اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ  رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

تذکرہ مُجَدِّدِ اَلْفِ ثانی قُدَّسَ سِرُّہُ النُّوْرانی

شیطٰن لاکھ سُستی دلائے  مگر آپ یہ رسالہ(44صَفحات)مکمَّل

پڑھ لیجئے  اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ وَجَلَّ  آپ کا دل سینے میں جھوم اُٹھے گا۔

100 حاجَتیں پوری ہو ں گی

    سلطانِ دوجہان، سروَرِ ذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ جنت نشان ہے: ’’جو مجھ پر جُمُعہ کے دن اور رات 100 مرتبہ دُرُود شریف پڑھے اللہ تَعَالٰی اُس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا، 70 آخِرت کی اور30 دُنیا کی اوراللہ عَزَّ وَجَلَّایک فِرِشتہ مقرَّر فرمادے گا جو اُس دُرُودِ پاک کو میری قبر میں یوں پہنچائے گا جیسے تمہیں تحائف(Gifts)  پیش کئے جاتے ہیں، بِلاشبہ میرا علْم میرے وِصال(ظاہری وفات) کے بعد وَیسا ہی ہوگا جیسا میری حیات(ظاہری زندگی) میں ہے۔‘‘(جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی  ج۷ ص۱۹۹ حدیث۲۲۳۵۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ولادت باسعادت

     سلسلئۂ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی


نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکی ولادت باسعادت(BIRTH) ہِند کے مقام’’ سرہند ‘‘میں 971ھ/1563ء کو ہوئی۔(زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۲۷ماخوذاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا نام مبارک:احمد،کنیت:ابو البرکات اورلقب: بدرالدین ہے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہامیرالمؤمنین  حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اولاد میں سے ہیں۔

قلعے کی تعمیر اورپانچویں جَدِّ امجد کی برکت (حکایت)

       حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے پانچویں جَدِّ امجد حضرت سیِّدُنا    ا مام رفیع الدین فاروقی سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیحضرت سیِّدُنا مخدوم جہانیاں جہاں گشت سیّد جلال الدین بخاری سہروردیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (وفات: 785ھ) کے  خلیفہ تھے۔ جب یہ دونوں حضرات ہند تشریف لائے اورسرہند شریف سے ’’ موضع سرائس ‘‘پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے درخواست کی کہ’’ موضع سرائس‘‘ اور’’ سامانہ‘‘ کا درمیانی راستہ خطرناک ہے، جنگل میں پھاڑ کھانے والے خوفناک جنگلی جانور ہیں ، آپ    (وقت کے بادشاہ )سلطان فیروز شاہ تغلق کو ان دونوں کے درمیان ایک شہر آباد کرنے کا فرمائیں تاکہ لوگوں کوآسانی ہو۔چنانچہ حضرت سیِّدُنا شیخ امام رفیع الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بڑے بھائی خواجہ فتح اللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے حکم پر ایک قلعے کی تعمیر شروع کی، لیکن عجیب حادثہ پیش آیا کہ ایک دن میں جتنا قلعہ تعمیر کیا جاتا دوسرے دن وہ سب ٹوٹ پھوٹ کر گر جاتا، حضرت سیِّدُنامخدوم سیّد جلال الدین بُخاری


 سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو جب اس حادثے کا علم ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے حضرت امام رفیع الدین سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو لکھا کہ آپ خود جا کر قلعے کی بنیاد رکھیے اور اسی شہر میں سکونت(یعنی مستقل قیام ) فرمائیے، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  تشریف لائے قلعہ تعمیر فرمایا اور پھر یہیں سکونت اختیار فرمائی ۔ حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی ولادت باسعادت اسی شہر میں ہوئی ۔(زُبْدَۃُ الْمَقامات  ص۸۹مُلَخَّصًا)

والد ماجد کا مقام

      حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی  قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے والد ماجد حضرت سیِّدُنا شیخ عبدالاحد فاروقی چشتی قادریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی جید عالم دین اور ولیِ کامل تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہایامِ جوانی میں اکتسابِ فیض کے لیے حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی صابری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ( متوفی944 ھ/1537ء ) کی خدمت میں حاضر ہوئے آستانۂ عالی پر قیام کا ارادہ کیا لیکن حضرت شیخ عبدالقدوس چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے فرمایا:’’ علومِ دینیہ کی تکمیل کے بعد آنا۔‘‘ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب تحصیل علم کے بعد حاضر ہوئے تو حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی وصال فرماچکے تھے اور ان کے شہزادے شیخ رکن الدین چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی (وفات: 983ھ/1575ء)مسندخلافت پر جلوہ افروز تھے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرت شیخ عبدالاحد فاروقیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو سلسلئۂ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت سے مشرف فرمایا اور فصیح و بلیغ عربی میں اجازت نامہ مرحمت فرمایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کافی عرصہ سفر میں


 رہے اور بہت سے اصحابِ معرفت سے ملاقاتیں کیں، بالآخر سر ہند تشریف لے آئے اور آخر عمر تک یہیں تشریف فرما ہو کر اسلامی کتب کا درس دیتے رہے۔ فقہ واُصول میں بے نظیر تھے، کتب ِصوفیائے کرام: تَعَرُّف، عَوارِفُ المَعارِف اور فُصُوصُ الحِکَم کا درس بھی دیتے تھے، بہت سے مشائخ نے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے اِستفادہ(یعنی فائدہ حاصل) کیا۔’’سکندرے‘‘ کے قریب ’’اٹاوے‘‘ کے ایک نیک گھرانے میں آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا نکاح ہوا تھا۔ امام ربانی کے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے 80 سال کی عمر میں 1007ھ/1598ء میں وصال فرمایا۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا مزار مبارک سر ہند شریف میں شہر کے مغربی جانب واقع ہے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے کئی کتب تصنیف فرمائیںجن میں  کُنوزُ الحَقائِقاوراَسرارُ التَّشَہُّدبھی شامل ہیں۔(سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص ۷۷ تا ۷۹ مُلخّصاً ) اللہُ ربُّ العِزّت عَزَّوَجَلَّکی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔      اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

تعلیم و تربیت

        حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے اپنے والد ماجد شیخ عبدالاحد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمد سے کئی علوم حاصل کیے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کو فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی محبت بھی اپنے والد ماجد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے ملی تھی، چنانچہ فرماتے ہیں:’’اس فقیر کو عبادتِ نافلہ خصوصاً نفل نمازوں کی توفیق اپنے والد بزرگوار سے ملی ہے۔‘‘ (مَبْدا ومَعاد ص۶)


 

والد ماجد کے علاوہ دوسرے اساتذ ہ سے بھی استفادہ(یعنی فائدہ حاصل) کیا مثلاً مولانا کمال کشمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بعض مشکل کتابیں پڑھیں، حضرت مولانا شیخ محمد یعقوب صرفی کشمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے کتب حدیث پڑھیں اور سندلی۔حضرت قاضی بہلول بدخشی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے قصیدہ بردہ شریف کے ساتھ ساتھ تفسیر و حدیث کی کئی کتابیں پڑھیں۔حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے 17 سال کی عمر میں علومِ ظاہری سے سندِ فراغت پائی۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص۳۲)

جاہل صوفی شیطان کا مسخرہ

         حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکا اندازِ تدریس نہایت دل نشین تھا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تفسیر ِ بیضاوی،بخاری شریف ،مشکوۃ شریف ،ہدایہ اور شرحِ مَواقِف وغیرہ کتب کی تدریس فرماتے تھے۔ اسباق پڑھانے کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی اصلاح کے مدنی پھولوں سے بھی طلبہ کو نوازتے ۔علمِ دین کے فوائداور اس کے حصول کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے علم و علما کی اہمیت بیان فرماتے ۔جب کسی طالبِ علم میں کمی یا سستی ملاحظہ فرماتے تو اَحسن(یعنی بہت اچھے) انداز میں اس کی اصلاح فرماتے چنانچہ حضرت بدر الدین سرہند ی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں:’’میں جوانی کے عالم میں اکثر غلبۂ حال کی وجہ سے پڑھنے کا ذوق نہ پاتاتوآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کمال مہربانی سے فرماتے:سبق لاؤ اور پڑھو، کیوں کہ جاہل صوفی تو شیطان کا مسخرہ ہے۔‘‘(اَیضاً ص۸۹  مُلَخَّصًا)


 

بیٹا ہو تو ایسا!

        حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیتحصیل علم کے بعدآگرہ(الھند) تشریف لائے اور درس و تدریس کا سلسلئہ شروع فرمایا ،اپنے وقت کے بڑے بڑے فاضل (علمائے کرام) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر علم و حکمت کے چشمے سے سیراب ہونے لگے ۔ جب’’ آگرہ‘‘ میں کافی عرصہ گزر گیا تو والدِماجد عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ الواحِد کو آپ کی یاد ستانے لگی اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دیکھنے کے لیے بے چین ہوگئے، چنانچہ والدمحترم طویل سفر فرما کر آگرہ تشریف لائے اور اپنے لخت جگر (یعنی مجدد الف ثانی ) کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ آگرہ کے ایک عالم صاحب نے جب اُن سے اس اچانک تشریف آوری کا سبب پوچھا توارشاد فرمایا: شیخ احمد(سرہندی) کی ملاقات کے شوق میں یہاں آگیا، چونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان کا میرے پاس آنا مشکل تھا اس لئے میں آگیا ہوں۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۳۳ مُلَخَّصًا)

باپ دیکھے اولاد ثواب کمائے

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!فرمانبر داراور نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈ ک اور دل کا چین ہوتی ہے۔جس طرح والدین کی محبت بھری نظر کے ساتھ زیارت سے اولاد کو ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اسی طرح جس اولاد کی زیارت سے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، ایسی اولاد کے لیے بھی غلام آزاد کرنے کے ثواب کی بشارت ہے چنانچہ فرمانِ مصطفٰے


 

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے :’’جب باپ اپنے بیٹے کو ایک نظر دیکھتا ہے توبیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی:اگرچہ باپ تین سو ساٹھ( 360)مرتبہ دیکھے؟ارشاد فرمایا:’’ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ

 بڑا ہے ۔‘‘(مُعْجَم کبِیرج۱۱ص۱۹۱ حدیث ۱۱۶۰۸)یعنی اُسے سب کچھ قدرت ہے، اس سے پاک ہے کہ اس کو اس کے دینے سے عاجز کہا جائے۔ 

       حضرت علامہ عبدُالرّء وف مُناوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں:مراد یہ ہے کہ جب اصل (باپ)اپنی فَرْع(بیٹے) پرنظرڈالے اوراُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی فرمانبرداری کرتے دیکھے تو بیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کی مثل ثواب ملتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بیٹے نے اپنے رب تعالیٰ کوراضی بھی کیا اورباپ کی آنکھوں کوٹھنڈک بھی پہنچائی کیونکہ باپ نے اُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی فرمانبردار ی میں دیکھاہے۔ ( اَلتّیسیر ج۱ص۱۳۱)

مجدِّد اَلفِ ثانی کا حُلیہ مبارک

    آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی رنگت گندمی مائل بہ سفیدی تھی،پیشانی کشادہ اور چہرہ ٔ مبارک خوب ہی نورانی تھا۔اَبرو دراز،سیاہ اور باریک تھے۔ آنکھیںکشادہ اور بڑی جبکہ بینی(یعنی ناک ) باریک اور بلند تھی۔لب (یعنی ہونٹ)سرخ اور باریک ،دانت موتی کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور چمکدار تھے ۔رِیش (یعنی داڑھی) مبارک خوب گھنی ،دراز اور مربع (یعنی چوکور) تھی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دراز قد اور نازک جسم تھے ۔ آپ کے جسم پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی۔ پاؤں کی ایڑیاں صاف اور چمک دار تھیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ایسے نفیس(یعنی صاف ستھرے) تھے


 

 کہ پسینے سے ناگوار بو نہیں آتی تھی ۔         (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص ۱۷۱ مُلَخَّصًاً )

سنّتِ نکاح

     حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے والد ماجدحضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِجب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو آگرہ (الھند)سے اپنے ساتھ سرہند لے جا رہے تھے، راستے میں جب تھا نیسر(تھا۔ نے ۔سر) پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی صاحبزادی سے حضرت  مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُالنُّوْرَانِی کا عقدِ مسنون(یعنی سنتِ نکاح ) کروادیا۔

مجدِّد اَلفِ ثانی حنفی ہیں

   حضرت سیِّدُنا امام ربانی ، مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیسراج الائمہ حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم  ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کے مقلد ہونے کے سبب حنفی تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِسیِّدُناامامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمسے بے انتہا عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ

شانِ امام اعظم بزبانِ مجدد الف ثانی

       حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بزرگوں کے بزرگ ترین امام ،امامِ اجل ،پیشوائے اکمل ابوحنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِس کی بلندیِ شان کے متعلق میں کیا لکھوں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِس تمام ائمہ مجتہدینرَحِمَہُمُ اللہُ المُبِینمیں خواہ وہ امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہوں یا امام مالکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یاپھر امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِان سب میں سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ وَرَع


 

 و تقویٰ والے تھے ۔امام شافعی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں:اَلْفُقَہَاءُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اَبِیْ حَنِیفَۃ یعنی:تمام فقہا امام ابوحنیفہ کے عیال ہیں ۔ (مَبْدا ومَعاد ص۴۹ مُلَخَّصًا)

 اجازت و خِلافت

        حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکو مختلف سلاسلِ طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی :{۱} سلسلئہ سہروردیہ کبرویہ میں اپنے استاد محترم حضرت شیخ یعقوب کشمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی{۲}سلسلئۂ چشتیہ اور قادریہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد چشتی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے اجازت و خلافت حاصل تھی{۳} سلسلئۂ قادریہ میں کیتھلی ( مضافات سرہند) کے بزرگ حصرت شاہ سکندرقادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے اجازت و خلافت حاصل تھی{۴} سلسلئۂ  نقشبندیہ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِسے اجازت و خلافت حاصل فرمائی ۔ (سیرت مجدد الف ثانی ص۹۱) حضرت  مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے تین سلسلوں میں اکتسابِ فیض کا یوں ذِکر فرمایا ہے: ’’مجھے کثیر واسطوں کے ذریعے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے اِرادت حاصل ہے ۔ سلسلئۂ نقشبندیہ میں 21 ،سلسلئۂ قادریہ میں25اورسلسلئۂ چشتیہ میں 27 واسطوں سے۔‘‘(مکتوباتِ امامِ ربّانی،دفتر سوم،حصہ نہم،مکتوب۸۷ج۲ص۲۶)

پیرو مرشد کا ادب واحترام (حکایت)

     حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیاپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ


 

نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکا بے حد ادب و احترم فرما یا کرتے تھے اور حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بھی آپ کو بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک روز حضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  حجرہ شریف میں تخت پر آرام فرمارہے تھے کہ حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دوسرے درویشوں کی طرح تنِ تنہا تشریف لائے ۔جب آپ حجرے کے دروازے پر پہنچے تو خادم نے حضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکو بیدار کرنا چاہا مگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سختی سے منع فرمایا دیا اور کمرے کے باہر ہی آپ  کے جاگنے کا انتظار کرنے لگے ۔تھوڑی ہی دیر بعد حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی آنکھ کھلی باہر آہٹ سن کر آواز دی کون ہے ؟ حضرت خواجہ باقی باللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:فقیر، محمد باقی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  آواز سنتے ہی تخت سے مضطربانہ(یعنی بے قراری کے عالم میں) اٹھ کھڑے ہوئے اورباہر آکر نہایت عجزوانکساری کے ساتھ پیر صاحب کے سامنے باادب بیٹھ گئے ۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۵۳مُلَخَّصًاً)

مزار شریف پر حاضری

      حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیمرکزالاولیا لاہور میں تھے کہ 25 جُمادَی الْآخِرہ 1012ھ کو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پیرو مرشد حضرت سیِّدُنا خواجہ محمد  باقی باللّٰہنقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا دہلی میں وصال ہوگیا۔ یہ خبرپہنچتے ہی آپ فوراً دہلی روانہ ہوگئے۔دہلی پہنچ کر مزارِ پرانوار کی زیارت کی ، فاتحہ خوانی اور اہلِ خانہ کی تعزیت سے


 

 فارغ ہوکر سر ہند تشریف لائے۔(ایضاً  ص۳۲،۱۵۹ مُلَخَّصًا

نیکی کی دعوت کا آغاز

        حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے یوں تو قیام آگرہ کے زمانے ہی سے نیکی کی دعوت کا آغاز کردیا تھا، لیکن  1008ھ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیسے بیعت کے بعد باقاعدہ کام شروع فرمایا۔ عہدِ اکبری کے آخری سالوں میں مرکز الاولیا لاہور اور سرہند شریف میں رہ کر خاموشی اور دور اندیشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے اس وقت علانیہ کوشش کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جابرانہ اور قاہرانہ حکومت کے ہوتے ہوئے خاموشی سے کام کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا لیکن حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے یہ خطرہ مول لے کر اپنی کوششیں جاری رکھیں اورحضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مکی زندگی کے ابتدائی دور کو پیش ِ نظر رکھا۔ جب دورِ جہانگیری شروع ہوا تو مدنی زندگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برملا کوشش کا آغاز فرمایا۔حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے نیکی کی دعوت اور لوگوں کی اِصلاح کے لیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے سنت ِ نبوی کی پیروی میں اپنے مریدوں، خلفااور مکتوبات کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھایا۔(سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص۱۵۷ ملخّصًا)

امام غزالی کے گستاخ کو ڈانٹا (حکایت)

        ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے سامنے


 

 فلاسِفہ کی تعریف کرنے لگا،اس کا انداز ایسا تھا کہ جس سے علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام  کی تو ہین لازم آتی تھی،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے اسے سمجھاتے ہوئے فلاسفہ کے رد میں حضرت   سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیکا فرمانِ عالی سنایا تو وہ شخص منہ بگاڑ کر کہنے لگا:غزالی نے نامعقول بات کہی ہے، مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ۔حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی شان میں گستاخانہ جملہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو جلال آگیا! فوراً وہاں سے اٹھے اوراسے ڈانٹتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’اگر اہلِ علم کی صحبت کا ذوق رکھتے ہو تو ایسی بے ادبی کی باتوں سے اپنی زبان بند رکھو ۔‘‘(زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۳۱)

گستاخ کا عبرتناک انجام (حکایت)

         میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کسی بھی مسلمان کی تحقیردنیا و آخرت دونوں ہی کے لیے نقصان دہ ہے لیکن بزرگانِ دین کی گستاخی کی سزا بعض اوقات دنیا میں ہی دی جاتی ہے تاکہ ایساشخص لوگوں کے لیے عبرت کا سامان بن جائے ۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا تاج الدین عبدالوہاب بن علی سبکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ایک فقیہ( یعنی عالم دین) نے مجھے بتا یا کہ ایک شخص نے فقہ شافعی کے درس میں حضرت سیِّدُنا اما م محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیکو برا بھلا کہا، میں اس پر بہت غمگین ہوا،رات اسی غم کی کیفیت میں نیند آگئی۔ خواب میں حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیکی زیارت ہوئی، میں نے برا بھلا کہنے والے شخص کا ذکرکیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے ارشاد فرمایا:’’فکر مت کیجیے ،وہ کل مر


 

جائے گا۔‘‘صبح جب میں حلقہ ٔ درس میں پہنچاتو اس شخص کو ہشاش بشاش(یعنی بھلا چنگا) دیکھا مگر جب وہ وہاں سے نکلاتو گھر جاتے ہوئے راستے  میں سواری سے گرا اور زخمی ہو گیا، سورج غروب ہونے سے قبل ہی مرگیا۔(اِتحافُ السّادَۃ للزَّبِیدی ج۱ص۱۴)

شوقِ تلاوت

حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیسفر میں تلاوتِ قراٰنِ کریم فرماتے رہتے، بسا اوقات تین تین چار چارپارے بھی مکمّل فرما لیا کرتے تھے۔اس دوران آیتِ سجدہ آتی تو سواری سے اتر کر سجدہ ٔ تلاوت فرماتے۔(زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۰۷مُلَخَّصًا)

سنّت پر عمل کا انعام (حکایت)

حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  دیگر معاملات کی طرح سونے جاگنے میں بھی سنّت کا خیال فرمایا کرتے تھے۔ایک بار رمضان المبارک کے آخری عشرے میںتراویح کے بعد آرام کے لیے بے خیالی میں بائیں(LEFT) کروٹ پر لیٹ گئے ،اتنے میں خادم پاؤں دبانے لگا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اچانک خیال آیا کہ ’’دائیں (RIGHT) کروٹ پر لیٹنے کی سنّت ‘‘ چھوٹ گئی ہے۔ نفس نے سستی دلائی کہ بھولے   سے ایسا ہو جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اُٹھے اور سنّت کے مطابق دائیں( یعنی سیدھی) کروٹ پر آرام فرما ہوئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:اس سنّت پر عمل کرتے ہی مجھ پر عنایات ، برکات اور سلسلے کے انوار کا ظہور ہونے لگااور آواز آئی: 


 

   ’’ سنّت پر عمل کی وجہ سے آپ کو آخرت میں کسی قسم کا عذاب نہ دیا جائے گااور آپ کے پاؤں دبانے والے خادم کی بھی مغفرت کردی گئی ۔‘‘( ایضاًص۱۸۰مُلَخَّصًا)

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! سنّت پر عمل کی کیسی برکتیں ہیں۔ اگر ہم بھی سنّت کے مطابق سونے کی عادت بنالیں تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّاس کی برکات نصیب ہوں گی ۔  یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک بندوں کی خدمت کرنا بھی بہت بڑی سعادت کا باعث ہوتا ہے ۔

سونے، جاگنے کے 5 مَدَنی پھول

       ٭سونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لیجئے:  اَ للّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا۔  ترجَمہ: اے  اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں تیرے نام کے ساتھ ہی مرتا ہوں اور جیتا ہوں (یعنی سوتا اور جاگتا ہوں)۔(بُخارِی ج ۴ ص۱۹۶حدیث۶۳۲۵) ٭سنت یوں ہے کہ’’ قُطْب تارے(یعنی شِمال) کی طرف سر کرے اور سیدھی کروٹ پر سوئے کہ سونے میں بھی منہ کعبے کو ہی رہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۳۸۵ ) دنیا میں ہر جگہ قُطْب تارہ شمال کی جانب نہیں پڑے گا لہٰذادُنیا کے کسی بھی حصے میں سوئیں اور سریاپاؤں کسی بھی سَمت ہوں بس’’ سیدھی کروٹ اس طرح سوئیں کہ چہرہ قبلے کی طرف رہے‘‘ سنّت ادا ہو جائے گی‘‘٭ جاگنے کے بعد یہ دعا پڑھئے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَحْیَانَا بَعْدَ مَآ اَمَا تَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ ۔    ترجَمہ:تمام خوبیاں  اللہ عَزَّ وَجَلَّکے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(بُخارِی ج۴ص۱۹۶حدیث۶۳۲۵) بہارِ شریعت جلد3صفحہ 436پر ہے : (نیند سے بیدار ہو کر) اُسی وقت پکّا ارادہ کرے کہ پرہیز گاری و تقویٰ کریگا کسی کو


 

 ستائے گا نہیں٭ نیند سے بیدار ہوکرمِسواک کیجئے ٭رات میں نیند سے بیدار ہوکر تہَجُّد ادا کیجئے کہ بڑی سعادت ہے۔سیِّدُ المُبَلِّغین،رَحمۃٌ  لِّلْعٰلمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا : ’’فرضوں کے بعد افضل نَماز رات کی نماز ہے۔‘‘( مُسلِم ص۵۹۱حدیث ۱۱۶۳)

مغفرت کی بشارت

حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے ایک بار تحدیثِ نعمت کے طور پر فرمایا : ایک دن میں اپنے رفقا کے ساتھ بیٹھا اپنی کمزوریوں پر غور و فکر کر رہا تھا،عاجزی و انکساری کا غلبہ تھا۔اِسی دوران بمصداقِ حدیث:’’ مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ یعنی جو اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے لئے انکساری کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتاہے ۔‘‘([1])رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے خطاب ہوا : ’’غَفَرْتُ لَکَ وَلِمَنْ تَوَسَّلَ بِکَ بِوَاسِطَۃٍ اَوْبِغَیْرِ وَاسِطَۃٍ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃ یعنی میں نے تم کو بخش دیا اور قیامت تک پیدا ہونے والے ان تمام لوگوں کو بھی بخش دیا جو تیرے وسیلے  سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھ تک پہنچیں ۔‘‘ اس کے بعد مجھے حکم دیا گیا کہ میں اس بشارت کو ظاہر کر دوں۔  (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم  ص ۱۰۴مُلَخَّصًا)

ثواب کا تحفہ (حکایت)

حضرت امامِ رَبّانی،مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے سفر و حضر کے خادم حضرت حاجی حبیب احمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ الاَ حَد

  فرماتے ہیں : حضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے’’ اجمیر


 

شریف‘‘ قیام کے دوران ایک دن میں نے  70ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:میں نے 70 ہزار بار کلمہ شریف پڑھا ہے اُس کا ثواب آپ کی نذر کرتا ہوں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فوراًہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔اگلے روز فرمایا: کل جب میں دعا مانگ رہا تھا تومیںنے دیکھا: فرشتوں کی فوج اُس کلمہ طیبہ کا ثواب لے کر آسمان سے اتر رہی ہے ان کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ زمین پر پاؤں رکھنے کی جگہ باقی نہ رہی !آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے مزید فرمایا: اس ختم کا ثواب میرے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔انہی حاجی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا بیان ہے کہ حضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے مجھ سے فرمایا: میںنے جو کچھ بتایا اس پر تعجب نہ کرنا ،میں اپنا حال بھی تمہیںبتاتا ہوں: میں روزانہ تہجد کے بعد پانچ سو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مرحوم بچوںمحمد عیسیٰ، محمد فرخ اور بیٹی ام کلثوم کوا یصالِ ثواب کرتا تھا ۔ ہر رات ان کی روحیں کلمہ طیبہ کے ختم کے لیے آمادہ کرتی تھیں ۔جب تک میں تہجدکی ادائیگی کے بعد کلمہ طیبہ کا ختم نہ کرلیتا وہ روحیں میرے اردگرد اسی طرح چکر لگاتی رہتی جیسے بچے روٹی کے لیے ماں کے گرد اُس وقت تک منڈلاتے رہتے ہیں جب تک انہیں روٹی نہ مل جائے۔جب میں کلمہ طیبہ کا ایصالِ ثواب کر دیتا تو وہ روحیں واپس لوٹ جاتیں۔ مگر اب کثر تِ ثواب کی وجہ سے وہ معمور ہیں اور اب اُن کا آنا نہیں ہوتا۔(ایضاً ص۹۵ مُلَخَّصًا)

حکایت سے حاصل ہونے والے مدنی پھول

٭ زندوں کو بھی ایصالِ ثواب کیاجاسکتا ہی٭ مردے اپنے عزیزو اقارب اور


 

دوست احبا ب کی طرف سے ایصالِ ثواب کے منتظر رہتے ہیں٭ مردوں کو ثواب پہنچتا ہے اور وہ ثواب پا کر مطمئن ہوجاتے ہیں٭ ایصالِ ثواب کرنا اولیائے کرام کا طریقہ رہا ہے۔

 ہزار دانے والی تسبیح

        حضرت حاجی حبیب احمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ الاَ حَدفرماتے ہیں: جس دن میںنے حضرت   سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکو کلمہ طیبہ کا ثواب نذر کیا اسی دن سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے لیے ایک ہزار دانے والی تسبیح بنوائی اور تنہائی میں اس پرکلمہ طیبہ کا ورد فرمانے لگے۔شبِ جمعہ کو خاص طور پر مریدین کے ہمراہ اُسی تسبیح پرایک ہزار دُرُود شریف کا وِرد فرمایا کرتے۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص ۹۶)

بی بی عائشہ کے ایصال ثواب کی حکایت

      امام ربّانی، حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی   فرماتے ہیں : پہلے اگر میں کبھی کھانا پکاتا تو اس کا ثواب حضور سرور عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَو امیرُالْمُؤمِنِین حضرت مولائے کائنات، علی المرتضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمو حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا و حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعَالٰی عنہمکی ارواح مقدسہ کے لئے ہی خاص ایصال ثواب کرتا تھا۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ جناب رسالت مآبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   تشریف فرما ہیں ۔ میں نے آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کیاتو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میری جانب  متوجہ نہ ہوئے اور چہرہ ٔ انور دوسری جانب


 

 پھیر لیا اورمجھ سے فرمایا:’’ میں عائشہ کے گھر کھانا کھاتا ہوں ، جس کسی نے مجھے کھانا بھیجنا ہو وہ (حضرت) عائشہ کے گھر بھیجا کرے۔ ‘‘اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے توجہ نہ فرمانے کا سبب یہ تھا کہ میں  اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو شریک طعام ( یعنی ایصال ثواب)نہ کرتا تھا۔ اس کے بعدسے میں حضرت  سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابلکہ تمام اُمَّہاتُ  الْمؤمِنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکو بلکہ سب اہل بیت کو شریک کیا کرتا ہوں اور تمام اہل بیت کو اپنے لئے وسیلہ بناتا ہوں ۔(مکتوباتِ امام ربّانی،دفتر دوم حصہ ششم مکتوب ۳۶ ج۲ ص۸۵) اللہُ رَبُّ العِزِّتْ عَزَّ وَجَلَّکی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم           

تمام عورتوں میں سب سے پیاری بی بی عائشہ

   میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے معلوم ہوا کہ جن کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے ان کو پہنچ جاتا ہے یہ بھی پتا چلا کہ ایصال ثواب محدود بزرگوں کوکرنے کے بجائے سبھی کو کر دینا چاہئے ۔ ہم جتنوں کو بھی ایصال ثواب کریں گے سبھی کو برابر برابر ہی پہنچے گا اور ہمارے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔ ([2])یہ بھی پتا چلا کہ ہمارے آقا،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَا ُمُّ المؤمنینحضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے بے حد اُنسیت رکھتے ہیں۔ ’’بخاری‘‘ شریف کی


 

 روایت ہے ، حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب’’ غزوۂ سلاسل‘‘ سے واپس لوٹے تو انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا: (عورتوں میں)عائشہ۔ انہوں نے پھر عرض کی: مردوں میں ؟ فرمایا: ان کے والد (یعنی حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)۔(بخاری ج ۲ ص ۵۱۹ حدیث ۳۶۶۲)

بنت صدیق آرام جان نبی               اس حریم براء ت پہ لاکھوں سلام

                     یعنی ہے سورۂ نور جن کی گواہ            ان کی پر نور صورت پہ لاکھوں سلام ( حدائقِ بخشش شریف ص۳۱۱)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ولی ولی کو پہچانتا ہے(حکایت)

      حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی جن دنوں مرکزالاولیا لاہور میں قیام پذیر تھے اس دوران ایک سبزی فروش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی بارگاہِ عالی میں حاضر ہوا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اس کے جانے کے بعد آپ سے عرض کی گئی:وہ تو سبزی فروش تھا! (اس کی ایسی تعظیم؟)ارشاد فرمایا: وہ ابدال (یعنی وَلِیُّ اللّٰہ ) ہیں، خود کو چھپانے کے لیے یہ پیشہ اختیار کر رکھاہے ۔(حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص۹۸ )

’’ سرہندشریف ‘‘ کے نو حُرُوف کی نسبت سے 9 کرامات

{۱}ایک وَقت میں  دس گھروں میں تشریف آوری (حکایت)

    حضرت  سیِّدُنا مجدِّدِ اَلْفِ ثانی شیخ احمد سرہندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی   کو دس مریدوں میں


 

سے ہر ایک نے ماہِ رَمَضانُ الْمبارک میں ایک ہی دن افطار کی دعوت دی، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سب کی دعوت قَبول فرمالی ، جب غروبِ آفتاب کا وَقت ہوا تو ایک ہی وَقت میں سب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ روزہ افطار فرمایا۔(جامع کرامات الاولیاء للنبہانی  ج ۱ ص ۵۵۶)

{۲}فوراًبارِش  بند ہو گئی  (حکایت)

        ایک مرتبہ بارش برس رہی تھی تو حضرتِ   سیِّدُنا مجدِّدِ اَلْفِ ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور بارِش سے اِرشاد فرمایا:’’فُلاں وَقت تک رُک جا!‘‘ چُنانچِہ بارش اُسی وَقت تک تَھم(یعنی رُک) گئی۔(ایضاً ج۱ص۵۵۶)

{۳}اِسے ہاتھی کے پاؤں تلے کُچلوا  دیا جائے (حکایت)

        ایک امیر زادے سے بادشاہ ناراض ہوگیااور اسے مرکز الاولیا(لاہور) سے سرہند طلب کیا۔ اس کے بارے میں یہ حکم جاری کیا کہ جیسے ہی یہ آئے تواسے ہاتھی کے پاؤں کے نیچے کُچلوا دیا جائے۔ وہ امیر زادہ جب سرہند پہنچا تو حضرتِ   سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  کی خدمتِ بابرکت میں حاضِر ہو کر نہایت ہی عاجِزی کے ساتھ اپنی نَجات کے لیے عرض گزار ہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کچھ دیر مُراقَبہ کیا پھر فرمایا: بادشاہ کی طرف سے تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی بلکہ وہ تم پر مہربان ہوگا۔اس امیر زادے نے عرض کی: عالیجاہ! آپ لکھ کر دے دیجیے تاکہ یہ تحریر میری تسکینِ قلبی (یعنی دل کے سکون)کا سامان ہو ۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے اس کی تسلّی کے لیے یہ تحریر فرمایا:’’ یہ شخص بادشاہ کے غصّے کے خوف


 

سے یہاں آیاہے لہٰذا اِس فقیر نے اپنی ضَمانت میں لے کر اسے اس مصیبت سے رہائی دے دی ۔ ‘‘ وہ امیر زادہ جیسے ہی بادشاہ کے دربار میں پہنچا توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اِرشاد کے مطابِق بادشاہ نے اُسے دیکھا تو مسکرایا اور نصیحت کے طور پر چند باتیں کہیں اور نہایت مہربانی کے ساتھ اِنعام و اِکرام سے نواز کر رخصت کردیا۔(حَضَراتُ الْقُدْس،  دفتر دُوُم ص ۱۷۰ ملخّصاً )

{۴}بچّے کے بارے میں غیبی خبردی  (حکایت)

        حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  کے ایک عزیز کے ہاں بیٹا پیدا تو ہوتا لیکن چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو جاتا۔ایک بار جب بیٹا پیدا ہوا تو وہ بچّے کو لے کر آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   کی خدمتِ بابرکت میں حاضِر ہوا اور سارا ماجرا سنایااور عرض کی کہ ہم نے مَنَّت مانی ہے کہ اگر یہ بچّہ بڑا ہوا تو ہم اسے آپ کی غلامی میں دے دیں گے۔آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   نے ارشاد فرمایا: ’’اس کا نام عبد الحق رکھو، یہ زندہ رہے گا اور بڑی عمر پائے گا، لیکن ہر ماہ حضرت خواجہ بہاء ُالدّین نقشبند عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الصَّمَد کی نیاز دلواتے رہو۔‘‘اَلْحَمْدُلِلّٰہ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے فرمان کی بَرَکت سے وہ بچّہ بڑی عمر کو پہنچا۔ (ایضاً ص ۲۰۵ ملخّصاً )

{۵}دل کی بات جان لی! (حکایت)

        حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے ایک مُرید کا بیان ہے کہ میں چُھپ کر افیون کھایا کرتا تھا اور اس بارے میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ ایک دن میں آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے ہمراہ جارہا تھا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: کیا


 

بات ہے میں تمہارے دل میں تاریکی(یعنی اندھیرا) دیکھتا ہوں؟ میں نے اِقرار کیا کہ میں چُھپ کر افیون کھاتا ہوں لیکن اب اس سے توبہ کرتا ہوں۔(ایضاً)

{۶}مانگ کیا منگتا ہے؟(حکایت)

        ایک دن حضرتِ سیِّدُنا مجدِّدِ اَلْفِ ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  تنہائی میں تشریف فرماتھے اور ایک نو مسلم (یعنی نیا مسلمان )آپ کی خدمتِ بابرکت میں موجود تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے اُس سے فرمایا:’’ مانگ کیا مانگتا ہے؟ جو مانگے گاوُہی ملے گا۔‘‘ اُس نے عرض کیا: ’’عالیجاہ! میرا بھائی اور والِدہ اپنے کُفْر میں بڑی شدّت (یعنی سختی )رکھتے ہیں، میری بہت کوشش کے باوُجُود وہ اسلام قَبول نہیں کرتے، آپ توجُّہ فرمادیجئے کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔‘‘ فرمایا :اس کے علاوہ کچھ اور بھی چاہئے؟ عرض کی: آپ کی توجُّہ سے مجھے بھلائیاں مل جائیں گی، لیکن ابھی یہی خواہش ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ فرمایا:’’وہ بہت جلد مسلمان ہوجائیں گے۔‘‘آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے فرمانے کے تیسرے دن اس کا بھائی اور والِدہ دونوں سرہند شریف آکر مُشَرّف بہ اسلام ہوگئے۔(ایضاًص۲۰۳مُلَخَّصًا) اللہُ ربُّ العِزّت عَزَّوَجَلَّکی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

{۷}مرید کی مدد فرمائی (حکایت)

        حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے مریدِ خاص سید جمال ایک روز


 

 کسی وادی سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شیر سامنے آگیا! اُن کے قدم وہیںجم گئے ، آناً فاناً اپنے مرشد حضرت مجدّدِاَلف ثانی کی بارگا ہ میں عرض کی:بچائیے!اُسی وقت حضرت    سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ہاتھ میں عصا (STICK)تھامے اپنے مرید کی دست گیری(یعنی مدد ) کے لیے تشریف لے آئے ، شیر کو عصا مار ا،جب سیدجمال صاحب نے آنکھ کھولی تو شیر کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور حضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی

  بھی تشریف لے جا چکے تھے۔( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۶۳ مُلَخَّصًاً)      ؎

شیروں پہ شرف رکھتے ہیں دربار کے کتے شاہوں سے بھی بڑھ کر ہیں گدایانِ محمد

 صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۸}بد عقیدگی کاخواب میں علاج فرمادیا (حکایت)

     ایک شخص بعض صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان الخصوص حضرت سیِّدُنا امیر معاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کینہ رکھتا تھا۔ ایک دن وہ ’’ مکتوباتِ امام ربانی‘‘کا مطالعہ کررہا  تھا،کہ اس میں یہ عبارت پڑھی:’’حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرتِ سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کو بُرا کہنے کو حضرت سیِّدُنا صدیق اکبر،حضرت سیِّدُنا فاروق اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عنھما کو برا کہنے کے برابر قرار دیا ہے۔‘‘  تو وہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے رنجیدہ ہو گیا اور(مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)مکتوبات شریف کی کتاب زمین پر پھینک دی۔جب وہ شخص سویا تو حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی اُس کے خواب میں تشریف لے


 

 آئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نہایت جلال میں اس کے دونوں کان پکڑ کر فرمانے لگے: ’’تو ہماری تحریر پر اعتراض کرتا اور اسے زمین پر پھینکتا ہے !اگر تو میرے قول(یعنی بات) کو معتبر نہیں سمجھتا تو آ !تجھے حضرت سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمہی کے پاس لے چلوں،جن کی خاطر تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکو برا کہتا ہے ۔‘‘پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاسے ایسی جگہ لے گئے جہاں ایک نورانی چہرے والے بزرگ تشریف فرماتھے۔ حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے نہایت عاجزی سے اُس بزرگ کو سلام کیا پھر اس شخص کو نزدیک بلاکر فرمایا:یہ تشریف فرما بزرگ حضرت سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمہیں ،سن!کیا فرماتے ہیں۔اُس شخص نے سلام کیا،سیِّدُنا شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اسے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا:خبردار !  رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے صحابہ سے کدورت(یعنی رنجش) نہ رکھو،ان کے بارے میں کوئی گستاخانہ جملہ زبان پرنہ لاؤ ۔ پھرحضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی جانب اشارہ کرکے اُس سے فرمایا:’’ان کی تحریر سے ہرگز نہ پھرنا (یعنی مخالفت مت کرنا)۔‘‘اس نصیحت کے بعد بھی اس کے دل سے صحابۂ کرام کا کینہ دور نہ ہوا تو مولائے کائنات حضرت سیِّدُناعلیُّ المُرتَضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:اس کا دل ابھی تک صاف نہیں ہوا ۔ یہ فرماکرحضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی سے تھپڑرسید کرنے کافرمایا ،حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جوں ہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے گدی پر تھپڑ مارا تو دل سے صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی ساری کدورت(یعنی نفرت) دُھل گئی۔جب


 

 وہ بیدا ر ہوا تو اس کادل صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی محبت سے معمور تھا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی محبت بھی سوگنا زیادہ بڑھ چکی تھی۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم  ص۱۶۷ مُلَخَّصًاً )

{۹}اپنی وفات کی پہلے ہی خبر دیدی(حکایت)

        حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے اپنے انتقِال سے بہت پہلے ہی اپنی زوجۂ محترمہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہاسے فرما دیا تھا کہ مجھ پر ظاہِر کردیا گیا ہے کہ میرا اِنتقال تم سے پہلے ہوجائے گا چُنانچِہ ایسا ہی ہوا کہ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ان سے پہلے وصِال (یعنی انتقال ) فرماگئے۔    (ایضاً ص۲۰۸ مُلَخَّصًا)

مِٹی کا کونا ٹوٹا ہوا پیالہ (حکایت)

سلسلئہ عالِیہ نَقْشْبَنْدِیَّہ کے عظیم پیشواحضرتِ سیِّدُنا مُجدِّد اَلْفِ ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے ایک دن عام بَیتُ الْخَلا میں بھنگی کے پاس صَفائی کیلئے گندگی سے آلود بڑا سا مِٹّی کا کونا ٹوٹا ہوا پِیالہ رکھا  دیکھا تو بیتاب ہو گئے کیونکہ اُس پیالے پرلَفْظْ،اللہ کَنْدَہ تھا !لپک کرپیالہ اُٹھالیا اور خادِم سے پانی کا آفتابہ (یعنی ڈھکَّن والا دَستہ لگا ہوا لوٹا)منگوا کر اپنے دستِ مبارَک سے خوب مَل مَل کر اچھی طرح دھو کر اُس کو پاک کیا، پھر ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر اَدَب کے ساتھ اُونچی جگہ رکھ دیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اُسی پیالے میں پانی پیا کرتے۔ ایک دناللہکی طرف سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اِلْہام فرمایا گیا : ’’ جس طرح تم نے میرے نام کی تَعظِیم کی میں بھی دنیا وآخِرت میں تمہارا نام اُونچا کرتا ہوں۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرمایا کرتے


 

تھے:’’ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے نامِ پاک کا اَدَب کرنے سے مجھے وہ مقام حاصل ہوا جو سو سال کی عبادت و رِیاضت سے بھی حاصل نہ ہو سکتا تھا۔‘‘(ایضاً ص۱۰۶)

سادہ کاغذ کا بھی ادب

        سلسلئۂ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا شیخ احمد سر ہندی المعروف مجدد اَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیسادہ کاغذ کا بھی احتِرام فرماتے تھے، چُنانچِہ ایک روز اپنے بچھونے پر تشریف فرماتھے کہ یکایک بے قرار ہو کر نیچے اُتر آئے اور فرمانے لگے: معلوم ہو تا ہے، اِس بچھونے کے نیچے کوئی کاغذ ہے۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات  ص۱۹۴)

راہ چلتے ہوئے کاغذات کو لات مت ماریئے

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا، سادہ کاغذ کا بھی اَدَب ہے اور کیوں نہ ہو کہ اِس پر قراٰن و حدیث اور اسلامی باتیں لکھی جاتی ہیں ۔ اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّبیان کردہ حکایت میں حضرت سیِّدُنا مجدد اَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی کھلی کرامت ہے کہ بچھونے کے نیچے کے کاغذ کا ظاہری طور پر بن دیکھے پتا چل گیا اور آپ نیچے اُترآئے تا کہ غلاموں کو بھی کاغذات کے اَدَب کی ترغیب ملے۔’’بہار ِشریعت‘‘ جلد اوّل صفحہ 411 پر ہے: ’’کاغذ سے اِستِنجا مَنْع ہے اگر چِہ اُس پر کچھ بھی نہ لکھا ہو یا ابوجَہْل ایسے کافِر کا نام لکھا ہو۔‘‘

حُروف کی تعظیم کی جائے

        فتاوٰی رضویہ شریف میں ہے:’’ہمارے عُلَما تصریح(یعنی واضِح طورپر)فرماتے ہیں کہ


 

 نفسِ حُرُوف قابِلِ اَدَب ہیں اگرچِہ جُدا جُدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وَصْلِی(کا غَذ)پر خواہ ان میں کوئی بُرانام لکھا ہو جیسے فِرعَون، ابوجَہْل وغیرہُما تاہم حُرُوف کی تَعظِیم کی جائے اگرچہ اِن کافروں کا نام لائق اِہانت و تَذلِیْل ہے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص۳۳۶)خود ابو جَہل کی کوئی تعظیم نہیں کہ یہ تو سخت کافر تھا مگرچُونکہ لفظِ ’’ابوجَہْل‘‘کے تمام حُرُوفِ تَہجَّی(اب و ج ہ ل) قُراٰنی ہیں۔اِس لئے لکھے ہوئے لفظ’’ابوجَہْل‘‘ کے حروف کی (نہ کہ شخصِ ابوجَہْل کی)ان معنوں پر تَعْظِیم ہے کہ اُس کو ناپاک یا گندی جَگہوں پر ڈالنے اور جُوتے مارنے وغیرہ کی اِجازَت نہیں۔فتاوٰی عالمگیری میں ہے:’’جب فِرعَون یا ابوجَہْل کا نام کسی ہَدَف یانشانے پر لکھاہو تو(نشانہ بناکر)اِن کی طرف تِیرپھینکنا مَکْرُوہ ہے کہ اِن حُرُوف کی بھی عزّت و توقیرہے۔‘‘(عالمگیری ج۵ص۳۲۳ )اَلْبَتَّہ ٹِشو پیپرسے ہاتھ پونچھنے یا ٹائلِٹ پیپرسے جائے اِستِنْجا خشک کرنے کی علمائے کرام اِجازَت دیتے ہیں کیونکہ یہ اِسی کام کیلئے تیّار کئے جاتے ہیں اور اِن پر کچھ لکھا نہیں جاتا۔

جوانی کیسے گزاریں ؟

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عمر کا کوئی سا بھی حصہ ہو، نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہنے میں بھلائی نہیں اور نفس کی شرارت جوانی کے زمانے میں تو عروج(یعنی بُلندی) پر ہوتی ہے، نفس کو علم و عمل کی لگام ڈال کر اس کی تربیت کرنے کا یہی وقت ہوتا ہے ۔حضرت سیِّدُنا  مجدّ د الف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


 

فرماتے ہیں:’’جوانی کی ابتدا جس طرح ہوا وہوس(یعنی خواہشات کے ابھرنے ) کا وقت ہے، اسی طرح علم وعمل کواپنانے کا بھی یہی وقت ہے، جوانی میں کی جانے والی عبادات بڑھاپے کی عبادات سے افضل ہیں۔‘‘(مکتوباتِ امام ِربّانی،دفتر سوم ،حصہ ہشتم،مکتوب۳۵ ج ۲ص۸۷ ملخّصًا)

جوانی نعمتِ خداوَندی

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !ایّامِ جوانی کے اَوقات کی قدْر دانی بہت ضروری ہے کیونکہ جوانی میں انسان کے اَعضا مضبوط اور طاقتورہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اَحکام وعبادات کی بجاآوری، خوش اُسلوبی کے ساتھ ممکن ہوتی ہے، بُڑھاپے میں یہ بہاریں کہاں نصیب! اُس وقْت تو مسجد تک جانا بھی دشوار ہو جاتاہے۔ بھوک پیاس کی شدّت برداشْت کرنے کی بھی ہِمّت نہیں رہتی، نفْل تو کُجا فرْض روزے پورے کرنے بھی بھاری پڑجاتے ہیں۔ جوانی اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بہت بڑی نعمت ہے، جسے یہ نعمت ملے اُسے اِس کی قدْر کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وَقْت عبادت واِطاعت میں گزارنا چاہئے،اوقات کے اَنمول ہیروں کو نفع مندبنانا چاہئے۔ حکیم ُ الا ُمّت حضرت مفتی احمدیار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نقل فرماتے ہیں:’’ جوانی کی عبادت بڑھاپے کی عبادت سے افضل ہے کہ عبادات کا اصل وقت جوانی ہے۔شعر

کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نہیں               جب بڑھاپا آگیا کچھ بات بن پڑتی نہیں

ہے بڑھاپا بھی غنیمت جب جوانی ہوچکی            یہ بڑھاپا بھی نہ ہوگا موت جس دم آگئی

وقت کی قدر کرو،اسے غنیمت جانو، گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔‘‘ ( مراٰۃ المناجیح ج۳ص۱۶۷)


 

حافِظِ قراٰن کا ادب

        ایک مرتبہ ایک حافِظ صاحب حضرتِ سیِّدُنا مجدد اَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے پاس بیٹھ کر قراٰنِ کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب ان کی طرف نگاہ فرمائی تو دیکھا کہ جس جگہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تشریف فرماہیں وہ جگہ حافظ صاحب والی جگہ سے تھوڑی اونچی ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فوراً اپنی نشست(یعنی بیٹھک) نیچی کردی۔  ( زُبْدَۃُ الْمَقامات  ص۱۹۵)

مُجدِّد اَلْفِ ثانی کے 40 معمولات

٭ سفر ہو یا حضر ، سردی ہو یا گرمی ،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  آدھی رات کے بعد بیدار ہو جاتے اورمسنون دعائیں پڑھتے ٭پابندی سے تہجد ادا فرماتے اور تہجد میں طویل قرائَ ت کرتے ٭قبلہ رو بیٹھ کر وضو فرماتے اور ٭وضو میں کسی سے مدد نہ لیتے ٭وضو میں مسواک فرماتے،فراغت کے بعد کاتب(یعنی لکھنے والے) کی طرح مسواک کبھی کان پر لگا لیتے اور کبھی خادم کے سپرد فرما دیتے ٭وضو کے دوران تمام سنن و مستحبات کا خوب خیال فرماتے ٭ اعضائے وضو دھوتے وقت اوروضو کے بعد مسنون دعائیںپڑھتے ٭نماز کے لئے عمدہ لباس زیبِ تن فرماتے اور نہایت وقار کے ساتھ نمازکی ادائیگی کے لئے تیّار ہو جاتے ٭نمازِ فجر کی سنتیں گھر میں ادا فرماتے ٭فجر کے فرض مسجد میں جماعتِ کثیرہ(یعنی بہت بڑی جماعت) کے ساتھ ادا فرماتے ٭نمازسے فراغت کے بعد مسنون دعائیں پڑھتے،


 

 پھردائیں یابائیں جانب رخ فرما کر دعا فرماتے اور دعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لیتے ٭نماز کے بعد ذِکر، تلاوتِ قراٰنِ کریم کاحلقہ قائم کرتے اورابتدائی طالب علموں کی تربیت فرماتے ٭آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اکثر خاموش رہا کرتے ٭بعض اوقات آپ پر گریہ(یعنی رونا) طاری ہو جاتا اور آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہو جایا کرتا(یعنی خوب روتے) ٭نمازِ چاشت پابندی سے ادا فرماتے ٭آپ نہایت ہی کم کھانا تناول فرماتے ٭کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں پڑھتے ٭ (دن میں) کھانے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے قیلولہ فرماتے ٭اذان سن کر جواب دیتے ٭نمازِ ظہر کے بعد پھرذِکرالٰہی کا حلقہ قائم کرتے، اس کے بعد ایک دو سبق کی تدریس فرماتے ٭تحیۃُ المسجد پابندی سے ادا فرماتے ٭نمازِ مغرب کے بعد اَوَّابین کے چھ نوافل ادا فرماتے ٭نمازِوتر کی ادائیگی کے بعد سنّت کے مطابق قبلہ رخ ہو کر سیدھا ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر آرام فرماہوتے ٭سورج یا چاند گرہن ہونے پر نمازِ کسوف و خسوف ادا فرماتے ٭آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے ٭ذوالحجہ کے ابتدائی عشرے (یعنی شروع کے دس دن) میں مخلوق سے کنارہ کش ہو کر عبادت کا اہتمام فرماتے ٭کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتے اور خصوصا شبِ جمعہ مریدوں کے ساتھ مل کر ایک ہزار درودِ پاک کا نذرانہ بارگا ہ رسالت میں پیش کرتے ٭سفر و حضر میں تراویح کی مکمل بیس رکعتیں خشوع و خضوع سے ادا فرماتے ٭رمضانُ الْمُبارَک میں کم از کم تین مرتبہ قراٰنِ کریم کا ختم فرماتے


 

 ٭آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ چونکہ حافظِ قراٰن تھے اس لئے اکثر تلاوتِ قراٰنِ کریم کا سلسلئہ جاری رہتا ٭دورانِ سفر بھی تلاوت فرماتے اور اگر اس دوران آیتِ سجدہ آجاتی تو فوراً سواری سے اتر کر سجدۂ تلاوت ادا فرماتے ٭ انفرادی نماز میں رکوع و سجود کی تسبیحات پانچ ، سات ، نو یا گیارہ مرتبہ تک ادا فرماتے ٭سفر کے لئے اکثر آپ پیر یا جمعرات کے دن کا انتخاب فرماتے ٭کپڑا پہننے ، آئینہ دیکھنے ، پانی پینے، کھانا کھانے ،چاند دیکھنے اور دیگر معمولات میں جو مسنون دعائیں مروی ہیں ان کا اہتمام فرماتے ٭نماز کی تمام سنتوں اور مستحبات کا خوب اہتمام فرماتے ٭جب کوئی بزرگ آپ سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے تو تعظیماً کھڑے ہو جاتے ٭سلام میں ہمیشہ پہل فرماتی٭علامہ بدر الدین سرہندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: مجھے علم نہیں کہ کبھی کوئی شخص سلام میں آپ سے سبقت لے گیا(یعنی پہل کرنے میں کامیاب ہوا) ہو ٭  سر پر عمامہ شریف سجائے رکھتے  ٭پاجامہ ہمیشہ ٹخنوں سے اوپرہوا کرتا۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص۸۰ تا۹۲مُلَخَّصًا

حضرت مجدّد الف ثانی کا عمامہ شریف

        حضرت سیِّدُنا امامِ ربانی ، مجددِ الفِ ثانی ، شیخ احمدفاروقی سرہندی نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکے متعلق منقول ہے کہ عمامہ  شریف آپ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے سرِ مبارک پر ہوتا اورشملہ دونوں کندھوں کے درمیان ہوتا۔(ایضاًص۹۲ مُلَخَّصًا)

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! احادیثِ مبارکہ میں عمامہ شریف باندھنے کے بہت


 

 سے فضائل بیان کیے گئے ہیں :چنانچہ

باعمامہ نماز دس ہزار نیکیوں کے برابر

        رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: عمامے کے ساتھ نَماز دس ہزار نیکی کے برابر ہے۔  (اَلْفِرْدَوْس بمأثور الْخطّابً ج۲ص۴۰۶حدیث۳۸۰۵ ، فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۶ص۲۱۳)

کیا عمامہ صرف علما ہی باندہیں؟

        حضرت علامہ مفتی محمد وقارُا لدین قادری رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: عمامہ صرف علما و مشائخ ہی کے لئے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے سنّت ہے اور عمامے کی فضیلت اور عمامہ باندھ کر نماز پڑھنے کی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے اس لئے ہر بالغ مرد کے لئے عمامہ باندھنا ثواب کا کام ہے اور اچھے کام کی عادت ڈالنے کے لئے بچوں کو بھی اس کی تعلیم دینی چاہئے۔(وقارالفتاوٰی ج۲ ص۲۵۲)

عالم اورجاہل سب عمامہ باندھیں

   بَحْرُالعُلُوم حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ایک سوال (عام مسلمان یعنی غیر عالم کو عمامہ باندھنا سنّت ہے یا نہیں؟) کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ہر مسلمان چاہے عالم ہویا غیرِ عالم اسے عمامہ باندھنا سنّت ہے، امام بیہقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے شُعَبُ الایمان میں حضرت (سیِّدُنا) عُبادہ بن صامِت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہسے روایت کی کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ


 

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ:’’ عمامہ باندھنا اِختیار کرو کہ یہ فرشتوںکا نشان ہے اور اس ( شملے) کو پیٹھ کے پیچھے لٹکالو۔ ‘‘(شعب الایمان ج۵ص۱۷۶حدیث:۶۲۶۲) ’’بہارِ شریعت ‘‘میں ہے کہ عمامہ باندھنا سنّت ہے۔(بہار شریعت ج ۳ص۴۱۸) ان اَحکام سے یہی ظاہر ہے کہ مسلمان خواہ عالم ہو یا چاہے جاہل سب کو عمامہ باندھنے کا حکم ہے۔(فتاوٰی بحرالعلوم ج۵ص۴۱۱ ملخّصًا)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اتّباعِ سنّت عشقِ رسول کی علامت

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سچے عاشق رسول کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتا ہے، یوںسنت نبوی کو عملی طور پر اپنانے کی وجہ سے عاشقِ صادق کا دل عشق مصطفے میں تڑپتا ہے ۔حضرت سیِّدُنا  مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  کا ہر عمل سنت مصطفے کی عملی تصویر ہوا کرتا ،آپ    اپنی گفتگو ،چلنے پھرنے اور زندگی کے دیگر معمولات سنّت کے مطابق گزارتے، سنّتوں کی برکت سے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو جو مقام و مرتبہ نصیب ہوا اس کے متعلّق آپ خود ارشاد فرماتے ہیں: نبی ٔ کریم ،رء وف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے کمالِ اتباع(یعنی مکمل پیروی) کی وجہ سے مجھے ایسے مقام سے سرفراز کیا گیا جو ’’ مقامِ رضا‘‘ سے بھی بلند وبالا ہے۔(حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص۷۷) سنّتوں کے مطابق زندگی گزارنا بہت بڑی سعادت ہے کہ اس کی برکت سے مقام ِ محبوبیت نصیب ہوتا ہے جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ


 

خود ارشاد فرماتے ہیں : ’’ہر وہ چیز جس میں محبوب کے اخلاق و عادات پائی جائیں محبوب کے ساتھ وابستگی اور اس کے تابع ہونے کی وجہ سے وہ بھی محبوب اور پیاری ہوجاتی ہے، اس کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے:

فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ۳،اٰلِ عمرٰن:۳۱)

ترجَمۂ کنزالایمان: تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔

لہٰذا اللہ تَعَالٰی  کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی میں کوشش کرنا بندے کو مقامِ محبوبیت تک لے جاتا ہے، تو ہر عقلمند پر لازم ہے کہ اللہ تَعَالٰی کے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اتباع میں ظاہراً و باطناً پوری کوشش کرے۔‘‘(مکتوباتِ امام ِربّانی، دفتر اول، حصہ دوم، مکتوب۴۱ ج۱ص۵)

تصانیف

     آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی تصانیف میں سے فارسی ’’مکتوبات امام ربّانی‘‘ زیا دہ مشہو ر ہوئے ۔ ان کے عر بی، اردو،ترکی اورانگریزی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چاررسائل کے نام مُلاحَظہ ہوں: (۱)اِثْباۃُ النُّبُوَّۃ (۲) رِسالہ تَہْلِیْلِیَّہ  (۳) معارفِ لَدُنِّیَّہ (۴) شرحِ رُباعیات ۔

 مجدّدِ الفِ ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  کے 11 اَقوال

      ٭حلال و حرام کے معاملے میں ہمیشہ باعمل علما سے رجوع کرنا چاہیے اور ان کے فتاوٰی کے مطابق عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات کا ذریعہ شریعت ہی ہے ۔(ایضاً، حصہ سوم،مکتوب۱۶۳ ج۱ص۴۶)


 

٭احکامِ شریعت کی صحیح نوعیت علمائے آخرت سے معلوم کیجیے ان کے کلام میں ایک تاثیر ہے، شاید ان کے مبارک کلما ت کی برکت سے عمل کی بھی توفیق مل جائے ۔(ایضاً، حصہ دوم،مکتوب۷۳ ج۱ص۵۹)

٭ تمام کاموں میں ان باعمل علمائے کرام کے فتاوٰی کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہئے جنہوں نے ’’عزیمت‘‘ کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور ’’رخصت‘‘ سے اجتناب کرتے(یعنی بچتے) ہیں نیزاس کو نجاتِ ابدی و اُخروی کاذریعہ و وسیلہ قرار دینا چاہیے۔(ایضاً،مکتوب۷۰ ج۱ص۵۲)

٭ نجاتِ آخرت تما م افعال و اقوال،اصول و فرو ع میں اہلسنّت کی پیروی کرنے پر موقوف ہے ۔(ایضاً، مکتوب۶۹ ج۱ص۵۰)

٭ سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاسایہ نہ تھا۔(ایضاً،دفتر سوم ،حصہ نہم،مکتوب۱۰۰ ج۲ص۷۵)

٭ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اپنے خاص علمِ غیب پر اپنے خاص رسولوں کو مطلع(یعنی باخبر) فرماتا ہے۔ (ایضاً،دفتر اول،حصہ پنجم،مکتوب۳۱۰ ج۱ص۱۶۰)

٭حضورشاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ کوذِکرِ خیر(بھلائی) کے ساتھ یاد کرنا چاہئے۔(ایضاً،حصہ چہارم،مکتوب ۲۶۶ ج۱ص ۱۳۲)

٭ صحابۂ کرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں سب سے افضل حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی  اللہ تعالٰی عنہ  ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل سیِّدُنا فاروق اعظم رضی  اللہ تعالٰی عنہ ہیں، ان دونوں باتوں پر صحابۂ کرام اور تابعین کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کا اجماع  ہے، نیز امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی علیھم اَجْمَعِیْنَ

اور اکثر علمائے اہلسنّت کے نزدیک


 

 حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد تمام صحابۂ کرام میں سب سے افضل سیِّدُنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ

 ہیں ، پھر ان کے بعد سب سے افضل سیِّدُنا مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمہیں۔(ایضاً،مکتوب۲۶۶ ج۱ص ۱۲۹،۱۳۰ ملخصا)

٭مجلس میلاد شریف میں اگر اچّھی آواز کے ساتھ قراٰنِ کریم کی تلاوت کی جائے، نعت شریف اور صحابہ و اہل بیت و اولیائے کاملین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَکی منقبت پڑھی جائے تو اس میں کیا حرج ہے!       (مکتوبات ِ امامِ ربّانی،دفترسوم،حصہ ہشتم ،مکتوب۷۲ ج۲ص۱۵۷ ملخّصًا)

٭حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کمالِ محبت کی علامت یہ ہے کہ آدمی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں سے کامل دشمنی رکھے ۔ (ایضاً،دفتراول،حصہ سوم ،مکتوب۱۶۵ ج۱ص۴۸ ملخّصًا)

 گانا بجانا ز ہرِ قاتل ہے

٭حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں : گانے بجانے کی خواہش مت کیجیے ، نہ اس کی لذّت ہی پرفدا ہوں کیوں کہ یہ شہد ملا قاتل زہر ہے۔(ایضاً ،دفتر سوم،حصہ ہشتم ، مکتوب ۳۴ ج ۲ ص ۸۶ ملخّصًا)

کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!گانے باجے سننا سنانا شیطانی اَفعال ہیں،سعادت مندمسلمان ان چیزوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔گانے باجوں سے بچنا بے حد ضروری ہے کہ اس کا عذاب کسی سے بھی نہ سہا جاسکے گا۔حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے: جو شخص


 

 کسی گانے والی کے پاس بیٹھ کر گانا سنتا ہے قیامت کے دن اللہ  عَزَّ وَجَلَّاس کے کانوں میں پگھلا ہواسیسہ انڈیلے گا۔(جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج ۷ ص ۲۵۴ حدیث ۲۲۸۴۳)

مَناقِبِ غوثِ صمدانی بزبانِ مجدد الفِ ثانی

         دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ561 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘  صَفْحَہ 422پر ہے:حضرتِ مجدد اَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :جو کچھ فُیُو ض و برکات کا مجمع ہے وہ سب سرکارِ غوثیت سے ملے ہیں ۔ نُوْرُ الْقَمَرِ مُسْتَفَادٌ مِنْ نُورِ الشَّمْس یعنی چاند کی روشنی سورج کے نور سے مستفاد ہے ۔ (مکتوبات ِ امام ربّانی،دفترسوم ،حصہ نہم ،مکتوب۱۲۳ ج۲ص۱۴۵ ملخّصًا)

مجدِّدِ اَلفِ ثانی اور اعلٰی حضرت

(پانچ ملتی جلتی صفات)

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِسنّت ،مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی مبارک حیات  کے کئی گوشے ایسے ہیں جن میں حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی سیر ت کی جھلک نظر آتی ہے بلکہ تعلیم و تربیت، دینی خدمات حتّٰی کہ وصال کے مہینے میں بھی یکسانیت ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے : {۱}حضرت سیِّدُنا  مجدّد الف ثانی اور امام اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما دونوں کا نام احمد ہے {۲}دونوں بزرگوں نے اپنے اپنے والد سے علمِ دین حاصل کیا {۳}دونوں حضرات


 

 کی تمام عمر اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی میں بسر ہوئی{۴}دونوں صاحبان نے کبھی بھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکا یا {۵}دونوں اولیائے کرام کا وصال صفر المظفر میں ہوا۔

مکتوباتِ امامِ ربّانی اور اعلٰی حضرت

         اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے ایک مکتوب میں ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ سے ایک فرمان نقل کر کے حضرت مجد د الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے فرمان کو ارشادِ ہدایت قرار دیا ہے چنانچہ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے اپنے ایک اہل ِ محبت کو گمراہ لوگوں کی صحبت کے نقصانات سمجھاتے  ہوئے لکھتے ہیں : آپ جیسے صوفی صافی منش کو حضرت سیِّدُنا شیخ مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا ایک ارشاد یاد دلاتا ہوں اور عین ہدایت کے امتثال(حکم بجالانے) کی امید رکھتا ہوں ۔ پھر حضرت مجد د الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مکتوب کا کلام ذِکر فرما کر ارشاد فرمایا ’’مولانا انصاف !آپ یا زید یااور اراکین مصلحت دین و مذہب زیادہ جانتے ہیں یا حضرت شیخ مجدد ؟مجھے ہرگز آپ کی خوبیوں سے امید نہیں کہ اس اِرشادِ ہدایت بنیاد کو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ لغو و باطل جانئے، اور جب وہ حق ہے اور بے شک حق ہے تو کیوں نہ مانئے۔‘‘ (مکتوباتِ امام احمد رضا ص۹۰ ملخّصًا)

آثارِ وصال

        حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی 1033ھ میں سرہند شریف آ کر خلوت نشین(یعنی سب سے الگ تھلگ) ہو گئے۔ اپنے خالق و مالک عَزَّوَجَلَّسے ملاقات کی


 

 لگن نے مخلوق سے بے نیاز کردیا۔اس خلوتِ خاص(یعنی خصوصی تنہائی) میں صرف چندافراد کوحجرے(یعنی کمرے) میں آنے کی اجازت تھی جن میں صاحبزادگان خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما، خلفائے کرام میں سے حضرت خواجہ محمد ہاشم کِشمی،حضرت خواجہ بدر الدین  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما اور دو ایک خادم۔ حضرت خواجہ محمد ہاشم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وصال(یعنی انتقال) سے قبل ہی دکن تشریف لے گئے تھے۔ حضرت خواجہ بدر الدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آخر وقت تک حاضر رہے۔ جب حضرت خواجہ محمد ہاشم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  رخصت ہونے لگے تو حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی  نے فرمایا: ’’دُعا کرتا ہوںکہ آخرت میں ہم ایک جگہ جمع ہوں۔‘‘ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۸۲تا۲۸۵مُلَخَّصًا

         وصال مبارک

        28صفرُ المُظَفَّر 1034؁ھ /1624 ء کوجانِ عزیز اپنے خالقِ حقیقی کے سپرد کردی ۔   اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶)۔   (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص۲۰۸)        

نمازِ جَنازہ و تَدفین

      آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نمازِ جنازہ آپ کے شہزادے حضرت خواجہ محمد سعید علیہ رحمۃ اللّٰہ المجید نے پڑھائی۔ اس کے بعد شہزادۂ مرحو م حضرت خواجہ محمد صادق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاق کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے اپنی زندگی میں ایک نور دیکھا تھا اور وصیت فرمائی تھی :’’میری قبرمیرے بیٹے کی قبر کے


 

سامنے بنانا کہ میں وہاں جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری دیکھ رہا ہوں۔‘‘  اس قبے(یعنی گنبد) میں پہلے شہزادۂ مرحوم حضرت خواجہ محمد صادق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاق1025ھ کی تدفین ہوئی او ر اس کے بعد حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکوان کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ اب اس روضہ شریف کو دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے ۔ (  زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۹۴۔۲۹۶،۳۰۵  مُلَخَّصًا)

اَولاد کے مبارک نام

     آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے سات شہزادے اور تین شہزادیاں تھیں جن کی تفصیل یہ ہے : شہزادگان: {۱}حضرت خواجہ محمد صادق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاق {۲}حضرت خواجہ محمد سعید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ {۳}حضرت خواجہ محمد معصوم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ {۴}حضرت خواجہ محمد فرخ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ{۵}حضرت خواجہ محمد عیسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ {۶}حضرت خواجہ محمد اشرف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ {۷}حضرت خواجہ محمد یحییٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ۔ شہزادیاں :(۱){۱}بی بی رقیہ بانو  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی علیہا {۲}بی بی خدیجہ بانو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی علیہا {۳}بی بی ام کلثوم  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی علیھا ( زُبْدَۃُ الْمَقامات)

خُلَفائے کِرام

     حضرت سیِّدُنا مجددالف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے چند خلفائے کرام کے نام یہ ہیں:(۱) صاحبزادہ خواجہ محمد صادق (۲)صاحبزادہ خواجہ محمد سعید (۳)صاحبزادہ خواجہ محمد معصوم


 

(۴)حضرت میر محمد نعمان برہان پوری (۵)شیخ محمد طاہر لاہوری (۶)شیخ کریم الدین باباحسن ابدالی (۷)خواجہ سید آدم بَنّوری  (۸)شیخ نور محمد پٹنی (۹) شیخ بدیع الدین (۱۰)شیخ طاہر بَدَخشی (۱۱)شیخ یار محمد قدیم طالَقانی(۱۲)حضرت عبدالہادی بدایونی (۱۳) خواجہ محمد ہاشم کِشمی (۱۴) شیخ بدالدین سرہندی رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام۔(حَضَراتُ القُدْس)

مجدد الف ثانی اور خُلفائے اعلٰی حضرت

    اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ایک خلیفہ امام المحدثین حضرت سیِّدُنا محمد دیدار علی شاہ اَلوَری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی نقشبندی مجددی ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے خلفا کو بھی حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیسے بے پنا ہ عقیدت و محبت تھی ،سیدی قطب مدینہ حضرت قبلہ ضیاء الدّین احمد مَدَنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیْنے ایک مرتبہ سرپردونوں ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا : ’’حضرت مجدد الف ثانیثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتو ہمارے سر کے تاج ہیں۔‘‘(سیدی ضیاء الدین  احمد القادری ج۱ص۵۰۹ ملخّصًا ) خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت سیِّدُنا ابو البرکات سیداحمد قادریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے ’’40 اِرشاد ات‘‘ جمع فرمائے ہیں ۔ 

     یاربِّ مصطفٰے !ہمیں اپنے ولیِّ برحق حضرت سیِّدُنا امامِ ربّانی مجدد الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے صدقے بے حساب مغفرت سے مشرف فرما کر جنت الفردوس میں اپنے پیارے حبیب


 

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا پڑوس نصیب فرما۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

یہ رسالہ  پڑھ لینے کے بعد  ثواب کی نیت سے  کسی کو دے  دیجئے                    

                                                                          غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

                                                                                                   بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کے پڑوس کا طالب

                                                                                                                       

                                                                                                                        صفر المظفر ۱۴۳۶ھ

                                                                                                                        نومبر 2016ء

مآخذ و مراجع

کتاب

مطبوعہ

کتاب

مطبوعہ

قراٰنِ کریم

 

زبدۃ المقامات

مکتبۃ الحقیقۃ استنبول1307ھ

بخاری

دار الکتب العلمیۃ بیروت

حضرات القدس

محکمۂ اوقاف پنجاب مرکز الاولیا لاہور 1971ء

مسلم

دار ابن حزم بیروت

جامع کرامات الاولیاء

مرکز اہلسنّت برکات رضا الہند

معجم کبیر

دار احیاء التراث العربی بیروت

مکتوبات امام احمد رضا

مکتبہ نبویہ مرکز الاولیا لاہور

شعب الایمان

دار الکتب العلمیۃ بیروت

سیرت مجدد الف ثانی

امام ربانی فاؤنڈیشن باب المدینہ کراچی

الفردوس بمأثور الخطاب

دار الکتب العلمیۃ بیروت

سیدی ضیاء الدین احمد القادری

حزب القادریہ مرکز الاولیا لاہور

جمع الجوامع

دار الکتب العلمیۃ بیروت

عالمگیری

دار الفکر بیروت

التیسیر

مکتبۃ الامام الشافعی ریاض

فتاوٰی رضویہ

 رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور

مراٰۃ المناجیح

ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیا لاہور

وقارالفتاویٰ

بزم وقار الدین باب المدینہ کراچی

اتحاف السادۃ المتقین

دار الکتب العلمیۃ بیروت

فتاویٰ بحرالعلوم

شبیر برادرز مرکز الاولیا لاہور

مکتوباتِ امام ربانی

کوئٹہ

بہار ِشریعت

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

مبدا ومعاد

مکتبۃ الحقیقۃ استنبول

 حدائقِ بخشش شریف

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

 یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔



[1]۔۔۔ شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۲۷۶ حدیث۸۱۴۰

[2]۔۔۔ مزید معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ سے رسالہ’’ فاتحہ اور ایصالِ ثواب کا طریقہ(صفحات28) ‘‘ ہدیۃً حاصل کرکے پڑھئے۔