اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے صرف(36صفحات)پر مشتمل یہ بیان مکمَّل پڑھ لیجئے
اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ اپنے دل میں مَدَنی انقلاب برپاہوتاہوا محسوس فرمائیں گے۔
سرکار مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان تقرب نشان ہے: ’’قیامت کے روز لوگوں میں میرے نزدیک تر وہ ہوگا جس نے مجھ پر زِیادہ دُرُودشریف پڑھے ہوں گے۔‘‘( تِرمِذی ج۲ص۲۷حدیث۴۸۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سیّدُنا شیخ ابو عبدُاللہ خیاط رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس ایک آتش پرست کپڑے سلواتا اور ہر بار اُجرت میں کھوٹا سکہ دے جاتا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ چپ چاپ لے لیتے۔ایک بار آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی غیر موجودَگی میں شاگرد نے آتش پرست سے
کھوٹا سکہ نہ لیا ۔ جب واپس تشریف لائے اور معلوم ہوا تو شاگرد سے فرمایا: تو نے کھوٹا دِرہم کیوں نہیں لیا؟کئی سال سے وہ مجھے کھوٹاسکہ ہی دیتارہا ہے اور میں بھی جان بوجھ کرلے لیتا ہوں تاکہ یہ وہی سکہ کسی دُوسرے مسلمان کو نہ دے آئے۔(اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۸۷ مُلَخَّصاً )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے !پہلے کے بزرگوں میں احترام مسلم کا جذبہ کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتاتھا۔کسی اَنجانے مسلمان بھائی کو اِتفاقی نقصان سے بچانے کیلئے بھی اپنا خسارہ گوارا کرلیا جاتا تھا ،جبکہ آج تو بھائی ہی بھائی کو لوٹنے میں مصروف ہے۔تبلیغ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی دورِ اَسلاف کی یاد تازہ کرنا چاہتی ہے۔ ’’ دعوت اسلامی‘‘ نفرتیں مٹاتی اور محبتوں کے جام پلاتی ہے۔ہر اسلامی بھائی کو چاہیے کہ عاشقان رسول کے مَدَنی قافلوں میں سنتو ں کی تربیت کے لیے سفر اورروزانہ ’’ فکر مدینہ‘‘ کے ذریعے مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پر کر کے ہر مَدَنی ماہ کے پہلے دن اپنے یہاں کے ذِمے دار کو جمع کروانے کا معمول بنائے۔اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ بطفیل مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِحترامِ مسلم کا جذبہ بیدار ہوگا۔ اگر ایسا ہوگیا تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارا معاشرہ ایک بار پھر مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے دلکش و خوشگوار ،خوشبودار وسدا بہار رنگ برنگے پھولوں سے لدا ہوا حسین گلزار بن جائے گا۔ ؎
طیبہ کے سوا سب باغ پامالِ فَنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو جب عَہدِ خَزاں آیا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
والدین و دیگر ذوی الارحام(یعنی جن کے ساتھ خونی رشتہ ہودَرَجہ بدَر َجہ ) معاشرے میں سب سے زیادہ احترام وحسن سلوک کے حقدار ہوتے ہیں ، مگر افسوس کہ اس کی طرف اب دھیان کم دیا جاتا ہے ۔بعض لوگ عوام کے سامنے اگرچِہ انتہائی مُنْکَسِرُ المزاجو ملنسار گردانے جاتے ہیں مگر اپنے گھر میں بالخصوص والدین کے حق میں نہایت ہی تند مزاج و بداَخلاق ہوتے ہیں۔ایسوں کی توجہ کیلئے عرض ہے ،حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے، سرکارِدو عالم،نورِ مجسم،شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظَّم ہے: ’’تین شخص جنت میں نہیں جائیں گے ،ماں باپ کو ستانے والا اور دَیوث اور مردانی وضع بنانے والی عورت۔ ‘‘(مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۸ ص۲۷۰ حدیث۱۳۴۳۲)
بیان کردہ حدیثِ پاک میں ماں باپ کو ایذاء دینے والے کے ساتھ ساتھ دَیوث کے بارے میں بھی وَعیدہے کہ وہ جنت سے محروم کردیا جائے گا۔’’دَیوث‘‘ .1یعنی وہ شخص جواپنی بیوی یا کسی محرم پرغیرت نہ کھائے ۔(دُرِّمُختارج۶ ص ۱۱۳ ) مطلب یہ کہ باوجودِ قدرت اپنی زوجہ ،ماں ، بہنوں اور جوان بیٹیوں وغیرہ کو گلیوں بازاروں ، شاپنگ سینٹروں اور مَخْلُوط تفریح گاہوں میں بے پردہ گھومنے پھر نے، اجنبی پڑوسیوں ،
نامَحرم رِشتے داروں ، غیرمحرم.1 ملازِموں ، چوکیدار وں اور ڈرائیوروں سے بے تکلفی اور بے پر دَ گی سے منع نہ کرنے والے دَیُّوث، جنت سے محروم اور جہنم کے حقدار ہیں۔
یاد رکھئے!دیگر نامحرموں کے ساتھ ساتھ تایازاد، چچازاد ،ماموں زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد ،چچی،تائی،ممانی ،بہنوئی،خالو اورپھوپھا نیز دَیور و جیٹھ او ر بھابھی کے درمیان بھی شریعت نے پردہ رکھا ہے۔ اگر عورت مذکورہ رشتے داروں سے بے تکلف رہے گی اور ان سے شرعی پردہ نہیں کریگی توجہنم کی حق دار ہے اور شوہر اپنی اِستطاعت کے مطابق بیوی کو اِس گناہ سے نہیں روکے گا تو شرعاً وہ ’’دَیوث ‘‘ ابتداء ً جنت سے محروم اور عذاب نار کا مستحق ہے ۔ جو علانیہ دیوث ہے وہ فاسق معلن،ناقابل امامت ومردودُ الشَّہادۃ (یعنی گواہی کیلئے نالائق ) ہے ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشِقانِ رسول کے مَدَنی قافلوں میں سنتوں کی تربیت کے لیے سفر اورروزانہ فکرِ مدینہ کے ذریعے مَدَنی انعامات کا رسالہ پر کر کے ہر مدنی ماہ کے پہلے دن اپنے یہاں کے ذمے دار کو جمع کروانے کا معمول بنائیے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ بے حَیائی کا مرض دیوثی اوردیگرگناہوں کے اَمراض بھی اُن میٹھے میٹھے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صَدقے میں دور ہوں گے جن کی حیا سے جھکی ہوئی مبارَک نگاہوں کا واسطہ پیش کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بارگاہِ رب العزت میں عرض کرتے ہیں : ؎
یا الٰہی رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں
اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو (حدائقِ بخشش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث پاک میں مردانی وَضع بنانے والی عورت کوبھی جنت سے محروم قرار دیاگیا ہے۔تو جو عورت مردانہ لباس ،یا مردانہ جوتے پہنے یا مردانہ طرزکے بال کٹوائے وہ بھی اِس وَعید میں داخل ہے۔آج کل بچوں میں اس بات کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا، لڑکے کو لڑکی کا لباس پہنادیا جاتا ہے جس سے وہ لڑکی معلوم ہوتا ہے جبکہ لڑکی کو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ لڑکے کا لباس مَثَلاً پینٹ شرٹ، لڑکے کے جوتے اور ہیٹ وغیرہ پہنادیتے ہیں ، بال بھی لڑکے جیسے رکھوائے جاتے ہیں کہ دیکھنے میں بالکل لڑکا معلوم ہوتی ہے۔ صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی لکھتے ہیں :’’ بچّوں کے ہاتھ پاؤں میں بلا ضَرورت مہندی لگانا ناجائز ہے۔ عورت خود اپنے ہاتھ پاؤں میں لگاسکتی ہے مگر لڑکے کو لگائے گی تو گنہگار ہوگی۔ ‘‘ (بہار شریعت ج ۳ص۴۲۸)
اپنے بچّوں کو ایسے بابا سوٹ بھی مت پہنائیے جن پر انسان یا جانور کی تصویر بنی ہو، بچوں کو نیل پالش بھی نہ لگائیے اور بچوں کی ماں بھی ہرگز نہ لگائے کہ نیل پالش لگی ہونے کی صورت میں اس کے نیچے ناخن پر پانی نہیں بہتا، لہٰذا وضوو غسل نہیں ہوتا۔
والدین کے ساتھ ساتھ دیگر اہلِ خاندان مَثَلاً بھائی بہنوں کا بھی خیال رکھنا
چاہئے۔والد صاحب کے بعد دادا جان اور بڑے بھائی کا رتبہ ہے کہ بڑا بھائی والد کی جگہ ہوتا ہے۔مصطَفٰے جانِ رحمت ،شمعِ بزمِ ہدایت ،تاجدارِ رسالت،صاحِبِ جودو سخاوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ رحمت نشان ہے:’’ بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ایسا ہے جیسے والِد کا حق اولاد پر۔‘‘
(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۲۱۰ حدیث۷۹۲۹)
والدین کو بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کے حقوق کا خیال رکھیں ، انہیں ماڈَرن بنانے کے بجائے سنتوں کاچلتا پھرتا نمونہ بنائیں ، ان کے اَخلاق سنواریں ،بری صحبت سے دُور رکھیں ، سنتوں بھرے مَدَنی ماحول سے وابستہ کریں۔فلموں ڈِراموں ،گانے باجوں اور برے رسم و رَواجوں سے بھر پور ،یادِ خدا ومصطَفٰے سے دورکرنے والے فحش فنکشنوں سے بچائیں۔ آج کل شاید ماں باپ اولاد کے حقوق یہی سمجھتے ہیں کہ ان کو دُنیوی تعلیم مل جائے ، ہنر اور مال کمانا آجائے ۔ آہ! اپنے لخت جگر کے لباس اور بدن کومیل کچیل سے بچانے کا توذِہن ہوتا ہے مگر بچّے کے دل ودماغ اور اَعمال و افعال کی پاکیزگی کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب،دانائے غیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ والا نشان ہے:’’کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے وہ اس کیلئے ایک صاع([2])صد قہ کرنے سے افضل ہے ۔ ‘‘ ( تِرمِذی ج ۳ ص ۳۸۲ حدیث ۱۹۵۸)اور ارشاد ہے کہ’’ کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی چیز ایسی نہیں
دی جو اچھے ادب سے بہتر ہو ۔‘‘ (اَیضاً ص۳۸۳ حدیث۱۹۵۹)
افسوس ! آج کل ہم میں سے اکثر کے گھروں میں مَدَ نی ماحول بالکل نہیں ہے ۔ اس میں کافی حد تک ہمارا اپنا بھی قصور ہے۔ گھر والوں کے ساتھ ہماری بے انتہا بے تکلفی، ہنسی مذاق ، تو تڑاق اور بد اَخلاقی اور حد دَرَجہ بے تو جہی وغیرہ اس کے اسباب ہیں۔ عام لوگوں کے ساتھ تو ہمارے بعض اسلامی بھائی انتہائی عاجزی اورمسکینی سے پیش آتے ہیں مگر گھر میں شیر ببر کی طرح دَہاڑتے ہیں ، اس طرح گھرمیں وقار قائم ہوتا ہی نہیں اور اہلِ خانہ بے چارے اصلاح سے اکثر محروم رہ جاتے ہیں ۔ خبردار ! اگر آپ نے اپنے اَخلاق نہ سنوارے، گھر والوں کے ساتھ عاجزی اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کر کے ان کی اصلاح کی کوشِش نہ کی تو کہیں جہنم میں نہ جا پڑیں ۔ اللہ تبارَک و تعالیٰ پارہ28 سُوْرَۃُ التَّحْرِیْم کی آیت 6میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ
ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو ! اپنی جانوں اوراپنے گھر والوں کواُس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدَمی اورپتھر ہیں۔
اِس آیتِ کریمہ کے تحت خَزائِنُ العِرْفانمیں ہے : اللہ تَعَالٰی اوراُس کے
رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری اختیار کر کے ، عبادتیں بجا لا کر ، گنا ہو ں سے باز رَہ کر گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کر کے اوراُنہیں علم و ادَب سکھا کر (اپنی جانوں اوراپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ)
تمام رِشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے ۔حضرتِ سیِّدُنا عاصِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی اور رِزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ تَعَالٰی سے ڈرتا رہے اور رِشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔‘‘
(اَلْمُستَدرَک ج۵ ص۲۲۲ حدیث۷۳۶۲)
مصطَفیٰ جانِ رحمت ،شمعِ بزمِ ہدایت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘( بُخاری ج۴ ص۹۷ حدیث۵۹۸۴)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِداریمکتبۃُ الْمدینہ کی مطبوعہ 312 صفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت حصہ(16)‘‘ صَفْحَہ201تا203پر ہے:صِلَۂ رِحمکے معنیٰ رِشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا۔ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہصِلَۂ رِحم واجب ہے اور قطع رحم(یعنی رشتہ توڑنا) حرام ہے۔
جن رشتے والوں کے ساتھ صلہ (رِحم) واجب ہے وہ کون ہیں ؟ بعض علما نے فرمایا: وہ ذُو رِحم محرم ہیں اور بعض نے فرمایا: اس سے مراد ذو رحم ہیں ،محرم ہوں یا نہ ہوں۔ اور ظاہر یہی قول دوم ہے، احادیث میں مطلقاً (یعنی بغیر کسی قید کے)رشتے والوں کے ساتھ صلہ(یعنی سلوک) کرنے کا حکم آتا ہے، قرآنِ مجید میں مطلَقاً (یعنی بلا قید)ذَوِی القربیٰ (یعنی قرابت والے) فرمایا گیا مگر یہ بات ضرور ہے کہ رِشتے میں چونکہ مختلف دَرَجات ہیں (اسی طرح) صِلۂ رِحم (یعنی رشتے داروں سے حسنِ سلوک) کے دَرَجات میں بھی تفاوت(یعنی فرق) ہوتا ہے۔ والدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے، ان کے بعد’’ ذورِحم محرم ‘‘کا،( یعنی وہ رشتے دار جن سے نسبی رشتہ ہونے کی وجہ سے نکاح ہمیشہ کیلئے حرام ہو ) ان کے بعد بقیہ رشتے والوں کا علیٰ قدر ِمراتب۔ (یعنی رشتے میں نزدیکی کی ترتیب کے مطابِق) (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۷۸)
مُفَسِّرشَہِیر، حکیمُ الْاُمَّت، حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان سُوْرَۃُ الْبَقْرَہ کی آیت 83 وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى’’ترجمۂ کنزالایمان:اورماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے۔‘‘کے تحت’’ تفسیر نعیمی‘‘ میں لکھتے ہیں : اور قُرْبٰى بمعنی قرابت ہے یعنی اپنے اہلِ قرابت کے ساتھ احسان کرو ،چونکہ اہلِ قرابت کا رشتہ ماں باپ کے ذرِیعے سے ہوتا ہے اور ان کا اِحسان بھی ماں باپ کے مقابلے میں کم
ہے اِس لیے ان کا حق بھی ماں باپ کے بعد ہے، اس جگہ بھی چند ہدایتیں ہیں :پہلی ہدایت: ذِی الْقُرْبٰى وہ لوگ ہیں جن کا رشتہ بذریعے ماں باپ کے ہو جسے ’’ذِی رِحم ‘‘بھی کہتے ہیں ، یہ تین طرح کے ہیں : ایک باپ کے قرابت دار جیسے دادا، دادی ، چچا، پھوپھی وغیرہ ،دوسرے ماں کے جیسے نانا، نانی، ماموں ، خالہ، اخیافی(یعنی جن کا باپ الگ الگ ہو اورماں ایک ہو ایسے بھائی اور بہن کا) بھائی وغیرہ ، تیسرے دونوں کے قرابت دار جیسے حقیقی بھائی بہن۔ ان میں سے جس کا رشتہ قوی ہوگااس کا حق مقدم ۔دوسری ہدایت: اہلِ قَرابت دو قسم کے ہیں ایک وہ جن سے نکاح حرام ہے،انہیں ذِی رِحم محرم(یعنی ایسا قریبی رشتے دار کہ اگر ان میں سے جس کسی کو بھی مرد اور دوسرے کو عورت فرض کیا جائے تو نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو جیسے باپ ، ماں ، بیٹا ،بیٹی، بھائی ،بہن، چچا ،پھوپھی ،ماموں ،خالہ، بھانجا ،بھانجی وغیرہ) کہتے ہیں ، جیسے چچا، پھوپھی، ماموں ، خالہ وغیرہ ۔ضرورت کے وقت ان کی خدمت کرنا فرض ہے نہ کرنے والا گنہگار ہوگا۔ دوسرے وہ جن سے نکاح حلال جیسے خالہ ،ماموں ، چچا کی اولاد ان کے ساتھ احسان و سلوک کرناسنتِ مؤکدہ ہے اوربہت ثواب لیکن ہرقرابت دار بلکہ سارے مسلمانوں سے اچھے اَخلاق کے ساتھ پیش آنا ضروری اور ان کو ایذاء پہنچانی حرام۔ ( تفسیر عزیزی ) تیسری ہدایت : سسرالی دُور کے رشتے دار ذِی رِحم نہیں ، ہاں ان میں سے بعض محرم ہیں جیسے ساس اور دودھ کی ماں ، بعض محرم بھی نہیں ، ان کے بھی حقوق ہیں یہاں تک کہ پڑوسی کے بھی حق ہیں مگر یہ لوگ اس آیت میں داخل نہیں کیونکہ یہاں رِحمی اور رشتے والے مراد ہیں۔
(تفسیر نعیمی ج۱ص ۴۴۷)
اگر یہ شخص پردیس میں ہے تو رشتے والوں کے پاس خط بھیجا کرے، ان سے خط و کتابت جاری رکھے تاکہ بے تعلقی پیدا نہ ہونے پائے اور ہوسکے تو وطن آئے اور رشتے داروں سے تعلقات تازہ کرلے، اِس طرح کرنے سے مَحَبَّت میں اِضافہ ہوگا۔ (رَدُّالْمُحتارج۹ ص ۶۷۸) فی زمانہ رابطہ نہایت آسان ہے، خط پہنچنے میں کافی دیر لگتی ، ہوسکے تو فون اورای میل کے ذَرِیعے بھی رابِطہ رکھا جا سکتا ہے کہ یہ بھی اِزدِیادحب( یعنی محبت بڑھانے ) کے ذرائع ہیں ۔
جب اپنا کوئی رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے تو اس کی حاجت روائی کرے، اس کو رَد کر دینا قطع رِحم(یعنی رشتہ کاٹنا) ہے۔(دُرَر، ص۳۲۳)یاد رہے! قطع رحمیعنی رشتہ کاٹنا حرام ہے ۔
صِلَہ ٔرِحمی(رشتے داروں کے ساتھ اچھا سُلوک ) اِسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو، یہ چیز تو حقیقت میں مکافاۃ یعنی اَدلا بدلا کرنا ہے کہ اُس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے اُس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آیا تم اُس کے پاس چلے گئے۔ حقیقتاً صِلَۂ رِحم (یعنی کامِل دَرَجے کا رشتے داروں سے حسنِ سلوک)یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو، وہ تم سے جدا ہونا چاہتا ہے، بے اِعتنائی (بے۔اِع ۔ تے۔ نائی ۔ یعنی لاپرواہی) کرتا ہے اور تم اُس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی مراعات (یعنی لحاظ ورعایت) کرو۔(رَدُّالْمُحتارج۹ص۶۷۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!میری آپ سے مَدَنی اِلتجا ہے کہ اگر آپ کی کسی رِشتے دار سے ناراضی ہے تو اگرچہ رِشتے دارہی کاقصور ہوصلح کیلئے خود پہل کیجئے اورخود آگے بڑھ کر خندہ پیشانی کے ساتھ اُس سے مل کر تعلُّقات سنوار لیجئے۔ہاں اگر کوئی شَرعی مصلحت مانع(یعنی رُکاوٹ) ہے تو بے شک صلح نہ کی جائے۔ عاشقان رسول کے مَدَنی قافلوں میں سنتوں کی تربیت کے لیے سنتوں بھرا سفر اورروزانہ’’ فکرِ مدینہ‘‘ کے ذَرِیعے مَدَنی اِنعامات کارِسالہ پر کر کے ہر مَدَنی ماہ کے پہلے دن اپنے یہاں کے ذِمے دار کو جمع کروانے کی برکت سے اِنْ شَآءَاللہ تعالیٰ بطفیلِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ احترام مسلم کا آپ کے اندر وہ دَرد پیدا ہوگا کہ تمام روٹھے ہوئے رشتے داروں سے نہ صرف صلح ہوجائے گی بلکہ وہاِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے بھی وابستہ ہوجائیں گے۔ ؎
سب شکر رنجیاں دور ہوں گی میاں
قافِلے میں چلیں قافلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جس بچے یا بچی کا باپ فوت ہوجائے اُس کو یتیم کہتے ہیں۔ جب بچہ بالغ یا بچی بالغہ ہوگئی تو اب یتیم کے اَحکام ختم ہوئے ۔یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کا بھی بڑا ثواب ہے۔
چنانچہ رسولِ کریم ، ر ء وفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظیم ہے: ’’جو شخص یتیم کے سر پرمحض اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے ہاتھ پھیرے تو جتنے بالوں پر اُس کا ہاتھ گزرا ہر بال کے مقابل میں اُس کیلئے نیکیاں ہیں اور جو شخص یتیم لڑکی یا یتیم لڑکے پر اِحسان کرے میں اور وہ جنت میں (دوانگلیوں کو ملا کر فرمایا)اس طرح ہو ں گے۔‘‘(مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۸ ص۲۷۲ حدیث۲۲۲۱۵)
یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرنے اور مسکین کو کھانا کھلانے سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی۔ نبیِّ رحمت،شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو اور مسکین کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ (ایضاًج۳ص۳۳۵حدیث۹۰۲۸)
بے چین دلوں کے چین،رحمتِ دارین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’لڑکا یتیم ہو تو اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے میں آگے کی طرف لے آئے اور بچّے کا باپ ہو تو ہاتھ پھیرنے میں گردن کی طرف لے جائے۔‘‘ (مُعْجَم اَ وْسَط ج۱ ص۳۵۱ حدیث۱۲۷۹)
مرد کو چاہئے کہ اپنی زَوجہ کے ساتھ حسن سلوک کرے ۔اور اُس کو حکمتِ عملی کے ساتھ چلائے۔ چنانچِہ میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ حکمت نشان ہے: ’’بیشک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے تمہارے لئے کسی طرح سیدھی نہیں ہوسکتی اگر تم اس سے نفع چاہتے ہوتو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی نفع حاصِل کرسکتے ہو اور اگر اس کو سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے
اور اس کا توڑنا طلاق دینا ہے۔‘‘ ( مُسلِم ص۷۷۵ حدیث۱۴۶۸)
معلوم ہوا کچھ نہ کچھ خلافِ مزاج حرکتیں اس سے سرزد ہوتی ہی رہیں گی۔مرد کو چاہئے کہ صبر کرتا رہے ۔ نبیوں کے سروَر،حسنِ اَخلاق کے پیکر ،محبوب رب اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ روح پرور ہے:’’کامل ایمان والوں میں سے وہ بھی ہے جو عمدہ اَخلاق والا اور اپنی زَوجہ کے ساتھ سب سے زیادہ نَرم طبیعت ہو۔‘‘ (ترمِذی ج۴ص۲۷۸ حدیث۲۶۲۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حدیثِ پاک میں اُن لوگوں کے لئے دعوتِ فکر ہے جو بات بات پر اپنی زَوجہ کو جھاڑتے بلکہ مارتے ہیں۔ ایک صنف نازُک پر قوت کا مظاہرہ کرنا اور خوامخواہ رعب جھاڑنا مردانگی نہیں۔اگرچہ عورت کی بھول ہو تب بھی درگزرسے کام لینا چاہئے کہ جب عورت سے کثیرمنافع بھی حاصل ہوتے ہیں تو اُس کی نادانیوں پر صبربھی کرنا چاہئے ۔نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے:’’مؤمن مرد مومنہ عورت سے دشمنی نہیں رکھ سکتا۔اگر اس کی ایک خصلت بری لگے گی تو دوسری پسند آجائے گی۔‘‘( مُسلِم ص۷۷۵ حدیث۱۴۶۹)
کہتے ہیں :ایک آدَمی کی بیوی نے کھانے میں نمک زیادہ ڈال د یا۔ اسے غصّہ تو بَہُت آیا
مگر یہ سوچتے ہوئے وہ غصے کو پی گیا کہ میں بھی تو خطائیں کرتا رَہتا ہوں اگر آج میں نے بیوی کی خطا پر سختی سے گرفت کی تو کہیں ایسا نہ ہوکہ کل بروزِقیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی میری خطاؤں پر گرفت فرمالے ۔چنانچہ اُس نے دل ہی دل میں اپنی زَوجہ کی خطا معاف کردی۔ اِنتقال کے بعد اس کوکسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ اُس نے جواب دیا کہ گناہوں کی کثرت کے سبب عذاب ہونے ہی والاتھا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا: میری بندی نے سالن میں نمک زیادہ ڈال دیا تھا اور تم نے اُس کی خطا معاف کردی تھی ،جاؤ میں بھی اُس کے صلے میں تم کوآج معاف کرتا ہوں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقان رسول کے مدنی قافلے میں سفرکی سعادت اور ہر ماہ مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پر کر کے جمع کروانے کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بطفیل مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گھریلو شکر رَنجیاں دُور ہوں گی اور آپ کا گھر خوشیوں کا گہوارہ بنے گا اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کے خاندان کو مدینۂِ منوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا نظارہ نصیب ہوگا۔ ؎
سویا ہوا نصیب جگا دِیجئے حضور میٹھا مدینہ مجھ کو دکھا دیجئے حضور
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بیوی کو بھی چاہئے کہ اپنے شوہر کیساتھ نیک سلوک کرے۔ چنانچہ میٹھے میٹھے آقا،
مدینے والے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ خوشبودار ہے:’’قسم ہے اُس کی جس کے قبضۂِ قدرت میں میری جان ہے، اگر قدم سے سر تک شوہر کے تمام جسم میں زخم ہوں جن سے پیپ اور کچ لہو(یعنی پیپ ملا خون) بہتا ہو پھر عورت اُسے چاٹے تب بھی حق شوہر ادا نہ کیا۔‘‘(مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۴ ص۳۱۸ حدیث۱۲۶۱۴)
با ت بات پر رُوٹھ کر میکے چلی جانے والی عورَت اِس حدیثِ پاک کو بار بار اپنے کا نوں پر دوہرائے اور دل کی گہرائیوں میں اُتارے ،سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے:اور (بیوی )بغیر اجازت اُس (یعنی شوہر ) کے گھر سے نہ جائے اگر(بلاضرورت ) ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے یاواپس لوٹ نہ آئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور فرشتے اُس پر لعنت کرتے ہیں۔(کَنْزُ الْعُمّال ج۱۶ ص۱۴۴ حدیث ۴۴۸۰۱ مُلَخَّصاً )
بعض خواتین اپنے شوہروں کی سخت نافرمانیاں اور نا شکریاں کرتی ہیں اور ذرا کوئی بات بری لگ جائے تو پچھلے تمام اِحسانات بھلا کر کوسنا شروع کردیتی ہیں۔ جو اسلامی بہنیں بات بات پر لعنت ملامت کرتی اور پھٹکار برساتی رہتی ہیں ان کو ڈرجانا چاہئے کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک بار عید کے روز عید گاہ تشریف لے جاتے ہوئے خواتین کی طرف گزرے تو فرمایا:’’اے عَورَتو! صدقہ کیا کرو کیونکہ میں نے اکثر تم کو جہنَّمی
دیکھا ہے۔‘‘ خواتین نے عرض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اس کی وجہ ؟ فرمایا: ’’اس لئے کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اوراپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ ‘‘ ( بُخاری ج۱ ص۱۲۳ حدیث۳۰۴)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور بلا مصلحت شرعی ان کے احترام میں کمی نہ کرے۔ ایک شخص نے حضور سراپائے نور،فیض گنجور،شاہِ غیور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ باعظمت میں عرض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! مجھے یہ کیوں کر معلوم ہو کہ میں نے اچھا کیا یا برا ؟ فرمایا: ’’جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا، تو بیشک تم نے اچھا کیا اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا ،تو بے شک تم نے برا کیاہے۔ ‘‘( اِبن ماجہ ج۴ ص۴۷۹ حدیث۴۲۲۳)
اللہُ اکبر!پڑوسیوں کی اس قدر اَہَمِّیَّت کہ’’ کیریکٹر سر ٹیفکیٹ‘‘ ان کے ذَرِیعے ملے ۔ افسوس !پھر بھی آج پڑوسیوں کو کوئی خاطِر میں نہیں لاتا۔ عاشقان رسول کے مَدَنی قافِلے میں سفرکی سعادت اور ہر مَدَنی ماہمَدَنی اِنعامات کا رسالہ پر کر کے جمع کروانے کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بطفیل مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پڑوسیوں کی اَہَمِّیَّت دل میں پیدا ہوگی اور ان کے احترا م کا ذِہن بنے گا اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کا
محلہ باغِ مدینہ بن جائے گا۔ ؎
بہار آئے محلے میں مرے بھی یَا رَسُولَ اللہ
اِدھر بھی تو جھڑی برسے کوئی رحمت کے بادل سے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سفر میں جو امیر قافلہ ہو اُس کواپنے رُفقا کا اِحترام اور ان کی بہت زیا د ہ خدمت کرنی چاہئے۔ چنانچِہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’سفر میں وُہی امیر ہے جو اُن کی خدمت کرے، جو شخص خدمت میں بڑھ گیا تواُس کے رُفقا کسی عمل میں اُس سے نہیں بڑھ سکتے ہاں اگر ان میں سے کوئی شہید ہوجائے تو وُہی بڑھ جا ئے گا۔‘‘(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۳۳۴ حدیث۸۴۰۷)
ایک موقع پر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سفر میں ارشاد فرمایا: ’’جس کے پاس زائد سُواری ہو وہ بے سُواری والے کوعطا کردے اور جس کے پاس بچی ہوئی خُوراک ہو وہ بغیرخوراک والے کوکھلا دے‘‘ اور اِسی طرح دوسری چیزوں کے متعلق ارشاد فرمایا۔ حضرتِ سَیِّدُناابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِسی طرح مال کی مختلف اَقسام ذِکر فرمائیں حتّٰی کہ ہم نے محسوس کیاکہ بچی ہوئی چیز میں سے کسی کو اپنے پاس رکھ لینے کا حق ہی نہیں ہے۔
(مُسلِم ص۹۵۲ حدیث۱۷۲۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک امیرقافلہ ہی نہیں ،ہرایک کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ضروری ہے جیسا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب ،دانائے غُیُوب،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ ہِدایت نشان ہے:’’تم میں سے ہرایک نگران ہے اور نگرانی کے متعلق سب سے پوچھ گچھ ہوگی بادشاہ نگران ہے ،اُس کی رَعایاکے بارے میں اُس سے سُوال ہوگااور مرد اپنے گھر کا نگران ہے اور اس کی رَعایا کے بارے میں اُس سے سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران ہے اوراس کی رَعایا کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔‘‘ ( بُخاری ج۲ ص۱۱۲ حدیث۲۴۰۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عاشقانِ رسول کے مَدَنی قافلے میں مسلسل سفر کی سعادت اور مَدَنی انعامات کا رسالہ پر کر کے ہر ما ہ جمع کروانے کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بطفیل مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے ماتحتوں کے احترام کا وہ جذبہ نصیب ہوگاکہ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر فرد خوش ہوکر آپ کو’’ دعائے مدینہ‘‘ سے نوازا کر ے گا۔ ؎
میں دنیا کی دولت کا منگتا نہیں ہوں
مجھے بھائیو! دو دعائے مدینہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دَورانِ سفر کسی ایک پر سارا بوجھ ڈالدینے کے بجائے کاموں کی آپس میں تقسیم ہونی چاہئے ۔چنانچِہ ایک مرتبہ کسی سفر میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے بکری ذبح کرنے کا ارادہ کیا اورکام تقسیم کرلیا،کسی نے اپنے ذِمے ذبح کا کام لیا تو کسی نے کھال اُدَھیڑنے کا نیز کوئی پکانے کا ذِمے دار ہوگیا ،سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمے ہے۔صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان عرض گزار ہوئے: آقا!یہ بھی ہم ہی کرلیں گے ۔ فرمایا:’’یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ تم یہ کام (بخوشی) کر لو گے مگر مجھے یہ پسند نہیں کہ تم لوگوں میں نمایاں رہوں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی اِس کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
(خلاصۃ سیر سید البشر لمحب الدین الطبری ص۷۵ ملخّصاً)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ٹرین یا بس وغیرہ میں اگرنشستیں کم ہوں تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بعض بیٹھے ہی رہیں اور بعض کھڑے کھڑے ہی سفر کریں ۔ہونا یہ چاہئے کہ موقع محل کی مناسبت سے سارے باری باری بیٹھیں اودوسروں کیلئے اپنی نشست ایثار کرکے ثواب کمائیں اور سیٹ ایثار کرکے اس صورت میں بھی ثواب کمایا جاسکتاہے جبکہ سیٹ کی بکنگ کروارکھی ہو کہ بکنگ کروانے سے ایثار کرنا کوئی منع نہیں ہوجاتا۔حضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ
فرماتے ہیں کہ غزوۂ بدر میں فی اونٹ تین افراد تھے۔ چنانچِہ حضرتِ ابولبابہ اور حضرتِ علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سواری میں شریک تھے۔دونوں حضرات کا بیان ہے کہ جب سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیدل چلنے کی باری آتی تو ہم دونوں عرض کرتے کہ سرکار! آپ سوارہی رہئے ،حضور کے بدلے ہم پیدل چلیں گے۔ ارشاد ہوتا :’’تم مجھ سے زِیادہ طاقتور نہیں ہو اور میں بہ نسبت تمہارے ثواب سے بے نیاز نہیں ہوں۔‘‘ (یعنی مجھ کو بھی ثواب چاہئے پھر میں کیوں پیدل نہ چلوں !) (شرحُ السّنۃ ج۵ ص۵۶۶حدیث۲۶۸۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقانِ رسول کے مَدَنی قافلے میں مسلسل سفرکی سعادت اور مَدَنی انعامات کا رسالہ پر کرکے ہرمَدَنی ماہ جمع کروانے کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بطفیل مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی نشست دوسروں کو پیش کرنے کیلئے ایثار کا جذبہ پیدا ہوگااور اس کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سفر حج و دیدارِ مدینہ بھی نصیب ہوگااور اِثنائے سفر بھی مد ینے کے مسافروں کیلئے منٰی شریف ، مزدلفہ شریف، عرفات شریف اور مکّۂ مکرَّمہ و مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں دیوانگی کے ساتھ نشستیں پیش کرتے رہنے کی سعادتیں ملتی رہیں گی۔ ؎
یارب! سوئے مدینہ مستانہ بن کے جاؤں
اُس شمع دو جہاں کا پروانہ بن کے جاؤں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اجتماعات وغیرہ میں جہاں لوگ زیادہ ہوں وہاں اپنی سہولت کیلئے زیادہ جگہ گھیر کر دوسروں کیلئے تنگی کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ چنانچِہ حضرت سیِّدُنا سہل بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا بیان ہے ،میرے والد گرامی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ہم پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہاد میں گئے تو لوگوں نے منزلیں تنگ کردیں (یعنی ضرورت سے زیادہ جگہ گھیر لی)اور راستہ روک لیا۔اِس پر رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک آدَمی کو بھیجا کہ وہ یہ اعلان کرے،’’بیشک جو منزلیں تنگ کرے یا راستہ روکے تو اُس کا کچھ جہاد نہیں۔‘‘(ابوداوٗد ج۳ ص۵۸ حدیث۲۶۲۹)
جو لوگ پہلے سے بیٹھے ہوں اُن کے لئے سنت یہ ہے کہ جب کوئی آئے تو اس کیلئے سرکیں ۔ حضرتِ سیِّدُنا واثلہ بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے کہ ایک شخص تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضرہوا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ رَحمتِ دو عالم ،نورِ مجسم، شاہِ بنی آدم،رسولِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُس کیلئے اپنی جگہ سے سرک گئے۔اُس نے عرض کی: یَا رَسُولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جگہ کشادہ موجود ہے،(آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سرکنے کی تکلیف کیوں فرمائی! )
فرمایا:’’مسلمان کا حق یہ ہے کہ جب اُس کا بھائی اُسے دیکھے اُس کیلئے سرک جائے۔‘‘
(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۴۶۸ حدیث۸۹۳۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عاشقانِ رسول کے مَدَنی قافلے میں مسلسل سفرکی سعادت اور ہر مَدَنی ماہ مَدَنی انعامات کا رسالہ پر کر کے جمع کروانے کی بَرَکت سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بطفیل مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھوڑی سی جگہ میں برکت ہوگی دوسروں کیلئے سرکنے کی سنت پر عمل کا ذِہن بنے گااور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جنَّتُ الْبَقِیع میں کُشادَہ ترین جگہ نصیب ہوگی۔ ؎
زاہدینِ دُنیا بھی رَشک کرتے عاصی پر
میں بقیعِ غرقد میں دَفن ہو اگر جاتا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم، رَحمتِ عالم، نورِ مجسم،شاہِ بنی آدم،نبیِّ مُحتَشم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم تین ہو تو دوشخص تیسرے کو چھوڑ کر چپکے چپکے باتیں نہ کریں جب تک مجلس میں بہت سے لوگ نہ آ جائیں ، یہ اِس وجہ سے کہ اس تیسرے کو رنج پہنچے گا۔‘‘ (بُخاری ج۴ ص۱۸۵ حدیث ۶۲۹۰ ) (کہ شاید میرے متعلق کچھ کہہ رہے ہیں یا یہ کہ مجھے اِس لائق نہ سمجھا جواپنی گفتگو میں شریک کرتے وغیرہ )
جو لوگ جمعہ کو پہلے سے اگلی صفوں میں بیٹھ چکے ہوں ، دیر سے آنے والے کو اُن کی گردنوں کو پھلانگتے ہوئے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں۔چنانچِہ سرکارِ مدینۂ منوّرہ، سردارِ مکّۂ مکرمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :’’ جس نیجُمُعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اُس نے جہنَّم کی طرف پل بنایا۔‘‘ (تِرمِذی ج۲ص۴۸حدیث۵۱۳) اس کے ایک معنیٰ یہ ہیں کہ اس پر چڑھ چڑھ کر لوگ جہنَّم میں داخِل ہو ں گے۔ (حاشیۂ بہارِ شریعت ج۱ص۷۶۱،۷۶۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نمازِ جمعہ کیلئے جلدمسجد میں حاضر ہوجانا چاہئے، اگر دیر ہو گئی ،خطبہ شروع ہو گیا تو مسجد میں جہاں پہنچا تھا وہیں رُک جائے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :بحالتِ خطبہ چلنا حرام ہے۔ یہاں تک علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ اگر ایسے وقت آیا کہ خطبہ شروع ہو گیا تو مسجد میں جہاں تک پہنچا وَہیں رُک جائے ، آگے نہ بڑھے کہ یہ عمل ہو گا اور حالِ خطبہ میں کوئی عمل رَوا( یعنی جائز ) نہیں۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۳۳۳)مزیدفرماتے ہیں :خطبے میں کسی طرف گردن پھیر کر دیکھنا ( بھی) حرام ہے۔ (اَیضاًص۳۳۴)
اگر دوآدمی پہلے سے بیٹھے ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر ان کے درمیان جاگھسنا سخت بداَخلاقی اور احترام مسلم کی سراسر خلاف ورزی ہے۔چنانچہ شہنشاہِ مدینہ ،راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’کسی شخص کیلئے یہ حلال نہیں کہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر جدائی کردے۔‘‘ ۱؎( یعنی ان کی اجازت کے بغیر ان کے درمیان بیٹھ جانا حلال نہیں ) حضرتِ سَیِّدُنا حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی رِوایت کے مطابق جوحلقے کے بیچ جابیٹھے ایسا آدمی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زَبانی ملعون ہے۔([3]) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ بھی فرمان ہے کہ ایک شخص دوسرے کو اُس کی جگہ سے اُٹھاکر خود نہ بیٹھ جائے مگر بیٹھنے والے کشادگی کردیا کریں۔( مُسلِم ص۱۱۹۹ حدیث۲۱۷۷)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:جوشخص اپنی مجلس سے اُٹھے اور پھر واپس آجائے تو اپنی جگہ کا وہی زِیادہ حقدار ہے۔( ایضاً حدیث۲۱۷۹)
میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : کوئی شخص مسجد میں آیا ایک جگہ بیٹھا پھر وُضو کیلئے گیا اور اپنا کپڑا وہاں چھوڑ کر گیا،
دوسرا شخص اُس کپڑے کو اُٹھا کر وہاں نہ بیٹھے کہ بیٹھنے والے کا قبضہ سابق (یعنی پہلے سے) ہو گیا ہے۔(مگر یہ قبضہ تھوڑی دیر کیلئے ہے جیسا کہ آگے چل کراعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :) ایسا قبضہ تھوڑی دیر کیلئے مسلم(یعنی مانا جاتا )ہے جیسا (کہ) کپڑا رکھ کر وضو کو جانے میں ، نہ یہ کہ مسجد میں اپنی کوئی چیز رکھ دیجئے اور وہ جگہ ہمیشہ آپ کیلئے مخصوص ہو جائے کہ جب آیئے دوسروں پرتَقدیم(یعنی فوقیت) پایئے،یہ ہرگز نہ جائز نہ مقبول۔(فتاوٰی رضویہ ج۱۶ص۱۴۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عاشقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی قافِلوں میں مسلسل سنتوں بھرے سفرکی سعادت اورہر مَدَنی ماہ کے پہلے دن مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پرکر کے جمع کروانے کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بطفیل مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجلس کے آداب ، دوسروں کی حق تلفیوں اور دِل آزاریوں سے اِجتناب اور احترام مسلم بجالانے کا ذِہن بنے گا اور اِس مَدَنی تربیت کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ حج و زیارتِ مدینہ کا شرف حاصِل ہوگا اور وہاں بھی اِن سنّتوں پر عمل نصیب ہو گا۔ ؎
تیرے دیوانے سب، آئیں سوئے عَرَب
دیکھیں سارے حرم، تاجدارِ حرم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!احترامِ مسلم کا تقاضَا یہ ہے کہ ہر حال میں ہر مسلمان
کے تمام حقوق کا لحاظ رکھا جائے اور بلا اجازتِ شرعی کسی بھی مسلمان کی دل شکنی نہ کی جائے ۔ ہمارے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی بھی کسی مسلمان کا دل نہ دکھایا،نہ کسی پر طنز کیا،نہ کسی کا مذاق اڑایا نہ کسی کو دُھتکارا نہ کبھی کسی کی بے عزتی کی بلکہ ہر ایک کو سینے سے لگایا ،بلکہ ؎
لگاتے ہیں اُس کو بھی سینے سے آقا
جو ہوتا نہیں منہ لگانے کے قابل
احترام مسلمبجالانے کیلئے ہمیں اپنے پیارے پیارے آقا، مد ینے والے مصطَفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اُسوئہ حسنہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کی پیروی کرنی ہوگی ۔ پارہ21 سُوْرَۃُ الْاَحْزَابآیت نمبر 21 میں ارشاد ہوتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
ترجَمۂ کنزالایمان: بے شک تمہیں رسولُ اللہ کی پیروی بہتر ہے۔
میٹھے میٹھے آقا،مکّے مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یقیناتمام مخلوقات میں سب سے زیادہ مکرم ، معظم اورمحترم ہیں اور ہر حال میں آپ کا احترام کرنا ہم پر فرض اعظم ہے ۔اب آپ حضرات کی خدمت میں سیِّدُ المُرسَلِین،جنابِ رحمۃٌ لِّلْعٰلمِین
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَخلاقِ حسنہ کی چند جھلکیاں پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو بالخصوص احترام مسلمکیلئے ہماری رہنما ہیں۔
٭سلطانِ دو جہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر وقت اپنی زبان کی حفاظت فرماتے اور صرف کام ہی کی بات کرتی٭آنے والوں کو مَحبت دیتے، ایسی کوئی بات یاکام نہ کرتے جس سے نفرت پیدا ہو٭قوم کے معزز فرد کالحاظ فرماتے اور اُس کو قوم کا سردار مقرر فرما دیتے ٭ لوگوں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے خوف کی تلقین فرماتی٭صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی خبر گیری فرماتے ٭لوگوں کی اچھی باتوں کی اچھائی بیان کرتے اور ا س کی تقویت فرماتے،بری چیز کو بری بتاتے اور اُس پر عمل سے روکتے ٭ ہر معاملے میں اِعتدال (یعنی میانہ روی)سے کام لیتے ٭لوگوں کی اِصلاح سے کبھی بھی غفلت نہ فرماتے ٭ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اٹھتے بیٹھتے (یعنی ہر وقت )ذِکْرُاللہ کرتے رہتے ٭ جب کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ مل جاتی وَہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کوبھی اسی کی تلقین فرماتے ٭ اپنے پاس بیٹھنے والے کے حقوق کا لحاظ رکھتے ٭آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر رہنے والے ہر فرد کو یہی محسوس ہوتا کہ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے سب سے زِیادہ چاہتے ہیں ٭ خد متِ بابرکت میں حاضر ہوکر گفتگو کرنے والے کے ساتھ اُس وَقت تک تشریف فرما رہتے جب تک وہ خود نہ چلا جائے ٭جب کسی سے مصافحہ فرماتے(یعنی ہاتھ ملاتے)تواپناہاتھ کھینچنے میں پہل نہ فرماتے ٭ سائل (یعنی مانگنے والے) کو عطا فرماتے ٭آ پ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
سخاوت وخوش خُلقی ہر ایک کے لئے عام تھی٭آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس علم ، بردباری،حیا،صبر اور اَمانت کی مجلس تھی٭ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں شوروغل ہوتا نہ کسی کی تذلیل(یعنی بے عزتی) ٭آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں اگر کسی سے کوئی بھول ہوجاتی تو اُس کوشہرت نہ دی جاتی([4]) ٭جب کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل توجہ فرماتے([5]) ٭ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی کے چہرے پر نظریں نہ گاڑتے تھے([6]) ٭آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے([7]) ٭ سلام میں پہل فرماتے ([8]) ٭بچوں کو بھی سلام کرتے ٭ جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پکارتا، جواب میں ’’ لَبَّیک‘‘(یعنی میں حاضرہوں ) فرماتے ([9]) ٭اہل مجلس کی طرف پاؤں نہ پھیلاتے ٭اکثر قبلہ رو بیٹھتے ٭اپنی ذات کیلئے کبھی کسی سے بدلہ نہ لیتے ٭ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے معاف فرما دیا کرتے ([10])٭راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کے سوا کبھی کسی کو اپنے مبارَک ہاتھ سے نہ مارا، نہ کسی غلام کو نہ ہی کسی عورت(یعنی زَوجہ وغیرہ) کومارا ([11]) ٭ گفتگو میں نرمی ہوتی، ([12]) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اللہ تَعَالٰیکے نزدیک بروزِ قیامت لوگوں میں سب سے براوہ ہے جس کو اُس کی بدکلامی کی وجہ سے لوگ چھوڑدیں ‘‘([13]) ٭آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بات کرتے تو (اِس قدر ٹھہراؤ ہوتا کہ) لفظوں کو گننے والا گن سکتا تھا ([14])٭ طبیعت میں
نرمی تھی اور ہشاش بشاش رہتے ٭ نہ چلاتے ٭ سخت گفتگو نہ فرماتے ٭ کسی کو عیب نہ لگاتے ٭ بخل نہ فرماتے ٭ اپنی ذاتِ والا کو بالخصوص تین چیزوں ، جھگڑ ے ، تکبر اور بے کار باتوں سے بچا کر رکھتی٭کسی کا عیب تلاش نہ کر تے ٭صرف وہی بات کرتے جو(آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حق میں)باعث ثواب ہو ٭مسافریا اجنبی آدَمی کے سخت کلامی بھرے سوال پربھی صبر فرما تی٭کسی کی بات کو نہ کاٹتے البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز کرنے لگتا تواُس کو منع فرماتے یا وَہاں سے اُٹھ جاتے ([15])٭ سادَگی کا عالم یہ تھا کہ بیٹھنے کیلئے کوئی مخصوص جگہ بھی نہ رکھی تھی([16])٭کبھی چٹائی پر توکبھی یوں ہی زمین پربھی آرام فرما لیتے ([17])٭کبھی قہقہہ (یعنی اتنی آواز سے ہنسنا کہ دوسرے لوگ ہوں تو سُن لیں )نہ لگاتے ([18])؎٭صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان فرماتے ہیں : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے(یعنی موقع کی مناسبت سے ) ([19])حضرت عبدُاللہ بن حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زیادہ مسکرانے والاکوئی نہیں دیکھا۔ ([20])
یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
اُن تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں۔ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت شمع بزم ہدایت ،نوشۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔(اِبنِ عَساکِر ج۹ص۳۴۳)
سینہ تری سنّت کا مدینہ بنے آقا
جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭فرمانِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ : وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ- ([21])
ترجَمۂ کنز الایمان:’’ اوراللہ سے ڈرو، جس کے نام پر مانگتے ہو اور رِشتوں کا لحاظ رکھو ۔‘‘ اس آیت ِ مبارَکہ کے تحت’’ تفسیرمظہری ‘‘میں ہے: یعنی تم قطع رِحم( یعنی رشتے داروں سے تعلق توڑنے) سے بچو ([22])؎ ٭ 7فرامِینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم {۱}جو اللہعَزَّوَجَلَّ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ صلہ ٔرِحمی کرے ([23]){۲} قیامت کے دن اللہعَزَّوَجَلَّ کے عرش کے سائے میں تین قسم
کے لوگ ہوں گے ، (ان میں سے ایک ہے) صلۂ رِحمی کرنے والا([24]){۳} رِشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا ([25]){۴} لوگوں میں سے وہ شخص سب سے اچھا ہے جو کثرت سے قراٰنِ کریم کی تِلاوت کرے ، زیادہ متقی ہو،سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے والا ہو اور سب سے زیادہ صلۂ رِحمی (یعنی رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ) کرنے والا ہو([26]){۵}بے شک افضل ترین صَدقہ وہ ہے جو دشمنی چھپانے والے رشتے دار پر کیا جائے ([27]){۶} جس قوم میں قاطِعِ رِحم(یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو، اُس قوم پراللہکی رَحمت کا نزول نہیں ہوتا ([28]){۷}جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیے(جنّت میں ) محل بنایا جائے اوراُس کے دَرَجات بلند کیے جائیں ، اُسے چاہیے کہ جو اِس پرظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اورجو اِسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اِس سے قطع تعلق کرے یہ اُس سے ناطہ(یعنی تعلق) جوڑے (اَلْمُستَدرَک ج۳ ص۱۲حدیث ۳۲۱۵)٭حضرتِ سیِّدُنا فقیہابواللیث سمرقندی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں ، صلۂ رحمی کرنے کے 10 فائدے ہیں : اللہعَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصل ہوتی ہے ، لوگوں کی خوشی کا سبب ہے، فرشتوں کو مسرت ہو تی ہے ،مسلمانوں کی طرف سے اس شخص کی تعریف ہوتی ہے، شیطان کو اس سے رَنج پہنچتا ہے،عمربڑھتی ہے،رِزق میں برکت ہو تی ہے، فوت ہوجانے والے آباء و اجداد(یعنی مسلمان باپ دادا) خوش ہوتے ہیں ، آپس میں مَحَبَّتبڑھتی ہے،وفات کے بعداس کے ثواب میں اِضافہ ہو جا تا ہے،کیونکہ لوگ اس
کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں (تَنبیہُ الغافِلین ص۷۳) ٭دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ1196 صفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘ جلد3 صَفْحَہ 558تا560پرہے:صِلَۂ رِحْمکے معنیٰ رِشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا۔ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہصِلَۂ رِحْم ’’ واجِب ‘‘ہے اورقطع رِحم(یعنی رشتہ توڑنا)’’ حرام ‘‘ہے۔جن رشتے والوں کے ساتھ صلۂ(رِحم) واجب ہے وہ کون ہیں ؟ بعض علما نے فرمایا: وہ ذو رِحم محرم ہیں اور بعض نے فرمایا: اس سے مراد ذو رحم ہیں ،محرم ہوں یا نہ ہوں۔ اور ظاہر یہی قولِ دوم ہے، احادیث میں مطلقاً (یعنی بغیر کسی قید کے ) رشتے والوں کے ساتھ صلہ(یعنی سلوک ) کرنے کا حکم آتا ہے، قرآنِ مجید میں مطلقاً (یعنی بلا قید ) ذوِی القربیٰ (یعنی قرابت والے)فرمایا گیا مگر یہ بات ضرور ہے کہ رِشتے میں چونکہ مختلف دَرَجات ہیں (اِسی طرح) صلۂ رحم(یعنی رشتے داروں سے حسن سلوک) کے دَرَجات میں بھی تفاوت(یعنی فرق) ہوتا ہے۔ والدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے، ان کے بعد ذُورحم محرم کا ، ( یعنی وہ رشتے دار جن سے نسبی رشتہ ہونے کی وجہ سے نکاح ہمیشہ کیلئے حرام ہو ) ان کے بعد بقیہ رشتے والوں کا علیٰ قدر ِمراتب۔(یعنی رشتے میں نزدیکی کی ترتیب کے مطابق)(رَدُّالْمُحتار ج۹ ص ۶۷۸)٭صلۂ رِحمی( یعنی رِشتے داروں کے ساتھ سلوک) کی مختلف صورَتیں ہیں ، اِن کو ہدیہ و تحفہ دینا اور اگر ان کو کسی بات میں تمہاری اِعانت (یعنی امداد)درکار ہو تو اِس کا م میں ان کی مدد کرنا، انہیں سلام کرنا،ان کی ملاقات کو جانا، ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا، ان سے بات چیت کرنا،
ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا (دُرَر ج۱ ص۳۲۳ )٭اگر یہ شخص پردیس میں ہے تو رشتے والوں کے پاس خط بھیجا کرے، ان سے خط وکتابت جاری رکھے تاکہ بے تعلقی پیدا نہ ہونے پائے اور ہوسکے تو وطن آئے اور رشتے داروں سے تعلقات تازہ کرلے، اِس طرح کرنے سے مَحَبَّت میں اِضافہ ہوگا۔ (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۷۸)( فون یا انٹرنیٹ کے ذَرِیعے بھی رابطے کی ترکیب مفید ہے)٭ صلہ ٔرحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک ) اِسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو، یہ چیز تو حقیقت میں مکافاۃ یعنی اَدلا بدلا کرنا ہے کہ اُس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے اُس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آیا تم اُس کے پاس چلے گئے۔ حقیقتاً صلۂ رِحم(یعنی کامل دَرَجے کا صلۂ رِحم )یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو، وہ تم سے جدا ہونا چاہتا ہے، بے اِعتنائی (بے۔اِع ۔تے۔ نائی ۔ یعنی لاپرواہی) کرتا ہے اور تم اُس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی مراعات (یعنی لحاظ ورعایت) کرو۔ (ایضاً)
ہزاروں سنتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صفحات پر مشتمل کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ16 اور(۲) 120صفحات کی کتاب’’ سنتیں اور آد ا ب ‘ ‘ ہد یَّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے۔ سنتوں کی تربیت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔
لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو
ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے۔
غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و
بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب
۱۰ صفر المظفر ۱۴۳۶ھ
2014-12-03
[1] ۔۔یہ بیان امیرِ اہلسنّتدَامَت بَرَکَاتُہُم الْعَالِیَہ نے تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے تین روزہ بین الاقوامی اجتماع (۱۱، ۱۲ ، ۱۳ شعبان المعظم ۱۴۲۳ ھ بروز ہفتہ مدینۃ الاولیاء ملتان)میں فرمایا، ترمیم کے ساتھ تحریراًحاضر خدمت ہے ۔ ۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ
[2] ۔۔ یعنی تقریباً چارکلو غَلّہ۔
[3] ۔۔ ابوداوٗد ج۴ ص۳۴۴ حدیث۴۸۴۵ ۲ ؎ تِرمِذی ج۴ ص۳۴۶ حدیث ۲۷۶۲
[4] ۔۔ شمائل ترمذی ص۱۹۲۔۱۹۳ وغیرہ مُلَخَّصاً ۔
[5] ۔۔ شُعَبُ الْاِیمان حدیث۱۴۳۰ ۔
[6] ۔۔ اِحیاء الْعُلوم ج ۲ ص ۴۴۲ ۔
[7] ۔۔ شمائل ترمذی ص۲۰۳۔
[8] ۔۔ شُعَبُ الایمان حدیث۱۴۳۰
[9] ۔۔ وسائل الوصول ص۲۰۷۔
[10] ۔۔ اِحیاء الْعُلوم ج ۲ ص ۴۴۸، ۴۴۹ ۔
[11] ۔۔ شمائل ترمذی ص۱۹۷۔
[12] ۔۔ اِحیاء الْعُلوم ج۲ص۴۵۱۔
[13] ۔۔ مُسلِم ص۱۳۹۸ حدیث ۲۵۹۱۔
[14] ۔۔ بخاری حدیث ۳۵۶۷
[15] ۔۔ شمائل ترمذی ص۱۹۹۔۲۰۰ مُلَخَّصاً۔
[16] ۔۔ اَخلاقُ النّبی وآدابہ ص۱۵۔
[17] ۔۔ وسائل الوصول ص۱۸۹۔
[18] ۔۔ اِحیاءُ الْعُلوم ج۲ص۴۴۶۔
[19] ۔۔ ؎ اِحیاءُ الْعُلوم ج۲ص۴۵۳۔
[20] ۔۔ شمائل ترمذی ص۱۳۶۔
[21] ۔۔ پ۴،اَلنّساء:۱
[22] ۔۔ تفسیرِمظہری ج۲ ص۳ ۔
[23] ۔۔ بخاری ج۴ص۱۳۶ حدیث ۶۱۳۸
[24] ۔۔اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۹۹حدیث۲۵۲۶۔
[25] ۔۔ بُخاری ج۴ ص۹۷ حدیث۵۹۸۴۔
[26] ۔۔ مُسندِ اِمام احمد ج۱۰ ص۴۰۲حدیث۲۷۵۰۴۔
[27] ۔۔ ایضاج۹ص۱۳۸حدیث۲۳۵۸۹ ۔
[28] ۔۔ اَلزَّواجِر ج۲ ص۱۵۳