منقول ہے کہ ایک روز حجاج نے غضبان بن قبعثری سے امتحاناً سوالات پوچھے،چنانچہ حجاج نے پوچھا: لوگوں میں سب سے کریم کون ہے؟غضبان نے کہا:جو دین کی سب سے زیادہ سمجھ رکھنے والا،اپنی قسم کا سب سے بڑھ کر پاس رکھنے والا،مسلمانوں پر سب سے بڑھ کر خرچ کرنے والا،کمزوروں پر سب سے بڑھ کر سخاوت کرنے والا اور مسکینوں کو خوب کھلانے والا ہو۔پوچھا:سب سے بڑا کمینہ کون ہے؟کہا:جو حقیروذلیل کو دینے والا،بھائیوں کے خرچ میں تنگی کرنے والا اور انواع واقسام کی نعمتوں میں مشغول رہنے والاہو۔ پوچھا: لوگوں میں سب سے بُرا کون ہے؟کہا:جو سب سے زیادہ بے وفائی کرنے والاہو،ہمیشہ کھیل کود میں مشغول رہنے والا ہو،سب سے زیادہ علیحدگی پسند ہو اور سب سے بڑھ کر تنگ دل ہو۔پوچھا:لوگوں میں سب سے بہادر کون ہے؟کہا:جو سب سے زیادہ تلوار لے کر لڑنے والا ہو،سب سے بڑھ کر مہمان نوازی کرنے والا ہو اورظلم وستم سے سب سے زیادہ دور ہو۔پوچھا:لوگوں میں سب سے بزدل کون ہے؟کہا:جو لڑائی کی صفوں سے پیچھے رہنے والا ہو،دشمن کی طرف پیش قدمی سے پیچھے ہٹنے والا ہو،لڑائی کے وقت خوف کے مارے کپکپانے والا ہو،گھر میں رہنے کو پسند کرنے والا ہو اور تلوار کی ضرب کو ناپسند کرنے والا ہو۔پوچھا:لوگوں پر سب سے بھاری کون ہے؟کہا:جو خوب لعن طعن کرنے والا ہو،سلام میں بخیل ہو،بہت بیہودہ گو ہواور کھانے پر حریص ہو۔پوچھا:لوگوں میں
بہتر کون ہے؟کہا:جو لوگوں پر زیادہ احسان کرنے والا ہو،سب سے بڑھ کر عدل وانصاف کا پیکر ہو،ہمیشہ لوگوں سے درگزر کرنے والا ہواور اُن کے لئے کھلے دل کا مالک ہو۔
حجاج نے پوچھا: کیسے کسی اجنبی کے بارے میں معلوم ہوگا کہ وہ شریف النسب ہےیاگھٹیانسب؟کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّامیر کا بھلا کرے،بےشک شریف النسب کاادب،اس کی عقل،اس کے اچھے خصائل،اس کی عزت نفس،کثیر بردباری، خندہ رو ہونا اوراس کی اچھی گفتگو آپ کو اس کی اصلیت بتاتی ہیں ۔پس عقل مند شخص جو شریف النسب کے بارے میں بصیرت رکھتا ہے وہ شریف النسب کو اس کے اچھے خصائل سے جان لے گااور گھٹیا اورجاہل شخص اس سے بے خبر ہی رہے گاجیسے ایک انمول موتی کسی جاہل کے ہاتھ میں پڑتا ہے تو وہ اس کی قدروقیمت نہیں جانتا لیکن جب اس کی طرف کسی عقل مند کی نظر پڑتی ہے تو وہ اس کی قدروقیمت کو جان لیتا ہے اور یہ جاننا ہی اس کی قدروقیمت کوواضح کرتاہے۔پوچھا:عقل منداورجاہل کون ہے؟کہا:اللہعَزَّ وَجَلَّامیرکابھلا کرے،عقل مندوہ ہےجوبیہودہ گوئی نہیں کرتا،غضب آلودنگاہوں سے نہیں دیکھتا،دل میں دھوکادہی نہیں رکھتا اورعذرطلب نہیں کرتا اور جاہل وہ ہے جو بیہودگوئی کرتا ہے،کھانا کھلانے پر احسان جتلاتا ہے، اپنے سے بڑےکوسلام کرنے میں بخل کرتا ہے اور اپنے غلام کے ساتھ فحش کلامی سے پیش آتا ہے۔ پوچھا: دور اندیش عقل مند کون ہے؟کہا:جو اپنے کام سے کام رکھے اور فضول کاموں کو چھوڑ دے۔پوچھا:عاجز کون ہے؟ کہا:جواپنی آراپرخوش ہونےوالاہواوراپنےپیچھےنظررکھے۔پوچھا:کیاعورتوں میں تمہارےنزدیک کوئی بھلائی ہے؟ کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّامیر کا بھلا کرے،وہ عورتیں جو اولاد والی ہیں وہ پسلیوں کی طرح ہیں جنہیں اگر سیدھا کیا جائے تو وہ ٹوٹ جاتی ہیں ۔ان عورتوں کے پاس ایک جوہر نفیس ہے جسے ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے سے حاصل کیاجاسکتاہےاورجوان کےساتھ اچھی طرح پیش آتاہےتووہ ان سےنفع اٹھاتاہےاوران سے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل کرتا ہےاور جو ان سے مشورہ لیتا ہے وہ اپنی حیات کو تکلیف میں ڈالتا ہے اور اپنی زندگی کو بے مزہ کرتا ہے۔عورتوں میں سب سے باعزت وہ ہیں جو سب سے بڑھ کر پاک دامن ہوں اور حسب ونسب کے اعتبار سے عورتوں میں سب سے زیادہ فخر والی وہ ہیں جوبے حیائی سے پاک ہوں اور جو عورتیں پاک دامنی سے ڈگمگاتی ہیں وہ مردار سے زیادہ بدبودار ہیں ۔حجاج نے کہا:اے غضبان!میں تمہیں قاصد بناکر ابن اشعث کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں تو تم جاکر اُس سے کیا کہوگے؟غضبان نے کہا:میں اپنی بات سے اُس کا رد کروں گا اور اُسے تکلیف دوں گا۔حجاج نے کہا:مجھے نہیں لگتاتم ایسا کہوگےبلکہ مجھے تم اس محل میں بیڑیوں میں
جکڑے دکھائی دے رہے ہو۔غضبان نےکہا:ایسا ہرگز نہیں ہوگا میں عنقریب اُسے اپنی زبان کی تیزی دکھاؤں گا اور اپنی فصاحت وبلاغت کے میدان میں اُسے دوڑاؤں گا۔حجاج نے کہا:اگر یہی بات ہے تو تم میرے قاصد بن کر کِرمان کی طرف جاؤ۔جب غضبان کِرمان کی طرف روانہ ہوگیا تو حجاج نے اُس کے پیچھے ایک جاسوس بھیجا اور حجاج تمام قاصدوں کے ساتھ ایسا ہی کرتا تھا کہ اُن کے ساتھ جاسوس بھیجتا۔ غضبان جب ابن اشعث کے پاس آیا تو اس سے کہا:حجاج نے تجھے معزول کردیا ہے لہٰذااب تو چوکنا ہوجا اور رات کے کھانے سے پہلے ناشتہ کرلے (یعنی حجاج کے حملہ کرنے سے پہلے اُس پر حملہ کردے ورنہ وہ رات تک تیری بیخ کنی کردے گا)۔ یہ سن کر ابنِ اَشعث چوکنا ہوگیا اور غضبان کو انعام واکرام سے نوازا۔ جب غضبان حجاج کے پاس واپس آیا تو جاسوس نے ابن اشعث اورغضبان کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو حجاج کو پہلے بیان کردی۔حجاج نے پوچھا:تم نے کِرمان کی سرزمین کو کیسا پایا؟کہا:سوکھی زمین ہے اگر وہاں لشکر کی تعداد زیادہ ہوجائے تو لشکر کے افراد بھوکے مریں اور اگر کم ہوجائے تو ہلاک ہوجائیں ۔حجاج نے کہا: کیا تم ہی وہ شخص نہیں ہو جس نے یہ خبیث بات کہی تھی کہ قبل اس کے کہ حجاج تمہیں ہلاک کرے تم اُسے ہلاک کردو،بخدا میں تجھے قتل کروں گا۔غضبان نے کہا:ااے امیر !مجھے امان دیجئے۔بخدا !جس کو یہ بات کہی گئی اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور جس کے متعلق کہی گئی اُس کوئی نقصان نہیں پہنچا۔حجاج نے کہا:کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ میں تجھے اس محل میں بیڑیوں میں قید دیکھ رہا ہوں ۔ لے جاؤ اسے اور اسے بیڑیاں پہناکر قید کردو۔غضبان قصر امارت میں قید رہا حتّٰی کہ حجاج نے واسط میں ایک محل تعمیر کرایا جو اسے بہت پسند آیاتو اُس نے محل کے ار دگرد لوگوں سے پوچھا:تمہیں میرا یہ محل اور اس کی تعمیر کیسی لگی؟لوگوں نے کہا: یہ ایک اچھا اور مضبوط محل ہے جس میں کثیر خیر اور قلیل عیب ہے۔حجاج نےکہا:تم لوگ مجھے اس محل کے متعلق خیر خواہانہ نصیحت کیوں نہیں کرتے؟لوگوں نے کہا:ایسی نصیحت تو غضبان کرسکتا ہے ۔حجاج نے غضبان کو بلالیا اور اس سے پوچھا:تم میرے اس محل اور اس کی تعمیر کو کیسے دیکھتے ہو؟غضبان نے کہا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ امیر کا بھلا کرےآپ نے اس محل کو اپنے وطن سے دور بنایا،نہ یہ آپ کا ہے نہ آپ کی اولاد کا اور نہ یہ آپ کے لئے ہمیشہ رہے گا۔نہ اس میں آپ کا کوئی وارث رہے گا،نہ یہ آپ کے لئے باقی رہے گا اور نہ آپ اس کے لئے باقی رہیں گے۔حجاج نے کہا:غضبان نے سچ کہا اسے دوبارہ جیل لے جاؤ۔جب غضبان کو اٹھاکر لے جانے لگے تو اس نے کہا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ
ترجمۂ کنز الایمان:پاکی ہے اسے جس نے اس سواری کو ہمارے
مُقْرِنِیْنَۙ(۱۳)(پ۲۵،الزخرف:۱۳) بس میں کردیا اور یہ ہمارے بوتے(قابو) کی نہ تھی۔
حجاج نے یہ سنا تو کہا:اسے اتارو ۔جب غضبان کو اتار اگیا تو اُس نے کہا:
رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(۲۹) (پ۱۸،المؤمنون:۲۹) ترجمۂ کنز الایمان:اے میرے رب مجھے برکت والی جگہ اتار اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔
حجاج نے کہا: اسے زمین پر ڈال دو ،جب اُسے زمین پر ڈالا گیاتو اُس نے کہا:
مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى(۵۵)(پ۱۶،طٰهٰ:۵۵) ترجمۂ کنزالایمان:ہم نےزمین ہی سے تمہیں بنایااور اسی میں تمہیں پھر لے جائیں گے اوراسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔
حجاج نے کہا:اسے زمین پر گھسیٹو۔لوگ گھسیٹنے لگےتو غضبان نے کہا:
بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕ- (پ۱۲،ھود:۴۱) ترجمۂ کنز الایمان: اللہکے نام پر اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا۔
حجاج نے کہا:اسےچھوڑدواس کی ہوشیاری وچالاکی مجھ پر غالب آگئی۔پھر حجاج نے اُس کو معاف کردیا اوراس پر انعام واکرام کیا اور اُسے جانے دیا۔
منقول ہے کہ ایک روز عبد الملک بن مروان اپنے خواص اور قصہ گو افراد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھاکہ اُس نے کہا:تم میں سے کون ہے جو حروف تہجی کی ترتیب سے بدن کے حصوں کے نام بتائے؟حضرت سیِّدُناسوید بن غفلہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کھڑے ہوئے اور فرمایا:اے امیر المؤمنین !میں بتاؤں گا۔عبد الملک نے کہا: بتاؤ۔ حضرت سیِّدُناسُوَیْدبن غَفَلہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےفرمایا:اَنْفٌ(ناک)بَطْنٌ(پیٹ)تَرْقُوَۃٌ(ہنسلی کی ہڈی)ثَغْرٌ(اگلے دانت)جُمْجُمَۃٌ(کھوپڑی)حَلْقٌ(حلق)خَدٌّ(رخسار)دِمَاغٌ (دماغ)ذَکَرٌ(آلَۂ تناسل)رَقَبَۃٌ(گردن)زَنْدٌ(ہاتھ کاگٹا)سَاقٌ(پنڈلی)شَفَۃٌ(ہونٹ)صَدْرٌ(سینہ)ضِلْعٌ(پسلی)طِحَالٌ(تلی)ظَہْرٌ (پیٹھ)عَیْنٌ(آنکھ) غَبَبٌ (آدمی کے گلے کے نیچے لٹکا ہواگوشت) فَمٌ(منہ) قَفَا(گدی) کَفٌّ(ہتھیلی) لِسَانٌ(زبان) مَنْخَرٌ(نتھنا) نُغْنُغٌ(حلق میں بڑھاہواگوشت)ھَامَۃٌ(کھوپڑی)وَجْہٌ(چہرہ)یَدٌ(ہاتھ)۔عبدالملک کےاصحاب میں سےایک شخص کھڑاہوا اوراُس نے کہا: میں ایک ایک حرف تہجی سے دو دو بدن کے حصوں کے نام بتاؤں گا۔عبدالملک یہ سن کر ہنسا اورحضرت سیِّدُناسویدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےکہا:کیا تم نے یہ سنا؟آپ نے فرمایا: میں تین تین نام بتاؤں گا ۔عبد الملک نےکہا:بتاؤاورتمہاری
جوخواہش ہوگی وہ پوری کی جائےگی۔فرمایا:اَنْفٌ(ناک)اَسْنَانٌ(دانت)اُذُنٌ (کان) بَطْنٌ (پیٹ)بِنْصَرٌ(چھوٹی انگلی)بِزَّۃٌ (جسمانی ساخت)تَرْقُوَۃٌ(ہنسلی کی ہڈی)تُمْرَۃٌ(حشفہ)تِیْنَۃٌ(بچےکاتالو)ثَغْرٌ(اگلےدانت) ثَنَایَا(سامنےکےدودانت)ثَدْیٌ(پستان)جُمْجُمَۃٌ (کھوپڑی)جَنْبٌ(پہلو)جَبْہَۃٌ(پیشانی)حَلْقٌ(حلق)حَنَکٌ(تالو) حَاجِبٌ (ابرو)خَدٌّ(رخسار)خِنْصَرٌ(چھوٹی انگلی) خَاصِرَۃٌ(کوکھ) دُبُرٌ(سرین)دِمَاغٌ (دماغ)دَرَادِیْرٌ (مسوڑھے) ذَقَنٌ (ٹھوڑی)ذَکَرٌ(آلَۂ تناسل)ذِرَاعٌ(بازو)رَقَبَۃٌ (گردن)رَأْسٌ(سر)رَکْبَۃٌ (گھٹنا)زَنْدٌ(ہاتھ کاگٹا) زَرْدَمَۃٌ(گلا)زُبٌّ (ذَکَر)۔یہ سن کرعبْدُالملک اتناہنساکہ ہنستے ہوئے چت لیٹ گیا۔حضرت سیِّدُناسوید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےسِلسلۂ کلام جاری رکھتےہوئےفرمایا:سَاقٌ(پنڈلی)سُرَّۃٌ(ناف)سُبَابَۃٌ(شہادت کی انگلی) شَفَۃٌ (ہونٹ) شَفْرٌ(پلک کی جڑ) شَارِبٌ(مونچھ)صَدْرٌ(سینہ)صُدْغٌ(کنپٹی)صَلْعَۃٌ(سرکی کھال) ضِلْعٌ(پسلی) ضَفِیْرَۃٌ (چوٹی)ضِرْسٌ(داڑھ) طِحَالٌ (تلی)طُرَّۃٌ(گیسو) طَرَفٌ(بدن کاایک حصہ) ظَہْرٌ(پیٹھ)ظُفْرٌ(ناخن)ظَلْمٌ (چمکداردانت) عَیْنٌ(آنکھ) عُنُقٌ (گردن) عَاتِقٌ (مونڈھا)غَبَبٌ(آدمی کےگلےکےنیچےلٹکاہواگوشت)غَلْصَمَۃٌ (گلا)غُنَّۃٌ(ناک)فَمٌ(منہ)فَکٌّ(جبڑا)فُؤَادٌ (قلب)قَلْبٌ(دل)قَفَا (گدی)قَدَمٌ(قدم)کَفٌّ(ہتھیلی)کَتِفٌ (کاندھا)کَعْبٌ(ٹخنہ)لِسَانٌ(زبان)لِحْیَۃٌ (داڑھی)لَوْحٌ(بدن کی چوڑی ہڈی)مَنْخَرٌ (نتھنا) مِرْفَقٌ(کہنی)مَنْکِبْ(مونڈھا)نُغْنُغٌ(حلق میں بڑھا ہواگوشت) نَابٌ (نوکیلادانت) نَنٌّ (کمزوربال)ھَامَۃٌ(کھوپڑی)ہَیْئَۃٌ (صورت) ہَیْفٌ(پتلی کمر) وَجْہٌ (چہرہ)وَجْنَۃٌ (گال) وَرْکٌ (ران کے اوپر کا حصہ) یَمِیْنٌ(داہنا ہاتھ)یَسَارٌ(بایاں ہاتھ) یَافُوْخٌ (تالو)۔عبْدُالملک یہ سن کرہنسا اورکہا:بخدا!اس سے زیادہ بیان نہیں ہوسکتا انہیں دیدو جویہ چاہتے ہیں ۔ پھر عبْدُالملک نے انہیں اِنعام واِکرام سے نوازا اور ان کے ساتھ خوب احسان کیا۔
حجاج بن یوسف ثقفی عرب کے فصحامیں سے تھا ،ظالِم وجابر اور سرکش ہونے کے ساتھ ساتھ سخی بھی تھا۔ اگر وہ کسی دن خوب ہنستا تو بعد میں باربار استغفاربھی کرتا،ایک ہزار دسترخوان پر یہ لوگوں کو کھانا کھلاتا اور دستر خوان کے ارد گرد گھومتے ہوئےکہتا:اےاہْلِ شام!روٹی کےٹکڑےکروکہ یہ تمہارےپاس دوبارہ لوٹ کرنہ آئے۔اس کےہردسترخوان پر10آدمی ہوتے اوریہ سلسلہ ہرروز ہوتا اور حجاج یہ کہتا:میں بہت سارے لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے دسترخوان پر حاضر نہیں ہوتے۔حجاج سے کہاگیا:وہ بن بلائے آنے کو ناپسند کرتے ہیں ۔حجاج نے کہا:اب صبح وشام میرے قاصد انہیں بلانے کے لئے جائیں گے۔
حضرت سیِّدُناعبْدُالملک بن عُمَیْررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے منقول ہے کہ عبْدُالملک بن مروان کو اہْلِ عراق کی بگڑتی ہوئی صورت حال معلوم ہوئی تو اُس نے اپنے گھر والوں اور اپنے لشکر کے دلیر لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہا:عراق میں شورش کی آگ بھڑک چکی ہے،کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو اپنی کاٹنے والی تلواراور دل و دماغ کی تیزی سے اس شورش کی آگ کو بجھا سکے؟یہ سن کر کوئی نہ بولا تو حجاج بن یوسف کھڑا ہوا اور کہا:عراق کے لئے میں حاضر ہوں ۔عبد الملک نے کہا:تم کون ہو؟کہا:میں حجاج بن یوسف ہوں ۔عبدالملک نے کہا:کس قبیلے سے تمہارا تعلق ہے؟کہا:ثقیف۔عبدالملک نے کہا:بیٹھ جاؤ، تم وہاں جانے کے لائق نہیں ۔پھر عبدالملک نے کہا:کیا ہوا کہ میں دیکھ رہاہوں سر جھکے ہوئے ہیں اور زبانیں خاموش ہیں ۔ کسی نے کوئی جواب نہ دیا تو حجاج کھڑا ہوا اور کہا:میں عراق کے لئے حاضر ہوں ۔عبد الملک نے کہا:میرے پاس سے دور رہو اورتم وہاں جانے کے قابل نہیں ۔عبد الملک نےپھر حاضرین سے کہا:کون ہے جو عراق کی حکومت سنبھالے؟ لوگ خاموش رہے تو حجاج پھر کھڑا ہوا اور کہا:میں عراق کے لئے حاضر ہوں ۔عبدالملک نے کہا:اب میرا گمان یہ ہے کہ تم ہی اس عہدہ کے لائق ہو۔اے ابنِ یوسف ہر شےکی ایک نشانی اور علامت ہوتی ہے تمہاری نشانی اور علامت کیا ہے؟ کہا:سزا دینااور معاف کرنااور جو مجھ سے بحث کرے گا میں اُسے کاٹ دوں گا ،جو مجھ سے لڑےگامیں اُسے ختم کردوں گا اور جو میری مخالفت کرے گا میں اُسے ماردوں گااور جو میرے قریب ہوگا میں اُس کا اکرام کروں گااور جو امان طلب کرے گا میں اُسے امان دوں گااورجو اطاعت میں جلدی کرے گا میں اُسے عزت دوں گا اور یہی میری نشانی اور علامت ہے۔اے امیرالمؤمنین !آپ مجھے آزما کر دیکھیں میں آپ کے لئے لوگوں کی گردنین کاٹ دوں گا،خوب مال جمع کروں گا اور آپ کو میری ذات سے بہت سے فائدے پہنچیں گے اور اگر میں ایسا نہ کرسکا تو آپ مجھے تبدیل کردیجئے گا۔حکومت کی چاہت کرنے والے لوگ تو بہت ہیں لیکن اسے چلانے والے کم ہیں ۔عبدالملک نے کہا:تم ہی اس کے اہل ہو،بتاؤ تمہیں اس کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے؟ حجاج نے کہا:تھوڑا سا لشکر اور مال۔
عبدالملک نے سپہ سالار کو بلایا اورکہا:جتنا یہ لشکر چاہتا ہے اس کے لئے اتنا لشکر تیار کرو اور انہیں اس کی اطاعت کا کہو اوراس کی مخالفت سے ڈراؤ۔پھر خازن کو بلایا اور اسے کہا :جتنا یہ مال چاہتا ہے اتنا اسے دیدو۔حجاج عراق کی طرف چل پڑا۔ حضرت سیِّدُناعبد الملک بن عمیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان کرتے ہیں :ہم جامع مسجد کوفہ میں موجود تھے کہ کسی آنے والے نے
ہمیں بتایا : یہ آنے والا حجاج ہے جو کوفہ پر امیر بن کر آیا ہے۔لوگ اس کی طرف گردن اٹھا کر دیکھنے لگے اور صحن مسجد کو اس کے لئے خالی کردیا۔ہم نے چلتے ہوئے اسے دیکھا تو اس پر سرخ عمامہ تھا اور وہ آکر منبر پر بیٹھ گیا،جب تک مسجد بھر نہ گئی اس نے کسی سے کوئی بات کی نہ زبان سے کوئی حرف نکالا۔اہل کوفہ اس وقت اچھی اور عمدہ حالت میں تھے، ایک کوفی شخص مسجد میں داخل ہوتا تو اس کے ساتھ 20یا30اس کے اہل،غلام اور ہم نواریشم ودیباج کے لباس میں ملبوس آتے۔ اُس روز مسجد میں عمیر بن ضابیء بھی تھاجس نے حجاج کو منبر پر دیکھا تو اپنے ساتھی سے کہا:کیا یہ تمہیں گالی دے رہا ہے؟ اُس نے کہا:خاموش رہو،پہلے ہم اس کی بات تو سُن لیں ۔عمیر بن ضابیٔ نے خاموش رہنےسےانکارکردیااورکہا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ بنواُمیہ پرلعنت کرےکہ وہ اس جیسے شخص کوعراق پرامیرمقررکرتےہیں ،اگریہ شخص عراق کاامیررہاتو عراق کو تباہ کر دے گااور اگر اس کی امارت طویل رہی تو یہ کچھ نہیں چھوڑے گا۔حجاج یہ سن کر خاموش رہا اور دائیں بائیں دیکھتا رہاپھر جب اُس نے دیکھا کہ مسجد بھر گئی تو کہا:کیا تم سب جمع ہوگئے؟کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔حجاج نے کہا:میں تمہاری تعداد سے واقف نہیں ہوں تو بتاؤکہ کیا تم سب جمع ہوگئے؟ایک شخص نے کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّامیر کا بھلا کرے ہم سب جمع ہوگئے ہیں ۔ یہ سن کر حجاج ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور کہا:میں تمہارے عمامے اور داڑھیوں کے درمیان خون بہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اے اہلیان عراق!میں تمہارے ٹیڑھے پَن کو سیدھا کردوں گا،تمہارے فتنہ کو ختم کردوں گا، تمہیں دوسروں کے لئے عبرت کا نمونہ بناؤں گا اور میں تمہیں مارمار کر سیدھا کروں گا۔اے اہلیانِ عراق!میں جو وعدہ کرتا ہوں اُسے پورا کرتا ہوں اور جو عزم کرتا ہوں اسے پورا کئے بغیر نہیں رہتا۔اے اہلیانِ عراق!تم نے ربّ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہے اب تمہارے پاس ربّ تعالیٰ کا عذاب آیا ہے لہٰذااب سیدھےہوجاؤ ،اطاعت وفرمانبرداری کرو اور میری بات غور سے سنو ورنہ میری تلوار تمہارا کام کردے گی۔میں نے سچ کو نیکی کے ساتھ پایا اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور میں نے جھوٹ کو فسق وفجور کے ساتھ پایا ہے اور فسق وفجور جہنم میں لے جاتا ہے ۔مجھے امیرالمؤمنین نے تمہاری طرف بھیجا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ میں تم پر خرچ کروں اور تمہیں تمہارے دشمن مہلب بن ابو صفرہ سے لڑنے کے لئےتیار کروں ۔میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جو شخص بھی تین دن کے بعد اپنا عطیہ لے کر جنگ سے پیچھے رہا میں اُس کی گردن اڑادوں گا۔اے غلام! امیرالمؤمنین کا خط پڑھ کر سناؤ۔اُس نے پڑھا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم،یہ خط عبْدُ الملک بن مروان کی طرف سے کوفہ کے مسلمانوں کی طرف ہے۔ اَلسَّلَامُ
عَلَیْکُم!۔یہ سن کر کسی نے سلام کا جواب نہ دیاتو حجاج نے کہا:اے غلام رکو اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا:تمہیں امیر المؤمنین سلام کہہ رہے ہیں اور تم جواب نہیں دے رہے ؟کیا تم نے ایسا ہی ادب سیکھا ہے بخدا میں تمہیں ایسا ادب سکھاؤں گا کہ تم یاد رکھوگے۔اے غلام آگے پڑھو۔غلام نے آگے پڑھنا شروع کر دیا حتّٰی کہ جب وہ آخر میں اس قول ”سَلَامٌ عَلَیْکُم“ پر پہنچا تو مسجد میں موجود سب لوگوں نے کہا:امیرالمؤمنین پر بھی سلام ہو۔
پھر جب حجاج خطبہ سے فارغ ہوا تو لوگوں کو عطیات دینے لگا اور لوگ آکر اپنے عطیات لینے لگے حتّٰی کہ ایک بوڑھا شخص کانپتے ہوئے آیا اور کہا:اے امیر!آپ میری کمزوری دیکھ رہے ہیں ،میرا ایک بیٹا ہے آپ اسے میری جگہ جنگ میں قبول کرلیں ۔حجاج نے کہا:ہم نے قبول کیا۔جب وہ بوڑھا مڑ کر چلا گیا تو کسی نے حجاج سے کہا:اے امیر!کیا آپ اسے جانتے ہیں ؟حجاج نے کہا:نہیں ۔اُس نے کہا:یہ عمیر بن ضابیٔہےجس نے سیِّدُناعثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی ہجو میں ایک شعر کہا:
ھَمَّمْتُ وَلَمْ اَفْعَلْ وَکِدْتُّ وَلَیْتَنِیْ تَرَکَتُ عَلٰی عُثْمَانَ تَبْکِیْ حَلَائِلُہٗ
ترجمہ:میں نےایک کام(یعنی حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو شہید کرنے) کا پختہ عزم کیا لیکن اسے کر نہ سکا، کاش! میں اس کام کو عملی جامہ پہناتا۔میں نےعثمان کو اس حال میں چھوڑا کہ اُن کی ازواج رو رہی تھیں ۔
یہی وہ شخص تھا جو حضرت سیِّدُناعثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی شہادت کے بعد ان کے پاس آیا اور ان کے مبارک پیٹ کو کچل کر ان کی دو پسلیاں توڑ دیں ۔حجاج نے کہا:اُس بوڑھے کو دوبارہ میرے پاس لاؤ۔جب وہ بوڑھا آگیا تو حجاج نے اُس سے کہا:کیا تم نے ہی امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے ساتھ بدسلوکی کی تھی؟اےبوڑھے!تیرا قتل مسلمانوں کے لئے اصلاح ہوگا۔اے تلوار والے !اسے لے جاؤ اور اس کی گردن اڑا دو۔
حجاج کی ماں فارعہ بنت ہمام نے حجاج کو بھونڈی شکل میں پیدا کیا اور پیدائش کے وقت اس کا پچھلا مقام نہیں تھا تو اس کی دبر کی جگہ پر سوراخ کیا گیا۔اس نے پستان سے دودھ پینے سے انکار کردیا تو اس کے گھر والے بہت پریشان ہوئے ۔کہتے ہیں کہ شیطان ان کے سامنے حکیم عرب حارث بن کلدہ کی صورت میں آکر کہنے لگا کہ کیا بات ہے؟گھروالوں میں سے کسی نے واقعہ کی خبر دی تو اس نے گھر والوں سے کہا:اس کے لئے ایک بکرا ذبح کرو،اسے اس کاخون چٹاؤاور اس کے خون
میں اسے لتھیڑواور چہرے پر بھی اس کا خون مل دوتو چوتھے روز یہ پستان سے دودھ پینے لگے لگا ۔گھر والوں نے ایسا ہی کیا تو چوتھے روزاس نے دودھ قبول کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خون ریزی سے باز نہ رہ سکااور حجاج اپنے متعلق خود کہتا تھاکہ اسے خونریزی کرنے اور ایسے امور کے ارتکاب میں بہت مزہ آتا ہے جو دوسرے نہ کرسکتے ہوں ۔
حجاج کی ماں حجاج کے والد سے پہلےحارث بن کلدہ کے نکاح میں تھی ۔ایک دن سحری کے وقت حارث حجاج کی ماں کے پاس آیا ،اُسے دانتوں میں خلال کرتے ہوئے دیکھاتو طلاق دیدی۔حجاج کی ماں نے حارث سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا؟اُس نے کہا:اگر تونے جلدی ناشتہ کیا ہے توتُو بہت حریص ہے اور اگر تونے اس حال میں رات گزاری کہ کھانا تیرے دانتوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا تو تُو گندی ہے۔حجاج کی ماں نے کہا:یہ دونوں باتیں نہیں بلکہ میں مسواک کے ٹکڑے سے ویسے ہی خلال کررہی تھی۔حارث نے کہا:فیصلہ ہوچکا ہے۔چنانچہ حجاج کی ماں نے اس کے بعد یوسف بن ابوعقیل ثقفی سے نکاح کرلیا جس سےحجاج پیدا ہوا۔
منقول ہےکہ حجاج جب حاکم بناتواُس کی عُمَر20سال تھی اور53سال کی عُمَرمیں اس کااِنتقال ہوا۔یہ انتہائی ظالم وجابر اور خوب خون ریزی کرنے والا تھا۔حجاج نے جن لوگوں کو جنگوں کے علاوہ قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ20ہزار تک پہنچتی ہےاور جب یہ مرا تو50ہزارمرداور30ہزار عورتیں اس کی قید میں ایسی تھیں جن پر کوئی حد نہ تھی۔یہ عورتوں اور مردوں کو ایک ساتھ قید کرتا تھا اور ایسی جگہ قید کرتا تھا جہاں ان کےاوپرگرمی یاسردی سےبچاؤکےلئےکوئی چھت نہ ہوتی تھی۔ امام شعبیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیسےکسی نے پوچھا: کیاحجاج مومن تھا؟توآپ نے فرمایا:وہ شیطان کاپیروکارتھا۔آپ ہی سے منقول ہے کہ اگر ہر امت اپنے خبیث وفاسق شخص کو لائے اور ہم صرف حجاج کو لے آئیں تو یہ اُن سب پر بھاری ہوگا([1])۔
منقول ہے کہ ہند بنْتِ نعمان اپنے زمانے کی خوبصورت عورتوں میں سےایک تھی ۔حجاج کو جب اس کے حسن وجمال کی خبر ملی تواس نےاُسے نکاح کا پیغام دیا اور کثیر مال دے کر شادی کے لئے راضی کرلیا۔ہند نے دو لاکھ درہم مہر
رکھنے کی شرط کی جسے حجاج نے قبول کیا اور یوں ان دونوں کی شادی ہوگئی پھر ہند حجاج کے ساتھ اپنے والد کے شہر معرہ آگئی۔ہند فصیح وبلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ ادیبہ بھی تھی،حجاج نے ایک طویل عرصہ ہند کے ساتھ معرہ میں گزارہ پھر حجاج اسے لے کر عراق آگیا جہاں کچھ عرصہ یہ ایک ساتھ رہے پھر ایک دن حجاج ہند کے پاس آیا تو اسےآئینہ کے سامنے ایک شعر کہتے سناجس میں حجاج پر عارتھی تو حجاج یہ سن کر واپس لوٹ گیا اور ہند کو طلاق دینے کا ارادہ کیا ۔ طلاق دینے کے لئے حجاج نے عبداللہبن طاہر کو وکیل کیا اوراسے کہا:میری طرف سے اُسے دولاکھ درہم پہنچادینا اور دوکلموں سے اُسے طلاق دے دینا ۔ابنِ طاہر نے ہند کے پاس آکر دو کلموں کے ذریعے حجاج کے وکیل ہونے کی حیثیت سے طلاق دیدی اور دولاکھ درہم پیش کردیئے۔ہند نے کہا:اےاِبْنِ طاہر !مجھے اس طلاق پر کوئی ندامت وپشیمانی نہیں ۔یہ دولاکھ درہم جو تم لے کر آئےہومجھےبنوثقیف کےکتےسےرہائی ملنےکی خوشی میں تمہارےہوئے۔پہنچتےپہنچتےاس بات کی خبراُموی خلیفہ عبْدُالملک تک پہنچی اوراس کےسامنے ہندکےحسن وجمال کی تعریف کی گئی توعبْدُالملک نے ہند کی طرف نکاح کاپیغام بھیج دیا۔ہند نےعبْدُالملک کی طرف اپنےمتعلق لکھا:برتن میں کتےنےمنہ ماردیا ہے۔ عبْدُالملک تک یہ تحریر پہنچی تووہ اسے دیکھ کر ہنس پڑا اور ہند کی طرف لکھا:جب کتا کسی برتن میں منہ مار دے تو اسے مٹی سے سات دفعہ دھولو لہٰذا تم بھی ایسا کرو برتن استعمال کےقابل ہوجائے گا۔جب ہند نے یہ تحریر پڑھی تو اب اُس کے پاس پیغام نکاح کو قبول کرنے سے انکار کی کوئی گنجائش نہ رہی۔چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حمد وثنا کے بعدعبْدُالملک کی طرف لکھا:اے امیر المؤمنین!بخدا!میں آپ کے ساتھ ایک شرط کے ساتھ ہی نکاح کروں گی اور وہ شرط یہ ہے کہ حجاج میری کجاوےکوننگےسراوربرہنہ پا معرہ سے لے کر آپ کے شہر تک آئے گا۔ عبْدُالملک نے جب اس تحریر کو پڑھا تووہ بہت ہنسا اور حجاج کی طرف لکھ بھیجا کہ وہ ہند کی شرط کو پورا کرے۔ حجاج نے جب عبْدُ الملک کی تحریر پڑھی تو اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوگیا اور کسی قسم کاانکار نہ کیا اورہند کی طرف لکھاکہ وہ تیاری کرے۔حجاج اونٹ سواروں کاایک قافلہ لےکرہندکےشہرمعرہ پہنچ گیا۔ہند اپنی لونڈیوں اورخادماؤں کے ساتھ کجاوے میں آکر بیٹھ گئی جبکہ حجاج نے اونٹ کی نکیل تھام لی اور اسے لے کر چل پڑا۔ہند بار بار کجاوے کا پردہ ہٹانے کا کہتی اور حجاج کو دیکھ کر ہنس پڑتی اور سارے راستے وہ حجاج کےساتھ ہنسی مذاق میں مشغول رہی حتّٰی کہ جب خلیفہ کاشہر قریب آگیاتو اس نے ایک دیناراٹھا کر زمین پرپھینک دیا اور پکارکرکہا:اے شتربان!ہمارا ایک درہم گر گیا ذرا اسے اٹھا لینا۔حجاج نے زمین کی طرف دیکھا تو اسے صرف ایک دینار ہی پڑا نظر آیا،اس نے کہا:ایک دینار ہی نظر آرہا ہے۔ہند
نےکہا:وہ درہم ہی ہوگا۔حجاج نے کہا:نہیں وہ دینار ہے۔ہند نےکہا:خدا کا شکر ہے کہ اُس نےہمیں گرے ہوئے درہم کے بدلے دینار عطا کیا(اس بات میں حجاج کی طرف اشارہ تھا)۔حجاج یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا اور کسی قسم کا جواب نہ دیا۔ہند کی عبْدُ الملک کے ساتھ شادی ہوگئی۔
حضرت سیِّدُناعلامہ ابن جوزی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیاپنی کتاب”اَلْمُنْتَظَم“میں حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے مناقب میں ذکر کرتے ہیں کہ آپ جب والی مقرر ہوئے تو آپ تک یہ خبر پہنچی کہ ازواج مطہرات کا مہر500درہم تھا اور حضرت سیِّدَتُنافاطمہ زہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکا مہر400درہم تھا ۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اجتہاد کرتے ہوئےیہ خیال فرمایا کہ جگر گوشَۂ رسول حضرت سیِّدَتُنافاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے مہر سے زیادہ عورتوں کا مہر نہیں ہونا چاہئے۔چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور حمد وثنا کے بعد ارشاد فرمایا:اے لوگو!چار سو درہم سے زیادہ عورتوں کے مہر نہ رکھواور جو اس سے زیادہ رکھے گا تو یہ زیادتی بیت المال میں جمع کرادی جائے گی۔لوگ آپ کے سامنے کچھ بولنے سے ڈرے تولمبےہاتھوں والی ایک عورت کھڑے ہوکر کہنے لگی:آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں جبکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتا ہے(اوراگرتم ایک بی بی کےبدلےدوسری بدلناچاہواور):
وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْــٴًـاؕ- (پ۴،النساء:۲۰) ترجمۂ کنز الایمان:اُسے ڈھیروں مال دےچکےہوتواس میں سے کچھ واپس نہ لو ۔
یہ سن کرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا:عورت نے درست بات کہی اور آدمی خطا کرگیا۔
ایک عورت امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس آئی اور کہا:میرا شوہر دن کوروزہ رکھتا اوررات کوقیام کرتاہے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےفرمایا:تمہارا شوہراچھاآدمی ہے۔ آپ کی مجلس میں اس وقت حضرت سیِّدُناکعب بن سُوررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہموجود تھے، انہوں نےآپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سےعرض کی:یہ عورت اپنےشوہرکے حَقِّ زوجیت ادانہ کرنےکی شکایت کررہی ہے۔امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعُمَر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا : تم نے ہی اس معاملے کو سمجھا ہے لہٰذا اب فیصلہ بھی تم ہی کرو گے۔حضرت سیِّدُناکعب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کہا:میرے پاس
اس عوت کے شوہر کو لایا جائے۔اُس عورت کا شوہرحاضرہوگیاتوآپ نےاُس سےکہا:یہ عورت تمہارےمتعلق شکایت کررہی ہے۔شوہر نے کہا:کیا کھانے یا پینے کی شکایت کررہی ہے؟حضرت سیِّدُناکعب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا: نہیں بلکہ یہ عورت حق زوجیت ادا نہ کرنے کی شکایت کررہی ہے۔ شوہر نے کہا:مجھے قرآن پاک میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکے عذاب کے ڈر نے اس سے غافل کردیا ہے۔ حضرت سیِّدُناکعب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّنے تمہارے لئے دو،تین اور چار تک عورتیں حلال فرمائی ہیں لہٰذا تم تین روز دن میں روزہ رکھو اور رات کو قیام کرو اور ایک دن ورات اسے دیدو۔حضرت سیِّدُناعمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے یہ سن کر فرمایا:میں نہیں جانتا کہ عورت کا کلام زیادہ عجیب ہےیا تم نے جو فیصلہ کیا وہ زیادہ عجیب ہے، جاؤمیں نے تمہیں بصرہ کا قاضی مقرر کیا۔
حضرت سیِّدُناابن مبارَک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان کرتے ہیں کہ میں حج کے ارادے اور حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی قبر انور کی زیارت کی نیت سے نکلا تو راستے میں مجھے کوئی سیاہ چیز دکھائی دی، قریب گیا تو دیکھا کہ وہ ایک بوڑھی خاتون ہے جس نے اونی قمیص پہنی ہوئی ہےاوراونی دوپٹہ اوڑھ رکھا ہے۔ میں نے اُسے سلام کیا تو اُس نے کہا:
سَلٰمٌ- قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ(۵۸) (پ۲۳،یٰسٓ:۵۸) ترجمۂ کنز الایمان:ان پر سلام ہوگا مہربان رب کا فرمایا ہوا۔
میں نے اُس سےکہا :اللہ عَزَّ وَجَلَّتم پر رحم کرے تم اس ویران جگہ پر کیا کررہی ہو؟اُس نے کہا:
مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗؕ- (پ۹،الاعراف:۱۸۶)
ترجمۂ کنزالایمان:جسےاللہگمراہ کرےاُسےکوئی راہ دکھانےوالا نہیں ۔
میں جان گیا کہ یہ راستہ بھٹک گئی ہےلہٰذا میں نے اُس سے کہا:تم کہاں جانا چاہتی ہو؟اُس نے کہا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا (پ۱۵،بنی اسرائیل:۱)
ترجمۂ کنز الایمان:پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیامسجد حرام (خانہ کعبہ)سے مسجد اقصا (بیت المقدس)تک۔
میں سمجھ گیا کہ اس نے حج ادا کرلیا ہے اور اب یہ بیت المقدس جانا چاہتی ہے تو میں نے اُس سے کہا:تم کب سے یہاں ہو۔اُس نے کہا:
ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا(۱۰) (پ۱۶،مریم:۱۰) ترجمۂ کنز الایمان:تین رات دن۔
میں نے کہا:میں تمہارے پاس کوئی کھانا نہیں دیکھ رہا ہوں جسے تم کھاؤ۔اُس نے کہا:
هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ(۷۹) (پ۱۹،الشعراء:۷۹) ترجمۂ کنز الایمان:وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔
میں نے کہا:تم وضو کیسے کرتی ہو؟اُس نے کہا:
فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا (پ۵،النساء:۴۳) ترجمۂ کنز الایمان:اورپانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔
میں نے کہا:میرے پاس کھانا ہے ،کیا تم کھاناکھاؤگی؟اُس نے کہا:
اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِۚ-(پ۲،البقرة:۱۸۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر رات آنے تک روزے پورے کرو۔
میں نے کہا:یہ رمضان کا مہینہ نہیں ۔اُس نے کہا:
وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ(۱۵۸) (پ۲،البقرة:۱۵۸) ترجمۂ کنز الایمان:اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو اللہ نیکی کا صلہ دینے والاخبردار ہے۔
میں نے کہا:سفر میں روزہ نہ رکھنا بھی جائز ہے۔اُس نے کہا:
وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴) (پ۲،البقرة:۱۸۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔
میں نے کہا:تم ایسے کیوں نہیں گفتگو کررہی ہو جیسے میں گفتگو کررہا ہوں ؟اُس نے کہا:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(۱۸) (پ۲۶،ق:۱۸) ترجمۂ کنز الایمان:کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔
میں نے کہا:کس قبیلے سے تمہارا کا تعلق ہے؟تواس نےکہا:
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)
(پ۱۵،بنی اسرائیل:۳۶) ترجمۂ کنز الایمان:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اورآنکھ اوردل ان سب سےسوال ہونا ہے۔
میں نے کہا:مجھ سے غلطی ہوگئی ،مجھے معاف کردیں ۔اُس نے کہا:
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘- (پ۱۳،یوسف:۹۲) ترجمۂ کنز الایمان:تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے۔
میں نے کہا:کیا میں تمہیں اپنی اونٹنی پر سوار کرکے قافلے تک پہنچادوں ؟اُس نے کہا:
وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ﳳ (پ۲،البقرة:۱۹۷) ترجمۂ کنز الایمان:اور تم جو بھلائی کرو اللہاسے جانتا ہے۔
میں نے اپنی اونٹنی اُس کے لئے بٹھادی تو اُس نے کہا:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ (پ۱۸،النور:۳۰) ترجمۂ کنز الایمان:مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں ۔
میں نے اپنی نگاہ نیچی کرلی اور اُس سے کہا:سوار ہوجاؤ۔وہ سوار ہونے لگی تو اونٹنی بدک گئی جس کی وجہ سے اُس کے کپڑے پھٹ گئے اور اُس نے کہا:
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ (پ۲۵،الشُورٰی:۳۰)
ترجمۂ کنز الایمان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا۔
میں نے اُس سے کہا:ذرا صبر کریں میں اونٹنی کی کلائی کو ران سے باندھ دیتا ہوں ۔اُس نے کہا:
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَۚ- (پ۱۷،انبیاء:۷۹) ترجمۂ کنز الایمان:ہم نے وہ معاملہ سلیمان کو سمجھا دیا۔
میں نے اونٹنی کی کلائی کو ران سے باندھ دیااور اس سے کہا:سوار ہوجائیں ۔وہ جب سوار ہوگئی تو اُس نے کہا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ(۱۳)پ۲۵،الزخرف:۱۳)
ترجمۂ کنز الایمان:پاکی ہے اسے جس نے اس سواری کو ہمارے بس میں کردیا اور یہ ہمارے بوتے(قابو) کی نہ تھی۔
میں نے اونٹنی کی لگام پکڑ لی اور چیختے ہوئے تیز چلانے لگاتو اُس نے کہا:
وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ- (پ۲۱،لقمٰن:۱۹) ترجمۂ کنز الایمان:اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر۔
یہ سن کر میں آہستہ آہستہ چلنے لگااور تَرَنُّم سے اشعار پڑھنے لگاتو اُس نے کہا:
فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِؕ- (پ۲۹،مزمل:۲۰) ترجمۂ کنزالایمان:اب قرآن میں سےجتناتم پرآسان ہواتناپڑھو۔
میں نےکہا:آپ کوبہت بھلائی ملی ہے۔اُس نے کہا:
وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۶۹) (پ۳، البقرة:۲۶۹) ترجمۂ کنز الایمان:اورنصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔
میں تھوڑا دور ہی اسے لے کر چلا تھا کہ میں نے اُس سے پوچھا:کیا تمہارا کوئی شوہر ہے؟اُس نے کہا:
یٰۤاَیُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ- (پ۷،المائدة:۱۰۱)
ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بُری لگیں ۔
میں خاموش ہوگیا اور اُس سے کوئی بات نہ کی حتّٰی کہ ہم قافلہ تک پہنچ گئے تو میں نے اُس سے کہا:تمہارا اس قافلے میں کون ہے؟اُس نے کہا:
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ- (پ۱۵،الکھف:۴۶) ترجمۂ کنز الایمان:مال اور بیٹے یہ جیتی دنیا کا سنگار(زینت) ہے۔
میں جان گیا اس کی اولاد بھی ہے تو میں نے کہا:سفر حج میں ان کی کیا ذمہ داری تھی۔اُس نے کہا:
وَ عَلٰمٰتٍؕ-وَ بِالنَّجْمِ هُمْ یَهْتَدُوْنَ(۱۶) (پ۱۴،النحل:۱۶) ترجمۂ کنز الایمان:اورعلامتیں اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں ۔
میں جان گیا کہ اس کے بیٹے سواروں کو راہ دکھانے والے ہیں ۔لہٰذا میں نے گول نما اور بلند خیموں کا قصد کیا اور اُس عورت سے کہا:ان بلند خیموں میں کون ہیں ؟اُس نے کہا:
وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) (پ۵،النساء:۱۲۵) ترجمۂ کنز الایمان:اللہنے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔
وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ۶،النساء:۱۶۴) ترجمۂ کنز الایمان:اوراللہنے موسٰی سے حقیقتاً کلام فرمایا۔
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ- (پ۱۶،مریم:۱۲) ترجمۂ کنز الایمان:اے یحییٰ کتاب مضبوط تھام۔
میں نے اے ابراہیم !،اے موسٰی!اور اے یحیی!کہہ کر پکارا تو میرے سامنے چاند جیسے نوجوان ظاہر ہوئے پھر جب میں اُن کے ساتھ اطمینان سے بیٹھ گیا تو عورت نے کہا:
فَابْعَثُوْۤا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا
ترجمۂ کنزالایمان:تواپنےمیں ایک کویہ چاندی لےکرشہرمیں بھیجو پھروہ غورکرےکہ وہاں کون ساکھانازیادہ ستھراہے کہ تمہارے لئے
فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ (پ۱۵،الکھف:۲۰) اس میں سے کھانے کو لائے۔
یہ سن کر اُن میں سے ایک گیا اور جاکر کھانا خرید لایا اور میرے آگے لا کر رکھ دیا۔عورت نے کہا:
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ(۲۴) (پ۲۹،الحاقة:۲۴) |
ترجمۂ کنز الایمان: کھاؤ اور پیورچتا ہوا صلہ اس کا جو تم نے گزرے دنوں میں آ گے بھیجا۔ |
میں نے کہا:میں یہ کھانا اُس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک مجھے تم لوگ اس عورت کے بارے میں نہ بتاؤ۔انہوں نے کہا:یہ ہماری والدہ ہیں جو چالیس سال سے قرآن پاک سے ہٹ کر اس خوف سے گفتگو نہیں کرتیں کہ کہیں وہ قرآن پاک سے ہٹ کرگفتگو کریں اور غلطی کرجائیں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُن پر ناراض ہو جائے اور وہ قادر مطلق ہرچیز پر قادر ہے۔ میں نے کہا:
ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۲۱) (پ۲۷،الحدید:۲۱)
ترجمۂ کنزالایمان:یہاللہکافضل ہےجسےچاہےدےاوراللہ بڑے فضل والا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
حجاج کے مرنے کے بعد اس کی پولیس کا انچارچ یزید بن ابو مسلم خلیفہ دمشق سلیمان بن عبد الملک کے پاس آیا تو سلیمان نے اِس سے کہا:کیا تو حجاج کا ٹھکانا جہنم میں نہیں دیکھتا ؟اُس نے کہا:اے امیر المؤمنین!ایسا نہ کہئے کیونکہ حجاج نے منبر پر آپ لوگوں کی اطاعت کا حکم دیا اور آپ کے لئے سرکش لوگوں کو ذلیل کیا ،وہ جب قیامت کے دن آئے گا تو اس کے دائیں جانب آپ کے والد اور بائیں جانب آپ کا بھائی ہوگا۔([2])
ایک یہودی نے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے کہا:تمہیں کیا ہواکہ تمہارےنبی
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےوصال ظاہری کو15سال بھی نہ گزرےکہ تم لوگوں نے لڑنا شروع کردیا۔ حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنےیہودی کوجواب دیتےہوئےفرمایا:تمہیں کیاہوگیاتھادریائےنیل کی تری سےتمہارے پاؤں بھی خشک نہ ہوئےتھےکہ تم لوگوں نےحضرت سیِّدُناموسٰیعَلَیْہِ السَّلَامسےکہناشروع کردیا: ’’اےموسٰی!ہمیں بھی ایک خدابنادیجئےجیسے دوسرےلوگوں کے لئے اتنے خدا ہیں ۔‘‘
حجاج بن یوسف نے اپنے منبر پر یہ آیت لکھی دیکھی :
قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیْلًا (پ۲۳،الزمر:۸) ترجمۂ کنز الایمان:تم فرماؤ تھوڑے دن اپنےکفر کے ساتھ برت لے۔
تو اس کے نیچے یہ آیت لکھی:
قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۱۹)(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۱۹) ترجمۂ کنزالایمان:تم فرمادوکہ مرجاؤاپنی گھٹن(قلبی جلن) میں اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی بات۔
حضرت سیِّدُناعقیل بن ابوطالبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنابیناہونےکےبعدحضرت سیِّدُناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس حاضر ہوئےتو آپ نے انہیں اپنی مسند پر بٹھایا اور ان سے کہا: اے بنوہاشم!تم بصارت سے محروم ہوجاتےہو۔حضرت سیِّدُناعقیلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےکہا:اےبنوامیہ!تم بصیرت سےمحروم ہوجاتے ہو۔
ایک دن بنوہاشم جمع ہوکر حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس آئے ۔آپ نے فرمایا:اے بنوہاشم!میرا عطیہ تمہارے لئے حاضر ہےاور میرا دروازہ تمہارے لئے ہمیشہ کھلا ہےلیکن جب میں اپنے اور تمہارے معاملے کو دیکھتا ہوں تو معاملہ کچھ اور ہی پاتا ہوں ۔تم یہ خیال کرتے ہو کہ جو میرے ہاتھ میں ہے اس کے تم زیادہ حق دار ہو اور جب میں تمہیں تمہارے حقوق کی ادائیگی کے لئے کوئی عطیہ دیتا ہوں توتم یہ کہتے ہوکہ ہمیں ہمارے حق سے کم دیا گیا ،کیا عطیہ دینےوالےکےساتھ یہی طریقہ انصاف ہے؟یہ سن کرحضرت سیِّدُناابنِ عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسامنےآئےاورکہا: بخدا!ہمیں طلب سے پہلے عطیہ ملتا ہے نہ دروازہ کھٹکٹانے سے پہلے ہمارے لئے دروازہ کھلتا ہے۔اگر تم اپنے عطیہ سے ہمیں محروم کروگےتو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بھلائی ہمارے لئے وسیع ہےاور اگر تم ہم پر اپنا دروازہ بند کرو گے تو ہم بھی خود کو تم سے
روک دیں گے۔ یہ مال جو تمہارے ہاتھ میں ہے یہ تمہارا نہیں ہے بلکہ اس میں مسلمانوں کا حق ہے ،اگر اس مال میں ہمارا حق نہ ہوتا تو ہم تمہارے پاس پیادہ اور سواری پر حاضر نہ ہوتے ۔کیا اتنی بات تمہارے لئے کافی ہے یا میں کچھ اور بھی کہوں ؟حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا:اتنی ہی بات کافی ہے([3])۔
حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ایک دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اے لوگو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےقرآن پاک میں تین جگہ محبت سےقریش کاذکرکیاہے۔چنانچہاللہ عَزَّ وَجَلَّنےاپنےنبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسےفرمایا:
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ(۲۱۴) (پ۱۹،الشعراء:۲۱۴) |
ترجمۂ کنزالایمان:اوراےمحبوب اپنےقریب تررشتہ داروں کو ڈراؤ۔ |
ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے قریبی قبیلے والے ہیں ۔اور فرمایا:
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَۚ- (پ۲۵،الزخرف:۴۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور بیشک وہ شرف ہے تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے۔
ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےہم قوم ہیں ۔اور فرمایا:س
لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍۙ(۱)اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیْفِۚ(۲) (پ۳۰،قریش:۱،۲)
ترجمۂ کنز الایمان: اس لئے کہ قریش کو مَیل دلایاان کے جاڑے اور گرمی دونوں کے کوچ میں مَیل دلایا(رغبت دلائی)۔
ہم قریش ہیں ۔ایک انصاری نے کہا :اے امیر معاویہ(رَضِیَ اللہُ عَنْہ)!ذرا سنئے!اللہ عَزَّ وَجَلَّفرماتا ہے:
وَ كَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ وَ هُوَ الْحَقُّؕ- (پ۷،الانعام:۶۶) |
ترجمۂ کنزالایمان:اوراسے جھٹلایا تمہاری قوم نے اور یہی حق ہے۔ |
یہ جھٹلانے والی آپ کی قوم قریش تھی۔اور فرماتا ہے:
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ(۵۷) (پ۲۵،الزخرف:۵۷)
ترجمۂ کنز الایمان:اورجب ابنِ مریم کی مثال بیان کی جائے جبھی تمہاری قوم اس سے ہنسنے لگتے ہیں ۔
یہ ہنسنے والے آپ کی قوم میں سے تھے۔
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا(۳۰) (پ۱۹،الفرقان:۳۰)
ترجمۂ کنزالایمان:اوررسول نےعرض کی کہ اےمیرےرب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرالیا۔
یہ آپ کی قوم کے افراد تھے۔یہ تین آیات کے جوابات میں تین آیات ہیں اگر آپ ہمیں مزید سنائیں گے توہم بھی آپ کو سنائیں گے۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ مجنون طاق برہنہ حمام میں داخل ہوگیا ۔امام اعظم ابو حنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی وہاں موجودتھے،آپ نے دیکھا تو اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔مجنون طاق نے کہا:کب سے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ کو اندھا کردیا ہے۔ آپ نے فرمایا :جب سے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے تیری حیاء کی چادر اتاری ہے۔
ایک دن حجاج تفریح کے لئے باہر نکلا اور جب تفریح سے فارغ ہوا تو اس کے ساتھی چلے گئے اور وہ اکیلا رہ گیا ۔اُس نے بنو عجل کے ایک بوڑھےشخص کو دیکھاتو اُس سے کہا:تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟بوڑھے نے کہا:اس قریبی بستی سے۔ کہا:تم اپنے حکمرانوں کو کیسا دیکھتے ہو؟بوڑھےنے کہا:بُرے حکمران ہیں ، لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے اموال حلال جانتے ہیں ۔کہا:تمہارا حجاج کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بوڑھے نے کہا:اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کا اور اس کو مقرر کرنے والے کا بُراکرے،اس سےزیادہ بُراعراق کاوالی مقرر نہ ہوا۔کہا:کیا تم مجھے جانتے ہو؟بوڑھے نے کہا:نہیں ۔کہا:میں حجاج ہوں ۔ بوڑھےنےکہا:کیا تم مجھےجانتے ہو؟کہا:نہیں ۔بوڑھے نے کہا:میں بنوعجل کا فلاں پاگل ہوں جسے دن میں دو مرتبہ دورے پڑتے ہیں ۔ حجاج نے یہ سنا تو ہنسنے لگا اور اس کے لئے انعام کا حکم دیا۔
ایک کرایہ دار نے اپنے مالک مکان سے کہا: گھر کا شہتیر ٹھیک کردواس کے چٹخنے کی آواز آتی ہے۔مالک مکان نے کہا: ڈرونہیں یہ تسبیح پڑھتا ہے۔کرایہ دار نے کہا:میں ڈرتا ہوں کہ اس پر رقت طاری ہوجائے تو کہیں یہ سجدہ ریز نہ ہوجائے۔
ایک شخص نے کسی علوی سے کہا:تم باغ ہو۔علوی نے کہا:تم وہ نہر ہو جس سے باغ سیراب ہوتا ہے۔
اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانےایک بکری ذبح فرمائی اورایک بازورکھ کرباقی صدقہ کردی۔
رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا: کیا بکری میں سے تمہارے پاس کچھ باقی ہے؟ آپ نے عرض کی: ایک بازو باقی ہے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ساری باقی ہے سوائے بازو کے۔([4])
ایک مرتبہ خلیفہ بغداد معتصم نے فتح بن خاقان سے جبکہ وہ چھوٹے بچے تھے ایک نگینے کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا:یہ نگینہ زیادہ خوبصورت ہے یا وہ نگینہ جو میری انگوٹھی میں جڑا ہوا ہے۔فتح نے کہا:وہ ہاتھ جس میں یہ نگینہ ہے سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔معتصم یہ سن کر بڑا حیران ہوا اور اُس کے لئے انعام واکرام اور پوشاک کا حکم دیا ۔
ایک شخص نےحضرت سیِّدُناعباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےپوچھا:آپ بڑےہیں یارسولُاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم؟ فرمایا:بڑے تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہیں البتہ میں اُن سے پہلے پیدا ہوا۔
حضرت سیِّدُناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےسعیدبن مُرَّہ کِندی سےکہا:کیاتم ہی سعیدہو؟عرض کی:سعیدتوامیر المؤمنین ہیں میں تو ابنِ مُرَّہ ہوں ۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
منقول ہےکہ ایک مرتبہ مامون نےخطبہ دیتےہوئےکہا:اےاللہ عَزَّ وَجَلَّکےبندو!اللہ عَزَّ وَجَلَّسے ڈروکہ تمہارے پاس تھوڑا سا وقت ہے۔جلدی عمل کرو اور تمہیں امید دھوکے میں نہ ڈالے۔
حضرت سیِّدُناعلی المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے بندوں موت!موت !جس سےبچنےوالاکوئی نہیں ۔اگرتم اس سےفرارکی کوشش کروگےتویہ تمہیں بھاگنےنہیں دےگی اورتمہیں پکڑلےگی۔اس موت نےتمہیں پیشانی سےپکڑرکھاہےاب نجات صرف جلدی عمل کرنےمیں ہے۔ تمہارےپیچھے ایک
جلدبازطالب ہےاوروہ قبر ہے ۔سنو!قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
سنو!یہ قبر ہرروز تین مرتبہ کلام کرتے ہوئے کہتی ہے:”میں تاریکی کا گھر ہوں ،میں وحشت کا مکان ہوں اور میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں ۔“
سنو!اس قبر کے بعد ایک ایسا دن ہے جس سے زیادہ شدید کوئی دن نہیں آیا۔اُس دن بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور بڑے ہوش میں نہ ہوں گے۔
تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ ِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِیْدٌ(۲)(پ۱۷،الحج:۲)
ترجمۂ کنز الایمان:ہردودھ پلانےوالی اپنےدودھ پیتےکو بھول جائے گی اورہرگابھنی اپناگابھ ڈال دےگی اورتولوگوں کودیکھےگاجیسے نشہ میں ہیں اور وہ نشہ میں نہ ہوں گےمگر ہے یہ کہ اللہکی مار کڑی ہے۔
سنو!اس کے بعد ایسا دن ہے جس سے زیادہ شدید کوئی دن نہیں ۔اس دن جہنم بھڑک رہا ہوگا،اس کی گرمی شدید ہوگی اور اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔اس جہنم کا گہنا لوہے کے گُرز اور اس کا پانی پیپ ہے، اس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رحمت کاکوئی حصہ نہیں ۔یہ سن کرلوگ بہت زیادہ روئےپھرآپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےارشادفرمایا:اس کےبعدبھی ایک دن ہے۔ (جس کے متعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:)
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ(۱۳۳)
(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۳۳)
ترجمۂ کنزالایمان:اوردوڑواپنےرب کی بخشش اورایسی جنت کی طرف جس کی چوڑان میں سب آسمان وزمین آجائیں پرہیزگاروں کے لئے تیار رکھی ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں اور تمہیں جنت میں داخل کرے اور دردناک عذاب سے بچائے۔
ایک مرتبہ حضرت سیِّدُناابراہیم بن عبداللہبن حسنرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْنےبصرہ میں خطبہ دیتےہوئےفرمایا:اے لوگو!ہر کلام جو ذکر سے خالی ہو وہ لغو ہے اور ہر خاموشی جو فکر سے خالی ہو وہ سہو ہے۔دنیا خواب اور آخرت بیداری ہے جبکہ موت ان کے درمیان واسطہ ہےاور ہم اس وقت خوابوں کی دنیا میں ہیں ۔
ابن ِزیاد وفد کی صورت میں حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس آیا تو آپ نےاُس سے کہا:کیا تم نے قرآن پڑھاہے۔اُس نےکہا:ہاں ۔کہا:کیاتم نےمیراث کاعلم حاصل کیا ہے؟کہا:ہاں ۔کہا:کیاتم نے اشعاریادکئے ہیں ؟کہا: نہیں ۔آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےزیادکولکھا:اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہارےلئےتمہارےبیٹےمیں برکت عطاکرےاسےاشعاریادکراؤ میں اسےکامل دیکھ رہا ہوں ۔میں نےامیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو فرماتےسناکہ ”اشعاریادکرو کیونکہ یہ اچھےاخلاق بتاتے ہیں اور بُرے اخلاق سے بچاتے ہیں ۔علم انساب سیکھو کیونکہ اس کے ذریعے کتنے ہی نامعلوم نسب معلوم ہوجاتے ہیں ۔علم نجوم اتنا سیکھو جس کے ذریعے خشکی اور تری میں راستہ معلوم ہوسکے اس سے زیادہ نہ سیکھو۔“
حضرت سیِّدُناامام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہشعرا کو مال دیا کرتے تھے ،اس بارے میں آپ سے کچھ کہا گیاتو آپ نے فرمایا: بہترین مال وہ ہے جس کے ذریعے تم اپنی عزت بچاؤ۔
حضرت سیِّدُناابوزِناد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَہَّاب بیان کرتے ہیں :میں نے حضرت سیِّدُناعُرْوَہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بڑھ کر اشعار کہتے کسی کو نہیں دیکھا۔ایک مرتبہ میں نے اُن سے کہا:اے ابو عبداللہ!آپ سے بڑھ کر شعر کہنے والا کون ہوسکتا ہے؟اس پر انہوں نے فرمایا:میرا اشعار بیان کرنا اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو جو کوئی بات پیش آتی اس بارے میں شعر پڑھ دیتی تھیں ۔
ایک مرتبہ رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےبغیر کلام موزون کے کسی شاعر کا ایک مصرعہ اس طرح پڑھا:
کَفَی بِالْاِسْلَامِ وَالشَّیْبِ لِلْمَرْءِ نَاھِیًا |
ترجمہ:اسلام اور بڑھاپا انسان کو برے کاموں سے روکنے کے لئے کافی ہے۔
حضرت سیِّدُناابوبکرصدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےعرض کی:یارسولَاللہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم!شاعرنےاس طرح کہا ہے:
کَفَی الشَّیْبُ وَالْاِسْلَامُ لِلْمَرْءِ نَاھِیًا |
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے رسول ہیں پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے یہ آیت تلاوت کی:
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗؕ- (پ۲۳،یٰسٓ:۶۹) ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم نے ان کو شعر کہنا نہ سکھایااور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے۔([5])
ابن الکلبی سے مروی ہے کہ جب حضرت سیِّدُناعمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزخلیفہ مقرر ہوئے تو شعرا وفد کی صورت میں آپ کے پاس حاضر ہوئےلیکن کئی دنوں تک انتظار کرنے کے باوجود انہیں اندر جانے کی اجازت نہ ملی۔ گورنر بصرہ حضرت سیِّدُناعدی بن ارطاۃ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہملاقات کے لئے آئے تو جریر شاعر نے انہیں دربار خلافت میں حاضری کی اجازت کا کہا۔انہوں نےحامی بھر لی اور دربار خلافت میں حاضر ہوکر عرض کی:شعرا آپ کے دروازے پر کھڑے ہیں ان کی زبانیں زہر آلود اور ان کے تیر نشانے پر لگنے والے ہیں ۔حضرت سیِّدُناعمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزنے فرمایا:مجھے شعرا سے کیا کام؟ انہوں نے عرض کی:اے امیر المؤمنین !رسولِ پاک،صاحب لولاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شعرا کو تعریف کرنے پر عطیہ سے نوازتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرت ہر مسلمان کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزنے فرمایا:تم نے سچ کہا۔ بتاؤ دروازے پر کون کون سے شعرا ہیں ۔ حضرت سیِّدُنا عدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ایک ایک کرکے سب کے نام بتائے تو حضرت سیِّدُناعمر بن عبد العزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز ساتھ ساتھ ان کے غلط اور خلاف شرع اشعار ذکر کرتے جاتے اور انہیں دربار میں داخل ہونے سے منع کرتے جاتے ۔ بالآخر جب حضرت سیِّدُناعدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے جریر شاعر کا ذکر کیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس کابھی ایک غلط شعر ذکر کیا اور فرمایا:اگر کسی شاعر نے آنا ہی ہے تو جریر کو بھیج دو۔جریر نے آکر حضرت سیِّدُناعمر بن عبدالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزکی مدح میں کچھ اشعار کہے تو آپ نے فرمایا: میرے پاس30 دینارتھے جس میں سے 10 میرے بیٹے عبداللہنے لے لئے اور 10اس کی والدہ نے لے لئے۔پھر فرمایا:اے خادم! جو دس دینار باقی ہیں وہ اسے دےدو۔جریر نے عرض کی:بخدا! اے امیرالمؤمنین!مجھے جتنا مال بھی حاصل ہو ااُن سب سے بڑھ کر مجھے یہ 10دینار محبوب ہیں ۔یہ کہہ کر جریر شاعر باہر نکل آیا تو شعرا نے اُس سے کہا:اے جریر! کیا ہوا؟جریر نے کہا:تمہارے لئے بُری خبر ہے یہ امیر شعرا کو نہیں گداگروں کو دیتے ہیں اور میں ان سے راضی ہوں ۔
(یہ باب تین فصلوں پر مشتمل ہے)
(1)…
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ (پ۱۹،الفرقان:۵۸) |
ترجمۂ کنزالایمان:اوربھروسہ کرواس زندہ پرجوکبھی نہ مرےگا۔ |
(2)…
وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(۴۲) (پ۱۴،النحل:۴۲) ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
(3)…
وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ- (پ۲۸،الطلاق:۳) ترجمۂ کنزالایمان:اورجواللہپربھروسہ کرےتووہ اُسے کافی ہے۔
حضرت سیِّدُناابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےروایت ہےکہ رحمَتِ عالَم،نُورِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشاد فرمایا: جنت میں کچھ ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دلوں کی طرح ہوں گے۔([6])
ایک قول کے مطابق یہ لوگ توکل کرنے والے ہوں گے جبکہ ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل بہت نرم ہیں ۔
حضرت سیِّدُنابراء بن عازبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےمروی ہےکہ تاجدارِرِسالت،شہنشاہِ نَبوتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا:اگر تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر اس طرح توکل کرو جیسا توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق عطافرمائے گا جیسے
پرندوں کو رزق دیتا ہے کہ وہ صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور جب لوٹتے ہیں تو ان کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں ۔([7])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےحضرت سیِّدُنا داؤدعَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی:اے داؤد!جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ،جو مجھ سے فریاد کرے میں اس کی فریاد رسی کرتا ہوں ،جو مجھ سے مدد طلب کرے میں اس کی مدد کرتاہوں اورجومجھ پربھروساکرےمیں اسےکفایت کرتاہوں ۔میں متوکلین کوکفایت کرنےوالا،مددمانگنےوالوں کا مددگار، فریادیوں کا فریاد رس اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہوں ۔
منقول ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کے دورِ حکومت میں شدید مہنگائی اور قحط پڑا یہاں تک کہ لوگ انتہائی پریشان ہوگئے۔ خلیفہ نے لوگوں کو حکم دیا کہ دعا اور آہ و زاری کی کثرت کریں اور گانے باجے کے آلات توڑ ڈالیں ۔ انہی دنوں میں لوگوں نے ایک غلام کو دیکھا کہ وہ تالیاں بجارہا ہے اور ناچ ناچ کر گانا گارہا ہے۔لوگ اس غلام کو خلیفہ کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔جب خلیفہ نے اس سے اس فعل کی وجہ پوچھی تو غلام نے جواب دیا:میرے آقا کے پاس گندم کے ڈھیر موجود ہیں اور مجھے اس پر بھروسا ہے کہ وہ مجھے اس میں سے کھلائے گا اس لئے مجھے مہنگائی اور قحط کی کوئی فکر نہیں اور میں ناچ کر اپنی خوشی کا اظہار کررہا ہوں ۔ غلام کا یہ جواب سن کر خلیفہ ہارون الرشید نے کہا: جب یہ غلام اپنے جیسے ایک انسان پر بھروساکرکے مطمئن ہے تو پھر ہم اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کریں ۔چنانچہ اس نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اورانہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کرنے کا حکم دیا۔
منقول ہےکہ حضرت سیِّدُناحاتم اصمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکثیرالعیال شخص تھے جس میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل تھے لیکن آپ ایک دانے کے بھی مالک نہ تھےاورآپ کا کل سرمایہ توکل تھا۔ایک رات آپ اپنے مصاحبین کے ساتھ بیٹھے گفتگو فرمارہے تھے کہ حج کا تذکرہ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے آپ کے دل میں بھی حج کا شوق پیدا ہوا۔ جب آپ گھر تشریف لائے تو بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی اور ان سے فرمایا:اگر تم اپنے والد کو اجازت دے دو کہ وہ اس سال بیتُ اللہ شریف حاضر ہوکر حج کی سعادت پائے اور تم لوگوں کے لئے دعا کرے تو اس میں کیا حرج ہے؟یہ سن
کرآپ کی زوجہ اور اولاد نے کہا:آپ کی حالت یہ ہے کہ ایک دانے کے بھی مالک نہیں اور ہمارا فقر وفاقہ بھی آپ کے سامنے ہے،بھلا ہمارے اس حالت میں ہوتے ہوئے آپ حج کے لئے کیسے جاسکتے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی ایک چھوٹی بچی تھی،اس نے جب یہ ماجرا دیکھا تو گھر کے دیگر افراد سے کہا:اگر تم لوگ والدِ محترم کو جانے کی اجازت دے دو تو اس میں تمہارا کیا نقصان ہے۔یہ جہاں جانا چاہیں انہیں جانے دو کیونکہ یہ رزق دینے والے نہیں بلکہ لینے والے ہیں ۔جب بچی نے یہ بات کی تو دیگر اہلِ خانہ نے کہا: خدا کی قسم!اس بچی نے سچ کہا،ابا جان!آپ جہاں جانا چاہیں چلے جائیں ۔حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم اسی وقت اٹھے،حج کا احرام باندھا اور سوئے حرم روانہ ہوگئے۔
اگلی صبح جب آس پڑوس کے لوگوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ گھر میں آکر گھر والوں کو ملامت کرنے لگے کہ تم لوگوں نے انہیں کیوں جانے دیا نیز آپ کے دوست اور پڑوسی آپ کی جدائی پر افسوس کرنے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر گھر کے افراد اس بچی کو بُرا بھلا کہنے لگے کہ اگر تم اس وقت نہ بولتیں تو یہ نوبت نہ آتی۔ مدنی منی نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور بارگاہِ خداوندی میں عرض کی:اے میرے آقا و مولیٰ!میں نے تو ان لوگوں کو تیرا فضل و کرم یاد دلایا تھا اور یہ بتایا تھا کہ تو انہیں ضائع نہ فرمائے گا،اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!انہیں رسوا نہ فرما اور نہ ہی ان کے سامنے مجھے شرمندہ فرما۔
ایک طرف گھر میں یہ معاملہ چل رہا تھا اور دوسری طرف اس شہر کا امیر جو کہ شکار کے لئے نکلا تھا وہ اپنے لشکر اورساتھیوں سے جُدا ہوگیا اور اسے شدید پیاس لگی تو وہ حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے دروازے پر آگیا اور دروازہ کھٹکھٹا کر پانی مانگا۔گھر والوں نے پوچھا:کون؟ اس نے جواب دیا کہ امیرِ شہر آپ کے دروازے پر موجود ہے اور پانی مانگ رہا ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زوجہ نے آسمان کی طرف سر اُٹھا کر کہا:مالک و مولیٰ!تو پاک ہے!کل ہم نے بھوکے پیٹ رات گزاری اور آج امیرِ شہر ہمارے دروازے پر کھڑا پانی مانگ رہا ہے۔پھر انہوں نے ایک نیا پیالہ لے کر اسے پانی سے بھرا اور پانی لے جانے والے سے کہا : ہماری طرف سے معذرت کرنا(کہ ہم آپ کی زیادہ خدمت نہ کرسکے)۔امیر نے وہ پیالہ لے کر پانی پیاتو اسے بہت عمدہ پایا،اس نے پوچھا:کیا یہ کسی امیر شخص کا گھر ہے۔لوگوں نے جواب دیا:نہیں ، بخدا!یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ایک نیک بندے کا گھر ہے جو کہ حاتم اصم کے نام سے مشہور ہے۔امیر نے کہا:ان کا نام تو میں نے بھی سنا ہے۔اتنی دیر میں امیرِ شہر کا وزیر اور اس کے ساتھی بھی آگئے تو وزیر نے عرض کی:میرے آقا!میں نے سنا ہے کہ وہ کل حج کے لئے تشریف لے گئے ہیں اور اپنے گھر والوں کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا اور مجھے یہ خبر بھی پہنچی ہے کہ اہْلِ خانہ
نے کل بھوکے پیٹ رات گزاری ہے۔امیرِ شہر نے کہا:آج ہم بھی ان پر بوجھ بن بیٹھے ہیں اور یہ بات مروت کے خلاف ہے کہ ہم جیسے لوگ ان جیسوں پر بوجھ بن جائیں ۔اس کے بعد امیرِ شہر نے اپنی کمر کی پیٹی اتارکر حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے گھر میں پھینک دی اور اپنے ہمراہیوں سے کہا:جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ بھی اپنی پیٹی گھر میں پھینک دے،یہ سن کر اس کے تمام ساتھیوں نے اپنی اپنی پیٹیاں اتار کر گھر کے اندر پھینک دیں ۔پھر جب وہ واپس جانے لگے تو وزیر نے کہا:اے گھر والو!تم پر سلامتی ہو میں کچھ دیر میں ان پیٹیوں کی قیمت لے کر آؤں گا، جب امیر اپنے محل میں واپس پہنچ گیا تو وزیر واپس آیا اور پیٹیوں کی قیمت کے طور پر کثیر رقم دے کر پیٹیاں واپس لے لیں ۔حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی مدنی منی نے جب یہ معاملہ دیکھا تو زاروقطار رونے لگی۔گھر والوں نے اس سے کہا:یہ رونا کیسا؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہم پر وسعت وکشائش فرمادی ہے۔بچی نے جواب دیا:امی جان! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!میرے رونے کا سبب یہ ہے کہ کل ہم نے بھوکے پیٹ رات گزاری لیکن جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ایک بندے نے ہم پر نظر کی تو فقر وتنگدستی کے بعد ہمیں غنی کردیا تو پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ جو کہ کریم ہے جب وہ ہماری طرف نظرِ کرم فرمائے گا تو ہمیں پلک جھپکنے کی مقدار بھی کسی کے حوالے نہیں فرمائے گا۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے والد کی طرف نظرِ رحمت فرمااور ان کے لئے بہترین انتظام فرمادے۔
یہ تو گھر والوں کا حال تھا،ادھرحضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا حال یہ تھا کہ جب احرام باندھ کر سفر پر روانہ ہوئے تو قافلے کا امیر بیمار ہوگیا،لوگوں نے کسی طبیب کو تلاش کیا لیکن نہ ملا۔امیرِ قافلہ نے پوچھا :کیا قافلے میں کوئی نیک بندہ موجود ہے،لوگوں نےحضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا تذکرہ کیا۔جب آپ امِیرِ قافلہ کے پاس تشریف لائے ،اس سے گفتگو کی اور اس کے لئے دعا فرمائی تو وہ اسی وقت صحت یاب ہوگیا۔امیرِ قافلہ نے حکم دیا کہ حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے کھانے پینے اور سواری کا انتظام اس کی طرف سے کیا جائے۔اس رات آپ اپنے اہل وعیال کی فکر میں سوئے تو خواب میں آپ سے کہا گیا:اے حاتم!جو ہمارے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرلیتا ہے ہم بھی اس کے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرلیتے ہیں ،اس کے بعد آپ کو خبر دی گئی کہ کس طرح آپ کے اہْلِ خانہ مالا مال ہوچکے ہیں ، یہ سن کر آپ نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خوب حمد وثنا کی۔ جب آپ حج سے فارغ ہو کر واپس آئے اور اپنے بچوں سے ملے تو اپنی چھوٹی بچی کو گلے لگا کر روئے اور ارشاد فرمایا:ایک قوم کے چھوٹے دوسری قوم کے بڑے ہوتے ہیں ،اللہ عَزَّ وَجَلَّ
تمہارے بڑوں کی طرف نہیں بلکہ تم میں سے زیادہ معرفت رکھنے والوں کی طرف نظر فرماتا ہے اس لئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی معرفت اور اس پر توکل کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لئے کافی ہوتا ہے۔
عقل مندوں کا کہنا ہے :جسے اس بات کا یقین ہو کہ جو رزق اس کے مقدر میں لکھا ہے وہ اسے مل کر رہے گا تو وہ جلد راحت پالیتا ہے،جو اس بات کو جان لے کہ جو مصیبت اس کی قسمت میں لکھی ہے وہ اس سے بچ نہیں سکتا تو ایسا شخص گھبراہٹ اور پریشانی سے نجات پالیتا ہے،جو اس بات کو جان لے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لئے بندوں سے بہتر ہے اور اسی کی رضا کا ارادہ کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی فکروں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور اس کے معاملات کو درست فرمادیتا ہے۔
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا بیان ہے کہ میں ایک دن سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضرتھاکہ آپ نےارشادفرمایا:بیٹا!حقوقِ الٰہی کی حفاظت کرواللہ عَزَّ وَجَلَّتمہاری حفاظت فرمائے گا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احکام کی پاسداری کروتم اسے اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم مانگو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مانگو اور جب مدد کی ضرورت ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سےمدد طلب کرو۔اس بات کا یقین رکھو کہ اگرسب لوگ اس پر متفق ہوجائیں کہ تم کو نفع پہنچادیں تو وہ تم کو کچھ نفع نہیں پہنچاسکتے مگر اسی قدر جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہےاور اگر سب لوگ اس پر متفق ہو جائیں کہ تمہیں کچھ نقصان پہنچا دیں تو ہر گز نقصان نہیں پہنچاسکتے مگر اس چیز سے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمہارے بارے میں لکھ دی۔صحائف اٹھائے جاچکے ہیں اور قلم خشک ہوچکے ہیں ۔([8])
خلیفہ بغداد مامون الرشید کو یہ خبر پہنچی کہ دمشق میں بنو امیہ کا ایک شخص ہے جو بہت زیادہ مال دار نیز کثیر سواریوں اور غلاموں کا مالک ہے اور آپ کی حکومت کو اس شخص سے خطرہ ہے،اس دن خلیفہ کوفہ میں تھا۔ مامون کے خادم منارہ کا بیان ہے کہ خلیفہ نے مجھے بلایا اور کہا:اسی وقت سو غلاموں کے ساتھ دمشق روانہ ہو جاؤ اور فلاں اموی شخص کو میرے پاس لاؤ۔دمشق کے عامل کے نام یہ میراخط ہے ،یہ صرف اسی صورت میں اس تک پہنچانا جب کہ وہ اموی شخص تمہارے ساتھ آنے سے انکار کردے،اگر وہ مان جائے تو اسے قید کر کے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔وہاں تم جو بھی چیز دیکھو
اور اس کے ساتھ جو گفتگو ہو وہ سب یاد رکھنا اور اس کے تمام حالات مجھ سے بیان کرنا۔میں تمہیں دمشق جانے کے لئے چھ دن ، واپس آنے کے لئے چھ دن اور وہاں ٹھرنے کے لئے ایک دن کا وقت دیتا ہوں ۔کیا تم سمجھ گئے؟میں نے عرض کی:جی ہاں ۔ کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے برکت کے ساتھ سفر کرو۔
منارہ کا بیان ہے کہ مامون الرشید کے دربار سے نکل کر میں دن رات سفر کرتا ہوا دمشق کی طرف روانہ ہوا، اس دوران میں صرف نماز اور قضائے حاجت کے لئے سواری سے اترتا تھایہاں تک کہ ساتویں رات میں دمشق کے دروازے پر جاپہنچا۔جب شہر کا دروازہ کھولا گیا تو میں اس اموی شخص کے گھر کی طر ف روانہ ہوا، وہ ایک عظیم الشان گھر تھا جس میں ہر نعمت موجود تھی،خادمین ومتعلقین کی کثیر تعداد تھی،ہر قسم کا ساز وسامان موجود تھا اور وسیع وعریض چبوترے تھے جن پر ملازمین بیٹھے ہوئے تھے۔میں بغیر اجازت اچانک گھر میں داخل ہوا تو گھر میں موجود ملازمین پریشان ہوگئے،انہوں نے میرے بارے میں پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ امیرالمؤمنین کا نمائندہ ہے۔ جب میں گھر کے وسط میں پہنچا تو کچھ باوقار لوگوں کو بیٹھا ہوا دیکھ کر یہ گمان کیا کہ میرا مطلوب شخص انہیں میں سے ایک ہے،میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ غسل خانے میں موجود ہے۔ وہ لوگ میرے ساتھ عزت واحترام سے پیش آئے اور مجھے بٹھایا جبکہ میرے ساتھ آنے والے لوگوں کو دوسرے کمرے میں لے جانے کا حکم دیا۔میں گھر کا جائزہ لینے لگا اور اس کے حالات میں غور کرنے لگا،کچھ ہی دیر میں وہ شخص غسل خانے سے آگیا، اس کے ساتھ ایک جماعت موجود تھی جس میں بوڑھے،جوان،اس کےپوتےنواسےاورملازمین شامل تھے،اس شخص نےمجھےسلام کیااورمجھ سےامیرالمؤمنین کی خیریت دریافت کی۔میں نے اسے بتایا کہ امیرالمؤمنین بخیروعافیت ہیں تو اس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کیا۔
اتنے میں اس کے سامنے پھلوں کے برتن لائے گئے تو اس نے کہا:اے منارہ!آؤ!ہمارے ساتھ کھاؤ۔ میں نے منع کیا تو اس نے مجھے دوبارہ کھانے کا نہیں کہا،میں اس بات میں غور کرنے لگا کہ اس نے مجھے میری کنیت سے نہیں پکارا۔میں نے اس گھر میں ایسی چیزیں دیکھیں جو میں نے صرف خلیفہ کے محل میں دیکھی تھیں ۔ کچھ دیر کے بعد کھانا حاضر کیا گیا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم !میں نے حسنِ ترتیب،اچھی خوشبو اور برتنوں کی کثرت کے اعتبار سے ایسا کھانا کبھی نہیں دیکھاتھا۔اس شخص نے مجھے دعوت دیتے ہوئے کہا:اے منارہ! آؤ، کھانا کھاؤ۔میں نے جواب دیا کہ مجھے حاجت نہیں ہے،اس کے بعد اس نے دوبارہ دعوت نہیں دی۔اب میں نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا تو ان میں سے کوئی بھی میرے پاس موجود نہیں
تھا،میں اپنے ساتھیوں کی غیر موجودگی اور اس کے اہْلِ خانہ کی کثرت کے سبب خوف زدہ ہوگیا۔کھانے کے بعد جب اس نے ہاتھ دھولیے تو اس کے پاس لوبان لایا گیا جس سے اس نے دھونی لی۔
اس کے بعد وہ نمازِ ظہر پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا اور خوب اچھی طرح رکوع وسجود کی ادائیگی کے ساتھ نماز ادا کی،نمازِ ظہر کے بعد اس نے کثیر نوافل پڑھے اور پھر میری طرف متوجہ ہوا اور کہا:اے منارہ!تم کس مقصد کے لئے آئے ہو؟میں نے اسے امیرالمؤمنین کا خط دیا جسے اس نے چوم کر سر پر رکھا،پھر اسے کھول کر پڑھنا شروع کیا،خط پڑھنے کے بعد اس نے اپنے تمام بیٹوں ،خاص دوستوں ،ملازمین اور دیگر تمام گھر والوں کو بلایا اور جب یہ سب لوگ جمع ہوئے تو اس کا وسیع وعریض گھر بھی تنگ محسوس ہونے لگا۔یہ معاملہ دیکھ کر میں خوف زدہ ہوگیا اور مجھے اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ وہ مجھے گرفتار کرنا چاہتا ہے۔سب کے جمع ہونے پر اس شخص نے کہا:جب تک یہ معاملہ انجام کو نہ پہنچ جائے تم میں سے کوئی دو شخص ایک جگہ جمع نہ ہوں گے ورنہ اس پر طلاق،حج،غلام آزاد کرنا اور صدقہ وغیرہ لازم ہوں گے،پھر اس نے گھر کی خواتین کے حوالے سے کچھ ضروری ہدایات دیں ،اس کے بعد وہ میرے پاس آیا اور اپنے پاؤں میری طرف بڑھاکر کہا:اے منارہ!اپنی بیڑیاں لاؤ۔میں نے بیڑیاں منگوا کر اسے پہنائیں ،اسے اٹھا کر پالکی میں بٹھایا گیا ،میں بھی اس کے ساتھ سوار ہوا اور ہم نے سفر کاآغاز کردیا۔
جب ہم دمشق کے بیرونی حصے میں پہنچے تو وہ بے تکلفی کے ساتھ مجھ سے گفتگو کرنے لگا اور کہنے لگا:یہ زمینیں میری ہیں ، ان سے ہر سال اتنی اتنی کمائی ہوتی ہے۔یہ باغات بھی میرے ہیں ، ان میں انتہائی عمدہ درخت اور بہترین پھل لگتے ہیں اور یہ کھیت بھی میرے ہیں جن میں ہر سال اتنی فصلیں ہوتی ہیں ۔اس کی یہ باتیں سن کر میں نے اس سے کہا:اے شخص!کیا تم نہیں جانتے کہ تمہاری شان وشوکت نے امیرالمؤمنین کو اتنا پریشان کیاکہ انہوں نے تمہیں لانے کے لئے مجھے بھیجا ہے جبکہ وہ خود کوفہ میں تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔ تم ان کے پاس جارہے ہو اور نہیں جانتے کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔میں نے تمہیں تمہارے گھر بار، اہل وعیال اور آسائشوں سے جدا کرکے تنہا کردیا ہے اور تم مجھ سے ایسی گفتگو کررہے ہو جو غیر مفید ہے، نہ تو تمہیں اس کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی میں نے تم سے اس کے بارے میں پوچھا ہے،تمہارے لئے بہتر تو یہ ہے کہ تم اپنے بارے میں فکر کرو۔میری یہ گفتگو سن کر اس نےاِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن پڑھا اور کہا: اے منارہ!تمہارے بارے میں میرا اندازہ غلط ثابت ہوا،میں تو یہ سمجھا تھا کہ تم اپنی عقل ودانائی کے سبب خلیفہ
کے قریب ہوگے لیکن تم تو ایک جاہل اور عام سے شخص ہو جو اس قابل بھی نہیں کہ کوئی خلیفہ اس سے بات کرے۔ مجھے اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروساہے جس کے دستِ قدرت میں میری اور امیرالمؤمنین کی پیشانی ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مرضی کے بغیرخلیفہ مجھے کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اگر میرے خلاف کوئی فیصلہ فرمادیا ہے تو میں کسی بھی حیلے سے اس نقصان سے نہیں بچ سکتا اور نہ ہی مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ اسے روک سکوں اور اگر اس نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو پھر اگرچہ امیرالمؤمنین اور زمین پر بسنے والے سارے انسان مجھے نقصان پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوجائیں لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اِذن کے بغیر وہ ایسا نہیں کرسکتے۔میں نے ایسا کوئی کام بھی نہیں کیا جس کے سبب میں خوف زدہ ہوجاؤں ، معاملہ صرف اتنا ہے کہ کسی چغل خور نے امیرالمؤمنین کے پاس مجھ پر بہتان طرازی کی ہے لیکن وہ کامل عقل والے ہیں ،جب وہ میری بے گناہی پر مطلع ہوجائیں گے تو ہرگز مجھے تکلیف دینے کی اجازت نہ دیں گے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!اب میں تمہارے سوالوں کے جواب کے علاوہ تم سے کوئی بات نہیں کروں گا۔
اس کے بعد اس شخص نے مجھ سے منہ پھیر لیا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوگیا اور اس کا یہی حال رہا یہاں تک کہ ہم تیرہویں دن کی صبح کوفہ پہنچ گئے۔کوفہ میں امیرالمؤمنین کی طرف سےخاص نمائندوں نے ہمارا استقبا ل کیا اور ہمارا حال پوچھا۔اس کے بعد جب میں امیرالمؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے کہا:آؤ، اے منارہ!ہمارے پاس سے روانگی کے دن سے لے کر آج تک کے تمام حالات کی خبر دو۔میں نے تفصیل کے ساتھ امیرالمؤمنین کو تمام حالات بتانے شروع کئے اور اس کے ساتھ ہی ان کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر ہوئے،جب میں اس مقام تک پہنچا جب اس شخص نے اپنی اولاد،غلاموں اور خاص افراد کو جمع کیا، ان سب کے جمع ہونے سے اس کا گھر تنگ پڑگیا جبکہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی میرے ساتھ موجود نہ تھا تو ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا،جب میں نے ذکر کیا کہ اس نے ان تمام افراد کو جمع کرکے انہیں کتنی سخت قسم دی تو ان کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے ،پھر جب میں نے بتایا کہ اس شخص نے بیڑیاں پہنانے کے لئے اپنے پاؤں آگے بڑھادیے تو ان کا چہرہ روشن ہوگیا اور اس پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے۔ جب میں نے امیرالمؤمنین کو اس گفتگو کی خبر دی جو میرے اور اس شخص کے درمیان اس کی زمینوں اورباغات کے بارے میں ہوئی تھی تو انہوں نے کہا:یہ ایک ایسا شخص ہے جس کی نعمتوں کے سبب لوگ اس سے حسد کرتے ہیں اور اس کے بارے میں ہمیں جھوٹی خبر دی گئی ہے۔ہم نے اسے پریشان اور خوفزدہ کردیا ہے،اسے اور اس کے اہْلِ
خانہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، اس کے پاس جاکر اس کی بیڑیاں کھول کر اسے آزاد کردو اور عزت و احترام کے ساتھ اسے میرے پاس لے آؤ۔میں نے ایسا ہی کیا،جب وہ شخص حاضر ہوا تو امیرالمؤمنین نے اسے خوش آمدید کہا ،اسے بٹھایا، معذرت کی اور اس سے اچھی طرح بات چیت کی۔امیرالمؤمنین نے اس سے کہا:اگر تمہیں کوئی ضرورت ہےتو مانگ لو۔اس نے کہا:میری حاجت یہ ہے کہ میں جلد اپنے شہر واپس پہنچوں اور اپنے اہل وعیال سے ملوں ۔مامون الرشید نے کہا:یہ تو ہونا ہی ہے ،اس کے علاوہ کچھ اور مانگ لو۔اس نے کہا:اپنی رعایا کے بارے میں امیرالمؤمنین کے عدل کے سبب مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔امیرالمؤمنین نے اسےعمدہ لباس پہنایا اور مجھ سے کہا:اے منارہ! اسی وقت اس شخص کے ساتھ روانہ ہوجاؤ اور جہاں سے تم اسے لائے ہو اسی جگہ جاکر چھوڑو۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حفاظت اور رعایت میں سفر کرو اور اپنی خبر اور ضرورتیں ہم سے منقطع نہ کرنا۔
ذرا غور کرو کہ اس حکایت میں مذکور شخص نے کس طرح اپنے خالق و مالک پر توکل کیا،بے شک جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کرتاہے تو وہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے ، جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا کرتا ہے وہ اس کی دعا قبول فرماتا ہے اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے سوال کرتا ہے وہ اسے اس کی مطلوبہ چیز عطا فرماتا ہے۔
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نے توریت شریف میں یہ کلمات ملاحظہ فرمائے تو انہیں تحریر فرمالیا:اے انسان!جب تک میری بادشاہت باقی ہے کسی بادشاہ سے خوفزدہ نہ ہونا اور میری بادشاہت کبھی ختم نہ ہوگی۔ اے انسان!جب تک میرے خزانے بھرے ہوئے ہیں رزق کی تنگی کا خوف نہ کرنا اور اور میرے خزانے کبھی ختم نہ ہوں گے۔اے انسان !میرے علاوہ کسی اور سے مانوس مت ہونا حالانکہ میں تمہارے لئے ہوں ،اگر تم مجھے طلب کرو گے پالو گے اور میرے علاوہ کسی اور سے مانوس ہوئےتو ہلاک ہوجائے گے اور تمام بھلائیوں سے محروم ہوجاؤگے۔
اے انسان!میں نے تجھے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے تو کھیل کود میں مت لگ جانا اور میں نے تمہارا رزق تقسیم کر دیا ہے اس لئے(اس کی تلاش میں )مت تھکنا،اس سے زیادہ کی لالچ نہ کرنا اور نہ ہی اس سے کم ملنے کا خوف کرنا۔میں نے جو رزق تمہارا مقدر کردیا ہے اگر تم اس پر راضی رہے تو تمہارے دل اور بدن کو راحت حاصل ہوگی اور تم میرے نزدیک قابل تعریف ٹھہرو گے اور اگر تم اپنی قسمت پر راضی نہ رہے تو میری عزت و جلال کی قسم!میں تم پر دنیا کو اس طرح مُسَلّط کردوں گا
کہ تم جانوروں کی طرح دوڑتے پھرو گے لیکن اپنی قسمت سے زیادہ نہ پاسکو گے اور میرے نزدیک قابلِ مذمت ٹھہروگے۔
اے انسان!میں نے ساتوں آسمان اور زمین بنائے اور ان کے بنانے میں نہ تھکاتو کیا تمہاری محنت کے بغیر تمہیں ایک روٹی پہنچانے میں تھک جاؤں گا۔اے انسان!میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ،تجھ پر میرا جو حق ہے اس کی قسم !تو بھی مجھ سے محبت کرنے والا بن جا۔اے انسان!مجھ سے کل کے رزق کا مطالبہ نہ کر جیسے میں تجھ سے کل کے عمل کا مطالبہ نہیں کرتا ۔میں تو انہیں بھی نہیں بھولتا جو میری نافرمانی کرتے ہیں تو اپنی اطاعت کرنے والوں کو کیسے بھول جاؤں گا،میں ہر چیز پر قادر اور ہر شے کا احاطہ کرنے والا ہوں ۔
ایک شاعر کہتاہے:
وَمَا ثَمَّ اِلَّا اللهُ فِیْ کُلِّ حَالَةٍ فَلَا تَتَّكِلْ يَوْمًا عَلٰى غَيْرِ لُطْفِهِ
فَكَمْ حَالَةٍ تَاْتِىْ وَيَكْرَهُهَا الْفَتٰى وَخَيْرَتُهٗ فِيْهَا عَلٰى رَغْمِ اَنْفِهِ
ترجمہ:اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر حال میں حامی وناصر ہے لہٰذا ایک دن بھی اس کے لطف وکرم کے سوا کسی پر بھروسا نہ کرنا۔ بندے کو کئی ایسے معاملات پیش آتے ہیں جنہیں وہ ناگوار جانتا ہے لیکن اس کی بھلائی انہیں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
مؤلفرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :
تَوَکَّلْ عَلَی الرَّحْمٰنِ فِیْ الْاَمْرِ کُلِّهِ فَمَا خَابَ حَقًّا مَنْ عَلَيْهِ تَوَكَّلَا
وَكُنْ وَاثِقًا بِاللهِ وَاصْبِرْ لِحُكْمِهِ تَفَزْ بِالَّذِىْ تَرْجُوْهٗ مِنْهُ تَفَضَّلَا
ترجمہ:تمام معاملات میں رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کرو،جو اس پر توکل کرے وہ یقینا ً ناکام نہیں ہوسکتا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسا کرو اور اس کے احکام پر صبر کرو تمہیں اس کے فضل وکرم کی جو امید ہے اسے پانے میں کامیاب رہو گے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-پ۱۴،النحل:۹۷) ترجمۂ کنزالایمان:جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے۔
اس کی تفسیر کے بارے میں منقول ہے کہ ” اچھی زندگی“ سے مراد قناعت ہے۔
فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:قناعت ایسا مال ہے جو ختم نہیں ہوتا۔([9])
بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!قناعت کیا ہے؟ارشاد فرمایا:جو چیز لوگوں کے پاس ہے اس سے مایوس ہوجانا۔([10])
ایک اور روایت میں فرمایا گیا:لالچ سے بچو کیونکہ یہ فوراً لاحق ہونے والا فقر ہے۔([11])
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہقناعت کی دولت سے مالا مال تھے،منقول ہے کہ آپ کو کسی چیز کی خواہش ہوتی تو آپ ایک سال تک اسے ٹالتے رہتے تھے۔
کندی شاعر کہتا ہے:
اَلْعَبْدُ حُرٌّ مَّا قَنَعْ وَالْحُرُّ عَبْدٌ مَّا طَمَعْ
ترجمہ:غلام اگر قناعت اختیار کرے تو وہ آزاد ہے جبکہ لالچ کا شکار آزاد شخص درحقیقت غلام ہے۔
حضرت سیِّدُنا بِشْرحافی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا بیان ہے کہ ایک نوجوان رزق کی تلاش میں سفر پر روانہ ہوا۔ جب وہ چلتے چلتے تھک گیا تو آرام کرنے کے لئے ایک ویرانے میں پناہ لی۔ویرانے میں داخل ہوکر وہ اس کا جائزہ لے رہا تھا کہ اس کی نظر دیوار پر لکھی ہوئی چند سطروں پر پڑی،جب غور سے دیکھا تو وہاں لکھا تھا:
اِنِّيْ رَاَيْتُكَ قَاعِدًا مُسْتَقْبِلِي فَعَلِمْتُ اَنَّكَ لِلْهُمُوْمِ قَرِيْن
هَوِّنْ عَلَيْكَ وَكُنْ بِرَبِّكَ وَاثِقًا فَاَخُو التَّوَكُّلِ شَاْنُہُ التَّهْوِيْن
طَرَحَ الْاٰذٰى عَنْ نَفْسِهٖ فِيْ رِزْقِهٖ لَمَّا تَيَقَّنَ اَنَّهٗ مَضْمُوْن
ترجمہ:میں نے دیکھاکہ تم میرے سامنے بیٹھے ہو تو جان لیا کہ تم پریشانیوں کا شکار ہو۔فکر نہ کرو اور اپنے رب پر بھروساکرو کیونکہ متوکل شخص فکروں سے آزاد ہوتا ہے۔جب اسے یہ یقین ہوجائے کہ اس کے رزق کی ضمانت اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے لے لی ہے تو وہ اپنے دل سے رزق کے بارے میں پریشانیوں کو دور پھینک دیتا ہے۔
ان اشعار کو پڑھ کر وہ نوجوان اپنے گھر واپس چلا گیا ،اس نے توکل کو لازم پکڑ لیا اور بارگاہِ خداوندی میں عرض کی:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!ہمیں تو نے ہی ادب سکھایا ہے۔
جاحظ کا بیان ہے کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ نے لوگوں کی طبیعتوں کو مختلف بنایا ہے تاکہ ان کے معاملات درست انداز میں چل سکیں ،اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام لوگ بادشاہت،سیاست،تجارت اور زراعت کو اختیار کرلیتے اور ایسا کرنے میں مصلحتوں کا بطلان اور معیشت کا خاتمہ ہے۔لوگوں کی ہر قسم کے لئے ان کے پیشے کو مزین کر دیا گیا ہے،کپڑا بننے والا جب حجام(پچھنے لگانے والے)میں کوئی کوتاہی یا وعدہ خلافی دیکھتا ہے تو کہتا ہے:اے حجام! تیری خرابی ہو۔حجام جب کپڑا بننے والے سے ایسی کوئی بات دیکھتا ہے تو کہتا ہے:اے کپڑا بننے والے! تیری خرابی ہو۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پیشوں کے اس اختلاف کو لوگوں کے اتحاد کا سبب بنادیا ہے ،بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ بہتر تدبیر والا،قدرت اور حکمت والا ہے۔
کیا تم جنگل میں رہنے والے شخص کو نہیں دیکھتے جس کا گھر ایک معمولی خیمہ ہوتا ہے جسے مردار جانوروں کی ہڈیوں سے کھڑا کیا جاتا ہے،اس خیمے میں اس کا کتا بھی ساتھ ہوتا ہے،اون یا بالوں کی چادر اس کا لباس ہوتی ہے،اونٹ کی مینگنی اس کی دوا ،قطران (صنوبر جیسے درخت سے حاصل کردہ سیاہ سیال مادہ)اور ہرنیوں کی مینگنی اس کی خوشبو ہوتی ہے۔گھونگا(دریائی کیڑے کا خول)اس کی بیوی کا زیور ہوتا ہے،گوگل(جنگلی کھجور)اس کا پھل اور یَربُوع([12])اس کا شکار ہوتا ہے۔وہ ایسے جنگل میں رہتا ہے جہاں صرف اُلّوؤں اور بھیڑیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں لیکن وہ اس حال میں بھی خوش رہتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:اے میرے بیٹے!جب تم مالداری کو طلب کرو تو اسے قناعت میں طلب کرنا کیونکہ قناعت ایسا مال ہے جو ختم نہیں ہوتا،لالچ سے بچنا کیونکہ یہ فوراً لاحق ہونے والا فقر ہے
اور (لوگوں کے پاس موجود چیزوں سے)مایوسی کو لازم پکڑ لو کیونکہ تم جس چیز سے مایوس ہوتے ہو اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہیں اس سے بے نیاز فرمادیتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا داود طائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو شدید فاقہ لاحق ہوا تو حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے شہزادے حضرت سیِّدُنا حماد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد اپنے والد کے ترکے میں سے 400 درہم لے کر ان کے پاس آئے اور کہا:یہ 400 درہم ایسے شخص کے مال میں سے ہیں کہ کوئی شخص زہد وپرہیزگاری اور کسبِ حلال میں اس سے بڑھ کر نہیں ہے۔ حضرت سیِّدُنا داود طائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:اگر میں نے کسی سے کوئی چیز قبول کرنی ہوتی تو آپ کے والد کی تعظیم اور آپ کے اکرام کے لئے اسے قبول کرلیتا لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ قناعت کی عزت میں زندگی بسر کروں ۔
حضرت سیِّدُنا عیسٰی رُوْحُاللہعَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرمایا:اپنے گھروں کو عارضی ٹھکانے کی جگہ جبکہ مسجدوں کو مَسکن بنالو،جنگل کی ترکاری کھاؤ،سادہ پانی پیو اور دنیا سے سلامتی کے ساتھ نکل جاؤ۔
حضرت سیِّدُنا عبدالواحد بن زید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:میں یہ سمجھتا ہوں کہ رِضا کے علاوہ کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جو صبر سے مقدم ہو اور نہ ہی میرے علم کے مطابق رضا سے بڑھ کر کسی عمل کا درجہ ہے اور رضا محبت کی بنیاد ہے۔کسی نے پوچھا:بندہ اپنے رب سے راضی رہنے والا کب بنتا ہے؟ارشاد فرمایا:جب اسے مصیبت سے بھی ایسی خوشی حاصل ہو جیسی نعمت سے ہوتی ہے۔
حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مرزوق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ابتدامیں خلیفہ مہدی کے درباریوں میں سے ایک تھے۔ایک دن نشے کی حالت میں ان کی نماز قضا ہوگئی تو ان کی ایک لونڈی آئی اور اس نے ایک انگارہ اٹھا کر ان کے پاؤں پر رکھ دیا جس پر آپ گھبراکر بیدار ہوگئے۔لونڈی نے کہا:جب آپ دنیا کی آگ برداشت نہیں کرسکتے تو بھلا آخرت کی آگ کیسے برداشت کر پائیں گے؟آپ نے اسی وقت اُٹھ کر تمام نمازیں پڑھیں ، تمام مال ودولت صدقہ کردیا اور سبزی بیچنے کا کام
شروع کردیا۔ حضرت سیِّدُنافضیل اور حضرت سیِّدُنا سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا ان کے پاس آئے تو دیکھا کہ سر کے نیچے اینٹ رکھ کر آرام فرمارہے ہیں ۔دونوں حضرات نے ان سے کہا کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو ترک کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے اس کا بدل عطا فرماتا ہے، آپ نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے جو کچھ ترک فرمایا ہے اس کا بدل کیا ہے؟حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مرزوق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:(میرا بدل یہ ہے کہ )میں جس حال میں ہوں اس پر راضی رہوں ۔
حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا:جو شخص دوسرے کے برتن میں ہاتھ ڈالتا ہے وہ اس کے سامنے ذلیل ہوجاتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا فضیل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :جو شخص اس مقدار پر راضی رہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس کا مقدر فرمائی ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لئے اسی میں برکت پیدا فرمادے گا۔
حضرت سیِّدُنا عیسٰی رُوْحُاللہعَلَیْہِ السَّلَام فرمایا کرتے تھے:موسمِ سرما میں سورج میرے لئے انگیٹھی ہے چاند کی روشنی میرا چراغ ،جنگل کی ترکاری میرا پھل اورجانوروں کے بال میرا لباس ہے۔جہاں رات آجائے میں وہیں رُک جاتا ہوں ،میری کوئی اولاد نہیں جس کے مرنے کا خوف ہو اور نہ ہی کوئی گھر ہے جس کی ویرانی کا اندیشہ ہواور میں وہ شخص ہوں جس نے دنیا کو اس کے منہ پر دے مارا ہے۔
حضرت سیِّدُنا عیسٰی رُوْحُاللہعَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرمایا:ذرا ان پرندوں کو دیکھو جو اس حال میں صبح وشام کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیزنہیں ہوتی، نہ تو وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور نہ ہی فصل کاٹتے ہیں لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ انہیں رزق عطا فرماتا ہے۔اگر تم یہ گمان کرو کہ تمہارے پیٹ پرندوں کے پیٹوں سے بڑے ہیں تو پھر جنگلی جانوروں ،بیل اور گدھےکو دیکھو جو کھیتی باڑی نہیں کرتے اور نہ ہی فصل کاٹتے ہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ انہیں بھی رزق عطا فرماتا ہے۔
منقول ہے کہ حضرت عُرْوَہ بن اُذَیْنَہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہشام بن عبدالملک کے دربار میں آئے اور اس سے مفلسی کی شکایت کی۔ ہشام نے کہا:کیا تم نے یہ اشعار نہیں کہے:
لَقَدْ عَلِمْتُ وَمَا الْاِسْرَافُ مِنْ خُلُقِي اَنَّ الَّذِي هُوَ رِزْقِي سَوْفَ يَاْتِيْنِي
اَسْعٰى اِلَيْهِ فَيُعْيِيْنِي تَطَلُّبُهٗ وَلَوْ قَعَدْتُ اَتَانِي لَيْسَ يُعْيِيْنِي
ترجمہ:فضول خرچی میری عادت نہیں ہے اور میں جانتا ہوں کہ جو رزق میرا مقدر ہے وہ مجھ تک پہنچ کر رہے گا۔ اگر میں اس کے پیچھے بھاگوں تو اس کی طلب مجھے تھکا دے گی اور اگر بیٹھا رہوں تو یہ خود میرے پاس آئے گااور مجھے تھکائے گا نہیں ۔
پھر بھی تم رزق کی تلاش میں حجاز سے شام تک آئے ہو۔
حضرت عُروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا:اے امیرالمؤمنین!آپ نے بہت اچھی نصیحت فرمائی ہے۔یہ کہہ کر وہ دربار سے نکلےاور اپنے اونٹنی پر سوار ہوکر حجاز کی طرف واپس روانہ ہوگئے۔رات کو جب ہشام اپنے بستر پر لیٹا تو اس نے حضرت عُروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یاد کرکے دل میں کہا: قریش کا ایک شخص جس نے حکمت پر مشتمل اشعار کہے تھے وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے رسوا کیا اور خالی ہاتھ لوٹا دیا۔جب صبح ہوئی تو ہشام نے حضرت عُروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے لئے دو ہزار دینار روانہ کئے۔
ہشام کے نمائندے نے مدینہ منورہ میں حضرت عُروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے گھر جاکر دوہزار دینار ان کے حوالے کئے تو حضرت عُروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس سے کہا:امیرالمؤمنین کو میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ میرے اس شعر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے:
سَعَيْتُ فَاُكْدِيْتُ فَرَجَعْتُ فَاَتَانِي رِزْقِي فِي مَنْزِلِی
ترجمہ:میں نے کوشش کی تو مجھے نہ دیا گیا جب میں لوٹ گیا تو میرا رزق میرے گھر آگیا۔
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عامر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب عراق کے حکمران بنے تو ان کے ایک انصاری اور ایک ثقفی دوست نے ان کے پاس جانے کا ارادہ کیا لیکن روانگی کے وقت انصاری نے جانے سے انکار کردیا اور کہا:جس نے ابنِ عامر کو عراق کی حکومت عطا فرمائی وہ مجھے عطا فرمانے پر بھی قادر ہے ۔اب ثقفی اکیلا روانہ ہوا اور سوچنے لگا کہ میں دونوں کا حصہ حاصل کرلوں گا۔جب وہ حضرت سیِّدُناعبداللہبن عامررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے پاس پہنچےتوانہوں نے پوچھا:تمہاراانصاری دوست کیوں نہیں آیا؟ ثقفی نےجواب دیا کہ وہ اپنے اہْلِ خانہ کے پاس واپس چلا گیا ہے۔حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عامر
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے انصاری کے لئے چار ہزار دیناردینے کا حکم صادر کیا۔ثقفی جب واپس جانے لگا تو اس نے یہ اشعار کہے:
فَوَاللهِ مَا حِرْصُ الْحَرِيْصِ بِنَافِعٍ |
|
فَيُغْنِي وَلَا زُهْدُ الْقُنُوْعِ بِضَائِر |
خَرَجْنَا جَمِيْعًا مِنْ مَسَاقِطِ رُوْسِنَا |
|
عَلٰی ثِقَةٍ مِّنَّا بِجُوْدِ ابْنِ عَامِر |
فَلَمَّا اَنَخْنَا النَّاجِعَاتِ بِبَابِهٖ |
|
تَخَلَّفَ عَنِّي الْيَثْرِبِي ابْنِ جَابِر |
وَقَالَ سَتَكْفِيْنِي عَطِيَّةُ قَادِرٍ |
|
عَلٰى مَا يَشَاءُ الْيَوْمَ لِلْخَلْقِ قَاهِر |
فَاِنَّ الَّذِي اَعْطٰی الْعِرَاقَ ابْنَ عَامِرٍ |
|
لَرَبِّي الَّذِي اَرْجُو لِسَدِّ مَفَاقِرِي |
فَقُلْتُ خِلَالِي وَجْهَهٗ وَلَعَلَّهٗ |
|
سَيَجْعَلُ لِي حَظَّ الْفَتٰى الْمُتَزَاوِر |
فَلَمَّا رَاٰنِي سَالَ عَنْهُ صَبَابَةً |
|
اِلَيْهِ كَمَا حَنَتْ ظُؤَارُ الْاَبَاعِر |
فَاَبْتُ وَقَدْ اَيْقَنْتُ اَنْ لَّيْسَ نَافِعًا |
|
وَلَا ضَائِرًا شَيْءٌ خِلَافَ الْمَقَادِر |
ترجمہ:(۱)…خدا کی قسم!لالچی شخص کی لالچ اسے فائدہ پہنچا کر غنی نہیں کردیتی اور نہ ہی قناعت کرنے والوں کا زہد انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔(۲)…ہم دونوں اپنے گھروں سے ابن عامر کی سخاوت پر بھروساکرتے ہوئے روانہ ہوئے۔ (۳)…جب ہم نے اس کے دروازے پر اپنی اونٹنیوں کو بٹھایا تو ابن جابرانصاری واپس چلا گیا۔(۴)…اور اس نے کہا:قدرت والے پروردگار کی عطا مجھے کفایت کرے گی،وہ اپنی مخلوق کو جو چاہے دے سکتا ہے۔(۵)…جس ربِ کریم نے ابن عامر کو عراق کی حکومت عطا فرمائی وہ میرا ربّ ہے اور میں اس سے اپنے فقر کو دور کرنے کی امید رکھتا ہوں ۔(۶)…اس پر میں نے کہا کہ اب ابن عامر کی توجہ صرف میرے لئے رہ گئی ہے اور شاید وہ واپس جانے والے کا حصہ بھی مجھے دیدے گا۔(۷)… جب ابن عامر نے مجھے دیکھا تو بے قراری سے انصاری کے بارے میں دریافت کیا جیسا کہ بچے سے بچھڑنے والی ہرنی اس سے ملنے کی مشتاق ہوتی ہے۔(۸)…میں اس حال میں واپس آیا کہ اس بات پر میرا یقین پختہ ہوگیا کہ کوئی بھی چیز تقدیر کے خلاف نفع یا نقصان نہیں پہنچاسکتی۔
منقول ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی فرمائی:کیا تم جانتے ہو کہ میں احمق کو کیوں رزق دیتا ہوں ؟عرض کی:نہیں اے میرے رب!اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:تاکہ عقلمند شخص اس بات کو جان لے کہ رزق کی طلب حیلے سے نہیں ہوتی۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ زمین کی طرف دیکھیے، آپ نے زمین کی طرف دیکھا تو وہ پھٹی اور دیکھا کہ ایک چٹان کے اوپر ایک کیڑا موجود ہے اور اس کے ساتھ اس کا کھانا بھی ہے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: کیا آپ یہ گمان کر سکتے ہیں کہ میں اس کیڑے سے تو غافل نہیں رہا اور آپ سے غافل ہوجاؤں گا حالانکہ آپ میرے نبی اور نبی کے بیٹے ہیں ؟
حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسجد میں داخل ہوئے اور مسجد کے دروازے پر موجود ایک شخص سے ارشاد فرمایا:میرا یہ خچر پکڑ لو۔وہ شخص خچر کی لگام لے کر چلا گیا اور خچر کو وہیں چھوڑ دیا۔ حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نماز سے فراغت کے بعد دو درہم لے کر مسجد سے باہر تشریف لائے تاکہ اس شخص کو خچر پکڑنے کے عوض عطا فرمائیں لیکن دیکھا کہ خچر بغیر لگام کے کھڑا ہے۔ آپ خچر پر سوار ہوکر گھر تشریف لائے اور اپنے غلام کو وہ دو درہم دے کر لگام خریدنے کے لئے بھیجا۔غلام بازار سے وہی لگام خرید کر لایا جسے چور نے دو درہم کے عوض فروخت کیا تھا۔آپ نے ارشاد فرمایا:بے شک بندہ بے صبری کرکے اپنے آپ کو حلال روزی سے محروم کردیتا ہے اور اس کے باوجود اپنے مقدرسے زیادہ حاصل نہیں کرپاتا۔
ایک راہب سے پوچھا گیا:تم کہاں سے کھاتے ہو؟راہب نے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرکے کہا:جس نے یہ چکی بنائی ہے وہ اسے پیسنے کے لئے غلہ بھی دیتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا معروف کرخیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے ایک امام کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی۔نماز سے فراغت کے بعد امام صاحب نے پوچھا:آپ کہاں سے کھاتے ہیں ؟آپ نے ارشاد فرمایا:ذرا ٹھہریئے!میں نے آپ کے پیچھے جو نماز پڑھی ہے پہلے اسے دہرالوں ۔امام صاحب نے پوچھا:وہ کیوں ؟ارشاد فرمایا:اس لئے کہ جو اپنے رزق میں شک کرتاہے وہ اپنے رازِق کے بارے میں بھی شک کرتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا ابوحازم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:جو چیز میرے مقدر میں نہیں لکھی گئی اگر میں ہوا پر سوار ہوجاؤں تو بھی اسے نہیں پاسکتا۔
عمر بن ابی عمر يونانی کہتا ہے:
غَلَا السِّعْرُ فِیْ بَغْدَادَ مِنْ بَعْدِ رُخْصَةٍ |
|
وَاَنِّیْ فِی الْحَالَيْنِ بِاللهِ وَاثِقُ |
فَلَسْتُ اَخَافُ الضِّيْقَ وَاللهُ وَاسِعُ |
|
غَنَاهُ وَلَا الْحِرْمَانَ وَاللهُ رَازِقُ |
ترجمہ:بغداد میں اشیاء کے دام کم ہونے کے بعد زیادہ ہوگئے ہیں اور میں دونوں حالتوں میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروساکیے ہوئے ہوں ۔ مجھے تنگی کا کوئی خوف نہیں کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فضل وکرم وسیع ہے اور نہ ہی مجھے محرومی کا ڈر ہے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ رزق دینے والا ہے۔
ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!مجھےنصیحت فرمائیے۔ارشاد فرمایا:جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس سے مایوس ہوجاؤ اور لالچ سے بچو کیونکہ یہ فوراً لاحق ہونے والا فقر ہے۔([13])
منقول ہے کہ جو چیز بازار میں مل سکتی ہو اسے اپنے دوست سے مت مانگو۔
ایک اعرابیہ سے پوچھا گیا کہ تم لوگوں کا گزر بسر کیسے ہوتا ہے؟اس نے جواب دیا:اگر ہمارا گزارہ صرف معلوم اشیاء پر ہوتا تو ہم زندہ نہ رہ پاتے۔
ایک اعرابی کا قول ہے کہ سب سے اچھی حالت وہ ہے جس میں تم سے نیچے والے تم پر رشک کریں اور تم سے اوپر والے تمہیں حقیر نہ جانیں ۔
ایک اور اعرابی نے کہا:سازوسامان کی کمی کے ذریعےمیں مصیبتوں کے خلاف مدد حاصل کرتا ہوں ۔
منقول ہے کہ آدمی کو دنیا میں ایسے رہنا چاہیے جیسے ولیمے میں مدعو شخص ہوتا ہے ،اگر اس کے پاس رکابی لائی جائے تو لے لیتا ہے اور اگر نہ لائی جائے تو اس کے پیچھے نہیں پڑتا اور نہ ہی مانگتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا شقیق بن ابراہیم بلخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا بیان ہےکہ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے مجھ سے فرمایا:مجھے اپنی حالت کی خبر دیجئے۔میں نے جواب دیا:اگر کچھ مل جائے تو کھالیتا ہوں اور نہ ملے تو صبر کرتا ہوں ۔یہ
سن کر انہوں نے ارشاد فرمایا:اس طرح تو بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں ۔ میں نے پوچھا:آپ کا طرزِ عمل کیا ہے؟ارشادفرمایا: اگرمل جائے تو ایثار کردیتا ہوں اور نہ ملے تو شکر ادا کرتا ہوں ۔
حضرت سیِّدُنا فتح موصلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نمازِ عشاء کے بعد اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لائے تو ملاحظہ فرمایا کہ نہ توان کے پاس رات کے کھانے کے لئے کچھ موجود ہے اور نہ ہی گھر میں چراغ ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ساری رات خوشی میں روتے رہے اور یہ فرماتے رہے:میرا ایسا کون سا عمل ہے کہ مجھ جیسے شخص کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کافرمانِ عالیشان ہے:
اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱)حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) (پ۳۰،التکاثر:۱، ۲)
ترجمۂ کنز الایمان: تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔
محبوب ربِّ داور،شفیْعِ روزِ مَحشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی:
اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱)حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) (پ۳۰،التکاثر:۱، ۲)
ترجمۂ کنز الایمان: تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔
پھر ارشاد فرمایا:انسان کہتا ہے :میرا مال،حالانکہ تمہارا مال تو صرف وہ ہے جو تم نے کھاکر ختم کردیا،پہن کر بوسیدہ کردیا یا پھر صدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔([14])
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے کہ میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےان سےارشادفرمایا:اےعائشہ!اگرتم مجھ سےملناچاہتی ہوتودنیاسےاتنی مقدارپرقناعت کروجتناکہ مسافر کےپاس زادِراہ ہوتاہے،امراکی ہم نشینی سےبچواورکپڑےکواس وقت تک پرانانہ سمجھوجب تک اس میں پیوندنہ لگالو۔([15])
فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے:اس امت کے اولین لوگوں کی بھلائی دنیا سے بے رغبتی اور یقین کی
برکت سے ہے اور اس امت کے آخری لوگوں کی ہلاکت کنجوسی اور (لمبی)امیدوں کے باعث ہوگی۔([16])
منقول ہےکہ حرص ولالچ انسان کی عزت میں کمی کردیتی ہےلیکن اس کےرزق میں اضافہ نہیں کرتی۔
ایک دانا شخص سےپوچھاگیا:کیا وجہ ہے کہ بوڑھا شخص جوان سے زیادہ دنیا کا حریص ہوتا ہے؟جواب دیا:اس لئے کہ بوڑھے شخص نے دنیا کا ایسا ذائقہ چکھا ہے جو جوان نے نہیں چکھا۔
ایک شاعر نے کتنی پیاری بات کہی ہے:
اِذَا طَاوَعْتَ حِرْصَكَ كُنْتَ عَبْدًا لِكُلِّ دَنِيْئَةٍ تُدْعٰى اِلَيْهَا
ترجمہ:اگر تم نے حرص و لالچ کی اطاعت کی توتم غلام ہوپھرہرگھٹیاچیزتمہیں اپنی طرف بلائےگی۔
ایک اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
قَدْ شَابَ رَاْسِیْ وَرَاْسُ الدَّهْرِ لَمْ يَشَبْ اِنَّ الْحَرِيْصَ عَلَى الدُّنْيَا لَفِیْ تَعَبٍ
ترجمہ:میراسرتوبوڑھاہوچکاہےلیکن زمانےکاسربوڑھانہیں ہوا،بےشک دنیاکاحریص مشقت میں مبتلا ہے۔
سکندر بادشاہ سے پوچھا گیا کہ دنیا کی خوشی کیا ہے؟کہا:جورزق تمہیں ملا ہے اس پر راضی رہنا۔دوبارہ سوال ہوا:دنیا کا غم کیا ہے؟جواب دیا:دنیا کا لالچ کرنا۔
حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا:اگر تم موت اور اس کی آمد کو دیکھ لو تو امید اور اس کے دھوکے کو بھول جاؤ۔
حضرت سیِّدُنا ابوسعید خدریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سےروایت ہے کہ حضرت سیِّدُنا اسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک مہینےکےادھارپر100دینارکےعوض ایک لونڈی خریدی تومیں نےتاجدارِرِسالت،شہنشاہِ نَبوتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے سنا:کیا تم لوگوں کو اسامہ پر تعجب نہیں ہوتا کہ اس نے ایک مہینے کے ادھار پر لونڈی خریدی ہے،بے شک
اسامہ طویل امید کا شکار ہے۔([17])
حضرت سیِّدُناعبداللہبن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسےمروی ہےکہ رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمباہرتشریف لاکر پیشاب کرتے اور پھر مٹی سے مسح فرمالیتے۔میں عرض کرتا کہ پانی آپ سے قریب ہےتو ارشاد فرماتے: ہوسکتا ہے کہ میں پانی تک نہ پہنچ سکوں ۔([18])
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: بوڑھا شخص دو باتوں کے معاملے میں جوان رہتا ہے:مال کی محبت اور لمبی امیدیں ۔([19])
حضرت سیِّدُنا محمد بن واسع رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا گیا:آپ اپنے آپ کو کیسا پاتے ہیں ؟ارشاد فرمایا:موت قریب ہے،امیدیں طویل ہیں جبکہ اعمال بُرے ہیں ۔
منقول ہے کہ جو شخص اپنی امیدوں کی لگام کے ساتھ دوڑتا چلا جائے وہ اپنی موت کے ساتھ ٹکرا کر ٹھوکر کھائے گا، اگر موت ظاہر ہوجائے تو امید رسوا ہوجائے۔
دانا لوگوں کا قول ہے:لمبی امیدوں سے بچو کیونکہ جس کی امیدیں اسے غافل کردیں اس کا عمل اسے رسوا کردیتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا:تم ان خواہشات سے بچو کیونکہ کسی بھی شخص کو خواہشات کے سبب دنیا وآخرت کی بھلائی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی۔
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا فرمان ہے:لالچ کی چمک دیکھ کر عقل اکثر مار کھاجاتی ہے۔
آپ کا ہی فرمان ہے:مردوں کی عقل کو شراب بھی اتنا خراب نہیں کرتی جتنا کہ لالچ کرتی ہے۔
حدیثِ پاک میں ہے:لالچ سے بچو کیونکہ یہ فوراً لاحق ہونے والا فقرہے۔
ایک فلسفی کا قول ہے:غلام تین قسم کے ہوتے ہیں :حقیقی غلام،شہوت کا غلام اور لالچ کا غلام۔
ایک بزرگ کا قول ہے:جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ زندگی بھرآزاد رہے تو اسے چاہیے کہ اپنے دل میں لالچ کو نہ بسائے۔
منقول ہےکہ حضرت سیِّدُناکعب احبارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّاراورحضرت سیِّدُناعبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک مقام پرجمع ہوئے تو حضرت سیِّدُنا کعب احبار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سوال کیا:اے عبداللہ بن سلام! اہْلِ علم کون ہیں ؟ فرمایا:وہ جواپنےعلم پر عمل کرتے ہیں ۔انہوں نے دوبارہ پوچھا:وہ کون سی چیز ہے جوعلم کےحصول کےبعداسےعلما کے سینوں سےنکال دیتی ہے؟حضرت سیِّدُناعبداللہبن سلامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےفرمایا:لالچ،نفسانی خواہشات اور لوگوں سے اپنی ضروریات طلب کرنا۔
حضرت سیِّدُنا فضل،حضرت سیِّدُنا سفیان اور حضرت سیِّدُنا ابن کریمہ یربوعی رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی ایک جگہ جمع ہوئے اور ایک دوسرے کو نصیحتیں کیں ،پھر جب یہ حضرات جدا ہوئے تو اس بات پر ان کا اتفاق تھا کہ سب سے افضل عمل غصے کے وقت برداشت اور لالچ کے موقع پر صبر ہے۔
منقول ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جب حضرت سیِّدُنا آدم صَفِیُّاللہعَلَیْہِ السَّلَام کی تخلیق فرمائی تو آپ کے خمیر سے تین چیزوں کو بنایا:حرص،لالچ اورحسد اس لئے یہ تینوں چیزیں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں قیامت تک باقی رہیں گی(لیکن یہ باتیں آپ عَلَیْہِ السَّلَامکی ذات میں نہیں تھیں )۔عقل مند شخص انہیں چھپاتا جبکہ جاہل انہیں ظاہر کرتا ہے۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے خمیر سے ان چیزوں کو بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان کی خواہش آپ میں پیدا فرمائی۔
اشعب سے پوچھا گیا کہ تمہاری لالچ کا کیا عالم ہے؟اس نے جواب دیا:میں اپنے پڑوسیوں کے یہاں دھواں دیکھتا ہوں توروٹی کےٹکڑےکرلیتاہوں (کہ پڑوس سےسالن آئےگاتواس کےساتھ کھاؤں گا)۔اس نےیہ بھی کہاکہ میں جب دو
آدمیوں کو جنازے کے ساتھ سرگوشی کرتے دیکھتا ہوں تو اندازہ لگاتا ہوں کہ مرنے والے نے اپنے مال میں سے میرے لئے کچھ وصیت کی ہے نیز جب کسی دلہن کو اس کے سسرال لے جایا جاتا ہے تو میں اس امید پر اپنے گھر کی صفائی کرتا ہوں کہ شاید وہ غلطی سے اسے میرے گھر لے آئیں ۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے ارشاد فرمایا:
وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- (پ۴،اٰل عمران:۱۵۹) ترجمۂ کنز الایمان:اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو توفیقِ خیر عطا فرمانے کے باوجود مشورہ کرنے کا حکم دیا،اس کی حکمت سے متعلق اہْلِ تفسیر کے درمیان اختلاف ہے جن میں سے تین اقوال درج ذیل ہیں :
﴿1﴾…حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا قول ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےسرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جنگ کے بارے میں مشورہ کرنے کا حکم دیا تاکہ صحیح رائے واضح ہوجائے اور آپ اس پر عمل کرسکیں ۔
﴿2﴾…حضرت سیِّدُنا ضحاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قول ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مشورہ کرنے کا حکم دیا تاکہ آپ مشورے کی فضیلت کو پاسکیں ۔
﴿3﴾…حضرت سیِّدُنا سفیان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان کا قول ہے کہ اگرچہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مشورے کی حاجت نہیں لیکن پھر بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو اس کا حکم دیا تاکہ مشورہ کرنا مسلمانوں کے لئے سنت ہوجائے۔
حضرت سیِّدُنا سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا فرمان ہے کہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو اس کے بارے میں مردوں سے مشورہ فرماتے۔بھلا وہ ہستی مخلوق کے مشورے کی محتاج کیسے ہوسکتی ہے جس کے کاموں کی تدبیر خالق ومالک عَزَّ وَجَلَّفرماتا ہو لیکن اس میں امت کی تعلیم ہے کہ آدمی کو دوسروں سے مشورہ کرنا چاہیے اگرچہ وہ جاننے والا ہو۔
فرمانِ مصطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے:استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوگا،مشورہ کرنے والے کو ندامت نہیں اُٹھانی پڑے گی اورکفایت شعاری اختیار کرنے والا فقر وفاقہ کا شکار نہیں ہوگا۔([20])
ایک اور روایت میں ہے کہ اپنی رائے کو پسند کرنے والا گمراہ ہوجاتا ہے جبکہ اپنی عقل پر بھروسا کرنے والا ٹھوکر کھاتا ہے۔
منقول ہے کہ جس قدر درستی اور صحت مشورہ کرنے سےحاصل ہوتی ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں ملتی۔
ایک دانا کا قول ہے: درست رائے کی توفیق مشورے کے ساتھ مقرر ہے۔
حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا:لوگ تین قسم کے ہیں :ایک وہ جو پورا مرد ہے، دوسرا وہ جو آدھا مرد ہے اور تیسرا وہ جو مرد نہیں ہے۔پورا مرد وہ ہے جو صاحبِ رائے بھی ہو اور مشورہ بھی کرتا ہو،آدھا مرد وہ ہے جو صاحبِ رائے تو ہو لیکن مشورہ نہ کرتا ہو جبکہ وہ شخص جو نہ تو صاحبِ رائے ہو اور نہ ہی مشورہ کرتا ہووہ مردہی نہیں ۔
منصور نے اپنے بیٹے سے کہا:مجھ سے دو باتیں سیکھ لو:سوچے سمجھے بغیر کوئی بات نہ کرو اور بغیر تیاری کے کوئی کام نہ کرو۔
حضرت سیِّدُنا فضل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:مشورے میں برکت ہے اور میں تو اس عجمی حبشیہ عورت (یعنی اپنی بیوی) سے بھی مشورہ کرتا ہوں ۔
ایک اعرابی نے کہا:عقل سے بڑی کوئی دولت نہیں ،جہالت سے بڑھ کرکوئی فقر وتنگدستی نہیں اور مشورے سے زیادہ مضبوط کوئی مدد نہیں ۔
ایک قول کے مطابق جو شخص اپنے کام کی ابتدا استخارے سے کرے اور پھر مشورہ بھی کرتا رہے تو وہ ناکام و نامراد نہ ہوگا۔
منقول ہے کہ پختہ رائے مضبوط آدمی سے زیادہ حفاظت کرنے والی ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا فرمان ہے:اپنی رائے کو کافی سمجھنے والا خطرے میں ہے۔
ایک شخص نےعضدالدَّولہ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا:اس کے چہرے میں ہزار آنکھیں ،منہ میں ہزار زبانیں اور سینے میں ہزار دل ہیں ۔
اردشیر بن بابک کا قول ہے:چار چیزیں چار کی محتاج ہوتی ہیں :حسب نسب ادب کا،مسرت وخوشی امن کی، رشتے داری محبت کی اور عقل تجربے کی۔
منقول ہے کہ اگر کوئی معمولی شخص بھی عمدہ رائے پیش کرے تو اس کے مشورے کو حقیر نہ جانو کیونکہ غوطہ خور کے بے وقعت ہونے کے سبب اس کے نکالے ہوئے موتی کو معمولی نہیں سمجھا جاتا۔
منقول ہے کہ مشورہ ایسے شخص سے کرنا چاہیے جو صاحبِ علم اور درست رائے رکھنے والا ہو کیونکہ ہر عالِم درست رائے کا جاننے والا نہیں ہوتا،کئی لوگ ایک چیزکو پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن انہیں دوسری چیز کی معلومات نہیں ہوتیں ۔
یونان اور ایران کے بادشاہوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب انہیں کسی معاملے میں مشورے کی ضرورت ہوتی تو اپنے وزیروں کو اکٹھا کرکے مشورہ نہیں کرتے تھے بلکہ ایک ایک سے الگ الگ اس طرح مشورہ کرتے تھے کہ ایک کے مشورے کا دوسرے کو علم نہ ہوتا،ان کے اس فعل میں کئی حکمتیں تھیں :
ایک حکمت یہ تھی کہ سب کو اکٹھا کرکے مشورہ کرنے سے مشورہ دینے والوں میں مقابلہ بازی شروع ہو سکتی ہے جس کے سبب ان کے مشوروں سے درستی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ یہ فطری بات ہے کہ جب کئی لوگ ایک معاملے میں شریک ہوتے ہیں تووہ آپس میں مقابلہ کرتے اور ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں ، نیز ان میں سے کسی ایک کی رائے درست ثابت ہوجائے تودوسرے اس سے حسد اور اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔
سب کو جمع کرکے مشورہ کرنے میں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس صورت میں راز کو راز رکھنا مشکل ہوتا ہے،پھر جب وہ راز کھل جائے تو بادشاہ اس بات پر قادر نہیں ہوتاکہ اسے ظاہر کرنے والے کی گرفت کرسکے کیونکہ اس کو متعین کرنا ممکن نہیں ہوتا۔بادشاہ اگر سب وزیروں کو سزا دے تو ایک ہی غلطی پر دے گا اور اگر سب کو معاف کردے تو راز اَفشاں کرنے والا بھی بے قصوروں کی صف میں شامل ہوکر بچ جائے گا۔
منقول ہے کہ اگر تمہارا دوست تمہیں کوئی مشورہ دے اور اس کا انجام اچھا نہ ہو تو اس بات کو اسے ملامت کرنے کا سبب نہ بنالو اور اس سے یہ نہ کہو کہ تم نے ایسا کیا اور تم نے مجھے یہ مشورہ دیا،اگر تم نہ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا کیونکہ ایسا کرنا ایک غلط انداز اور گھٹیا پن ہے۔
افلاطون کا قول ہے:جب تمہارا دشمن تم سے مشورہ مانگے تو اسے بھی اچھا مشورہ دوکیونکہ مشورہ مانگ کر وہ تمہارے دشمنوں کی صف سے نکل کر دوستوں میں شامل ہوگیا ہے۔
منقول ہے کہ ناشکرے شخص کو مشورہ دینے اور اس کی خیر خواہی کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو بنجر زمین میں بیج بوتا ہے۔
ابن معتز کا قول ہے:مشورہ تمہارے لئے راحت اور تمہارے غیرکےلئےمشقت ہے۔
مروکے قاضی حضرت سیِّدُنانوح بن مریم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کیا تو اپنے ایک مجوسی (یعنی آتش پرست) پڑوسی سے مشورہ کیا۔اس نے عرض کی:سُبْحٰنَ اللہ!لوگ آپ سے فتوٰی لیتے ہیں اورآپ مجھ سے مشورہ کر رہے ہیں ۔ قاضی صاحب نے فرمایا:تم پر لازم ہے کہ مجھے مشورہ دو۔مجوسی نے کہا:ایران کابادشاہ کِسری مال کو ترجیح دیتاتھا،روم کابادشاہ قیصراورعرب کےبادشاہ حسن و جمال کوترجیح دیتے تھےجبکہ آپ کے سردارمحمدِعربی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمدین کوترجیح دیتےتھے،اب آپ غورکرلیں کہ آپ نے کس کی اقتدا کرنی ہے۔
منقول ہے کہ جس شخص کو چار چیزیں عطا کی گئیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہے گا:جسے شکر کی توفیق ملی وہ مزید نعمتوں سے محروم نہیں ہوگا، جسے توبہ کی سعادت ملی وہ قبولِ توبہ سے محروم نہیں کیا جائے گا، جسے استخارہ کی توفیق عطا ہوئی وہ بھلائی سے محروم نہیں ہوگا اور جسے مشورہ کرنے کی سعادت ملی وہ درستی سے محروم نہیں رہے گا۔
کہا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے استخارہ کرے،اپنے دوستوں سے مشورہ کرے اور خوب سوچ بچار کرےتو اس نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے معاملے میں ایسا فیصلہ فرمائے گا جو اسے پسند ہوگا۔
ایک قول کے مطابق غور و تفکر کے بعد مشورہ دینے والا بلاسوچے سمجھے رائے دینے والے سے بہتر ہے اور مشورہ لینے میں اسے مُقدّم کرنا مُؤَخَّر کرنے سے اچھا ہے۔
حضرت سیِّدُنااَحنف بن قسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےارشادفرمایا:بھوکےشخص سےمشورہ نہ کرویہاں تک کہ پیٹ بھرکر کھالے، یونہی پیاسے سے سیرابی تک،قیدی سے آزاد ہونے تک جبکہ تنگدست سے اس کی تنگدستی دور ہونے تک مشورہ نہ کرو۔
عقلمند لوگوں کا قول ہے کہ ان افراد سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے:بچوں کو پڑھانے والا،چرواہا،عورتوں کی صحبت میں زیادہ رہنے والا،حاجت مند شخص جو اپنی حاجت پوری کرنے کی کوشش میں ہو، خوف کا شکار اور جسے پیشاب پاخانے کی حاجت ہو۔
ایک قول یہ ہے کہ سات قسم کے لوگوں سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے:جاہل،دشمن،حاسد، ریاکار،بزدل، کنجوس اور خواہش کی پیروی کرنے والا۔جاہل تو خود گمراہ ہوتا ہے،دشمن تمہاری ہلاکت چاہتا ہے، حاسد تمہاری نعمتوں کے زوال کا خواہش مند ہوتا ہے،ریاکار لوگوں کی مرضی پر چلتا ہے،بزدل ہر مشکل مقام سے بھاگنے کا مشورہ دیتا ہے ،کنجوس جمْعِ مال کا حریص ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی، خواہِشِ نفس کی پیروی کرنے والا خواہشات کا اسیر ہوتا ہے اور خواہش کی مخالفت کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
مدینہ منورہ کا رہائشی ایک شخص جو اسلمی کے نام سے مشہور تھا اس کا بیان ہے کہ مجھ پر لوگوں کا کافی قرض چڑھ گیا تھا اور قرض خواہ مجھ سے اپنی رقم کا مطالبہ کررہے تھا جبکہ میرے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔ان حالات میں زمین مجھ پرتنگ ہوچکی تھی اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں ۔جب میں نے اس بارے میں اپنے قابل اعتماد دوست سے مشاورت کی تو اس نے مجھے حاکم مُہَلَّب بن ابو صُفْرَہ کے پاس عراق جانے کا مشورہ دیالیکن میں نے طویل مسافت،سفر کی مشقت اور مُہَلَّب کے تکبر کا عذر پیش کیا۔پھر میں نے ایک اور شخص سے مشورہ کیا تو اس نے بھی وہی کہا جوکہ پہلےدوست
نےکہاتھا۔چنانچہ میں نےاس مشورےپرعمل کا فیصلہ کیا،اپنی اونٹنی پر سوار ہوا اورایک قافلے کے ساتھ عراق جاپہنچا۔
وہاں جاکر میں مہلب کے پاس گیا اور سلام کے بعد اس سے کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ امیر کا بھلا کرے!میں صحراؤں کو عبور کرکے اور طویل سفر کرکے مدینہ منورہ سے آپ کے پاس آیا ہوں کیونکہ مجھے اچھی رائے کے حامل لوگوں نے اپنی حاجت کی تکمیل کے لئے آپ کے پاس آنے کا مشورہ دیا تھا۔مہلب نے پوچھا:کیا تم کسی کی سفارش لائے ہو یاپھر ہمارے درمیان کوئی رشتہ یا قرابت ہے؟میں نے جواب دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ میری ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ اگر آپ ایسا کردیں تو مجھے آپ سے یہی امید ہے اور اگر کوئی رُکاوٹ ایسا کرنے سے مانع ہو تو میں آج کے دن آپ کی مذمت نہیں کروں گا اور نہ ہی مستقبل میں تکمیلِ حاجت سے مایوس ہوں گا۔
مہلب نے اپنے دربان سے کہا:اسے ساتھ لے کر جاؤ اور اس وقت ہمارے خزانے میں جو کچھ موجود ہے وہ اسے دے دو۔دربان مجھے ساتھ لے کر گیا تو خزانے میں اسّی ہزار درہم موجود تھے جو اس نے میرے حوالے کردیئے۔یہ دیکھ کر خوشی و مسرت کے باعث میں اپنے آپ پر قابو نہ پاسکا،اس کے بعد دربان مجھے دوبارہ مہلب کے پاس لایا تو اس نے پوچھا:کیا تمہیں جو مال ملا وہ تمہاری حاجت پوری کرنے کے لئے کافی ہے؟ میں نے کہا:اے امیر!یہ تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ مہلب نے کہا:تمام تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے ہیں کہ تمہاری کوشش کامیاب ہوئی،تم نے اپنے مشورے کا پھل پالیا اور تمہیں میرے پاس آنے کا مشورہ دینے والے کا خیال درست ثابت ہوا۔ اس کے بعد میں مدینہ منورہ واپس آگیا،اپنا قرض ادا کیا،اہل خانہ پر وسعت کی، مشورہ دینے والوں کو بھی انعام دیا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے عہد کیا کہ جب تک زندہ رہوں گا اپنے تمام کاموں میں مشورہ کرتا رہوں گا۔
منقول ہے کہ خلیفہ منصور کے چچا عبداللہ بن علی سے چند ایسی باتیں صادر ہوئیں جن سے درگزر کرنا ملکی سیاست کے اعتبار سے ممکن نہ تھا چنانچہ خلیفہ نے اسے قید کروا دیا،پھر اسے اپنے چچا زاد اور کوفہ کے گورنر عیسٰی بن موسٰی کے بارے میں چند ایسی باتیں معلوم ہوئیں جس نے اسے عیسٰی بن موسٰی سے بدظن کردیا اور اسے اس سے خوف محسوس ہونے لگا۔غور و تفکر کے بعد خلیفہ نے اس مسئلے کا ایک حل سوچا جسے اس نے اپنے تمام درباریوں اور وزیروں سے بھی پوشیدہ رکھا۔خلیفہ نے عیسٰی بن موسٰی کو اپنے پاس بلایا اور معمول کے مطابق اس کےساتھ عزت و اکرام سے پیش آیا،پھر
تمام درباریوں کو باہر بھیج کر اس سے کہا: اے میرے چچازاد!میں تمہیں ایک ایسے معاملے سے آگاہ کرنے لگا ہوں جس کا اہل اور اس کا بوجھ اٹھانے میں اپنا مددگار تمہارے علاوہ کسی کو نہیں پاتا۔کیا تم اس معاملے میں میرے اعتماد پر پورے اُترو گے اور ایسا کام کرو گے جس سے تمہاری نعمتیں بھی برقرار رہیں اور میری بادشاہت بھی سلامت رہے۔عیسٰی بن موسٰی نے جواب دیا:میں امیرالمؤمنین کا غلام ہوں اور میری جان آپ کے احکام کی پابند ہے۔خلیفہ نے کہا: میرے اور تمہارے چچا عبداللہ نے کچھ ایسے کاموں کا ارتکاب کیا ہے جو اس کے خون کو حلال کرتے ہیں اور اسے قتل کرنے میں ہی مملکت کی بھلائی ہے اس لئے تم انہیں اپنے یہاں لے جاکر پوشیدہ طور پر قتل کردو۔پھر خلیفہ نے عبداللہ کو عیسٰی بن موسٰی کے حوالے کیا اور خود حج کے ارادے سے روانہ ہوگیا۔اس کا ارادہ یہ تھا کہ جب عیسٰی بن موسٰی اس کے چچاعبداللہ کو قتل کردے گا تو وہ اس پر قصاص لازم کرےگا اور اسے عبداللہ کے بھائیوں یعنی اپنے چچاؤں کے حوالے کردے گا تو وہ قصاص میں اسے قتل کردیں اور یوں اسے عبداللہ اور عیسٰی بن موسٰی دونوں سے چھٹکارا مل جائے۔
عیسٰی بن موسٰی کا بیان ہے کہ اپنے چچا کو تحویل میں لینے کے بعد جب میں نے اس کے قتل کے بارے میں غور کیا تو مجھے مناسب لگا کہ کسی صاحبِ رائے شخص سے اس بارے میں مشورہ کرلوں تاکہ درست فیصلے تک پہنچ سکوں ۔میں یونس بن قرہ کاتب کے پاس گیا جس کے بارے میں میرا اچھا گمان تھا اور اس سے کہا: امیرالمؤمنین نے اپنے چچا عبداللہ کو میرے حوالے کیا ہے اور مجھے اس کو قتل کرنے اور اس معاملے کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔آپ اس بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں ؟یونس نے مجھ سے کہا:اے امیر! آپ اپنے اور امیرالمؤمنین کے چچا کی حفاظت کرکے اپنی حفاظت فرمائیے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ انہیں اپنے گھر کے کسی کمرے میں چھپا دیں اوران کے معاملے کو اپنے تمام مصاحبین سے بھی پوشیدہ رکھیں ،ان کا کھانا پانی بھی خود ان تک پہنچائیں ،ان کے کمرے کو مقفل رکھیں اور امیرالمؤمنین کے سامنے یہ ظاہر کریں کہ آپ نے انہیں قتل کرکے حکم کی تعمیل کردی ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ جب امیرالمؤمنین کو اطمینان ہوجائے گا کہ آپ نے ان کے چچا کو قتل کردیا ہے تو وہ سب کے سامنے آپ کو ان کے چچا کو پیش کرنے کا حکم دیں گے۔ جب آپ اعتراف کرلیں گے کہ آپ نے ان کے حکم پر عبداللہ کو قتل کردیا ہے تو وہ اس بات کا حکم دینے کا انکار کرکے اپنے چچا کے قتل کے الزام میں آپ کو گرفتار کرکے قتل کروادیں گے۔
عیسٰی بن موسٰی کا بیان ہے کہ میں نے اس مشورے کو قبول کرکے اس پر عمل کیا اور امیرالمؤمنین کے سامنے یہ ظاہر
کیا کہ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کردی ہے۔خلیفہ منصور جب حج کرکے واپس آیا اور اسے یقین ہوگیا کہ میں نے اس کے چچا عبداللہ کو قتل کردیا ہےتو اس نے اپنے منصوبے کے مطابق اپنے چچاؤں یعنی عبداللہ کے بھائیوں کو اس بات پر اُبھارا کہ وہ اس کے دربار میں آکر اپنے بھائی کے بارے میں پوچھیں اور اس کی حوالگی کا مطالبہ کریں ۔چنانچہ جب خلیفہ منصور اپنے دربار میں موجود تھا اور اس کے درباری بھی حاضر تھے تو عبداللہ کے بھائیوں نے دربار میں آکر اس کے بارے میں دریافت کیا۔خلیفہ منصور نے کہا:بے شک آپ حضرات کے حقوق آپ کی حاجت کی تکمیل کا تقاضا کرتے ہیں کیونکہ اس میں ایسے شخص کے ساتھ صلہ رحمی اور بھلائی ہے جو والد کے مقام پر فائز ہے۔پھر اس نے عیسٰی بن موسٰی کو بلانے کا حکم دیا،جب وہ حاضر ہوا تو خلیفہ نے کہا:اے عیسٰی!حج کے لئے روانگی سے قبل میں نے اپنے چچا عبداللہ کو تمہارے حوالے کیا تھا تاکہ میری واپسی تک وہ تمہارے گھر میں موجود رہیں ۔عیسٰی نے کہا:اے امیرالمؤمنین!بے شک آپ نے ایسا کیا تھا۔خلیفہ منصور نے کہا:اب تمہارے چچاؤں نے ان کی رہائی کی درخواست کی ہے اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ انہیں معاف کرکے ان حضرات کی خواہش کو پورا کیا جائے اور ان کی درخواست قبول کرکے صلہ رحمی کی جائے لہٰذا تم اسی وقت انہیں یہاں لے آؤ۔عیسٰی بن موسٰی نے کہا:اے امیرالمؤمنین!کیا آپ نے مجھے جلد سے جلد انہیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔خلیفہ نے کہا:تم جھوٹ بولتے ہو،میں نے تمہیں ایسا حکم نہیں دیا تھا اور اگر مجھے ان کو قتل کرنا ہوتا تو کسی ایسے آدمی کے حوالے کرتا جو ان کے قتل کے درپے تھا۔پھر اس نے مجھ پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے چچاؤں سے کہا:اس نے تمہارے بھائی کے قتل کا اعتراف کرلیا ہے اور یہ دعوٰی کیا ہے کہ میں نے قتل کا حکم دیا تھا حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ انہوں نے کہا:اے امیرالمؤمنین! آپ اسے ہمارے حوالے کردیں تاکہ ہم قصاص میں اسے قتل کر دیں ۔ منصور نے اجازت دے دی۔
عیسٰی بن موسٰی کا بیان ہے کہ وہ لوگ مجھے ایک کشادہ مقام پر لے گئےاور لوگ میرے پاس جمع ہوگئے، پھر میرے چچاؤں میں سے ایک نے اُٹھ کر مجھے قتل کرنے کے لئے تلوار سونت لی۔میں نے کہا:چچا جان!کیا آ پ مجھے قتل کردیں گے؟اس نے جواب دیا:میں تمہیں کیوں نہ قتل کروں کہ تم نے میرے بھائی کو مار ڈالا ہے۔ میں نے کہا:آپ لوگ جلدی نہ کریں اورمجھےواپس امیرالمؤمنین کےپاس لےجائیں ۔چنانچہ مجھےواپس لےجایاگیا۔میں نےکہا:اے امیرالمؤمنین! میں نے عبداللہ کو قتل کرکے اپنی ہلاکت کا ارادہ کیا تھا لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے ایسا کرنے سے محفوظ فرمالیا۔آپ کے چچا
زندہ اورمحفوظ موجود ہیں ،اگر آپ حکم دیں تو میں انہیں ابھی ان کے بھائیوں کے سپرد کردوں ۔یہ سن کر خلیفہ منصور نے سر جھکالیا اور وہ سمجھ گیا کہ اس کا منصوبہ ناکام ہوچکا ہے، پھر اس نے سر اٹھاکر کہا:اسے یہاں لاؤ۔عیسیٰ بن موسٰی نے عبداللہ کو دربار میں پیش کردیا،اسے دیکھ کر منصور نے اپنے چچاؤں سے کہا:آپ لوگ اسے میرے پاس چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ میں اس بارے میں غور کرسکوں ۔عیسٰی بن موسٰی کا بیان ہے کہ عبداللہ کو وہاں چھوڑ کر میں اور اس کے بھائی واپس چلے گئے،اس طرح میری جان بچ گئی اور یہ سب کچھ یونس سے مشورہ کرکے اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کی برکت سے ہوا۔اس کے بعدخلیفہ منصور نے عبداللہ کو ایک ایسے گھر میں ٹھہرایا جس کی بنیادیں نمک سے بنی ہوئی تھیں ،پھر رات میں اس گھر کے اردگرد پانی چھوڑ دیا جس کے باعث نمک پگھلااور گھرگر گیا۔اس طرح عبداللہ کی موت واقع ہوگئی جبکہ عیسٰی بن موسٰی اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا۔
جان لو کہ مسلمانوں اور دیگر تمام مخلوق کی خیر خواہی انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنت ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ حضرت سیِّدُنا نوح عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْؕ-هُوَ رَبُّكُمْ- وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَؕ(۳۴)(پ۱۲،ھود:۳۴)
ترجمۂ کنز الایمان: اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جب کہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے وہ تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف پھرو گے۔
حضرت سیِّدُنا شعیب عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے ارشاد فرمایا:
وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠(۹۳) (پ۹،الاعراف:۹۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور(میں نے) تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیونکر غم کروں کافروں کا۔
حضرت سیِّدُنا صالح عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:
وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) (پ۸،الاعراف:۷۹) ترجمۂ کنزالایمان:اور(میں نے)تمہارابھلاچاہامگرتم خیر خواہوں کے غرضی(پسند کرنے والے) ہی نہیں ۔
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشادفرمایا:بےشک دین خیرخواہی ہے،بےشک دین خیرخواہی ہے،بےشک دین خیرخواہی ہے۔لوگوں نےعرض کی: یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!کس کےلئے؟ارشادفرمایا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ،اس کی کتاب،اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، مسلمانوں کے امام اور عام مسلمانوں کے لئے۔ ([21])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خیر خواہی سے مراد یہ ہے کہ جو صفات اس کے شایانِ شان ہیں انہی صفات سے اس کی تعریف کی جائے جبکہ جو صفات اس کے لائق نہیں ہیں اُن سے اُس کی پاکی بیان کی جائے،اس کی تعظیم بجا لائی جائے، ظاہر وباطن میں اس کے لئے خضوع(یعنی دل کی عاجزی) اختیار کی جائے،اس کے پسندیدہ کاموں میں رغبت جبکہ اس کے ناپسندیدہ افعال سے دوری اختیار کی جائے،اس کے اطاعت شعار بندوں سے دوستی جبکہ نافرمانوں سے دشمنی کی جائے،قول وفعل کے ذریعے گناہ گاروں کو اس کی اطاعت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جائے۔
قرآنِ مجید کی خیرخواہی سے مراد یہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے اور قراءت کرتے ہوئے اس کو اچھے انداز میں پڑھا جائے نیز اس کےمضامین کو سمجھا جائے،بے بنیاد تاویلیں کرنے والوں کی تاویلات اورمُعْتَرِضِیْن کے اعتراضات کو اس سے دور کیا جائے اور مخلوق کو اس کی تعلیمات سکھائی جائیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹)پ۲۳،ص:۲۹)
ترجمۂ کنز الایمان: یہ ایک کتاب ہےکہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند نصیحت مانیں ۔
سَیِّدِعالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خیرخواہی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی سنتوں کو تلاش کرکے زندہ کیا جائے،تبلیْغِ دین اور لوگوں کو شریعتِ مُطَہَّرہ کی طرف مائل کرنے کےلئے آپ کے طریقے پر عمل کیا جائے اور آپ کی سیرتِ طَیِّبَہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔
حکمرانوں کی خیرخواہی سے مرادیہ ہے کہ وہ جن باتوں کے مکلّف ہیں ان میں ان کی مدد کی جائے۔ان کی مدد کا طریقہ یہ ہے کہ غافل ہونے پر انہیں متوجہ کیا جائے،غلطی کرنے پرنصیحت کی جائے،جن باتوں سے وہ ناواقف ہیں وہ سکھائی جائیں ،جو ان کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھتا ہے اس سے خبردار کیا جائے،انہیں ان کے نمائندوں کے کردار اور رعایا کے ساتھ رویے سے آگاہ کیا جائے،بوقتِ ضرورت ان کا خلا پُر کیاجائے اور ان سے بدگمان لوگوں کی بدگمانیاں دور کی جائیں ۔
عام مسلمانوں کی خیر خواہی سے مراد یہ ہے کہ ان پر شفقت کی جائے،ان میں سے بڑوں کا احترام جبکہ چھوٹوں پر مہربانی کی جائے،ان کی تکالیف کو دور کیا جائے اور ایسی باتوں سے اجتناب کیا جائے جن سے ان کے دل پریشان ہوں اور وہ وسوسوں کا شکار ہوجائیں ۔
اس بات کو جان لو کہ نصیحت کا گھونٹ کڑوا ہوتا ہے اور اسے صرف ہمت والے لوگ ہی قبول کرتے ہیں ۔ حضرت سیِّدُنا میمون بن مہران عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کا بیان ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے مجھ سے ارشاد فرمایا:جو بات مجھے ناگوار گزرتی ہو وہ میرے منہ پر کہا کرو کیونکہ آدمی اپنے بھائی کی خیر خواہی نہیں کرسکتا جب تک اس کی ناگوار بات اس کے منہ پر نہ کرے۔
منثورالحکم میں ہے:تم سے محبت کرنے والا تمہیں نصیحت کرتا ہے جبکہ تمہیں ناپسند کرنے والا تمہاری خواہش کے مطابق چلتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:اگر تم چاہو تو میں تمہیں ضرور نصیحت کروں گا۔بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں جواس کے بندوں کے دل میں اس کی محبت جگاتے ہیں اور زمین میں نصیحت کرتے ہیں ۔
ایک خلیفہ نےجریربن یزیدسےکہا:ميں نےتمہارےلئےایک کام تیارکررکھاہے۔جریرنےکہا:اے امیر!
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے آپ کے لئے خیر خواہی کرنے والا دل،آپ کی اطاعت کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھ اور آپ کے دشمنوں پر بے نیام تلوار عطا فرمائی ہے۔
فَیْروز بن حُصَیْن نےیزید بن مُہَلَّب کو مشورہ دیا تھا کہ حجاج بن یوسف کی بیعت نہ کرے لیکن اس نے مشورہ قبول نہ کیا اور حجاج کے پاس چلا گیا۔حجاج نےاسے اوراس کے گھروالوں کو قید کردیا،اس پرفیروزنے یہ اشعار کہے:
اَمَرْتُكَ اَمْرًا حَازِمًا فَعَصَيْتَنِي فَاَصَبَحْتَ مَسْلُوْبَ الْاِمَارَةِ نَادِمًا
اَمَرْتُكَ بِالْحَجَّاجِ اِذْ اَنْتَ قَادِرٌ فَنَفْسُكَ اَوْلىٰ اللَّوْمِ اِنْ كُنْتَ لَائِمًا
فَمَا اَنَا بِالْبَاكِي عَلَيْكَ صَبَابَةً وَمَا اَنَا بِالدَّاعِي لِتَرْجِعَ سَالِمًا
ترجمہ: (۱)…میں نے تمہیں ایک محتاط مشورہ دیا تھا لیکن تم نے میری بات نہ مانی بالآخر تمہیں ندامت کےساتھ حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔(۲)…میں نےتمہیں حجاج کے بارے میں اس وقت مشورہ دیا تھا جب تم قادر تھے،اگر تم نے ملامت کرنی ہے توخود پرملامت کرنےکےزیادہ حقدارہو۔(۳)…میں تم پر افسوس کرتے ہوئے رونے والا نہیں ہوں اور نہ ہی تمہاری سلامتی کے ساتھ واپسی کی دعا کروں گا۔
منقول ہے کہ جس کا چہرہ نصیحت کی بات سن کر زرد ہوجائے تو ایک دن اس کا چہرہ ذلت ورسوائی کی سیاہی سے آلودہ ہوتا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
﴿1﴾…
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-پ۱۴،النحل:۱۲۵) |
ترجمۂ کنز الایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سےاوران سےاس طریقہ پربحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔ |
﴿2﴾…
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور
الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۹۰) (پ۱۴،النحل:۹۰)
رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔
﴿3﴾…
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ- (پ۴،اٰل عمران:۱۰۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں ۔
﴿4﴾…
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (پ۱۰،التوبة:۷۱)
ترجمۂ کنزالایمان:اورمسلمان مرداورمسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں ۔
﴿5﴾…
وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِؕ- (پ۴،اٰل عمران:۱۱۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں ۔
نیکی کی دعوت سے متعلق آیاتِ مبارکہ کثیر ہیں جو کہ مختلف فوائد پر مشتمل ہیں ۔
حضرت سیِّدُنا ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے سنا:تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے بدل دے اور اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے اسے بُرا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔([22])
حضرت سیِّدُنا امام شرف الدین نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فرمانِ عالیشان:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْؕ-پ۷،المائدة:۱۰۵)
ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو تم اپنی فکر رکھو تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا جو گمراہ ہوا جب کہ تم راہ پر ہو۔
کے بارے میں فرماتے ہیں :اس آیتِ کریمہ سے بہت سے جاہل دھوکا کھاتے اور اسے غلط معنیٰ پر محمول کرتے ہیں ۔اس آیتِ مقدسہ کے درست معنیٰ یہ ہیں کہ جن باتوں کا تمہیں حکم دیا گیا ہے جب تم انہیں بجالاؤ تو پھر گمراہوں کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں دے گی ، جن باتوں کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ان میں سے ایک نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا بھی ہے۔یہ آیتِ مبارکہ معنیٰ کے اعتبار سے ایسے ہی ہے جیسے کہ یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُؕ- (پ۷،المائدة:۹۹) ترجمۂ کنز الایمان: رسول پر نہیں مگر حکم پہونچانا۔
حضرت سیِّدُنا محمد بن تمام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: نصیحت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے اور اس کی مثال گارے کی سی ہے جسے دیوار پر لگایا جاتا ہے،اگر اس سے چپک جائے تو نفع دیتا ہے اور اگر گِر جائے تو بھی اپنا اثر چھوڑتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا فرمان ہے:ان لوگوں میں سے مت ہونا جنہیں نصیحت اسی وقت فائدہ دیتی ہے جب ملامت میں مبالغہ کیا جائے کیونکہ عقل مند ادب سے نصیحت حاصل کرتا ہے جبکہ جانور صرف مار کی زبان سمجھتے ہیں ۔
ایک شخص نے اپنے دوست کے نام خط میں لکھا:لوگوں کو اپنے قول سے نہیں بلکہ اپنے فعل سے نصیحت کرو، اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اس قدر حیا کرو جس قدر وہ تم سے قریب ہے اور اس سے اتنا ڈرو جتنا وہ تم پر قدرت رکھتا ہے۔وَالسَّلَام
منقول ہے کہ جس شخص کا ضمیر اسے نصحیت کرتا ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کی حفاظت فرماتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا لقمان حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا فرمان ہے کہ بے وقوف شخص پر نصیحت ایسے ہی گِراں گزرتی ہے جیسے کسی بوڑھے شخص کے لئے دشوار گزار اونچے مقام تک چڑھنا دشوار ہوتا ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا داؤد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی:اگر تم کسی بھاگے ہوئے بندے کو میری بارگاہ میں لے آؤ تو میں تمہیں اپنے یہاں قابلِ تعریف لکھ لوں گا اور جس کو میں اپنے یہاں قابلِ تعریف لکھ لوں تو اسے کبھی بھی عذاب نہیں دوں گا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے حضرت سیِّدُنا منصور بن عمارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسےکہا:مجھے کوئی مختصر نصیحت کیجئے۔ارشاد
فرمایا:اے امیرالمؤمنین:کیا کوئی آپ کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہے؟جواب دیا:نہیں ۔ فرمایا: اگر آپ کی خواہش ہے کہ جس سے آپ محبت کرتے ہیں (یعنی اپنی جان)اس کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کریں تو پھر ایسا ہی کیجئے۔
سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:اے لوگو!دن گزرتے جارہے ہیں ، زندگیاں ختم ہورہی ہیں ،جسم مٹی میں بوسیدہ ہورہے ہیں ،دن اور رات پیغام رساں کی طرح (تیز رفتاری کے ساتھ) سفر کرتے ہوئے ہر دُورکی چیز کو قریب اور ہر نئی چیز کو پرانا کرتے چلے جارہے ہیں ۔ اے اللہ کے بندو!ان تمام باتوں میں ایسی عبرت ہے جو نفسانی خواہشات سے بے رغبت کرکے باقی رہنے والی نیکیوں کی طرف راغب کردے۔([23])
حضرت سیِّدُنا میمون بن مہران عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان نے جب حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے ملاقات کی تو ان سے عرض کی:مجھے آپ سے ملنے کی خواہش تھی،آپ مجھے نصیحت فرمائیے۔حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نےیہ دو آیاتِ مقدسہ تلاوت فرمائیں :
﴿1﴾…
اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ (پ۲۵،الجاثیة:۲۳) |
ترجمۂ کنز الایمان: بھلا دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا ٹھہرا لیا۔ |
﴿2﴾…
اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ(۲۰۵)ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ(۲۰۶)مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَؕ(۲۰۷)(پ۱۹،الشعراء:۲۰۵ تا ۲۰۷)
ترجمۂ کنزالایمان:بھلادیکھوتو اگر کچھ برس ہم انھیں برتنے دیں پھر آئے اُن پروہ جس کا وہ وعدہ دئیے جاتے ہیں تو کیا کام آئے گا اُن کے وہ جو برتتے تھے۔
یہ سن کرحضرت سیِّدُنامیمون بن مہرانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننےفرمایا:اےابوسعید!آپ پرسلامتی ہو،آپ نے مجھے بہت اچھی نصیحت فرمائی ہے۔
بدبخت ابنِ مُلْجَم نے جب قاتلانہ حملہ کر کے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو زخمی کردیا تو آپ کو دولت خانے پر لایا گیا اور کچھ دیر غشی کا عالَم رہا۔جب افاقہ ہوا تو حسنین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کوطلب کیااوران سےفرمایا:میں تمہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّسےڈرنے،آخرت میں رغبت اوردنیا سے بے رغبتی کی وصیت کرتا ہوں ۔جو چیز تم سے چھن جائے اس پر افسوس نہ کرنا کیونکہ ایک نہ ایک دن تم نےاسےچھوڑنا ہی ہے۔نیک کام کرو،ظالِم کےمخالف اورمظلوم کے مددگار بن جاؤ۔
پھراپنےبیٹےحضرت سیِّدُنامحمدبن حنفیہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکوبلاکرپوچھا:میں نےتمہارےدونوں بھائیوں کوجونصیحت کی کیاتم نےاسےسناہے؟انہوں نےعرض کی:جی ہاں ۔فرمایا:میں تمہیں بھی ان باتوں کی وصیت کرتا ہوں ،اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ حسْنِ سلوک،ان کی تعظیم و توقیر اور ان کی فضیلت کی معرفت کو لازم پکڑلواوران دونوں کےبغیرکوئی کام نہ کرنا۔پھر حسنین کریمینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:میں تم دونوں کو اس کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے،تم جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے پیار کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے پیار کرو۔
اے میرےبیٹو!میں تمہیں خلوت و جلوت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے،خوشی اور ناراضی میں حق بات کہنے،مال داری و تنگدستی میں میانہ روی اختیار کرنے،دوست اور دشمن دونوں کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لینے،مستعدی اور سستی دونوں میں عمل کرنے اور تنگی وفراخی دونوں حالتوں میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی رہنے کی وصیت کرتا ہوں ۔
اے میرے بیٹو!جس تکلیف کے بعد جنت ملنے والی ہو وہ تکلیف نہیں ہے اور جس راحت کا انجام دوزخ پر ہو وہ راحت نہیں ہے،جنت کے مقابلے میں ہر نعمت حقیر ہے جبکہ دوزخ کی بنسبت ہر تکلیف عافیت ہے۔
اے میرے بیٹو!جو شخص اپنے عیبوں کو جان لیتا ہے وہ دوسروں کے عیوب سے بے نیاز ہوجاتا ہے،جو بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تقسیم پر راضی ہوجائے وہ نہ ملنے والی چیزوں پر غمزدہ نہیں ہوتا ،جو بغاوت کی تلوار کو بے نیام کرے وہ اسی سے قتل کیا جاتا ہے۔اپنے بھائی کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اس میں گرتا ہے،اپنے بھائی کی پردہ دری کرنے والے کے اپنے عیوب بے نقاب ہوجاتے ہیں ،جو اپنی خطاؤں کو بھول جائے وہ دوسرے کی غلطی کو بڑا سمجھتا ہے جبکہ اپنی رائے کو اچھا سمجھنے والا
گمراہ ہوجاتا ہے۔جو شخص اپنی عقل کو کافی سمجھے وہ ٹھوکر کھاتا ہے،لوگوں کو حقیر جاننے والا ذلت اٹھاتا ہےجبکہ گھٹیالوگوں کے ساتھ رہنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔جو شخص برائی کے مقامات پر جائے اسے تہمت لگائی جاتی ہے،علما کے ساتھ بیٹھنے والے کو عزت حاصل ہوتی ہےاورہنسی مذاق کرنے والے کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔جو اکثر کسی کام کو کرے اس کی پہچان اسی سے ہوتی ہے،زیادہ باتیں کرنے والے کی غلطیاں زیادہ اور شرم وحیا کم ہوجاتی ہے،جس میں حیا کی کمی ہو اس میں پرہیز گاری بھی کم ہوتی ہے،جس میں پرہیز گاری کم ہو اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کا دل مرجائے وہ داخِلِ جہنم ہوگا۔
اے میرے بیٹو!ادب مرد کے لئے ترازو ہے جبکہ حسنِ اخلاق بہترین رفیق ہے۔اے میرے بیٹو! خیرو عافیت کے دس حصے ہیں جن میں سے نو حصے ذکرِ خداوندی کے علاوہ خاموش رہنے میں ہیں جبکہ ایک حصہ بے وقوفوں کی صحبت کو ترک کردینے میں ہے۔
اے میرے بیٹو!فقر کی زینت صبر جبکہ مالداری کی زینت شکر ہے۔اے میرے بیٹو!اسلام سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ،تقویٰ سے بہتر کوئی سخاوت نہیں ،توبہ سے زیادہ کوئی شفاعت کرنے والانہیں اور کوئی لباس عافیت سے زیادہ خوبصورت نہیں ۔اے میرے بیٹو!لالچ مشقت کی چابی اور دکھ کی سواری ہے۔
خلیفہ ہشام بن عبدالملک کا جب آخری وقت آیا تو اس نے اپنے پاس اہلِ خانہ کو روتا دیکھ کر کہا:”ہشام نے تمہیں دنیا کا تحفہ دیا جبکہ تم اسے رونے کا تحفہ دے رہے ہو،اس نے اپنا جمع کردہ تمام مال تمہارے لئے چھوڑ دیا جبکہ تم اس کے لئے اپنے گناہوں کا بوجھ چھوڑ رہے ہو جو اسے اٹھانا پڑے گا۔اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہشام کی مغفرت نہ فرمائی تو اس کا کتنا بُرا انجام ہوگا۔“
حضرت سیِّدُنا امام اوزاعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ایک مرتبہ خلیفہ منصور سےفرمایا:اے امیرالمؤمنین! کیاآپ نہیں جانتے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دستِ مبارک میں ایک درخت کی خشک ٹہنی تھی جس سےآپ مسواک فرماتےاورمنافقین کوڈراتےتھے،حضرت سیِّدُناجبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نےبارگاہِ رسالت میں
حاضرہوکرعرض کی:یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ کےہاتھ میں جوٹہنی ہےاسےپھینک دیجئےاوران کے دلوں کومرعوب نہ فرمائیے۔(جب انہیں اتنی سی بات سے منع کردیا گیا)تو بھلا اس شخص کا کیا حال ہوگا جو مسلمانوں کا خون بہائے اور ان کے مال کو لوٹ لے۔
اےامیرالمؤمنین!رحمَتِ عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جن کےطفیل ان کی اُمَّت کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے جب غیر ارادی طور پر ان سے ایک اعرابی کو خراش آگئی تو انہوں نے اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش فرمادیا۔
اے امیرالمؤمنین!اگر دوزخ کے پانی کا ایک ڈول دنیا میں انڈیل دیا جائے تو وہ پوری دنیا کو جلاکر رکھ دے تو بھلا اس کا کیا حال ہوگا جو اسےناگواری کے ساتھ پئے گا،دوزخ کا ایک کپڑا اگر زمین پر رکھ دیا جائے تو وہ اسے جلاکر رکھ دے تو اس کپڑے کو پہننے والے کا کیا بنے گا،جہنم کی زنجیروں کی ایک کڑی اگر پہاڑ پر رکھ دی جائے تو وہ پگھل جائے تو پھر اس شخص کا کیا حال ہوگا جسے اس زنجیر سے جکڑا جائے گا اور اس کا بقیہ حصہ اس کے کندھوں پر ڈال دیا جائے گا۔
حضرت سیِّدُنازیدبن اسلمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَماپنےوالدسےروایت کرتےہیں کہ انہوں نےمدینہ منورہ کے گورنرسےکہا:اس بات سےڈریئےکہ کل بروزِقیامت ایک ایساشخص جس کاکوئی عالی نسب نہ ہووہ آپ سےزیادہ رحمَتِ عالَم،نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےقریب ہوجائےجیساکہ فرعون کی بیوی حضرت سیِّدَتُناآسیہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَاحضرت سیِّدُناموسٰیکَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام سےقریب تھیں اورجیساکہ حضرت سیِّدُنا نوح اورحضرت سیِّدُنالوطعَلَیْہِمَا السَّلَامکی بیویاں فرعون کےقریب۔
حضرت سیِّدُناامام مالکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکابیان ہےکہ خلیفہ ابوجعفرمنصورنےمجھےاورحضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو بُلا بھیجا۔جب ہم اس کے دربار میں پہنچے تو وہ اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا،اس کے سامنے چمڑے کا فرش بچھا ہوا تھا اور جلاد ہاتھوں میں تلواریں پکڑے کچھ لوگوں کی گردنیں اڑا رہے تھے۔ابوجعفر نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے۔
ابوجعفر کافی دیر تک سرجھکا ئے خاموش بیٹھا رہا،پھر سر اُٹھا کر حضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا:اپنے والد کی سند سے مجھے کوئی حدیث سنائیے۔انہوں نے کہا:میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:قیامت کےدن سب سےسخت عذاب اس شخص کو ہوگاجسے اللہ
عَزَّ وَجَلَّ حکومت عطا فرمائے اور وہ فیصلہ کرنے میں ظلم سے کام لے۔([24])یہ سن کر ابوجعفر کچھ دیر خاموش رہا یہاں تک کہ ہمارے اور اس کے درمیان ایک چٹائی بچھا دی گئی۔ حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ یہ دیکھ کر میں نے اس خوف سے اپنے کپڑے سمیٹ لئے کہ کہیں ان پر حضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا خون نہ لگ جائے۔
پھر ابوجعفر نے کہا:اے ابن طاؤس!یہ دوات مجھے پکڑادیں ،لیکن حضرت ابنِ طاؤسرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایسا نہ کیا۔ابوجعفر نے پوچھا:کس چیز نے آپ کو ایسا کرنے سے روکا؟ ارشاد فرمایا:مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اس دوات کے ذریعے آپ کوئی گناہ کی بات لکھیں اور میں بھی اس میں آپ کا شریک ٹھہروں ۔ یہ سن کر ابوجعفر نے کہا:آپ دونوں یہاں سے چلے جائیے۔ حضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ اس دن مجھے حضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مقام ومرتبے کا احساس ہوا۔
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار سے ارشادفرمایا:اے کعب!ہمیں ڈر والی کچھ باتیں سنائیں ۔آپ نے عرض کی: کیا آپ کے پاس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی کتاب اور اس کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت موجود نہیں ؟ ارشاد فرمایا:اے کعب! ایسا ہی ہے لیکن پھر بھی آپ ہمیں خوف دلائیں ۔حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نےکہا:اے امیرالمؤمنین!عمل کیجئے!آپ قیامت کے دن اگرچہ ستر انبیائے کرام کے اعمال لے کر آئیں لیکن اس دن کی ہولناکیاں دیکھ کر اپنے عمل کو معمولی سمجھیں گے۔یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سر جھکالیا ،پھرکچھ دیر کے بعد سر اٹھاکر فرمایا: اے کعب! ہمیں خوف دلائیں ۔انہوں نے فرمایا:اے امیرالمؤمنین!اگر جہنم میں سے بیل کےنتھنے جتنا حصہ مشرق میں کھول دیا جائے تو مغرب میں موجود شخص کا دماغ اس کی گرمی کی وجہ سے اُبل کر بہہ جائے۔یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپناسرجھکالیا،جب کچھ افاقہ ہواتوفرمایا:اے کعب!مزید کچھ سنائیں ۔انہوں نے پھر عرض کی:اے امیرالمؤمنین!قیامت کےدن جہنم اس طرح بھڑکےگاکہ ہرایک مقرَّب فرشتہ اورنبئ مرسَل گھٹنوں کےبل گرکریہ کہےگا:اےمیرے رب! آج کے دن میں تجھ سے صرف اپنی جان کا سوال کرتا ہوں ۔
حضرت سیِّدُناشیخ ابوبکرطرطوشیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِیکابیان ہےکہ میں مصرکےحاکم افضل بن امیرالجیوش کےدربار میں گیااوراسےسلام کیاتواس نےاچھی طرح میرےسلام کاجواب دیا،میری خوب عزت افزائی کی اورمجھےاپنی مجلس میں بٹھالیا۔
میں نے اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا:اے بادشاہ!اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو ایک بلند و بالا مرتبہ اور عزت کا مقام عطا فرمایا ہے،آپ کو بادشاہت سے نوازا اور فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے نیز وہ اس بات پر راضی نہیں ہوا کہ کسی اور کا مقام آپ کے مقام سے بلند ہو اس لئے آپ بھی اس بات پر ہرگز راضی نہ ہوں کہ آپ سے بڑھ کر کوئی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکرادا کرنے والا ہو۔یاد رکھیے کہ شکر صرف زبان سے نہیں ہوتا بلکہ حقیقی شکر تو نیک اعمال اور احکامِ خداوندی کی بَجاآوری کا نام ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ- (پ۲۲،سبا:۱۳) ترجمۂ کنز الایمان: اے داود والو شکر کرو۔
اس بات کو جان لیجیے کہ آپ کو جو بادشاہت ملی ہے یہ آپ سے پچھلے بادشاہ کی موت کے سبب ملی ہے اور آپ کے مرنے پر یہ کسی اور کو مل جائے گی لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو جو اس اُمّت کا نگہبان بنایا ہے اس بارے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈریے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ سے دھاگے،تِل اور کھجور کی گٹھلی کے چھلکےکے بارے میں بھی سوال فرمائے گا۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۹۲)عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۳)(پ۱۴،الحجر:۹۲، ۹۳)
ترجمۂ کنز الایمان: تو تمہارے رب کی قسم ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے جو کچھ وہ کرتے تھے۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:
وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) (پ۱۷،الانبیاء:۴۷) ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔
اے بادشاہ!جان لیجیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا سلیمان بن داود عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوری دنیا کی بادشاہت عطا فرمائی تھی،جن و انس،شیاطین،پرندوں ،درندوں اور وحشی جانوروں کو بھی ان کے لئے مسخرفرمادیا تھا اور ہوا کو ان کے قابو میں کردیا تھا کہ وہ جہاں چاہتے ہوا انہیں وہاں لے جاتی،اس کے ساتھ ساتھ ان سے ان تمام نعمتوں کا حساب کتاب بھی اُٹھالیا گیا تھا۔چنانچہ ان سے ارشاد فرمایا گیا:
هٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۳۹) (پ۲۳،ص:۳۹)
ترجمۂ کنزالایمان:یہ ہماری عطاہےاب توچاہےتواحسان کر یا روک رکھ تجھ پر کچھ حساب نہیں ۔
لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!حضرت سیِّدُنا سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے اس عظیم الشان بادشاہت کے ملنے کو نعمت یا عزت نہ سمجھا جیسا کہ آپ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس بات کا خوف کیا کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے ڈھیل یا خفیہ تدبیر نہ ہو۔قرآنِ پاک میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ قول مذکور ہے:
هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ- (پ۱۹،النمل:۴۰)
ترجمۂ کنز الایمان: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری۔
اپنےدروازےکو کُھلّارکھیے،فریادیوں کی رسائی کوآسان بنائیے،مظلوم کی مدداورمصیبت زدہ کی مددکیجئے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ مظلوم کی مدد کرنے میں آپ کی مدد فرمائے اور آپ کو مصیبت زدوں کی پناہ گاہ اور خوفزدوں کے لئے امان بنائے۔پھر میں نے مجلس کے اختتام پر کہا:میں نے مشرق و مغرب کے شہروں کا سفر کیا ہے لیکن کوئی ایسی مملکت نہیں دیکھی جس میں رہنامجھے آپ کے ملک میں رہنے سے زیادہ پسند ہے۔ پھر میں نے یہ شعر پڑھا:
وَالنَّاسُ اَكْيَسُ مِنْ اَنْ يَحْمِدُوْا رَجُلًا |
|
حَتّٰى يَرَوْا عِنْدَهٗ اٰثَارَ اِحْسَان |
ترجمہ:لوگ اتنے عقل مند ہیں کہ اس وقت تک کسی کی تعریف نہیں کرتے جب تک اس میں بھلائی کے آثار نہ دیکھ لیں ۔
فضل بن ربیع کابیان ہےکہ خلیفہ ہارون الرشید ایک سال حج کی ادائیگی کے لئے مَکۂ مکرمہ حاضر ہوئے۔ ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ کسی نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔پوچھنے پر جواب ملا کہ امیرالمؤمنین تشریف لائے ہیں ۔میں فوراً حاضرِخدمت ہو ااور عرض کی:آپ نے کیوں زحمت فرمائی، حکم فرماتے تو میں خود حاضرہوجاتا ۔خلیفہ نے کہا:میرے دل میں ایک بات کھٹک رہی ہے جسے کوئی عالِم ہی دور کرسکتا ہے،تم مجھے کسی ایسے بزرگ کے پاس لے چلو جن سے میں اس بارے میں سوال کرسکوں ۔میں خلیفہ کو ساتھ لے کرحضرت سیِّدُنا سفیان بن عُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےگھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔اندرسےپوچھا گیا: کون ہے؟میں نے کہا : امیرالمؤمنین تشریف لائے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت سیِّدُنا سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فوراًباہرآئے اور کہا: امیرالمؤمنین! آپ مجھے طلب فرمالیتے۔خلیفہ نے کہا :ہم جس مقصد کے
لئے آئے ہیں اس کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیے،پھرخلیفہ نے ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا اور کچھ دیران سے گفتگو کرتے رہے۔اس کے بعدخلیفہ نےان سے پوچھا: کیا آپ پر کسی کا قرض ہے؟حضرت سیِّدُنا سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےجواب دیا: جی ہاں ! میں مقروض ہوں ۔خلیفہ نے مجھ سے فرمایا: اےابوالعباس ! ان کا قرض ادا کر دینا۔جب ہم وہاں سے باہر نکلے توخلیفہ نے کہا:ابھی میری تشفی نہیں ہوئی، مجھے کسی اور بزرگ کے پاس لے چلو۔
اب میں انہیں ساتھ لئے حضرت سیِّدُنا عبدالرزاق بن ہَمَّام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گھر جاپہنچا۔ان سے کچھ دیر مکالمے کے بعد خلیفہ نے مجھے ان کے قرض کی ادائیگی کا حکم دیا اور وہاں سے باہر آکر کہا:ان کے پاس آنے سے بھی میرا مسئلہ حل نہیں ہوا، مجھے کسی اور بزرگ کی بارگاہ میں لے چلو۔
اب کی بار ہم حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گھر حاضر ہوئے،اس وقت آپ نماز میں مشغول تھے اور قرآن پاک کی ایک آیت کی تکرار فرمارہے تھے۔میں نے دروازےپردستک دی اور استفسار پر بتایا کہ امیرالمؤمنین تشریف لائے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: مجھے امیرالمؤمنین سے کیا غرض ؟ میں نے کہا: سُبْحٰنَ اللہ! کیا آپ پران کی اطا عت واجب نہیں ہے؟ یہ سن کر آپ نے دروازہ کھولا ،پھر اوپر کے کمرے میں جاکر چراغ بجھا دیا اور کمرے کے ایک کونے میں جاکر چھپ گئے۔ہم اس کمرے میں داخل ہوئے اورآپ کو ڈھونڈنے لگے، اچانک خلیفہ کی ہتھیلی آپ کے جسم سے ٹکرائی تو آپ نے ارشاد فرمایا:یہ ہتھیلی کتنی نرم ونازک ہے ،اے کاش! یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےعذاب سے بچ جائے۔ یہ سن کر میں نے دل میں کہا : آج تو حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خلیفہ کوخوب وعظ ونصیحت فرمائیں گے۔
اس کے بعد خلیفہ ہارو نُ الرشید نے حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے! ہم آپ کی خدمت میں ایک مسئلہ لے کر حاضر ہوئے ہیں ۔آپ نےارشاد فرمایا: کس مسئلے کے حل کے لئے؟آپ نے تو بہت بھاری بوجھ اُٹھا رکھا ہے جبکہ آپ کے تمام ہمراہیوں نے اپنا بوجھ بھی آپ پر لاد دیا ہے یہاں تک کہ اگر آپ اپنے مصاحبین سے اپنے ایک گناہ کا معمولی ٹکڑا اُٹھانے کی درخواست کریں تو وہ اتنا بھی نہ کریں گے اوران میں سے آپ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والا روزِ قیامت آپ سے سب سے زیادہ دور بھاگنے والا ہوگا۔
اس کے بعد حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: جب حضرت سیِّدُنا عمربن عبدالعزیز
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز خلیفہ بنے توآپ نے حضرت سیِّدُناسالِم بن عبداللہ، حضرت سیِّدُنا محمدبن کعب قُرَظِی اورحضرت سیِّدُنارجاء بن حَیْوَہ رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کو اپنے پاس بُلاکر ارشاد فرمایا:مجھے خلافت کی ذمہ داری کی مصیبت میں مبتلا کیا گیا ہے لہٰذا آپ حضرات مجھے مشورہ دیں ۔اے امیر المؤمنین!حضرت سیِّدُناعمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے خلافت کو مصبیت سمجھا لیکن آپ اور آپ کے ساتھی اسے نعمت سمجھتے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا سالم بن عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مشورہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا:اگر آپ کل روزِ قیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عذاب سےنجات پانا چاہتے ہیں تو دنیا سے روزہ رکھیں اور موت کے آنے پر افطار کریں ۔ حضرت سیِّدُنا محمدبن کعب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:اگر آپ عذابِ آخرت سے نجات کے خواستگار ہیں تو مسلمانوں میں سے بوڑھے کو اپنے باپ کی طرح،درمیانی عمر والے کو بھائی جیسا جبکہ چھوٹوں کو اولاد کی مثل سمجھیں اور پھر اپنے باپ کے ساتھ اچھا سلوک،بھائی کے ساتھ صلہ رحمی اور اولاد کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کریں ۔ حضرت سیِّدُنا رجاء بن حَیْوَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:اگرآپ قیامت کے دن عذابِ الٰہی سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر دیگر مسلمانوں کے لئے وہی پسند کریں جو اپنے لئے کرتے ہیں ،ان کے لئے اسی چیز کو ناپسند جانیں جسے اپنے لئے برا سمجھتے ہیں اور پھر جب چاہیں مرجائیں ۔
اس کے بعدحضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہارون الرشید سے فرمایا: میں بھی آپ کو یہی نصیحتیں کرتا ہوں اور روزِ قیامت جبکہ لوگوں کے قدم پھسل رہے ہوں گے مجھے آپ کے بارے میں شدید خوف لاحق ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ پر رحم فرمائے!کیا آپ کے ساتھ بھی ایسے افراد ہیں جو آپ کو اس طرح کی نصیحت کرتے ہوں ۔یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشید اتنا رو ئے کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ میں نے کہا: خلیفہ پر کچھ نرمی فرمایئے۔میری یہ بات سن کر انہوں نے جواب دیا:اے ابن ربیع !تم نے اور تمہارے جیسے دیگر لوگوں نے خلیفہ کو برباد کردیا ہے اور میں ان پر نرمی کروں ۔
جب خلیفہ کوہوش آیا تو انہوں نے کہا:مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے۔حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:اے امیر المؤمنین!مجھےیہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کے ایک گورنر نے بے خوابی کی شکایت کی تو آپ نے جوابی مکتوب میں تحریر فرمایا:اے میرے بھائی! دوزخیوں کے جہنم میں ہمیشہ بیدار رہنے اور ان کے جسموں کے باقی رہنے کو یاد کرو،ایسا کرنے سے تم نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف متوجہ رہوگے۔اس بات سے ہوشیار رہنا کہ کہیں تمہارے قدم پھسل نہ جائیں اور پھر اسی حالت پر تمہارا خاتمہ ہوجائے۔
جب اس گو رنر نے یہ خط پڑھا تو فوراً سفر کرکے حضرت سیِّدُنا عمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔آپ کے استفسار پر اس نے جواب دیا: آپ کے مکتوب نے میرا دل پارہ پارہ کر دیا ہے ،اب میں مرتے دم تک کوئی عہدہ قبول نہیں کروں گا۔ یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشیدپھرزورزورسے رونے لگے اورکہا:مزید نصیحت فرمائیے۔
حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےارشادفرمایا :اےامیرالمؤمنین!سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےچچاجان حضرت سیِّدُناعباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبارگاہِ رسالت میں حاضرہوکرعرض گزار ہوئے: یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے کسی شہر کا حاکم بنا دیں ۔رحمَتِ عالَم،نُورِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اے عباس!کسی کی جان بچانا اس حکومت سے بہتر ہے جس کی ذمہ داریوں کو آپ پورا نہ کر سکیں ۔بے شک حکومت قیامت کے دن حسرت وندامت کا باعث ہے، اگر آپ سے ہوسکے تو کبھی بھی حاکم نہ بنیں ۔([25])یہ سن کرخلیفہ ہارونُ الرشیدپھرسے رونے لگے اورکہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے!مجھے مزید نصیحت فرمائیے ۔
حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : اے حسین وجمیل چہرے والے! اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن تم سے اس مخلوق کے بارے میں سوال فرمائے گا،اگر تم سے یہ ہوسکے کہ اس چہرے کو دوزخ کی آگ سے بچاؤتو ایسا ہی کرنا۔خبردار!اس حال میں صبح یا شام مت کرنا کہ تمہارے دل میں اپنی رعایا کے لئے دھوکا ہو کیونکہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کے دل میں اپنی رعایا کے لئے دھوکا ہے تو وہ جنت کی خوشبوبھی نہ سونگھ سکے گا۔([26])یہ باتیں سن کر خلیفہ ہارون الرشیدپر ایک بار پھر گریہ طاری ہوا،افاقہ ہونے پر انہوں نے پوچھا: کیاآپ پرکسی کاقرض ہے؟حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےارشادفرمایا:مجھ پر میرےربّ عَزَّ وَجَلَّ کا قرض ہے جس کا وہ مجھ سے حساب لے گا۔ اگر اس نے مجھ سے تفصیلی حساب لیا تو میرے لئے ہلاکت ہے،اس بارے میں مجھ سے سوال کیا تو میرے لئے ہلاکت ہے اور اگر مجھے میری حجت نہ سکھائی تو میرے لئے ہلاکت ہے۔خلیفہ نے کہا :قرض سے میری مراد بندوں کا قرض ہے ۔حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا :میرے رب عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اس کا حکم نہیں دیابلکہ اس نے تو مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس کے وعدے کی تصدیق اور اس کے حکم کی پیروی کروں ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ(۵۷)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ(۵۸) (پ۲۷،الذٰریٰت:۵۶ تا ۵۸)
ترجمۂ کنزالایمان:اورمیں نےجِنّ اورآدمی اتنےہی(اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں میں ان سے کچھ رزق نہیں مانگتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا دیں بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے۔
ہارونُ الرشیدنےایک ہزاردینارپیش کرتے ہوئے کہا:انہیں قبول فرماکر اپنے اہل وعیال پر خرچ کریں اوران کے ذریعے عبادت پر قوت حاصل کریں ۔ یہ سن کر حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشادفرمایا : سُبْحٰنَ اللہ! میں آپ کو نجات کا راستہ بتارہاہوں اور آپ مجھے اس کا یہ بدلہ دے رہے ہیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو اچھے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔اس کے بعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خاموش ہوگئے اور مزید کلام نہیں فرمایا۔
فضل بن ربیع کا بیان ہے کہ جب ہم وہاں سے باہر نکلے توخلیفہ ہارون الرشید نے مجھ سے کہا : جب میں کسی بزرگ کے پاس لے جانے کا کہوں تو مجھے ایسی ہی شخصیت کے پاس لے کر جایا کرو ، یہ آج تمام مسلمانوں کے سردار ہیں ۔
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے لئے چند شرائط ہیں اور یہ کام کرنے والے میں چند مخصوص صفات ہونی چاہئیں ۔
حضرت سیِّدُناسلیمان خواصرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا فرمان ہے:جس نے اپنے بھائی کو پوشیدہ طور پر سمجھایا تو یہ نصیحت ہے اور جس نے اسے علی الاعلان سمجھایا اس نے اسے ذلیل کردیا۔
حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا:جس نے اپنے بھائی کو علیحدگی میں نصیحت کی اس نے اسے خوش اور مزین کیا اور جس نے اسے علانیہ نصیحت کی اس نے اسے ناراض اور عیب دار کردیا۔
منقول ہے کہ جس نے اپنے بھائی کو اکیلے میں سمجھایا اس نے اسے نصیحت کی اور خوش کیا اور جس نے اسے سرعام سمجھایااس نے اسے رسوا کیا اور نقصان پہنچایا۔
عبدالعزیز بن ابی داود رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ پہلے کے دور میں جب کوئی شخص اپنے بھائی میں کوئی برائی دیکھتا تو اسے پوشیدگی میں نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے منع کرتا چنانچہ اسے پردہ پوشی،نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے تینوں پر ثواب حاصل ہوتا۔
حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:جب تم اپنے بھائی میں کوئی خامی دیکھو تو اسے سیدھا اور درست کرو، اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا کرو کہ اسے توبہ کی توفیق دےکر اس کی توبہ قبول فرمائے اور اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار مت بنو۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
﴿1﴾…
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(۱۸) (پ۲۶،ق:۱۸)
ترجمۂ کنز الایمان: کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔
﴿2﴾…
اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِؕ(۱۴) (پ۳۰،الفجر:۱۴)
ترجمۂ کنزالایمان:بےشک تمہارےرب کی نظرسےکچھ غائب نہیں ۔
جان لو کہ ایک عاقل بالغ شخص کے لئے یہ بات مناسب ہے کہ ہر قسم کی گفتگو سے اپنی زبان کی حفاظت کرے اور صرف وہ کلام کرے جس میں مصلحت ظاہر ہو۔جب کسی کلام کے کرنے اور نہ کرنے دونوں میں مصلحت برابرہوتوپھر طریقہ یہ ہےکہ اس گفتگوسےبازرہےکیونکہ بعض اوقات جائز باتیں انسان کو حرام یا مکروہ تک لے جاتی ہیں بلکہ یہ معاملہ عادتاً کثیر اور غالب ہے اور کوئی چیز سلامتی کے برابر نہیں ہے۔
بخاری و مسلم میں حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رِسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔([27])
حضرت سیِّدُنا امام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا فرمان ہے:جب تم میں سے کوئی شخص بات کرنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ پہلے اس کے بارے میں غور کرے،اگر اس کلام میں مصلحت ظاہر ہو تو کرے اور اگر اس بارے میں شک ہو تو مصلحت ظاہر ہونے تک کلام نہ کرے۔
بخاری و مسلم میں حضرت سیِّدُنا ابوموسٰی اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!کون سا مسلمان افضل ہے؟ سَیِّدِعالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت رہیں ۔([28])
سنن ترمذی میں حضرت سیِّدُنا عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !نجات کیا ہے؟سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اپنی زبان کو روک کر رکھو،تمہارا گھر تمہیں کافی ہو اور اپنی خطاؤں پر روؤ۔امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔([29])
ترمذی اورابنِ ماجہ میں حضرت سیِّدُناابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےروایت ہےکہ اللہعَزَّ وَجَلَّکےمحبوب،دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:آدمی کے اسلام کی خوبیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو ترک کردے۔([30])
اس بارے میں کثیر احادیثِ صحیحہ وارد ہیں اور ہم نے جن کی طرف اشارہ کیا ہے یہ اس شخص کے لئے کافی ہیں جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ توفیق عطا فرمائے۔
خاموشی اور زبان کی حفاطت سے متعلق بزرگانِ دین کےآثار بے شمار ہیں جن میں سے ہم چند بیان کرتے ہیں :
قُس بن ساعِدہ اور اکثم بن صیفی کی ملاقات ہوئی تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے استفسار کیا:آپ کے خیال میں انسان میں کس قدر عیب ہیں ؟انہوں نے جواب دیا:یہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا لیکن ایک خصلت ایسی ہے کہ اگر انسان اس کی عادت بنالے تو اس کے تمام عیوب چھپ جائیں گے۔پوچھا:وہ کیا؟جواب دیا:زبان کی حفاظت۔
حضرت سیِّدُنا امام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے اپنے ہم نشین حضرت سیِّدُنا ربیع رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے فرمایا:اس چیز کے بارے میں بات نہ کرنا جس سے تمہارا کوئی تعلق نہ ہو کیونکہ جب تم کوئی کلام کرتے ہو تو پھر تم اس کے مالک نہیں رہتے بلکہ وہ تمہارا مالک بن جاتا ہے۔
ایک بزرگ کا فرمان ہے:زبان کی مثل درندے کی سی ہے اگر تم نے اسے باندھ کر نہ رکھا تو یہ تم پر حملہ کردے گا اور تمہیں اس کی برائی پہنچ کر رہے گی۔
زبان سے متعلق جو اشعار کہے گئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہیں :
اِحْفَظْ لِسَانَكَ اَيُّهَا الْاِنْسَانُ لَا يَلْدَغَنَّكَ اِنَّهٗ ثُعْبَانَ
كَمْ فِي الْمَقَابِرِ مِنْ قَتِيْلِ لِسَانِهٖ كَانَتْ تَهَابُ لِقَاءُهُ الشُّجْعَانُ
ترجمہ:اے انسان!اپنی زبان کی حفاظت کر،یہ ایک اژدھاہے،کہیں یہ تجھے ڈس نہ لے۔قبروں میں پڑے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں ان کی زبان نے ہلاک کردیا حالانکہ بڑے بڑے بہادر ان کے مقابلے سے ڈرتے تھے۔
حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:جب کسی شخص کی عقل کامل ہوجاتی ہے تو اس کی گفتگو میں کمی آجاتی ہے۔
ایک اعرابی نے کہا:بعض کلام ایسے ہوتے ہیں جویکجا لوگوں کو منتشر کردیتے ہیں جبکہ بعض اوقات خاموش رہنے کے سبب منتشر لوگ جمع ہوجاتے ہیں ۔
حضرت سیِّدُنا وُہَیْب بن وَرْد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قول ہے :ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ حکمت کے10حصے ہیں جن میں سے
نو خاموشی میں جبکہ دسواں حصہ گوشہ نشینی میں ہے۔
حضرت سیِّدُنا سفیان بن عُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کافرمان ہے:جو خیر وبھلائی سے محروم ہو اسے خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور اگر وہ اس سے بھی محروم ہو تو پھر اس کے لئے موت بہتر ہے۔
میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیِّدُنا ابوذر غِفَاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ارشاد فرمایا:تم پر نیکی کی بات کے علاوہ خاموشی لازم ہے کیونکہ یہ شیطان کو تم سے دور کردے گی اور دینی معاملات میں تمہاری مددگار ہوگی۔([31])
دانا لوگوں کا کہنا ہے کہ جو کلام بھلائی سے خالی ہو وہ بے کار ہے،جو نظر عبرت سے خالی ہو وہ بے خبری ہے اورجس خاموشی میں غور وفکر نہ ہو وہ فضول ہے۔
مقولہ ہے کہ اگر تم اپنے کرتوت دیکھ لو تو تلوار کو میان میں رکھ لو اور تم اپنا نامَۂ اعمال دیکھ لو تو اپنی زبان پر مہر لگالو۔
ایک دانا کا قول ہے:جب تمہیں بولنا پسند ہو تو خاموش رہو اور جب خاموشی پسند آئے تو کلام کرو۔
منقول ہے کہ بعض اوقات خاموشی بولنے سے زیادہ بلیغ ہوتی ہے کیونکہ بے وقوف شخص جب تک خاموش رہے سلامت رہتاہے۔
ایک شخص سےپوچھاگیا:حضرت سیِّدُنااَحنف بن قیسرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتم لوگوں کےسردارکیسےبن گئے؟اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!نہ تو وہ عمر میں تم لوگوں سے بڑے ہیں اور نہ ہی مال میں زیادہ ہیں ۔اس شخص نے جواب دیا:اپنی زبان پر قابو رکھنے کے سبب وہ ہمارے سردار بنے ہیں ۔
منقول ہے کہ بات انسان کی قید میں ہوتی ہے،جبکہ بولنے کے بعدانسان اس کا قیدی بن جاتا ہے۔
چار بادشاہ جمع ہوکر آپس میں گفتگو کرنے لگے،ایران کے بادشاہ نے کہا:جو بات میں نے نہیں کہی اس پر میں کبھی نادم
نہیں ہوا لیکن اپنی کہی ہوئی باتوں پر مجھے کئی مرتبہ ندامت اُٹھانی پڑی۔شاہِ روم قیصر نے کہا:جو بات میں کہہ چکا ہوں اس سے زیادہ میں اس بات کے واپس لینے پر قادر ہوں جو میں نے نہیں کہی۔چین کے بادشاہ نے کہا:جو بات میں نے منہ سے نکال دی وہ مجھ پر حاوی اور جو بات منہ سے نہ نکالی اس پر میں حاوی ہوں ۔ہند کے بادشاہ نے کہا:مجھے بولنے والے پر تعجب ہے کہ اگر وہی بات اس کی طرف لوٹ جائے تو اسے نقصان دے اور اگر نہ لوٹے تو فائدہ بھی نہ دےبادشاہ بَہرام ایک رات کسی درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اُس نے درخت سے ایک پرندے کی آواز سنی تو اسے تیر مار کرگرادیا پھر کہا:زبان کی حفاظت انسان اور پرندے دونوں کے لئے مفید ہے اگر یہ اپنی زبان کی حفاظت کرتا(اور بول نہ پڑتا)تو ہلاک نہ ہوتا۔
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنےفرمایا:زیادہ خاموش رہنے سے ہیبت پیدا ہوتی ہے۔
حضرت سیِّدُنا عَمْرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :بات کرنا دوا کی طرح ہے جسے تو تھوڑی لے گا تو نفع دے گی اور اگر بہت زیادہ لے گا تو تجھے مار ڈالے گی ۔
حضرت سیِّدُنا لقمان حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا:اے میرے بیٹے!جب لوگ اپنی خوبصورت گفتگو پر باہم فخر کریں تو تم اپنی خاموشی پر فخر کرنا۔ہر صبح و شام زبان دیگر اعضاء سے پوچھتی ہے: تم کیسے ہو؟تو وہ جواب دیتے ہیں :اگر تو ہمیں چھوڑ دے تو ہم خیر سے ہیں ۔
ایک شاعر نے کہا:
اِحْفَظْ لِسَانَكَ لَا تَقُوْلُ فَتَبْتَلِی اِنَّ الْبَلَاءَ مُوَکَّلٌ بِالْمَنْطِقِ
ترجمہ:اپنی زبان کی حفاظت کرو نہ بولو نہ مصیبت میں پڑو کیونکہ مصیبت بولنے سےجڑی ہے۔
اس بات کو جان لو کہ غیبت برائیوں میں سے ایک بہت بڑی برائی اور دیگر برائیوں کے مقابلے میں زیادہ عام ہے یہاں تک کہ بہت کم لوگ اس سے محفوظ ہیں ۔
غیبت یہ ہے کہ کسی انسان کے بارے میں پیٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے جو اسے بُری لگے اگرچہ وہ بات اس میں موجود
ہو،یہ بات چاہے اس کے دین کے بارے میں ہو یا بدن کے بارے میں ،اس کی ذات کے بارے میں ہو یا اخلاق سے متعلق، مال و اولاد،والدین،بیوی،خادم،عمامے،کپڑے،چال ڈھال،حرکت و سکون وغیرہ یا پھر اس سے متعلقہ کسی بھی چیز کے بارےمیں ،چاہے اس بات کولفظوں میں ذکر کیا جائے،لکھ کر یا پھر آنکھ،ہاتھ اورسر وغیرہ کے اشارے سے ذکر کیا جائے۔
کسی کوچور،خیانت کرنے والا،ظالم،نماز میں سستی کرنے والا،ناپاکی سے نہ بچنے والا،والدین کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کرنے والا،بے ادب،درست مقام پر زکاۃ نہ خرچ کرنے والا اور غیبت سے نہ بچنے والا کہنا۔
کسی کو اندھا،لنگڑا،کمزور نظر والا،ٹھگنا،لمبا،کالا،زرد رنگت والا کہنا۔فلاں شخص بے ادب ہے، لوگوں کی توہین کرتا ہے،کسی کااحسان نہیں مانتا،بہت سوتا،زیادہ کھاتاہےوغیرہ۔عیب بیان کرنےکےطورپرکہناکہ فلاں کاباپ بڑھئی، موچی،لوہار یا کپڑا بننے والا ہے۔فلاں بداخلاق،متکبر، ریاکار،خود پسند،جلد باز یا ظالم ہے۔فلاں چوڑی آستین والا،لمبے دامن والا یا میلے کپڑوں والا ہے۔
حضرت سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے استفسار فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟لوگوں نے عرض کی:اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں ۔ارشاد فرمایا:تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اسے ناپسندہو۔عرض کی گئی:اگر میرے بھائی میں وہ بات موجود ہو جو میں کہتا ہوں توپھر؟ارشاد فرمایا:جو بات تم کہہ رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہو تو یہ غیبت ہے اور اگر وہ بات اس میں نہ ہو تو پھر یہ بہتان ہے۔([32])
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُناعائشہ صدّیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایَت ہے کہ میں نےسرکارِ مدینہ،قرارِقلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی:صَفیہ کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ایسی ایسی ہیں یعنی چھوٹے قد والی ہیں ۔آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا :تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملایا جائے تواُس پر غالب آجائے۔([33])یعنی غیبت کی بدبو کے سبب سمندر کے پانی کا ذائقہ اور بو تبدیل ہوجائے۔
سرکارِ دو عالَم،نُورِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:میں شبِ معراج ایسی قوم کے پاس سے گزرا جو اپنے چہروں اورسِینوں کو تانبے کے ناخُنوں سے نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا :اے جِبرائیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا:یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے)تھے اور اُن کی عزّت خراب کرتے تھے۔([34])
حضرت سیِّدُناجابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:غیبت سے بچو کیونکہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے ۔ایک شخص زنا کرکے توبہ کرتاہےتواللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی توبہ کو قبول فرمالیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کی اس وقت تک مغفرت نہیں ہوتی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت کی گئی ہے([35])۔([36])
حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ مسلمانوں کی ناحق غیبت کرنے اور ان کا گوشت کھانے والا نیز حاکم کے پاس ان کی بے جا شکایت کرنے والا روزِ قیامت اس حال میں لایا جائے گاکہ اس کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور وہ ہلاکت و موت کی دعا کرے گا،وہ اپنے گھر والوں کو پہچانے گا لیکن وہ اسے نہیں پہچانیں گے۔
حضرت سیِّدُنا مُعَاوِیہ بن قُرَّہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک لوگوں میں سب سے افضل وہ شخص
ہے جس کا سینہ کینے سے صاف ہو اور وہ غیبت سے بچتا ہو۔
حضرت سیِّدُنا اَحنف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا فرمان ہے کہ مجھ میں دو اچھی خصلتیں ہیں :میرا ہم نشین موجود نہ ہو تو میں اس کی غیبت نہیں کرتا اور لوگوں کے ایسے معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا جس میں وہ مجھے داخل نہ کریں ۔
حضرت سیِّدُناربیع بن خَیْثَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم سے پوچھا گیا:کیا سبب ہے کہ ہم نے کبھی آپ کو کسی کا عیب بیان کرتے نہیں دیکھا؟ارشاد فرمایا:میں اپنے آپ سے ہی راضی نہیں ہوں تو کسی دوسرے کی مذمت کے لئے فراغت کہاں سے لاؤں ،پھر آپ نے یہ شعر پڑھا:
لَنَفْسِي اَبْكِی لَسْتُ اَبْكِي لِغَيْرِهَا لَنَفْسِي مِنْ نَفْسِي عَنِ النَّاسِ شَاغِل
ترجمہ:میں اپنے آپ پر روتا ہوں نہ کہ کسی دوسرے پر،اپنی ذات میں مصروفیت نے مجھے لوگوں سے غافل کردیا ہے۔
محمد بن حزم کا بیان ہے کہ سب سے پہلے صابون حضرت سیِّدُنا سلیمان عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے، ستو حضرت سیِّدُنا ذوالقرنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے،حَیس(یعنی کھجور،پنیر اور گھی ملا کر بنا ہوا کھانا)حضرت سیِّدُنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اورموٹی روٹی نمرود نے بنائی، سب سے پہلے کاغذ پر حجاج بن یوسف نے لکھا جبکہ سب سے پہلے شیطان نے حضرت سیِّدُنا آدم صَفِیُّاللہعَلَیْہِ السَّلَام کی غیبت کی تھی۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وَحی فرمائی کہ جو غیبت سے توبہ کر کے مرا وہ آخِری شخص ہو گا جو جنّت میں جائے گا اور جو غیبت پر اصرار کرتے ہوئے(یعنی غیبت پر قائم رہتے ہوئے) مرا وہ پہلا شخص ہو گا جو جہنَّم میں داخِل ہو گا۔
منقول ہے کہ جو شخص تمہارے حق میں جھوٹ بولتا ہے وہ کل تمہارے خلاف بھی جھوٹ بول سکتا ہے اور جو شخص تمہارے پاس کسی اور کی غیبت کرتا ہے وہ کسی دوسرے کے پاس تمہاری غیبت بھی کرسکتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو کسی نے کہا کہ فلاں نے آپ کی غیبت کی ہے۔آپ نے غیبت کرنے والے آدمی کو کھجوروں کا ایک تھال بھر کر روانہ کیا۔وہ شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا:میں نے آپ کی غیبت کی اور آپ نے مجھے تحفہ بھجوادیا۔حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ارشاد فرمایا:آپ نے مجھے اپنی نیکیاں ہدیہ کیں تو میں نے چاہا کہ اس احسان کا کچھ بدلہ چکادوں ۔
حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:اگر میں کسی کی غیبت کرتا تو اپنے والدین کی کرتا کیونکہ وہ دونوں میری نیکیوں کے زیادہ حقدار ہیں ۔
کسی کی برائی کے طور پر اس کی نقل اتارتے ہوئے لنگڑاکر چلناوغیرہ حرام ہے۔
بعض نام نہاد فقیہ اور عبادت گزار اشاروں کنایوں میں غیبت کرتے ہیں جس سے اسی طرح کسی کی برائی سمجھ آتی ہے جیسے صریح غیبت سے سمجھ آتی ہے۔ان میں سے کسی سے پوچھا جائے کہ فلاں کا کیا حال ہے تووہ اس طرح کے جملے کہتا ہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہماری اور اس کی اصلاح اور مغفرت فرمائے۔ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔تمام تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے ہمیں ظالموں کے پاس جانے میں مبتلا نہیں فرمایاہم تکبر سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پناہ مانگتے ہیں ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں حیا کی کمی سے محفوظ فرمائے اور معافی عطا فرمائےنیز اسی قسم کے دیگر جملے بولتے ہیں جن سے کسی کی برائی سمجھ آتی ہے ۔یہ تمام باتیں غیبت اور حرام ہیں ۔
جان لو کہ جس طرح غیبت کرنے والے کا غیبت کرنا حرام ہے یونہی غیبت کا سننا بھی حرام ہے لہٰذا جو شخص کسی کو غیبت شروع کرتے سنے تو اس پر واجب ہے کہ اسے غیبت کرنے سے روکے جبکہ اس کی طرف سے کسی نقصان کا خوف نہ ہو،اگر منع کرنے کی صورت میں نقصان کا خوف ہو تو اس صورت میں اس پر لازم ہے کہ دل سے اسے بُرا جانے اور اگر اس مجلس سے اُٹھنا ممکن ہو تو اُٹھ جائے۔اگر کوئی شخص زبان سے تو غیبت کرنے سے روکے لیکن اس کا دل غیبت سننے کا متمنی ہو تو بعض علما کے نزدیک یہ نفاق ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشادفرماتا ہے:
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ- (پ۷،الانعام:۶۸) ترجمۂ کنز الایمان:اوراےسُننےوالےجب توانھیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیرلےجب تک اور بات میں پڑیں ۔
یہ شعر اسی معنیٰ میں کہا گیا ہے:
سَمْعُکَ صُنْ عَنْ سَمَاعِ الْقَبِیْحِ کَصَوْنِ اللِّسَانِ عَنِ النُّطْقِ بِہٖ
فَاِنَّکَ عِنْدَ سَمَاعِ الْقَبِیْحِ شَرِیْکٌ لِقَائِلِہِ فَانْتَبِہ
ترجمہ:اپنے کانوں کو بُری باتوں کے سننے سے بچاؤ جیسے کہ زبان کو ان کے بولنے سے بچاتے ہو۔کیونکہ اگر تم بری بات سنو گے تو اس کے کہنے والےکے شریک بن جاؤ گے لہٰذا ہوشیار رہو۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّنےارشادفرمایا:
وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍۙ(۱۰)هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیْمٍۙ(۱۱) (پ۲۹،القلم:۱۰، ۱۱)
ترجمۂ کنز الایمان: اور ہر ایسے کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والاذلیل بہت طعنے دینے والا بہت ادھر کی ادھر لگاتا پھرنے والا۔
چغل خورکی رِذالت اورگھٹیاپن کےلئےاتنی بات کافی ہےکہ وہ لوگوں کی نظرسے گرجاتاہے۔ ”ھَمَّازٍ“سے مراد غیبت کرنے والا ہے جو لوگوں کا گوشت کھاتا اور ان میں عیب نکالتا ہے۔
حضرت سیِّدُناحسن بصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینےفرمایا:” هَمَّازٍ “وہ شخص ہےجو مجلس میں اپنے بھائی کی چغلی کھاتا ہے اور (پ۳۰،سورۂ ہمزہ میں )”ھُمَزَہ“ اور”لُمَزَہ“ سےبھی یہی مرادہے۔(گزشتہ آیت سے کچھ آگے اسی شخص سے متعلق مزید فرمایا گیا:)
عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍۙ(۱۳) (پ۲۹،القلم:۱۳) ترجمۂ کنزالایمان:دُرُشت خُواس سب پرطُرّہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا۔
(اس کےتحت)امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْماورحضرت سیِّدُنا حسن بصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا:”عُتُل“سے مراد وہ شخص ہے جو فحش گوئی کرنے والا اور بداخلاق ہو۔
حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا:”عُتُل“وہ ہے جو بہت بے دھڑک اور منافق ہو۔
حضرت سیِّدُنا عبید بن عمیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:”عُتُل“ سے مراد وہ شخص ہے جو خوب کھانے پینے والا اور مضبوط وتوانا ہو لیکن جب میزانِ عمل میں رکھا جائے تو جو کے دانے برابر بھی وزنی نہ ہو۔
کلبی کا قول ہے کہ”عُتُل“وہ ہے جو اپنے کفر میں سخت ہو۔ایک قول یہ ہے کہ ”عُتُل“وہ شخص ہے جو باطل کے معاملے میں بہت زیادہ جھگڑالو ہو اور ”زَنِیْم“وہ ہے جسے اپنے باپ کا پتا نہ ہو۔
بخاری ومسلم میں حضرت سیِّدُناحُذیفہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سےروایت ہےکہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔([37])
سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو ارشاد فرمایا: ان دونوں قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی بات کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا۔ان میں سے ایک چغلی کرتا جبکہ دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔([38])
حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں :عام طور پر چغلی اسے کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص ایک آدمی کی بات اس شخص تک پہنچائے جس کے بارے میں وہ بات کہی گئی ہے اور اسے بتائے کہ فلاں شخص تمہارے بارے میں یہ کہہ رہا ہے۔انسان کو چاہیے کہ لوگوں کے جو احوال دیکھے انہیں آگے پہنچانے سے باز رہے البتہ اگر کسی بات کو دوسرے تک پہنچانے میں مسلمان کو فائدہ یا اس سے نقصان دور کرنا پایا جائے تو ایسی بات کو مننقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔جس شخص تک چغل خور کوئی بات پہنچائے اور اس سے کہے کہ فلاں تمہارے بارے میں یہ کہہ رہا تھا تو اسے چاہیے کہ چغلی کھانے والے کی تصدیق نہ کرے کیونکہ چغل خور فاسق اور مردود الخبر ہے،اُسے چغلی سے منع کرے،نیکی کی دعوت دے،اُس کے اِس فعل کو براجانے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئےچغل خور کو ناپسند کرے کیونکہ ایسا شخص
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک بھی ناپسندیدہ ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے نفرت کرنا واجب ہے،نیز چغل خور نے جس شخص کی بات اس تک پہنچائی ہے اس کے متعلق کوئی بدگمانی نہ کرےکیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
اِجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (پ۲۶،الحجرات:۱۲) ترجمۂ کنز الایمان: بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے۔
بلال بن ابوبُردہ بصرہ کا حاکم تھا،ایک شخص نے اس کے سامنے کسی کی چغلی کی تو اس نے کہا:تم واپس جاؤ،میں تمہارے بارے میں تحقیق کروں گا۔جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ چغل خور زنا کی اولاد ہے۔
حضرت سیِّدُناابوموسٰی اشعریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےفرمایا:لوگوں کے سامنے چغلی وہی کھاتا ہے جو زنا کی پیداوار ہے۔
نورکےپیکر،تمام نبیوں کےسَرْوَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےفرمایا:کیامیں تمہیں تمہارےبدترین افرادکی خبرنہ دوں ۔ لوگوں نےعرض کی:یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ضرورخبردیجیے۔ارشادفرمایا: تمہارےبدترین افرادوہ ہیں جوچغلی کھانےوالے،محبت کرنےوالوں کےدرمیان پھوٹ ڈلوانے والے اور عیبوں کی تلاش کرنے والے ہیں ۔([39])
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:ملعون ہے دوچہروں والا،ملعون ہے دو زبانوں والا،ملعون ہے ہر پھوٹ ڈلوانے والا،ملعون ہےہر اِدھر کی باتیں اُدھر پہنچانے والا،ملعون ہے ہر چغل خور ،ملعون ہے ہر احسان جتانے والا۔([40])
پھوٹ ڈلوانے والے مراد وہ شخص ہےجولوگوں کوایک دوسرےکےخلاف بھڑکائےاوران میں دشمنی پیدا کرے۔احسان جتلانے والے سے مرادوہ ہے جو کسی کے ساتھ احسان کرکے اسے جتائے۔
بادشاہ یا کسی بھی صاحبِ اقتدار کے پاس چغلی کھاناہلاک کرنے والی اور قطع تعلق کروانے والی بات ہے اور یہ ایک ایسی خصلت ہے جو کئی بُری خصلتوں کا مجموعہ ہے جیسے غیبت،چغلی کی نحوست،جانوں اور مالوں کو خطرے میں ڈالنانیز چغل خوری معزز شخص کی عزت سلب کرلیتی،مسکین کو اس کی جگہ سے جبکہ سردار کو اس کے مرتبے سے گرادیتی ہے۔ چغل خور کی چغلی کے باعث نہ جانے کتنے لوگوں کے خون بہتے،عزتیں پامال ہوتیں ، دوستوں میں جُدائی واقع ہوتی اور رشتے داروں میں قطع تعلقی کی نوبت آتی ہے نیز اس کی وجہ سے کئی محبت کرنے والے الگ ہوجاتے ہیں اور میاں بیوی میں طلاق ہوجاتی ہے۔ جس شخص کو زندگی نے مہلت دی ہو اسے چاہیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرے اور چغل خور کی باتوں پر کان نہ دھرے۔
پچھلے لوگوں کی حکمت کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو مُثَلَّث(تین کونوں والا)ہو۔اصمعی کہتے ہیں کہ ”مُثَلَّث“ سے مراد وہ شخص ہے جو بادشاہ کے پاس اپنے مسلمان بھائی کی چغلی کھائے اور اس طرح اپنے آپ کو،اپنے بھائی کو اور بادشاہ کو ہلاک کردے۔
ایک دانا کا قول ہے کہ عقل کے دشمنوں اور محبت کے چوروں سے بچو اور یہ چغل خور ہیں ۔دیگر چور تو مال و متاع چراتے ہیں جبکہ یہ لوگ محبتوں کی چوری کرتے ہیں ۔
مشہور ہے کہ چغل خور کی بات ماننے والا اپنے دوست کو کھودیتا ہے۔درخت کو کاٹا جائے تو وہ پھر اُگ آتا ہے،تلوار سے جسم پر زخم لگے تو وہ بھی مُنْدَمِل ہوجاتا ہے لیکن زبان کے زخم کبھی نہیں بھرتے۔
ایک شخص نے حضرت سیِّدُنا صاحب بن عباد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو ایک خط دیا جس میں انہیں ایک کثیر مال والے یتیم کا مال لینے پراُبھارا۔ آپ نے اس خط کی پشت پر یہ جواب لکھ کر بھیجا:چغل خوری مذموم ہے اگر چہ سچ پرمشتمل ہو،میت پراللہ عَزَّ وَجَلَّ رحم فرمائے،یتیم کے نقصان کی تلافی فرمائے اور چغل خور پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی لعنت ہو،گناہ سے بچنے کی توفیق اور نیکی کی طاقت صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ہے۔
ابوداوداورترمذی میں حضرت سیِّدُناعبداللہبن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےروایت ہےکہ سرکارِ نامدار،مدینےکےتاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص میرے صحابہ کےبارےمیں مجھے کوئی بات نہ پہنچائے، میں چاہتا ہوں
کہ تمہارے پاس صاف سینہ آیا کروں ۔([41])
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شخصیت کے مختلف رنگ ہوتے ہیں نیز یہ لوگ دو چہروں اور دو زبانوں کے حامل ہوتے ہیں ،ایک شخص کے پاس ایک چہرے کے ساتھ جبکہ دوسرے کے پاس دوسرے چہرے کے ساتھ جاتے ہیں ،اس قسم کا دوغلہ شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک عزت والا نہیں ہے۔
حضرت سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو حضرت سیِّدُنا احنف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں ایک بات پہنچی تو آپ نے اِس سے متعلق اُن سے بات کی۔ حضرت سیِّدُنا احنف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اُس بات کا انکار کیا۔ حضرت سیِّدُنا معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:آپ کے بارے میں یہ بات مجھے ایک قابلِ اعتماد شخص نے بتائی ہے۔حضرت سیِّدُنا احنف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواب دیا:جو شخص قابلِ اعتماد ہو وہ ناپسندیدہ بات دوسرے تک نہیں پہنچاتا۔
حضرت سیِّدُنا فضل بن سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ چغل خور ی سے نفرت کرتے تھے،جب کوئی چغل خور آپ کےپاس آتا تو ارشاد فرماتے:اگر تم سچ کہوگے تو ہم تم سے نفرت کریں گے،جھوٹ بولو گے تو تمہیں سزا دیں گے اور اگر باز رہو تو ہم بھی تم سے باز رہیں گے۔
ایک چغل خور نےحضرت سیِّدُنا فضل بن سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو خط لکھا تو آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا:ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چغلی کا قبول کرنا چغلی کھانے سے بھی زیادہ برا ہے کیونکہ چغلی کرنا دلالت اور اسے قبول کرنا اجازت ہے اور جو شخص کسی چیز پر دلالت وراہنمائی کرے اور اس کی خبر دے وہ اس کی طرح نہیں ہوسکتا جو اس چیز کو قبول کرکے اس کی اجازت دے۔چغل خور سے ہوشیار رہو کیونکہ اگر وہ اپنی چغلی میں سچا ہو تو اس سچ بولنے میں بھی وہ ذلیل ہے کیونکہ وہ حرمت کی حفاظت نہیں کرتا اور جو چیز چھپانے کے قابل ہے اسے نہیں چھپاتا۔
منقول ہے کہ جو چغل خوری کرتا ہے اجنبی شخص اس سے بچتا جبکہ قریبی شخص اسے ناپسند کرتا ہے۔
مامون الرشید کا قول ہے کہ چغل خوری دوستی کے قریب جائے تو اسے ختم کردیتی،دشمنی کے پاس جائے تو اسے نیا
کردیتی جبکہ جماعت کے قریب جائے تو اسے منتشر کردیتی ہے۔جو شخص چغل خوری کے حوالے سے مشہور ہو اور اس کی طرف منسوب کیا جائے اس سے بچنا،دور رہنا اور اس پر بھروسا نہ کرنا ضروری ہے۔
سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا:تم جو برائی دیکھو اسے چُھپادینا اس سے بہتر ہے کہ اپنے گمان کی تشہیر کرو۔
حضرت سیِّدُنا عبدالرحمٰن بن عوفرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص بے حیائی کے بارے میں سن کراسے عام کرے تو وہ اس بے حیائی کا ارتکاب کرنے والے کی طرح ہے۔
بخاری ومسلم میں حضرت سیِّدُناثابت بن ضحاکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےمروی ہےکہ سرکارِ مَکۂ مکرمہ، سردارِ مدینہ منورہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:مومن پرلعنت کرنااسےقتل کرنےکی طرح ہے۔([42])
مسلم شریف میں حضرت سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:بہت زیادہ لعنت کرنے والے روزِ قیامت نہ تو شفاعت کرسکیں گے اور نہ ہی گواہ بنیں گے۔([43])
ابوداود شریف میں حضرت سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کےمددگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے:بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے لیکن اس کے لئے آسمان کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ،پھر زمین کی طرف آتی ہے تو زمین کے دروازے بھی بند پاتی ہے،پھر دائیں بائیں جاتی ہے (تو بھی یہی معاملہ ہوتا ہے)جب کوئی راستہ نہیں پاتی تو جس پر لعنت کی گئی اگر وہ لعنت کا اہل ہے تو اس کی طرف جاتی ہے ورنہ لعنت کرنے والے کی طرف لوٹتی ہے۔([44])
مذموم اوصاف کے حامل افراد پر عمومی طور پر لعنت کرنا جائز ہے مثلاً یہ کہنا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ ظالموں پر لعنت کرے، اللہ عَزَّ وَجَلَّکی لعنت کافروں پر،اللہعَزَّ وَجَلَّکی لعنت یہودو نصارٰی پر،اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی لعنت فاسقوں پر ،اللہعَزَّ وَجَلَّ کی لعنت تصویر
بنانے والوں پر وغیرہ۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر لعنت فرمائی۔([45])
اسی طرح کے چند مزید فرامیْنِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمدرج ذیل ہیں :
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سود کھانے والوں پر لعنت فرمائے۔([46])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ تصویر بنانے والوں پر لعنت فرمائے۔([47])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس شخص پر لعنت فرمائےجو اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔([48])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس شخص پر لعنت فرمائےجوغَیْرُاللہکے لئے ذبح کرے۔([49])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔([50])
اللہعَزَّ وَجَلَّلعنت فرمائےان مردوں پرجوعورتوں سےمشابہت اختیارکریں اوران عورتوں پرجومردوں کی مُشابَہَت اپنائیں ۔([51])
ایک روایت میں ہے کہ گمنامی ایک نعمت ہے لیکن ہر کوئی اسے پسند نہیں کرتا ہے جبکہ شہرت ایک سزا ہے لیکن ہر شخص اس کی تمنا کرتا ہے۔([52])
ایک اعرابی نے کہا:بعض اوقات تنہائی ہم نشیں سے زیادہ اور وحشت اُنس دینے والے سے زیادہ نفع بخش ہوتی ہے۔
حضرت سیِّدُنا ابومُعاوِیہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جو کہ نابینا تھے فرمایا کرتے تھے:میری دو عادتیں مجھےاپنی بینائی کے واپس مل جانے سے زیادہ پسند ہیں :خود پسندی سے چھٹکارا اور میرے دل کا لوگوں کے میرے پاس آنے کی خواہش نہ کرنا۔
حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:گوشہ نشینی میں سے اپنا حصہ حاصل کرو۔
حضرت سیِّدُنا حسان بن ثابترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مدینہ منورہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھ کر بلند آواز سے ندا کی تو قبیلہ خزرج کے لوگ جمع ہوگئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟حضرت سیِّدُنا حسان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نےفرمایا: میرے پاس ایک شعر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اسے سنو۔لوگوں نے کہا:اے حسان! سناؤ۔آپ نے یہ شعر پڑھا:
وَاِنَّ اِمْرَاً اَمْسٰي وَاَصْبَحَ سَالِمًا |
|
مِنَ النَّاسِ اِلَّا مَا جَنٰي لَسَعِيْد |
ترجمہ:جو شخص علاوہ کسی جرم کے صبح وشام لوگوں سے سلامت رہے وہ ضرورسعادت مند ہے ۔
حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جب عقیق کے مقام پر گھر بنایا تو آپ کی خدمت میں عرض کی گئی:آپ نے اپنے بھائیوں کے گھر اور لوگوں کے بازار کو چھوڑ کر عقیق میں سکونت کیوں اختیار کرلی؟ ارشاد فرمایا:میں نے دیکھا کہ ان کے بازار بے ہودہ چیزوں سے بھر پور جبکہ ان کی مجالس کھیل کود پر مشتمل ہیں تو میں نے یہاں گوشہ نشینی میں ہی عافیت جانی۔
حضرت سیِّدُنا عروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جوکہ مرداس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لوگوں نے ان سے عرض کی: آپ کے پاس جو علم ہے آپ اسے ہم سے بیان کیوں نہیں کرتے؟ارشاد فرمایا:میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ تمہارے جمع ہونے سے میرا دل حکومت کی محبت کی طرف مائل ہوجائے اور یوں میں دنیا وآخرت کے نقصان کا شکار ہوجاؤں ۔
حضرت سیِّدُنا سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت سیِّدُنا فضل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بیماری کے دوران ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو انہوں نے ارشاد فرمایا:تم کس لئے آئے ہو؟ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!اگر تم نہ آتے تو یہ مجھے زیادہ پسند ہوتا۔مزید فرمایا:بیماری بھی کتنی اچھی چیز ہے اگر یہ عبادت میں رکاوٹ نہ بنتی۔
حضرت سیِّدُنافضیلرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں عرض کی گئی کہ آپ کے صاحبزادے فرماتے ہیں : کاش میں ایسی جگہ ہوتا جہاں سے میں لوگوں کو دیکھتا لیکن وہ مجھے نہ دیکھتے۔آپ نے ارشاد فرمایا:اس کی خرابی ہو!اس نے پوری بات کیوں نہ کہی کہ نہ میں انہیں دیکھتا اور نہ وہ مجھے دیکھتے۔
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنےفرمایا:اس شخص کے لئے خوش خبری ہےجس کے اپنے عیب اسے لوگوں کے عیوب کی تلاش سے مشغول کردیں ،اس شخص کے لئے خوش خبری ہےجو اپنے گھر کو لازم پکڑ لے،اپنا رزق کھائے،عبادت میں مشغول رہے اور اپنے گناہوں پر روئے،اس طرح وہ اپنی ذات میں مشغول رہے اور لوگ اس سے امن میں رہیں ۔
حضرت سیِّدُنا سفیانعَلَیْہِ الرَّحْمَہنےفرمایا:دنیاسےبےرغبتی درحقیقت لوگوں سےبےرغبتی(یعنی کنارہ کشی)کانام ہے۔
ایک راہب اپنے عبادت خانے میں ہی رہتا تھا،اس سے کہا گیا کہ آپ باہر کیوں نہیں آتے؟راہب نے جواب دیا:جو زمین پر چلتا ہے وہ ٹھوکر کھاتا ہے۔
اس بارے میں اقوال و آثار کثیر ہیں لیکن ہم اسی قدر پر اکتفا کرتے ہیں ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور ان کے آل واصحاب پر درودوسلام نازل فرمائے۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیسے مروی ہے کہ آپ نےحجاج سے کہاکہ میں نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکوفرماتےسناکہ”سلاطین کی عزت و توقیر کروکیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قوت اور سایہ ہوں گے۔“([53]) حجاج نے کہا:کیا ہم ان میں سے نہیں ہوسکتے جب ہم عدل کریں ۔حضرت سیِّدُناحسن
بصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے فرمایا:کیوں نہیں ۔
حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ میں نے مکی مدنی سلطان، رحمت عالَمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی:مجھے ایسے سلطان کے بارے میں بتایئے جس کے آگے گردنین جھکی ہوں اور اس کی اطاعت کی جاتی ہوکہ ایسا سلطان کیسا ہے؟ارشاد فرمایا:وہ زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّکا سایہ ہےاور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکرلازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔([54])
رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:”ہر وہ حاکم جس سےرعایا کی نگہبانی کا ذمہ لیا گیا پھر وہ ان کی نگہبانی میں خیانت کرےیا ان کی خیرخواہی نہ کرےتو اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رحمت جو ہر شے سے وسیع ہے اُس پر تنگ ہوجائےگی۔“([55])
حضرت سیِّدُنامالک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارفرماتےہیں کہ میں نےبعض کتابوں میں پڑھاہے:اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتاہے: میں بادشاہوں کابادشاہ ہوں اوربادشاہوں کی گردنیں میرےہاتھ میں ہیں جومیری اطاعت کرے گامیں اُس پراپنی رحمت کروں گااورجومیری نافرمانی کرےگامیں اُس پرغضب فرماؤں گا۔لوگو!تم بادشاہوں کو اپنی زبان سے گالیاں نہ دو بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں توبہ کرو اللہ عَزَّ وَجَلَّان کو تم پر مہربان کرے گا۔
سیِّدُناامام جعفرصادقرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :بادشاہ کے عمل کا کفارہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ احسان کرنا ہے۔
کسرٰی نے سیرین سے کہا:کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ باشاہت ہمیشہ رہتی۔سیرین نے کہا:اگر یہ ہمیشہ رہتی توپھر ہماری طرف منتقل نہ ہوتی۔
ایک دن سکندر بیٹھا تو اُس کے پاس کوئی حاجت پیش نہ ہوئی تو اُس نے کہا:میرے ایام سلطنت میں مجھے دوبارہ ایسا
دن دیکھنا نصیب نہ ہو۔
جاحظ نے کہا:حکمرانی کی عزت،دشمنوں پر کامیابی اور لوگوں کی گردنوں پر احسان کا بوجھ ڈالنے سے بڑھ کر کوئی شے لذیذ اور مسرت کا باعث نہیں ۔
کہا گیاہےکہ بادشاہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے بندوں کے درمیان اُس کا خلیفہ ہوتا ہے اور وہ اُس کی مخالفت سے اپنے امر خلافت کو درست نہیں رکھ سکتا۔
حجاج نے کہا:وہ سلطان جسے رعایا خوف زدہ کرےاُس سلطان سے بہتر ہے جو رعایا کو خوف زدہ کرے۔
اردشیر نے اپنے بیٹے سے کہا:بادشاہت اور دین دونوں بھائی ہیں جن میں سے ایک کو دوسرے سے بے نیازی نہیں ۔ دین بنیاد ہے اور بادشاہت نگہبان،جس چیزکی بنیادنہ ہووہ قائم نہیں رہ سکتی اورجس کی نگہبانی نہ ہووہ ضائع ہوجاتی ہے۔
منقول ہے کہ جب ہُرْمُز کے مرنے کا وقت قریب آیا تو اُس کی بیوی حاملہ تھی ۔اُس نے شاہی تاج اپنی بیوی کے پیٹ پر رکھا اور وزرا کو مملکت چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ اُس کا بیٹا پیدا ہوا۔ جب ہرمز کا بیٹا بادشاہ بن گیا تواس کی چھوٹی عمر میں اہل عرب نے فارس کے نواح میں غارت گری کی پھر جب یہ بالغ ہوا تواس نے بہادروں کا انتخاب کیا اور اہل عرب پر یلغار کردی اور ان کو خوب قتل کیااور سترہزار لوگوں کے کندھے اتار دیئے ،اسی وجہ سے اسے ذُوالْاَکْتَاف (کاندھوں والا)کہاگیا۔اس نے اہل عرب کو بال کھلے رکھنے ، رنگے ہوئے کپڑے پہننے ،خیموں میں رہنے اورانہیں بغیر زین کے گھوڑے پر سواری کا حکم دیا۔
بادشاہوں کے اخلاق میں سے ہے کہ وہ منفرد رہنے کو پسند کرتے ہیں ۔جب اردشیر اپنے سر پر تاج رکھتا تو اُس کی رعایا میں سے کوئی بھی اپنے سر پر پھول کی شاخ بھی نہ رکھتااور جب وہ کوئی عمدہ پوشاک پہنتا تو اس کی مثل کوئی بھی ایسی پوشاک نہ پہنتااور جب وہ انگوٹھی پہنتا تو اس کی مملکت کے لوگوں پر حرام ہوتا کہ وہ اس کی مثل انگوٹھی پہنیں ۔
کفارِ مکہ کا سردار سعید بن عاص جب عمامہ باندھتا تو جب تک اُس کے سر پر عمامہ رہتا کوئی اس کی مثل عمامہ نہ باندھتا ۔ حجاج بن یوسف جب اپنے سر پر عمامہ باندھتا تو کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ اُس جیسا عمامہ پہن کر اُس کے پاس آئے۔عبد الملک بن مروان جب پیلے رنگ کا موزہ پہنتا تو جب تک وہ اُتار نہ دیتا اُس وقت تک کوئی اُس جیسا موزہ نہ پہنتا۔(صاحبِ کتاب)کہتے ہیں :مجھے ایک شخص نے بتایا جو یمن کی طرف گیا تھا کہ وہاں بادشاہ کے علاوہ کوئی بطخ نہیں کھاتا۔
بادشاہ کے حقوق میں سے ہے کہ جس طرح دودھ پلانے والی اپنے بچے کی دیکھ بھال کرتی ہے یونہی بادشاہ کو چاہئے کہ وہ اپنی رعایا کے چھپے ہوئے معاملات کی خبر گیری کرے۔اردشیر جب چاہتا اپنی مملکت کے رؤسا سے کہتا :آج کی رات تم نے یہ یہ کیا۔حتّٰی کہ لوگوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ بادشاہ کے پاس آسمان سے کوئی فرشتہ آکر یہ خبریں دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ سب کچھ رعایا کے احوال کی خبر گیری اور چھان بین کی وجہ سے تھا۔
حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے سے دور شخص کے بارے میں بھی اسی طرح خبر رکھتے تھے جس طرح اپنے پا س موجود شخص کے بارے میں رکھتے تھے اور حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بھی ان کی پیروی کی۔
ایک شخص نےعُبَـیْدُاللہبن زیادسےاپناتعارُف کرایاتواس زیادنےکہا:کیاتم مجھ سےاپناتعارف کراتے ہو جبکہ میں تمہیں تمہاری ماں اور باپ سے زیادہ جانتا ہوں اور تم نے جو یہ چادر اوڑھ رکھی ہے اس کے بارے میں بھی جانتا ہوں ۔یہ سن کر وہ شخص گھبراگیا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اپنی کتاب میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ۵،النساء:۵۹)
ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والوحکم مانو اللہکا اورحکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔
”صحیح بخاری“ میں حضرت سیِّدُناجابر بن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ میں نے سرورِ کونین، شہنشاہِ دارین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسےاس بات کی گواہی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول ہیں ،نماز قائم کرنے،زکوۃ دینے ،(حاکم اسلام کی )سننے اور اطاعت کرنے اور ہر مسلمان
کی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔([56])
حضرت سیِّدُناکعب الاحبارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسےسلطان کے متعلق پوچھا گیاتو آپ نے فرمایا:سلطان زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا سایہ ہے جس نے اس کی خیرخواہی کی اس نے راہِ ہدایت حاصل کی اورجس نے اسے دھوکا دیا تووہ راہ سے بھٹک گیا۔
حضرت سیِّدُناحُذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں :سلطانِ اسلام کو بُرا بھلا نہ کہو کہ یہ زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّکا سایہ ہے۔اسی کے ذریعے اللہ عَزَّ وَجَلَّحق کو قائم رکھتا،دین کوغلبہ عطافرماتا،ظلم کو دفع اور فاسق کو ہلاک کرتا ہے۔
حضرت سیِّدُناعُمَربن عبْدُالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزنےاپنےمؤدب سےکہا:میں تمہاری کیسی اطاعت کرتا ہوں ؟ مؤدب نے کہا:بہت اچھی۔آپ نےفرمایا:میری بھی ایسی اطاعت کرو جیسی میں نے تمہاری اطاعت کی۔
حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ حضورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔([57])
احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ حُضورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےحاکم اسلام کی اطاعت وفرماں برداری، ان کی خیرخواہی ومحبت اور ان کے لئے دعا کا حکم دیا ہے ۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
محتاجی اوربھولنےکامرض
حضرت سیِّدُناامام محمدبن یوسف شامیقُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِینقل فرماتےہیں :عمامہ بیٹھ کرباندھنےاور شلوار
کھڑےہوکرپہننےسےمحتاجی اوربھول جانےکامرض پیداہوتاہے۔(سبل الھدی والرشاد،۷/ ۲۸۲)
حضرت سیِّدُناعبْدُاللہبن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتےہیں کہ مجھ سےمیرےوالدمحترم نے فرمایا:اے میرے بیٹے ! میں دیکھتا ہوں کہ امیرالمؤمنین تجھ سے تنہائی میں ملتے ہیں ، تجھ سے مشورہ کرتے ہیں اور حضور نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بُزرگ صحابہ پر تجھے فوقیت دیتے ہیں لہٰذا میں تجھے تین باتوں پر ہمیشگی کی نصیحت کرتا ہوں :(۱)…ان کے راز کو ظاہر نہ کرنا (۲)… ان سے کبھی جھوٹ نہ بولنا اور (۳)…انہیں کبھی دھوکا نہ دینا۔
حضرت سیِّدُنا امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے عرض کی: ان میں سے ہر بات ایک ہزار درہم سے بہتر ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: خدا کی قسم! ان میں سے ہر بات 10ہزار درہم سے بہتر ہے۔
ایک دانا کا قول ہے: جب سلطان تم سے محبت میں اضافہ کرے تو تم اس کی تعظیم میں اضافہ کرو، جب سلطان تمہیں بھائی کا مرتبہ دے تو تم اسے باپ کا مرتبہ دو، جب سلطان تم پر احسان زیادہ کرے تو تم ایسے ہو جاؤ جیسے غلام اپنے مالک کے ساتھ ہوتا ہے اور جب تمہیں لوگوں کے ساتھ سلطان کے پاس جانا پڑے اور وہ سلطان کی تعریف کریں تو تم بھی اس کے لئے دعا کرو مگر ہر بات پر اس کے لئے دعا نہ کرو۔
مسلم بن عمرکہتے ہیں : جو سلطان کا خادم ہو وہ اس کی موجودگی اور غیر موجودگی میں اس کو دھوکا نہ دے۔
منقول ہے کہ ایک بادشاہ نے کسی دانا کو ساتھی بنانا چاہا تو اس سے کہا:میرا ساتھی بننے میں تجھ میں تین خصلتیں ہونی چاہئیں ۔دانا نے کہا: وہ کیاہیں ؟بادشاہ نے کہا:(۱)…میرا راز فاش نہیں کروگے(۲)…میری عصمت دری نہیں کروگےاور (۳)…میرے بارے میں کسی کی بات اس وقت تک قبول نہیں کروگے جب تک مجھے سے پوچھ نہ لو۔ دانا نے کہا: یہ تو آپ
کےلئے ہے اور میرے لئےآپ پرکیا لازم ہے؟بادشاہ نےکہا:میں تیرا رازفاش نہیں کروں گا،تیری نصیحت کوحقیر نہیں جانوں گا اور تجھ پر کسی کو فوقیت نہیں دوں گا۔ دانا نے کہا: تم دوست بنانے کے لئے کیا ہی اچھے شخص ہو۔
بُزُرْجُمْہُر نے کہا: جب تم کسی بادشاہ کی خدمت کرو تو اس کی اطاعت میں اپنے خالق کی نافرمانی نہ کرو کیونکہ اس کا تم پر احسان بادشاہ کے احسان سے زیادہ ہے اور اس کا عذاب بادشاہ کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔
دانا کہتےہیں :بادشاہوں کے ساتھی لوگوں میں پُر ہیبت اور باوقار ہوتے ہیں کیونکہ وہ عام لوگوں سے اپنی ہیبت کے سبب الگ تھلگ ہوتے ہیں لہٰذا اگر تیرا لگاؤ ان سے زیادہ ہو گا تو تیرا غم بھی زیادہ ہوگا۔
حکماء کہتے ہیں :تیرا سلطان کو علم سکھانا گویا اس سے علم سیکھنا ہے اور اس کو مشورہ دینا گویا اس سے مشورہ لینا ہےاور جب بادشاہ تیری بات سننے لگےاورتجھ پر اعتماد کرنے لگےتو بادشاہ اور اس کےقریبی ساتھیوں کے مُعاملے میں دخل اندازی کرنے سے بچ کیونکہ تو نہیں جانتا کہ وہ تیرے ساتھ کب بدل جائیں اوروہ تیرے مدد گار ہیں تو ان کے پاس میلے کپڑوں میں جانے سے احتیاط کر اور بادشاہ کے پاس عمدہ کپڑوں میں حاضر ہو۔
یحییٰ بن خالد برمکی کہتے ہیں : جب تم سلطان کو دوست بناؤ تو اُس عقل مند عورت کی طرح اُس کے پاس رہوجواپنے بے وقوف شوہر کے پاس رہتی ہے۔
عرب و عجم کے حکماء کااس بات پر اتفاق ہے کہ سلطان کے ساتھ نہ رہا جائے۔
کتاب”کَلِیْلَہ وَدِمْنَہ“میں ہے: تین چیزوں سے سلامتی بہت کم نصیب ہوتی ہے:(۱)…سلطان کی صحبت (۲)… عورتوں کاراز امانت رکھنااور(۳)…تجربے کے لئے زہر پینا۔
کہا گیا ہے کہ سمندر میں سفر کرنے والا اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے اور سلطان کی صحبت اس سے بھی بڑا خطرہ ہے۔
کسی دانا کا قول ہے کہ وہ معاملات جن میں بہت زیادہ احتیاط کی حاجت ہے وہ سلطان کے ہیں کیونکہ جوبےعقل
سلطان کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ یقیناً دھوکے کا لباس پہنتا ہے۔
ہندی حکمت میں ہے: سلطان کی صحبت میں عزت و ثروت تو ہے لیکن ساتھ میں خطرہ بھی بہت بڑا ہے۔
عتابی سے کہا گیا: ”تم ادیب ہونے کے باوجود سلطان کی صحبت میں کیوں نہیں رہتے؟“ عتابی نے جواب دیا: ”کیونکہ میرا مشاہدہ ہے سلطان بغیر کسی وجہ کے کسی کو 10 ہزار درہم بھی دے دیتا ہے اور بلا وجہ قید میں بھی ڈلوا دیتا ہے اور میں نہیں جانتا کہ ان میں سے میں کس میں ہوں (یعنی انعام والوں میں یا قید والوں میں )۔“
حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے قریش کے ایک شخص سے فرمایا: ”سلطان سے دور رہو کہ وہ بچے کی طرح ناراض ہو جاتا ہے اور شیر کی طرح حملہ کرتا ہے۔“
حضرت سیِّدُنا میمون بن مہران عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے فرمایا:”اے میمون! میری چار باتوں کو یاد کر لو:(۱)…سلطان کی صحبت اختیار نہ کرنا اگرچہ تو اس کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے (۲)… عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرنا اگرچہ تو اس کو قرآن پڑھائے (۳)…رشتے داروں سے قطع تعلقی نہ کرنا کیونکہ یہ تیرے لئے محرومی ہے (۴)… اور ایسا کلام نہ کرنا جس کی تجھے کل معافی مانگنی پڑے۔“
سلطان کی اصلاح کی غرض سے اس کی صحبت اختیار کرنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی جھکی ہوئی دیوار کو سیدھا کرنے کے لئے اسے ٹیک دے اور وہ دیوار اس پر گر جائے اور وہ ہلاک ہو جائے۔
کتاب”کَلِیْلَہ وَدِمْنَہ“میں ہے:جو بادشاہوں کے ساتھ رہتا ہے وہ خوش بخت نہیں ہوسکتا کیونکہ بادشاہوں کا کوئی عہد ہے نہ ان میں وفا ہےاورکوئی ان کا قریبی اور دوست نہیں ۔یہ تم میں رغبت نہیں رکھتے بلکہ جو تمہارے پاس ہے اس کی طمع میں تمہیں اپنے قریب رکھتے ہیں اور جب ان کی حاجت پوری ہو جاتی ہےتو تمہیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں ۔انہیں کسی سے محبت وبھائی چارہ نہیں ہوتااور کسی جرم پر ان کے ہاں کوئی مُعافی نہیں ہوتی۔
کسی دانا کا قول ہے کہ سلطان کا ساتھی بننا شیر پر سوار ہونے کی طرح ہے کہ لوگ تو اس سے ڈرتے ہیں لیکن وہ ان سے
زیادہ خود ڈرا ہوا ہوتا ہے ۔
حضرت سیِّدُنا محمدبن واسعرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتےہیں :خداکی قسم! خاک اڑانا اور ہڈی چبانا بادشاہوں کے دروازے کے قریب جانے سے بھی بہتر ہے۔
حضرت سیِّدُنامحمدبن سماک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَہَّاب فرماتے ہیں کہ مکھی کا گندگی پر بیٹھنا مسافر کے بادشاہوں کے دروازے پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔
منقول ہےکہ ادب سیکھنے سےقبل جو سلطان کی صحبت اختیار کرتاہے وہ یقیناً خود کو دھوکے میں ڈالتا ہے۔
ابنِ مُعتزکہتے ہیں :جو سلطان کے ساتھ دنیا کی عزت میں شریک ہوا وہ آخرت کی ذلت میں شریک ہوا۔
ابنِ مُعتزسے منقول ہے کہ جب سلطان تجھ سے محبت و اکرام میں اضافہ کرے تو تم اس سے ڈرنے میں اور اس کی عزت کرنے میں اضافہ کر دو۔
ابو علی صغانی کہتے ہیں :بادشاہوں سے بچو کہ یہ جس کے دوست بنتے ہیں اس کا مال لیتے ہیں اور جس کے دشمن بنتے ہیں اس کی جان لیتے ہیں ۔
منقول ہے کہ بلخ کے ایک گاؤں ”بہار“ کے دروازے پر لکھا تھا کہ بادشاہوں کے دروازے تین چیزوں کے محتاج ہیں :(۱)عقل(۲)صبراور(۳)مال۔اس کےنیچےکسی نے لکھا تھا:دشمَنِ خدانے جھوٹ کہاکیونکہ جس کے پاس ان تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی ہو گی وہ بادشاہ کے دروازے کے قریب بھی نہیں جائے گا۔
حسان بن ربیع حِمْیَری کہتے ہیں : بادشاہ، عورت اور جانور پر زیادہ اعتماد نہ کرو کہ بادشاہ تکلیف دے گا، عورت خیانت کرے گی اور جانور سرکشی کرے گا۔
سیِّدُنا عُبَیْدبن عمیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :جوبادشاہ سے جتنا قریب ہوگا اتنا ہی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دور ہوگا اورجس کےپیروکارزیادہ ہوں گے اُسے بہکانے والے بھی زیادہ ہوں گےاور جس کا مال کثیر ہو گا اس کا حساب بھی زیادہ ہوگا۔
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :
اَرَى الْمُلُوْكَ بِاَدْنَی الدِّيْنِ قَدْ قَنَعُوْا |
|
وَلَا اَرَاهُمْ رَضُوْا فِي الْعَيْشِ بِالدُّوْنِ |
فَاسْتَغْنِ بِالدِّيْنِ عَنْ دُنْيَا الْمُلُوْكِ كَمَا |
|
اسْتَغْنَی الْمُلُوْكُ بِدُنْيَاهُمْ عَنِ الدِّيْن |
ترجمہ:میں بادشاہوں کو تھوڑے دین پر قناعت کئے دیکھتا ہوں جبکہ دنیا کے تھوڑے حصے پر رضامند نہیں دیکھتا ۔لہٰذا جس طرح بادشاہ اپنی دنیا میں مگن ہوکر دین سے بے پروا ہیں اسی طرح تم دین پر قناعت کرتے ہوئے بادشاہوں کی دنیا سے بے پروا ہوجاؤ۔
حکماء نے بادشاہوں کی نوکری کرنے سے منع کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ اچھا صلہ دینے میں مغرور ہوتے ہیں اور سزا کے طور پر قتل کروا دینے میں خود مختار ہوتے ہیں ۔
منقول ہے کہ بادشاہ کے شر سے جو امن میں ہے وہ جری ہے اور جو خوف زدہ ہے وہ بری ہے۔
وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَاِلَيْهِ الْمَرْجِعُ وَالْمَاٰبُ وَحَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِيْرُ وَصَلَّي اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَامُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّبہتر جانتا ہےاوراسی کی طرف لوٹنا ہےاوراسی کےپاس ٹھکانا(یعنی جنت)ہے،اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں کافی ہے اور کیا ہی اچھا کار ساز کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مدد گار اور درود وسلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کی آل واصحاب پر۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام کی حکایت بیان کرتے ہوئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ(۲۹)(پ۱۶،طٰہٰ:۲۹)ترجمۂ کنز الایمان:اور میرے لئے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے۔
اگر سلطان وزیر سے بے پرواہ ہو تو لوگ حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام کے اس قول کے سبب وزیر رکھنے پر اصرار کرنے کے حق دار ہیں ۔پھر وزیر رکھنے کی حکمت بیان ہوئی:
اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ(۳۱)وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْۙ(۳۲) (پ۱۶،طٰہٰ:۳۱، ۳۲ )
ترجمۂ کنز الایمان:اس سے میری کمر مضبوط کراوراُسے میرے کام میں شریک کر۔
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وزیر سے مملکت کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور جب وزیر میں اچھی عادات و صفات کامل ہو ں تو سلطان اس کو معاملات سپرد کردے۔پھربیان ہوا:
كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًاۙ(۳۳)وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًاؕ(۳۴)(پ۱۶،طٰہٰ:۳۳، ۳۴)
ترجمۂ کنزالایمان:کہ ہم بکثرت تیری پاکی بولیں اور بکثرت تیری یاد کریں ۔
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علما اور باخبر اور اہل معرفت صالحین کی صحبت دنیا و آخرت کے معاملات کی درستی کے لئے ضروری ہے جیسا کہ لوگوں میں سے بہادر شخص ہتھیار کا محتاج ہے، گھوڑا دوڑانے کے لئے چابُک کی حاجت ہے اور استرے کو دھار لگانے کے لئے پتھر کی حاجت ہے اسی طرح بادشاہ کو بھی اہم معاملات میں خبردار رہنے کے لئے وزیر کی حاجت ہوتی ہے۔
حضرت سیِّدُنا ابو سعید خُدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہر نبی اور خلیفہ کے ساتھ دو مشیر رکھے ان میں سے ایک نیکی کا حکم دیتا ہے اور نیکی پر ہی اُبھارتا ہے جبکہ دوسرا بُرائی کا حکم دیتا ہے اور بُرائی پر ہی ابھارتا ہے([58])اور محفوظ وہی ہے جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّبچالے ۔
حضرت سیِّدُناوہب بنمُنَبِّہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام نے فرعون سے فرمایا: ایمان لے آؤ تمہارے لئے جنت ہے اور بادشاہت تمہاری رہے گی۔ فرعون نے کہا: میں ہامان سے مشورہ کر لوں ۔ چنانچہ اس نے ہامان سے اس بارے میں مشورہ کیا تو ہامان نے کہا: ابھی تو تم معبود ہو اور تمہاری عبادت ہوتی ہے اب کیا تم عبادت
کرو گے؟یہ سن کر فرعون نے تکبر کرتے ہوئےانکار کر دیا۔ ہامان نے تو فرعون کے ساتھ جو کیا سو کیا اسی طریقے پر چلتے ہوئے حجاج کے وزیر یزید بن مسلم نے بھی کوئی اچھا کام نہ کیا اور یہ بہت ہی بُرے لوگ ہیں اور ان کے ساتھی بھی بُرے ہیں ۔
آدمیوں کے لئے سب سے بڑا مرتبہ نبوت کا ہے پھر خلافت کا پھر وزارت کا۔
مشہورمثال ہے:”نِعْمَ الظَّهِيْرُ الْوَزِيْر یعنی وزیر کیا ہی اچھا مددگار ہے۔“
پہلی خصلت جو سلطانِ اسلام کی دانشمندی،اچھے برے میں تمیز اور عمدہ عقل والے ہونے پر دلالت کرتی ہے وہ وزیر کا انتخاب ہے دوسری خصلت اچھے ہم نشینوں کا چناؤاور تیسری خصلت عقل مند لوگوں سے گفتگو کرنا ہے اور یہ تین خصلتیں سلطان کے کمال پر دلالت کرتی ہیں اور انہیں خصلتوں کی بدولت مخلوق میں اس کا ذکر اچھے انداز میں ہوتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت راسخ ہو جاتی ہےنیز آدمی اپنے ساتھی کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے:”بادشاہوں کا زیوراور ان کی زینت وزیر ہیں ۔“
کتاب”کَلِیْلَہ وَدِمْنَہ“میں ہے کہ سلطان کی اصلاح وزیر اوراُس کے معاونین کے علاوہ کوئی نہ کرے۔
حضرت سیِّدُنا شُرَیْح بن عُبَیْد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :بنی اسرائیل میں ہر بادشاہ کے ساتھ ایک دانا شخص ہوتا تھا جب وہ دیکھتا کہ بادشاہ غصہ میں ہے تو وہ اس کے لئے کچھ صحائف لکھ لیتا اور ہر صحیفہ میں لکھتا: مسکین پر رحم کر، موت سے ڈر اور آخرت کو یاد کر۔ جب بادشاہ غصہ کرتا تو دانا شخص اس کو ایک صحیفہ دے دیتا حتّٰی کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا۔
بادشاہ اچھا ہو اور اس کا وزیر بُرا ہو جو لوگوں سے بھلائی کو روک دے اور ان میں سے کسی کا بادشاہ تک جانا ممکن نہ ہو تو اس کی مثال اس صاف پانی جیسی ہے جس میں مگر مچھ ہو اور بندہ اس پانی میں جانے کی طاقت نہ رکھےاور پانی کا محتاج ہو اگرچہ تیرنا جانتا ہو۔
بادشاہ طبیب کی مثل ہے،رعایا مریض کی مثل ہے اور وزیر مریض اور طبیب کے درمیان سفیر کی مثل ہے اور اگر سفیر جھوٹ بولے گا تو تدبیر باطل ہو جائے گی۔ یونہی اگر سفیر کسی مریض کو قتل کرنے کا ارادہ کر لے تو وہ طبیب کو اس کی بیماری کا الٹ بتاتا ہے اور جب طبیب سفیر کے بتائے ہوئے مرض کے مطابق دوائی پلاتا ہے تو مریض ہلاک ہو جاتا ہے
اسی طرح وزیر بھی کسی شخص کے بارے میں بادشاہ کو وہ بات بتاتا ہے جو اس میں نہیں ہوتی اور بادشاہ اس شخص کو قتل کروا دیتا ہے۔ اسی لئے وزیر کا زبان کے معاملے میں سچا ہونا، دین کے معاملے میں عادل ہونا،اخلاقی اعتبار سے اچھا ہونا اور رعایا کے معاملے میں سمجھدار ہونا ضروری ہے، اسی طرح وزیر کے ساتھی بھی امانت دار اور سمجھدار ہوں ۔
بادشاہ کسی گھٹیاشخص کو وزات دینے سے بچے کیونکہ گھٹیا شخص جب کسی مرتبہ پر فائز ہوتا ہے تو اپنے اقارب پر ظلم کرتا ہے ،جان پہچان والوں سے منہ موڑلیتا ہے،معززلوگوں کو ذلیل کرتا ہے اور ذی مرتبہ افراد کو حقیر جانتا ہے۔
منقول ہے کہ کسی بادشاہ نے تین خط لکھے اور اپنے وزیر سے کہا: جب تو مجھے غصے میں دیکھے تو ایک کے بعد ایک خط مجھے دے دینا۔پہلے خط میں یہ تحریر تھا: تو خدا نہیں ہے، عنقریب تجھے بھی موت آئے گی اور تجھے قبر میں اتار دیا جائےگا پھر تیرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے گا۔دوسرے خط میں یہ تحریر تھا: زمین والوں پر رحم کر آسمان والا تجھ پر رحم کرے گا۔تیسرے خط میں یہ لکھا تھا: لوگوں کے مابین اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حکم کے مطابق فیصلہ کر کیونکہ ان کی اصلاح اسی کے ذریعے ممکن ہے۔
جب مملکت کے اُمور وزیر کے سپرد ہوتے ہیں تو بادشاہوں کی لگامیں وزیروں کےہاتھوں میں ہوتی ہیں ۔ ایک مشہور کہاوت ہے:”اگر وزیر تم سے فریب کرے تو بادشاہ کی محبت سے دھوکا نہ کھانااور اگر وزیر کو تم سے محبت ہو تو بے فکر رہو، بادشاہ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔“
[1]…سیِّدُناامام شعبیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِیسےمنقول یہ قول ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملاالبتہ حضرت سیِّدُناعمربن عبدالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزکے حوالے مشہورہے۔(علمیہ)
[2]…کہ سلیمان کے باپ عبد الملک بن مروان نے حجاج کو مقرر کیا اور عبد الملک کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ولید نے حجاج کو برقرار رکھا۔
[3]…حضرت سیِّدُناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکےفضائل ومناقب جاننےکےلئےدعوتِ اسلامی کےاشاعتی ادارےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 288صفحات پرمشتمل کتاب’’فیضانِ امیرمعاویہ‘‘ کامطالعہ کیجئے۔
[4]…ترمذی، کتاب صفة القیامة، باب ۳۳، ۴/۲۱۲، حدیث: ۲۴۷۸
[5]…طبقات ابن سعد،السیرة النبوية،ذکر فی محاسن اخلاقہ،۱/ ۲۸۹
[6]…مسلم، کتاب الجنة، باب یدخل الجنة اقوام...الخ،ص ۱۵۲۲، حدیث: ۲۸۴۰
[7]…ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب التوکل و الیقین، ۴/ ۴۵۲، حدیث: ۴۱۶۴عن عمر
[8]…ترمذی، کتاب صفة القیامة، باب: ۵۹، ۴/ ۲۳۱، حدیث:۲۵۲۴
[9]… معجم اوسط،۵/ ۱۶۱، حدیث: ۶۹۲۲
[10]… معجم کبیر،۱۰/ ۱۳۹، حدیث: ۱۰۲۳۹ ”القناعة بدله الغنى“
[11]…الزھد الکبیر،ص ۸۶، حدیث: ۱۰۱
[12]…ایک قسم کاجانورجس کی اگلی ٹانگیں چھوٹی اور پچھلی لمبی ہوتی ہیں ۔
[13]…الزھد الکبیر، ص: ۸۶، حدیث: ۱۰۱
[14]…ترمذی، کتاب التفسیر، باب من سورة الھاکم التکاثر، ۵/۲۳۴، حدیث: ۳۳۶۵
[15]…ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی ترقیع الثوب، ۳/ ۳۰۲، حدیث: ۱۷۸۷
[16]… شعب الایمان، باب فی الجود و السخاء، ۷/ ۴۲۷، حدیث: ۱۰۸۴۵بتغیر
[17]…شعب الایمان، باب فی الزھد و قصر الامل، ۷/ ۳۵۵، حدیث: ۱۰۵۶۴
[18]… مسندامام احمد، مسند عبداللّٰہ بن عباس، ۱/۶۱۸، حدیث:۲۶۱۴
[19]…مسندبزار، مسند انس بن مالک، ۱۴/ ۱۳۷، حدیث:۷۶۵۵
[20]… معجم اوسط، ۵/ ۷۷، حدیث: ۶۶۲۷بتغیر قلیل
[21]…ابو داود، کتاب الادب، باب فی نصیحة، ۴/ ۳۷۲، حدیث: ۴۹۴۴
[22]…مسلم،کتاب الایمان، باب بیان کون النھی عن المنکر…الخ،ص۴۴،حدیث: ۴۹
[23]…اعلام النبوة، الباب عشرون فی شرفہ اخلاقہ…الخ،ص۲۲۷
[24]…عقد الفرید، کتاب اللؤلؤة السلطان،باب تعلم السلطان علی اھل …الخ،۱/۵۲
[25]… شعب الایمان، باب فی طاعة اولی الامر، ۶/ ۳۲، حدیث:۷۴۱۷۔حلیة الاولیاء، فضیل بن عیاض،۸ / ۱۰۹، حدیث: ۱۱۵۳۶
[26]…حلیة الاولیاء، فضیل بن عیاض،۸ / ۱۱۰، حدیث: ۱۱۵۳۶
[27]… بخاری، کتاب الادب، باب من کان یومن باللّٰہ…الخ، ۴/ ۱۰۵، حدیث: ۶۰۱۸
[28]… مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تفاضل الاسلام، ص۴۱، حدیث: ۴۲
[29]… ترمذی، کتاب الزھد، باب ما جاء فی حفظ اللسان،۴/ ۱۸۲، حدیث: ۲۴۱۴
[30]… ترمذی، کتاب الزھد، باب:۱۱، ۴/ ۱۴۲، حدیث:۲۳۲۴
[31]…معجم کبیر،۲/ ۱۵۷، حدیث: ۱۶۵۱
[32]…مسلم، کتاب البر و الصلة، باب تحریم الغیبة، ص۱۳۹۷، حدیث: ۲۵۸۹
[33]…ابو داود، کتاب الادب، باب فی الغیبة، ۴/ ۳۵۳، حدیث: ۴۸۷۵
[34]…ابو داود، کتاب الادب، باب فی الغیبة، ۴/ ۳۵۳، حدیث:۴۸۷۸
[35]…دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ504صفحات پر مشتمل کتاب ”غیبت کی تباہ کاریاں “صفحہ 73پر ہے:جس زِنا میں حُقُوق العِباد شامل نہیں صِرف اُس زِنا سے غیبت سخت تَر ہے۔ غیبت میں حقُّ العَبد یعنی بندے کا حق اُس صورت میں شامل ہو گا جبکہ جس کی غیبت کی ہے اُس کو پتا چل جائے کہ فُلاں نے میری غیبت کی ہے اور اب غیبت کرنے والے کیلئے توبہ کے ساتھ ساتھ اُس سے مُعافی مانگنی بھی ضَروری ہے جس کی غیبت کی ہے ورنہ خالی توبہ کافی تھی۔
[36]… موسوعہ ابن ابی الدنیا، کتاب الصمت، ۷/ ۱۱۷، حدیث: ۱۶۴
[37]… مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم النمیمة، ص ۶۶، حدیث: ۱۰۵
[38]… بخاری، کتاب الوضو، باب ۵۹، ۱/۹۶، حدیث:۲۱۸
[39]… مسند امام احمد، حدیث اسماء ابنة یزید، ۱۰/ ۴۴۲، حدیث: ۲۷۶۷۰بتغیر قلیل
[40]… سراج الملوک، کتاب فی معرفة حسن الخلق، باب وما یؤول الیہ …الخ،ص:۱۵۵
[41]… ابو داود، کتاب الادب، باب رفع الحدیث من المجلس، ۴/ ۳۴۸، حدیث: ۴۸۶۰
[42]… بخاری، کتاب الادب، باب من اکفر اخاہ …الخ، ۴/ ۱۲۷، حدیث: ۶۱۰۵
[43]… مسلم، کتاب البر والصلة، باب النہی عن لعن الدواب وغیرھا، ص: ۱۴۰۰، حدیث: ۲۵۹۸
[44]… ابو داود، کتاب الادب، باب فی اللعن،۴/ ۳۶۱، حدیث: ۴۹۰۵
[45]… مسلم، کتاب اللباس، باب تحریم فعل الواصلة…الخ، ص: ۱۱۷۴، حدیث: ۲۱۲۲
[46]… بخاری، کتاب البیوع، باب ثمن الکلب، ۲/ ۵۵، حدیث: ۲۲۳۸
[47]… بخاری، کتاب البیوع، باب ثمن الکلب، ۲/ ۵۵، حدیث: ۲۲۳۸
[48]… مسلم، کتاب اضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللّٰہ…الخ، ص ۱۰۹۳، حدیث: ۱۹۷۸
[49]… مسلم، کتاب اضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللّٰہ…الخ، ص ۱۰۹۳، حدیث: ۱۹۷۸
[50]… بخاری، کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من اتخاذ…الخ،۱/ ۴۴۸، حدیث:۱۳۳۰
[51]… بخاری، کتاب اللباس، باب المتشبھون بالنساء…الخ، ۴/ ۷۳، حدیث: ۵۸۸۵
[52]… فیض القدیر، ۲/ ۱۹،تحت الحدیث:۱۲۰۶
[53]…ربیع الابرار،الباب الثانی والثمانون،۵/ ۱۶۱
[54]…شعب الایمان،باب فی طاعة اولى الامر،فصل فی فضل الامام العادل،۶/۱۵،حدیث:۷۳۶۹
[55]… تاریخ بغداد،۱۰/ ۱۲۶، رقم:۵۲۶۲، عبداللّٰہ بن محمد الکلاباذی
[56]… بخاری، کتاب البیوع، باب ھل یبیع حاضر لباد…الخ ، ۲/ ۳۴، حدیث: ۲۱۵۷ عن جریر بن عبداللّٰہ
[57]… بخاری، کتاب الجھاد، باب یقاتل من وراء الامام…الخ ، ۲/ ۲۹۷، حدیث: ۲۹۵۷
[58]…مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کے ساتھ اچھے اور بُرے مشیر قدرتی طور پر ہوتے ہیں ۔علماء فرماتے ہیں :اچھے مشیر سے مراد فرشتہ ہے بُرے مشیر سے مراد قرین شیطان ،خیال رہے اللہتعالٰینے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمپر یہ فضل کیا کہ حضور کا قرین مسلمان ہوگیاجیساکہ ترمذی وغیرہ کی روایات میں ہے۔(مراٰۃ المناجیح،۵/۳۵۴ ملتقطاً)