اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
رسولِ اکرم ،نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمانِ مُکَرَّم ہے۔ ”جس نے مجھ پر سومرتبہ دُرُودِپاک پڑھا اللہ تعالٰی اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نِفاق اور جہنَّم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قیامت شُہَداء کے ساتھ رکھے گا۔“ ([1])
ساتویں صدی ہجری کی
بات ہے کہ تاجروں کا ایک قافلہ مالِ تجارت لیے ملکِ عدن کی جانب رواں دواں تھا۔ ان
تاجروں میں خواجہ کمال الدین سعود شیروانی بھی تھے۔اچانک بادِ مخالف اٹھی اور
سمندر میں طوفان آگیا۔ خوفناک لہروں کے تھپیڑے جہاز سے ٹکرائے تو جہاز ہچکولے
کھانےلگا۔ جہاز میں آہ و فُغاں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ خواجہ کمال الدین سعود نےتاجروں
کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرکے دعا کرو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں
خیرو عافیت
سے منزل تک پہنچائے اور سبھی اپنا اپنا تہائی مال راہِ خدا میں دینے کی نیت کرو سب نے فوراً حامی بھر لی۔ خواجہ کمال الدین نے اسی وقت اپنے پیرومرشد کو یاد کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مرشِد کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے دعاکی۔ لوگوں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک کشتی میں کوئی سفید رِیش حسین و جمیل بزرگ تشریف لا رہے ہیں۔ کشتی جوں جوں قریب آرہی تھی طوفان تھمتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ طوفان ختم ہوگیا،جہاز جانبِ منزل گامزن ہوگیااور کشتی بھی نظروں سے غائب ہوگئی۔ اپنے سفر سے بخیروعافیت لوٹنے کے بعد تمام تاجروں نے حسبِ نیت اپنے اپنے مال کا تہائی حصہ خواجہ کمال الدین کے سپر د کرتے ہوئے کہا کہ اسے آپ اپنی مرضی سے راہِ خدا میں خرچ کردیجئے۔ خواجہ کمال الدین نے سارا مال جمع کیا اوراپنے بھانجے فخرالدین گیلانی کو دے کر مدینۃالاولیاء ملتان شریف میں اپنے پیرومرشد کی بارگاہ میں ہدیۃً پیش کرنے کے لیے بھیج دیا۔ فخرالدین گیلانی نے سارا مال خواجہ کمال الدین کے پیرومرشد کی بارگاہ میں پیش کردیا۔ فخرالدین گیلانی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کم وبیش سترلاکھ روپے کا خزانہ مرشدِ گرامی نے کھڑے کھڑے خیرات کردیا اور ایک کوڑی بھی اپنے پاس نہ رکھی۔ فخرالدین گیلانی بہت متأثر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت ہو کر مدینۃالاولیاء ملتان شریف میں سکونت اختیار کرلی۔([2])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کرم و فضل اور اس کی عطاسے اپنے مریدوں کو طوفان سے نکالنے والے اور ستر لاکھ کی خطیر رقم ایک ہی وقت میں خیرات کردینے والے یہ بزرگ کون تھے؟
یہ بزرگ مدینۃالاولیاء ملتان شریف کی پہچان، شیخ الاسلام، رئیس الاولیا، تاجُ العارفین، غَوْثُ العالمین، حافظ، قاری، مُحَدِّث، عارف، شیخ بہاءالدین ابو محمد زکریا سہروردی ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیتھے۔ آئیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی حیات مبارکہ کے مُقَدَّس ومُعَطَّر گوشے ملاحظہ کرتے اور اپنے ایمان کو جِلا بخشتے ہیں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین ابو محمد زکریا سہروردی قریشی ملتانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی ولادت باسعادت ۲۷ رمضان المبارک ۵۶۶ھ مطابق3 جون 1171ء شبِ جمعہ پنجاب کے ضلع لَیَّہ کے ایک قصبے کوٹ کروڑ([3]) میں وقتِ صبح ہوئی ۔([4])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نسباً قریشی الاسدی تھے اور صحابیٔ رسول حضرت سیّدنا ہَبَّار بن اَسوَد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اولاد سے تھے۔21 واسطوں سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا سلسلۂ نسب سرکارِ دوعالَم،نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے جَدّ امجد حضرت قُصَی بن کِلاب سے جا ملتاہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا سلسلۂ نسب کچھ یوں ہے:حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی بن محمد غوث بن شیخ ابوبکر بن شیخ جلال الدین بن شیخ علی قاضی بن شیخ شمس الدین محمد بن حسین بن عبداللہ بن حسین بن مُطرف بن خزیمہ بن حازم بن محمد بن مُطرف بن عبدالرحیم بن عبدالرحمن بن ہَبَّار بن اَسوَد بن مطلب بن اسد بن عبدالعزی بن قُصَی۔ ([5])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والدماجد حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد غوث
بن کمال الدین ابوبکررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ زبردست
عالمِ دین اور کمالاتِ ظاہری و باطنی سے آراستہ تھے۔([6])جبکہ آپ کى والدہ ماجدہ ’’بی بی فاطمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہا‘‘مولانا حسام الدىن ترمذى عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کى صاحبزادی
تھیں۔ ([7])آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہا بڑی نیک اور پارسا خاتون تھیں۔
مشہور مسلمان سَیّاح ابو عبد الله محمد بن عبداللهالمعروف ابن بطوطہ اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں :مجھے حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے عالم اورعابدو زاہد پوتےحضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے بتایا: ہمارے جدِ اعلی ٰ سندھ فتح کرنے والےاُس لشکر میں شامل تھے جسےحجاج بن یوسف نے عراق سے (سندھ )بھیجا تھا ۔وہ یہاں رہ گئے تھے اور پھریہیں ان کی اولادبھی ہو ئی ۔([8])
حضرت بہاءالدین زکریا ملتانیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے
جَدِّ امجد حضرت تاج ُالدّین مُطْرف ”خوارزم“ میں آباد ہوئے اور آپ کے بعد آپ کی
اولاد بھی یہیں فیض بار رہی۔ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے جَدِّ اعلیٰ حضرت کمال الدین علی شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ پانچویں صدی ہجری میں سلطان محمود غزنوی کے ساتھ مدینۃ الاولیاءملتان
تشریف لائے۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کے بعد سلطان محمود غزنوی نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کو
کوٹ کروڑ([9]) کا قاضی مقرر فرمایا۔آپ کے
بعد آپ کے صاحبزادے شیخ جلال الدین،اور پھر پوتے شیخ ابوبکر قاضی کے منصب پر
فائز ہوئے۔پھر حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ
کے والدِ بزرگوار حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد غوث قاضی مقرر ہوئے۔ اسی عرصے میں شیخ الاسلام بہاؤ الدىن زَکَرىا ملتانى قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے نانا مولانا حسام الدىن ترمذى رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھى اپنے وطن سے آ کر کوٹ کروڑ مىں آباد ہو گئے۔ ([10])
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی مادرزاد ولی تھے۔ بزرگی کے آثار تو وقتِ ولادت ہی پیشانی پر ہُویدا(ظاہر) تھے۔ منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بچپن میں بھی رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہ پیتے تھے۔([11]) آثار و علاماتِ ولایت بچپن ہی سے ظاہر ہونے لگی تھیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے والِدِ ماجد حضرت وجیہہ الدین محمدغوث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آپ کے پاس تلاوتِ قرآنِ کریم کرتے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ماں کا دودھ چھوڑ کر تلاوت کی طرف متوجہ ہو جاتے۔گویا قرآن سُن رہے ہوں۔ ([12])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے جب ہوش سنبھالا تو والدِ ماجد نے مکتب میں داخل
کرادیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی تعلیم و تربیت کے لیے مولانا نصیرالدین بلخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی خدمات حاصل کیں۔ خداداد صلاحیتوں اور کریم استاد کی شفقتوں سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے سات یا بارہ سال کی عمر میں ہی مکمل قرآن پاک قرأتِ سَبعہ کےساتھ حفظ فرمالیا۔پھر مقامی اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا۔ان میں ایک نام مولانا عبدالرشید کرمانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا لیا جاتا ہے ۔([13])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ابھی والد صاحب کی شفقتوں میں ۱۲ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ ۵۷۷ھ میں ان کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔ عَمِّ محترم حضرت شیخ احمد غوث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے سر پر والد ماجد کی دستار باندھی اور آباءواَجداد کی مَسنَد پر بٹھا کرخانقاہ کے سارے انتظامات آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے سپرد کردیے۔ ([14])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دل میں علمِ دین حاصل کرنے کا جذبہ تھا یہی
وجہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے چچاجان کو سارے انتظامات سنبھالنے کی
التجا کی اور خود علم دین حاصل کرنے کے لئے اجازت چاہی ۔ چچاجان نے اپنے بھتیجے
کو
گلے لگایا اور فرمایا: یہ سِیم وزَر(سونے چاندی) کے چند سکے تمہاری پہچان نہیں، تمہارا تخت مَسندِ علم ہے اور تمہارا تاج دستارِ فضیلت ہےاور یہی تمہاری شناخت ہے۔([15])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!حضرت شیخ بہاء الدین زکریا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے چچا نے کس طرح اپنے بھتیجے کے طلبِ علمِ دین کے جذبے کو سراہا اور بخوشی انہیں علمِ دین حاصل کرنے کے لئے اجازت عطا فرمادی ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی اولاد یا جو ہماری سرپرستی میں ہوں انہیں علم دین حاصل کرنے کا ذہن دیں اور جو علم دین حاصل کرنے کا ذوق شوق رکھتے ہوں ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں ۔فی زمانہ بہت سے لوگ اپنی اولاد کو سنّتوں بھرے مدنی ماحول کے قریب نہیں آنے دیتے ،کبھی مدنی قافلے میں سفر سے منع کرتے ہیں تو کبھی ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت پر ناراضی کا اظہارکرتے ہیں۔ایسے لوگ اس واقعے سے عبرت حاصل کریں چنانچہ
ایک اسلامی بھائی کے
بیان کا خُلاصہ ہے کہ(حیدر
آباد،بابُ الاسلام پاکستان) کا
ایک نوجوان غالِبًا 1988ء میں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوا۔
نَمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ چہرے پر داڑھی شریف سجالی،سر پرعِمامہ
شریف اپنی بہاریں دکھانے لگا۔اُس نے مدرَسۃُ المدینہ(بالِغان)میں پڑھنابھی شُروع کردیا۔اُس کا تعلُّق ایک ماڈَرن اور امیر گھرانے سے تھا،گھر والوں کو اُس کی زندگی میں آنے والا مَدَنی انقِلاب سمجھ میں نہ آیا چُنانچِہ اس کی مُخالَفت شُروع ہوگئی،طرح طرح سے اُس کی دل آزاریاں کی جاتیں،سنّتوں پر چلنے کی راہ میں رُکاوٹیں کھڑی کی جاتیں اور دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا۔وہ کبھی کبھار بے بس ہوکر فریاد کرتا کہ مجھے اس مَدَنی ماحول سے دُور نہ کرو ورنہ پچھتاؤگے،مگر اُس کی کسی نے نہ سُنی۔مخالَفت کا یہ سلسلہ تقریبًاتین سال تک چلتا رہابِالآخِرتنگ آ کر اُس نے گھر والوں کے سامنے ہتھیارڈال دئیے اور داڑھی شریف مُنڈوا کر دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کو ’’ خیر آباد‘‘ کہہ دیا۔بڑے بھائی چُونکہ ڈاکٹر تھے اِس لئے اِسے بھی ڈاکٹر بننے کے لئے سردار آباد (پنجاب،پاکستان) کے ایک میڈیکل کالج میں داخِل کروادیا گیا۔جہاں وہ ہاسٹل (اِقامت گاہ)میں بُری صحبت کی نُحوستوں کا شکار ہوکر چَرَس پینے لگا اور سخت بیمار ہوگیا،گھر والے اُسے واپَس حیدر آباد لے آئے۔ والِدصاحِب نے علاج پر لاکھوں روپے خرچ کرڈالے مگر نہ صحتیاب ہوا نہ ہی سُدھرا بلکہ اب وہ ہیروئن کا نَشہ کرنے لگا۔کثرت سے نشہ کرنے کی وجہ سے وہ سُوکھ کر کانٹاہو گیا،دانتوں کی سفیدی غائِب ہوکر ان پر کالک کی تہ چڑھ گئی اور اب تادمِ تحریر اُس کی حالت پاگلوں کی سی ہوچکی ہے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ
کی رَحمت سے اب والِد صاحِب دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوچکے ہیں،اور بے چارے بَہُت پچھتارہے ہیں کہ کاش ! اُس وقت مجھے دعوتِ اسلامی کی اَہَمِّیَّت سمجھ میں آ جاتی اور میں اپنے بیٹے کو دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے دُور نہ کرتاتو شایدآج مجھے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔مگر ’’ اب پچھتائے کیا ہوت جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت۔‘‘ اللہ تعالٰی اُس نوجوان کو نشے کی عادتِ بد چھوڑ کر پھر سے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے! آپ کا پیارا بیٹا،آپ کے جگر
کاٹکڑا اور اپنی امّی کی آنکھوں کا تاراہی سہی لیکن یہ مت بھولئے کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بندہ،اُس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کا اُمَّتی اور اسلامی مُعاشَرے کا ایک فرد ہے۔اگر آپ
کی تربیَّت اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی دُرُست طریقے پر عبادت،سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتیں اور اسلامی مُعاشَرے میں اس کی ذمّے داری نہ
سکھا سکی تو اُسے اپنا اطاعت گزار فرزند دیکھنے کے سنہرے خواب بھی مت دیکھئے
کیونکہ یہ اسلام ہی تو ہے جو ایک مسلمان کو اپنے والِدَین کی اطاعت اوران کے
حُقُوق کی بجا آوَری کا درس دیتا ہے۔دیکھا یہ گیا ہے کہ جب اَولادکی تربیَّت سے
غفلت کے اثرات سامنے آتے ہیں تویِہی والِدَین ہرکَس وناکَس
کے سامنے اپنی اولاد کے بگڑنے کا رَونا روتے دکھائی دیتے ہیں،انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں خودان کا اپنا ہی ہاتھ ہے۔انہوں نے اپنے بچے کو ABC بولنا تو سکھایا مگر قراٰن پڑھنا نہ سکھایا،مغرِبی تہذیب کے طور طریقے تو سمجھائے مگررسولِ عَرَبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمکی سنتّیں نہ سکھائیں، جنرل نالج(معلوماتِ عامہ)کی اَہمِّیَّت پر تواس کے سامنے گھنٹوں لیکچر دیئے مگر فرض دینی عُلوم کے حُصُول کی رَغبت نہ دلائی،اس کے دل میں مال کی مَحَبَّت تو ڈالی مگر عشقِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی شَمع نہ جَلائی،اسے دُنیَوی ناکامیوں کا خوف تو دلایا مگرقَبروحَشر کے امتحان کی ناکامی کے بھیانک نتائج سے نہ ڈرایا،اسے’’ ہیلو!ہاؤ آر یُو!‘‘ کہنا تو سکھایا مگر سلام کرنے کاصحیح طریقہ نہ بتایا۔اس مقصد کے حصول کے لیے دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول ایک زبردست نعمت ہے۔قراٰن واحادیث اور اقوالِ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین کی روشنی میں اولاد کی تربیّت کاطریقہ جاننے کیلئے دعوتِ اسلامی کے اشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 188 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’ تربیتِ اولاد ‘‘ کا ضَرور مُطالَعَہ کیجئے۔([16])
سُونا جنگل رات اندھیری،چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رَکھوالی ہے
حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے علم ِ دین کے حصول کے لئے خُراسان، عراق اور حجازِ مُقَدَّسہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں اپنے زمانہ کے نامور علماء سے مروجہ علوم حاصل کئے۔چنانچہ
چچاجان سے اجازت ملنے کے
بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےاس وقت کی عظیم علمی ریاست خراسان کی طرف
رختِ سفر باندھا اور تقریباً سات سال تک علما ومشائخ کی بارگاہ سے وراثتِ انبیاء (علمِ دین) سمیٹتے رہے۔اس کے بعدبخارا کا
رخ کیا اور کثیر اساتذہ کی بارگاہ میں زانوئے تَلَمُّذ طے کیا۔ وہاں سے مکہ مکرمہ
آ کر حصولِ علم میں مشغول ہو گئے۔ حج بیت اللہ کے بعدمدینہ شریف میں جانِ
کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے روضۂ اقدس پر حاضر ہوئے۔مسجد نبوی شریف زَادَھَا اللہُ شَرَفاً
وَ تَعْظِیْماً میں محدِّث وقت، شیخُ الحدیث
حضرت علّامہ مولانا کمال الدین یمنی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی۵۳
سال سے درسِ حدیث دیا کرتے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ
سِرُّہُ النُّوْرَانِیآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے صفِ اوّل کے طلبا میں شامل ہوگئے اور پانچ سال تک
احادیثِ کریمہ کے اَنوارِ جلیلہ سے منور ہوتے رہے اور ہر سال استاذِ محترم کے ساتھ
سعادتِ حج پاتے۔ منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے ۴۴۴ سے زائد اساتذہ کی
بارگاہ سے علم کے موتی سمیٹے۔ درسِ حدیث کی تکمیل اور سندِ حدیث کی تحصیل کے بعد
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے
بیت المقدس کا رخ کیااورانبیائےکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃ ُوَالسَّلَام کے مزارات سے فیوض وانوار پائے۔([17])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جب بخارا میں قیام پذیر تھے تو لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ حَسنہ سے متأثر ہو کر آپ کو ”بہاءالدین فرشتہ“ کہہ کر پکارتے تھے۔([18])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حُسنِ اخلاق ایک ایسی صفت ہے کہ جس کی قرآن و حدیث میں تعریف کی گئی ہے چنانچہ
ایک شخص نے حضورِ پاک، سَیَّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں حسنِ اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹)(پ۹،الاعراف،آیت:١٩٩)
ترجمۂ کنز الایمان: اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔
پھر ارشاد فرمایا: حسنِ خلق یہ ہے کہ تم قطع تعلق کرنے والے سے صلۂ رحمی کرو، جوتمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو۔([19])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جہاں بھی جاتے علماو مشائخ کی بارگاہ میں حاضری دیتے اور ان کی صحبتوں سے خوب فیوضِ باطنی کا خزانہ کماتے۔ منقول ہے کہ حضرت بابا فرید الدین مسعودگنج شکر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْبَر نے فرمایا: میں نے ۱۳۸۰ مشائخِ کبار کی زیارت کی اور حضرت شیخ الاسلام بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے مجھ سے بھی زیادہ مشائخ کی زیارت کی۔([20])
حضرت شیخ بہاءا لدین
زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب علوم و فنون کی تکمیل سے فارغ ہوئے تو دل میں
ابھی بے قراری باقی تھی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکا قلبی اضطراب کسی زندہ دل
طبیب یعنی مرشِدِ کامل کی تلاش میں تھا۔ تسکینِ قلب اور حصولِ فیض کے لیے پہلے بیت
المقدس کا رخ کیا، انبیائے کرامعَلَیْہِم السَّلَام کے
مزاراتِ مُقَدَّسہ پر حاضری دی ۔ اس کے بعد راہیٔ بغداد ہوئے۔ اس وقت بغدادِ مُعَلّٰی میں صاحب ِ عوارف المعارف، شیخ الشیوخ حضرت سیّدنا شیخ ابو حفص شہاب الدین عمرصدیقی سہروردی بغدادی شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا خوب شُہرہ تھا ۔ حضرت شیخ بہاءا لدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب حضرت شیخ شہاب الدین عمرسہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو دیکھا محبین و معتقدین نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کوگھیررکھا تھا۔ حضرت شہاب الدین عمر سہروردیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا: ”بازِ سفید“ آگیا،یہ میرے سلسلے کا آفتاب ہو گا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ادب سے گردن جھکا لی اور شیخ الشیوخ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حلقۂ ارادت میں داخل فرمالیا۔([21])
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی مرشِد کریم کی بارگاہ میں معرفت کی منازل طےفرما رہے تھے کہ ایک رات
خواب دیکھا: ایک نورانی مکان میں نبیٔ کریم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تخت پرتشریف فرما ہیں۔ شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
دائیں جانب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ایک جانب رسی پر کئی خِرْقے([22])لٹکے ہوئے ہیں۔
سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بہاء الدین زکریا کو طلب فرمایا۔ شیخ شہاب الدین عمرسہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شیخ بہاء الدین کو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پیش کیا۔نبئ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے شیخ شہاب الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے فرمایا: ایک خرقہ لو اور بہاء الدین کو پہنا دو۔شیخ شہاب الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حکم کی تعمیل فرمائی ۔
صبح ہوتے ہی حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہرودی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے شیخ بہاءالدین زکریارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنےپاس بلایا۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حاضرِخدمت ہوئے تو دیکھا کہ وہی مکان اوراسی طرح رسی پر خرقے لٹکے ہوئے ہیں جیسے رات خواب میں دیکھے تھے۔حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے وہی رات والا خرقہ رسی سے اُٹھایا اور حضرت بہاءالدین زکریا رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے کندھے پر رکھ کر فرمایا: بہاءالدین ! یہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عطا کردہ خرقے ہیں،یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے ہی دیے جاتے ہیں ۔میں تو ایک درمیانی واسطہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوں اور نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اجازت کے بغیر کسی کو نہیں دے سکتا اور نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اجازت کا معاملہ تو تم رات دیکھ ہی چکے ہو۔([23])
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو خلافت ملنے پر کچھ مریدوں اور درویشوں کو بڑا رشک آیا کہ ہم ایک عرصے سے شیخ کی خدمت کر رہے ہیں اور بہاء الدین زکریا کو صرف سترہ دن میں خرقہ خلافت مل گیا ہے۔درویشوں کی یہ بات حضرت سیّدنا شہاب الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے نورِباطن سے جان لی اور درویشوں سے فرمایا: ’’مرید پر لازم ہے کہ وہ مرشد کے فیصلے سے اختلاف نہ کرے‘‘اور اپنے دل و دماغ کو اندیشوں کے غبار سے آلودہ نہ ہونے دے۔([24]) تم سب گیلی لکڑی کی مانند ہوجس پر آگ جلدی اثر نہیں کرتی اور اسے جلانے کے لیے شدید محنت درکار ہوتی ہے۔ جبکہ بہاءالدین سوکھی لکڑی کی طرح تھا کہ ایک ہی پھونک سےبھڑک اٹھا اور عشقِ الٰہی کی آگ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔([25])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بعض لوگ پیرو مرشد کے ادب واحترام سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے ان پر اعتراض کر بیٹھتے ہیں یاد رکھئے !یہ انتہائی خطرناک کام ہے چنانچہ
شیخ الشیوخ حضرت سیدنا شہاب الدین سہروردی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:پیر پر اعتراض کرنے سے ڈرنا چاہئے کہ یہ مریدوں کے لئے زہرِ قاتل ہے۔شايدہی کوئی مرید ہو جو پیر اعتراض کرنے کے باوجود فلاح پائے۔شیخ کےوہ تصرفات جو اسے سمجھ نہ آتے ہوں ان میں حضرت سیدنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حضرت سیدنا خضر عَلَیْہِ السَّلَام کےساتھ پیش آنے والے واقعات یاد کرلے کیونکہ حضرت سیدنا خضر عَلَیْہِ السَّلَام سے وہ باتیں صادر ہوتی تھیں بظاہر جن پر سخت اعتراض تھا (جیسے مسکینوں کی کشتی میں سوراخ کردینا، بچے کو قتل کردینا) پھر جب وہ اس کی وجہ بتاتے توظاہر ہوجاتا کہ حق یہی تھا جو انہوں نے کیا۔ یونہی مریدکو یقین رکھنا چاہئے کہ شیخ کا جو فعل مجھے صحیح معلوم نہیں ہوتا شیخ کے پاس اس کی صحت پر دلیل ِقطعی ہے۔([26])([27])
شیخ الاسلام حضرت
بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے چچا جان
حضرت احمد غوث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے مخدوم عبدالرشید رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے خانقاہ کا نظم و نسق سنبھالااور کوٹ کروڑ سے مدینۃ الاولیاء ملتان شریف منتقل ہو گئے ۔ ایک دن حضرت مخدوم عبدالرشید رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے والد ماجد حضرت احمد غوث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو خواب میں دیکھاجو فرما رہے تھے: بیٹا چار دن بعد تمہارے چچازاد بھائی بہاءالدین زکریا دین و دنیا کی سعادتوں سے مالا مال ہو کر (مدینۃ الاولیاء)ملتان میں داخل ہوں گے تم ان سے اپنی ہمشیرہ کا نکاح بھی کر دینا اور مسند و خانقاہ کا سارا نظام ان کے سپر د کرکے خود حرمین شریفین روانہ ہوجانا۔([28])
حضرت بہاءالدین زکریا ملتانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب مدینۃالاولیاء ملتان شریف میں داخل ہوئے تو آپ کے چچازاد مخدوم عبدالرشید رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے شہر سے باہر آکر استقبال فرمایا۔ بعد ازا ں حکم پدری کے تمام جائیداداور مسند کے معاملات شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے حوالے کیے اور اپنی ہمشیرہ محترمہ” رشیدہ بانو “ کا نکاح آپ سے کیا اور خود حرمین شریفین روانہ ہوگئے۔([29])
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہجب مدینۃ الاولیاء ملتان شریف جلوہ فرما ہوئے تو وہاں کے علماءو صوفیا نے بطور کنایہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں دودھ سے بھرا ہوا ایک پیالہ بھیجا ۔ مطلب یہ تھا کہ یہ شہر علماو صوفیا سے دودھ کے اس پیالے کی طرح بھرا ہوا ہے اور مزید گنجائش نہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس پیالے کے اوپر ایک گلاب کا پھول رکھ کر واپس بھیج دیا جس کا مطلب تھا کہ ہم یہاں اس گلاب کی طرح رہیں گے جو کسی پر بھاری اور تکلیف دہ نہ ہوگا ہاں البتہ خوشبو ضرور دے گا۔ اکابر ملتان آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی اس ادا پرحیران رہ گئے اورآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے معتقد ہو گئے ([30])
شىخ الاسلام حضرت بہا
ء الدىن زکرىاملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دروىشى کے ستر ہزار علوم طے کرکےان پر اپنے
عمل کو حدِ کمال تک پہنچادىا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکواتنى روحانى قوت حاصل
ہوچکى تھى کہ اگر آسمان کى جانب نظر اٹھاتےتو عظمتِ عظىم بے حجاب مشاہدہ کرتے اور اگر زمىن پر نظر کرتے تو تَحتَ الثَرى تک کى چىزىں دکھائى دىنے لگتىں، باىں ہمہ وہ
بارہا فرماتے تھے کہ دروىشى کا
مرتبہ اس سے بھى ارفع و اعلىٰ ہے، اگر کہہ ڈالوں تو سننے والوں کا زَہرہ آب (یعنی خوف و دہشت طاری)ہوجائے، ىہ تو دروىشى کا ادنىٰ درجہ ہے۔([31])
حضرت شیخ بہاء الدین زکریاسہروردیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاور بابا فریدالدین مسعود گنج شکرچشتیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے قریبی تعلقات تھے۔ ایک دوسرے سے ملاقات کے ساتھ ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی رہتا تھا ۔حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ایک روز میں نے حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو خط لکھنا چاہا۔سوچا آپ کو کس لقب سے مخاطب کروں؟ اتنے میں لوحِ محفوظ پرنظر پڑی وہاں آپ کا لقب” شیخ الاسلام “لکھا دیکھاچنانچہ یہی لقب لکھ دیا۔ ([32])
حضرت شیخ بہاءالدین
زکریاملتانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی آمد سے مدینۃ الاولیاء ملتان شریف میں ایک
عظیم روحانی وعلمی انقلاب برپا ہوا۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے مدینۃالاولیاملتان شریف میں سلسلۂ سہروردیہ
کاآغاز فرمایا۔ ملک کے گوشے
گوشے سے لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی زیارت کے لئے آکر آپ کے وعظ و نصیحت سے مستفیض ہونے لگے ۔تھوڑے ہی عرصے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مریدوں کی تعدادکاٹھیا وار،پنجاب ،باب الاسلام سندھ اور دہلی تک پہنچ گئی۔ لاکھوں افراد نے فیوض و برکات پائے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے عظىم الشان جامعہ، رَفىع ُالمَنزِلَت خانقاہ، وسىع و عرىض لنگر خانہ، پُر شکوہ اجتماع گاہ،خوبصور ت و عالىشان محل سَرائىں اور مَساجد تعمىر کروائىں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دم قدم سے اس وقت کا مدینۃالاولیاملتان مدینۃ العلوم بن گیا۔ ([33])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عصر کی اذان سنتے ہی مسجد میں تشریف لا کر عصر کی نماز باجماعت
ادا فرماتے۔ اس کے بعد منبر پر جلوہ اَفروزہوتے۔ قرآن وحدیث کا وعظ فرماتے ۔ اس
موقعہ پر دور ونزدیک کے لوگ کام چھوڑ کر جوق در جوق آتے اور بیان سنتے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ کی زبان میں ایسی تاثیر
تھی کہ جو مسلمان سنتا ضرور متأثر ہوتا اور برے کام چھوڑ کر زہد و تقویٰ اور نیک
اعمال اختیار کرلیتا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی کوششوں سے دیگر مذاہب کے
ہزاروں لوگ دینِ اسلام سےمشرف ہوئے۔([34])صاحب ِ شَوَاہِدُ النبوۃحضرت علامہ
عبدالرحمٰن جامی رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے ہر روز ستر عالم و فاضل اِستفادہ کرتے تھے۔([35])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا جامعہ ایک انٹرنیشنل اسلامک ىونىورسٹى کى حىثىت رکھتا
تھا جس مىں جملہ اسلامی علوم کى تعلىم ہوتى تھى۔ بڑے بڑے لائق و فائق علما و
اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، جو نہ صرف ہندوستان بلکہ بلادِ ایشیاء عراق،
حجاز، شام تک سے آنے والے تشنگانِ علم کو فقہ واصولِ فقہ، حدیث و اصولِ حدىث،
تفسیر و اصولِ تفسىر، صَرف ونَحَو، بلاغت، ادب و اِنشاء، فلسفہ، منطق، رىاضى
اورہىئت جیسے علوم و فنون کے جام پلاتے تھے۔ جامعہ کا نظم ونسق براہِ راست خودشیخ
الاسلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسنبھالتے تھے۔ جامعہ کے کئی ہزارطلبا اور دیگر
آنے والے مریدین و معتقدین اور مسافروں کے لیے روزانہ کئی من لنگر تیار ہوتا۔
جامعہ کے طلباء کو کتب اور دیگر تعلیمی ضروریات مکمل طور پر مفت فراہم کی گئی
تھیں۔ جبکہ ان کے قىام کے لىے کمرے بھی تعمیر کیے گئے۔ اس جامعہ اور دیگر فلاحی
کاموں کے تمام کُلّى اور جُزوِى مَصارِف کى کفىل صرف اىک ہستى حضرت بہاءالدین
زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ تھے۔
ارضِ ہند پر یوں باقاعدہ مفت تعلىمی سہولیات اور اىک عظىم الشان جامعہ کا قیام آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہی کے دور میں
ہوا۔([36])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے جامعہ میں ایک شعبہ ”تخصص فی اللغۃ“بھی قائم فرمایاتھا۔
اس شعبہ میں فارغ التحصیل علما کو دیگر علاقوں میں تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دینے
کی تربیت دی جاتی یوں اس شعبہ میں مبلغین کی تربیت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مبلغین
کے لیے ضروری تھا کہ جس ملک یا علاقے میں انہیں بھیجا جائے وہاں کی زبان اور
معاشرتی رسم و رواج سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہوں تاکہ تبلیغِ اسلام کے دوران کسی
قسم کی اَجنبیت کا سامنا نہ ہو۔ چنانچہ جس مبلغ کو جس ملک یا علاقے میں بھیجنا
ہوتا اسے وہاں کی زبان سکھائی جاتی یعنی تخصص فی اللغۃ کروایا جاتا۔ شعبہ تخصص فی
اللغۃ کے لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کئی ممالک سے ماہرین زبان و فن کو جمع کیا
تھا۔ انہیں مَعقول اجارہ اور دیگر اِقامتی سہولیات فراہم کی تھیں۔ فارغُ التحصیل
طلبا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ انہیں فرماتے: کیا
تم فی سبیل اللہ اپنے رب کا پیغام عام کرنے کے لیے تیار ہو؟اس
طرح بہت سارے اپنے آپ کو وقفِ مدینہ(یعنی
فی سبیل
اللہ تبلیغِ دین کےلیے خود کو پیش
) کر دیتے۔ جس کو جس ملک یا علاقہ
میں بھیجنا ہوتا وہاں کی زبان کی تربیت دےکر روانہ
کر دیا جاتا۔([37])
جن علما کو تخصص فی اللغۃ کے بعد دوسرے ملکوں میں بھیجا جاتا تھا حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی ان کے استاد صاحب کو پانچ ہزار اشرفیاں دے کر فرماتے کہ اس ملک کے لیے ضروری اور مفید اشیاء شہر سے خرید کر جہاز میں رکھوا دیں اور مبلغین کو وقتِ روانگی دعاؤں سے نوازتے اور فرماتے:سامان کم منافع پر فروخت کرنا، لین دین کے ہر معاملے میں اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا، ناقص چیزیں فروخت نہ کرنا، خریداروں سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا، جب تک لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہوجائےا ن کے سامنے اسلامی تعلیمات پیش نہ کرنا۔ ([38])
اس طرح یہ نوجوان
مبلغین ِاسلام جہازوں پر سامانِ تجارت لاد کر مدینۃ الاولیاملتان سے روانہ ہوجاتے
اور جاوا، سماٹرا، فلپائن، اور چین کے علاقوں میں پہنچ کر اپنی دکانیں کھولتے جو
کہ تبلیغِ اسلام کا مرکز ہوتیں۔ مقامی غیر مسلم آبادیوں کے ساتھ اسلامی اصولوں کی
روشنی میں کاروبار کرتے اور جب ان سے قربت اور اعتماد حاصل ہوجاتا تو نظریۂ
وحدانیت و رسالت سے ناآشنا لوگوں کے سامنے اسلام
پیش کرتے۔ ان تبلیغی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کا خاطرخواہ نتیجہ برآمد ہوتا اور غیرمسلم حضرات، مبلغینِ اسلام کےحسنِ اخلاق، دینداری، خداترسی، دیانت داری اور معاملات کی صفائی دیکھ کر اسلام قبول کرلیتے۔ آج مشرقِ بعید کے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جو مسلمان نظر آتے ہیں یہ ان ہی مبلغین تاجروں کی سعی ٔ مسلسل کا ثمرہ(نتیجہ) ہیں۔([39])
بیرونِ ملک کے ساتھ ساتھ اندرونِ ملک نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے کا بھی خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ جامعہ کے اندر باقاعدہ تربیت گاہ سے تربیت یافتہ مدنی قافلے ملک بھر میں سفر کرتے۔ اسی طرح ملک بھر میں کئی مقامات پر تربیت گاہیں بنائی گئی تھیں۔ کشمیر سے راس کماری تک اور گوادر سے بنگال تک مبلغین اور واعظین کے کئی قافلے اور باقاعدہ تربیت گاہیں مصروفِ تبلیغ ِ دین تھیں۔ حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے ملک بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے اور مخلوقِ خدا کی شرعی رہنمائی کرنے کے لیے دس دس میل کے فاصلے پر تربیت گاہیں قائم کیں جن میں علمائے کرام اور مبلغینِ اسلام کو مقرر فرمایا۔([40])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
شیخ الاسلا م حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیاپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود تبلیغِ قرآن و سنّت کے لیے راہِ خدا میں سفر فرماتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے شرکائے قافلہ میں اکثر اوقات حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ، حضرت سیّدنا عثمان مروندی لعل شہباز قلندر سہروردیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاورحضرت مخدوم سید جلال الدین حسین بن علی سرخ بخاری سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہوتےتھے۔ان چار بزرگوں کو طریقت کے چار یار بھی کہا جاتا ہے۔ ان حضرات نے سراندیپ، دہلی، کشمیر، صوبہ سرحد(خیبر پختون خواہ)، بلخ، بخارا، کوہِ سلیمان اور سندھ کے مختلف علاقوں سکھر، سیہون، منگھوپیر اور ان کے مضافات کی طرف سفر فرمایا اور خلقِ خدا کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔([41])
کسی بھی چھوٹے سے
چھوٹے اور بڑے سے بڑے ادارے، تنظیم، فیکٹری وغیرہ کو کامیاب کرنے کے لیے ذمہ داران
سے کارکردگی طلب کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شجرِ اسلام کی آبیاری کےلیے قائم کیے
گئے اس نظام کو کامیاب کرنے
کے لیے شیخ الاسلام حضرت سیدنا بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیسال کے اختتام پر ایک تربیتی نشست کا اہتمام فرماتے جس میں مبلغین اور ذمہ داران حاضر ہوتے اور سال بھر کی کارکردگی پیش کرتے۔([42])
حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی سیرت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کیسےمنظم طریقے پر دعوتِ اسلام کے لیے تربیت گاہیں قائم کیں اوراپنے مبلغین کواسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے کیسے کیسے خطرناک علاقوں، جنگلوں اور دیہاتوں میں بھیجا۔ یہ صوفیائے کرام ہی کی جاں سوز محنتوں کا نتیجہ ہے کہ بَرِّصَغیر پاک و ہند کے تاریک ترین علاقوں میں بھی اسلام کا پیغام پہنچا۔ خوفناک جنگلوں، دیہاتوں، تاریک غاروں اور پُرہَول بیابانوں میں پرچمِ اسلام لہرانے والے یہی صوفیائے کرام تھے۔ ([43])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس قدر تدبر سے انتظامات فرمائے کہ آج کے ترقی یافتہ
دور میں بھی کسی فرد واحد کا اتنے پہلوؤں سے خدمتِ دین و فلاح ِانسانیت کا انتظام
کرنا مشکل ترین دکھائی دیتا ہے۔ رہائشی جامعہ، مسافر خانہ، درویشوں کی
رہائش کا انتظام، سب کے لیے لنگر خانہ وغیرہ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ان سب کے ساتھ ساتھ نابینا، لنگڑے اور معذور افراد کے لیے محتاج خانہ بنا رکھا تھا جہاں انہیں کھانا اور ضروریاتِ زندگی فراہم کی جاتی تھیں، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہان کے علاج اور تربیت پر خاص توجہ فرماتے تھے۔([44])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ
وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کا مدنی
ماحول اولیائے کرام ہی کا فیضان ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کرم و فضل اور اس کے نیک بندوں کے فیضانِ نظر
سے شیخِ طریقت امیرِِ اہلسنّت، بانِی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد
الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے بھی دعوتِ اسلامی کو اسی نہج پر پروان چڑھایا
جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کے تحت ملک و بیرون
ملک ڈھیروں جامعات المدینہ، بے شمار مدارس المدینہ، تقریباً ہر شہر میں ہفتہ وار
اجتماع، اندرون وبیرونِ ملک ۳دن، ۱۲دن،ایک ماہ ، ۶۳دن، ۹۲دن اور ۱۲ماہ کے مدنی
قافلے ، مختلف ممالک میں مختلف زبانوں میں اسلام کا پیغام عام کرنے کے لیے مبلغین
کی تیاری اور انہیں عربی،انگلش اور دیگر زبانوں کی تربیت دینا، دنیا بھر میں علم
دین کو عام کرنے کے لیے نہایت ہی سستے نرخوں پر کتب و رسائل مہیا کرنے کے لیے جگہ
جگہ مکتبۃ
المدینہ، قرآن و سنّت کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے علمی و تحقیقی شعبہ المدینۃالعلمیہ، تعلیماتِ اسلام کو دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے مجلسِ تراجم، دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات، گلی گلی پیغام سنت پہنچانے کے لیے مسجد مسجد میں فیضانِ سنّت کا درس،دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے مدنی چینل، جیلوں میں قیدیوں کی اخلاقی و دینی تربیت کا اہتمام اور اس کے علاوہ کئی شعبوں میں خدمتِ دینِ متین کا سلسلہ جاری ہے۔ ان شعبوں کی تفصیلی معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالے ”تعارفِ دعوتِ اسلامی“ کا مطالعہ فرمائیے۔
شىخ الاسلام حضرت شیخ
بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو
والدین کی طرف سے بہت بڑا خزانہ اور اراضی وراثت میں ملی تھی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے تجارت اور زراعت کو اپنایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا سامانِ تجارت سکھر، بھکر، ٹھٹھہ،
دہلى، مرکز الاولیالاہوراور بیرونِ ممالک عراق، حجازِ مُقَدَّس، مصر، افغانستان،
ایران اوردیگر دوسرے ممالک میں جاتا تھا۔ تجارت کرنے والے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مریدین، مُعتَمَد خُدَّام،
درویش اور مبلغین ہوتے تھے۔ ان سب کو مبلغین کی طرح خاص ہدایت تھی کہ کم نفع پر
بىچو اور دىانت دارى سے
معاملہ کرو۔ اس تجارت سے لاکھوں لاکھ آمدن ہوتی جو خالصۃً تبلیغِ دین میں خرچ ہوتی۔ زرعی اراضی سے آنے والی فصلوں اور ان کی آمدن بھی بے حساب تھی۔([45])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مقولہ ہے :اَلاِسْتِقَامَۃُ
فَوْقَ الْکَرَامَۃِ
یعنی استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے ۔
شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ
سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی حیات
مبارکہ کے روشن گوشوں سے استقامت کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہیں۔ ہر رات مکمل
قرآن شرىف کی تلاوت فرماتے، تا حیات نمازِ باجماعت کا التزام رکھا، روزانہ فجر،
اشراق اور چاشت کى نمازوں کے بعد دىوان خانہ مىں مسندِ ارشاد پر جلوہ فرما ہوتے،
اس وقت تمام علما اور مشائخ بالالتزام حاضر ہوتے اور سلوک و معرفت کے دَقائق حَل
کرواتے، خدام تجارت، زراعت اور لنگر خانہ کے حسابات بىش کرتے اور آئندہ کی ہدایات
پاتے، اسی دوران شہر اور مضافات کے غربا اور مساکىن پىش ہوتے اور ولی کی بارگاہ سے
درہم و دىنار، اَجناس اور خلعتوں سے دامن بھرتے، دوپہر کو دولت خانے پر تشرىف لے
جا کر کھانا تناول فرماتے اور جب روزے رکھتے تو لگاتار رکھتے۔خانگى امور بھى دوپہر
کے وقت پىش ہوتے تھے، اس کے بعد تھوڑى دىر سنّتِ قىلولہ ادا فرماتے، نمازِ ظہر مسجد
میں
باجماعت ادا فرماتے، اس کےبعدحُجرے مىں چلے جاتے اور کافى د ىر تک اَورادو اَذکار مىں مصروف رہتے، پھر نشست کا آغاز ہوتا اور اس مىں مدنی قافلوں کے ذمہ داران سے ملاقات ہوتی اور ان کى کارکردگی پیش ہوتی نیز تبلیغ میں درپیش مسائل حل کیے جاتے، طلبا بھی اپنے سوالات پیش کرتے اور ملفوظات کا خزانہ سمیٹتے، اذانِ عصر ہوتی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مسجد مىں تشرىف لے جاتے اور نمازِ باجماعت ادا فرماتے، نماز کے بعد مسجد ہی میں منبر پر جلوہ افروز ہوتے ،درسِ قرآ ن اور درسِ حدیث فرماتے، سامعىن کى تعداد بعض اوقات چالىس ہزار تک پہنچ جاتى، غروبِ آفتاب سے پہلے مضافات مىں چہل قدمی کے لىے تشرىف لے جاتے، نمازِ مغرب باجماعت ادا کرنے کے بعد خَلوَت میں اَورادواَذکار مىں مصروف ہوجاتے، نمازِ عشا باجماعت ادا فرمانے کے بعدرات ڈىڑھ پہر تک عبادت مىں مصروف رہتے، اس کے بعد دولت خانہ مىں تشرىف لاتے اور کھانا تناوُل فرما کر تھوڑی دیر اِستِراحت فرماتے، بىدار ہو کر تہجد کی سعادت پاتے،نمازِ فجر تک تلاوت قرآنِ مجید سے لطف اٹھاتے۔ بعض اوقات اىک آہِ جگر دوز سنائی دیتی۔ایک رُباعی اکثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی زبان مبارک سے سننے میں آتی تھی:
درىادِ تو اے دوست چناں مدہوشم صد تىغ اگر بزنى سر نخروشم
آہے کہ بزغمِ بىادِ تو وقتِ سحر گر ہر دو جہاں د ہند واللہ نفروشم
یعنی اے دوست ہم تیری یاد میں مدہوش ہیں، اگر سو تلواریں بھی ماری جائیں تو ہم سر نہ اٹھائیں، ہم وقتِ سحرتیری یاد میں گم ہیں، اللہ کی قسم ! اس یاد کے عوض اگر دو جہاں بھی دیے جائیں توہم قبول نہ کریں۔([46])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!احادیثِ مبارکہ میں قرآنِ مجید کی تلاوت کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اَسلاف کثرت سے قرآنِ پاک کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو بھی تلاوتِ قرآنِ مجید سے غیر معمولی شَغَف تھا چنانچہ ہر شب کو ایک قرآن پاک کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ([47])
ایک رات حضرت شیخ
بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے دوستوں سے ارشاد فرمایا:تم میں کوئى اىسا شخص ہے
جو آج کی رات دو رکعت میں تمام کرے اور ایک رکعت میں کامل قرآن شریف پڑھے ۔
حاضرىن مىں سے کسى کو ہمت نہ ہوئى۔شیخ بہاء الدین زکریا رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خود کھڑے
ہو ئے اوردو رکعت نماز شروع کردی ۔ پہلى رکعت مىں پورا قرآنِ مجىد اور چار پارے
مزید
تلاوت فرمائےاور دوسرى رکعت مىں سورہ ٔاخلاص پڑھى اور نمازمکمل کر لی ۔ ([48])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کامعمول تھا کہ تہجد کى نماز کے بعد قرآنِ پاک کا آغاز فرماتے اور نمازِفجر سے پہلے مکمل فرمالیتے۔ ([49])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کہیں شیطان یہ وسوسہ نہ دلائے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ بندہ تہجد سے لے کر فجر تک مکمل قرآنِ پاک کی تلاوت کرلے اور ایک ہی رکعت میں مکمل قرآن ختم کرلے۔ بظاہر ہمیں یہ بہت ہی مشکل اور ناممکن نظر آتاہے مگر یاد رکھئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے نیک بندوں کو ایسی طاقت و قوت عطا فرمادیتا ہے کہ ان کےلیے وقت بھی رک جاتا ہے۔
مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ
الاُمَّت حضرت علامہ مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے
ہیں: حضرت (سیّدنا)عثمانِ غنی(رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) نے ایک رات
میں ختمِ قرآن کیا ہے۔(حضرت
سیّدنا)داؤد عَلَیْہِ
السَّلَام چند منٹ میں زبور ختم
کرلیتے تھے۔حضرت (سیّدنا)علی (رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہ)گھوڑا کسنے سے پہلے
ختمِ قرآن کرلیتے تھے۔مرقاۃ میں ہے: شیخ موسیٰ سدانی شیخ ابو مدین(شعیب الغوث مغزلی) کے اصحاب میں سے تھے ایک دن و رات میں ستر ہزار ختم
کرلیتے تھے ایک دفعہ انہوں نے کعبہ معظمہ میں سنگ اسود چوم کر دروازہ کعبہ پر پہنچ
کر ختمِ قرآن فرمالیا اور لوگوں
نے ایک ایک حرف سنا۔ ([50])
مولائے کائنات، شیرِخدا حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ گھوڑے پر سوا رہوتے وقت ایک پاؤں رِکاب میں رکھتے اور قرآنِ مجید شروع کرتے اوردوسراپاؤں رِکاب میں رکھ کر گھوڑے کی زین پر بیٹھنے تک اتنی دیر میں ایک قرآنِ مجید ختم کرلیا کرتے تھے۔ ([51])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہولایت کے عالی رتبہ پر فائز ہونے اور ہزاروں خدام کے ہونے کے باوجود اپنے کام خود کرلىا کرتے تھے۔ کسى کام کو اس لىے نہ روکے رکھتے تھے کہ خادم آکر کرے گا بلکہ بعض اوقات خدام کى موجودگى مىں بھى اپنا کام خود کرلىا کرتے تھے۔ اىسى باتیں جن مىں تکبر پرستى کى جھلک نظر آتى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو سخت ناپسند تھىں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عاجزی بھی اللہ
عَزَّ وَجَلَّ کی بڑی نعمت ہے جو
سعادت مند ہی پاتے ہیں۔ عاجزی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سرکارِ دوعالم،
شفیعِ مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ”صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا، اللہ عَزَّوَجَلَّ بندے کے عفو ودرگزر کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے اور جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔“([52])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سیدمحمد چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ کئی بے باک لوگ حضرت خواجہ بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں گئے اور کچھ مانگا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے نہ دیا۔انھوں نے باہر جا کر بے ہودہ گالیاں دینا اور پتھر برسانا شروع کر دیے۔ حضرت شیخ بہاءالدین زکریا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا :خانقاہ کا دروازہ بند کر دیا جائے۔حسبِ حکم دروازہ بند کر دیا گیامگر ان نالائقوں نے دروازے پر پتھروں کی بوچھاڑ کر دی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو جوش آیا تو انہیں بلا کر فرمایا : میں یہاں خود نہیں بیٹھا مجھے ایک کاملُ الوَقت ولی نے بٹھایا ہے جن کا نام شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہے ۔یہ سن کر سب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے قدموں میں گر گئے ۔([53])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ واقعہ سے حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے حسنِ اخلاق اور صبر و تحمل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس میں ہمارے لیے درس ہے کہ کوئی کتنی ہی سخت بات کہہ دے ہمیں صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہئے۔ اگر کبھی غصہ آ جائے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے برداشت کرنا چاہئے۔اس عادت والے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّدنیا و آخرت میں بڑے بڑے مراتب و درجات عطا فرماتا ہے چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ۴،آل عمرٰن :۱۳۴)
ترجمۂ کنزالایمان:اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبو ب ہیں ۔
حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک صحابی سے فرمایا:تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پسند فرماتا ہے ایک حلم اور دوسری بُردباری۔([54])
سرکارِ والا تَبار، ہم
بے کسوں کے مددگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کا
فرمانِ عالیشان ہے :’’حلم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘([55])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی صبر وتحمل کی دولت عطا فرمائے۔
حضرت بہاء الدین زکریا
ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مال و دولت کے انبار لگے ہونے کے باوجود ان
خزانوں سے مستغنی تھے۔ دولت کی محبت و طلب دل میں ذرہ برابر جگہ نہ پا سکتی تھی۔
ایک روز ایک خادم سے فرماىا: جاؤ جس صندوقچہ مىں پانچ ہزار سرخ دىنار رکھے ہىں اسے
اٹھا لاؤ۔ خادم حکم کی تعمیل میں روانہ ہوا مگر اس صندوقچہ کو غائب پایا ہرچند
تلاشا مگر بے سود، بالآخر بارگاہِ مرشد میں عرض گزار دی۔ آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اَلْحَمْدُ
لِلّٰہفرمایا۔ مگر خادم پھر بھی
جاکر تلاش کرتا رہا اور بالآخر مل ہی گیا اور خوشی خوشی اٹھا کر قدموں میں لا
ڈالا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے پھر اَلْحَمْدُ لِلّٰہکہا۔ حاضرىن نے عرض کى: حضور گم ہونے پر بھی اَلْحَمْدُ
لِلّٰہ اور مِل جانے پر بھی، آخر
اس میں کیا حکمت ہے؟حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ
سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے ارشاد
فرماىا کہ فقىروں کے لىے دنىا کا وجود اور عدم دونوں برابر ہىں،نہ جانے کا غم نہ
آنے کی خوشی، یہ کہہ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے تمام
دىنار حاجت مندوںمىں تقسىم کروادىئے۔([56])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکس قدر سخی اور مالِ دنیا سے بے رغبت و بے نیاز تھے۔ سخاوت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ایک بہت ہی عظیم نعمت ہے جو خوش بختوں ہی کا حصہ ہے وگرنہ آج لاکھوں ایسے لوگ ہیں جن کی آمدن اس قدر زیادہ ہے کہ وہ اُسے گن نہیں سکتےمگر راہِ خدا میں دینے کی توفیق نہیں ملتی۔ راہ ِ خدا میں مال خرچ کرنے کے بہت فضائل و فوائد ہیں چنانچہ
حضرتِ سیّدنا جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:”اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں تو بہ کرلو اور مشغولیت سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا کثرت سے ذکر کرنےاورپوشید ہ اور ظاہر ی طور پر کثر ت سے صدقہ کے ذریعے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اپنا رابطہ جوڑ لوتو تمہیں رزق دیا جائے گا اور تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری مصیبتیں دور کی جائیں گی۔ “([57])
شىخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ
سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی عادتِ
مبارکہ تھی کہ لنگر خانہ میں جو بھی کھانا پکتا فقرا کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے تھے چنانچہ اىک مرتبہ فقرا کى اىک بڑى جماعت دستر خوان پر شرىک تھى۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ہر فقىر کے ساتھ اىک اىک لقمہ کھاىا۔ اىک فقىر کو دىکھا کہ وہ روٹى شوربے مىں بھگوکر (ثرید بنا کر )کھارہا ہے۔فرماىا:سبحان اللہ! ان سب مىں سے ىہ خوب کھانا جانتا ہے، کىونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرماىا: فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ([58]) یعنی عائشہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا )کی بزرگی ساری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی بزرگی تمام کھانوں پر۔ ([59])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت شیخ بہاء الدین زکریا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو اللہ عَزَّ وَجَلَّنے جس طرح بے بہا مال و دولت عطا فرمائی تھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اسی طرح اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی راہ میں خرچ بھی فرماتے تھے آپ کی سخاوت صرف مریدین و محبین تک ہی محدود نہ تھی بلکہ اگر کبھی سرکاری سطح پر بھی مالی ضرورت درپیش ہوتی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے خزانوں کے منہ کھول دیتےتھے ۔چنانچہ
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سید محمد چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ایک مرتبہ یہ حکایت ارشاد فرمائی کہ شیخ بہاء الدین زکریا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب کسی کو کوئی شے عنایت فرماتے تو اچھی اور زیادہ مقدار میں دیتے تھے ۔مُعَلِّم جو آپ کے بچوں کو پڑھاتا تھا اسےتنخواہ کےعلاوہ انعام بھی مرحمت فرماتے تھے۔ایک مرتبہ (مدینۃ الاولیا) ملتان میں سخت قحط پڑا ملتان کے حاکم ناصر الدین قَباچہ کوغلہ کی ضرورت پڑی۔ اس نے آپ سے طلب کیا تو آپ نے اس کی اِلتماس قبول فرما کر کئی مَن غلہ عطا فرمادیا۔ جب غلے کو یہاں سے لے جایا گیا تو اس میں سے ناگہاں طور پر بھاری مقدار میں نقدی رقم بھی نکل آئی ۔والیٔ شہر نے آپ کے پاس وہ رقم واپس بھیجی کہ میں نے تو صرف غلے کا سوال کیا تھا ۔جس وقت وہ روپیہ حضرت کے پاس لایا گیا آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے اس روپیہ کا حال معلوم تھا لیکن میں نے یہ نقد رقم اور غلہ حاکم کو دے دیا تھا ۔اس کے پاس لے جاؤکہ وہ اپنے صَرف میں لائے ۔ ([60])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا خزانہ غُرباء اورمستحقین کے لئے ہر وقت کھُلا رہتا۔ محتاج
و مساکین آتے اور آپ کے دربار سے مالامال ہو کر جاتے ۔ایک مرتبہ آپ
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحجرہ مبارکہ میں مصروف عبادت تھے ۔چند درویش بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔اچانک آپ اپنے مُصَلّے سے اُٹھے اور رقم کی ایک تھیلی ہاتھ میں لیے باہر نکل گئے ۔درویش بھی حیرانی کے عالَم میں آپ کے ساتھ ہو لیے، باہر آکر دیکھا کہ چند آدمی ایک غَریبُ الحال شخص کو اپنے قرض کی وصولی کے لئے تنگ کر رہے ہیں اور اس شخص کے پاس ایک کوڑی بھی نہیں تھی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے قرض خواہوں کو بلا کر فرمایا : یہ تھیلی لے لو اور جس قدر اس شخص سے لینے ہیں نکال لو ۔قرض خواہ نے اپنے قرض سے کچھ روپے زیادہ لینے چاہے ۔فوراًاس کا ہاتھ خشک ہو گیا ۔چِلّا کربولا :حضور معاف فرمائیے،میں زیادہ لینے سے توبہ کرتا ہوں۔فوراً اس کا ہاتھ ٹھیک ہو گیا ۔مَفلوکُ الحال مقروض آپ کو دعائیں دینے لگا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ درویشوں کے ہمراہ خلوت خانہ واپس تشریف لے آئے اور فرمایا: خداوندِ کریم عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اس شخص کی مدد کے لئے بھیجا تھا ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ !اس کا مطلب پورا ہو گیا ۔([61])
میٹھےمیٹھے اسلامی بھائیو!قرضدار اگر تنگ دست یا نادار ہو تو اسے مہلت دینی چاہئے اور اگر حاجت نہ ہو تو قرض کا کچھ حصہ یا پورا ہی قرض معاف کر دینا اجرِ عظیم کا سبب ہے چنانچہ
شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمايا:’’جس نے کسی تنگدست مقروض کو مہلت دی یا اس پرمالِ قرض کوصدقہ کردیا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن اس کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔‘‘([62])
نبیٔ مکرم،نورِمجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمايا : جس نے کسی مسلمان سے دنيوی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس سے روزِ قيامت کی مصيبتوں میں سے ایک مصیبت دور کردے گا اور جو کسی تنگدست پر آسانی کرےگا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس پر دنيا وآخرت میں آسانيا ں فرمائے گا۔([63])
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:تم کسی کی فانی مصیبت دفع کرو ،اللہ تم سے باقی مصیبت دفع فرمائےگا تم مومن کو فانی دنيوی آرام پہنچاؤ اللہ تمہيں باقی اُخروی آرام دے گا کيونکہ بدلہ احسان کا احسان ہے۔ يہ حديث بہت جامع ہے کسی مسلمان کے پاؤں سے کانٹا نکالنا بھی ضائع نہيں جاتا۔ حديث کا مطلب يہ نہيں کہ صرف قيا مت ہی ميں بدلہ ملے گا بلکہ قيا مت ميں بدلہ ضرور ملے گا اگرچہ کبھی دنيا ميں بھی مل جائے۔ جو مقروض کو معافی يا مہلت دے، غريب کی غربت دور کرے تو اِنْ شَآءَ اللہ دين و دنيا میں اس کی مشکلیں آسان ہوں گی۔([64])
اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر کاخوف
اىک دفعہ حضرت شىخ
الاسلام بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ پر اس قدر خوف چھاىا کہ اٹھ
کر حجرے کا دروازہ بند کردىااور توبہ و استغفار کے لىے سجدے مىں گر گئے۔ اتنى گرىہ
و زارى فرمائی کہ مصلى آنسوؤں سے تر ہوگىا۔ آہ و زاری کى مسلسل درد ناک آواز
آرہى تھى جس سے لوگوں کے دل پھٹے جاتے تھے۔ صاحبزادگان اور ارا دت مندوں نے دروازہ
کھولنے کے لىے ہر چند التجائیں کى مگر کسى کی عرض قبول نہ ہوئی۔آخر کار حضرت کے
پىارے پوتے حضرت شىخ رکن الدىن عالمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے دو تىن مرتبہ زور سے
پکارا:دادا جان!دروازہ کھولئے۔حضرت شىخ الاسلام رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرطِ محبت سے اٹھے اور حجرہ کا دروازہ کھول د ىا۔
حضرت شىخ رکنُ الدِّىن عالمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے دىکھا کہ خدا شناس
آنکھىں کثرت ِ مجاہدہ سے سوج گئی ہىں اور ان سے آنسوؤں کى بجائے خون کے قطرات ٹپ
ٹپ گررہے ہىں۔ عرض کى: حضور ! اس گرىہ وزارى کا سبب کىا ہے؟ فرماىا: بىٹا ! مىں نے
عالم ِمکاشفہ مىں دىکھاکہ اىک شخص بہا ء الدىن جو زُہد ووَ رَع مىں صاحب ِکمال اور
علم وعمل مىں ىگانہ روزگار تھا، فوت ہوگىا۔ اس کى عبادت و اطاعت کسى کام نہ آئى۔اس
کے تمام اعمال اس کے منہ پر مارے گئے، اور اىمان سلب کرلىا گىا۔ ىہ حال دىکھ کر
مجھ پر خوف طارى ہوا کہ خدا جانے اس فقىر بہاء
الدىن سے کىا سلوک ہوگا؟ دوسرا ىہ کہ روزِ مىثاق جب تمام اَرواح خدا وند ِکرىم کے حضور پىش ہوئىں ، ارشاد ہوا:”اَلَستُ بِرَبِّکُم؟یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں۔“جواب عرض ہوا:”بَلٰى یعنی کیوں نہیں ۔“حکم ہوا: مىں تمہارا معبود ہوں،مجھے سجدہ کرو۔پہلے حکم پر کئى سجدے مىں چلے گئے اور کئى کھڑے رہے۔دوسری مرتبہ میں پہلے لوگوں کے ساتھ کئى اور بھى شرىک ہوگئے اور ىہ سب مخلصىن کہلائے۔ اول مسعود آخر محمود ، لىکن جنہوں نے سجدہ نہىں کىا تھا وہ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ( یعنی دنیااور آخرت دونوں کاگھاٹا ہے)کے مصداق بنادىئے گئے ۔مجھے معلوم نہیں کہ میں کس گروہ مىں تھا؟ حضرت شیخ رکن الدین عالم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مادر زاد ولى تھے اور قُطبىتِ عُظمٰى کے درجہ پر فائز تھے۔ آپ نے عرض کى :دادا جان آپ ہر دو امور کے متعلق تسلى رکھئے کىونکہ حضور کى روح مخلصىن کے اس گروہ مىں سے ہے جس نے دونوں مرتبہ خلوصِ دل سے سجدہ کىا ۔ مجھے بخوبى ىاد ہے کہ آپ کى روح اَغواث کى صف مىں تھى اور مَىں اَقطاب کى صف مىں تھا۔میں نے آپ کى روح کو دىکھا کہ اَغواث کى صف مىں کھڑى رَبُّ العِزَّت عَزَّ وَجَلَّ کى حمد و ثناکررہى تھى۔
حضرت شاہ رکن عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بىان سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو کچھ تسلى ہوئى اور اسى وقت جبىنِ نىاز ادائے شکر کے لىے خاک ِ عبودىت پر رکھ
دى اور پھر باہر تشرىف لا کر مشتاقانِ جمال کو شربتِ دىدار سے شاد کام فرماىا۔([65])
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیہر وقت اپنے مریدین کی شرعی رہنمائی اور اصلاحِ عقائد و اعمال کو پیش نظر رکھتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمریدین و محبین کی معمولی سے معمولی غلطیوں اور کوتاہیوں پر بھی نظر رکھتے اور بروقت اصلاح بھی فرماتے۔چنانچہ
ایک بار حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نہر کے کنارے گئے ۔مریدوں کو دیکھا وضو کر رہے ہیں۔سب شیخ کو دیکھتے ہی برائے تعظیم کھڑے ہو گئےلیکن ایک صوفی نہ اُٹھا اس نے پہلے اپنا وضو مكمل کیا اور اس کے بعد تعظیمِ شیخ کے لئے کھڑا ہوا ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: ان سب میں ایک یہی درویش کامل ہےکہ مکمل وضو کرنے کے بعد میری تعظیم کے لئے کھڑا ہو ا ۔ ([66])
ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا ایک شخص نماز ادا کررہا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس کی نماز میں کوئی غلطی دیکھی تو بُلا کر اس کی اصلاح فرمائی اور دوبارہ
نماز ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ اس نے تین بار غلطی کی اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے تین بار نماز پڑھوائی اور حکم فرمایا کہ باقاعدہ مدرسہ میں داخلہ لو اور نماز کے مسائل سیکھو۔([67])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آ ج مسلمانانِ عالم کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہر طرف بے عملی کا دَور دَورہ ہے۔ مُسلمانوں کی اکثریّت نمازوں کی ادائیگی سے غافل ہے اور جو رہے سَہے مُسَلمان نَماز پڑھتے ہیں اُن میں بھی ایک تعداد ہے جسے نماز کے فرائض و واجبات،سنن و مستحبات ،مکروہات و مُفسدات کا کچھ علم ہی نہیں ہے۔ نمازوں کو درست کرنے اور دینِ اسلام کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کاایک ذریعہ دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں میں سفربھی ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں میں نماز ،وضو ،غسل کے بنیادی مسائل سکھائے جاتے ہیں آپ بھی مدنی قافلوں میں سفر اختیار کیجئے اور ڈھیروں برکتیں پائیے ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہم سبکونمازکے مسائل سیکھنے اورصحیح طور نماز اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
ایک مرتبہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گزر ایسی جماعت کے پاس سے ہوا جو درویشوں کا لباس زیب ِ تن کیے ہوئے تھی۔آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ان میں بیٹھ گئے ۔اس محفل سے ایک نور بلند ہو ا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے نور کا منبع تلاش کرنے کے لیے نظر دوڑائی تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی نگاہ ایک درویش پر پڑی جس سے یہ نور بلند ہورہا تھا ۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس کے قریب گئے اور فرمایا:تم ان درویشوں میں کیوں شامل ہو؟ اس نے جواب دیا : اے زکریا! میں اس وجہ سے شریک ہوں کہ آپ کو معلوم ہو جائے عوام میں بھی خاص ہوتے ہیں ۔([68])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یادرکھئے! ولی ہونے کیلئے تشہیر و اشتہار ، نُمایاں جُبّہ و دستار اور عقید تمندوں کی لمبی قِطا رہونا ضَروری نہیں۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے اولیاء رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی کو بندوں کے اندر پوشیدہ رکھا ہے لہٰذا ہمیں ہر نیک بندے کا احترام کرنا چاہئے، ہمیں کیا معلوم کہ کون گدڑی کا لعل(یعنی چُھپا وَلی)ہے۔
خلیفۂ اعلیٰ حضرت، فقیہِ اعظم، مولیٰنا ابو یوسف محمد شریف
کوٹلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نَقْل فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کو تین چیزوں میں پوشیدہ
رکھا ہے (۱)اپنی رِضا کو اپنی اطاعت میں اور(۲)اپنی ناراضگی کو نافرمانی میں اور
(۳)اپنے اولیا کو اپنے بندوں میں۔‘‘ ([69]) تو ہر اطاعت اور ہر نیکی کو عمل میں
لانا
چاہئے کہ معلوم نہیں کس نیکی پر وہ راضی ہو جائے گااورہر بدی سے بچنا چاہئے کیونکہ معلوم نہیں کہ وہ کس بدی پر ناراض ہو جائےخواہ وہ بَدی کیسی ہی صغیر (چھوٹی ) ہومَثَلاً کسی کی لکڑی کا خِلال کرنا ایک معمولی سی بات ہے یا کسی ہمسایہ کی مٹّی سے اس کی اجازت کے بِغیر ہاتھ دھونا گویا ایک چھوٹی سی بات ہے مگر چُونکہ ہمیں معلوم نہیں۔ اس لئے ممکِن ہے کہ اس برائی میں حق تعالیٰ کی ناراضگی مَخفی ہو تو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بچنا چاہئے۔([70])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت خواجہ قُطبُ الدىن بختىار کاکى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَاقِیجب مدینۃالاولیاء ملتان شریف تشریف لائے توحاکمِ وقت ناصرالدین قباچہ نے خواجہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے مدینۃ الاولیاءملتان مىں قىام کى درخواست پیش کی تو حضرت خواجہ قطب الدىن بختىار کاکىعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَاقِی نےفرماىا:(مدینۃ الاولیاء) ملتان برادرم بہاءالدین کی تحویل میں دیا جاچکا ہے ہم یہاں کیسے رہ سکتے ہیں۔([71])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمارے پیارے آقا ،مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرتِ طیبہ کا ایک حسین باب بزرگوں کے ادب و احترام کی تعلیم دینااور بچوں سے پیار کرنا بھی ہے چنانچہ
سرکارِ مدینہ، فیضِ گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’جو نوجوان کسی بزرگ کے سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے اس کی عزت کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لئے کسی کو مقرر کردیتا ہے جو اس نوجوان کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔‘‘([72])
دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’اے اَنَس ! بڑوں کا ادب و احترام اور تعظیم وتوقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو ، تم جنت میں میری رَفاقت پالو گے۔‘‘([73])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کے ملفوظات ان کی مَدَنی سوچ کے ترجمان ہوتے ہیں جن سے سُننے والوں
کو شریعت وطریقت کے آداب معلوم ہوتے ہیں۔نیکیوں کی رغبت بڑھتی اور گناہوں سے نفرت
پیدا ہوتی ہے۔حضرت شیخ غوث بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے علم و حکمت
بھرے ملفوظات بھی ہمارے لئے رہنمائی کا سر چشمہ ہیں اور عوام وخواص کے لئے معلومات کا اَنمول خزانہ ہیں ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اِن ملفوظات کو پڑھنے ، یاد رکھنے اور اِن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جو شخص تصوف کی دنیا میں داخل ہونے کا آرزو مند ہو اسے چاہیے کہ سونے سے پہلے توبہ کرے اور اپنے دل کو عاداتِ ذمیمہ(بُری عادتوں) سے پاک کرے۔ حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے قول کے مطابق وہ عاداتِ ذمیمہ یہ ہیں: غِل(یعنی بغض و کینہ)، غَش(دھوکہ)، حِقد(عَدوات)، حسد، حرص، کِبر(تکبر)، بُغض، رِیا اور غضب۔ شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی (قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی) نے فرمایا ہے کہ جب تک آدمی دل کو ان اَوصاف ذَمیمہ سے پاک نہ کرلے، گلیم (گِ-لِ-ی-م)یعنی کمبل اور صوف پہننا روا نہیں۔([74])
حضرت بابا فرید الدین مسعودگنج
شکر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں اور بَرادرَم بہاءالدین
یکجا بیٹھے تھے۔ زہد کے بارے میں بات چل نکلی۔ شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین
زکریا ملتانی نے فرمایا: زہد تین چیزوں کا نام ہے
جس میں یہ نہیں اسے زاہد کہلانے کا حق نہیں:
٭…دنیا کو پہچاننا اور اس سے مایوس ہونا
٭…مولا کی خدمت کرنا اور اس کے حقوق کی نگہداشت کرنا
٭…آخرت کی طلب اور اس کے حصول میں لگاتار کوشاں رہنا ۔([75])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے مرىدوں کو اکثر ىہ نصىحت فرماتے تھے، اپنے بىوى بچوں کو رزقِ حلال کھلاؤ، اگر ذرا برابر بھى ناجائز اور حرام کمائى کسى نے اپنى زوجہ و اولاد کو کھلائى تو ان کے اندر بھى حرام رزق کى تاثىر پىدا ہوجائے گى۔ آدمى حرام کارى کے کام وَلَدُالحرام ہونے کى وجہ سے ہى نہىں کرتابلکہ بیشتر حرام کاری رزق ِ حرام کے کھانے سے جنم لیتی ہے اس لیے رزقِ طیّب کا حصول اور تلاش جاری رکھنی چاہئے۔
حضرت سیدنا ابو سعیدخُدریرَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے
روایت ہے:رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا:’’جس شخص نے حلال کمایاپھر اسے خود کھایا یا اس کمائی سے لباس پہنا
اور اپنے علاوہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی دیگر مخلو ق (جیسے اپنے اہل و عیال اور دیگر لوگوں ) کو کھلا یا اور پہنا یا تو اس کا یہ عمل اس
کے لئے برکت و پاکیزگی
ہے ۔([76]) ہمیں ہمیشہ حلال روزی کمانا، کھانا اور کِھلانا چاہیےاور لقمۂ حلال کی تو کیا ہی بات ہے چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا اِمام محمد غَزَالیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قَول نَقل کرتے ہیں:” مسلمان جب حَلال کھانے کا پہلا لُقْمہ کھاتا ہے ، اُس کے پچھلے گُناہ مُعاف کردئیے جاتے ہیں۔اور جو شخص طَلَبِ حلال کیلئے رُسوائی کے مقام پر جاتا ہے اُس کے گناہ دَرَخت کے پتّوں کی طرح جَھڑتے ہیں۔“([77])
حضرت سیّدناعبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہےحضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا :جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کردے گا ۔([78])مُکاشَفَۃُ الْقُلوب میں ہے:آدَمی کے پیٹ میں جب لقمۂ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فِرِشتہ اُس پر لعنت کرےگا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں(یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں)موت آ گئی تو داخِل جہنَّم ہو گا۔ ([79])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :ذوقِ عبادت اس حد تک ہونا چاہیے کہ کسی صورت بھی نمازِ باجماعت کی فضیلت کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ جب اعمال و عبادات پر مُداوَمَت ہوجائے گی تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اخلاقِ حسنہ کی توفیق بھی میسر ہو جائے گی۔ اخلاق حسنہ کی پیروی ہی سے تزکیۂ نفس ممکن ہے۔ ([80]) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے تھے: مجھے جو کچھ بھی حاصل ہوا نماز سے حاصل ہوا ۔میں نے ہر وہ نماز پڑھی ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے ادا فرمائی۔ ([81])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے !شیخ بہاء الدین زکریا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکونماز سے کیسا شَغَف تھا۔یاد رکھئے !دینِ اِسْلام میں جو اَہمیَّت نَماز کوحاصِل ہے وہ کسی اور عِبادَت کو حاصِل نہیں۔نَماز اَرْکانِ اِسْلام میں سے ایک اَہَمّ تَرین رُکْن ہے۔قُرآن وحَدِیْث میں نَماز کی فرضیت و اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، چُنانچہ پارہ۵ ، سُوۡرَۃُ النِّسَاء کی آیت نمبر ۱۰۳ میں اِرْشاد ہوتاہے :
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳)
ترجمہ کنزالایمان :بے شک نماز ایمان والوں پر فرض ہے، وقت باندھا ہوا
کثیر احادیث میں نماز پڑھنے کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے، ترغیب کے لئے2 احادیث پیش کی جاتی ہیں :
(1)…حضرت سیّدناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:ایک صاحب نے عرض کی:یا رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اسلام میںاللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا:وقت میں نماز پڑھنا اور جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں ، نماز دین کا ستون ہے۔([82])
(2)…حضرت سیّدناانسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضورپُرنور، شافعِ یومُ النُّشُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔([83])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو بغض و کینہ سے سخت نفرت تھی۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اگر تمہارا بدترین دشمن بھی حق پر ہو تو اس کے بارے میں سچے الفاظ اور سچی بات کرو اور ذاتی عناد سے کسی کے کردار کو گندہ نہ کرو۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :طالبِ صادق کےلیے لازم ہے کہ خَلوَت اور گوشہ نشینی اختیار کرے۔ شب بیداری کی عادت ڈالے اور کم کھانے کو معمول بنالے، ہمیشہ پاک و صاف رہے، نشست و برخاست میں ہمیشہ قبلہ رو رہے اور خود کو زیادہ سے زیادہ نماز، تلاوتِ قرآنِ پاک اور ذکر اللہ میں مشغول رکھے۔ ([84])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نصیحت فرماتے کہ ہر شخص پر لازم ہے صدق و اِخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرے۔ بِلا ضرورت نہ کوئی بات ہو نہ کام اور ہر قول و فعل سے پہلے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف اِلتجاو تَضَرُّع (یعنی آہ و زاری )ہو اوراسی سے اِمداد ہو تاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔([85])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ فرمایا کرتے کہ ہمیشہ ذکرِ
الٰہی میں مشغول رہو کیونکہ ذکر سے طالب اپنے مطلوب تک پہنچتا ہے اور محبت ایسی آگ
ہے جو ہر قسم کے
میل کچیل کو جلا ڈالتی ہے اور جب محبت مستحکم ہو جاتی ہے تو ذکر مشاہدہ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہی وہ ذکر کثیر ہے جس پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فلاح وکامیابی کا وعدہ فرمایا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵) ([86])
ترجمۂ کنزالایمان:اور اللّٰہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو ([87])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر سے حرص، حسد اور کاہلی دور ہوجاتی ہے نیز ذکراللہ سے انسان اپنے برے اخلاق و صفات سے آگاہ ہوجاتاہے اور اخلاقِ رذیلہ سے اپنے آپ کو پاک صاف کر لیتا ہے اور اس کے دل میں اخلاقِ رذیلہ کی کوئی بو باقی نہیں رہتی۔ ([88])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکاقول ہے:کم کھانے میں جسم کی اور گناہوں کو چھوڑ دینے میں روح کی سلامتی ہےاور نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر درود و سلام بھیجنے میں دین کی سلامتی ہے ۔ ([89])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:محنت کو اپنا شعار بناؤ،یہ دنیا دَارُالعمل ہے۔ جُہدِ مُسلسل(یعنی مسلسل کوشش) اور عملِ پیہم(یعنی لگاتار محنت) سے خوش حالی کی راہیں کھلتی ہیں۔ جو شخص اپنے نفس کا مُحاسبہ کرتا ہے وہ صرف خدا سے ڈرتا ہے۔ دانا اور عقلمندوہی شخص ہے جو پیش آنے والے سفر یعنی موت کے لیے تیاری کرے اور اپنے ساتھ کچھ زادِ راہ لے۔([90])
حضرت بابا فرىد الدىن
مسعود گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہىں: اىک مرتبہ ىہ دُعا گو اور شىخ
الاسلام بہاء الدىن زکرىا مشائخِ بغداد کے حلقے مىں بىٹھے تھے، اولیاءُ اللہ کى کرامات کا ذکر ہورہا تھاکہ اچانک اىک صاحب
بولے اولیاءُ اللہ مىں ىہ طاقت ہوتى ہے کہ جب چاہىں کسى مکان کو
مُرَصَّع (موتی و جواہرات سے جَڑا ہوا)اور مُذَہَّبْ(مُ،ذَہْ،ہَبْ ۔یعنی سونا چڑھا ہو ا) بنادىں، اگر اس مجلس مىں کوئى صاحب ِ کمال
موجود ہے تو اس مسجد پر توجہ کرے، شىخ الاسلام بہا ء الدىن زکرىا نے مُراقبہ مىں
سرجھکالىا،تھوڑى دىر کے بعد سر اٹھا کر فرماىا: ذرا مسجد پر نظر کىجئے۔ لوگوں نے
بىک وقت نظر اٹھا کر مسجد کو دىکھا، اس کى تمام اىنٹىں اور لکڑىاں سونے کى نظر
آرہى تھىں اور تمام مسجد مُرَصَّع و مُذَہَّبْ بن چکى تھى۔تمام جماعت کھڑى ہوگئى اور انہوں نے اقرار کىا کہ بے شک مردانِ خدا مىں اىسى ہى کمالىت ہوتى ہے۔([91])
منقول ہے کہ مدینۃالاولیاء ملتان شریف میں ایک شخص جو بظاہر بڑا ہی گناہگار تھا فوت ہوگیا۔ بعدِ وفات کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا: مَافَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ اس نے کہا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے بخش دیا۔ دیکھنے والے نے پوچھا: کس عمل کے سبب؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اور تو کوئی نیک عمل نہ تھا مگر ایک روز شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی راستے سے گزر رہے تھے تو میں نے آگے بڑھ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی دست بوسی کی تھی، بس اسی عمل کے سبب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے میری مغفرت فرما دی۔([92])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ
سِرُّہُ النُّوْرَانِیایک بار
سراندیپ تشریف لے گئے اور سال بھر ایک پہاڑ پر قیام فرمایا۔ ایک دن ایک بوڑھا شخص لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھائے پاس سے گزرا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے بفضلِ الٰہی کشف سے جان لیا کہ وہ ایک غریب اور عیال دار شخص ہے۔ اس کے گھر میں جوان بیٹیاں تھیں جن کی رخصتی کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ حضرت شیخ الاسلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نظر کیمیا اثر کا پڑنا تھاکہ وہ لکڑیوں کا گٹھا سونا بن گیا۔([93])
اىک مرتبہ درىامىں
زبردست طغىانى آنے کے باعث سیلاب آگیا جس کی وجہ سے کئی گاؤں تباہ ہوگئے۔ لوگوں
کے گھرا ور تمام اَثاثہ جات بہہ گئے۔ مصیبت اورغم کے مارے لوگ شیخ الاسلام حضرت
شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ
النُّوْرَانِیکی خدمت مىں فریاد لے
کر حاضر ہوئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
بارگاہ میں سجدہ رىز ہوگئے اور دیر تک دعا کرتے رہے۔ طویل دعا کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنا لوٹا لوگوں کو دىا اور فرماىا :اسے لے جا کر
درىا مىں ڈال دو ، درىا کا سارا پانى ىہ اپنے اندر سمىٹ لے گا۔ لوگوں نے ایسا ہی
کیاتو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی
رحمت سے واقعى” کوزے مىں درىا“ کے مطابق سارا پانی لوٹے میں آگیا۔ اس کے بعد سىلاب
زدگان اور بے گھر لوگوں کى آباد کارى کے لىے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے
خزانوں کے منہ کھول دىئے، لاکھوں روپے اور منوں اناج متأثرہ خاندانوں
مىں تقسىم کىا گىا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے خدام سے فرماىا کرتے: گھر مىں جتناروپىہ اور گندم، چاول ہوں شام سے پہلے پہلے ختم کردىا کرو، اىسا نہ ہو کہ مال و اَسباب ہمارے گھر مىں پڑا رہے اور غرىب بھوکے مرتے رہىں، اگر اىک شخص بھى مىرے علاقے ىا اس کے مضافات مىں بھوکا رہا تو مجھے خدا کےحضورجواب دینا پڑے گا۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ شام کو اپنا خزانہ خالى کرواتے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى رحمت سے صبح تک پھر خزانہ بھرا ہوتا۔لنگر اسى انداز سے پکتا ، روپیہ، پیسہ اور کپڑا اسی سُرعَت (تیزی)سے تقسىم ہوتا۔لوگ دور دور سے شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی بہتے دریا جیسی سخاوت سے حصہ پانے کے لیے آتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا معمول تھا کہ لوگوں کو پىٹ بھر کر اور مختلف اَقسام کے کھانے کھلاتے مگر خود دن رات میں صرف اىک مرتبہ کھانا کھاتے ۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سید محمدمحبوب الٰہی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :میں نے ایک بزرگ سے سنا ہے کہ شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاء الدین زکریا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے جسم مبارک اور لباس پر کسی شخص نے عمر بھر مکھی کو بیٹھتے نہیں دیکھا ۔([94])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا۔ مسلمان اپنے رب عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے آئے ہوئے مہمان مہینے کی خوب برکتیں لوٹ رہے تھے۔ ایک آدمی حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی خانقاہ میں آیا اور معجزات و کرامات پر اعتراض اور انکار کرنے لگا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اسے سمجھایا مگر وہ اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ معجزات و کرامات پر دلائل پیش کرنے اور میٹھے بول سے سمجھانے کے باوجود جب وہ مسلسل انکار ہی کرتا رہا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو جلال آگیا اور فرمایا: آج تم اور تمہارے مصاحب ہمارے ساتھ روزہ افطار کریں گے۔ اس کے بعد ایک خادم کو حکم فرمایا کہ شہر بھر میں اعلان کردو کہ ہر کوئی اپنے گھر پر رہے آج ہم ان کے ساتھ افطار کریں گے۔ وہ شخص آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی اس بات پر حیران وششدر بیٹھا تھا۔ جب افطار کا وقت ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس کے ساتھ افطاری فرمائی اور نماز مغرب کے لیے تشریف لے گئے۔ بعد میں جب اس آدمی نے تحقیق کروائی توپتا چلا کہ ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ حضرت نے ہمارے ساتھ افطاری فرمائی ہے۔([95])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
۷ صفر ۶۶۱ھ مطابق ۲۱دسمبر۱۲۶۲ءکی بات ہے ، شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیاپنے حُجرے میں محوِ یادِخدا تھے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے بڑے صاحبزادے حضرت شیخ صدرالدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحجرے کے باہر تشریف فرما تھے۔ اچانک ایک نیک صورت بزرگ تشریف لائے اور شیخ صدرالدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو ایک خط دیتے ہوئے فرمایا: بیٹا یہ بڑا اہم خط ہے اپنے والدِ گرامی کو دے دو۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہوالد ماجد کی اجازت سے حجرے میں داخل ہوئےا ور خط دے کر واپس آگئے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ آواز آئی:”وَصَلَ الْحَبِیْبُ اِلَی الْحَبِیْب“ دوست دوست سے مل گیا۔ ىہ آواز سنتے ہى شىخ صدر الدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حجرے مىں داخل ہوئے تو دیکھا کہ شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیاپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔([96])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
مدینۃ الاولیاء ملتان شریف میں ہی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ہوا اور
اسی شہر میں قلعہ محمد بن قاسم کے آخر میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا مزار پُر انوار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ باب الاسلام سندھ سے بھی مریدین و معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔
شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی بارگاہ سے کئی ہستیوں نے خلافت پائی جن میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہیں:حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین بن علی سرخ پوش بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی، نواب الاولیاء شیخ محمد موسیٰ نواب سہروردی قریشی ہاشمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ،صاحب نزہۃ الارواح امیر حسینی سادات ہروی، صاحبِ لمعات شیخ فخرالدین ابراہیم عراقی، خواجہ حسن افغان، سلطان التارکین شیخ حمید الدین حاکم، شیخ کبیر الدین عراقی، خواجہ کمال الدین مسعود شیروانی، خواجہ فخر الدین گیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ ۔ ([97])
شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے دو عقد فرمائے۔ دونوں حرموں سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے سات شہزادے اور تین شہزادیاں عطا فرمائیں۔ صاحبزادگان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
شیخ صدرالدین عارف، شیخ قطب الدین، شیخ شمس الدین، شیخ شہاب الدین، شیخ علاءالدین یحییٰ، شیخ برہان الدین قمر، شیخ ضیاءالدین حامداور شہزادیوں میں سے ایک حضرت شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والد ماجد کے عَقد میں تھیں، دوسری حضرت سلطان حمید الدین حاکم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے عَقد میں تھیں۔([98])
٭ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے کئی کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ ”اوراد “کے متعلق آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اسی نام سے رسالہ تحریر فرمایا ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے ایک مرید مولانا علی بن احمد غوری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے”کنزالعباد“کے نام سے اس کی مَبسوط شرح فرمائی ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اعتکاف کےآداب و شرائط پر ایک رسالہ ”شروطِ اربعین“تصنیف فرمایا تھا۔ ([99])
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ 24،25مارچ1988 حیدرا ٓبا د(باب الاسلام سندھ) ميں دعوتِ اسلامی کا دو روزہ عظيم الشان سنّتوں بھراجتماع ہوا۔اجتماع کے اختتام پر
حسبِ معمول اميراَہلسنّت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے دعا
سے قبل اپنے مخصوص و منفرد انداز پر’’ تصوُّرِ مدينہ ‘‘کرايا۔يہ نہايت ہی پُر کيف
گھڑياں ہوتی ہيں۔اس وقت رَحمتِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
چھَما چَھم بارش ہوتی ہے اوربعض اوقات کئی خوش نصیب عُشَّاق کی نگاہوں کے پردے
اُٹھا دئیے جاتے ہیں ۔کوئی مدينے جاپہنچتا ہے تو کوئی خوش نصيب تاجدارِ مدينہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دیدار سے مشرّف ہوجاتا ہے ۔چنانچہ اس سنّتوں
بھرے اجتماع ميں موجود ايک نابينا حافظِ قرآن بھی دورانِ تصورِ مدينہ،شہرِ مدينہ جا
پہنچے، حافظ صاحب کا بيان ہے کہ مجھے اچھی طرح يہ حدیثِ پاک معلوم ہے کہ ہمارے
پيارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمايا ہے :’’جو جان بُوجھ کر مجھ پر
جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے‘‘اس حدیثِ مبارَکہ کو پيش نظر رکھتے ہوئے
حلفيہ کہتا ہوں کہ دورانِ تصورِ مدينہ مجھ پر غنودگی طاری ہوئی اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مجھے مدينہ شريف کی زيارت نصيب ہوئی اور ميں
سنہری جاليوں کے رو برو حاضر ہوا۔وہاں مجھے ايک نور نظر آياپھر ميں نے مَحسوس کيا
کہ ہمارے دلوں کے چين ،سرورِ کونين صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جلوہ
افروز ہيں اور مجھ سے فرما رہے ہيں، يہ آواز مجھے واضح سنائی دے رہی تھی:’’محمد
الياس قادری کو ميرا سلام کہنا ‘‘اور اس کو ميرا يہ پيغام دينا کہ ۸ ،۹ شَوَّالُ
الْمُکَرَّم۱۴۰۸ھ کو وہ ملتان ميں تبليغ کريں اور يہ بھی کہنا کہ
غوث بہاؤالدين زکريا
ملتانی (رحمۃ اللہ تعالٰی عليہ)کی
قدم بوسی کریں۔ہم بے کسوں کے مددگار،با ذنِ پروردگاردوعالم کے مالک و مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زبانِ حَق تَرجمان سے ميں نے جو آخری کلمات
سُنے وہ يہ تھے۔رَبِّ
ہَبْ لِی اُمَّتِی رَبِّ ہَبْ لِی اُمَّتِی رَبِّ ہَبْ لِی اُمَّتِی۔ ([100])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے،سنتوں کی خوشبو پھیلانے،عِلْمِ دین کی شمعیں جلانے اور لوگوں کے دلوں میں اولیاءُاللہ کی محبت و عقیدت بڑھانے میں مصروف ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ(تادمِ تحریر)دنیا کے کم وبیش 200ممالک میں اس کا مَدَنی پیغام پہنچ چکا ہے۔ساری دنیا میں مَدَنی کام کومنظم کرنے کےلئے تقریباً 97سے زیادہ مجالس قائم ہیں،انہی میں سے ایک’’مجلسِ مزاراتِ اولیا‘‘بھی ہے جودیگر مدنی کاموںکے ساتھ ساتھ درج ذیل خدمات انجام دے رہی ہے۔
1. یہ مجلس اولیائےکرامرَحِمَہُمُاللّٰہ ُالسَّلَامکےراستےپرچلتےہوئےمزاراتِ مبارکہ پرحاضر ہونے والے اسلامی بھائیوں میں مَدَنی کاموں کی دُھومیں مچانے کیلئے
کوشاں ہے۔
2. یہ مجلس حتَّی المَقدُورصاحبِ مزارکے عُرس کے موقع پراِجتماعِ ذکرونعت کرتی ہے۔
3. مزارات سے مُلْحِقہ مساجِد میں عاشِقانِ رسول کے مَدَنی قافلے سفرکرواتی اوربالخصوص عُرس کے دنوں میں مزارشریف کے اِحاطے میں سنّتوں بھرے مَدَنی حلقے لگاتی ہے جن میں وُضو،غسل،تیمم،نمازاور ایصالِ ثواب کا طریقہ، مزارات پر حاضری کے آداب اوراس کا درست طریقہ نیز سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتیں سکھائی جاتی ہیں۔
4. عاشِقانِ رسول کو حسبِ موقع اچھی اچھی نیتوں مثلاًباجماعت نمازکی ادائیگی، دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وارسنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت،درسِ فیضانِ سنت دینے یا سننے،صاحبِ مزار کے اِیصالِ ثواب کیلئے ہاتھوں ہاتھ مدنی قافلوں میں سفراورفکرِ مدینہ کے ذَرِیعے روزانہ مَدَنی انعامات کارسالہ پُرکرکے ہر مَدَنی یعنی قمری ماہ کی ابتِدائی دس تاریخوں کے اندراندراپنے ذِمہ دارکوجمع کرواتے رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
5. ’’مجلسِ مزاراتِ اولیاء‘‘ایامِ عُرس میں صاحبِ مزارکی خدمت میں ڈھیروں ڈھیرایصالِ ثواب کاتحفہ بھی پیش کرتی ہے اورصاحبِ مزاربُزرگ کے سَجادہ نشین،خُلَفَااورمَزارات کے مُتَوَلِّی صاحبان سے وقتاًفوقتاًملاقات کرکے اِنہیں دعوتِ اسلامی کی خدمات،جامعاتُ المدینہ و مدارِسُ المدینہ اور بیرونِ ملک
میں ہونے والے مَدَنی کام وغیرہ سےآگاہ رکھتی ہے۔
6. مَزارات پرحاضری دینے والےاسلامی بھائیوں کوشیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی عطاکردہ نیکی کی دعوت بھی پیش کی جاتی ہے۔
اللہعَزَّ وَجَلَّ ہمیں تا حیات اولیاءِکرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام کا ادب کرتے ہوئے ان کے در سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان مبارک ہستیوں کے صدقے دعوتِ اسلامی کو مزید ترقیاں عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حلقہ نمبر1:مزارات اولیاء پر حاضری کا طریقہ
حلقہ نمبر2:وضو ،غسل اور تیمم کا طریقہ
حلقہ نمبر 3:نماز کا سبق
حلقہ نمبر 4:نماز کا عملی طریقہ
حلقہ نمبر5:راہِ خدا میں سفر کی اہمیت ( مدنی قافلوں کی تیاری)
حلقہ نمبر6:درست قرآن پاک پڑھنے کا طریقہ
حلقہ نمبر 7:نیک بننے اور بنانے کا طریقہ(مدنی انعامات)
ہدایات:مدنی حلقہ مزار کے احاطے کے قریب ہوجس میں دو خیر خواہ مقرر کیے
جائیں جو دعوت دے کر زائرین کو حلقے میں شرکت کروائیں۔ہر حلقے کے اختتام پر انفرادی کوشش کی جائے اور اچھی اچھی نیتیں کروائی جائیں اور نام و نمبر زمدنی پیڈ پر تحریرکیے جائیں۔
مزاراتِ اولیاپر مدنی حلقوں میں دی جانے والی نیکی کی دعوت:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ کو مَزار شریف پرآنا مبارک ہو ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ !تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی طرف سے سُنَّتوں بھرے مَدَنی حلقوں کا سِلْسِلہ جاری ہے ،یقیناًزندگی بے حد مختصر ہے ،ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں ،عنقریب ہمیں اندھیری قبرمیں اُترنا اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا پڑے گا،اِن اَنمول لمحات کو غنیمت جانئے اور آئیے! اَحکامِ الٰہی پر عمل کا جذبہ پانے،مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنَّتیں اور اللہ کے نیک بندوں کے مَزارات پر حاضری کے آداب سیکھنے سکھانے کے لئے مَدَنی حلقوں میں شامل ہوجائیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کودونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم ([101])
[1] … مجمع الزوائد،کتاب الادعیۃ ،باب فی الصلوۃ علی النبی الخ،۱۰/۲۵۳، حدیث: ۱۷۲۹۸
[2] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی،ص۲۵۳ملخصاً ،خزینۃ الاصفیاء مترجم،۴/۴۶ ملخصاً ،اللہ کے خاص بندے، ص۵۴۷ ملخصاً
[3] … کوٹ کروڑ آج کل کروڑ لعل عیسن کے نام سے ضلع لیہ کا شہر ہے جو لیہ شہر سے بھکر روڈ پر ۳۱کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
[4] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی،ص۴۰، اللہ کے خاص بندے،ص۵۳۹،ملتان اور سلسلۂ سہروردیہ، ص۹۶،تذکرہ اولیائےپاک و ہند،ص۳۶،تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ،ص۱۴۲
[5] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۲۵
[6] … خزینۃ الاصفیا،۴/۳۸ ،تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۳۲
[7] … گلزار ابرار ، ص۵۵،خزینۃ الاصفیا ،۴/۳۸ ،تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۳۴
[8] … رحلۃ ابن بطوطۃ ،ص۴۰۸
[9] … یہ وہ قلعہ ہے جسے سلطان محمود غزنوی نےہند میں سب سے پہلے فتح کیا تھا۔گلزارِ ابرار، ص۵۵
[10] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۲۹ تا۳۵ ملخصاً، اللہ کے ولی، ص۴۰۲
[11] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۴۰، اللہ کے ولی، ص۴۰۲ ملخصاً
[12] … تذکرہ اولیائےپاک و ہند،ص۳۶،تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی،ص۴۰، اللہ کےخاص بندے، ص۵۴۰، اللہ کے ولی، ص۴۰۳ ملخصاً
[13] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۴۱، تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ، ص۱۴۲
[14] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۴۱ملخصاً، تذکرہ اولیائےپاک و ہند،ص۳۶ ملخصاً
[15] … اللہ کے ولی، ص۴۰۴،۴۰۳
[16] … نیکی کی دعوت، ص۵۴۶ ملخصاً
[17] … گلزار ابرار، ص۵۵ ملخصاً، ملتان اور سلسلۂ سہروردیہ، ص۹۸ ملخصاً ، اللہ کے ولی، ص۴۰۳، ۴۰۴ ملخصاً
[18] … تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ ،ص۱۴۳ ملخصاً ،گلزار ابرار، ص۵۶ ملخصاً ، اللہ کے ولی، ص۴۰۵ ملخصاً
[19] … احیاءعلوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس۔۔،بیان فضیلۃ حسن الخلق۔۔۔۳/۶۱
[20] … محفل اولیاء، ص۲۴۷ ملخصاً
[21] … شان اولیاء المعروف ہفتاد اولیا، ص۲۴۲ ملخصاً ،محفلِ اولیاء،ص۲۳۴ملخصاً
[22] … وہ لباس جو شیخ اپنے مُرید کو دے کر اسے خلافت و اجازت عطاکرے۔(اردو لغت،۸/۵۳۷)
[23] … خزینۃ الاصفیاء،۴/۳۹ ملخصاً ،محفلِ اولیاء،ص۲۳۴ملخصاً، اللہ کے خاص بندے، ص۵۴۱ ملخصاً
[24] … اللہ کے ولی، ص۴۱۲ ملخصاً
[25] … گلزار ابرار، ص۵۶ ملخصاً ، فوائد الفواد ،ص ۱۱۴ ملخصاً ،تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ، ص۱۴۳ملخصاً
[26] … عوارف المعارف، الباب الثانی عشر فی شرح خرقۃ المشائخ الصوفية، ص۶۲
[27] … پیرو مرشد کے ادب و احترام اور طریقت کی معرفت کے لیے مکتبۃ المدینہ کے رسائل”پیر پر اعتراض منع ہے“ ” کامل مرید“ اور ”جامع شرائط پیر“ کا مطالعہ فرمائیے۔
[28] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۶۰
[29] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۶۲، اللہ کے ولی، ص۴۲۰ ملخصاً
[30] … اخبار الاخیار، ص۲۷،محفلِ اولیاء،ص۲۳۵ ملخصاً
[31] … تذکرہ حضرت بہاء الدىن زکرىا ملتانى،ص۲۴۳
[32] … گلزار ابرار، ص۵۶
[33] … محفل اولیاء، ص۲۳۵،تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ، ص۱۶۶ملخصاً
[34] … احوال و آثار حضرت بہاء الدین زکریاملتانی، ص۸۹
[35] … نفحات الانس مترجم،ص۵۲۸
[36] … ملتان اور سلسلہ سہروردیہ، ص۱۰۳ملخصاً، محفل اولیاء، ص۲۳۵ ملخصاً
[37] … اللہ کے ولی، ص۴۶۸ ملخصاً
[38] … ملتان اور سلسلۂ سہروردیہ، ص۱۰۴ ملخصاً، تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۷۱ ملخصاً
[39] … اللہ کے ولی، ص۴۶۹
[40] … اللہ کے ولی، ص۴۶۹
[41] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۱۸۹ ملخصاً
[42] … اللہ کے ولی، ص۴۷۰ ملخصاً
[43] … اللہ کے ولی، ص۴۷۰ ملخصاً
[44] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۹۱ ملخصاً
[45] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۷۶ ملخصاً
[46] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۷۶ ملخصاً
[47] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۷۶ ملخصاً
[48] … فواد الفوائد مترجم،پانچویں مجلس ،ص۶۲
[49] … شانِ اولیاء،المعروف ہفتادِ اولیاء،ص۲۵۲ ملخصاً
[50] … مراٰۃالمناجیح ،۳/ ۲۷۰
[51] …شواہد النبوۃ، رکن سادس دربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۱۲
[52] … صحیح مسلم، کتاب البر،باب استحباب العفووالتواضع،ص۱۳۹۷، حدیث: ۲۵۸۸
[53] … فوائد الفواد مترجم،پانچویں مجلس،ص۱۲۳
[54] … صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الامر بالایمان با للہ تعالی ورسولہ الخ، ص۲۹،حدیث: ۱۷
[55] … مجمع الزوائد،کتاب الادب، باب ماجاء فی الرفق،۸/۴۳،حدیث:۱۲۶۵۲
[56] … اولیائے ملتان، ص۳۱ ملخصاً
[57] … ابن ماجہ، کتاب اقامة الصلاة، باب فی فرض الجمعة، ۲/ ۵،حدیث:۱۰۸۱
[58] … بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، بَاب قَوْلِهِ تَعَالٰى: إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ الخ، ۲/۴۵۴، حدیث:۳۴۳۳
[59] … اللہ کے خاص بندے ، ص۵۴۵،فوائد الفواد ،نویں مجلس ،ص ۲۰۲ملخصاً
[60] … فوائد الفوادمترجم ،تیسری مجلس،ص۳۵۰ملخصاً، تذکرہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی،ص١١٥
[61] … تذکرہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی،ص۱۲۸
[62] … مجمع الزوائد،کتاب البیوع،باب فی من فرج عن معسرالخ ،۴/۲۴۱،حدیث:۶۶۷۱
[63] … مسلم،کتاب الذکر والدعاء ، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن الخ ، ص۱۴۴۷،حديث:۲۶۹۹
[64] … مراٰۃ المناجيح، ۱/ ۱۸۹
[65] … تذکرہ حضرت بہاء الدین زکریا ،ص۲۲۴ملخصاً
[66] … فوائد الفواد مترجم،آٹھویں مجلس،ص۳۵۹
[67] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص ۲۴۵ ملخصاً
[68] … فوائد الفواد مترجم ،تیسری مجلس،ص۶۱ ملخصاً
[69] … تنبیہ المغترین،الباب الاول،خوفھم مماللعبادعلیھم ،ص۵۸
[70] … اَخلاقُ الصالحین، ص ٦٠
[71] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص ۶۴
[72] … ترمذی، کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی اجلال الکبیر، ۳/۴۱۱،حدیث:۲۰۲۹
[73] … شعب الایمان،الخامس والسبعون من شعب الایمان ، ۷/۴۵۸، حدیث:۱۰۹۸۱
[74] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۱۴۲
[75] … تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۱۴۲
[76] … الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الرضاع، باب النفقۃ، ذکر کتبۃ اللہ جلّ وعلا الصدقۃ للمنفق۔۔ الخ، ۴/۲۱۸، حدیث: ۴۲۲۲
[77] … احیاء العلوم،کتاب الحلال و الحرام،الباب الاول فی فضیلۃ الحلال۔۔۔الخ،۲/۱۱۶
[78] … شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴/۳۹۶، حدیث: ۵۵۲۷ ملتقطا
[79] … مکاشَفَۃُ القُلوب،الباب الاول فی بیان الخوف، ص ۱۰
[80] … تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ، ص۱۴۸
[81] … فوائد الفواد ،پانچویں مجلس ،ص۶۳
[82] … شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان الخ، ۳/۳۹،حدیث: ۲۸۰۷
[83] … معجم اوسط، باب العین، من اسمہ علی، ۳/۳۲، حدیث: ۳۷۸۲
[84] … تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ، ص۱۴۸
[85] … اخبار الاخیار، ص۲۷
[86] … پ۱۰،الانفال:۴۵
[87] … اخبار الاخیار، ص۲۸
[88] … تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ، ص۱۴۹
[89] … اخبار الاخیار، ص٢٨
[90] … نفحات سہروردیہ، ص۲۴۵ملخصاً
[91] … تذکرہ حضرت بہاء الدین زکریا ،ص ١٩١
[92] … احوال و آثار حضرت بہاء الدین زکریاملتانی، ص۱۳۰
[93] … محفل اولیاء، ص۲۴۹ملخصاً، تذکرہ حضرت بہاء الدین زکریا ،ص ١٩۵ملخصاً
[94] … احوال و آثار حضرت بہاءالدین زکریاملتانی، ص۹۷،اللّٰہ کے ولی ،ص۴۲۶
[95] … احوال و آثار حضرت بہاءالدین زکریاملتانی، ص۱۶۶، اللّٰہ کے ولی ،ص۴۶۰
[96] … سیرت بہاءالدین زکریا، ص۱۸۹ملخصاً،تذکرہ حضرت بہاء الدین زکریاملتانی،ص۳۰۱ ملخصاً
[97] … تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ، ص۱۴۷ وغیرہ
[98] … ملتان اور سلسلۂ سہروردیہ، ص۱۱۰
[99] … تذکرہ حضرت بہاء الدین زکریاملتانی ، ص۲۶۹تا ۲۷۹ملتقطاً
[100] … سرکار کا پیغام عطار کے نام ،ص۳۸
[101] … مزارات اولیاء کی حکایات، ص۳۲