اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن لاکھ سستی دلائے یہ ر سالہ(24صَفحات) مکمل پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
آپ اپنے دل میں مدنی انقلاب برپا ہوتا محسوس فرمائیں گے۔
حضرت سیِّدُنا محمد بن سعیدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُعِیْد سونے سے قبل ایک مقررہ تعداد میں دُرُود شریف پڑھا کرتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ایک بارجب دُرُودشریف پڑھ کر رات کو سویاتو میری قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی، میں جس میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودو سلام پڑھا کرتا ہوں وُہی مدینے والے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے خواب میں تشریف لے آئے اورفرمایا: ’’اپنا وہ منہ جس سے تم مجھ پر دُرُود پڑھتے ہو میرے قریب کرو تاکہ میں اسے چوم لوں۔ ‘‘ یہ سن کر مجھے بڑی شرم آئی ، میں
اپنا منہ سرکارمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دَہن اقدس (یعنی مبارک منہ) کے قریب کیسے کروں !میں نے اپنارُخسار(یعنی گال) سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے کردیا اور رَحمت عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہایت ہی شفقت کے ساتھ اس پر بوسہ دیا۔ جب میں بیدار ہوا تو سارا گھر مشکبار ہورہا تھا۔اور میرا رخسار آٹھ روز تک خوب خوب خوشبوداررہا۔ (القولُ البدیع ص۲۸۱ ملخّصاً)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!نگاہیں نیچی کئے توجہ کے ساتھ بیان سنئے کہ لاپر واہی سے اِدھر اُدھریا پیچھے مڑمڑ کر دیکھتے ہوئے، زمین پر انگلی سے کھیلتے ہوئے، اپنے کپڑے، بدن یا بالوں کو سہلاتے ہوئے، باتیں کرتے ہوئے یا ٹیک لگا کر سننے سے نیز اَدھورا بیان سن کر چل پڑنے سے اس کی برکتیں زائل ہونے کا اندیشہ ہے۔ بے توجُّہی کے ساتھ قراٰن وسنّت کی بات سننا مسلمانوں کی صفات سے نہیں ہے۔سُوْرَۃُ الْاَنْبِیَاءدوسری اور تیسری آیت کریمہ میں ارشادِربّانی ہے : مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْؕ-
میرے آقا اعلٰی حضرت، امامِ اہلسنّت، ولیِ نعمت، عظیم البَرَکت،
عظیم المرتبت، پروانۂِ شمعِ رسالت، مُجدِّدِ دین و ملّت، حامیِِ سنّت، ماحیِ بدعت، عالمِ شریعت، پیرِ طریقت، باعثِ خیر وبَرَکت حضرت علّامہ مولانا الحاج الحافظ القاری شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اپنے شہرۂ آفاق ترجمۂ قراٰن ’’کنزالایمان ‘‘ میں اس کا ترجمہ کچھ یوں کرتے ہیں : ’’جب ان کے رب کے پاس سے انہیں کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے نہیں سنتے مگر کھیلتے ہوئے ان کے دل کھیل میں پڑے ہیں ۔‘‘
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حضرت ِسیِّدُنا موسٰی کلیمُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور حضرت سیِّدُنا خضر عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا مشہور قراٰنی واقعہ جو پندرھویں پارے سے شروع ہو کر سولہویں پارے میں ختم ہوتا ہے،اُس میں یہ بھی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا موسٰی کلیمُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور حضرت سیِّدُنا خضر عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ایک شہر میں تشریف لے گئے۔ وہاں کے باشندوں نے ان حضرات کی نہ مہمان نوازی کی نہ ہی کھانا حاضِر کیا۔ حضرت ِسیِّدُناخضر عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے وہاں ایک بوسیدہ دیوار جو گرنے کے قریب تھی اُس کودرست کیا۔ ایسے لوگ جنہو ں نے پانی تک کو نہیں پوچھا ان کے یہاں دیوار کی خدمت کا کام تعجب انگیز تھا۔ لہٰذاحضرت ِسیِّدُنا موسٰی کلیمُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے حضرت ِسیِّدُنا خضر عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے فرمایا: ’’آپ
اگر چا ہتے تو ان لوگوں سے کچھ اُجرت ہی لے لیتے۔‘‘ سیِّدُناخضر عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے کہا: ’’یہ دو یتیموں کی دیوار ہے جو ایک نیک آدمی کی اولاد ہیں اور اس کے نیچے خزانہ ہے، اگر دیوار گر جاتی تو خزانہ ظاہر ہوجاتااور لوگ اٹھا جاتے لہٰذا آپ کے رب عَزَّوَجَلَّنے چاہا کہ وہ بچے جوان ہو کر خزانہ نکال لیں۔ ان کے نیک باپ کے صدقے میں ان پر بھی رَحمت ہوئی۔‘‘ مفسرین کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامفرماتے ہیں : ’’وہ نیک آدمی ان بچوں کا ساتویں یا دسویں پشت پر جاکر والد بنتا تھا۔‘‘(مُلَخّص اَز تفسیرِ صاوی ج۴ص۱۲۱۱،۱۲۱۳ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو!یہاں پر ان کے والد کی نیکی کا لحاظ فرمایا گیا خود ان بچوں کی نیکی کا تذکرہ نہیں۔ ان کے والد نیک اورپرہیز گار تھے لہٰذا ان کا خزانۂ لاجواب محفوظ رکھا گیا۔ سیِّدُنا عبد اللہ ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّانسان کی نیکو کاری سے اس کی اولاد اور اولاد، دَر اولاد کی اصلاح فرمادیتا ہے اور اس کی نسل اور اس کے پڑوسیوں میں اس کی حفاظت فرماتا ہے اوروہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے پرد ہ اور امان میں رہتے ہیں۔‘‘ (تفسیردُرّ مَنثور ج۵ص۴۲۲)
صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی فرماتے ہیں : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’اللہ تَعَالٰیایک صالح (یعنی نیک)مسلمان کی برکت سے اس کے پڑوس کے سو گھر والوں کی بلا دَفع فرماتا ہے۔‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۳
ص۱۲۹حدیث۴۰۸۰) سُبْحٰنَ اللہ نیکوں کا قرب بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ ( خزائنُ العِرفان ص ۸۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کی بَرَکت سے ان کی اولاد بلکہ ہمسایوں (یعنی پڑوسیوں )کو بھی فائدہ پہنچتاہے، تونیک آدمی کتنا بھلا انسان ہوتا ہے کہ اس کے فیوض وبرکات سے نہ جانے کتنے لوگ مُتَمتِّع و مالا مال ہوتے ہیں ۔ابھی جس خزانۂ لا جواب کا ذکر ہوااس کا تذکرہ سُوْرَۃُ الْکَہْفپارہ16آیت82 میں کچھ یوں ہے : وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًاۚ- ترجَمۂ کنز الایمان: اُس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔
اس آیتِ مقدَّسہ کے تحت حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : وہ خزانہ سونے کی ایک تختی پر مشتمل تھا اور اس پر سات عبرت آموز عبارات منقوش تھیں :
{۱}ا س شخص کا حال عجیب ہے جو موت کا یقین ہونے کے باوجود ہنستا ہے ۔
{۲}اس شخص پرتعجُّب ہے جو دنیا کو فنا ہونے والی تسلیم کرنے کے باوجود اس میں مطمئن و مُنْہَمِک(یعنی مشغول اور کھویا ہوا)ہے۔
{۳}اس شخص پر حیرت ہے جو تقدیر پر ایمان رکھنے کے باوُجود دنیا (کی نعمتیں ) نہ ملنے پر مغموم ہو تا ہے۔
{۴}کتنا عجیب ہے وہ آدمی جس کو یقین ہے کہ قِیامت کو ذرّے ذرّے کا حساب دینا ہے
اس کے باوجود دنیا کی دولت جمع کرنے کی دُھن میں مگن ہے ۔
{۵}حیرت ہے اُس شخص پر جو جہنَّم کو سخت ترین عذاب کا مقام تسلیم کرنے کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آتا۔
{۶}عجیب ہے وہ شخص کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّکو پہچاننے کے باوجود غیروں کے تذکرے کرتا ہے ۔
{۷}تَعَجُّب ہے اُس پر جو یہ جانتا ہے کہ جنت میں نعمتیں ہی نعمتیں ہیں پھر بھی دنیا کی راحتوں میں گم ہے۔ اِسی طرح اُس کا حال بھی عجیب ہے جو شیطان کو جان و ایمان کا دشمن جانتے ہوئے بھی اس کی پیروی کرتا ہے۔ (اَلمنبھات علی الاستعداد ص۸۳ مُلَخّصاً )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ان دو یتیموں کے خزانۂ لا جواب پر ان سات عبارات کا پراَسرار خزا نہ بھی کافی عبر تناک ہے۔یہ پراَسرار خزانہ ہمیں عبرت کے مشکبار مَدَنی پھول پیش کررہا ہے ۔واقِعی موت کا یقین رکھنے والوں کا ہنسنا تَعَجُّب خیز ہے ، دنیا کو فانی ماننے کے باوجود اس میں مطمئن رہنا حیرت انگیز ہے، تقدیر پر یقین رکھنے کے باوجود دنیا کا مال نہ ملنے پر یا نقصان ہوجانے پر واویلا کرنا حیرت ناک ہے، جِتنا مال زیادہ اُتنا وبال زیادہ، قیامت میں حساب کتاب زیادہ یہ سب کچھ یقین رکھنے کے باوجود ہر وَقت اس سوچ میں رہنا کہ بس کسی طرح دولت میں اِضافہ ہوجائے، یہاں کا روبار ہے تو وہاں بھی برانچ کھل جائے اِس طرح کی دُھن میں مگن رہنے والے پر کیوں حیرت نہ ہو کہ جب اسے یہ معلو م ہے کہ بروزِ قیامت
مجھے ذرّے ذرّے کا حساب دینا پڑجائے گا،تو آخر پھر وہ اتنی دولت کیوں جمع کرتا چلا جارہا ہے؟ اسے مال و دولت کے حریصو ں کے عبرتناک انجام سے آخر کیوں درس حاصل نہیں ہوتا؟ کل قیامت کی کڑی دھوپ میں اپنے کثیر مال و دولت کا حساب کس طرح دے سکے گا؟
وہ بندہ بھی کتنا عجیب ہے جو یہ جانتا ہے کہ دوزخ سخت ترین عذاب کا مقام ہے پھر بھی گناہوں کا اِرتکاب کرتا ہے۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جہنَّم کو اگر سوئی کے ناکے کے برابر کھو ل دیا جائے تو تمام زمین والے اس کی گرمی سے ہلاک ہوجائیں۔(مُعجَم اَوسَط ج۲ص۷۸حدیث۲۵۸۳)
اہلِ جہنَّم کو جو مشروب پینے کیلئے دیا جائے گا وہ اس قدر خطرناک ہے کہ اگر اس کا ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو دنیا کی تمام کھیتیاں برباد ہوجائیں نہ اناج اُگے نہ پھل۔ جہنَّم کے سانپ اور بچھو بے حد خوفناک ہیں ۔حدیث شریف میں ہے :’’جہنَّم میں عجمی اونٹوں کی گردن کی مثل بڑے بڑے سانپ ہونگے جو دوزخیوں کو ڈستے ہوں گے، وہ ایسے زہریلے ہونگے کہ اگر ایک مرتبہ کاٹ لیں گے تو چالیس سال تک ان کے زَہر کی تکلیف نہیں جائے گی اور لگام لگائے ہوئے خچَّروں کے برابر بڑے بڑے بچھو جہنمیوں کو ڈنک مارتے رہیں گے کہ ایک بارڈنک مارنے کی تکلیف چالیس سال تک باقی رہے گی۔‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل ج۶ص۲۱۶حدیث ۱۷۷۲۹)
ترمذی کی روایت میں ہے :’’ جہنَّم میں ’’صَعُود‘‘نامی آ گ کا ایک پہاڑ ہے جس پر کافرجہنمی کو 70 سال تک چڑھا یاجائے گاپھر اوپر سے اسے گرایا جائے گا تو 70 سال میں وہ نیچے پہنچے گا،اِسی طرح ہمیشہ عذاب دیاجاتا رہے گا۔‘‘( تِرمذی ج۴ص۲۶۰حدیث ۲۵۸۵ )
جہنَّم کے ایسے ایسے خوفناک عذاب کا تذکرہ سننے کے باوجود بھی جو گناہوں سے باز نہ آئے اُس پر واقعی تعجُّب ہے ۔آخر انسان کو اس دنیا نے کیا دے دینا ہے جو اس کی رنگینیوں میں گم اور اس کی لوٹ مار میں مصروف ہے ۔
لذیذ غذائیں مز ے لے لے کر کھانے والوں کوجہنَّم کی بھیانک غذاؤں کونہیں بھولنا چاہئے!’’ ترمذی ‘‘کی روایت میں ہے : ’’دوزخیوں پر بھوک مسلط کی جا ئے گی تو یہ بھوک ان سارے عذابوں کے برابر ہوجا ئے گی جن میں وہ مبتلا ہیں ، وہ فریاد کریں گے تو انہیں آگ کے کانٹے والا کھانادیا جائے گا، جو نہ موٹا کرے نہ بھوک سے نجات دے، پھر وہ کھانا مانگیں گے تو انہیں گلے میں اٹکنے والا کھانا دیا جائے گاتو انہیں یاد آئے گا کہ( دنیا میں )ایسے کھانے کے وقت وہ پانی پیا کرتے تھے چنانچہ وہ پانی مانگیں گے توان کو لوہے کی بالٹیوں سے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گاجب وہ اُن کے منہ کے قریب ہوگا تواُن کے منہ بھون د ے گا پھر جب اُن کے پیٹ میں داخل ہوگا تو ان کے پیٹوں کی ہر چیز کا ٹ ڈالے گا۔‘‘ ( تِرمذی ج۴ص۲۶۳حدیث ۲۵۹۵ )
ایک اور حدیث پاک میں ہے: ’’زَقوم (یعنی تھوہڑجو کہ دوزخیوں کوکھلایا جائے گا) کا
ایک قطرہ اگر دنیا پر ٹپک پڑے تو دنیا والوں کے کھانے پینے کی تمام چیزوں کو (تلخ وبدبوداربنا کر) خراب کردے۔‘‘ (ابنِ ماجہ ج۴ص۵۳۱حدیث ۴۳۲۵ )
آہ!جہنَّم میں ایسا ہولناک عذاب ہونے کے باوجود آخر انسان گناہوں پر اتنا دلیر کیوں ہے ؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خوفِ خداوندی عَزَّوَجَلَّسے لرز اٹھئے! اوراپنے گناہوں سے توبہ کر لیجئے! فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:خواب میں ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا:چلئے!میں اس کے ساتھ چل دیا، میں نے دوآدمی دیکھے، ان میں ایک کھڑا اور دوسرا بیٹھا تھا ،کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ میں لوہے کا زَنبور([2])تھا جسے وہ بیٹھے شخص کے ایک جبڑے میں ڈال کر اُسے گدی تک چیر دیتا پھر زنبورنکال کر دوسرے جبڑے میں ڈال کر چیرتا، اتنے میں پہلے والاجبڑا اپنی اصلی حالت پرلوٹ آتا، میں نے لانے والے شخص سے پوچھا: یہ کیا ہے؟اس نے کہا: یہ جھوٹا شخص ہے اسے قیامت تک قبر میں یہی عذاب دیا جا تا رہے گا۔
(مَساوِی الْاَخلاق لِلخَرائطی ص ۷۶ حدیث ۱۳۱ )
معراج کی رات سرورِکائنات، شاہِ مو جودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو تانبے کے ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے تھے ۔
سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اِستفسار(یعنی پوچھنے) پر عرض کیا گیا: ’’یہ لوگ آدَمیوں کا گوشت کھانے والے (یعنی غیبت کرنے والے) اور لوگوں کی آبرو ریزی کرنے والے تھے۔‘‘(ابوداوٗد ج۴ص۳۵۳حدیث ۴۸۷۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یقینا زندگی بے حد مختصر ہے۔عنقریب ہماری سانس کی مالا ٹوٹ جائے گی اور ہمارے ناز اُٹھانے والے ہمیں اپنے کندھوں پر لاد کر ویران قبرستان کی طرف چل پڑیں گے ۔آہ! ہماری ساری آرزوئیں خاک میں مل جائیں گی، ہماری خون پسینے کی کمائی ہمارے ساتھ آئے گی نہ ہمیں کام آئے گی۔
بے وفا دنیا پہ مت کر اِعتبار تُو اچانک موت کا ہوگا شکار
موت آکر ہی رہے گی یاد رکھ! جان جا کر ہی رہے گی یاد رکھ!
گر جہاں میں سو برس توجی بھی لے
قبر میں تنہا قِیامت تک رہے(وسائلِ بخشش ص۷۱۱)
سردارآباد (فیصل آباد) کے میڈیکل کالج کے فائنل ائیرکا ایک ذہین ترین طا لبِ علم اپنے دوست کے ہمراہ پکنک منانے چلا۔ پکنک پوائنٹ پر پہنچ کر اُس کا دوست ندی میں تیرنے کیلئے اترا مگر ڈوبنے لگا،مستقبل کے ڈاکٹر نے اُس کو بچانے کی غرض سے جذبات میں
آ کر پانی میں چھلانگ لگادی، اب وہ تیرنا تو جانتا نہیں تھا لہٰذا خود بھی پھنس گیا۔ قسمت کی بات کہ اُ س کا دوست تو جوں توں کر کے نکلنے میں کامیاب ہوگیا مگر آہ!مستقبل کا ڈاکٹر بے چارہ ڈوب کرموت کے گھاٹ اتر گیا۔کہرام مچ گیا ، ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا پانی کی موجوں کی نذر ہوگیا، ماں باپ کے سہانے سپنے شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے اور وہ بے چارہ ذہین طالب علم M.B.B.S کے فائنل امتحان کا رِزَلٹ ہاتھ میں آنے سے قبل ہی قبر کے امتحان میں مبتلا ہوگیا۔
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے مکیں ہوگئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے
حضرت سیِّدُنا صالح مرقَدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا گزر کچھ عالی شان مکانات کی طرف ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے فرمایا: ’’اے بلند و بالا عمارَتو! وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے تمہیں تعمیر کیا! اور وہ لو گ کدھر گئے جنہوں نے سب سے پہلے تم کو آباد کیا! وہ لو گ کدھر جاچھپے جو سب سے پہلے تمہارے اندر رہائش پذیر تھے؟‘‘ وہ مکان بھلا کیا جواب دیتے! غیب سے ایک آواز گونج اٹھی: ’’جو لوگ پہلے ان مکانات میں رہتے تھے ان کے نام و
نشان مٹ گئے اب انکا نام تک لینے والا کوئی باقی نہیں رہا ، ان کے بدن خاک میں مل گئے اور ان کے اعمال ان کے گلے کا ہار ہیں۔‘‘(المنبھات علی الاستعداد ص۱۹)
اُونچے اونچے مکان تھے جن کے تنگ قبروں میں آج آن پڑے
آج وہ ہیں نہ ہیں مکاں باقی نام کو بھی نہیں ہے نشاں باقی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہوا لوں کی بھی کیاخو ب مَدَنی سوچ ہوتی ہے انہوں نے عالی شان مکانات دیکھ کر ان سے عبرت کا سامان کیا اور ایک ہم ہیں کہ اگر عمدہ مکانات، کوٹھیاں اور بنگلے دیکھ لیتے ہیں تو مزید غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں ،ا ن کو ٹھیوں کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں ، ان کی سجاوٹوں کا نظّارہ کرتے ہیں ، اس کی پائیداری پر تبصرے کرتے ہیں ، ان کے بھاؤ کا اندازہ لگاتے ہیں اور نہ جانے کتنی فضولیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اے کاش! ہمیں بھی مَدَنی سوچ نصیب ہوجاتی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جس دارِ ناپائید ار کے حصول کی خاطر آج ہم ذلیل و خوا ر ہو رہے ہیں اس کو نہ ثبات ہے نہ قرار، اس کی ظاہری رنگینی و شادابی پر فریفتہ ہونے والو! یاد رکھو! ؎
گرچہ ظاہر میں مثلِ گل ہے پر حقیقت میں خار ہے دنیا
ایک جھونکے میں ہے اِدھر سے اُدھر چار دن کی بہار ہے دنیا
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’جن چیزوں سے میں اپنی اُمت پر خوف کرتا ہوں ان میں زیادہ خوفناک نفسانی خواہش اور لمبی امّید ہے۔ نفسانی خواہش حق سے روک دیتی ہے اور لمبی امّید آخرت کوبھلا دیتی ہے۔ یہ دنیا کوچ کرکے جارہی ہے اور آخرت کوچ کرکے آرہی ہے۔ ان دونوں (دنیا اور آخرت)میں سے ہر ایک کی اولاد( یعنی طلب گار) ہے۔ اگر تم یہ کرسکو کہ دنیا کے بچّے(یعنی طلب گار) نہ بنو تو ایسا ہی کرو کیونکہ آج تم عمل کی جگہ میں ہو جہاں حساب نہیں اور کل تم آخرت کے گھر میں ہوگے جہاں عمل نہ ہوگا۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۷ص۳۷۰حدیث ۱۰۶۱۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!واقعی خواہشاتِ نفس اور لمبی امّیدوں کی تباہ کاریاں آج بالکل واضح ہیں۔ ابنائِ دنیا (دنیا کے بیٹوں ) کی کثرت جابجا ہے کہ جسے دیکھو دنیا سے مَحَبَّت کا تو دم بھرتا نظر آرہا ہے ، آخرت کیمَحَبَّت رکھنے والوں کی تعداد نہایت کم ہے ، ہر ایک دنیا کا مستقبل روشن کرنے کی تگ و دو میں مشغول ہے،اور اِسی فکر میں ہے کہ جتنی بن پڑے اُتنی دولت اکٹھی کرلی جائے، جتنا ہوسکے اسناد حاصل کرلی جائیں ، جتنا ہوسکے دنیا کے پلاٹ حاصل ہوجائیں۔ اے دنیا میں عمدہ عمدہ مکانات پانے کے طلبگارو! ذرا دل کے کانوں سے سنو، قراٰنِ پاک کیا کہہ رہا ہے! چُنانچِہ سُوْرَۃُ الدُّخَان پارہ25آیت25تا29 میں ارشاد ہوتا ہے:
كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۲۵)وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍۙ(۲۶)وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِیْهَا فٰكِهِیْنَۙ(۲۷)كَذٰلِكَ- وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ(۲۸)فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۠(۲۹)
ترجَمۂ کنزالایمان: کتنے چھوڑگئے باغ اور چشمے اور کھیت اور عمدہ مکانات اور نعمتیں جن میں فارِغُ البال تھے۔ ہم نے یونہی کیا ا ور ان کا وارث دوسری قوم کوکردیا تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے اورا نہیں مہلت نہ دی گئی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے غور فرمایا! عمدہ عمدہ مکانات بنانے والے، خوش نماباغات لگانے والے اور لہلہاتے کھیت اُگانے والے یک بار گی دنیا سے رخصت ہوگئے اور ان کے چھوڑے ہوئے اَثاثے کا دوسروں کو وارِث بنا دیا گیا، نہ ان پر زمین روئی نہ آسمان، نہ ہی انہیں مہلت دی گئی، ان کے نام و نشان مٹادئے گئے، ان کے تذکرے ختم ہوگئے،بس اب وہ ہیں اور ا ن کے اعمال، تو یہ دنیا بس عبرت ہی عبرت ہے۔ ؎
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سونمونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے
کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تو نے جو آباد تھے وہ مکاں اب ہیں سُونے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے مکیں ہوگئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھاگئی نوجواں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر اک لیکے کیا کیا نہ حسرت سِدھارا پڑا رہ گیا سب یونہی ٹھاٹھ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
یہی تجھ کو دُھن ہے رہوں سب سے بالا ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
وہ ہے عیش و عشرت کا کوئی محل بھی جہاں تاک میں ہر گھڑی ہو اَجَل بھی
بس اب اپنے اِس جہل سے تو نکل بھی یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
نہ دِلدادئہ شعر گوئی رہے گا نہ گرویدئہ شہرہ جوئی رہے گا
نہ کوئی رہا ہے نہ کوئی رہے گا رہے گا تو ذکر نکوئی رہے گا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
جب اس بزم سے اٹھ گئے دوست اکثر اور اٹھتے چلے جا رہے ہیں برابر
یہ ہر وقت پیشِ نظر جب ہے منظر یہاں پر تِرا دل بہلتا ہے کیوں کر
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
جہاں میں کہیں شورِ ماتم بپا ہے کہیں فقر و فاقے سے آہ و بُکا ہے
کہیں شِکوئہ جَور و مکر و دغا ہے غرض ہر طرف سے یِہی بس صدا ہے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آکے کیا کیا ستایا اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
بڑھاپے سے پاکر پیامِ قضا بھی نہ چونکا، نہ چیتا، نہ سنبھلا ذرا بھی
کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی جنوں کب تلک؟ ہوش میں اپنے آبھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
یہ فانی جہاں ہے مسلمان تجھ کو کرے گی یہ دنیا پریشان تجھ کو
پھنسا دیگی مَرقَد میں نادان تجھ کو کرے گی قِیامت میں حیران تجھ کو
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یہ شورمچ جائے کہ اس کا انتِقال ہوگیا ہے! اب جلدی غسال کو بلا لاؤ چنانچہ غسال تختہ اٹھائے چلا آرہا ہو، غسل دیا جارہا ہو…کفن پہنایا جارہا ہو… پھر اندھیری قبر میں اُتار دیا جائے، اس سے قبل ہی مان جائیے! جلدی جلدی توبہ کر لیجئے ! ۔ ؎
کرلے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی (وسائلِ بخشش ص۷۱۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصل کرتا ہوں۔ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت ،شمع بزمِ ہدایت ،نوشۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔ (اِبنِ عَساکِر ج۹ص۳۴۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭کھانے سے مقصود حصولِ لذّت نہ ہو بلکہ کھاتے وقت یہ نیت کرلیجئے :’’میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت پر قوت حاصل کرنے کیلئے کھا رہا ہوں ‘‘٭دعوت اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہکی مطبوعہ 312 صفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت ‘‘ حصّہ 16 صَفْحَہ
17پر ہے:بھوک سے کم کھانا چاہیے اور پوری بھوک بھر کر کھانا کھا لینا مباح ہے یعنی نہ ثواب ہے نہ گناہ، کیونکہ اس کا بھی صحیح مقصد ہوسکتا ہے کہ طاقت زیادہ ہوگی۔ اور بھوک سے زیادہ کھالینا حرام ہے۔ زیادہ کا یہ مطلب ہے کہ اتنا کھالینا جس سے پیٹ خراب ہونے کا گمان ہے، مَثَلاً دَست آئیں گے اور طبیعت بدمزہ ہوجائے گی۔(دُرِّمُختارج۹ص۵۶۰) ٭بھوک سے کم کھانا بے شمار فوائد کا مجموعہ ہے کہ تقریباً 80 فیصد بیماریاں ڈَٹ کر یعنی خوب پیٹ بھر کر کھانے سے ہوتی ہیں۔ لہٰذا ابھی بھوک باقی ہو تو ہاتھ روک لیجئی٭اکثردسترخوان پر عبارت لکھی ہوتی ہے (مَثَلاً شعر یا کمپنی وغیرہ کا نام ) ایسے دسترخوانوں کو استعمال میں لانا، اُن پر کھانا کھانا نہ چاہیے۔(بہارِشریعت حصّہ ۱۶ص ۶۳)٭کھاناکھانے سے پہلے اور بعد دونوں ہاتھ پہنچوں تک دھونا سنت ہے۔( عالمگیری ج۵ص۳۳۷)٭ فرمانِمصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:’’کھانے سے پہلے اور بعد میں وُضو کرنا( یعنی پہنچوں تک دونوں ہاتھ دھونا ) رِزق میں کُشادَگی کرتا اور شیطٰن کو دُور کرتا ہے۔‘‘ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۳۳۳حدیث ۳۵۰۱) ٭کھانا تناوُل کرنے کے موقع پر جوتے اتا ر لیجئے کہ اِس سے قدم آرام پاتے ہیں ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:’’جب تم کھانا کھانے لگوتو اپنے جوتے اُتاردو ! کیونکہ یہ تمہارے قدموں کے لیے راحت کا باعث ہے۔‘‘(مُعجَم اَوسط ج ۲ ص ۲۵۶ حدیث ۳۲۰۲) ٭کھاتے وَقْت اُلٹا پاؤں بچھادیجئے اور سیدھا گُھٹنا کھڑا رکھئے یا سُرین پر بیٹھ جایئے اور دونوں گھٹنے کھڑے رکھئے۔ (مُلَخَّص ازبہارِشریعت حصّہ ۱۶ ص ۲۱)یا دونوں قدموں کی
پشت پر دوزانو بیٹھئے۔ (اِحیاء العلوم ج۲ص۵)٭ اسلامی بھائی ہو یا اسلامی بہن سبھی کیلئے یہ مَدَنی پھول ہے کہ جب کھانے بیٹھیں تو چادر یا کُرتے کے دامن کے ذَرِیعے پردے میں پردہ ضرور کریں ٭سالن یا چٹنی کی پیالی روٹی پرمت رکھئے۔ (رَدُّالْمُحتَارج۹ص۵۶۲) ٭ ننگے سر کھانا ادب کے خلاف ہی٭بائیں یعنی الٹے ہاتھ کو زمین پر ٹیک دیکر کھانا مکروہ ہے ٭مٹی کے برتن میں کھانا اَفضل ہے کہ جو اپنے گھر میں مٹی کے برتن بنواتا ہے فرشتے اُس گھر کی زِیارت کرنے آتے ہیں۔ ( ایضاًص۵۶۶) ٭دسترخوان پر سبزی ہو تو فرشتے نازِل ہوتے ہیں۔(اِحیائُ العلوم ج۲ص۲۲)٭ شروع کرنے سے قبل یہ دُعا پڑھ لی جائے، اگر کھانے یا پینے میں زہر بھی ہوگا تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اَثر نہیں کرے گا۔دُعا یہ ہے: بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْیٌٔ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فیِ السَّمَاءِ یَا حَیُّی یَا قَیُّوْم۔([3]) ۔ترجمہ :اللہ تَعَالٰیکے نام سے شروع کرتا ہوں جس کے نام کی برکت سے زَمین وآسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی، اے ہمیشہ زندہ وقائم رہنے والے۔(اَلفِردَوس ج۱ص۲۸۲حدیث۱۱۰۶)٭اگر شروع میں بِسمِ اللہ پڑھنا بھول گئے تو دَورانِ طَعام یا دآنے پر اس طرح کہہ لیجئے: بِسمِ اللہِِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ۔ ترجمہ:’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام سے کھانے کی ابتدا اور انتہا ‘‘٭اوّل آخر نمک یا نمکین کھایئے
کہ اِس سے70 بیماریاں دُور ہوتی ہیں ۔ (رَدُّالْمُحتَارج۹ص۵۶۲) ٭سیدھے ہاتھ سے کھایئے،اُلٹے ہاتھ سے کھانا،پینا، لینا، دینا، شیطان کا طریقہ ہے۔اکثر اسلامی بھائی نوالہ تو سیدھے ہاتھ سے ہی کھاتے ہیں ، مگر جب منہ کے نیچے اُلٹا ہاتھ رکھتے ہیں تو بعض دانے اُس میں گرتے ہیں اور وہ اُلٹے ہی ہاتھ سے پھانک لیتے ہیں ، اِسی طرح دسترخوان پر گرے ہوئے دانے اُلٹے ہی ہاتھ سے کھاتے ہیں ، اُن کو چاہئے کہ وہ اُلٹے ہاتھ والے دانے سیدھے ہاتھ میں ڈال کر ہی منہ میں ڈالیں ٭ بائیں (یعنی اُلٹے) ہاتھ میں روٹی لے کر دَہنے ( یعنی سیدھے) ہاتھ سے نوالہ توڑنا دَفعِ تکبُّر کیلئے ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۱ ص۶۶۹) ہاتھ بڑھا کر تھال یا سالن کے برتن کے عین بیچ میں اوپر کر کے روٹی اور ڈبل روٹی وغیرہ توڑنے کی عادت بنایئے،اِس طرح روٹی کے ذرّات یا روٹی پر تِل ہوئے تو برتن ہی میں گریں گے ورنہ دسترخوان پر گر کر ضائِع ہو سکتے ہیں ۔ (تل شاید زینت کیلئے ڈالتے ہیں ، بغیر تل کی روٹی لینا ہی مناسب تا کہ تل گر کر ضائع ہونے کا بکھیڑا ہی نہ رہے)٭ تین اُنگلیوں یعنی بیچ والی ،شہادت کی اور انگوٹھے سے کھانا کھایئے کہ یہ سنّتِ اَنبِیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامہے۔ اگر چاول کے دانے جدا جُدا ہوں اور تین اُنگلیوں سے نوالہ بننا ممکن نہ ہو تو چار یا پانچ اُنگلیوں سے کھا لیجئے ٭ لقمہ چھوٹا لیجئے اور چَپَڑ چَپَڑ کی آواز پیدا نہ ہو اِس احتیاط کے ساتھ اِس قَدَر چبایئے کہ منہ کی غذا پتلی ہو جائے، یوں کرنے سے ہاضم لعاب بھی اچھی طرح شامل ہو جائے گا۔ اگر اچھی طرح چبائے بغیر نگل جائیں گے تو ہضم کرنے کیلئے معدے کو سخت زَحمت کرنی
پڑے گی اور نتیجۃً طرح طرح کی بیماریوں کا سامنا ہو سکتا ہے لہٰذا دانتوں کا کام آنتوں سے مت لیجئے۔ ٭ہر دو ایک لقمے کے بعد’’ یَا وَاجِدُ‘‘ پڑھنے سے پیٹ میں نور پیدا ہوتا ہے ٭ فراغت کے بعد پہلے بیچ کی پھر شہادت کی اُنگلی اور آخر میں اَنگوٹھا تین تین بارچاٹئے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کھانے کے بعد مبارَک اُنگلیوں کو تین مرتبہ چاٹتے ([4])؎ ٭برتن بھی چاٹ لیجئے۔ حدیثِ پاک میں ہے: کھانے کے بعد جو شخص برتن چاٹتا ہے تو وہ برتن اُس کیلئے دُعا کرتا ہے اور کہتا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے جہنَّم کی آگ سے آزاد کرے جس طرح تو نے مجھے شیطان سے آزاد کیا ۔([5]) ؎ اور ایک رِوایت میں ہے کہ برتن اُس کیلئے اِسْتِغْفَار (یعنی مغفرت کی دعا) کرتاہے([6]) ٭حُجَّۃُ الْاِسْلامحضرتِ سَیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : جو (کھانے کے بعد) پیالے ( یا رِکابی) کو چاٹے اور دھو کر پی لے اُسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اور گرے ہوئے ٹکڑے اُٹھا کر کھانا جنَّت کی حوروں کا مہر ہے ([7]) ٭ صلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم ہے:جو شخص کھانے کے گرے ہوئے ٹکڑوں کو اُٹھا کر کھائے وہ فراخی ( یعنی کشادَگی) کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور اُس کی اولاد میں خیریت رہتی ہے([8]) ٭کھانے کے بعد دانتوں کا خلال کیجئی٭کھانے کے بعد اول آخر دُرُود شریف کے ساتھ یہ دُعا پڑھئے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْن۔ترجَمہ:
’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے جِس نے ہمیں کھلایا ،پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا‘‘٭اگر کِسی نے کھلایا ہو تو یہ دُعا بھی پڑھئے: اَللّٰھُمَّ اَطْعِمْ مَنْ اَطْعَمَنِیْ وَ اسْقِ مَنْ سَقَانِیْ۔ ترجمہ: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کو کھلا جس نے مجھے کھلایا اور اُس کو پلا جس نے مجھے پلایا۔( الحصن الحصین ص ۷۱ ) ٭کھانا کھانے کے بعد سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص اورسُوْرَۃُ قُرِیْشٍ پڑھئے۔(اِحیاء العلوم ج ۲ ص ۸) ٭کھانے کے بعد ہاتھ صابون سے اچّھی طرح دھو کر پونچھ لیجئے ٭حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرتِ سَیِّدُنا امام محمدبن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی لکھتے ہیں : کھانے کے بعد وُضو( یعنی پہنچوں تک دونوں ہاتھ دھونا) جُنُون (یعنی پاگل پن) کو دُور رکھتا ہے۔ (ایضاً ج۲ ص۴)
ہزاروں سنتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صفحات پر مشتمل کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ16 اور(۲) 120صفحات کی کتاب’’ سنتیں اور آد ا ب ‘ ‘ ہد یَّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے۔ سنتوں کی تربیت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔
لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو
سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔
ایک چُپ سو۱۰۰ سُکھ
غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و
بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب
۸ ربیع الاوّل ۱۴۳۶ھ
2014-12-31
یہ رسالہ پڑھ لینے کے بعد ثواب
کی نیّت سے کسی کو دے دیجئے۔
کتاب |
مطبوعہ |
کتاب |
مطبوعہ |
قراٰن مجید |
|
الشمائل المحمدیۃ |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
تفسیر صاوی |
دار الفکر بیروت |
ابن عساکر |
دار الفکر بیروت |
در منثور |
دار الفکر بیروت |
الحصن الحصین |
المکتبۃ العصریہ بیروت |
خزائن العرفان |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
احیاء العلوم |
دار صادر بیروت |
ابوداوٗد |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
القول البدیع |
مؤسسۃ الریان بیروت |
ترمذی |
دار الفکر بیروت |
المنبھات |
پشاور |
ابن ماجہ |
دار المعرفۃ بیروت |
درّمختار |
دار المعرفۃ بیروت |
مسند امام احمد |
دار الفکر بیروت |
ردّالمحتار |
دار المعرفۃ بیروت |
معجم اوسط |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
عالمگیری |
دار الفکر بیروت |
شعب الایمان |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
فتاوٰی رضویہ |
رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور |
مساوی الاخلاق |
مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت |
بہارشریعت |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
الفردوس بمأثور الخطاب |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
وسائل بخشش |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
جمع الجوامع |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
٭٭٭٭٭ |
٭٭٭٭٭ |
[1]۔۔۔الحمدُ لِلّٰہشبِ جمعہ( ۱۴۱۸۔۵۔۱۰)کو امیرِ اہلسنّت کا یہ بیاناُمُّ الْقَیْوِین،اَلْاِمَارَاتُ الْعَرَبِیَّۃُ الْمُتَّحِدَۃ سے بذریعہ ٹیلفون مرکز الاولیاء لاہور میں دو جگہ رلے ہوا اور وہاں سے مصطفٰے آباد، منڈی فاروق آباد، شیخوپورہ، شکر گڑھ، اوکاڑہ، ضیاکوٹ اور چیچہ وطنی میں رلے ہوا جہاں ہزارہا اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے یہ بیان سننے کی سعادت حاصل کی۔ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے ۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ
[2]۔۔۔ یعنی لوہے کی سلاخ جس کا ایک طرف کا سرا مڑا ہوا ہوتا ہے ۔
[3]۔۔۔ جس دعا میں: ’’یَاحَیُّی یَاقَیُّوْم ‘‘ کے بجائے’’وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم‘‘ ہے ،اس دعا کی فضلیت ’’ترمذی ‘‘ اور ’’ابن ماجہ ‘‘ میں اس طرح ہے، فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم:جو بند ہ روزانہ صبح وشام 3مرتبہ یہ کلمات کہے:’’بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْیٌٔ فِی الْاَرْضِ وَلَا فیِ السَّمَاءِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیْم‘‘تواسے کوئی چیزنقصان نہیں دے سکتی ۔(ترمذی ج۵ص۲۵۰حدیث۳۳۹۹،ابن ماجہ ج۴ص۲۸۴حدیث۳۸۶۹)
[4]۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ، للترمذی ص ۹۶حدیث۱۳۳
[5]۔۔۔ جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۱ ص۳۴۷حدیث ۲۵۵۸
[6]۔۔۔ ابنِ ماجہ ج۴ص۱۴حدیث ۳۲۷۱
[7]۔۔۔ اِحیاء العلوم ج۲ص۸