اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیخِ طریقت،اَمِیرِاہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا ابو بلال محمد اِلیاس عطّارؔقادری رَضَوِی ضِیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رِسَالے اِمامِ حسین کی کرامات میں نقْل فرماتے ہیں:بے چَین دِلوں کے چَین، رَحْمتِ دَارَین، تاجْدَارِ حَرمَین،سَرورِکونَین، نانائے حَسنَین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے: جب جمعرات کا دن آتاہے اللہ تعالٰی فرشتوں کو بھیجتا ہے جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتے ہیں وہ لکھتے ہیں، کون یَومِ جمعرات اور شبِ جُمُعہ مجھ پر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتا ہے۔[1]
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مسلمانوں کے حلیف
قبیلے بنی خُزاعہ کا ایک شخص اپنے اُونٹ پر سوار کہیں جارہا تھا کہ وہ مکہ مکرمہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً سے تھوڑی دُور
شرم و حَیا کی پیکر ایک باپردہ
خاتون کو وِیرانے میں پیدل سفر کرتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسے شک گزرا کہ یقیناً یہ عِفَّت مآب خاتون انہی مسلمانوں میں سے ہو گی جنہیں اَہلِ مکہ نے مدینہ جانے سے روک رکھا ہے۔ تفتیشِ حال پر جب اس خاتون نے بھی اس شخص کے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حلیف قبیلے بنی خُزاعہ کا فَرد ہونے کی وجہ سے یہ تسلیم کر لیا کہ وہ واقعی سُوئے مدینہ رَواں ہے تو اس شخص کے دِل نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اس عاشقہ کو یوں تنہا سفر کرنے دے۔چنانچہ اس نے اپنا سفر مَوقُوف کیا اور اپنا اُونٹ اس باپردہ خاتون کو پیش کر کے مدینہ پہنچانے کا عَزْمِ مُصَمَّم (پختہ ارادہ)کر لیا اور یوں شرم و حَیا کی پیکر اس باپردہ خاتون نے بھی اسے غیبی اِمداد سمجھ کر قبول کر لیا۔
یوں ایک ایسا خاموش
سفر شروع ہوا جس نے تاریخ کے اَوراق میں وہ سنہری یادیں چھوڑیں جس پر آج بھی
بلاشبہ رَشک کیا جاسکتا ہے۔ عشقِ سرکار میں مُضْطَرِب ہو کر تن تنہا سُوئے مدینہ
رَخْتِ سفر باندھنے والی اس باپردہ خاتون کی ہِمَّت کے کیا کہنے! وہ خود اپنے اس
سفر کی داستان کچھ یوں سناتی ہیں کہ دورانِ سفر اس شخص نے راستے بھر مجھ سے کوئی
کلام نہ کیا، بلکہ جب آرام کا وَقْت ہوتا تو وہ اُونٹ کو بٹھا
کر دُور ہٹ جاتا اور میں کجاوے سے نکل کر کسی سایہ دار درخت کے نیچے ہوجاتی، پھر وہ
اُونٹ کو مجھ سے دُور کسی اور درخت کے نیچے باندھ دیتا اور خود بھی وہیں کہیں آرام
کر لیتا اور جب دوبارہ سفر کا وَقْت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ رکھ کر اسے میرے پاس چھوڑ کر پھر دُور ہٹ جاتا،میرے سوار ہونے کے بعد خاموشی سے آکر نکیل پکڑتا اور سُوئے مدینہ چل پڑتا۔ یوں دَورانِ سفر بھی میں نقاب میں رہی اور پردے کے اِہتِمام میں مجھے کوئی دُشواری پیش نہ آئی، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس شخص کو جزائے خیر عطا فرمائے اس نے بہت اچھے کردار کا مُظاہَرہ کیا۔
آخر جب میں مدینہ پہنچی تو سب سے پہلے اُمُّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے کاشانَۂ اَقْدَس پر حاضِر ہوئی۔ میں اس وَقْت بھی نِقاب میں تھی جس کی وجہ سے سیّدہ اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے مجھے نہ پہچانا، لہٰذا میں نے چہرے سے نِقاب ہٹا کر انہیں اپنا تعارُف کروایا اور جب بتایا کہ میں نے تنہا ہجرت کی ہے تو وہ دنگ رہ گئیں اور حیرت سے پوچھنے لگیں کہ کیا واقعی!تم نے تنہا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کی خاطِر ہجرت کی ہے؟میں نے اِقرار کیا،ابھی ہم باتیں ہی کر رہی تھیں کہ رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی تشریف لے آئے اور تمام صورت ِحال جان کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اھلاً و سہلاً کے دل آویز اَلفاظ سے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے اس طرح اِسلام کی خاطِر ہجرت کرنے کو سراہا۔ [2]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! سرورِ کائنات ، فَخْرِ مَوجُودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مکہ مکرمہ سے مدینہ شریف ہجرت فرمانے کے بعد جو عُشاقِ رسول کسی وجہ سے ہجرت نہ کر سکے وہ دیدارِ رسول سے محروم ہونے کی وجہ سے ہر دَم بے چَین رہتے اور جب بھی ان میں سے کسی کو موقع میسر آتا وہ سُوئے حبیب رَوانہ ہو جاتا۔ عشقِ سرکار میں تڑپنے والے ان لوگوں میں سے ایک یہ باپردہ صحابیہ بھی تھیں جو کہ شرم و حیا کے پیکر حضرت سَیِّدُنا عثمان بن عَفّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ماں جائی بہن حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا تھیں۔
آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس قدر طویل سفر میں جس طرح شرم و حَیا کی لاج رکھی اور پردے کا اِہتِمام کیا وہ آپ ہی کا خاصہ تھا اور اس کا اِنعام بارگاہِ نبوّت سے یہ ملا کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نہ صِرف خوشی کا اِظْہَار فرمایا بلکہ اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت سَیِّدُنا زید بن حارِثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ان کی شادی خانہ آبادی فرما کر انہیں اپنی اَمان عطا فرمائی۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو!آئیے! مل کر عہد کرتی ہیں کہ سفر میں ہوں یا حضر میں، ہمیشہ پردے کا اِہتِمام کریں گی تاکہ ہمیں بھی سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا اور اَمان نصیب ہو۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو!حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے مکہ مکرمہ سے مدینہ مُنَوَّرہ کی طرف ہجرت کا جو
سَفَر تنہا اور بغیر مَحْرَم کے کیا تھا وہ شَریعَت کے عین مُطابِق تھا، جیسا کہ
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ
رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:
(شرعی سَفَر کی مِقْدَار عورت کے تنہا سَفَر کرنے کی)مُمانَعَت کے حکْم سے مُہاجِرہ
اور کفّار کی قید سے چھوٹنے والی عورت خارِج ہے کہ یہ دونوں عورتیں بغیر مَحْرَم اکیلی
ہی دارُ السَّلام کی طرف سَفَر کر سکتی ہیں بلکہ یہ سَفَر ان پر واجِب ہے۔[3] لہٰذا اس واقعہ سے کوئی اِسْلاَمی بہن یہ نہ
سمجھ لے کہ اکیلی عورت کا اس قَدْر دور دراز کا سَفَر کرنا جائز ہے،کیونکہ بغیر
شوہر یا مَحْرَم کے عورت کاتین دن کی مَسَافَت پر واقِع کسی جگہ جانا حَرام ہے۔یہاں
تک کہ اگر عورت کے پاس سَفَرِ حج کے اَسْبَاب ہیں مگر شوہر یا کوئی قَابِلِ اطمینان
مَحْرَم ساتھ نہیں تو حج کے لئے بھی نہیں جاسکتی اگر گئی تو گناہ گار ہوگی اگرچہ فَرْض
حج ادا ہوجائے گا۔[4]جیسا کہ بہارِ شَریعَت میں ہے کہ عورت کو بغیر مَحْرَم
کے تین دن یا زیادہ کی راہ جانا، ناجائز ہے بلکہ ایک دِن کی راہ جانا بھی۔نابالغ
بچہ یا مَعْتُوہ (کم عَقْل) کے ساتھ بھی سَفَر نہیں کرسکتی،
ہمراہی میں بالغ مَحْرَم یا شوہر کا ہونا ضَروری ہے۔مَحْرَم کے لیے ضَرور ہے
کہ سَخْت فاسِق بے باک غیر مَامُون نہ ہو۔[5]
پیاری پیاری اسلامی بہنو!حِجاب عربی زبان کے لفظ حَجْبٌ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کسی کو کسی شے تک رسائی حاصِل کرنے سے روکنا اورحِجاب کے مُتَعَلِّق علّامہ شریف جُرجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کتاب التعریفات میں فرماتے ہیں کہ حِجاب سے مُراد ہر وہ شے ہے جو آپ سے آپ کا مقصود چھپا دے۔ [6] یعنی آپ ایک شے کو دیکھنا چاہیں مگر وہ شے کسی آڑ یا پردے میں ہو تو اس آڑ یا پردے کو حِجاب کہتے ہیں۔حِجاب کا یہ مفہوم قرآنِ کریم میں کئی مَقامات پر مذکور ہے، جیسا کہ پارہ 23 سورہ ص کی آیت نمبر 32 میں اِرشَادہوتا ہے:
حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِٙ(۳۲)
ترجمۂ کنزُ الایمان:یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چُھپ گئے۔
نیز عورتوں کے حِجاب سے کیا مُراد ہے اس کے مُتَعَلِّق حضرت سَیِّدُنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں:عورتوں کے حِجاب سے مُراد یہ ہے (یعنی وہ اس طرح پردہ کریں)کہ مَرد انہیں کسی طرح دیکھ نہ سکیں۔ [7]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! عورت کا مَطلب ہے: مَایُعَارُ فیِ اِظْهَارِہٖ۔یعنی (جسم کا وہ حصّہ)جس کا ظاہِر ہونا قابلِ عار و شَرْم ہو ۔[8]ایک رِوایَت میں ہے:اَلْـمَرْأَةُعَوْرَةٌ۔ عورت عورت ہے۔[9] مطلب یہ ہے کہ عورت مردِاجنبی کیلئے سر سے پاؤں تک لائقِ پردہ (یعنی چھپانے کی چیز)ہے[10]اور چھپایا اسی چیز کو جاتا ہے جس کو غیر کی نظروں سے بچانا مقصود ہوتا ہے اور غیر سے مُراد کون ہے؟ اس کے مُتَعَلِّق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَادفرمایا ہے:عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے،فَاِذَا خَرَجَتْ اِسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ۔یعنی جب وہ باہَر نکلتی ہے تو شیطان اُسے نِگاہ اٹھا اٹھا کر دیکھتا ہے۔[11]
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اِسْتِشْرَاف کے معنیٰ ہیں”کسی چیز کو بغور دیکھنا“ یا اس کے معنیٰ
ہیں”لوگوں کی نگاہ میں اچھا کر دینا تاکہ لوگ اسے بغور دیکھیں“یعنی عورت جب بے
پردہ ہوتی ہے تو شیطان لوگوں کی نگاہ میں اسے بھلی کر دیتا ہے کہ
وہ خواہ مخواہ اسے تکتے ہیں،مِثل مشہور ہے کہ پَرائی عورت اور اپنی اولاد اچھی معلوم ہوتی ہے اور پَرایا مال اور اپنی عقل زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ [12]
پیاری پیاری اسلامی بہنو!پردے کا حکْم کب نازِل ہوا؟ اس کے مُتَعَلِّق شیخِ کبیر، علّامہ شہیر حضرت سَیِّدُنا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اپنی کتاب سیرت سید الانبیا میں فرماتے ہیں: اِسی سال (یعنی 4ہجری) ذی قعدہ کے مہینہ میں اُمُّ المومنین حضرت زینب بنت جحش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکی کاشانَۂ نبوّت میں رُخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کا حکْم نازِل ہوا۔ بعض عُلَمائے کِرام کا کہنا ہے کہ یہ حکْم 2ہجری کو نازِل ہوا، (مگر )قولِ اوّل (یعنی پہلا قول ہی)راجِح ہے۔[13] اسی طرح حضرت سَیِّدُنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی بھی فتح الباری میں اس حکْم کے نازِل ہونے کے مُتَعَلّق چند اَقوال ذکر کر کے ایک قول کو ترجیح دیتے ہوئے اِرشَاد فرماتے ہیں:ان تمام اَقوال میں سب سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ پردے کا حکْم 4 ہجری میں نازِل ہوا۔ 3
پیاری پیاری اسلامی بہنو!سوال پیدا ہوتا ہے کہ صِرف عورتوں کو ہی پردے و حِجاب کا حکْم کیوں دیا گیا۔ چنانچہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 170 صَفحات پر مشتمل کتاب اسلامی زندگی صَفْحَہ 105پر عورتوں کے پردہ کرنے کے پانچ۵اَسباب کچھ یوں تحریر ہیں:
)1(…عورت گھر کی دولت ہے اور دولت کو چھپا کر گھر میں رکھا جاتا ہے، ہر ایک کودِکھانے سے خطرہ ہے کہ کوئی چوری کرلے۔اسی طرح عورت کو چھپانا اور غیروں کو نہ دِکھانا ضَروری ہے۔
(2)…عورت گھر میں ایسی ہے جیسے چَمَن میں پھول اور پھول چَمَن میں ہی ہَرا بھرا رہتا ہے، اگر توڑ کر باہَر لایا گیا تو مُرجھا جائے گا۔اسی طرح عورت کا چَمَن اس کا گھر اور اسکے بال بچے ہیں،اس کو بلاوجہ باہَر نہ لاؤ ورنہ مُرجھا جائے گی۔عورت کا دِل نِہَایَت نازُک ہے، بَہُت جلد ہر طرح کا اَثَر قبول کرلیتا ہے، اس لیے اس کو کچی شیشیاں فرمایا گیا۔
(3)…ہمارے یہاں بھی عورت کو صِنْفِ نازُک کہتے ہیں اور نازُک چیز وں کو پتھروں سے دُور رکھتے ہیں کہ ٹوٹ نہ جائیں۔غیروں کی نگاہیں اس کے لیے مضبوط پتھر ہیں، اس لیے اس کو غیروں سے بچاؤ۔
(4)…عورت اپنے شوہر اور اپنے باپ دادا بلکہ سارے خاندان کی عزّت اور آبرو ہے اور اس کی مِثال سفید کپڑے کی سی ہے،سفید کپڑے پر معمولی سا داغ دھبہ دور سے چمکتا ہے اور غیروں کی نگاہیں اس کے لیے ایک بدنُما داغ ہیں،اس لیے اس کو ان دھبوں سے دُور رکھو۔
(5)…عورت کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس کی نِگاہ اپنے شوہر کے سِوا کسی پر نہ ہو، اس لیے قرآنِ کریم نے حُوروں کی تعریف میں فرمایا: قٰصِرٰتُ الطَّرْفِۙ- (پ٢٧،الرحمٰن:٥٦)[14]اگر اس کی نِگاہ میں چند مرد آگئے تو یوں سمجھو کہ عورت اپنے جوہَر کھوچکی ،پھر اس کا دِل اپنے گھر بار میں نہ لگے گا جس سے یہ گھر آخر تباہ ہوجائے گا۔
بعض لوگ اِعْتِراض کرتے ہیں کہ عورتوں کا
گھروں میں قید رکھنا ان پر ظلم ہے جب ہم باہَر کی ہوا کھاتے ہیں تو ان کو اس نعمت
سے کیوں محروم رکھا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گھر عورت کیلئے قید خانہ نہیں
بلکہ اس کا چَمَن ہے گھر کے کاروبار اور اپنے بال بچّوں کودیکھ کر وہ ایسی خوش
رہتی ہیں جیسے چَمَن میں بُلبل۔ گھر میں رکھنا اس پر ظلم نہیں،بلکہ عزّت و عِصْمَت
کی حِفَاظَت ہے اس کو قدرت نے
اسی لیے بنایا ہے۔بکری اسی لیے ہے کہ رات کو گھر رکھی جائے اور شیر، چیتا اور مُحافِظ کتا اس لیے ہے کہ ان کو آزاد پھرایا جائے، اگر بکری کو آزاد کیا تو اس کی جان خطرے میں ہے اس کو شِکاری جانور پھاڑ ڈالیں گے۔[15]
پیاری اسلامی بہنو! پردہ و حِجاب گویا اِسلامی شعار کی حیثیت رکھتا ہے،کیونکہ اِسلام سے قبل عورت بے پردہ تھی اور اِسلام نے اسے پردہ و حِجاب کے زیور سے آراستہ کر کے عَظَمَت و کِردار کی بُلَندی عطا فرمائی ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ ٢،الاحزاب:٣٣)
ترجمۂ کنزُ الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بے پردگی۔
خَلیفۂ اعلیٰ حضرت صَدرُ الافاضِل
حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی
اس آیتِ مُبارَکہ
کے تَحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:اگلی جاہِلیَّت سے مُراد قَبلِ اِسلام
کا زمانہ ہے، اُس زمانہ میں عورَتیں اِتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت ومَحَاسِن (یعنی بناؤ سنگھار اور
جسم کی خوبیاں مَثَلاً سینے کے اُبھار وغیرہ) کا اِظْہَار کرتی تھیں کہ غیر مَرد
دیکھیں۔لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اَعضا
اچھّی طرح نہ ڈھکیں۔[16] اَفسوس! مَوجُودہ دَور میں بھی زمانۂ جاہِلیَّت والی بے پردَگی پائی جارہی ہے۔ یقیناً جیسے اُس زمانہ میں پردہ ضَروری تھا وَیسا ہی اب بھی ہے۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اِسلام نے عورت کو پردے و حِجاب کی صُورَت میں جو عَظَمَت و سربُلَندی عطا کی، عہدِ رسالت کی بُلَند ہِمَّت عورتوں نے اسے اس قدر اپنایا کہ حِجاب آزاد مسلمان عورت کی عَلامَت بن گیا۔چنانچہ،
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ نبیِّ رَحمت ،شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
خیبر اور مدینہ منوَّرہ (زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً ) کے درمیان تین دن قِیام
فرمایا، اسی دَوران حضرتِ سَیِّدَتُنا صَفِیّہ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اپنے حَرَم میں داخِل فرمایا، پھر دَورانِ
سفر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابَۂ کِرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کی دعوتِ ولیمہ کی۔
اس میں روٹی اور گوشت کا اِہتِمام نہ تھا بلکہ آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکْم دیا
اور اُس پر کھجوریں،پنیر اور گھی رکھا گیا۔یہی سب کچھ ولیمہ تھا، لیکن تا حال
صَحابَۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان پر یہ واضِح نہ ہوا تھا کہ حضرتِ سَیِّدَتُنا
صفیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی زَوجِیَّت میں لیا ہے یا کہ کنیز بنایاہے (کیونکہ یہ خیبر کی جنگی قیدیوں میں شامِل
تھیں)
انہوں نے اپنی اس اُلجھن کو حَل کرنے کے لیے طے کیا کہ اگرسرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کو پردہ کراتے ہیں تو سمجھو کہ زَوجِیَّت میں لیا ہے اور اگر حجاب(یعنی پردہ) نہ کرایا تو سمجھو کنیز بنایا ہے۔ جب قافلے نے کوچ کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے پیچھے حضرتِ سَیِّدَتُنا صَفِیّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی جگہ بنائی اور ان کے اور لوگوں کے درمِیان پردہ تان دیا۔[17]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! پردہ و حِجاب کے کچھ دَرَجات ہیں۔ چنانچہ،
عورت خود کو گھر کی چار دِیواری اور پردے کا اس طرح پابند بنا لے کہ کسی غیر مرد کی نِگاہ اس پر نہ پڑے، یعنی کوئی غیر محرم اس کے جسم کو تو کجا اس کے لِباس تک کو نہ دیکھ پائے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ ٢٢،الاحزاب:٣٣)
ترجمۂ کنزُ الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بے پردگی۔
اسی طرح ایک مَقام پر اِرشَاد ہوتا ہے:
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ- )پ٢٢،الاحزاب:٥٣)
ترجمۂ کنز ُالایمان:اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہَر سے مانگو۔
یہ آیتِ مُبارَکہ اگرچہ اُمَّہَاتُ الْمُومِنِین رضی اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ کی شان میں نازِل ہوئی جیسا کہ اس کا شانِ نُزول بیان کرتے ہوئے اِمام بیضاوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بارگاہِ نبوّت میں عرض کی: یَا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ کی خِدْمَت میں نیک بھی حاضِر ہوتے ہیں اور بد بھی، لہٰذا اُمَّہَاتُ المومنین کو پردے کا حکْم اِرشَاد فرمایئے۔ چنانچہ یہ آیتِ مُبارَکہ نازِل ہوئی۔[18]بَہَرحال سَبَب کچھ بھی ہو پردے کا حکْم نازِل ہونے کے بعد جن صحابیات طیبات رضی اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ نے پردے کے اس پہلے دَرَجہ پر عَمَل کرتے ہوئے خود کو گھر کی چار دِیواری تک محدود کر لیا ان میں سے دو۲ کی مثالیں پیشِ خِدْمَت ہیں:
ایک بار اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے عرض کی گئی: آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ باقی اَزواج کی طرح حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا:میں نے حج و عمرہ کر لیا ہے،چونکہ میرے ربّ نے مُجھے گھر میں
رہنے کا حکْم فرمایا ہے۔ لہٰذا خدا کی قسم! اب میں پَیامِ اَجَل(موت)آنے تک گھر سے باہَر نہ نکلوں گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا گھر کے دروازے سے باہَر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔[19]
اسی طرح مروی ہے کہ حضرت سَیِّدَتُنا فاطِمۃ الزّہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے موت کے وَقْت یہ وصِیَّت فرمائی کہ بعدِ اِنتقال مجھے رات کے وَقْت دفن کرنا تاکہ میرے جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔[20]
چُو زَہرا باش از مخلوق رُو پوش
کہ دَر آغوش شبیر ے بَہ بینی
یعنی حضرت سَیِّدَتُنا فاطِمۃ الزّہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرح پرہیز گار و پردہ دار بنو تاکہ اپنی گود میں حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جیسی اولاد دیکھو۔
پیاری پیاری اِسلامی بہنو!پہلے درجہ کے پردے و حِجاب پر
عَمَل کرنے والی صحابیات کی سیرتِ طیبہ کا یہ روشن پہلو آج کے دَور کی اِسلامی
بہنوں کے لیے عَمَلی
نَمُونہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر آپ میں سے کوئی یہ سمجھے کہ یہ اِنتہائی مشکل کام ہے اور صِرف صحابیات کے ہی بس کا تھا، اب کسی کے لیے اس طرح کے پردے کا اِہتِمام کرنا ممکن نہیں تو جان لیجئے کہ حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ تاریخ میں ایسی روشن ضمیر و باپردہ صالحات کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ جن کے دامَن کے دھاگے پر بھی کسی غیر محرم کی نِگاہ نہیں پڑی۔ چنانچہ،
شیخ عَبْدُالحق مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اَخبارُ الاَخیار میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ خُشک سالی ہوئی، لوگوں نے بَہُت دُعائیں کیں مگر بارِش نہ ہوئی، تو شیخ نظامُ الدِّین ابو المؤیّد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی والِدہ ماجِدہ کے پاکیزہ دامَن کا ایک دھاگا اپنے ہاتھ میں لیا اور بارگاہِ ربّ العزّت میں یوں عرض کی:اے اللہ! یہ اُس خاتون کے دامَن کا دھاگا ہے جس پر کبھی کسی نامحرم کی نظر نہ پڑی،مولا اِس کے طُفیل بارانِ رحمت (یعنی رحمت کی بارش) نازِل فرما۔مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں کہ ابھی شیخ نظامُ الدِّین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالمَتِیننے یہ جُملہ کہا ہی تھا کہ چھما چھم بارِش برسنے لگی۔[21]
برستا نہیں دیکھ کر اَبْرِ رَحْمت
بدوں پر بھی برسا دے برسانے والے[22]
پردے کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری کے تحت گھر کی چار دیواری میں خود کو پابند نہ کر سکیں اور باہَر نکلنا پڑے تو خوب پردے کا اِہتِمام کر کے نکلیں تاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ پائے،جیسا کہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہم نو عمر لڑکیوں، حیض والیوں اور پردے والیوں کو حکم دیا کہ عیدَین پر (نماز کے لیے)گھر سے نکلیں مگر حیض والیاں نماز میں شامِل نہ ہوں،بلکہ بھلائی کے کاموں اور مسلمانوں کی دُعا میں شریک ہوں۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ہم میں سے بعض کے پاس تو جِلْبَاب (برقع یا بڑی چادر) نہیں ۔تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: اس کی بہن اسے اپنی جِلْبَاب (بڑی چادر کا کچھ حِصّہ)اوڑھا لے۔[23]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! معلوم ہوا عورت کو گھر میں ہی
رہنا چاہئے اور اگر کبھی کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے گھر سے باہَر نکلنا بھی پڑے
تو بغیر پردہ کے بالکل نہ نکلے اور پردہ بھی ایسا کہ جسم کے کسی حِصّے پر کسی کی
نگاہ نہ پڑے۔ چنانچہ اُمّ الْمُومِنِین
حضرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ جب قرآنِ مجید کی یہ
آیتِ مُبارَکہ نازِل ہوئی:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ- (پ٢٢، الاحزاب:٥٩)
ترجمۂ کنزُالایمان:اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصّہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔
تو اَنصار کی خواتین سیاہ چادر اَوڑھ کر گھروں سے نکلتیں ، ان کو دُور سے دیکھ کر یوں لگتا کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔[24]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! معلوم ہوا اگر کسی وجہ سے گھر سے باہَر نکلنا پڑے اور شریعت بھی اس کی اِجازَت دیتی ہو تو گھر سے باہَر نکلتے وَقْت خوب خوب پردے کا اِہتِمام کر لیجئے۔ چنانچہ اس سلسلے میں اِسلامی بہنوں کو کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟ اس کے مُتَعَلّق دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 400 صَفحات پر مشتمل کتاب پردے کے بارے میں سوال جواب صَفْحَہ42 پر شیخِ طریقت، اَمِیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رَضَوِی ضِیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ ایک سوال کے جواب
میں تحریر فرماتے ہیں: شَرعی اِجازَت کی صُورَت میں گھر سے نکلتے وَقْت اِسلامی بہن غیر جاذِبِ نظر کپڑے کا ڈِھیلا ڈھالا مَدَنی بُرقع اَوڑھے، ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جُرابیں پہنے۔ مگر دستانوں اور جُرابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال کی رنگت جھلکے۔ جہاں کہیں غیر مردوں کی نظر پڑنے کا اِمکان ہو وہاں چہرے سے نِقاب نہ اٹھائے مَثَلاً اپنے یاکسی کے گھر کی سیڑھی اور گلی مَحلّہ وغیرہ۔ نیچے کی طرف سے بھی اِس طرح بُرقع نہ اٹھائے کہ بدن کے رنگ برنگے کپڑوں پر غیر مردوں کی نظر پڑے۔ واضح رہے کہ عورت کے سر سے لیکر پاؤں کے گِٹّوں کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ بھی مَثَلاً سر کے بال یا بازو یا کلائی یاگلا یاپیٹ یا پنڈلی وغیرہ اجنبی مَرد (یعنی جسں سے شادی ہمیشہ کیلئے حرام نہ ہو ) پر بلااِجازَتِ شَرْعی ظاہِر نہ ہو بلکہ اگر لباس ایسا مَہِین یعنی پتلا ہے جس سے بدن کی رنگت جھلکے یاایسا چُست ہے کہ کسی عُضْو کی ہَیْئَتْ(یعنی شکل و صورت یا اُبھار وغیرہ)ظاہِر ہو یادوپٹّہ اتنا باریک ہے کہ بالوں کی سیاہی چمکے یہ بھی بے پَردَگی ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،ولیِ نِعمت، عظیمُ البَرَکت،عظیمُ المَرتَبت، پروانَۂ شَمْعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت،حامیِ سنّت، ماحِیِ بِدعَت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعِثِ خَیر وبَرَکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:جو وَضْعِ لباس (یعنی لباس کی بناوٹ) وطریقَۂ پَوشِش( یعنی پہننے کا انداز)اب عورات میں رائج ہے کہ
کپڑے باریک جن میں سے بدن چمکتا ہے یا سر کے بالوں یا گلے یا بازو یا کلائی یاپیٹ یا پِنڈلی کا کوئی حصّہ کُھلا ہو یوں توسِوا خاص مَحارِم کے جن سے نکاح ہمیشہ کو حَرام ہے کسی کے سامنے ہونا سخت حرامِ قطعی ہے۔ [25]
پیاری پیاری اسلامی بہنو!ہم میں سے بعض وہ اِسلامی بہنیں جنہیں کسی مُعاشَرتی مجبوری کی بنا پر گھر سے باہَر بالخصوص کسی سفر پر نکلنا پڑتا ہے تو پردے کا اِہتِمام نہیں کرتیں، بلکہ اپنی بے پردگی کا عُذر یوں بیان کرتی ہیں کہ ہمارے لیے ایسا ممکن نہیں۔ ایسی تمام اِسلامی بہنوں کی ترغیب کے لیے حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکی درج ذیل یہ حِکایَت ہی کافی ہے۔ چنانچہ،
حضرت سَیِّدُنا عبداللہ بن
زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے
مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب دشمنِ اسلام اَبُو جہل کے بیٹے حضرت
سَیِّدُنا عِکْرِمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی
زوجہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم بنتِ حارِث رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے اِسلام قبول کیا تو بارگاہِ رِسالت میں
عرض کی: اے اللہ
عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!عِکْرِمہ (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)یمن کی طرف بھاگ گئے ہیں اور وہ اس بات سے
خوف زدہ ہیں کہ آپ انہیں قتل کردیں گے، لہٰذا انہیں اَمان عطا فرما
دیجئے۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے سَیِّدُنا عِکْرِمَہ کو اَمان دیدی ۔ پھر حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا عِکْرِمَہ کی تلاش میں باپردہ نکل پڑیں اور آخر تِہَامَہ کے ساحل پر جاپہنچیں۔ادھر عِکْرِمَہ بھی اسی ساحل پر پہنچ کر کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی ڈگمگانے لگی، کشتی بان نے کہا: اِخلاص سے رب کو یاد کرو۔ عکرمہ بولے:میں کون سے الفاظ کہوں؟ اس نے کہا :لَا اِلٰـهَ اِلَّا الله کہو !تو بولے: اس کلمہ کی وجہ سے تو میں یہاں تک پہنچا ہوں ، لہٰذا تم مجھے یہیں اُتار دو۔ اتنے میں حضرت سَیِّدَتُنا اُمّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے آپ کو دیکھ لیا اور ان سے کہنے لگیں: اے میرے چچا زاد! میں ایک ایسی عظیم ہستی کے پاس سے آرہی ہوں جو بَہُت زیادہ رحم دل اور احسان فرمانے والی ہے، وہ لوگوں میں سب سے افضل ہے۔ لہٰذا خود کو ہلاکت میں مت ڈالئے!آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے اِصرار پر عِکْرِمَہ رُک گئے، پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے انہیں اَمان کی یقین دہانی کراتے ہوئے واپسی کے لیے آمادہ کر لیا، اس کے بعد دونوں مکہ مکرمہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً لوٹ آئے اور یوں حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے شوہر حضرت سَیِّدُنا عِکْرِمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ باپردہ بارگاہِ نبوّت میں حاضِر ہوئیں تو انہوں نے اَمان کی یقین دہانی کے بعد اِسلام قبول کر لیا۔ [26]
پیاری پیاری اِسلامی بہنو! اس طویل حِکایَت میں ہم سب کے لیے بَہُت سے مَدَنی پھول موجود ہیں اور ان میں سب سے اَہَم مَدَنی پھول یہ ہے کہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اِسلام لانے کے بعد اپنے شوہر کو بھی اِسلام کی حَقّانِیَّت کے سائے میں لانے کے لیے اس قدر طویل سفر کیا مگر اِسلامی تعلیمات پر عَمَل کسی بھی موقع پر ترک نہ کیا اور پُرمَشَقَّت سفر میں بھی باپردہ رہیں۔ یوں بالآخر ان کی اپنے گھر کو مَدَنی ماحول کا گہوارہ بنانے کی مَدَنی سوچ رنگ لائی اور ان کے شوہر بھی مَدَنی رنگ میں رنگ گئے۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اپنے گھروں کو مَدَنی ماحول کا گہوارہ بنانے کے لیے اگر آپ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکی مشکلات کو یاد کرلیا کیجئے اور یاد رکھئے کہ اس راہِ پُر خَطَر پر چلنا بڑے دِل گردے کا کام ہے۔ سچی وَفا یہ ہے کہ جب خود مَدَنی ماحول کی برکتوں سے فیض یاب ہوں تو اپنے دیگر گھر والوں کو بھی تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کی مُعطّر و مشک بارفضا سے دُور نہ رہنے دیجئے۔
پردے کا تیسرا اور سب سے کم تر دَرَجہ یہ ہے کہ عورت کم از کم اس قدر
پردے کا اِہتِمام ضَرور کرے کہ جس قدر رب کی بارگاہ میں حاضِر ہوتے یعنی نماز پڑھتے وَقْت لازِم ہے۔ مُراد یہ ہے کہ نامحرم کے سامنے کم از کم سِتْرِعورت کا خیال ضَرور رکھے۔ چنانچہ،
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 308 صَفحات پر مشتمل کتاب اسلامی بہنوں کی نماز (حنفی) صَفْحَہ 91پر ہے:اِسلامی بہن کے لیے ان پانچ۵ اَعضا :مُنہ کی ٹکلی ، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں کے تَلووں کے عِلاوَہ سارا جسم چُھپانا لازِمی ہے۔[27] البتّہ اگر دونوں ہاتھ(گِٹّوں تک) ، پاؤں(ٹخنوں تک) مکمَّل ظاہِر ہوں تو ایک مُفْتٰی بِہ قَول پر نَماز دُرُست ہے۔ اگر ایسا باریك کپڑا پہنا جس سے بدن کا وہ حصّہ جس کانَماز میں چُھپانا فَرْض ہے نَظَر آئے یاجِلد(یعنی چمڑی) کا رنگ ظاہِرہو نَماز نہ ہو گی۔[28]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ہائے افسوس! صد افسوس! آج کل باریك کپڑوں کا رَواج بڑھتا جارہا ہے، لہٰذا یاد رکھئے!ایساکپڑا پہننا جس سے سِتْرِعورت نہ ہوسکے عِلاوہ نَماز کے بھی حرام ہے۔[29] جیسا کہ حضرت سیِّدُنا دِحیہ کلبی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے
ہیں: ایک مرتبہ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَتِ اَقدس میں سفید رنگ کے مِصری کپڑے لائے گئے جوکہ قدرے باریک تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک کپڑا مُجھے عطا کرتے ہوئے اِرشَاد فرمایا:اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک سے اپنی قمیص بنا لینا جبکہ دوسرا اپنی بیوی کو دے دینا جسے وہ اپنا دوپٹا بنالے۔ فرماتے ہیں: جب میں واپس مڑا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مُجھےاس بات کی تاکید فرمائی کہ اپنی بیوی کو یہ حکْم بھی دینا کہ اس کے نیچے دُوسرا کپڑا لگا لے تاکہ بَدَن کی صِفَت معلوم نہ ہو۔[30]
نیز یہ بھی یاد رکھئے کہ اتنا دَبِیز (یعنی موٹا) کپڑا جس سے بَدَن کا رنگ نہ چمکتا ہو مگر بَدَن سے ایسا چِپکا ہو کہ دیكھنے سے عُضْوْ کی ہَیئَت(ہَے اَتْ یعنی شکل و صورت اور گولائی وغیرہ) معلوم ہوتی ہو۔ایسے کپڑے سے اگرچِہ نَماز ہو جائے گی مگراُس عُضْوْکی طرف دوسروں کو نِگاہ کرنا جائز نہیں۔[31] اور ایسا لِباس لوگوں کے سامنے پہننا بھی مَنع ہے اور عورَتوں کے لیے بدرَجَۂ اَولیٰ مُمانَعَت۔[32] بعض وہ اِسلامی بہنیں جو مَلمَل وغیرہ کی ایسی باریك چادَرنَماز میں اَوڑھتی ہیں جس سے بالوں کی سیاہی(کالک) چمکتی ہے یا ایسا لِباس پہنتی ہیں جس سے اَعضا کا رنگ نظر آتا ہے جان
لیں کہ ایسے لِباس میں بھی نَماز نہیں ہوتی۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو! عورت کا ہر اجنبی بالِغ مرد سے پردہ ہے۔ جومَحرم نہ ہو وہ اجنبی ہوتا ہے، مَحرم سے مُراد وہ مرد ہیں جن سے ہمیشہ کیلئے نِکاح حرام ہو۔ جبکہ مَحارِم میں تین۳ قسم کے اَفراد داخِل ہیں:
Ĝ1 Ę…نَسَب کی بنا پر جن سے ہمیشہ کے لیے نِکاح حَرام ہو۔
Ĝ2 Ę…رَضاعت یعنی دُودھ کے رشتے کی بِنا پر جن سے نِکاح حَرام ہو۔
Ĝ3 Ę…مُصاہَرَت یعنی سُسرالی رِشتے کی وجہ سے جن سے نِکاح حَرام ہو جیسے سُسر کے لیے بہو یا ساس کے لیے داماد۔
(پہلی قسم یعنی)نسبی مَحارِم کے سِوا (باقی)دونوں طرح کے مَحارِم سے پردہ واجِب بھی نہیں اور منع بھی نہیں، خُصُوصاً جب عورت جوان ہویا فتنے کا خوف ہو تو پردہ کرے۔[33]البتہ!سُسرال میں دَیْوَرو جَیٹھ وغیرہ سے کس طرح پردہ کیا جائے؟ سارا دن پردہ میں رَہنا بَہُت دُشوار ،گھر کے کام کاج کرتے وَقت کیسے اپنے چہرہ کوچُھپائے؟چنانچہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ طریقت، امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 400
صَفحات پر مشتمل کتاب پردے کے بارے میں سوال جواب صَفْحَہ50پر فرماتے ہیں:گھر میں رَہتے ہوئے بھی بِالخصوص دَیْوَر وجیٹھ وغیرہ کے مُعامَلہ میں مُحتاط رَہنا ہوگا۔ صحیح بخاری میں حضرت سیّدُنا عُقْبہ بن عامِر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، پیکرِ شرم وحیا، مکّی مَدَنی مصطَفٰے، محبوبِ خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: عورَتو ں کے پاس جانے سے بچو۔ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!د َیوَرکے مُتَعَلِّق کیا حکْم ہے؟ فرمایا : دَیوَر موت ہے۔[34] دَیوَر کا اپنی بھابھی کے سامنے ہونا گویا موت کا سامنا ہے کہ یہاں فِتنہ کا اندیشہ زِیادہ ہے۔ مفتیِ اعظم پاکستان حضرتِ وقارِ مِلّت مولانا وقارُ الدّین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْمُبِین فرماتے ہیں:ان رشتہ داروں سے جو نامَحرم ہیں(پردہ بہت دشوار ہو تو ان سے) چہرہ، ہتھیلی، گٹے، قدم اورٹَخنوں کے علاوہ سِتْر( پردہ ) کرنا ضَروری ہے ،زینت بناؤ سنگھار بھی ان کے سامنے ظاہِر نہ کیا جائے ۔ [35] بَہَرحال اگر ایک گھر میں رَہتے ہوئے عورت کیلئے قریبی نامَحرم رشتہ داروں سے پردہ دُشْوَارہو تو چہرہ کھولنے کی تو اِجازَت ہے مگر کپڑے ہرگز ایسے باریک نہ ہوں جن سے بدن یا سر کے بال وغیرہ چمکیں یا ایسے چُست نہ ہوں کہ بَدَن کے اَعضا جسم کی ہیئت(ہَے اَت، یعنی صورت و گولائی)
اور سینے کا اُبھار وغیرہ ظاہِر ہو ۔[36]
آج کل پردہ کرنے والیوں کا مُلانی کہہ کر گھر میں مذاق اُڑایا جاتا ہے،کبھی (کوئی اسلامی بہن ) عورَتوں کی کسی تقریب میں مَدَنی بُرقع اوڑھ کر چلی جائے تو!!! ٭… کوئی کہتی ہے: ارے ! یہ کیا اَوڑھ رکھا ہے اُتارواِس کو! ٭…کوئی بولتی ہے: بس ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ تم بَہُت پردہ دار ہو اب چھوڑو بھی یہ پردہ وَردہ! ٭…کوئی کہتی ہے، دنیابَہُت ترقّی کر چکی ہے اور تم نے یہ کیا دَقْیا نُوسی انداز اپنا رکھا ہے! وغیرہ ۔ اِس طرح کی دل دُکھانے والی باتوں سے شَرعی پردہ کرنے والی کا دل ٹوٹ پھوٹ کر چِکناچُور ہو جاتا ہے۔ اگرچہ واقعی یہ حالات نہایت ہی نازُک ہیں اور شَرعی پردہ کرنے والی اسلامی بہن سخت آزمائش میں مبتَلا رَہتی ہے مگر اسے ہمّت نہیں ہارنی چاہیے۔ مذاق اُڑانے یا اِعتِراض کرنے والیوں سے زور دار بحث شُروع کر دینا یا غصّے میں آ کر لڑ پڑنا سخت نقصان دِہ ہے کہ اس طرح مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلَجھ سکتا ہے۔
ایسے مَوقَع پر یہ یاد کر کے اپنے دل کو تسلّی دینی چاہیے کہ جب تک تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عام اِعلانِ نبوّت نہیں فرمایا تھا اُس وَقت تک
کُفّارِ بد انجام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اِحتِرام کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو امین اور صادِق کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جُونہی علَی الْاِعلان اِسلام کا ڈنکا بجانا شروع کیا وُہی کُفّارِ بداَطوار طرح طرح سے ستانے، مذاق اُڑانے اور گالیاں سنانے لگے، صِرف یہی نہیں بلکہ جان کے در پے ہو گئے، مگر قربان جائیے ! سرکارِ نامدار ، اُمّت کے غم خوار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کہ آپ نے بِالکل ہمّت نہ ہاری ،ہمیشہ صَبْر ہی سے کام لیا ۔اب اسلامی بہن صَبْرکرتے ہوئے غور کرے کہ میں جب تک فیشن ایبل اور بے پردہ تھی میرا کوئی مذاق نہیں اُڑاتا تھا، جُونہی میں نے شَرعی پردہ اپنایا، ستائی جانے لگی۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ہے کہ مجھ سے ظُلْم پر صَبْر کرنے کی سنّت اَدا ہو رہی ہے ۔مَدَنی اِلتجا ہے کہ کیسا ہی صَدمہ پہنچے صَبْر کا دامَن ہاتھ سے مَت چھوڑئیے، نیز بِلا اجازتِ شَرعی ہرگز زَبان سے کچھ مت بولئے۔ حدیثِ قُدسی میں ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے:اے ابنِ آدم ! اگرتُو اوّل صَدمے کے وَقْت صَبْر کرے اور ثواب کا طالِب ہو تو میں تیرے لیے جنَّت کے سِوا کسی ثواب پر راضی نہیں۔[37]
افسوس!آج کل بیماری و مصیبت پر صَبْر کا دامَن تھامے رہنے کے بجائے بے
صَبْری کا مُظاہَرہ کیا جاتا ہے حالانکہ ایک مسلمان کیلئے بیماری و مصیبت باعِثِ نُزولِ رَحمت اور گناہوں کا کفّارہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: مومن کو جو تھکاوٹ، بیماری، پریشانی، خوف، رنج اور غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے عِوَض اس کے گناہ مِٹا دیتا ہے۔[38]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! معلوم ہوا کسی بھی بیماری یا دکھ تکلیف پر کبھی واویلا کرنا چاہئے نہ آپے سے باہَر ہونا چاہئے بلکہ ہمیشہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دامَنِ رحمت سے وابستہ رہنا چاہئے، اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جُنُون و مِرگی وغیرہ ایسی مُوذی بیماریاں اور حد دَرَجہ کسی قریبی عزیز مثلاً ماں، باپ، بہن ، بھائی،شوہر، بیوی یا اَولاد وغیرہ کے اس جہانِ فانی سے کوچ کر کے ہمیشہ کے لیے جُدا ہو جانے کا دکھ ایسی مصیبتیں ہیں جو بندے کو ہوش سے بیگانہ کر دیتی ہیں اور یہ عام مُشاہَدہ ہے کہ اس وَقْت اکثر اِسلامی بہنیں مصیبت اور دکھ کے عالَم میں پردے کے اِہتِمام سے غافِل ہو کر بے پردگی کا مُرْتکِب ہو جاتی ہیں، مگر قربان جائیں صحابیات طیبات رضی اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ کے جذبۂ اِیمانی پر! جنہوں نے راہِ خدا میں مصائب و تکالیف کے پہاڑوں کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا لیکن اَحْکاماتِ اِسلام کا دامَن کبھی کسی حال میں ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ چنانچہ،
ابو داود شریف میں ہے کہ حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ خلاد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا ان کے بارے میں معلومات حاصِل کرنے کیلئے نِقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہو ئیں تو اِس پر کسی نے حیرت سے کہا: اِس وقْت بھی باپردہ ہیں ! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضَرور کھویا ہے، حَیا نہیں کھوئی۔[39]
حضرت سیِّدُنا عطا بن ابو رَباح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے مجھ سے فرمایا: میں تمہیں جنَّتی عورت نہ دِکھاؤں؟ میں نے عرض کی:کیوں نہیں۔ فرمایا: یہ حبشی عورت(جنتی ہے)۔ اِس نے نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں آ کر عرض کی:یَارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مِرگی کے مَرض کی وجہ سے میرا سِتْر (پردہ )کھل جاتا ہے آپ میرے لیے دُعا فرمائیے۔تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: چاہو تو صَبْر کرو تمہارے لیے جنّت ہے اور اگر چاہو تو میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے تمہارے لیے دُعا کروں کہ وہ تجھے عافیت عطافرما ئے۔ اِس نے عرض کی:میں صَبْر کروں گی۔ پھر عرض کی: دُعا کیجئے بَوَقْتِ مِرگی میرا پردہ نہ کُھلا کرے۔چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کے لیے دعا فرمادی ۔[40]
پیاری پیاری اسلامی بہنو!پردے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے شیخ طریقت، امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب پردے کے بارے میں سوال جواب کا مُطالَعہ کیجئے۔اس میں پردے سے مُتَعَلِّق بے شُمار مَوضُوعَات پر مَعلُومَات کا ایک خزانہ آپ کے ہاتھ لگے گا۔ جیسا کہ عورت کا کس کس سے پردہ ہے؟ ، مرد و عورت کے سِتْر کی مِقدار کیا ہے؟، عورت سسرال میں کس طرح پردہ کرے، گھر میں پردے کا ذہن کیسے بنائے ؟ حُصولِ تعلیم وغیرہ کے سلسلے میں پردے کے اِہتِمام کی صورت کیسے بنائی جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے اس کتاب کو خرید فرما کر خود بھی پڑھئے اور خیرخواہی کی نِیَّت سے دوسری اسلامی بہنوں کو بھی تحفۃًپیش کیجئے۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو!پردے کے مذکورہ دَرَجات ہی نہیں بلکہ سَلَف صالحات بالخصوص صحابیات طیبات سے اس سلسلے میں کئی ایسی اِحتیاطیں بھی منقول ہیں جن پر بلاشبہ تاریخِ عالَم اَنگشت بَدَنْدَاں (حیران)ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے ذیل میں دو۲ باتیں پیشِ خِدْمَت ہیں:
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اِحرام میں منہ چُھپانا عورت کے لیے بھی اسی طرح حرام ہے جیسا کہ مرد کیلئے حرام ہے۔ مگر اس حوالے سے صحابیات کی زندگیوں کے جو سنہری گوشے تاریخ میں درج ہیں وہ اپنی مِثال آپ ہیں۔ جیسا کہ اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: قافلے ہمارے پاس سے گزرتے جبکہ ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ اِحرام باندھے ہوئے تھیں، جب وہ لوگ ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی جِلْبَاب (برقع نما بڑی چادر) سر سے نیچے لٹکا لیتی (اس اِحتیاط سے کہ منہ پر نہ لگے)اور جب وہ آگے گزر جاتے تو ہٹا دیتی۔[41]
معلوم ہواعورتوں کے لیے اگرچہ اِحرام میں منہ چھپانا حرام ہے مگر اجنبی لوگوں سے اس طرح پردہ کرنا کہ وہ انہیں دیکھ نہ پائیں تقوٰی و طہارت کی اعلیٰ مثال ہے۔ جیسا کہ مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْمَنَّان نے مِراٰۃُ المناجیح میں اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے اس قول کی جو شرح بیان کی ہے، اگر اسے سامنے رکھ کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے اس قول کو مُلاحَظہ کیا جائے تو صُورَت کچھ یوں بنے گی: گویا آپ نے یہ فرمایا کہ ویسے تو
ہم اپنی سہیلیوں کے ساتھ اپنے چہرے کھلے رکھتی تھیں مگر جب دیگر لوگوں کے قافلے ہم پر گزرتے تو چونکہ ان میں مرد بھی ہوتے تھے،اس لیے ہم ان سے پردہ کرنے کی کوشش کرتی تھیں،یعنی جب وہ ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنے سر سے چہرے پر چادر ڈال لیتی مگر اس طرح کہ چادر کا یہ حِصّہ چہرے سے مَس (یعنی ٹَچ)نہ کرے بلکہ اس سے علیحدہ رہے کہ اس میں پردہ بھی ہو جاتا اور نِقاب چہرے سے مَس بھی نہ ہوتا۔ پھر جب وہ آگے بڑھ جاتے تو ہم منہ سے چادر ہٹا لیتی تھیں کیونکہ اب کوئی نامحرم مرد نہ رہتا تھا جس سے پردہ ہو۔[42]
اسی حدیث کی شرح میں مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْمَنَّان یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ثابِت نہیں ہوتا کہ وہ حضرات اپنے مدینہ والے (یعنی اپنے شہر کے )مردوں سے پردہ نہ کرتی تھیں،جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا،پردہ ہر اس مرد سے واجِب ہے جس سے نِکاح دُرُسْت ہو،خواہ مدینہ (یعنی اپنے شہر یا گاؤں) کا ہو یا باہَر کا۔[43]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ہائے افسوس! ایک ہم ہیں کہ آج کے اس پُر فِتَن
اور نفسانفسی کے دَور میں جہاں ہر طرف عزتوں کے سوداگر موجود ہیں ہم سے زندہ وغیرمحرم مَردوں سے پردے کا کما حقہ اِہتِمام ممکن نہیں رہا اور ایک صحابیات طیبات تھیں جنہوں نے عزّتوں کے مُحافِظوں کی مَوجُودَگی میں زندہ لوگ تو ایک طرف جہانِ فانی سے کوچ کر جانے والوں سے بھی پردے کا اِہتِمام کر کے تاریخ کے سنہری اَورَاق میں رنگ بھر دئیے ۔ چنانچہ،
اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتی ہیں:جب میں اپنے اس گھر میں داخِل ہوتی جس میںرسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور میرے والِد مدفون ہیں تو اس خیال سے اپنی اوڑھنی نہ لیتی کہ یہاں تو میرے شوہر اور والِد ہیں، مگر جب سے عُمَر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ وہاں دفن ہوئے تو خُدا کی قسم! میں ان سے شَرْم کے باعِث با پردہ حاضِر ہوتی ہوں۔[44]
حکیم ُالاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان مِراٰۃُ المناجیح جلد 2 صَفْحہ 527 پر اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی جب تک میرے حُجرے میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اور حضرت ابوبکر صِدِّیق(رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)مدفون رہے تب تک تو میں سَر کھولے یا ڈھکے ہر طرح حُجرے شریف میں چلی جاتی تھی
کیونکہ نہ خاوند سے حِجاب ہوتا ہے نہ والِد سے، (مگر) جب سے حضرتِ عُمَر (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)میرے حُجرے میں دَفن ہو گئے تب سے میں بغیر چادر اَوڑھے اور پردہ کا پورا اِہتِمام کئے بغیر حجرے شریف میں نہ گئی کہ حضرتِ عُمَر (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)سے شَرْم و حَیا کرتی ہوں۔
اس حدیث سے بَہُت مسائل مَعلوم ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ مَیّت کا بعدِ وفات بھی اِحْتِرام چاہئے۔ فقہا فرماتے ہیں کہ مَیّت کا ایسا ہی اِحْتِرام کرے جیسا کہ اس کی زِنْدَگی میں کرتا تھا۔ دُوسرے یہ کہ بزرگوں کی قُبور کا بھی اِحْتِرام اور ان سے بھی شَرْم و حَیا چاہئے۔ تیسرے یہ کہ مَیّت قبر کے اندر سے باہَر والوں کو دیکھتا اور انہیں جانتا پہچانتا ہے۔ دیکھو! حضرتِ عُمَر (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)سے عائشہ صِدِّیقہ(رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا)ان کی وفات کے بعد شرم و حَیا فرما رہی ہیں اور اگر آپ باہَر کی کوئی چیز نہ دیکھتے تو اس حَیا فرمانے کے کیا معنیٰ۔ چوتھے یہ کہ قبر کی مٹّی، تختے وغیرہ تو مَیّت کی آنکھوں کے لیے حِجاب نہیں بن سکتے مگر زائر (یعنی زِیارَت کرنے والا) کے جسم کا لباس ان کے لیے آڑ ہے، لہٰذا مَیّت کو زائر(زیارت کرنے والا) ننگا نہیں دکھائی دیتا ورنہ حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا) کا چادر اَوڑھ کر وہاں جانے کے کیا معنیٰ تھے، یہ قانونِ قدرت ہے۔ لہٰذا حدیث پر یہ اِعتراض نہیں کہ جب حضرتِ عُمَر (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)قبر کے اندر سے زائر کو دیکھ رہے ہیں تو زائر کے کپڑوں کے اندر کا
جسم بھی انہیں نظر آ رہا ہے۔[45]
پیاری پیاری اسلامی بہنو!دیکھا آپ نے صحابیات پردے کا کس قدر اِہتِمام کرتی تھیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ یہ وہ پاک ہستیاں تھیں جنہوں نے آقائے دو۲جَہان، رَحْمَتِ عَالَمِیَّان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دربارِ گوہر بار سے جو کچھ سیکھا اُس پر عَمَل پیرا ہونا نہ صِرف خود پر لازِم کر لیا بلکہ دوسروں کے لیے بھی لازِم جانا تاکہ ان کی زندگیاں بھی اَحْکامِ خُدا و رسول پر عَمَل کرنے سے مینارۂ نور بن جائیں۔ جیسا کہ پردے کے بارے میں سوال جواب صَفْحَہ 214پر ہے:ایک مرتبہ اُمُّ المومنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی خِدْمَت سراپا غیرت میں ان کے بھائی حضرت سَیِّدُنا عبدُ الرَّحمٰن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بیٹی سَیِّدَتُنا حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا حاضِر ہوئیں،انہوں نے بارِیک دوپٹّا اَوڑھ رکھا تھا،حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس دوپٹّے کو پھاڑ دیا اور انہیں موٹا دوپٹّا اوڑھا دیا۔[46] مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الامَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی اس دوپٹّہ کو پھاڑ کر دو۲ رُومال بنا دئیے تاکہ
اوڑھنے کے قابِل نہ رہے،رُومال کے کام آوے، لہٰذا اس پر یہ اِعْتِراض نہیں کہ آپ نے یہ مال ضائع کیوں فرما دیا۔ مزید فرماتے ہیں: یہ ہے عملی تبلیغ اور بچیوں کی صحیح تربیّت و تعلیم اس دوپٹّہ سے سر کے بال چمک رہے تھے، سِتْر حاصِل نہ تھا اس لیے یہ عَمَل فرمایا۔[47]
٭…پردہ کرنے میں اَحْکامِ خدا و رسول کی اطاعت ہے۔
٭…پردہ دلوں کی طہارت کا سَبَب ہے۔
٭…پردہ عِفَّت و پاکدامنی کی نِشانی ہے۔
٭…پردہ ایمان کی عَلامَت ہے۔
٭…پردہ عَلامَتِ حَیا ہے۔
٭…پردہ مُحافِظِ حَیا ہے۔
٭…پردہ مُوجِبِ سِتْر ہے۔
٭…پردہ غیرت کا تقاضا ہے۔
٭…بے پردگی اللہ و رسول عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نافرمانی ہے۔
٭…بے پردگی ہلاکت خیز گناہِ کبیرہ ہے۔
٭…بے پردگی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے دُوری اور لعنت کا سَبَب ہے۔
٭…بے پردگی جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔
٭…بے پردگی بروزِ قِیامَت اندھیرے کا باعِث ہے۔
٭…بے پردگی نِفاق کی عَلامَت ہے۔
٭…بے پردگی ایک بُرا کام ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو پسند نہیں۔
٭…بے پردگی مُعاشَرے میں فَحاشی کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہے۔
٭…بے پردگی رُسوائی کا باعِث بنتی ہے۔
٭…بے پردگی شیطانی کام ہے۔
٭…بے پردگی غیر مسلمانوں کی سازِش ہے۔
٭…بے پردگی زمانَۂ جاہِلیَّت کی یاد تازہ کرتی ہے۔
٭…بے پردگی فطرت کے برعکس ہے۔
٭…بے پردگی میں انسانی تہذیب کی تَذْلِیل و تَنَزُّلی ہے۔
٭…بے پردگی بے شُمار بُرائیوں کی اصل ہے۔
٭…بے پردگی حَیا و غیرت کے خاتمے کا سَبَب ہے۔
٭…بے پردگی نوجوان نسل کی تباہی کا بَہُت بڑا ذریعہ ہے۔
٭…بے پردگی بسااَوقات خاندانوں میں پھوٹ کا باعِث بن جاتی ہے۔
٭…بے پردگی آنکھوں کے زِنا کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
٭…افسوس! موجودہ دَور میں بھی زمانۂ جاہِلیَّت والی بے پردَگی پائی جارہی ہے۔ یقیناً جیسے اُس زمانہ میں پردہ ضَروری تھا وَیسا ہی اب بھی ہے ۔ [48]
٭…اِس گئے گزرے دَور میں جس میں پردے کا تصوُّر ہی مِٹتا جارہا ہے، مرد و عورَت کی آپَسی بے تکلُّفی اور بدنِگاہی کو مَعَاذَ اللہ عیب ہی نہیں سمجھا جا رہا ایسے نا مُساعِد حالات میں ہرحیادارو پردہ دار اسلامی بہن سمجھ سکتی ہے کہ اُس کو کتنی محتاط زندَگی گزارنی چاہئے۔[49]
٭…اب تو حالات دن بدن بگڑ تے جارہے ہیں، شرعی پردے کا
تصوُّر ہی ختم ہوتا جارہا ہے سچ پوچھو تو حالت ایسی ہے کہ مُبالَغے کے ساتھ عرض کروں
تو اِس نازک ترین دَور میں عورت کوہزار پردوں میں چُھپا دیا جائے تب بھی کم ہے![50]
٭…مسلمانوں کی ترقّی میں پردہ نہیں درحقیقت بے پردَگی رُکاوٹ ہے۔[51]
٭…جو جسم کے پردے کا مُطْلَقاً انکار کرے اور کہے کہ صِرْف دل کا پردہ ہونا چاہیے، اُس کا ایمان جاتا رہا۔[52]
٭…پردہ وُہی کرے گی جس کادل اچّھا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت کی طرف مائل ہو گا۔[53]
٭…افسوس! صدکروڑ افسوس! جوان لڑکی اب چادر اور چار دیواری سےنکل کر مخلوط تعلیم کی نُحُوست میں گرفتار،بوائے فرینڈ کے چکّر میں پھنس گئی، اسے جب تک چادر اور چار دیواری میں رہنے کی سعادت حاصِل تھی وہ شرمیلی تھی اور اب بھی جو چادر و چار دیواری میں ہوگی وہ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّباحیا ہی ہوگی۔[54]
٭…افسوس! حالات بِالکل بدل چکے ہیں، اب تواکثر کَنواری لڑکیاں شادیوں میں خوب ناچتیں اور مہندی و مائیوں کی رَسموں وغیرہ میں بے باکانہ بے حیائی کے مُظاہَرے کرتی ہیں، بعض قوموں میں یہ بھی رَواج ہے کہ دولہا نکاح کے بعد رُخصتی سے قبل نامَحرمات کہ جن سے پردہ ضروری ہے اُن جوان لڑکیوں کے جُھرمَٹ میں جاتا ہے اور وہ دولھا کے ساتھ کھینچا تانی و ہنسی مذاق کرتی ہیں یہ سرا سر ناجائز و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔[55]
٭…آج کی فیشن ایبل وبے پردہ لڑکیا ں اَفعال و اَقوال ہر لحاظ سے چادرِ حَیا کو تار تار کر رہی ہیں۔[56]
٭…مُعاشَرے کا اکثر حصّہ
حَیا سے محروم ہے! تقریباً ہر گھر میں ٹی وی پر فلموں ڈراموں کے باعِث بے پردَگی اور بے حیائی کا ماحول ہے۔
دُنیوی رسائل، ڈائجسٹ اور ناولیں پڑھ پڑھ کر، اخبارات میں دنیا بھر کی گندی گندی خبریں اورمُخَرِّبِ اَخلاق مضامین کا مطالعہ کر کر
کے اور سڑکوں پر جابجا لگے ہوئے سائن بورڈز اور اخبارات کی بے حیائی سے بھر
پور تصاویر دیکھ دیکھ کر ذہنیت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے شاید انہیں وُجوہات
کی بنا پر
اب ماموں زاد، خالہ زاد، چچا زاد، پھوپھی زاد، چچی، تائی مُمانی نیز پڑوسنوں سے پردے کا ذہن نہیں رہا۔[57]
٭…خالہ زاد ، ماموں زاد، پھُوپھی زاد، چَچا زاد،تایازاد، دیور و جیٹھ، خالو، پھوپھا، بہنوئی بلکہ اپنے نامحرم پیرو مرشِد سے بھی پردہ کیجئے ۔ نیز مرد کا بھی اپنی مُمانی،چچی،تائی،بھابھی اور اپنی زوجہ کی بہن وغیرہ رشتے داروں سے پردہ ہے۔ مُنہ بولے بھائی بہن،منہ بولے ماں بیٹے اورمنہ بولے باپ بیٹی میں بھی پردہ ہے حتّٰی کہ لے پالک بچہ (جب مرد و عورت کے مُعامَلات سمجھنے لگے تو) اس سے بھی پردہ ہے البتّہ دودھ کے رشتوں میں پردہ نہیں مَثَلاً رَضاعی ماں بیٹے اور رَضاعی بھائی بہن میں پردہ نہیں۔[58]
٭…اگر ایک گھر میں رَہتے ہوئے عورت کیلئے قریبی نامَحرم رشتہ داروں سے پردہ دشوارہو تو چہرہ کھولنے کی تو اجازت ہے مگر کپڑے ہرگز ایسے باریک نہ ہوں جن سے بدن یا سر کے بال وغیرہ چمکیں یاایسے چُست نہ ہوں کہ بدن کے اعضا جسم کی ہیئت (یعنی صورت و گولائی) اور سینے کا اُبھار وغیرہ ظاہِر ہو۔[59]
٭…مسلمان عورت کاکافِرہ سے اُسی طرح پردہ ہے جس طرح اجنبی
مرد سے۔
کافِر ہ کے لئے عورت کے بدن کے وہ تمام حصّے سِتْر ہیں جو کہ ایک اجنبی مرد کے لئے ہیں۔[60]
٭…افسوس! آج کل ’’خود کُشی ‘‘کچھ زیادہ ہی عام ہو گئی ہے،اس کا ایک بَہُت بڑا سَبَب عِلْمِ دین سے دُوری ہے،داڑھی مُنڈوں،یا جذباتی ماڈَرن بے رِیش لڑکوں،اسکول و کالج کے طالِب علموں،دُنیوی تعلیم یافتوں یا بے پردہ و فیشن ایبل عورَتوں میں ہی خود کُشی کا مَیلان دیکھا جا رہا ہے۔آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گاکہ فُلاں دینی طالِبِ عِلم یا عالِمِ دین یا مفتی صاحِب یا شریعت کی پابند پردہ نشین نیک بی بی نے خود کُشی کر لی۔[61]
٭…پردہ کرنے میں جتنی تکلیف زِیادہ ہو گی اُتنا ہی ثواب بھی اِنْ شَآءَ اللہ زیادہ ملے گا۔[62]
٭…باحیااسلامی بہنیں اپنے گھروں کے اندرپردہ نشین ہوتی ہیں کیونکہ گلیوں، بازاروں میں بے پردہ پھرنابے حَیاعورَتوں کاکام ہے۔[63]
٭…شاپنگ سینٹروں میں آج کل اکثر بے حیائی سے لبریز گناہوں
بھرا ماحو ل
ہوتاہے اور عورت صِنْفِ نازُک ہے اسے وہاں سے دُور رہنے ہی میں عافیّت ہے۔[64]
٭…چَراغاں دیکھنے کیلئے عورتوں کااَجنبی مردوں میں بے پردہ نکلنا حرام و شَرمناک نیز باپردہ عورتوں کا بھی مُروَّجہ انداز میں مَردوں میں اختِلاط (یعنی خَلط مَلط ہونا) انتِہائی افسوس ناک ہے۔[65]
٭…اسلامی بہنوں سے مَدَنی التجا ہے کہ کسی کو بھی ڈھیلا ڈھالا بھدّے رنگ کا بالکل بے کشَش خیمہ نُما حقیقی مَدَنی بُرقَع پہننے پر مجبور نہ کریں کہ کئی گھروں میں سختیاں بَہُت زیادہ ہیں،شریعت و سنّت کے احکامات پر عمل کرنے والوں اور والیوں کے ساتھ آج کل مُعاشَرے میں اکثر بے حد ناروا سُلوک کیا جاتا ہے۔[66]
٭…بے شک کتنی ہی پُرانی اسلامی بہن ہو اور وہ کیسا ہی خوبصورت بُرقع پہنے یا میک اپ کرے اُس پر طنز کر کے اس کی دل آزاری نہ کریں کہ بِلامَصلحتِ شَرعی مسلمان کا دل دُکھانا حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔[67]
٭…جب تک گھر کے اندر داخِل نہ ہوجائیں اُس وَقت تک بُرقع تو بُرقَعْ چِہرہ سے نِقاب بھی نہ ہٹائیں کہ گلی اوربِلڈنگ کی سِیڑھیوں وغیرہ پر بھی نا مَحرم افراد ہوسکتے ہیں اور ان سے پَردہ کرنا ضَروری ہے۔[68]
٭…اسلامی بہن کے جو بال کَنگھی وغیرہ کے ذَرِیْعے جُدا ہوں ان کوچُھپا دے یا دفْن کر دے۔[69]
٭…جس کے گھر میں نا مَحرم ساتھ رہتے ہوں یا مہمانوں کی آمدو رفت ہو اُن اسلامی بہنوں کو حمام وغیرہ سے اپنے بال چُن لینے میں زیادہ احتیاط کرنی چاہئے۔ نیز جب بھی غسل سے فارغ ہوں صابن پر چپکے ہوئے بال بھی نکال لیا کریں۔[70]
٭…اسلامی بہن کا اپنے کپڑے کی سِلائی کے لئے نامحرم درزی کو اپنے بدن کے ذَرِیعے ناپ دینا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔[71]
٭…اسلامی بہن بات بات پر گھر سے باہَر نہ دوڑتی پھرے۔صِرف شَرعی مصلحت کی صورَت میں پردے کی تمام قُیودات کے ساتھ باہَر نکلے۔[72]
٭…اسلامی بہن کا ہجڑے (کُھسرے) سے بھی پردہ ہے کیونکہ ہِجڑا یعنی مُـخَـنِّث بھی مَرد ہی کے حکم میں ہے۔[73]
٭…شرعی پردے کے تعلُّق سے استِقامت پانے کیلئے تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے۔دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام بھی کرتی رہئے اور سنّتوں کی تربیَّت کے مَدَنی قافِلوں کی مُسافِرہ بننے کی سَعَادَت بھی حاصِل فرماتی رہئے۔[74]
٭…اسلامی بہنوں کے مَدَنی قافِلے کی ہر مُسافِرہ کے ساتھ اُس کے بچّوں کے ابّو یا قابِلِ اعتماد مَحرم کا ساتھ ہونا لازِمی ہے، نیز ذمّے داران کو اپنی مرضی سے مَدَنی قافِلے سفر کروانے کی اِجازَت نہیں مَثَلاً پاکستان کی اسلامی بہنو ں کے مَدَنی قافلے کے لیے”اسلامی بہنوں کی مجلس برائے پاکستان “کی منظوری ضَروری ہے۔[75]
٭…شَرعی اِجازَت کی صُورَت میں گھر سے نکلتے وَقت اسلامی بہن غیر جاذِبِ نظر کپڑے کا ڈِھیلا ڈھالا مَدَنی بُرقع اَوڑھے، ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جُرابیں پہنے۔مگر دستانوں اور جُرابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال
کی رنگت جھلکے۔[76]
٭…چاہے کتنی ہی سخت آزمائش آن پڑے شَرعی پردہ ترک نہ کیجئے، اللہ شہزادئ کونَین، بی بی فاطِمہ اورامُّ المؤمنین بی بی عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماکے صدقے آسانی فرما دے گا۔[77]
٭…موت یا طلاق کی عدّت کے دَوران اسلامی بہن سنتیں سیکھنے یا سکھانے کیلئے گھر سے باہَرنہیں جاسکتی۔ [78]
٭…نامحرم پیر اور مُریدَنی کابھی پردہ ہے۔ مُریدَنی اپنے نامحرم پیر کا ہاتھ نہیں چوم سکتی۔[79] کہ یہ حرام ہے، پیر نہ روکے تو وہ بھی گنہگار ہے۔[80]
٭…اسلامی بہن کیلئےبہتر یہی ہے کہ گھر کے کسی مَحرم کے ذَرِیْعے قرآن سیکھے ورنہ باَمْرِمجبوری کسی اسلامی بہن سے سیکھنے کیلئے اِس طرح باہَر نکلے کہ پردے کے تمام شَرعی تقاضے پورے ہوں۔[81]
٭…عورَت رَمَضانُ الْمبارَک میں اپنے شوہر یا قابلِ اطمینان مَحرم کے ساتھ
عمرہ کر سکتی ہے مگر عمرہ چُونکہ فرض یا واجِب نہیں اگر عورت اِس کے لئے نہ نکلے تو کسی قسم کا گُناہ بھی نہیں۔[82]
پیاری پیاری اسلامی بہنو!صحابیات كی زندگیاں واقعی ہمارے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا ہمارے لیے زندگی کو شریعت کے سنہرے اُصولوں کے مُطابِق گزارنے کی کوشش کرنے میں صحابیات کی زندگیوں سے ماخوذ وہ مَدَنی پھول انتہائی اَہَمِیَّت کے حامِل ہیں جو حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی نے نَقْل فرمائے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
٭…عورت کو چاہئے کہ ہمیشہ اپنے گھرکی چاردیواری میں گوشہ نشین رہے۔
٭… (بِلاضرورت) چھت پر بار بار نہ چڑھے۔
٭…اپنی گفتگو پر پڑوسیوں کو آگاہ نہ کرے۔ (یعنی اتنی آوازمیں گفتگو کرے کہ اس کی آواز چار دیواری سے باہَرنہ جائے)
٭…بِلا ضرورت پڑوسیوں کے پاس آیا جایا نہ کرے۔
٭…جب اس کاشوہراس کی طرف دیکھے تواُسے خوش کرے۔
٭…شوہرکی غیرمَوجُودَگی میں اُس کی عزّت کی حِفَاظَت کرے۔
٭… گھرسے نہ نکلے، (ضرورتاً) اگر کسی کام سے نکلنا پڑے تو باپردہ ہو کرنکلے۔
٭…اپنی غُربت وغیرہ کوچھپائے بلکہ جو اسے جانتا ہو اس کے سامنے اپنی غُربت کا اِظْہَار نہ کرے۔
٭…اِصلاحِ نفس اور گھریلو مُعامَلات کی دُرُستی میں انتہائی کوشش کرے۔
٭… نماز، روزے کی پاپندی کرے۔
٭…اپنے عُیُوب پر نظر رکھے۔
٭… دِینی مُعامَلہ میں خوب غور و تفکر کرے۔
٭… خاموشی کی عادت بنائے۔
٭… نگاہیں نیچی رکھے۔
٭…اپنے دِل میں ربِّ جبَّار کا خوف پیدا کرے۔
٭…کثرت سےاللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذِکْر کرے۔
٭…اپنے شوہر کی فرمانبردار رہے۔
٭…شوہر کو رزقِ حَلال کمانے کی ترغیب دلائے۔
٭…شوہر سے تحائف وغیرہ کی زِیادہ فرمائش نہ کرے۔
٭…شَرْم وحَیا کو لازِم پکڑے۔
٭…بدزبانی وفُحش کلامی نہ کرے۔
٭…صبرو شکر کا دامَن کبھی نہ چھوڑے۔
٭…اپنے نفس کےمُعامَلے میں اِیثار کرے۔
٭…اپنی حالت اور خوراک کے مُعامَلے میں خود کو تسلی دے۔
٭…جب شوہر کا دوست گھر میں آنے کی اِجازَت چاہے اور شوہر گھر میں مَوجُود نہ ہو تو اُسے گھرمیں آنے کی اِجازَت نہ دے اور اپنے نفس اور شوہر سے غیرت کرتے ہوئے اُس سے کثرتِ کلام نہ کرے۔[83]
پیاری پیاری اسلامی بہنو! عَمَل کا جذبہ بڑھانے کیلئے مَدَنی ماحول ضَروری ہے، ورنہ عارِضی طور پر جذبہ پیدا ہوتا بھی ہے تو اچّھی صحبت کے فُقدان (یعنی کمی ) کے سَبَب اِسْتِقَامَت نہیں مل پاتی۔اپنا مَدَنی ذِہن بنانے کیلئے تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہو جائیے۔ سُبْحٰنَ اللہ!دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول،سنّتوں بھرے اجتِماعات اور مَدَنی قافِلوں کی بھی کیا خوب بہاریں اور بَرَکتیں ہیں۔ دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے ماحول میں رچنے بسنے کی برکت سے مُتَعَدِّد اِسلامی بہنوں کو شرعی پردہ کرنے کی سعادَت نصیب ہوگئی ایسی ہی ایک مَدَنی بہار ملاحظہ فرمائیے۔چنانچہ،
باب المدینہ(کراچی )شیر شاہ عالمگیر روڑ کی ایک اِسلامی بہن مَدَنی ماحول کی برکتوں کا ذکر کرتے ہوئے کچھ یوں بیان کرتی ہیں: دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے مَدَنی ماحول سے منسلک ہونے سے قبل افسوس! جہاں میں فکرِ آخِرَت سے نابلد تھی وہیں مَقْصَدِ حَیات سے بے خبر زِنْدَگی کی اَنمول سانسیں برباد کررہی تھی۔ وہ والدین جن کی خِدْمَت سراپا برکت میں دنیا وآخِرَت کی سُرخروئی پوشیدہ ہے جب مجھے کسی بات کا حکْم دیتے تو عَمَل کرکے اَجر وثواب کی حقدار بننے کے بجائے حکْم عُدُولی کرکے نارِ جہنّم کا سامان کرتی۔
شیطان بدبخت ہرلمحے اِیمان کو برباد کرنے کے ہتھکنڈے اپناتا اور گناہوں پر اکساتا ہے اور ان کی رَغْبَت دلاکر آخِرَت برباد کرنا چاہتا ہے، مگر ہائے افسوس! میں اس کے مکروفریب سے بچ کر قرآن وسنّت کے مُطابِق زِنْدَگی گزارنے کے بجائے خوب بال سنوار کر گلے میں دوپٹہ ڈال لیتی،یوں بے پردگی کے باعِث نامحرم لوگوں کے سامنے آکر جہاں خود گناہِ کبیرہ میں مبتلا ہوتی وہیں دیگر کو بھی بدنِگاہی کے وبال کا شِکار کرتی۔ میں اس بے پردگی والی عادت پر بہت خوش تھی، مگر زِنْدَگی کی ان خَرْمستیوں میں یہ بھول چکی تھی کہ یہ گناہ مجھے آخِرَت میں برباد کرسکتاہے۔پھر اچانک میری زِنْدَگی میں ایک اِنقلاب برپا ہوا اور میں اس گناہ کی تباہ کاریوں کے بارے میں نہ صرف بخوبی جان گئی بلکہ بے پردگی کے عِفْرِیت سے
بھی مجھے ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی۔ اس کی صُورَت کچھ یوں بنی کہ خوش قسمتی سے ایک بار مجھے تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے اسلامی بہنوں کے سنّتوں بھرے اجتماع میں جانے کا موقع مل گیا، وہاں حَیا سے معمور مَدَنی ماحول دیکھ کر بہت اچھا لگا، مزید سنّتوں بھرا بیان اور دعا سن کر مجھ پر رِقَّت طاری ہوگئی ، دورانِ دُعا بے پردگی اور دیگر گناہوں سے توبہ کی اور سنّتوں پر عَمَل کرنے کے جذبے کے تحت مَدَنی ماحول اِخْتِیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔جلدہی مَدَنی بُرقع میرے لِباس کا حصّہ بن گیا اور میں آخِرَت سنوار نے، قَبْر روشن کرنے اور شَفاعَتِ رَسول کی حقدار بننے کے لیے راہِ ہِدَایَت پر گامزن ہوگئی ، مزید نفس و شیطان کے مکروفریب سے بچنے کے لیے پندرھویں صدی کی عظیم علمی و رُوحانی شخصیت، شیخِ طریقت، امِیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد اِلیاس عطّار قادری رَضَوِی ضِیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ذریعے سلسلہ عالیہ قادریہ عطاریہ میں داخِل ہوگئی ، ایک ولی کامِل کا دامَن کیا تھاما علمِ دین کا شوق دل میں پیدا ہوگیا اور میں اپنے دل کو نورِ قرآن سے مُنوّر کرنے کیلئے مُعَلِّمہ کورس میں شامِل ہوگئی، تادمِ تحریر مُعَلِّمہ کورس کرنے کے بعد مدرسۃ المدینہ(للبنات )میں مَدَنی منّیوں کو کلامِ اِلٰہی پڑھانے کے ساتھ ساتھ ذیلی سطح پر خادِمہ کی حیثیت سے قَبْر و آخِرَت کو سنوار نے کی کوشش میں مصروف ہوں۔
کٹی ہے غفلتوں میں زندَگانی |
نہ جانے حشر میں کیا فیصلہ ہو |
الٰہی ہوں بَہُت کمزور بندی |
نہ دُنیا میں نہ عُقبٰی میں سزا ہو |
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
|
قرآن مجید |
کلام باری تعالٰی |
|
نمبر شمار |
کتاب |
مصنف/مؤلف |
مطبوعہ |
1. |
کنز الایمان |
اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان،متوفی ۱۳۴۰ھ |
مکتبة المدینه، باب المدینه |
2. |
تفسیر بیضاوی |
ناصرالدين عبد الله بن عمر بن محمدشيرازی، متوفى۶۸۵ھ |
دار احياء التراث العربی |
3. |
الدر المنثور |
امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی شافعی ، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الفکر بیروت۱۴۳۲ھ |
4. |
موطا امام مالك |
امام مالك بن انس اصبحی، متوفی ۱۷۹ھ |
دار المعرفة بيروت۱۴۳۳ھ |
5. |
المسند |
امام احمد بن محمد بن حنبل، متوفی ۲۴۱ھ |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۹ھ |
6. |
صحیح البخاری |
امام ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری، متوفی ۲۵۶ھ |
دار المعرفة بيروت۱۴۲۸ھ |
7. |
صحیح مسلم |
امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری، متوفی ۲۶۱ھ |
دار الکتب العلمية بيروت 2008 ء |
8. |
سنن ابن ماجه |
امام ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجه، متوفی ۲۷۳ھ |
دار الکتب العلمية بيروت2009 ء |
9. |
سنن ابی داود |
امام ابوداود سلیمان بن اشعث سجستانی، متوفی۲۷۵ھ |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۸ھ |
10. |
سنن الترمذی |
امام ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی ترمذی، متوفی۲۹۷ھ |
دار الکتب العلمية بيروت2008 ء |
11. |
کنزالعمال |
علامه علی متقی بن حسام الدین برهان پوری، متوفی۹۷۵ھ |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۴ھ |
12. |
فتح الباری |
امام حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی، متوفی ۸۵۲ھ |
دار السلام الرياض۱۴۲۱ھ |
13. |
مراٰۃ المناجیح |
مفتی احمد یار خان نعیمی،متوفی۱۳۹۱ھ |
نعيمی کتب خانہ گجرات |
14. |
الدر المختار |
محمد بن علی المعروف بعلاء الدین حصکفی، متوفی ۱۰۸۸ھ |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۳ھ |
15. |
فتاوٰی هنديه |
علامہ همام مولانا شیخ نظام وجماعةمن علماء الهند، متوفی۱۱۶۱ھ |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۱ھ |
16. |
رد المحتار |
محمد امین ابن عابدین شامی، متوفی ۱۲۵۲ھ |
دار المعرفه بيروت۱۴۲۸ھ |
17. |
فتاوٰی رضويه |
اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ |
رضا فاؤنڈیشن، لاهور |
18. |
بهار شريعت |
مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ |
مکتبة المدینه، باب المدینه کراچی |
19. |
وقار الفتاوی |
مولانامفتی محمد وقار الدین، متوفی ۱۴۱۳ھ |
بزم وقار الدین کراچی2001ء |
20. |
مجموعة رسائل امام غزالی |
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ |
المکتبة التوفيقية القاهرة مصر |
21. |
سیرت سید الانبیا |
شيخ كبير مولانا محمد هاشم ٹھٹھوی، متوفی ۱۱۷۴ھ |
مظهر علم کالا خطائی روڈ شاھدرہ لاهور۱۴۲۱ھ |
22. |
مدارج النبوة |
شیخ محقق عبدالحق محدث دهلوی، متوفی ۱۰۵۲ ھ |
النورية الرضوية لاهور |
23. |
اخبار الاخیار |
شیخ محقق عبدالحق محدث دهلوی متوفی ۱۰۵۲ ھ |
النورية الرضوية لاهور |
24. |
الطبقات الکبری |
محمد بن سعد بن منیع ھاشمی، متوفی ۲۳۰ھ |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۱۱ھ |
25. |
صفة الصفوة |
امام ابوالفرج عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، متوفی۵۹۷ھ |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۷ھ |
26. |
کتاب التعریفات |
سید شریف علی بن محمد بن علی جرجانی، توفی۸۱۶ھ |
دار النفائس بیروت۱۴۲۸ھ |
27. |
اسلامی زندگی |
مفتی احمدیارخان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ |
مکتبة المدینه، باب المدینہ کراچی |
28. |
پردے کے بارے میں سوال جواب |
حضرت علامه مولانا محمد الیاس قادری دَامَتْ بَرَکاتُهُمُ الْعَالِیَه |
// |
29. |
غیبت کی تباہ کاریاں |
حضرت علامه مولانا محمد الیاس قادری دَامَتْ بَرَکاتُهُمُ الْعَالِیَه |
// |
30. |
فیضانِ سنت جلد اول |
حضرت علامه مولانا محمد الیاس قادری دَامَتْ بَرَکاتُهُمُ الْعَالِیَه |
// |
31. |
باحیا نوجوان |
// |
// |
32. |
کربلا کا خونی منظر |
// |
// |
33. |
صبح بہاراں |
// |
// |
34. |
غفلت |
// |
// |
35. |
نیکی کی دعوت |
// |
// |
36. |
حدائق بخشش |
اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ |
// |
عنوان |
صفحہ نمبر |
عنوان |
صفحہ نمبر |
درود شریف کی فضیلت |
1 |
عہدِ رسالت میں حِجاب |
12 |
شرم وحیا کی پیکر با پردہ صحابیہ کا سفرِ مدینہ |
1 |
پردہ وحِجاب کے دَرَجات |
13 |
پہلا درجہ |
13 |
||
حالتِ سفر میں پردہ |
4 |
گھر سے جنازہ ہی نکلا |
14 |
کیا عورت کا تنہا سفر کرنا جائز ہے؟ |
5 |
جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے |
15 |
پردہ و حجاب کیا ہے؟ |
6 |
کیا پردے کے پہلے درجہ پر عَمَل صحابیات ہی کا کام تھا؟ |
15 |
عورت کسے کہتے ہیں؟ |
7 |
||
پردے کا حکْم کب نازِل ہوا؟ |
8 |
دوسرا درجہ |
17 |
پردہ صِرف عورتوں کیلئے ہی کیوں؟ |
9 |
صحابیات کا حجاب کیسا تھا؟ |
17 |
کیا عورتوں کا گھروں میں رہنا ظلم ہے؟ |
10 |
گھر سے باہَر نکلنے کی احتیاطیں |
18 |
خواہ مخواہ کی عذر خواہی سے بچئے |
20 |
||
پردہ وحِجاب گویا اِسلامی شعار ہے |
11 |
تیسرا درجہ |
22 |
سِتْرِعورت کیا ہے؟ |
23 |
فروغ و حفاظتِ حجاب میں صحابیات کا کردار |
36 |
|
پردہ مگر کن سے؟ |
25 |
|||
پردہ دار کے لیے آزمائش |
27 |
پردے کے بارے میں قرآن و سنّت سے ماخوذ مَدَنی پھول اور بے پردگی کی تباہ کاریاں |
37 |
|
مرض یا کسی مصیبت میں پردے کا اہتمام کرنا کیسا؟ |
28 |
|||
بیٹا کھویا ہے،حیا نہیں |
30 |
پردے کے مُتَعَلِّق مدنی پھول |
37 |
|
حالتِ مرض میں بے پردہ ہو جانے کی فکر |
30 |
بے پردگی کی تباہ کاریاں |
38 |
|
پردے کے متعلق امیر اہلسنت کی مختلف کتب سے ماخوذ چند مدنی پھول |
39 |
|||
پردے میں اِحتیاط کی مثالیں |
31 |
|||
حالتِ اِحرام میں بھی پردہ |
32 |
چند آدابِ حَیات |
48 |
|
جہانِ فانی سے کوچ کر جانے والوں سے پردہ |
33 |
بے پردَگی سے نفرت |
50 |
|
مآخذ ومراجع |
53 |
|||
شرحِ حدِیث |
34 |
فہرست |
56 |
تمام اسلامی بہنوں کو خاص تاکید ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے ہماری پیاری مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی کو کسی قسم کا نقصان پہنچے ۔مثلاً رشتہ کروانا، شادی بیاہ ، طلاق ،لڑائی جھگڑے یا گھریلو مُعاملات میں دخل اندازی، کسی سے قرض یا سوال کرنا و ذاتی دوستیوں ، گروپ بندیوں، مخصوص دعوتوں ، قیمتی تحائف کے تبادلوں سے اجتناب ، اجتناب ، اور ضَرور اجتناب فرماتی رہیں۔ (تحفہ یا رشوت کے بارے میں فیضانِ سنّت تخریج شدہ ص53کا مطالعہ فرمائیں)
[1] ………کنزالعمال، کتاب الاذکار، الباب السادس ………الخ، المجلد الاول، ١/٢٥٠، حدیث:٢١٧٤
[2] ………صفةالصفوة ،ذكر المصطفيات من طبقات الصحابيات،ام کلثوم بنت عقبه بن ابی معیط، المجلد الاول، ٢/ ٣٩
[3] ………مراٰۃ المناجیح ،حج کا بیان،پہلی فصل، ۴/۹۰
[4] ………پردے کے بارے میں سوال جواب، ص ۱۶۵
[5] ………بہارِ شریعت، نماز مسافر کا بیان، ۱/ ۷۵۲
[6] ………کتاب التعریفات، حرف الحاء، ص ١٤٥
[7] ……… فتح الباری، کتاب التفسیر، باب قوله (وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ)، ٨/٥٨١، تحت الحدیث:٤٧٥٠
[8] ………مراٰۃ المناجیح ،پردے کے احکام،دوسری فصل، ۵/۱۶
[9] ………ترمذی،کتاب الرضاع،١٨-باب، ص٣٠٤، حدیث:١١٧٣
[10] ………مراٰۃ المناجیح ،پردے کے احکام،پہلی فصل، ۵/۱۳
[11] ………ترمذی،کتاب الرضاع،١٨-باب، ص٣٠٤، حدیث:١١٧٣
[12] ……… مراٰۃ المناجیح ،پردے کے احکام،دوسری فصل، ۵/۱۷
[13] ………سیرت سید الانبیا، حصہ دوم، باب سوم، فصل چہارم، ۴ ہجری کے واقعات، ص ۳۵۱
3 ……… فتح الباری،کتاب المغازی،باب غزوۃانمار،۷/۵۳۷،تحت الحدیث:۴۱۴۰
[14] ……… ترجمۂ کنزُ الایمان:شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔
[15] ………اسلامی زندگی، ص ۱۰۶، ملتقطاً
[16] ……… خزائن العرفان، پ۲۲، الاحزاب،:۳۳، ص ۷۸۰
[17] ………بخاری،کتاب النکاح، باب البناء فی السفر، ص١٣٢٧، حدیث:٥١٥٩
[18] ……… بیضاوی،پ٢٢، الاحزاب، تحت الآية:٥٣،٣/٢٣٧
[19] ……… در منثور،پ ٢٢، الاحزاب، تحت الآية:٣٣، ٦/٥٩٩
[20] ………مدارج النبوت، قسم پنجم، باب اوّل، ذکر وفات فاطمہ زہرا، الجزء الثانی، ص۴۶۱
[21] ……… اخبار الاخیار ذکر بعضے از نسائے صالحات،بی بی سارہ،ص۲۹۴
[22] ………حدائق بخشش، ص١٥٨
[23] ………مسلم،کتاب صلاة العیدین، باب ذکراباحة ………الخ، ص٣١٧ ، حدیث:٨٩٠
[24] ………ابو داود،کتاب اللباس،باب فی قوله يدنين عليهن …الخ، ص٦٤٥، حدیث : ٤١٠١، مفهوماً
[25] ………فتاوٰی رضویہ، ۲۲ /۲۱۷
[26] ………کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابة، عکرمه رضی الله عنه، المجلد السابع،
١٣ /٢٣٢، حدیث:٣٧٤١٦، مفهوماً
[27] ……… در مختار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ص٥٨
[28] ……… فتاوٰی ھنديه ، کتاب الصلاة ، الباب الثالث فی شروط الصلاة، الفصل الاول، ١/٦٥
[29] ……… بہا رِشريعت ،نماز کی شرطوں كا بيان، ۱/۴۸۰
[30] ………ابو داود،کتاب اللباس، باب فی لبس القباطی للنساء، ص ٦٤٧، حدیث: ٤١١٦
[31] ………ردالمحتار، کتاب الصلاة، مطلب الی وجه الامرد، ٢/١٠٣
[32] ……… بہارِشريعت، نماز کی شرطوں کا بیان، ۱/۴۸۰
[33] ……… پردے کے بارے میں سوال جواب، ص ۴۴، ۴۵ ملتقطاً
[34] ……… بخاری ، کتاب النکاح، باب لا یخلون رجل …الخ، ص١٣٤٤، حدیث:٥٢٣٢
[35] ………وقا ر الفتاوٰی، ۳/۱۵۱
[36] ……… پردے کے بارے میں سوال جواب، ص ۵۰ تا ۵۲، ملتقطاً
[37] ………ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الصبر علی المصیبة، ص٢٥٦، حدیث: ١٥٩٧
پردے کے بارے میں سوال جواب، ص۵۲ تا ۵۵ ملتقطاً
[38] ……… بخاری،کتاب المرضی، باب ماجاء فی کفارة المرض، ص١٤٣١، حدیث:٥٦٤١
[39] ………ابو داود ،کتاب الجهاد، باب فضل قتال ………الخ، ص٣۹٧، حدیث:٢٤٨٨ ملتقطاً
[40] ………بخاری،کتاب المرضی،باب فضل من یصرع من الریح، ص١٤٣٣، حدیث:٥٦٥٢
[41]……… ابو داود،کتاب المناسك،باب فی المحرمة تغطی وجھھا، ص٢٩٧، حدیث:١٨٣٣
[42] ………مراٰۃ المناجیح ،باب محرم کس چیز سے بچے، دوسری فصل، ۴/ ۱۸۸-۱۸۹بتغیر
[43] ………المرجع السابق، ص ۱۸۸
[44] ………مسند احمد، مسند عائشه رضی الله عنھا، ١٠/٤٥٧، حدیث:٢٦٤٠٨
[45] ………مراٰۃ المناجیح، قبروں کی زیارت، تیسری فصل، ۲/۵۲۷
[46] ……… موطا امام مالك،کتاب اللباس، باب ما یکرہ للنساء … الخ، ص٤٨٥، حدیث:١٧٣٩
[47] ………مراٰۃ المناجیح، لباس کا بیان، تیسری فصل، ۶/۱۲۴
[48] ………پردے کے بارے میں سوال جواب، ص۳
[49] ………پردے کے بارے میں سوال جواب، ص۱۰۳
[50] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۱۰۶
[51] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۱۵۲
[52] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۱۹۴
[53] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۱۹۵
[54] ………باحیا نوجوان، ص ۱۶
[55] ………باحیا نوجوان، ص ۱۷
[56] ………باحیا نوجوان، ص ۱۷
[57] ………باحیا نوجوان، ص ۴۸
[58] ………کربلا کا خونی منظر، ص ۳۳
[59] ………غفلت، ص ۱۳
[60] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۶
[61] ………نیکی کی دعوت، ص ۵۰۶
[62] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۱۹۸
[63] ………فیضان سنت، ۱/۱۲۴۸
[64] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۱۹
[65] ………صبح بہاراں، ص ۲۳
[66] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۷۵
[67] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۷۵
[68] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۷۶
[69] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۷۸
[70] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۷۹
[71] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۸۳
[72] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۸۳
[73] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۸۷
[74] ………پردے کے بارے میں سوال جواب، ص۱۰
[75] ………پردے کے بارے میں سوال جواب، حاشیہ، ص۱۱
[76] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۴۲
[77] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص ۱۷۹
[78] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۲۷۴
[79] ………غیبت کی تباہ کاریاں،ص۳۲۸
[80] ………پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۸۴
[81] ………پردے کے بارے میں سوال جواب، ص۸۶
[82] ………پردے کے بارے میں سوال جواب، ص۱۰۰
[83] ………مجموعه رسائلِ امام غزالی، رساله ادب فی الدین،آداب المرأة فی نفسھا ، ص ٤٤٢