خاموشی کی فضیلت پرمشتمل مختصروجامع مدنی گلدستہ

 

 

حُسْنُ السَّمْت فِی الصَّمْت

مُؤَلِّف

امام جلالُ الدِّین عبْدُالرحمن بن ابوبکرسُیُوطی شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی(اَلْمُتَوَفّٰی۹۱۱ھ)

ترجمہ بنام

ایک چُپ سوسکھ

(خاموشی کے فضائل)

 

 

پیش کش:مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ

(شعبہ تراجم کتب)

 

 

ناشِر

 

 

مکتبۃُ المدینہ بابُ المدینہ کراچی


اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَا  مٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

تما م تعریفیںاللّٰہعَزَّوَجَلَّکے لئے ہیں ،وُہی کافی ہے اور اس  کے چُنے ہوئے بندوں پرسلام ہو

حضرت سیِّدُناامام جَلالُ الدِّین عبد الرحمن سُیُوطی شافِعیعَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: اس عمدہ کتاب کومیں نے حضرت سیِّدُناامام ابوبکراِبنِ ابی دنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہکی ’’کتابُ الصَّمْت‘‘سے تلخیص کیاہے اور اس میں کچھ اضافات بھی کئے ہیں۔ میں نے اس کا نام ’’حُسْنُ السَّمْت فِی الصَّمْت‘‘ (یعنی خاموشی کے بارے میں عمدہ طریقہ ) رکھا ہے۔اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہی دُرُستی کی توفیق دینے والا ہے۔

خاموشی میں نَجات ہے

حضرت سیِّدُناعبد اللّٰہ بن عَمْرو  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتے ہیں کہ حُضُورنبی کرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’جوچپ رہااُس نے نجات پائی۔‘‘([1])

سلامَتی چاہنے والا خاموش رہے

حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حُضُور نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’جو سلامت رہنا چاہتا ہے اُس پر خاموشی لازم ہے۔‘‘([2])


بدن پر ہلکا اور میزان میں بھاری

حضرت سیِّدُناابوذَرغِفاری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حُضُور نبی رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشادفرمایا:’’ کیامیں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جوبدن پرہلکااورمیزانِ عمل میں بھاری ہو؟‘‘میں نے عرض کی:کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا:’’وہ خاموش رہنا،حُسنِ خلاق اپنانااور فُضُول کاموں کو چھوڑنا ہے۔‘‘([3])

آسان عبادت

حضرت سیِّدُناصَفوان بنسُلَیْم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حُضُورنبی اَکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’میں تمہیں ایسی عبادت کے بارے میں نہ بتاؤں جو بہت آسان اور بدن پر نہایت ہلکی ہو؟وہ خاموشی اور حُسنِ اخلاق ہے۔‘‘([4])

خاموش رہنے کی نصیحت

حضرت سیِّدُناابوذَرغِفاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہیں حُسنِ اَخلاق اپنانے اورخاموش رہنے کی نصیحت کرتا ہوں،یہ دونوں عمل بدن پر سب سے ہلکے اور میزان(Scale) میں بہت بھاری ہیں۔‘‘([5])


سب سے عُمدہ اورآسان عمل

حضرت سیِّدُناامامشَعْبِیعَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے روایت ہے کہ حُضُور پُرنورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک صحابی سے ارشادفرمایا:’’کیا میں تمہیں سب سے عمدہ اور سب سے آسان عمل کے بارے میں نہ بتاؤں؟‘‘صحابی نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان!کیوں نہیں،ضرورارشاد فرمائیے۔ارشاد فرمایا: ’’وہ حُسنِ اخلاق اور طویل خاموشی ہے ان دونوں کو لازِمی اختیار کرلوکیونکہ تم اللّٰہعَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں ان جیسا(یعنی ان سے افضل)کوئی اورعمل نہیں لے جاسکتے۔‘‘([6])

سب سے بُلند عبادت

حضرت سیِّدُناابوہریر ہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ پیارے مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’خاموشی سب سے بلند عبادت ہے۔‘‘([7])

عالِم کی زینت اور جاہِل کا پردہ

حضرت سیِّدُنامُحْرِزبن زُہَیْراَسلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ مصطفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’خاموشی عالِم کی زینت اورجاہل کا پردہ ہے۔‘‘([8])

خاموشی اَخلاق کی سردار ہے

حضرت سیِّدُنااَنس بن مالک  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ اللّٰہ


 عَزَّوَجَلَّکے محبوب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’خاموشی اخلاق کی سردار ہے۔‘‘([9])

بات دوزخ میں اوندھے منہ گرائے گی

حضرت سیِّدُناعُبادہ بن صامِت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے حبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمایک روز گھر سے باہَر تشریف لائے اور ُسواری پرسُوار ہوئے توحضرت سیِّدُنامُعاذبن جَبَل  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی:کون ساعمل سب سے افضل ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرکے ارشادفرمایا:’’نیکی کی بات کے علاوہ خاموش رہنا۔‘‘عرض کی:ہم زبان سے جوکچھ بولتے ہیں کیااس پراللّٰہعَزَّوَجَلَّ ہماری پکڑ فرمائے گا؟ تو سرکارِ دوجہانصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے ارشادفرمایا:’’اے مُعاذ! تمہیں تمہاری ماں روئے! ([10])زبانوں کاکہا ہوا ہی لوگوں کو اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا۔پس جو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا بُری بات سے خاموش رہے۔(پھرارشاد فرمایا:)اچھی بات کہو فائدے میں رہو گے اور بُری باتوںسے خاموش رہو سلامت رہو گے۔‘‘([11])


40ہزاراولاد کا اجتماع!(حکایت)

حضرت سیِّدُنااَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نورکے پیکر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’اللّٰہعَزَّوَجَلَّنے جب حضرت آدم (عَلَـیْہِ السَّلَام)کوزمین پراتاراتو جتنا اللّٰہ(عَزَّوَجَلَّ)نے چاہا اتنا عرصہ آپ زمین پررہے۔ایک روزآپ کی اولادنے آپ سے کہا:اے والدِمحترم! ہم سے گفتگو کیجئے۔ آپ(عَلَـیْہِ السَّلَام) نے اپنے بیٹوں،پوتوں اور پَڑپوتوں کے40ہزار کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللّٰہ(عَزَّوَجَلَّ) نے مجھے حکم دیاہے کہ اے آدم!گفتگو کم کرو یہ عمل تمہیں میرے قُرْب (یعنی جنّت)کی طرف لَوٹا دے گا۔ ([12])

ابّاجان!آپ بولتے کیوں نہیں؟(حکایت)

حضرت سیِّدُناعبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت آدمعَلَـیْہِ السَّلَام جب زمین پر بھیجے گئے تو آپ کی خوب اولاد ہوئی۔ ایک دن آپ کے بیٹے،پوتے اور پڑپوتے سب آپ کے پاس جمع ہو کرباتیں کرنے لگے جبکہ آپ  عَلَـیْہِ السَّلَام خاموش رہے اورکوئی گفتگو نہ فرمائی۔ اولاد عرض گزارہوئی:اباجان!کیابات ہے ہم گفتگوکررہے ہیں اورآپ خاموش ہیں؟ حضرت سیِّدُناآدمعَلَـیْہِ السَّلَامنے ارشادفرمایا:اے میرے بیٹو!جب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے مجھے اپنے قُرْب(یعنی جنت)سے زمین پراُتاراتومجھ سے یہ عہدلیاتھاکہ اے آدم!گفتگو کم کرنایہاں تک کہ میرے قُرْب میں لوٹ آؤ۔([13])


شیطان کو بھگانے کا نُسخہ

حضرت سیِّدُناابوذَرغِفاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ مکی مدنی مصطفٰیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مجھ سے ارشادفرمایا:’’تم پرنیکی کی بات کے علاوہ طویل خاموشی لازم ہے کیونکہ یہ شیطان کوتم سے دورکردے گی اوردینی معاملات میں تمہاری مددگار ہو گی۔‘‘([14])

حکمت کے 10حصے

حضرت سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’حکمت کے10 حصے ہیں نو حصے گوشہ نشینی (تنہائی)میں اور ایک خاموشی میں ہے۔‘‘([15])

نہ بولنے میں نوگُن

حضرت سیِّدُناوُہَیْب بن وَرْدرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ فرماتے ہیں:کہاجاتاتھا کہ حکمت (عقل مندی- دانائی)کے10حصّے ہیں نوحصے خاموشی میں اور ایک حصہ گوشہ نشینی(الگ تھلگ رہنے)میں ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے نفس کا علاج کسی حد تک خاموشی سے کرنا چاہا لیکن مجھے اس میں کامیابی نہ ملی پھر میں نے گوشہ نشینی (تنہائی)اختیار کی تو مجھے حکمت کے نوحصے بھی مل گئے(لہٰذامعلوم ہواکہ واقعی حکمت کے نوحصّے گوشہ نشینی میں ہیں جیساکہ ماقبل حدیث میں ہے)۔ حضرت سیِّدُناوُہَیْب بن


وَرْد  رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ فرماتے ہیں:ایک دانشور(عقل مند ودانا آدمی)کاقول ہے کہ عبادت یا حکمت کے 10 حصے ہیں نو حصے خاموشی میں اور دسواں حصہ گوشہ نشینی میں ہے۔

شیطان سے جیتنے کا نُسخہ

حضرت سیِّدُناابوسعیدخُدری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ مکی مدنی آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’پرہیزگاری اختیارکرو یہ ہربھلائی کا مجموعہ ہے اور بھلائی کی بات کہنے کے علاوہ اپنی زبان بندرکھو کیونکہ اس کے ذریعہ تم شیطان پر غالب رہوگے۔‘‘([16])

حضرت سیِّدُناعقیل بن مُدْرِک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سیِّدُنا ابوسعیدخُدری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے عرض کی:مجھے نصیحت کیجئے۔فرمایا:’’حق بات کہنے کے علاوہ چُپ رہو کہ اس کے ذریعے تم شیطان پر غالب رہو(یعنی جیت جاؤ)گے۔‘‘

بغیر پوچھے جواب مل گیا(حکایت)

حضرت سیِّدُناا َنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا داوٗدعَلَـیْہِ السَّلَام حضرت سیِّدُنالُقمان عَلَـیْہ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکی موجودگی میں اپنے ہاتھ سے زِرَہ (جنگ میں پہننے کا لوہے کی جالی کا لباس)بناتے ہوئے ایک حلقے کو دوسرے میں ڈال رہے تھے، یہ دیکھ کرحضرت سیِّدُنا لقمان  عَلَـیْہ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کوبڑاتعجُّب ہوااور چاہا کہ اس کے متعلق پوچھیں مگرحکمت نے

 


انہیں پوچھنے سے بازرکھا۔پھرجب حضرت سیِّدُنا داوٗدعَلَـیْہِ السَّلَامزرہ بنانے سے فارغ ہوئے تو اسے پہن کر ارشاد فرمایا: ’’یہ زِرَہ جنگ کے لئے کیاخوب شے ہے۔‘‘ یہ سن کر حضرت سیِّدُنالقمان  عَلَـیْہ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے کہا: ’’خاموشی حکمت ہے لیکن اس پرعمل کرنے والے کم ہیں میں آپ سے پوچھناہی چاہ رہا تھا لیکن خاموش رہاپھربھی مجھے اپنی بات کا جواب مل گیا۔‘‘([17])

کم بولنے والے کم ہیں

حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک اورحضرت سیِّدُناعبْدُاللّٰہبن عُمَررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ حُضُورنبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’خاموشی حکمت ہے اوراس پر عمل کرنے والے کم ہیں۔‘‘([18])

افضل ایمان

حضرت سیِّدُنامُعاذبن جَبَل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حُضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے افضل ایمان کے بارے میں پوچھاتو ارشادفرمایا:’’افضل ایمان یہ ہے کہ تم اللّٰہعَزَّوَجَلَّکے لئے محبت کرواوراسی کے لئے بُغض رکھواور اپنی زبان اللّٰہعَزَّوَجَلَّکے ذکر سے تَر رکھو۔‘‘عرض کی: یارَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اس کے ساتھ اورکیا ہے؟ ارشاد فرمایا:’’لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہواور جو اپنے لئے ناپسندرکھتے ہو وہ دوسروں کے


لئے بھی ناپسند جانواور اچھی بات کرو یا خاموش رہو۔‘‘([19])

’’دعائے مصطفٰے‘‘کس کے لئے؟

حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ حُضُورنبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تین بار یہ بات ارشادفرمائی : ’’ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اُس پررحم فرمائے!جوبات کرتا ہے توفائدہ(یعنی ثواب)پاتاہے اورخاموش رہتاہے تو سلامت رہتاہے۔‘‘([20])

بے مثل عمل

حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سیِّدُناابوذَرغِفاری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکوشَرَفِ ملاقات سے نوازاتوان سے ارشادفرمایا:’’اے ابوذر!کیامیں تمہیں دوایسی خصلتوں کے بارے میں نہ بتاؤں جودیگرخصلتوں کے مقابلے میں بدن پرہلکی اورمیزانِ عمل میں بھاری ہوں؟‘‘عرض کی:یارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ضرور بتایئے۔ارشادفرمایا:’’حسنِ اخلاق اورطویل خاموشی اپناؤ ،اُس ذات کی قسم جس کے قبضَۂ قدرت میں میری جان ہے!مخلوق کا کوئی عمل ان جیسانہیں۔‘‘([21])

قوم کے سردار کو حکم

حضرت سیِّدُناعبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ

 


ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں حاضرہوکرعرض کی:یارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں اپنی قوم کا سردار ہوں میں انہیں کس چیز کا حکم دوں؟ ارشاد فرمایا:’’انہیں سلام عام کرنے اورضروری بات کے علاوہ خاموش رہنے کاحکم دو۔‘‘([22])

آقاصَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم بھت زیادہ چُپ رہتے

حضرت سیِّدُناجابربنسَمُرَہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبہت زیادہ خاموش رہا کرتے تھے([23])۔([24])

حضرت سیِّدُناطارق بن اَشْیَم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ ہم بارگاہِ رسالت میں بیٹھاکرتے تھے،ہم نے آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زیادہ طویل خاموشی والا کوئی نہیں دیکھا اورجب صحابَۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان زیادہ گفتگو کرتے توآپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسکرا دیتے۔([25])


چار بہترین مدنی پھول

حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ مصطفٰے جانِ رحمتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’چارباتیں ایسی ہیں جوکسی ایک شخص میں شاذونادر (یعنی کم)ہی جمع ہوسکتی ہیں: (۱)خاموشی جوعبادت کی بنیاد ہے (۲)اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی خاطرعاجِزی (۳)دنیا سے بے رغبتی اور (۴)قناعت۔‘‘([26])

اچھی بات کرو یاچُپ رہو

حضرت سیِّدُناابوہریرہ اورحضرت سیِّدُناشُرَیْح خُزَاعیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’جواللّٰہعَزَّوَجَلَّاور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے اُسے چاہئے کہ اچھی بات کرے یاخاموش رہے۔‘‘([27])

حضرت سیِّدُناحسن بصریعَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بیان کرتے ہیں: ہمیں یہ بات بتائی گئی ہے کہ رسولُ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکاارشادہے:’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُس بندے پررحم فرمائے! جوبولتا ہے توفائدہ(یعنی ثواب)پاتاہے اورخاموش رہتا ہے توسلامت رہتا ہے۔‘‘([28])

 


خاموشی میں سلامتی ہے(اقوالِ صحابہ)

امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں:اپنے آپ کوچُھپاؤ تمہارا(بُرا)تذکرہ نہیں کیاجائے گااور چُپ رہوسلامت رہو گے۔حضرت سیِّدُناابنِ مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرمایا کرتے:اے زبان! اچھی بات کرفائدے میں رہے گی اوربول مت کہ ندامت (شرمندگی)سے پہلے سلامت رہے گی۔حضرت سیِّدُناعبداللّٰہبن عبّاس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرمایا کرتے:اے زبان اچھی بات کہہ تجھے فائدہ ہوگااوربُری بات کہنے سے خاموش رہ سلامتی میں رہے گی۔

حق بات کرو یا چُپ رہو

حضرت سیِّدُنامَیْمُون بن مِہران عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سیِّدُناسلمان فارِسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی:مجھے نصیحت کیجئے۔ فرمایا: گفتگو مت کرو۔اُس نے عرض کی: جولوگوں کے درمیان رہتاہے اسے بات چیت کئے بغیرچارہ نہیں۔ فرمایا:اگر گفتگو کرنی ہی ہوتوحق بات کہویا خاموش رہو۔

جنت میں لے جانے والا عمل

حضرت سیِّدُناسفیان بنعُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناعیسٰی رُوْحُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَـیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بارگاہ میں لوگوں نے عرض کی:ہمیں ایساعمل بتایئے جس کے سبب ہم جنّت میں داخل ہوجائیں۔


ارشادفرمایا:کبھی مت بولو۔لوگوں نے عرض:ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ ارشاد فرمایا:’’توپھراچھی بات کے علاوہ کچھ نہ بولو۔‘‘

امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمبیان کرتے ہیں کہ خاموشی محبت کا سبب ہے۔

حکمت کی اَصل

حضرت سیِّدُناوَہب بن مُنَبِّہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں:تمام اَطِبّا(یعنی علاج کرنے والوں) کااس پراِتِّفاق ہے کہ طِب(یعنی علاج کے فن) کی بنیادپرہیز ہے اورتمام حُکَماکااس پر اِتِّفاق ہے کہ حکمت(یعنی عقل مندی)کی بنیاد خاموشی ہے۔

گفتگوچاندی توخاموشی سونا

حضرت سیِّدُناسلیمان عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَـیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ارشاد فرمایا: ’’اگرگفتگو چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے ۔‘‘

کون سی گفتگو چاندی ہے؟

حضرت سیِّدُناعبداللّٰہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے جب حضرت سیِّدُنالقمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے اُس قول کے بارے میں پوچھاگیا جو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایاتھا کہ اگرگفتگو کرنا چاندی ہے توخاموش رہناسونا ہے تو آپ نے فرمایا:’’اگراللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی فرماں برداری پرمشتمل گفتگوچاندی ہے تو اُس کی نافرمانی والی بات سے خاموشی اختیارکرنا سوناہے۔‘‘


صحبت کے لئے مفید شخص

امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعُمَربن عبْدُالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْعَزِیْز فرماتے ہیں:’’جب تم کسی بندے کو بہت زیادہ خاموش اور لوگوں سے دُور رہنے والا دیکھوتو اُس کے قریب ہوجاؤ کیونکہ اسے حکمت دی گئی ہے۔‘‘

نبی کی عاجِزی مگرہمارے لئے درسِ عبرت

حضرت سیِّدُناداوٗدعَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامارشادفرماتے ہیں: ’’میں گفتگو کر کے کئی بار نادم (یعنی شرمندہ)ہوالیکن خاموشی پر کبھی نادم نہیں ہوا۔‘‘ حضرت سیِّدُناوُہَیْب بن وَرْدرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:’’میں نے گوشہ نشینی کو زبان کی خاموشی میں پایا ہے۔‘‘

عبادت کی کُنجی

حضرت سیِّدُناسُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں: ’’کہاجاتا تھا کہ طویل (یعنی دراز)خاموشی عبادت کی کُنجی ہے۔‘‘

عبادت کی اِبتداخاموشی ہے پھر۔۔۔۔

حضرت سیِّدُناسُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں: ’’عبادت کی ابتداخاموش رہناہے،پھرعلم حاصل کرناپھراسے یادکرناپھراس پر عمل کرنااور پھر اسے پھیلانا۔‘‘


پہلے کے نیک لوگ کم گو ہُوا کرتے

حضرت سیِّدُناامام مُجاہِدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَاحِدفرماتے ہیں:’’سلف صالحین (یعنی پہلے کے گزرے ہوئے نیک لوگ)کم گفتگو کیا کرتے تھے۔‘‘

حضرت سیِّدُناعبْدُالرحمٰن بن شُرَیْحرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ’’اگرآدمی اپنے لئے کچھ اختیار کرتا تو خاموشی سے افضل کوئی شے اختیار نہ کرتا۔‘‘

عقل مند کی زینت

حضرت سیِّدُناموسٰی بن علی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَ لِی فرماتے ہیں:’’بنی اسرائیل کے ایک راہِب (یعنی دنیاسے الگ تھلگ عبادت میں مشغول شخص) کاقول ہے کہ عورت کی زینت شرم وحیا اورعقل مندکی زینت خاموشی ہے۔‘‘

خاموش رہنے والا عالم افضل یا بولنے والا؟(حکایت)

حضرت سیِّدُناابوعبداللّٰہ خَرَشی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِیفرماتے ہیں:میں نے حضرت سیِّدُنا عُمَر بن عبْدُالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْعَزِیْزکے پاس آنے والے ایک عالِم صاحب کو یہ فرماتے سناکہ خاموش عالِم بولنے والے عالِم کی طرح ہے۔ حضرت سیِّدُناعُمَربن عبْدُالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْعَزِیْزنے فرمایا: میں یہ خیال کرتا ہوں کہ بولنے والا عالِم قِیامت کے دن خاموش رہنے والے عالِم سے افضل ہوگاکیونکہ بولنے والے کانفع لوگوں کوپہنچتا ہے جبکہ خاموش رہنے والے عالِم کو صرف ذاتی فائدہ حاصل ہوتاہے۔ اس عالِم صاحب نے کہا: ’’امیرالمؤمنین! تو پھر


گفتگوکی آزمائش کس قدرہو گی؟‘‘یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہپھوٹ پھوٹ کررونے لگے۔

حضرت سیِّدُناابومسلم خَولانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں:’’روزہ دار کی نیند تسبیح ہے اور روزہ داروہی ہے جوچُپ رہے اور فُضول باتیں نہ کرے۔‘‘

چارعُلَمااورایک بادشاہ (حکایت)

حضرت سیِّدُناعبداللّٰہبن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ایک بادشاہ کے ہاں چار علمائے کرام جمع ہوئے تو بادشاہ نے اُن سے عرض کی: آپ حضرات ایک ایک مختصراور جامع بات ارشاد فرمایئے۔اُن میں سے ایک نے فرمایا:علماکا افضل علم’’ خاموشی‘‘ ہے۔دوسرے نے کہا:آدمی کے لئے سب سے بڑھ کر نفع مند بات یہ ہے کہ وہ اپنی حیثیت اورعقل کی انتہا(گہرائی)کوجان لے اوراس کے مطابِق گفتگو کرے۔تیسرے نے فرمایا:سب سے بڑھ کرمُحتاط وہ شخص ہے جونہ توموجودہ نعمت پرمطمئن ہو،نہ اُس پر بھروسا کرے اور اس کے لئے کوئی تکلیف بھی نہ اُٹھائے۔چوتھے نے فرمایا:تقدیرپرراضی رہنے اورقَناعت اختیار کرنے سے بڑھ کر کوئی شے بدن کے لئے آرام دہ نہیں۔

زیادہ بولنے سے وقار جاتا رہتا ہے

حضرت سیِّدُناابومُسْہِرعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الظَّاہِر فرماتے ہیں:’’خاموشی نیک لوگوں کی دعا ہے۔ حضرت سیِّدُناصَعْصَہ بن صُوحان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّانفرماتے ہیں: ’’خاموشی مُرَوَّت کی بنیادہے۔‘‘ حضرت سیِّدُنامحمدبن نَضْرحارِثی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی


عَلَیْہفرمایاکرتے تھے:’’زیادہ گفتگو کرنے سے وقار چلا جاتا ہے۔‘‘

خاموشی کے دوفائدے

حضرت سیِّدُنامحمدبن عبْدُالْوَہّابعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں: ’’خاموشی سے آدمی کو دو چیزیں حاصل ہوتی ہیں:(۱)دین میں سلامتی اور (۲)دوسرے  کی بات سمجھنا۔‘‘حضرت سیِّدُنافُضَیْل بن عِیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: (نفل)حج،جہاداور اسلامی سرحد پرپہرہ دینا بھی زبان کی حفاظت سے افضل نہیں۔

لوگوں میں اندھے بہرے گونگے بن کر رہو(حکایت)

حضرت سیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے ایک شخص نے عرض کی:لوگوں کے مُعاملات دیکھ کرمیرا دل کہتا ہے کہ ان سے میل جول نہ رکھوں۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:’’ایسا نہ کرو کیونکہ لوگوں کو تمہاری اور تمہیں لوگوں کی ضَرورت ہے البتّہ تم ان کے درمیان سننے والے بہرے، دیکھنے والے اندھے اور بولنے کی صلاحیت رکھنے کے باوُجُود گونگے بن جاؤ۔ ‘‘

خاموشی کے وقت عقل حاضر رہتی ہے

حضرت سیِّدُناوُہَیْب بن وَرْدرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:آدمی جب خاموش رہتا ہے تو اس کی پوری عقل مکمل طور پرحاضر رہتی ہے۔ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعُمَربن عبْدُالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْعَزِیْزفرماتے ہیں:’’جو اپنی گفتگو کو بھی اپنا عمل شمار کرتا ہے وہ کم بولتا ہے۔‘‘


چار بادشاہ(حکایت)

حضرت سیِّدُناابوبکربن عَیّاش رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: چار ملکوں فارس، روم، ہند اورچین کے بادشاہ ایک جگہ جمع ہوئے اورچاروں بادشاہوں نے چارایسی باتیں کیں گویا ایک ہی کمان سے چار تیر پھینکے ہوں، ایک نے کہا: میں کہی ہوئی بات کے مقابلے میں نہ کہی ہوئی بات سے رُکنے پرزیادہ قادر ہوں۔ دوسرے نے کہا:جو بات میں نے منہ سے نکال دی وہ مجھ پر حاوی اور جو بات منہ سے نہ نکالی اس پر میں حاوی ہوں۔تیسرے نے کہا:مجھے نہ کی ہوئی بات پر کبھی ندامت( شرمندگی) نہیں ہوئی البتّہ کی ہوئی بات پرضرورشرمندہ ہوا ہوں۔ چوتھینے کہا:مجھے بولنے والے پرتعجُّب ہے کہ اگر وُہی بات اس کی طرف لوٹ جائے تو اسے نقصان دے اور اگر نہ لوٹے توفائدہ بھی نہ دے۔

ان کی زبانوں پر حکمت بھری باتیں جاری ہوئیں

حضرت سیِّدُناابوعلی رُوذْبارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیفرماتے ہیں:عقل مند ودانشور لوگ خاموش رہنے اورغوروفکرکے سبب حکمت کے وارث ہوئے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے ان کی زبانوں پر ایسی حکمت بھری باتیں جاری کردیں کہ انہیں ان کے اوران کے پروردگارعَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

سیِّدُناابراہیم بن ادہم خاموش رہے(حکایت)

حضرت سیِّدُناابراہیم بن بَشّارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّارفرماتے ہیں:ایک مرتبہ


ہم کچھ لوگ اکٹھے ہوئے توہم میں سے ہرایک نے کچھ نہ کچھ گفتگوکی مگر حضرت سیِّدُناابراہیم بن اَدْہَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم خاموش رہے،آپ نے کوئی بات نہ کی۔جب لوگ چلے گئے تومیں نے اس بات پران سے ناگواری کااظہار کیاتو آپ نے فرمایا:’’گفتگو بے وقوف کی بے وقُوفی اور عقل مند کی عقل مندی کو ظاہِر کرتی ہے۔‘‘ میں نے کہا:پھرآپ نے گفتگوکیوں نہ کی؟فرمایا:’’مجھے خاموش رہ کرغم زدہ ہونا گفتگو کرکے نادِم ہونے سے زیادہ پیارا ہے۔‘‘

خاموشی ہی صبر ہے

حضرت سیِّدُنابِشرحافی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْکَافِیفرماتے ہیں:’’صبر خاموشی اورخاموشی ہی صبرہے اور گفتگو کرنے والاخاموش رہنے والے سے زیادہ پرہیزگار  نہیں سوائے ایسے عالِم کے جوگفتگوکے موقع پرگفتگوکرے اورخاموش رہنے کے موقع پر خاموش رہے۔

خاموشی کا ادنٰی فائدہ سلامتی ہے

حضرت سیِّدُنااَحمدبن خَلّاد رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہکے والدماجدفرماتے ہیں: خاموشی کاادنیٰ(یعنی کم از کم)فائدہ سلامَتی اوربولنے کاادنیٰ نقصان ندامت وشرمندگی ہے۔ فُضُول باتوں سے چُپ رہنا سب سے بڑی حکمت ہے اور بِغیر علم کے بولنے والا غلطی سے بچ نہیں سکتااور نامعلوم بات سے خاموش رہنے والا بھی حکمت سے خالی نہیں۔

کمالِ ادب کی چارخوبیاں

حضرت سیِّدُناسَہْل بن عبداللّٰہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:یہ چار


خوبیاں ہوں تو ’’ادب‘‘ اپنے کمال کوپہنچ جاتاہے:(۱)توبہ(۲)نفس کوخواہشات سے روکنا (۳)خاموشی اور (۴)گوشہ نشینی۔

کامل مومن کی چارخوبیاں

حضرت سیِّدُناسُفیان بن عُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: منقول ہے کہ مومن اس وقت(کامل)مومن ہوتاہے جب وہ طویل خاموشی والا ہو،اس کی گفتگو اچھی ہو،جھوٹ نہ بولتا ہو اور پرہیزگاری میں مخلص ہو(دکھاوا ور ریاکاری سے بچتا ہو)۔

لوگوں کے درمیان احتیاط کے مدنی پھول

حضرت سیِّدُناابراہیم بن اَدْہَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم فرماتے ہیں: مجلس میں(یعنی لوگوں کے درمیان ہوں تو)احتیاط اور دُور اندیشی (یعنی عقل مندی)یہ ہے کہ غلطی سے بچنے کے لئے بقدرِضرورت ہی بات کی جائے۔تم جب کسی چیز کا حکم دو تو یقین کے ساتھ دو،جب سُوال کرو تو واضِح سوال کرو،جب کسی چیزکوطلب کرو تواچھے طریقے سے طلب کرواور جب کسی چیز کی خبردوتوتحقیق کے بعددو اور زیادہ باتیں کرنے اورگفتگومیں بے جامِلاوٹ سے بچوکیونکہ جوزیادہ بولتا ہے وہ غلطیاں بھی زیادہ کرتا ہے۔

کیا بات کرنے والا بھی نجات پائے گا؟

حضرت سیِّدُنابِشْرحافی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْکَافِی فرماتے ہیں:حضرت سیِّدُنا عبْدُاللّٰہبن عَون رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہخاموش رہاکرتے تھے۔ان سے عرض کی


گئی:آپ بات کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا: ’’کیا بات کرنے والا بھی نجات پائے گا؟‘‘

حضرت سیِّدُنااِسحاق بن خَلَفرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ’’گفتگو میں اِحتیاط بَرَتْنا سونے چاندی کے مُعامَلے میں احتیاط کرنے سے زیادہ سخت ہے۔

20سال سے چُپ رہنے کی مشق

حضرت سیِّدُناعبداللّٰہبن ابوزَکَرِیّادِمَشْقِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:میں 20سال تک فُضُول باتوں سے بچنے کے لئے خاموشی اپنانے کی کوشش کرتارہا لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔حضرت سیِّدُنامُوَرِّق عِجْلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِی فرماتے ہیں:میں20سال سے ایک چیز کو حاصل کرنے میں لگا ہوا ہوں لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہوامگر میں پھر بھی اسے حاصل کرنے میں لگا رہوں گا۔کسی نے پوچھا:وہ کیاہے؟.فرمایا:فُضُول باتوں سے خاموشی۔

40سال تک منہ میں پتھر رکھا!

حضرت سیِّدُنااَرْطاہ بن مُنْذِرعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْمُقْتَدِرفرماتے ہیں:ایک شخص نے40سال تک منہ میں پتھررکھ کرخاموش رہناسیکھاصرف کھانے،پینے اور سونے کے لئے ہی منہ سے پتھر نکالتا تھا۔

پھاڑ کھانے والا درندہ

ایک قریشی بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:کسی عالِم صاحب سے پوچھاگیاکہ آپ خاموش کیوں رہتے ہیں؟فرمایا:میں نے اپنی زبان کو پھاڑ کھانے والا درندہ پایا ہے، مجھے ڈر ہے کہ اگر میں اسے کُھلا چھوڑ دوں گا تو یہ مجھے کاٹ


کھائے گا۔

ہوا میں چلنے والاآدمی(حکایت)

حضرت سیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:بنی اسرائیل میں دوبزرگ عبادت کے ایسے مرتبے پرفائزتھے کہ پانی پرچلتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ سمندرپر چل رہے تھے کہ انہوں نے ایک بزرگ کودیکھاکہ وہ ہوا میں چل رہے ہیں اُن سے پوچھا:اے اللّٰہعَزَّوَجَلَّکے بندے!آپ اس مقام تک کیسے پہنچے؟ انہوں نے فرمایا:تھوڑی دنیاپرراضی رہ کر،میں نے اپنے نفس کو خواہشات اور زبان کوفُضُول باتوں سے روکا اوران کاموں میں مشغول ہوگیاجن کا پروردگار عَزَّوَجَلََّّنے مجھے حکم دیااور میں نے خاموشی کو اپنائے رکھا۔اگر میں اللّٰہعَزَّوَجَلَّپر کسی بات کی قسم کھا لوں تو وہ میری قسم پوری فرمادے اور اگر اس سے مانگوں تو وہ مجھے عطا کردے۔

پرندہ بول کر پھنس گیا!(حکایت)

حضرت سیِّدُنامَخْلَدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَحَد فرماتے ہیں:بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو اکثر خاموش رہا کرتا تھا۔بادشاہ نے اس کی وجہ پوچھنے کے لئے کسی کو اس کے پاس بھیجامگراُس نے کوئی بات نہ کی، پھربادشاہ نے لوگوں کے ساتھ اُسے شکارکے لئے بھیجا شاید کوئی شکار نظر آئے تو وہ بولے۔ لوگوں نے ایک پرندے کوزور سے چلّاتے دیکھاتوجلدی سے اُس کی طرف بازچھوڑاجس نے جا کر اُسے پکڑ لیا۔ یہ دیکھ کراُس شخص نے کہا:ہرشے کے لئے خاموشی اچھی (کہ


اس میں سلامتی)ہے یہاں تک کہ پرندوں کے لئے بھی۔

حضرت سیِّدُناابراہیم نَخَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی مجلس میں جوزیادہ خاموش ہوتاوُہی ان کے نزدیک سب سے افضل ہوتا۔

دو بہترین خوبیاں

حضرت سیِّدُنایحییٰ بن ابوکثیرعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَدِیْرفرماتے ہیں: دو چیزیں (یعنی خوبیاں) جس شخص میں دیکھو توجان لوکہ ان دوکے علاوہ بھی اس کی ساری صفات اچھی ہوں گی:(۱)زبان کوقابومیں رکھنااور(۲)نماز کی حفاظت کرنا۔

بڑی حکمت

حضرت سیِّدُناابوسَلَمَہ صَنْعانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں:’’کم بولنا بڑی حکمت ہے لہٰذا خاموشی اختیارکروکہ یہ عمدہ پرہیزگاری ہے،اس سے بوجھ ہلکا اور گناہوں میں کمی رہتی ہے۔‘‘

خاموشی سیکھنے کی زیادہ ضرورت ہے

حضرت سیِّدُنامروان بن محمدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الصَّمَدبیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم سے عرض کی گئی کہ فُلاں شخص عِلْمِ نَحْو سیکھ رہا ہے توآپ نے فرمایا:’’اسے خاموشی سیکھنے کی زیادہ ضَرورت ہے۔‘‘

بولنے سے زیادہ سُننے کی حرص رکھو!

حضرت سیِّدُناابودَرْداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں:جس طرح گفتگو


کرناسیکھتے ہواسی طرح خاموش رہنابھی سیکھوکیونکہ خاموشی بہت بڑی حکمت ہے، بولنے سے زیادہ سننے کی حِرص رکھو اور فُضول چیزوں کے بارے میں بات چیت بالکل مت کرو۔

عبادت کے نوحصے خاموشی میں ہیں

حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:عبادت کے10حصے ہیں نو حصے خاموشی میں اوردسواں حصہ حلال کمانے میں ہے۔‘([29])

عافیت کے نو حصے

حضرت سیِّدُناعبدُاللّٰہ بن عبّاس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:خیروعافیت کے10 حصے ہیں نوحصے خاموشی میں اوردسواں گوشہ نشینی میں ہے۔‘([30])

امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:زیادہ خاموش رہنے سے ہیبت پیدا ہوتی ہے۔

بولنا دوا کی طرح ہے

حضرت سیِّدُناعَمْروبن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں:بات کرنا دوا کی طرح ہے جسے تو تھوڑی لے گا تو نفع دے گی اور اگر بہت زیادہ لے گا تو تجھے مار ڈالے گی۔امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی مولامشکل کشا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی


وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں:’’جب عقل مکمل ہوجاتی ہے توبولنا کم ہوجاتا ہے۔‘‘

منقول ہے کہ’’ خاموشی سلامتی کی کنجی ہے۔‘‘

بادشاہ بَھرام اور پرندہ

منقول ہے کہ بادشاہ بَہرام ایک رات کسی درخت کے نیچے بیٹھاتھاکہ اُس نے درخت سے ایک پرندے کی آوازسنی تواسے تیرمارکرگرادیا پھر کہا: زبان کی حفاظت انسان اورپرندے دونوں کے لئے مفیدہے اگریہ اپنی زبان کی حفاظت کرتا (اور بول نہ پڑتا)توہلاک نہ ہوتا۔

زبان ایک اورکان دوکیوں؟

یونانی دانشوربُقراط نے ایک شخص کوبہت زیادہ بولتے سناتوکہا:اے فُلاں! اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے انسان کے لئے زبان ایک اورکان دوبنائے ہیں تاکہ بولے کم اور سنے زیادہ۔

حضرت سیِّدُنافُضَیْل بن عِیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ’’گفتگو کرنے والے پرہمیں آفات کاخوف ہے۔‘‘

خاموشی کی فضیلت پر مشتمل عربی اشعار کے ترجمے

نفس کے لئے بہترین سرمایہ

حضرت سیِّدُناعبداللّٰہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: میں اپنے نفس کی تربیت کرنے لگاتوخوفِ الٰہی کے بعد ہر حال میں جھوٹ اور لوگوں کی غیبت سے بچے رہنے کو نفس کے لیے بہترین ادب وسرمایہ پایا۔جھوٹ اور غیبت کو


اللّٰہعَزَّوَجَلَّنے اپنی کتابوں میں حرام فرمایا ہے۔ میں نے رضامندی اور ناگواری دونوں حالتوں میں نفس سے کہا:علم اوربُردباری(یعنی صبروتحمُّل) شریف آدمی کی زینت ہیں۔ اے نفس!اگرتیرابات کرنا چاندی ہے تو خاموش رہنا سونا ہے۔

تمام بھلائی خاموشی اورگوشہ نشینی میں ہے

حضرت سیِّدُنامنصور بن اسماعیل فقیہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ’’تمام کی تمام بھلائی خاموشی اور گوشہ نشینی میں ہے اگریہ دونوں تم کرنا چاہتے ہو تو تھوڑی غذا پر قناعت کرو۔‘‘

دنیا وآخرت میں لائقِ تعریف

ایک شاعرنے کہا:(۱)لوگ کہتے ہیں:تم بہت خاموش رہتے ہو۔میں نے ان سے کہا: میری خاموشی گونگے پن یابے بسی کی وجہ سے نہیں ہے(۲)خاموشی دنیا وآخرت میں لائقِ تعریف ہے اورمجھے سخت بات کرنے سے خاموش رہنا زیادہ پسندہے (۳)لوگوں  میں سے کسی نے کہا:آپ ٹھیک کہتے ہیں مگراچھی بات کرنے میں کیاحرج ہے؟میں نے کہا:تم مجھے خونخواربنانے کاارادہ کر رہے ہو (۴)جونیکی کو جانتے ہی نہیں میں ان کے سامنے نیکی کی کیابات کروں!کیامیں اندھوں کے سامنے اندھیرے میں موتی پھیلاؤں؟

بول پڑنا بارہا ’’ٹینشن‘‘میں ڈال دیتا ہے!

حضرت سیِّدُناابوحاتم محمدبن حِبّان بُسْتیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَ لِی فرماتے ہیں:


حضرت سیِّدُنا محمد بنعبداللّٰہزَنْجِی بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِینے مجھے یہ اشعارسنائے:(۱)تم خاموشی کی وجہ سے پھسلنے سے محفوظ رہوگے اور زیادہ بولنے کی وجہ سے خوفزدہ ہوجاؤگے(۲)ایسی بات کبھی مت کروجس کے بعدتمہیں یہ کہناپڑے کہ کاش!میں نے یہ بات نہ کی ہوتی۔

سب سے بڑا مریض

حضرت سیِّدُناصالح بن جَناح رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:لوگوں میں سب سے زیادہ مصیبت زدہ، سب سے زیادہ تھکا ہوااور سب سے زیادہ بیماروہ شخص ہے جس کی زبان بے لگام اوردل بے قابو ہو ایساشخص نہ صحیح بات کرسکتاہے نہ ہی چپ رہ سکتاہے،لہٰذا(۱)تھوڑابولواورگفتگوکے شرسے پناہ مانگوکیونکہ کچھ مصیبتیں باتوں سے جُڑی ہوئی ہیں(۲)اپنی زبان کی حفاظت کرواوراسے بھٹک جانے سے بچاؤ حتّٰی کہ وہ ایک قیدی کی طرح ہوجائے(۳)اپنے دل کوزبان کے سِپُرد کردواورکہو:تم دونوں پرلازم ہے کہ ناپ تول کر بات کرو۔

خاموشی ناسمجھ کاپردہ ہے

جَریر شاعرکے داداخَطَفِی نے کہا:(۱)مجھے اُس نوجوان پرتعجب ہوتاہے جو بات کوسمجھے بغیرہی بول کرخودکورُسواکرڈالتاہے اوراس کی خاموشی پربھی تعجب ہوتا ہے جو بات سمجھتے ہوئے بھی خاموش رہتا ہے(۲)ناسمجھ شخص کے لئے خاموشی ہی میں پردہ ہے، بے شک عقل کاعیب آدمی کے گفتگو کرنے سے ہی ظاہِر ہوتاہے۔

خاموش رہ کرعیبوں کوچھپاؤ

ایک شاعر نے کہا:(۱)جس قدرہو سکے خاموش رہ کرعیبوں کوچھپاؤکیونکہ


چُپ رہنے میں چُپ رہنے والوں کے لئے بڑی راحت ہے(۲)اگرکسی بات کا جواب نہ آتاہوتوخاموش رہاکروکیونکہ بہت سی باتوں کاجواب صرف’’ خاموشی‘‘ ہوتی ہے۔

بولنا اگرچاندی ہے تو چُپ رہنا سونا

حضرت سیِّدُناابو نَجْم ہِلال بن مُقَلَّدبن سعدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَحَدکہتے ہیں: (۱)لوگوں نے کہا: آپ کی خاموشی محرومی ہے۔تومیں نے اُن سے کہا:’’اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے میرے لئے جومقدَّرکیاہے وہ مجھے بن مانگے  مل جاتاہے‘‘ (۲)اوراگرمیرابولنا چاندیہے تو یقیناًخاموش رہنا سونا(Gold)ہے۔

عبْدُالملِک شَرَکْسِی نے کہا:(۱)جب تم کچھ کہنے پرمجبورہوجاؤتوپھربھی نہ کہو بلکہ خاموشیکادامن مضبوطی سے تھامے رہو(۲)اگرتمہارابولناچاندی ہے تو خاموش رہناسونا ہے۔

ایک شاعرنے کہا:(۱)خاموشی کولازم کرلے اوربلاوجہ مت بول کیونکہ باتونی شخص تھکارہتا ہے (۲)اگرتیرایہ گمان ہے کہ گفتگوچاندی کی مثل ہے تویہ یقین کر لے کہ خاموشی سونے کی طرح ہے۔

خاموشی بھلائی اور سلامتی ہے

حضرت سیِّدُناابو الحسن مَرْوَزِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَ لِی فرماتے ہیں:(۱)تیری زندگی کی قسم!([31])بُردباروں(یعنی برداشت کرنے والوں) کے لئے بُردباری(قوّتِ


برداشت) زینت ہے اوراس کی یا تو عادت ہوتی ہے یا عادت بنانی پڑتی ہے (۲) اگر کسی شخص کاخاموش رہنا ندامت یا شرم وحیا کی وجہ سے نہ ہوتو یقینااس کی خاموشی بہت بھلائی اور سلامتی ہے۔

ایک شاعِر نے کہا:کم بولاکرو،اس طرح گفتگوکے نقصانات سے محفوظ رہوگے، خاموشی کی زمین اِس پھیلی ہوئی زمین سے جُدا ہے۔

خاموشی زبردست زینت ہے

حضرت سیِّدُناعبداللّٰہبن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: (۱)جہاں بولنا نہ ہو وہاں خاموش رہناآدمی کے لئے زبردست زینت ہے (۲)اور سچ بولنامیرے نزدیک قسم کھانے سے زیادہ اچھا ہے (۳)اورعزت ووقار انسان کی ایک نشانی ہوتی ہے جو اس کی پیشانی پر چمکتی ہے۔

ایک شاعر نے کہا:مُتّقی وپرہیزگارشخص اپنی زبان کی حفاظت کی خاطربات کرنے سے بچتا ہے حالانکہ وہ دُرُست بولنے پرقادرہوتاہے۔

’’خاموش‘‘اور’’بولنے‘‘والے کی حکایت

حضرت سیِّدُناابوحاتم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:دوشخص علم حاصل کرنے لگے، جب عالِم بن گئے توایک نے ’’خاموشی‘‘ اپنا لی اوردوسرا’’گفتگو کا عادی‘‘ بن گیا۔ دوسرے نے خاموشی اپنانے والے کوایک شعرلکھ کربھیجاکہ میں نے روزی کمانے میں سب سے کارگرذریعہ زبان کوپایا ہے۔ خاموش رہنے والے


نے جواب میں لکھا:’’میں نے زبان کوقابومیں رکھنے سے بڑھ کرکسی چیزکوکمال تک پہنچانے والا نہیں پایا۔‘‘

زبان کو لگام دینے والا ہی سلامت رہتا ہے

حضرت سیِّدُناسفیان بن عُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: (۱)بدچلن کی محبت سے اپنے دل کو خالی کردو اور سلام کرتے ہوئے اس کے پاس سے گزر جاؤ (۲)خاموشی کی بیماری میں مرنا تمہارے لئے بولنے کی بیماری میں مرنے سے بہتر ہے (۳)یقیناً وہی شخص سلامت رہتا ہے جو اپنی زبان کو لگام دے کر رکھتا ہے۔

شریف آدمی کی پہچان

حضرت سیِّدُناابراہیم بن ہَرْمَہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:(۱)میں لوگوں کو ایک مشکل معاملے میں دیکھ رہا ہوں لہٰذاتم ایک کنارہ پکڑ لوجب تک کہ معاملہ اپنی انتہاکو نہ پہنچ جائے(۲)کیونکہ گزرے ہوئے کوواپس نہیں لاسکتے جب زبان پھسلتی ہے تو بات منہ سے جداہوجاتی ہے(۳)تم ہر شریف آدمی کو’’ خاموش‘‘ دیکھو گے اور دوسروں کو دیکھو گے کہ بول کر اپنی عزت خراب کرتے ہیں۔

بحث مباحثے میں پڑنے سے بہتر

ایک اورشاعر نے کہا:(۱)لوگوں کے ساتھ معافی ودرگزرسے پیش آؤاور اس کے لئے اپنی عزَّت کووقف کردو(۲)اورجب ملامت زیادہ ہونے لگے تواپنے کانوں کو بندکرلو(۳)اورجب فُضُول گوئی کا اندیشہ ہوتوخاموشی کو لازم کرلو (۴)کیونکہ قیل و قال کرنے(یعنی بحث مُباحثے میں پڑنے)سے خاموش رہنا تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔


کامیاب کون؟

حضرت سیِّدُناابوعَتاہِیَہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:(۱)بہت زیادہ خاموش رہنے والا شخص کامیاب ہے اور کلام کی حفاظت کرنے والے کے لئے بات غذاہوتاہے اور(۲)ہربات کاجواب نہیں ہوتااورناپسندیدہ بات کاجواب تو خاموشی ہی ہے۔

حضرت سیِّدُناابوعَتاہِیَہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہمزیدفرماتے ہیں: (۱)جب تم گفتگو کی اصل (یعنی جڑ)تک پہنچ جاؤتواس سے زیادہ گفتگوکرنے میں کوئی بھلائی نہیں(۲)اوربے جا گفتگو کرنے سے انسان کاخاموش رہناہی بہتر ہے۔

نیکی کی بات کرو یا خاموش رہو

ایک شاعرنے کہاہے:(۱)نیکی کی بات کرواورفُضُول،مشکوک(یعنی شک والی)بات، فحش کلامی اور عیب جوئی مت کرو۔ (۲)خاموش طبع(یعنی چُپ رہنے والے)،باوقاراورغوروفکرکرنے والے بن جاؤاوراگربولوتوکم بولواور(۳)بغیر سوچے سمجھے سوال کرنے والے کوجواب مت دواورجس کے متعلِّق تم سے پوچھانہ جائے اُس کے بارے میں مت بولو۔

خاموشی ہی بہتر ہے

اُحَیْحَہبن جُلَاح نے کہا:(۱)جب تک خاموش رہناعیب نہ بن جائے تو نوجوان کے لئے خاموشی ہی بہتر ہے(۲)اور جس کے پاس مددکرنے والی عقل نہ ہواس کی بات اَحْماقانہ ہی ہو گی۔


ہونٹ بند رہنے میں ہی سلامتی ہے

ایک شاعر نے کہا:(۱)جب تک تم اپنے ہونٹوں کو بند رکھو گے سلامت رہو گے اوراگرانہیں کھولناہی ہوتواچھی بات کرو(۲)طویل خاموشی اختیارکرنے والے کامقصدیہی ہوتاہے کہ مَذمَّت وعتاب(یعنی مَلامت وبُرا بھلا کہلائے جانے) سے بچارہے۔(۳)لہٰذاتم بھی اچھی بات کرویاپھراتنی زیادہ باتیں مت کروجس پر تمہیں بُرا بھلا کہاجائے۔

پہلے تولو بعد میں بولو

عبداللّٰہبن مُعاوِیہ بن جعفرکہتے ہیں:(۱)اے انسان!کبھی کوئی بات مت کر کیونکہ تو نہیں جانتاکہ کون سی بات تجھے عیب دارکردے(۲)خاموشی کومضبوطی سے تھام لے کیونکہ خاموشی میں بڑی حکمت ہے اوراگربولناہی ہوتوپہلے تول پھر بول(۳)جب لوگ ایسی بحث میں لگ جائیں جس سے تجھے کوئی سروکار (یعنی تعلُّق)نہ ہوتوکنارہ کرلے(یعنی وہاں سے ہٹ جا)۔

بول کر بارہا پچھتانا پڑتا ہے

حضرت سیِّدُناابوعَتاہِیَہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:(۱)اگرخاموش رہناتجھے پسند ہے تو تجھ سے پہلے نیک لوگوں کوبھی یہ پسندتھا(۲)اوراگرخاموش رہنے پرتوایک مرتبہ ندامت اٹھائے گا تو یقین کربولنے پرکئی بارندامت کا سامنا کرے گا۔(۳)بے شک خاموشی سلامتی ہے جبکہ بسا اوقات بولنادشمنی اور نقصان کابیج(سبب)بن جاتا ہے۔(۴)جب ایک ناکام شخص دوسرے ناکام شخص کے قریب


ہوتاہے تواِس سے خسارے اورناکامی میں اِضافہ ہی ہوتا ہے۔

زبان کے مُعاملے میں کنجوسی ہی بہترہے

حضرت سیِّدُناابراہیم بن ابوعَبْلَہرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:(۱)جب تک تم زبان کے مُعامَلے میں’’ کنجوسی ‘‘کرتے رہوگے یہ محفوظ رہے گی لہٰذااسے بے لگام مت چھوڑو(۲)خاموش رہ کر رازوں کودل میں ایسے ہی پوشیدہ رکھوجیسے زبرجد(ایک سبز رنگ کازردی مائل قیمتی پتھر)اورنایاب موتی کو چُھپاکررکھاجاتا ہے (۳)کیونکہ جوبات تم نے بھرے مجمع میں کہہ دی ہو رہتی دنیاتک اُسے واپَس نہیں لوٹاسکتے (۴)جس طرح پیاہواپانی واپَس نہیں آسکتااور بچہ رِحم(یعنی پیٹ کے اندر بچّہ دانی) میں واپس نہیں جا سکتا۔

عقل مند اورجاہل

ایک شاعرنے کہا:(۱)جس نے خاموشی اختیارکی اُس نے ہیبت کا لباس پہن لیا جو لوگوں سے اس کی بُرائیوں کو چھپائے رکھتا ہے(۲)عقل مندکی زبان اس کے دل میں جبکہ جاہل کادل اس کے منہ میں ہوتا ہے۔

انسان کے چُپ رہنے کا مقصد

ایک شاعرنے کہا:اے سلیمہ!(۱)اپنی عادت سے بازآجااورملامت مت کریاپھراُسے ملامت کر جسے حوادثِ زمانہ نے ایسے گرادیاکہ اب اُٹھ نہیں سکتا (۲)میرا نصیب مجھے ہرطرح کی عزّت سے روک رہا ہے مگرمیری ہمَّت عزت


تک پہنچنے میں کوتاہی نہیں کرنے دیتی(۳)جب تک حالات ایسے رہیں گے میں خاموش رہوں گااور زندگی بھر اپنے منہ کو بولنے کے لئے نہیں کھولوں گا (۴) اگر خاموش رہنے پر کسی ملامت کرنے والے نے مجھے ملامت کی تومیں اُس سے کہوں گا:انسان ندامت وشرمندگی سے بچنے کے لئے ہی چُپ رہتاہے۔

تمام تعریفیںاللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس کی توفیق سے کتاب’’حُسْنُ

السَّمْت فِی الصَّمْت‘‘ مکمل ہوئی۔خوب درودوسلام ہوں ہمارے

سردارحضرتِ محمداور آپ کی آل واصحاب پر۔

سرکارصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے شہزادے اورشہزادیاں

٭...شہزادے:پیارمصطفٰیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تین شہزادے تھے جن کے اسمائے مبارکہ یہ ہیں:

(۱)...حضرت سیِّدُناقاسم(۲)...حضرت سیِّدُنا ابراہیم(۳)...طَیِّب وطاہِر حضرت سیِّدُناعبداللّٰہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان۔

٭...شہزادیاں:مصطفٰے جانِ رحمتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی چار شہزادیاں تھیں جن کے اسمائے مبارکہ یہ ہیں:

(۱)...حضرت سیِّدَتُنازَیْنَب(۲)...حضرت سیِّدَتُنارُقَیَّہ(۳)...حضرت سیِّدَتُنااُمِِّ کُلْثُوم(۴)...حضرت سیِّدَتُنافاطمۃُ الزَّہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ۔(المواہب اللدنیہ،الفصل الثانی فی ذکراولادالکرام،۴/ ۳۱۳)

 

 


 ماٰخذومراجع

نام کتاب

مصنف /مؤلف

مطبوعہ

صحیح بخاری

امام محمدبن اسماعیل بخاریعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیہ۱۴۱۹ھ

سنن الترمذی

امام محمدبن عیسی ترمذیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالفکربیروت۱۴۱۴ھ

المسند

امام احمدبن محمدبن حنبلعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالفکربیروت۱۴۱۴ھ

المسند

امام حافظ حارث بن ابی اسامۃعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

المدینۃ المنورۃ۱۴۱۳ھ

المسند

ابویعلٰی احمدبن علی موصلیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیۃ۱۴۱۸ھ

مسندالشھاب

حافظ محمدبن سلامۃعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

مؤسسۃ الرسالۃ۱۴۰۵ھ

المعجم الکبیر

حافظ سلیمان بن احمدطبرانیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

داراحیاء التراث۱۴۲۲ھ

المستدرک

امام محمدبن عبداللّٰہ حاکمعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالمعرفۃ بیروت۱۴۱۸ھ

شعب الایمان

امام احمدبن حسین بیہقیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیۃ۱۴۲۱ھ

صحیح ابن حبان

امام ابوحاتم محمدبن حبانعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیۃ۱۴۱۷ھ

فردوس الاخبار

حافظ شیرویہ بن شہرداردیلمیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیۃ۱۴۰۶ھ

جامع الصغیر

جلال الدین عبدالرحمٰن سیوطیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیۃ۱۴۲۵ھ

الموسوعۃ

عبداللّٰہ بن محمدابن ابی الدنیاعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

المکتبۃ العصریۃ۱۴۲۶ھ

کنزالعمال

علی بن حسام الدین متقیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیۃ۱۴۱۹ھ

تاریخ اصبھان

ابونعیم احمدبن عبداللّٰہ اصبھانیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتاب الاسلامی قاہرۃ

تاریخ بغداد

احمدبن علی خطیب بغدادیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالکتب العلمیۃ۱۴۱۷ھ

مکارم الاخلاق

حافظ محمدبن جعفرخرائطیعلیہ الرحمہ متوفی۲۵۶ھ

دارالفکربیروت۱۴۰۶ھ

 

 

 

 



[1] ... ترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ،۴/ ۲۲۵،حدیث:۲۵۰۹

[2] ... مسندابی یعلٰی،مسندانس بن مالک،۳/ ۲۷۱،حدیث:۳۵۹۵

 

[3] ... موسوعۃ ابن ابی الدنیا،کتاب الصمت واٰداب اللسان،۷/ ۸۷،حدیث:۱۱۲

[4] ... موسوعۃ ابن ابی الدنیا،کتاب الصمت واٰداب اللسان،۷/ ۴۶،حدیث:۲۷

[5] ... کنزالعمال،کتاب الاخلاق،من قسم الافعال،۳/ ۲۶۵،حدیث:۸۴۰۲

 

[6] ... موسوعۃ ابن ابی الدنیا،کتاب الصمت واٰداب اللسان،۷/ ۳۴۶،حدیث:۶۵۰

[7] ... تاریخ اصبھان لابی نعیم،۲/ ۳۴،رقم:۹۹۹،عبداللّٰہ بن محمدبن موسی البازیار

[8] ... جامع الصغیر،ص۳۱۸،حدیث:۵۱۵۹،ابوالشیخ عن محرزبن زہیر

 

[9] ... مسندالفردوس،۲/ ۳۶،حدیث:۳۶۶۶

[10] ... اس کاظاہری معنیٰ تویہ ہیں کہ’’ تمہیں موت آجائے‘‘ مگراہلِ عرب یہ جملہ ادب سکھانے، غفلت سے بیدارکرنے اوراپنی بات کی اہمیت وعظمت بیان کرنے کے لئے بولاکرتے تھے۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الایمان،الفصل الاول،۱/ ۱۹۶،تحت الحدیث:۲۹)

[11] ... مستدرک حاکم،کتاب الادب،قولواخیراتغنموا۔۔۔الخ،۵/ ۴۰۷، حدیث:۷۸۴۴،بتغیرقلیل

 

[12] ... تاریخ بغداد،۷/ ۳۳۸،رقم:۳۸۴۳:ابوعلی مؤدب حسن بن شبیب

[13] ... تاریخ بغداد،۷/ ۳۳۹،رقم:۳۸۴۳:ابوعلی مؤدب حسن بن شبیب

 

[14] ... صحیح ابن حبان،کتاب البروالاحسان،ذکرالاستحباب للمرء۔۔۔الخ،۱/ ۲۸۷،حدیث:۳۶۲

[15] ... مسندالفردوس،۱/ ۳۵۲،حدیث:۲۵۹۳

 

[16] ... مسندابی یعلٰی،مسندابی سعیدالخدری،۱/ ۴۳۲،حدیث:۹۹۶

 

[17] ... شعب الایمان،باب فی حفظ اللسان،فصل فی فضل السکوت عمالایعنیہ،۴/ ۲۶۴،حدیث:۵۰۲۶

[18] ... مسندشھاب،الصمت حکم وقلیل فاعلہ،۱/ ۱۶۸،حدیث:۲۴۰

 

[19] ... مسندامام احمد،مسندالانصار،حدیث معاذبن جبل،۸/ ۲۶۶،حدیث:۲۲۱۹۳

[20] ... مسندحارث،باب رحم اللّٰہ عبداقال فغنم اوسکت فسلم،۱/ ۳۹،حدیث:۵۸۲

[21] ... مسندابی یعلٰی،مسندانس بن مالک،۳/ ۱۷۴،حدیث:۳۲۸۵

 

[22] ... مکارم الاخلاق للخرائطی،باب حفظ اللسان ۔۔۔الخ،ص۹۲،حدیث:۱۹۶

[23] ... مفسرشہیر،حکیم الامت حضرت مفتی احمدیارخان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْحَنَّان مراٰۃ المناجیح،جلد8،  صفحہ81پراس کے تحت فرماتے ہیں:خاموشی سے مرادہے دُنیاوی کلام سے خاموشی ورنہ حضورِ اقدس (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کی زبان شریف اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)کے ذکرمیں تررہتی تھی،لوگوں سے بلاضرورت کلام نہیں فرماتے تھے،یہ ذکرہے جائزکلام کا،ناجائزکلام توعُمْر بھر زبان شریف پرآیاہی نہیں۔جھوٹ،غیبت،چغلی وغیرہ ساری عُمْر شریف میں ایک باربھی زبان مبارک پرنہ آئے۔حُضُور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سراپا حق ہیں،پھرآپ تک باطل کی رسائی کیسے ہو!

[24] ... مسندامام احمد،مسندالبصریین،حدیث جابربن سمرۃ،۷/ ۴۰۴،حدیث:۲۰۸۳۶

[25] ... معجم کبیر،۸/ ۳۲۰،حدیث:۸۱۹۸

 

 

[26] ... موسوعۃ ابن ابی الدنیا،کتاب الصمت واٰداب اللسان،۷/ ۳۱۱،حدیث:۵۶۰،بتغیرقلیل

[27] ... بخاری،کتاب الادب،باب اکرام الضیف۔۔۔الخ،۴/ ۱۳۶،حدیث:۶۱۳۵،۶۱۳۶،عن ابی ھریرۃ

[28] ... شعب الایمان،باب حفظ اللسان،فصل فی فضل السکوت عمالایعنیہ،۴/ ۲۴۱،حدیث:۴۹۳۴

 

 

[29] ... مسندالفردوس،۲/ ۸۶،حدیث:۴۰۶۲

[30] ... مسندالفردوس،۲/ ۸۵،حدیث:۴۰۵۲

 

 

[31] ... لَعَمْرِی(یالَعَمْرِکَ وغیرہ یعنی میری یاتیری عُمْرکی قسم)قسمِ شرعی نہیں،وہ توصرف خدا (عَزَّوَجَلَّ)کے نام کی ہوتی ہے، بلکہ قسمِ لغوی ہے، جیسے ربّ تعالیٰ فرماتاہے: وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِۙ(۱)...اگلے صفحہ پر

 

 

 

 

 

 

...بقیہ...(پ۳۰، التین:۱)انجیراور زیتون کی قسم۔لہٰذایہ فرمانِ عالی اُس حدیث کے خلاف نہیں جس میں ارشادہواکہ غیْرِخداکی قسم نہ کھاؤ۔(مراٰۃ المناجیح،۴/ ۳۳۷)