب اللہعَزَّوَجَلَّ فاش کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا ۔ (ترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ما جاء فی تعظیم المومن ، ۳/ ۴۱۶ ، حدیث : ۲۰۳۹)

           مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : یہ قانونِ قدرت ہے کہ جوکسی کو بلا وجہ بدنا م کرے گا قدرت اسے بدنام کردے گی ۔      (مراٰۃ المناجیح ، ۶/ ۶۱۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(12) چالیس سال تک افلاس کا شکار رہا

        حضرت سیدنا امام ابن سِیرینعلیہ رحمۃُ اللہِ المُبین فرماتے ہیں :میں نے ایک شخص کو عار دلاتے ہوئے کہا:اے مُفْلِس،اس کے بعد میں چالیس سال تک اِفلاس کا شکار رہا۔(صید الخاطر،ص۱۸)

        کس وقت کس سے کیا بولنا ہے ؟ کاش یہ گُر ہمیں آجائے تو ہماری زندگی پُر سکون ہوجائے ، اندھے کو بھی اندھا بولیں تو اسے بُرا لگتا ہے،آنکھوں والے کو اندھا کہہ کر پکارا جائے گا تو اسے یقینا برا لگے گا۔

لوگوں کے بُرے نام رکھنا

         میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفتاویٰ رضویہ جلد23صفحہ 204پر لکھتے ہیں :کسی مسلمان بلکہ کافر ذِمّی کو بھی بلاحاجتِ شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو اُسے اِیذاء پہنچے، شرعا ناجائز وحرام ہے۔ اگر چہ بات فِیْ نَفْسِہٖ سچی ہو، فَاِنَّ کُلَّ حَقٍّ صِدْقٌ وَلَیْسَ کُلُّ صِدْقٍ حَقًّا (ہر حق سچ ہے مگر ہر سچ حق نہیں)(فتاویٰ رضویہ ،۲۳/۲۰۴)لہٰذاجس کا جونام ہو اس کو اُسی نام سے پکارنا چاہئے ،اپنی طرف سے کسی کا اُلٹا سیدھا نام مثلاً لمبو، ٹھنگو،کالو وغیرہ نہ رکھا جائے ،عُمُوماً اس طرح کے ناموں سے دل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چِڑتا بھی ہے لیکن پکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کے لئے اسے اسی نام سے پکارتا ہے ،ایسا کرنے والوں کو سنبھل جانا


چاہئے کیونکہ رب تعالیٰ فرماتاہے :

وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-۲۶، الحجرات:۱۱)

ترجَمۂ کنزالایمان: اورایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا۔

        صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادیعلیہ رحمۃُ اللہِ الہادیاِس آیت کے تحت لکھتے ہیں :(یعنی وہ نام)جو انہیں ناگوار معلوم ہوں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کرلی ہو اس کو بعدِ توبہ اس برائی سے عار دلانا بھی اس نَہی (یعنی ممانعت کے حکم)میں داخل اور ممنوع ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو کُتّا یا گدھا یا سُور کہنا بھی اسی میں داخل ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ اَلقاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو لیکن تعریف کے اَلقاب جو سچّے ہوں ممنوع نہیں جیسے کہ حضرت ابوبکر کا لقب عَتِیق(جہنم سے آزاد) اور حضرت عمرکا فاروق(حق اور باطل میں فرق کرنے والا ) اور حضرت عثمانِ غنی کا ذُوالنُّورَین (دو نوروں والا)اور حضرت علی کا ابوتُراب(مٹی والا) اور حضرت خالِد کا سَیفُ اللہ(اللہکی تلوار) رضی اللہ تعالٰی عنہم اور جو اَلقاب بمنزلہِ عَلم(یعنی نام کے مرتبہ میں ) ہوگئے اور صاحبِ اَلقاب کو ناگوار نہیں وہ اَلقاب بھی ممنوع نہیں جیسے کہ اَعْمَش(کمزور نگاہ والا)، اَعْرَج (لنگڑا) ۔(’’کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا‘‘کے تحت صدرالافاضل لکھتے ہیں :)تو اے مسلمانو !کسی


مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر اپنے آپ کو فاسِق نہ کہلاؤ ۔(خزائن العرفان،ص۹۵۰)

فرشتے لعنت کرتے ہیں

        حضرتِ سیِّدُناعُمَیْر بِن سَعْد رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حُسنِ اَخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجْوَر، مَحبوبِ رَبِّ اکبر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ و سَلَّم نے فرمایا : جس نے کسی شخص کوا س کے نام کے علاوہ  نام سے بلایا اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔(جمع الجوامع،۷/۲۳،حدیث:۲۰۶۱۲)علامہ عبد الروؤف مناوی علیہ رحمۃُ اللہِ الہادی اس حدیثِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : کسی ایسے بُرے لقب سے بلانا جو اُسے برا لگے، نہ کہ اے بندۂ خدا! وغیرہ الفاظ سے۔ مزید فرماتے ہیں : فرشتوں کی لعنت کرنے سے مراد یہ ہے کہ فرشتے اس کے لئے نیکوکاروں کے مقام سے دوری کی دعا کرتے ہیں۔ (التیسیر،۲/۴۱۶)

کسی کو بے وقوف یا اُلّو کہنے کا حُکْم

         میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنسے سوال ہوا:جو شخص کسی عالِم کی نسبت یا کسی دوسرے کی لفظ مَردُود کہے یا یوں کہے کہ وہ’’ بیوقوف‘‘ ہے ،کچھ نہیں جانتا اور’’ اُلّو ‘‘ ہے، تو اس شخص کی نسبت شَرع شریف کیا حُکْم دے گی؟اعلیٰ حضرت  رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے جوابدیا : بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو ایسے الفاظ سے یادکرنا مسلمان کو ناحق اِیذا


دینا ہے اور مسلمان کی ناحق اِیذا شرعاً حرام۔ رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم فرماتے ہیں :مَنْ اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذانِیْ فَقَدْ اٰذَی اﷲ۔رَوَاہُ الطَّبَرَانِیْ فیِ الْاَوْسَطِ عَنْ اَنَسٍ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بِسَنَدٍ حَسَنٍجس نے بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو اِیذادی اس نے مجھے اِیذادی اور جس نے مجھے اِیذادی اس نے  اﷲعَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی۔ ( المعجم الاوسط،۲/۳۸۷،حدیث:۳۶۰۷)پھر علمائے دین متین کی شان تو نہایت اَرفع واعلیٰ ہے ان کی جناب میں گستاخی کرنے والے کو حدیث میں منافق فرمایا:ثَلٰثَۃٌ لَایَسْتَخِفُّ بِحَقِّھِمْ اِلَّامُنَافِقٌ ذُوالشَّیْبَۃِ فِی الْاِسْلَامِ وَذُوالْعِلْمِ وَاِمَامٌ مُقْسِطٌ رَوَاہُ الطَّبَرَانِیْ فیِ  الْکَبِیْرِعَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ وَاَبُوالشَّیْخِ فیِ التَّوْبِیْخِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہم عَنِ النَّبِی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔یعنی سید عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّمفرماتے ہیں : تین شخص ہیں جن کا حق ہلکانہ جانے گا مگر منافق،{ ایک} اسلام میں بُڑھاپے والا{دوسرا} عالِم {تیسرا } بادشاہِ اسلام عادِل۔( المعجم الکبیر، ۸/۲۰۲، حدیث:۷۸۱۹ ) ایساشخص شرعاً لائق تعزیر ہے۔وَاﷲُ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ وَعِلْمُہٗ جَلَّ مَجْدُہٗ اَتَمُّ وَاَحْکَم(فتاویٰ رضویہ، ۱۳ / ۶۴۴)؎

گناہوں کے اَمراض سے نیم جاں ہوں

پئے مُرشِدی دے شِفا یاالٰہی(وسائل بخشش ،ص۱۰۵)

(13)مچھلی نے انگوٹھا کاٹا

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دنیا میں سزا کے متعلق ایک اورعجیب وغریب حکایت ملاحظہ کیجئے اور سزا کا اِنتظار کئے بغیر اپنے گناہوں سے فوری توبہ کرکے آیندہ باز


رہنے کا عزم کیجئے اور جن گناہوں کی تلافی ضروری ہے اُس پر بھی کمر باندھ لیجئے۔ چنانچہ حضرت امام محمد بن احمد ذَہبی علیہ رحمۃُ اللہِ القوینقل کرتے ہیں کہ کسی بزرگ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا بازو کندھے سے کاٹا ہوا تھا اور وہ آواز لگارہا تھا کہ جس نے مجھے دیکھا وہ ہرگز کسی پر ظلم نہ کرے۔ میں نے اس سے ماجرا پوچھا تو وہ کہنے لگا :’’ میرا معاملہ بڑا عجیب وغریب ہے ، میں بدمعاشوں کا ساتھی تھا ،ایک دن میں نے ایک مچھیرے سے مچھلی چھینی اور گھر کی طرف چل دیا ، راستے میں مچھلی نے میرا انگوٹھا چبا ڈالا، جیسے تیسے میں گھر پہنچااور مچھلی کو ایک طرف ڈال دیا ۔انگوٹھے کے درد اور تکلیف کی وجہ سے میں ساری رات سو نہ سکا ۔ صبح ہوئی میں طبیب کے پاس گیااور اسے اپنا سُوجا ہوا زخمی ہاتھ دکھایا ۔ اس نے بتایا کہ انگوٹھا کاٹنا پڑے گا ورنہ بعد میں سارا ہاتھ کاٹنا پڑے گا ، چنانچہ میں نے اپنا انگوٹھا کٹوادیا۔ پھرایک دن میرے ہاتھ پہ چوٹ آئی تو پرانا زخم تازہ ہوگیا، مجھے شدید تکلیف ہورہی تھی ، میں طبیب کے پاس گیا تو اس نے ہاتھ کاٹنے کا کہا ،میں نے کٹوا دیا مگر درد سارے بازو میں پھیل گیا ۔میں سخت تکلیف میں تھاکسی پل چین نہ آتا تھا چُنانچہ پہلے کہنی تک پھر کندھے تک ہاتھ کٹوانا پڑا ، کچھ لوگوں نے مجھ سے تکلیف شروع ہونے کا سبب پوچھا تو میں نے انہیں مچھلی والا واقعہ سُنایا، وہ کہنے لگے :’’  اگر تم پہلے مرحلے میں مچھلی والے کے پاس جا کر اس سے معافی مانگ لیتے اور اس کو راضی کرلیتے تو شایدتمہیں یہ اَعضاء کٹوانے نہ پڑتے،اب بھی وقت ہے اس شخص کے پاس جاؤ اور اس کوراضی کرو اس سے پہلے کہ یہ تکلیف پورے


جسم میں پھیل جائے۔‘‘ میں نے بمشکل تمام مچھیرے کو ڈھونڈنکالا اور معافی مانگنے کے لئے اس کے پاؤں میں گر گیا ۔ اس نے پریشا ن ہوکر پوچھا :تم کون ہو؟ میں نے کہا: ’’میں وہی شخص ہوں جو تم سے مچھلی چھین کر لے گیاتھا،‘‘پھرمیں نے اسے ساری تفصیل بتا کر کٹا ہواہاتھ دکھایا تو وہ بھی رودیا اور کہنے لگا :’’میرے بھائی ! میں نے تمہیں معاف کیا۔ ‘‘میں نے اسے گواہ بنا کر آیندہ کے لئے کسی پر ظلم کرنے سے توبہ کر لی ۔(کتاب الکبائر،ص۱۲۷)

 مظلوم کی مدد ضرور ہوتی ہے

         سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارَّصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہعَزَّوَجَلَّمظلوم سے فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت کی قسم !بیشک میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر کے بعد۔(ترمذی،أحادیث شتی،باب :۱۳۲، ۵/۳۴۳،حدیث:۳۶۰۹)

مظلوم کی بددعا مقبول ہے

        رسولِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا:مظلوم کی بددعا سے بچو اگرچہ وہ کافر ہی ہوکیونکہ اس کے سامنے کوئی حجاب نہیں ہوتا۔  (مسند احمد،مسند انس بن مالک،۴ /۳۰۶،حدیث:۱۲۵۵۱)

        شارِحِ بخاری علامہ ابوالحسن علی بن خلف قُرطبی علیہ رحمۃُ اللہِ القوی شرح بخاری میں لکھتے ہیں :ظلم تمام شریعتوں میں حرام تھا،حدیثِ پاک میں ہے:مظلوم کی


دعا رد نہیں کی جاتی اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ  اللہعَزَّوَجَلَّجس طرح مومن پر ظلم کرنے سے ناراض ہوتا ہے اسی طرح کافر پر ظلم سے بھی ناراض ہوتا ہے۔(شرح بخاری لابن بطال،کتاب الزکاۃ،باب اخذ الصدقۃ من الاغنیائ،۳/۵۴۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

مظلوم جانور کی بددعا

           میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ ظلم کا انجام کس قدر بھیانک ہے۔ انسان تو انسان جانور پر بھی ظلم کرنے کی اجازت نہیں ، مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں : مظلوم جانور بلکہ مظلوم کافر و فاسق کی بھی دعا قبول ہوتی ہے اگرچہ مسلمان مظلوم کی دعا زیادہ قبول ہے،کیونکہ مظلوم مُضطَرو بے قرار ہوتا ہے اور بے قرار کی دعا عرش پر قرار کرتی ہے رب فرماتاہے: اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ (ترجَمۂ کنزالایمان: یاوہ جو لاچار کی سنتا ہے جب اسے پکارے، (پ۲۰، النمل: ۶۲)۔(مراٰۃ المناجیح ،۳/۳۰۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(14) ہاتھ بے کار ہوگیا

        حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رَحمَۃُ اللہ الاکرم فرماتے ہیں : بنی اسرائیل کے ایک شخص نے ایک بچھڑے کو اس کی ماں کے سامنے ذبح کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ


 نے اس کے ہاتھ شل فرمادئیے ۔ ایک مرتبہ یہی شخص بیٹھا ہوا تھا کہ ایک پرندے کا بچہ اچانک گھونسلے سے گر پڑا اور اپنے والدین کو بے بسی سے تکنے لگا ، والدین بھی بے بسی سے اسے دیکھ رہے تھے ، یہ سب دیکھ کر اس شخص کو ترس آیا اور اس نے اس بچے کو اٹھا کر گھونسلے میں رکھ دیا ، اللہعَزَّوَجَلَّ نے اس کے پرندے کے بچے پر شفقت کرنے کی وجہ سے اس پر رحم فرمایا اوراس کے ہاتھ پھر سے ٹھیک ہوگئے ۔ (شعب الایمان ، الخامس و السبعون ، باب فی رحم الصغیر ۔۔۔الخ ، ۷/ ۴۸۴ ، رقم : ۱۱۰۸۲)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(15) مکھی سے تکلیف دور کی تو بیوی بھی ٹھیک ہوگئی

        حضرتِ سیِّدُنا عبد الوہاب شَعْرانی قُدِّسَ سرُّہُ السّامیفرماتے ہیں : میری زوجہ فاطمہ اُمِّ عبد الرحمن کے دل پر وَرَم آگیا ، مجھے بہت تشویش ہو رہی تھی ، میں ایک خالی راستے میں تنہا موجود تھا کہ کسی کہنے والے نے کہا : اپنے سامنے موجود سوراخ میں ایک مکھی کو مکھی خور جانور سے نجات دلادو ! ہم تمہاری زوجہ کو تکلیف سے نجات دے دیں گے ، میں نے جاکر سوراخ دیکھا تو اس میں انگلی جانے کی گنجائش نہیں تھی، اس لئے میں نے ایک تیلی لے کر اندر ڈالی اور مکھی سمیت اس جانور کو بھی باہر کھینچ لیا ، وہ جانور مکھی کی گردن پر چپکا ہوا تھا اور مکھی درد سے بلبلا رہی تھی ، میں نے مکھی کو اس جانور سے نجات دلادی ، اسی وقت میری زوجہ بھی ٹھیک ہوگئی اور اسے تکلیف سے نجات مل گئی ۔    (المنن الکبری ، الباب السابع ، ص۳۰۵)


(16)کیڑے پڑے ہوئے کتوں کا علاج کرتے

         حضرتِ سیِّدُنا شیخ اَحمد رِفاعی رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ  کیڑے پڑے ہوئے کتوں کے پیچھے علاج کیلئے چکر لگایا کرتے تھے ، کئی دفعہ کتا آپ سے بھاگ جاتا تو اس کے پیچھے جاتے اور فرماتے : میں تو صرف تیرا علاج کرنا چاہتا ہوں۔ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کوڑھ کے مریضوں کے گھر جاتے ، ان کے کپڑے دھوتے ، سروں اور کپڑوں سے جوئیں نکالتے ، کھانا لے کر جاتے ، مل کر کھاتے ، ان سے دعا کرواتے ، وہ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کو ’’اَبُوْ الْاِیْتَامِ وَ الْمَسَاکِیْن‘‘ کہتے ۔ بسا اوقات دوسرے شہر میں موجود کسی فقیر کی بیماری کی خبر سنتے تو وہاں جاکر اس کی بیمار پرسی کرتے اور خدمت کرتے ، پھر دو یا تین دن کے بعد واپس آجاتے ، شارع عام میں اس مقصد سے کھڑے رہتے کہ اندھوں کی رہنمائی کریں ، ان بوڑھوں کی خبر گیری کرتے جو بیت الخلاء جانے سے عاجز ہوتے اور اپنے کپڑوں میں ہی بول و براز کردیا کرتے تھے ، ان کے کپڑے اُتارتے ، دھوتے ، خشک کرتے ، پھر انہیں پہنادیتے اور ان کے پڑوسیوں کو ان کی خبر گیری کی نصیحت کرتے ۔ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس ایک یتیم لڑکا تھا جس کے ماں باپ دونوں ہی نہ تھے ، وہ دوران وِرْد یا مجلس وعظ میں آپ کے پاس آجاتا اور آپ سے کھانے کی یا کھیلنے کی کوئی چیز مانگتا ، آپ کھڑے ہوتے اور وہ چیز مہیا کردیتے ، آپ کے ہم عصر مشائخ فرمایا کرتے تھے کہ احمد بن رِفاعی (رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ) کو جو مقامات حاصل ہیں وہ خلق پر کثرتِ شفقت


کی وجہ سے ہیں۔     (المنن الکبری ، الباب الثانی عشر ، ص۵۰۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(17) فقیر کو دُھتکارا تو خود فقیر بن گیا

        ایک شکستہ حال فقیر نے ایک مالدار شخص کے سامنے دستِ سوال دراز کیا  مگر مالدار شخص نے فریاد رسی کرنے کے بجائے الٹا اس پر زبان سے نیزہ زنی شروع کردی اور اسے خوب ذلیل کیا ، فقیر کا دل خون خون ہوگیا اور جذبات میں ایک آہ بھر کرکہا:’’تمہارے غصہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ تمہیں بھیک مانگنے کی ذلت کا احساس نہیں۔ ‘‘ یہ جملہ سن کر مالدار شخص آگ بگولا ہوگیا اورفقیر کو غلام کے ذریعے دھکے دلوا کر باہر نکلوا دیا ۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ وہ مغرور مالدار کچھ عرصہ بعد قلّاش ہوگیا اور محتاجی نے اس کے آنگن میں بسیرہ کر لیا ، دوست ، رشتے دار اور غلام و دربان سب چھوٹ گئے اور یہ شخص سڑک پر آگیا ۔ جس غلام نے فقیر کو اپنے آقا کے حکم سے دھکے دے کر نکالا تھا اسے ایک نئے مالدار آقا نے خرید لیا ۔ یہ آقا بہت نرم دل ، فریاد رس اور مہربان تھا ، غریبوں ، فقیروں کی امداد کرنے سے زیادہ اسے کسی چیز میں خوشی محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ ہر وقت اس کے دروازے پر سائلین کا ہجوم لگا رہتا تھا ۔ ایک رات کسی فقیر نے اس کے دروازے پر صدا لگائی ، غلام نے فقیر کی مدد کرنے کی نیت سے جیسے ہی دروازہ کھولا اس کی چیخ نکل گئی کیونکہ سامنے موجود فقیر کوئی اور نہیں اس کا پرانا مغرور آقا تھا ، اپنے پرانے آقا کی یہ حالت دیکھ کر غلام آبدیدہ ہوگیا


اور اس کی امداد کر کے اپنے موجودہ آقا کے پاس چلا آیا ۔آقا نے جب غلام کو آزُردہ و آبدیدہ دیکھا تو پوچھا : کیا کسی نے تمہیں کوئی تکلیف پہنچائی ہے ؟ یہ سن کر غلام نے اپنے پرانے آقا کا سارا حال اس کے گوش گزار کردیا ، ساری کہانی سننے کے بعد آقا بولا : میں وہی فقیر ہوں جسے اس نے دھکے دلواکر نکلوادیا تھا اور آج دیکھو کہ وقت کی کایا کیسی پلٹی ہے کہ قدرت نے اسے میرے ہی دروازے پر بھیک مانگنے کے لئے لا کھڑا کیا ۔       (بوستان سعدی ، باب دوم در احسان ، ص۸۰)

صدقہ نہ روکوکہیں تمہارا رزق نہ رک جائے

        حضرتِ سیِّدَتُنا اَسماء رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں : رسول ُاللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھ سے ارشاد فرمایا : صدقہ و خیرات مت روکو کہیں تمہارا رزق نہ روک دیا جائے ۔  (بخاری ، کتاب الزکاۃ ، باب التحریض علی الصدقۃ ۔۔۔الخ ، ۱/ ۴۸۳ ، حدیث : ۱۴۳۳)

        حضرتِ سیِّدُنا امام بدرُ الدّین عینی رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہاس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اس خوف سے اپنے مال کو صدقہ کرنے سے مت روک کہ وہ ختم ہوجائے گا کیونکہ  اللہعَزَّوَجَلَّ تجھ پر مال کی تنگی فرمادے گا یا تجھ سے مال روک لے گا اور رزق کے وسائل ختم فرمادے گا ۔ حدیث اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ صدقہ مال بڑھاتا اور اس میں برکت اور زیادتی کا سبب ہوتا ہے ، اور بلا شبہ جو بخل سے کام لے اور صدقہ نہ کرے ، اللہعَزَّوَجَلَّ اس کے مال میں تنگی فرمائے گا اور مال میں برکت


اور اضافہ ہونے سے بھی روک دے گا ۔  (عمدۃ القاری ، کتاب الزکاۃ ، باب التحریض ۔۔۔الخ ، ۶/ ۴۱۰ ، تحت الحدیث : ۱۴۳۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(18) تول کم کیوں ہوا؟

        گاؤں میں رہنے والا ایک کسان کھیتی باڑی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں تیار کیا ہوا مکھن بھی شہر میں فروخت کیا کرتا تھا ۔ایک دن حسبِ معمول اس کی بیوی نے مکھن تیار کرکے اس کے حوالے کیا تاکہ وہ اسے شہر جاکر بیچ آئے ۔ یہ مکھن ایک ایک کلو کے گول پیڑوں (یعنی ٹُکڑوں ) کی شکل میں تھا ۔ شہر پہنچ کرکے کسان نے مکھن دکاندار کو فروخت کیا ،اس کی رقم وصول کی اور اسی دکان سے گھر کا راشن چائے کی پتی ، چینی اور دالیں وغیرہ خریدیں اور واپس اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا ۔کسان کے جانے بعد دکاندار نے مکھن کو فریزر میں رکھنا شروع کیا تو اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ ایک پیڑے کا وزن کیا جائے۔!جب وزن کیا تو مکھن ایک کلو کے بجائے 900گرام نکلا یعنی 100گرام کم تھے ۔ حیرت و صدمے سے دوچار اس دکاندار نے سارے پیڑے ایک ایک کر کے تول ڈالے مگر کسان کے لائے ہوئے سب پیڑوں کا وزن ایک جیسا یعنی 900گرام ہی تھا یوں ہر پیڑے میں 100گرام کم تھے ۔اگلی مرتبہ جیسے ہی کسان مکھن لے کر دکاندار کے پاس پہنچا تو اس نے غصے سے بپھر کر کہا :دُور ہو جاؤ میری نظروں سے ! میں تم جیسے دھوکے باز سے ہرگز


مکھن نہیں خریدوں گا تم ایک کلوکا بول کر مجھے کم مکھن دے دیتے ہو۔کسان مسکین سی صورت بنا کر بولا: بھائی! اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہم تو غریب لوگ ہیں ہمارے پاس وزن تولنے کے باٹ خریدنے کی طاقت کہا ں !بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ سے چینی اور دال وغیرہ کے جو ایک ایک کلو کے پیکٹ لے جاتا ہوں ،اس میں سے ایک پیکٹ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ کر ایک ایک کلو مکھن کے پیڑے تول لیتا ہوں اور آپ کے پاس لا کر بیچ دیتا ہوں۔ یہ سن کر مارے شرمندگی کے دکاندار کے ماتھے پر پسینہ آگیا اور وہ سمجھ گیا کہ تول کیوں کم ہوا؟

دیکھے ہیں یہ دن اپنے ہی ہاتھوں کی بدولت

سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام بُرا ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(19) کر بھلا ہو بھلا

        ایک بوڑھا اور ایک جوان شخص ایک کھیت میں حصہ دارتھے ، جب کھیتی تیار ہو کر تقسیم ہوگئی تو بوڑھا شخص اپنے حصے کی کچھ کھیتی چھپ کر جوان شخص کے حصے میں یہ سوچ کر ڈالنے لگا کہ جوان کا ہاتھ کچھ کھل جائے گا ، جبکہ دوسری طرف وہ جوان شخص اپنے حصے کی کچھ کھیتی بوڑھے شخص کے حصے میں یہ سوچ کر ڈالنے لگا کہ ان کا کنبہ بڑا ہے ، انہیں زیادہ حاجت ہوگی ، جیسے جیسے وہ دونوں یہ کام کرتے جارہے تھے گندم بھی بڑھتی جارہی تھی اور اس کے دانے بھی بڑے ہوتے جارہے تھے ، جب انہوں نے یہ


چیز دیکھی تو ایک دوسرے کو بتائی ، اس وقت کے بادشاہ نے اس گندم کا ایک دانہ لے کر اپنے خزانے میں رکھوالیا تاکہ بعد والوں کے لئے یادگار بن جائے ۔ (نزہۃ المجالس ، باب الکرم ۔۔۔الخ ، ۱/ ۲۸۲)

آسانیاں دو گے آسانی ملے گی

        حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : رسولُاللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مومن سے دنیا کی کوئی تکلیف دور کی ، اللہعَزَّوَجَلَّ اس کی قیامت کی تکلیف دور فرمائے گا ۔ جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی اللہعَزَّوَجَلَّ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا ۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہعَزَّوَجَلَّ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہعَزَّوَجَلَّ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے ۔ (مسلم ،کتاب الذکر وا لدعاء ۔۔۔الخ ، باب فضل الاجتماع ۔۔۔ الخ ، ص۱۴۴۷ ، حدیث : ۲۶۹۹)

           مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : یعنی تم کسی کی فانی مصیبت دفع کرو ! اﷲتم سے باقی مصیبت دفع فرمائے گا ، تم مؤمن کو فانی دنیوی آرام پہنچاؤ ! اﷲتمہیں باقی اُخروی آرام دے گا کیونکہ بدلہ احسان کا احسان ہے ۔ یہ حدیث بہت جامع ہے ، کسی مسلمان کے پاؤں سے کانٹا نکالنا بھی ضائع نہیں جاتا ، حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف قیامت ہی میں بدلہ ملے گا ، بلکہ قیامت میں بدلہ ضرور ملے گا ، اگرچہ کبھی دنیا میں بھی


مل جائے ۔مفتی صاحب فرماتے ہیں : جو مقروض کو معافی یا مہلت دے ، غریب کی غربت دورکرے ، تو اِنْ شَآءَ اﷲدین و دنیا میں اس کی مشکلیں آسان ہوں گی ۔’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی‘‘ کے تحت مفتی صاحب فرماتے ہیں : (یعنی) چھپے ہوئے عیب ظاہر نہ کرے ! بشرطیکہ اس ظاہر نہ کرنے سے دین یا قوم کا نقصان نہ ہو ، ورنہ ضرور ظاہرکردے ! کفار کے جاسوسوں کو پکڑوائے ! خفیہ سازش کرنے والوں کے رازکو طشت ازبام کرے ! ظلمًا قتل کی تدبیرکرنے کی مظلوم کو خبر دے دے ! اخلاق اورہیں ، معاملات اورسیاسیات کچھ اور ۔     (مراٰۃ المناجیح ، ۱/ ۱۸۹)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(20) تینوں قتل ہوگئے

        ایک شخص کو کہیں سے بہت ساسونا مل گیا ،وہ اسے چادر میں لپیٹ کر اکیلا ہی گھر کی طرف روانہ ہوا۔راستے میں اسے دو شخص ملے، اُنہوں نے جب دیکھا کہ اس کے پاس سونا ہے تو اس کو قتل کر دینے کے لئے تیّار ہو گئے تا کہ سونا لے لیں۔ وہ شخص جان بچانے کی خاطر بولا: تم مجھے قتل کیوں کرتے ہو!ہم اس سونے کے تین حصّے کر لیتے ہیں اور ایک ایک حصّہ بانٹ لیتے ہیں۔ وہ دونوں اس پرراضی ہو گئے ۔ وہ شخص بولا: بہتر یہ ہے کہ ہم میں سے ایک شخص تھوڑا سا سونا لے کر قریب کے شہر میں جائے اور کھانا خرید کر لے آئے تا کہ کھا پی کر سونا تقسیم کرلیں۔چُنانچِہ ان میں سے ایک شخص شہر پہنچا ، کھانا خرید کرواپَس ہونے لگا تو اس نے سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ کھانے میں زَہر


ملا دُوں تا کہ وہ دونوں کھا کرمر جائیں اور سارا سونا میں ہی لے لوں۔ یہ سوچ کر اس نے زَہر خرید کر کھانے میں ملا دیا۔ اُدھر اُن دونوں نے یہ سازش کی کہ جیسے ہی وہ کھانا لیکر آئے گا ہم دونوں ملکر اُس کو مار ڈالیں گے اور پھر سارا سوناآدھا آدھا بانٹ لیں گے۔چُنانچِہ جب وہ شخص کھانا لیکر آیا تو دونوں اُس پرپِل پڑے اور اُس کوقتل کر دیا۔اس کے بعد خوشی خوشی کھانا کھانے کیلئے بیٹھے تو زَہرنے اپنا کام کر دکھایا اور یہ دونوں لالچی بھی تڑپ تڑپ کر ٹھنڈے ہو گئے اور سونا جُوں کا تُوں پڑا رہا۔ ( اِتحافُ السَّا دَ ۃِ المُتّقِین،۹/۸۳۶بتصرف)

        پیسوں کے لالچ میں دوسروں کی جان لینے اور دوران سفرنشہ آور مشروب پلا کر جمع پونجی سے محروم کردینے والوں کے لئے اس حکایت میں عبرت ہی عبرت ہے ۔ ؎

مال و دولت کے عاشِقوں کی ہر

آرزو ناتَمام ہوتی ہے(وسائل بخشش ، ص۴۹۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(21)  بُلندی چاہنے والے کی رُسوائی

        ایک بزرگ رَحمَۃُ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :میں نے کوہ ِصفا کے قریب ایک شخص کو خچّر پر سُوار دیکھا، کچھ غُلام اُس کے سامنے سے لوگوں کوہٹا رہے تھے، پھرمیں نے اُسے بغداد میں اِس حالت میں پایا کہ وہ ننگے پاؤں اور حسرت زدہ تھا نیز اُس کے بال بھی بہت بڑھے ہوئے تھے، میں نے اُس سے پوچھا :’’ اللہعَزَّوَجَلَّنے تمہارے


ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟‘‘ تو اُس نے جواب دیا :’’میں نے ایسی جگہ بلندی چاہی جہاں لوگ عاجِزی کرتے ہیں تو    اللہعَزَّوَجَلَّ نے مجھے ایسی جگہ رُسوا کر دیا جہاں لوگ رِفعت (یعنی بلندی) پاتے ہیں۔‘‘(الزواجر،۱/ ۱۶۴)

        ہر اسلامی بھائی کو چاہئے کہ اپنا ذہن بنائیں کہ فانی پر فخر نادانی ہے ، عزّت ومَنصَب کب تک ساتھ دیں گے ،جس مَنصَب کے بَل بوتے پرآج اکڑتے ہیں کل کلاں کوچِھن گیا توشاید انہی لوگوں سے مُنہ چُھپانا پڑے جن سے آج تحقیر آمیز سُلوک کرتے ہیں ،آج جن پر حکم چلاتے ہیں کل عہدہ جانے کے بعد اپنا کام کروانے کے لئے انہی سے منتیں کرنا پڑیں گی! الغرض فانی چیزوں پر غروروتکبر کیونکرکیا جائے!اِس لئے کیسا ہی بڑامَنصَب یا عہدہ مل جائے اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہئے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن  فرماتے ہیں :آدمی کو اپنی حالت کا لحاظ ضرو ر ہے نہ کہ اپنے کو بھولے یاستایشِ مردم (یعنی آدمیوں کے تعریف کرنے)پر پھولے۔ (ملفوظات ِ اعلیٰ حضرت، ص۶۶)؎

رضا جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہِ حبیب

تو پیارے قیدِ خُودی سے رَہِیدہ ہونا تھا(حدائق بخشش،ص۴۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(22) قتل کی کوشش کرنے والے کے اپنے دو بیٹے مرگئے

        ایک حکمران نے حضرتِ سیِّدُنا محمد شمس الدّین حَنَفی مصری رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ


کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور ایک برتن میں زہریلا کھانا رکھ کر آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکی خدمت میں پیش کردیا ۔ کسی کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکے ساتھ آپ کے برتن میں کھاسکے ، جب آپ نے اس میں سے تھوڑا سا کھایا تو آپ کو معلوم ہوگیا کہ کھانے میں زہر ہے ، آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہاٹھے اور (برتن وہیں چھوڑ کر) خانقاہ میں چلے آئے ، سارے برتن مکس (mix)ہوگئے ، اتنے میں اسی حکمران کے دو بیٹے آئے اور آپ کے برتن سے تھوڑا تھوڑا کھالیا اور تھوڑی ہی دیر میں مرگئے ، جبکہ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کو زہر نے کچھ نقصان نہ پہنچایا ۔ (جامع کرامات الاولیاء ، محمد شمس الدین الحنفی ، ۱/ ۲۶۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(23) زمین میں دھنس گیا

        کشمیر کے کسی علاقے میں ایک شخص کی 5بچیاں تھیں ،چھٹی بار ولادت ہونے والی تھی ۔ اس نے ایک دن اپنی بیوی سے کہا کہ اگر اب کی باربھی تو نے بچی کو جَنا تو میں تجھے نومولود بچی سمیت قتل کردوں گا ۔ رمضان المبارک کی تیسری شب پھر بچی ہی کی ولادت ہوئی ۔ صبح کے وقت بچی کی ماں کی چیخ وپکار کی پرواہ کئے بغیر اس بے رحم باپ نے (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) اپنی پھول جیسی زندہ بچی کو اٹھا کر پریشر کُکَر میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا ۔یکایک پریشر ککر پھٹا اور ساتھ ہی خوفناک زلزلہ آگیا ، دیکھتے ہی دیکھتے وہ ظالم شخص زمین کے اندر دھنس گیا ۔بچی کی ماں کو زخمی حالت میں بچا


لیا گیا اور غالباً اسی کے ذریعے اس دردناک قصے کا انکشاف ہوا ۔ (الامان والحفیظ )(’’زلزلہ اور اس کے اسباب‘‘، ص۵۱)؎

زمیں بوجھ سے میرے پھٹتی نہیں ہے

یہ تیرا ہی تو ہے کرم یاالٰہی(وسائل بخشش،ص۱۱۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اللہ  چاہے تو بیٹا دے یا بیٹی یا کچھ نہ دے

      شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ’’زندہ بیٹی کنویں میں ڈال دی‘‘ کے صفحہ 5پر لکھتے ہیں :   اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّاسلام نے بیٹی کو عَظَمت بخشی اور اس کا وقار بُلند کیا ہے، مسلمان اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کا عاجز بندہ اور اس کے احکام کا پابند ہوتا ہے ، بیٹا ملے یا بیٹی یا بے اولاد رہے ہر حال میں اِسے راضی بَرِضا رہنا چاہئے ۔پارہ25 سُوْرَۃُ الشُّوْرٰیکی آیت:49اور 50میں ارشاد ہوتا ہے :

لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ(۴۹)

اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(۵۰)

ترجَمۂ کنزالایمان: اَللّٰہہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، پیدا کرتا ہے جو چاہے ،جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے، بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔

 


’’خاتونِ جنّت‘‘ کے آٹھ حُرُوف کی نسبت سے بیٹیوں کے فضائل پر مَبنی 8فرامینِ مصطَفٰے

      {۱}بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو، بے شک وہ مَحَبَّت کرنے والیاں ہیں۔)[3]( {۲} جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اُسے اِیذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اُس شخص کو جنت میں داخِل فرمائے گا۔)[4]({۳}جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ حُسنِ سلوک (یعنی اچّھا برتاؤ) کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنَّم سے روک بن جائیں گی۔)[5]({۴} جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ فِرِشتوں کو بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں :’’اَلسّلَامُ عَلَیْکُم  اَہْلَ الْبَیْتیعنی اے گھر والو!  تم پر سلامَتی ہو ۔‘‘ پھر فِرِشتے اُس بچّی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک ناتُواں (یعنی کمزور) سے پیدا ہوئی ہے ، جو شخص اِس ناتواں جان کی پرورِش کی ذمّے داری لے گا،قِیامت تک __کی مدد اُس کے شاملِ حال رہے گی )[6]({۵}  جس کی تین بیٹیاں ہوں ، وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے۔ عرض کی گئی : اور  دو ہوں تو؟ فرمایا :اور دو ہوں تب بھی ۔ عرض کی گئی : اگر ایک ہو تو ؟


فرمایا :  اگر ایک ہو تو بھی)[7]({۶} جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں پھر وہ اُن کی اچھی طرح پرورش کرے اور ان کے مُعامَلے (مُ۔عَا۔مَلے) میں __سے ڈرتارہے تو اُس کیلئے جنت ہے)[8]({۷} جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سُلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگا)[9]({۸} جس نے اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتے دا ر بچیوں پر ثواب کی نیّت سے خرچ کیا یہاں تک کہ اللہ  تعالٰی نہیں بے نیاز کر دے(یعنی ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں یا ان کی وفات ہو جائے )  تووہ اس کیلئے آگ سے آڑ ہوجائیں گی۔(مسند امام احمد بن حنبل ج۱۰ص ۱۷۹ حدیث ۲۶۵۷۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(24) اندھی لڑکی

        ایک ماہنامے میں دی گئی عبرت ناک حکایت کچھ یوں ہے کہ دو سگی بہنوں نے اپنی اولاد کے رشتے آپس میں طے کئے ، لڑکی کی نظر کمزور تھی جس کی وجہ سے وہ چشمہ لگاتی تھی ۔کچھ عرصے بعد دونوں بہنوں کے درمیان اختلافات نے سر اٹھایا ، بات یہاں تک پہنچی کہ ایک بہن دوسری سے کہنے لگی : میں اپنے صحیح سلامت بیٹے کی شادی تمہاری اندھی بیٹی سے نہیں کرسکتی ۔ یہ سن کر دوسری بہن کے دل پر گویا تیروں کی


برسات ہوگئی کہ عیب نکالنے والی کوئی اور نہیں اس کی سگی بہن تھی ، بہرحال طعنہ دینے والی رشتہ توڑ کر جاچکی تھی ۔دوسری طرف جب وہ گھر پہنچی تو اسے خیال آیا کہ لوہے کے پائپ نیچے صحن میں رکھے ہوئے ہیں انہیں چھت پر منتقل کر دیتی ہوں ،اس نے اپنے بیٹے کو بھی اس کام میں شامل کرلیا ۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اچانک لوہے کا پائپ اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور سیدھا بیٹے کی آنکھ پر جالگا اس کی آنکھ پپوٹے سمیت باہر نکل پڑی ، اس کے دل پر قیامت گزر گئی اور اس کے ذہن میں اپنی سگی بہن کو کہے گئے الفاظ گونجنے لگے کہ میں اپنے صحیح سلامت بیٹے کی شادی تمہاری اندھی لڑکی سے نہیں کرسکتی ،اب اسے اپنے انداز پر ندامت ہونے لگی لیکن اب کیا فائدہ! بیٹے کی آنکھ تو جاچکی تھی ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(25)تم نے اس کا ہاتھ پکڑا تو کسی نے میرا ہاتھ پکڑلیا

        کسی شہر میں ایک پانی بھرنے والا ماشکی رہتا تھا جو ایک سُنار کے گھر پانی بھرا کرتا تھا ۔ اسے پانی بھرتے ہوئے تیس سال کا عرصہ ہوگیا تھا ۔ اس سنار کی زوجہ نیک اور پارسا خاتون تھی ۔ایک روز وہ ماشکی پانی بھرنے آیا تو اس نے سنار کی بیوی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف کھینچا ۔عورت نے بمشکل ہاتھ چھڑایا اور دروازہ بند کرلیا ۔ تھوڑی دیر بعد سنار گھر آیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: آج دکان پر کونسا کام خدا کی نافرمانی کا کیا ہے ؟سنار بولا کہ آج ایک عورت کے ہاتھ میں کنگن پہناتے ہوئے مجھے اس کا بازو بہت خوبصورت نظر آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا ، بس


یہی لغزش مجھ سے واقع ہوئی ہے ۔بیوی بولی : اب معلوم ہوا کہ تمہارے ماشکی نے آج میرا ہاتھ کیوں پکڑ کر کھینچا تھا !سنار نے سارا واقعہ سنا تو کہنے لگا کہ میں اپنی غلطی سے توبہ کرتا ہوں ، خدا مجھے معاف فرمائے ۔دوسرے روز ماشکی پانی بھرنے آیا تو اس نے بھی اپنے کئے کی معافی مانگی۔(روح البیان،۴/۱۵۰ )

شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ہیں پھینکتے

دیوارِ آہنی پر، حماقت تو دیکھئے

کیا آپ کو یہ گوارا ہوگا؟

        دوسروں کی عزت کی طرف گندی اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے والوں کے لئے اس واقعے میں درسِ عبرت ہے بدکاری کی لذتِ بَد کے شوقین لمحہ بھر کے لئے سوچیں کہ اگر یہی کام کوئی میری بہن یابیٹی یابہویا بیوی کے ساتھ کرے تو کیا مجھے گوارا ہوگا؟ یقینا نہیں ! تو پھر کوئی دوسرا یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ آپ اس کی بہن یابیٹی یابہویا بیوی کے ساتھ اس طرح کا فعل کریں ،شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر برسانے والے کو یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی اس کے گھر پر بھی پتھر برسا سکتا ہے ۔فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:عِفُّوْا تَعِفَّ نِسَاؤُکُم وَ بِرُّوْا آبَاءَ کُمْ یَبَرُّکُمْ اَبْنَاؤُکُم. یعنی پاکدامنی اختیار کرو،تمہاری عورتیں بھی پاک دامن رہیں گی اور اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، تمہاری اولاد تم سے اچھا سلوک کرے گی۔(معجم اوسط، ۴/۳۷۶، حدیث:۶۲۹۵)


مجھے بدکاری کی اجازت دیجئے

        ایک نوجوان سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی بارگاہ میں حاضر ہوااور بدکاری کی اجازت مانگی۔یہ سنتے ہی صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضوَان جلال میں آ گئے اور اسے مارنا چاہا۔رسولِ اکرمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے انہیں ایسا کرنے سے روکا اور نوجوان کو اپنے قریب بلا کر بٹھایا اور نہایت نرمی اور شفقت کے ساتھ سوال کیا:اے نوجوان!کیا تجھے پسند ہے کہ کوئی تیری ماں سے ایسا فعل کرے؟اس نے عرض کی :میں اس کو کیسے رَوا رکھ سکتا ہوں ؟آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا:تو پھر دوسرے لوگ تیرے بارے میں اسے کیسے روا رکھ سکتے ہیں ؟پھر دریافت فرمایا:تیری بیٹی سے اگر اس طرح کیا جائے تو تُو اسے پسند کریگا؟عرض کی: نہیں۔ فرمایا:اگر تیری بہن سے کوئی ایسی ناشائستہ حرکت کرے تو ؟ اور اگر تیری خالہ سے کرے تو؟اسی طرح آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک ایک رشتے کے بارے میں سوال فرماتے رہے اور وہ جواب میں یہی کہتا رہا کہ مجھے پسند نہیں اور لوگ بھی رضا مند نہیں ہوں گے۔تب سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کردُعا کی :یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ!اس کے دل کو پاک کر دے ، اس کی شرمگاہ کو بچا لے اور اس کا گناہ بخش دے۔اس کے بعد وہ نوجوان تمام عمر زنا سے بے زار رہا۔(مسنداحمد،حدیث ابی امامۃ الباھلی،۸/۲۸۵،حدیث:۲۲۲۷۴ ملخصًا)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(26)اپنا بچہ سمجھ کر آپریشن کرنے کا صلہ

        ایک خاتون کا بیان ہے کہ پاکستان کی ایک مشہور و معروف سرجن کا اکلوتا بیٹا جو مشکل سے چھ سال کا ہے میرے اسکول میں پڑھتا تھا، ایک صبح اچانک سر درد کی وجہ سے زور زور سے رونے لگا۔پتہ چلا کہ اسے بہت تیز بخار بھی ہے.میں نے بچے کی والدہ سے بذریعہ موبائل رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر رابطہ نہ ہوسکا ،ایک کے بعد ایک کال مگر بے فائدہ!دوسری طرف بچے کی حالت درد سے بگڑتی جارہی تھی۔ مجبوراًاپنی ذمہ داری پر ڈاکٹر کو بلوایا گیا،ڈاکٹر نے چیک کیا اور انجکشن لگا دیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے سکون ملا تو وہ سو گیا۔میں بار بار اسکی والدہ کے نمبر پر رابطے کی کوشش کرتی رہی مگر کوئی جواب نہ آیا۔انکے اسپتال فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ آپریشن میں مصروف ہیں۔ میں نے انکے نمبر پر ایک میسج بھیج دیا تاکہ وہ آپریشن سے فارغ ہوکر اسے لے جائیں۔ وہ بچہ میری گود میں سویا رہا۔جب اسکی والدہ آئیں ان کا چہرہ تھکاوٹ سے زرد اور آنکھیں سرخ سوجی ہوئی تھی۔اپنے بچے کو سکون سے سوتا دیکھ کر میرے پاس بیٹھ گئیں۔انہوں نے بتایا کہ کئی گھنٹے سے وہ ایک بچے کا آپریشن کر رہی تھیں جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے ،اس دوران انہیں اپنے بچے کا خیال بھی آتا رہا کہ انکا اپنا بھی اکلوتا بچہ ہے۔اسی لئے انہوں نے اسے اپنا بچہ سمجھ کر بڑی توجہ سے اسکا کامیاب آپریشن کیا۔اسکے والدین بہت خوش ہیں۔جب مجھے آپکا میسج ملا تو میری آنکھیں بھر آئی تھیں کہ میں کسی کے بچے کو اپنا سمجھ کر اسے بچانے کے لئے اتنی کوشش کرتی رہی مگر


میرا بیٹا پتہ نہیں اکیلا کتنی تکلیف میں ہوگا!پتانہیں کسی نے اسکو سنبھالا بھی ہوگا یا نہیں ؟مگر جب میں نے اسکو آپکی گود میں اتنے سکون سے سوتا دیکھا توساری پریشانی دور ہوگئی اور اس بات پر میرا یقین مضبوط ہوگیا کہ دنیا مُکافات عمل ہے ۔

اچھا کرو گے اچھا ملے گا

        فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّمہے:دوسروں کے لئے عافیت طلب کرو تمہیں بھی عافیت نصیب ہوگی۔(الترغیب والترہیب، ۳/۱۱۹ ، حدیث : ۲۱۹۹ ، مطبوعۃ : دار الحدیث ۔ القاہرۃ)

مسلمان بھائی کے لئے دعائے خیر کا فائدہ

        حضرتِ سیدنا ابودَرْدَاء  رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا : مسلمان کی اپنے مسلمان بھائی کے لیے اس کی پسِ پشت دعا ضرور قبول ہے، اس کے سر کے پاس فرشتہ مقرر ہوتا ہے کہ وہ جب اپنے بھائی کے لیے دعا خیر کرتا ہے تو مقرر فرشتہ کہتا ہے: آمین اور تجھے بھی اس جیسا ملے۔(مسلم ،کتا ب الذکر والدعاء ،باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب ،، ص۱۴۶۲ حدیث: ۲۷۳۲  )

          مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :یعنی تم مسلمان بھائی کے لیے دعا کرو تو فرشتہ تمہارے لیے دعا کرے گا اگر تم نے فرشتہ کی دعا لینا ہے تو دوسروں کو دعا دو۔ بعض


بزرگ جب کوئی دعا کرنا چاہتے ہیں تو پہلے دوسروں کے لیے دعا کرتے ہیں اور اپنے لئے بھی جمع کے صیغہ سے دعا کرتے ہیں ،ان عملوں کا ماخذ یہ حدیث ہے ۔ یہ عمل بھی ہے کہ پہلے اپنے لئے دعا کر لے پھر دوسرے کے لئے رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیّّ(یعنی اے میرے رب میری مغفرت فرما اور میرے والدین کی)۔(مراٰۃ المناجیح،۳/۲۹۳)

دوسروں کی سلامتی مانگو تمہیں بھی سلامتی ملے گی

      حضرت سیدنا ابواسحاق شیرازیعلیہ رحمۃُ اللہِ القوی کو فقہائے کرام کے درمیان شیخِ مُطْلَق کہا جاتا ہے،اس کی وجہ یہ منقول ہے کہ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ خواب میں سرکارِ دو عالم،نُورِ مجَسَّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت سے مشرف ہوئے تو عرض کی:مجھے ایسے کلمات سکھائیے جن کی بدولت میں نجات پاسکوں۔سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا:اے شیخ!دوسروں کے لئے سلامتی طلب کرو ،تمہیں بھی سلامتی نصیب ہوگی۔(فیض القدیر،۱/۶۸۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(27)ظالم اپنے انجام کو پہنچا

        طبرستان کا ایک ظالم وبدکار بادشاہ شہر کی کنواری لڑکیوں کا گوہرِ عِصمت لُوٹا کرتا تھا ۔ ایک دن اس نے ایک غریب بڑھیا کو پیغام بھجوایا کہ آج وہ اس کی بیٹی کے پاس آئے گا۔ یہ جان لیوا خبر سن کر غریب بڑھیا اس وقت کے مشہور ولی حضرت سیدناشیخ ابو سعید قَصّاب علیہ رَحمۃُ اللہِ التَّوّاب کی خدمت میں حاضر ہوئی اور رو رو کر دردِ


دل بیان کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی۔  اللہعَزَّوَجَلَّکے ولی نے دُکھیاری ماں کی فریاد سن کر اپنا سر جھکا لیا،پھر کچھ دیر بعد سر اُٹھا کر ارشاد فرمایا: محترمہ ! اس علاقے میں زندہ لوگوں میں کوئی ایسا شخص نہیں جومُسْتَجَابُ الدَّعْوَات ہو ( یعنیجس کی ہر دعا قبول ہوتی ہو) ہاں !فلاں قبرستان میں آپ کو اِس اِس طرح کا ایک شخص ملے گا ،وہ آپکی حاجت پوری کر سکتا ہے۔ بڑھیا قبرستان پہنچی تو وہاں ایک حسین و جمیل نو جوان نظر آیا جس کے نورانی وجود اور خوبصورت لباس سے نکلنے والی خوشبو نے سارے ماحول کو معطر کر رکھا تھا ۔ بڑھیا نے سلام کے بعد آنے کا مقصد بتایا۔ نوجوان نے بڑی توجہ سے ساری بات سنی پھر کہا :’’ دوبارہ حضرت ابو سعید قصابعلیہ رَحمۃُ اللہِ التَّوّاب کے پاس جا کر دعا کرائیے!ان کی دعا قبول ہوگی ۔‘‘ بڑھیا نے جھنجھلا کر کہا:’’ عجیب بات ہے میری مشکل کوئی حل نہیں کررہا، میں کہاں جاؤں ؟زندہ مجھے مُردوں کے پاس بھیجتا ہے اور مردہ زندہ کے پاس ۔ نوجوان نے کہا:’’وہاں جائیے! اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اب مسئلہ حل ہوجائے گا۔‘‘چنانچہ بڑھیا پھر حضرت سیدناشیخ ابو سعید قصاب علیہ رَحمۃُ اللہِ التَّوّاب کی خدمت میں حاضر ہو ئی۔ بڑھیاکی رُوداد سن کرآپ رَحمَۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے سر جھکا لیا ،کچھ ہی دیر میں آپ رَحمَۃُ اللہ تعالٰی علیہ کے جسم سے پسینہ ٹپکنے لگا ، پھر ایک زور دار چیخ ماری اوربے ہوش ہوگئے ۔ اچانک پورے شہر میں شوربَرپا ہوا: ’’بادشاہ مرگیا، بادشاہ کی گردن ٹوٹ گئی۔‘‘ ہوا یوں کہ جب وہ بد بخت بادشاہ بڑھیا کی بیٹی کی طرف چلا تواچانک گھوڑے کو ٹھوکر لگی بادشاہ منہ کے بَل گرا اور فوراََ ہی موت کے


گھاٹ ا تر گیااور یوں اَلْحَمْدُللّٰہعَزَّوَجَلَّ!  ایک ولیٔ کامل کی دعا کی برکت سے لوگوں کو ایک ظالم وبد کار بادشاہ سے نجات مل گئی۔

     پھر جب لوگوں نے حضرت سیدناشیخ ابو سعید قصاب علیہ رَحمۃُ اللہِ التَّوّاب سے پوچھا کہ بڑھیا کو قبرستان کیوں بھیجا گیا،پہلے ہی دعا کیوں نہ فرما دی گئی ؟تو ارشاد فرمایا: مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ میری بددعا سے کوئی ہلاک ہو، اس لئے میں نے اسے حضرت سیدنا خضر عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے پاس بھیجا تھا ۔ پھر انہوں نے اشارہ بھجوایا کہ ایسے بدکارو سَرکَش کے لئے بددعا کرنا جائز ہے، لہٰذا میں نے بد دعا کی تووہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔  (روض الریاحین،ص۲۶۶ )

بادشاھوں کی بکھری ہوئی ھڈّیاں            کہہ رہی ہیں نہ بننا کبھی حکمراں

اِحتِساب اِسکا گزرے گا تم پر گِراں           حشر میں جب کہ جاؤ گے مر کر میاں (وسائل بخشش ، ص۶۵۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

بددعا نہ کرو

          اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرما یا : اپنی جانوں ، اپنی اولاد اور اپنے اَموال پر بددعا نہ کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ قبولیت کی گھڑی ہو اور بَد دعا قبول ہوجائے۔(مسلم ، کتاب الزہد والرقائق ، باب حدیث جابر الطویل ، ص۱۶۰۴ ، حدیث : ۳۰۰۹)


بددعا کرنے کے چند شرعی احکام

        *اگر کسی کافر کے ایمان نہ لانے پر یقین یا ظن غالِب ہو اور جینے سے دین کا نقصان ہو ، یا کسی ظالم سے امید توبہ اور ترک ظلم کی نہ ہو اور اس کا مرنا تباہ ہونا خلق کے حق میں مفید ہو ، ایسے شخص پر بد دعا دُرُست ہے ۔ (فضائل دعاء ، ص۱۸۷)

        *کسی مسلمان کو یہ بد دعا کہ تجھ پر خدا کا غضب نازل ہو ! اور تو آگ یا دوزخ میں داخل ہو ! نہ دے ، کہ حدیث شریف میں اس کی ممانعت وارِد ہے ۔ (ابو داود ، کتاب الادب ، باب فی اللعن ، ۴/۳۶۲ ، حدیث : ۴۹۰۶)(فضائل دعاء ، ص۲۰۳)

       *اپنے اور اپنے احباب کے نفس واہل ومال ووَلَد (بچوں )  پر بد دعا نہ کرے ! کیا معلوم کہ وقتِ اجابت ہو اور بعدِ وقوعِ بَلا(مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد) پھر ندامت ہو ۔       (فضائل دعاء ، ص۲۱۲)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(28) مزدور کو زندہ جلانے والا خود بھی زندہ جل گیا

        ایک وکیل کے بیان کا لبِّ لباب ہے کہ ہمارے علاقے میں جاگیرداروں کا ایک خاندان ہے ، خاندان کا سربراہ بہت بڑے سرکاری عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد زمینوں کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا ۔ اس کے دو عجیب وغریب شوق تھے ،ایک مہنگی گاڑی پر سیر سپاٹے کرنا اور دوسرا موٹی رقم اپنے پاس رکھنا اور وقتاً فوقتاً اسے گنتے رہنا ۔


ایک دوپہر وہ اپنے ڈیرے پر موجود تھا کہ نامعلوم کس بات پر ایک مزارع(زمینوں پر کام کرنے والے مزدور)پر غصہ آگیا ، زمیندار نے ڈنڈا پکڑا اور اس کی پٹائی شروع کردی ۔اس بے چارے نے جان بچانے کے لئے بھاگ کر ایک جھونپڑے میں پناہ لی ۔ زمیندار نے باہر سے کنڈی لگا کر جھونپڑے کو آگ لگا دی ، جھونپڑا گھاس پھونس اور لکڑی کا ہی تو تھا ،چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے الاؤ کی شکل اختیار کرگیا ۔ کسی مائی کے لال میں جراء ت نہیں تھی کہ زمیندار کی موجودگی میں آگے بڑھ کر اس غریب کی مددکرتا لہٰذا وہ غریب جھونپڑے کے اندر ہی جل کر بھسم ہوگیا ۔کسی نے زمیندار کے خلاف قانونی کاروائی کی ہمت نہیں کی ،کچھ دن قرب وجوار میں سرگوشیوں کے انداز میں اس سانحے کا ذکر ہوا پھر خاموشی چھا گئی ۔

        اس کے چند ہفتوں بعد زمیندار کے گھٹنوں میں شدید تکلیف شروع ہوگئی ، پہلے درد پھر سوجن اور پھر فالج کا مرض لاحق ہوگیا ۔ زمیندار کے لئے ہلنا جُلنا دوبھر ہوگیا ، ملازم اسے بستر سے استنجا خانے لے جاتے اور واپس بستر پر ڈال دیتے ۔ اس کی زندگی بے رونق ہوگئی ۔ پھر مئی کا مہینہ آیا اور گندم کی کٹائی شروع ہوگئی ۔زمیندار نے زمینوں پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا کہ تھریشر سے گندم نکلتے ہوئے بھی دیکھ لوں گا، ہواخواری بھی ہوجائے گی یوں میرا دل بہل جائے گا ۔ملازموں نے اٹھاکر گاڑی میں ڈالا اور ڈرائیور لے کر چل دیا ۔چلتے چلتے وہ ایسی جگہ پہنچے جہاں زمین پر گنے کے خشک پتے بکھرے ہوئے تھے جسے ’’چھوئی‘‘کہتے ہیں۔ تھریشر کے ذریعے گندم کے دانے


ایسی جگہ الگ کئے جارہے تھے جہاں گاڑی لے جانا دشوار تھا ،ڈرائیور نے زمیندار کو آگاہ کیا تو اس نے کہا کہ میں یہیں گاڑی میں بیٹھا ہوں تم جاکر دیکھو کہ کتنی گندم باقی ہے ؟ ڈرائیور حکم کی تعمیل کے لئے چل پڑا ۔ پیچھے زمیندار نے سگریٹ سلگایا اور جلتی ہوئی تیلی گاڑی سے باہر پھینک دی ،مئی کا مہینہ چلچلاتی دھوپ اور گاڑی کے نیچے اور چاروں طرف’’ چھوئی‘‘بکھری ہوئی تھی جو آگ پکڑنے کا بہانہ مانگتی ہے ،گاڑی کے چاروں طرف آگ کا الاؤ بھڑک اٹھا ، معذور زمیندار بھاگتا بھی تو کیسے ! وہیں گاڑی کے ساتھ جل کر راکھ ہوگیا ۔ بعد میں پتا چلاکہ یہ وہی جگہ تھی جہاں اس نے غریب مزدور کو جلا کر مارا تھا ۔

جبکہ پَیکِ اَجَل روح لے جائیگا              جسمِ بے جاں تڑپ کر ٹَھہَر جائیگا

لَحد میں کوئی تیری نہیں آئے گا      تجھ کو دفنا کے ہر اِک پلٹ جائے گا (وسائلِ بخشش،ص۵۵۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(29)حضرت سیِّدُنایحیٰی عَلَیہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی شہادت

           دمشق کے بادشاہ ’’حداد بن حدار‘‘ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ پھر وہ چاہتا تھا کہ بغیر حلالہ اس کو واپس کر کے اپنی بیوی بنالے۔ اس نے حضرت سیِّدُنایحییٰ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے فتویٰ طلب کیا تو آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے فرمایا کہ وہ اب تم پر حرام ہوچکی ہے اس کی بیوی کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور وہ حضرت


سیِّدُنایحییٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے قتل کے درپے ہو گئی۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کو مجبور کر کے قتل کی اجازت حاصل کرلی اور جب حضرت سیِّدُنایحییٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ’’مسجد جبرون‘‘ میں نماز پڑھ رہے تھے بحالت سجدہ ان کو قتل کرادیا اور ایک طشت میں ان کا سر مبارک اپنے سامنے منگوایا ۔ مگر کٹے ہوئے سر مبارک میں سے اس حالت میں بھی یہی آواز آتی رہی کہ ’’تو بغیر حلالہ کرائے بادشاہ کے لئے حلال نہیں ‘‘ اس عورت پرخدا عَزَّوَجَلَّکا عذاب نازل ہوگیا اوروہ زمین میں دھنس گئی۔ )[10]((عجائب القرآن ص۲۹۲ والبدایہ والنہایہ،۱/۵۱۰ ملتقطاً)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(30)تابعی بزرگ کی شہادت

         حضرت سیدناسعید بن جبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت ہی جلیل القدر تابعی ہیں بلکہ بعض محدثین نے آپ  کو خیرالتابعین(تمام تابعین میں بہترین )لکھا ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  بصرہ کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی کو اس کی خلافِ شرع باتوں پر


روک ٹوک کرتے رہتے تھے، اس لئے اس ظالم نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو قتل کرادیا ۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کا واقعہ بڑا ہی عجیب وغریب ہے، حجاج نے پوچھا : سعید بن جبیر !بولو میں کس طریقے سے تمہیں قتل کروں ؟ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا کہ جس طرح تو مجھے قتل کریگا قیامت کے دن اسی طریقے سے میں تجھے قتل کروں گا۔حجاج نے کہا کہ تم مجھ سے معافی مانگ لو میں تمہیں چھوڑ دوں گا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا : میں اللہعَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی دوسرے سے معافی نہیں مانگ سکتا۔ حجاج نے جھلا کر جلاد سے کہا:اس کو قتل کردے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  یہ سن کر ہنسنے لگے ۔ حجاج نے تعجب سے پوچھا : اس وقت کس بات پر ہنس پڑے؟ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا :  اللہعَزَّوَجَلَّ کے سامنے تمہاری جراء ت پر مجھے تعجب ہوا اور ہنسی آگئی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جلّاد کے سامنے قبلہ رُو کھڑے ہوگئے اوریہ آیت پڑھی:

اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹)(پ۷،الانعام:۷۹)

 ترجَمۂ کنزالایمان: میں نے اپنامنہ اس کی طرف کیاجس نے آسمان وزمین بنائے ایک اسی کاہوکر اور میں مشرکوں میں نہیں۔

حجاج نے جلادسے کہا:اس کامنہ قبلہ سے پھیردے ۔ تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے پڑھا:

فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِؕ-۱،البقرۃ:۱۱۵)

 ترجَمۂ کنزالایمان: توتم جدھرمنہ کرو اد ھر وجہُ اللہ (خداکی رحمت تمہاری طرف متوجہ)ہے۔

 


حجاج بولا: منہ کے بل زمین پر لٹا کر قتل کرڈالو۔ جب جلاد نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو منہ کے بل بحالتِ سجدہ لٹایا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى(۵۵) (پ۱۶،طہ: ۵۵)

ترجَمۂ کنزالایمان: ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا اوراسی میں تمہیں پھرلے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔

        جب جلاد نے خنجر اٹھایا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے بلند آواز سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ پڑ ھا اور یہ دعا مانگی کہ ’’یااللہعَزَّوَجَلَّ! میرے قتل کے بعد حجاج کو کسی مسلمان پر قابو نہ دے۔‘‘آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یہ دعا مقبول ہوگئی اور آپ کی شہادت کے بعد حجاج صرف پندرہ رات  زندہ رہا اور کسی مسلمان کو قتل نہ کرسکا۔ اس کے پیٹ میں کینسر ہوگیا تھا۔طبیب بدبودار گوشت کی بوٹی کو دھاگے میں باندھ کر اس کے حلق میں ڈالتا تھا اور وہ اس کو گھونٹ جاتا تھا۔ پھر اس کو نکالتا تھا تو وہ بوٹی خون میں لپٹی ہوئی نکلتی تھی اور ان پندرہ راتوں میں حجاج کبھی سو نہیں سکاکیونکہ آنکھ لگتے ہی وہ خواب دیکھتا کہ حضرت سعید بن جبیررضی اللہ تعالٰی عنہ  اس کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹ رہے ہیں ، بس آنکھ کھل جاتی ۔(آئینۂ عبرت،ص۳۶)

ظلم سے چھٹکارے کی دعا کیوں نہیں کی؟

        حضرت سیدنا سعید بن جبیررضی اللہ تعالٰی عنہ مستجابُ الدعوات بزرگ


تھے۔آپ نے ایک مرغ پال رکھا تھا جس کی بانگ پررات میں نماز کیلئے بیدار ہوا کرتے تھے۔ایک رات مرغ نے اپنے وقت پر بانگ نہ دی جس کے سبب حضرت سیدنا سعید بن جبیررضی اللہ تعالٰی عنہ نماز کیلئے نہ اٹھ سکے۔یہ بات آپ پر گراں گزری اور آپ نے فرمایا:اللہعَزَّوَجَلَّاس کی آواز کو منقطع کرے!اسے کیا ہوا؟آپ کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ اس کے بعد اس مرغ نے کبھی بانگ نہ دی۔آپ کی والدۂ محترمہ نے آپ سے فرمایا:بیٹا!آج کے بعد کسی چیز پر بددعا نہ کرنا۔اس قدر مقبول الدعا ہونے کے باوجود آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے حجاج بن یوسف کے ظُلْم پر صَبْر کیا یہاں تک کہ آپ کو شہید کردیا گیا لیکن آپ نے اس مصیبت سے چھٹکارے کیلئے دعا نہ کی۔ (جامع العلوم والحکم،ص۴۵۸بتصرف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(31) لالچی بیوی کا انجام

         حضرتِ سیدناشَمْعُون رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے ہزار ماہ اِس طرح عِبادت کی کہ رات کو قِیام اور دِن کو روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہعَزَّوَجَلَّ    کی راہ میں جِہاد بھی کرتے ۔ وہ اِس قَدَر طاقتور تھے کہ لوہے کی وَزنی اور مَضبوط زنجیروں کو اپنے ہاتھوں سے توڑ ڈالتے تھے۔ کُفَّار ِنَاہَنجارنے جب دیکھا کہ حضرتِ شَمْعُو ن رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ پر کوئی بھی حَربہ کار گر نہیں ہوتا توباہم مشورہ کرنے کے بعد بَہُت سارے مال و دولت کا لالچ دیکر آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کی زَوجہ کو اِس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ کسی رات نیند کی


حالت میں پائے تَوانہیں نِہایَت ہی مضبوط رَسیّوں سے خوب اچھّی طرح جَکَڑ کر اِن کے حوالے کردے ۔چُنانچِہبے وَفا بیوی نے ایساہی کیا ۔ جب آپ  رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ بیدار ہوئے اور اپنے آپ کو رَسیّوں سے بندھا ہوا پایا تو فوراً اپنے اَعضاء کو حَرَکت دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے رسیّاں ٹوٹ گئیں اور آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ آزاد ہوگئے۔  پھر اپنی بیوی سے اِسْتِفسَار کیا : مجھے کِس نے باندھا تھا؟ بے وفا بیوی نے وفاداری کی نَقلی اَداؤں سے جُھوٹ مُوٹ کہہ دیا کہ میں تو آپ کی طاقت کا اندازہ کررہی تھی کہ آپ اِن رسیّوں سے کِس طرح اپنے آپ کو آزاد کرواتے ہیں ؟ بات رَفع دَفع ہوگئی۔ ایک بار ناکام ہونے کے باوُجُود بے وفا بیوی نے ہِمّت نہیں ہاری اور مُسَلْسَل اِس بات کی تاک میں رہی کہ کب آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ پر نیند طاری ہو اوروہ اِنہیں باند ھ دے۔ آخِر کار ایکبارپھر موقع مل ہی گیا،لہٰذا جب آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ پر نیند کا غَلَبہ ہُوا تو اُس ظالِمہ نے نِہایَت ہی چالاکی کے ساتھ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کو لوہے کی زنجیروں میں اچھّی طرح جَکڑدیا۔جُوں ہی آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کی آنکھ کھُلی ، ایک ہی جھٹکے میں زنجیر کی ایک ایک کڑی الگ کردی اور بَآسانی آزاد ہوگئے ۔ بیوی یہ منظر دیکھ کر سَٹپٹَا گئی مگر پھر مَکّاری سے کام لیتے ہوئے وُہی بات دُہرادی کہ میں توآپ کو آزما رہی تھی۔دَورانِ گفتگو حضرتِ   شَمْعَونرحمۃُ اللہ تعالٰی علیہنے اپنی بیوی کے آگے اپنا راز اِفشاء کردیا کہ مجھ پراللہعَزَّوَجَلَّ کا بڑا کرم ہے اُس نے مجھے اپنی وِلایت کا شَرَف عِنایَت فرمایا ہے ، مجھ پر دُنیا کی کوئی چیز اَثَر نہیں کرسکتی مگر


ہاں ! ’’میرے سَر کے بال ‘‘ ۔ چالاک عورت ساری بات سمجھ گئی۔ آخِر ایک بار مَوقع پاکر اُس نے آپ( رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ) کو آپ ہی کے اُن آٹھ گیسوؤں سے باندھ دیا جِن کی درازی زَمین تک تھی۔ ( یہ اگلی اُمّت کے بزرگ تھے، ہمارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی سنّتِ گیسو زآدھے کان، پورے کان اور مبارک کندھوں تک ہے۔فتاویٰ رضویہ میں ہے:شانوں سے نیچے ڈھلکے ہوئے عورتوں کے سے بال رکھنا حرام ہے۔(فتاوی رضویہ،۲۱/۶۰۰) آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے آنکھ کھلنے پر بڑا زور لگایا مگرآزاد نہ ہو سکے ۔دُنیا کی دولت کے نَشہ میں بَدمست بے وفا عورت نے اپنے نیک اور پارسا شوہر کو دشمنوں کے حوالے کردیا۔  کُفَّارِ بَداَطوار نے حضرت ِشَمْعُون( رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ) کو ایک سُتُون سے باندھ دیا اور اِنتہائی بے دردی اور سَفَّاکی سے اُن کے کان اور ہونٹ کاٹ دیئے، تمام کفار وہیں جمع تھے، تب اس مردِ مجاہد نے اللہعَزَّوَجَلَّ سے دعا کی کہ مجھے ان بندھنوں کو توڑنے کی قوت بخش دے اور ان کافروں پر یہ ستون مع چھت کے گرادے اور مجھے ان کے چُنگل سے نجات دیدے چنانچہاللہعَزَّوَجَلَّ نے انہیں قوت عطا فرمائی وہ ہلے تو ان کے تمام بندھن ٹوٹ گئے، انہوں نے ستون کو ہلایا جس کی وجہ سے چھت کافروں پر آگری اوراللہعَزَّوَجَلَّ نے ان سب کو ہلاک کردیا اور حضرت ِشَمْعُون( رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ)کو ان سے نجات بخش دی۔ (مُکاشَفَۃُ القُلُوب،فی فضل لیلۃ القدر،ص۳۰۶، بتغیرٍ)؎

گناہ بے عَدَد اور جُرْم بھی ہیں لاتعداد

معاف کردے نہ سہ پاؤں گا سزا یاربّ(وسائل بخشش ص۷۸)


(32)شیر نے سر چبا ڈالا

        شہزادیٔ رسول حضرت سیِّدَتُنا ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا   پہلے ابولہب کے بیٹے ’’عُتَیْبَہ‘‘ کے نکاح میں تھیں لیکن ابولہب کے مجبور کر دینے سے بدنصیب عُتَیْبَہ نے ان کو رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی اور اس ظالم نے بارگاہِ نبوت میں انتہائی گستاخی بھی کی۔ یہاں تک کہ بدزبانی کرتے ہوئے حضور رحمۃٌ للعالمین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمپر جھپٹ پڑا اور آپ کے مقدَّس پیراہن کو پھاڑ ڈالا۔ اس گستاخ کی بے ادبی سے آپ کے قلبِ نازُک پر انتہائی رنج و صدمہ گزرا اورجوشِ غم میں آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل گئے کہ ’’یااللہعَزَّوَجَلَّ! اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو اس پر مسلط فرما دے۔‘‘اس دعائے نبوی کا یہ اثر ہواکہ ابولہب اورعُتَیْبَہ دونوں تجارت کے لئے ایک قافلے کے ساتھ ملک شام گئے اور مقامِ ’’زَرْقا‘‘ میں ایک راہب کے پاس رات میں ٹھہرے۔ راہب نے قافلہ والوں کو بتایا کہ یہاں درندے بہت ہیں ، آپ لوگ ذرا ہوشیار ہو کر سوئیں۔ یہ سن کر ابولہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ اے لوگو!محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے میرے بیٹیعُتَیْبَہ کے لئے ہلاکت کی دعا کر دی ہے۔ لہٰذا تم لوگ تمام تجارتی سامانوں کو اکٹھا کرکے اس کے اوپرعُتَیْبَہ  کا بستر لگادو اور سب لوگ اس کے ارد گرد چاروں طرف سو جاؤ تاکہ میرا بیٹا درندوں کے حملہ سے محفوظ رہے۔ چنانچہ قافلہ والوں نیعُتَیْبَہ کی حفاظت کا پورا پورا بندوبست کیا لیکن رات میں بالکل اچانک ایک شیر آیا اور سب کو سونگھتے ہوئے کود


کر عُتَیْبَہ کے بستر پرپہنچا اور اس کے سر کو چبا ڈالا۔ لوگوں نے ہر چند شیر کو تلاش کیا مگر کچھ بھی پتا نہیں چل سکا کہ یہ شیر کہاں سے آیا تھا اور کدھر چلا گیا؟(شرح الزرقانی،فی ذکر اولادہ الکرام،۴/۳۲۵)

نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم

کہ جس کو تم نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا

        خدا کی شان دیکھئے کہ ابولہب کے دونوں بیٹوں عُتْبَہ اورعُتَیْبَہ نے حضورِ اکرم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دونوں شہزادیوں کو اپنے باپ کے مجبور کرنے سے طلاق دے دی مگر عتبہ نے چونکہ بارگاہِ نبوت میں کوئی گستاخی اور بے ادبی نہیں کی تھی اس لئے وہ قہرِالٰہی میں مبتلا نہیں ہوابلکہ فتح مکہ کے دن اس نے اور اس کے ایک دوسرے بھائی ’’مُعَتِّب‘‘ دونوں نے اسلام قبول کرلیا اور دست ِاقدس پر بیعت کرکے شرفِ صحابیت سے سرفراز ہوگئے۔ ’’عُتَیْبَہ‘‘ نے چونکہ بارگاہِ اقدس میں گستاخی و بے ادبی کی تھی اس لئے وہ قہرِ قہار و غضبِ جبّار میں گرفتار ہو کر کفرکی حالت میں ایک خونخوار شیر کے حملے کا شکار بن گیا۔(والعیا ذ باﷲ تعالٰی منہ)(سیرت مصطفی ،ص۶۹۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(33) ظلم کا انجام

        ابو نصرمحمد بن مَروان ایک کُردی کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا،دستر خوان پر دو بھنے ہوئے چکوربھی موجود تھے ۔ کردی نے ایک چکوراٹھایااور ہنسناشروع کر دیا ۔


ابونصر محمد بن مروان نے اس سے ہنسنے کا سبب دریافت کیا تو کردی کہنے لگا کہ میں جب جوان تھا تو چور تھا۔ ایک روز میں نے ایک تاجر کو ہدف بنایااور اس کو قتل کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر تاجر نے گڑگڑاتے ہوئے اپنی جاں بخشی کی درخواست کی لیکن میں باز نہ آیا۔جب اس نے دیکھا کہ میں اسے قتل کرکے رہوں گا تووہ یکایک پہاڑ پر بیٹھے دو چکوروں کی طرف دیکھنے لگا اور ان سے کہنے لگا کہ تم دونوں گواہ ہوجاؤ یہ آدمی مجھ کو ظلماً ہلاک کر رہا ہے ۔ پھر میں نے اس کو قتل کر دیا۔ جس وقت مجھے کھانے میں ان دوچکوروں کی جھلک دکھائی دی تو مجھے اس تاجر کی بیوقوفی پر ہنسی آئی جو کہ دو چکوروں کو میرے خلاف گواہ بنا رہا تھا ۔ کُردی کی یہ بات سن کر ابو نصر بن مروان نے کہا :بخدا! ان دونوں چکوروں نے تیرے خلاف ایسے شخص کے پاس گواہی دی ہے، جس کے پاس گواہی دینا مفید بھی ہے اور وہ تمہیں سزا بھی دے سکتا ہے۔ پھر ابو نصر بن مروان نے کُردی کا سر قلم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔(حیاۃ الحیوان،۱/۳۲۴)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(34) ایک ٹانگ کٹ گئی

        حضرتِ علّامہ کمالُ الدّین دَمیری علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی نَقل کرتے ہیں : ’’زَمَخْشَری‘‘ (جو کہ مُعتزِلی فرقے کا ایک مشہور عالم گزرا ہے اُس)کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی ، لوگوں کے پوچھنے پر اُس نے انکِشاف کیا کہ یہ میری ماں کی بد دُعا کا نتیجہ ہے، قِصّہ یوں ہوا کہ میں نے بچپن میں ایک چِڑیا پکڑی اور اُس کی ٹانگ میں ڈوری


باندھ دی ، اِتِّفاق سے وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر اُڑتے اُڑتے ایک دیوار کی دراڑ میں گُھس گئی مگرڈوری باہَر ہی لٹک رہی تھی،میں نے ڈوری پکڑ کرزور سے کھینچی تو چِڑیا پھڑکتی ہوئی باہَر نکل پڑی مگربے چاری کی ٹانگ ڈوری سے کٹ چکی تھی، میری ماں نے یہ درد ناک منظر دیکھا تو صدمے سے تڑپ اُٹھی اور اُس کے منہ سے میرے لئے یہ بددُعا نکل گئی : ’’جس طرح تو نے اِس بے زَبان کی ٹانگ کاٹ ڈالی، __ تیری ٹانگ کاٹے ۔‘‘بات آئی گئی ہو گئی،کچھ عرصے کے بعد تحصیلِ علم کیلئے میں نے ’’بُخارا‘‘ کا سفر اختیار کیا، اِثنائے راہ سُواری سے گر پڑا، ٹانگ پر شدید چوٹ لگی، ’’بُخارا‘‘ پَہنچ کر کافی علاج کیا مگر تکلیف نہ گئی، بالآخِر ٹانگ کٹوانی پڑی۔ (حیاۃُ الحیوان،۲/ ۱۶۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(35) پُراسرار معذور

        حضرتِ سیِّدُنا ابُو قِلابَہ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا بیان ہے کہ میں نے مُلک شام میں ایک آدَمی دیکھا جو بار بار یہ صدا لگا رہا تھا: ’’ہائے افسوس! میرے لئے جہنَّم ہے ۔‘‘میں اُٹھ کر اس کے پاس گیاتو یہ دیکھ کر حیران رَہ گیا کہ اس کے دونوں ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہیں ، دونوں آنکھوں سے اندھا ہے اورمُنہ کے بل زمین پر اَوندھا پڑا ہو ابارباریہی کہے جا رہا ہے کہ ’’ہائے افسوس ! میرے لئے جہنَّم ہے ۔‘‘میں نے اس سے پوچھا کہ اے آدمی!کیوں اورکس بِناء پر تُو یہ کہہ رہا ہے؟ یہ سُن کر اس نے کہا: اے


شخص! میرا حال نہ پوچھ، میں ان بدنصیبوں میں سے ہوں جو امیرالمؤمنین حضرت ِ سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ  کوشہید کرنے کے لئے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے مکان میں داخِل ہو گئے تھے ، میں جب تلوار لے کر قریب پہنچا توآپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا  مجھے زورزور سے ڈانٹنے لگیں تو میں نے غصّے میں آ کر بی بی صاحِبہرضی اللہ تعالٰی عنہا  کوتھپڑ ماردیا !یہ دیکھ کر امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے تڑپ کر یہ دعا مانگی: ’’اللہ تعالیٰ تیرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹے،تجھے اندھا کرے اور تجھ کو جہنَّم میں جھونک دے۔‘‘ اے شخص! امیرُالمؤمِنین رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے پُر جلال چِہرے کو دیکھ کر اوران کی اس قاہِرانہ دعا کو سن کر میرے بدن کا ایک ایک رُونگٹا کھڑا ہوگیا اور میں خوف سے کانپتا ہوا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ میں امیرُالمؤمِنین رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی چاردُعاؤں میں سے تین کی زَد میں تو آچکا ہوں ، تم دیکھ ہی رہے ہوکہ میرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کٹ چکے اور آنکھیں بھی اندھی ہوچکیں ،آہ! اب صِرف چوتھی دعا یعنی میرا جہنَّم میں داخِل ہونا باقی رہ گیا ہے۔ (الرّیا ض النضرۃ فی مناقِب العَشرۃ،جُزئ: ۳،ص۴۱) ؎

عداوت اور کینہ ان سے جو رکھتا ہے سینے میں

وہی بدبخت ہے ملعون ہے مردود شیطانی(وسائل بخشش،ص۵۸۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(36)جیسی کرنی ویسی بھرنی

        حضرتِ سیِّدُنا ابو صالح رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہیں : صحابی رسول حضرتِ سیِّدُنا ابو عبد اللہ خَبّاب بن اَرَتّ تمیمی رضی اللہ تعالٰی عنہلوہار کا کام کرتے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے ۔ رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے محبت فرماتے اور ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے ۔ اس بات کی خبر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکی مالکہ ’’اُمِّ اَنْمار‘‘ کو ہو گئی ، لہٰذا وہ سزا کے طور پر لوہا لے کر دہکاتی اور اسے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے سر پر رکھا کرتی ۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے بارگاہ نبوی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم میں فریاد کی ۔ آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم نے دعا فرمائی : اے اللہعَزَّوَجَلَّ ! خَبّاب کی مدد فرما ۔ دعا کی قبولیت کا ظہور یوں ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکی مالکہ کے سر میں کوئی بیماری ہو گئی ، جس کی تکلیف کی وجہ سے وہ کتے کی طرح چلایا کرتی تھی ۔ کسی نے اسے یہ علاج بتایا کہ اپنے سر کو لوہے کی گرم سلاخوں سے داغو ۔ اس نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکو یہ کرنے کا حکم دیا ۔ یوں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہلوہا دہکاتے اور اس کا سر داغا کرتے تھے ۔   (اسد الغابۃ،رقم الترجمہ:۱۴۰۷،خباب بن الارت ۲/۱۴۲)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(37) قرآن کریم بھلا دیا گیا

       حافِظ ابوعَمرو مدرَسے میں قراٰنِ پاک پڑھاتے تھے، ایک بار ایک خوبصورت لڑکا پڑھنے کیلئے آگیا، اُس کی طرف گندی لذّت کے ساتھ دیکھتے ہی اُن کو


 سارا قراٰن شریف بُھلادیا گیا، خوب توبہ کی اور روتے ہوئے مشہور تابِعی بُزُرگ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکی بارگاہ میں حاضِر ہوکر رُوداد عرض کر کے طالبِ دُعا ہوئے۔ فرمایا: اِسی سال حج کی سعادت حاصل کرو اور منیٰ شریف کی مسجدُالخَیف شریف میں جاکر وہاں پیش امام سے دعا کرواؤ۔ چنانچِہ (سابِقہ) حافِظ صاحِب نے حج کیا اورمسجدُالْخَیف شریف میں ظُہر سے پہلے حاضِر ہوگئے، ایک نورانی چہرے والے بوڑھے پیش امام صاحِب لوگوں کے جُھرمَٹ کے اندر مِحراب میں تشریف فرما تھے۔ کچھ دیر کے بعد ایک صاحِب تشریف لائے، بَشُمُول امام صاحِب سب نے کھڑے ہو کر ان کا استِقبال کیا، نووارِد(نئے آنیوالے صاحِب) بھی اسی حلقے میں بیٹھ گئے۔ اذان ہوئی اور نَمازظُہر کے بعد لوگ مُنتَشِر ہوگئے۔ پیش امام صاحِب کو تنہا پاکر( سابِقہ) حافِظ صاحِب آگے بڑھے اور سلام و دست بوسی کے بعد روتے ہوئے  مُدَّعا عرض کر کے دُعا کی التِجا کی، پیش امام صاحِب کے دُعا کرتے ہی سارا قراٰنِ مجید پھرحِفظ ہوگیا، امام صاحِب نے پوچھا: تمہیں میرا پتا کس نے بتایا؟ عرض کی: حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی)نے۔ فرمانے لگے: اچّھا! اُنہوں نے میرا پردہ فاش کیا ہے، اب میں بھی اُن کا راز کھولتا ہوں ، سنو! ظہر سے پہلے جن صاحِب کی آمد پر اُٹھ کر سب نے تعظیم کی تھی وہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی)تھے! وہ اپنی کرامت سے بصرہ سے یہاں مِنیٰ شریف کیمسجدُ الْخَیف میں تشریف لاکر روزانہ نَمازِ ظہر ادا فرماتے ہیں۔( تذکرۃ الاولیائ،ذکر حسن بصری،


 جزء:۱،ص۴۰ ماخوذاً) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری  بے حساب مغفِرت ہو۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

حافِظے کی تباہی کا ایک سبب

        اے دیدارِمدینہ کے آرزو مند عاشِقانِ رسول!دیکھا آپ نے! اَمْرَدکی طرف ’’گندی لذّت‘‘ کے ساتھ دیکھنے سے حافِظہ  بھی تباہ ہوسکتا ہے۔ آج کل یادداشت کی کمی کی شکایت عام ہے، حُفّاظ کی بھی ایک تعدادحافِظے کی کمزوری کی آفت میں مبتَلا ہے اوربَہُت سوں کو تو قراٰنِ پاک ہی بُھلا دیا جاتا ہے (قراٰن شریف یافُلاں آیت ’’بھول‘‘ گیا کہنے کے بجائے ’’بُھلا دیا گیا‘‘ کہنا چاہئے) بدنِگاہی اور T.V. وغیرہ پر فلمیں ڈِرامے دیکھنا گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے اور اس سے حافِظہ بھی کمزور ہوجاتا ہے۔حافِظہ کمزور ہونے کے اور بھی کئی اسباب ہیں لہٰذا خبردار ! کسی حافِظ صاحِب کی منزِل کمزور ہونے کی صورت میں مَحض اپنی اٹکل سے یہ ذِہن بنا لینا کہ بد نِگاہی کے سبب ایسا ہوا ہے، بدگُمانی ہے اور مسلمان پر بد گمانی حرام اور جہنَّم میں لیجانے والا کام ہے۔؎

یا الٰہی!رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں

ان کی نیچی نیچی نظروں کی حیاء کا ساتھ ہو(حدائق بخشش ، ص۱۳۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(38)خوفناک ڈاکو

         شیخ عبداﷲ شافِعی علیہ ر حمۃ  اللہِ  القوی اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں : ایک بار میں شہر بصرہ سے ایک قَریہ(یعنی گاؤں ) کی طرف جارہا تھا۔دوپَہَر کے وقت یکایک ایک  خوفناک ڈاکو ہم پر حملہ آور ہوا،میرے رفیق(یعنی ساتھی) کو اس نے شہید کر ڈالا، ہمارا مال ومَتاع چِھین کر میرے دونوں ہاتھ رسّی سے باندھے ، مجھے زمین پر ڈالا اورفِرار ہوگیا۔میں نے جوں توں ہاتھ کھولے اور چل پڑا مگر پریشانی کے عالَم میں رستہ بھول گیا،یہاں تک کہ رات آگئی ۔ایک طرف آگ کی روشنی دیکھ کرمیں اُسی سَمْت چلدیا، کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے ایک خَیمہ نظر آیا، میں شدّتِ پیاس سے نڈھال ہوچکا تھا، لہٰذا خَیمے کے دروازے پرکھڑے ہوکر میں نے صدا لگائی: اَلْعَطَش! اَلْعَطَش! یعنی ’’ہائے پیاس !ہائے پیاس!‘‘ اِتِّفاق سے وہ خیمہ اُسی خوفناک ڈاکو کا تھا !میری پکار سن کر بجائے پانی کے ننگی تلوار لئے وہ باہَر نکلا اور چاہا کہ ایک ہی وار میں میرا کام تمام کردے،اُس کی بیوی آڑے آئی مگروہ نہ مانا اور مجھے گھسیٹتا ہوا دور جنگل میں لے آیا اورمیرے سینے پر چڑھ گیامیرے گلے پر تلوار رکھ کرمجھے ذَبح کرنے ہی والا تھا کہ یکایک جھاڑیوں کی طرف سے ایک شیر دَہاڑتا ہوا برآمد ہوا، شیرکو دیکھ کر خوف کے مارے ڈاکو دُور جا گرا ،شَیر نے جھپٹ کر اُسے چیر پھاڑ ڈالا اور جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ میں اس غیبی امداد پر  اللہعَزَّوَجَلَّ کا شکر بجا لایا۔(ظلم کا انجام، ص۲)

ع        سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام برا ہے


ظالم کو مُہلَت ملتی ہے

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! ظلم کا انجام کس قدر بھیانک ہے۔ حضرت سیِّدُنا شیخ محمد بن اسمٰعیل بخاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الباری ’’ بُخاری شریف‘‘ میں نقل کرتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک  اللہعَزَّوَجَلَّظالم کومُہلَت دیتاہے یہاں تک کہ جب اس کو اپنی پکڑ میں لیتا ہے تو پھراس کو نہیں چھوڑتا۔ یہ فرما کر سرکارِ نامدارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  پارہ 12 سورۂ ہُودکی آیت102تلاوت فرمائی:

وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ(۱۰۲)

ترجَمۂ کنزالایمان: اور ایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر۔ بے شک اس کی پکڑ دردناک کرّی ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذٰلک اخذ ربک۔۔۔الخ، ۳/۲۴۷، حدیث:۴۶۸۶)

        دہشت گردوں ، لٹیروں ، قتل و غارتگری کا بازار گرم کرنے والوں کو بیان کردہ حکایت سے عبرت حاصل کرنی چاہئے ، انہیں اپنے انجام سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ جب دنیا میں بھی قہر کی بجلی گرتی ہے تو اس طرح کے ظالم لو گ کُتّے کی موت مارے جاتے ہیں اور ان پر دو آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(39) زبان لٹک کر سینے پر آگئی

        بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء اپنے دور کا بہت بڑا عالم اور عابد و زاہد تھا۔ اس کو اسمِ اعظم کا بھی علم تھا۔ یہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا اپنی روحانیت سے عرشِ اعظم کو دیکھ لیا کرتا تھا۔ بہت ہی مستجاب الدعوات تھا کہ اس کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوا کرتی تھیں۔ اس کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔مشہور یہ ہے کہ اس کی درسگاہ میں طالب علموں کی صرف دواتیں 12 ہزار تھیں۔ جب حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ’’قومِ جبارین‘‘ سے جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوئے تو بلعم بن باعوراء کی قوم اس کے پاس گھبرائی ہوئی آئی اور کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت ہی بڑا اور نہایت ہی طاقتور لشکر لے کر حملہ آور ہونے والے ہیں ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو ہماری زمینوں سے نکال کر یہ زمین اپنی قوم بنی اسرائیل کو دے دیں۔ اس لئے(مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) آپ موسیٰ( عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) کے لئے ایسی بددعا کر دیجئے کہ وہ شکست کھا کر واپس چلے جائیں ، آپ چونکہ مستجاب الدعوات ہیں اس لئے آپ کی دعا ضرور مقبول ہوجائے گی۔ یہ سن کر بلعم بن باعوراء کانپ اٹھااور کہنے لگا : تمہاراناس ہو، خدا کی پناہ! حضرت موسیٰ( علیہ السلام)  اللہعَزَّوَجَلَّکے رسول ہیں اور ان کے لشکر میں مومنوں اور فرشتوں کی جماعت ہے ان پر بھلا میں کیسے اور کس طرح بددعا کرسکتا ہوں ؟ لیکن اس کی قوم نے رو رو کر اور گڑگڑا کر اس طرح اِصرار کیا کہ اس کو کہنا پڑا کہ اِستخارہ کرلینے کے بعد اگر مجھے اجازت مل گئی تو


بددعا کردوں گا۔ جب اِستخارے میں بددعا کی اجازت نہیں ملی تو اس نے صاف صاف جواب دے دیا کہ اگر میں بددعا کروں گاتو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔اب کی بار اس کی قوم نے بہت سے گراں قدر ہدایا اور تحائف اس کے سامنے رکھے اور بددعا کرنے پر بے پناہ اِصرار کیا۔ یہاں تک کہ بلعم بن باعوراء پر حرص و لالچ کا بھوت سوار ہو گیا اور وہ مال کے جال میں پھنس کر ان کی خواہش پوری کرنے پر تیار ہوگیا اور اپنی گدھی پر سوار ہو کر بددعا کے لئے چل پڑا۔ راستے میں بار بار اس کی گدھی ٹھہر جاتی اور منہ موڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی مگر یہ اس کو مار مار کر آگے بڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ گدھی کو اللہعَزَّوَجَلَّنے گویائی کی طاقت عطا فرمائی اور اس نے کہا : افسوس! اے بلعم ! تُو کہاں اور کدھر جا رہا ہے؟ دیکھ! میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روکتے اور میر امنہ موڑ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ اے بلعم! تیرا برا ہو کیا تُو اللہ کے نبی اور مومنین کی جماعت پر بددعا کرے گا؟مگر بلعم بن باعوراء کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی بندھ چکی تھی لہٰذا وہ گدھی کی تنبیہ سن کر بھی واپس نہیں ہوااور’’حُسْبَان‘‘ نامی پہاڑ پر چڑھ گیا اور بلندی سے حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے لشکروں کو بغور دیکھا اور بددعا شروع کردی۔ لیکن خدا عَزَّوَجَلَّ کی شان دیکھئے کہ وہ حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے لئے بددعا کرتا تھا مگر اس کی زبان پر اس کی اپنی قوم کے لئے بددعا جاری ہوجاتی تھی۔ یہ دیکھ کر کئی مرتبہ اس کی قوم نے ٹوکا کہ اے بلعم! تم تو اُلٹی بددعا کررہے ہو۔کہنے لگا:میں کیا کروں !میں بولتا کچھ اور


ہوں اور میری زبان سے کچھ اور ہی نکلتا ہے! پھر اچانک اس پر غضب ِ الٰہی نازل ہوا اوراس کی زبان لٹک کر اس کے سینے پر آگئی۔ اس وقت بلعم بن باعوراء نے اپنی قوم سے رو کر کہا : افسوس میری دنیا و آخرت دونوں تباہ وبرباد ہوگئیں ، میرا ایمان جاتا رہا اور میں قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو گیاہوں۔ جاؤ! اب میری کوئی دعا قبول نہیں ہوسکتی۔(تفسیر صاوی،پ۹،الاعراف،تحت الآیۃ:۵۷۱،۲/۷۲۷ملخصًّا)؎

کس کے در پر میں جاؤں گا مولا

گر تُو ناراض ہوگیا یارب(وسائل بخشش ص۸۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(40) قارون کا انجام

        قارون حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے چچا ’’یَصْہَر‘‘ کا بیٹا تھا۔ بہت ہی شکیل اور خوبصورت آدمی تھا۔ اسی لئے لوگ اُس کے حسن و جمال سے متاثر ہو کر اُس کو ’’مُنَوَّر‘‘ کہا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس میں یہ کمال بھی تھا کہ وہ بنی اسرائیل میں ’’تورات‘‘ کا بہت بڑا عالم، اور بہت ہی ملنسار و بااخلاق انسان تھا اور لوگ اُس کا بہت ہی ادب و احترام کرتے تھے لیکن بیشمار دولت اُس کے ہاتھ میں آتے ہی اُس کے حالات میں ایک دَمتَغیُّر پیدا ہو گیا اور سامری کی طرح مُنافِق ہو کر حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا بہت بڑا دشمن ہو گیا اوربہت زیادہ متکبر اور مغرور ہو گیا۔ جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا تو اُس


نے آپ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے روبرو یہ عہد کیا کہ وہ اپنے تمام مالوں میں سے ہزارہواں حصہ زکوٰۃ نکالے گا مگر جب اُس نے مالوں کا حساب لگایا تو ایک بہت بڑی رقم زکوٰۃکی نکلی۔ یہ دیکھ کر اس پر ایک دم حِرْص و بخل کا بھوت سوار ہو گیا اور نہ صرف زکوٰۃ کا مُنکِر ہو گیا بلکہ عام طور پر بنی اسرائیل کو بہکانے لگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس بہانے تمہارے مالوں کو لے لینا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے لوگوں کو بَرگَشتَہ (یعنی خلاف)کرنے کے لئے اُس خبیث نے یہ گندی اور گھناؤنی چال چلی کہ ایک بے شرم عورت کو بہت زیادہ مال و دولت دے کر آمادہ کرلیا کہ وہ آپ پر بدکاری کا الزام لگائے۔ چنانچہ عین اُس وقت جب کہ حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام وعظ فرما رہے تھے۔ قارون نے آپ کو ٹوکا کہ آپ نے فلانی عورت سے بدکاری کی ہے۔ آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا کہ اُس عورت کو میرے سامنے لاؤ۔ چنانچہ وہ عورت بلائی گئی تو حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا: اے عورت! اُس اللہ کی قسم! جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا کو پھاڑ دیا اور عافیت و سلامتی کے ساتھ دریا کے پار کرا کر فرعون سے نجات دی،سچ سچ کہہ دے کہ اصل بات کیا ہے؟وہ عورت سہم کر کانپنے لگی اور اس نے مجمع ِ عام میں صاف صاف کہہ دیا : اے اللہعَزَّوَجَلَّ کے نبی! مجھ کو قارون نے کثیر دولت دے کر آپ پر بہتان لگانے کے لئے آمادہ کیا ہے۔ حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آبدیدہ ہو کر سجدے میں گرگئے اور بحالت ِ سجدہ آپ نے یہ


دعا مانگی کہ یااللہعَزَّوَجَلَّ! قارون پر اپنا قہر و غضب نازل فرما دے۔ پھر آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے لوگوں سے فرمایا کہ جو قارون کا ساتھی ہو وہ قارون کے ساتھ ٹھہرا رہے اور جو میرا ساتھی ہو وہ قارون سے جدا ہو جائے۔ چنانچہ دو خبیثوں کے سوا تمام بنی اسرائیل قارون سے الگ ہوگئے۔

        پھر حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین! تو اس کو پکڑ لے تو قارون ایک دم گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا پھر آپ نے دوبارہ زمین سے یہی فرمایا تو وہ کمر تک زمین میں دھنس گیا۔ یہ دیکھ کر قارون رونے اور بلبلانے لگا اور قرابت و رشتہ داری کا واسطہ دینے لگا مگر آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اس پر توجُّہ نہیں فرمائی یہاں تک کہ وہ بالکل زمین میں دھنس گیا۔ دو منحوس آدمی جو قارون کے ساتھی ہوئے تھے، لوگوں سے کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قارون کو اِس لئے دھنسا دیا ہے تاکہ قارون کے مکان اور اُس کے خزانوں پر خود قبضہ کرلیں۔ یہ سن کر آپعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اللہعَزَّوَجَلَّ سے دعا مانگی کہ قارون کا مکان اور خزانہ بھی زمین میں دھنس جائے۔چنانچہ قارون کا مکان جو سونے کا تھا اور اس کا سارا خزانہ، سبھی زمین میں دھنس گیا۔(تفسیر صاوی،پ۲۰، القصص،تحت الآیۃ:۸۱،۴ /۱۵۴۶ملخصًا ، عجائب القرآن، ص۱۹۴)؎

گناہوں سے مجھ کو بچا یاالٰہی

بُری عادتیں بھی چُھڑا یا الٰہی(وسائل بخشش ص۱۰۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(41) شکاری خود شکار ہوگیا

         ایک شخص کوکسی بادشاہ کے دربار میں خصوصی رُتبہ حاصِل تھا ۔ وہ روزانہ بادشاہ کے رُوبرو کھڑے ہو کر بطورِ نصیحت کہا کرتا تھا : ’’ اِحسان کرنے والے کے اِحسان کا بدلہ دو ، برے شخص سے بُرائی سے پیش نہ آؤ کیونکہ بُرے انسان کے لئے توخود اُس کی برائی ہی کافی ہے ۔‘‘ بادشاہ اس کی بہترین نصیحتوں کی وجہ سے اُسے بہت محبوب رکھتا تھا۔بادشاہ کی طرف سے دی جانے والی عزت ومحبت دیکھ کر ایک درباری کو اُس شخص سے حَسَد ہو گیا ۔ ایک دن حاسِد درباری اس شخص کی عزّت کے خاتمے کے لئے بادشاہ سے جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگا : یہ شخص آپ کے بارے میں لوگوں سے کہتا پھرتا ہے کہ ’’ بادشاہ کے منہ سے بَہُت بدبو آتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے پوچھا: ’’تمہارے پاس اِس کا کیا ثبوت ہے؟‘‘ اُس نے عَرض کی : ’’ کل اسے اپنے قریب بلا کر دیکھئے، یہ اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لے گا ۔‘‘ اگلے روز حاسِد ، اُس مقرَّب شخص کو اپنے گھر لے گیا اور اُسے بہت ساراکچّے لہسن والا سالن کھلا دیا۔ یہ مُقرَّب شخص کھانے سے فارِغ ہو کر حسبِ معمول دربار پہنچا اور بادشاہ کے رُوبَرو نصیحت بیان کی ۔ بادشاہ نے اُسے اپنے قریب بلایا، اُس نے اِس خیال سے کہ میرے مُنہ کی لَہسن کی بو بادشاہ تک نہ پہنچے، اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا ۔ بادشاہ کو اِس حَرَکت کے باعِث یقین ہو گیا کہ دوسرا درباری دُرُست کہہ رہا تھا۔ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے ایک ’’عامِل ‘‘ (یعنی سرکاری اہل کار)کو خط لکھا: اِس خط کے لانے والے کی فوراً گردن اُڑا دو اور اِس کی


لاش میں بُھس بھر کر ہماری طرف روانہ کرو۔

         بادشاہ کی یہ عادت تھی کہ جب کسی کو اِنعام و اِکرام دینا مقصود ہوتا تو خود اپنے ہاتھ سے خط لکھتا ، اِس کے علاوہ کوئی بھی حُکْم اپنے ہاتھ سے نہ لکھتا تھالیکن اِس مرتبہ اُس نے خلافِ معمول اپنے ہاتھ سے سزا کا  حُکم لکھ دیا ۔ جب وہ مُقَرَّب آدَمی خط لے کر شاہی مَحَل سے باہَر نکلا تو حاسِد نے اُس سے پوچھا: ’’یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا: ’’بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے فُلاں عامِل کے لئے خط لکھا تھا، یہ وُہی ہے۔‘‘ حاسِد نے خط لکھنے کے سابِقہ طریقے پر قِیاس کرتے ہوئے لالچ میں آ کر کہا : ’’ یہ خط مجھے دے دو۔‘‘مُقَرَّب نے اعلیٰ ظَرفی کا مُظاہَرہ کرتے ہوئے خط اس کے حوالے کر دیا۔ حاسِد فوراً عامِل کے پاس پہنچا اور خط اس کے ہاتھ میں دینے کے بعد اِنعام و اِکرام طلب کیا ۔ عامِل نے کہا: ’’ اِس میں تو خط لانے والے کے قتل کرنے کا  حُکم دَرج ہے۔‘‘ اب تو حاسِد کے اَوسان خطا ہو گئے، بڑی عاجِزی سے بولا: ’’یقین کرو کہ یہ خط تو کسی دوسرے شخص کے لئے لکھا گیا تھا، تم بادشاہ سے معلوم کروا لو۔‘‘عامِل نے جواب دیا: ’’ بادشاہ سلامت کے حُکم میں کسی’’ اگر مگر‘‘ کی گنجائش نہیں ہوتی ۔‘‘ یہ کہہ کر اسے قتل کروا دیا۔

         دوسرے دن مُقَرَّب آدمی، حسبِ معمول دربار میں پہنچا اور نصیحت بیان کی۔ بادشاہ نے مُتَعجِّب ہو کر اپنے خط کے بارے میں پوچھا۔اُس نے کہا :’’ وہ تو مجھ سے فُلاں درباری نے لے لیا تھا۔‘‘ بادشاہ نے کہا : ’’ وہ تو تمہارے بارے میں بتاتا تھا کہ تم


مجھے گندہ دَہَن(یعنی بدبودارمنہ والا) کہا کرتے ہو !‘‘ مقرَّب شخص نے عَرض کی: ’’میں نے تو کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی ۔ ‘‘ بادشاہ نے منہ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ دریافت کی، تو اِس نے عَرض  کی : ’’ اس شخص نے مجھے بہت سا کچّالَہسن کھلا دیا تھا ،میں نہیں چاہتا تھا  کہ اس کی بُو آپ تک پہنچے۔‘‘ بادشاہ سارا معاملہ سمجھ گیا اور کہا:تم اپنی جگہ پر لوٹ جاؤ،تم نے سچ کہا،برے آدمی کی برائی اسے کفایت کرگئی۔ (احیاء علوم الدین،کتاب ذم الغضب۔۔الخ، بیان ذم الحسد،۳/۲۳۳ )

شکار کرنے چلے تھے،شکار ہوبیٹھے

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے حَسَد ولالچ کے مَذْمُوم(یعنی بُرے)  جذبے نے دَرباری کو کیسی خطرناک اور شَرمناک سازِش کرنے پر تیار کیا لیکن ’’خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘ کے مِصْدَاق وہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر موت کے منہ میں جاپہنچا ۔ نیزاِس حِکایت سے یہ دَرس بھی ملا کہ کسی کی نعمتیں یا فضیلتیں دیکھ کر دل نہیں جلانا چاہئے اورنہ ہی اُس سے نعمتوں کے چِھن جانے کی تمنّاکرنی چاہئے کیونکہ اسے یہ سب کچھ دینے والا ہمارا خالِق ومالِک عَزَّوَجَلَّ ہے اوروہ بے نیاز ہے جس کو چاہے جتنا چاہے نَواز دے، ہم کون ہوتے ہیں اس کی تقسیم پر اِعتراض یا شکوہ کرنے والے!؎

رِہائی مجھ کو ملے کاش ! نفس وشیطاں سے

تِرے حبیب کا دیتا ہوں واسطہ یاربّ(وسائل بخشش ص ۷۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(42)یہ میری ذمہ داری نہیں ہے

        وَقْت بے وَقْت کسی کو ٹوکتے رہنے ،ڈانٹ پلانے یا جھاڑنے کی عادت سے ممکن ہے کہ وہ ایسے وقت میں ہماری مدد سے انکار کردے جب ہم شدید پریشانی میں مدد کے طلب گار ہوں۔ اس بات کو ایک حکایت سے سمجھنے کی کوشش کیجئے: چنانچِہ ایک نک چڑھا رئیس اپنے نوکروں کو وَقْت بے وَقْت ڈانٹتا جھاڑتا رہتا تھا جس کی وجہ سے نوکروں کے دل میں اس کی عداوت بیٹھ چکی تھی۔اس رئیس نے ہر نوکر کو اس کی ذمہ داریوں کی تحریری لسٹ(List) بنا کر دی ہوئی تھی اگر کوئی نوکر کبھی کوئی کام چھوڑ دیتا تو رئیس اُسے وہ لسٹ دِکھا دِکھا کر ذلیل کرتا ۔ایک مرتبہ وہ گھڑ سواری کا شوق پورا کرکے گھوڑے سے اُتر رہا تھا کہ اُس کا پاؤں رِکاب میں اُلجھ گیااسی دوران گھوڑا بھاگ کھڑا ہوا ،اب رئیس اُلٹا لٹکاگھوڑے کے ساتھ ساتھ گھسٹ رہا تھا ۔ اس نے پاس کھڑے نوکر کو مدد کے لئے پکارا مگر اسے تو بدلہ چُکانے کا موقع مل گیا تھا ،چنانچہ اس نے اپنے مالک کی مدد کرنے کے بجائے جیب سے رئیس کی دی ہوئی لسٹ نکالی اور دُور ہی سے اس کو دکھا کر کہنے لگا کہ اِس میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اگر تمہارا پاؤں گھوڑے کی رِکاب میں اُلجھ جائے تو اسے چُھڑانا میری ڈیوٹی ہے ۔ یہ سن کر رئیس نوکروں سے کئے ہوئے بُرے سلوک پر پچھتانے لگا ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(43)پانچ درہم بھی مل گئے اور پانی بھی

        حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکا بیان ہے :ایک بار سفر کے دوران مجھے ایک خشک بیابان سے گزرنا پڑا،اس دوران مجھے پیاس لگی لیکن کہیں سے پانی دستیاب نہ ہوسکا۔میں نے ایک اَعرابی کو دیکھا جس کے پاس پانی کا مشکیزہ تھا۔میں نے اس سے پوچھا کہ پانی کا یہ مشکیزہ کتنے کا بیچو گے؟اس نے کہا:پانچ درہم میں۔میں نے قیمت کم کرانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا اور آخر میں نے پانچ درہم کے بدلے اس سے مشکیزہ خرید لیا۔کچھ دیر بعد میں نے اس سے کہا: میرے بھائی!میرے پاس ستو موجود ہیں ،کیا آپ کھائیں گے؟اس نے کہا:کیوں نہیں ،چنانچہ ایک پیالے میں ڈال کر اسے ستّو دئیے گئے اور وہ انہیں کھانے لگا۔ستو کھاکر اسے پیاس لگی اور اس نے پوچھا:پانی کا ایک پیالہ کتنے کا ملے گا؟میں نے کہا:پانچ درہم میں ،اس نے منت سماجت کی لیکن میں نہ مانا۔آخر کار اس نے پانچ درہم کے بدلے پانی کا پیالہ حاصل کیا،اس طرح مجھے پانی بھی حاصل ہوا اور اپنے پانچ درہم بھی واپس مل گئے۔(المناقب للموفق،۱/۱۸۹)

        اس حکایت میں گراں فروشوں (یعنی بہت مہنگا مال بیچنے والوں ) کے لئے درسِ عبرت ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بطورِ کریانہ فروش آپ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہوں اور کوئی ڈاکٹر آپ کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار بیٹھا ہو، جو رقم آپ کمائیں وہ کسی ڈاکٹر کسی مکینک کسی الیکٹریشن کی جیب میں چلی جائے ، کر بھلا ہوبھلا۔


(44)ماں کے گستاخ کو زمین زندہ نگل گئی!

        کسی گاؤں میں ایک کِسان کے گھر کے اندر ساس بَہُو کے درمیان ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی،کئی بارکِسان کی بیوی روٹھ کرمَیکے چلی جاتی اوروہ مِنّت سَماجت کر کے اُس کو لے آتا۔آخِری بار بیوی نے کسان سے کہہ دیا کہ اب اِس گھر کے اندر میں رہوں گی یا تمہاری ماں۔کِسان اپنی بیوی پرلَٹّو تھا،اِس نادان نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ روز روز کے جھگڑے کا حل یِہی ہے کہ ماں کو راستے سے ہٹا دیاجائے۔ چُنانچِہ ایک بار وہ کسی حیلے سے ماں کو اپنے گنّے کے کھیت میں لے گیا،گنّے کاٹتے کاٹتے موقع پا کر ماں کا رُخ کر کے جُوں ہی اُس پر کلہاڑی کا وار کرنا چاہا ایک دم زمین نے اُس کِسان کے پاؤں پکڑ لئے،کلہاڑی ہاتھ سے چھوٹ کر دُور جا پڑی اورماں گھبرا کر چِلّاتی ہوئی گاؤں کی طرف بھاگ نکلی۔زمین نے آہِستہ آہِستہ کِسان کو نگلنا شُروع کر دیا،وہ گھبرا کر چیختا رہا اور اپنی ماں کو پکار پکار کر مُعافی مانگتا رہالیکن ماں بَہُت دُور جا چُکی تھی،کچھ دیر بعد جب لوگ وہاں پہنچے تو وہ چھاتی تک زمین میں دھنس چکا تھا،لوگ اُسے نکالنے کی ناکام کوششیں کرتے رہے مگر زمین اُسے نگلتی ہی رہی یہاں تک کہ وہ زمین کے اندرسَما گیا۔

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!توبہ!توبہ!!لرزاٹھو!!!اور اگر ماں باپ کو کبھی ناراض کیا ہے تو جلدی جلدی ان کے قدموں میں گر کر رو رو کر ان سے مُعافی کی بھیک مانگ لو،یہ تو دنیا کی سزا تھی جو اُس ماں کے نافرمان نادان کسان کی دیکھی گئی اگر وہ


 کسان مسلمان تھا تو ہم خدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ سے اس کیلئے رحم و کرم کی درخواست کرتے ہیں۔دنیا کی سزا جب ناقابلِ برداشت ہوا کرتی ہے تو آخِرت کی سزا کیسے سہی جا سکے گی۔(نیکی کی دعوت،ص۴۳۸)؎

دل دکھانا چھوڑ دیں ماں باپ کا

ورنہ ہے اس میں خسارہ آپ کا(وسائل بخشش،ص۷۱۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

ماں باپ کے نافرمان کوجیتے جی سزا ملتی ہے

       سرکارِمدینہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب گناہوں کی سزا اللہعَزَّوَجَلَّ چاہے تو قِیامت کیلئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتاہے ۔(مُستَدرَک،کتاب البر والصلۃ،باب کل الذنوب۔۔الخ،۵/۲۱۶،حدیث: ۷۳۴۵ )

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے  مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے

کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تُو نے   جو آباد تھے وہ محل اب ہیں سُونے

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


جیسا بوئیں گے ویسا کاٹیں گے

        ہمیں اپنی زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب عبادت کر لینی چاہئے کہ مرنے کے بعد اِس کا موقع نہ مل سکے گا۔ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب لوگوں کے پاس بیٹھتے تو فرماتے:’’اے لوگو!شب و روز گزرنے کے ساتھ ساتھ تمہاری عمریں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں ، تمہارے اعمال لکھے جارہے ہیں۔ موت اچانک آئے گی ،پس جو نیکی کی فصل بوئے گا جلد ہی اسے شوق سے کاٹے گا اور جوبرائی کی کھیتی بوئے گااسے ندامت کے ساتھ کاٹنا پڑے گا ۔ ہر ایک اپنی ہی اُگائی ہوئی کھیتی کاٹے گا۔سستی و کاہلی کرنے والا اپنے عمل کے ذریعے آگے کبھی نہیں بڑھ پائے گا اور حرص و لالچ میں مبتلا صرف اپنا مقدرہی حاصل کر پائے گا ۔ جسے بھی بھلائی کی توفیق ملی وہ  اللہعَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف سے ہے اور جسے برائی سے بچایا گیا تووہ بھی  اللہعَزَّوَجَلَّہی کے کرم سے ہے۔ متقی وپرہیزگارعام لوگوں کے سردار اور فقہا، رہنماہیں۔ان کی صحبت اختیارکرنا نیکیوں میں اضافے کا سبب ہے۔‘‘(الزہد للامام احمد،باب فضل ابی ہریرۃ،ص۱۸۳،رقم:۸۸۹)

(45)اذا ن کا مذاق اڑانے والے کا انجام

         ایک غیر مسلم جب موذن کو اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللہکہتے سنتا تو کہتا:جھوٹا جل جائے(مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)۔ایک دن اس کی خادمہ رات میں آگ لیکر آئی تو اس میں سے ایک چنگاری اُڑی جس سے گھر میں آگ لگ گئی اور وہ شخص


اپنے اہل خانہ سمیت جل کر ہلاک ہوگیا۔(تفسیر کبیر،پ۶،المائدۃ،تحت الآیۃ:۵۸،۴/۳۸۸)

 ناچ رنگ کی مَحفِل جاری تھی کہ۔۔۔

      ۳رَمَضانُ المبارَک ۱۴۲۶ھ بمطابِق 8.10.05  کو اسلام آباد کی پُر شکوہ عمارت ’’مارگَلہ ٹاور‘‘ میں کچھ مغرِبی تہذیب کے دلداہ مسلمانوں نے یہود ونصاریٰ کے ساتھ مل کرمَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!اِحتِرامِ رَمَضانُ المبارَک کوبالائے طاق رکھ کر شراب پی کر خوب ناچ رنگ کی محفل برپا کی ۔ یہ لوگ اپنی عاقِبت کے انجام سے بِالکل بے خبر گناہوں کے اِن گِھنونے کاموں میں ابھی مشغول تھے کہ اچانک خوفناک زَلزلہ آیا اور اس نے عیش پرستوں کی تمام ترمسرَّتوں اور سر مستیوں کوخاک میں ملا کر رکھ دیا! 

کٹا ہوا سر

          اسلام آبادمارگَلہ ٹاور کے ملبہ میں ایک شَخص کا کٹاہواسر ملا، دھڑنہ مل سکا اس کے بعض شناساؤں نے بتایاکہ یہ بد نصیب شخص جب اذان شروع ہوتی تو گانوں کی آواز مزید اونچی کرلیتاتھا۔

یاد رکھ تُو موت اچانک آئیگی

ساری مستی خاک میں مل جائیگی

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(46)چور اپاہج ہوگیا

        حضرتِ شیخ ابوالحسن نوری علیہ رحمۃُ اللہِ القوی لبِ دریا کپڑے رکھ کر پانی میں غسل کرنے کے لئے گئے، اتنے میں ایک چور آپ کے کپڑے لے کر نو دو گیارہ ہوگیا۔ جب آپ غسل کرکے واپس آئے تو ادھر سے چور بھی حضرت کے کپڑے لئے واپس آگیا، اس کے ہاتھ معذور ہوگئے تھے۔ آپ نے اپنے کپڑے پہن لئے تو دعامانگی: مالک و مولا !اس نے میرے کپڑے واپس کردیئے تو اس کی تندرستی اور صحت اسے واپس کردے۔وہ فوراً صحت یاب ہوکر چلا گیا۔(روض الریاحین،ص۲۹۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(47) محل ویران ہوگیا

        ایک اسرائیلی مومنہ کا واقعہ ہے کہ اس کا مکان شاہی محل کے سامنے تھا جس کی وجہ سے محل کی خوشنمائی داغدار ہورہی تھی۔ بادشاہ نے باربار کہا کہ یہ مکان میرے ہاتھ فروخت کردو مگر وہ راضی نہیں ہوئی اور انکار کردیا۔ ایک بار جب وہ سفر پر گئی تو بادشاہ نے اس کی جھونپڑی گرا دینے کا حکم دے دیا ،جب وہ واپس آئی تو اپنی گری ہوئی جھونپڑی دیکھ کر پوچھا: یہ کس نے گرائی ؟ اسے بتایا گیا :بادشاہ نے ۔وہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر عرض کرنے لگی: اے میرے مالک ، اے میرے مولا ! میں سفر میں تھی مگر تُو تو موجود تھا، کمزوروں اور مظلوموں کا تو ہی تو مددگار ہے، یہ کہہ کر وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔ بادشاہ جب سواری پر ادھر سے گزرا تو پوچھا:کس کا انتظار کررہی ہو ؟ کہنے لگی:


تیرے محل کے ویران ہونے کاانتظار ہے، یہ سن کر بادشاہ ہنسا اور اس مظلومہ کا مذاق اڑایامگر جب رات ہوئی تو بادشاہ کا محل زمیں بوس ہوگیا اور بادشاہ مع اہل خانہ اس میں دفن ہوگیا۔محل کی ایک دیوار پر کچھ اشعار لکھے ہوئے نظر آئے جن کا مفہوم یہ ہے:

        کیا دعا کو حقیر جان کر اس کا مذاق اُڑاتا ہے، کیا اسے معلو م نہیں کہ دعا نے کیا کر ڈالا؟ رات کے تیر کبھی خطا نہیں کرتے، لیکن اس کے لئے ایک وقفہ ہوتا ہے، اور مدت کا اختتام کبھی تو ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہی کیا جو تو نے دیکھااور تمہاری بادشاہی کو دوام ہرگزنہیں۔(روض الریاحین،ص۲۵۳)

اُونچے اُونچے مکان تھے جن کے    تنگ قبروں میں آج آن پڑے

آج وہ ہیں نہ ہیں مکاں باقی         نام کو بھی نہیں ہیں نشاں باقی

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(48) مجھے آگے جاکر پھینکو

        کہتے ہیں ایک جوان اپنے بوڑھے باپ سے تنگ آ کر اس کو دریا میں پھینکنے گیا۔ باپ نے کہا: بیٹا!مجھے ذرا اور آگے گہرائی میں جا کر پھینکو۔ بیٹے نے کہا: یہاں کنارے پہ کیوں نہیں اور وہاں گہرائی میں کیوں ؟ باپ نے جواب دیا:اس لئے کہ یہاں تو میں نے اپنے باپ کو پھینکاتھا۔ یہ سن کربیٹا کانپ اٹھا کہ کل یہی انجام میرا ہو گا۔ وہ باپ کو گھر لے آیا اور اس کی خدمت شروع کر دی۔

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ آج آپ اپنے


ماں باپ کی نافرمانی کریں اور کل آپ کی اولاد آپ کی فرمانبردار ہو اور آپ کے لئے فتنہ، آزمائش اور جگ ہنسائی کا باعث نہ بنے۔کانٹے بو کر گلاب کی توقُّع رکھنا بے کار ہے۔ خزاں کے موسم میں بہار کی اُمیدیں باندھنا نادانی ہے۔ بَنجر زمینوں میں بیج بو کر نخلستانوں کے خواب دیکھنا حماقت ہے۔ اگر موتیے، چنبیلی اور گلاب کی پیوند کاری کریں گے تو یقینا طرح طرح کی خوشبوؤں سے آپ کی زندگی مہک جائے گی ،یہی قانونِ قدرت ہے۔آج سے اپنے والدین کو پھولوں کی سیج پر بٹھائیں ، ان کے احکامات سر آنکھوں پر رکھیں ، انھیں اُف تک نہ کہیں تاکہ کل آپ کی اولاد آپ کے سر پر عزت و وقار اور قدر دانی کا تاج پہنائے۔ یہ دنیا دارُالعمل ہے، آخرت دارُالجزا ہے۔ دارالجزا میں بدلہ پانے سے پہلے اس دنیا میں ہی بہترین جزا کے حقدار بن کر دکھائیں تاکہ اللہ تعالٰی کی رضا اور رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت کے حقدار ٹھہریں۔

        اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنلکھتے ہیں :بے عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت وتوانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں جلد نظر آجائے گا کہ جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے ہوئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گے،(کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ) جیسا کرو گے ویسا بھرو گے(ت)۔(فتاوی رضویہ ،۲۴/۴۲۴)


(49)بوڑھی ماں

         شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی کتاب ’’نیکی کی دعوت‘‘ کے صفحہ 442پر لکھتے ہیں :انگلینڈ کے ایک جَریدے میں کچھ اِس طرح کا سنسی خیز قِصّہ لکھا تھا ، ایک ماں کی ایک ہی اکلوتی بیٹی ’’ مَیری‘‘ MARYکے علاوہ کوئی اولاد نہیں تھی، ’’ مَیری‘‘ جب جوان ہوئی تو ماں نے ایک کھاتے پیتے اورسماجی طور پر مُعزَّز نوجوان سے اُس کی شادی کردی اور خود بھی انہیں کے ساتھ مُقیم ہو گئی ۔ ان کے یہاں ایک چاند سی مُنّی پیدا ہوئی، اُس کا نام اِلیْزَبِیْتْھ(ELIZABETH) رکھا گیا ، نانی کو گویا ایک کھلونا مل گیا ، نواسی اِلیْزَبِیْتْھ اُس کے ساتھ خوب ہِل گئی، وَقت گزرتا گیااِدھر  اِلیْزَبِیْتْھ بڑی ہوتی جا رہی تھی تو اُدھر نانی بڑھاپے کی طر ف رواں دواں تھی۔ اب ننھی  اِلیْزَبِیْتْھاتنی سنبھل گئی تھی کہ اپنے کپڑے وغیرہ خود تبدیل کر لیتی تھی ۔ ’’ مَیری‘‘ نے سوچا ماں اب بوڑھی ہو چکی ہے، مہمان وغیرہ آتے ہیں تو اُن میں یہ جچتی نہیں ہے، لہٰذا اُس نے ماں کو بوڑھوں کے خُصُوصی گھریعنی اَولڈ ہاؤس(OLD HOUSE)میں داخِل کروا دیا، ماں نے بَہُت احتجاج کیا، گھر میں اپنی ضَرورت کا اِحساس دلایا، نواسی اِلیْزَبِیْتْھ کی پرورش کا عُذر کیا،مگر اس کی ایک نہ چلی۔ اِلیْزَبِیْتْھ کو بھی نانی سے پیار ہو گیا تھا،اُ س نے بھی نانی کی بَہُت حمایت کی مگر اُس کی بھی شِنوائی نہ ہوئی۔ ’’ مَیری ‘‘حیلے بہانے کرتی رہی کہ مکان میں تنگی ہو رہی ہے، آپ بے فکر رہیں ہم وقتاً فوقتاً


اولڈ ہاؤس ملنے آیا کریں گے، ہفتہ اتوار(دو دن) گھر پربھی لایا کریں گے، بھلا اولڈ ہاؤس میں جانے سے کوئی رشتے بھی ٹوٹتے ہیں ! شُروع شُروع میں ’’مَیری‘‘ نے ماں سے ملاقاتیں بھی کیں مگر رفتہ رفتہ اِس میں فاصِلے بڑھتے گئے ۔ اور بالآخِر ’’انتِظار‘‘ بڑھیا کا مقدّر بن گیا۔ وہ مَحَبَّت بھرے لمبے لمبے خط تیّار کرتی ، نواسی  اِلیْزَبِیْتْھکو پیار لکھتی مگر کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ ایکبا رخط میں بیٹی نے لکھا کہ اب کی بار کرسِمس (CHRISTMAS)کی اگلی رات میں آپ کو لینے آؤں گی، گھر چلیں گے۔ بڑھیا کی خوشی کی انتِہا نہ رہی، اُس نے اُون(WOOL)سے اپنی پیاری نواسی کیلئے سوئیٹر وغیرہ بُناتاکہ اُسے تحفے میں دے۔ 24دسمبر کو رات سخت برفباری تھی’’ مَیری‘‘ نے لینے کیلئے آناتھا اس لئے وہ اپنا ’’ تحفۂ محبَّت ‘‘ لئے انتِظار میں بلڈنگ کی بالکونی میں بیٹھی بے قراری کے ساتھ سڑک پر آنے جانے والی ہر گاڑی کو غور سے دیکھ رہی تھی کہ دیکھو’’مَیری‘‘ کی گاڑی کب آتی ہے! اولڈ ہاؤس کی ایک خادِمہ لڑکی’’ نَینسی‘‘ (NENSI) کو بڑھیا کی بیقراری دیکھ کر بڑا ترس آرہا تھا اُس نے ہیٹر والے کمرے میں چلنے کیلئے بَہُت اِصرار کیا مگر بڑھیا نہ مانی۔ نَینسی نے ایک گرم شال لا کر اُسے اُڑھا دی اورہمدردی کے ساتھ بار بارگرما گرم چائے پیش کرتی رہی ،بُڑھیا نے سخت سردی کے اندر ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے انتِظار میں ساری رات جاگ کر گزار دی مگر بیٹی نے نہ آنا تھا، نہ آئی۔ شدید سردی کی وجہ سے بُڑھیا کو سخت نَمونیا ہو گیا،جو کہ سردی لگنے،کھانسی ہو جانے اور گلا خراب ہونے سے لاحق ہو تا ہے، اِس میں پھیپھڑے کے کسی حصّے میں


سُوجن ہو جاتی ہے، جس سے وہاں ہوا نہیں جا سکتی اور مریض کوسانس لینے میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور اِس کا درجۂ حرارت (یعنی بخار)105 ڈگری تک بڑھ جاتا ہے ۔ اِس بیماری کی تاب نہ لاتے ہوئے بُڑھیا نے دم توڑدیا۔ کچھ دن بعد’’ مَیری‘‘ اپنی ماں کا سامان لینے اولڈہاؤس آئی، اُس نے وہاں کی خادِمہ نَینسی کا بَہُت شکریہ ادا کیا کیوں کہ وہ آخِری وَقت تک اُس کی بوڑھی ماں کی خدمت کرتی رہی تھی، چونکہ نَینسی ابھی جوان تھی اورکافی خدمت گزار بھی، اِ سلئے ’’ مَیری ‘‘ نے بہتر تنخواہ کا لالچ دیکر اُسے اپنے گھر خدمتگاری کے کام کیلئے چلنے کی آفر کی۔ ’’ نَینسی ‘‘ نے چوٹ کرتے ہوئے کہا: آپ کے گھر ضَرور آؤں گی ، مگر ابھی نہیں ، جس دن آپ کی بیٹی  اِلیْزَبِیْتْھآپ کو یہاں اَولڈہاؤس میں چھوڑ جائیگی ، میں اُس کے ساتھ اُس کی خدمت کیلئے چلی جاؤں گی۔

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ تو ایک غیر مسلم خاندان کا واقِعہ تھا، اسے سُن کر آپ کو شاید کچھ عجیب سامحسوس ہورہا ہو گا۔ غیر اسلامی مُمالِک میں بکثرت اولڈ ہاؤس ہیں او ر افسو س اب ان کی دیکھا دیکھی اسلامی ملکوں حتّٰی کہ پاکستان میں بھی اس کا آغاز ہو چکا ہے! دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں 16ربیعُ النور شریف۱۴۳۲ھ؁(19.2.2011)کو مُعمَّرحضرات  (یعنی بوڑھوں )کا مَدَنی مذاکرہ ہوا تھا جس میں مُلک بھر سے ہزاروں سِن رَسیدہ بزرگوں نے شرکت کی تھی اوریہ مدنی مذاکرہ ’’ مدنی چینل ‘‘ پر براہِ راست ٹیلی کاسٹ (TELECAST)کیا گیا تھا۔ کسی پاکستانی اولڈہاؤس میں مقیم دو نہایت کمزور بزرگوں نے اسلامی بھائیوں سے


نہایت غمگین لہجے میں اپنا درد بیان کیا اور اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر چلے جانے پر اپنے عزیزوں کے متعلّق نہایت تَأَ سُّف و حسرت کا اظہارکیا اور کہاکہ ہماری آرزو ہے کہ ہمارے خاندان والے ہمیں گھر واپس لے چلیں ہم یہاں کافی دُکھی ہیں۔ ہائے ! ہائے!وہ اولاد کتنی احسان فراموش اور ناخَلَف و نالائق ہے جو بچپن میں ماں باپ کی طرف سے کئے جانے والے تمام احسانات کو فراموش کر کے بُڑھاپے میں انہیں ٹھکرا دیتی ہے۔ حالانکہ بڑھاپے میں تو بے چاروں کو ہمدردیوں کی زیادہ حاجت ہوتی ہے۔ اسلامی بھائیو ! آپ عہد کیجئے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ماں باپ کو عمر بھر نبھائیں گے اور ان کی خدمت کرکے خود کو جنَّت کا حقدار بنائیں گے ۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ۔(نیکی کی دعوت، ص۴۴۲)؎

مُطِیع اپنے ماں باپ کا کر میں انکا

ہر اِک حکم لاؤں بجا یاالٰہی(وسائل بخشش ،ص۱۰۱)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دنیا میں بھی مل کر رہتا ہے

        علامہ ابنِ جوزی علیہ رحمۃُ اللہِ القوی لکھتے ہیں :  اللہعَزَّوَجَلَّ نے دنیا میں جو بھی چیز پیدا فرمائی وہ آخرت کا نمونہ ہے اسی طرح دنیا میں پیش آنے والے معاملات بھی اخروی معاملات کا نمونہ ہیں۔حضرت سیدنا عبدُاللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں :جنت کی نعمتیں صرف اپنے ناموں میں دنیوی اشیاء کے مشابہ ہیں


(یعنی جنت کی نعمتوں کی حقیقت دنیوی چیزوں سے مختلف ہے)۔اس کا سبب یہ ہے کہ  اللہعَزَّوَجَلَّنے دنیوی نعمتوں کے ذریعے اخروی نعمتوں کا شوق دلایا اور دنیوی عذابات کے ذریعے آخرت کے عذابوں سے ڈرایا ہے۔دنیا میں جاری معاملات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ظلم کرنے والے کوآخرت کے بدلے سے پہلے دنیا میں ہی اس کے ظلم کا بدلہ مل جاتا ہے یونہی دیگر گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ اللہعَزَّوَجَلَّکے فرمان عالی شان: مَنۡ یَّعْمَلْ سُوۡٓءًا یُّجْزَ بِہٖ ۙترجَمۂ کنزالایمان: جو برائی کرے گااس کا بدلہ پائے گا۔(پ۵،النساء :۱۲۳) کا یہی مفہوم ہے۔بعض اوقات گناہوں کا ارتکاب کرنے والا شخص اپنے بدن اور مال کو سلامت دیکھ کر یہ گمان کرتا ہے کہ اسے کوئی سزا نہیں مل رہی حالانکہ اس کا اپنی سزا سے غافل ہونا بھی ایک قسم کی سزا ہے۔

        حکماء فرماتے ہیں :ایک گناہ کے بعد دوسرے گناہ میں مبتلا ہونا پہلے گناہ کی سزا ہے جبکہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کی توفیق ملنا پہلی نیکی کا بدلہ ہے۔بعض اوقات گناہوں کی جلد ملنے والی سزا (حسی اورظاہری نہیں بلکہ) معنوی (باطنی،روحانی) ہوتی ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کے ایک عبادت گزار شخص نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی:اے میرے رب!میں تیری کتنی نافرمانی کرتا ہوں لیکن تو مجھے سزا نہیں دیتا۔ جواب دیا گیا:میں تجھے سزا دیتا ہوں لیکن تجھے اس کا احساس نہیں ہوتا،کیا میں نے تجھے مناجات کی حلاوت (مٹھاس)سے محروم نہیں کردیا؟


        جو شخص سزا کی اس قسم کے بارے میں غور کرے گا وہ اسے اپنی تاک میں پائے گا یہاں تک کہ حضرت سیدنا وہب بن وردرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں عرض کی گئی:کیا گناہ کرنے والا اطاعت کی لذت پاتا ہے؟ارشاد فرمایا:(گناہ کا ارتکاب کرنے والا تو دور)گناہ کا ارادہ کرنے والا بھی اطاعت کی لذت نہیں پاسکتا ۔ چنانچہ جو شخص اپنی نگاہوں کو آزاد چھوڑتا ہے(یعنی بدنگاہی سے نہیں بچاتا)وہ نگاہِ عبرت سے محروم ہوجاتا ہے،زبان کی حفاظت نہ کرنے والا دل کی صفائی سے محروم ہوجاتا ہے،کھانے کے معاملے میں شبہات سے نہ بچنے والے کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ رات میں عبادت اور مناجات ودعا کی حلاوت(مٹھاس)سے محروم رہتا ہے۔یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ نفس کا محاسبہ کرنے والے حضرات اس سے واقف ہوتے ہیں۔گناہوں کی جلد سزا ملنے کی طرح نیکیوں کا معاملہ بھی ہے کہ ان کی جزاء بھی جلد(دنیا میں ہی)مل جاتی ہے،جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:عورت کی طرف دیکھنا شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے،جس نے میری رضا کے حصول کیلئے اسے ترک کیا تو میں اسے ایسا ایمان عطا کروں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔حضرت سیدنا عثمان نیشا پوری علیہ رحمۃُ اللہِ القوی کا بیان ہے :میں نمازِ جمعہ کیلئے جارہا تھا کہ میرے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ میں اسے دُرُست کرنے کیلئے ٹھہرا اور پھر میں نے کہا :یہ تسمہ اسلئے ٹوٹا ہے کیونکہ میں نے غسلِ جمعہ نہیں کیا۔(صید الخاطر،ص۳۷، ملخصاً))


؎

گناہوں کے امراض سے نیم جاں ہوں

پئے مُرشِدی دے شِفا یاالٰہی(وسائل بخشش ،ص۱۰۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(50)جھوٹے گواہ بننے والے غرق ہوگئے

          حضرتِ سیِّدُنا محمد بن فَرْجی علیہ رحمۃُ اللہِ الولیفرماتے ہیں : میں حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃُ اللہِ القویکے ساتھ ایک کشتی میں سوار تھا کہ ایک اور کشتی ہمارے پاس سے گزری ۔ کسی نے حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃُ اللہِ القویکو بتایا:یہ کشتی والے بادشاہ کے پاس جارہے ہیں اور وہاں جاکر آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکے خلاف کفْر(یعنی مَعَاذَ اللہعَزَّوَجَلَّ!آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکے کافر ہونے) کی گواہی دیں گے ۔ یہ سن کر آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہنے اس کشتی کے غرق ہوجانے کی دعا کی ۔ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکے دعا کرتے ہی ان کی کشتی اُلٹ گئی اور سب کے سب ڈوب گئے ۔ حضرتِ سیِّدُنا محمد بن فَرْجی علیہ رحمۃُ اللہِ الولیفرماتے ہیں : میں نے عرض کی : حضور! ملاح (کشتی چلانے والے )کا کیا قصور تھا ؟ فرمایا: اس نے ان لوگوں کو کیوں سوار کیا حالانکہ وہ ان کے مقصدِ سفر کو جانتا تھا۔پھر فرمایا:ان لوگوں کا اللہعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں غرْق ہو کر حاضر ہونا جھوٹا گواہ بن کر حاضر ہونے سے بہترہے ۔اس کے بعد آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکی کیفیت تبدیل ہوئی اور آپ کانپتے ہوئے فرمانے لگے : اللہعَزَّوَجَلَّ کی عزت و شان کی قسم ! میں آئندہ کسی کے لئے بد دعا نہیں کروں گا۔


پھر ایک دن آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکو بادشاہِ مصر نے بلایا اور آپ  کے عقائد کے بارے میں پوچھنے لگا، آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہنے وہاں اَحسن انداز سے اپنے عقائد کو بیان کیا جنہیں سن کر وہ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ سے خوش ہوگیا ، اس کے بعد ایک دن آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکو خلیفہمُتَوَکِّلْ بِاللہ نے بھی طلب کیا ، اس نے بھی جب آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکے نظریات و افکار ملاحظہ کئے تو آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہکا اتنادلدادہ اور گرویدہ ہوگیا کہ کہا کرتا تھا : جب بھی اللہعَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں کا ذکر ہو تو سب سے پہلے حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃُ اللہِ القویکا ذکر کیا کرو ۔ (سیراعلام النبلائ،ذوالنون المصری،۱۰/۱۸ ،رقم الترجمہ:۱۹۵۱)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(51)آج تو مجھے قتل ہی کرا دیا تھا

                      خلیفہ منصور کے مصاحِب ربیع کو حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہسے چَشْمَک تھی،ایک دن امام صاحب کے موجودگی میں اس نے خلیفہ سے کہا:اے امیر المومنین!ابوحنیفہ آپ کے جدِّ امجد حضرت سیدناعبدُاللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی مخالفت کرتے ہیں ،اُن کا قول ہے کہ اگر کوئی قسم کھائے اور پھر اس کے ایک دو دن بعد بھی اِنْ شَآءَاللہ  کہہ دے تو اس کا استثناء صحیح ہے لیکن ابوحنیفہ کے نزدیک صرف وہی استثناء درست ہے جو قسم سے متصل ہو(یعنی قسم کے فوراً بعد


اِنْ شَآءَاللہ کہا گیا ہو)۔یہ سن کر حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہنے ارشاد فرمایا:اے امیر المومنین!ربیع کا گمان یہ ہے کہ آپ کے لشکر کی آپ سے بیعت درست نہیں ہے۔منصورنے سبب پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا:اس جگہ قسم کھاکر بیعت کرلی اور پھر گھر میں جاکر اِنْ شَآءَاللہ کہہ کر بیعت کو توڑ دیا۔یہ سن کر خلیفہ منصور ہنسنے لگا اور اس نے ربیع سے کہا:اے ربیع !امام صاحب کے پیچھے نہ پڑا کرو۔جب دربار سے باہر نکلے تو ربیع نے کہا:آج تو آپ نے مجھے قتل کرا ہی دیا تھا۔حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہرحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا:نہیں ،بلکہ تم نے میرے قتل کی کوشش کی تھی لیکن میں نے تمہیں اور اپنے آپ کو بچا لیا۔(تاریخ بغداد،رقم الترجمہ:۷۲۹۷،النعمان بن الثابت، ۱۳/۳۶۲)؎

حسدکی بیماری بڑھ چلی ہے لڑا ئی آپس میں ٹھن گئی ہے

شہا مسلمان ہوں منظَّم، امامِ اعظم ابوحنیفہ(وسائل بخشش، ص۵۷۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(52)پانی کے چند قطروں کا وبال

        حضرتِ علامہ عبدالرحمن ابن جوزی علیہ رحمۃُ اللہِ القوی لکھتے ہیں :کسی گاؤں میں ایک دودھ فَروش رہا کرتاتھاجودو دھ میں پانی ملایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ سیلاب آیا اور اس کے مویشی بہاکرلے گیاتو وہ روتے ہوئے کہنے لگا کہ سب قطرے مل کر سیلاب


 بن گئے جبکہ قضاء اُسے ندادے رہی تھی :

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۠(۱۰)۱۷،الحج:۱۰)

ترجَمۂ کنزالایمان: یہ اس کابدلہ ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ بندوں پرظلم نہیں کرتا۔

        یادرکھو! چوری او رخیانت ہلاکت میں ڈالنے والے اور دین کے لئے شدید نقصان دہ ہیں۔(بحرالدموع،الفصل الثانی والثلاثون، ص۲۱۲)

         حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی علیہ رحمۃُ اللہِ القویدھوکہ دہی سے مال کمانے والوں کو سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں :اصل بات یہ ہے کہ اس بات کا یقین رکھے کہ دَغا بازی سے رِزْق کم زیادہ نہیں ہوسکتا بلکہ اُلٹا مال سے برکت ختم ہوجاتی ہے اور بہتری جاتی رہتی ہے اور عَیاری و فریب سے انسان جو کچھ کماتا ہے اچانک ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ سب کچھ تباہ اور ضائع ہوجاتا ہے اور فریب وعیاری کا گناہ ہی باقی رہ جاتا ہے اور اس شخص کا ساحال ہو جاتا ہے جو دودھ میں پانی ملایا کرتا تھا ایک بار اچانک سیلاب آیا اور اس کی گائے کو بہالے گیا۔ اس کے دانا بیٹے نے کہا: ابا جان بات یہ ہے کہ دودھ میں ملایا ہوا سارا پانی جمع ہوا اور سیلاب کی شکل اِختیار کرکے گائے کو بہالے گیا۔(کیمیائے سعادت،باب سیم درعدل وانصاف …الخ،۱/۳۲۹)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


(53)یقین کی دولت

        دو بزرگ حضرت سیدتنا رابعہ بصریہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہاکے یہاں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور باہم گفتگو کرنے لگے کہ اگر رابعہ اس وقت کھانا پیش کردیں تو بہت اچھا ہو کیونکہ ان کے یہاں رزقِ حلال میسر آجائے گا۔اس وقت آپ  رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہاکے گھر میں صرف دو ہی روٹیاں تھیں ، آپ نے وہ روٹیاں ان دونوں کے سامنے رکھ دیں ، اتنے میں کسی سائل نے دروازے پر صدا بلند کی تو آپ نے وہ دونوں روٹیاں اٹھا کر اسے دیدیں ،یہ دیکھ کر وہ دونوں افراد حیرت زدہ رہ گئے۔کچھ ہی دیر کے بعد ایک کنیز بہت سی گرم روٹیاں لئے حاضر خدمت ہوئی اور عرض کی کہ یہ میری مالکہ نے بھجوائی ہیں۔حضرت سیدتنا رابعہ بصریہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہا نے جب گنتی کی تو وہ اٹھارہ روٹیاں تھیں ،یہ دیکھ کر آپ نے کنیز سے فرمایا:شاید تمہیں غلط فہمی ہوگئی ہے ، یہ روٹیاں میرے یہاں نہیں بلکہ کسی اور کے ہاں بھیجی گئی ہیں۔کنیز نے یقین کے ساتھ عرض کی کہ یہ آپ ہی کے لئے بھجوائی گئی ہیں مگر آپ نے کنیز کے مسلسل اِصرار کے باوجود روٹیاں واپس لوٹادیں۔ کنیز نے جب واپس جاکر اپنی مالکہ سے یہ ماجرا بیان کیا تو اس نے حکم دیا کہ اس میں مزید دو روٹیوں کا اِضافہ کرکے لے جاؤ، کنیز جب بیس روٹیاں لے کر حاضر ہوئی اور حضرت سیدتنا رابعہ بصریہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہا نے گنتی فرمالی تو پھر ان کے ذریعے مہمانوں کی خاطر مدارت فرمائی۔کھانے سے فراغت کے بعد جب ان دونوں نے ماجرا دریافت کیا تو حضرت سیدتنا رابعہ بصریہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہا نے


ارشاد فرمایا:جب آپ حضرات تشریف لائے تو مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ بھوک کا شکار ہیں چنانچہ جو کچھ گھر میں حاضر تھا وہ میں نے پیش کردیا،اتنے میں سائل نے صدا لگائی تو میں نے وہ دونوں روٹیاں اسے دیکر بارگاہِ خداوندی میں عرض کی:اے اللہعَزَّوَجَلَّ!تیرا وعدہ ایک کے بدلے دس دینے کا ہے اور مجھے تیرے وعدے پر مکمل یقین ہے۔جب وہ کنیز18 روٹیاں لائی تو میں نے سمجھ لیاکہ اس معاملے میں ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے اس لئے میں نے انہیں واپس کردیا ، پھر جب وہ بیس روٹیاں لیکر آئی تو میں نے وعدے کی تکمیل سمجھ کر انہیں قبول کرلیا۔ (تذکرۃ الاولیاء،ذکر رابعہ،۱/۶۸)

(54)لُقمے کے بد لے لُقمہ

        حضرتِ سیِّدُنا امام عبد اللہ بن اَسعَد یافِعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْکَافِی ’’رَوْضُ الرِّیَاحِیْن‘‘میں نقْل فرماتے ہیں :__َّ کی رضا کیلئے ایک عورت نے کسی محتاج(یعنی مسکین) کوکھانا دیااور پھر اپنے شوہر کو کھانا پہنچانے کھیت کی طرف چل پڑی،اُس کے ساتھ اُس کا بچّہ بھی تھا، راستے میں ایک دَرِندے(یعنی پھاڑ کھانے والے جانور) نے بچّے پر حملہ کر دیا، وہ دَرِندہ بچّے کو نگلنا ہی چاہتا تھا کہ ناگہاں (یعنی اچانک) غیب سے ایک ہاتھ ظاہِرہوا جس نے اُس دَرِندے کو ایک زوردارضَرب لگائی اوربچّے کو چُھڑا لیا، پھر غیب سے آواز آئی: ’’اے نیک بخت! اپنے بچّے کو سلامَتی کے ساتھ لے جا! ہم نے لُقمے کے بدلے تجھے لُقمہ عطا کر دیا۔‘‘ (یعنی تُو نے غریب کو کھانے کا لُقمہ کِھلایا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیرے بچّے کو دَرِندے کا لُقمہ بننے سے بچا لیا)۔ (رَوْضُ الرَّیاحِین


ص ۲۷۴ ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدْقے  ہماری بے حساب مَغْفِرَت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

میں سب دولت رہِ حق میں لٹا دوں

شہا ایسا مجھے جذبہ عطا ہو(وسائل بخشش ص۳۱۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!گناہوں سے بچ کر نیکیوں بھری زندگی کا جذبہ پانے کے لئے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجانا مفید ترین ہے ، اس مدنی ماحول کی برکت سے کیسے کیسے بگڑے ہوئے لوگ سُدھر گئے ، اس کی ایک جھلک اس مدنی بہار میں ملاحظہ کیجئے ، چنانچہ

نیوائیرنائٹ منانے سے باز رہا

        گوجرانوالہ (پنجاب، پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی (عمر تقریباً35سال)کا بیان کچھ یوں ہے کہ میرا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا ،نہ نماز پڑھتا نہ قرآن بلکہ شراب نوشی، بدکاری ، جُوابازی کا شوقین تھاحتی کہ اپنی زمینیں بیچ بیچ کر جوا کھیلا کرتا۔ بیوی بچوں کو بھی تنگ کیا کرتا ۔میرے کردار کی وجہ سے میرے گھر والے بھی سخت پریشان تھے ۔ وہ اکثر مجھے برائیوں سے روکتے لیکن میں نہ مانتا ۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے ڈیرے پر نیوائیر نائٹ منانے کا پروگرام بنایا ،شراب نوشی وبدکاری کے تمام لوازمات جمع کئے، 31دسمبر کی رات میرے یار بداطوار سب میرے ڈیرے پر جمع


ہوگئے ۔تقریباً 10بجے میں گھر آیا کہ 12بجے تک واپس آجاؤں گا۔گھر پہنچ کر میں نے ٹی وی لگایااور چینل بدلتے بدلتے مدنی چینل میرے سامنے آگیا جس پر ایک بزرگ (یعنی امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ) نیو ائیر نائٹ منانے والوں کو سمجھا رہے تھے ، انداز ایسا پیارا اور دلچسپ تھا کہ میں نے وہ بیان سننا شروع کردیا ، اس بیان سے مجھے بڑی معلومات ملیں اورعبرت ہوئی کہ ہم کیا کرنے جارہے تھے ، میں خوفِ خدا سے رونے لگا اور بالآخر میں نے نیوائیر نائٹ میں خرافات کرنے اور دیگر گناہوں سے توبہ کرلی ۔ دوسری طرف میرے دوست میرے انتظار میں تھے ، جب میں نہ پہنچا تو وہ مجھے فون کرنے لگے لیکن میں نے اپنا موبائل بندکردیا اورسوگیا۔ بدلی ہوئی صبح سے میری نئی زندگی کا آغاز ہوا ، میں نے برائیاں اور بری صحبت چھوڑدی ،اپنا موبائل نمبر بھی تبدیل کرلیا تاکہ بُرے دوستوں سے نجات مل جائے ،قادری عطاری سلسلے میں بیعت ہوکرشیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا مُرید بھی بن گیا ۔اولاً تین دن کے مدنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سفر کیا پھر دعوتِ اسلامی کے زیرِ انتظام ہونے والے 30دن کے اجتماعی اعتکاف میں بھی بیٹھا ۔داڑھی بڑھا لی ،مدرسۃ المدینہ بالغان میں پڑھنا شروع کردیا ۔یہ سب دعوتِ اسلامی کا فیضان ہے ورنہ اس وقت میں نہ جانے کس حال میں ہوتا!

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


ماخذ و مراجع

نام کتاب

مصنف/مؤلف

مطبوعہ

ترجمہ کنز الایمان

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ

مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی

تفسیر خزائن العرفان

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی، متوفی۱۳۶۷ھ

مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی

تفسیر کبیر

ابو عبداللہ محمد بن عمر التیمی الرازی،متوفی۶۰۶ھ

دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۰ھ

تفسیرصاوی

احمد بن محمد صاوی مالکی خلوفی، متوفی ۱۲۴۱ھ

دار الفکر ،بیروت۱۴۲۱ھ

روح المعانی

ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی ، متوفی ۱۲۷۰ھ

دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۰ھ

صحیح البخاری

امام ابوعبداللہ  محمد بن اسماعیل بخاری ،متوفی ۲۵۶ھ

دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۹ھ

صحیح مسلم

امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری، متوفی ۲۶۱ھ

دار ابن حزم ،بیروت ۱۴۱۹ھ

سنن ابی داوٗد

امام ابوداوٗدسلیمان بن اشعث سجستانی، متوفی ۲۷۵ھ

دار احیاء التراث ، بیروت۱۴۲۱ھ

سنن الترمذی

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی ، متوفی ۲۷۹ھ

دار الفکر ،بیروت۱۴۱۴ھ

المسند

امام احمد بن حنبل،متوفی ۲۴۱ھ

دار الفکر، بیروت۱۴۱۴ھ

مستدرک

امام ابو عبد اللہ  محمد بن عبد اللہ  حاکم نیشاپوری، متوفی ۴۰۵ھ

دار المعرفہ، بیروت ۱۴۱۸ھ

الترغیب والترہیب

امام زکی الدین عبد العظیم بن عبد القوی منذری، متوفی ۶۵۶ھ

دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۸ھ

المعجم الکبیر

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، متوفی۳۶۰ھ

داراحیاء التراث۱۴۲۲ھـ

المعجم الاوسط

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، متوفی۳۶۰ھ

دار الکتب العلمیہ،بیروت ۱۴۲۰ھ

مصنف عبدالرزاق

امام ابو بکر عبد الرزاق بن ھمام بن نافع صنعانی، متوفی ۲۱۱ھ

دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۱ھ

شعب الایمان

امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیہقی، متوفی۴۵۸ھ

دار الکتب العلمیہ،بیروت ۱۴۲۱ھ

مسند ابی یعلی

امام ابویعلی احمدبن علی موصلی ،متوفی ۳۰۷ھ

دارالفکر ،بیروت۱۴۲۲ھ

مجمع الزوائد

حافظ نور الدین علی بن ابوبکرہیتمی، متوفی۸۰۷ھ

دار الفکر،بیروت۱۴۲۰ھ


 


جمع الجوامع

امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ

دار الکتب العلمیہ،بیروت۱۴۲۱ھ

کنز العمال

امام علی متقی بن حسام الدین ہندی ، متوفی۹۷۵ھ

دارالکتب العلمیہ،بیروت۱۴۱۹ھ

جامع العلوم والحکم

عبدالرحمن بن شہاب الدین بن رجب حنبلی،متوفی۷۹۵ھ

المکتبۃ الفیصلیہ مکۃ المکرمہ

شرح صحیح البخاری

ابو الحسن علی بن خلف بن عبدالملک،متوفی ۴۴۹ھ

مکتبۃ الرشد الریاض۱۴۲۰ھ

فیض القدیر

علامہ عبدالرؤف مناوی، متوفی۱۰۳۰ ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت

التیسیر بشرح جامع الصغیر

علامہ عبدالرؤف مناوی، متوفی۱۰۳۰ ھ

مکتبۃ الامام الشافعی ریاض۱۴۰۸ھ

کتاب الجامع

امام حافظ معمربن راشدازدی، متوفّٰی۱۵۳ھـ

دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ

البدایہ والنہایہ

ابو فداء اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی شافعی ،متوفی ۷۷۴ھ

دار الفکر بیروت۱۴۱۸ھ

المناقب للموفق

الموفق بن احمد المکی، متوفّٰی ۵۶۸ھ

کوئٹہ پاکستان۱۴۰۷ھ

الزہد

امام ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل ،متوفّی۲۴۱ھ

دارالغدالحدید ۱۴۲۶ھ

سیراعلام النبلاء

امام شمس الدین محمد بن احمد ذہبی ،متوفی۷۴۸ھ

دار الفکر ،بیروت۱۴۱۷ھ

تاریخ بغداد

حافظ ابو بکر احمد بن علی خطیب بغدادی،متوفی۴۶۳ھ

دار الکتب العلمیہ،بیروت۱۴۱۷ھ

حیاۃ الحیوان

کمال الدین محمد بن موسی دمیری ،متوفی۸۰۸ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۵ھ

احیاء علوم الدین

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی۵۰۵ھ

دار صادر، بیروت۱۸۶۳ء

مکاشفۃ القلوب

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی۵۰۵ھ

دار الکتب العلمیہ،بیروت

کیمیائے سعادت

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی۵۰۵ھ

انتشارات گنجینہ تہران

الرّیا ض النضرۃ

الامام شیخ ابو جعفر احمد الشہیر الطبری، متوفّٰی ۶۹۴ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت

اسدالغابۃ

عز الدین ابو الحسن علی بن محمدالجزری،متوفی۶۳۰ھ

داراحیاء التراث العربی۱۴۱۷ھ

القول البدیع

امام ابو الفرج محمد بن عبدالرحمن سخاوی شافعی ،متوفی۹۰۲ھ

مؤسسۃالریان بیروت۱۴۲۲ھ

شرح العلامۃ الزرقانی

محمد بن عبد الباقی بن یوسف زرقانی ، متوفی۱۱۲۲ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴۱۷ھ

تذکرۃ الاولیاء

شیخ ابو حامد امام محمد بن ابو بکر ابراہیم فرید الدین عطار نیشاپوری،متوفی ۶۳۷ھ

انتشارات گنجینہ تہران ایران۱۳۷۹ھ


 

صید الخاطر

امام ابوالفرج عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، متوفّٰی۵۹۷ھـ

نزار مصطفی الباز ۱۴۲۵ھ

بحرالدموع

امام ابوالفرج عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، متوفّٰی۵۹۷ھـ

مکتبہ دار الفجر دمشق ۱۴۲۴ھ

عیون الحکایات

ابو الفرج عبد الرحمن بن علی جوزی،متوفی۵۹۷ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۴ھ

التذکرۃ الحمدونیۃ

ابن حمدون،متوفی ۵۶۲ھ

دار صادر، بیروت۱۹۹۶ء

مستطرف

شہاب الدین محمد بن ابی احمد ابی الفتح ، متوفّٰی۸۵۰ھ

دار الفکربیروت۱۴۱۹ھ

اتحاف السادۃ المتقین

علامہ سید محمدبن محمد الحسینی الزبیدی الشہیر بمرتضی،متوفی ۱۴۰۵ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت

الزواجر

احمد بن محمد بن علی بن حجر مکی ہیتمی،متوفی۹۷۴ھ

دار المعرفہ،بیروت۱۴۱۹ھ

روض الریاحین

عبداللہ بن اسعد بن علی یافعی مالکی ،متوفی ۷۶۸ھ

دار الکتب العلمیہ،بیروت۱۴۲۱ھ

کتاب الکبائر

الامام الحافظ محمد بن احمد بن عثما ن بن قایمازالذہبی،متوفی۷۴۸ھ

پشاور

مثنوی مولوی معنوی

مولانا جلال الدین رومی

الفیصل ناشران وتاجران کتب لاہور

فضائل دعاء

رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکرا چی

فتاوی رضویہ(مخرجہ)

اعلی حضرت امام احمد رضا بن نقی علی خان متوفی۱۳۴۰ھ

رضا فاؤنڈیشن، لاہور۱۴۱۸ھ

الملفوظ( ملفوظات اعلیٰ حضرت)

شہزادہ ِ اعلی حضرت محمد مصطفی رضا خان، متوفی، ۱۴۰۲ھ

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکرا چی

بہارشریعت

مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکراچی

مراۃ المناجیح

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یارخان

ضیاء القرآن

سیرت مصطفی

شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکراچی

آئینہ عبرت

شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکراچی

عجائب القرآن

شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکراچی

نیکی کی دعوت

امیر اہلسنت حضرت علامہ ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکراچی

زلزلہ اور اس کے اسباب

امیر اہلسنت حضرت علامہ ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکراچی

حدائق بخشش

اعلی حضرت امام احمد رضا بن نقی علی خان متوفی۱۳۴۰ھ

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینہ کراچی

ظلم کا انجام

امیر اہلسنت حضرت علامہ ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکراچی

وسائل بخشش

امیر اہلسنت حضرت علامہ ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ

مکتبۃ المدینہ ، باب المدینۃکراچی

 


فہرس

عنوان

صفحہ نمبر

عنوان

صفحہ نمبر

غیبت سے باز رکھے گا

نقصان اپنا ہے

جیسی کرنی ویسی بھرنی

جیسا کرے گا ویسا بھرے گا

خود بھی ذلیل ہوتا ہے

دوسروں کے ساتھ اچھابرتاؤ کیجئے

 قبضہ کی کوشش کرنے والی اندھی ہوگئی

سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا

طوق گلے میں ڈالا جائے گا

مٹی اٹھا کر میدانِ حشر میں لائے

فرض قبول ہوتے ہیں نہ نفل

گلے میں بیس پچیس سیر مٹی ڈال کر دیکھ لو

جھوٹا الزام لگانے کی سزا

بہتان لگانے کی سزا

دوزخیوں کی پیپ میں رہنا پڑے گا

توبہ ضروری ہے

بیوی کو شوہر کے خلاف بھڑکانے والی اندھی ہوگئی

عورت کو اس کے خاوند کے خلاف ابھارنا

دو دلوں کو جوڑنے کی کوشش کرو

تُوکتنا اچھا ہے!!

لوگوں کو ستانے کی سزا

معافی مانگ لیجئے

ٹھٹھہ مسخری کرکے ستانے والے کی سزا

لوگوں کا مذاق اُڑانے والے کا انجام

مذاق میں بھی ڈرانے سے روکا

مشکیزہ کیا ہے؟

جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے

1

2

2

2

3

4

6

7

8

8

10

10

10

11

12

12

13

13

14

15

15

16

17

17

17

19

20

سچے آدمی کی بات کی قبولیت

کسی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار

بدگوئی کی سزا

 نرمی کی فضیلت

مزاج میں نرمی پیدا کرنے کا نسخہ

کل کا فقیر آج کا امیر

بدکاری کی تہمت لگانے کا انجام

تمہارے عیب کھل جائیں گے

 چالیس سال تک افلاس کا شکار رہا

لوگوں کے بُرے نام رکھنا

فرشتے لعنت کرتے ہیں

کسی کو بے وقوف یا اُلّو کہنے کا حُکْم

مچھلی نے انگوٹھا کاٹا

مظلوم کی مدد ضرور ہوتی ہے

مظلوم کی بددعا مقبول ہے

مظلوم جانور کی بددعا

ہاتھ بے کار ہوگیا

مکھی سے تکلیف دور کرنے کا صلہ

کتوں کا علاج کرتے

فقیر کو دھتکارا تو خود فقیر بن گیا

صدقہ نہ روکو

تول کم کیوں ہوا؟

کربھلا ہوبھلا

آسانیاں دو آسانی ملے گی

تینوں قتل ہوگئے

 بُلندی چاہنے والے کی رُسوائی

 اپنے دو بیٹے مر گئے

زمین میں دھنس گیا

21

21

22

24

24

24

25

26

27

27

29

29

30

32

32

33

33

34

35

36

37

38

39

40

40

42

43

44


 

عنوان

صفحہ نمبر

عنوان

صفحہ نمبر

اللہ جو چاہے دے

 بیٹیوں کے فضائل

اندھی لڑکی

تم نے اس کا ہاتھ پکڑا تو کسی نے میرا ہاتھ پکڑلیا

کیا آپ کو یہ گوارا ہوگا؟

مجھے بدکاری کی اجازت دیجئے

اپنا بچہ سمجھ کر آپریشن کرنے کا صلہ

دعائے خیر کا فائدہ

اچھا کرو گے اچھا ملے گا

دوسروں کی سلامتی مانگنے کا صلہ

ظالم اپنے انجام کو پہنچا

بددعا نہ کرو

بددعا کرنے کے چند شرعی احکام

مزدور کو زندہ جلانے والا خود بھی زندہ جل گیا

حضرت سیِّدُنایحییٰ علیہ السلام کی شہادت

تابعی بزرگ کی شہادت

ظلم سے چھٹکارے کی دعا کیوں نہیں کی؟

لالچی بیوی کا انجام

شیر نے سر چبا ڈالا

ظلم کا انجام

ایک ٹانگ کٹ گئی

پُراسرار معذور

جیسی کرنی ویسی بھرنی

قرآن کریم بھلا دیا گیا

حافِظے کی تباہی کا ایک سبب

خوفناک ڈاکو

ظالم کو مُہلَت ملتی ہے

45

46

47

48

49

50

51

52

52

53

53

53

56

56

58

59

61

62

65

66

67

68

70

70

72

74

74

زبان لٹک کر سینے پر آگئی

 قارون کا انجام

شکاری خود شکار ہوگیا

شکار کرنے چلے تھے،شکار ہوبیٹھے

یہ میری ذمہ داری نہیں ہے

پانچ درہم بھی مل گئے اور پانی بھی

ماں کے گستاخ کو زمین زندہ نگل گئی!

ماں باپ کے نافرمان کوجیتے جی سزا ملتی ہے

جیسا بوئیں گے ویسا کاٹیں گے

اذا ن کا مذاق اڑانے والے کا انجام

ناچ رنگ کی مَحفِل جاری تھی کہ۔۔۔

کٹا ہوا سر

چور اپاہج ہوگیا

 محل ویران ہوگیا

مجھے آگے جاکر پھینکو

بوڑھی ماں

نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دنیا میں بھی مل کر رہتا ہے

جھوٹے گواہ بننے والے غرق ہوگئے

آج تو مجھے قتل ہی کرا دیا تھا

پانی کے چند قطروں کا وبال

یقین کی دولت

لُقمے کے بد لے لُقمہ

نیوائیرنائٹ منانے سے باز رہا

ماخذ ومراجع

75

77

80

82

83

84

85

86

87

87

88

88

89

89

90

92

95

98

98

99

100

102

103

104

106

 



...[1] یہ نام شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی نے عطا فرمایا ہے۔

 

...[2] مراٰۃ المناجیح،۵/۲۷۰

 

...[3] مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۶ص۱۳۴حدیث۱۷۳۷۸ 

...[4] المستدرک  ج ۵ ص ۲۴۸ حدیث: ۷۴۲۸

...[5] مسلم ص ۱۴۱۴ حدیث ۲۶۲۹  

...[6] مجمع الزوائد ج۸ص۲۸۵حدیث۱۳۴۸۴

...[7] معجم الاوسط ج۴ص۳۴۷حدیث ۶۱۹۹مُلَخّصاً

...[8] ترمذی  ج ۳  ص ۳۶۷ حدیث ۱۹۲۳ 

...[9] تر مذی ج ۳ ص ۳۶۶ حدیث۱۹۱۹

...[10] ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ’’ بہار شریعت ‘‘جلد 2کے صفحہ نمبر 177 پر ہے ’’حلالہ کی صورت یہ ہے کہ اگر عوت مَدْخُولہ ہے (یعنی جس سے جماع کیا گیا ہو)تو طلاق کی عِدّت پوری ہونے کے بعد عورت کسی اور سے نکاحِ صحیح کرے اور شوہر ِثانی اس عورت سے وطی بھی کرلے اب اس شوہر ِثانی کے طلاق یا موت کے بعد عِدّت پوری ہونے پر شوہرِ اوّل سے نکاح ہو سکتا ہے اور اگر عورت مَدْخُولہ نہیں ہے(یعنی اس سے جماع نہیں کیا گیا ) تو پہلے شوہر کے طلاق دینے کے بعد فوراََ دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے کہ اس کے لئے عدت نہیں ۔‘‘