وزیر کا مقام:

      سلطان گھر کی مثل ہے اور وزیر اس کا دروازہ ہے  تو جو گھر میں دروازے کی طرف سے آئے تو وہ بآسانی داخل ہو جاتا ہےاورجو دروازے کے علاوہ سے داخل ہونا چاہے اسے لوٹا دیا جاتا ہے۔ مملکت میں وزارت  کا مقام ایسے ہی ہے جیسے آئینہ میں دیکھنا تو جو آئینہ نہیں دیکھتا وہ اپنے چہرے کی خوبصورتی اور عیب نہیں دیکھ سکتا اور یونہی سلطان کا معاملہ ہے کہ جب اس کا وزیر نہیں ہوگا تو وہ اپنی بادشاہت کی خوبی اور عیب کو نہیں جان سکتا ۔وزیر کے لئے ضروری ہے کہ وہ مخلوق پر بہت زیادہ رحم کرنے والا اور مہربان ہو۔

      یاد رہے کہ وزیر کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ بادشاہ سے کوئی نصیحت چھپائے اگر چہ اُسے چھوٹا سمجھے۔ اور وزیر کی اہمیت مملکت میں ایسے ہی ہے جیسے سر کے لئے آنکھیں اور یہ ایسا ہی ہے جسے تم آئینہ کو گرد وغبار سے پاک نہ کر لو تو اس


 

 میں اپنے چہرے کو نہیں دیکھ سکتے یونہی سلطنت کا معاملہ ہے کہ عقل مند ، قابل فہم اور صاف دل  وزیر کے بغیر سلطنت کا نظام مکمل نہیں ہوتا۔

                             وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَاِلَيْهِ الْمَرْجِعُ وَالْمَاٰبُ وَحَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِيْرُ وَصَلَّي اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَامُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّم تَسْلِيْماً كَثِيْرًا اِلٰی يَوْمِ الدِّيْنِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالِميْنَیعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بہتر جانتا ہے اور  اسی کی طرف لوٹنا ہےاوراسی کےپاس ٹھکانا(یعنی جنت)ہے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّہمیں کافی ہے  اور کیا ہی اچھا کار ساز کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مدد گار اور قیامت تک خوب درود وسلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کی آل واصحاب پراور تمام تعریفیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے لئے  ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر17:                                                                                            حکمرانوں تک پہنچنے میں رکاوٹ،گورنری

                                                اور اس کے خطرات کا بیان

حکمرانوں تک پہنچنےمیں رکاوٹ کا بیان

       منقول ہے کہ مملکت کو سب سے زیادہ ضائع کرنے اور رعایا کو سب سے زیادہ ہلاک کرنے والی چیز حکمران اور عوام کے درمیان حائل رکاوٹ ہے۔

       منقول ہے کہ جب حکمرانوں تک پہنچنے میں حائل رکاوٹ ہلکی ہو تو رعایا پر ظلم کم ہوتا ہے اور جب رکاوٹ شدید ہو تو ظلم بھی زیادہ ہوتا ہے۔

دربان کو فارغ کردیا:

       حضرت سیِّدُنا میمون بن مہران عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : میں حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کے پاس تھا  کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دربان سے کہا: دروازے پر کون ہے؟ دربان نے عرض کی: ایک شخص دروازے پر اپنی اونٹنی کے ساتھ موجود  ہے اور کہتا ہے کہ  وہ مؤذنِ رسول حضرت سیِّدُنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے صاحبزادے ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےان کواندرآنےکی اجازت دی۔جب وہ اندرآئےتوفرمایا:مجھےمیرےوالدماجدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے حدیث بیان کی کہ انہوں نے حضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو فرماتے سنا:”جو مسلمانوں کے


 

امور میں سے کسی معاملے کا والی بنا اور پھر اس نے ان سے رُکاوٹ رکھی([1]) تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ قیامت کے دن اس کے لئے رُکاوٹ کردے گا۔“([2])یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے دربان سے فرمایا:تم اپنے گھر کی راہ لو۔اس کے بعد کبھی آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دروازے پر دربان نہیں دیکھا گیا۔

رعایا سے دوری کی تین وجوہات:

      خالد بن عبداللہقُشَیْری نے اپنے دربان سےکہا:جب میں اپنی مجلس میں بیٹھوں  تو کسی ایک کو بھی مجھ سے نہ روکنا کہ حاکم تین وجوہات کے سبب خود کو اپنی رعایا سے دور رکھتا ہے:(۱)…کسی عیب کی وجہ سے جس پر لوگوں کا مطلع ہونا اسے نا پسند ہو(۲)…کسی تہمت کی بنا پر جس کا اسے خوف ہو کہ وہ ظاہر ہواور(۳)… بخل کے سبب اسے ناپسند  ہوکہ اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے۔

      اہل عجم کہتے ہیں کہ مملکت کو سب سے زیادہ ضائع کرنے والی چیزحکمران اور عوام کے درمیان حائل رکاوٹ ہےاور رعایا کے لئے سب سے زیادہ رعب دار اور انہیں ظلم سے بچانے والی چیز حکمران اور عوام کے مابین آسان رابطہ ہے۔

کون سا زخم نہیں بھرتا؟

      کسی دانا سے کہا گیا:وہ کون سا زخم ہے جو نہیں بھرتا؟ دانا نے جواب دیا: کسی شریف کو کسی ذلیل سے کام ہو اور وہ بغیر کام کئے اسے لوٹا دے۔کہا گیا: اس سے بھی زیادہ شدید کیا ہے؟ دانا نے جواب دیا: کسی شریف کا کسی کمینے کے دروازے پر کھڑا ہونا اور اسے داخل ہونے کی اجازت نہ ملنا۔

      حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عباس علوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی ایک دن مامون الرشید کے دروازے پر آئے تو دربان نے ایک


 

نظر اُن پر ڈالی،پھر سرجھکایا اور کوئی بات نہ کی ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے ساتھ آئے ہوئے لوگوں سے فرمایا: اگر یہ ہمیں اجازت دے گا تو ہم داخل ہوں گے اور اگر واپس لوٹائے گا تو لوٹ جائیں گے اور اگر عذر بیان کرے گا تو ہم قبول کریں گے  لیکن دیکھنے کے بعد انتظار کرنااور پہچاننے کے بعد انجان بننا سمجھ سے بالا تر ہے۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے یہ شعر کہا:

وَمَا عَنْ رِضًى كاَنَ الْحِمَارُ مَطِيَّتِي

 

وَلٰكِنْ مَنْ يَّمْشِی سَيَرْضٰى بِمَا رَكِبْ

      ترجمہ:اُسے میرا گدھے پر سوار ہونا پسند نہ آیا مگر پیادہ تو سوار سے جلد راضی ہوجاتا ہے۔

      پھر واپس لوٹ گئے ۔ جب مامون الرشید کو اس بارے میں خبر ہوئی تو اس نے دربان کی خوب پٹائی لگائی اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے لئے اچھے صلے اور سواری کے10جانوروں کا حکم دیا۔

ایک شاعر کا قول:

رَاَيْتُ اُنَاسًا يَسْرَعُوْنَ تَبَادُرًا                              اِذَا فَتَحَ الْبَوَّابُ بَابَكَ اُصْبُعًا

وَنَحْنُ جُلُوْسٌ سَاكِتُوْنَ رَزَانَةً                                         وَحِلْمًا اِلٰى اَنْ یُفْتَحَ الْبَابُ اَجْمَعًا

      ترجمہ:جب  دربان تیرا دروازہ انگلی برابر کھولتا ہے تو میں نے لوگوں کو ایک دوسرے پر جلدی کرتے دیکھا۔اور مکمل دروازہ کھولے جانے تک ہم سنجیدگی اور وقار کے ساتھ خاموش بیٹھے رہے۔

      ایک خراسانی شخص ابو دُلَفْ عجلی کے دروازے پر کھڑا ہوا جب اسے داخلے کی اجازت نہ ملی تو اس نے ایک رُقعہ لکھا اور اسے ابو دلف تک پہنچانے کے لئے بڑے میٹھے پن کا مظاہرہ کیا، اس میں لکھا تھا:

اِذَا كَانَ الْكَرِيْمُ لَهٗ حِجَابٌ                             فَمَا فَضْلُ الْكَرِيْمِ عَلَی اللَّئِيْم

      ترجمہ:جب  سخی سے ملاقات میں رُکاوٹ  ہوگی تو سخی  کو بخیل پر کیا فضیلت ہے؟

      یہ پڑھ کر ابو دُلَف نے ان الفاظ کے ساتھ جواب دیا:

اِذَا كَانَ الْكَرِيْمُ قَلِيْلَ مَالٍ                                          وَلَمْ يُعْذِرْ تَعَلَّلَ بِالْحِجَاب

وَاَبْوَابُ الْمُلُوْكِ مُحْجَبَاتٌ                                          فَلَا تَسْتَنْكِرَنَّ حِجَابَ بَابِی

      ترجمہ:جب سخی کے پاس  مال کم ہو اور اس کے پاس کوئی عذر نہ ہو تو وہ رکاوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ پھر جب بادشاہوں کے دروازوں پر رکاوٹیں ہیں تو تم میرے دوازے کی  رکاوٹ کو ہر گز بُرا نہ سمجھو۔


 

فرعون کو مہلت کیوں ملی؟

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلی بن ابو طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: فرعون کو دعوٰئے  اُلوہیت کرنے کے باوُجود مہلت اس لئے ملی کہ اس کے پاس لوگوں کا جانا آسان تھا اور وہ لوگوں کو کھانا کھلاتا تھا۔

آسمان کے دروازے بندہونا:

      حضرت سیِّدُنا عَمْرو بن مُرَّہ  جُہَنِی نے حضرت سیِّدُناامیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے کہا کہ میں نے حُضور نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سناہے:”جو حاکم حاجت مندوں ،غریبوں اور مسکینوں پر اپنا دروازہ بند کر دیتا ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اسکی حاجت، غربت اور محتاجی کے وقت اس پر آسمان کے دروازے بند کر دیتا ہے۔([3])

      ایک  شاعر کسی امیر کے پاس آیا، اسے روکا گیا تو اس نے کہا:

سَاَصْبِرُ اِنْ جَفُوْتَ فَكَمْ صَبَرْنَا                            لِمِثْلِكَ مِنْ اَمِيْرٍ اَوْ وَزِيْر

رَجَوْنَا هُمْ فَلَمَّا اَخْلَفُوْنَا                                              تَمَادَتْ فِيْهِمْ غِيَرُ الدُّهُوْر

فَبِتْنَا بِالسَّلَامَةِ وَهِيَ غُنْمٌ                                              وَبَاتُوْا فِي الْمَحَابِسِ وَالْقُبُوْر

وَلَمَّا لَمْ نَنَلْ مِنْهُمْ سُرُوْرًا                                          رَاَيْنَا فِيْهِمْ كُلَّ السُّرُوْر

      ترجمہ:(۱)… اگرتوزیادتی کرے گا تو  میں صبر کروں گا  تو ہم تیری طرح کے امیر یا وزیر کے لئے کتنا صبر کریں ۔ (۲)…ہم نے ان سے امید لگائی جب انہوں نے ہمیں پیچھے اٹھایا  تو حوادث زمانہ ان میں حد سے بڑھ گئے۔(۳)… ہم نے سلامتی کے ساتھ رات گزاری اور یہ مفت کی نعمت تھی جبکہ انہوں نے اپنی راتیں قید خانوں اور قبروں میں گزاریں ۔ (۴)…اور جب  ہمیں ان سے کوئی خوشی نہ ملی تو ہم نے ان کی حالت میں ساری خوشیاں دیکھیں ۔

جنت میں سونے کا محل:

      حضرت سیِّدُنا سعد بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے داخلے کی اجازت چاہی تو انہوں نے منع کر دیا،حضرت سیِّدُنا سعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاونچی آواز سے رونے لگے اور لوگ آپ کے پاس اکھٹے ہو گئے ان میں حضرت سیِّدُناکَعْب بن جُعَیْلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی تھے،انہوں نے پوچھا:اے سعد! کیوں روتے ہو؟ حضرت سیِّدُنا


 

سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: میں کیوں نہ روؤں !رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب میں سے بزرگوں کا وصال ہوتاجا رہاہےاورحضرت معاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاُمّت کےساتھ کھیل رہے ہیں ۔ حضرت سیِّدُنا کعب بن جُعَیْل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: آپ مت روئیں ، بے شک جنت میں سونے کے محل ہیں اور انہیں عدن کہا جاتا ہے  یہ شہدا اور صدیقین کے لئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہی میں سے ہیں ۔

بُرا  دربان:

      کسی شخص نے ایک شریف حاکم سے ملاقات کی اجازت چاہی لیکن اس کے دربان نے جو کہ بُرا آدمی تھا اُسے روکاتو اس نے کہا:

فِيْ كُلِّ يَوْمٍ لِيْ بِبَابِكَ وَقْفَةٌ                                             اَطْوِي اِلَيْهِ سَائِرَ الْاَبْوَابِ

وَاِذَا حَضَرْتُ وَغِبْتُ عَنْكَ فَاِنَّهُ                                            ذَنْبٌ عَقُوْبَتُهُ عَلَى الْبَوَابِ

      ترجمہ:میں سارےدروازےچھوڑکرہرروزتیرےدروازےپرآتاہوں ۔اگرمیں آؤں اورتجھ سےنہ ملوں تویہ ایساقصورہے جس کی سزادربان پرہے۔

حکمرانی  اور اس میں موجود بڑے خطروں کا ذکر:

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا داؤد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا:

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ۠(۲۶) (پ۲۳،صٓ:۲۶)

ترجمۂ کنز الایمان: اے داؤدبےشک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی بےشک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کےلئےسخت عذاب ہےاس پرکہ وہ حساب کےدن کو بھول بیٹھے۔

      تفسیر میں ہے کہ خواہش کی پیروی یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس دو فریق فیصلہ کے لئے آئیں توتم چاہو کہ حق اُس کے ساتھ ہوجس کے لئے تمہارے دل میں محبت ہے۔

حکمرانی نہ مانگو:

      حضرت سیِّدُنا عبدالرحمٰن بن سَمُرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سےحُضور نبی اکرم،نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اے عبدالرحمٰن!حکمرانی نہ مانگو، اگر تجھے بغیر مانگے عطا کی گئی تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر مانگنے سے عطا کی گئی تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔([4])

      حضرت سیِّدُنا مَعْقِل بن یَسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سنا:جسے رعایا کاحاکم بنایاجائےاوروہ خیر خواہی کے ساتھ اُن کی نگہبانی نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔([5])

      حدیث پاک میں ہے:جسےمسلمانو ں کے معاملات میں سے کسی بات کاوالی بنایا گیاپھراس نےخیرخواہی کےساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کیاجیسا اپنے اہل کا کرتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔([6])

حکومتی عہدہ قبول کرنے سے انکار:

      مروی ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمرفاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا عاصم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی طرف صدقے پر عامل ہونے کا پیغام بھیجا تو انہوں نے منع کرتےہوئےکہامیں نے سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب حکمران کو قیامت کے دن لایا جائے گا تو اسے جہنم کے پل پر کھڑا کیا جائے گا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ پل کو حکم دے گا تو پل اُسے ایسا جھٹکا دے گاجس سے اُس کے تمام اعضا اپنی جگہ سےالگ ہوجائیں گےپھر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہڈیوں کو حکم دے گاتو وہ اپنی جگہ پر آجائیں گی، اگر وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا فرماں بردارہوگا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کا ہاتھ اپنے دست قدرت میں لے گا اور اسے اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا فرمائے گا،اگر وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا نافرمان ہوگا تو پُل ٹوٹ  جائے گا اور وہ 70سال کی مسافت کی گہرائی میں جا گرے گا۔“([7])یہ سن کر امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: تم نے حضور جان عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے وہ بات سنی ہے جو میں نے نہیں سنی۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی:”جی ہاں ۔“

 حضرت سیِّدُناسلمان فارسی اورحضرت سیِّدُناابوذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت سیِّدُنا سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےعرض کی: اے عمر!خدا کی قسم!70 کے ساتھ مزید 70سال ایسی وادی میں گرے گا جو شعلے مارتی ہوگی۔حضرت


 

 سیِّدُناعُمَرفاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اورکہا:”اِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّااِلَيْهِ رَاجِعُوْن([8])جب ولایت میں یہ معاملہ ہے تو پھر اس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟“ حضرت سیِّدُنا سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کہا: اس کی ذمہ داری وہ لے گا جس کی ناک اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کاٹ کر اس کا چہرہ خاک آلود کر دے۔

       ایک شخص رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرے والد پانی پرحاکم ہیں اور میں درخواست کرتا ہوں کہ ان کے بعد مجھےحاکم بنایا جائے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”حکمران جہنم میں ہیں ([9])۔“([10])

بروز قیامت سب سے سخت عذاب:

       حضرت سیِّدُنا ابو سعید خُدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم،شفیع مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بروزِ قیامت لوگوں میں سب سے سخت عذاب ظالم بادشاہ کو ہوگا۔([11])

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا کہ میں نے رحمتِ عالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سنا:قیامت کے دن انصاف کرنے والے قاضی کو لایا جائے گا اور اُس سے اس قدر سختی سے حساب لیا جائے گا کہ وہ تمنا کرے گا: کاش! میں نے دو لوگوں کے درمیان ایک کھجور کا بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔([12])

       حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ حُضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیِّدُنا عبدالرحمٰن بن سَمُرَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بلایا اورعامل بناناچاہاتوانہوں نےعرض کی:یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میرے لئےکیابہترہے؟ارشادفرمایا:”اپنےگھرمیں بیٹھے رہو۔“([13])


حضرت سیِّدُناابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتےہیں :جوشخص10لوگوں پربھی امیرمقررہواوہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے پھر وہ اپنے اچھے اعمال کے سبب نجات پائے گا یا بُرے اعمال کے سبب ہلاک ہو گا۔

سلیمان بن عبد الملک کاگریہ:

      حضرت سیِّدُناامام  طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  خلیفہ سلیمان بن عبدالملک سے فرمایا: اے امیرالمؤمنین! کیا آپ جانتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سخت عذاب کس کو  ہوگا؟ سلمان نےپوچھا: بتاؤ کس کو ہوگا؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے شدید عذاب اس شخص کو ہو گا  جسے اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے بادشاہت میں سے حصہ دیا پھر اس نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کےحکم کی خلاف ورزی کی۔ یہ سن کر سلیمان روتے ہوئے اپنے تخت پر لیٹ گیا  اور روتا رہا حتّٰی کہ اس کے پاس بیٹھے ہوئے لوگ اُٹھ کر چلے گئے۔

      حضرت سیِّدُناامام ابنِ سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: کچھ بچے حضرت سیِّدُنا ابو عُبَیْدہ  سلمانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے پاس آئے اور انہیں اپنی تختیاں دیکھائیں کہ عمدہ کون سی ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ان کی طرف نظر نہ کی اور فرمایا:  یہ فیصلہ ہے اور میں کبھی فیصلہ کرنے والا نہیں بنوں گا۔

33 مرتبہ قسم:

      حضرت سیِّدُنا ابو بکر بن مریم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:ایک قوم حج کرنے گئی، ان کے ایک ساتھی کا ایک ویرانے میں انتقال ہو گیا ،انہیں وہاں غسل کے لئے پانی نہ ملا، اتنے میں وہاں ایک شخص آیا تو لوگوں نے اس سے کہا:ہمیں پانی کے بارے میں بتائیں ۔اس شخص نے کہا:33مرتبہ قسم کھا کر گواہی دو کہ  یہ شخص صرّاف (سنّار)([14]) نہیں تھا، مَکّاس ([15])نہیں تھا اور عریف([16]) نہیں تھا۔ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں :”عَرّاف نہیں تھا اور ڈاک پہنچانے والا نہیں تھا “تو میں تمہیں پانی کے بارے میں بتاؤں گا۔انہوں نے ان باتوں پر 33 مرتبہ قسم کھائی اور گواہی دی تو اس شخص نے ان لوگوں کی  میت کے


 

 غسل پر مدد کر دی۔ پھر انہوں نے کہا: آپ آگے آئیں اور اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں ۔ اس شخص نے کہا: نہیں جب تک کہ تم لوگ گزشتہ باتوں پر  33 مرتبہ قسم نہ کھاؤ۔  انہوں نے قسم کھائی تو اس شخص نے  نماز جنازہ پڑھا دی۔ لوگ ان کی طرف متوجہ  ہوئے تو وہاں کسی کو نہ پایا  تو ان لوگوں نے کہا  کہ یہ حضرت سیِّدُنا خضر عَلَیْہِ السَّلَام تھے۔

کبھی والی نہ بننا:

      حضرت سیِّدُناابوذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتےہیں کہ سرکارِمدینہ،قرارِقلب وسینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! میں تیرے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں اور میں تجھے کمزور خیال کرتا ہوں لہٰذا تم کبھی دو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا نہ یتیم کے مال پر والی بننا۔([17])

حکایت: بادشاہ اور وزیر

      منقول ہے کہ ملک فارس کا ایک بادشاہ اَرْدَشِیْر تھا اس کی سلطنت بہت وسیع تھی اور اس کے پاس بہت سارے جنگجو سپاہی تھے۔ کسی نے اسے بتایاکہ اردن کے  بادشاہ کی بیٹی انتہائی حسین و جمیل، کنواری اور باپردہ ہے لہذا اردشیر نے اس کے باپ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، اس بادشاہ نے اردشیر کی بات قبول کرنے سے انکار کر دیا اور نکاح پر راضی نہ ہوا، یہ بات اردشیر کو بہت بُری لگی اور اس نے بڑی سخت قسمیں کھائیں کہ وہ اس بادشاہ سے جنگ کرے گا اور دونوں باپ بیٹی  کو بڑی اذیت ناک موت مارے  گا اور ان کا بہت بری طرح سے مُثْلَہ کرے گا، اردشیر نے اس پر لشکر کشی کی اور بادشاہ اور اس کے تمام مقربین کو قتل کرنے کے بعد اس لڑکی کے بارے میں پوچھا جس کے لئے اس نے پیغام بھیجا تھا تو اس کے پاس محل سے ایک لونڈی کو لایا گیا جو عورتوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور اپنے حسن و جمال، وقار اور معتدل ہونے کے اعتبار سے کامل تھی، اردشیر اسے دیکھ کرحیران ہوگیا۔ اس لڑکی نے کہا: اے بادشاہ !میں فلاں شہر کے بادشاہ   کی بیٹی ہوں اور جس بادشاہ کو تم نے قتل کیا ہے اس نے ہمارے ملک میں لشکر کشی کی اور میرے والد اور ان کے ساتھیوں کو  قتل کیا اور  مجھے دیگر قیدیوں کے ساتھ قیدی بنا کر اس محل میں لے آیا۔ اس کی بیٹی جس کو تم نے نکاح کا پیغام بھیجا تھا اس نے مجھے دیکھا تو اس کے دل میں میرے لئے محبت پیدا ہو گئی اور اس نے اپنے باپ سے کہا: اسے میرے پاس چھوڑ دو تاکہ میں اس سے اُنسیت حاصل کروں تو اس نے مجھے اس کے پاس چھوڑ دیا تو میں اور وہ ایسے رہنے لگے گویا  ایک ہی جسم میں


 

 دوروحیں ہوں ۔ جب تم نے اس کے لئے نکاح کا پیغام بھیجا تو بادشاہ  اپنی بیٹی کے بارے میں تم سے خوفزدہ ہوا لہٰذا بادشاہ نے اپنی بیٹی کو بَحْرِمِلْح کے ایک جزیرے میں اپنے ایک مقرب کے پاس بھیج دیا ۔ اردشیر نے کہا: میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر میں اس پر غلبہ پا لوں تو اسے بُرے طریقے سے قتل کروں ۔

      پھر اردشیر نے اس لونڈی کے بارے میں غور کیا تو اسے حسن و جمال میں سب سے زیادہ خوبصورت پایا، اردشیر کا دل لونڈی کی طرف مائل ہو گیااورا سےنکاح کے لئے اپنے پاس رکھ لیا اور سوچا کہ اس کا کوئی تعلق بادشاہ سے نہیں ہے لہٰذا اسے نکاح میں لینے سے میری قسم نہیں ٹوٹے گی۔ پھر اردشیر نے اس باکرہ کے ساتھ وطی کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی، جب لڑکی کو اپنے حاملہ ہونے کا علم ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی دن اردشیر کو حقیقت بتادے گی، جب لڑکی نے اردشیر کو مطمئن دیکھا تو کہا: تو نے میرے باپ پر غلبہ حاصل کیا اور میں نے تجھ پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اردشیر نے کہا: تمہارا باپ کون ہے؟ لڑکی نے جواب دیا: بحر اردن کا بادشاہ میرا باپ ہے اور میں اس کی وہی بیٹی ہوں جس کے لئے تو نے نکاح کا پیغام بھیجا تھا، جب میں نے سنا کہ تو نے مجھے قتل کرنے کی قسم کھائی ہے تو میں نے تیرے ساتھ حیلے سے کام لیا اور اب تیرا بچہ میرے پیٹ میں ہے اور اب مجھے قتل کرنا تیرے لئے آسان نہیں ، یہ بات اردشیر کو بہت ناگوار گزری کہ ایک عورت نے اس پر غلبہ پا لیا اور اس کے ساتھ ایسا حیلہ کیا کہ اس کے چنگل سے بچ گئی اس نے اسے جھڑکا اور غصہ کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا اور اس کے قتل پر کمر بستہ ہو گیا پھرا س نے اپنے وزیر سے اس لڑکی کے دھوکے کا ذکر کیا، جب وزیر نے دیکھا کہ بادشاہ نے اسے قتل کرنے کا پکا ارادہ کر لیا ہے تو اسے خوف لاحق ہوا کہ بادشاہ کے بارے میں کوئی ایسی گفتگو کرے اور یہ کہ اس لڑکی کے حق میں کسی کی سفارش قبول نہیں کی جائے گی تو اس نے بادشاہ سے کہا: میں آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں اور مصلحت کا تقاضا بھی وہی ہے جو آپ چاہتے ہیں اور اس لڑکی کو اسی وقت قتل کروانا ہی بہتر ہے اور یہ بالکل درست ہے اور یہ بہت ضروری ہے اس سے پہلے کہ یہ بات مشہور ہو: ”ایک عورت بادشاہ کی عقل پر غالب ہوگئی اور اپنی شہوت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بادشاہ نے اپنی قسم توڑ دی۔ “پھر وزیر نے کہا: اے بادشاہ! اس کی صورت قابل رحم ہے اور بادشاہ کی اولاد اس کے پیٹ میں ہے لہٰذا اس بات کو پوشیدہ رکھنا ہی بہتر ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ ڈُبو کر مارنے کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس کا قتل پوشیدہ رہ سکے تو بادشاہ نے اس سے کہا: تمہاری رائے بہت اچھی ہےتم اسےلےجاؤاورپانی میں ڈُبو دو۔ وزیر رات کے وقت اس لڑکی کو لے کر بحر اردن کی طرف نکلا اور اس کے ساتھ


 

روشنی ، کچھ افراد اور مدد گار تھے، پھر اس نے یہ تدبیر کی کہ کوئی چیز سمندر میں پھینک دی ساتھ والوں کو گمان ہوا کہ لڑکی کو سمندر میں ڈالا گیا ہے اور اس لڑکی کو اپنے پاس چھپا لیا۔ جب صبح ہوئی تو وزیر نے بادشاہ کو خبر دی کہ اس نے لڑکی کو ڈُبو دیا ہے۔ بادشاہ نے اس کام پر وزیر کا شکریہ ادا کیا۔ پھر وزیر نے بادشاہ کو ایک مہر لگی ڈبیہ دے کر کہا: اے بادشاہ! میری عمر کافی ہو گئی ہے اور فارس کے نجومیوں کے مطابق میری موت کا وقت بھی قریب ہے اور میری اولاد ہے اور میرے پاس کچھ مال ہے جو میں نے تیرے انعام کرنے سے جمع کر رکھا ہے، یہ ڈبیہ تم رکھ لو میرے مرنے کے بعد اسے دیکھنا اس میں ایک راز ہے۔ میں بادشاہ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرا ترکہ میری اولاد میں برابر تقسیم کر دیا جائے  کیوں کہ یہ وہ ترکہ ہے جو مجھے میرے باپ کی وراثت سے ملا، اور میری اپنی کمائی میں سے  اس راز کے سوا میرے پاس کچھ نہیں ۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّتمہاری عمر میں برکت دے یہ مال تمہارا اور تمہاری اولاد ہی کا ہے چاہے تم زندہ رہو یا انتقال کر جاؤ۔ وزیر نے بادشاہ سے اصرار کیا کہ وہ یہ ڈبیہ اپنے پاس امانت رکھ لے۔ لہٰذا بادشاہ نے وہ ڈبیہ لی اور اسے اپنے پاس ایک صندوق میں رکھ لیا۔ پھر چند ماہ گزرنے کے بعد اس لڑکی کے ہاں ایک خوبصورت لڑکے کی ولادت ہوئی گویاکہ چاند کا ٹکڑا ہو۔ وزیر نے اس کا نام رکھنے میں ادب کو ملحوظ رکھا اور سوچا کہ میں اس کا نام اسکی شان کے مطابق رکھوں اور یہ خلاف ادب ہو گا جب اس کے باپ کو یہ بات پتا چلے گی اور اگر میں اس کا نام نہ رکھوں تو وہ اس پر بھی آمادہ نہیں ہوگالہٰذا وزیر نے بچے کا نام شاہ بور رکھا۔

      ”شاہ بور“فارسی زبان کالفظ ہےاوراس کامعنیٰ”بادشاہ کا بیٹا“ہے۔”شاہ“کامعنیٰ”بادشاہ“اور”بور“کا معنیٰ”بیٹا“ ہے۔

”ابن ملک“یہ عربوں کی لغت پر مبنی ہے جو مؤخر کو مقدم اور مقدم کو مؤخر کرتے ہیں ۔ اور یہ نام رکھنے میں کوئی مواخذہ بھی نہیں ہے۔ وزیر نے اس لڑکی اور اس کے بیٹے کے ساتھ شفقت و مہربانی جاری رکھی یہاں تک کہ لڑکا تعلیم حاصل کرنے کی عمر تک پہنچ گیاوزیر نے اس لڑکے کو وہ تمام امور سکھائے جو بادشاہ کی اولاد کے لئے ضروری ہوں مثلاً  خط و کتابت، حکمت، گھوڑ سواری وغیرہ یہ گمان کرتے ہوئے کہ یہ بادشاہ کا بیٹا ہے اور اس کا نام بھی ”شاہ بور“ہے حتّٰی کہ لڑکا ان سب کے ساتھ بالغ ہونے کی عمر کو پہنچ گیا۔ اردشیر کا کوئی بیٹا نہیں تھا  اور بڑھاپے نے اس کو اپاہج کر دیا اور وہ بیمار ہو گیا اور موت کے قریب پہنچ گیا۔ تو بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا: اے وزیر! میرا جسم اپاہج ہو گیا میری طاقت ختم ہو گئی اور میں جانتا ہوں کہ میں ضرور مر جاؤں گا تو میرے بعد بادشاہ کون ہو گا اور فیصلے کون کرے گا؟ وزیر نے کہا: اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے


 

چاہا تو بادشاہ کا بیٹا ہو گا اور وہی بادشاہ کے بعد بادشاہ ہوگا۔ پھر وزیر نے بحر اردن کے بادشاہ کی بیٹی اور اس کے حاملہ ہونے کا ذکر کیا۔ تو بادشاہ نے کہا: میں اس کے غرق کرنے پر نادم ہوں ، اگر وہ زندہ ہوتی یہاں تک کہ بچے کو جنم دیتی تو شایداس سے لڑکا پیدا ہوتا۔ جب وزیر نے دیکھا کہ بادشاہ رضامند ہے تو کہا: اے بادشاہ! وہ لڑکی زندہ ہے اور میرے پاس ہے اور اس نے ایک ایسے لڑکے کو جنم دیا ہے جو لڑکوں میں صورت اور سیرت کے اعتبار سے بہت خوبصورت ہے۔ بادشاہ نے کہا: کیا تو سچ کہتا ہے؟وزیر نے قسم کھا کر کہا: جی ہاں میں سچ کہتا ہوں ،  پھر کہا: اے بادشاہ! بیٹے میں ایک ایسی صفت ہوتی ہے جو اس کے بیٹا ہونے کی گواہی دیتی ہے اور باپ میں ایک ایسی صفت ہوتی ہے جو اس کے باپ ہونے کی گواہی دیتی ہے اور یہ معاملہ تو ثابت شدہ ہے اس میں کوئی شک ہے نہ غلطی۔ میں اس لڑکے کو 20لڑکوں کے ساتھ لاؤں گا جن کی عمر ، صورت اور لباس ایک جیسا ہوگااور وہ سب اچھے خاندان سے ہوں گے اور وہ ان میں تنہا ہو گا اور میں ان میں سے ہر ایک کوہاکی اور گیند دوں گا اور انہیں کہوں گا کہ وہ تیرے سامنے تیری اس مجلس میں کھیلیں اور بادشاہ ان کے چہرے، ان کے اخلاق اور عادات میں غور کرے اور ان میں سے جس کی طرف بادشاہ کا دل مائل ہو اور بیٹے والی صفت ہو تو وہی اس کا بیٹا ہوگا۔ بادشاہ نے کہا: تیری بتائی ہوئی تدبیر تو بہت عمدہ ہے۔ وزیر نے لڑکوں کو اسی صورت میں حاضر کردیا اور وہ بادشاہ کے سامنے کھیلنے لگے تو ان میں سے جو بھی لڑکا گیند کو مارتا اور گیند بادشاہ کے قریب گرتی تو وہ خوف کی وجہ سے گیند لینے نہ جاتا سوائے شاہ بور کے اس لئے کہ وہ جب گیند کو مارتا گیند اس کے باپ کے قریب گرتی تو  وہ بغیر کسی خوف کے اٹھا لاتا۔ اردشیر اس کے آنے جانے کو دیکھتا رہا اور بولا: اے لڑکے تیرا نام کیا ہے؟ لڑکے نے جواب دیا: میرا نام ”شاہ بور“ ہے۔ بادشاہ نے کہا: تو نے سچ کہاتو ہی میرا بیٹا ہے، پھر بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے قریب کیا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ وزیر نے بادشاہ سے کہا: اے بادشاہ! یہ تیرا ہی بیٹا ہے۔ پھر باقی بچے  اور ان کے والد ایک طرف ہو گئے  تو بادشاہ کے پاس آنے والے سب بچوں کا اپنے باپوں کے ساتھ ہونا ثابت ہو گیااور شاہ بور کا بادشاہ کا بیٹا ہونا متحقق ہوگیا پھر وہ لڑکی بھی آگئی اس حال میں کہ اس کا حسن و جمال کم ہو گیا تھا اس نے بادشاہ کے ہاتھ کو بوسہ دیا تو بادشاہ اس سے راضی ہوگیا۔ وزیر نے کہا: اے بادشاہ! اس وقت اس مہر لگی ڈبیہ کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ بادشاہ نے وہ ڈبیہ منگوائی تو وزیر نے وہ ڈبیہ لے کر اس کی مہر توڑی اور اسے کھولاتو اس میں وزیر کاعضوخاص تھا،پھر ان حکما کو حاضر کیا جو اس کے ساتھ اس کام میں شامل تھے تو انہوں نے گواہی دی کہ لڑکی سپرد کرنے سے ایک رات پہلے انہوں نے یہ کام کیا تھا۔ اردشیر بادشاہ کے ہوش اُڑگئے اور


 

  وزیر کی خدمت،قوت نفس اور شدید ہمدردی سے حیران رہ گیا  اور اس کی راحت میں اضافہ ہوگیا اور لڑکی کے بچ جانے اور بیٹے سے نسب ثابت ہونے اور اس سے ملنے کی وجہ سے اس کی خوشی دُگنی ہو گئی۔ پھر بادشاہ اپنی بیماری سے صحت یاب ہو گیا اور اس کا جسم بھی ٹھیک ہو گیا اور وہ اپنے بیٹے کے سبب خوش رہا اور اس کی خوشی میں کمی نہ آئی حتّٰی کہ اس کا انتقال ہوگیااور بادشاہ کے انتقال کے بعد بادشاہت اس کے بیٹے شاہ بور کے پاس آگئی اور وہ وزیر اردشیر بادشاہ کے بیٹے کی بھی خدمت کرتا رہا اور شاہ بور بھی وزیر کے مقام و مرتبہ کی حفاظت و رعایت کرتا رہا حتّٰی کہ اس وزیرکاانتقال ہوگیا۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر18:     قضا،قاضیوں ،فیصلے پر رشوت وتحفہ لینے،قرض،

قصہ گو لوگوں اور بناوٹی صوفیاکا بیان

(اس باب میں چند فصلیں ہیں )

پہلی فصل:                                                          قضا ،قاضیوں کے احوال اوراُن پرواجب امور کا بیان

قضا کے متعلق تین فرامینِ باری تعالیٰ:

﴿1﴾…

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ۠(۲۶) (پ۲۳،صٓ:۲۶)

ترجمۂ کنز الایمان: اے داؤدبےشک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی بےشک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کےلئےسخت عذاب ہےاس پرکہ وہ حساب کےدن کو بھول بیٹھے۔

﴿2﴾…

فَاحْكُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَ لَا تُشْطِطْ (پ۲۳،صٓ:۲۲)                                               ترجمۂ کنز الایمان:تو ہم میں سچا فیصلہ فرما دیجئے اور خلاف ِ حق نہ کیجئے۔

﴿3﴾…

وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ

ترجمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی


 

 الظّٰلِمُوْنَ(۴۵) (پ۶،المآئدة:۴۵)

لوگ ظالم ہیں ۔

       حضور نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو ایسے دو لوگوں کے درمیان قاضی بنے جو اس کے پاس فیصلہ لے کر آئیں اور اس پر راضی ہوں پھر وہ ان کے درمیان ناحق فیصلہ کرےتو اس پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی لعنت ہے۔([18])

بوقتِ فیصلہ صدیقِ اکبر کی بھرپورتوجہ:

       حضرت سیِّدُناامام ابو حازم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا عمرفاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس  آئے اور سلام کیا تو حضرت سیِّدُنا ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواب نہ دیا۔ یہ دیکھ کرحضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے  حضرت سیِّدُنا عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا:  مجھے خوف ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خلیفہ مجھ سے ناراض ہیں ۔ حضرت سیِّدُنا عبدالرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے اس بارے میں کلام کیا تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: وہ میرے پاس اُس وقت آئے جب میرے سامنے دو لوگ فیصلے کے لئے موجود تھے اور میرا دل، میری سماعت اور میری بصارت ان کی طرف متوجہ تھی اور میں جانتا ہوں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ مجھ سے ان کے بارے میں سوال کرے گا کہ انہوں نے کیا کہا اور میں نے کیا جواب دیا۔

علی کیوں نہ کہا؟

       ایک شخص نے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر دعوی دائر کیا۔ حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم بیٹھے ہوئے تھے حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے ابو الحسن! کھڑے ہو جائیں اور اپنے مخالف کے ساتھ بیٹھ جائیں اور بات چیت کر لیں ۔ وہ شخص چلا گیا اور حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اپنی جگہ پر لوٹ آئے۔حضرت سیِّدُناعمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا چہرہ متغیر دیکھا تو فرمایا:اے ابو الحسن! کیا بات ہے میں تمہارا چہرہ متغیر دیکھتا ہوں ، جو کچھ ہوا ہے کیا تمہیں بُرا لگا ہے؟ حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی:”جی ہاں ۔“ حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پوچھا:کس وجہ سے؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے


 

عرض کی: جب میرا مخالف آیا تو آپ نے مجھے کنیت سے پکارا یہ کیوں نہ کہا کہ اے علی کھڑے ہو جاؤ اور اپنے مخالف کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا سر پکڑ کر دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا پھر فرمایا: میرا باپ تم پر قربان! تم ان میں سے ہو جن کے سبب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ہم کو ہدایت دی اور اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا۔

      حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: قاضی صاف شفاف سمندر میں غرق ہونے والے کی مثل ہے اگرچہ تیرنا جانتا ہو  آخر کب تک تیرے گا؟

کوڑوں کی ضرب آسان ہے:

      عُمْربنہُبَیْرہ نے حضرت سیِّدُنا امام اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکوعہدہ قضادینا چاہاتوآپ نےانکارکردیاتوعمر بن ہبیرہ نے قسم کھائی کہ آپ کو کوڑے مارے گا اور قید کرے گا۔ چنانچہ اس نے آپ کو کوڑے مارے جس سے آپ کاچہرہ اورسر زخمی ہو گیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: دنیا میں کوڑوں کی ضرب مجھے آخرت میں لوہے کے گُرزوں سے زیادہ آسان ہے۔

عاد بن اِرَم کی تلوار:

      حضرت سیِّدُناعبدالملک بن عمیررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یمن کےایک شخص سےنقل کرتے ہیں :امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دورِ خلافت میں ہم نے یمن پر لشکر کشی کی تو ہم پر ایک بند دروازہ ظاہر ہوا اور ہم نے گمان کیا کہ اس میں خزانہ ہے  تو ہم نے امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو خط لکھا۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ہمیں جواب دیا: اس دروازے کو نہ کھولنا جب تک کہ میرا خط تمہیں نہ مل جائے۔ پھر ہم نے اس دروازے کو کھولا تو چارپائی پر ایک شخص تھاجس کےجسم پرسونےبُنے 70 حُلّے تھے، اس کے سر کے پاس انتہائی سبز رنگ کی ایک تلوار رکھی تھی جس پر لکھا تھا یہ تلوار عاد بن ارم کی ہے اور اس کے سیدھے ہاتھ میں ایک تختی تھی جس پر یہ دو شعر لکھے تھے:

اِذَا خَانَ الْاَمِيْرُ وَكَاتِبَاهٗ                               وَقَاضِيُ الْاَرْضِ دَاهِنٌ فِي الْقَضَاءِ

فَوَيْلٌ ثُمَّ وَيْلٌ ثُمَّ وَيْلٌ                                    لِقَاضِيِ الْاَرْضِ مِنْ قَاضِيِ السَّمَاءِ

      ترجمہ:جب امیر اور اس کا  کاتب خیانت کریں اور  زمین کا قاضی فیصلہ کرنےمیں نرمی برتےتو ہلاکت ہے پھر ہلاکت پھر ہلاکت زمین کے قاضی کے لئے آسمان کے قاضی کی جانب سے۔


 

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا ساتھ:

       حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن ابو اوفٰیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سَر وَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے اور جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس سے بَری ہوتا ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔([19])

       حضرت سیِّدُنا محمد بن حُریث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :  مجھے خبر ملی  کہ حضرت سیِّدُنا نصر بن علی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی کو دھوکے سے بصرہ کا قاضی بنادیا گیا تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے اور وہ ان کو کوئی جواب نہ دیتے جب لوگوں کااصرار بڑھ گیا تو وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے اورچت لیٹ کر منہ پر چادر ڈال لی اور دعا مانگنے لگے:اےاللہ عَزَّ  وَجَلَّ!توجانتاہےکہ مجھ پریہ معاملہ بوجھ ہےلہٰذاتومیری روح قبض فرمالے،پس ان کا انتقال ہو گیا۔

لوگوں کے لئے پُل:

       حضرت سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ سَیِّدِعالَم، نُورِ مُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: قاضی لوگوں کے لئے پُل ہوں گے اور لوگ قیامت کے دن ان کی پیٹھوں پر سے گزریں گے۔([20])

       حضرت سیِّدُنا حَفْص بن غیاث رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنے قضا کے مسائل پوچھنے والے شخص سے کہا: شاید تم قاضی بننا چاہتے ہو، بندہ اپنی انگلی اپنی آنکھوں میں ڈالے اور ڈھیلوں کو نکال کر پھنک دے یہ کام قاضی بننے سے بہتر ہے۔

پہلا ظالم قاضی:

       منقول ہے کہ سب سے پہلے قضا میں جس نے ظلم ظاہر کیا وہ بلال بن ابو بُردہ ہے  یہ بصرہ کا امیر اور قاضی تھا اور کہا کرتا تھا: میرے پاس جو بھی دو شخص فیصلہ لے کر آئیں گے ان میں سے میں جس کے لئے اپنے دل میں آسانی پاؤں گا اس کے حق میں فیصلہ دوں گا۔

قاضی یحییٰ بن اکثمعَلَیْہِ الرَّحْمَہکی انصاف پسندی:

       ایک مرتبہ مامون الرشید حضرت سیِّدُنا قاضی یحییٰ بن اَکْثَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی عدالت میں ایک شخص کے ساتھ


 

پیش ہوا جس نے مامون پر 30 ہزار دینار کا دعوٰی کیا تھا۔وہاں مامون کے بیٹھنے کے لئے مصلّی بچھایا گیا توحضرت سیِّدُنا قاضی یحییٰرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مامون سے کہا:اپنے فریق کے مقابل مجلس میں بَرتری حاصل نہ کرو۔اس شخص کے پاس چونکہ کوئی گواہ نہ تھا لہٰذا قاضی نے چاہا کہ مامون قسم اٹھائے۔پس مامون نے اُسے 30ہزار دینار دے دیئے اور کہا:بخدا! یہ دینار میں نے تجھے اس وجہ سے دیئے ہیں کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ میں نے تجھ سے یہ دینار اپنی طاقت کے سبب لئے ہیں ۔پھر مامون نے قاضی یحییٰرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے لئے مال کا حکم دیا اور خوب انعام واکرام سے نوازا۔

اس غلام کو بیچ دو:

      خلیفہمُعْتَضِدبِاللہکاایک معززغلام حضرت سیِّدُناابویوسف بن یعقوبرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےپاس فیصلہ کے لئے آیااور اپنے مخالف سے بلند جگہ پر بیٹھ گیا تو دربان نے اسے اس کام سے روکا لیکن اس نے قبول نہ کیا۔ حضرت ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےفرمایا:کھڑے ہوجاؤ،تمہیں کہا جاتا ہے کہ مجلس میں اپنے فریق کےساتھ بیٹھو اور تم منع کرتے ہو۔ اے لڑکے! عَمْرو بن ابو عَمْرو نَحاس کو جلدی سے میرے پاس لے آؤ اور اگر وہ اسی وقت آجاتا ہے تو اسے میرا یہ حکم ہے کہ وہ اس غلام کو بیچ دے اور اس کی قیمت خلیفہ کو بھیج دے۔ پھر دربان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کوفریق مخالف کے برابر کھڑا کر دیا۔ جب فیصلہ ہو گیا تو وہ خادم خلیفہ کے پاس گیا اور اس کے سامنے رونے لگا اور واقعہ کی خبر دی۔ خلیفہ نے کہا: اگر وہ تجھے بیچ دیتے تو میں یہ بیع جائز قرار دے دیتا اور تجھے اپنی ملکیت میں نہ لوٹاتا۔تیرا مقام میرے نزدیک فیصلے میں فریقین کے مساوی ہونے کے رُتبہ کے برابر بھی نہیں ۔کیونکہ یہ معاملہ دین و سلطنت کو قائم رکھتاہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بہتر جانتا ہے۔

امام شعبیعَلَیْہِ الرَّحْمَہ اور اشجعی شاعر:

      ایک خوبصورت عورت امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے پاس آئی اور دعوٰی کیا،آپ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تو ہُذیْل اَشجَعِی شاعر نے کہا:

فَتِنَ الشَّعْبِي لَمَّا                                         رَفَعَ الطَّرْفَ اِلَيْهَا

فَتَنَتْهُ بِبَنَانٍ                                                            كَيْفَ رُؤْيَا مِعْصَمِيْهَا

وَمَشَتْ مَشْيًا رُوَيْدًا                                                   ثُمَّ هَزَّتْ مَنْكِبَيْهَا

فَقَضٰي جَوْرًا عَلَى الْخَصْمِ                                            وَلَمْ يَقْضِ عَلَيْهَا


 

       ترجمہ:(۱)… شعبی نے جب اس کی طرف نگاہ اٹھائی تو فتنہ میں مبتلا ہوگئے۔(۲)ابھی تو انگلی کا پورا دیکھا ہے اگر کلائی دیکھ لیتے تو کیا حال ہوتا۔(۳)وہ آہستہ سے چلتی ہوئی آئی پھر اپنے کندھوں کو ہلایا۔ (۴)قاضی نے ظلم سے کام لیتے ہوئے مدمقابل کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور اس عورت کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا۔

       یہ اشعار لوگوں میں پھیل گئے اورلوگ اسے ایک دوسرے کو سنانے لگے حتّٰی کہ امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے ہذیل اشجعی کو 30کوڑے لگائے۔

       امام عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے منقول ہےکہ ایک دن امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ہمارے ساتھ مجلس قضا سے لوٹےتو ایک خادمہ کے پاس سے گزرے جو کپڑے دھوتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی:”فَتِنَ الشَّعْبِي لَمَّا“اور اس کا تکرار کر رہی تھی باقی شعر اسے یاد نہیں تھا ،یہ سن کر امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس سے قریب ہوئے  اور کہا:”رَفَعَ الطَّرْفَ اِلَيْهَا“ پھر کہا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس شاعر کو ہلاک کرے میں نے ہمیشہ حق کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

دوسری فصل:        فیصلے پر رشوت و تحفہ لینے اور قرض کا بیان

رشوت کی مذمت:

       حُضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”لَعَنَ اللهُ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِي یعنی رشوت دینے اور لینے والے پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّنےلعنت فرمائی  ہے۔“([21])

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمرفاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : یہود و نصاری ٰکو والی نہ بناؤ کہ وہ رشوت  لیتے ہیں اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے دین میں رشوت حرام ہے۔

       شہیدی کہتے ہیں کہ  آج ہمارے اصحاب ان یہودو نصارٰی سے رشوت لینے کے لئے آتےہیں ۔

       نوابغ الحکم میں ہے کہ رشوت خور بیہودہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔

       امامُ النَّحومُبَرَّد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شعر کہا:

وَكُنْتُ اِذَا خَاصَمْتُ خَصْمًا كَبَبْتُهٗ                                                                                        عَلَى الْوَجْهِ حَتّٰى خَاصَمَتْنِي الدَرَاهِمُ

فَلَمَّا تَنَازَعْنَا الْخُصُوْمَةَ غَلَبَتْ                                       عَلَیَّ وَقَالَتْ قُمْ فَاِنَّكَ ظَالِمُ


 

       ترجمہ:میں جب بھی جھگڑا تو اپنے فریق کو پچھاڑ دیا حتّٰی کہ دراہم میرے آڑے آگئے ، پس  جب ہم نے مقدمہ جیتنا چاہا تو دراہم مجھ پر غالب آگئے اور بولے:اٹھو یہاں سے تم ظالم ہو۔

قرض کابیان:

       ہم قرض اور ظالم لوگوں کے غلبہ سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی پناہ مانگتے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا ابو  امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرضہ لے اور اس کے دل میں اس کی ادائیگی کا ارادہ ہوپھر وہ ادا کئے بغیر مر جائےتو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کو معاف کر دے گا اور اس کے قرض خواہ کو اس کی خواہش کے مطابق راضی کر دے گا اور جو قرض لے اور اس کے دل میں اس کی ادائیگی کا ارادہ نہ ہو اور وہ بغیرادا کیے مر جائےتو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ قیامت کے دن اس کے قرض خواہ کو  اس سے بدلہ دلوائے گا۔([22])

میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کی فضیلت:

       حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتےہیں کہ بارگاہِ رسالت میں جب کوئی جنازہ لایاجاتاتورسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس کےعمل کےبارےمیں کچھ نہ پوچھتے،صرف قرض کےمتعلق پوچھتے،اگرکہا جاتاکہ اس پر قرض ہےتوآپ اس کی نماز جنازہ  پڑھنےسےرُک جاتےاوراگرکہاجاتاکہ اس پرقرض نہیں ہےتواس کی نمازجنازہ پڑھتے۔ ایک مرتبہ ایک جنازہ لایاگیاجب آپ اس پرجنازےکی تکبیرکہنےکےلئےکھڑےہوئےتوارشادفرمایا:کیاتمہارے ساتھی پرقرض ہے؟لوگوں نےعرض کی:یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!دودینارہیں ۔آپ ایک طرف ہوگئےاورارشاد فرمایا:اپنےساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نےعرض کی:یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَوَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اس کےدودینارمیرےذمہ ہیں اوروہ اس سےبَری ہے۔چنانچہ آپ آگےبڑھےاور اس کی نمازجنازہ پڑھی۔ پھرحضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے ارشاد فرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّتمہیں اس کی بہتر جزا دے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تمہیں آگ سے آزاد کرے جس طرح تم نے اپنے بھائی کوآزاد کروایا، ہر مرنے والا مقروض اپنے قرض میں قیدرہتا ہےاور جو کسی میت کو قرض سے خُلاصی دے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ قیامت کے دن اس کی جان کو خلاصی دے  گا۔([23])


 

دنیا کا طوق:

       کسی دانا کا قول ہے کہ  قرض رات کو بے چین کرتا ہے اور دن کو ذلیل کرتا ہے اور یہ ایک طوق ہے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے زمین میں بنایا ہے اور جب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کسی بندے کو ذلیل کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی گردن میں یہ طوق ڈال دیتا ہے۔

جنت میں داخل نہیں ہوگا:

       حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہایک شخص سےاپنےقرض کامطالبہ کرنےآئے تو اُس کےگھر والوں نےعرض کی: وہ توجہادکےلئےنکل گیا۔آپرَضِیَ اللہُ عَنْہنےفرمایا:میں گواہی دیتا ہوں بے شک حُضور نبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے راستے میں شہید ہو جائے پھر زندہ کیا جائے پھر  شہید ہو جائے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا حتّٰی کہ قرض ادا کردے۔([24])

مؤمنوں کے والی:

       حضرت سیِّدُنا امام زُہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :حضورنبیِّ رحمت،شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجس پر قرض ہوتااس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے پھر بعد میں (جب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ پر کشائشیں فرمائیں تو)آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میں مؤمنوں کاان کی جانوں سے زیادہ والی ہوں تو جو بھی اس حال میں مرے کہ اس پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے۔“ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے لگے۔([25])

       سیِّدُنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :کوئی غم قرض کے غم سے زیادہ نہیں اور کوئی درد آنکھ کے درد سے زیادہ نہیں ۔

قرض ادا نہ کرنے والا چور ہے:

       حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی عورت سے مہر کے عوض نکاح کرے اور نیت یہ ہو کہ نہیں دے گا تو وہ زانی ہے اور جو شخص قرض لے اور نیت یہ ہو کہ ادا نہیں کرے گا تو وہ چور ہے۔([26])


 

حضرت سیِّدُناحبیب بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :”مجھے جب قرض کی حاجت ہوئی تو میں نے اپنے آپ ہی سے قرض طلب کیا ۔“آپ کی مراد یہ ہے کہ میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اس شے کا حصول آسان ہو جائے۔اور اس کی مثال شاعر کا قول ہے:

وَاِذَا غَلَا شَيْءٌ عَلَیَّ تَرَكْتُهٗ

 

فَيَكُوْنُ اَرْخَصُ مَا يَكُوْنُ اِذَا غَلَا

      ترجمہ:جب کسی چیز کا بھاؤ بڑھ جائے تو مجھے اسکو چھوڑ دینا چاہئے کہ جو مہنگا ہوا ہے وہ سستا بھی ہو جائے گا۔

دل کا سکون:

      حضرت سیِّدُنا اصمعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے ان کے ایک دوست نےقرض طلب کیا تو آپ نے فرمایا: شوق اور محبت سے لیکن میرا دل ایسے رہن کے ذریعے پُرسکون ہو گا جو آپ کے مطلوبہ قرض کے برابر ہو۔ دوست نے کہا: اے ابو سعید! کیا آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں ؟ فرمایا: کیوں نہیں ،بے شک حضرت سیِّدُناابراہیم خَلِیْلُاللہعَلَیْہِ السَّلَامکوبھی ذات باری تعالیٰ پرکامل یقین تھالیکن پھربھی عرض کی:

وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَىٕنَّ قَلْبِیْؕ- (پ۳،البقرة:۲۶۰)

ترجمۂ کنز الایمان:مگر یہ چاہتا ہوں کہ  میرے دل کو قرار آجائے۔

                             اَللّٰهُمَّ اَوْفِ عَنَّا دَيْنَ الدُّنْيَا بِالْمَيْسَرَةِ وَدَيْنَ الْاٰخِرَةِ بِالْمَغْفِرَةِ بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنیعنی اےاللہ! ہمارے دنیاوی قرضےآسانی کےساتھ اتاردےاورآخرت کےقرضےمغفرت کے ذریعے اتاردے تجھے تیری رحمت کا واسطہ اے سب سے بڑھ کررحم  فرمانے والے۔

تیسری فصل:               قصہ گو لوگوں ، بناوٹی صوفیا اور ریاکاری  وغیرہ کا بیان

بنی اسرائیل کی ہلاکت کا سبب:

      حضرت سیِّدُنا خباب بن اَرَت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ حضور نبیِ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک بنی اسرائیل کے لوگ قصہ گوئی کے سبب ہلاک ہوئے۔([27])

      مروی  ہے کہ حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قصہ گو تھے جب انہوں نے یہ حدیث پاک سنی تو قصہ گوئی چھوڑدی۔


 

      حضرت سیِّدُناابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتےہیں کہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور خُلفائے راشدین کے دور میں قصہ گوئی کوئی بھی نہیں کرتا تھا کیونکہ اس وقت قصہ گوئی فتنہ تھا۔

چیخ وپکار کرنے والے لوگ:

      حضرت سیِّدُنا ابنِ مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے  حضرت سیِّدُنا امام سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے پوچھا: انسان کون ہیں ؟ فرمایا:علما۔میں نے پوچھا: اشراف کون ہیں ؟ فرمایا:پرہیزگار۔ میں نے پوچھا:  بادشاہ کون ہیں ؟ فرمایا: عبادت گزار۔میں نے کہا: چیخ وپکار کرنے والے لوگ کون ہیں ؟ فرمایا:وہ قصہ گو جو کلام کے ذریعے لوگوں کے مال بٹورتے ہیں ۔ میں نے پوچھا: بیوقوف کون ہیں ؟فرمایا:ظلم کرنے والے۔

      منقول ہے کہ ایک شخص نے کسی قصّہ گو کو بغیر نگینے والی انگوٹھی تحفہ دی تو اُس نے کہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تجھے جنت میں ایسامکان دے جس کی چھت نہ ہو۔

      حضرت سیِّدُناقیس بن جبیر نہشلیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : قصہ گوئی سنتے وقت چیخنا چلانا شیطان کی طرف  سے ہے۔

قرآن سن کر بے ہوش ہونا:

      اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے عرض کی گئی: کچھ لوگ ایسے ہیں جو قرآن پاک سن کربے ہوش ہوجاتےہیں ۔توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانےفرمایا:قرآن مجیداس سےپاک وبلندہے کہ اس سے لوگوں کی عقلیں چلی جائیں ([28])۔

      حضرت سیِّدُنا امام ابنِ سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو قرآن سنتے اور غش کھاکر گرجاتے ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:ہمارے اور ان کے درمیان ایک جگہ مقرر کرلو وہ کسی دیوار پر بیٹھ جائیں اور اُن کے سامنے اول تاآخر قرآن مجید کی تلاوت کی جائے اگر وہ دیوار سے گر جائیں تو پھر اپنے دعوٰی میں سچے ہیں ۔

      مقام مرو میں ایک قصہ گو تھا جو اپنی باتوں سے لوگوں کو رُلاتا تھا ،جب رونے کی مجلس لمبی ہو جاتی تو  اپنی آستین سے چھوٹا ساستار نکال کر بجاتا اور کہتا:اس طویل غم کے ساتھ کچھ خوشی بھی ضروری ہے۔

      کسی نے ایک بناوٹی صوفی سے کہا: اپنا جبہ مجھے فروخت کر دو۔اس نے جواب دیا: اگر شکاری اپنا جال بیچ دے تو شکار


 

کس سے کرے گا؟

       ایک عالِمِ دین سے  سوال کیا گیا کہ بناوٹی صوفیا کون ہیں ؟ ارشاد فرمایا: کھانے والے اور ناچنے والے۔

کپڑوں کا کیا گناہ:

       حضرت سیِّدُنا عیسٰی عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو وعظ فرمایا:  کپڑوں کو پھاڑ ڈالو، پھر فرمایا: کپڑوں کا کیا گناہ اپنے دلوں پر توجہ کرو اور انہیں ملامت کرو۔

ریا کاری کا بیان:

       اللہ عَزَّ  وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:

یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ(۱۴۲) (پ۵،النساء:۱۴۲)

ترجمۂ کنز الایمان: لوگوں کا دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا۔

       حضرت سیِّدُنا مُعاذ بن جبلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےمروی ہے:اس بات سے بچوکہ تم پرنیک لوگوں کے  آثار نظرآئیں جبکہ تم ان سے خالی ہوورنہ تمہاراحشر ریاکاروں کے ساتھ ہوگا۔([29])

       کہا گیا ہے کہ  اگر بندہ اچھا عمل کرے اور اسے چھپائے پھر یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے پوشیدہ عمل کو جان لیں تو  وہ شخص بہت بُرا ریاکار ہے۔

       منقول ہے کہ  ہر متقی جو یہ پسند کرے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے علاوہ اس کا ساتھی بھی اسے جان لے تو اس کے لئے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی جانب سے کوئی اجر نہیں ۔

شرک اصغر:

       حضرت سیِّدُنا شَدَّاد بن اَوْس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ حُضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے تم لوگوں پر سب سے زیادہ شرک اصغر کا خوف ہے۔ صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! شرک اصغر کیا ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:ریاکاری۔ ([30])


 

ریاکار عابد:

       ایک عابد چلتے ہوئے جارہا تھا اور اس کے سرپر بادل سایہ کئے ہوئے تھا ۔ایک شخص آیا اور اُس نے عابد کے ساتھ سایہ حاصل کرنا چاہالیکن عابد نے منع کردیا اورکہا: اگر تو میرے ساتھ کھڑا ہو گا تو لوگوں کو علم نہیں ہو گا کہ بادل مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے۔ اس شخص نے کہا: لوگ جانتے ہیں میں ایسا نہیں کہ بادل میرے لئے سایہ کریں تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے بادل کو اس شخص کے ساتھ کر دیا۔

       ایک دن عبدالاعلی سلمی نے کہا: لوگ مجھے ریاکار سمجھتے ہیں اور خدا کی قسم! میں گزشتہ کل سے روزے سے ہوں اور کسی ایک کو بھی اس کی خبر نہیں ۔

                             اَللّٰهُمَّ اَصْلِحْ فَسَادَقُلُوْبِنَاوَاسْتُرْ فَضَائِحَنَابِرَحْمَتِكَ يَااَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ وَصَلَّى اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَامُحَمَّدٍوَّعَلٰی اٰلِهٖ وَ صَحْبِهٖ وَسَلِّمیعنی اےاللہ عَزَّ  وَجَلَّ!ہمارے دلوں کے فساد کی اصلاح فرما اور اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے اپنی رحمت سے ہماری خطاؤں پر پردہ ڈال  اوردرود و سلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کی آل واصحاب پر ۔

باب نمبر19:                        عدل، احسان اور انصاف وغیرہ کا بیان

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّتمہیں ہدایت دےجان لوکہاللہ عَزَّ  وَجَلَّنےعدل کاحکم دیااوراللہ عَزَّ  وَجَلَّ یہ بھی جانتاہےکہ ہر بندہ عدل کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ احسان کا طالب ہے اور احسان عدل سے بڑھ کر ہے۔

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۹۰) (پ۱۴،النحل:۹۰)

 ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتاہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔

       اگر مخلوق عدل کرنے کی وسعت رکھتی تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ احسان کوعدل کے ساتھ نہ ملاتا  اور عدل زمین پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا میزان ہے جس کے ذریعے کمزور کے لئے طاقتور سے  اور حق کے لئے باطل سے انصاف لیا جاتا ہے۔

       جان لو کہ بادشاہ کا عدل اس سے محبت کا باعث ہے اور  ظلم اس سے دوری کا سبب ہے اور زمانے میں سب سے زیادہ افضل ایام عدل والے  ہیں ۔


 

عادل حکمران کا ایک دن:

       حضرت سیِّدُنا ابو ہُرَیْرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضورپُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: عادل حکمران کا اپنی رعایا میں ایک دن کام کرنا عابد کے اپنے اہل میں 50یا100 سال کام کرنے سے افضل ہے۔ ([31])

       رحمتِ عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:ایک گھڑی کا عدل 70سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ ([32])

تین کی دعا رد نہیں ہوتی:

       حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتےہیں کہ سَیِّدِعالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:تین شخصوں کی دعاردنہیں ہوتی:(۱)عادل بادشاہ(۲) روزہ دارجب افطارکرےاور(۳) مظلوم کی دعا۔اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ ان کی دعا بادلوں سےاوپر اُٹھاتا ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیتا ہے۔([33])

جنتِ عدن میں جانے والے:

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےحضرت سیِّدُناکَعْبُ الْاحبارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسے فرمایا: مجھے جنت ِعدن کے بارے میں بتاؤ؟عرض کی: اے امیرالمؤمنین! جنت عدن میں نبی، صدیق، شہید اور عادل حکمران ہی رہیں گے۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نبی تونہیں ہوں ، البتہ رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تصدیق ضرور کی ہےاور جہاں تک عادل حکمران ہونے کاتعلق ہے تو مجھےامید ہے کہ ظلم نہیں کروں گااوررہی  شہادت تو وہ مجھے کہاں نصیب ہوگی؟([34])

       حضرت سیِّدُناحسن بصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیحضرت سیِّدُناعمرفاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکےبارےمیں فرماتےہیں : اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے انہیں صدیق ،شہیداورامام  عادل بنادیا۔

       اہل بابل کےدانشوروں  سے سکندر نے سوال کیا: بہادری اور عدل میں سے تمہارے نزدیک کیا چیز بڑھ کر ہے؟


 

انہوں نے  جواب دیا: ہم نے عدل کا استعمال کیاتو ہمیں بہادری کی حاجت نہ رہی۔

       کہا جاتا ہے : سلطان کا عدل کرنا خوشحال زمانے سے زیادہ نفع مند ہے۔

       منقول ہے کہ جب سلطان  عدل وانصاف سے روگردانی کرتا ہے تو رعایا اس کی اطاعت سے روگردانی کرتی ہے۔

عدل سے شہر کی تعمیر:

       کسی گورنر نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کو خط لکھا  اور شہر کی خستہ حالی کی شکایت کی اور کچھ مال طلب کیاتوآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ان کو جواب لکھا: میں تمہارے خط کو سمجھ گیا ہوں لہٰذا جب تم میرا یہ خط پڑھو  تو اپنے شہر کو عدل کے ذریعے مضبوط کرو اور اس کے راستے ظلم سے پاک و صاف کر دو یہی اس کی تعمیر ہے۔ وَالسَّلَام

13 کروڑ 70 لاکھ خراج:

       کہا جاتا ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دور خلافت میں عراق سے متصل آبادیوں سے حاصل ہونے والا خراج13کروڑ 70 لاکھ تھا اور پھر حجاج کے زمانے میں کمی ہونے لگی حتّٰی کہ ایک کروڑ 80 لاکھ ہو گیا پھر جب امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز خلیفہ بنے تو پہلے سال میں تین کروڑ ہوا اور دوسرے سال میں چھ کروڑ ہوا۔  ایک قول کے مطابق اس  سے بھی زیادہ ہوااور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز حیات رہتے تو اس خراج کو اسی مقدار پر پہنچا دیتے جس مقدار پر امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دور میں تھالیکن اُسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔

       کسرٰی کا قول ہے کہ عدل کےبغیر رعایا نہیں ،رعایا کےبغیر شہر نہیں ،شہرکےبغیرمال نہیں ، مال کےبغیرلشکر نہیں اور لشکر کےبغیر ملک نہیں ہوتا۔

زمین کو عدل سے بھر دیا:

       جب حضرت سیِّدُناسلمہ بن سعید عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمَجِیْد کا انتقال ہوا تو ان پر لوگوں کا اور خلیفہ ابو جعفر منصور کا قرض تھا، منصور نے وہاں  کے عامل کو خط لکھا کہ امیرالمؤمنین کا حق پورا پورا دو اور جو بچے اُسے قرض خواہوں  کے درمیان تقسیم کر دو۔ اس نے منصور کا خط نظر انداز کر دیا اور منصور کو دیگر قرض خواہوں  کی طرح مال میں سے ایک حصہ دیا پھر منصور کو خط لکھا: میرے خیال سے امیرالمؤمنین بھی قرض خواہوں میں سے ایک ہیں ۔منصور نے جوابا لکھا:تم نے زمین کو عدل سے بھر دیا۔


 

والی مصراحمد بن طولون ظالم اور سفاک ہونے کے باوجودانصاف پسند تھا،مظلوموں کے لئے بیٹھتا تھا اور ظالم سے مظلوم کو انصاف دلاتا تھا۔

حکایت: حاکم مصر اور مردِ صالح

      ایک دن احمد بن طولون کا لڑکا عباس ایک گانے والی عورت کے ساتھ چلا جارہاتھا اور ایک غلام ہاتھ میں ستار لئے اس کے ہمراہ تھا۔ایک مرد صالح نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے ستار لے کر توڑ دیا۔عباس نے ابنِ طولون کے پاس اس کی شکایت کی تو ابنِ طولون نے اُس مرد صالح کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ جب وہ حاضر ہوا تو ابنِ طولون نےاس سے پوچھا:تو وہی ہےجس نے سارنگی توڑی ہے؟مرد ِصالح نے کہا: جی ہاں ۔پوچھا: کیا تو نہیں جانتا وہ کون ہے؟مردِ صالح نے کہا: جی ہاں وہ آپ کا لڑکا عباس ہے۔پوچھا :پھر بھی تونے میرے اعزاز کا خیال نہیں رکھا ؟مردِ صالح نے کہا:کیا تیری عزت کر کے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی نافرمانی کروں ؟حالانکہاللہ عَزَّ  وَجَلَّ فرماتا ہے:

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ

                                                                                                                                                                                                                                                (پ۱۰،التوبة:۷۱)

 ترجمۂ کنزالایمان:اورمسلمان مرداورمسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں ۔

      حُضورنبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ۔“([35]) یہ سن کر احمد بن طولون نے اُس مرد صالح  کو چھوڑ دیا اور اُس سے کہا: تو جو بھی برائی دیکھے تو اسے ختم کر دے میں تیرے ساتھ ہوں ۔

ظلم میں شریک حاکم:

      ایک یہودی عبدالملک بن مروان کے پاس آیا اور کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ کے ایک خاص بندے نے مجھ پر ظلم کیا ہے  مجھے اس سے انصاف دلائیں اور میں آپ سے عدل چاہتا ہوں ۔ عبدالملک نے اس سے اعراض کیا تو اس نے دوسری مرتبہ کہا عبد الملک نے پھراعراض کیا تو اس نے تیسری مرتبہ یہ کہا: اے امیرالمؤمنین! میں نے حضرت سیِّدُناموسٰی


 

کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہونے والی کتاب تورات میں پڑھا ہے:”حاکم اس وقت تک کسی پر ظلم کرنے میں شریک نہیں ہوتا جب تک اس سے رجوع نہ کیا جائے اور جب اس سے رجوع کیا جائے اور وہ  ظلم دور نہ کرے تو حاکم بھی ظلم و زیادتی میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔‘‘جب عبدالملک  نے اس کا کلام سنا تو خوف زدہ ہوگیا اور اسی وقت ایک شخص کو بھیج کر اُس ظالم کو اُس کے عہدے سے برطرف کردیا اور یہودی کو اس کا حق دلوایا۔

ہم انصاف کریں گے:

       منقول ہے کہ ایک دانا شخص کی جائداد کسی حاکم نے غصب کر لی تو وہ خلیفہ ابوجعفر منصور کے پاس آیا اور کہا:اللہعَزَّ  وَجَلَّ امیر کی اصلاح کرے، اے امیرالمؤمنین!اپنی حاجت پیش کروں یا پہلے کوئی مثال پیش کروں ؟ خلیفہ نے کہا: مثال بیان کرو۔ اس دانا شخص نے کہا: بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے اور اسے کوئی ناپسندیدہ بات پہنچے تو وہ خوف زدہ ہو کر اپنی ماں کی طرف جاتا ہے کہ وہ اس کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا اور یہ گمان کرتا ہے کہ اس کے علاوہ اس کا کوئی مددگار نہیں اور جب بچہ تھوڑا بڑا ہو جاتا ہے تو اپنے باپ کی طرف بھاگنا شروع کر دیتا ہےاور جب بالغ ہوجاتا ہے اور کوئی نیا معاملہ پیش آتا ہے تو حاکم سے شکایت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حاکم اس کے باپ سے قوی ہے اور اگر تھوڑا عقل مند ہو تو سلطان سے شکایت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سلطان سب سے قوی ہے اور اگر اسے سلطان سے انصاف نہ ملے تو وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں شکایت کرتا ہے ۔مجھے ایک مصیبت پہنچی ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی مخلوق میں (اس وقت)آپ سےزیادہ کوئی قوی نہیں ،اگر آپ مجھے انصاف دلاتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں اپنا معاملہ حج کے دنوں میں بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو  سپرد کردوں گا۔ خلیفہ منصور نے کہا: ہم تیرے ساتھ انصاف کریں گے۔یہ کہہ کر خلیفہ نے ایک خط اُس حاکم کی طرف لکھنے کا حکم دیااور  اُسے جائداد کی واپسی کا کہا۔

ملک برباد ہونے کی وجہ:

       حضرت سیِّدُناسکندر ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہیہ فرمایا کرتے:اے اللہکے بندو! تمہارا معبود وہ اللہ جو آسمان کی بادشاہت والا ہے، جس نے آزمائش کے بعد حضرت سیِّدُنا نوح  عَلَیْہِ السَّلَام کی مدد کی ،وہی ہے جو حاجت کے وقت تمہارے لئے بارش برساتا ہے اور تکلیف کے وقت تم اسی کی پناہ لیتے ہو۔بخدا!جوبھی مجھے یہ بتائےگاکہ فلاں اللہعَزَّ  وَجَلَّکامحبوب ہےتومیں بھی اس سےمحبت کروں گااوراسےاپنی موت تک حاکم بنائے رکھوں گااورجس کےبارےمیں مجھے یہ پتاچلےگا کہ


 

 وہ اللہعَزَّ  وَجَلَّکاناپسندیدہ ہےتومیں بھی اسےناپسندکروں گااوراپنی موت تک اسےخود سےدوررکھوں گا۔یقیناً میں تمہیں خبر دے رہا ہوں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنے بندوں میں انصاف کو پسند فرماتا ہے اورایک کا دوسرے  پر ظلم کرنا ناپسند فرماتا ہے۔ ظالم کے لئے میری تلوار اور میرے کوڑے کے سبب ہلاکت ہے اور میرے وزرا میں سے جس سے بھی عدل ظاہر ہووہ میری مجلس میں جیسے چاہے بیٹھے جسے چاہے امان دے اور خطا کرنے والا ہرگز امن میں نہ ہوگااور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنے تمام کاموں کا مالک ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہیہ بھی فرمایا کرتے:جب بادشاہ اپنے ملک میں انصاف نہیں کرتا تو اس کا ملک نافرمانی کے سبب برباد ہو جاتا ہے۔

کھجور کی گٹھلی کی مثل انار کا دانہ:

      ایک عادل حکمران کا انتقال ہوا تو لوگوں نے اس کے پاس ٹوکری دیکھی  اسے کھولا تو اس میں کھجور کی گٹھلی کے برابر انار کا دانہ دیکھا اور اس کے ساتھ ایک رقعہ تھا جس میں لکھا تھا: یہ انار کا دانہ ہے اور ایسے دانے نکالنے کے لئے عدل والے کام کرنے ہوں گے۔

سب کو عدل ملنا چاہئے:

      منقول ہےکہ اہل کوفہ نے اپنے حاکم کے ظلم کی شکایت خلیفہ مامون کے ہاں کی تو اس نے کہا: میں اپنے وزرا میں سے عدل کرنے والا، رعایا کے معاملات کو درست کرنے والا اور لوگوں پر نرمی کرنے والا اس سے زیادہ کسی کو نہیں جانتا۔ شکایت کرنے والوں میں سے ایک شخص نے کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ سے زیادہ عدل وانصاف کرنے کا حق دار کوئی نہیں ہے، اگراس شخص میں یہ صفت ہے تو امیرالمؤمنین پر لازم ہے کہ  اسے ہر ہر شہر میں حاکم بنائے تا کہ تمام شہروں میں اس کا عدل پہنچے جیسا کہ ہمیں پہنچا ہے اور لوگ بھی اس سے عدل کا حصہ لیں جیسا کہ ہم نے لیا اور جب ایسا ہو جائے گا تو ہمیں اس سے تین سال سے زیادہ واسطہ نہیں پڑے گا۔ خلیفہ مامون اس شخص کی اس بات پر ہنس پڑا اور حاکم کو ان لوگوں سے دور کر دیا۔

عدل کا دن دیکھنے کی خواہش:

      ابوجعفر منصور خلافت سے قبل بصرہ  میں واصل بن عطاء معتزلی کے پاس آیا اور کہا:  مجھے سلیم بن یزید عدوی کی طرف سے عدل کے بارے میں کچھ اشعار ملے ہیں تو تم ہمارے ساتھ اس کی طرف چلو۔ ایک بزرگ ان کے کمرے میں


 

 داخل ہوئے تو منصور نے واصل سے کہا:  یہ تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ واصل نے کہا: یہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامہیں ۔ منصور نے کہا:فراخی پر فراخی  اور نزدیکی پر نزدیکی۔ واصل نےحضرت سیِّدُنا عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے کہا: منصور یہ پسند کرتے ہیں کہ عدل کے بارے میں آپ کے اشعار سنیں ۔حضرت سیِّدُنا عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: جی ضرور، اور یہ اشعار پڑھے:

حَتّٰى مَتٰى لَا نَرٰى عَدْلًا نَسُرُّ بِهٖ                                                                                           وَلَا نَرٰى لِوُلَاةِ الْحَقِّ اَعْوَانَا

مُسَتَمَسِّكِيْنَ بِحَقٍّ قَائِمِيْنَ بِهٖ                                                                                            اِذَا تَلَوَّنَ اَهْلُ الْجَوْرِ اَلْوَانَا

يَا لِلرِّجَالِ لَدَاءٌ لَا دَوَاءٌ لَّهٗ                                                                                                          وَقَائِدُ ذِيْ عَمًى يَقْتَادُ عُمْيَانَا

      ترجمہ:جب تک ہم خوش کُن انصاف نہیں دیکھتے اور امام برحق کےایسےمدد گار نہیں پاتےجو حق کو اپنائیں اور اُس پر قائم ر ہیں تب تک  ظالم قسم قسم کےظلم کرتےرہیں گے۔آہ!لوگوں کو ایسا مرض لگ گیا ہےجس کی دوا نہیں اور ایک اندھا چرواہا اندھوں کو ہانک رہا ہے۔

      یہ سن کر منصور نے کہا: میری خواہش ہے کہ میں عدل کا دن دیکھوں اور پھر مروں ۔

حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے راستے پر چلوں گا:

      منقول ہے کہ جب حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز خلیفہ بنے تو انہوں نے مظالم کو ختم کرنا شروع کیا اور اپنے قریبی لوگوں سے اس کی ابتدا کی تو گھر کے لوگ آپ کی پھوپھی جان کے گھر جمع ہو گئے چونکہ آپ ان کی بہت عزت کرتے تھے اس لئےان سے گزارش کی کہ وہ آپ سےاس مسئلےپرگفتگوکریں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی پھوپھی جان سے کہا: بے شک حضور نبی پاک، صاحب ِلولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک راستے پر چلے،جب آپ نے دنیا سے ظاہری پردہ فرما لیاتوآپ کےبعدآپ کےاصحاب عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی اسی راستے پر چلے اور خدا کی قسم! میں نے ارادہ کیاہےکہ اگرمیری عمردرازہوئی تومیں اسی راستےپرچلوں گاجس پرآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماورصحابَۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان چلے تھے۔پھوپھی جان نے کہا:  اے میرے بھتیجے! میں ان کی جانب سے تجھ پر بُرے دن کا خوف کرتی ہوں ۔ تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا:میں کسی دن اگر قیامت کے دن کے علاوہ سے ڈروں تو امن الٰہی میں نہیں ہوں گا۔

ظلم کے سبب بے برکتی:

      حضرت سیِّدُنا وہب بن منبہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: جب حاکم ظلم کا ارادہ کرتا ہے یا ظلم والے کام کرتا ہے تو اللہ


 

 عَزَّ  وَجَلَّ اس کی مملکت کے لوگوں میں ، شہروں میں ، کھیتوں میں ، جانوروں کے تھنوں میں اور ہر شے میں نقص داخل کر دیتا ہے اور جب  حاکم بھلائی  اور عدل کا ارادہ کرتا ہے یا بھلائی اور عدل والے کام کرتا ہے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کی مملکت کے اہل میں اور تمام چیزوں میں برکت عطا فرما دیتا ہے۔

      حضرت سیِّدُنا ولید بن ہشام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: حاکم کے درست ہونے سے رعایا درست ہوتی ہے اور حاکم کے خراب ہونے سے رعایا خراب ہوتی ہے۔

حکایت :گائے کا دودھ کم ہوگیا

      حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتے ہیں :ایک بادشاہ اپنی مملکت میں بھیس بدل کر سیر کرنے نکلا  اور ایک ایسے شخص کے پاس آیا جس کے پاس ایک گائے تھی اور وہ تین گائے کے برابر دودھ دیتی تھی بادشاہ اس بات پر بڑا حیران ہوا اور اس نے  دل میں کہا کہ یہ گائے اس سے چھین لے گا۔ جب اگلے دن بادشاہ اس کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ گائے نے گزشتہ کل کے مقابل آدھا دودھ دیا  ہے، بادشاہ نے اس شخص سے کہا: کیا بات ہے اس کا دودھ کم کیوں ہے؟کیا گزشتہ کل کے مقابل اس کو چارہ کم دیا ہے؟ اس شخص نے کہا: نہیں بلکہ میرا گمان ہے کہ ہمارے بادشاہ نے اس گائے کو دیکھ لیا ہے یا اس تک  اس کی خبر پہنچی ہے اور اس نے گائے کو چھین لینے کا ارادہ کیا ہے اس لئے اس کے دودھ میں کمی ہو گئی ہےکیونکہ جب بادشاہ ظلم کرے یا ظلم کا ارادہ کرے تو برکت ختم ہو جاتی ہے۔ بادشاہ نے توبہ کی اور اپنے دل میں اپنے رب سے عہد کیا کہ وہ اس گائے کو نہیں لے گا اور رعایا میں سے کسی ایک سے بھی حسد نہیں کرے گا۔ جب اگلے دن اس شخص نے دودھ نکالا تو وہ تین گائے کے دودھ کے برابر تھا۔

سچی توبہ سے برکت لوٹ آئی:

      مغربی علاقوں میں یہ قصّہ مشہور ہےکہ ایک بادشاہ کو پتا چلا کہ ایک عورت کے پاس میٹھے گنوں کا باغ ہے اور ہر گنے سے پیالہ بھر کر رس نکلتا ہے۔ بادشاہ نے اس عورت سے اس کا باغ غصب کرنے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ بادشاہ اس عورت کے پاس آیا اور اس سے پوچھا: کیا واقعی ایک گنے سے پیالہ بھر رس نکلتا ہے؟ عورت نے کہا:جی ہاں ایسا ہی ہے۔ اس عورت نے ایک گنا نچوڑا لیکن اس سے آدھا پیالہ بھی رس نہ نکلا۔ بادشاہ نے عورت سے کہا: تو نے تو کچھ اور کہا تھا؟ عورت نے کہا: معاملہ تو وہی ہے جو تمہیں پتا چلا تھا مگر بادشاہ نے مجھ سے باغ غصب کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اس لئے اس میں سے


 

برکت ختم ہو گئی ہے۔ بادشاہ نے توبہ کی اور سچی نیت کے ساتھ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے عہد کیا کہ وہ اس عورت سے باغ کبھی غصب نہیں کرے گا، پھر اس عورت کو گنا نچوڑنے کا کہا۔ اس عورت نے گنا نچوڑا تو پیالہ بھر گیا۔

غصب سے برکت ختم ہوگئی:

      حضرت سیِّدُنا شیخ ابو بکر طَرطُوشی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے اپنی کتاب”سراجُ الملوک“ میں یہ واقعہ بیان  کیا کہ مصر کے واقعات بیان کرنے والے  ایک شیخ نے مجھے بتایا کہ مصر کے بالائی حصہ میں کھجور کا باغ تھا جس میں موسم کی تقریباً 921کلو600 گرام کھجوریں ہوتیں تھیں اور اس زمانے میں کسی کے باغ میں اس کا نصف بھی نہیں ہوتا تھا۔ سلطان نے اس کے باغ پر قبضہ کر لیا تو اس سال ایک بھی کھجور نہ ہوئی۔وہاں کے ایک شیخ نے بتایا: میں اس باغ کو جانتا ہوں اور اس بات پر گواہ ہوں کہ اس میں سالانہ 10اَرْدَب اور 60 وَیْبَہ(یعنی 921 کلو 600 گرام) کھجوریں  ہوتی تھیں اور باغ کا مالک گرانی کے سال ایک وَیْبَہ([36]) ایک دینار کے عوض فروخت کرتا تھا۔

مچھلیاں ختم ہو گئیں :

      حضرت سیِّدُنا ابو بکر طرطوشی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ”سراجُ الملوک“میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ میں اسکندریہ گیا تو ان دنوں مچھلی کے شکار کی اجازت تھی اور مچھلی پانی میں بہت زیادہ تھی، سمندر کی ایک جانب بچے کپڑے کے ذریعے مچھلی پکڑتے تھے پھر حاکم نے رکاوٹ ڈالی اور لوگوں کو مچھلی کے شکار سے منع کردیا تو مچھلیاں وہاں سے چلی گئیں حتّٰی کہ اس کے بعد سے آج تک وہاں مچھلی نہیں آئی۔

      یونہی بادشاہوں کے پوشیدہ معاملات اور ان کے عزائم رعایا کی طرف لوٹتے ہیں ۔ اگر وہ بھلائی کا ارادہ کریں تو بھلائی ملتی ہے اور اگر بُرائی کا ارادہ کریں تو بُرائی ملتی ہے۔

جیسے حکمران ویسی رعایا:

      مؤرخین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ حجّاج کے زمانے میں جب لوگ صبح کرتے تھے تو آپس میں ملاقات کے وقت گزشتہ رات کے قتل،سولی دینے، کوڑے مارنے، ہاتھ کاٹنے اور اسی طرح کے دیگر معاملات پر گفتگو کرتے۔ ولید چونکہ تاجر اور صنعت کار تھا لہٰذا اس کے زمانے میں لوگ عمارتیں بنانے،صنعت کاری،تجارت، نہریں کھودنے اور درخت


 

 لگانے کے بارےمیں بات کرتے اورجب سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا تو چونکہ یہ اچھے کھانے والا اور نکاح میں رغبت رکھنے والا تھا لہٰذا لوگ اس کے زمانے میں اچھے سے اچھے کھانے کے بارے میں گفتگو کرتے اور اس کے متعلق ایک دوسرے سے پوچھتےاور نکاح اور لونڈیوں کے متعلق ایک دوسرے سے آگے بڑھتےاور اپنی مجلسوں میں اس بارے میں گفتگو کرتےاور جب حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز خلیفہ بنے تو لوگ ایک دوسرے سے یہ کہا کرتے:”تم نے کتنا قرآن یاد کیا،تم نےرات میں کتنا قرآن پڑھا، فلان نے کتنا قرآن یاد کیا، کتنے ختم کئے، مہینے میں کتنے روزے رکھےاور اسی طرح کی دیگر باتیں کرتے۔‘‘

      خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور سلف صالحینرَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکے طریقے پر ہو اور اقوال و افعال میں ان کی پیروی کرے اور جو ان کی مخالفت کرے گا وہ ضرور ہلاک ہوگااور عادل بادشاہ سے مرتبے میں بلند نبی اور مقرب فرشتے کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے۔

      منقول ہے کہ  عادل بادشاہ کی مثال اس ہوا کی طرح ہے جسے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنی رحمت سے بندوں پر چلاتا ہے  تو وہ ہوا بادلوں کو لاتی ہے جس کے سبب پھلوں کی پیداوار بڑھتی ہے اور بندوں کے لئے خوشی کا سبب ہوتا ہے۔

      اگر تُو عدل و انصاف اور امام عادل کی فضیلت کے بارے میں جاننا چاہتا ہے  تو میں نے اس کے لئے یہ جامع مجموعہ تالیف کیا ہے لیکن اختصار کے ساتھ اس خوف سے کہ دیکھنے والے اور سننے والے اکتاہٹ کا شکار نہ ہوجائیں ۔

                             وَبِاللهِ التَّوْفِيْقِ اِلٰی اَقْوَمِ طَرِيْقِ وَصَلَّى اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمیعنی سیدھے راستے کی توفیق اللہعَزَّ  وَجَلَّہی کی طرف سےہےاوردرودوسلام ہوہمارےسردارحضرت محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپراورآپ کی آل واصحاب پر۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

 

70گناہوں کامجموعہ

حضورنبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:سُود70گناہوں کامجموعہ ہے،ان میں سب سےہلکایہ ہےکہ آدمی اپنی ماں سےزناکرے۔

(ابن ماجہ،۳/ ۷۲،حدیث:۲۲۷۴)


 

باب نمبر 20:                                                                                      نحوست، بُرے انجام اور مظالم کا بیان

چارفرامینِ باری تعالٰی:

﴿1﴾…

اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۸) (پ۱۲،ھود:۱۸)                                                                                                     ترجمۂ کنز الایمان:ارے ظالموں پر خدا کی لعنت۔

﴿2﴾…

وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ - (پ۱۳،ابراھیم:۴۲)

ترجمۂ کنز الایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔

       کہا گیا ہے کہ یہ آیت مظلوموں کے لئے تسلی اور ظالموں کے لئے وعید ہے۔

﴿3﴾…

اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ- (پ۱۵،الکھف:۲۹)

ترجمۂ کنز الایمان:بے شک ہم نے ظالموں کے لئے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں  گھیر لیں گی۔

﴿4﴾…

وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠(۲۲۷) (پ۱۹،الشعرآء:۲۲۷)

ترجمۂ کنز الایمان:اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔

ظالم کی معاونت پر وعید:

          حُضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جو ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرنے کے لئے چلا اور جانتا ہے کہ یہ  ظالم ہے تو ساتھ چلنے والا اسلام سے نکل گیا([37])۔ ([38])

          حضور نبی کریم، رؤف رَّحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس بندے پر رحم فرمائے جس نے اپنے


 

بھائی پر مال و جائداد میں ظلم کیا ہوپھروہ اُس کے پاس آئے اور قیامت کا دن آنے سے پہلے اُس سے تلافی کرالے کیونکہ اس دن اس کے پاس دینار ہوں گے نہ درہم۔([39])

جہنم واجب اور جنت حرام:

          حُسنِ اَخلاق کے پیکر، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کا حق مارا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس پر جہنم واجب اور جنت حرام فرمادے گا۔یہ سن کر ایک شخص نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اگرچہ معمولی چیز ہو؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: خواہ وہ پیلو کے درخت کی شاخ ہی ہو۔ ([40])

          حضرت سیِّدُناحذیفہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےروایت ہےکہ حضورنبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے میری طرف وحی فرمائی: اے مرسلین کے رفیق اور ڈر سنانے والوں کے بھائی! اپنی قوم کو ڈرائیے کہ جب کسی نے میرے بندوں میں سے کسی بندے پر ظلم کیا ہو تو اس وقت تک میرے گھروں میں سے کسی گھر میں داخل نہ ہوجب تک کہ اس ظلم کو ختم نہ کر لے ورنہ میری لعنت اس وقت تک پڑتی رہے گی جب تک میرے گھر میں رہے گا، اگر وہ ظلم دور کر لے تو میں اس کی سماعت ہو جاؤں گا جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بصارت ہو جاؤں گا جس سے وہ دیکھتا ہے اور اسے اپنے مقربین میں شامل کروں گا اور اسےانبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ جنت میں جگہ دوں گا۔“([41])

مظلوم کی بدعا سے بچو:

          امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ حضور نبی محترم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مظلوم کی بدعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے اپنے حق کا سوال کرتا ہے۔ ([42])

          امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ حضور نبیِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ


 

وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:مظلوم شخص جب آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:اے میرے بندے! میں موجود ہوں اور تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر بعد  سہی۔ ([43])

ظلم تین طرح کا ہے:

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سےروایت ہےکہ  حضورنبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:”ظلم تین طرح کا ہے:(۱)وہ ظلم جس کی مغفرت نہیں ۔ (۲)وہ ظلم جس کا بدلہ لیا جائے گااور (۳) وہ ظلم جس کی مغفرت ہے اور مطالبہ نہیں ہے۔ وہ ظلم جس کی مغفرت نہیں ہےاس سے مراد اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے ساتھ شرک کرنا ہے ۔ ہم اس سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی پناہ مانگتے ہیں ۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُؕ- (پ۵،النساء:۴۸)

ترجمۂ کنز الایمان:بے شک اللہ اسے نہیں بخشتاکہ اس کے ساتھ کفر کیاجائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے۔

       وہ ظلم جس کا بدلہ لیا جائے گا اس سے مراد بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم کرنا ہے اور وہ ظلم جس کی مغفرت ہے مطالبہ نہیں ہے اس سے مراد بندے کا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔([44])

مظلوم اعلٰی علّین میں :

       حجاج نےکسی کوسولی دےرکھی تھی،ایک شخص کاوہاں سےگزرہواتوبارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ! ظالموں پر تیری نرمی مظلوموں کو نقصان دے رہی ہے ۔وہ شخص رات كو سویا تو خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہوگئی ہے اور وہ جنت میں داخل ہوا ہے، اس نے دیکھا کہ جس کو سولی دی گئی تھی وہ اعلیٰ علّیّین میں ہےاور ایک مُنادی کو یہ ندا کرتے سنا: ظالموں پر میری نرمی مظلوم کو اعلیٰ علّیّین میں پہنچاتی ہے۔

       کہا گیا ہے کہ جو کسی کو ملی ہوئی نعمت چھین لیتا ہے اس کی نعمت بھی کوئی اور چھین لیتا ہے۔

ظالم کو ظلم کے حوالے کر دو:

       حضرت سیِّدُنا مسلم بن یسار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نے ایک شخص کو سنا کہ وہ اپنے پر ظلم کرنے والے کے لئے بددعا کر رہا


 

تھا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: ظالم کو اس کے ظلم کے حوالے کر تیری بددعا سے پہلے ہی اس کو سزا مل جائے گی۔

      منقول ہے کہ جس کا ظلم وسرکشی زیادہ ہو جائے اس کی  بادشاہت ختم ہو جاتی ہے۔

مظلوم کا دن:

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمبیان کرتے ہیں :مظلوم کے ظالم پر غلبہ کا دن ظالم کے مظلوم پر غلبہ کے دن سے زیادہ سخت ہے۔

      آسمان کے کنارے میں ایک تختی دیکھی گئی جس میں لکھا تھا:لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ اور اس کے نیچے یہ شعر تحریر تھا:

فَلَمْ اَرَ مِثْلَ الْعَدْلِ لِلْمَرْءِ رَافِعًا                                                                                   وَلَمْ اَرَ مِثْلُ الْجَوْرِ لِلْمَرْءِ وَاضِعًا

      ترجمہ:میں نے عدل کی مثل انسان کو بلندی عطا کرنے والی اور ظلم کی مثل آدمی کو پستی میں ڈالنے والی کوئی شے نہیں دیکھی۔

       حضرت سیِّدُناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرمایاکرتےتھے:میں حیاکرتاہوں کہ ایسےشخص سےبدسلوکی کروں جس کااللہ عَزَّ  وَجَلَّکے علاوہ کوئی مددگار نہ ہو۔

ظلم کی شکایت:

      ابوالعیناء نےکہا:میرے کچھ دشمن  مجھ پر ظلم کرتے تھے تو میں نے ان کی شکایت قاضی احمد بن ابو داؤدمعتزلی سے کی اور کہا: وہ سب مجھ پر ظلم کرنے میں یکجا ہیں ۔کہا:ان کے اوپر اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی ذات بھی ہے۔ میں نے کہا: وہ لوگ مکار ہیں ۔ کہا: مکر کرنے والے کا مکرخود اسی پر پڑتا ہے۔ میں نے کہا: وہ لوگ بہت زیادہ ہیں ۔کہا: بارہا اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے حکم سے چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آئی ہے۔

      حضرت سیِّدُنا یوسف بن اَسباط رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان کرتے ہیں : جس نے ظالم کی بقا کے لئے دعا کی گویا اس نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی زمین میں اُس  کی نافرمانی کو پسند کیا۔

فرشتے لعنت کرتے ہیں :

      حضرت سیِّدُناابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتےہیں کہ مکی مدنی سلطان،رحمت عالمیانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


 

نےارشادفرمایا:جواپنےبھائی کی طرف اسلحہ سےاشارہ کرتاہےاس پرفرشتےلعنت کرتےہیں اگرچہ وہ اس کاسگابھائی ہو۔([45])

مؤمنوں کو تکلیف دینے کا انجام:

       حضرت سیِّدُنا امام مجاہد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد فرماتے ہیں : اللہ عَزَّ  وَجَلَّ جہنمیوں پر خارش کا عذاب مُسلّط فرمائے گا تو وہ اس قدر کھجائیں گے کہ ان کی ہڈیاں ظاہر ہو جائیں گی۔ ان سے کہا جائے گا: کیا تمہیں اس سے تکلیف ہو رہی ہے؟ وہ کہیں گے: خدا کی قسم!ہو رہی ہے۔ ان سے کہا جائے گا: یہ بدلہ ہے اس کا جو تم مؤمنوں کو تکلیف دیتے تھے۔

       حضرت سیِّدُنا ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: جب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم پر عذاب ظاہر فرمایا تو انہوں نے آپس کے مظالم کو ترک کردیا حتّٰی کہ اگر کسی نے کسی کا پتھر بنیاد سے نکالا تھا تو وہ بھی اس کے مالک کو لوٹا دیا۔

       ابو ثور بن یزیدکہتے ہیں : عمارت میں حرام پتھرلگانا اسے خراب کرنے کا پیش خیمہ ہے۔       

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے عدل کو یاد کرو:

       کسی دانا کا قول ہے کہ ظلم کرتے وقت خود پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے عدل کو یاد کرو اورکسی پر  قدرت پاکر خود پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کےقادر ہونےکو یاد کرو۔تمہیں کوئی طاقتور اور خون ریزی کرنے والا تعجب میں نہ ڈالے بے شک اُسے بھی ایک مارنے والا ہے جومرتا نہیں ۔

بے یارومددگار پر ظلم کرنا:

       حضرت سیِّدُناسَحْنُون بن سعیدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَبِیْر بیان کرتے  ہیں کہ یزید بن حاتم نے کہا: میں کبھی کسی چیز سے خوف زدہ نہیں ہوا لیکن میں ایسے شخص پر ظلم کرنے سے ڈرتا ہوں جس کے بارے میں مجھے معلوم ہو کہ اس کا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے اور وہ کہے : اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تمہیں کافی ہے، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔

       حضرت سیِّدُنا بلال بن مسعود رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : اس شخص کے معاملے میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے ڈرو جس کا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے سوا کوئی مددگار نہیں ۔

       ایک دن حضرت سیِّدُناعلی بن فضل عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم رو رہے تھے تو ان سے کہا گہا: کیوں روتے ہو؟  فرمایا:میں اُس


 

پر رو تا ہوں جس نے مجھ پر ظلم کیا کہ کل بروز قیامت جب وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے حضور کھڑا ہوگا تو اس کے پاس  کوئی دلیل نہ ہوگی۔

       حُضور اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:”میں اس شخص پر بہت زیادہ غضب کرتا ہوں جو ایسے شخص پر ظلم کرے جس کا میرے سوا کوئی مددگار نہ ہو۔“([46])

منادی کی پکاروالا دن:

       خلیفہ سلیمان بن عبدالملک منبر پر بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے آواز دی: اے سلیمان! منادی کی پکاروالے دن کو یادرکھو۔ سلیمان منبر سے اترااوراُسے قریب بلاکرپوچھا: منادی کی پکاروالا دن کیا ہے؟  اس شخص نے کہا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ(۴۴)(پ۸،الاعراف:۴۴)

ترجمۂ کنز الایمان:اور بیچ میں منادی نے پکار دیا کہ اللہ کی لعنت ظالموں پر۔

       خلیفہ سلیمان نے کہا:تجھ پر کیا ظلم ہوا ہے؟ اس شخص نے کہا: میری فلاں علاقے میں ایک  زمین تھی جسے تمہارے وکیل نے غصب کر لیا ہے۔خلیفہ سلیمان نے اپنے وکیل کو لکھا: اس کی زمین اس کے حوالے کر دو اور جو زمین اس کی زمین کے ساتھ ہے وہ بھی اس کو دے دو۔

ظلم کا مزہ:

       منقول ہے کہ ایرانی بادشاہ نوشیرواں کا ایک استاد تھا جو اسے اچھے طریقے سے علم سکھاتا تھا حتّٰی کہ نوشیرواں علوم میں فائق ہو گیا۔ ایک دن استاد نے بلا وجہ نوشیرواں کو مارا جس سے نوشیرواں کو سخت تکلیف ہوئی اور  اس نے ارادہ کیا کہ اس سے بدلہ لے گا۔ جب نوشیرواں بادشاہ بنا تو اس نے استاد سے کہا: تم نے مجھے فلاں دن ظلماً کیوں مارا تھا؟ استاد نے کہا: جب میں نےدیکھاکہ توعلم میں رغبت رکھتاہےاوربادشاہت تیرےباپ کےبعدتیرےپاس آئےگی،میں نےتیرے ساتھ یہ سلوک اس لئےکیاتاکہ تو کسی پر ظلم نہ کرے([47])۔یہ سن کر نوشیرواں  نے کہا: تم نے اچھا کیا۔

       منقول ہے کہ کسی بادشاہ نے اپنے بچھونے پر یہ تحریر لکھی([48]):


 

لَا تَظْلِمَنَّ اِذَا مَا كُنْتَ مُقْتَدِرًا                                                                   فَالظُّلْمُ مَصْدَرُهٗ يُفْضِي اِلَي النَّدْمِ

تَنَامُ عَيْنَاكَ وَالْمَظْلُوْمُ مُنْتَبِهٌ                                                                   يَدْعُوْا عَلَيْكَ وَعَيْنُ اللهِ لَمْ تَنَمِ

      ترجمہ:اگر تجھے طاقت حاصل ہو تو ہرگز ظلم نہ کر کیونکہ ظلم کا انجام ندامت ہے۔تیری آنکھیں سو جاتی ہیں مگر مظلوم بیدار رہتااورتجھے بددعا دیتا ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نہیں سوتا۔

      حضرت سیِّدُنا ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : یتیم کے آنسو اور مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ  یہ راتوں کو جاگتے ہیں اور لوگ سو رہے ہوتے ہیں ۔

تین فضل:

      بنو سامہ  بن لؤی سے تعلق رکھنے والے ہیثم بن فراس سامی  نے فضل بن مروان کو کہا:

تَجَبَّرْتَ يَا فَضْلَ بْنَ مَرْوَانَ فَاعْتَبِر                                                                            فَقَبْلَكَ كَانَ الْفَضْلُ وَاْلفَضْلُ وَالْفَضْلُ

ثَلَاثَةَ اَمْلَاكٍ مَضَوْا لِسَبِيْلِهِمْ                                                                                                اَبَادَهُمُ الْمَوْتُ المُشَتِّتُ وَالْقَتْلُ

      ترجمہ:اے فضل بن مروان! تو تکبر کرتا ہے تو  ذرا سوچ! تجھ سے پہلے بھی فضل نامی تین بادشاہ تھے جو اپنی راہ لے چکے ، جدا کردینے والی موت اور قتل نے ان کو ہلاک کر دیا۔

      ہیثم بن فراس کی تین فضل سے مراد فضل بن ربیع، فضل بن یحییٰ اور فضل بن سہل ہیں ۔

      یحییٰ بن خالد برمکی کے تخت کے نیچے ایک رُقعہ ملا جس میں لکھا تھا:

وَحَقُّ اللهِ اِنَّ الظُّلْمَ لُؤْمٌ                                                                                          وَاِنَّ الظُّلْمَ مَرْتَعُهٗ وَخَيْم

اِلٰی دَيَّانِ يَوْمِ الدِّيْنِ نَمْضِي                                                                                   وَعِنْدَ اللهِ تَجْتَمِعُ الْخُصُوْم

      ترجمہ: خداکی قسم ظلم براہےاوراس کاانجام برااورخطرناک ہے۔جزاکےدناللہ عَزَّ  وَجَلَّکی طرف ہم نےجاناہےاورتمام فریقین اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پاس جمع ہوں گے۔

ظالموں کی مدد بھی بری ہے:

      ابنِ ہُبَیْرَہ نے جب امام منصور بن معتمر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو قاضی بنانے کا ارادہ کیا تو منصور نے کہا: میں قاضی نہیں بنوں گا کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابراہیم نخعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے ایک حدیث سنی ہے۔ابنِ ہُبَیْرہ نے کہا: انہوں نے


 

 تمہیں کیا حدیث سنائی ہے؟ منصور نے کہا: حضرت سیِّدُنا ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سیِّدُنا علقمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے اور انہوں نے حضرت سیِّدُنا ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کی کہ حضور نبی رحمت، شفیع امت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک منادی ندا کرے گا:کہاں ہیں ظلم کرنے والے؟ کہاں ہیں ظالموں کے مددگار؟ کہاں ہیں ظالموں کےحمایتی ؟ حتّٰی کہ ان لوگوں کو بھی لایا جائے گا جنہوں نے ظالموں کے لئے قلم تراشا ہو گا یا سیاہی بھری ہوگی تو ان سب کو لوہے کے تابوت میں جمع کر کےجہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔“([49])

ایک مظلوم کی دادرسی:

      ہارون بن محمد بن عبْدُالملک زَیَّات کابیان ہےکہ ایک دن میرے والدمقدمات کےفیصلے کے لئے بیٹھے،جب مجلس ختم ہوئی تودیکھاایک شخص بیٹھاہےتومیرےوالدنےاس سےپوچھا:کیاتیراکوئی مسئلہ ہے؟اس شخص نے کہا: جی ہاں میں تمہارے پاس آیا ہوں کیونکہ میں مظلوم ہوں اور مجھے عدل و انصاف کی تلاش ہے۔میرے والد نے کہا: تجھ پر کس نے ظلم کیا؟ اس شخص نے جواب دیا: تم نے کیا ہے لیکن تم  بالذّات اس میں ملوث نہیں ہو، میں اپنا مسئلہ پیش کرتا ہوں ۔ میرے والد نے کہا: تمہیں کس نے روکا تھا؟ حالانکہ میری مجلس تمہارے سامنے ہی کام کر رہی تھی۔ اس شخص نے کہا: مجھے تیری ہیبت، تیرے طویل کلام کرنے اور تیری فصاحت نے روکا تھا۔ میرے والد نے کہا: تجھ پر کیا ظلم ہوا ہے؟ اس شخص نے کہا: تمہارے وکیل نے میری زمین بغیر کسی معاوضہ کے چھین لی ہے جبکہ اس زمین پر لازم ہونے والا خراج مجھے ادا کرنا پڑتا ہےاور غلہ وہ کھاتا ہے۔ یہ تو وہ ظلم ہے جس کی مثل کبھی نہیں سنا۔میرے والد نے کہا: تیرا یہ کہنا ثبوت، گواہ اور دیگر چیزوں کا محتاج ہے۔ اس شخص نے کہا: اگر وزیر مجھے اپنے غضب سے امان دے تو جواب دوں ؟میرے والد نے کہا: ٹھیک ہے امان دی۔ اس شخص نے کہا: ثبوت اور گواہ تو ایک ہی بات ہے اور جب گواہ ہوں گے تو ان کے ساتھ مزید کسی چیز کی حاجت نہیں ہوگی تو پھر تمہاری اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ثبوت، گواہ اور دیگر چیزوں کی ضرورت ہے؟ اور یہ دیگر چیزیں کیا ہیں ؟ یہ تو ظلم ہے اور عدل سے دور ہونا ہے۔ یہ سن کر میرے والد ہنسنے لگے اور کہا: تو نے سچ کہا اکثر مصیبت  بولنے کی بنا پر آتی ہے اور میں تجھے ایک اچھا آدمی سمجھتا ہوں پھر اسے 100 دینار زمین کی ترقی کے لئے دیئے۔محمد بن عبدالملک کے اصحاب میں سے کوئی شخص اس سے انصاف اور زمین ملنے سے پہلے ملا اور پوچھا: اے فلاں ! تو نے ان لوگوں


 

 کو کیسا پایا؟ اس شخص نے جواب دیا: ایسے بُرے ہیں جو مظلوم کی مدد نہیں کرتے اور ظالم کو ظلم سے نہیں روکتے۔ پھر جب محمد بن عبدالملک کے وکیل نے اس سے انصاف کیا اور زمین لوٹا دی تو کسی نے ایک رات پوچھا: اب وہ لوگ کیسے ہیں ؟ اس شخص نے جواب دیا: اب ٹھیک ہیں ۔ محمد بن عبدالملک کے اصحاب میں سے کسی نے کہا: انصاف کے معاملے میں ان پر اعتماد کر، نقصان کو ان سے دور کر، غصب کے معاملے میں ان کی طرف رجوع کر  اور اپنے دکھوں کو ان پر ظاہر کر اور میں ان سےامید رکھتا ہوں کہ ہر مرغوب چیز تجھے حاصل ہو گی اور ہر مطلوب میں کامیابی ہوگی۔

ظالم کی دنیامیں گرفت:

      منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام کے زمانے میں بنی اسرائیل کاایک کمزور اور غریب شخص تھاجو مچھلی کا شکار کر کےاپنے بیوی بچوں کاپیٹ پالتا تھا۔ ایک دن وہ شکار کے لئے نکلا تو اس کے جال میں ایک بڑی مچھلی پھنس گئی۔ وہ بہت خوش ہوا اور مچھلی کو بیچنے کے لئے بازار کی طرف روانہ ہوگیا تا کہ اسے بیچ کر اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرسکے۔ راستے میں ایک ظالم شخص ملا ، مچھلی پر اُس کی نظر پڑی تو اُس سے مانگی مگر شکاری نے دینے سے انکارکیا۔ ظالم نے اپنے ہاتھ میں موجودچھڑی شکاری کے سر میں زور سے ماری اور کسی قسم کی قیمت دیئے بغیرمچھلی چھین لی۔ شکاری نے اس کے خلاف بددعا کی: الٰہی! تو نے مجھے کمزور اور اسے طاقتور و ظالم بنایا،اِس نے مجھ پر ظلم کیا ہے ، تُو اس سےمیرابدلہ جلدلے کیونکہ میں آخرت تک صبر نہیں کرسکتا۔ پھر وہ ظالم و غاصب مچھلی لے کر اپنے گھرپہنچا اور اپنی بیوی کومچھلی پکانے کا کہا۔ بیوی نے مچھلی پکا کر اس کے سامنے دسترخوان پر رکھ دی۔ جب اُس نے کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایاتومچھلی نے اپنا منہ کھولا اور اس کی انگلی پر کاٹ لیا جس سے اُس کے ہوش اُڑگئے اور وہ درد کی شدت سے بے قرار ہوگیا ۔چنانچہ وہ بھاگم بھاگ طبیب کے پاس گیا اور ہاتھ کے درد کی شکایت  اور مچھلی کے کاٹنے کا ذکر کیا۔ طبیب نے جب دیکھاتو کہا: اس کا علاج یہی ہے کہ انگلی کو کاٹ دیا جائے تاکہ درد ہتھیلی کی طرف نہ جائے۔ اس شخص نے انگلی کٹوا لی تو دردہتھیلی اور ہاتھ کی طرف منتقل ہو گیااور جب درد بہت بڑھا تو وہ ظالم خوف کے مارے کانپ اٹھا۔ طبیب نے کہا: مناسب ہے کہ ہاتھ کو جوڑ سے کاٹ دیا جائے تاکہ دردکلائی کی طرف نہ چلا جائے۔ طبیب نے اس کا ہاتھ گٹِے کے جوڑ سے کاٹ دیا تو درد کلائی کی طرف منتقل ہوگیا پھرجب یہ سلسلہ دراز ہواکہ ایک عضو کٹتا تو درد دوسرے عضو کی طرف منتقل ہوجاتا تو وہ شخص اپنے ربّ عَزَّ  وَجَلَّسے فریادکرتے ہوئے کسی سمت چل پڑا تاکہ جو مصیبت اُس پر نازل ہوئی ہے اُس سے


 

چھٹکارا پاسکے۔ راستے میں  اس نے ایک درخت دیکھا تو اس کے نیچے بیٹھ گیا اور اسے نیند آگئی ، خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے: اے مسکین!تو اپنے کتنے اعضاء کاٹ چکا ہے جا جس پر تونے ظلم کیا ہے اُسے راضی کرلے۔وہ ظالم جب  نیند سے بیدار ہوا اور اس بارے میں سوچنے لگا  تو اسے یاد آیا کہ اُسے جو مصیبت پہنچی ہے وہ شکاری پر ظلم کےسبب سے ہے۔چنانچہ وہ شہر میں داخل ہوا اور شکاری کو تلاش کرنے لگا جب شکاری ملا تو ظالم نے اس کے پاؤں میں گر کر اپنے جرم کی معافی مانگی ، اسےمچھلی کی قیمت اداکی اوراپنےجرم سےتوبہ کی۔شکاری اس سےراضی ہوگیا تو  تکلیف فوراً دورہوگئی اوراسی رات اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نےاس کاہاتھ لوٹادیا جیسےوہ پہلےتھا۔ پھر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا موسٰیعَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی فرمائی: اے موسیٰ ! مجھےاپنی عزت و جلال کی قسم!اگر یہ شخص مظلوم شکاری کو راضی نہ کرتا تو میں اِسے زندگی بھر عذاب میں مبتلا رکھتا۔

ظلم کے خلاف فاروقِ اعظم کا طرزِعمل:

       نیک لوگوں کی خبروں کے ضمن میں حضرت سیِّدُنا اَنس بن مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے منقول ہے کہ  ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمرفاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہتشریف فرماتھےکہ مصرسےایک شخص آیااورعرض کی:اے امیرالمؤمنینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ!یہ آپ کی پناہ لینے کا وقت ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: میں ضرور پناہ دوں گا اپنا مسئلہ بیان کرو۔ اس شخص نے عرض کی: مقابلے میں میرا گھوڑا امیر مصر حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے پر سبقت لے گیا تو اس نے مجھے کوڑے مارے اور کہا: میں دو کریموں کا بیٹا ہوں ۔ حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو لڑکے نے مجھے ڈرایا کہ اگر میں ان کے سامنے پیش ہوا تو وہ مجھے قید میں ڈال دے گا۔ میں رک گیا اور اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی جانب خط لکھا کہ میرا مکتوب جب تمہیں ملے تو تم اور تمہارا فلاں بیٹاحج پر حاضر ہوجائیں اور مصری شخص سے ارشاد فرمایا: جب تک وہ نہیں آتے تم انتظار کرو۔ وہ شخص رُکا رہا حتّٰی کہ حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ آگئےاور حج کی ادائیگی کی۔ جب امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حج سے فارغ ہوئے  تو لوگوں کےساتھ تشریف فرما ہوئے اوران کی ایک جانب حضرت سیِّدُنا عمروبن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اوران کے صاحبزادے کھڑے تھے اوردوسری جانب مصری شخص کھڑا تھا۔ امیرالمؤمنینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کوڑا مصری کو دیا۔ حضرت سیِّدُنا انس بن مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ اس مصری شخص نے مارنا شروع کیا  اور  ہم بھی چاہتے تھے کہ وہ


 

 اسے مارے ([50])لیکن جب اس نے بہت زیادہ کوڑے برسائے تو ہم خواہش کرنے لگے کہ وہ  مارنے سے رُک جائے۔ حضرت سیِّدُنافاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرما رہے تھے : دو کریموں کے بیٹے کو مارو۔ اس شخص نے عرض کی: اے امیرالمؤمنین! میرا بدلہ پورا ہوگیا اور مجھے سکون مل گیا۔حضرت سیِّدُنافاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:کوڑا عمروبن عاص  کو مارو۔اس شخص نے عرض کی:اے امیرالمؤمنین! میں نے اسے مار لیا جس نے مجھے مارا تھا۔حضرت سیِّدُنافاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تو ایسا کرتا تو تجھے کوئی ایک بھی نہ روکتا جب تک کہ تو خود نہ رک جاتا۔ پھر حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے عمرو! تو نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کردیا حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے؟ حضرت سیِّدُنا عَمْرو بن عاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے معذرت کی اور عرض کی: مجھے اس معاملے کی خبر نہیں تھی۔

احمد بن طولون انصاف پسند کیسے بنا؟

      منقول ہے کہ احمد بن طولون کے عادل بننے سے پہلے جب وہ لوگوں پر ظلم کرنے لگا تو لوگ اس کے ظلم سے نجات پانے کے لئے حضرت سیِّدَتُنا نفیسہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اس کی شکایت کی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نے لوگوں سے پوچھا: وہ کس وقت سواری پر نکلے گا؟ لوگوں نے عرض کی: کل نکلے گا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نے ایک مکتوب لکھا اور اس راستے میں تشریف فرما ہو گئیں جہاں سے احمد  بن طولون نے گزرنا تھا۔جب وہ گزرا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نے فرمایا: اے احمد! اے ابن طولون! جب اس نے دیکھاتو آپ کو پہچان لیا اور گھوڑے سے اُتر آیا اور مکتوب لے کر پڑھنے لگا جس میں لکھا تھا: تم بادشاہ بنے تو تم نے لوگوں کو قید کیا، تم قادر ہوئے تو تم نے لوگوں کو مجبور کیا، تمہارے ذمہ کفالت ہوئی تو تم نے لوگوں پر ظلم کیا، لوگوں کے رزق پر تجھے ضامن بنایاگیاتوتو نے انہیں محروم کیا اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ظلم کا تیر پار ہوتا ہے خطا نہیں جاتا خاص کران دلوں سےجنہیں تونےدکھ دیا،ان جگروں سےجنہیں تونےبھوکارکھااوران جسموں سےجنہیں تونےبےلباس رکھا،یہ بات ممکن نہیں کہ مظلوم مرجائیں اور ظالم ہمیشہ باقی رہیں ۔تیری مرضی تو جو چاہے کر ہم صبر کریں گے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں ظلم کی شکایت کریں گے۔ اس کے بعداحمد بن طولون لوگوں کے درمیان فیصلوں میں عدل کرنے لگ گیا۔


 

بُرے دن گزر گئے:

      منقول ہے کہ حجاج نے کسی شخص کو ظلماً قید کر دیا تو اس نے حجاج کو ایک رُقعہ لکھا: ہمارے بُرے دن گزر گئے اور تیرے اچھے دن گزر گئے اور پلٹنے کا دن قیامت ہے اور قید جہنم ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو کسی گواہی کی حاجت نہیں ۔ اور آخر میں اس نے یہ اشعار لکھے:

سَتَعْلَمُ يَا نُؤَمُ اِذَا الْتَقَيْنَا                                                                                    غَدًا عِنْدَ الْاِلٰهِ مِنَ الظَّلُوْمِ

اَمَا وَاللهِ اِنَّ الظُّلْمَ لُؤْمٌ                                                                                               وَمَا زَالَ الظَّلُوْمُ هُوَ الْمَلُوْمُ

سَيَنْقَطِعُ التَّلَذُّذُ عَنْ اُنَاسٍ                                                                               اَدَامُوْهُ وَيَنْقَطِعُ النَّعِيْمُ

اِلٰى دَيَّانِ يَوْمِ الدِّيْنِ نَمْضِي                                                                                   وَعِنْدَ اللهِ تَجْتَمِعُ الْخُصُوْمُ

      ترجمہ:(۱)… اےبہت  سونے والے! کل تو جان لے گا جب ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں ظلم کے معاملے میں ملیں گے۔(۲)…سنو بخدا!ظلم برا ہے اور جو شخص ظلم کرتا رہتا ہے وہ ملامت کئے جانے کے قابل ہے۔(۳)…لوگ جن لذتوں اورنعمتوں کادوام(ہمیشگی)چاہتےتھے عنقریب وہ ختم ہوجائیں گی۔(۴)…جزاکےدن ہم نےاللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہےاورتمام فریقیناللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پاس جمع ہوں گے۔

خواب کے ذریعے قاتل کا پتا چلا:

      ابومحمد حسین بن محمدصالحی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن دوپہر کے وقت ہم خلیفہ مُعْتَضِد بِاللہ کے تخت کے گرد بیٹھے تھے،کھانےکےبعدوہ سوگیا،کچھ دیربعدگھبراکراٹھ بیٹھااورخادم کوپکارا،ہم نے جلدی سے جواب دیاتو خلیفہ نے کہا: تمہاری ہلاکت ہو میری مدد کرو،دریا کے کنارے جاؤاور جو ملاح سب سے پہلے خالی کشتی سےاترے اسے پکڑکرمیرے پاس لےآؤ اورکشتی کی حفاظت کےلئےکسی کوچھوڑآنا۔چنانچہ ہم جلدی سےوہاں پہنچےتو ایک  ملاح کو خالی کشتی سے اترتے پایا،ہم نےاسےپکڑلیااورکشتی کی حفاظت کے لئےایک شخص کووہاں چھوڑکرملاح کومُعْتَضِد بِاللہ کے پاس لےآئے۔ جب ملاح نے مُعْتَضِدکودیکھاتوقریب تھا کہ وہ ہلاک ہوجاتا، مُعْتَضِداُس پر زور سے چِلّایا اور کہا: اے ملعون! مجھے سچ بتااس عورت کے متعلق جسے تو نے قتل کیا تھا ورنہ میں تیری گردن اڑا دوں گا ۔ وہ ہچکچاتےہوئےکہنےلگا:جی ہاں !ایک صبح میں نےفلاں پانی کے گھاٹ پر ایک عورت کو دیکھاجس کی مثل میں نے کوئی عورت نہیں دیکھی تھی،اس نے بیش قیمت کپڑےپہن رکھےتھے اور بہت سے زیورات اور جواہرات زیب تن کئے ہوئےتھے۔میں لالچ میں آگیا اور میں نے  اس کا


 

منہ بند کر کےپانی میں ڈبوکراسےماردیااور جو کچھ اس پر تھا سب لے لیا،پھر اسے پانی میں پھینک دیا،چھیناہوامال لےکرمجھےگھرجانےکی ہمت نہ ہوئی اس ڈر سے کہ کہیں لوگوں کو پتا نہ چل جائے، لہٰذامیں بھاگنے کے لئے ایک کشتی میں اتر گیا،میں ہمت سے کام لیتا رہا مگر ملاحوں نے اس وقت کنارے پر رکنےکاکہا میں ابھی اترا ہی تھا کہ یہ لوگ آئے اور مجھےتمہارےپاس اٹھا لائے۔ مُعْتَضِد نے پوچھا: زیورات اور چھینا ہوا مال کہاں ہے؟ ملاح نے کہا: کشتی کے اگلے حصے میں بادبان کے نیچےہے۔ مُعْتَضِد نے وہ مال لانے کاکہا جب  لوگوں نے وہ مال حاضر کردیا تومُعْتَضِد نے ملاح کو غرق کرنے کا حکم دیااوربغدادمیں یہ اعلان کروایاکہ  صبح کے وقت جس کی بھی لڑکی بیش قیمت کپڑے اور زیورات پہن کر فلاں پانی کے گھاٹ پر نکلی تھی وہ حاضرہوجائے۔دوسرے دن لڑکی کے ورثامیں سے تین لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نےلڑکی اوراس کے زیورات وغیرہ کی نشانیاں بتائیں تو مُعْتَضِدنے وہ چیزیں ان کے حوالےکر دیں ۔ابو محمدحسین کہتے ہیں :میں نے مُعْتَضِد سے پوچھا : اے میرےآقا!آپ کو اس بات کا پتا کیسےچلا؟ کیا اس معاملے کا آپ کواِلہام ہوا تھا کہ آپ نے لڑکی کے معاملے میں حکم دیا؟ مُعْتَضِدنے کہا: نہیں بلکہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ جس کے سر کے بال، داڑھی اور لباس سفید ہے مجھ سے کہہ رہے ہیں : اے احمد! اس وقت سب سے پہلے جو ملاح اُترے گا اسےپکڑ لواوراس سے اس لڑکی کے بارے میں اقرار کرواؤ  جسےاس نے ظلماً قتل کیاہے،پھر اس پر حد جاری کرو اور نفس کے بندے نہ بنو،اس کے بعد جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے([51])۔

عدل کے فائدے:

      ہر حاکم پر فیصلوں میں عدل کرنا اور رعایا کی دیکھ بھال کرنا لازم ہے اور ہر غافل پر ظلم سے ہاتھ روکنا، عدل کی راہ اپنانا اورانصاف سے کام لینا نیزظاہروباطن میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے ڈرنا ضروری ہے۔ اگر حاکم اپنی رعایا پر نظر رکھے تو غافل  لوگ ضرور ظلم سے اپنا ہاتھ روک لیں گے اور عدل کے طریقے پر چلیں گے۔ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ خیر و شر کا مالک ہے، ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دیتا ہے ،مظلوم کی مدد کرتا ہے اور اس کو اس کا حق دلواتا ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّجب ظالم کو پکڑتا ہے تو اُسے چھوڑتا نہیں ۔

                             وَاللهُ تَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَاِلَيْهِ الْمَرْجِعُ وَالْمَاٰبُ وَحَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِّی الْعَظِیْمِ


 

 وَصَلَّي اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَامُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ تَسْلِيْمًا كَثِيْرًا اِلٰی يَوْمِ الدِّيْنِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالِميْنَ یعنیاللہعَزَّ  وَجَلَّ بہتر جانتاہےاوراسی کی طرف لوٹناہےاوراسی کےپاس ٹھکانا(یعنی جنت)ہے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہمیں کافی ہے اور کیا ہی اچھا کار ساز اورنہیں ہے نیکی کرنے کی طاقت اور نہ بُرائی سے بچنے کی قوت مگر اللہ عَزَّ    وَجَلَّ کی طرف سے جو بلند اور باعظمت ہےاورقیامت تک خوب درود وسلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کی آل واصحاب پراور تمام تعریفیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے لئے  ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر21:      گورنر رکھنے کی شرائط، خراج[52]کی وصولی میں

 سلطان کا طریقہ اور ذمیوں [53]کے احکام

(اس باب میں دو فصلیں ہیں )

پہلی فصل:           خراج وصول کرنے میں سلطان کا طریقہ، بیت المال

                                                             سے خرچ کرنے اور گورنروں کے کردار کا بیان

      جعفر بن یحییٰ نے کہا: خراج بادشاہوں کا ستون وسہاراہے اوروہ صرف عدل سے غلبہ نہیں پاسکتے([54])اور ظلم سے رعب قائم نہیں رکھ سکتے۔ زمینوں کو بے کار چھوڑدینا،رعایا کا ہلاک ہونا اورظلم کے سبب خراج کا کم ہو جانا یہ سب شہروں کو بہت  جلد  تباہ وبربادکردیتا ہے۔جو بادشاہ خراج دینے والوں کو ناقابل برداشت کام کا پابند کرے یہاں تک کہ وہ زمین کی آبادکاری سے عاجز آجائیں توایسے بادشاہ کی مثال اُس شخص کی طرح ہے  جو بھوک لگنے پر اپنا ہی گوشت کاٹ کر کھا جائے، یوں وہ ایک حصے سے اپنا پیٹ تو بھر لے گا مگر اس کا دوسرا حصہ کمزور ہوجائےگااور اپنے نفس میں کمزوری اور درد کو داخل


 

 کرنا خود سے بھوک کی تکلیف کو دور کرنے سے بڑا نقصان ہے۔ جو بادشاہ رعایا پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے اُس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو اپنے گھر کی بنیاد سے مٹی نکال کر اُس کے گارے سے  اپنی چھت کی لپائی کرتا ہے۔کمزور ہونے پرجب کاشتکار زمین کو آباد کرنے سے عاجز آجاتے ہیں تو وہ اسے چھوڑ دیتے ہیں ، یوں زمین خراب ہوجاتی ہے اور جب کاشتکار بھاگ جاتے ہیں تو زمین کی آبادکاری کا عمل کمزور ہونے پر خراج کم ہوجاتاہے جس کے نتیجے میں ملکی لشکر کمزور ہوجاتے ہیں اوراگر ملکی لشکر کمزور ہوجائیں توملک دشمن  اس سلطنت پرقبضےکی طمع کرنےلگتے ہیں ۔

اُلّوکی کہانی سے نصیحت:

      منقول ہے کہ ایک رات مامون کو نیند نہ آئی تو اس نے ایک قصہ گو کو بلوایا کہ کوئی کہانی سناؤ۔ قصہ گو نے کہانی شروع کی: اے امیرالمؤمنین! ایک اُلّو موصل میں رہتا تھا اور ایک بصرہ میں ۔موصل کے الو نے بصرہ کے الو کی بیٹی کا اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگا تو بصرہ کے اُلّو نے کہا: میں اس وقت تک تیرے بچے کا پیغام قبول نہیں کروں گا جب تک میری بچی کا حق مہر 100اُجڑے گھر نہ ہوں ۔ موصل کے اُلّو نے کہا: میں اس پر قادرنہیں لیکن اگراللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ہمارے حاکم کو ہم پر ایک سال مزید باقی رکھا تو میں اس شرط کو پورا کردوں گا۔کہتے ہیں کہ مامون اس کہانی کی وجہ سے غفلت سے بیدار ہوگیا اور فیصلوں کے لئے بیٹھنے لگا  اور لوگوں کو ایک دوسرے سے انصاف دلانے لگا اور حاکموں ، گورنروں اور رعایا کے معاملات کی چھان بین کرنے لگ گیا۔

مصرکی بادشاہت:

      ابو حسن  بن علی الاسدی کہتے ہیں : مجھے میرے والد نے بتایا کہ  میں نے ایک قبطی کی کتاب جو کہ پہلے صعیدیہ زبان میں تھی پھر اس کو عربی میں نقل کیا گیا اس میں پڑھا: حضرت سیِّدُنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں وقت کے بادشاہ کو خالص سونے سے مصر کے مال سے ایک سال کا جو خراج جاتا تھا اس کی تعداد دو کروڑ40لاکھ400دینار تھی اور ان میں سے آٹھ لاکھ دینار کا استعمال شہروں کی تعمیر میں ہوتا تھا جیسا کہ  نہریں کھودنا، پل بنانے میں خرچ کرنا، سیلاب کے لئے بندھ باندھنا،شہروں کو وسیع کرنے میں اور اس کے علاوہ دیگر کام جیسے آلات، اس کام میں مدد کرنے والوں کی اجرت اور بیج اٹھانے اور زمین برابر کرنے کے تمام اخراجات۔ چار لاکھ دینار بے سہاروں اور یتیموں پر خرچ ہوتے تھے اگرچہ وہ محتاج نہ ہوں حتّٰی کہ وہ لوگ بادشاہ کی نیکی کے سبب مسائل سے بے فکر ہو جائیں ۔ دو لاکھ دینارعبادت خانوں پر


 

 صرف ہوتے تھے۔  دو لاکھ دینار صدقات میں صرف ہوتے تھے ان لوگوں میں جن پر مصائب آئے ہوں اور وہ جن کی کفالت کرنے والا کوئی مرد نہ ہو اور فاقہ کشی کی بنا  پر ان کے چہرے کی ہڈیاں ظاہر ہوگئی ہوں پھر بھی کچھ لینے نہ آئے ہوں تو ان کے لئے کثیر مال دیا جاتا تھا۔ جب مال تقسیم کرنےوالے مال کی تقسیم سے فارغ ہوجاتے تو بادشاہ کے پاس آتے اور مال تقسیم ہوجانے کی مبارک باد دیتے اور لمبی عمر، ہمیشہ کی عزت، مال و دولت میں  اضافہ اور سلامتی کی دعا دیتے۔ جب بادشاہ کو فقرا  کا حال بیان کیا جاتا تو وہ انہیں  حاضر کرنے کا حکم دیتا اور ان کی پراگندہ حالت کو تبدیل کرتا اور اُن کے لئے دسترخوان بچھاتا جس پر بیٹھ کر وہ اس کے سامنے کھاتے پیتے اور بادشاہ ان میں سے ہر ایک سے اس کے فاقہ کا سبب پوچھتا اگر  سبب قدرتی آفت ہوتی تو اسے اس کے عطیہ سے زیادہ دیتا ۔ دو لاکھ دینار ہر سال بادشاہ کے اخراجات میں صرف ہوتے تھےاور جب بادشاہت حضرت سیِّدُنا یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سپرد ہوئی تو اس میں اور بھی اضافہ ہوا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بیت المال میں ناگہانی آفات  کے لئے  ایک کروڑ چھیالیس لاکھ رقم مقرر کی۔ ابورُہْم کہتے ہیں : مصر کی زمین نشیبی زمین تھی اور پانی مصریوں کے  گھروں کے نیچے سے بہتا ہوا نکلتا تھا اور یہی فرعون کا قول اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے حکایت فرمایا:

اَلَیْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْۚ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَؕ(۵۱) (پ۲۵،الزخرف:۵۱)

ترجمۂ کنز الایمان: کیا میرے لئے مصر کی سلطنت نہیں اور یہ نہریں کہ میرے نیچے بہتی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ۔

      مصر اس زمانے میں بہت بڑا ملک تھا اور اور دریا ئے نیل کے دونوں کناروں پر اُسْوان سے رشید تک ایک دوسرے سے ملے باغات اور کھیتیاں تھیں ۔ جب اہل مصر (بنی اسرائیل)پلوں ،کناروں پر موجود باغات اور کھیتیوں کو چھوڑ کر چلے گئے جو دو پہاڑوں کے درمیان شروع سے آخر تک ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں تو اسی بارے میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا فرمان ہے:

كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۲۵)وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍۙ(۲۶) (پ۲۵،الدخان:۲۵، ۲۶)

ترجمۂ کنز الایمان: کتنے چھوڑ گئے باغ اورچشمے اور کھیت اور عمدہ مکانات۔

مسلمان کو کیسا ہونا چاہئے؟

      حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : فرعون نے ہامان کوسَرَدُوس نہر کھودنے کا کہا تو اس نے اس کام کے لئے کوشش شروع کر دی۔بستی  والوں نے اس سے کہا کہ اُن کے لئے ایسی نہر جاری کرے جو ان کی بستیوں  کے نیچے سے بہتی ہوئی نکلےاور انہوں نے اس کو مال بھی دیا ۔ہامان ایک بستی سے دوسری بستی، مشرق سے مغرب اور  شمال


 

 سے قبلہ کی طرف چلا گیا اور گاؤں والوں کو بتایا کہ نہر کیسےرواں ہوگی اور کس طرح چلے گی اور مصر کی نہر سے بڑی کوئی نہر نہیں ہوگی۔ لوگوں نے نہر کے لئے بہت بڑی رقم جمع کردی۔ ہامان وہ رقم فرعون کے پاس لایا اور اسے معاملے کی خبر دی۔ فرعون نے کہا:  آقا کو چاہئے کہ وہ غلاموں پر مہربانی کرے اور اپنے مال و دولت سے غلاموں کو دے، غلاموں کے مال میں رغبت نہ رکھے اور حکم دیا کہ بستی  والوں کو ان کا مال واپس کر دو۔ ہامان نے جس سے جو لیا تھا اسے واپس کر دیا۔ یہ اس شخص کی سیرت ہے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ پر ایمان لایا نہ اس سے ملاقات کی امید رکھی،نہ اس کے عذاب سے ڈرا اور  نہ قیامت کے دن پر ایمان لایا تو پھر اس شخص کی سیرت کسی ہونی چاہئے جس نے”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ“کہا اور حساب، ثواب اور عذاب کے دن پر یقین رکھا۔

سیِّدُنا یوسفعَلَیْہِ السَّلَام کا قصہ:

      حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَااللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے اس فرمان:

اِجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ- (پ۱۳،یوسف:۵۵)                                  ترجمۂ کنز الایمان:مجھے زمین کے خزانوں پر کر دے۔

      کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اس سے مراد مصر کے خزائن ہیں ۔ جب مصر کے خزانے کی ذمہ داری آپ کی سپرد ہوئی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَامکواختیارات دیئے گئے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ارادہ فرمایا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو صبر کا عوض عطا کرے کیونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے کسی جُرم کا اِرتکاب نہیں کیا تھا۔اُس زمانے میں مصر کا رقبہ40فرسخ (تقریبا196کلومیٹر)تھا۔حضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے مصرکے بادشاہ رَیّان بن مُصْعَب کامطیع اور نائب ہونا اُسی وقت قبول فرمایا جب  اُس نے آپ کی دعوت پر اسلام قبول کرلیا۔جس سال گرانی اور قحط سالی ہوئی اسی سال مصر کے بادشاہ کا انتقال ہوگیا اورحضرت سیِّدُنایوسفعَلَیْہِ السَّلَاممصر کے بادشاہ بن گئے۔ حضرت سیِّدَتُنا زلیخا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا اُس وقت تنگ دست ومحتاج ہوچکی تھیں اور آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی تھی۔ ان سے کہا گیا: اگر آپ بادشاہ سے اپنا معاملہ ذکر کریں تو شاید وہ آپ پر رحم کرے، آپ کی مدد کرے اور آپ کو غنی کر دےکیونکہ آپ نے ان کا خیال رکھا تھا اور اُن کو عزت دی تھی۔ پھر ان سے کہا گیا:  ایسا نہ کرنا ہوسکتا ہے کہ ان کو بدکاری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنا اور قید ہونا یاد آجائے جو تمہاری وجہ سے ان کو پہنچا  اور تم انہیں بُری لگو اور وہ تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی کریں جیسا تمہارے سبب سے ان کے ساتھ ہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا  نے فرمایا: میں ان کی بُردباری اور کرم نوازی کو جانتی ہوں اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَاحضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکے انتظار میں ان کے گزرنے کے دن راستے میں ایک ٹیلے پر بیٹھ


 

 گئیں ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام قوم کے تقریباً ایک لاکھ معززلوگوں اور وزیروں مشیروں کے ساتھ نکلے۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نےحضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی خوشبو محسوس کی تو آپ کھڑی ہوئیں اور آواز دی: پاکی ہے اس کے لئے جس نے مَعْصِیَّت کے سبب بادشاہ کو غلام اور اطاعت کے سبب غلام کو بادشاہ بنادیا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے پوچھا: تم کون ہو؟ عرض کی: میں وہی ہوں جو آپ کی خدمت خود کرتی تھی، آپ کے بالوں میں اپنے ہاتھ سے کنگھی کرتی تھی، آپ کے رہنے کی جگہ کی خود صفائی کرتی تھی اور مجھے میرے کئے کی سزا مل چکی، میری قوت ختم ہو گئی، میرا مال ضائع ہوگیا، میری آنکھوں کی روشنی ختم ہوگئی اور  میں لوگوں سے سوال کرنے پر مجبور ہوگئی ہوں تو کوئی مجھے پر ترس کھاتا ہے اور کوئی نہیں کھاتا۔ پہلے مصر کے لوگ میری نعمت کو دیکھ کر رشک کرتے تھے اور اب میں اس سے محروم ہوچکی ہوں اور فساد کرنے والوں کی یہی سزا ہے ۔ یہ سن کر حضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام بہت زیادہ روئے اور حضرت سیِّدَتُنا زلیخا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا  سے فرمایا: کیا تیرے دل میں میری محبت میں سے کچھ باقی ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نے عرض کی: جی ہاں ،  اس کی قسم جس نے حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو خلیل بنایا! مجھے آپ کی طرف دیکھنا زمین بھر سونا چاندی ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔  آپ عَلَیْہِ السَّلَام وہاں سے چلے گئے اور حضرت سیِّدَتُنا زلیخا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا کی طرف پیغام بھیجا: اگر تمہاری رضامندی ہو تو ہم تم سے نکاح کرلیں اور اگر تم شادی شدہ ہو تو تمہیں غنی کردیں ؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نے حضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے پیغام لانے والے سے کہا: میں جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں کیونکہ میری جوانی اورحُسن و جمال کے وقت تو انہوں نے میری طرف توجہ نہیں دی اور اب جب کہ  میں بوڑھی، اندھی اور فقیر ہوں تو وہ مجھے کیسے قبول کرسکتے ہیں ؟ حضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کا سامان تیار کرنے کا حکم دیا اور ان سے نکاح کر لیا اور ان کے پاس آئے اور قدموں کو ایک سیدھ میں کر کے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی اوراللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے اس کے اسم اعظم کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے حضرت سیِّدَتُنا زلیخارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا  کا حسن و جمال، بصارت اور جوانی لوٹا دی۔ نکاح کے وقت آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا باکرہ تھیں اور آپ سےاَفراثیم بن یوسف اور منشا بن یوسف پیدا ہوئے۔ حضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت سیِّدَتُنا زلیخا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نے اسلام میں بڑی خوشگوار زندگی گزاری حتّٰی کہ موت نے آپ دونوں کے درمیان جدائی ڈالی۔

مدنی پھول:

      قوی کو چاہئے کہ کمزور کو اور مالدار کو چاہئے کہ فقیر کو نہ بھولے کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ جس سے طلب کیا جارہا


 

ہےوہ خود طلب کرنے والا ہوجائے، جس سے خواہش کی جارہی ہے  وہ خود خواہش کرنے والا ہوجائے، جس سے سوال کیا جارہا ہے  وہ خود سوال کرنے والا ہوجائے اور لوگوں پر رحم کرنے والا خود قابل رحم ہوجائے۔ ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنی رحمت سے ہم پر رحم فرمائے اور اپنے فضل سے ہم کو غنی کردے۔

رعایاکی بھوک کی فکر:

      جب حضرت سیِّدُنایوسفعَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامزمین کےخزانوں کےمالک ہوگئےتوآپعَلَیْہِ السَّلَامکبھی بھوکے رہتے اور کبھی جو کی روٹی کھاتے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا گیا:آپ زمین کے خزانوں کے مالک ہیں اور آپ بھوکے رہتے ہیں ؟آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: مجھے خوف ہے کہ میں سیر ہوکر بھوکوں کو بھول جاؤں گا۔

گورنروں کی سیرت کابیان

حکایت: حمص کے عامل عمیر بن سعد

      منقول  ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر  فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا عمیر بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو حمص کا گورنر بنایااور جب ایک سال گزر گیا تو انہیں خط لکھ کراپنے پاس بلایا۔ حضرت سیِّدُنا عمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپناعصا ، زادہ راہ کا تھیلا،ایک چھوٹا سا مشکیزہ اور ایک پیالہ ساتھ لئے ننگے پاؤں پیدل چلتے ہوئے حاضر ہوگئے۔ جب امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ کی طرف دیکھا تو فرمایا:  اے عمیر! کیا تم ہم سے بزدل ہوگئے ہو یا ایسے شہر سے آئے ہو جو بُرا ہے؟ حضرت سیِّدُنا عمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: اے امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ! کیا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے بُری بات اور بُرے گمان سے منع نہیں کیا؟ میں آپ کے پاس  اس حال میں حاضر ہوا ہوں کہ دنیا میرے ساتھ ہے۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: کون  سا مال ہے تمہارے پاس؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: ایک عصا ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور دشمن سامنے آجائے تو اس سے مقابلہ کرتا ہوں ، ایک تھیلا ہے جس میں اپنا زادِ راہ رکھتا ہوں ، ایک چھوٹا مشکیزہ ہے جس سے پانی پیتا ہوں اور ایک پیالہ ہے جس سے میں وضو کرتا ہوں ،اپنا سر دھوتا ہوں اور کھانا کھانے کے لئے استعمال کرتا ہوں ۔اےامیرالمؤمنین!بخدا!یہی میری دنیاہے۔یہ سن کرحضرت سیِّدُناعمرفاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمجلس سے کھڑے ہوئےاور حضورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماورحضرت سیِّدُناابوبکرصدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی قبرمبارک پرآئےاور بہت


 

زیادہ روئے اور یہ دعا کی: ”اَللّٰهُمَّ الْحَقْنِي بِصَاحِبَيْ غَيْرَ مُفْتَضَحٍ وَلَا مُبَدَّلٍیعنی اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ!مجھے رسوا ہونے اور بدلنے سے پہلے میرے دونوں صاحبوں کے ساتھ ملا دے۔“ پھر واپس اپنی مجلس میں تشریف  لائے اور فرمایا:اے عمیر! ہم نے تمہیں جس کام کے لئے بھیجا تھا وہ تم نے کیسے کیا؟ حضرت سیِّدُنا عمیر بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: میں نے اونٹ والوں سے اونٹ لئے  اور ذمیوں سے جزیہ لیا اس حال میں کہ وہ اطاعت گزار تھے۔ پھر اس سارے مال کو فقرا، مساکین اور مسافروں  میں تقسیم کردیا۔ اے امیرالمؤمنین خدا کی قسم! اگر اس میں سے میرے پاس کچھ بچتا تو میں ضرور آپ کے پاس حاضر کردیتا۔حضرت سیِّدُنافاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: اے عمیر!اپنے کام کی طرف دوبارہ جائیے۔ حضرت سیِّدُنا عمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی:اے امیرالمؤمنین! میں آپ کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اپنے گھر بھیج دیجئے۔انہیں اجازت مل گئی اور وہ اپنے گھر چلے گئے۔حضرت سیِّدُنافاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حبیب نامی شخص کو 100 دینار دے کر بھیجا اور فرمایا: عمیر کے بارے میں مجھے خبر دینا، ان کے پاس تین دن رُکنا اور دیکھنا کہ وہ خوشحال ہیں یا تنگدست، اگر تنگدست ہوں تو یہ  100 دینار انہیں دے دینا۔ حبیب گئے اور تین دن حضرت سیِّدُنا عمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس رُکے لیکن انہوں نے وہاں زیتون کے تیل اور جو کے علاوہ کوئی گزارے کی چیز نہ دیکھی۔ جب تین دن گزر گئے تو حضرت سیِّدُناعمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: اے حبیب! اگر تو مناسب سمجھے تو ہمارے پڑوسیوں میں سے کسی کے ہاں چلا جا ہوسکتا ہے کہ وہ تیری ہم سے اچھی خدمت کرسکیں ، خدا کی قسم! اگر ہمارے پاس اس کے علاوہ کچھ ہوتا تو ہم ضرور تیرے لئے حاضر کرتے۔ حبیب نے 100 دینار دیئے اور عرض کی: یہ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ کے لئے بھیجے ہیں ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنی زوجہ کو پھٹے پرانے کپڑے لانے کو کہا اور ان سے پانچ، چھ اور سات دینار کی پوٹلیاں بنا لیں اور ان کو اپنے فقرا بھائیوں کی طرف بھیج دیا۔ حبیب حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور عرض کی: اے امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ! میں آپ کے پاس ایسے شخص کی طرف سے آرہا ہوں جو لوگوں میں سب سے زیادہ زاہد ہے اور اس کے پاس دنیا زیادہ ہے نہ کم ہے۔حضرت سیِّدُنا فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ان کے لئے241کلو گرام گندم اور کپڑوں کا حکم دیا۔حضرت سیِّدُناعمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: اے امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ! کپڑے تو میں قبول کر لیتا ہوں لیکن گندم کی مجھے حاجت نہیں ہے  کیونکہ گندم میرے گھر میں چار کلو کے قریب موجود ہے اور وہ ہمارے لئے کافی ہے جب تک ہمیں مزید کی ضرورت نہیں پڑتی۔


 

دینار صدقہ کردیئے:

      منقول ہےکہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے 400 دینار تھیلی میں باندھے اور غلام سے کہا:یہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دے دو اور پھر تم وہاں کچھ دیر رُکنا اور دیکھنا کہ وہ ان کا کیا کرتے ہیں ؟ غلام حضرت سیِّدُنا ابو عبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی پاس گیا اور عرض کی: امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا ہے کہ آپ انہیں اپنی ضروریات میں خرچ کریں ۔حضرت سیِّدُنا ابو عبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دعا دی: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ان کا مرتبہ بلند کرے اور ان پر رحم فرمائے پھر اپنی لونڈی کو بلوایا اور اس سے کہا: یہ سات دینار فلاں کو دے آؤ یہ پانچ فلاں کو دے آؤ حتّٰی کہ سارے دینار خرچ کر دیئے۔ غلام حضرت سیِّدُنافاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں لوٹ آیا اور جو اس نے دیکھا اس کی خبر دے دی۔حضرت سیِّدُناعمر فاروق   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اتنے ہی دینار حضرت سیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے لئے بھی باندھے اور غلام سے کہا:یہ معاذ بن جبل کو دے آؤ اور دیکھو وہ کیا کرتے ہیں ؟ غلام حضرت سیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس گیا اور ان سے بھی وہی کہا جو اس نے حضرت سیِّدُنا ابو عبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کہا تھا۔حضرت سیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی وہی معاملہ کیا جو حضرت سیِّدُنا ابو عبیدہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کیا تھا۔ غلام حضرت سیِّدُناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں لوٹ آیا اور ان کو معاملے کی خبر دی۔حضرت سیِّدُنا عمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: یہ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔

دوسری فصل:                                                                                                      ذمیوں کے احکام کا بیان

سیِّدُناعمر بن عبدالعزیز عَلَیْہ ِالرَّحْمَہکاطرز عمل:

      منقول ہے کہ بنوثَعْلَبَہ کے لوگ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اے امیرالمؤمنین! ہمارے لئے کچھ مقرر کر دیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پوچھا: کیا تم نصرانی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: حجام کو بلواؤ اور ان کے سر کے اگلے حصے کے بال کٹواؤ اور ان کی چادروں میں سے کپڑا پھاڑ کر ان کی کمر پر پٹیاں بندھواؤ اور انہیں حکم دو کہ زین پر سوار نہ ہوں اور پالان پر سوار ہوں تو ایک کنارے پر سوار ہوں ۔


 

خلیفہ جعفر متوکل کا طرز عمل:

       منقول  ہے کہ  خلیفہ جعفر متوکل نے یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں کے معاملات سے دور رکھااورانہیں کسی عہدے پر مقرر نہ کیا بلکہ ذلیل ورسوا کیانیز ان کی اور مسلمانوں کی وضع میں فرق رکھا ۔اہل حق اس کے قریب رہے اور اہل باطل اس سے دور رہے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اس کے ذریعے حق کو زندہ رکھا اور باطل کو مٹایا۔

یہود و نصارٰی سے کام نہ لو:

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں : یہود و نصاریٰ کو حاکم  نہ بناؤ کہ یہ تو اپنے دینی معاملات میں بھی رشوت لینے والے ہیں اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے دین میں رشوت حلال نہیں ۔ جب امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بصرہ کے گورنر حضرت سیِّدُنا ابو موسٰی اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اپنے پاس حساب وکتاب کے لئے بلایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمسجد میں حاضر خدمت ہوئے اور اپنے  نصرانی کاتب کے لئے اجازت چاہی تو حضرت سیِّدُنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے ان سے فرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تجھے ہلاک کرے،تونے ایک ذمی کو مسلمانوں پر والی بنادیا،کیا تو نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا یہ فرمان نہیں سنا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۱) (پ۶،المائدة:۵۱)

 ترجمۂ کنزالایمان:اےایمان والویہودونصارٰی کودوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہےبے شک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔

       تونےکسی مسلمان کوکاتب کیوں نہ بنایا؟حضرت سیِّدُناابوموسٰی اشعریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےعرض کی:اے امیرالمؤمنین! وہ میرے لئے کتابت کرتا ہے اس کا دین اس کے لئے ہے۔ حضرت سیِّدُناعمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: جن کیاللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اہانت کی ہے ان کی تعظیم نہ کرو، جن کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ذلیل کیا ہے ان کو عزت نہ دواورجن کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے دور کیا ہے ان کو قریب نہ کرو۔

جو مرتبہ ہے اسی میں رکھو:

       کسی گورنر نے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے خط کے ذریعے پوچھا: دشمن زیادہ ہوگئے ہیں


 

اور جزیہ بھی زیادہ ہوگیا ہے تو کیا ہم عجمی غیرمسلموں سے مدد لے سکتے ہیں ؟حضرت سیِّدُنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواباً ارشاد فرمایا:وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے دشمن ہیں اور ہمیں دھوکادیتے ہیں تو انہیں اسی مرتبے میں رکھو جس میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے انہیں رکھا ہے۔

مشرک سے مدد نہ لی:

      جب  حضور نبی رحمت،شفیْعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بدر کے لئے نکلے تو مقامِ حَرّہ کے قریب مشرکین میں سے ایک شخص ملا اور اس نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ چلوں اور آپ کی طرف سے لڑوں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا: کیا تم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ کہا: نہیں ۔ آپ نےارشاد فرمایا: واپس چلا جا میں مشرک سے ہرگز مدد نہ لوں گا۔ پھر وہ شخص مقام شجرہ کے پاس ملا اور کہا: میں حاضر ہوا ہوں  کہ آپ کے ساتھ چلوں اورآپ کی طرف سے لڑوں ۔ارشاد فرمایا: کیا تم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس شخص نےکہا: نہیں ۔ارشاد فرمایا: واپس چلا جامیں مشرک سے ہرگز مدد نہ لوں گا۔ پھر وہ شخص مقام بیداء کے پیچھے ملا اوروہی بات کہی تو  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےپھرارشادفرمایا: کیا تم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس شخص نے کہا:جی ہاں ۔آپ نے اسے بھی ساتھ لے لیا([55]) اور اس کے سبب مسلمان خوش ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے لئے قوت اور ہمت کا باعث بنا تھا۔

      یہ اس بات کی اصل  ہے کہ کافر سے مدد نہیں لی جائے گی کیونکہ کفار حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے مقابلے میں آئے اور اِن کفار کا خون بہایا گیاتو اب کیسے ان کو مسلمانوں پر والی بنایا جاسکتا ہے؟

      حضرت سیِّدُناعمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے اپنے گورنروں کو یہ لکھا :تم اہل علم  کے علاوہ کسی کو حکومتی عہدے پر فائز نہ کرنا۔ گورنروں  نے جواب دیا: ہم نے اہل علم میں خیانت دیکھی ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے انہیں جواب دیا: اگر اہل علم  میں بھلائی نہیں ہے تو پھر دوسروں میں تو بدرجہ اولیٰ بھلائی نہیں ہوگی ۔

شوافع کے نزدیک ذمیوں کے احکام:

      علمائے شوافع نے فرمایا: یہود و نصارٰی پرلازم ہے کہ وہ مسلمانوں سے لباس میں فرق رکھیں اور ٹوپی پہنیں تو سرخ رنگ میں رنگی ہوئی پہنیں جو مسلمانوں کی ٹوپی سے الگ ہو  اوراپنی کمر پر زُنَّار باندھیں ۔ گلوں میں پیتل یا سیسہ کی نشانی ہو یا


 

گھنٹی ہو اور اس کے ساتھ ہی حمام میں داخل ہوں ۔ عمامہ باندھیں نہ عمدہ شال اوڑھیں ۔ عورتیں بھی ازار بند کے نیچے زُنَّار باندھیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ازار بند کے اوپر باندھیں اور یہی زیادہ بہتر ہے اور ان کے گلوں میں بھی نشانی ہو اوراس کےساتھ ہی حمام میں داخل ہوں اور ان کا ایک موزہ سیاہ اور دوسرا سفید ہو۔ یہود ونصاریٰ  گھوڑے، خچر اور گدھےپر پالان پر سوار نہ ہوں اور  نہ ہی زین پر بیٹھیں اور مجلسوں کی صدارت بھی نہ کریں ۔انہیں سلام میں پہل نہ کی جائے بلکہ راستے میں ہوں تو انہیں تنگ راستے کی طرف مجبور کیا جائے اور مسلمانوں کی عمارتوں سے اونچی عمارت بنانے سےانہیں منع کیا جائے۔ ان کے ساتھ مساوات جائز ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مُساوات جائز نہیں ہے۔ اگر ذمی کسی بلند گھر کے مالک ہو جائیں تو اسے برقراررکھیں گے۔ منکرات کا اظہار کرنے سے ان کو منع کریں جیساکہ شراب پینا، خنزیر کا گوشت کھانا، ناقوس بجانا اور بلندآوازسےانجیل اورتورات پڑھنا۔حجازمیں داخل ہونےسےانہیں منع کیاجائےگا اور حجاز میں مکہ، مدینہ اور یمامہ شامل ہیں ۔ اگر وہ جزیہ دینے سے منع کرکےسابقہ روش اختیارکرلیں تو ان کا عہد ٹوٹ جائے گا۔ اگر کسی ذمی نے مسلم عورت کے ساتھ زنا کیا یا کسی مسلم عورت کے ساتھ نکاح کیا یا کفار کے لئے جاسوسی کی یا مسلمانوں کی پوشیدہ جگہوں پر کفار کی راہنمائی کی یا مسلمانوں کے دین میں فتنہ ڈالا یا مسلمان کو قتل کیا یا مسلمان کے ساتھ لوٹ مار کی تو اس کا ذمہ ختم ہوجائے گا۔

جزیہ[56] کی مقدار:

      جزیہ کی مقدار کے بارے میں علما کے مابین اختلاف ہے۔بعض علما کہتے ہیں کہ کمی اور زیادتی میں اس کی مقدار وہی ہو گی جو امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے  حضرت سیِّدُنا عثمان بن حنیف رَضِیَ اللہُ عَنْہکوکوفہ میں لکھ کربھیجی تھی کہ مال دارسے48،متوسط سے24اورغریب سے12درہم لئے جائیں گے۔ اس وقت اکابرصحابَۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانبھی موجود تھےاور کسی نے بھی اس مسئلے میں حضرت سیِّدُنا عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےاختلاف نہیں کیا۔سونےکےاعتبارسے12دینار ہیں اوریہی حضرت سیِّدُناامام اعظم ابوحنیفہ اورحضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل عَلَیْہِمَا الرَّحْمَہ کا مذہب ہے اور حضرت سیِّدُنا امام شافعیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا بھی ایک قول یہی ہے۔ حاکم کاامیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکےمقررکردہ جزیہ سے زیادہ وصول کرنا بھی جائز ہے لیکن اس سے کم کرنا جائز نہیں ۔عورتوں ، غلاموں ، بچوں اور مجنونوں پر جزیہ نہیں ہے([57])۔


 

نصاریٰ کے عبادت خانوں کا حکم:

      نصاریٰ کے عبادت خانوں کے متعلق امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حکم دیا کہ دارالاسلام ہونے کے بعدجو گرجے تعمیر ہوں انہیں مسمار کردیا جائے اور نئے گرجوں کی تعمیر کی اجازت نہ دی جائے اور یہ بھی حکم دیاکہ کنیسہ سے باہر اپنی نشانیاں ظاہر نہیں کریں گے اور نہ صلیب بلند کریں گے۔

      حضرت سیِّدُنا عروہ بن محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے صنعاء میں گرجے کو منہدم کردیا تھا اور یہ جو بیان ہوا اس پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے ۔ اس معاملے میں امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز بہت سخت تھے اور انہوں نے حکم دیاکہ مسلمانوں کے علاقوں میں کوئی بھی گرجا اور نصاریٰ کا عبادت خانہ نہیں چھوڑا جائے گا خواہ وہ نیا ہو یا پرانا۔

                             وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَاِلَيْهِ الْمَرْجِعُ وَالْمَاٰبُ وَحَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ وَصَلَّي اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَامُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمیعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّبہتر جانتا ہے اور  اسی کی طرف لوٹنا ہےاوراسی کےپاس ٹھکانا(یعنی جنت)ہے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّہمیں کافی ہے  اور کیا ہی اچھا کار ساز اور درود وسلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کی آل واصحاب پر۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر 22:                             لوگوں کے ساتھ بھلائی،مظلوموں کی مدد،

                                مسلمانوں کی حاجت روائی اور ان  کے دلوں

میں خوشی داخل کرنے کا بیان

بھلائی اور مدد کے متعلق دو فرامینِ باری تعالٰی:

﴿1﴾…

وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْؕ- (پ۲،البقرة:۲۳۷)  ترجمۂ کنز الایمان: اور آپس میں ایک دوسرے پر احسان کو بھلا نہ دو۔

﴿2﴾…

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪- (پ۶،المائدة:۲)  ترجمۂ کنز الایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔


 

جہاد کا ثواب:

       سَیِّدِعالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی مدد اور فائدے کے لئے چلا تو اس کے لئے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے راستے میں جہاد کرنے کا ثواب ہے۔ ([58])

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا محبوب:

       حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:تمام مخلوق اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی عیال  ہےاور مخلوق میں سے اسے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی عیال کے لئے خرچ کرے۔“([59])

       ”عیال“ سے مراد یہ ہے کہ تمام مخلوق اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی محتاج ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تمام کو پالنے والا ہے۔

       حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ تمام نبیوں کے سرور، محبوب ربِ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سے بہتر وہ ہے جوانہیں نفع پہنچائے۔ ([60])

نور کے منبر:

       حضرت سیِّدُنا عمرو بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی پاک، صاحِبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے کچھ لوگوں کو بندوں کی حاجات پوری کرنے کے لئے پیدا فرمایا ہے اور اپنےذمہ کرم پر یہ عہد لیا ہے کہ حاجات پوری کرنے والوں کو آگ کا عذاب نہیں دے گا اور جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کے لئے نور کے منبر بچھائے جائیں گے جہاں وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے ہم کلام ہوں گے جبکہ دیگر لوگ حساب میں مشغول ہوں گے۔ ([61])

جہنم اور نفاق سے آزادی:

       حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم،نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے


 

 ارشاد فرمایا:”جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کی کوشش کرے خواہ حاجت پوری ہو یا نہ ہوتو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اس کے لئے دو آزادیاں لکھتا ہے ایک جہنم سے اور دوسری نفاق سے۔“([62])

       حضرت سیِّدُناابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتےہیں کہ مکی مدنی سلطان،رحمت عالمیانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرے گامیں اس کے میزان کے پاس کھڑا ہوں گا اگر اس کانیکی والا پلڑا بھاری رہا تو ٹھیک ورنہ میں اس کی شفاعت کروں گا۔([63])

بلا حساب جنت میں داخلہ:

       حضرت سیِّدُنا انسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے محبوب،دانائےغیوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کے لئے چلے اللہ  عَزَّ     وَجَلَّ اس کے ہر قدم کے بدلے اس کے لئے 70 نیکیاں لکھتا ہے اور 70 گناہ مٹا دیتا ہےاوراگر وہ مسلمان بھائی کی حاجت کو اپنے ہاتھ سے پورا کردے تو گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے اپنی ماں سے پیدا ہونے کے دن تھا اور اگر حاجت پوری کرنے کے دوران مر جائے تو بلا حساب جنت میں داخل ہوگا۔([64])

       حضرت سیِّدُناابنِ عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتےہیں کہ حضور نبی کریم،رَءُوْفٌ رَّحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:جواپنےبھائی کی حاجت کےلئےچلےاوراس سےہمدردی کرےتو اللہ عَزَّ   وَجَلَّ اس کے اور جہنم کے درمیان سات خندقیں بنا دے گا اور ایک خندق سے دوسری خندق کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا جتنا زمین اور آسمان میں ہے۔([65])

نعمتوں سے محرومی کا ایک سبب:

       حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ حضور  تاجدار رسالت، مالک کوثر و جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں وہ لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے کے سبب


 

نعمتوں سے نوازے رکھتا ہے جب تک وہ لوگوں سے اُکتا نہ جائیں اورجب وہ لوگوں سےاُ کتا جاتےہیں تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّان سے نعمتوں کو دوسروں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ “([66])

نعمت کا زوال:

       حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتے ہیں کہ شہنشاہِ کون ومکاں ، سرورِ ذیشاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّجب کسی بندے پر کوئی نعمت تام کرتا ہےتو لوگوں کی حاجتیں اس سے متعلق کردیتا ہے پھر اگر وہ لوگوں سے اُکتا جاتا ہے تو اُس سے نعمت کو زائل کردیتا ہے۔ ([67])

غمگین کی مدد پر73نیکیاں :

       حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی غمگین  کی مدد کرے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کے لئے 73نیکیاں لکھتا ہے، ان میں سے ایک نیکی سے اس کی دنیا و آخرت کی اصلاح ہوتی ہے اور باقی سے اُس کے  درجات بلند ہوتے ہیں ۔ ([68])

       حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ شیر اپنی چنگھاڑ میں کیا کہتا ہے؟صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں ۔ارشادفرمایاکہ وہ کہتاہے:اےاللہ!مجھےنیکو کاروں میں سے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔([69])

افضل عمل:

       حضرت سیِّدُناعبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ شہنشاہِ خوش خِصال، بی بی آمنہ کے لال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کی گئی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے نزدیک لوگوں میں سے زیادہ پسندیدہ کون ہے؟ ارشاد فرمایا: لوگوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا۔ عرض کی گئی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ


 

 وَسَلَّم! افضل عمل کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: مومن کے دل میں خوشی داخل کرنا۔ عرض کی گئی: مومن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا: اسے کھانا کھلانا، اس کی تکلیف دور کرنااور اس کا قرض ادا کرنااورجو اپنے بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلا تو وہ ایسا ہے جیسے رمضان میں روزے رکھے اور اعتکاف کرےاور جو مظلوم کی مدد کرنے کے لئے چلتا ہے بروز قیامت جب لوگوں کے قدم ڈگمگائیں گے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اسے ثابت قدم رکھے گااور جو اپنے غصے کو روکتا ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور بداخلاقی عمل کو ایسے برباد کرتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کرتا ہے۔ ([70])

مسلمان کو خوش کرنے کی فضیلت:

       حضرت سیِّدُناانسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سَر وَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی سے اس کے پسندیدہ انداز میں ملے تاکہ اس کو اس سے خوش کرے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّاس کو قیامت کے دن خوش کردے گا۔([71])

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَابیان کرتی  ہیں کہرسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان گھر میں خوشی داخل کرے گا تواللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کے لئے جنت کے سوا کسی خوشی پر راضی نہیں ہوگا۔ ([72])

خوشی کا فرشتہ:

       حضرت سیِّدُنا امام جعفرصادقرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاپنے جدِّ اَمجد سے روایت کرتے ہیں کہ حُضور نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جوآدمی کسی مومن کو خوش کرتا ہے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُس خوشی سے ایک فرشتہ پیدا فرماتا ہے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی عبادت اور اس کی توحید بیان کرتا رہتا ہے۔ جب وہ آدمی مرنے کے بعد اپنی قبر میں پہنچتا ہے تو وہ خوشی (بصورت فرشتہ)اُس کے پاس آکر کہتی ہے :کیا تم مجھے جانتے ہو؟آدمی کہتا ہے:تم کون ہو؟وہ کہتی ہے :میں وہ خوشی ہوں جو تونے فلاں بندے کو دی تھی اورآج میں تیرے لئے وحشت سے اُنسیت کا باعث ہوں گی، تجھے تیری حجت یاد دلاؤں  گی اور حق بات پر تجھے ثابت قدم رکھوں گی،قیامت کے دن تیرے ساتھ ہوں گی،تیرے رب کی بارگاہ میں تیری شفاعت


 

کروں گی اور جنت میں تیرا ٹھکانادکھاؤں گی۔ ([73])

      دانشوروں  کا قول ہے کہ جب تم کسی کریم  سے حاجت پوری کرنے کا سوال کرو تو اُسے سوچنے کا موقع دو کیونکہ کریم  اچھاہی سوچے گا اور جب کسی کمینے سے سوال کرو تو اُسے سوچنے کا موقع نہ دو ہو سکتا ہے کہ اس کی فطرت اُسے یہ کام کرنے سے روک دے۔

حاجت پوری ہوگئی:

      ایک شخص نے کسی سے اپنی حاجت بیان کی پھر اس سے دوبارہ اس سلسلے میں بات نہ کی تو اس شخص نے سوال کرنے والے سے پوچھا: کیا تو اپنی حاجت بھول گیا ہے؟ سوال کرنے والے نے جواب دیا: اپنی حاجت کے لئے تجھے جگا رکھنے والا اپنی حاجت کو بھولا نہیں ہےاور جو تیرا قصد کر لے وہ کامیابی کے راستے سے ہٹ نہیں سکتا۔ وہ شخص اس کی فصاحت سے بڑا متاثر ہوا اور اس کی حاجت پوری کردی اور اس کے لئے ڈھیر سارے مال کا حکم دیا۔

      مسلمہ نے نصیب سے کہا: مجھے اپنا مسئلہ بیان کرو۔ نصیب نے کہا: میرے مسئلہ بیان کرنے کے مقابلے میں آپ کے ہاتھ عطیہ دینے میں زیادہ کشادہ ہیں ۔ مسلمہ نے اس کے لئے ایک ہزار دینار کا حکم دے دیا۔

نا اہل سے حاجت بیان نہ کرو:

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں کہ حاجت کو چھوڑ دینا زیادہ آسان ہے ایسے شخص سے حاجت طلب  کرنے سے جو پوری کرنے کا اہل نہ ہو۔

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : اپنے بھائی کے پاس حد سے زیادہ حاجتیں نہ لے کر جاؤ کیونکہ بچھڑا جب ماں کے پستان چوسنے میں حد سے تجاوز کرتا ہے تو اسے دور کر دیا جاتا ہے۔

      ذُوالرِّیاسَتَیْن نے ثمُامہ بن اَشرس سے کہا: مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اتنے لوگ جو آئے ہیں ان کا کیا کروں ؟  ثمامہ نے کہا: آپ اپنی جگہ سے اُٹھ جائیں اور یہ مجھ پر چھوڑ دیں کہ میں ان میں سے کسی کو آپ سے نہ ملنے دوں ۔ذو الریاستین نے کہا: یہ ٹھیک ہے  ۔ثمامہ  لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے بیٹھ گیا۔


 

دل اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے دست قدرت میں ہیں :

       ابو جعفر محمد بن قاسم الکرخی کہتے ہیں : میں نے  ابو الحسن علی بن محمد بن فرات کو اپنی حاجت ایک رُقعہ میں لکھ کر پیش کی۔ اس نے وہ رقعہ پڑھا اور اپنے ہاتھ سے ایک طرف رکھ دیا اور اس بارے میں کچھ نہ کہا تو میں نے وہ رُقعہ لیا اور کھڑا ہوگیااور میں نے اسے سناتے ہوئے  یہ دو شعر کہے:

وَاِذَا خَطَبْتَ اِلٰی كَرِيْمٍ حَاجَةً

 

وَاَبٰی فَلَا تقْعُدْ عَلَيْهِ بِحَاجِبِ

فَلِرُبَّمَا مَنْعُ الْكَرِيْمِ وَمَا بِهٖ

 

بُخْلٌ وَلٰكِنْ سُوْءءُ حَظِّ الطَّالِبْ


      
ترجمہ:جب تو  کسی کریم کے پاس  حاجت لے کرجائے اور وہ اسے پوری کرنے سے انکار کردے توتُو اس کے پاس دربان بن کر نہ بیٹھ جا کیونکہ کبھی کریم کامنع کرنا بخل کے سبب نہیں ہوتا، ہاں طلب کرنے والے کا نصیب بُرا ہوتا ہے۔

       ابو الحسن نے کہا: اے ابو جعفر! جو تم نے کہا ہے وہ ہم نے سن لیا ہے لوٹ آؤ، طلب کرنے والے کا نصیب بُرا نہیں ہے ہاں جب اُس نے ہم سے سوال کیا تو ہم نے اُسے لوٹایا ضرورتھا کہ دل اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے دست قدرت میں ہیں اور بدلتے رہتے ہیں ۔  پھر رُقعہ لیا اور جو میں چاہتا تھا ویسا کردیا۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے حیا:

       حضرت سیِّدُناعبداللہ بن حسن بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ فرماتے ہیں کہ میں کسی حاجت کے لئے امیرالمؤمنین حضرت عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کے دروازے پر گیا تو انہوں نے فرمایا: اگر آپ کو مجھ سے کوئی حاجت ہو تو کسی کے ہاتھ پیغام بھیج دیا کریں یا مجھے خط لکھ دیا کریں کیونکہ میں اس بارے میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے حیا کرتا ہوں کہ آپ میرے دروازے پر آئیں ۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّمصیبت دور کردیتا ہے:

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جو خوب دعاؤں کو سننے والا ہے! جب کوئی شخص کسی کے دل میں خوشی ڈالتا ہے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس خوشی سے رحم کو پیدا فرماتا ہے، جب اس شخص پر کوئی مصیبت آئے تو وہ رحم اس پر اس طرح جاری ہوتا ہے جیسے ڈھلان میں پانی گرتا ہے حتّٰی کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُس سے وہ مصیبت دور کردیتا ہے جیسےکوئی اپنے اونٹوں سے اجنبی اونٹ کو دور کردیتا ہے۔


 

نعمتوں کے  دوام وبقا کا سبب:

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنےحضرت سیِّدُنا جابربنعبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے فرمایا: اے جابر! اللہ عَزَّ  وَجَلَّ جس پر انعام زیادہ کرتا ہے تو اس کی طرف لوگوں کی حاجتیں بھی زیادہ کر دیتا ہے۔ اگر بندہ ان نعمتوں سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لئے لوگوں کی حاجتیں پوری کرے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ان نعمتوں کو دوام اور بقا دے دیتا ہے اور اگر ان نعمتوں سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لئے لوگوں کی حاجتیں پوری نہ کرے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ان نعمتوں کو زائل کردیتا ہے۔

                             نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ زَوَالِ النِّعْمَةِ وَنَسْاَلُهُ التَّوْفِيْقَ وَالْعِصْمَةَ وَصَلَى اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ تَسْلِيْمًا كَثِيْرًا دَائِمًا اَبَدًا اِلٰی يَوْمِ الدِّيْنِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلِمِيْنَ یعنی ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی نعمت کے زائل ہونے سے پناہ مانگتے ہیں اور ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے توفیق اور اُس کی حفاظت  کا سوال کرتے ہیں اورقیامت تک کے لئے ہمیشہ خوب درود وسلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر اور آپ کی آل واصحاب پر اور تمام تعریفیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر23:                            اچھے اور بُر ے اخلاق کا بیان

حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کاخُلق:

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارے میں فرمایا:

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ۲۹،القلم:۴)                                                                                                 ترجمۂ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔

       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ اچھے اخلاق اور پیاری عادات کو خاص کردیا  جیسے حیا، سخاوت، عفو و درگزر اور وعدے کا پورا کرنا۔

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَابیان کرتی ہیں کہ حُسنِ اخلاق کے پیکر،محبوبِ ربِّ اکبرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا خُلق قرآن ہےکہ آپ کا غضب قرآن کے لئے ہوتا تھا اور آپ کی رضامندی بھی قرآن کےلئے ہوتی تھی۔([74])


 

تمام مخلوق میں سب سے افضل:

       حضرت سیِّدُنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب رسولِ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذکر کرتے تو فرماتے: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے نزدیک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اولاد آدم میں سب سے زیادہ مکرم اورسارے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام میں سے بڑے مرتبے والےہیں ۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دنیا کے خزانوں کی چابیاں پیش کی  گئیں لیکن آپ نے اُسے اختیارفرمایاجواللہ عَزَّ  وَجَلَّکے ہاں ہے (یعنی رفیق اعلیٰ کو)۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا کھانا:

       حضورنبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم زمین پر بیٹھ کر کھانا تناول کرتے اور زمین پر تشریف فرما ہوتے اور ارشاد فرماتے: ”بےشک میں بندہ ہوں اور بندے کی طرح کھانا کھاتا ہوں اور بندے کی طرح بیٹھتا ہوں ۔“([75])آپ ٹیک لگا کر اور اونچے دسترخوان([76])پر کھانا تناول نہ فرماتے تھے اور بغیر چھنےجو کی روٹی کھاتے۔ ککڑی ترکھجور کے ساتھ ملا کربھی تناول کرتےاورفرماتے:”ککڑی کی ٹھنڈکھجورکی گرمی کومٹادیتی ہے۔“([77])آپ کو کھانوں میں گوشت بہت زیادہ پسند تھا اورآپ  یہ فرماتے:”گوشت سننےکی قوت بڑھاتاہے اور اگر میں اپنے ربّعَزَّ  وَجَلَّ سے سوال کرتا کہ وہ مجھے ہر روز گوشت کھلائے تو وہ ضرور ایسا کرتا۔“([78]) آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کدو پسند کرتے اور فرماتے:”اے عائشہ! جب تم ہانڈی پکاؤ تو اس میں کدو زیادہ ڈالو کیونکہ یہ غمگین دل کو مضبوط کرتا ہے۔“([79])اور یہ بھی فرماتے :”جب تم کدو پکاؤ تو اس کا شوربا زیادہ کرو۔“([80])

اثمد سرمہ  لگانا:

       حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آنکھوں میں اثمد سرمہ ڈالتے اور سفر میں بھی تیل کی شیشی،


 

سرمہ،آئینہ، کنگا اور سوئی اپنے ساتھ رکھتے اور خود ہی کپڑوں کو سیتے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بغیر قہقہہ کے ہنستے، مباح کھیل دیکھنےپرمنع نہ فرماتے۔

دوڑ کا مقابلہ:

       آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اہل کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرتے۔چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :”میرے سرتاج، صاحب معراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں دوڑ میں جیت گئی پھر جب میری صحت زیادہ ہوگئی تو آپ نےمجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جیت گئے  اور میرے کندھے  پر ہاتھ مارتے ہوئےفرمایا: یہ پہلے مقابلے کا بدلہ ہے۔“([81])

کھانے اور پہننےمیں برتری اختیار نہ فرمانا:

       حضور نبی اکرم،نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لونڈی اور غلام ہوتے  لیکن ان میں سے کسی پر بھی کھانے، پینے اور پہننے میں برتری اختیار نہ فرماتے۔آپ اُمّی تھے کہ مخلوق میں سے کسی سے بھی پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا۔ آپ ایسے شہروں میں جہاں تعلیم کارواج نہیں اور صحراؤں میں پروان چڑھےاور پیدائش سے پہلے والد کا اور بچپن میں ماں کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اپنے حبیب، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تمام اچھے اخلاق سکھادیئے۔

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی فصاحت:

       آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسب سےزیادہ فصیح وبلیغ تھےاورآپ کی گفتگو سب سے زیادہ میٹھی ہوتی تھی ۔چنانچہ حضورنبی رحمت،شفِیْعِ امتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکافرمان عالیشان ہے:”اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَبِ یعنی میں تمام عرب والوں سے زیادہ فصیح ہوں ۔“([82])

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شفقت:

       حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ  مجھے اس ذات کی قسم جس نے حضور نبی رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکوحق کےساتھ مبعوث فرمایا!جب بھی آپ نے میری کوئی ناپسندیدہ بات ملاحظہ فرمائی تو مجھے یہ نہ فرمایا:” تم نے ایسا


 

 کیوں کیا؟“ اور اگر میں نے کوئی کام نہ کیا تو یہ نہ فرمایا:”تم نےیہ کیوں نہ کیا؟“اوراگرکبھی کوئی زوجہ مطہرہ مجھےکسی بات پرملامت کرتی توآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمان سےارشادفرماتے:”اسےچھوڑدو،تقدیرمیں ایسا ہی تھا۔“([83])

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا مرتبہ:

       ہمارےبعض مشائخ فرماتےہیں :حضورنبی کریم،رَءُوْفٌ رَّحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکاعاجزی وانکساری فرماناآپ کی بندگی کےاعلیٰ مرتبےکےخلاف نہیں کیونکہاللہ عَزَّ  وَجَلَّنےآپ کو عاجزی کرنے والا بندہ ہونے کے ساتھ  فرشتے والا مرتبہ بھی دیا لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بندے اور فرشتے کے مرتبے کے حامل ہیں ([84])۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مبارک معمولات:

       رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن،خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پیوند لگا لباس پہنتے اور اونی لباس بھی زیب تن کرتے، اپنے کپڑوں میں خود پیوند لگاتے، جوتے خود ہی سیتے، دراز گوش پر بغیر پالان رکھے بھی سوار ہوجاتے اور کسی کو اپنے پیچھے بھی سوار کرلیا کرتے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم معمولی سا کھانا تناول فرماتے اور کبھی آپ نے لگا تارتین دن سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی یہاں تک کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے جا ملے۔جو شخص بھی آپ کوپکارتا آپ ”لَبَّیْک“ارشاد فرماتے اور جو آپ سے مصافحہ کرتاتوآپ اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے جب تک وہ خود نہ چھوڑتا۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم بیماروں کی عیادت فرماتے، جنازوں میں تشریف لے جاتے اور فقرا کے ساتھ تشریف فرما ہوتے۔ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا خوف کرنے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی عبادت میں خوب بدن کو تھکانے والےاورسب سے بڑھ کر اللہ  عَزَّ       وَ  جَلَّکے حکم  کی پیروی کرنے والے تھے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ کے وسیلے سے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے۔بخدا! حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دروازے کسی کے لئے بند نہیں ہوئے اور نہ ہی کبھی آپ کے دروازے پر کوئی دربان کھڑا ہوا۔

کبھی کسی کو نہ مارا:

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :”حضورپُرنور،شافِعِ یومُ النُّشُورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


 

نے کبھی کسی عورت اور غلام کو نہیں مارا اور نہ ہی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے راستے میں جہاد کے علاوہ اپنے ہاتھ سے کسی کو مارا اور جب کبھی آپ کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے جبکہ وہ گناہ یا قطع رحمی نہ ہوتا اگر وہ گناہ یا قطع رحم ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے بچنے والے ہوتے۔“

حُسنِ اخلاق کا درس:

       حضرت سیِّدُناابراہیم بن عباسرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : اگر پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ایک جملے کا لوگوں کی خوبیوں سے وزن کیا جائے تو آپ کاایک  جملہ سب پر فوقیت  پاجائے گا اور وہ جملہ یہ ارشاد مبارک ہے:”تم سب لوگوں کو مال کی کشادگی نہیں دے سکتے البتہ تم سب سے خوش اخلاقی سے پیش آسکتے ہو۔“ ([85])

اچھے اور بُرے اخلاق کا انجام:

       رحمتِ عالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:حُسنِ اخلاق بندے کی ناک میں اللہ  عَزَّ    وَجَلَّ کی رحمت کی لگام ہے جوکہ فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور فرشتہ اسے بھلائی کی طرف لے کر جاتا ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ بُرے اخلاق بندے کی ناک میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے عذاب کی لگام ہے جوکہ شیطان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور شیطان اسے بُرائی کی طرف لے جاتا ہے اور بُرائی جہنم میں لےجاتی ہے۔([86])

       ایک بزرگ فرماتے ہیں :اچھے اخلاق اجنبی کو اپنا بنا دیتے ہیں اور بُرے اخلاق اپنوں کو اجنبی بنا دیتے ہیں ۔

بُرے اخلاق والا عابد:

       حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :اگر کوئی اچھے اخلاق والا فاسق میرے ساتھ ہو تو وہ میرے نزدیک بُرے اخلاق والے عابد سے زیادہ پسندیدہ ہےکیونکہ جب فاسق حُسنِ اخلاق سے پیش آئے گا تو لوگوں پر بوجھ نہیں بنے گا اور لوگ اسے پسند کریں گے جبکہ عابد بداخلاقی سے پیش آئے گا تو لوگ اس سے نفرت کریں گے۔

       کہا گیا ہے کہ بُرے اخلاق والے کی توبہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ قبول نہیں فرماتا کیونکہ وہ بُرے اخلاق کی وجہ سے گناہ نہیں چھوڑتا بلکہ ایک گناہ سے نکل کر دوسرےمیں پڑجاتا ہے۔


 

اصلاح کا بہترین انداز:

      اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں : جب کبھی رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کسی کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات پہنچتی تو آپ اس طرح نہ فرماتے کہ”فلاں شخص کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا کہتا ہے“بلکہ یوں فرماتے:”لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ ایسا ایسا کہتے ہیں ۔“([87])حتّٰی کہ آپ کے اس قول سے کسی کو کوئی شرمندگی نہ ہوتی۔

سب سے وزنی نیکی:

      اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ حُسنِ اخلاق کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”میزان پر حُسْنِ خُلْق سے زیادہ کوئی شے وزنی نہیں ۔“([88])

تین خصلتوں کے تین فائدے:

      اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس میں تین خصلتیں ہوں اس کے لئے تین فائدے ہیں :(۱)جو سچ بولے اس کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ (۲)جس کی نیت اچھی ہو اس کے رزق میں زیادتی کی جاتی ہےاور (۳) جو اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرے اس کی عمر میں زیادتی کر دی جاتی ہے۔“پھرارشاد فرمایا:”حسن اخلاق اور تکلیف دہ چیز کو دور کرنا رزق میں اضافہ کرتے ہیں ۔“([89])

بڑے بھائی کا ادب:

      حضرت سیِّدُنا امام حَسن نے اپنے بھائی حضرت سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو خط میں شاعروں کو مال دینے سے روکا تو حضرت سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواباً لکھا:”آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ بہتر مال وہ ہے جس سے عزت کی حفاظت کی جائے۔‘‘دیکھا آپ نے کیسے حضرت سیِّدُناامام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے بڑے بھائی کا ادب کیا اور یہ کہا کہ ”آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔“

      ایک مرتبہ حَسنین کَریمینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے درمیان کچھ ناراضی ہوگئی تو حضرت سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی


 

 عَنْہ سے کہا گیا: آپ راضی کرنے کے لئے اپنے بھائی کے پاس چلےجائیں کہ وہ آپ سے بڑے ہیں ؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : میں نے اپنے نانا جان حضور نبی رحمت، شفیْعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو فرماتے ہوئے سنا:” جن دو لوگوں میں ناراضی ہوجائے اور ان میں سے ایک دوسرے کو راضی کرے تو راضی کرنے والا پہلے جنت میں جائے گا۔“([90]) اور میں یہ بات ناپسند کرتا ہوں کہ اپنے بڑے بھائی سے پہلے جنت میں جاؤں ۔ جب حضرت سیِّدُنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اس بات کا پتا چلا تو فوراً راضی کرنے کے لئے حضرت سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس آگئے۔

چور سے حُسنِ اخلاق:

      امیر جعفر بن سلیمان کے کسی خادم نے ایک خوبصورت موتی چُرا لیا اور اُسے ایک بڑی رقم کے عوض بیچ دیا۔ جعفر نے اس موتی کی صفات جوہریوں کوبتائیں تو انہوں نے کہا: فلاں شخص نے فلاں وقت اس کو بیچا تھا۔ پھر اس چوری کرنے والے شخص کو پکڑ کر جعفر کے سامنے پیش کردیا گیا۔ جب جعفر نے دیکھا کہ اس پر خوف طاری ہے  تو اس سے کہا: میں تیرا رنگ بدلتا دیکھ رہا ہوں ، کیا تو بھول گیا کہ فلاں دن تو نے مجھ سے یہ موتی مانگا تھا اور میں نے یہ تجھے ہبہ کردیا تھا، خدا کی قسم! تو یہ بات بھول گیا ہے، پھر جوہری کو قیمت واپس لینے کا حکم دیا اور اس شخص سے کہا: اب یہ موتی لے کہ حلال و طیّب ہے اور اسے اس قیمت کے عوض بیچ جس پر تیرا دل راضی ہو اور ڈر تے ہوئے نہ بیچ۔

محمد بن عباد اور خلیفہ مامون:

      حاتم زمانہ محمد بن عباد  خلیفہ مامون کے پاس آیا تو مامون اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر عمامہ باندھنے لگا ۔یہ دیکھ کر مامون کےپاس کھڑی کنیز ہنسنے لگی تو مامون نے اس سے کہا:تم کیوں ہنستی ہو؟ ابن عباد نے کہا: امیرالمؤمنین میں بتاتا ہوں ، یہ میری بدصورتی اور آپ کا میرا احترام کرنے پر تعجب کرتی ہے۔ مامون نے کہا: تعجب نہ کر اس عمامے کے نیچے سخاوت وبزرگی ہے۔

حکایت:بادشاہ بہرام اور چرواہا

      منقول ہے کہ بادشاہ بہرام ایک دن شکار کے لئے نکلا اور اپنے ساتھیوں سے الگ ہوگیا۔ اس نے ایک شکار کو دیکھا اور اس کو پانے کی لالچ میں اس کے پیچھے گیا حتّٰی کہ اپنے لشکر سے دور ہوگیا۔ اس نے ایک درخت کے نیچے ایک چرواہے


 

 کو دیکھا تو اس کے قریب جاکر اپنے گھوڑے سے اتُرا اور چرواہے سے کہا: میرے گھوڑے کی حفاظت کرو میں ذرا پیشاب کرلوں ۔ چرواہے نے لگام تھام لی اور جب اس نے گھوڑے پربہت سارا سونا جڑا دیکھا تو اس نے بہرام کے غافل ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھری نکالی اور لگام کے کنارے کاٹ لئے اور اس پر لگا ہوا سونا حاصل کرلیا۔ بہرام نے جب اس کی طرف دیکھا تو اپنی نگاہ کو جھکا لیا اور اپنا سر نیچے کرلیا اور دیر تک بیٹھا یہاں تک کہ اُس شخص نے اپنا کام پورا کرلیا ۔پھر بہرام اٹھا اور اپنا ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر چرواہے سے کہا: میرا گھوڑا میرے پاس لے آؤ کہ میری آنکھوں میں ہوا کے ساتھ کچھ پڑ گیا ہے جس کے سبب میں آنکھیں کھولنے پر قادر نہیں ہوں ۔ چرواہا گھوڑا قریب لے آیا اور بہرام اس پر سوار ہوکر اپنے لشکر سے آ ملا اور اپنے سواری تیار کرنے والے سے کہا: لگام کے کنارے میں نے کسی کو ہبہ کر دیئے ہیں لہٰذا کسی پر تہمت مت لگانا۔

نوشیرواں  اور سونے کے گلاس کی چوری:

      منقول ہے کہ نوشیرواں نے نوروز([91])کے دن لوگوں کے لئے دسترخوان بچھایا اور خود بھی بیٹھ گیا اور بادشاہ کی مملکت کے معزز لوگ بھی ایوان میں داخل ہوئے۔جب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے  تو شراب، پھل اور خوشبوئیں سونے اور چاندی کے برتنوں میں لائی گئیں ۔ جب برتن اٹھائے جانے لگے تو آنے والوں میں سے کسی نے سونے کا ایک گلاس اٹھا لیا جس کا وزن ایک ہزار مثقال تھا اور اسے اپنے کپڑوں میں چھپا لیا۔ نوشیرواں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔جب شراب پلانے والے نے ایک برتن گم پایا تو وہ بلند آواز سے بولا: کوئی ایک بھی یہاں سے نہیں جائے گا جب تک کہ سب کی تلاشی نہ لے لی جائے۔ نوشیرواں نے کہا: کس لئے؟ خادم نے اسے واقعہ کی خبر دی تو نوشیرواں نے کہا: جس نے گلاس اُٹھایا ہے وہ اسے واپس نہیں کرے گا اور جس نے اسے دیکھا ہے وہ اس کی چغلی نہیں کھائے گالہٰذا  کسی کی بھی تلاشی نہ لی جائے۔ اس شخص نے گلاس لے لیا اور  کچھ عرصے بعد اسے توڑا اور اسے پگلا کر پیٹی بنالی اور اپنی تلوار کو اس سے آراستہ کر لیا۔ پھر جب نوشیرواں  نے گزشتہ محفل کی طرح محفل سجائی اور خود بھی بیٹھا تو یہی شخص اسی سونےکےساتھ آراستہ ہوکر آیا تو بادشاہ نے اسے قریب


 

بلایا اور کہا: یہ اسی گلاس کا سونا ہے۔ اس شخص نے زمین کو چومتے ہوئے کہا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ آپ کا بھلا کرے! جی ہاں یہ وہی ہے۔

حکایت: خلیفہ مامون اور غلام

                             عبداللہ بن طاہرکہتے ہیں : ہم ایک دن خلیفہ مامون کے پاس تھے کہ اس نے خادم کو آواز دی: اے غلام! کسی بھی غلام نے جواب نہ دیا۔ پھر دوسری مرتبہ خلیفہ نے زور سے آواز دی: اے غلام! تو ایک ترکی غلام یہ کہتے ہوئے داخل ہوا: کیا غلام کھاپی بھی نہیں سکتا، ہم جب بھی آپ کے پاس سے جاتے ہیں آپ اے غلام! اے غلام! کہنا شروع کردیتے ہو، کب تک اے غلام پکارو گے؟  مامون نے اپنا سر کافی دیر تک جھکائے رکھا اور مجھےیقین ہوگیا  کہ مامون مجھے اس کے قتل کا حکم دے گا۔ پھر مامون نے میری طرف دیکھا اور کہا: اے عبداللہ! جب بندے کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کے خادم کے اخلاق بُرے ہوتے ہیں اور جب بندے کے اخلاق بُرے ہوں تو اس کے خادم کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں اور ہم اس بات کی سَکَت نہیں رکھتے کہ ہمارے خادم کے اچھے اخلاق کی وجہ سے ہمارے اخلاق بُرے ہوں ۔

سیِّدُناولید بن عتبہ عَلَیْہِ الرَّحْمَہکا حُسنِ اخلاق:

      حضرت سیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضرت ولید بن عتبہ بن ابو سفیان رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام ہمارے شہر مدینہ پر حاکم مقرر ہوئے۔ ان کا چہرا گویاکہ قرآن کے اوراق میں سے ایک ورق تھا اور خدا کی قسم! انہوں نے ہمارے فقرا کو غنی کردیا اور ہمارے مقروضوں کا قرض اپنے پاس سے ادا کردیا۔ وہ ہماری طرف بڑی میٹھی نظر سے دیکھتے اور شہد سے میٹھا کلام کرتے تھے ۔ اس بات کا مشاہدہ میں نے خود کیا ہے اور اگر حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہوتے تو میں ان سے اس معاملے کو ضرور ذکر کرتا۔ ایک دن ہم حضرت ولید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھےاتنے میں ایک غلام پلیٹ لے کر آیا  کہ تکیے سے اُلجھ کر گرگیااور پلیٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرپڑی اور پلیٹ میں جو کچھ تھا سب کا سب ان کی جھولی میں اُلٹ گیا۔ غلام ان کے سامنے اس طرح کھڑا تھا گویا اس کے جسم میں روح ہی نہیں ہے۔حضرت ولید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کھڑے ہوئے اور کمرے میں جاکر لباس تبدیل کرلیا اور جب واپس ہماری طرف آئے تو ان کی پیشانی چمک رہی تھی۔ آکر غلام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے غلام! ہم تمہارے چہرے پر خوف کے آثار دیکھتے ہیں ، جا ، تو اور تیری اولاد اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔


 

سیِّدُنا قیس بن عاصم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی بُردباری:

      حضرت سیِّدُنا اَحْنَف بن قیس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی گئی: آپ نے حسن اخلاق کس سے سیکھا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: حضرت سیِّدُنا قیس بن عاصم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے، ایک دن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے کہ ایک لونڈی سیخ لائی جس پر بھنا ہوا گرم گوشت تھا، اس نے گوشت اتار کر سیخ اپنے پیچھے کی جانب پھینکی تو وہ آپ کے بیٹے کو لگی جس سے وہ اسی وقت انتقال کرگیا۔لونڈی اِس واقعے سے خوفزدہ ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: خوف نہ کر تُو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔

سیِّدُنا ابن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکا انداز:

      حضرت سیِّدُنا ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جب اپنے کسی غلام کو اچھے انداز میں نماز پڑھتا دیکھتے تو اُسے آزاد کردیتے، غلاموں کوآپ کے اِس اخلاق کے بارے میں پتا چلا تو اُنہوں نے آپ کو دکھانے کے لئے اچھے انداز میں نمازیں پڑھنا شروع کردیں اور آپ نے اُنہیں آزاد کرنا شروع کردیا۔ جب اِس بارے میں آپ کو بتایا گیا تو ارشاد فرمایا: جو ہمیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے معاملے میں دھوکا دیتا ہے ہم اُس سے دھوکاکھا جاتے ہیں ۔

راکھ پھینکی جائے تو ناراض نہ ہو:

      منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا ابو عثمان زاہد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد دوپہر کے وقت کسی راستے سے گزرے تو کسی نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہپر راکھ کا تھال پھینک دیا۔ آپ کے مریدین کو ناگوار گزرا اور وہ راکھ پھینکنے والے کو بُرا بھلا کہنے لگے۔ حضرت سیِّدُنا ابو عثمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: اُسے کچھ نہ کہو اِس لئے کہ جو شخص اِس بات کا مستحق ہو کہ اُس پر آگ  پھینکی  جائے  اور راکھ پر اکتفا کر لیا جائے تو اُس کے لئے غصّہ کرنا جائز نہیں ۔

سیِّدُناعلیرَضِیَ اللہُ عَنْہکا اخلاق:

      منقول ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنے غلام کو آواز دی، اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے  دوسری اور تیسری مرتبہ آواز دی لیکن اُس نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا تو آپ نے جا کر دیکھا کہ وہ لیٹا ہوا ہے۔ پوچھا: اے غلام! کیا تو نے آواز نہیں سُنی؟ غلام نے جواب دیا: جی سُنی ہے۔ فرمایا: تو پھر تجھے


 

جواب نہ دینے پر کس بات نے اُبھارا؟ غلام نے جواب دیا: مجھے آپ سے سزا کا ڈر نہیں تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:جا  تُواللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔

حسنِ اخلاق کا بہترین مظاہرہ:

      منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا استادابوعثمان حیری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو ایک شخص نے دعوت دی۔ جب آپ اُس کے گھرکے دروازے پر پہنچے تو اُس نے کہا: ”اے استاد! آپ کے آنے کا ابھی وقت نہیں ہے لہٰذا تشریف لے جائیے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ آپ پررحم فرمائے۔“آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہواپس تشریف لےگئے۔جب آپ اپنے گھرپہنچےتووہ شخص آیااورکہنے لگا:

”اےاستاد!میں نادم ہوں اورمیری معذرت قبول فرمائیےاوراب تشریف لےآئیے۔“ آپ اُس کےساتھ چل پڑے۔ جب دروازے پر پہنچے تو اُس شخص نے پھر ویسا ہی کہا جیسا پہلی مرتبہ کہا تھا۔ اُس شخص نے چار مرتبہ آپ کے ساتھ ایسا کیا اور آپ آتے جاتے رہے۔ پھر اُس شخص نے کہا: ”اے استاد! آپ کو آزمانے اور آپ کے اخلاق سے باخبر ہونے کے لئے میں نے یہ معاملہ کیا ہے۔“ پھر اس شخص نے آپ سے معذرت کرنا اور آپ کی تعریف کرنا شروع کردی، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: ”ایسی خصلت پر میری تعریف مت کرو جو کتے میں بھی پائی جاتی ہے کہ اس کو بُلایا جائے تو وہ آجاتا ہے اور ڈانٹ کر بھگایا جائے تو چلا جاتا ہے۔“

      حارث بن قصی کہتے ہیں : ایسا  فصیح وبلیغ اور ہنسانے والا عالِم مجھے تعجب میں ڈالتا ہےکہ جس سے تم خندہ پیشانی سے ملو لیکن وہ تم سے تُرش روئی سے ملے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ایسے لوگوں کی مسلمانوں میں کثرت نہ کرے۔

اچھے اخلاق کا بیان

مامون کا اخلاق:

      حضرت سیِّدُناقاضی یحییٰ بن اکثم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکہتے ہیں کہ میں ایک رات مامون کے پاس سویا، مامون کو پیاس لگی تو اس نے غلام کو پانی پلانے کےلئے بلانا گوارا نہ کیااور میں سونے لگا تو مجھے نیند نہیں آئی۔ میں نے مامون کو دیکھا کہ وہ اپنے پاؤں کی انگلیوں کے کناروں پر چل رہا ہے حتّٰی کہ وہ پانی پینے کی جگہ پر پہنچا حالانکہ  مامون کی جگہ سے جہاں پانی کے پیالے رکھے تھے وہاں کا فاصلہ 300 قدم کا تھا۔ اس نے وہاں سے ایک پیالہ لے کر پانی پیا اور پھر وہاں سے اپنے پاؤں کی


 

 انگلیوں کے کناروں پر چلتا ہوا آیا یہاں تک کہ میرے بستر کے قریب پہنچ گیااور اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے اس خوف سے کہ کہیں میں بیدار نہ ہوجاؤں حتّٰی کہ وہ اپنے بستر تک پہنچ گیا۔ پھر میں نے اسے دیکھا کہ وہ رات کے آخری حصے میں پیشاب کرنے کے لئے اٹھا۔ وہ رات کے شروع اور آخر میں اٹھا  کرتا تھا۔ پھر وہ کافی دیر بیٹھا یہ سوچتا رہا کہ میں کب اٹھوں اور وہ غلام کو نماز کی تیاری کا حکم دے پھر جب میں اٹھا  تو وہ  فوراً کھڑا ہوگیا غلام کو آواز دی اور نماز کی تیاری کرنے لگا۔ پھر وہ میری طرف آیا اور  مجھ سے کہا: اے ابو محمد! تم نے صبح کیسے کی؟ اور تمہاری رات کیسی گزری؟ میں نے کہا: اے امیرالمؤمنین!اللہ عَزَّ  وَجَلَّ مجھےآپ پر قربان کرے، میری رات اچھی گزری۔ مامون نے کہا: میں نے تمہیں نماز کے لئے جگانا چاہالیکن میں نے یہ ناپسند کیا کہ غلام کو آواز دے کر تمہیں پریشان کروں ۔ میں نے کہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّنےآپ کوانبیائے کرامعَلَیْہِمُ السَّلَامجیسےاخلاق سےنوازاہے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّآپ کویہ نعمت مبارک کرے اور آپ کو حُسن اخلاق کا پیکر بنائے۔ مامون نے مجھے ایک ہزار دینار دیئے میں وہ دینار لے کر واپس آگیا۔

سونے والوں کا خیال:

      حضرت سیِّدُناقاضی یحییٰ بن اکثم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکہتے ہیں :میں نے ایک رات مامون کے پاس گزاری، مامون کو کھانسی کا عارضہ لاحق ہوا جس کی وجہ سے وہ بیدار ہوگیا، تو وہ اپنی کھانسی کو روکنےکےلئےاپنی قمیض سے منہ کو چھپانے اور کھانسی کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگا حتّٰی کہ کھانسی کا غلبہ ہواتووہ کھانستے ہوئے زمین پر اوندھا ہوگیا تاکہ کھانسی کی آواز بلند نہ ہو اور کوئی بیدار نہ ہوجائے۔

بے انصاف شخص میں کوئی بھلائی نہیں :

      حضرت سیِّدُناقاضی یحییٰ بن اکثم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکہتے ہیں :میں ایک دن مامون کے ساتھ ایک باغ میں گیا جب ہم پھولوں کے پاس سے گزرے تو مامون نے ایک یا دو گچھے پھولوں کے لے لئے اور باغ کے مالی سے کہا: اس حوض کی صفائی کرو اور اس میں سے سبزہ بالکل مت اکھاڑنا۔ یحییٰ کہتے ہیں : ہم باغ کے شروع حصے سے آخری  حصے تک چلے، میں اس جگہ چل رہا تھا جہاں سورج کی دھوپ تھی اور مامون اس طرف چل رہا تھا جہاں سایہ تھا۔ مامون نے مجھے سائے میں کرنا اور خود دھوپ میں ہونا چاہا تو میں نے منع کر دیا حتّٰی کہ ہم باغ کے آخری  حصے تک پہنچ گئے۔ جب ہم واپس لوٹنے لگے تو مامون نے


 

کہا: اے یحییٰ خدا کی قسم! اگر تم مجھے اپنی  جگہ ہونے دو اور خود میری جگہ ہو جاؤ تو میں بھی دھوپ سے اپنا حصہ حاصل کرلوں جیسے تم نے حاصل کیا اور تم بھی سائے سے اپنا حصہ حاصل کرلو جیسے میں نے حاصل کیا؟ میں نے کہا: اے امیرالمؤمنین، خدا کی قسم! اگر میں اس بات پر قادر ہوا کہ قیامت کے دن آپ کو اپنے بدلے بچا سکوں تو ضرور ایسا کروں گا۔ مامون نے اصرار  نہ چھوڑا حتّٰی کہ مجھے سائے میں کر دیا اور خود دھوپ میں ہو گیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:تم میرے کندھے پر ہاتھ کیوں نہیں رکھتے؟ جو انصاف نہیں کرتا اس کی صحبت میں کوئی بھلائی نہیں ۔

      تم اگلے  لوگوں کے اخلاق اور افعال میں غور کرو کہ کتنے اچھے اور خوبصورت تھے۔

                             نَسْاَلُ اللهَ تَعَالٰی اَنْ يُحْسِنَ اَخْلَاقَنَا وَاَنْ يُّبَارِكَ لَنَا فِيْ اَرْزَاقِنَا اِنَّهُ عَلٰی مَا يَشَاءُ قَدِيْرٌ وَبِالْاِجَابَةِ جَدِيْرٌ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِِّ الْعَظِيْمِ وَصَلَّى اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمیعنی ہم اللہ عَزَّ   وَجَلَّ سے اچھے اخلاق کا اور اپنے رزق میں برکت کا سوال کرتے ہیں ۔بے شک اللہ عَزَّ  وَجَلَّہر چیز پر قادر ہے اور اس کی بارگاہ ہی قبولیت کے لائق ہےبلندی وعظمت والےرب کی توفیق کےبغیرنہ توگناہوں سےبچنےکی طاقت ہےاورنہ ہی نیکی کرنےکی قوت اوردرودوسلام ہوہمارے سردار حضرت محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر اور آپ کی آل واصحاب پر۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر 24:   حُسن معاشرت، دوستی، بھائی چارہ اور  دوستوں

سے  ملاقات وغیرہ کا بیان

      یہ بات جان لو کہ دوستی، بھائی چارہ اور ملاقات اُلفت کا باعث ہیں اور اُلفت قوت کا سبب ہے اور قوت تقوٰی کا سبب ہے اور تقویٰ ممنوعہ چیزوں سے بچاتا ہے ،بُری چیزوں سے روکتا ہے، مرغوب چیزوں کی طرف مائل کرتا ہے اور مقاصد میں کامیابی عطا کرتا ہے۔

بھائی چارے کی فضیلت:

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نےایک قوم پر احسان کیا اور ان پر اپنی نعمت کا ذکر فرمایاکہ کیسے اُن کے دلوں کو صاف کیا اور جُدائی کے بعد اُن کے دلوں میں الفت ومحبت ڈالی ،چنانچہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:


 

وَ  اذْكُرُوْا  نِعْمَتَ  اللّٰهِ  عَلَیْكُمْ  اِذْ  كُنْتُمْ  اَعْدَآءً  فَاَلَّفَ  بَیْنَ  قُلُوْبِكُمْ  فَاَصْبَحْتُمْ  بِنِعْمَتِهٖۤ  اِخْوَانًاۚ-

(پ۴،الٰ عمران:۱۰۳)

 ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کروجب تم میں بیرتھا(دشمنی تھی) اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیاتو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہو گئے۔

       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے جنت کی نعمتیں اور جو کچھ اس میں اپنے ولیوں کے لئے تیارکر رکھا ہے اس میں ایک کرامت یہ ہے کہ انہیں تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ایک دوسرے کا  بھائی بنادیا ۔

       حضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی بھائی چارے کی رغبت دی اور اس کی طرف بلایا اور صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے مابین بھائی چارہ قائم فرمایا۔

کفار کی بے بسی:

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اہْلِ جہنم کے بارے میں ذکر کیا جب ان کو جہنم میں ڈالے گا تو درد کے مارے کہیں گے:

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَۙ(۱۰۰)وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ(۱۰۱) (پ۱۹،الشعرآء:۱۰۰، ۱۰۱)

ترجمۂ کنز الایمان: تو اب ہمارا کوئی سفارشی نہیں اور نہ کوئی غم خوار دوست۔

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں :اَلرَّجُلُ بِلَا اَخٍ كَشِمَالِ بِلَا يَمِيْنٍ یعنی بندہ بغیر دوست کے ایسا ہے جیسے الٹی جانب سیدھی جانب کے بغیر۔

       زیادکہتےہیں :بہترہےکہ بندےکے دوست ہوں کیونکہ وہ پریشانی و مصیبت میں مدد کرتےاورخوشی و غمی میں ساتھ دیتے ہیں ۔

       حضرت سیِّدُنا امام اوزاعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : دوست دوست کےلئے ایسا ہے جیسے کپڑے میں لگا ہوا پیوند، اگر پیوند اسی کپڑے جیسا نہ ہو تو معیوب لگتا ہے۔

دنیا کا خزانہ:

                             حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن طاہر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان کرتے  ہیں :مال آنے جانے والی چیز ہے اور بادشاہ کی بادشاہت ختم ہونے والی ہے اور دوستی دنیا کا خزانہ ہے۔

       خلیفہ مامون نے اپنے وزیر حسن بن سہل سے کہا: میں نے لذتوں میں غور کیا تو سات چیزوں کے علاوہ سب میں ہی


 

دکھ وتکلیف پائی۔حسن بن سہل نے کہا: اے امیرالمؤمنین! وہ سات چیزیں کیا ہیں ؟ مامون نے کہا: (۱)گندم کی روٹی (۲) بکری کا گوشت (۳) ٹھنڈا پانی (۴) سوتے وقت پہننے والے کپڑے (۵) اچھی خوشبو (۶) بیوی سے جماع کرنا اور(۷)ہر چیز کے حسن کی طرف نظر کرنا۔ حسن بن سہل نے کہا: اے امیرالمؤمنین! دوستوں کی باہمی گفتگو کو آپ کہاں شمار کریں گے؟ مامون نے کہا: تو نے سچ کہا، یہ سب سے پہلے ہے۔

باقی رہنے والی لذت:

      خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے کہا: میں نے اچھے کھانے کھائے، نرم لباس پہنا، عمدہ سواری پر سوار ہوا اور کنواری عورت  سےنکاح کیامگر کسی بھی چیز کی لذت باقی نہیں رہی سوائے اس دوست کی دوستی کےجو مجھ سے تکلف نہ رکھے۔

      حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : میں نے عورت سے نکاح کیا حتّٰی کہ مجھے عورت اور دیوار کے درمیان کوئی فرق محسوس نہ ہوا ، میں نے عمدہ کھانے کھائے لیکن ان پر ہمیشگی نہ رکھ سکا، میں نے مشروبات پئے حتّٰی کہ میں پانی کی طرف لوٹ آیا، میں نے جانوروں پر سواری کی اور آخر کار اپنے جوتوں کو اختیار کیا، میں عمدہ لباس پہنتا رہا حتّٰی کہ میں نے سفید لباس کو اختیار کیا مگر کوئی بھی لذت باقی نہ رہی جس کی طرف میرا نفس مشتاق تھا سوائے اپنے مہربان دوست سے گفتگو کرنے کے۔

دوست کیسا ہو؟

      حضرت سیِّدُنا ابنِ سماک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّزَّاقسےپوچھا گیا:کون سا دوست اخوت وبھائی چارے کا سب سے زیادہ حقدار ہے ؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: جو دین میں زیادہ ہو، عقل میں پختہ ہو، جو تیرے قرب کا تقاضا نہ کرے اور دوری کی وجہ سے تجھے بھلا نہ دے، اگر تو اس سے قریب ہو تو وہ بھی تیرے قریب ہواور اگر تو اس سے دور ہو تو وہ تیرا لحاظ کرے، اگر تو اس سے مدد مانگے تو تیری مدد کرے، اگر تیری اس سے کوئی حاجت ہو تو تیری حاجت کو پورا کرے اور تو اس سے محبت کرے تو وہ تجھ سے زیادہ محبت کرے۔

پسندیدہ دوست:

      حضرت سیِّدُناخالد بن صفوان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰن سے پوچھا گیا:آپ کے نزدیک پسندیدہ دوست کون سا ہے؟ جواب دیا: وہ جو میری عادات کو ٹھیک کروائے، میری غلطیوں کو معاف کرے اور میرے عذر کو قبول کرے۔ یہ بھی کہا گیا ہے


 

 کہ  جو شخص بے عیب دوست ڈھونڈتا ہے اس کے دوست کم ہوتے ہیں ،جو اپنے دوست سے ایثارکرنے پر ہی خوش ہوتا ہے وہ ہمیشہ ناراض رہتا ہےاورجو اپنے دوست کو ہرغلطی پر ڈانٹتا ہے اُس کی ڈانٹ ڈپٹ ضائع ہوتی اورمشقت بڑھتی ہے۔

قطع تعلق نہ کرو:

       کسی نے کہا: جب تم اپنے کسی دوست میں کوئی ناپسندیدہ  بات یا ایسی عادت دیکھو جو تمہیں پسند نہ ہو تو اس سبب سے اُس سے قطع تعلقی اور رشتہ اخوت ختم نہ کرو بلکہ وہ چیز اُس سے دور کرنے کی کوشش کرو اور اس کی پردہ پوشی کرو البتہ اس کے بُرے عمل سے براء ت ضرور اختیار کرو۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَۚ(۲۱۶) (پ۱۹،الشعرآء:۲۱۶)

ترجمۂ کنز الایمان: تو اگر وہ تمہاراحکم نہ مانیں تو فرما دو میں تمہارے کاموں سے بے علاقہ(لا تعلق) ہوں ۔

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے بھی قطع تعلق کا حکم نہیں دیا بلکہ بُرے کاموں سے براءت ظاہر کرنے کا حکم دیا ہے۔

روحیں ایک جمع شدہ لشکر ہیں :

       حضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:روحیں (عالم ارواح میں ) ایک جمع شدہ لشکر ہیں جن کے مابین وہاں آشنائی ہوگئی ان کے درمیان یہاں الفت ہوگی اور جووہاں ایک دوسرے سے ناواقف رہیں وہ یہاں بھی ناواقف رہیں گی۔ ([92])

       رسولِ اکرم،نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:مؤمنین کی روحیں (برزخ میں )ایک دن کی مسافت  سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتی ہیں خواہ دنیا میں انہوں نے  ایک دوسرے کو نہ دیکھا ہو۔([93])

دوستی صرفاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ کے لئے:

       جب دو لوگ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے نزدیک افضل وہ ہے جو اپنے بھائی سے زیادہ محبت کرتا ہے۔

       جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کی خاطر اپنے دوست سے  ملاقات کا شوق اور رغبت رکھتے ہوئے چلے تو فرشتہ اسے پیچھے سے


 

آواز دے کر کہتا ہے: تو بھی پاک  ہے اور تیرے لئے پاک جنت ہے۔

آداب دوستی:

       بعض نے کہا:دوستوں کی ملاقات سے بڑھ کر کوئی خوشی اور دوستوں کی جُدائی سے بڑھ کر کوئی غم نہیں ۔

       ایک بزرگ فرماتےہیں : سب سے بُرادوست وہ ہے جو آسانی میں تو ساتھ ہو لیکن سختی میں ساتھ چھوڑ دے۔

       کسی کاقول ہے: وفا یہ ہے کہ تیرے دوست کا دوست بھی تیرا دوست ہو اور  تیرے دوست کا دشمن تیرا بھی دشمن ہو۔

       حضرت سیِّدُناابنِ عائشہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے  ہیں : بیمار کی  شفادوستوں سے ملاقات کرنے میں ہے۔

       کسی داناکاقول ہے:اگرتیری نظرکسی شخص پرپڑےاوروہ تجھےناپسندہوتواپنی کوشش اورمشقت کو اس پرصرف نہ کر۔

آداب معاشرت  کا بیان

       حضرت سیِّدُنا جابر بن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ حضور نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:انبیا و صدیقین عَلَیْہِمُ السَّلَام کے اخلاق میں سے ہے کہ جب دیکھتے ہیں تو مسکراتے ہیں اور جب ملاقات کرتے ہیں تو ہاتھ ملاتے ہیں ۔ ([94])

       حضرت سیِّدُنا قعقاع بن شَورہُذلیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے پاس جب کوئی شخص بیٹھتا تو آپ اپنے مال میں سے کچھ اُسے عطا کردیتے اور اُس کی حاجت میں اس کی مدد کرتے۔ ایک دن حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں ایک ہزار دینار عطا کئے۔حضرت سیِّدُنا قعقاع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے وہ دینار اُس شخص کو دے دیئے جس نے مجلس میں آپ کے لئے جگہ کشادہ کی تھی۔   

ہم نشیں کے تین حقوق :

       حضرت سیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :”میرے ہم نشین کے مجھ پر تین حق ہیں : (۱) جب وہ میری طرف متوجہ ہو تو اس کی طرف متوجہ رہوں (۲) جب وہ بیٹھنا چاہے تو اس کے لئے جگہ کشادہ کروں اور (۳) جب وہ بات کرے تو اس کی بات دھیان سے سنوں ۔“

       کہا گیا ہے کہ ہر چیز کا ایک محل ہے اور عقل کا محل لوگوں کی مجلسیں ہیں ۔


 

اچھی اور بُری صحبت کی مثال:

      اچھی بیٹھک عطر بیچنے والے کے ساتھ بیٹھنے کی مثل ہے کہ اگرچہ تمہیں عطر نہ لگے لیکن اس کی خوشبو ضرور پہنچتی ہے اور بُری بیٹھک آگ کی بھٹی کے قریب بیٹھنے کی مثل ہے کہ اگرچہ آگ سے تمہارے کپڑے نہ جلیں لیکن اس کا دھواں ضرورتمہیں تکلیف دے گا۔

عرب کا سلام تحیت:

      عرب میں سلام تحیت یوں ہوتا تھا:تیری صبح نعمتوں بھری اور تیرا کھانا پاکیزہ ہو۔اسی طرح کہا جاتا تھا: تیری صبح کامیاب ہو اور تیرے لئے ہر پرندہ صالح ہو۔

      مامون نے ثمامہ کے حسن معاشرت کی تعریف  کرتے ہوئے کہاکہ یہ لوگوں کے دلوں میں ایسے تصرف کرتا ہے جیسے بادل جنوبی ہوا پر تصرف کرتے ہیں ۔

ہر شخص کو اس کے مرتبے میں رکھو:

      مجلس میں بیٹھنے والے پر پہلی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ بیٹھنے میں انصاف کے تقاضے کو پورا  کرے کہ  اپنے اور اپنے ہم نشین کے مقام کا لحاظ کرےیوں ہر ایک اپنے مرتبے میں ہوگا۔

      منقول ہے کہ اہل علم اور سلطان عزت والی جگہ کے زیادہ حق دار ہیں ۔

      حضرت سیِّدُنا امام جعفر صادقرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب تو اپنے دوست کے گھر جائے تو ہر معاملے میں اس کی عزت کوقبول کرسوائےاس کے کہ وہ تمہیں صدرمجلس کےمرتبےپربٹھائے۔

      انسان کو چاہئے کہ اس شخص کی بات قبول نہ کرے جس کی بات قبول نہیں کی جاتی۔

بہتر گفتگو:

      منقول ہے کہ بولنے والے کا نشاط سننے والے کی توجہ کے مطابق ہوتا ہےاور بولنے والے پر یہ لازم ہے کہ وہ سننے والے کی عقل کے مطابق کلام کرے اور وہ بات نہ کرے جو مجلس کی شان کے لائق نہ ہو۔

      ہر مقام کے لئے الگ گفتگو ہے  اور بہتر گفتگو وہ ہے جو حال کے موافق ہو۔


 

      دانشور کہتے ہیں : سننے والے پر لازم ہے کہ بولنے والا  اگر کوئی ایسی بات کہہ رہا ہوجو اس سے پہلے اُس نے نہ سنی ہو تو اس کی بات نہ کاٹے بلکہ خاموش رہے یہاں تک اُس کی بات پوری ہوجائے۔ اسے ادب میں شمار کیا گیا ہے اس وجہ سے بھی کہ جب بندہ صبر کرے  اور خاموش رہے گا تو باتوں سے استفادہ کر سکے گا اور فائدہ زیادہ ہوگا اگرچہ وہ باتیں یادنہ ہوں ۔

بے عزتی کا سبب بننے والے آٹھ کام:

       آٹھ کام ایسے  ہیں جن کے سبب بے عزتی واہانت  ہو تو اپنے نفس ہی کو ملامت کرے:(۱)…ایسی مجلس میں بیٹھنا جس کا اہل نہ ہو (۲) ایسے شخص کی بات قبول کرنا جس کی بات نہ سنی جاتی ہو (۳) دو شخصوں کی گفتگو میں دخل اندازی کرنا جبکہ وہ اسے گفتگو میں شامل نہ کرتے ہوں (۴) بے فائدہ اعتراض کرنا (۵) کسی کے گھر میں گھر کے مالک کو حکم دینا(۶)…بغیر دعوت کے دستر خوان پر بیٹھنا (۷) دشمن سے بھلائی کی توقع رکھنااور(۸) سلطان کی عزت میں کمی کرنا۔

       مجلس میں بیٹھنے والے پر لازم ہے کہ وہ اپنے الفاظ کی نگہبانی کرے اور اپنی زبان کوپھسلنے سے بچائے بالخصوص اُس وقت جب ہم نشیں ہیبت والا ہو ۔

       منقول ہے کہ بعض اوقات منہ سے ایسا جملہ نکل جاتا ہے جس کے سبب نعمت سلب ہوجاتی ہے۔

سفاح اور ابوبکر ہُذلی:

       ابو عباس سَفّاح نے کہا: میں نے غور و فکر کرنے میں ابو بکر ہُذلِی سے بڑھ کر کسی کو نہ پایاکہ انہوں نے کبھی بھی ایک بات کا مجھ پر تکرار نہیں کیا۔

       منقول ہے کہ ایک دن ابو عباس سفاح گفتگو کر رہا تھا کہ اچانک تیز آندھی چلنے لگی اور چھت سے ہاتھ دھونے کا ایک برتن مجلس میں آگرا۔یہ دیکھ کر لوگ گھبرا گئے لیکن ابوبکر ہذلی اپنی جگہ سے نہ ہلے اوراپنی آنکھیں سفاح سے نہ ہٹائیں ۔ ابو عباس نے کہا: اے ہذلی! تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ہذلی نے جواب دیا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖۚ- (پ۲۱،الاحزاب:۴)                       ترجمۂ کنزالایمان:اللہنےکسی آدمی کےاندردودل نہ رکھے۔

       اور میرے پاس ایک ہی دل ہے اور جس کا دل امیرالمؤمنین کی باتوں سے منور ہو اسے کسی حادثے کی خبر نہیں ہوتی حتّٰی کہ آسمان زمین پر گر جائے تو بھی اسے نہ کوئی احساس ہوتا ہے نہ کوئی تکلیف۔ سفاح نے کہا: اگر میں زندہ رہا تو ضرور


 

تیرا مرتبہ بلند کروں گا، پھر سفاح نے ہذلی کو بہت سارے مال  اور خوب انعام واکرم سے نوازا۔

      حضرت سیِّدُناابنِ خارجہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : مجھ پر کبھی کسی شخص نے غلبہ حاصل نہ کیا سوائے اس شخص کے جو میری باتیں توجہ سے سنتا تھا۔

      نوابغ الحکم میں ہے:اپنے بھائی کی بات دھیان سے سن کر اس کا اکرام کرواوراِدھراُدھر توجہ کر کے اُسے عیب دار نہ کرو۔

بادشاہ کے حقوق:

      منقول ہے کہ بادشاہ کے حقوق میں سے ہے کہ  جب کسی کو جمائی لینی ہو یا ہاتھ والا پنکھا رکھنا ہو یا اپنے پاؤں پھیلانے ہوں یا سستی کی بنا پر اپنے اطراف کو حرکت دینی ہو یا ٹیک لگانی ہو یا ایسا کوئی بھی کام کرنا ہو جو سستی پر دلالت کرتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ بادشاہ کے دربار سے نکل جائے۔

      اَرْدَشیر کے سامنے جب کوئی سستی کی بنا پر اپنے اطراف کو حرکت دیتا تو اَرْدَشیر وہاں سے اُٹھ جاتا۔

      بادشاہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جو بات اُس کے سامنے ہو چکی ہو اُس بات کو پھر سے اس کے سامنے نہ کرنا اگرچہ عرصہ گزر گیا ہو۔

      حضرت سیِّدُناروح بن زِنباعرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان کرتے  ہیں : میں 17سال تک خلیفہ عبدالملک کے ساتھ رہا،میں نے خلیفہ سے کبھی کوئی بات دوبار نہیں کہی،صرف ایک بارایک بات دوہرائی توخلیفہ نے کہا : میں یہ بات تم سے سُن چکا ہوں ۔

کبھی ایک بات دوبار نہ کہی:

      حضرت سیِّدُنا امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : میں نے کبھی بھی ایک شخص کو ایک بات دو مرتبہ نہیں کہی۔

      حضرت سیِّدُنا عطاء بن ابو رَبَاح رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :ایک شخص مجھے کوئی بات بتاتا ہے  اور میں اسے اس طرح سن رہا ہوتا ہوں جیسے میں نے کبھی وہ بات سنی ہی نہ ہو حالانکہ میں وہ بات اس کے پیدا ہونے سے بھی پہلےسن چکا ہوتا ہوں ۔

      منقول ہے کہ محبت کشادہ رو ہونا ہے اور یہ لوگوں کے لئے بندوں کو محبوب بنا دیتی ہے۔

مسکرا کر ہاتھ ملانے کی فضیلت:

      حضرت سیِّدُنا معاذ بن جبلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں :جب دو مسلمان ملاقات کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو مسکرا کر


 

ملتے ہیں پھرہاتھ ملاتے ہیں تو ان کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ۔

      منقول ہے کہ خوشی سخاوت پر دلالت کرتی ہے جیسے پھول پھلوں پر دلالت کرتے ہیں ۔

بیان کا سنّت طریقہ:

      کہا گیا ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ جب تو قوم کو خطاب کرے تو کسی ایک کی طرف اپنی توجہ نہ رکھے بلکہ سب کی طرف برابر توجہ ہو۔

زندگی اچھی گزارنےکے آداب:

      بزرگوں کا کہنا ہے کہ جب تم اچھی زندگی گزارنے کے طلب گار ہو تو دشمن اور دوست سے اچھے طریقے سے ملاقات کرو، خود کو نہ دیکھتے رہو، بکثرت اِدھر اُدھر نہ دیکھو، جہاں لوگ بیٹھے ہوں وہاں کھڑے نہ رہو، مجلس میں بیٹھو تو کسی ایک پر بھی تکبر نہ کرو، ان کے سامنے اپنی انگلیاں چٹخانے سے باز رہو، داڑھی اور انگوٹھی کے ساتھ مت کھیلو، لوگوں کے سامنے اپنے دانتوں کا خلال کرنے اور ناک میں انگلی ڈالنے سے بچو، بار بار تھوکنے سے بچو، لوگوں کے سامنے اور نماز میں بکثرت انگڑائی اور جمائی سے حتی الامکان بچو، تمہاری مجلس لوگوں کی ہدایت کا باعث اور تمہاری گفتگو مُہذب ہو، جب کوئی تمہاری مجلس میں اچھی گفتگو کر رہا ہو تو اسے غور سے سنو اور ہنسنے ہنسانے والی باتوں سے بچو، زینت میں عورت کی طرح بناؤ سنگارنہ کرو، حاجات میں کسی سے سوال نہ کرو، ظلم کرنے پر کسی کا حوصلہ نہ بڑھاؤ، لونڈی اور غلام سے مذاق مستی نہ کرو خاموش رہو تا کہ تمہارا وقار ان کی نظر میں برقرار رہے، جب جھگڑا ہو تو انصاف کرو، اپنی جہالت کو چھپاؤ، فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرو، اپنی حجت میں غور و فکر کرو،دورانِ گفتگو ہاتھوں سے بکثرت اشارہ نہ کرو، بار بار پیچھے مڑ کر نہ دیکھو اورغصہ ٹھنڈا ہونے پر کلام کرو۔

بادشاہ کی مجلس کے آداب:

      جب بادشاہ تمہیں قریب کرے تو ڈرو اور اس کے رَویّے کی تبدیلی سے ڈرتے رہو، اس کی چاہت کے مطابق اس سے کلام کرو، بادشاہ کی نرمی تمہیں اس بات پر نہ اُبھارے کہ تم بادشاہ کے نجی معاملات میں دَخل اندازی کرو اگرچہ تم اس دخل اندازی کے مستحق ہی کیوں نہ ہو،صرف خوشحالی کے دنوں میں دوستی نبھانے والے سے بچو کہ یہ سب سے بڑا


 

دشمن ہے، اپنے مال کو اپنی عزت سے زیادہ خیال نہ کرو۔ہوسکے تو بادشاہ کی مجلس اختیار نہ کرو البتہ اگر کرنی پڑجائے تو اپنےاو پر ان امور کو لازم کرو :کسی کی غیبت نہ  کرو، جھوٹ نہ بولو، کسی راز کو فاش نہ کرو، حاجتیں کم پیش کرو، گفتگو میں مہذب الفاظ استعمال کرو،گزشتہ بادشاہوں کے اخلاق کا تذکرہ کرو اور اس سے ڈرتے رہو اگرچہ وہ تم سے محبت کا اظہار کرے،اس کی موجودگی میں ڈکار لینے سے بچو، اس کے پاس کھانا کھانے کے بعد دانتوں میں خلال کرنے سے بچو۔

عام لوگوں کی مجلس کے آداب:

      عام لوگوں کی مجلس اختیار نہ کرو اگر کرنی پڑجائے تو ان امورکا خیال رکھو:ان کی باتوں میں غور و فکر نہ کرو،لایعنی اور فضول گفتگو کی طرف توجہ نہ کرو، ان کے بُرے الفاظ سے غافل رہو۔

مذاق مسخری کے نقصانات:

      عقل مند ہو یا بیوقوف اس سے مذاق کرنے سے بچو کیونکہ اگر وہ عقل مند ہوگا تو تم سے کینہ رکھے گااور اگر بیوقوف ہوگا تو تم پر جرأت کرے گا۔مذاق ہیبت کو کم کردیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا ہے، کینہ کا باعث بنتا ہے، مذاق کے سبب محبت کی مٹھاس ختم ہوجاتی ہے، مذاق عالِم کے علم کو عیب دار کردیتا اور بیوقوف کو عالم پر جَری کرتا ہے، مذاق مُردہ دِلی، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے دوری، غفلت اور ذِلَّت کا باعث ہے۔

      اگر کوئی شخص کسی مجلس میں مذاق یا لہو و لعب میں مبتلا ہو جائے تو اسے چاہئے کہ کھڑا ہونے سے پہلے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا ذکر کرلے۔

مجلس کے اختتام کی دعا:

      حضور نبی پاک،صاحبِ لولاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:”جو کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جہاں فضول گفتگو ہوتواسےچاہئےکہ کھڑاہونےسےپہلےیہ دعاپڑھ لے:سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ اَشْهَدُاَنْ لَّااِلٰهَ اِلَّااَنْتَ اَسْتَغْفِرُكَ وَاَتُوْبُ اِلَيْكَ([95])تواس کےاس مجلس میں ہونےوالےگناہ بخش دئیےجائیں گے۔([96])


 

سفر کے آداب

      مروی ہےکہ ایک سفرمیں اونٹ پرحضورنبی کریم،رءُوْفٌ رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم،حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ اورایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا باری باری سفر کرنے کے لئے روانہ ہوئے ۔جب آپ کے چلنے کی باری آئی تو آپ نے چلنا شروع فرما دیا۔  حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی اور دوسرے صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانےآپ کو پیدل چلنے سےروکنا چاہا  تو آپ نے منع فرما دیا اور ارشاد فرمایا: ”تم مجھ سے زیادہ چلنے پر قادر نہیں ہو اور نہ میں تم سے زیادہ اجر سے مستغنی ہوں ۔“([97])

      رحمتِ عالَم،نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:جانوروں کی پیٹھوں کوکرسیاں  نہ بناؤ۔([98])

بوڑھوں سے آگے ہونے کے تین مواقع:

      منقول ہے کہ تین موقعوں کے علاوہ جوان بوڑھوں سے آگے نہ ہوں :(۱) جب رات میں چلیں (۲) جب بہتے پانی میں داخل ہوں اور (۳)جب گھوڑوں  پر سوارہوکر دشمن سے لڑیں ۔

دوست کون ہے؟

      حضرت سیِّدُناعلی بن ابو طالبکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: دوست اس وقت تک دوست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے دوست کی تین باتوں میں حفاظت نہ کرے (۱) جب اسے کوئی مصیبت پہنچے (۲) اس کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی (۳) اور اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کی۔

دوست کے نہ ہونے اور کم ہونے کا بیان

      حضرت سیِّدُنا وہب بن منبہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے پچاس سال لوگوں کی صحبت میں گزارے لیکن میں نے کوئی شخص ایسا نہ پایا جو میری غلطی سے درگزر کرتا، نہ کوئی ایسا شخص پایا جو مجھ سے غلطیوں کو دور کرتا اور نہ کوئی ایسا شخص پایا جو میری پردہ پوشی کرتا۔

دھوکے باز کسی پر اعتماد نہیں کرتا:

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نےفرمایا:”جب کسی شخص کی طبیعت میں دھوکاکرنا


 

 شامل ہو تو وہ کسی بھی شخص پر اعتماد نہیں کرتا۔“

دوست کیا ہے؟

      منقول ہے کہ کسی شخص سے سوال کیا گیا: دوست کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یہ غیر مستحق کو دیا جانے والا نام اور نہ پایا جانے والا جاندار ہے۔

      حضرت سیِّدُنا ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : پہلے کے لوگ پتّوں کی مانند تھے اُن میں کانٹے نہیں تھے اور اب لوگ کانٹوں کی مانند ہیں جن میں پتّے نہیں ہیں ۔

      حضرت سیِّدُنا امام جعفر صادق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد نے اپنے کچھ دوستوں سے فرمایا: لوگوں سے جان پہچان کم رکھو  اور جن کو جانتے ہو ان سے انجان ہو جاؤ اگر تمہارے100دوست ہوں تو احتیاطاً ان میں سے 99 کو چھوڑ دو اور ایک دوست رکھو تو اس سے بھی ڈرکر رہو۔

      منقول ہے کہ  کسی حاکم سے پوچھا گیا:تمہارے کتنے دوست ہیں ؟ جواب دیا: حکومت کی وجہ سے بہت سارے ہیں ۔

لوگ دنیا کے لئے محبت رکھتے ہیں :

      علی بن عیسٰی وزیر کو جب وزارت سے ہٹادیا گیا تو اس کے وہ دوست جو وزارت کی وجہ سے اس سے محبت کرتے تھے اس کے پاس نہ آئے پھر جب وزارت اُسے دوبارہ مل گئی تو دوسرے ہی دن اُس کے دوست اُس کے پاس آگئے تو علی بن عیسٰی نے کہا:

مَا النَّاسُ اِلَّا مَعَ الدُّنْيَا وَصَاحِبِهَا

 

فَكُلَّمَا انْقَلَبَتْ يَوْمًا بِهِ انْقَلَبُوْا

يُعَظِّمُوْنَ اَخَا الدُّنْيَا فَاِنْ وَثَبَتْ

 

يَوْمًا عَلَيْهِ بِمَا لَا يَشْتَهِي وَثَبُوْا

      ترجمہ: لوگ تو دنیا اور دنیا والے کے ساتھ ہوتے ہیں اور جب دنیا والے سے دنیا منہ موڑتی ہے تو لوگ بھی اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ لوگ  دنیا دار دوست کی تعظیم کرتے ہیں اورنفس کی ناپسندیدگی کےسبب اگرکسی دن اس پرکوئی مصیبت آجائے تواسے چھوڑجاتےہیں ۔

وزیر ابن مُقلہ اور بادشاہ:

      وزیر ابنِ مُقلہ کے متعلق  جب بادشاہ کو یہ خبر ملی  کہ اُس نے بادشاہ کے دشمنوں کو خط لکھا ہے تو بادشاہ نے اس کا ہاتھ کاٹنے اور اُسے معزول کرنے کا حکم دیا۔یہ سن کر اُس کے ہم نشینوں میں سے کوئی اُس کے پاس نہ آیا ۔پھر جب بادشاہ کو یہ علم ہوا کہ اُس کی طرف جھوٹ منسوب کیا گیا ہے تو بادشاہ نے اُسےعہدے پر بحال کردیا ۔یہ دیکھ کر اُس نے یہ اشعار کہے: 


 

تَحَالَفَ النَّاسُ وَالزَّمَانُ                                                                                        فَحَيْثُ كَانَ الزَّمَانُ كَانُوْا

عَادَانِي الدَّهْرُ نِصْفَ يَوْمٍ                                                                                          فَانْكَشَفَ النَّاسُ لِي وَبانُوْا

يَا اَيُّهَا الْمُعْرِضُوْنَ عَنَّا                                                                                                    عُوْدُوْا فَقَدْ عَادَ لِي الزَّمَانُ

      ترجمہ:لوگوں اور زمانے نے باہم معاہدہ کررکھا ہے کہ جس طرف زمانہ ہوگا لوگ بھی اُس طرف ہوں گے۔ زمانے نے مجھ سے آدھا دن دشمنی دکھائی تو مجھے لوگوں کا پتا چل گیا اور وہ مجھے چھوڑ گئے۔اے ہم سے اعراض کرنے والو!لوٹ آؤ کیونکہ زمانہ میری طرف لوٹ آیا ہے۔

صحبت اختیار کرنے کے متعلق مدنی پھول:                                            

      انسان پر لازم ہے کہ وہ فقط متقی اور پرہیزگار کی صحبت اختیار کرے اس لئے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے لئے محبت دین و دنیا کے لئے فائدہ مند ہےاور انسان کو چاہئے کہ وہ شریر لوگوں سے میل جول رکھنے سے بچے، فاسقوں کی صحبت ترک کرےاور بدخصلت و بد اخلاق لوگوں سے دور رہے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) (پ۲۵،الزخرف:۶۷)

ترجمۂ کنز الایمان: گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگرپرہیزگار۔

      اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْؕ- (پ۷،الانعام:۳۸)

ترجمۂ کنز الایمان: اور نہیں کوئی زمین میں چلنے والااور نہ کوئی پرند کہ اپنے پروں اڑتا ہےمگر تم جیسی امتیں ۔

      اللہ عَزَّ  وَجَلَّنےاس آیت میں ہمارےاورتمام جانوروں کےمابین مماثلت کااثبات فرمایاہےجس کاتعلق خاص طور سے اخلاق وعادات سے ہے ۔ ہر شخص میں ہی جانوروں والے اخلاق و عادات ہوتی ہیں اسی لئے لوگوں میں مختلف عادتیں پائی جاتی ہیں ۔چنانچہ،

چیتے والا مزاج:

       جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو اخلاقیات میں جاہل ہو، غلیظ طبیعت ہو ، جسامت میں طاقتور ہو اور اس کے دشمن اُس سے محفوظ نہ ہوں تواُسے چیتوں کی دنیا سے شمار کرو۔عرب میں کہا جاتا ہے:اَجْہَلُ مِنَ النَّمَریعنی فلاں چیتے سے بھی زیادہ جاہل ہے۔


 

کتوں والا مزاج:

      جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو لوگوں کی عزتوں پر حملہ کرتا ہو تو وہ شخص کتوں کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ کتے کی عادت ہے کہ جو اُسے کچھ نہیں کہتا اور اُسے تکلیف نہیں دیتا اُس پر حملہ آور ہوتا ہےلہٰذا تم اُس کے ساتھ وہی معاملہ کرو جو کتے کے ساتھ کرتے ہو کہ جب وہ بھونکتا ہے توتم اسے چھوڑ کر نکل جاتے ہو۔

گدھوں والا مزاج:

      جب تم کسی ایسے انسان کو دیکھو جس کی عادت ہر معاملے میں اختلاف کرنے کی ہو کہ تم ”ہاں “ کہو اور وہ ”نہ“ کہے اور اگر تم”نہ“ کہو تو وہ ”ہاں “ کہے  تو اسے گدھوں کی دنیا سے شمار کروکیونکہ گدھے کی عادت ہوتی ہے  کہ اسے قریب کیا جائے تو دور ہو جاتا ہے اور دور کیا جائے تو قریب ہو جاتا ہےجس کے سبب نہ تمہیں  اُس سے کوئی نفع حاصل ہوتا ہے اور نہ وہ تم سے جُدا ہوتا ہے۔

برے لوگوں میں شمار:

      جب تم  کسی ایسے شخص کو دیکھو جو لوگوں کی جان و مال پر حملہ کرتا ہو تو اسے بُرے لوگوں  میں شمار کرو اور اس سے ایسے بچو جیسے شیر سے بچتے ہو۔

لومڑی  والا مزاج:

      جب تم کسی خبیث انسان سے ملو جو کثرت سے دھوکا دیتا ہو تو اسے لومڑیوں میں سے شمار کرو۔

خنافس والا مزاج:

      جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو علم و حکمت کی بات نہ سنے، علما کی مجلس سے متنفر ہو اور دنیا داروں کی باتوں سے محبت کرے تو اسے خنافس([99])میں شمار کرو، کیونکہ خنافس گندگی کھانے، نجاست میں رہنے کو پسند کرتا ہے اور مشک  اور پھول کی خوشبو سے متنفر ہوتا ہے اور جب کبھی یہ اچھی خوشبو سونگ لے تو اسی وقت مر جاتا ہے۔


 

موروں والا مزاج:

       جب تو کسی شخص کو دیکھے کہ وہ شوہر کے لئے سجنے والی عورت کی طرح سجتا ہے کہ اجلے کپڑے پہنے، بار بار عمامہ ٹھیک کرے اور خودپسندی اختیار کرے تو اسے موروں میں شمار کرو۔

اونٹوں والا مزاج:

       جب تو کسی ایسے شخص کو دیکھے کہ دشمنی رکھتا ہے اور غلطیاں معاف نہیں کرتا اور طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی بدلہ لیتا ہے تو اسے اونٹوں کی دنیا سے شمار کرو۔ ایسے شخص کے بارے میں عرب کے لوگ کہتے ہیں :”اَحْقَدُ مِنَ الْجَمَلِیعنی اونٹ سےبڑھ کرکینہ رکھنےوالا۔“لہٰذادشمنی رکھنے والے شخص کے قُرب سے بچنا چاہئے  اور اسی بات پر کہتے ہیں کہ عقل مند شخص کو چاہئے کہ وہ شریروں ، دھوکادینے والوں اور ان لوگوں سے بچے جن میں وفا نہیں ہوتی اور جس نے ایسا کر لیا تو اس نے اپنے اخلاق، اپنی جان اور اپنے بدن کو بچا لیا۔وَاللہ اَعْلَمُیعنی اوراللہ عَزَّ  وَجَلَّ بہتر جانتا ہے۔

دوست سے ملاقات کرنا اور اُسے بلانا

سایہ عرش کس کو ملے گا؟

       حضورنبی رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےفرمایاکہاللہ عَزَّ  وَجَلَّارشاد فرماتا ہے: ”میری خاطرآپس میں محبت کرنے والوں ، میری رضاکے لئےملاقات کرنے والوں اور میری راہ میں خرچ کرنے والوں کے لئےمیری محبت لازم ہو گئی،میں انہیں اُس دن اپنے (عرش کے)سائے میں رکھوں گا جس دن میرے (عرش کے)سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔“([100])

دوست سے ملاقات کی فضیلت:

       حضور نبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مریض کی عیادت یا اپنے دوست سے ملاقات کرنے کے لئے جائے تو ایک فرشتہ ندا دیتا ہے کہ تو پاک ہے، تیرا چلنا پاک ہے اور تیرے لئے پاک جنت ہے۔ ([101])

       منقول ہے کہ محبت درخت ہے اور اس کی جڑ ملاقات کرنا ہے۔


 

محبت کیسے بڑھے؟

       ملاقات کبھی کبھار ہونی چاہئے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پیارے حبیب،حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّایعنی کبھی کبھار ملا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے۔ ([102])

قاصد کیسا ہو؟

       ایک فلسفی سے پوچھا گیا: کون سا قاصد کامیاب ہے؟ جواب دیا: وہ جو خوبصورت اور عقل مند ہو۔

       کہا گیا ہے کہ جب تم اپنی حاجت کے لئے کوئی قاصد بھیجو تو اچھی صورت اور اچھے نام والا بھیجو۔

       حضرت سیِّدُنالقمان حکیمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاپنےبیٹےسےفرمایا:اےمیرےبیٹے!کبھی کسی جاہل کوقاصد بناکر مت بھیجنا، اگر تجھے اچھا قاصد نہ ملے تو خود اپنا قاصد بن جانا۔

       وَصَلَّى اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمیعنی اوردرود وسلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کی آل واصحاب پر۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر            خلقِ خدا پر شفقت و رحمت، سفارش کی فضیلت اور

                                                                           لوگوں کی اصلاح  کا بیان

(اس باب  میں دوفصلیں ہیں )

پہلی فصل:                                                                                                 خلق خدا پر شفقت و رحمت کا بیان

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ۱۱،التوبة:۱۲۸)

 ترجمۂ کنزالایمان:بےشک تمہارےپاس تشریف لائےتم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔


 

      اور بندوں کو اپنی شان یوں بیان فرماتاہے:

اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۴۳) (پ۲،البقرة:۱۴۳)

ترجمۂ کنزالایمان:بےشکاللہآدمیوں پربہت مہربان مہر (رحم) والا ہے۔

       اورارشاد فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱)الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ(۲) (پ۱،الفاتحة:۱، ۲)

ترجمۂ کنزالایمان:سب خوبیاں اللہکوجومالک سارے جہان والوں کا بہت مہربان رحمت والا۔

الرَّحْمٰنِ “اور ” الرَّحِیْمِ“کی وضاحت:

       مفسرین کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :” الرَّحْمٰنِ “ایک لطیف اسم ہے جو شفقت و ہمدردی،لطف و کرم اور مخلوق پر نرمی و احسان پر دلالت کرتا ہے اور یہی معاملہ ” الرَّحِیْمِ ۙ "  کابھی ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو دنیا کا ” الرَّحْمٰنِ یعنی ہر ایک پر مہربان“ جبکہ آخرت کا” الرَّحِیْمِ "یعنی خاص  مومنوں پر رحم کرنے والا“ کہا جاتا ہے۔

رحم کرنے والے پررحمت الٰہی کا نزول:

       حضرت سیِّدُناانس بن  مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتےہیں کہ حضور نبیّ رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم جس کےقبضَۂ قدرت میں میری جان ہے!اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنی رحمت صرف رحم کرنے والے  پر نازل فرماتا ہے۔ ہم نے عرض کی: یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! رحم تو ہم سب کرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا:رحم کرنے والا وہ نہیں جو فقط اپنی ذات اور گھر والوں پر رحم کرتا ہے بلکہ رحم کرنے والا  وہ ہے جو تمام مسلمانوں پر رحم کرتا ہے۔ ([103])

رحم نہ کرنے والا رحم سے محروم:

       حضرت سیِّدُنا جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ سَیِّدِعالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ”جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتااورجو معاف نہیں کرتا اُس کو معاف نہیں کیا جاتا۔ “([104])

       انہی سےمروی ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےمحبوب،دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:”لوگوں پر رحم کرو تم


 

پر رحم کیا جائے گا اورلوگو ں کو معا ف کردیا کروتمہاری مغفر ت کر دی جائے گی۔([105])

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناابوبکرصدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ پیارے آقا،مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےفرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّارشادفرماتاہے: اگر تم میر ی رحمت چاہتے ہوتو میری مخلوق پر رحم کرو۔ ([106])

مؤمنین کی مثال:

       حضرت سیِّدُنا نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ رسول ِاکرم،شاہِ بنی آدمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشاد فرمایا:مؤمنین کی آپس میں رحم،محبت اور صلہ رحمی کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب اُس کے کسی عُضْو کو تکلیف پہنچتی ہےتوپوراجسم بخاراوربے خوابی کا شکار ہوجاتا ہے۔امام سلیمان بن احمد طبرانی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : میں نے خواب میں رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کی اور آپ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دستِ مبارک سے تین مرتبہ اشارہ کرکےفرمایا:یہ حدیث صحیح ہے ۔ ([107])

یتیم کےسر پر ہاتھ پھیرنے کا انعام:

       حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرا ہر بال کے بدلے قیامت کے دن اسےایک نور عطا کیا جائے گا۔“([108])

امیر المؤمنینرَضِیَ اللہُ عَنْہکی بچوں پر شفقت:

       ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعُمَرفاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکےپاس اُن کاایک گورنرآیااوراس نے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ چت لیٹے ہوئے ہیں اوربچے آپ کے پیٹ پر کھیل رہے ہیں ، اس نے یہ دیکھ کر ناپسند جانا تو آپ نے اس سے استفسار فرمایا: تمہارا رویہ  اپنے گھر والوں کے ساتھ کیسا ہے؟ اس نےکہا: میں جس وقت گھر میں داخل


 

ہوتا ہوں تو گفتگو کرنے والے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: یہ عہدہ چھوڑو، جب تم اپنے اہل و عیال پر شفقت نہیں کرتے تو امت محمدیہ کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیسے کر سکتے ہو؟

       حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن،خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک میری امت کے ابدال اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رحمت، سخاوتِ نفس، سلامتِیِ صَدْر اور تمام مسلمانوں کے حق میں رحم دل  ہونے کی بنا پر جنت میں جائیں گے۔([109])

دوسری فصل:                         سفارش اور لوگوں کی اصلاح  کا بیان

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا فرمان:

مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَاۚ-وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا(۸۵) (پ۵،النساء:۸۵)

 ترجمۂ کنزالایمان:جواچھی سفارش کرےاُس کےلئےاس میں سے حصّہ ہےاورجو بُری سفارش کرےاُس کےلئےاُس میں سےحصہ ہےاوراللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

منصب کے بارے میں سوال ہو گا:

       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے محبوب،دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بندے سے اس کی عمر کی طرح اس کے مقام و مرتبے کے بارے میں بھی پوچھے گااور ارشاد فرمائے گا: ”میں نے تجھے جاہ ومنزلت عطا کی تَو کیا تُو نے اس کے ذریعے مظلوم کی مدد کی یا ظالم سے بدلہ لیا یا کسی پریشان حال کی پریشانی دور کی؟“([110])

اچھی سفارش کی فضیلت:

       آقائے دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”افضل صدقہ یہ ہے کہ تم اپنے عہدہ ومنصب کے ذریعے اس کی مدد کرو جس کے پاس کوئی منصب نہیں ۔“([111])

       حضرت سیِّدُنا ابو موسٰی اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ بےکسوں کے مددگار، شفیع روز شمار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”جب میرے پاس کوئی حاجت مند آئے تو اس کی سفارش کیا کرو تا کہ تمہیں اجر و ثواب ملے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ جو چاہتا ہے اپنے نبی کی زبان سے فیصلہ فرماتا ہے۔“([112])

سب سے افضل صدقہ:

       حضرت سیِّدُناسَمُرَہ بن جُنْدُبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے د وجہاں کے تاجور، محبوب ربّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”سب سے افضل صدقہ زبان کا صدقہ ہے۔“عرض کی گئی:” یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!زبان کا صدقہ کیا ہے؟“ارشاد فرمایا: ”وہ سفارش ہے جس سے تم کسی کو قید سے رہائی دلادویا کسی کی جان بچالویا کوئی بھلائی اپنے بھائی کی طرف بڑھادو اور اس سے کوئی مصیبت دور کردو۔“ ([113])

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے فرمایا: سفارش کرنے والا ضرورت مند کا سہارا ہے۔

سیِّدُنامحمد بن جعفر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیۡہاور ابوجعفر منصور:

       منقول ہے کہ خلیفہ ابو جعفر منصور حضرت سیِّدُنامحمد بن  جعفر بن عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی گفتگو پسند کیا کرتا تھا، آپ کی قدر و منزلت کی وجہ سے لوگ آپ سے سفارشیں کرواتے اور یہ بات منصور پر شاق گزرتی تھی، اس نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکوکچھ دن اپنے سے  روکے رکھا پھر جب  صبر نہ ہو سکاتو ربیع کو اس بارے میں حضرت سیِّدُنامحمد بن  جعفر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے گفتگو کرنے کا کہا ۔ربیع نے اُن سے گفتگو کی اور کہا:آپ امیرالمؤمنین! کو معاف رکھئے اورسفارشات کے معاملے میں انہیں تکلیف میں نہ ڈالئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ربیع کی بات مان لی لیکن جب آپ دروازے تک پہنچے تو دیکھا کہ قریش کے کچھ لوگ ہاتھوں میں چٹھیاں لئے کھڑے ہیں ، جب انہوں نے آپ سے خلیفہ تک چٹھیاں پہنچانے کی درخواست کی تو آپ نے ان کو سارا ماجرا کہہ سنایا، انہوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے ان چٹھیوں کو لینے پر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: ان چٹھیوں کو میری آستین میں ڈال دو۔پھرآپ خلیفہ کے پاس آئے جبکہ وہ بغداد کے بالائی سرسبزو شاداب  علاقے میں موجود تھا جس کے ارد گرد باغات تھے آپ کو دیکھ کر کہنے لگا: ابو عبداللہ! آپ نے اس کی خوبصورتی دیکھی؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اے امیرالمؤمنین!اللہ عَزَّ  وَجَلَّ آپ پر اپنی


 

نعمتیں پوری کر کے آپ کے مال اور اس جگہ میں برکت عطا فرمائے۔ آپ کے بنائے ہوئے شہر سے زیادہ مضبوط اور خوبصورت شہر نہ تو دولت اسلامیہ میں اہل عرب نے بنایا ہے نہ ہی ماضی میں اہل عجم نے۔لیکن اس کی ایک خصلت نے میری نگاہ میں اسےبدنما بنا دیا ہے۔ اس نے پوچھا: وہ کون سی خصلت ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: اس میں غلہ اُگانے والی زمین نہیں ہے ۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا: میں آپ کی نظر میں اسے  تین قابل زراعت زمین کے ٹکڑوں سے آراستہ کئےدیتا ہوں اور میں نے وہ آپ کے نام کئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: امیرالمؤمنین!خدا کی قسم! آپ سخاوت اور بزرگی کا سرچشمہ ہیں ، اللہ عَزَّ  وَجَلَّآپ کو گزری ہوئی زندگی سے لمبی عمر عطا فرمائے پھر آپ اس کے ساتھ ایک دن ٹھہرے رہے، جب آپ اٹھنے لگے اور آپ کی آستین سے چٹھیاں نکل  پڑیں تو آپ انہیں واپس آستین میں ڈالتے ہوئے کہنے لگے: ناکام و نامراد واپس اندر جاؤ۔ یہ دیکھ کر منصور مسکرایا اور  کہنے لگا: آپ کو میرے حق کا واسطہ، مجھے ان چٹھیوں کے بارے میں بتاؤ۔ آپ نے اسے ساری بات کہہ سنائی اور کہنے لگے: اے معلمُ الخیر کے بیٹے! آپ کا کرم  بڑھتا ہی رہتا ہے پھر آپ نے عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر کے یہ اشعار پڑھے:

لَسۡنَا وَ اِنَّ اَحْسَابَنَا كَرُمَتْ                                                                                                           يَوْمًا عَلَى الْاَحْسَابِ نَتَّكِلُ

نَبْنِيْ كَمَا كَانَتْ اَوَائِلَنَا                                                                                                                           تَبْنِي وَنَفْعَلُ مِثْلَ مَا فَعَلُوا

       ترجمہ:ہم سخی نہیں تو کیا ہوا ہمارے آباء واجداد تو سخی ہیں ،ایک دن ہم انہیں پر بھروساکرلیتے ہیں ۔اب ہم بھی وہی تعمیر کریں گے  جو ہمارے اگلوں نے کیا تھا اور ہم بھی ان جیسا عمل کریں گے۔

       یہ سن کر خلیفہ منصور نے تمام چٹھیوں کو پڑھا اور لوگوں کی حاجتوں کو پورا کر دیا۔ حضرت سیِّدُنا محمد بن  جعفر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : میں وہاں سے لوٹ آیا، اس سے میں نے بھی نفع پایا اور دوسروں کو بھی نفع پہنچایا۔

       کسی نے یحییٰ بن خالد کو ایک چٹھی لکھی جس میں یہ شعر تھا:

شَفِيْعِيْ اِلَيْكَ اللهُ لَا شَيْءَ غَيْرَهٗ                                                                                                    وَلَيْسَ اِلٰی رَدِّ الشَّفِيْعِ سَبِيْل

            ترجمہ: تمہاری طرف اللہ عَزَّ  وَجَلَّکےسوامیراکوئی سفارشی([114]) نہیں  اورایسے سفارشی کو رد کرنے کی کوئی راہ نہیں ۔

یحییٰ بن خالد نے اس شعر کو پڑھاتو اسے حکم دیا کہ اس کی چوکھٹ سے نہ جائے پھر وہ اسے ہر صبح ہزار درہم دینے لگا، جب اس کے پاس30ہزار درہم  ہو گئے تو وہ شخص چلا گیا، یحییٰ بن خالد  نے کہا: خدا کی قسم! اگر یہ ساری عمر ٹھہرا رہتا تب بھی میں اسے دینا بند نہیں  کرتا۔

ایک شاعر نے کیا خوب کہاہے:

تَشَفَّعْ بِالنَّبِيِ فَكُلُّ عَبْدٍ                                                                                                               يُجَارُ اِذَا تَشَفَّعْ بِالنَّبِيِّ

وَلَا تَجْزَعْ اِذَا ضَاقَتْ اُمُوْرٌ                                                                                                           فَكَمْ لِلّٰهِ مِنْ لُطْفٍ خَفِيٍّ

      ترجمہ:حضورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا وسیلہ اختیار کرو کیونکہ جو ان کا وسیلہ پکڑتا ہے امان پاتا ہے۔ جب مشکلات بڑھ جائیں تو پریشان نہ ہو کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بخشش و مہربانی کی کوئی حد نہیں ۔

      مروی ہے کہ حضرت سیِّدُنا جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: اے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا پانے کے لئے ہم زمین پر عبادت کرنے والے ہوتےتو ہم تین خصلتوں کو اپناتے:(۱)…مسلمانوں کو پانی پلاتے(۲)…عیال دار لوگوں کی مدد کرتےاور (۳)…اگر مسلمان گناہ میں مبتلا ہوتے تو ان کی پردہ پوشی کرتے۔


 

اَللّٰهُمَّ اسْتُرْ ذُنُوْبَنَا وَاقْضِ عَنَّا تَبِعَاتِنَا وَصَلَّى اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّم یعنی اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ! ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی فرما،ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی عطا فرمااور ہمارے سردار حضرت محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور ان کی اٰل و اصحاب پر درودو سلام نازل فرما۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر 26:                                         حیا،تواضع اور عاجزی و انکساری کا بیان

(اس باب  میں دوفصلیں ہیں )

پہلی فصل:                                                                                                                                                                                                حیا کا بیان

       اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ10چیزیں حُسنِ اخلاق سے ہیں :(۱)سچ بولنا (۲)حقیقی بہادری(۳)امانت ادا کرنا(۴)صلہ رحمی کرنا(۵)نیکی کا بدلہ دینا(۶)اَمْر بالمعروف کرنا(۷)پڑوسی کےحق کی حفاظت کرنا(۸)دوست کے حق کی حفاظت کرنا(۹)مہمان نوازی کرنا اور (۱۰)ان سب باتوں کی اصل حیاکرنا۔

حیا کے بارے میں دوفرامین مصطفٰے:

﴿1﴾…اَلْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَان یعنی  حیاایمان کی ایک شاخ  ہے۔([115])

﴿2﴾اِنَّ مِمَّااَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ اِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَافْعَلْ مَاشِئْتَیعنی کلام نبوت میں سے لوگوں نےجو پایااس میں سےیہ ہے کہ جب تجھےحیا نہ ہوتو جو چاہے کر ۔ ([116])

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ جس نے حیا کی چادر اوڑھ لی لوگوں کو اس کے عیب دکھائی نہیں دیتے ۔



[1]مُفَسِّرِشہیر،حکیمُ الاُمَّت مفتی اَحمدیارخان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیمراٰۃ المناجیح،جلد5، صفحہ374پر اس کے تحت فرماتے ہیں :اس طرح کہ نہ مظلوموں ، حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنےدے،اپنے دروازے پر سخت پہرہ بٹھا دے ،نہ ان کی ضَرُورِیّات کی پرواہ کرے،ان سے غافل رہے ،ان کی حاجت روائی کا کوئی انتظام نہ کرے ،اپنی حکومت سنبھالنے اپنے عَیْش وآرام میں مُنْہمک رہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ اپنے ان مجبور بندوں کا بدلہ لے گا کہ اس کی حاجتیں ضرورتیں پوری نہ فرمائے گا ، اس کی دعائیں قبول نہ کرے گا ۔ اس سزا کا ظہور کچھ دنیا میں بھی ہوگا اور پورا پورا ظہور آخرت میں ہوگا ۔

[2]ابو داود ،کتاب الخراج  ...الخ،باب فیما یلزم الامام من امرالرعية ،۳/ ۱۸۸،حدیث : ۲۹۴۸الاحاد والمثانی،عقبة بن نافع الفهری،۵/۳۳۱،حدیث:۲۸۷۹

[3]ترمذی، کتاب الاحکام، باب ما جاء فی امام الرعیة،۳/ ۶۴ ،حدیث: ۱۳۳۷

[4] بخاری، کتاب کفارات الایمان، باب الکفارة قبل الحنث و بعدہ، ۴/ ۳۱۱ ، حدیث: ۶۷۲۲

[5] بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیة فلم ینصح، ۴/ ۴۵۶، حدیث: ۷۱۵۰

[6]معجم کبیر، ۲۰/ ۲۲۱، حدیث: ۵۱۳

[7]شعب الایمان، باب فی طاعة اولی الامر، فصل فی فضل الامام العادل، ۶/ ۲۰ ، حدیث: ۷۳۸۳

[8]یعنی ہم اللہکے مال ہیں اورہم کواسی کی طرف پھرنا۔

[9]عمومًا سردار (حکمران)ہیں دوزخی کہ اکثر لوگ حکومت پاکر ظلم و تعدی کرتے ہیں لہذا جسے سردار بننا پڑجائے وہ بہت احتیاط سے کام کرے کہ تلوار کی دھار پر ہے۔(مراٰۃ المناجیح،۵/ ۳۵۹)

[10]ابو داود، کتاب الخراج، باب فی العرافة، ۳/ ۱۸۳ ، حدیث: ۲۹۳۴

[11]معجم کبیر، ۱۰/ ۲۱۶ ، حدیث: ۱۰۵۱۵عن ابن مسعود

[12]معجم اوسط، ۲/ ۸۸، حدیث: ۲۶۱۹

[13]مصنف ابن ابی شیبة، کتاب السیر، باب فی الامارة، ۷/ ۵۶۹، حدیث: ۱۱عن اعمش دون ذکر عبد الرحمن بن سمرة

[14]…اس لئے کہ سنّار درہم و دینار کے وزن میں لالچ کی بنا پر کمی کر دیتے ہیں ۔

[15]…ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا،یہ اکثر  لوگوں پر ظلم کرتاہے ۔

[16]…یہ پہلے کے دور میں ایک رتبہ ہوا کرتا تھا اور ہر قبیلے کا ایک عریف ہوتا تھا جو قبیلے اور حاکم کے درمیان پیغام پہنچانے کا کام کرتا تھا۔

[17]مسلم، کتاب الامارة، باب کراھة الامارة بغیر الضرورة، ص ۱۰۱۵، حدیث: ۱۸۲۶

[18]کنزالعمال، کتاب الشھادة من قسم الاقوال، باب شھادة الزور، ۷/ ۹، حدیث: ۱۷۷۵۸

[19]ترمذی، کتاب الاحکام، باب ما جاء فی امام العادل، ۳/ ۶۳، حدیث: ۱۳۳۵

[20]مسند الفردوس، ۲/ ۱۶۴، حدیث: ۴۷۲۹

[21]معجم کبیر، ۲۳/ ۳۹۸، حدیث: ۹۵۱۔

[22]مستدرک حاکم، کتاب البیوع، باب من تداین بدینالخ، ۲/ ۳۱۹، حدیث: ۲۲۵۳

[23]سنن کبری للبیھقی، کتاب الضمان، باب  وجوب الحق بضمان، ۶/ ۱۲۱، حدیث: ۱۱۳۸۹

[24]مسند امام احمد، حدیث محمد بن عبداللّٰہ ،۸/ ۳۴۸، حدیث: ۲۲۵۵۶

[25]بخاری، کتاب الکفالة، باب الدین، ۲/ ۷۷، حدیث: ۲۲۹۸

[26]کنزالعمال، کتاب النکاح من قسم الاقوال، باب فی احکام النکاح، ۱۶/ ۱۳۷، حدیث: ۴۴۷۱۹

[27]معجم کبیر،۴/ ۸۰، حدیث: ۳۷۰۵

[28]…یہاں ان لوگوں کی مذمت بیان کرنامقصودہےجودکھاوےکےطورپرایساکرتےہوں ۔(علمیہ)

[29]ربیع الابرار،الباب الحادی والسبعون،۴/ ۳۴۵

[30]مسندامام احمد، حدیث محمود بن لبید، ۹/ ۱۶۱، حدیث: ۲۳۶۹۷عن محمود بن لبید

[31]بغية الباحث فى زوائد مسند الحارث،۲/ ۶۲۶،حدیث:۵۹۷

[32]اتحاف الخیرة المهرة،کتاب الامارة،باب ماجاء فی الامراء،۶/۱۹۷،حدیث:۵۷۴۷

[33]ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب فی الصائم لا ترد دعوتہ، ۲/ ۳۴۹، حدیث: ۱۷۵۲

[34]تم لوگ غزوات میں شریک ہوتے ہو اور میں نہیں ہوتا،ہاں !اللہ تعالیٰ چاہے تو کہیں بھی شہادت عطا فرما دے۔

(الاستیعاب، ۳/۲۴۳،رقم:۱۸۹۹،عمر بن الخطاب)

[35]بخاری، کتاب اخبار الآحاد، باب ما جاء فی اجازة خبر الواحد، ۴/ ۴۹۲، حدیث: ۷۲۵۷

                             مسندامام احمد،مسند علی بن ابی طالب،۱/۲۷۸،حدیث:۱۰۹۵

[36]وَیْبَہ:اردب کے چھٹے حصے کو کہتے ہیں اورایکاردب24صاع یعنی 92 کلو160 گرام کا ہوتا ہے۔(القاموس المحیط، ص ۱۶۷)

[37]…یہ فرمان زجروتوبیخ کے طور پر ہےیا مراد یہ ہےکہ وہ اسلامی طریقے سے نکل گیایا پھر مراد یہ ہے کہ وہ حلال سمجھ کریہ فعل  کرےتو کافر ہے۔(فیض القدیر،۶/۲۹۷،تحت الحدیث:۹۰۴۹)

[38]معجم کبیر، ۱/ ۲۲۷، حدیث: ۶۱۹

[39]ترمذی، کتاب صفة القیامة ، باب ما جاء فی شان الحساب والقصاص،۴/ ۱۸۹، حدیث: ۲۴۲۷

       بخاری، کتاب المظالم، باب من کانت لہ مظلمةالخ، ۲/ ۱۲۸، حدیث: ۲۴۴۹

[40]معجم اوسط، ۶/ ۴۰۳، حدیث: ۹۲۱۹

[41]حلیة الاولیاء، عبدة بن ابی لبابة، ۶/۱۲۵، حدیث: ۸۰۴۷

[42]شعب الایمان،باب فی طاعة اولى الامر،فصل فى ذكر ماورد من...الخ،۶/ ۴۹، حدیث: ۷۴۶۴

[43]ترمذی، کتاب صفة الجنة، باب ما جاء فی صفة الجنةالخ، ۴/ ۲۳۶، حدیث: ۲۵۳۴عن ابی ھریرة بتغير قليل

[44]مسند طیالسی، یزید بن ابان عن انس، ص۲۸۲،حدیث: ۲۱۰۹عن انس بتغير

[45]مسلم،کتاب البروالصلة، باب النھی عن الاشارةالخ، ص:۱۴۱۰، حدیث: ۲۶۱۶

[46]معجم صغیر، ۱/ ۳۰، حدیث: ۷۱

[47]اسلام میں کسی مسلمان یاذمی پرظلم کرنےکی اجازت نہیں ۔(علمیہ)

[48]احناف کےنزدیک:بچھونےیامصلےپرکچھ لکھاہواہوتواس کواستعمال کرناناجائزہے۔(بہارشریعت،حصہ۱۶، ۳/ ۴۲۰)

[49]مسند الفردوس، ۱/ ۱۵۳، حدیث: ۹۹۵عن ابى هريرة

[50]تاکہ آئندہ کسی حکمران کابیٹاظلم نہ کرے۔(علمیہ)

[51]یہ فیصلہ خواب کی بنیادپرنہیں بلکہ حقیقت پرہوا،لہٰذاخواب کی وجہ سےقاتل قرارنہیں دیاجاسکتا۔(علمیہ)

[52]خراج    وہ محصول ہے جو مسلمان حاکم قابل زراعت خراجی زمین پر مقرر کر دیتا ہے۔(ماخوذمن الموسوعة الفقهية،ج۱۹، ص۵۲) جو شہر بطور صلح فتح ہویا جو لڑکر فتح کیا گیا مگر مجاہدین پر تقسیم نہ ہوا بلکہ وہاں کے لوگ برقرار رکھے گئے یا دوسری جگہ کے کافروہاں بسا دیے گئے، یہ سب (زمینیں ) خراجی ہیں ۔ بنجر زمین کو مسلمان نے کھیت کیا، اگر اُس کے آس پاس کی زمین عشری ہے تو یہ بھی عشری اور خراجی ہے تو خراجی۔

 (بہارشریعت،حصہ۹،۲/۴۴۶)

[53]ذمی اس کافرکوکہتے ہیں جس کے جان ومال کی حفاظت کابادشاہ اسلام نے جزیہ کے بدلے ذمہ لیاہو۔(فتاوی فیض الرسول، ۱/۵۰۱)

[54]عدل وانصاف سےمعاشرےمیں امن توقائم رہتاہےلیکن عدل کےساتھ دیگرچیزوں کی بھی ضرورت ہوتی ہےاس لئےاس کاذکر کیا۔(علمیہ)

[55]مسلم، کتاب الجھاد، باب کراھة الاستعانةالخ ص: ۱۰۱۰، حدیث: ۱۸۱۷

[56]…سلطنت  اسلامیہ کی جانب سے ذمی کفار پر جو مقرر کیا جاتا ہے اسے جزیہ کہتے ہیں ۔(بہارشریعت،حصہ۹،۲/۴۴۸)

[57]…ذمیوں سےمتلعق تفصیلی احکام جاننےکےلئے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ1180صفحات پرمشتمل کتاب’’بہارشریعت،جلد2،حصہ9،صفحہ448تا452‘‘ کامطالعہ کیجئے۔(علمیہ)

[58]کنزالعمال،کتاب الزکاة، باب فی انواع الصدقةالخ، ۶/ ۱۹۰، حدیث: ۱۶۴۶۲

[59]معجم کبیر، ۱۰/ ۸۶، حدیث: ۱۰۰۳۳ عن ابن مسعود

[60]معجم اوسط، ۴/ ۲۲۲، حدیث: ۵۷۸۷ عن جابر

[61]الفوائد لتمام الرازی، ۲/ ۲۱۹،تحت الحدیث: ۱۵۷۵ عن انس

[62]البحر المدید، سورة البقرة، تحت الایة: ۴۸، ۱/ ۷۲

[63]حلیة الاولیاء، مالک بن انس، ۶/ ۳۸۹، حدیث: ۹۰۳۸

[64]مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اصطناع المعروفالخ، ۲/ ۲۳۹، حدیث:۹۴

[65]حلیة الاولیاء، عبدالعزیز بن ابی رواد، ۸/ ۲۱۷، حدیث: ۱۱۹۳۲

[66]معجم اوسط، ۶/ ۱۵۸، حدیث: ۸۳۵۰ عن عبد الله بن عمرو

[67]معجم اوسط،۵/ ۳۳۹، حدیث: ۷۵۲۹

[68]شعب الایمان، کتاب الادب، باب فی التعاون علی البر والتقوی، ۶/ ۱۲۰، حدیث: ۷۶۷۰

[69]مسند الفردوس ، ۱/ ۲۹۷، حدیث: ۲۱۵۵

[70]حلیة الاولیاء، مالک بن انس، ۶/ ۳۸۳، حدیث: ۹۰۱۲

[71]معجم صغیر، ۲/ ۱۴۷، حدیث: ۱۱۷۵

[72]معجم اوسط،۵/ ۳۳۷، حدیث:۷۵۱۹

[73]موسوعة ابن ابی الدنیا، قضاء الحوائج، ۴/۲۱۳، حدیث: ۱۱۵

[74]معجم اوسط، ۱/ ۳۳، حدیث:۷۲

[75]شرح السنة،کتاب الاطعمة، باب کراھیة الاکلالخ، ۶/ ۶۹، حدیث:۲۸۳۳

[76]خوان تپائی کی طرح اونچی چیز ہوتی ہے، جس پر امراء کے یہاں کھانا چنا جاتا ہے تاکہ کھاتے وقت جھکنا نہ پڑے، اس پر کھانا کھانا متکبرین کا طریقہ تھا۔(بہارشریعت،حصہ۱۶، ۳/ ۳۶۹)

[77]سنن کبری للبیھقی، کتاب الصداق، باب ماجاء فی الجمعالخ، ۷/۴۵۹، حدیث: ۱۴۶۳۸

[78]احیاء علوم الدین،بیان اخلاقہ وآدابہ فی الطعام،۲/۴۵۶

[79]الفوائد الشھیر بالغیلانیات لابی بکر الشافعی، باب فی اکل النبی القرع، ۲/ ۷۰۱، حدیث: ۹۵۶

[80]مسند الفردوس ،۲/ ۱۷۶، حدیث: ۴۷۵۴ بتغیر

[81]ابو داود، کتاب الجھاد، باب فی السبق علی الرجل، ۳/ ۴۲، حدیث: ۲۵۷۸

[82]الشفاء،الباب الثانی، فصل واما فصاحة اللسان، ۱/ ۸۰

[83]مسلم، کتاب الفضائل، باب کان رسول اللّٰہالخ،ص: ۱۲۶۴، حدیث: ۲۳۰۹۔مسند امام احمد، مسند انس بن مالک، ۴/ ۴۶۱، حدیث: ۱۳۴۱۷

[84]…یعنی آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی صفت ملَکیَّت بھی ہے۔بہرحال آپ کامرتبہ فرشتوں کےمرتبےسےبڑھ کرہے۔(علمیہ)

[85]مکارم الاخلاق للطبرانی علی ھامش مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا،ص: ۳۱۸، حدیث: ۱۸

[86]شعب الایمان، باب فی حسن الخلق،۶/ ۲۴۸، حدیث: ۸۰۳۷

[87]ابو داود، کتاب الادب، باب فی حسن العشرة، ۴/ ۳۲۸، حدیث: ۴۷۸۸

[88]تاریخ دمشق، ۴۹/ ۲۹۸، حدیث: ۱۰۵۴۲، الرقم:۵۷۰۷ ،قحطبة بن شبیب

[89]التذکرة الحمدونیة، الباب الرابع فی محاسن الاخلاقالخ، ۲/ ۱۷۵

[90]التذکرة الحمدونیة، الباب الرابع فی محاسن الاخلاقالخ، ۲/ ۱۸۷

[91]نیروز(نوروز)ایرا نی شمسی سال کاپہلادن یہ ایرانیوں کی عیدکادن ہے۔

       نیروزاورمہرجان کےنام پرعطیہ(بایں طورکہ کہاجائےیہ اس دن کاہدیہ ہے)جائزنہیں یعنی ان دونوں ایام کےناموں پر ہدایادینالیناحرام ہےاوراگرمشرکین کی طرح ان کی تعظیم بھی کرےگاتوکفرہوگا۔مجوسیوں کےساتھ نیروزمیں اس طرح نکلناکہ اس دن وہ جوکریں گےیہ ان کی موافقت کرےتویہ کفرہے،اسی طرح نیروزکےدن کی تعظیم کرتےہوئےیا مشرکین کوہدیہ دینےکےلئےکوئی چیزخریدی نہ کہ کھانےپینےکےلئےجبکہ وہ چیزاس سےپہلےنہیں خریدی تھی اگرچہ وہ انڈہ ہی کیوں نہ ہوکفرہوگا۔(فتاوٰی رضویہ،۱۴/ ۶۷۳)

[92]بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب الارواح جنود مجندة، ۲/ ۴۱۳، حدیث: ۳۳۳۶

[93]مسند امام احمد، مسند عبداللّٰہ بن عمرو، ۲/ ۵۸۸، حدیث: ۶۶۴۷

[94]مسند الفردوس، ۱/ ۱۲۵، حدیث: ۷۹۶ دون ذکر الانبیاء

[95]…یعنی اے اللہعَزَّوَجَلَّ!تو پاک ہےاور تیر ی ہی حمد ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا اور تیری طرف رجوع لاتا ہوں ۔

[96]ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما یقول اذا قام من مجلسہ، ۵/ ۲۷۳، حدیث: ۳۴۴۴

[97]مسندامام احمد،مسند عبد اللّٰہ بن مسعود،۲/ ۸۲،حدیث:۳۹۰۱

[98]مسندامام احمد، حدیث سھل بن معاذ، ۵/ ۳۱۵، حدیث: ۱۵۶۵۰

[99]خَنَافِسخُنْفَسَا“کی جمع ہےجوکہ نجاست اورگوبرمیں پیداہونےوالاسیاہ رنگ کادوسینگ والاایک کیڑاہے۔اردومیں اس کو”گُبریلا“

کہتے ہیں ۔(امام حسین کی کرامات،ص۳۲)

[100]مسندامام احمد، حدیث عمرو بن عبسة، ۷/ ۱۱۳، حدیث: ۱۹۴۵۵

       مسلم، کتاب البر و الصلة، باب فی فضل الحب فی اللّٰہ، ص ۱۳۸۸،حدیث: ۲۵۶۶

[101]ترمذی، کتاب البر و الصلة، باب ماجاء فی زیارة الاخوان،۳/ ۴۰۵، حدیث: ۲۰۱۵

[102]معجم کبیر، ۴/ ۲۱، حدیث: ۳۵۳۵

[103]مکارم الاخلاق للطبرانی، باب فضل الرحمة ورقة القلب،ص:۳۲۶،  حدیث: ۴۰

[104]بخاری، کتاب الادب، باب رحمة الناس والبھائم،۴/ ۱۰۳، حدیث: ۶۰۱۳۰  ۔  معجم کبیر، ۲/ ۳۵۱، حدیث: ۲۴۷۵

[105]مسند امام احمد، مسند عبداللّٰه بن عمرو، ۲/ ۵۶۵، حدیث: ۶۵۵۲

[106]مکارم الاخلاق للطبرانی، باب فضل الرحمة ورقة القلب، ص ۳۲۶، حدیث: ۴۱

[107]مکارم الاخلاق للطبرانی، باب فضل معونة المسلمین، ص ۳۴۳، حدیث: ۹۰

[108]روح المعانی، سورة الضحی، تحت الایة: ۹، ۳۰/ ۵۳۴

[109]شعب الایمان، باب فی الجود والسخاء، ۷/ ۴۳۹، حدیث: ۱۰۸۹۳

[110]نھایة الارب، القسم الثالث من الفن الثانی،الباب الاول، ۳/ ۲۴۱

[111]نثرالدر، الباب الثانی فیہ کلامالخ، ۱/ ۳۴

[112]مکارم الاخلاق للطبرانی، باب فضل شفاعة المسلم لاخیہ، حدیث: ۱۳۰، ص: ۳۶۰

[113]مکارم الاخلاق للطبرانی، باب فضل شفاعة المسلم لاخیہ، حدیث: ۱۳۱، ص: ۳۶۱

[114]اللہعَزَّ  وَجَلَّکی یہ شان نہیں کہ اسےکسی پرشفیع بنایاجائے۔حدیثِ پاک میں ہے:حضرت سیِّدُناجُبَیْربن مطعمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ ایک بدوی(دیہاتی)نےبارگاہِ رسالت میں حاضرہوکرعرض کی:جانیں مشقت میں پڑگئیں ،بال بچے بھوکےہوگئے،بال برباداور جانورہلاک ہوگئے،آپ ہمارےلئےاللہعَزَّ  وَجَلَّسےبارش مانگیں ہم آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کواللہعَزَّ  وَجَلَّکی بارگاہ میں شفیع لاتے

……ہیں ۔تب حضورنبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےفرمایا:سُبْحٰنَ اللہ سُبْحٰنَ اللہآپ تسبیح فرماتےرہےحتّٰی کہ یہ صحابَۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کےچہروں میں پہچاناگیا۔پھرارشادفرمایا:تجھ پرافسوس ہے!اللہعَزَّ  وَجَلَّکی شان اس سےبہت بلندہےکہ اسےکسی پرشفیع بنایاجائے۔ تجھ پر افسوس!کیاتجھےخبرہےکہاللہعَزَّ  وَجَلَّکی شان کیاہے؟اس کا عرش اس کےآسمانوں پرایساہےاوراپنی انگلیوں سےاشارہ کرکےفرمایااس پرقبہ کی طرح ہےاوروہ چرچرارہاہےجیسےکجاوہ سوارکی وجہ سےچرچراتاہے۔(ابوداود،کتاب السنة،باب فی الجھمیة والمترزلہ،۴/ ۳۰۶،حدیث:۴۷۲۶) مفسرشہیر،حکیْمُ الامت مفتی احمدیارخان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی مراٰۃ المناجیح،جلد7،صفحہ600پرحدیث مبارک کےجز’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی شان اس سے بہت بلندہےکہ اسےکسی پرشفیع بنایاجائے‘‘کےتحت فرماتےہیں :شفاعت بناہےشفیع سےبمعنی جوڑا،ربّ(تعالیٰ ارشاد) فرماتاہے:

’’ وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِۙ(۳) ‘‘(پ۳۰،الفجر:۳، ترجمۂ کنز الایمان:اورجُفت اورطاق کی قسم)۔سفارش کو شفاعت اس لیےکہتے ہیں کہ سائل حاکم کے سامنے اکیلا پیش ہونے کی ہمت نہیں کرتا تو اس حاکم کے کسی منظورمقبول کے ساتھ مل کرجُڑکر حاکم کے سامنے پیش ہوتا ہے۔بہرحال شفیع سے حاکم افضل واعلیٰ ہوناضروری ہےاگر خدا تعالیٰ کو شفیع کہا جاوے تو لازم آوے گا کہ کوئی اوراس سے اعلیٰ ہےجس کے دربار میں خدا تعالیٰ سے سفارش کرائی گئی،چونکہ یہ بہت باریک بات تھی اس لیے اس شخص کو نہ تو کافر کہا گیا نہ اس سے توبہ کرائی گئی،اس نے ربّ تعالیٰ کی توہین نہیں کی بلکہ وہ شفاعت کے معنیٰ نہیں سمجھا۔خیال رہےکہاللہتعالیٰ کے نام،اس کے صفات کوبارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنانا درست ہے بلکہ اللہ کے نام کے وسیلہ سے بندوں سے مددمانگنادرست ہے۔ہم کہاکرتےہیں اللہکےواسطےیہ دیدواللہکےنام کاصدقہ دےدوکہا جاتاہے۔شَیْئًالِلّٰہ بشفاعت۔ ذات اوروسیلَۂ نام وسیلَۂ صفات(یعنی ذات اورنام وصفات کےوسیلہ) میں فرق ضرورکرنا چاہیے۔

[115]بخاری، کتاب الایمان، باب امور الایمان، ۱/ ۱۵، حدیث: ۹

[116]بخاری، کتاب الادب، باب اذا لم تستح فاصنع ما شئت، ۴/ ۱۳۱، حدیث: ۶۱۲۰