تین سخی صحابہ:

      ہیثم بن عدی کا بیان ہے کہ تین افراد کے درمیان اس بات پر بحث ہوئی کی سب سے بڑا سخی کون ہے؟ ایک شخص نے کہا:ہمارے دور میں سب سے بڑےسخی حضرت سیِّدُناعبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں دوسرے شخص نے دعویٰ کیا کہ حضرت سیِّدُنا قیس بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  سب سے بڑے سخی ہیں جبکہ تیسرے شخص کا کہنا تھا کہ حضرت سیِّدُناعَرابہ اَوْسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسب سے زیادہ سخی ہیں ۔اس بات پر خانَۂ  کعبہ کے صحن میں ان کے درمیان اختلاف ہوا تو ایک چوتھے شخص نے ان تینوں سے کہا:تم لوگوں نے بہت زیادہ بحث کرلی ہے،اب تم میں سے ہرکوئی اس کے پاس جائے جسے وہ سب سے بڑا سخی سمجھتا ہے اور اس سے سوال کرے تاکہ ہم دیکھیں کہ اسے کیا ملتا ہے اور آنکھوں سے دیکھ کر کوئی حکم لگائیں ۔

    حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سب سے بڑا سخی سمجھنے والا شخص ان کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ اپنی زمینوں کی طرف جانے کے لئے سواری کی رکاب میں پاؤں رکھ چکے تھے۔اس شخص نے عرض کی:اے رسولُ اللہ


 

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےچچا زادبھائی کےبیٹے!میں ایک مسافر ہوں اور قافلے سے جُدا ہو چکا ہوں ۔آپ نے رِکاب سے پاؤں نکال کر فرمایا:اس میں پاؤں رکھ کر اونٹنی پر بیٹھ جاؤ اور اس کے کجاوے میں جو کچھ ہے وہ لے لو۔ اس وقت اونٹنی کے کجاوے میں  کئی ریشمی چادریں اور چار ہزار دینار موجود تھے۔

      حضرت سیِّدُناقَیْسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو سب سے بڑا سخی سمجھنے والا ان کے یہاں پہنچا تو آپ سورہے تھے۔ ان کی لونڈی نے اس کی حاجت پوچھی تو بتایا کہ میں ایک مسافر ہوں اور منزل تک پہنچنا چاہتا ہوں ۔لونڈی نے کہا: تمہاری ضرورت انہیں بیدار کرنے کی نسبت آسان ہے،اس تھیلی میں سات سو دینار موجود ہیں ،آج ان کے گھر میں اس کے علاوہ مال موجودنہیں (یہ لے لو)اور جہاں اونٹ بندھے  ہیں وہاں  جاکر ان کے سواری کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ،اس کا ضروری سامان اور ایک غلام لے کر اپنے سفر پر روانہ ہوجاؤ([1])۔

      منقول ہے کہ حضرت سیِّدُناقَیْسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  جب نیند سے بیدار ہوئے اور لونڈی نے انہیں اس بات کی خبر دی تو آپ نے اسے آزاد فرمادیا۔اگر لونڈی کے علم میں یہ بات نہ ہوتی کہ ایسا کرنے سے آپ خوش ہوں گے تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتی۔ معلوم ہوا کہ کسی آدمی کے خدام کے اخلاق اس شخص کے اخلاق سے ماخوذ ہوتے ہیں ۔

      ایک شاعر  کہتا ہے:اگر تم دوست کی محبت کا امتحان لینا چاہو تو اس کے خُدّام کی محبت کا امتحان لو۔

      حضرت سیِّدُنا عَرابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو بڑا سخی سمجھنے والا ان کے پاس پہنچا تو آپ گھر سے نکل کر نماز کے لئے جارہے تھے۔ اس نے عرض کی:اے عَرابہ!میں ایک مسافر ہوں اور منزل تک پہنچنا چاہتا ہوں ۔ حضرت سیِّدُنا عرابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ اس وقت دو غلام تھے،انہوں نے حسرت سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا:ہائے افسوس!اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی قسم!آج کی صبح اور شام عرابہ کے پاس کوئی چیز نہیں ہے اور لوگوں کے حقوق نے کوئی مال بھی نہیں چھوڑا، ایسا کرو تم یہ دونوں غلام لے لو۔اس شخص نے کہا:ا للہ  کی قسم!میں ایسا نہیں ہوں کہ یہ دونوں غلام بھی آپ سے لے لوں ۔ارشاد فرمایا:اگر تم چاہو تو انہیں لے لو ورنہ یہ دونوں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے لئے آزاد ہیں ، تم چاہو تو انہیں لے لو اور چاہو تو آزاد کردو۔

      اس شخص نے غلام لئے اور وہاں سے چلا گیا۔پھر ان تینوں نے جمع ہوکر اپنا اپناواقعہ بیان کیا تو یہ فیصلہ ہوا  کہ حضرت سیِّدُنا عرابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سب سے بڑے سخی ہیں کیونکہ انہوں نے تنگ دستی کے باوجود سخاوت فرمائی۔


 

زمانۂ جاہلیت میں  سخاوت میں مشہور لوگوں کا تذکرہ

      حاتم بن عبداللہ طائی،ہرم بن سنان،خالد بن عُبَـیْدُاللہ اور کعب بن امامہ ایادی زمانَۂ جاہلیت کے مشہور سخی ہیں جبکہ حاتم طائی اور کعب  ان میں سے زیادہ مشہور ہیں ۔کعب نے اپنی جان کی سخاوت کرتے ہوئے جنگل میں اپنا پانی اپنے رفیق کو دے دیا اور خود پیا س سے مرگیا ،اس کا کوئی مشہور واقعہ نہیں ہے۔

      خالد بن عُبَـیْدُاللہ ایک جنگ میں شریک ہونے کے لئے اپنی سواری کی رکاب میں پاؤں رکھ رہا تھا کہ اتنے میں ایک شاعر نے آکر کہا:میں نے آپ کے بارے میں دو اشعار کہے ہیں ۔خالد نے کہا:اس حال میں ؟شاعر نے کہا:جی ہاں ۔کہا:سناؤ۔شاعر نے درج ذیل اشعار پڑھے:

يَا وَاحِدَ الْعَرَبِ الَّذِيْ                                                                                                                          مَا فِيْ الْاَنَامِ لَهٗ نَظِيْر

لَوْ كَانَ مِثْلُكَ اٰخَرَ                                                                                                                                       مَا كَانَ فِيْ الدُّنْيَا فَقِيْر

      ترجمہ:اے عرب کی یگانہ شخصیت!مخلوق میں جس کی کوئی مثال نہیں ہے،اگر آپ جیسا ایک اور ہوتا تو دنیا میں کوئی فقیر نہ رہتا۔

      یہ سن کر خالد نے کہا:اے غلام!اسے 20 ہزار دینار دےدو۔شاعر نے وہ دینار وصول کئے اور واپس چلا گیا۔

حاتم طائی کا تذکرہ:

      حاتم طائی کے واقعات کثیر ہیں اور اس کی سخاوت کی خبریں مشہور ہیں ۔اس کی کنیت ابوسِفّانہ اور ابوعدی تھی، وہ مالِ غنیمت کا چوتھائی حصہ اپنی قوم پر خرچ کردیا کرتا تھا۔حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دشمن تھا۔ حضور نبی کریم ، روؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو قبیلۂ طے کی طرف بھیجا توعدی بن حاتم(یہ بعد میں اسلام لےآئےتھے) اپنے اہْلِ خانہ کےساتھ فرار ہوکر شام چلےگئےاوراپنی بہن سِفّانہ کوپیچھےچھوڑگئے جسےلشکرِاسلام نےقیدکرلیا۔سفانہ کوجب مکی مدنی سلطان،رحمت عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں پیش کیا گیا تو اس نے عرض کی:اے محمد!میرے والد فوت ہوگئے اور بھائی غائب ہوگیا۔اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے آزاد کر دیں اور عرب کے قبیلوں کو میری مصیبت پر خوشی کا موقع نہ دیں کیونکہ میرا باپ اپنی قوم کا سردار تھاجو قیدیوں کو آزاد  اور زیادتی کرنے والوں کو قتل کرتا،پڑوسی کا تحفظ کرتا، اپنی آبرو کی حفاظت کرتا،غمزدوں کی تکلیفیں دور کرتا،کھانا کھلاتا،سلام کوعام کرتا،دوسروں کا بوجھ اُٹھاتااور مصیبت کے وقت دوسروں کی


 

مددکرتاتھا۔اپنی حاجت لے کر ان کے پاس آنے والا کوئی شخص خالی ہاتھ واپس نہ جاتا تھا،میں حاتم طائی کی بیٹی ہوں ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:”اے لڑکی!یہ سچے ایمان والوں کی صفت ہے ۔اگر تیرا باپ مسلمان ہوتا تو ہم ضرور اس کے لئے رحمت کی دعا کرتےپھر ارشادفرمایا: اس لڑکی کو آزاد کر دوکیونکہ اس کاباپ  اچھے اخلاق کو پسند کرتا تھا۔([2])

          اسی روایت میں ہے کہ آپ نےارشاد فرمایا:”خستہ حال ہونے والے قوم کے معزز،محتاج ہونے والے غنی اور جُہَلا کے درمیان ضائع ہونے والے عالِم پر رحم کرو۔“([3]) پھر آپ نے اسے چھوڑ دیا اور اس پر احسان فرمایا۔وہ رہا ہوکر اپنی قوم کی طرف چلی گئی اور دومۃ الجندل میں جاکر اپنے بھائی عدی سے ملی اور کہا:اے میرے بھائی!تم پکڑے جانے سے پہلے اس شخص (رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کے پاس جاؤکہ میں نے انہیں ہدایت والااور صاحب رائے دیکھا وہ عنقریب اہْلِ غلبہ پر غالب آئیں گےاورمیں نے ان کی ایسی خصلتیں دیکھی  ہیں جو مجھے پسند آئی ہیں ۔ میں نےانہیں فقیر سے محبت کرنے والا،قیدی کو آزاد کرنے والا،چھوٹے پر رحم کرنے والا اور بڑے کی قدر کرنے والا دیکھا ہے۔میں نے ان سے زیادہ سخی وکریم کسی کو نہیں دیکھااور میری رائے یہ ہے کہ تم ان سے جاکر ملو اگر یہ واقعی نبی ہوئے تو تم فضل میں سبقت کرنے والے ہوگے اوراگر بادشاہ ہوئے توبھی یمن کی عزت میں ہرگز کوئی فرق نہیں پڑے گا۔عدی بن حاتم بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے انہیں کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تکیہ دیا اور خود زمین پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہایمان لے آئے اوران کی بہن سفانہ بنت حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بھی ایمان لے آئیں ۔

      حضرتِ سیِّدَتُناسفانہ بنت حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاعرب کی ایک  بڑی سخی خاتون تھیں ۔ان کے والد حاتم انہیں ٹیکس کی آمدنی میں سے اونٹ دیا کرتے یہ انہیں تقسیم کردیتی تھیں ۔ایک مرتبہ ان کے والد انہیں کہنے لگے :اے میری بیٹی! جب دو سخی کسی مال پر جمع ہوجائیں تو وہ اسے ختم کردیتے ہیں اب میں عطا کرتا ہوں تم مال روکے رکھو یا میں روکے رکھتا ہوں تم عطا کرو ورنہ ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ سیِّدَتُناسفانہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے کہا:اباجان!عمدہ اخلاق میں نے آپ سے ہی سیکھے ہیں ۔ 

      حضرت سیِّدُناابنِ اعرابی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :حاتم طائی زمانہ جاہلیت کے شعرا میں سے تھا ۔ اس کے اشعار اس کی سخاوت کی گواہی دیتے ہیں اوروہ  جو کہتا تھا اسے کر گزرتا تھا۔جہاں ٹھہرتا لوگ اس کا مقام ومرتبہ جان لیتےاور یہ


 

 ہرجگہ کامیاب رہتا۔جب یہ لڑتا تو غالب آتا،جب اس سے مانگا جاتا عطا کرتا، جب کوئی اس سے مسابقت کرتا تو یہ سبقت لے جاتااورجب کسی کو  قیدی بناتا تو اسے آزاد کردیتا۔قبیلہ مضر کے لوگ زمانہ جاہلیت میں رجب کی تعظیم کیا کرتے چنانچہ جب یہ رجب کا چاند دیکھتا تو پورا مہینہ ہر روز دس اونٹ ذبح کرکے لوگوں کو کھلاتا اور لوگ  اس کے پاس آکر جمع ہوتے۔اس نے ماویہ بنت عفیر سے شادی کی اور وہ اسے مال خرچ کرنے پر ملامت کرتی مگر یہ اس کی بات پر کان نہ دھرتا۔ ایک مرتبہ ماویہ سے اس کے چچا کے بیٹے مالک نے کہا:تم لوگ حاتم کے ساتھ کیسے گزارہ کرتے ہواسے جب مال ملتا ہے تو اسے خرچ کردیتا ہے اور جب مال نہیں ہوتا تو تمہیں تکلیف میں ڈال دیتا ہے۔اگر یہ مرگیا تو اپنی اولاد کو تمہاری قوم کا محتاج بنا کر مرےگا۔یہ سن کر ماویہ نے کہا:تم نے سچ کہا وہ ایسا ہی ہے۔

سخاوت کے باعث طلاق دے دی:

      زمانَۂ جاہلیت میں عورتیں مردوں کو طلاق دے دیتی تھیں اور ان کی طلاق کا طریقہ یہ تھا کہ وہ بالوں سے بنے ہوئے گھر میں رہتی تھیں ،اگر گھر کا دروازہ مشرق کی طرف ہو تو اسے مغرب کی طرف کردیتیں ،مغرب کی طرف ہوتو مشرق کی طرف،یمن کی طرف ہو تو شام کی طرف اور شام کی طرف ہو تو یمن کی طرف کردیتیں ،مرد جب یہ دیکھتا تو جان لیتا کہ عورت نےاس کو طلاق دے دی ہے اور اس کے پاس نہ آتا۔ ماویہ کے چچا زاد نے اس سے کہا :تم حاتم کو طلاق دے دو میں تم سے شادی کرلیتا ہوں ،میں تمہارے لئے اس سے زیادہ بہتر ہوں اور زیادہ مالدار ہوں ،میں تمہارے اور تمہاری اولاد کے لئے مال بچا کر رکھوں گا۔وہ اسی طرح ماویہ کو ورغلاتا رہا یہاں تک کہ اس نے حاتم کو طلاق دیدی۔حاتم جب اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ اس نے خیمے کے دروازے کارُخ بدل دیا ہے ،حاتم نے اپنے بیٹے سے کہا:اے عدی!کیا تم نے دیکھا کہ تمہاری ماں نے کیا کیا ہے۔عدی نے کہا کہ میں نے دیکھ لیا ہے۔

      حاتم نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور وادی کے نچلے حصے میں جاکر قیام کیا۔اس کے جانے کے بعد پچاس سواروں کی جماعت آئی اور معمول کے مطابق اس کے خیمے کے دروازے پر ٹھہر گئی۔انہیں دیکھ کر ماویہ پریشان ہوگئی اور اپنی لونڈی سے کہا:میرے چچا زاد مالک کے پاس جاکر اس سے کہوکہ حاتم کے مہمان ہمارے پاس ٹھہرے ہیں اور وہ پچاس مرد ہیں ، ہماری طر ف کوئی ایسی چیز بھیجو جس سے ہم ان کی مہمان نوازی کریں اور انہیں پلانے کے لئے دودھ بھی بھیجو۔ماویہ نے لونڈی سے کہا کہ مالک کی پیشانی اور منہ کو غور سے دیکھنا،اگر وہ خوش دلی سے پیش آئے تو اس سے لے لینا لیکن اگر وہ منہ


 

 بگاڑے اور سر پیٹے تو اسے چھوڑ کر واپس آجانا۔

      لونڈی جب اس کے پاس پہنچی تووہ دودھ کی مشک سے ٹیک لگا کر سورہا تھا۔لونڈی نے اسے جگا کر پیغام پہنچایا اور کہا کہ ابھی رات کا وقت ہے ،جب تک لوگوں کو حاتم کے ٹھکانے کا علم ہوجائے ایسا کرنا پڑے گا۔ مالک نے اپنا سر پیٹا اور داڑھ چباکرکہا:ماویہ کو میرا سلام پہنچانا اور اس سے کہنا کہ اسی وجہ سے تو میں نے تمہیں حاتم کو طلاق دینے کا کہا تھا۔ میرے پاس اتنا دودھ نہیں ہے جو حاتم کے مہمانوں کے لئے کافی ہوسکے ۔لونڈی نے واپس آکر جو اس نے دیکھا اور جو مالک نے جواب دیا دونوں سےآگاہ کیا ۔ماویہ نے لونڈی سے کہا:اب حاتم کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ تمہارے مہمان آج رات ہمارے پاس ٹھہرے ہیں اور انہیں تمہارے ٹھکانے کا علم نہیں ہے،ان کے کھانے کے لئے ایک اونٹنی اور پینے کے لئے دودھ بھیج دو۔لونڈی حاتم کی تلاش میں گئی اور اس کا نام لے کر چیخی تو حاتم نے جواب میں لَبَّیْک کہا۔لونڈی نے آنے کا سبب بتایا،حاتم اپنے اونٹوں کی طرف گیا اور دو اونٹوں کی رسی کھول دی،پھر آواز دےکر انہیں خیمے تک لایا اور ان کی کونچیں کاٹ دیں ۔یہ دیکھ کر ماویہ چیخ کر کہنے لگی کہ اسی وجہ سے میں نے تمہیں طلاق دی تھی،تم ہماری اولاد کو اس حال میں چھوڑو گے کہ ان کے لئے کچھ نہ بچے گا۔حاتم نے جواب دیا:اے ماویہ!تمہاری خرابی ہو!جس ذات نے انہیں اور تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ ان کی روزی کا بھی کفیل ہے۔

      جب سردی کا موسم آتا اور شدید ٹھنڈ پڑتی تو حاتم اپنے غلاموں کو حکم دیتا اور وہ ایک مقام پر بہت بڑی آگ جلاتے تاکہ راستہ بھٹک جانے والے مسافر اسے دیکھ کر اس کے پاس آجائیں ۔حاتم اپنے اسلحے اور گھوڑے کے علاوہ اور کوئی چیز بچا کر نہیں رکھتا تھا،پھر ایک دفعہ قحط سالی کے موقع پر اس نے اپنا گھوڑا بھی لٹادیا۔

سواری کاجانور بھی بھوکوں کو کھلادیا:

      ماویہ کے بھتیجے  ملکان کا بیان ہے کہ ایک دن میں نے کہا :اے پھوپھی جان!مجھے حاتم کی زندگی کا کوئی عجیب واقعہ سنائیے۔انہوں نے جواب دیا: بھانجے!میں نے اس کا جو سب سے عجیب واقعہ دیکھا وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں کو ایسی قحط سالی کا سامنا ہوا جس میں جانوروں کے کھر تک ختم ہوگئے۔مجھے اور حاتم کو بھی بھوک نے آلیا اور ہماری نیند اُڑادی۔  میں نے سفانہ کو جبکہ حاتم نے عدی کو گود میں لیا اور ہم انہیں بہلانے لگے یہاں تک کہ وہ سو گئے،بچوں کے سونے کے بعد حاتم مجھ سے باتیں کرکے مجھے بہلانے لگا تاکہ میں بھی سو جاؤں ۔مجھے اس پر رحم آیا کیونکہ وہ بھی بھوکا تھا چنانچہ میں


 

خاموش ہوگئی تاکہ وہ سوجائے۔اس نے مجھ سے پوچھا:کیا تم سوگئیں ، میں نے کوئی جواب نہ دیا جس پر وہ خاموش ہوگیا۔ پھر اس نے خیمے کے باہر دیکھا تو کوئی آرہا تھا ،سر اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک عورت تھی۔حاتم نے اس سے ماجرا پوچھا تو اس نے جواب دیا: اے ابوعدی!میں ایسے بچوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آئی ہوں جو بھوک کے سبب کتوں یا بھیڑیوں کی طرح چیخ رہے ہیں ۔حاتم نے کہا:اپنے بچوں کو میرے پاس لےآؤ، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!میں انہیں سیر کردوں گا۔ یہ سن کر وہ عورت تیزی سے اپنے بچوں کو لینے چلی گئی،میں نے سر اٹھا کر کہا:اے حاتم ! تم اس کے بچوں کو کیسے سیر کروگے جبکہ تمہارے اپنے بچے بھوک کی حالت میں بہلا نے کے بعد سوئے ہیں ۔حاتم نے جواب دیا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!میں تمہیں ، تمہارے بچوں کو اور اس عورت کے بچوں کو سیر کردوں گا۔جب وہ عورت آئی تو حاتم چھری لے کر کھڑا ہوا اور اپنے گھوڑے کے پاس جاکر اسے ذبح کردیا،پھر آگ روشن کی اور اس عورت کو چھری دے کر کہا:گوشت کاٹ کر بھونو،خود بھی کھاؤ اور اپنے بچوں کو بھی کھلاؤ۔عورت نے خود بھی کھانا کھایا اور اپنے بچوں کو بھی کھلایا۔

       میں نے اپنے بچوں کو بھی بیدار کیا،خود بھی کھایا اور انہیں بھی کھلایا۔حاتم نے کہا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!یہ تو بے مروتی ہے کہ تم لوگ کھانا کھاؤجبکہ اہْلِ محلہ بھوکے رہیں ،پھر وہ محلے کے ایک ایک گھر جاکر یہ کہنے لگا کہ آگ کے پاس جمع ہوجاؤ۔لوگ گھوڑے کے پاس جمع ہوگئے تو حاتم اپنی چادر اوڑھ کر ایک کونےمیں بیٹھ گیا۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!صبح ہونے تک اس گھوڑے کی ہڈیوں اور کھروں کے علاوہ کچھ نہ بچا لیکن حاتم نے اس میں سے کچھ نہ چکھا حالانکہ اسے سب سے زیادہ بھوک لگی ہوئی تھی۔حاتم طائی کی سخاوت کے واقعات کثیر اور مشہور ہیں ۔

دشمن کو بھی انکار نہ کیا:

       ایک قوم نے حاتم طائی کے قبیلے طے پر حملہ کردیا۔حاتم اپنے گھوڑے پر سوار ہوا،اپنا نیزہ سنبھالا،اپنے قبیلے اور خاندان میں لڑائی کے لئے ندا کی،پھر حملہ آوروں سے مقابلہ کرکے انہیں شکست سے دوچار کیا اور ان کا پیچھا کرنے لگا۔ اس دوران حملہ آوروں کے سردار نے اس سے کہا:اے حاتم!اپنا نیزہ مجھے دے دو،یہ سن کر حاتم نے اپنا نیزہ اس کی طرف پھینک دیا۔اس پر حاتم سے کہا گیا کہ آپ نے اپنی جان کو ہلاکت پر پیش کر دیا،اگر وہ پلٹ کر حملہ کرتا تو آپ کو قتل کردیتا۔حاتم نے جواب دیا:میں بھی اس بات کو جانتا ہوں لیکن جو کہے: مجھے دے دو،تو اس کا کیا جواب ہے۔

       جب حاتم طائی مرگیا تو اس کے قبیلے طے پر اس کی موت بہت گراں گزری۔حاتم کے بھائی نے دعویٰ کیا کہ وہ اس کا


 

جانشین ہے ۔اس پر اس کی ماں نے کہا:ہرگز نہیں ، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!تم دونوں کے اخلاق میں بہت فرق ہے۔جب میں نے حاتم کو جنا تو سات دن تک اس کی یہ حالت تھی کہ جب تک میں اپنے ایک پستان سے پڑوس کے ایک بچے کو دودھ نہ پلاتی تب تک حاتم بھی دودھ نہ پیتا تھا جبکہ تم ایک پستان سے دودھ پیتے تھے اور دوسرے پر ہاتھ رکھ لیتے تھے،تم اس کے وارث کیسے ہوسکتے ہو؟

      شاعر کہتا ہے:جب تک حاتم طائی زندہ ہے سخاوت بھی زندہ رہے گی اور جب وہ مرگیا تو پھر سخاوت پر ماتم کیا جائے گا۔

      جواد ،کریم ،سخی اور نیک لوگوں کی حکایات اور ان کی سخاوت وفیاضی کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا اور اس قدر مشہور ہیں کہ ان کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ایسے ہی فضائل کو پانے کے لئے باہم مقابلہ کرنا چاہیےاورعمل کرنے والوں کو اسی کے لئے عمل کرنا چاہیے کیونکہ اس میں دنیا کی عزت ا ورآخرت کا مرتبہ ہے اور یہ تذکرہ باقی رہنے کا ذریعہ ہے کیونکہ ہم دیکھتےہیں کہ زمانے میں صرف تذکرہ باقی رہتا ہے چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا([4])۔

      اس لئے تم عمرکی فرصت  اور دنیا کی امداد کو غنیمت جانتے ہوئے ان  سخی لوگوں کی طرح سخاوت کا عمل  آگے بھیجو ان کی طرح تمہارا بھی ذکرِ خیر ہوگااور ان کی طرح قیامت کے دن کے لئے ذخیرہ جمع کرلو۔اس بات کو جان لو کہ جو کھالیا وہ بدن کے لئے ہے،جو دے دیا وہ آخرت کے لئے ہے اور جو پیچھے چھوڑا وہ دشمن کے لئے ہے،اب تم ان تینوں میں سے جسے چاہو اختیار کرلو۔

      وَصَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّمیعنی ہمارے سردار حضرت محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور ان کے آل واصحاب پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی طرف سے درود وسلام ہوں ۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

 

مکّار،بخیل اوراحسان جتانےوالا

حضرت سیِّدُناابوبکرصدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتےہیں کہ حضورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:مکّار،بخیل اوراحسان جتانےوالاجنت میں داخل نہ ہوں گے۔

(ترمذی،کتاب البروالصلةالخ،باب ماجاء فی السخاء،۳/ ۳۸۸،حدیث:۱۹۷۰)


 

باب نمبر34:                                             بخل ولالچ ،بخیلوں کا تذکرہ اور واقعات

      اللہ عَزَّ  وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ- (پ۵،النساء:۳۷)

ترجمۂ کنز الایمان:جو آپ بخل کریں اور اوروں سے بخل کے لیے کہیں اور اللہنے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپائیں ۔

      اللہعَزَّ  وَجَلَّکےمحبوب،دانائےغیوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچو کیونکہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کردیا۔([5])

بُرائیوں کی طرف کھینچنے والی لگام:

      ایک  روایت میں ہے کہ بخل دل کی تمام برائیوں کی جامع ہےاور یہ ایسی لگام ہے جوانسان کو ہر بُرائی کی طرف کھینچتی ہے۔

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز کی ہمشیرہ حضرت سیِّدَتُنااُمُّالْبَنِیْن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا فرماتی ہیں :بخل اگر قمیص ہوتی  تو میں اسے نہ پہنتی اور اگر یہ کوئی راستہ ہوتا تو میں اس پر نہ چلتی۔

مہمانوں کو بھگانے کے لئے لاٹھی:

      ایک بخیل شخص  اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی۔ایک شخص وہاں سے گزرا تو اس نےبخیل  سے کہا:میں آج تمہارا مہمان ہوں ۔بخیل  نے لاٹھی کی طرف اشارہ کرکے کہا: میں نے اسے مہمانوں کے ٹخنوں پر مارنے کے لئےرکھا ہے۔

      عرب کا مشہور بخیل حُمید اَرقط مہمانوں کی ہجو کرتا اور اور ان کے ساتھ فحش کلامی سے پیش آتاتھا۔ ایک مرتبہ اس کے پاس چندمہمان آئےتواس نےانہیں کھجوریں کھلائیں پھران کی مذمت میں اشعارکہےاوریہ ذکرکیاکہ وہ کھجوروں کو گٹھلیوں سمیت کھاگئے ۔

درہم کی قید:

      ابو صفوان بصری کے پاس جب کوئی درہم آتا تو وہ اس سے کہتا:اے عیار!کب تک توعیاری کرے گا اور  اِدھر اُدھر


 

 گھومتا رہے گااب میں تجھے طویل عرصے تک قید رکھوں گا۔یہ کہہ کر اسے صندوق میں ڈال کر تالا لگا دیتا ۔ابو صفوان سے کہاگیا:آپ کے پاس مال کی کشادگی ہےپھر خرچ کیوں نہیں کرتے؟ کہا:زمانہ اس سے زیادہ کشادہ ہے۔

بخل کی مدح میں کتاب:

      سہل بن ہارون نے بخل کی تعریف میں ایک کتاب لکھی اور اسے وزیر حسن بن سہل کی طرف بھیج دیا۔ حسن بن سہل نے اس کتاب کی پشت پر لکھا:اس کتاب میں تم نے جس بات کا حکم دیا ہے ہم اسی کو تمہارا اجروانعام ٹھہراتے ہیں ۔

      شاعر ابنِ ابو فنن نے کیا خوب کہا ہے:

ذَرِیْنِیْ وَاِتْلَافِیْ لِمَالِیْ فَاِنَّنِیْ                                                                                                         اُحِبُّ مِنَ الْاَخْلَاقِ مَا ھُوَ اَجْمَلُ

وَاِنَّ اَحَقَّ النَّاسِ بِاللَّوْمِ شَاعِرٌ                                                                                         یَلُوْمُ عَلَی الْبُخْلِ الرِّجَالَ وَیَبْخُلُ

      ترجمہ:مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنا مال خرچ کروں کیونکہ میں ان اخلاق کو پسند کرتا ہوں جو اچھے ہیں ۔لوگوں میں ملامت کاسب سے زیادہ  مستحق  وہ شاعر ہے جو دوسروں کو تو بخل پر ملامت کرتا ہے لیکن خود بخل سے کام لیتاہے۔

حقنہ کے تیل سے چراغ روشن کرنا:

      عمر بن یزید اَسَدی بہت بڑا بخیل تھا۔اس کے پیٹ میں قولنج ہوگیا تو طبیب نے بہت سارے تیل سے  اسے حُقنہ دیاتو اس کے پیٹ میں جو کچھ تھا وہ ایک برتن میں نکل گیا۔اس نے اپنے خادم سے کہا کہ جو تیل نکلا ہے اسے جمع کرلو اور اس سے چراغ روشن کرلینا۔

آتے جاتے بلا عوض حُدی خوانی:

      خلیفہ منصورایک مرتبہ حج کے لئے نکلا تو راستے میں مسلم حادی حُدی خوانی ([6])کرنے لگاجسے سن کرمنصور جھومنےلگا اوراس کےپاؤں پالکی سےٹکرانےلگے۔منصورنےاپنےدربان سےکہا:اےربیع!اسے آدھادرہم دےدو۔مسلم نے کہا: اےامیر المؤمنین!نصف درہم۔بخدا!میں نے ہشام بن عبْدُالملِک  کی تعریف میں اشعار کہے تو اس نے مجھے30 ہزار درہم


 

دینے کا حکم دیا ۔منصور نے کہا:تم مسلمانوں کے بیْتُ المال سے 30 ہزار درہم لیتے ہو،اے ربیع!اس پر ایک شخص کو مقرر کردو جو اس سےیہ مال واپس لے۔ ربیع کا بیان ہےکہ میں دونوں کے درمیان چلتا رہا اور خلیفہ منصور کو راضی کرتا رہا یہاں تک کہ مسلم نے اپنے اوپر یہ پابندی قبول کرلی کہ وہ حج کو جاتے اور آتے بلا عوض منصور کے لئے حُدی خوانی کرےگا۔

ایک درہم کا گوشت:

      ابوعتاہیہ اور مروان بن ابو حفصہ دو ایسے بخیل ہیں جن کے بخل کی مثال دی جاتی ہے۔مروان کا بیان ہے کہ مجھے کسی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی ایک لاکھ درہم سے ہوئی جو مجھے  خلیفہ مہدی نے دیئے تھے، میں نے ان کا وزن کیا تو ایک درہم زیادہ پایا میں نے  اس کا گوشت خریدلیا۔

دو دانق[7] کا نقصان:

      ایک دن مروان نے ایک درہم کا گوشت خریدا،جب اسے ہنڈیا میں رکھا تو ایک دوست نے اس کی دعوت کی۔ مروان نے دو دانق کے نقصان کے ساتھ وہ گوشت قصاب کو واپس کیا تو قصاب گوشت بیچنے کے لئے یہ آواز لگانے لگا:یہ مروان کا گوشت ہے۔

      مروان ایک دن ایک اعرابیہ کے پاس سے گزرا جس نے اس کی مہمان نوازی کی تو مروان نے کہا:اگر امیرالمؤمنین نے مجھے ایک لاکھ درہم دیئے تو میں تمہیں ایک درہم دوں گا،پھر جب خلیفہ نے اسے 70 ہزار درہم دیئے تو اس نے اعرابیہ کو چار دانق دیئے۔

اہل مَرو کا بخل:

      بخل سے موصوف ہونے میں اہْلِ مَرْو بھی ہیں ۔کہا گیا ہے کہ جب یہ اکھٹے سفر کرتے ہیں تو اِن کی عادت یہ ہوتی ہے کہ ہر ایک گوشت کا ایک ٹکڑا خرید لیتا ہے اور اسے  دھاگے میں پرودیتا ہےپھر یہ سب مل کر ایک ہانڈی میں اسے پکا لیتے ہیں اور ہر ایک دھاگے کے ایک سرے کو پکڑے رکھتا ہے  اور جب گوشت پک جاتا ہے تو اسے کھینچ لیتا ہے اور گوشت کھا لیتا ہے پھر شوربے کو آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں ۔

      ایک بخیل سے کہا گیا: سب سے بہادر کون ہے؟کہا:جوکھانے کی تلخی کے سبب لوگوں کے منہ  سے آواز سنے لیکن اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلے۔


 

ایک سوئی دینے سے بھی بخل:

      ایک شخص سے پوچھا گیا:کیا محمد بن یحییٰ برمکی نے تمہیں لباس نہیں پہنایا۔اس نے جواب دیا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم! اگر اس کاگھرسوئیوں سے بھرا ہواورحضرت سیِّدُنایعقوبعَلَیْہِ السَّلَامانبیائےکرامعَلَیْہِمُ السَّلَامکو سفارشی اور فرشتوں کو ضامن بنا کر اس کے پاس تشریف لائیں اورحضرت سیِّدُنا  یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکی مبارک قمیص جو پیچھے سےچاک ہو گئی تھی اسے سینے کے لئے ایک سوئی ادھار مانگیں تو وہ پھر بھی سوئی نہیں دے گاتو بھلا وہ مجھے لباس کیسے پہنائےگا؟

متنبی شاعر اور بخل:

      متنبی شاعر بڑا بخیل تھا ۔ایک شخص نے اُس کی تعریف میں ایک قصیدہ کہاتو متنبی نےاُس سے کہا:تمہیں مجھ سے اس تعریفی قصیدے کے متعلق کتنی امید تھی؟ اس   نے کہا:10دینار۔متبنی نے کہا:بخدا!اگر تو آسمان کی چوڑائی کے برابر بھی روئی دھنے تو بھی میں تجھے ایک دانق بھی نہیں دوں گا۔

مرغے کے سر کی خوبیاں :

      دِعبل کا بیان ہے کہ ہم سہل بن ہارون کے پاس موجود تھے،شدید بھوک کے سبب جب اُس کی جان پر بن آئی تواُس نے  اپنے غلام کو آواز دی:اے غلام !تیری خرابی ہوہمارا صبح کا کھانا لے کر آؤ۔غلام ایک پیالہ لے کر آیا جس میں پکا ہوا مرغا اور اس کے نیچے تھوڑا سا ثرید موجود تھا۔ اس نے  مرغے کو غور سے دیکھا تو اس کا سر نہ پایا،غلام سے پوچھا : اس کا سر کہاں ہے؟غلام نے کہا: میں نے اسے پھینک دیا ہے۔ سہل نے کہا:خدا کی قسم!میں تو اس کے پاؤں پھینکنے والے کو بھی ناپسند کرتا ہوں تو اس کا سر پھینکنے والے کو کیوں نہ ناپسند کروں ۔تمہاری خرابی ہو!کیا تم نہیں جانتے کہ سر تمام اعضاء کا سردار ہے،اسی کے ذریعے مرغا آواز دیتا ہے اور اگر اس کی آواز نہ ہوتی تو مرغے کا ارادہ نہ کیا جاتا۔اس کی آنکھ کی مثال دی جاتی ہے، اس کا دماغ گردے کے درد کے لئے مفید ہے اور اس کے سر کی ہڈی سے زیادہ میں نے کوئی ہڈی چبانے میں آسان نہ دیکھی جبکہ تو گمان کرتا ہے میں اسے نہیں کھاؤں گا۔جاکر دیکھ تو نے سر کو کہاں پھینکا ہے اور اسے میرے پاس


 

لے آ۔غلام نے کہا:بخدا!مجھے نہیں معلوم میں نے اسے کہاں پھینکا ہے۔سہل بن ہارون نے کہا:مجھے معلوم ہے کہ تونے سر کہاں پھینکا ہے تونے اسے اپنے پیٹ میں ڈالا ہےاور  اب اللہ عَزَّ  وَجَلَّہی تیرا حساب لے گا۔

       کہا گیا ہے کہ لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کھانے میں تو بخل کرتے ہیں لیکن مال دینے میں سخاوت کرتے ہیں جبکہ بعض اس کے برعکس ہیں ۔

دوابھی اور غذا بھی:

       قبیلہ مَرْوَز کے ایک شخص کو کھانسی کے سبب سینے میں درد ہو اتو لوگوں نے اسے بادام پیس کر کھانے کا کہا۔اُس نے اس علاج کو گراں سمجھ کر درد کو برداشت کرنا آسان سمجھا پھر ایک روز اس کے پاس اس کا ایک دوست آیا اور اُس نےسینے کے درد کے لئے آٹے  کی بھوسی کا پانی تجویز کیا۔چنانچہ مروزی کے لئے آٹے کی بھوسی پکائی گئی تو اس نے بھوسی کا پانی پیا جس سے سینہ صاف ہوگیا اور درد جاتا رہا۔صبح جب اُس کو کھانا پیش کیا گیا تو اس  نے کہاکہ اسے رات کے لئے رکھ دو اور اپنی بیوی سےکہا:ہمارے گھر والوں کے لئے آٹے کی بھوسی پکالوکہ میں نے اس کے پانی کو درد سے نجات دینے والا اور سینہ صاف کرنے والا پایا ہے۔بیوی نے کہا: اس نعمت پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّکا شکر ہے  کہ اس نے بھوسی کو آپ کے لئے دوا بھی بنادیا اور غذا بھی۔

چراغ کی بتی کے استعمال میں کنجوسی:

       خاقان بن صبیح نے کہا:میں ایک خراسانی کے ہاں رات کے وقت گیا تو وہ روشنی کے لئے چراغ لے آیا جس میں بہت باریک بتی جل رہی تھی اور ایک لکڑی دھاگے کے ساتھ اس سے بندھی ہوئی تھی۔میں نے اُس سے پوچھا:یہ لکڑی کیوں بندھی ہوئی ہے؟اُس نے کہا:اس لکڑی نے ایک مرتبہ تیل جذب کرلیا ہے اگر یہ لکڑی ضائع ہوگئی اور ہم نے اس کی حفاظت نہ کی تو ہمیں بتی اونچی کرنے کے لئے نئی سوکھی لکڑی کی ضرورت ہوگی (جو دوبارہ اپنے اندر تیل جذب کرے گی)۔ خاقان کہتے ہیں :میں ابھی اسی بات پر تعجب اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّسےعافیت طلب کررہا تھا  کہ مَرْو کا ایک بوڑھا شخص مکان میں داخل ہوا۔اُس نے لکڑی کو دیکھا تو کہا:تم نے ایک چیز سےفرار کی کوشش کی لیکن اس سے بڑی مصیبت میں پھنس گئے ہو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہوا اور دھوپ ہر چیز کی نمی کو سکھا دیتی ہیں لہٰذا یہ لکڑی بھی سوکھ گئی ہے۔ تمہیں اس کی جگہ لوہے کی  سوئی استعمال کرنی چاہئے تھی کیونکہ لوہے کی سطح چکنی ہوتی ہے اور وہ تیل بھی جذب نہیں کرتی اور لکڑی کے استعمال کرنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ چراغ کی بتی  کی کچھ روئی لکڑی کو لگ جاتی ہےجس سے بتی کو نقصان پہنچتا


 

ہے۔خراسانی نے کہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّتمہارا بھلا کرے اور تمہیں نفع دے میں تو فضول خرچی میں مبتلا تھا۔

مہمان  نوازی کے خوف سے بھاگ نکلنا:

      ہیثم بن عدی کہتے ہیں کہ یمامہ کا ایک شخص ابنِ ابو حفصہ شاعر کے پاس آیا تویہ اس خوف سے کہ رات کو مہمان نوازی  کرنی پڑے گی مہمان کو اکیلا چھوڑ کر گھر سے بھاگ نکلا۔مہمان  گھر سے باہرآیا اور ضرورت کی شے خرید کر پھر گھر میں لوٹ آیا اور ابن ابو حفصہ کی طرف یہ دو اشعار لکھے:

يَا اَيُّهَا الْخَارِجُ مِنْ بَيْتِهٖ                                                                                                               وَهَارِبًا مِّنْ شِدَّةِ الْخَوْف

ضَیْفُکَ قَدْ جَاءَ بِزَادٍ لَّهٗ                                                                                                                       فَارْجِعْ وَكُنْ ضَيْفًا عَلَى الضَّيْف

                             ترجمہ:اے شدت خوف سےاپنےہی گھر سے نکل کر بھاگ جانے  والے تمہارا مہمان زادِ راہ  لے آیا ہےتم  لوٹ آؤ اور مہمان کے مہمان بن جاؤ۔

سب بھکاریوں کو ایک جواب:

       ایک بخیل نے گھر خریدا اور اس میں منتقل ہوگیا۔دروازے پر دیکھا کہ ایک بھکاری کھڑا ہےتو اس سے کہا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تمہیں کشادگی دے ،معاف کرو۔وہ چلا گیا دوسرا آگیا تو اسے بھی بخیل نے یہی کہا یہ بھی چلا گیا تو تیسرا آگیا بخیل نے اسے بھی یہی کہا۔پھر اپنی بیٹی کی طرف متوجہ ہوکر کہا: اس جگہ کتنے بھکاری ہیں ؟بیٹی نے کہا:ابا جان! بھکاری زیادہ ہوں یاکم آپ کا کیا جاتا ہے کہ ان سے کہیں :”معاف کرو۔“

دیہاتی اور ابوالاسود:

      ایک دیہاتی ابو الاَسْوَد کے ساتھ مل کر بہت سی کھجوریں کھاگیا پھر جب آخری کھجور بچی تو ابو الاسود نے اُسے لینا چاہا لیکن دیہاتی نے سبقت کرکے اُسے لے لیا  مگر اُس کے ہاتھ سے کھجور مٹی میں گر گئی۔ابو الاسود نے مٹی سے کھجور اٹھالی اور کہا:میں اسے شیطان کے لئے نہیں چھوڑ سکتا۔

مہمان کو جانے پر مجبور کرنا:

      ایک اعرابی نے اپنے ہاں آنے والے مہمان سے کہا:تو غیر آباد زمین میں اُترا ہے جہاں کا ساکن تجھ سے خوش


 

نہیں ،اگر تو رہنا چاہتا ہے بھوکا رہ سکتا ہےیا پھر ندامت کے ساتھ یہاں سے جاسکتا ہے۔

      عقلمند کہتے ہیں کہ جب تو کسی لالچی شخص سے سوال کرے تو لینے میں جلدی کر اور اسے سوچنے کا موقع نہ دے کیونکہ جتنا وہ سوچے  گا اتنی تاخیر کرے گا۔

بخل کی خاطر مذمت کی خواہش:

      بخل میں مشہور ہونے والوں میں ایک نام ا بنِ جہم کا بھی ہےجس کاقول ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ دس فقہا،دس خطبا،دس شعرا اور دس ادیب  میری مذمت میں متفق ہوجائیں اور مجھے برا بھلا کہیں یہاں تک کہ زمانے  میں میری بُرائی مشہور ہوجائے پھر کوئی امید یا آرزو رکھنے والا میرے پاس نہ آئے۔

اکتاہٹ کی نشانی:

      ایک مرتبہ ا بنِ جہم سے اُس کے ساتھیوں نے کہا:ہمیں یہ ڈر رہتا ہے کہ ہم آپ کی خواہش سے زیادہ آپ کے پاس بیٹھتے ہیں لہٰذا آپ کوئی ایسی نشانی مقرر کردیں جس سے ہمیں آپ کی اکتاہٹ کا معلوم ہو جائے۔ ابنِ جہم نے کہا:جب میں یہ کہوں کہ اے لڑکے!میرا ناشتہ لے آؤ تو یہ میری نشانی ہے۔

انوکھا جھگڑا:

      حضرت سیِّدُناعمرو بن میمون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :میں کوفہ کے ایک راستے سے گزرا تو دیکھا کہ ایک شخص اپنے پڑوسی سے جھگڑ رہا ہے۔میں نے اُن سے کہا:تم دونوں کیوں جھگڑ رہے ہو؟اُن میں سے ایک نے کہا: میرا ایک دوست مجھے ملنے آیا تو میں اُس کے لئے سری خرید لایا اور ناشتے میں ہم نے اسے کھایااور  ہڈیوں کو میں نے اپنے گھر کے دروازے پر رکھ دیا پھر میرا یہ پڑوسی آیا اس نے ہڈیوں کو اپنے گھر کے دروازے پر ڈال دیا تاکہ لوگ یہ وہم کریں  کہ اس نے سری خریدی ہے۔

ہڈی کھانےکا بخل بھرا طریقہ:

      ایک بخیل شخص نے اپنے بیٹوں سے گوشت منگایااورپکانےکاحکم دیا،جب گوشت پک گیا توسارا گوشت کھاگیا حتّٰی کہ اُس کے ہاتھ میں صرف ایک ہڈی بچی جس پر بیٹوں کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں ۔بخیل نے کہا: میں یہ ہڈی اسے دوں گا جو اسے کھانے کا اچھا طریقہ بتائےگا۔یہ سن کر بڑے بیٹے نے کہا:ابا جان!میں اس ہڈی کو ایسےچوس کر رکھ دوں گا کہ اس


 

میں چیونٹی کے لئے بھی کوئی حصہ نہیں بچے گا۔بخیل نے کہا:تو اس کا حق دار نہیں ہے۔منجھلے(درمیانے)بیٹے نے کہا:اباجان! میں پہلے  اسے چباکر پھر اسے چاٹ کرایساکردوں گا کہ کوئی یہ نہیں پہچان سکے گا کہ یہ ہڈی ایک سال پرانی ہے یا دوسال۔ بخیل نے کہا:تو بھی اس کا حق دار نہیں ۔سب سے چھوٹے بیٹے نے کہا:اباجان! میں پہلے اسے چاٹ لوں گا پھر اسے باریک پیس کر پھانک لوں گا۔بخیل نے کہا:تم ہی اس کے حق دار ہو،یہ ہڈی تمہاری ہوئی۔

ایک دیہاتی اور ابو الاسود:

      ایک دیہاتی  ابو الاسودکے پاس سے گزرا جو ناشتہ کررہا تھا ۔دیہاتی نے اُسے سلام کیاتو ابو الاسود نے  سلام کا جواب دیا اور پھر کھانے میں مشغول ہوگیااور دیہاتی کو کھانے کے لئے نہ بلایا۔دیہاتی نے کہا:میں تمہارے گھر کے پاس سے گزرا ہوں ۔ابو الاسود نےکہا:کوئی بات نہیں وہ تمہارے راستے میں پڑتا ہے۔ دیہاتی نے کہا: تمہاری بیوی حاملہ تھی۔ابو الاسود نے کہا:ٹھیک  ہے۔دیہاتی نے کہا:تمہارے ہاں ولادت ہوئی تھی۔ابو الاسود نے کہا:حاملہ سے وضع حمل ضرور ہوتا ہے۔ دیہاتی نے کہا:تمہاری بیوی سے دو بیٹے ہوئے تھے۔ابو الاسود نے کہا:اس کی ماں کے بھی دو بچے ہوئے تھے۔دیہاتی نے کہا:ایک بیٹا مر گیا۔ابو الاسود نے  کہا:ماں دوبیٹوں کو دودھ پلانے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔دیہاتی نے کہا:دوسرا بھی مر گیا۔ ابو الاسود نے کہا:بھائی کی موت پر وہ زندہ رہ کر کیا کرتا۔دیہاتی نے کہا:ماں بھی مرگئی۔ابو الاسود نے کہا:بچوں کےغم سے ماں تو مرےگی۔دیہاتی نے کہا:تمہارا کھانا کتنا خوشبودار ہے؟ابو الاسود نے کہا:اسی وجہ سے میں اکیلا کھاتا ہوں بخدا!اے دیہاتی!میں تجھے چکھاؤں گا بھی نہیں ۔

ایک بخیل حاکم اور دیہاتی:

      ایک دیہاتی کو حجاج نے کسی جگہ کا حاکم مقرر کیا جہاں وہ طویل عرصہ تک اپنے فرائض انجام دیتا رہا۔ ایک مرتبہ اُس کے قبیلے کا ایک دیہاتی اُس کے پاس آیا تو اس  نےاسے کھانا پیش کیا اور اس وقت اسے بھوک بھی لگی ہوئی تھی۔دیہاتی حاکم نے اُس  سے پوچھا:میرے بیٹے عمیر کا کیا حال ہے؟کہا:خیریت سے ہے اور اس کی کثیراولاد ہوگئی ہے۔پوچھا:اُمِّ عمیر کا کیا حال ہے؟کہا:وہ بھی خیریت سے ہے۔پوچھا:گھر کی حالت کیسی ہے؟ کہا:گھر اپنے اہل کے ساتھ آباد ہے۔پوچھا:ہمارا کتا ایقاع کیسا ہے؟کہا:پورے محلے میں بھونکتا پھرتا ہے؟ پوچھا: میرے اونٹ زُرَیْق کا کیا حال ہے؟کہا:وہ ٹھیک ہے۔ حاکم نے خادم کی طرف دیکھا اور کہا:کھانا اٹھالو۔ خادم نے کھانا اٹھالیا اور ابھی تک دیہاتی کا پیٹ نہیں بھرا تھا۔پھر حاکم دیہاتی کی طرف


 

متوجہ ہوکر کہنے لگا:اے مبارک پیشانی والے!جو تم نے مجھے بتایا ہے وہ دوبارہ بتاؤ۔دیہاتی نے کہا:پوچھئے۔حاکم نے پوچھا: میرا کتا ایقاع کیسا ہے؟کہا:مرگیا۔پوچھا:کیسے؟کہا:تمہارے اونٹ کی ہڈی اُس کے حلق میں پھنس گئی تھی جس کی وجہ سے مرگیا۔پوچھا:کیا میرا اونٹ بھی مرگیا ہے؟کہا:ہاں ۔پوچھا:کیسے؟کہا:اُمّ عمیر کی قبر کی طرف کثرت سے پانی لے جانے کے سبب۔پوچھا:اُمّ عمیر کیسے مر گئی؟کہا:تمہارے بیٹے عمیر پر کثرت سے رونے کےسبب؟ پوچھا:کیا میرا بیٹا عمیر بھی مرگیا ہے؟کہا:ہاں ۔پوچھا:کیسے؟کہا:گھرکے منہدم ہونے کی وجہ سے۔پوچھا:کیا میرا گھر منہدم ہوگیا ہے؟کہا:ہاں ۔حاکم اسے مارنے کے لئے لاٹھی کی طرف لپکا تو دیہاتی بھاگ کھڑا ہوا۔

سخی اور بخیل بہن بھائی:

      ایک شخص کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ سفر پر نکلا تو راستہ بھول گیا ۔راہ چلتے میں نے جنگل میں ایک مکان دیکھا تو اس کی طرف چل پڑا وہاں میں نے ایک دیہاتی خاتون دیکھی جس نے مجھے دیکھ کر پوچھا:تم کون ہو؟ میں نے کہا:آپ کا مہمان۔ اُس نےکہا:مہمان کو خوش آمدید۔پھر میں اُس کے پاس ٹھہرا تو وہ میرے لئے کھانا لےکر آئی جسے میں نے کھایا اور اس کے بعد پانی پیا۔ابھی میں اس کے پاس ٹھہرا ہواہی  تھا کہ اس کا شوہرآیا اوراُس  نے پوچھا:یہ کون ہے؟کہا:مہمان۔شوہر نے کہا:مہمان کا آنا مبارک نہ ہو،مہمان کا ہمارے ہاں کیا کام؟میں نے یہ سنا تو اسی وقت سوار ہوکر وہاں سے نکل آیااور اگلے دن پھر میں نے جنگل میں ایک مکان دیکھا تو اس کی طرف چل پڑاوہاں بھی میں نے ایک دیہاتی عورت کو دیکھا جس نے  مجھے دیکھ کر پوچھا:تم کون ہو؟ میں نے کہا:آپ کا مہمان۔اُس نے کہا:مہمان کا آنا مبارک نہ ہو،مہمان کا ہمارے ہاں کیا کام؟ ابھی وہ مجھ سے باتیں کررہی تھی کہ اُس کا شوہر آگیا جس نے مجھے دیکھا توپوچھا:یہ کون ہے؟ کہا: مہمان۔شوہر نے کہا: مہمان کوخوش آمدید۔پھر وہ میرے لئے عمدہ کھانا لے آیاتو میں نے کھایا اور پانی پیا اور اُسے گذشتہ دن کے واقعہ کے متعلق بتایا جسے سن کر وہ مسکرایا۔میں نے اُس سے پوچھا:تم کیوں مسکرارہے ہو؟اُس نے کہا:جس دیہاتی عورت کو تم نے کل دیکھا تھا وہ میری بہن ہے اور اس کا شوہر میری بیوی کا بھائی ہے۔

 

٭…٭…٭…٭…٭…٭


 

باب نمبر35:              کھانا،مہمان نوازی اور میزبانی کے آداب اور زیادہ

کھانے والوں کے واقعات

حلال کھانے کے متعلق تین فرامین باری تعالٰی:

﴿1﴾…

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲) (پ۲،البقرة:۱۷۲)

ترجمۂ کنزالایمان:اےایمان والوکھاؤہماری دی ہوئی ستھری چیزیں  اور اللہکا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔

﴿2﴾…

یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْؕ-قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُۙ-وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ (پ۶،المائدة:۴)

ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کےلئے کیا حلال ہوا تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں  اور جو شکاری جانور تم نے سدھا(سکھا) لیے۔

﴿3﴾…

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ- (پ۸،الاعراف:۳۲)

ترجمۂ کنز الایمان:تم فرماؤ کس نے حرام کی اللہکی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی  اور پاک رزق۔

حلال کو حرام قرار دینے والا۔۔۔!

      حضورنبی کریمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:حلال کوحرام قراردینےوالاایساہی ہےجیسےحرا م کوحلال کہنے والا۔([8])

نعمت کا اظہار ربّ تعالٰی کو پسند ہے:

      حضورنبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّاس بات کو پسند فرماتا ہے کہ بندے کے کھانے پینے میں اپنی نعمت کا اثر دیکھے۔([9])


 

       حضرت سیِّدُنا حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں :مختلف کھانے بنانے میں کوئی اسراف نہیں ۔

حلوہ نہ کھانے کا زُہد  سے کیا تعلق ؟

       حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے اس شخص کےمتعلق پوچھا گیاجو گوشت اور حلوہ وغیرہ عمدہ کھانے زُہد کےسبب ترک کردیتا ہےتوارشاد فرمایا:حلوہ نہ کھانے کا زُہد  سے کیا تعلق ؟کاش کہ تم کھاؤ اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے ڈرو بےشک اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تمہارے حلال کھانے کو ناپسند نہیں کرتا جبکہ تم  حرام سے بچتے رہو۔تمہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک،رشتے داروں سے صلہ رحمی،پڑوسیوں سے نرمی،مسلمانوں پر رحم ،غصہ پینے،ظلم کرنے والوں کو معاف کرنے،برائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے اور تکلیف وپریشانی پر صبر کرنے کے معاملے میں تمہارا طرزِ عمل کیا ہے؟حلوہ کھانے کو ترک کرنے سے زیادہ تمہیں ان احکام پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

مختلف کھانوں کا بیان

فالودہ عمدہ ہے یا لوزینہ؟

       ہارون رشید کے بارے میں منقول ہے کہ اس نے ابوحارث سے فالودہ اورلوزینہ(بادام کا حلوہ)کے بارے میں پوچھا کہ ان میں سےزیادہ عمدہ کیاہے؟ابوحارث نے کہا:اے امیرالمؤمنین! میں غائب کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتا۔دونوں چیزیں اس کے سامنے لائی گئیں ، وہ دونوں میں سے ایک ایک لقمہ کھاتا رہا، پھر کہا: اے امیرالمؤمنین!میں جب بھی ایک کے حق میں کوئی فیصلہ کرنے لگتا ہوں تو دوسرا اپنی دلیل لے آتا ہے۔

سیِّدُناامام ابو یوسفعَلَیْہِ الرَّحْمَہکا انوکھا فیصلہ:

       ہارون رشید اور اس کی بیوی زبیدہ خاتون میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ فالودہ اور لوزینہ میں سے زیادہ عمدہ کیا ہے۔ حضرت سیِّدُناامام ابویوسُفرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتشریف لائےتوہارون رشیدنےان سےاس بارےمیں دریافت کیا۔ حضرت سیِّدُناامام ابویوسُفرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےفرمایا:اےامیرالمؤمنین!میں غائب کےخلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔چنانچہ دونوں چیزیں لائی گئیں پھر جب آپ نےسیرہوکرکھالیاتوہارون رشیدنےکہا:فیصلہ کیجئے۔فرمایا:اےامیرالمؤمنین!دونوں فریقین نےآپس میں صلح کرلی ہے۔یہ سن کر ہارون رشید ہنسنے لگا اور آپ کو ایک ہزار دینار دینے کا حکم دیااورجب یہ بات زبیدہ کو


 

معلوم ہوئی تو اس نے حکم دیا کہ آپ کو نوسو ننانوے دینار دیئے جائیں ۔

       حضرت سیِّدُناحسن بصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے ایک شخص کو سنا کہ فالودہ کو بُرا کہہ رہا ہے تو ارشاد فرمایا: فالودہ گیہوں کا پسا ہوا آٹا،شہد اور خالص گھی کا مجموعہ ہےمیں نہیں سمجھتا کہ کوئی عاقل اسے برا کہہ سکتا ہے۔

سب سے پہلے فالودہ تیار کرنے والا:

       حضرت سیِّدُناامام اصمعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : سب سے پہلےزمانہ جاہلیت کے حکیم ودانا عبداللہ بن جدعان نے فالودہ تیار کیا۔

       ایک اعرابی کے پاس فالودہ لایا گیا،اس نے ایک لقمہ کھایا تو پوچھا گیا:کیا تم اسے پہچانتے ہو؟اعرابی نے جواب دیا: تمہاری زندگی کی قسم!یہ سیدھا راستہ ہے۔

گوشت کی فضیلت کے متعلق تین روایات:

﴿1﴾…اللہعَزَّ  وَجَلَّکےمحبوب،دانائےغیوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکوکھانوں میں سب سےزیادہ پسند گوشت تھا۔([10])

﴿2﴾…حضرت سیِّدُناابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اہلِ دنیا اور اہلِ جنت کے کھانوں کا سردار گوشت ہے۔([11])

﴿3﴾…اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:گوشت دنیا اور آخرت میں کھانوں کا سردار ہے اور یہ قوت سماعت میں اضافہ کرتا ہے۔اگر میں اپنے ربّ عَزَّ  وَجَلَّ  سے سوال کرتا کہ مجھے روزانہ گوشت کھلائے تو وہ ضرور ایسا کرتا۔([12])

کدو شریف کے فضائل:

       رسولِ اکرم،شاہِ بنی آدمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکوکدوشریف محبوب وپسندتھا([13])اورآپ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا


 

عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے ارشاد فرمایا کرتے:اے عائشہ! جب  تم ہانڈی پکاؤ تو اس میں کدو زیادہ ڈالا کرو کیونکہ یہ غمگین دل کو مضبوط کرتا ہے([14]) اور یہ میرے بھائی حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَامکا درخت ہے۔([15])

مسور کی دال کی فضیلت:

       حضورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:کدو استعمال کرو کیونکہ یہ دل کو مضبوط اور دماغ کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے([16]) اور  مسور کی دال  کھاؤ کیونکہ یہ دل کو نرم اور آنسوؤں کو زیادہ کرتی ہے۔([17])

بعض پھلوں اور اشیا کے فوائد:

       حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :کھجور کھانے سے قولنج کی بیماری(بڑی آنت کے درد) سے حفاظت رہتی  ہے، نہار منہ شہد پینا فالج سے محفوظ رکھتا ہے،(حاملہ کے)بِہی([18]) کھانے سے بچہ خوبصورت پیدا ہوتا ہے،انار کھانے سے جگر کی اصلاح ہوتی ہے،مُنَقّٰی(بڑی کشمش) پٹھوں کو مضبوط اور درد وتکان کو دور کرتا ہے،اجوائن معدہ کو قوی اورمنہ کو خوشبودار کرتی ہے اور سب سے عمدہ گوشت بازو  کا ہوتا ہے۔

اکیلے رہنے میں سلامتی ہے:

       حضرت سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکثر ہَرِیسہ([19])تناول فرماتے، حضرت سیِّدُنا امیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کےدسترخوان پر کھانا کھاتےاور حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی اقتدامیں نماز پڑھتے اور اکیلے رہتے تھے۔جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو ارشاد فرمایا:حضرت سیِّدُناامیر معاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا کھانامرغن ہوتا ہے،حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے  کیونکہ وہ زیادہ علم والے ہیں جبکہ اکیلے رہنے میں میرے لئے سلامتی ہے۔


 

چاول کھانے کے سبب اچھے خواب:

      وزیرحسن بن سہل نے ایک دن مامون رشید کے دسترخوان پر کھانا کھایا تو کہا:چاول کھانے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔مامون نےپوچھا:وہ کیسے؟کہا:اے امیرالمؤمنین!ہندوستان کی طب صحیح ہے اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ چاول کھانے سے اچھے خواب نظر آتے ہیں اور جوشخص اچھا خواب دیکھے اُس کے لئے دو دن ہوتے ہیں (یعنی ایک سونے اور دوسرا جاگنے کا)۔مامون نےاس کی بات کو پسند کیا اوراسےانعام واکرام سے نوازا۔

      ابوصفوان نے کہا:سفید چاول گھی اور شکر کےساتھ کھانا اہلِ دنیا کے کھانوں میں سے نہیں ہے۔

      پہلے اہلِ عرب مختلف قسم کے کھانوں کو نہیں جانتے تھے،ان کا کھانا زیادہ تر گوشت تھا جسے پانی اور نمک کے ساتھ پکایا جاتا تھا یہاں تک کہ حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا دور آیا تو آپ نے مختلف قسم کے کھانے تیار کروائے۔

مہینہ بھر گوشت تروتازہ رکھنے کا نسخہ:

      کہاگیا ہے کہ اگر گوشت کو شہد میں ڈال دیا جائے پھر ایک مہینہ کے بعد اُسے نکالا جائے تو وہ تروتازہ ہوگا اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے گی۔

      منقول ہے کہ جب گوشت کو سرکہ کے ساتھ پکایا جائے تو یہ معدہ کی تہائی گرانی دور کردیتا ہے۔

روٹی کا اکرام:

      تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:روٹی کا اکرام کرو۔عرض کی گئی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!روٹی کا اکرام کیا ہے؟ارشاد فرمایا:اس کے ساتھ سالن کا انتظار نہ کیا جائے۔([20])

      ایک روایت میں ہے کہ جو40دن تک مسلسل گوشت کھائے اس کا دل سخت ہوجاتا ہے اور جو40دن تک گوشت نہ کھائے اس کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں ۔

آسمانی دسترخوان کی اشیاء:

      منقول ہے کہ بنی اسرائیل پر آسمان سے جو دسترخوان نازل ہوا اس پر گیندنے(ایک تیز بو والی سبزی) کے علاوہ تمام


 

سبزیاں تھیں نیزمچھلی تھی جس کے سر کے پاس سرکہ اور دم کے پاس نمک رکھا تھا جبکہ ان کے ساتھ سات روٹیاں موجود تھیں جن میں سے ہر ایک پر زیتون اور انار دانہ رکھا ہوا تھا۔

کیلے کی خوبیاں :

      ایک روز اِبْنِ قُزعہ عِزالدَّولہ کے پاس آیاتو اس کے سامنے کیلوں کا ایک گچھا رکھا ہوا تھا ۔عزُّالدّولہ نے جب کافی دیر تک اسے کیلے کھانے کی دعوت نہ دی تو ابنِ قزعہ  نے کہا:ہمارے آقا کو کیا ہوا کہ کیلے کھانے کے ذریعے ہمیں کامیابی کی طرف نہیں بلاتے۔عزُّالدّولہ نے کہا:کیلے کی خوبیاں بیان کرو تو میں تمہیں کیلے کھانے دوں گا۔ ابنِ قزعہ نے کہا: میں اس کی خوبصورتی کیسےبیان کروں جس کی  رنگت  میں سونے کی ڈلیاں ہیں گویا شہد اورمکھن سے ملاکر بنایا گیا ہے۔یہ ایسا عمدہ پھل ہے گویا گوشت کا مغز ہے ،اس کا چھلکا اتارنے میں آسان اور توڑنے میں نرم ہے، اس کا ذائقہ میٹھاہے اور حلق سے اتارنے میں آسان ہے۔یہ کہہ کر ابن قزعہ نے ہاتھ بڑھایا اور کیلا کھانا شروع کردیا۔

      ایک شخص نے کسی کو مکھن کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو اُس سے کہا:کیوں تو اس کی مذمت کررہا ہے ؟ کیا اس کا رنگ کالا ہےیا اس کا ذائقہ بدمزہ ہے یا اسے حلق سے اتارنا مشکل ہے یا اس کی نرمی میں سختی ہے؟

دعوت ولیمہ میں  ایک ہزار خدمت گار:

      حجاج نے ولیمہ کے لئے ایک عالیشان تقریب منعقد کی پھر زاذان سے کہا:کیا کبھی کسریٰ نےبھی اس جیسی تقریب منعقد کی؟زاذان نے بتانے سے معذرت کی تو حجاج نے قسم دے کر بتانے کا کہا۔زاذان نے کہا: کسریٰ کے سامنے ایک شخص نے ولیمہ کیا اور لوگوں کی خدمت کے لئے ایک ہزار خادم مقرر کئے جن کے ہاتھوں میں سونےکےآبخورے تھے۔حجاج نے کہا:بخدا!اہْلِ فارس نے اپنے بعد بادشاہوں کے لئے کوئی(دنیاوی)شرف نہ چھوڑا۔

خراب فالودہ:

      ایک شخص نے اپنے دوست کی طرف خراب فالودہ بھیجا اور اس کی طرف لکھا:میں نےاس کے بنانے کے لئے سوس کی شکر،ماردان کا شہد اوراصفہان کا زعفران استعمال کیا ہے۔دوست نے جوابی مکتوب میں لکھا: بخدا! تونے اصفہا ن کے وجود،سوس کی فتح  اور مکھی کے شہد تیار کرنے سے قبل اسے تیار کرلیا تھا۔

      حضرت سیِّدُناسائبرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہایک سرددن میں امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم 


 

کےپاس آئےتو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےانہیں ایک پیالہ پیش کیاجس میں شہد،گھی اوردودھ تھا۔حضرت سیِّدُنا سائب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاسے واپس کردیا،حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نےفرمایا:اگرتم اسےپی لیتےتو سردی  سے بھی بچے رہتے اور سارا دن تمہارا پیٹ بھی بھرا رہتا۔

کھانے کے متعلق زہد

       کثیر بُزرگانِ دین نے کھانے پر قدرت کے باوجود اوربعض نے قدرت نہ ہونےکےسبب کھانے کے متعلق زہد اختیار کیا ہے۔

بغیر چھنا جو کا آٹا:

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں :اُس ذات کی قسم جس نےحضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکورسول بناکربھیجا!ہمارےلئےچھناہواآٹانہیں ہوتاتھااورنہ رسولِ پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنی وفات ظاہری تک چھنا آٹا استعمال کیا ہے۔عرض کی گئی:آپ جو کا آٹا کیسے استعمال فرماتے؟ارشاد فرمایا:ہم جو کے آٹے  میں پھونک مارکر(بھس وغیرہ اڑاکر)استعمال کرتے۔([21])

سرکہ بہترین سالن ہے:

       حضرت سیِّدُناجابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےمروی ہےکہرسولُاللہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:سرکہ بہترین سالن ہے اور آدمی کے بُرا ہونے کے لئے یہی کافی ہےکہ جوچیزاسےکھانے کےلئے پیش کی جائے وہ اس پر ناراضی کا اظہار کرے۔([22])

کبھی  روٹی کبھی سالن:

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدُناعائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں :رسولِ پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لقمہ میں کبھی دو رنگ جمع نہیں ہوئے کبھی گوشت ہوتا تو روٹی نہ ہوتی اور کبھی روٹی ہوتی تو گوشت نہ ہوتا۔

کمزوری کا علاج:

       ایک نبی عَلَیْہِ السَّلَامنے بارگاہِ الٰہی میں کمزوری کی شکایت کی تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے گوشت کو دودھ کے ساتھ پکاکر کھانے کا ارشاد فرمایا کہ ان دونوں میں قوت ہے۔


 

کھانے کے آداب

کھانے یا پینے میں نقصان سے بچنے کا نسخہ:

       حضور نبی کریم، رؤوف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:جوکھاتےیا پیتے وقت ”بِسْمِ اللہِ خَیْرِ الْاَسْمَاءِ بِسْمِ اللہِ رَبِّ الْاَرْضِ وَالسَّمَاءِ بِسْمِ اللہِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَيْ ءٌ یعنیاللہ عَزَّ  وَجَلَّکے نام سےجوسب ناموں سے بہتر ہے،اللہعَزَّ  وَجَلَّکے نام سے جو آسمان وزمین کا ربّ ہے،اللہعَزَّ  وَجَلَّکے نام سے جس کے نام سے کوئی چیز نقصان نہیں دیتی“کہے گا تو کھانے یا پینے میں اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔([23])

کھانے سے پہلے کی دعا:

       رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے سامنے جب کھانا رکھا جاتا تو آپ یہ دعا پڑھتے:”بِسْمِ اللَّهِ اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيمَارَزَقْتَنَایعنیاللہ عَزَّ  وَجَلَّکےنام سےابتداکرتاہوں ،اےاللہ عَزَّ  وَجَلَّجوتونےہمیں رزق عطافرمایاہےاس میں برکت نازل فرما۔“([24])

گزشتہ گناہوں کی معافی:

       حضور نبی اکرم،نُوْرِمُجَسّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:جوکھاناکھائےپھرکہے:”اَلْحَمْدُلِلَّهِ الَّذِىْ اَطْعَمَنِىْ هٰذَا وَرَزَقَنِيْهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِّنِّىْ وَلاَ قُوَّةٍیعنی شکر ہے اساللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اورمیری قوت و طاقت کے بغیر مجھےیہ عطافرمایا“تواس کےگزشتہ گناہ بخش دیئےجاتےہیں اورجوکوئی کپڑاپہنےتوکہے:”اَلْحَمْدُلِلَّهِ الَّذِىْ کَسَانِیْ ہٰذَا وَرَزَقَنِيْهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِّنِّىْ وَلاَ قُوَّةٍ یعنی شکرہےاساللہعَزَّ  وَجَلَّکاجس نے مجھے یہ پہنایا اور میری طاقت و قوت کےبغیر مجھے یہ عطا فرمایا“تو اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔([25])

ابتدا میں ’’بِسْمِ اللہ ‘‘پڑھنا بھول جائےتو۔۔۔!

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَابیان کرتی ہیں کہ مُعلّم کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:تم میں سےجب کوئی  کھاناکھائےتواللہ عَزَّ  وَجَلَّکانام ضرورلےاورکھانےسےپہلےاللہعَزَّ  وَجَلَّکا نام لینا بھول جائے تو”بِسْمِ اللهِ اَوَّلَهٗ وَاٰخِرَهٗ“ کہہ لے۔([26])

بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا پیتا ہے:

       حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم، نُوْرِ مُجَسّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے جب کوئی کھائے تودائیں ہاتھ سے کھائے اور پیے تو دائیں ہاتھ سے پیے  کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔([27])

بازار میں کھانا:

       سرکارِمدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:”اَلْاَکْلُ فِی السُّوْقِ دَنَاءَۃٌیعنی بازارمیں کھانابے مروتی ہے۔“([28])

       حضرت سیِّدُناانسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ حضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔حضرت سیِّدُناقتادہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ہم نے حضرت سیِّدُناانس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے عرض کی:کھڑے ہوکر کھانا کیسا ہے؟فرمایا:یہ تو کھڑے ہوکر پانی پینے سے بھی بُرا ہے۔([29])

شاہی خادم کی بیٹے کو نصیحتیں :

       بادشاہ کے ایک خادم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:اپنے ہونٹوں کو بند کرکے کھاؤ،کھانے کے دوران دائیں بائیں نہ دیکھو،چھری کے ذریعے نہ کھاؤاور جو تم سے قدر ومنزلت میں اعلیٰ ہو اُس سے اونچے ہوکر نہ بیٹھواور صاف جگہوں پر نہ تھوکو۔

کھانے پینےکی  چیزمیں پھونک مارنا:

       حضرت سیِّدُناامام زُہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیسے مروی ہے کہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ


 

 وَسَلَّمنے کھانےاور پینےکی  چیز میں پھونک مارنے سے منع فرمایاہے۔([30])

گرم کھانے سے اجتناب:

       حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں کہ رحمتِ کونین، شہنشاہِ دارین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے گرم کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے۔ ([31])

کھانےمیں عیب نہ لگانا:

       بخاری ومسلم میں حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ تاجدارِ انبیا، محبوب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کبھی کھانے کو عیب نہ لگایا پسند آیا تو کھالیا ورنہ چھوڑ دیا۔([32])

       عمر بن ہبیرہ نے کہا:صبح سویرے کھایا کرو کہ صبح سویرے کا کھانا منہ میں بدبو پیدا نہیں کرتا اور مروت پر مددگار ہوتا ہے۔ کسی نے پوچھا:مروت پر کیسے مددگار ہوتا ہے؟کہا:تیرا نفس تیرے کھانے کے علاوہ دوسرے کھانے کا مشتاق نہیں ہوتا۔

گرےہوئےٹکڑےکھانے کی برکت:

       سرکارمدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکافرمان ہے:جو شخص دسترخوان سے گرے ہوئے ٹکڑوں کو اٹھا کر کھائے وہ فراخی کی زندگی گزارتا ہے اور اس کی اولاد اور اولاد کی اولاد کم عقلی سے محفوظ رہتی ہے۔([33])

       ایک روایت میں ہے:جوکھانےسےگری ہوئی شےاٹھاکرکھالےگااللہ عَزَّ  وَجَلَّاُس کےجسم کو آگ پرحرام کردے گا۔([34])

سونے  سے قبل40قدم چلنا:

       عرب کے حکیم وطبیب حارث بن کَلَدَہ نے کہا:جب تم میں سے کوئی ناشتہ کرے تو اس کے بعد تھوڑی دیر سوجائے اور جو رات کا کھانا کھائے تو وہ سونے سے قبل چالیس قدم چل لے۔


 

      کہا گیا ہے کہ دن  کابہترین کھاناصبح کےوقت کاہےاوررات کا بہترین کھانا وہ ہے جوشب  کی تاریکی پھیل جانے سے قبل ہو۔

کسی کےلقمے پرنظریں نہ جماؤ:

      حضرت سیِّدُنا عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیا ن کرتے ہیں کہ رَحْمَۃُ لِّلْعَالَمِیْن، خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے مسلمان بھائی کےلقمےپرنظریں جمانےسےمنع فرمایا ہے۔([35])

      حجاج نے ایک روز کسی دیہاتی کو اپنے دسترخوان پر زیادہ کھاتے دیکھا تو اُس سے کہا:اپنی جان پر رحم کر۔دیہاتی نے کہا:آپ اپنی نگاہیں جھکاکر رکھیں ۔

      حضرت سیِّدُناامیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنے دسترخوان پر موجود ایک شخص سے کہا:اپنے لقمہ سے بال کو علیحدہ کردو۔اُس شخص نے کہا:آپ مجھے اتنی غور سے دیکھتے رہے  کہ آپ کو میرے لقمہ میں بال بھی نظر آگیا میں آئندہ آپ کا کھانا نہیں کھاؤں گا۔

      حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہیہ چاہ رہے تھے کہ حضرت سیِّدُناامام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اُن کی مجلس کی توقیر کریں جیساکہ بادشاہوں کی مجلسوں کی ہوتی ہے جبکہ حضرت سیِّدُناحسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہان سے زیادہ کھانے کے آداب اور اچھے طریقوں سے واقف تھے۔

دسترخوان پر دیہاتی اور بادشاہ کا مکالمہ:

      ایک دیہاتی کسی بادشاہ کے دسترخوان پر حاضرہوا تو اُس کے سامنے بکری کا بھنا ہوا بچہ پیش کیا گیا۔ دیہاتی جلدی سے اُسے کھانے لگا تو بادشاہ نے اُسے کہا:میں دیکھ رہاں ہوں تم اسے ایسے غصے سے کھا رہے ہوگویا اس کی ماں نے تمہیں ٹکر ماری ہو۔دیہاتی نے کہا:میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اس پر ایسی شفقت کررہے ہیں گویا اس کی ماں نے آپ کو دودھ پلایا ہے۔

زیادہ کھانا

دل کی صفائی اور سختی:

      حضرت سیِّدُناحذیفہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:جو کم


 

 کھائے گا اُس کا پیٹ صحیح اور دل صاف ہوجائے گا اور جو زیادہ کھائے گا اُس کا پیٹ بیمار اور دل سخت ہوجائے گا۔([36])

       مکی مدنی سلطان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:زياده كھانے اور پینے سے دلوں کومردہ نہ کرو کیونکہ دل کھیتی کی طرح ہے جب اسے زیادہ پانی ملے  تووہ خراب ہوجاتی ہے۔([37])

       ایک روایت میں ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے پیٹ کی پاک دامنی سےافضل کسی کو  کوئی زینت عطا نہیں کی۔([38])

سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ الرَّحْمَہکا مسکرانا:

       عمرو بن عبید معتزلی نے کہا:میں نے حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا سوائے ایک مرتبہ کے۔آپ کی مجلس میں بیٹھے ایک شخص نے دوسرے سے کہا:مجھے کبھی کھانے نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ دوسرے نے کہا:تمہارے معدے میں پتھر بھی ہوں تو اسے بھی تمہارا معدہ ہضم کرلے گا۔

       حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں :پیٹ بھر کر کھانا ذہانت وہوشیاری کو ختم کرتا ہے۔

غیر سنجیدہ لوگوں میں شمار:

       ابن مُقَفَّع نے کہا:عجمی بادشاہ جب کسی شخص کو کھانے کا حریص دیکھتے تو اسے سنجیدہ لوگوں سے نکال کر غیر سنجیدہ لوگوں میں ڈال دیتے۔

       اہل عرب کہتے ہیں :کم کھاؤ نیند اچھی آئے گی۔

       اہل عرب ایک دوسرے کو زیادہ کھانے پر عار دلایا کرتے تھے ۔چنانچہ کسی شاعر نے کہا :

لَسْتُ بِاَکَّالٍ کَاَکْلِ الْعَبْدِ                                                                                                  وَلَا بِنَوَّامٍ کَنَوْمِ الْفَھْدِ

       ترجمہ:میں غلام کی طرح بہت کھانے والا نہیں اور نہ چیتے کی طرح بہت سونے والا ہوں ۔

زیادہ کھانے والے غلام کو نہ خریدا:

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتی ہیں کہ تاجدار مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک غلام کو خریدنے کا ارادہ کیا، اس کے سامنے چھوہارے ڈالے تو وہ بہت کھا گیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا :” بہت کھانا نحوست ہے۔“یہ کہہ کر اس کی واپسی کا حکم دیا۔([39])

      عقل مند لوگوں نے کہا ہے:تنہائی بُرے دوست سے بہتر ہے اور بُرا دوست بُرا کھانے والے سے بہتر ہے۔

بھوک کے سبب جگر کو حرکت:

      ابو العیناءنے ایک دوست کو اپنے بُرے حال کی شکایت کی تو اُس نے کہا:شکر کرو اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے تمہیں اسلام اور عافیت کی نعمت سے نوازا ہے۔ابو العیناء نے کہا:یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن بھوک ان دونوں کے درمیان جگر کو حرکت دے رہی ہے۔

زیادہ کھانے والوں کے واقعات

100روٹیاں کھانا:

      منقول ہے کہ وہب بن جریر نے مَیسرہ تَراس سے اُس کے کھانے کے متعلق سب سے تعجب انگیز  بات کے بارے میں پوچھاتو میسرہ نے کہا:میں نے ایک مرتبہ سو روٹیاں کھائیں ۔

پورا اونٹ کھالیا:

      حضرت سیِّدُنامعتمربن سلیمانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰنفرماتےہیں :میں نےہلال مزنی سےکہا:مجھےتمہارےمتعلق جو زیاد کھانے کی خبر ملی ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ہلال نے کہا:ایک مرتبہ مجھے بھوک لگی،میرے پاس میرا اونٹ تھا جسے میں نے ذبح کیا اور بھون کر کھالیا ۔

سلیمان بن عبد الملک اور کھانے کاشوق:

      حضرت سیِّدُناامام اصمعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :سلیمان بن عبد الملک کھانے کا بہت شوقین تھا اور اُس کے کھانے کے شوق کا یہ عالَم تھا کہ جب اُس کے سامنےسیخ میں  بھنی ہوئی موٹی تازی مرغی پیش کی جاتی تو وہ اس کے ٹھنڈا ہونےاور  رومال کے آنے کا انتظار نہ کرتا بلکہ آستین سے پکڑ کراسے کھانا شروع کردیتا یہاں تک کہ اسے چٹ کرجاتا۔

      خلیفہ ہارون رشیدنےجب یہ بات حضرت سیِّدُناامام اصمعیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیسےسنی توان سےکہا:اے اصمعی !تمیں صمعی !تیں ہیں بد الملک الم تھا کہ جاتا۔کا انتظار نہ کرتا  کہا:چار دن تک۔اپنی لونڈی سے ہمبستری کرنا چاہی تو میں اس تک پہنچنے ہیں


 

تو لوگوں کے واقعات کی خوب خبر ہے، میں نے سلیمان بن عبد الملک کے جبے دیکھے ہیں جس میں مجھے تیل کے آثار نظر آئے ہیں ۔پہلے میں اسے خوشبو سمجھ رہا تھا لیکن تمہاری بات سے پتا چلا کہ یہ چکنائی ہے۔حضرت سیِّدُناامام اصمعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :پھر ہارون رشید نے مجھے سلیمان بن عبد الملک کا ایک جُبّہ دے دیا جسے میں پہن کر کہتا:یہ سلیمان بن عبد الملک کا جُبّہ ہے۔

سلیمان بن عبد الملک کی کثرتِ خوراک:

      حضرت سیِّدُناعمروبن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے وکیل شَمَّرْدَل کہتے ہیں :سلیمان بن عبد الملک طائف آیا تو حضرت سیِّدُناعمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزکے ہمراہ میرے ہاں آیااور کہا:اے شمردل تمہارے پاس کیا ہے جو تم ہمیں کھلاؤ۔میں نے کہا:میرے پاس ایک موٹا تازہ بکری کا بچہ ہے۔سلیمان نے کہا:جلدی سے اسے پکاکر لے آؤ۔میں اسے پکا کر لے آیا تو سلیمان اسے کھانے لگا اور حضرت سیِّدُناعمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کو نہ پوچھا پھر جب صرف ایک ران بچ گئی توان سے کہنے لگا:اے ابوجعفر !آیئے۔حضرت سیِّدُناعمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز  نے فرمایا:میں روزے سے ہوں تو سلیمان وہ ران بھی کھا گیاپھر مجھ سے کہا:اے شمردل !تمہارے پاس کچھ اور نہیں ؟میں نے کہا:میرے پاس اونٹ کی رانوں کی طرح موٹی چھ مرغیاں ہیں ۔پھر میں انہیں پکار کر سلیمان کے پاس لے آیا  تووہ انہیں بھی چٹ کر گیا۔ پھر کہنے لگا:اے شمردل!کیا تمہارے پاس کچھ اور نہیں ؟میں نے کہا:ستو ہیں ۔ستو اسے پیش کئے تو اُس نے ایک ہی سانس میں ستو پی لئے پھر اپنے غلام سے کہا :اے غلام !کیا تم نے ہماراکھانا بنا لیا ہے؟غلام نے کہا:جی ہاں ۔سلیمان نے کہا:کتنا کھانا ہے؟غلام نے کہا:30سے اوپردیگچیاں ہیں ۔سلیمان نے کہا:ایک ایک کرکے انہیں میرے پاس لے آؤ۔چنانچہ ایک ایک کرکےسلیمان کے پا س وہ دیگچیاں لائی گئیں ،ان کے ساتھ روٹیاں بھی تھیں ، سلیمان نے ہردیگچی میں سے تہائی کھا لیاپھر اپنے ہاتھوں کو پونچھ کرچت لیٹ گیا اور لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دی  پھر جب لوگوں کے لئے دسترخوان بچھایا گیا تو وہ پھر اٹھ بیٹھا اور لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔

      ہلال بن اسعر انتہائی فربہ تھا ،یہ اپنے منہ پر قیف (کُپّی)لگا لیتا اور اُس کے منہ میں دودھ یا نبیذ انڈیلا جاتا ۔

      مُحْمَر اعرابی نے کہا:میری ایک بیٹی تھی جب وہ چھوٹی تھی تو میرے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتی اور کھانے میں جو اچھی چیز نظر آتی وہ مجھ پر ایثار کرتی پھر جب وہ بڑی ہوگئی تو میں اس کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتا تو جس اچھے لقمہ کی


 

 طرف میری نظر جاتی اُس کی طرف اس کا ہاتھ سبقت کرجاتا ۔

       مسلم بن قتیبہ کہتے ہیں :میں نے حجاج کے لئے 84روٹیاں تیار کیں جس میں ہر روٹی کے ساتھ مچھلی تھی۔

       ابومُرّہ سے پوچھا گیاکہ تمہیں کون سا کھانا پسند ہے؟کہا:موٹا گوشت اور میدے کی روٹی۔

ہِلال مُزَنی کی بسیار خوری:

       صدقہ بن عُبَیْد مازنی کہتے ہیں :جب میں نے شادی کی تو میرے والد نے میرا ولیمہ کیا اور دس بڑےپیالوں میں اونٹ کے گوشت کا ثرید بنایا۔ہمارے ہاں سب سے پہلےہِلال مُزَنی آیا تو ہم نے اُسے ثرید کا ایک بھرا ہوا پیالہ پیش کیا جسے اُس نے کچھ دیر میں ہی ختم کردیا پھر ہم نے اسے دوسرا پیالہ دیا تو اُس نے وہ بھی ختم کردیا تیسرا دیا تو وہ بھی ختم کردیا یوں کرتے کرتے اُس نے دسوں پیالے ختم کردیئے۔پھر وہ چمڑے کے ایک مشکیزے کے پاس آیا جس میں نبیذ بھری ہوئی اُس نے مشکیزہ منہ سے لگایا اورا سے ختم کرکے ہی دم لیا اور جب وہ چلاگیا تو ہمیں دوبارہ کھانے کا بندوبست کرنا پڑا۔

ابن زیاد کی بسیار خوری:

       عُبَـیْدُاللہبن زیادہ دن میں پانچ مرتبہ کھانا کھاتا تھا ۔ایک مرتبہ یہ کوفہ جانے کے لئے نکلا تو بنوشیبان کے کسی شخص نے اس کی دعوت کی ۔شیبانی نے اس کے لئے 10بطخیں ذبح کیں اور پکا کر اسے پیش کردیں جنہیں یہ کھا گیا پھر اس کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو وہ بھی کھا گیا پھر اس کے پاس دو ٹوکریاں لائی گئیں جن  میں ایک میں انجیر اور دوسری میں انڈے تھے ۔یہ کبھی انجیر اٹھا کر کھاتا تو کبھی انڈہ یوں کرتے کرتے اس نے یہ دو ٹوکریاں بھی ختم کردیں پھر جب یہ لوٹا تو اس وقت بھی بھوکا تھا۔

مَیسرہ بن تراس کی بسیار خوری:

       خلیفہ مہدی کو پتا چلا کہ مَیسرہ بن تراس ایک بڑا مینڈھا اور100روٹیاں کھاجاتاہے تو اس نے میسرہ کو بلایا۔میسرہ آیا تو اس کے اور ہاتھی کے سامنے100روٹیاں رکھی گئیں تو ہاتھی99روٹیاں کھا سکا جبکہ میسرہ سو روٹیاں چٹ کرگیا۔

ایک بسیار خور اور راہب:

       ایک آدمی کسی گرجا گھر میں ٹھہرا  تو راہب نے اُسے چار روٹیاں پیش کیں اور اس کے لئے مسور کی دال لینے چلا گیا واپس آیا دیکھا کہ وہ روٹیاں کھا چکا تھا تو دال رکھ کر روٹی لینے چلا گیا پھر واپس آیا دیکھا کہ وہ دال بھی کھا چکا ہے تو مزید دال لینے چلا گیا پھر آیا تو دیکھا کہ روٹی بھی ختم ہے یوں کرتے کرتے راہب نے  10چکر لگا دیئے بالآخر راہب نے اُس سے


 

پوچھا:تمہارا کہاں کاارادہ ہے؟کہا:اردن کی جانب۔راہب نے کہا:کس لئے؟ کہا:مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ایک ماہر طبیب ہے میں اس سے اپنے معدے کی اصلاح کرانا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے بھوک کم لگتی  ہے۔راہب نے کہا:مجھے تم سے ایک کام ہے ۔اُس نے کہا:کیا؟راہب نے کہا:جب تم اُس کے پاس جاؤاور تمہارا معدہ ٹھیک ہوجائے تو میرے پاس نہ آنا۔

سیِّدَتُناعائشہرَضِیَ اللہُ عَنْہَاکی خوش طبعی:

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ رسولِ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے ہاں تشریف فرما تھے تومیں نے حریرہ([40]) بنایااور حضرت سودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے کہا: اسے کھاؤ۔انہوں نے کہا:مجھے اس کی خواہش نہیں ۔میں نے کہا:بخدا! تم اسے ضرور کھاؤ گی ورنہ میں اسےتمہارےچہرےپرمل دوں گی۔ حضرت سودہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانےکہا:میں اسے نہیں کھاؤں گی۔ حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں : میں نےپیالے میں سے کچھ لیا اور اُن کے چہرے پر مل دیا اور رسولِ پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہمارےدرمیان جلوہ فرما تھے توحضرت سودہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے بھی پیالے میں سے کچھ لے کر میرے چہرے پر مل دیا۔یہ دیکھ کر آپ مسکرا دیئے۔([41]) 

مہمان نوازی اور کھانا کھلانے کی فضیلت

       اللہ عَزَّ  وَجَلَّقرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ(۲۴) (پ۲۶،الذٰریٰت:۲۴)

ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزّز مہمانوں کی خبر آئی۔

       رسولِ اکرم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیئے کہ مہمان کا اکرام کرے اور اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔([42])

ضرورت مند کو نہ کھلانے پر وعید:

       ایک روایت میں ہے کہ ” تم میں سے جو کھانا کھائے اور ضرورت مند اسے دیکھتا رہے اوروہ  اسے اپنے ساتھ شریک


 

 نہ کرےوہ ایسے مرض میں مبتلا ہوگا جس کا کوئی علاج نہیں ۔“([43])

بھوکے  مسلمان کو کھانا کھلانے کی برکت:

       حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :ہم نے سنا ہے کہ اپنے بھوکے مسلمان بھائی کو کھانا کھلانا رحمت کو لازم کرنے والا ایک امر ہے۔

خلیلُاللہ ہونے کی وجہ:

       حضرت سیِّدُناابراہیم خَلِیْلُاللہعَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی گئی:اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے آپ کو کس وجہ سے خلیل بنایا؟ ارشاد فرمایا:تین وجوہات کی بنا پر:(۱)…مجھے جب بھی دو چیزوں میں اختیار دیا گیا تو میں نے غیرُاللہکے مقابلے میں اُسے اختیار کیا جو مجھ پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے لئے ہے۔(۲)…جس چیز کا ذمہ اللہ عَزَّ   وَجَلَّنےمیرے لئے  لیا ہے میں نے کبھی اُس کے لئے اہتمام نہیں کیا اور (۳)…میں نے کبھی صبح اور رات کا کھانا مہمان کے بغیر نہیں کھایا۔

       ایک بزرگ فرماتے ہیں :حضرت سیِّدُناابراہیم خَلِیْلُاللہعَلَیْہِ السَّلَامکےکسی مہمان نےآج تک کوئی رات مہمان نوازی کےبغیرنہ گزاری۔

       حضرت سیِّدُناامام ابنِ شہاب زہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے اصحاب  میں سے اگر کوئی آپ کے ساتھ کھانا نہ کھاتا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہیہ قسم اٹھالیتے کہ 10 دن تک اسےحدیث نہیں سنائیں گے۔

کھانا کھلانا فراخی کا باعث ہے:

       بزرگ فرماتے ہیں ؛دسترخوان رزق آنے کا سبب ہے یعنی جو مہمان نوازی کرتا ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّاُس پر فراخی کرتا ہے۔

سب سے پہلی مہمان نوازی:

       منقول ہے کہ سب سے پہلے حضرت سیِّدُناابراہیمخَلِیْلُاللہعَلَیْہِ السَّلَامنے مہمان نوازی فرمائی۔سب سے پہلے روٹیوں کا چورا کرکے اسے شوربے میں بھگونے والے یعنی ثرید بنانے والے رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے جدِ اعلیٰ حضرت سیِّدُناہاشم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہیں ۔


 

سب سے پہلے افطار کرانے والے:

      رضائےالٰہی کےلئےاسلام میں سب سے پہلے اپنے پڑوسیوں کو افطارمیں کھانا کھلانے والے حضرت سیِّدُناابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاہیں اورانہوں نے ہی سب سے پہلے راستے میں دسترخوان بچھایا ۔آپ گھر سے جب کوئی کھانا لے کر نکلتے تو اسے واپس گھر لے کر نہ آتے اور اگر کوئی کھانے والا نہ ملتا تواسےراستےمیں رکھ آتے(ایسی جگہ جہاں کسی کومل جائے)۔

      ایک شریف وکریم سے پوچھا گیا:آپ نےاچھے اخلاق اور مہمانوں کے ساتھ ادب سے پیش آناکیسے اختیار کیا؟ اُس نے کہا:میں اکثر سفر میں رہتا جس کے سبب مجھے لوگوں سے ملنے جلنے کی حاجت رہتی،مجھے اُن کےجو اخلاق اچھےمعلوم ہوتے میں انہیں اپنا لیتا اور جو بُرے ہوتے اُن سے اجتناب کرتا۔

میز بان کے آداب

      میزبان اپنے مہمانوں کی خدمت اور ان کے لئےکشادگی کا اظہار کرے نیز ان سےخندہ پیشانی سے ملے۔ کہا گیا ہے کہ خندہ پیشانی سے ملنا مہمان نوازی سے بہتر ہے۔

کامل مہمان نوازی:

      اہل عرب کہتے ہیں :کامل مہمان  نوازی اول  ملاقات میں مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور کھاتے ہوئے مہمان سے دیر تک گفتگو  کرنا ہے۔

      حضرت سیِّدُناامام اصمعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :میں نے حضرت عیینہ بن وہب دارمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے اچھے اخلاق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا:کیا تم نے عاصم بن وائل کا یہ قول نہیں سنا: 

وَاِنَّا لَنَقْرِیْ الضَّيْفَ قَبْلَ نَزُوْلِهٖ

 

وَنُشْبِعُهٗ بِالْبِشْرِ مِنْ وَجْهٍ ضَاحِكٍ

      ترجمہ:ہم  مہمان کے ٹھہرنے سے پہلے ہی اس کی مہمان نوازی کردیتے ہیں  کہ  ہم  اس سے مسکراتے چہرے کےساتھ مل کر اُسے شکم سیر کردیتے ہیں ۔

مروت کی تکمیل:

      حضرت سیِّدُناامام زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :مروت کی تکمیل میں سے ہے کہ آدمی


 

 اپنے مہمان کی اس طرح خدمت کرے جس طرح ہمارے جدّاعلیٰ حضرت سیِّدُناابراہیم خَلِیْلُاللہعَلَیْہِ السَّلَامنے بنفس نفیس اور اپنے اہل کے ساتھ مل کر مہمانوں کی خدمت کی تھی ۔کیا تم نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا یہ قول نہیں سنا:

وَ امْرَاَتُهٗ قَآىٕمَةٌ (پ۱۲،ھود:۷۱)                                                                                                                                               ترجمۂ کنز الایمان:اور اس کی بی بی کھڑی تھی۔

      مہمان نوازی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ایسی گفتگو کرے جس کے سبب ان کا دل اُس کی طرف  مائل ہو،ان سے پہلے نہ سوئے،ان کی موجودگی میں زمانے سے شکوہ نہ کرے،ان کے آنےپر خوشی کا اظہار کرے اور جانے پر غمگین ہواور ان کے سامنے ایسی بات نہ کرے جس سے یہ خوفزدہ ہوں جیساکہ ایک شخص کابیان ہے کہ مجھے صبح اسحاق بن ابراہیم ظاہری نے ہریسہ کھانے کی دعوت دی تو ہمارے لئے ہریسہ لایا گیا ہم نے اسے کھایا توکھانے کے دوران  پکانے والے کی غفلت کےسبب ایک بال لقمہ میں آگیا۔ اسحاق بن ابراہیم نے خادم کو بلایا اور اس سے سرگوشی کی جسے ہم جان نہ سکےپھر وہ چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ لوٹا تو اس کے ہاتھ میں کپڑے سے ڈھکا  ایک تھال تھا جیسے ہی اس نے تھال سے کپڑا ہٹا یا تو دیکھا کہ اس میں پکانے والے کا ہاتھ حرکت کررہا ہے([44])،یہ دیکھ کر ہم ڈر گئے اور وہاں سے لوٹ آئے ۔

      لہٰذا میزبان پر لازم ہے کہ جس قدر ممکن ہواپنے مہمانوں کے دلوں کی رعایت کرے،ان کے سامنے کسی پر غصہ نہ کرے، ان کی موجودگی میں کوئی ناپسندیدہ کام نہ کرے،ان کے ہوتے ہوئے ناخوش گواری  اور کنجوسی کا اظہار نہ کرےاور ان کے سامنے کسی کو جھڑکے نہ گالی دےبلکہ جس قدر ہوسکے ان کے دل میں خوشی داخل کرے۔

بچے کی موت کی خبر مہمانوں کو نہ دی:

      منقول ہے کہ ایک شریف النفس شخص نے اپنے ساتھیوں کو باغ میں بلایا اور ان کی دعوت کی۔ میزبان کا ایک خوبصورت بیٹاتھا جو دن کی ابتدا میں مہمانوں کی خدمت میں مصروف رہا اور مہمان اس کے ساتھ مانوس ہوگئے۔شام ہوئی تو وہ چھت پر چڑھا اور چھت سے گر کر مرگیا ،باپ نے اس کی ماں کو صبح سے پہلے رونے چلانے پر تین طلاق کی قسم دی۔رات کو مہمانوں نے بچے کے متعلق پوچھا تو میزبان نے کہا:وہ سورہا ہے۔صبح ہوئی اور مہمان جانے لگے تو میزبان نے ان سے کہا:اگر آپ چاہیں تو میرے بیٹے کی نمازہ جنازہ پڑھ لیں کیونکہ وہ کل چھت سے گر کر مرگیا ہے۔مہمانوں نے کہا:تم نے ہمیں خبر کیوں نہ دی۔میزبان نے کہا: عقلمند کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنے مہمانوں کی خوشی اور مزے کو


 

 بے کیف کرے۔مہمان اس کے صبر واستقامت کو دیکھ کر متعجب ہوئے پھر انہوں نے اس کے بچے کی نماز جنازہ پڑھی، دفن میں شریک ہوئے اور وہاں سے روتے ہوئے رخصت ہوئے۔

      میزبان کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں  کو مہمانوں کے جوتوں کی حفاظت کرنے کا کہےاور ان کے ذریعے مہمانوں کی ضروریات پوری کرے اور مہمانوں کو کھانا کھلاتے ہوئے بچوں کے آنے پر زیادہ روک ٹوک نہ کرے  اور اگر کوئی بچہ آجائے تو اسے منع نہ کرے۔

دربان نہ رکھنے کی وجہ:

      ایک شریف حاکم سے کہا گیاکہ کوئی حرج نہیں اگر آپ دربان رکھ لیں ،یوں انجان لوگ آپ کے پاس نہیں آئیں گے اور دشمن سے حفاظت بھی رہے گی۔حاکم نے کہا:ہمارا دشمن ہمارا کھانا کھاتا ہےاور جب تک اللہ عَزَّ  وَجَلَّنہ چاہے تو ہم میں سے کوئی فریب میں نہیں آسکتا۔شریف حاکم کے لئے یہی زیادہ لائق ہے کہ وہ کھانے کے وقت دربان کو دروازے پر کھڑا نہ رکھےکیونکہ کھانا کھاتے وقت دربان کو دروازے پر کھڑا رکھنایہ حاکم کی طرف سے پہلی بُرائی  ہے۔

رات کا کچھ وقت مہمانوں کے ساتھ گزارے:

      رات کو اپنے مہمانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے([45]) ،انہیں اچھی باتیں اور دلچسپ وانوکھے واقعات سناکر مانوس کرے اور مزاح سے بھرپور باتوں کے ذریعے ان کے دلوں کو  اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے (لیکن خلاف شرع اورحدسےزیادہ نہ ہوں )۔

      میزبان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ مہمان کو بیت الخلا  دکھا دے(تاکہ بوقْتِ ضرورت آسانی رہے)۔

کھانے کے ارادے سے دوست کے گھر جانا:

      بزرگانِ دین فرماتے ہیں :اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنے بھائی کے گھر گہری دوستی کے سبب کھانا کھانےکی خواہش سےجائے جیساکہ سرکار مدینہ،قرار قلب وسینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق اور حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے ہمراہ حضرت سیِّدُناابوہَیْثَم بن تِیْہَان اور حضرت سیِّدُناابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی


 

 عَنْہُمَاکے گھر گئے۔([46])

      منقول ہے کہ حضرت سیِّدُناعون بنعبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے360دوست تھے آپ سال بھر ان کے ہاں جاتے۔

دوست کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کھانا:

      اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ا ٓدمی اپنے دوست کے گھر جائے اور اس کی غیر موجودگی میں وہاں بیٹھ کر کھائے([47]) جیساکہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیِّدَتُنا بَریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے گھر داخل ہوئے اور ان کی غیر موجودگی میں ان کے کھانے میں سے کھایا۔([48])

دوست سےاجازت لئےبغیرکھانا:

      مروی ہے کہ ایک بار حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیبازار میں ایک بَقَّال(خشک میوہ فروخت کرنے والے)کے سامان سے کھانے لگےکبھی ایک ٹوکری سے انجیر کھاتے اور کبھی دوسری سے خشک کھجور۔ یہ منظر دیکھ کر ہشام نے کہا:اے ابو سعید!آپ اتنے متقی وپرہیز گار ہوکر بھی دوسرے کا مال بغیر اجازت کے کھا رہے ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:’’اے احمق!میرے سامنے کھانے کے متعلق آیت تلاوت کرو۔‘‘چنانچہ،اُس نے سورۂ نور کی آیت:61’’ اَوْ صَدِیْقِكُمْؕ- ‘‘تک تلاوت کرنے کے بعد پوچھا: اے ابو سعید!صَدِیْقکون ہے؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:جس سے نفس راحت پائے اور دل مطمئن ہو۔

تکلف نہ کرے جو کچھ ہو پیش کردے:

      میزبان کو چاہیئے کہ مہمانوں کی ضیافت میں تاخیر نہ کرے اورکھانے کی  کمی کے سبب مہمانوں کو منع نہ کرے بلکہ جو کچھ پاس ہو اسے مہمانوں کے سامنے پیش کردے۔حضرت سیِّدُناانس بن مالک ودیگر صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے بارے میں مروی ہے کہ وہ خشک روٹی کے ٹکڑے اور رَدِّی کھجوریں مہمان کے سامنے رکھ کر فرماتے:’’ہم نہیں جانتے دونوں


 

میں کس کا گناہ زیادہ ہے اس کا جو پیش کی گئی چیز کو حقیر جانے یا اس کا جو اپنے پاس موجود چیز پیش کرنے کو حقیر جانے۔“

مہمان کی فرمائش پر خوشی کا اظہار:

      حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی جب بغدادمعلّی میں حضرت سیِّدُناامام زعفرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے ہاں تشریف لائے تو حضرت سیِّدُنازعفرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی روزانہ کھانوں کی فہرست بناکر اپنی باندی  کو دے دیا کرتے۔ایک دن حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی نے وہ فہرست لے کر ایک کھانے کا نام اپنے ہاتھ سے اس میں بڑھادیا۔حضرت سیِّدُناامام زعفرانی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ایک کھانا زائد دیکھ کر کہا:میں نے تو اس کا حکم نہیں دیا تھا؟باندی نے حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکی تحریروالی فہرست ان کی طرف بڑھادی۔ جب نظر ان کی تحریرپر پڑی تو بہت خوش ہوئے اور خوشی ومسرت میں باندی کو آزاد کردیا۔ 

مہمان نوازی کے متعلق سلف کا طریقہ :

      سلف صالحین کا یہ طریقہ ہوتا کہ وہ مہمانوں کے آگے مختلف قسم کے کھانے رکھتے تاکہ جسے جو خواہش ہووہ کھائے۔

      سنت یہ ہے کہ مہمان کوگھر کے دروازے تک رخصت کرکے آئے۔میزبان کو چاہئے کہ جب وہ کھانا مہمانوں کے سامنے رکھ دے تو اپنےگھر والوں میں سے کسی کے آنے کا انتظار نہ کرے۔

      کہا گیا ہے کہ تین چیزیں کمزور کردیتی ہیں :(۱)…چراغ جو روشنی نہ دے(۲)…سست قاصد اور (۳)…ایسا دسترخوان جس پر کسی کا انتظار کیا جائے۔

مہمان کی خدمت میزبان پر لازم ہے:

      حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی اپنے استاذِ محترم حضرت سیِّدُناامام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِقکے مہمان بنے تو حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور ان سے کہا: یہ دیکھ کر گھبراؤ نہیں بلکہ اس بات کو ذہن نشین کرلو کہ مہمان کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہے۔

      ایک بلا یہ عام ہے کہ  میزبان اگر مہمان کو دعوت دے اور مہمان اسے قبول کرنے سے کوئی عذر پیش کردے تو میزبان ایک عذر سن کر ہی مہمان کو چھوڑ دیتا ہے اور گویا یہ سمجھتا ہے کہ اسےایک مشکل اور دشوار معاملے سے چھٹکارا مل گیا۔


 

      ایک بخیل سے پوچھا گیا :تنگی کے بعد فراخی کیا ہے؟ کہا:مہمان کا یہ عذرکرنا کہ میں روزے سے ہوں ۔

دل جلانےوالا شہد:

      منقول ہے کہ ایک بخیل کے پاس کسی مہمان نے آنے کی اجازت طلب کی ۔بخیل کے پاس اُس وقت روٹی اور شہد تھا بخیل نےروٹی اٹھالی پھر جب شہد اٹھانے لگا تو مہمان اندر آگیا ۔بخیل نے یہ گمان کرکے کہ مہمان بغیر روٹی کے شہد نہیں کھائے گا مہمان سے کہا:آپ چاہیں تو بغیر روٹی کے شہد کھا سکتے ہیں ۔مہمان نے کہا: ٹھیک ہے اور یہ کہہ کر وہ انگلی سے شہد چاٹنے لگا ۔بخیل نے اُس سے کہا:اے میرے بھائی! ٹھہرجاؤ، بخدا! یہ شہد آپ کا دل جلادے گا۔مہمان نے کہا:ہاں یہ دل تو جلائے گا مگرمیرا نہیں بلکہ آپ کا۔

      ایک شخص کا بیان ہے کہ مجھے ایک مرتبہ شدید بھوک لگی تو میں نے کہاکہ میں فلاں کے گھر جاکر ناشتہ کرتا ہوں ۔ میں وہاں گیا تو دروازے پر صاحب خانہ کے غلام کو دیکھا تو اس سے پوچھا:تمہارا آقا کہاں ہے؟ اُس نے کہا:وہ گھر میں نہیں ۔میں نے اُس سے کہا:میں تمہارے آقا سے شکایت کروں گا کہ تم نے مجھے روٹی کا ایک ٹکڑا دیا ہے([49])۔میری یہ بات سن کر وہ غلام بھاگ نکلا۔

قیمت کم کرنے کا نرالا طریقہ:

      معمولی چیز کو مہمان کے سامنے پیش کرکے اسے بڑا بتا نا بھی بخل ہے۔منقول ہے کہ ایک بخیل نے اپنے دوست کو قسم دے کر کھانے پر بلایا اور اس کے سامنے پنیر اور روٹی پیش کی پھر اس سے کہا: روز روز پنیر نہیں کھایا جاسکتا کیونکہ اس کا ایک رطل تین درہم کا ہے۔مہمان دوست نے کہا:میں اسے ڈیڑھ درہم کا کردوں گا۔ میزبان نے پوچھا:وہ کیسے؟مہمان نے کہا:میں ایک لقمہ پنیر سے کھاؤں گا اور ایک بغیر پنیر کے۔

مہمان کےلئے آداب

      مہمان کو چاہئے کہ وہ پیٹ بھرا ہونے کا عذر نہ کرےبلکہ جس قدر ممکن ہو کھالے۔منقول ہے کہ ایک دیہاتی شخص کے پاس کوئی مہمان آیاتو اس نے اُس کےسامنے کھانا رکھا۔مہمان نے کہا:مجھے بھوک نہیں صرف رات گزارنےکے لئے جگہ چاہئے۔دیہاتی نے کہا:اگر یہ بات ہے تو کسی اور کے مہمان بن جاؤکیونکہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ تم شہروں میں


 

میری تعریف کروگے جبکہ ہمارے باہمی معاملے میں تم میری توہین کررہے ہو ۔

مہمان نوازی کی بدولت راحت ملی:

       ایک تاجر سے منقول ہے کہ حضرت سیِّدُناابو حفص محمد بن قاسم کرخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے میرے تجارتی مال میں سے کچھ خریدنے کے لئے مجھے بلایا،ابھی میں ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھاکہ پھلوں کا ایک طباق لایا گیا تو میں مجلس سے اٹھ کھڑا ہو۔حضرت سیِّدُناکرخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے مجھ سے کہا:اے فلاں !یہ کیا عامیانہ حرکت ہے؟بیٹھو اور بیٹھ کر کھاؤ۔ میں بیٹھ گیا اور بیٹھ کر کھانے لگا کبھی میں ناشپاتی میں سے تھوڑا کھاتا اور کبھی سیب میں سے۔پھر کھانا پیش کیا گیا تو میں نے پیٹ بھر کر کھایا اور لوٹ آیا۔اگلے دن میرے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ حضرت کرخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیاپنےغلام کے ہمراہ  خچر پر سوار میرے ہاں آگئے اور مجھے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی اور کہا:اے فلاں !میں کم کھاتا ہوں کیونکہ مجھےکھانا دیر سے ہضم ہوتا ہے لیکن کل مجھے تمہارے ساتھ کھانا کھاکر راحت ملی ہے،اب میں یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے ہاں روزانہ کھانا کھاؤ۔ تاجر نے کہا:میں روزانہ ان کے ہاں کھانا کھانے لگا اور جب میں نہ ہوتا تو غلام کو میری طلب میں بھیجتے، مجھے ان کی قربت کے سبب کثیر مال حاصل ہوا۔

       ٭مہمان کو چاہیئے کہ وہ میزبان سے سوائے سمت قبلہ اور قضائے حاجت کی جگہ کے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھے۔٭میزبان کے حرم(بیوی)کی طرف نظر نہ کرے۔٭اگر کسی جگہ میزبان اسے بٹھائے اور عزت دے تو وہاں بیٹھنے سے انکار نہ کرے۔٭ہاتھ دھونے سے منع نہ کرے۔٭صاحبِ خانہ کو کوئی حرکت کرتے دیکھے تو منع نہ کرے(جب تک شریعت واجب نہ کرے)۔

مہمانوں کا بُرا رویہ:

       کسی ذہین وفطین شخص کو ایک کریم شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ اپنے مہمانوں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہےتو اس نےکہا :ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ مجھے لگتا ہے کہ وہ اچھے اخلاق والا ہےاور میں اسے بُرے اخلاق والا گمان نہیں کرسکتا ہاں یہ ممکن ہے کہ مہمانوں کے بُرے سلوک کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش نہ آتا ہو،میں حقیقتِ حال کے لئے خود اُس کے پاس جاتا ہوں ۔چنانچہ وہ ذہین شخص کہتا ہےکہ میں اس کے پاس گیا اور جاکر سلام کیا ۔اُس نے کہا:کیا تم میرے مہمان بنوگے؟میں نے کہا:جی ہاں ۔پھر وہ میرے آگے آگے گھر کے دروازے تک گیا اور مجھے داخل


 

ہونے کی اجازت دی۔میں داخل ہوا تو اس نے مجھے اونچی جگہ بیٹھایا میں وہاں بیٹھ گیاپھر اس نے مجھے تکیہ دیا تو میں نے تکیہ سے ٹیک لگالی پھر اس نے میرے لئے شطرنج([50]) نکالی اور کہا:کیا تم شطرنج میں کچھ مہارت رکھتے ہو؟میں نے کہا:ہاں ۔پھر میں اس کے ساتھ شطرنج کھیلنےمیں مصروف ہوگیا۔کھانا آیاتو اس نےاس میں سے اچھی چیزیں میرے آگے کردیں اور میں کھانے لگا پھر جب میں کھانے سے فارغ ہوا تو وہ ایک لوٹا اور طشت لے کرآیا اور میرے ہاتھوں پر پانی ڈالنا چاہا  تو میں نے منع نہ کیاپھر وہ جانے سے پہلے میرے جوتے لے کر آیا تو میں نے اس سےبھی منع نہ کیااور جب میں وہاں سے آنے لگا تو میں نے اس سے کہا:اے میرے بھائی!میں تمہیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّکا واسطہ دیتا ہوں کہ تم میری ایک پریشانی دور کردو۔اس نے کہا:کیا پریشانی ہے؟میں نے اسے اپنے آنے کی وجہ بتائی تو یہ سن کر اُس نے کہا:میرے بارے میں جو تمہیں پتا چلا ہے اس کا سبب مہمانوں کا بُرا سلوک ورویہ  ہےکہ مہمان میرے گھر آتا میں اسے اونچی جگہ بیٹھنے کا کہتا تو وہ انکار کردیتاپھر میں اسے کھانا کھلاتا اور اس میں جو عمدہ چیز ہوتی میں اسے پیش کرتا تو وہ انکار کردیتاپھر کھانے سے فارغ ہونےکے بعد میں اس کے ہاتھ پر پانی ڈالنے لگتا تو وہ قسم دےکر  مجھے روک دیتاپھر میں اسے رخصت کرنے کے لئے ساتھ چلتا تو وہ مجھے اس کی بھی اجازت نہ دیتا یہ دیکھ کر میں اپنے جی میں کہتا :آدمی کی اپنے گھر میں بھی کوئی بات نہیں سنی جارہی۔اسی وجہ سےمیں اس کو بُرا بھلا کہتا اورپٹائی کردیتا([51])۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر36:                                   عفوودرگزر،بردباری،غصہ پینے،معذرت کرنے

                                                اورمعذرت قبول کرنے کا بیان

عفو ودرگزر کے متعلق پانچ فرامینِ باری تعالٰی:

      اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو عفو ودرگزر کایوں حکم ارشاد فرمایا:

﴿1﴾…

فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ(۸۵) (پ۱۴،الحجر:۸۵)                                                                     ترجمۂ کنز الایمان:تو تم اچھی طرح درگزر کرو۔


 

﴿2﴾…

خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ۹،الاعراف:۱۹۹)

ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منھ پھیر لو۔

﴿3﴾…

وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۳۴)

ترجمۂ کنزالایمان:اورغصہ پینےوالےاورلوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہکے محبوب ہیں ۔

﴿4﴾…

وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۠(۴۳)(پ۲۵،الشُورٰی:۴۳)

ترجمۂ کنز الایمان:اور بےشک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں ۔

﴿5﴾…

وَ  اِنْ  تَصْبِرُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  فَاِنَّ  ذٰلِكَ  مِنْ  عَزْمِ  الْاُمُوْرِ(۱۸۶)(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۸۶)

ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر تم صبرکرو اور بچتے رہو تو یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔

اونچے  جنتی محلات:

       حضرت سیِّدُناانس بن مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ رحمتِ کونین، شہنشاہِ دارین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:میں نے معراج کی رات جنت میں اونچے محلات دیکھے تو پوچھا:اے جبریل!یہ کس کے لئے ہیں ؟عرض کی:اُن کے لئے ہیں جو غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں ۔([52])

       حضرت سیِّدُنامُعاذ بن جبلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ جب مجھے رسولِ پاک،صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یمن کی جانب روانہ کیا تو مجھ سے فرمایا:”اے معاذ!حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام مجھے برابر عفو ودرگزر کا کہتے رہے حتّٰی کہ اگرمیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو نہ جانتا ہوتا تو میں یہ گمان کرتا کہ وہ مجھے حدود ترک کرنے کا بھی کہہ دیں گے۔“([53])


 

عفوودرگزر والوں کو ندا:

      حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیبیان کرتے ہیں : جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی یہ ندا کرے گا:جس کا اجر اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے ذمّۂ کرم پر ہے وہ کھڑا ہوجائے تو صرف وہ لوگ کھڑے ہوں گےجو لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں گے۔([54])پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:

فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ- (پ۲۵،:الشُورٰی:۴۰)

ترجمۂ کنز الایمان:تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہپر ہے۔

حلم و درگزر کے متعلق چارفرامینِ شیر خدا:

      حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں :

﴿1﴾…لوگوں میں سب سے زیادہ معاف کرنے کا حق دار وہ ہے جو ان میں سزا دینے پر زیادہ قادر ہو۔

﴿2﴾…جب تو دشمن کو گرفت میں لینے پر قادر ہوجائے تو قابو پانے کے شکرانے میں اُسے معاف کردے۔

﴿3﴾…اہل مروت کی غلطیوں سے درگزر کرو کیونکہ ان کا ہاتھ اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے دست قدرت میں ہوتا ہے جو انہیں بلند کرتا ہے۔

﴿4﴾…بُردبارکواس کی بُردباری کا پہلا عوض یہ ملتا ہے کہ لوگ جاہل کے خلاف اُس کے مددگاربن جاتے ہیں ۔

      مُنْتَصِر بِاللہ نے کہا:معاف کرنے کی لذت انتقام لینے کی لذت سے زیادہ اچھی ہے۔

      ابنِ مُعتز نے کہا:معافی کو جھڑک اور ملامت سے خراب نہ کرو۔

سیِّدُنااحنف بن قیسرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکی بُردباری:

      حضرت سیِّدُنااحنف بن قیسرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبہت زیادہ معاف کرنے والے اور حلم کےپیکر تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :مجھے جس نے بھی تکلیف پہنچائی میں نے اُس کے معاملے کو تین مراتب پر رکھا:(۱)…اگر وہ مجھ سے بڑا ہے تو میں نے اس کی قدرومنزلت پہچان لی(۲)…اگر میرے برابر کا ہے تو اس پر مہربانی کی اور (۳)… اگر چھوٹا ہےتو میں نے اُس سے درگزر کیا۔


 

       حضرت سیِّدُنااحنف بن قیس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہلوگوں میں بُردباری کے حوالے سے مشہور تھے اور اسی وجہ سے آپ اپنےقبیلےکےسرداربنے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتےہیں :میں نےبُردباری کواپنےلئےلوگوں سےبڑھ کرمددگارپایا۔آپ سےکہاگیاکہ آپ نے بُردباری کس سے حاصل کی؟ فرمایا: حضرت سیِّدُناقیس بن عاصمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے۔ ایک مرتبہ میں حضرت سیِّدُناقیس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پاس حاضر ہواتو لوگ آپ کے بھائی کو پکڑ کر لائے جس نے آپ کے بیٹے کو قتل کیا تھا۔آپ نےاُن سے فرمایا: تم نے میرے بھائی کو خوفزدہ کردیا ہے اسےچھوڑ دو اور میرے بیٹے کی ماں کو دیت دے دو۔

کریم کی عادت:

       کہا گیا ہے کہ کریم کی عادت یہ ہے کہ جب وہ قدرت پاتا ہے تو معاف کردیتا ہے اور جب کوئی غلطی دیکھتا ہے تو اُسے چھپاتا ہے۔

       عقل مند کہتے ہیں :جلد غصہ کرنا اور بدلہ لینا کریم کی عادت نہیں ۔اہل عرب کہتے ہیں :بدلہ لینے کے ساتھ سرداری نہیں ہوسکتی۔عقل مند پر لازم ہے کہ جب اُسے سرداری حاصل ہوتو سزا کو اپنی عادت نہ بنائے اور اگر سزا دینا ضروری ہوتو حُدُودُاللہکے علاوہ  سزا دینے میں نرمی کرے۔

خلیفہ ابوجعفر منصور کا معاف کرنا:

       اشتر نخعی کی اولاد میں سے ایک شخص نے خلیفہ ابو جعفرمنصور کے خلاف سازش تیار کی تو اُسے پکڑکر منصور کے سامنے  پیش کیا گیا ۔اُس نے کہا:اے امیر المؤمنین!میرا گناہ آپ کی سزا سے بڑھ کر ہے لیکن آپ کی معافی میرے گناہ سے بڑھ کر ہے۔خلیفہ نے اُسے معاف کردیا اور اسے انعام واکرام سے نوازا۔

خلیفہ بغداد مامون کا معاف کرنا:

       مامون کے پاس ایک شخص کو پیش کیا گیا جس نے کسی جرم کا اِرتکاب کیا تھا ۔مامون نے اُس سے کہا:تم ہی ہو جس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے؟اُس نے کہا:میں ہی وہ ہوں جس نےاپنی جان پرظلم کیاہےاورآپ کے عفوودرگزر پر بھروسا کیا ہے۔مامون نے یہ سن کر اُسے معاف کردیا اور اسے جانے دیا۔

حاکم مصر کی بُردباری:

       ایک مرتبہ حاکم مصر حضرت سیِّدُناعمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہایک سفید خچر پر سوار ہو کر کچھ لوگوں کے پاس سے


 

گزرےتو اُن میں سے ایک شخص نے آہستہ سے اپنے پاس موجود لوگوں سے کہا:کون ہے جو امیر سے اُس کی والدہ کا نام پوچھے اُس کے لئے 10ہزار کا انعام ہے۔ایک شخص نے کہا:میں پوچھتا ہوں ۔ چنانچہ وہ اٹھااورحضرت سیِّدُناعَمْرو بن عاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکےخچر کی لگام پکڑکرکہا:اللہعَزَّ  وَجَلَّامیرکابھلاکرے! عمدہ گھوڑےہونےکےباوجودآپ اپنےاس مخصوص خچرپرہی کیوں سوارہوتےہیں ؟آپ نےفرمایا:میں اپنی سواری سےاس وقت تک نہیں اکتاتاجب تک وہ مجھ سےنہ اکتاجائےاوراپنےرفیق سےاس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک میرارفیق مجھ سےنہ اکتاجائے۔پھراس شخص نےکہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّامیر کا بھلا کرے جہاں تک آپ کےوالدعاص کاتعلق ہےتوہم اُسےاوراس کی(زمانَۂ جاہلیت کی)سرداری کوجانتے ہیں لیکن آپ کی والدہ کون ہیں ؟ فرمایا:میری والدہ نابغہ بنت حرملہ ہیں جو عرب کی کسی لڑائی میں قید کرلی گئیں پھر عکاظ کے بازار میں انہیں بیچ دیا گیا جہاں سے عبداللہبن جدعان نے خرید کر انہیں میرے والد عاص بن وائل کو دے دیا پھر میری ولادت ہوئی یوں میں شریف النسب ہوا۔اگر تمہارے لئے کسی نے کچھ مقرر کیا ہے تو لوٹ جاؤاور جاکر اُس سے لے لو اور سواری کی لگام چھوڑ دو۔

خلیفہ واثق باللہ کی بُردباری:

      خلیفہ واثق باللہ کو اُس کے اخلاق اور بُرد باری کے سبب مامون صغیر کہا جاتا تھا۔ایک مرتبہ مروان بن محمد اُموی کی بیٹی اس کے پاس آئی اور کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالْاَمِیْر!(اے امیر!آپ پر سلام ہو)خلیفہ نے کہا: وَعَلَیْکِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔بنتِ مروان نے کہا:ہم پر عدل وانصاف کیجئے۔خلیفہ نے کہا:اگر میں نے عدل سے کام لیا تو تمہارے خاندان کا کوئی فرد نہیں بچے گا کیونکہ تم لوگوں نے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے لڑائی کی اور انہیں ان کے حق سے روکا۔حضرت سیِّدُناامام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو زہر دیا اوران کے ساتھ وعدہ خلافی کی ۔ اگر میں نے عدل سے کام لیا تو تم میں سے کوئی باقی نہیں بچے گا۔بنتِ مروان نے کہا:ہمیں اپنی مُعافی سے حصہ دیجئے۔خلیفہ نے کہا:ہاں میں یہ کرسکتا ہوں ۔پھر خلیفہ نے اس کے اموال واپس کرنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ خوب حُسن سلوک سے پیش آیا۔

سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہکا حلم:

      حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبُردباری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور اس حوالے سے آپ کے واقعات بہت مشہور ہیں ۔آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہخود فرماتے ہیں :میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ زمین پر کوئی جہالت سے کام لے


 

 اور میرا حلم اُس پر حاوی نہ ہواورکوئی جرم کرے اور میرا عفوودرگزر اُس پر غالب  نہ ہو اور کسی کو کوئی حاجت ہو اور میری سخاوت اُسے پورا نہ کرسکے۔

      ایک شخص نے حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو کوئی نازیبا بات کہی توآپ نے بُردباری سے کام لیتے ہوئے فرمایا:یہ بات میرے والد حضرت سفیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسنتے تو بڑا تعجب کرتے۔

سیِّدُناامیر معاویہرَضِیَ اللہُ عَنْہکا معافی چاہنا:

      ایک مرتبہ حضرت سیِّدُناعقیل بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکسی سبب سے حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے ناراض ہوگئے تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے معذرت کرتے ہوئے اُن کی طرف یہ لکھا:یہ خط معاویہ بن سفیان کی طرف سے عقیل بن ابو طالب کی طرف ہے ۔اے بنو عبد المطلب! تم قصی کی فروع ،عبد مناف کا جو ہراور ہاشم کا خلاصہ ہو۔کہاں ہیں تمہارے مضبوط اخلاق اور پختہ عقلیں ؟بخدا! جومعاملہ ہوا اُس میں امیرالمؤمنین نے بُرا کیااور اب وہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔حضرت سیِّدُناعقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے جواباً یہ دو اشعار لکھ بھیجے:

صَدَقْتَ وَقُلْتَ حَقّاً غَیْرَ اَنِّیْ                                                                                                          اَرَی اَنْ لَا اَرَاکَ وَلَا تَرَانِیْ

وَلَسْتُ اَقُوْلُ سُوْءاً فِیْ صَدِیْقِیْ                                                                                                     وَلَکِنَّنِیْ اَصُدُّ اِذَا جَفَانِیْ

      ترجمہ:آپ نے سچ کہا اور درست بات کہی لیکن اب میں یہ چاہتا ہوں کہ نہ میں آپ کو دیکھوں اورنہ  آپ مجھے دیکھیں ۔میں اپنے دوست کو بُرا نہیں کہتا لیکن جب میرا دوست بے وفائی برتے تو میں اُس سےمنہ پھیرلیتاہوں ۔

       یہ سن کر حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اُن کی طرف سوار ہوکر گئے اور اُن سےشفقت ونرمی کے ساتھ معاف کردینے کا مطالبہ کرتے رہے حتّٰی کہ انہوں نے معاف کردیا۔

سیِّدُناامیر معاویہرَضِیَ اللہُ عَنْہاور زُرْقاء بنْتِ عَدِی:

      منقول ہے کہ جب مکمل طور پر اُمورِ خلافت حضرت سیِّدُناامیر معاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے سپرد ہوگئے اور لوگ آپ کی خلافت پر متفق ہوگئے تو ایک رات آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے ہم نشینوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ جنگ صفین کے واقعات کے متعلق  گفتگو ہونے لگی۔اسی دوران کوفہ کی ایک عورت زرقاء بنت عدی کا ذکر آیا تو لوگوں نے کہا:یہ وہی عورت ہے جو اپنے خطاب کے ذریعے جنگ صفین میں لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑکایا کرتی اور حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی


 

کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکا ساتھ دینے کا کہتی ۔یہ ایسا فصیح وبلیغ خطاب کرتی کہ اگر بزدل سن جاتا تو لڑنے کے لئے تیار ہوجاتا،پیٹھ پھیرنے والا سن لیتا تو سامنے آکر مقابلہ کرتا،لڑائی سے کنارہ کشی کرنے والا سنتا تو جنگ کے لئے تیار ہوجاتا، لڑائی سے بھاگنے والا سنتا تو واپس پلٹ آتا اور شش وپنچ میں پڑنے والا سنتا تو قرار پکڑتا۔حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا:تم میں سے کس کو اُس کا کلام یاد ہے؟لوگوں نے کہا:ہم سب کویاد ہے۔آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے پوچھا: تم مجھے اس کے متعلق کیا مشورہ دیتے ہو۔لوگوں نے کہا:ہم اس کے قتل کا مشورہ دیتے ہیں اور وہ اسی لائق ہے۔آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا:تم لوگوں نے بُرا مشورہ دیا اور قبیح بات کی،کیایہ اچھا ہے کہ میرے متعلق یہ بات مشہور ہوجائے کہ میں کامیاب ہونے اور قدرت حاصل کرنے کے بعد ایک بیوہ عورت کو قتل کردوں ،اگر میں ایسا کروں تو بدبخت ہوں گا اوربخدا! میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنے منشی کو بلایا اور کوفہ کے گورنر کی طرف یہ خط لکھا کہ زرقاء بنت عدی کو اس کے قبیلے اورقوم کے شہسواروں کے ساتھ سواری پر بٹھا کر میرے پاس بھیج دو۔گورنر کوفہ کے پاس جب خط پہنچا تو اُس نے اس کے مطابق عمل کیا۔جب زرقاء حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس پہنچیں تو آپ نے کہا:مرحبا اور خوش آمدید۔اے خالہ !آپ کیسی ہیں اور آپ کا سفر کیسا رہا؟ زرقاء نے کہا:اچھا رہا۔

      حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا:کیا تم جانتی ہو کہ تمہیں میرے پاس کیوں بھیجا گیا۔ زرقاء نے کہا: عالِمُ الغیب اللہسُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰیہے۔فرمایا:کیا تم وہی ہو جوجنگ صفین میں سرخ اونٹ پر سوار صفوں کے درمیان لڑائی کی آگ بھڑکارہی تھی اور میرے خلاف لڑنے پر لوگوں کو ابھار رہی تھی۔زرقاء نے کہا:ہاں ۔فرمایا:تم نے ایسا کیوں کیا؟زرقاء نے کہا:قیادت کرنے والے کا انتقال ہوچکا ہے اور معاملہ ختم ہوگیا ہے ۔زمانہ بدلتا رہتا ہے اور جو غوروفکر کرتا ہے وہ بصیرت حاصل کرتا ہے اور ایک کے بعد دوسرا معاملہ ہوتارہتا ہے۔فرمایا:تم نے سچ کہا۔پھر فرمایا:میں نے تمہیں جنگ صفین میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے:”سورج کے ہوتے ہوئے چراغ کی روشنی کی کوئی حیثیت نہیں اور چاند کے ہوتے ہوئے ستاروں کی کوئی چمک نہیں ،خچر گھوڑے سے سبقت نہیں کرسکتا اور لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔سنو!جو ہم سے راہنمائی چاہے گا ہم اُسے راہنمائی دیں گے اور جوہم سے پوچھے گا ہم اُسے خبر دیں گے۔بے شک حق وہ ہے کہ بھٹکا ہوا شخص اگر اُس کی طلب کرے گا تو درستی پائے گا۔اے مہاجرین وانصار! صبر کا دامن تھام لوکہ عدل وانصاف کا کلمہ ظاہر ہوچکا ہے۔ اترو میدان جنگ میں اور صبر کو لازم پکڑو۔سنو!عورت کا خضاب مہندی ہے اور مردوں کا خضاب خون ہے ۔صبر کا انجام اچھا ہے لہٰذا جنگ


 

کی طرف جاؤ اورپیٹھ نہ پھیرناکہ یہ وہ دن ہے جس کے بعد کوئی دن نہیں ۔“یہ کہہ کر حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:کیا تم نے ایسا نہیں کہا اور لوگوں کو میرے خلاف بھڑکایا نہیں ؟زُرْقاء نے کہا:یہ معاملہ گزر چکا۔ فرمایا: تم میرے خلاف ہرخون میں شریک ہو۔ زُرْقاء نے کہا:اے امیرالمؤمنین اللہ عَزَّ  وَجَلَّآپ کو اچھی خبر دےاور آپ کو سلامت رکھے، آپ جیسا شخص بھلائی کی خبردیتا ہے اور اپنے ہم نشیں کو خوش کرتا ہے۔فرمایا:اپنی حاجت بیان کرو تاکہ میں اُسے پورا کروں ۔

      زرقاء نے کہا:میں نے قسم اٹھائی ہے کہ حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی شہادت کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں  گی۔فرمایا:مجھے بعض لوگوں نے تمہارے قتل کا مشورہ دیا ہے؟زرقاء نے کہا:یہ گھٹیا مشورہ ہے  اور اگر آپ نے ان کی اطاعت کی تو آپ بھی بُرائی میں شریک ہیں ۔ فرمایا:میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا بلکہ میں تمہیں معاف کرتاہوں اور تمہارے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہوں ۔زرقاء نے کہا:اے امیرالمؤمنین!آپ جیسے لوگوں سے کرم کی امید ہوتی ہے جو قدرت پاتے ہیں تو معاف کرتے ہیں اور بُرائی صادر ہونے پر درگزر سے کام لیتے ہیں اور بن مانگے عطا کرتے ہیں ۔یہ سُن کر حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے انہیں خلعت اور مال سے نوازا اورایک  زمین عطا کی جس کی سالانہ آمدنی 12ہزار درہم تھی اور انہیں ان کے وطن کی طرف صحیح وسالم لوٹادیانیز گورنر کوفہ کو لکھا کہ ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا۔

سیِّدُناامیر معاویہ اور ابن زبیررَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا:

      منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عبداللہبن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی ایک زمین تھی جس میں آپ کےغلام کام کیا کرتے تھےاورآپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی زمین سے متصل حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی زمین تھی جہاں ان کے غلام کام کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا ایک غلام حضرت سیِّدُنا عبداللہبن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی زمین میں زبردستی گھس آیا تو آپ نے ایک خط حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی طرف لکھا جس میں یہ تحریرکیا:”آپ کاغلام میری زمین میں گھس آیاہےاسےمنع کیجئےورنہ آپ مجھےجانتے ہیں ۔وَالسَّلَام۔“حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے خط پڑھ کر اپنےبیٹےیزیدکودیا۔یزیدنےجب یہ خط پڑھ لیاتوحضرت سیِّدُناامیر معاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اُس سےکہا:تمہاری کیا رائے ہے؟یزید نے کہا:میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کی طرف ایک بڑالشکر بھیجیں جو ان کا سر کاٹ کر آپ کے پاس لے آئے۔حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا:اس کی جگہ اچھا معاملہ بھی تو


 

 ہوسکتا ہے۔یہ کہہ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک صفحہ لیا اور خط کا جواب یوں لکھا:”اے حواریِ رسول کے صاحبزادے! غلام نے جو کیا مجھے اس کا افسوس ہے اور دنیا کی میرے نزدیک کوئی قدروقیمت نہیں ۔میں اپنی زمین آپ کو دیتا ہوں لہٰذا آپ اسے اپنی زمین میں شامل کرلیں اور اس میں جو غلام اور اموال ہیں یہ بھی آپ کے ہوئے۔وَالسَّلَام۔“یہ خط جب حضرت سیِّدُنا عبداللہبن زبیر کے پاس پہنچا توآپ نے اس کے جواب میں لکھا:”میں نے امیرالمؤمنین کا خط پڑھا ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّان کی عمر طویل کرےاور ان جیسی شخصیت جب تک قریش میں موجود ہے  قریش کی رائے بےکار نہیں ہوسکتی۔“یہ خط جب حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس پہنچا تو آپ نے اس خط کو پڑھ کر یزید کو دیا۔یزید نے پڑھا تو وہ بہت خوش ہوا۔حضرت سیِّدُناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےاُس سےکہا:جو معاف کرتاہے وہ سرداری کرتاہے،جو بُرد باری کرتا ہے وہ عظیم ہوتا ہے اور جو درگزر کرتا ہے لوگوں کے دل اُس کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔

خلیفہ منصور کی بُردباری:

      خلیفہ ابوجعفرمنصور کے وزیر ربیع بن یونس کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص سے بڑھ کر بہادر اور مضبوط دل کا شخص کوئی نہیں دیکھا۔کسی نے اس کی چغلی دربارِ خلافت میں کھائی کہ اس کے پاس بنوامیہ کی امانتیں اور اموال ہیں تو خلیفہ نے مجھے اس کے پیش کرنےکا حکم دیا ۔میں اسے لے کر خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوگیا۔خلیفہ نے اُس سے کہا:ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے پاس بنواُمیہ کی امانتیں اور اموال ہیں لہٰذا ان میں سے جو کچھ ہے اُسے ہمارے پاس لے آؤ اور کچھ چھپانا نہیں ۔اُس شخص نے کہا:اے امیر المؤمنین!کیا آپ بنوامیہ کے وارث ہیں ؟خلیفہ نے کہا:نہیں ۔اُس نے کہا:کیا آپ بنو امیہ کے اموال وغیرہ کےوصی ہیں ۔ خلیفہ نے کہا:نہیں ۔اُس نے کہا:پھر میں آپ کو کیوں ان کے اموال اور امانتیں دوں ؟یہ سن کر خلیفہ منصور نے سر جھکالیا اور کچھ دیر سوچنے لگاپھر کہا:بنو امیہ نے مسلمانوں پر ظلم کرکے ان اموال کو جمع کیا اور میں مسلمانوں کا وکیل ہو نے کی حیثیت سے تم سے مطالبہ کررہاہوں ۔میں یہ اموال تم سے لے کر بیتُ المال میں جمع کردوں گا۔اُس نے کہا:اے امیرالمؤمنین!آپ اس بات پرگواہ پیش کریں کہ بنوامیہ کے جواموال میرے پاس ہیں یہ انہوں نے ظلم اور خیانت سےجمع کئے ہیں کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اموال مسلمانوں کے نہ ہوں ۔خلیفہ نے یہ سنا تو کچھ دیر کے لئے سر جھکا لیا پھر سراٹھا کرکہا:اے ربیع!میرا خیال ہے کہ اس شخص نے سچ کہا ہے اور اس پر کوئی چیز لازم نہیں اور ہم اسے معاف کرتے ہیں ۔پھر خلیفہ نے اُس شخص سے کہا: کیا تمہاری کوئی حاجت ہے؟اُس نے کہا:اے امیرالمؤمنین!جس شخص نے میرے


 

خلاف چغلی لگائی ہے اُسے میرے سامنے لے آئیں ۔بخدا!میرے پاس بنوامیہ کا کوئی مال ہے نہ امانت اور جو کچھ میں نے آپ سے کہا ہے یہ میں نے اپنی خلاصی اور بچاؤ کے لئے کیا ہے۔خلیفہ نے کہا:اے ربیع!اُس چغلخور کو لے آؤ۔جب وہ آیا تو اُس شخص نے اُسے دیکھ کر کہا:یہ تو میرا غلام ہے جو میرے تین ہزار درہم دھوکے سے لے کر بھاگ گیا تھا اور مجھ سے چھپتا پھر رہا ہے،اسی نے میری آپ کے پاس چغلی لگائی ہے۔خلیفہ نے جب اُس چغلخورپر سختی کی اور اسے ڈرایا دھمکایا تو اس نے جھوٹ بولنے اور چغلی کا اقرار کیا۔ خلیفہ نے اُس شخص سے کہا:تم اس چغلخور کو معاف کردو ۔اُس شخص نے کہا:میں نے اسے معاف کیا اور اسے آزاد بھی کیا اور میرے تین ہزار درہم جو اس کے پاس ہیں یہ میری طرف سے اس کے لئے تحفہ ہیں اور اس کے ساتھ مزید تین ہزار درہم اور دیتا ہوں ۔خلیفہ نے اُس شخص سے کہا:مزید دینے کی کیا ضرورت ہے؟اُس شخص نے کہا:اے امیرالمؤمنین!یہ سب کچھ آپ سے کلام کرنے اور آپ کے مجھے معاف کرنے کے مقابلے میں کم ہے۔یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا اور خلیفہ منصور اُس سے تعجب کرنے لگا اور جب اُس کا ذکر کرتا تو کہتا :اے ربیع!میں نے اس جیسا شخص نہیں دیکھا۔

ہارون رشید کا حمید طوسی کو معاف کرنا:

      ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید کسی بات پرحمید طوسی سے سخت ناراض ہوگیا توہارون نے اسے قتل کرنے کے لئے چمڑے کا فرش اور تلوار منگائی۔یہ دیکھ کر حمید طوسی رونے لگا تو خلیفہ نے اُس سے کہا:کیوں روتے ہو؟ حمید طوسی نے کہا:بخدا!اے امیرالمؤمنین!میں موت کے خوف سے نہیں رو رہا یقیناً موت تو ضرور آئے گی لیکن میں اس بات پر افسوس کرکے رو رہاہوں کہ میں دنیا سے جارہا ہوں اور امیر المؤمنین مجھ سے ناراض ہیں ۔ ہارون نے یہ سنا تو ہنسنے لگا اور اسے معاف کردیا۔

زیاد کا ایک شخص کو معاف کرنا:

      زیاد نے ایک مرتبہ ایک شخص کی گردن اڑانے کا حکم دیا تو اُس نے زیاد سے کہا:اے امیر!میرا آپ کے ذمہ ایک حق ہے۔زیادنے کہا:وہ کیا ہے۔اُس شخص نے کہا:میرے والد بصرہ میں آپ کے پڑوسی تھے۔ زیاد نے کہا:تمہارے والد کون ہیں ؟اس شخص نے کہا:اے میرے آقا!میں اپنا نام بھول جاتا ہوں تو اپنے والد کا نام کیسے یاد رکھوں ۔زیاد نے یہ سنا تو اپنا منہ آستین میں دے کر ہنسنے لگااور اسے معاف کردیا۔

حَجاج کا معاف کرنا:

      حجاج نے ایک شخص کی گردن اڑانے کا حکم دیا تو اُس شخص نے کہا:میں اُس ذات کے طفیل تجھ سے معافی مانگتا ہوں


 

جس کے سامنے کل تو مجھ سے بھی زیادہ ذلیل ہوکر کھڑا ہوگا۔یہ سن کر حجاج نے اُسے معاف کردیا۔

      جب حجاج نے ابن اشعث کا ساتھ دینے والے لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا تو بنوتمیم کا ایک شخص قتل کے لئے لایاگیا۔ اُس نے حجاج سے کہا:اے حجاج!اگر ہم نے جرم کرکے بُرا کیاہے تو تم بھلائی کرکے معاف کرسکتے ہو۔ حجاج نے یہ سن کر کہا:کیا مقتولین میں سے کوئی ایسا اچھا کلام نہیں کرسکتا تھا۔یہ کہہ کر حجاج نے اُسے معاف کردیا اور جانے دیا۔

      ابراہیم بن مہدی کہتے ہیں :مامون کا مجھے اُس کے خلاف لشکر کشی کے باوجود معاف کرنا قربت الٰہی اور صلہ رحمی کے لئے نہ تھابلکہ اُس کی عادت میں معاف کرنا شامل تھا اور وہ میرے قتل سے اس عادت کو خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔

      فضل بَرْمَکی سے کسی نے پوچھا :بہادری کیا ہے؟کہا:اپنے بھائیوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا۔

      بعض آسمانی کتابوں میں ہے:زیادہ معاف کرنا عمر میں اضافہ کرتا ہے۔اس کی اصل قرآن پاک میں یوں ہے:

وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِؕ- (پ۱۳،الرعد:۱۷)           ترجمۂ کنزالایمان:اوروہ جولوگوں کےکام آئےزمین میں رہتا ہے۔

ہارون رشیدکا یزید بن مزید سے درگزر کرنا:

      یزید بن مزید سے منقول ہےکہ ایک رات مجھے خلیفہ ہارون رشید نے طلب کیا تو مجھے خوف ہوا۔اُس نے مجھ سے کہاکیا تم نے ہی یہ شعر کہا ہے:

اَنَا رُکْنُ الدَّوْلَةِ وَالثَّائِرُ لَھَا                                                                                                     وَالضَّارِبُ اَعْنَاقَ بُغَاِتھَا

      ترجمہ:میں مملکت کی بنیاد ہوں اور اس کے لئے خون کا پیاسا ہوں اور اس کے باغیوں  کی گردنیں اڑانے والا ہوں ۔

      تمہاری ماں نہ رہے کون مملکت کی بنیاد ہے اور کون اس کے لئے خون کا پیاسا ہے؟میں نے کہا:میں نےایسا نہیں کہا بلکہ میں یہ کہتا ہوں :”میں مملکت کا غلام ہوں اور اس کے لئے لڑنے کےلئے تیار ہوں ۔“یہ سن کر خلیفہ ہارون نے اپنا سر جھکالیا اور جب سر اٹھایا تو اس کا غصہ ختم ہوگیا تھا تو میں نے کہا:

خَلَافَةُ اللهِ فِىْ هَارُوْنَ ثَابِتَةٌ                                                                                                   وَ ِفىْ بَنِيْهِ اِلٰى اَنْ يُّنْفَخَ الصُّوْرُ

      ترجمہ: ہارون اور اس کی اولاد میں خلافت الٰہی صور پھونکے جانے تک باقی رہے ۔

      خلیفہ ہارون نے کہا:اے فضل!اسے صبح ہونے سے پہلے دولاکھ درہم دےدو۔


 

مُصْعَب بن زُبَیر کا معاف کرنا:

       مُصْعَب بن زُبَیْر نے ایک شخص کے قتل کا حکم دیا تو اُس نے کہا:وہ کیسا منظر ہوگا جب میں تیری خوبصورت صورت اور روشن چہرے کو پکڑے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑا ہوں گا اور یہ کہوں گا:اے میرے رب!مصعب سے پوچھ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟مصعب نے کہا:اسے چھوڑ دو ۔

عبدالملک کا ایک شخص کو معاف کرنا:

       ایک مرتبہ عبد الملک بن مروان کسی شخص پر بہت زیادہ ناراض ہوگیا تو کہا:بخدا!اگر وہ مجھے مل گیاتو میں اُس کے ساتھ ایسا ایسا سلوک کروں گا۔پھر جب وہ شخص عبدالملک کے سامنے پیش ہوا تو حضرت سیِّدُنا رَجاء بن حَیوہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:اے امیرالمؤمنین!آپ جیسا چاہتے تھے اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے ایسا کردیا اب آپ وہ کیجئے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّکو پسند ہے۔عبدالملک نے اُسے معاف کردیا اور اس کے لئے انعام کا حکم دیا۔

       حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :بہترین چادر جسے انسان زیب تن کرے وہ بُردباری کی چادر ہے۔

عالم کی خاموشی شیطان پرگراں :

       حضرت سیِّدُنامحمد بن عَجلان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :شیطان پر بُردبار عالِم سے بڑھ کر کوئی بھاری نہیں کہ اگر وہ کلام کرتا ہے تو علمی گفتگو کرتا ہےاور اگر وہ خاموش رہتا ہے تو اس کی خاموشی بُردباری کے ساتھ ہوتی ہے۔شیطان کہتا ہے:اس کی خاموشی مجھ پر اس کے کلام کرنے سے زیادہ شدید ہے۔

       امام زین العابدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْنفرماتے ہیں :بندہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے غضب وجلال کے قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ غصہ کرتا ہے۔

       تورات میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّفرماتا ہے:”مجھے اپنے غضب میں یاد رکھ میں تجھے اپنے غضب میں یاد رکھوں گا اور تجھےتباہ وبرباد نہیں کروں گااور جب تیرے ساتھ ظلم ہو تو صبر کر اور میری مدد پر راضی رہ کہ میری مدد تیرے لئےاپنی  مدد سے بہتر ہے۔“

غصہ کے وقت دعا دیتے:

       حضرت سیِّدُناابنِ عونرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب کسی پر غضب ناک ہوتے تو اُس سے کہتے:اللہ عَزَّ  وَجَلَّتجھے برکت


 

 دے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی ایک اونٹنی تھی جو آپ کو بہت پسند تھی،ایک دن غلام نے اسے مارا تو اس کی آنکھ پھوٹ گئی۔لوگوں نے کہا:آج کے دن ضرور حضرت سیِّدُناابن عون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہغصہ ہوں گے۔ مگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے غلام سے کہا:میں نے تجھے معاف کیا۔

غضب الٰہی سے بچانے والی شے:

       ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:کون سی شے سب سے زیادہ سخت ہے؟حضورنبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّکا غضب۔اُس نے عرض کی:مجھے اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے غضب سے کیا چیز بچا سکتی ہے؟ارشاد فرمایا:غصہ نہ کرنا۔([55])

       کہا گیا ہے کہ جو اپنے غصے پر عمل کرتا ہے وہ اپنی بصیرت ضائع کرتا ہے۔

       حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کی حالت میں اپنے نفس پر قابو رکھے۔

       حضرت سیِّدُناابن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں :آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اُس سے کہا جائےاللہ عَزَّ  وَجَلَّسے ڈرتو وہ غصہ ہوجائے۔ 

غصہ کی حالت میں سزا نہ دینا:

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر  بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزنے اپنے ایک گورنر کی طرف لکھا:غصہ کی حالت میں کسی کو سزا نہ دینااوراگر کسی مجرم پر تجھے غصہ آجائے تو اسے قید کردینا اور جب تیرا غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو اسے نکال کر اس کے جرم کے مطابق اُسے سزا دینااور (حدود کے علاوہ)سزا دینے میں 15کوڑوں سے تجاوز نہ کرنا۔

       حضرت سیِّدُناابنِ مبارکرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہسے کہا گیاکہ ایک جملے میں حُسنِ اخلاق کو بیان کردیں ۔ فرمایا:غصہ نہ کرو۔

حکایت:غصہ بھگانے کی انوکھی ترکیب

       حضرت سیِّدُنامُعْتَمِر بن سلیمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّانفرماتے ہیں :تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جسے بہت غصہ آتا تھا ۔اُس نے تین کاغذ لکھے اور آدمیوں کو دے دیئے،پہلے سے کہا:جب مجھے غصہ آئے تو یہ کاغذ مجھے دے دینا ،دوسرے


 

سے کہا:جب میرا غصہ تھم جائے تو یہ کاغذ مجھے دے دینا اور تیسرے سے کہا:جب میرا غصہ بالکل چلا جائے تو یہ کاغذ مجھے دے دینا۔ایک دن اُسے بہت زیادہ غصہ آیا تو اسے پہلا کاغذ دیا گیا جس میں لکھا تھا :تیری اور تیرے اس غصے کی کیا حیثیت ہے؟تو خدا نہیں بلکہ ایک انسان ہے،عنقریب تیرے جسم کا ایک حصہ دوسرے کو کھا ئے گا۔یہ پڑھ کر اُس کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوگیا۔پھر اسے دوسرا کاغذ دیا گیا جس میں لکھا تھا:تم زمین والوں پر رحم کرو عرش والا تم پر رحم کرے گا۔پھر تیسرا کاغذ دیا گیا جس میں لکھا تھا: لوگوں کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے حق کے ساتھ پکڑوان کی اصلاح اسی بات سے ہوگی۔

بُردباری غصےمیں پتا چلتی ہے:

       حضرت سیِّدُناامام شعبیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس شعر کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے:

لَيْسَتِ الْاَحْلَامُ فِي حِيْنِ الرِّضَا                                                                                                                   اِنَّمَا الْاَحْلَامُ فِيْ وَقْتِ الْغَضَبِ

       ترجمہ:بُردباری خوشی کی حالت میں نہیں ہوتی وہ تو غصے کے وقت پتا چلتی ہے۔

غصہ پینے کی فضیلت:

       رسولِ اکرم ،شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:جس نے غصہ نکالنے پر قدرت کے باوجود غصہ پی لیا بروزِ قیامت اللہ عَزَّ  وَجَلَّاسے مخلوق کے سامنے بلاکر اختیار دے گا کہ وہ حور عین میں سے جسے چاہے اختیار کرے۔([56])ایک روایت میں ہے کہ ”اللہ عَزَّ  وَجَلَّاس کے دل کو امن وایمان سے بھر دے گا۔“([57])

       ایک قریشی عورت کے غلام نے کوئی جرم کیا تو وہ کوڑا لے کر اُس کے پیچھے چلی آئی،جب اس کے قریب پہنچی تو کوڑا پھینک کر کہنے لگی:تقوٰی کسی کے غصے کو ختم کئے بغیر نہیں چھوڑتا۔

ربّ تعالٰی کو نرمی پسند ہے:

       اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں :یہودیوں کا ایک گروہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اَلسَّامُ عَلَیْکَ یَامُحَمَّد(اے محمد!تم پر موت ہو)کہا۔حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جواباًفرمایا:عَلَیْکُمْ(تم پربھی)۔فرماتی ہیں :میں نے انہیں کہا:عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ(تم پر موت ولعنت  ہو)۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد


 

 فرمایا:اے عائشہ!اللہ عَزَّ  وَجَلَّہر چیز میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ میں نے عرض کی: کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا؟ ارشاد فرمایا:میں نے جواب میں عَلَیْکُمْ کہہ دیا تھا۔([58])

       ایک شخص دوسرے کو گالیاں دینے لگا تو اُس نے کہا:ہمارے بارے میں اتنی زبان درازی نہ کرو ،صلح کی گنجائش بھی باقی رکھوکیونکہ جو ہمارے معاملے میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی نافرمانی کا مرتکب ہو ہم اسے صرف یہ بدلہ دے سکتے ہیں کہ اس کے معاملے میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی فرمانبرداری ہی کریں ۔

قرآن کی آیات سے غصہ ٹھنڈا ہوگیا:

       منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا امام جعفر صادق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق کاایک غلام ان کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھااسی دوران اُس کے ہاتھوں سے لوٹا چھوٹ کر طشت میں جاگرا جس سے پانی کے چھینٹے  اڑ کر امام جعفر صادق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِقکے چہرے پر آئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے غصے سے اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے کہا:اے میرے آقا!

وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۳۴)                                                                                                                              ترجمۂ کنز الایمان:اور غصہ پینے والے ۔

       حضرت سیِّدُناامام جعفر صادق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِقنے فرمایا:میں نے اپنا غصہ پی لیا۔غلام نے کہا:

وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۳۴)                                                                                                    ترجمۂ کنز الایمان: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ۔

فرمایا:میں نے تجھے معاف کیا۔غلام نے کہا:

وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۳۴)                                                                                  ترجمۂ کنز الایمان: اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ۔

       فرمایا:میں نے تجھے اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی رضا کے لئے آزاد  کیا۔

فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہکی کمال بُردباری:

       امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ایک شخص کو نشے میں دیکھا تو ارادہ کیا  کہ پکڑکر اُسے سزا دیں ۔اُس نے آپ کو گالی دے دی تو آپ لوٹ آئے۔آپ سے کہا گیا: حضور!یہ کیا ماجرا ہے کہ جب اُس نے آپ کو گالی دی تو آپ نے اُسے چھوڑ دیا۔فرمایا: میں نے اُسے اس لئے چھوڑا کہ اُس نے مجھے غصہ دلایا تھا اور اگر میں اُسے سزا دیتا تو یہ میرے نفس کا انتقام ہوتا اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کسی مسلمان کواپنی ذات کےلئےسزادوں ۔


 

اونچے رتبے تک رسائی کا نسخہ:

      ہارون رشید نے ایک اعرابی سے کہا:کس سبب سے تم میں حضرت ہِشام بن عُرْوَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اتنے اونچے مرتبے تک پہنچے؟اُس نے کہا:ہمارے بے وقوفوں کے ساتھ بُردباری،ہماری غلطیوں سے درگزر اور ہمارے کمزوروں پر شفقت کے سبب۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکسی کو کوئی چیز دیتے تو احسان نہ جتاتے ،غصہ  کرتے تو کینہ نہ رکھتےاورآپ کشادہ دل اور سخی وفیاض تھے اور ذہین وتیز فہم تھے۔ہارون رشید نے یہ سن کر اپنے قریب موجود ایک شکاری کتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:اگر یہ عادتیں اس میں ہوتیں تو یہ بھی سرداری کے لائق بن جاتا۔

      معن بن زائدہ سے کسی نے کہا:کیا جرم پر مؤاخذہ کرنا سرداری ہے؟کہا:نہیں لیکن جس کا کوئی سفارشی اور مددگار نہ ہواور اس کا جرم بھی بڑا ہو ایسے شخص سے درگزر کرنا کیا ہی خوب ہے!!!۔

      حضرت سیِّدُنااَحْنَف بن قَیْسرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے بیٹے سے کہا:اے میرے بیٹے!اگر تو کسی سے بھائی چارہ رکھنا چاہتا ہے تو اُسے غصہ دلاپھر اگر وہ غصے میں بھی تیرے ساتھ انصاف کرتا ہے تو ٹھیک ہےورنہ تو اُس سے بچ۔

      حضرت سیِّدُنااحنف بن قیس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :اَوغاد کی رائے سے بچو۔لوگوں نے عرض کی:یہ اَوغاد کون ہیں ؟فرمایا:جو درگزر اور معاف کرنے کو عار سمجھتے ہیں ۔

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے کسی نے کہا:میں آپ کو ایسی گالی دوں گا جو آپ کے ساتھ قبر میں جائے گی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:بخدا!وہ میرے ساتھ نہیں تمہارے ساتھ جائے گی۔

گالی دینے والے سے حُسن سلوک:

      ایک شخص نے حضرت سیِّدُنااَحنف بن قیس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو ساتھ چلتے ہوئے گالی دی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب اپنے گھر کے قریب پہنچنے لگے تو اُس سے کہا:کچھ اور کہنا چاہتے ہو تو یہیں کہہ دو کہ مجھے ڈر ہے کہیں میرے محلے کے لڑکے تمہیں مجھے گالی دیتا ہوئے سن کر تکلیف نہ دیں اور میں اپنی ذات کے لئے انتقام لیناپسند نہیں کرتا۔

اچھے عذر نے جان بچالی:

      منقول ہے کہ ایک بادشاہ نے کھانا بنانے کا حکم دیا اور اس کے خَواص بھی حاضر ہوئے ،جب دسترخوان بچھادیا گیا توغلام


 

  ایک طباق میں کھانا لے کر آیا اور جب وہ بادشاہ کے قریب ہوا تو ہیبت کے سبب  ٹھوکر کھاکر گر پڑا اور طباق میں سے کچھ سالن بادشاہ کے کپڑوں پر گر گیا۔بادشاہ نے اُس کی گردن مارنے کا حکم دیا،غلام  نے یہ دیکھا تو طباق اٹھاکر اس میں موجود تمام سالن بادشاہ کے سر پر انڈیل دیا۔بادشاہ نے کہا:اے بدبخت! یہ تونے کیا کیا؟غلام نے کہا:میں نے یہ سب کچھ آپ کی عزت کی خاطر کیا ہےکہ لوگ جب یہ سنیں گے کہ آپ نے مجھے ایک چھوٹے سے جرم کےسبب قتل کردیا تو آپ کو ظالم وجابر کہیں گےلہٰذا میں نے اپنا جرم ہی بڑا کر لیاتاکہ میرے قتل میں کوئی عذر باقی نہ رہے اور آپ سے ملامت اٹھ جائے۔بادشاہ نے کچھ دیر اپنا سر جھکالیا پھر اس کی طرف سر اٹھا کر کہا:اے بُرے فعل کے مرتکب!اور اے اچھا عذر پیش کرنے والے! میں نے تمہارے بُرے فعل اوربڑے جرم کو تمہارے اچھے عذر کے سبب معاف کیا، جاتو اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی رضا کے لئے آزاد ہے۔

باغی  کو معاف کردیا:

      مامون رشید خُراسان میں تھا، اُسے خبر ملی کہ اُس کے چچا ابراہیم بن مہدی نے اُس کے خلاف بغاوت کردی ہے اور عباسیوں نے اُس کی بیعت بھی کرلی ہے ۔یہ خبر پاتے ہی اُس نے فوراًعراق کا رخ کیا اور جب وہ بغداد پہنچا تو ابراہیم چھپ گیا اورعباسیوں نے دوبارہ مامون کی اطاعت کرلی۔مامون مسلسل ابراہیم کو ڈھونڈنے میں لگا رہا یہاں تک کہ اُسے پکڑ کر قید کرلیا پھر اُسے اپنے سامنے حاضر کیا ۔ابراہیم نے حاضر  ہوکر کہا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ کو ہر گناہ گار کے اوپر مقرر کیا ہے اگر آپ مواخذہ کرنا چاہیں تو یہ آپ کا حق ہے اور اگر معاف کرنا چاہیں تو یہ آپ کا فضل ہے۔اے امیرالمؤمنین!فضل آپ کے زیادہ لائق ہے۔یہ کہہ کر ابراہیم نے اپنی معافی کے متعلق کچھ اشعار کہے۔مامون نے جب ابراہیم کا کلام اور اس کے اشعار سنے تو اُسے معاف کردیا۔

ظالم کو ترس آگیا:

      اموی حکمران عبد الملک بن مروان نے اپنے گورنر حجاج کی طرف لکھا کہ وہ عَبّاد بن اَسلم بَکْرِی کا سر کاٹ کر اُس کی طرف بھیج دے۔عباد نے حجاج سے کہا:اے امیر!میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ مجھے قتل نہ کریں ،بخدا ! میری کفالت میں 24عورتیں ہیں جن کے لئے میرے علاوہ کوئی کمانے والا نہیں ۔ حجاج نے ان کو حاضرکرنے کاحکم دیا اور ان میں سے ایک سے کہا:تم کون ہو؟اُس نے کہا:میں عباد بن اسلم کی بیٹی ہوں پھر اُس نے چند اشعار کہے جس میں یہ کہا کہ میرے والد آٹھ بیٹیوں ،10بہنوں ،دو پھوپھیوں اور چار خالاؤں کے کفیل ہیں اور انہیں قتل کرنا گویا ان سب کو قتل


 

 کرنا ہے۔حجاج نے اشعار سنے تو وہ روپڑا اور اس کا دل نرم ہوگیا اور اُس نے عبد الملک بن مروان سے عباد بن اسلم کی معافی حاصل کرلی اور عباد کے لئےکچھ مال کا حکم بھی دیا۔

جاہل سے درگزرکا حکم قرآن نےدیا:

      ایک دن حضرت سیِّدُناحربن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس ان کے چچا آئے اور حضرت سیِّدُناحر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے  قریب رکھتے تھے اور حضرت سیِّدُناعمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے شریک مجلس اور شریک مشورہ وہ لوگ ہوتے تھے جو قرآن کے عالِم ہوتے تھے خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔چچا نے اپنے بھتیجے حضرت سیِّدُناحر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے کہا:تمہیں امیرالمؤمنین کے دربار میں کچھ رسائی حاصل ہےلہٰذامجھے اُن کے پاس حاضری کی اجازت دلوادو۔حضرت سیِّدُناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے انہیں اجازت دی تو داخل ہوکر کہنے لگے:اے خطاب کے بیٹے!بخدا !آپ نہ تودل کھول کر عطا کرتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان عدل کرتے ہیں ۔یہ سن کر حضرت سیِّدُناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہغصے میں آگئے حتّٰی کہ آپ نے اُس کو سزا دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سیِّدُناحر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے عرض کی:اے امیرالمؤمنین!اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو یہ فرمایا ہے:

خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ۹،الاعراف:۱۹۹)

ترجمۂ کنز الایمان: اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منھ پھیر لو۔

      اور یہ شخص بھی جاہلوں میں سے ہے۔یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے آیت قرآنی پر عمل کرتے ہوئے اُسے کچھ نہ کہا کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہقرآن پاک کے فرامین پر فوراً عمل کرتے تھے۔

مسلمان کی پردہ پوشی:

      ایک شخص نے ہارون رشید کے دربان فضل بن ربیع کے نام کا ایک جعلی خط بنایا جس میں ایک ہزار دینار کی ادائیگی کا لکھااور اسے لے جاکر فضل بن ربیع کے وکیل کو دے دیا۔وکیل نے جب یہ خط دیکھا تو اصلی سمجھ کر دیناروں  کا وزن کرنے لگا۔اسی دوران فضل بن ربیع بھی کسی کام کے سلسلے میں اپنے وکیل کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔وکیل نے اُسے معاملے سے آگاہ کیا تو فضل نے


 

اُس خط کو پڑھا پھر اُس شخص کی طرف نظر کی تو دیکھا کہ وہ شرم سے پانی پانی ہوگیا ہے۔فضل نے سر نیچے کرلیا پھر اپنے وکیل سے کہا:کیا تم جانتے ہو میں تمہارے پاس اس وقت کیوں آیا ہوں ؟وکیل نے کہا:مجھے نہیں معلوم۔ کہا:میں اس لئے آیاہوں تاکہ تم اس شخص کے معاملے کو جلدی نمٹاؤ۔وکیل نے جلدی سے اُسے وزن کرکے مال دے دیا اور جب اُسے مال ملا تو وہ حیرانی میں ڈوب گیا۔فضل نے اُسے دیکھا تو کہا:خوشی سے چلے جاؤ۔اُس شخص نے یہ سن کر فضل کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اورکہا:جس طرح آپ نے میری پردہ پوشی کی اللہ عَزَّ  وَجَلَّدنیا وآخرت میں آپ کی پردہ پوشی فرمائے۔یہ کہہ کر وہ شخص مال لے کر چلا گیا۔

       انسان پر لازم ہے کہ وہ ان اچھے اخلاق اور اچھے افعال کو اپنائےاور اپنے پیارےنبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سنت کی پیروی کرے۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّملوگوں میں سب سے بڑھ کر بُردبار ،لوگوں میں سب سے زیادہ حسن اخلاق کے پیکر،مخلوق میں سب سے کریم اور سب سے بڑھ کر لوگوں کو معاف کرنے والے اوردرگزر فرمانے والے تھے۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر 37:           ایفائے عہد،وعدے کی پاسداری اور پابندی

       سب سے راجح  دلیل جس سے انسان دلیل پکڑے وہ قرآن پاک ہےاور جو قرآن مجید سے دلیل پکڑتا ہے وہ ہدایت پاتا ہے اور جوقرآن پاک سے استدلال کرتا ہے وہ سیدھی راہ پاتا ہے۔

ایفائے عہد کے متعلق پانچ فرامین باری تعالیٰ:

       اللہ عَزَّ  وَجَلَّقرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿1﴾…

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ۶،المائدة:۱)

ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو اپنے قول(عہد)پورے کرو۔

﴿2﴾…

الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَۙ(۲۰) (پ۱۳،الرعد:۲۰)

ترجمۂ کنز الایمان:وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں  اور قول باندھ کر (وعدہ کرکے)پھرتے نہیں ۔

﴿3﴾…

وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا

ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کا عہد پورا کرو  جب قول باندھو اور


 

الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا (پ۱۴،النحل:۹۱)

قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو۔

﴿4﴾…

وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ۱۵،بنی اسرائیل:۳۴)

ترجمۂ کنز الایمان:اور عہد پورا کرو بیشک عہد سے سوال ہونا ہے۔

﴿5﴾…

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۳) (پ۲۸،الصف:۳،۲)             ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتےکتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔

منافق کی تین نشانیاں :

      بخاری ومسلم میں حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں :(۱)…جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔(۲)…جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور(۳)…جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔ ([59])

      وعدہ پوراکرنا اچھے لوگوں کی صفت اور اچھی عادات واخلاق میں سے ہےجو آدمی کو لوگوں کی نظرمیں بڑا کرتا ہے۔

      کہا گیا ہے کہ وعدہ کرنا اعزاز ہے اور اسے پورا کرنا اس کے محاسن میں سے ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ وعدہ بادل ہے اور اسے پورا کرنا بارش ہے۔

      ایک اعرابی نے کہا:کریم شخص جلد ہی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے جبکہ کمینہ شخص وعدہ پورا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ایک دیہاتی کا بیان ہے کہ اچھا عذر بیان کرنا لمبی ٹال مٹول سے بہتر ہے۔

تاخیر کے بعد فوراً ادائیگی:

      نابینا شاعر بَشّاربن بَرْد نے وزیر خالد بن برمک کی تعریف کی تو اس نےاسے 20ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔ ان دراہم کو ملنے میں تاخیر ہوئی تو بَشّار نے اپنے ساتھی سے کہا:مجھے وہاں کھڑا کردو جہاں سے خالد بن برمک گزرتا ہے۔چنانچہ بشار کووہاں


 

 کھڑا کردیا گیا اور جب خالد بن برمک اپنے خچر پر سوار وہاں سے گزرا تو بشار نےاس کے خچر کی لگام پکڑ کر  دواشعار کہے جس میں رقم ملنے میں تاخیر کا ذکر کیا تو خالد نے اس کی فوراًادائیگی کا حکم دےدیا۔

ایفائے عہدمیں تاخیر پر خلیفہ کی معذرت:

      منقول ہے کہ ہُذلی کی امّ ولد کا انتقال ہوا تو خلیفہ ابو جعفر منصور نے اپنے وزیر ربیع کو کہا کہ وہ جاکر تعزیت کرے اور اس سے یہ کہےکہ امیرالمؤمنین تمہاری طرف ادب اور عقل ودانائی والی ایک خوبصورت لونڈی بھیج رہے ہیں اور تمہارے لئے ایک گھوڑا ،خلعت اورعطیہ کا حکم دیا ہے۔ہذلی منصور کا وعدہ پورے ہونے کا  انتطار کرتا رہا جبکہ منصور بھول گیا۔ منصور نے حج کیا اور اُس کے ساتھ ہذلی بھی موجود تھا پھر جب منصور مدینہ پہنچا تو اُس نے ہذلی سے کہا:میں رات کو مدینہ گھومنا چاہتا ہوں تم ایسے شخص کو تلاش کرو جو مجھے رات کو مدینہ کی سیر کراسکے۔ہذلی نے کہا:میں اس کے لئے حاضرہوں ۔ چنانچہ ہذلی سیر کرانے لگا اور جب بیتِ عاتکہ کے پاس پہنچا تو کہا:اس گھر کے متعلق احوص شاعر نے اشعار کہے ہیں پھر اس کے دو اشعار ذکر کئے ۔منصور کو یہ بات ناگوار گزری کہ ہذلی نے بغیر پوچھے عاتکہ کے گھر کے بارے میں کیوں بتایا ۔ منصور جب اپنے دارالسلطنت میں واپس آیا تو احوص کے اُس قصیدے میں غور کرنے لگا جس کے دو اشعار ہذلی نے بیت عاتکہ کے متعلق سنائے تھے۔اسی دوران اُس کی نظر ایک شعر پر پڑی جسے دیکھ کر منصور کو ہذلی سے کیا گیا اپنا وعدہ یاد آگیا تو منصور نے اپنے وعدے کو پورا کیا اورتاخیر پر معذرت کی۔

حکایت:ایفائے عہد کےلئے جان کی پروا نہ کی

      نعمان بن منذر نامی عرب کا ایک  بادشاہ تھا جس نے سال میں دو دن مقرر کئے ہوئے تھے کہ ایک دن لوگوں میں سے جو اُس سے پہلےملتا تھا  اُسے انعام واکرام سے نوازتا تھا اور ایک دن ایسا تھا کہ جو اُس دن اُسے پہلے ملتا تھا  وہ اُسے قتل کرادیتا تھا۔قبیلہ طے کا ایک شخص فقر وفاقہ سے تنگ آکر باہر نکلا تو اس کا سامنا نعمان بن منذر سےاُسی روز ہوگیا جس میں وہ پہلے ملنے والے کو قتل کردیا کرتا تھااوریہ اُس سے ملنے والا پہلا شخص تھا۔ اس شخص کو جب اپنے قتل کا یقین ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا:آپ مجھے ابھی قتل کریں یا دن کے آخری حصے میں بات ایک ہی ہے لیکن میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اوراہل وعیال بھوکے ہیں اگر آپ مجھے تھوڑی سی مہلت دے دیں تو میں اپنے گھر والوں کے لئے خوراک کا بندوبست اور ان کے لئے وصیت کر آتا ہوں ۔ بادشاہ کو اُس کے حال پر رحم آگیا تو اُس سے کہا:تمہارے لوٹنے کی ضمانت کون دے گاکہ


 

 اگر تم واپس نہ آؤ تو تمہارے بدلے اُسے قتل کردیا جائے۔اُس شخص نے بادشاہ کے مصاحب شریک بن عدی کی طرف دیکھا اور اُس سے ضامن بننے کے لئے عرض کی۔شریک بن عدی نے کہا:میں اس کی ضمانت دیتا ہوں ۔ چنانچہ وہ شخص چلا گیا ،دوپہر ڈھل گئی تو بادشاہ نے شریک سے کہا:دوپہر ڈھل چکی ہے لیکن ابھی تک وہ نہیں آیا۔ شریک نے کہا:شام تک وقت باقی ہے۔جب شام ہونے کو قریب ہوئی تو بادشاہ نے شریک سے کہا: تمہارا وقت آگیا ہے قتل کے لئے تیار ہوجاؤ۔شریک نے کہا:مجھے ایک شخص آتا دکھائی دے رہا ہےاور میرے خیال میں یہی وہ قبیلہ طے کا شخص ہے اگر یہ وہ شخص نہ ہوا تو آپ مجھے قتل کرسکتے ہیں ۔جب وہ شخص قریب آیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی شخص ہے جو شریک کو ضامن بناکر گیا تھا۔بادشاہ نے اُسے دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے سر جھکالیا پھر سر اٹھا کر اُس سے کہا:اے قبیلہ طے کے شخص!تونے ایفائے عہد کی انتہا کردی اور شریک سے کہا:اے شریک تونے احسان ومروت کی انتہا کردی۔میں آج سے تم دونوں کی وجہ سے قتل والے دن کو ختم  کرتا ہوں ۔پھر بادشاہ نے اُس قبیلہ طے والے شخص سے کہا:تجھے ایفائے عہد پر کس چیز نے مجبور کیا حالانکہ اس میں تیری جان جانے والی تھی؟اُس نے کہا:ایفائے عہد میرا دین ہے اور جس میں ایفائے عہد نہ ہو اس کا کوئی دین نہیں ۔یہ سن کر بادشاہ نے اُسے انعام واکرام سے نوازا اور اُسے باعزت اُس کے گھر والوں کی طرف لوٹا دیا۔

عبداللہبن طاہر کی مامون سے وفاداری:

      منقول ہے کہ مامون نے جب عبداللہبن طاہر بن حسین کو مصروشام کی حکمرانی دے کر اسے کھلی چھوٹ دے دی تو ایک دن مامون کے پاس اس کے مصاحبین میں سے ایک شخص آیا اوراُس نے کہا: عبداللہبن طاہر اپنے بیٹے کی طرف راغب ہے اور اس کی خواہش علوی حضرات کے ساتھ ہےاور اس کے والد بھی ایسے ہی تھے۔یہ سن کر مامون کے دل میں عبداللہ بن طاہر کے خلاف بات بیٹھ گئی اور اُسے تشویش ہونے لگی نیز اس کا دل تنگ ہونے لگا ۔چنانچہ مامون نے ایک شخص کو بلایا اور اسے صوفیوں کا لبادہ اوڑھنے کا کہا اور اسے جاسوس بناکر عبداللہبن طاہر کی طرف بھیجااور کہا:تم مصر جاؤاوروہاں کے لوگوں میں گھل مل جاؤ اور علویوں کے بڑے قاسم بن محمد علوی کے پاس جاؤ اور وہاں جاکر اس کے مناقب ذکر کروپھر عبداللہ بن طاہر کے مقربین کے پاس جاؤ اور پھر عبداللہبن طاہر کے پاس جاکر اُسے قاسم بن محمد کی بیعت کی دعوت دو اور اس کے باطن اور اس کی چھپی ہوئی نیت کو جاننے کی کوشش کرواورجو تم اُس سے سنو اس کے بارے میں مجھے آکر خبر دو۔چنانچہ اُس شخص نے ایسا ہی کیا اور مصر جاکر وہاں کے کچھ لوگوں کو قاسم بن محمد علوی کی بیعت کے لئے


 

 آمادہ کیاپھر ایک خط لکھا اوراُسے عبداللہبن طاہر کو سواری پر سوار ہوتے وقت دیا۔عبداللہ جب سواری سے اترا اور اپنی مسند پر آکر بیٹھا تو خط پڑھ کر اپنے دربان کو خط دینے والے کو بلانے کا کہا۔وہ شخص عبداللہبن طاہر کے پاس آگیااور اُس وقت وہ اکیلا تھا۔ عبداللہ نے اُس سے کہا:میں تمہارا مقصد سمجھ گیا ہوں جو کہنا چاہتے ہو صاف صاف کہو۔اُس شخص نے کہا:مجھے پہلے امان دیجئے۔عبداللہنے کہا:تمہیں امان ہے۔اُس شخص نے اپنے مقصد کو بیان کیا اور قاسم بن محمد کی بیعت کی دعوت دی۔ عبداللہنے اُس سے کہا: کیا میں تم سے انصاف والی بات نہ کہوں ؟اُس شخص نے کہا:کیوں نہیں ۔ عبداللہ نے کہا:کیا لوگوں پر اپنے محسن کا شکر ادا کرنا لازم نہیں ؟اُس شخص نے کہا:جی بالکل لازم ہے۔ عبداللہنے کہا:تو مجھ پر بھی لازم ہے کہ تم جو یہ میری ولایت اور نعمت دیکھ رہے ہواور مشرق ومغرب میں میری حکمرانی ملاحظہ کررہے ہو اوریہ دیکھ رہے ہو کہ میری بات سنی جاتی ہے اور میرا حکم مانا جاتا ہے تو میں خود کو مامون رشید کے احسان تلے دبا ہواپاتا ہوں ۔ کیا تم مجھے ناشکری،دھوکادہی اور وفاداری کو پس پشت ڈالنے کا کہہ رہےہو؟بخدا!میں نہ اُن کی بیعت توڑوں گا اور نہ ہی اُن سے وفاداری ترک کروں گا۔یہ سن کر وہ شخص خاموش بیٹھا رہاتو عبداللہنے اُس سے کہا:بخدا!مجھے تمہاری جان کا خوف ہے لہٰذا تم اس ملک سے چلے جاؤ۔یہ سن کر وہ شخص وہاں سے چلا آیا اور مامون کو ساری صورت حال بتادی۔ مامون یہ سن کر بہت خوش ہوااور عبداللہبن طاہر کے انعام واکرام میں اضافہ کردیا۔

وعدے کی انوکھی پاسداری:

      حمزہ بن حسین فقیہ اپنی تاریخ میں ذکر کرتے ہیں کہ مجھے ابو الفتح منطیقی نےبیان کیا:ہم کافور اِخشیدی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ اُس وقت مصر وشام کارعب ودبدبے والا حکمران تھا ۔کھانا لایا گیا تو ہم لوگوں نے کھانا کھایا ۔اسی دوران کافوراِخشیدی سوگیا تو ہم لوگ کھانا کھاکر لوٹ آئے اور جب اُس کی آنکھ کھلی اُس نے ہمیں بُلا بھیجا اور کہا:اسی وقت نجارین کی گھاٹی کی طرف جاؤاوروہاں بیٹھنے والے ایک کانے نجومی کے بارے میں پوچھو۔اگر وہ زندہ ہے تو اسے لے آؤورنہ اُس کی اولاد کے بارے میں معلومات کرکے آجاؤ۔ہم اُس جگہ پہنچ گئے اور اس کے بارے میں معلومات کیں تو ہمیں معلوم ہواکہ اُس کا انتقال ہوگیا ہے اور اُس نے دوبیٹیاں چھوڑی ہیں جن میں ایک شادی شدہ ہے اور ایک کنواری۔ ہم یہ معلومات لے کر کافور اِخشیدی کے پاس آگئے اور اسے اس بارے میں بتایا۔اُس نے فوراًنجومی کی دونوں بیٹیوں کے لئے مکان خریدا ،انہیں خوب مال دیا اور شاہی جوڑے عطاکئےاور کنواری لڑکی کی شادی کرادی۔اسے اور اس کے شوہر کو


 

بھی خوب مال سے نوازا اور انہیں اپنے متعلقین میں ظاہر کیا تاکہ لوگ بادشاہ سے تعلق کے سبب ان کی رعایت کریں ۔ جب کافور اِخشیدی یہ سب کرچکا تو اُس نے ہم سے کہا:کیا تم اس کا سبب جانتے ہو؟ہم نے کہا:نہیں ۔ کافوراِخشیدی نے کہا:ایک مرتبہ میں ان دونوں لڑکیوں کے والد جو کہ نجومی تھے کے پاس سے گزرا اور اُس وقت میں ابن عباس کاتب کا غلام تھا اورخستہ حالی کا شکار تھا۔نجومی نے مجھے دیکھا تو بلایا اور کہا:تم بہت بڑے آدمی بنوگے،تم بہت بڑے مرتبے پر فائز ہوگے اور تمہیں بھلائی پہنچے گی۔پھر اُس نے مجھ سے کچھ طلب کیا تو میرے پاس جو دودرہم تھے وہ میں نے اُسے دیئےاور اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہ تھا۔اُس نے یہ دودرہم مجھے واپس کردیئے اور کہا:میں تجھے اتنی بڑی خوشخبری سنا رہاہوں اور تو مجھے صرف دو درہم دے رہا ہے۔بخدا تواس ملک کا بادشاہ بنے گا اور تیری سلطنت اس ملک سے بھی بڑھ جائے گی اور جب تو بادشاہ بن جائےتو مجھے نہ بھولنا۔ کافور نے کہا:میں تمہیں نہیں بھولوں گا۔پھر اُس نے مجھ سے کہا:مجھ سے وعدہ کرو کہ تم میرے وعدے کو پورا کرو گےاور مجھے تلاش کرکے رہوگے۔یہ وعدہ کرکے میں وہاں سے چلا آیا اور اپنے معاملات میں مشغول ہوگیا ۔وقت گزرتا گیا اور میں اس مرتبے تک پہنچ گیا اسی دوران میں اُس نجومی سے کیا گیا وعدہ بھول گیا۔آج جب میں کھانا کھاکر سویا تو میں نے اُس نجومی کو خواب میں دیکھا کہ وہ مجھ سے کہہ رہا تھا: میرے اور تمہارے درمیان جو وعدہ ہوا تھا  اُس کی پاسداری کہاں ہے؟کب وہ وعدہ پورا ہوگا؟دھوکا دہی نہیں کرنا ورنہ تمہارے ساتھ بھی دھوکا ہوگا۔میں جاگا تو میں نے وہ کیا جو تم نے دیکھا اور نجومی کی بیٹیوں کے ساتھ میں نے احسان کرکے اس کے والد سے کئے گئے وعدے کو پورا کیا([60])۔

سموال کی وفاداری اور بیٹے کی قربانی:

      منقول ہے کہ جب امرؤالقیس کِندی نے قیصر روم کے پاس جانا چاہا تو اُس نے اپنی زرہیں ،اسلحہ اور سامان سموال بن عادیا یہودی کے پاس امانت رکھوایااور ان سب چیزوں کی قیمت سموال کے جمیع مال سے زیادہ تھی۔امانت لینے سے پہلے


 

 امرؤالقیس مر گیا تو کندہ کے بادشاہ نے سموال کے پاس پیغام بھجوایا کہ تمہارے پاس جو زرہیں اور اسلحہ امانت ہے اُسے میرے حوالے کردو۔سموال نے امانت میں سے کچھ بھی دینے سے انکار کردیا اورکہا:میں اس امانت کو صرف اس کے حق دار کو دوں گا۔بادشاہ نے اُسے ڈرایا دھمکایا  لیکن سموال نے اُس کی ایک نہ مانی اور کہا:میں اپنے ذمہ سے بدعہدی نہیں کروں گا،نہ اپنی امانت میں خیانت اور نہ ایفائے عہد سے روگردانی کروں گا۔کندہ کا بادشاہ ایک لشکر لے کر اُس کی طرف آگیاتو سموال قلعہ بند ہوگیا۔بادشاہ نے اُس کے قلعے کا محاصرہ کرلیا،سموال کا بیٹا قلعے سے باہر تھا جسے پکڑ کر بادشاہ نے قیدی بنالیا اور اسے لے کر قلعے کے گرد گھومنے لگا اور سموال کو پکارنے لگا۔سموال نے قلعے سے جھانک کر دیکھا تو اپنے بیٹے کو بادشاہ کے پاس پایا۔بادشاہ نے اُس سے کہا:مجھے امرؤالقیس کی زرہیں اوراسلحہ دے دومیں یہاں سے چلا جاؤں گا اور تمہارے بیٹے کو بھی چھوڑ دوں گاورنہ میں تمہارے بیٹے کو تمہاری نگاہوں کے سامنے ذبح کردوں گا،اب تمہاری مرضی ہے جو چاہے کرو۔سموال نے کہا:میں اپنا عہدوپیمان نہیں توڑوں گا اور نہ بے وفائی کروں گاتو جو چاہے کر۔بادشاہ نے اُس کے بیٹے کو اُس کی نگاہوں کے سامنے ذبح کردیا ۔پھر جب بادشاہ قلعے کے محاصرے سے عاجز آگیا تووہ  خائب وخاسر لوٹ گیا۔موسم حج میں امرؤالقیس کے ورثا جب سموال کے پاس آئے تو اُس نے امرؤالقیس کی امانت ان کے سپرد کردی۔اس واقعے کے بعد سموال کی وفاداری ایک مثال  بن گئی۔

عبدالملک  بن مروان کا ایفائے عہد:  

      مالک بن عمارہ لخمی کہتے ہیں :میں موسم حج میں کعبہ کے سائے میں عبدالملک بن مروان ،حضرت سیِّدُنا قبیصہ بن ذؤیب اور حضرت سیِّدُنا عروہ بن زبیر عَلَیْہِمَا الرَّحْمَہ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ہم کبھی فقہ میں غوروفکر کرتے ،کبھی علمی مذاکرہ کرتے ،کبھی اشعار عرب میں سوچ وبچار کرتے اور کبھی لوگوں کی مثل میں غوروفکر کرتے۔میں نے عبدالملک کے پاس جو مختلف علوم وفنون کی معرفت دیکھی وہ کسی کے پاس نہیں دیکھی۔ جب وہ بات کرتاتو اُسے سنتے ہوئے اچھا لگتا اوراس کےبول میٹھے معلوم ہوتے ۔ایک مرتبہ میں نے اُسے اکیلے میں کہا:میں تمہاری علوم وفنون میں کثرت اور تمہاری اچھی گفتگو کے سبب تمہارا گرویدہ ہوں ۔اُس نے کہا: اگر تم تھوڑا عرصہ اور زندہ رہے تو عنقریب دیکھو گے کہ لوگوں کی نگاہیں میری طرف اٹھی ہوں گی اور ان کی گردنیں میری جانب دراز ہوں گی پھر جب حکمرانی میرے ہاتھ میں آجائے تو اگر تم میرے پاس آئےتو میں تمہارے دونوں ہاتھوں کو بھر دوں گا۔چنانچہ جب عبدالملک خلیفہ ہوا تو میں اس کی طرف


 

چل پڑا  اور میں جمعہ کے دن دارالحکومت پہنچا دیکھا کہ وہ منبر پر خطبہ دے رہا ہے۔اُس نے مجھے دیکھا تو اعراض کیا۔ میں نے دل میں کہا:شاید اس نے مجھے پہچانا نہیں یا پہچانا تو ہے مگر نظر انداز کردیا ۔جب نمازہوگئی تو وہ اپنے گھر میں چلاگیا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دربان باہر نکلا اور کہا:مالک بن عمارہ کہاں ہے؟میں کھڑا ہو گیا  تو اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور عبدالملک کے سامنے لاکھڑا کردیا۔عبدالملک نے مجھے اپنے قریب کیا اور کہا:تم نے جو مجھ سے دیکھا تو  وہ مقام ہی ایسا تھا کہ مجھے تم سے اعراض کرنا پڑااب میں تمہیں مرحبااورخوش آمدید کہتا ہوں ۔بتاؤمیرے بعد تمہاری زندگی کیسی گزری؟ میں نے اُسے خبر دی تو اُس نے کہا:کیا تمہیں یاد ہے جو میں نے تم سے کہا تھا؟میں نے کہا:یاد ہے۔اُس نے کہا:میں تمہیں ان خصلتوں کے بارے میں بتاتا ہوں جس کے سبب میں اس مقام پر پہنچا جو تم دیکھ رہے ہو۔میں نے کبھی کسی دوست سے خیانت نہیں کی، نہ کسی دشمن کی مصیبت پر کبھی خوش ہوا،کبھی کسی کی بات پوری ہونے سے پہلےاُس سے اعراض نہیں کیااور نہ میں نے کبھی اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے حرام کردہ کبیرہ گناہ کا لذت کے لئے ارتکاب کیا۔میں انہی خوبیوں کے سبب امید کرتا تھا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّمیرے مرتبے کو بلند کرے گا اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے ایسا ہی کیا۔پھر اُس نے ایک غلام کو بلایا اور اُس سے کہا:اے غلام!اس کوایک کمرے میں ٹھہرا دو۔غلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک خوبصورت کمرے میں لے گیا۔ میں عبدالملک کے ہاں اچھی حالت اور نعمتوں میں رہا، وہ روزانہ مجھ سےبات چیت کرتا، صبح کے ناشتے اوررات کے کھانے میں مجھے اپنے ساتھ شریک کرتااور مجھے عزت دیتااور مجھ سے کبھی عراق اور کبھی حجاز کے متعلق پوچھتا۔مجھے وہاں رہتے ہوئے جب 20 روز گزر گئے تو ایک دن میں نے اُس کے ساتھ ناشتہ کیا، جب لوگ چلے گئے تو میں بھی اٹھنے لگا،اُس نے مجھ سے کہاکہ ٹھہرے رہوتو میں بیٹھ گیا۔اُس نے مجھ سے کہا:تم میرے ہاں عزت  واحترام کے ساتھ رہنا چاہتے ہو یا اپنے گھر جانا  چاہتے ہو۔میں نے کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ سے ملنے کے لئے میں نے اپنے اہل وعیال کو چھوڑا ہے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں یہاں رہوں تو میں آپ کو اپنے اہل وعیال پر ترجیح دیتا ہوں ۔اُس نے کہا: تم ابھی اپنے گھروالوں کی طرف لوٹ جاؤبعد میں جب چاہو ہمارے پاس آسکتے ہو،ہم نے تمہارے لئے20ہزار دینار،شاہی جوڑے اورسواری کا حکم دیا ہے۔پھر اُس نے کہا:اُس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو وعدہ کرکے بھول جائے ۔

احسان کرنے والے کے ساتھ وفاداری:

      مسرور کبیر سے منقول ہے  کہ جب ہارون رشید نے مجھے جعفر بن یحییٰ برمکی کے قتل کا حکم دیا تو میں اُس کے پاس آیا۔


 

اُس وقت ابوبکار اعمیٰ اُس کے پاس یہ شعر پڑھ رہا تھا:

فَلَا تَحْزَنْ فَکُلُّ فَتًی سَیَاْتِیْ

 

عَلَیْہِ الْمَوْتُ یَطْرُقُ اَوْ یُغَادِیْ

       ترجمہ:تم غمگین نہ ہونا ہرجواں مرد کے پاس عنقریب صبح یا شام موت آکر رہے گی۔

       میں نے جعفر سے کہا:بخدا!میں اسی لئے تمہارے پاس آیا ہوں ۔پھر میں نے جعفر کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھڑا کرکے اُس کی گردن اڑادی ۔یہ دیکھ کر ابوبکار نے کہا:میں تجھے خدا کا واسطہ دیتا ہوں مجھے بھی قتل کر دے۔  میں نے اُس سے کہا: توایسا کیوں کہہ رہا ہے؟اُس نے کہا:اس شخص نے مجھے لوگوں سے بے نیاز کردیا تھا۔ میں نے کہا:پہلے میں ہارون رشید سے مشورہ کرلوں ۔چنانچہ میں جعفر کا سر لے کر ہارون الرشید کے پاس گیا  اور اسے ابوبکار کے بارے میں خبر دی تو اس نے کہا: یہ وہ شخص ہے جس میں وفاداری کی بھلائی ہے تم اسے اپنے ساتھ رکھ لو اور جو خرچ جعفر اسے دیا کرتا تھا تم اسے دیا کرو۔

فوت شدہ بادشاہ سے  وفاداری:

       منصور نے ایک مرتبہ ہشام بن عبدالملک کے ایک ہم نشین سے جنگی تدابیر کے بارے میں پوچھاتو اُس نے کہا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ہشام پر رحمت ہو وہ یوں یوں کیا کرتے تھے۔منصور نے کہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی تجھ پر لعنت ہو تو میرے پاس بیٹھ کر میرے دشمن پر رحمت کی دعا کررہا ہے۔اُس نے کہا:آپ کے دشمن کی نعمت میرے گلے میں ہےجسے مجھے غسل دینے والا ہی اتار سکتا ہے۔منصور نے اس سے کہا:اے شیخ !لوٹ جا،بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وفادار ہےپھر اُس کے لئے مال کا حکم دیا تو اُس نے مال لے کر کہا:بخدا!اگر امیرالمؤمنین کی جلالت اور ان کی اطاعت سے روگرادنی نہ ہوتی تو میں ہشام کے بعد کسی سے کوئی تحفہ قبول نہ کرتا۔

قیمتی نگینہ توڑدیا:

       حضرت مصعب بن زبیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو جب اپنے قتل ہونے کا علم ہوا تو آپ نے اپنے غلام زیاد کو ایک یاقوت کا نگینہ دیا جس کی مالیت ایک لاکھ درہم تھی ۔زیاد نے اُس نگینے کو لیا اور اُسے دوپتھروں کے درمیان رکھ کر توڑ دیااور کہا:بخدا !آپ کے بعد کوئی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا([61])۔ 


 

احمد یتیم کی وفاداری:        

      حاکم احمد بن طولون نے اپنے تالاب کے قریب ایک بچے کواوندھا پڑے دیکھاتو اُس نے اُسے اٹھاکر اپنی کفالت میں لے لیا اوراُس کا نام احمد رکھا اور یہ بچہ یتیم کے نام سے مشہورہوا۔جب یہ بچہ بڑا ہوا تو اس میں ذہانت وفطانت کے آثار نمودار ہوئے اور یہ خوش شکل وصورت ہوا۔ابن طولون نے اسے زیورعلم سے آراستہ کیا تو یہ تہذیب وتمدن سے مالا مال ہوا۔جب ابن طولون کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹے ابوالْجَیش خُمارَوَیہ کو اس کے متعلق وصیت کی۔ ابن طولون کے انتقال کے بعد امیرابو الجیش حاکم بنا تو اس نے احمد یتیم کو بلایا اور کہا:میں تمہیں اپنے ہاں عزت والا مقام دوں گا لیکن میری عادت ہے کہ میں جسے بھی کچھ کام سپرد کرتا ہوں اُس سے یہ عہد لیتا ہوں کہ وہ مجھ سے خیانت نہیں کرےگا۔احمد یتیم نے اُس سے وعدہ کرلیا۔اس کے بعد احمد امیرابو الجیش کے تمام خدام پر حاکم بن گیا۔ابو الجیش اس کے ساتھ احسان کرتا اور اس کی خیرخواہی کے سبب اس کی طرف راغب ہوتا اور گھریلو معاملات میں اس پر اعتماد کرتا۔ ایک دن ابو الجیش نے کہا:اے احمد! فلانی خادمہ کے کمرے میں جاؤاوروہاں میری نشت گاہ کے قریب ایک اونی نفیس جوڑا رکھا ہوا ہے اسے لے آؤ۔احمد اس کے کمرے کی طرف گیا تو دیکھا کہ وہاں ابو الجیش کی ایک گانے والی لونڈی ایک نوجوان کے ساتھ موجود ہے۔ان دونوں نے جب احمدیتیم کو دیکھا تو نوجوان وہاں سے نکل کھڑا ہوااور لونڈی احمد یتیم کے پاس آکر اسے پھسلانے لگی اور اپنی جانب مائل کرنے لگی۔احمد یتیم نے جب یہ دیکھا تو کہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی پناہ!میں اپنے امیر کے ساتھ خیانت نہیں کرسکتا،وہ میرے محسن ہیں اور میں نے اُن سے عہد لیا ہے جسے میں توڑ نہیں سکتا۔یہ کہہ کر احمد نے وہاں سےاونی  جوڑا اٹھا یا اور جاکر امیر ابو الجیش کو دے دیا۔ لونڈی بہت ڈر گئی اور اُس نےموقع پاکرابو الجیش سے کہا:احمد یتیم مجھے اپنی جانب راغب کرتا ہے۔


 

امیر ابوالجیش نے یہ سنا تو وہ انتہائی غیظ وغضب میں آگیااور اس نے اسی وقت احمد یتیم کے قتل کا ارادہ کیا۔چنانچہ اُس نے اپنے ایک خادم خاص کو جس پر وہ اعتماد کرتا تھا بلایا اور کہا:جب میں تمہاری طرف کسی شخص کو بھیجوں جس کے ہاتھ میں سونے کا طباق ہواور وہ تجھ سے آکر یہ کہے کہ اس طباق کو مشک سے بھر دو تو تم اس کو قتل کردینا اور اس کا سر کاٹ کر اسی طباق میں رکھ دینا اوراسے ڈھانپ دینا۔پھر ابوالجیش نے محفل جام منعقد کی اور قریبی احباب کو بلایا ۔احمد یتیم بھی وہاں آکر امیر ابوالجیش کے سامنے کھڑا ہوگیا اوراسے امیر کے خفیہ منصوبے  کی خبر نہ تھی۔امیر ابوالجیش نے اُس سے کہا:اے احمد!یہ سونے کا طباق لواور اسے فلاں خادم کو دے کر یہ کہو کہ اسے مشک سے بھر دو۔احمد نے وہ طباق لیا اورامیر کے حکم کی تعمیل کے لئے چل پڑا۔راستے میں اس کا گزر گانے والوں پر ہوا جہاں امیر کے کچھ قریبی ہم نشیں بیٹھے تھے۔ انہوں نےجب احمد یتیم کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور اسے اپنے ساتھ بیٹھنے کا کہا۔احمد یتیم نے کہا:امیر نے مجھےطباق میں مشک لانے کا کہاہے۔انہوں نے کہا:مشک لانے کا کسی اور کو کہہ دو اور جب وہ مشک لے آئے تو تم اسے امیر تک پہنچادینا۔احمد یتیم نے نگاہ دوڑائی تو اسے وہ نوجوان دکھائی دیا جو امیر کی لونڈی کے ساتھ موجود تھاتو احمد نے وہ طباق اس کے حوالے کیا اور اس سے کہا:اسے فلاں خادم کے پاس لے جاؤاور اس سے کہو کہ اسے مشک سے بھر دے۔ نوجوان وہ طباق لے کر اُس خادم کے پاس گیااور اسے کہا کہ اس طباق کو مشک سے بھر دو۔اُس خادم نے اُس نوجوان کوقتل کردیا اور اس کا سر کاٹ کر طباق میں رکھ دیا اور اسے ڈھانپ کرامیر کی طرف چل پڑا۔ جب احمد یتیم نے طباق دیکھا تو اُس خادم سے وہ طباق لے لیا ۔احمد یتیم کو چونکہ اصل حقیقت کا علم نہیں تھا۔ چنانچہ وہ طباق لئے امیر کے پاس حاضر ہو گیا۔امیر نے جب طباق سے کپڑا ہٹایا تو احمد سے کہا:یہ کیا ہے؟احمد یتیم نے امیر کو پورے واقعے کی خبر دی اور لونڈی اورنوجوان والا واقعہ بھی بتایااور کہا کہ مجھے اس کے علاوہ باقی کسی چیز کی خبر نہیں کہ اس نوجوان کو کیسے قتل کیا گیا۔امیر ابوالجیش نے اُس لونڈی کو بلایا اور اس سے کہا:سچ سچ بتا۔لونڈی نے غلطی کا اعتراف کرلیا تو امیر ابوالجیش نے اُس لونڈی کو احمد یتیم کے حوالے کر دیا اورکہا کہ اسے قتل کردے ۔احمد یتیم نے اسے قتل کردیا اور اس واقعے کے بعد احمد کی قدرومنزلت امیر ابو الجیش کے ہاں اوربڑھ گئی([62])۔  


 

باب نمبر38:                                                                                    رازچھپانا ،اس کی حفاظت کرنا اور کسی کےراز

                             کو ظاہر کرنے کی مذمت

      اللہ عَزَّ  وَجَلَّقرآن پاک میں حضرت سیِّدُنایعقوب عَلَیْہِ السَّلَامکا قول ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ (پ۱۲،یوسف:۵)                                        ترجمۂ کنزالایمان:اےمیرےبچےاپناخواب اپنےبھائیوں سےنہ کہنا۔

      رازکےمتعلق ان دوآیتوں میں بھی شواہدموجودہیں :

﴿1﴾…

فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ(۱۰) (پ۲۷،نجم :۱۰)                                                                ترجمۂ کنزالایمان:اب وحی فرمائی اپنےبندےکوجووحی فرمائی۔

﴿2﴾…

وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ(۲۴) (پ۳۰،التکویر:۲۴)

ترجمۂ کنز الایمان:اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔

      یعنی وحی بیان کرنے میں کمی بیشی نہیں کرتے ۔

      حدیث پاک میں ہے :حاجتیں پوری کرنے کے لئے نعمتیں چھپاکر مدد چاہوکیونکہ ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے۔([63])

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمارشاد فرماتے ہیں :راز تمہارے پاس ہے جب تک تم اسے دوسرے کونہ  بتاؤ اور جب تم نے اسے دوسرے کو بتا دیا تو اب یہ راز  تمہارانہ رہا بلکہ یہ دوسرےکا ہوگیا۔

      جان لو!رازداروں کے امین مال داروں کے امین سے کم ہیں اور مال کی حفاظت کرنا راز کی حفاظت کرنے سے زیادہ آسان ہے۔راز کو اٹھائے رکھنا مال کو اٹھانے سے زیادہ بھاری ہےکہ آدمی بھاری بوجھ اٹھاکر تو چل سکتا ہے لیکن راز کو چھپا نہیں سکتا کیونکہ جب تک راز اُس کے دل میں ہوتا ہے اُسے ایک بے چینی اور کرب رہتا ہے اور جب وہ اس راز کودوسرےسے بیان کردیتا ہےتو اس کے دل کو راحت ملتی ہے اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اُس نے نفس سے بہت بڑے بوجھ کو اتاردیاہے۔

زبان راز کی کنجی ہے:

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزفرماتے ہیں :قلوب برتن ہیں ،زبان اس کے تالے ہیں اور زبانیں اس کی کنجیاں ہیں اور ہرانسان کو چاہئے کہ وہ اپنے  راز کی کنجی کی حفاظت کرے۔


 

      معاملات کے عجائبات میں سے ہے کہ مال جتنا بڑھتا ہے اس پر اعتماد اتنا ہی بڑھتا ہےجبکہ راز جتنے بڑھتے ہیں اتنا ہی ان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

      کتنے ہی راز ایسے ہوتے ہیں جن کو  ظاہر کرنے پررازفاش کرنے  والے کا خون ہوجاتا ہے اور مقصود کا حصول ممکن نہیں رہتا جبکہ راز کو چھپانے میں امن رہتا ہے۔

راز چھپانے پر دوفائدوں کا حصول:

      نوشیرواں نے کہا:جو اپنے راز کو چھپا کر رکھتا ہے اسے دو فائدے ملتے ہیں :(۱)…اسے اپنی حاجت میں کامیابی حاصل ہوتی ہےاور(۲)…وہ خطرے سے سلامت رہتا ہے ۔

      کہا گیا ہے کہ اپنا راز اپنے پاس رکھ اور اسے کسی دور اندیش کو بھی نہ بتا کہ وہ بھی لغزش کرسکتا ہےاور نہ کسی جاہل کو بتا کہ وہ خیانت کرسکتا ہے۔

راز کی حفاظت کا سامان:

      ایک شخص نے اپنے دوست کو ایک راز کی بات بتائی پھر اس سے کہا:کیا تم نے اسے سمجھ لیا؟دوست نے کہا: نہیں بلکہ میں اس سے جاہل رہا۔پھر اُس سے کہا:کیا تم نے اسے یاد رکھا؟دوست نے کہا:میں نے اسے بھلادیا۔

      کسی سے کہا گیا کہ تم راز کی کس طرح حفاظت کرتے ہو؟اُس نے کہا:میں راز بتانے والے کو راز بتانے سے منع کر دیتا ہوں اور راز معلوم کرنے والے  کے سامنے قسم اٹھاتا ہوں ۔

      مُہَلَّب نے کہا:شریف انسان کے اخلاق میں سے ادنی درجہ راز چھپانا ہے اور سب سے اعلیٰ درجہ راز بھول جانا ہے۔

      منقول ہے کہ راز کو چھپانا آدمی کے انمول ہونے پر دلالت کرتا ہےاورجس طرح ایسے برتن کا کوئی فائدہ نہیں جس میں کوئی شے محفوظ نہ ہوسکے ایسے ہی اُس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو راز کو سنبھال نہ سکے۔

طالبِ رازکو  راز نہ بتایا جائے:

      صالح بن عبد القدوس کہتے ہیں :اپنا راز کسی راز طلب کرنے والے کو نہ بتانا کہ راز طلب کرنے والا راز کو ضائع کردیتا ہےاور اپنا مال ایسے کے پاس امانت نہ رکھوانا جو اپنے ہاں امانت رکھوانے کا خواہش مند ہوکہ امانت کا خواہش مند خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔


 

      ایک اعرابی سے کہا گیا کہ تم راز کی حفاظت کے لئے کیا کرتے ہو؟اعرابی نے کہا:پہلے میں اسے دل کے پردے میں بکھیر دیتا ہوں پھر اسے جمع کرکے بھول جاتا ہوں گویا کہ میں نے اسے سنا ہی نہیں ۔

      لوگوں میں سب سے بڑھ کردوراندیش  وہ ہے جو اپنا راز دوست کو بھی نہ بتائے اس ڈر سے کہ کہیں ان کے درمیان کوئی تناز ع ہوجائے پھر اس کا دوست اس کے راز کو ظاہر کردے۔

      ایک دانشور کا قول ہے:قُلُوْبُ الْاَحْرَارِ قُلُوْبُ الْاَسْرَار یعنی آزاد لوگوں کے دل رازوں کےدفینے ہیں ۔

      کہا گیا ہے کہ ہر کسی کو جانچنے سے پہلے اُس سے مطمئن ہوجانا حماقت ہے۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر 39:      دھوکا دہی،خیانت،چوری،دشمنی،بغض

اور حسدکابیان

پہلی فصل:                                             دھوکا اور خیانت کا بیان

      رسولِ پاک، صاحبِ لولاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمارشادفرماتے ہیں :”سب سے پہلے جس چیز کی سزا ملتی ہے وہ بغاوت وسرکشی ہے۔“([64])

          حضرت سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”مکر،دھوکا اور خیانت جہنم میں ہیں ۔“([65])

          حضرت سیِّدُناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں :تین چیزیں جس میں ہوں اس کا وبال اسی پر ہے: (۱)بغاوت وسرکشی (۲)عہدشکنی اور (۳)مکر۔

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:

﴿1﴾…

اِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْۙ- (پ۱۱،یونس:۲۳)

ترجمۂ کنز الایمان:تمہاری زیادتی تمہارے ہی جانوں کا وبال ہے۔

﴿2﴾…

فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖۚ- (پ۲۶،فتح:۱۰)                                   ترجمۂ کنز الایمان: تو جس نے عہد توڑا اس نے اپنے بڑے عہد کو توڑا۔

﴿3﴾…

وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖؕ- (پ۲۲،فاطر:۴۳)                              ترجمۂ کنزالایمان:اوربُراداؤں (فریب)اپنےچلنےوالےہی پرپڑتا ہے۔

ثَعْلَبَہ بن ابو  حاطب کاعبرت ناک قصہ:

      ثعلبہ بن ابو حاطِب تاجدارِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اَقْدس میں حاضر ہوااور عرض کی:یارسولَ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میرے لئےدعا فرمائیں کہاللہ عَزَّ   وَجَلَّ مجھے مال عطا فرمائے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اے ثعلبہ! تھوڑا مال جس پرتُو اللہ عَزَّ   وَجَلَّ کا شکر ادا کرے اس زیادہ مال سے بہتر ہے جس پر تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا نہ کرسکے۔ ثعلبہ چلا گیا دوبارہ خدمتِ اقدس میں حاضرہواتوعرض کی:یارسولَاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میرے لئےدعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے مال عطا فرمائے۔ارشاد فرمایا:اے ثعلبہ !کیاتیرے لئے میری زندگی نمونہ نہیں ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قَبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں چاہوں کہ یہ پہاڑ میرے ساتھ سونا اور چاندی بن کر چلیں تو یہ چل پڑیں گے۔ثعلبہ چلا گیا پھر جب خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو عرض کی:یارسولَاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میرے لئےدعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے مال عطا فرمائے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بناکر بھیجا ہے! اگر آپ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا مانگیں کہ وہ مجھے مال عطا فرمائے تو میں اس میں سے ضرور ہر حق دار کو اس کا  حق دوں گا اوراس پر میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے عہد کرتا ہوں ۔قاسِمِ نعمت، ساقِیِ کوثر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی:اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!ثعلبہ کو مال عطا فرما۔اس کے بعد اس نے کچھ بکریاں خریدیں تو وہ بکریاں ایسے بڑھنے لگیں جیسےکیڑے بڑھتے ہیں حتّٰی کہ مدینہ طَیِّبہ میں ان کے لئے  جگہ تنگ ہوگئی تو وہ وہاں سے ایک وادی میں چلاگیا اور صرف ظہر اور عصر کی جماعت میں حاضِری دینے لگاباقی نمازوں میں جماعت کی حاضری چھوڑدی پھراس کی بکریاں مزید بڑھ گئیں تو وہ وہاں سے بھی آگے چلا گیا حتّٰی کہ اب صرف جمعہ کی نماز میں حاضری دینے لگا اور باقی تمام نمازوں میں حاضری چھوڑدی اور پھر جب اس کی بکریاں اور بڑھیں تو جمعہ کی حاضری بھی اس سے چھوٹ گئی پھر وہ مدینہ منورہ کی خیرخبر ان قافلے والوں سے لیتا جو نماز جمعہ کے لئے مدینہ طیبہ میں حاضر ہوتے۔ایک مرتبہ سرکارِ نامدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ


 

وَسَلَّمنے اس کے بارے میں پوچھاکہ  ثَعْلَبَہ بن ابوحاطِب کو کیا ہوا؟آپ کواس کی حالت بتائی  گئی تو آپ نے(تین مرتبہ ) ارشاد فرمایا:”ثعلبہ کے لئے ہلاکت ہے۔“(اسی دوران)اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قرآن پاک کی یہ آیت  نازل فرمائی:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ- (پ۱۱،التوبة:۱۰۳)

 ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل (وصول) کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کروبےشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے۔

      اس آیت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے زکوٰۃ فرض فرمادی تو حضورنبیّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک آدمی قبیلہ جُہَیْنَہ سے اور ایک بنو سُلَیم سے زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر فرمایااور ان کو زکوٰۃ  کی وصولی کا حکم نامہ لکھ کر دیا اور فرمایا کہ وہ جائیں اور مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کریں نیز ان سے یہ بھی فرمایا کہ ثعلبہ اور بنو سُلیم کے فلاں شخص کوبھی زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کہنا۔وہ دونوں رُخصت ہوئے حتّٰی کہ ثعلبہ کے پاس گئے اور اس سے زکوٰۃ کا مُطالَبَہ کیا نیز اسے رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاحكم نامہ پڑھ کر سنایا۔ اس نے کہا یہ تو ٹیکس ہے یا ٹیکس ہی کی طرح ایک مالی مَحصول ہے ،لہٰذا تم لوگ ابھی چلےجاؤ اور اپنے کام سے فارغ ہوکر آنا۔چنانچہ  وہ دونوں وہاں سے چلےاور بنو سُلیم کے اس شخص کے پاس پہنچ گئے،اس نے جب شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حکم نامہ سنا تو اپنے مال میں سے ایک عمدہ اونٹ نکال کر الگ کیا اور ان دونوں کے سامنے پیش کردیا۔ انہوں نے دیکھ کرکہا:تم پر عمدہ مال دینا واجب نہیں ہے ، لہٰذاہم تم سے یہ عمدہ مال نہیں لیں گے۔وہ کہنے لگا:میں دل کی خوشی سے دے رہاہوں اسے لے لو۔چنانچہ انہوں نے اسے لے لیا۔ جب وہ دونوں صَدَقہ کی وُصولی سے فارغ ہوئے تو واپس لوٹتے ہوئے ثعلبہ کے پاس آئے اور اس سے پھرزکوٰۃ  کا مطالبہ کیا۔اس نےکہا:مجھےرسولِ پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا تحریری حکم نامہ دکھاؤ جب اس نے وہ تحریر دیکھی تو اسے دیکھ کر کہنے لگا :یہ تو ٹیکس کی طرح مالی محصول دکھائی دیتا ہے،تم ابھی چلے جاؤ میں اس کے بارے میں سوچتاہوں ۔وہ دونوں وہاں سے رخصت ہوکر خِدمَتِ اَقدس میں حاضر ہوگئے،آپ نے ان کو دیکھا تو ان کے کلام کرنے سے پہلے  ہی ارشاد فرمایا :”ثعلبہ کے لئےہلاکت ہے۔“پھرآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےبنوسُلَیم کےشخص کےحق میں دعافرمائی۔اس کےبعدان دونوں نے ثعلبہ اور بنو سُلَیْم کے شخص کاسارا واقعہ  بارگاہِ اقدس میں عرض کر دیا۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ثعلبہ کے متعلق قرآن پاک کی یہ آیت نازل فرمائی :


 

وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَىٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۷۵)فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۷۶)فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۷۷)(پ۱۰،التوبة:۷۵تا۷۷)

ترجمۂ کنز الایمان:اوران میں کوئی وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد  کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے دےگا تو ہم ضرور خیرات کریں گےاورہم ضرور بھلےآدمی ہوجائیں گےتوجباللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اس میں بخل کرنے لگے اور منہ پھیر کر پلٹ گئے تو اس کے پیچھے اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا اس دن تک کہ اس سے ملیں گے بدلہ اس کا کہ انہوں نے اللہسے وعدہ جھوٹا کیا اور بدلہ اس کا کہ جھوٹ بولتے تھے۔

      اس آیت کے نُزول کے وقت رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس ثعلبہ کاایک قریبی  رشتہ داربیٹھا ہوا تھا اس نے جب یہ آیت سنی تووہ وہاں سے نکل کر ثعلبہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ثعلبہ! تیرے متعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّنے ایسا ایسا نازل فرمایا ہے (یعنی مذکورہ آیت)۔ ثعلبہ نے یہ سنا توخدمت اقدس میں حاضر ہواکرزکوٰۃ قبول کرنےکی درخواست کی۔ آپ نے ارشاد فرمایا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے۔وہ اپنے سر پرمٹی ڈالنے لگاتو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: یہ تیرے اپنے کئے کی سزاہے میں نے تجھے حکم دیا تھا لیکن تونے میری بات نہیں مانی۔ثعلبہ مایوس ہوکر گھرلوٹ گیا۔آپ کےوِصالِ ظاہری کےبعدجب حضرت سیِّدُناابوبکررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مَسندِخلافت پررونق افروز ہوئےتو ثعلبہ آپ کے پاس آیا اور آپ سے زکوٰۃقبول کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا پھر وہ حضرت سیِّدُناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے(دور خلافت میں ان کے)پاس آیاتوانہوں نے بھی اس کا صدقہ قبول کرنے سے انکار فرمادیا پھر امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دور خلافت میں ثعلبہ مرگیا([66])۔([67])

      دیکھا آپ نے بدعہدی کا کیسا بُرا انجام ہوا اور ثعلبہ نے اپنی بدعہدی کا کیسا وبال چکھاکہ ہمیشہ کی عار اُس کے نام کے ساتھ


 

ہوگئی اوروہ خسارے میں جاپڑا اور نفاق کے باعث قیامت کی ذلت اپنے نام کی۔عہد توڑنے سے بڑھ کر کون سی ذلت وخواری ہوگی اورایسے دھوکے سے بڑھ کر کون سی بُرائی ہوگی جو نفاق کی طرف لے جائے۔

بدعہدی کی نیت کا وبال:

      جب امین نے مامون رشید کے لئے بیتُ اللہ میں قسم اٹھائی اوریہ دونوں ولی عہد تھےتو جعفر بن یحییٰ نے امین سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ یہ کہے کہ اگر میں نے مامون کو دھوکا دیا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّمجھے ذلیل ورسوا کرے۔ امین نے تین مرتبہ ایسا کہا۔ فضل بن ربیع کہتے ہیں :مجھے امین نے بیتُاللہسے نکلتے ہوئے کہا:اے ابوالعباس! میں اپنے دل میں یہ پارہاہوں کہ میں اپنی بات کو پورا نہیں کرپاؤں گا۔میں نے کہا:ایسا کیوں ؟امین نے  کہا:جس وقت میں نے قسم اٹھائی اُس وقت ہی میری نیت بدعہدی کی تھی اور جب ایسا ہو تو وہ معاملہ پورا نہیں ہوتا۔

باپ سے بے وفائی کا انجام:

      اہل عرب کے واقعات میں سے ہے کہ ضیزن بن معاویہ ایک بادشاہ تھا جس کی مملکت دجلہ سے فرات تک تھی اور اس کا ایک مضبوط قلعہ تھا جو جَوْسَق کے نام سے مشہور تھا۔جب اس کی مملکت کی حدود بڑھنا شروع ہوئیں تو اُس نے شابور کے شہر پر حملہ کیا ، شابور کی بہن کو پکڑ لیا اور وہاں کے بہت سے باشندوں کو قتل کر دیا۔شابور کے پاس جب خبر پہنچی تو وہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر ضیزن کے مقابلے میں آیا اور چار سال تک اُس کے قلعے کا محاصرہ کئے رکھااورکوئی چیز اُس تک پہنچنے نہ دی۔ایک مرتبہ ضیزن کی بیٹی نضیرہ نے قلعے سے باہر جھانکاتو اس کی نظر شابور پر پڑھی جو اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر خوبصورت تھا۔ نضیرہ نے اُسے دیکھا تو اس کے عشق میں مبتلا ہوگئی۔نضیرہ نےاُس کی طرف لکھ کربھیجاکہ اگر میں تمہیں وہ راستہ بتادوں جس سےقلعےمیں داخل ہوکرتم میرے باپ کوقتل کرسکتے ہو تو مجھے کیا ملے گا؟شابور نے جواب دیا: میں تجھے ملکہ بناؤں گا۔نضیرہ نے اُسے وہ راستہ بتادیا تو شابور نے قلعے کو فتح کرلیا ،ضیزن کو قتل کیا اور نضیرہ سے شادی کرلی۔شادی کی رات نضیرہ سونہ سکی تو شابور نے اُس سے جاگنے کا سبب پوچھا ، نضیرہ نے بستر کے سخت ہونے کی شکایت کی۔شابور نے کہا:یہ بستر تو ریشم کا ہے جس میں شتر مرغ کے پر بھرے ہوئے ہیں ۔پھر شابور نے اُس کے جسم کو دیکھا تو ایک پتے کو  اس کے جسم کے ساتھ چمٹا ہوا پایا،پتا ہٹایا تو وہاں سے خون نکل پڑا۔شابور اس کے جسم کی نرمی ولطافت دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور اس سے کہا کہ تمہارا باپ تمہیں کیا غذا کھلاتا تھا۔نضیرہ نے کہا:ہڈی کا گودا،مکھن اور شہد کھلاتا


 

 تھا۔شابور نے کہا:وہ تیرے ساتھ بھلائی کرتا تھا، تونے اُس کے ساتھ بے وفائی کی،جب تو اپنے باپ کے ساتھ بے وفائی کرسکتی ہے تو میرے ساتھ بھی کرسکتی ہے۔ یہ کہہ کر شابور نے اسے قتل کرادیا۔

دوسری فصل:                                                                                                   چوری کا بیان

       منقول ہے کہ عمروبن عبید لوگوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا تو اُن سے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟لوگوں نے کہا: بادشاہ ایک چور کا ہاتھ کٹوارہا ہے۔عمروبن عبید نے کہا:علانیہ چوری کرنے والا خفیہ چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ رہا ہے۔

       سکندر نے ایک چور کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم دیا تو اس نے کہا:اے بادشاہ!میں نے جو کیا سو کیا اب میں اسے ناپسند کرتا ہوں ۔سکندر نے کہا:اب تو ناپسند کرےتب بھی تجھے پھانسی ضرور ہوگی۔

       ایک شخص نے کسی کی قمیص چوری کی اور بیٹے کودی کہ وہ اسے بیچ آئے۔وہ قمیص بیٹے سے بھی چوری ہوگئی جب وہ گھر آیاتو باپ نے پوچھا:کتنے میں قمیص بیچی؟بیٹے نے کہا:اصل مال کے عوض۔

تیسری فصل:                                                                                                    بغض وعداوت کا بیان

                             اللہ عَزَّ  وَجَلَّ قران پاک میں بغض وعداوت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

﴿1﴾…

وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ- (پ۶،المائدة:۶۴)

ترجمۂ کنز الایمان:اور ان میں ہم نے قیامت تک آپس میں دشمنی اور بَیر(بغض)ڈال دیا۔

﴿2﴾…

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۵) (پ۱۲،یوسف:۵)

 ترجمۂ کنز الایمان:بے شک شیطان آدمی کا کُھلا دشمن ہے۔

﴿3﴾…

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ- (پ۲۲،فاطر:۶)

ترجمۂ کنز الایمان:بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو۔

﴿4﴾…

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ

ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو تمہاری کچھ بیبیاں اور بچّے


 

عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْۚ- (پ۲۸،التغابن:۱۴)

تمہارے دشمن ہیں تو ان سے احتیاط رکھو۔

       رسول اکرم،شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:”تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔“([68])

       حضرت سیِّدُناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں :عداوت نسل درنسل چلتی ہے۔

عقل مند دشمن زیادہ پسند:

       کسریٰ سے پوچھاگیا:لوگوں میں کس کے متعلق آپ یہ زیادہ پسند کرتے ہیں کہ وہ عقلمند ہو۔کسریٰ نے کہا: جو میرا دشمن ہو۔کہا گیا:ایسا کیوں ؟کسریٰ نے کہا:جب وہ عقلمند ہوگا تو میں اُس سے امن وعافیت میں رہوں گا۔

       کہا گیا ہے کہ علانیہ عداوت رکھنے والے شخص کے مقابلے میں دل میں کینہ رکھنے والے شخص سے زیادہ خوفزدہ رہوکہ ظاہری بیماری کا علاج چھپی ہوئی بیماری کے علاج سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔

       حجاج نے ایک خارجی سے کہا:بخدا!میں تجھ سے بغض رکھتا ہوں ۔خارجی نے کہا:ہم میں سے جو دوسرے سے زیادہ بغض رکھتا ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّاسے جنت میں داخل کرے۔

       منقول ہے کہ جب نوشیرواں نے اپنے بیٹے ہُرمُز کو اپنا جانشین بنانا چاہا تو مملکت کے بڑے لوگوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے ہرمز کو ناپسند کیا اوربعض  نے کہا:اُس کی ماں ترکیہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اُن کے اخلاق کیسے ہوتے ہیں ۔نوشیرواں نے کہا:بیٹے ماں کی طرف نہیں بلکہ باپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور قباذ کی ماں بھی ترکیہ تھی اور تم نےاُس کی اچھی سیرت دیکھی ہے۔نوشیرواں سے کہا گیا کہ ہرمز لوگوں کو پسند نہیں ۔نوشیرواں نے کہا:میرے بیٹے کی رحم دلی ہی اسے ہلاک کرے گی۔

       کہا گیا ہے کہ جب انسان میں کوئی ایسی بھلائی ہوجو لوگوں کی محبت کا سبب نہ ہو تووہ بھلائی ،بھلائی نہیں اور جس میں کوئی ایسا عیب ہوجو  لوگوں کی نفرت کا سبب نہ ہوتو وہ عیب ،عیب نہیں ۔

سب سے لذیذ شے:

       ابوحیان سے مروی ہے کہ حضرت سیِّدُنالقمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰن نے فرمایا:وزنی چٹان منتقل ہو سکتی ہے اور بھاری  لوہے


 

 کو اٹھایا جاسکتا ہے لیکن میں نے قرض سے بھاری کوئی شے نہیں دیکھی۔میں نے قِسم قِسم کے کھانے کھائے اور خوبصورت عورتوں سے نکاح کیا لیکن میں نے عافیت سے بڑھ کر لذیذ کوئی شے نہ دیکھی۔ میں یہ کہتا ہوں کہ سمندروں کو خالی کرنا اور ویرانے کو صاف کرنامیری مصیبت پر دشمنوں کے خوش ہونے  سے زیادہ آسان ہےخصوصاً جبکہ وہ قریبی ہوں اورایک ہی شہر کے ہوں ۔اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّمیں تجھ سے پے درپے گناہوں ،بُرے فہم اوراپنے چچازاد کے  میری مصیبت پر خوش ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔

      حضرت سیِّدُناایوبعَلَیْہِ السَّلَامسےعرض کی گئی:آپ کوآزمائش میں کون سی شےسب سےسخت محسوس ہوئی؟ فرمایا :دشمنوں کا میری مصیبت پر خوش ہونا۔

      جاحظ نے کہا:میں نےدشمنوں کی شماتت سے بڑھ کر کوئی نیزہ نشانے پر لگنے والا نہ دیکھا۔

      ایک دانشور نے کہا ہےکہ تم اپنے دشمن سے کبھی بے خوف نہ ہونا اگرچہ وہ کمزور ہو کیونکہ کبھی لاٹھی سے بھی قتل ہوجاتا ہے۔

چوتھی فصل:                                                                                                                                                                                 حسد کا بیان

      اللہ عَزَّ  وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:

اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ- (پ۵،النساء:۵۴)

ترجمۂ کنز الایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں  اس پر جو اللہنے انہیں اپنے فضل سے دیا۔

      رسول اکرم، نُورِ مُجَسّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:حاجتیں پوری کرنے کے لئے نعمتیں چھپاکر مدد چاہوکیونکہ ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے۔([69])

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں :حاسد اُس پر غصے سے بھڑکتا ہے جس کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔

      کہا گیا ہے کہ حسد کرنے والا درحقیقت تقدیر الٰہی پر ناخوش  ہوتا ہے۔

      منقول ہے کہ تین بُرائیاں ایسی ہیں کہ وہ جس میں ہوں وہ اپنی زندگی سے لذت نہیں اٹھا سکتا: (۱)…کینہ (۲)…حسد


 

 اور (۳)…بداخلاقی۔

      بعض نے کہا:حسد بُرا شِعارہے۔کسی سے کہا گیا کہ فلاں تم سے کیوں بغض رکھتا ہے؟کہا:کیونکہ وہ میرا بھائی، پڑوسی اور میرا شریک ہے۔یعنی اس نے خود سے حسد کرنے کے تمام اسباب بتا دیئے۔

      ایک اعرابی نے کہا:حسد ایسی بیماری ہےجس سے حسد کیا جائے اس سے زیادہ حاسدکونقصان پہنچاتی ہے۔

      ایک روایت میں ہے:اللہ عَزَّ  وَجَلَّحسد کو برباد کرے کہ یہ کیسی بُری بیماری ہے جو حاسد کو ہی ختم کردیتی ہے۔

حاسد کے لئے پانچ سزائیں :

      حضرت سیِّدُنافقیہ ابولَیْث سَمَرقَنْدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :حاسد کا حسد محسود(جس سے حسد کیا جائے) تک پہنچے اس سے پہلے اُسے پانچ سزائیں ملتی ہیں :(۱)…نہ ختم ہونے والا غم (۲)…ایسی مصیبت جس پر اجر نہ ملے (۳)…ایسی مذمت جس پر تعریف نہ ہو (۴)…رب تعالیٰ کی ناراضی اور(۵)…توفیق سے محرومی۔

حاسد وزیر کا عبرتناک انجام:

      عرب کا ایک دیہاتی شخص خلیفہ بغداد مُعْتَصِم بِاللہ کے پاس آیا تو معتصم نے اُسے اپنے قریب کیا اور اسے  اپنا ہم نشین بنالیا۔یہ دیکھ کر وزیر اُس سے حسد کرنے لگا اور اپنے دل میں کہا:اگر میں نے اس دیہاتی کے قتل کا حیلہ نہیں کیا  تو یہ امیرالمؤمنین کے دل میں جگہ بنالے گا اور مجھے ان سے دور کردے گا۔چنانچہ اُس وزیر نے ایک دفعہ دیہاتی کو بڑے پیار سے اپنے ہاں بلایا، اُس کے لئے کھانا بنایا اوراس میں لہسن زیادہ کردیا۔ جب وہ دیہاتی کھانا کھا چکا تو وزیر نے اُس سے کہا:تم سے لہسن کی بو آرہی ہے اور امیر المؤمنین کو لہسن کی بو ناپسند ہے لہٰذا تم امیرالمؤمنین سے دور رہنا کہ کہیں انہیں تمہاری وجہ سے تکلیف نہ ہو۔پھر وزیر معتصم  کے پاس گیااور اس سے تنہائی میں کہا:آپ کا مقرب دیہاتی کہتا ہے کہ آپ کے منہ سے بدبو آتی ہے۔تھوڑی دیر بعد وہ دیہاتی معتصم کے پاس جاتا ہے تو اس ڈر سے کہ کہیں لہسن کی بو امیرالمؤمنین تک نہ پہنچےاپنی آستین منہ پر رکھ لیتا  ہے۔معتصم اُسے دیکھ کر دل میں یہ خیال کرتا ہے کہ وزیر نےجو اس دیہاتی کے متعلق کہا وہ سچ ہے۔چنانچہ معتصم اپنے ایک گورنر کی طرف خط لکھتا ہے جس میں یہ تحریر کرتا  ہے:”جب یہ خط تمہارے پاس پہنچے تو خط لانے والے کی گردن اڑادینا۔“یہ خط لکھ کر معتصم اُس دیہاتی کو اپنے پاس بلاتا ہےاور اسے خط دے کر کہتا ہے:یہ خط لو اور اسے فلاں تک پہنچاؤ اور اس کا جواب لے کر میرے پاس آؤ۔ دیہاتی معتصم کا خط لے کر چل پڑتا ہے،دروازے تک


 

پہنچتا ہے تو اسے وزیر ملتا ہے۔وزیر اُس سے کہتا ہے: کہاں جارہے ہو؟ دیہاتی کہتا ہے:امیرالمؤمنین نے مجھے یہ خط دے کر فلاں گورنر کی طرف بھیجا ہے۔وزیر نے دل میں کہا:ضرور اس میں امیر المؤمنین نے خط لانے والے کے لئے کثیر مال کا حکم دیا ہوگا۔یہ سوچ کر وزیر اُس سے کہتا ہے:اے دیہاتی !تم اُس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جو تمہارے اس تھکاوٹ بھرے سفرسےراحت میں بھی رہےاوراُسے دو ہزار دینار بھی مل جائیں ۔دیہاتی نے کہا:آپ بڑے ہیں اور آپ حاکم ہیں جیسےآپ کی رائے ہو ویسا کریں ۔وزیر نے کہا:خط مجھے دےدو۔دیہاتی وہ خط اُسے دے دیتا ہے اور وزیر دوہزار دینار اُس کے حوالے کردیتا ہے۔پھر وزیر وہ خط لے کر اُس گورنر کی طرف چل پڑتا ہے جس کی طرف خط لکھا گیاتھا اور وہاں پہنچ کر خط اُس کے حوالے کردیتا ہے۔گورنر خط پڑھ کر وزیر کی گردن مارنے کاحکم دیتا ہے تو وزیر کی گردن مار دی جاتی ہے۔کچھ دنوں کے بعد معتصم دیہاتی اور وزیر کے متعلق پوچھتا ہے تو بتایا جاتا ہےکہ وزیر کی کئی دنوں سے کوئی خبر نہیں جبکہ دیہاتی اسی شہر میں مقیم ہے۔معتصم دیہاتی کو حاضر کرنے کا حکم دیتا ہے تو دیہاتی کو حاضر کردیا جاتا ہے۔معتصم دیہاتی سے اُس کا حال احوال پوچھتا ہے تو دیہاتی وزیر کے ساتھ ہونے والا سارامعاملہ اول سے آخر تک  اُسے بیان کردیتا ہے۔معتصم اُس سے کہتا ہے:تم نے ہی میرے متعلق لوگوں سے کہا کہ میرے منہ سے بدبو آتی ہے۔دیہاتی نے کہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی پناہ!میں ایسی بات کروں جس کا مجھے علم نہیں ۔ضرور یہ اُس وزیر کا میرے متعلق مکر وفریب اور حسد تھا جبھی وہ مجھے اپنے گھر لے گیا اور مجھے ایسا کھانا کھلایا جس میں لہسن زیادہ تھاپھر وہ ہوا جو آپ نے دیکھا۔معتصم نے کہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ حسد کو برباد کرے کہ یہ کیسی بُری بیماری ہے جو حاسد کو ہی ختم کردیتی ہے۔پھرمعتصم نے اُس دیہاتی کو خلعت سے نوازا اور اسے اپنا وزیر بنالیا۔

      حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہارشاد فرماتے ہیں :تمہارے لئے حاسد سے یہی کافی ہے کہ وہ تمہاری خوشی دیکھ کر غمگین ہوتا ہے۔

      حضرت سیِّدُنامالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں :عالم وقاری کی شہادت  ہر کسی کے بارے میں مقبول ہے لیکن ان کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف شہادت قبول نہیں کیونکہ ان میں بکروں سے زیادہ حسد ہوتا ہے۔

      حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم، نُورِ مُجَسّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔“([70])


 

اللہ عَزَّ  وَجَلَّفرماتا ہے:حاسد میری نعمت کا دشمن،میرے فیصلے پر ناراض اور بندوں کے درمیان میری تقسیم پر ناخوش ہے۔

طویل عمر کا راز:

      امام اصمعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :میں نے ایک دیہاتی کو دیکھا کہ اس کی عمر 120سال سے تجاوز کرچکی تھی تو میں نےاُس سے کہا:تمہاری عمر تو بہت لمبی ہے۔اُس نے کہا:میں نے حسد کو چھوڑ دیا جبھی اب تک زندہ ہوں ۔

      اہْلِ علم کہتےہیں :سردارکےساتھ دوشخص ضرورہوتےہیں ایک دوست جواس کی تعریف کرتاہےاور ایک حاسدجواس کی برائی کرتاہے۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی نعمتوں سے دشمنی:

      حضرت سیِّدُناابنِ مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں :خبردار!اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی نعمتوں سے دشمنی نہ کرنا۔ عرض کی گئی:ان سےکون دشمنی کرےگا؟فرمایا:وہ جو لوگوں سےاس پرحسدکرتےہیں جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّنےانہیں اپنےفضل سےعطافرمایا۔

      حضرت سیِّدُناعبداللہبن عروہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے عرض کی گئی: آپ نے اپنی قوم کو چھوڑ کر دیہات کی  زندگی کیوں اختیار کی؟فرمایا:کیونکہ اپنی قوم میں رہتے ہوئے میری نعمت پر حسد کیا جاتا ہے یا میری مصیبت پر خوش ہوا جاتا ہے۔

      نوابغ الحکم میں ہے کہ حسد ایسا کانٹا ہے جسے لگ جاتاہے اُسے ہلاک کردیتا ہے۔

      حضرت سیِّدُناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرمایا کرتےتھے:ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی پناہ مانگتے ہیں ہر ایسے معاملے سے جو حاسد کے ارادے کے موافق ہو۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

 

علم زندگی اورجہالت موت

علم موجِبِ حیات(زندگی کاباعث)بلکہ عین حیات اورجہل(بےعلمی)مورِثِ موت(موت کاسبب)بلکہ خودموت ہے۔(فیضانِ علم وعُلَما،ص۸)


 

باب نمبر40:                                         بہادری اور اس کے ثمرات، جنگ اور اس کی تدابیر،

جہاد اور شدت سے لڑنے کی فضیلت اور

جنگ پرابھارنے کا بیان

(اس باب میں دو فصلیں ہیں )

پہلی فصل:                                                         راہِ خدا میں جہاد کرنے اور  شدت سے لڑنے کا بیان

       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے مصیبت، سختی اور جہاد کے وقت میں صبر کرنے والوں کی تعریف فرمائی اور مجاہدین کی تعریف و توصیف  کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(۴) (پ۲۸،الصف:۴)

ترجمۂ کنز الایمان:بے شک اللہ دوست رکھتا ہے انہیں جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں پرا(صف)باندھ کر گویا وہ عمارت ہیں رانگا(سیسہ)پلائی۔

       دشمنوں کے خلاف جہاد کرنا ایک اچھا عمل ہے اور اس پر بہترین جزا کا وعدہ کیا گیا ہے۔

       جنگ میں حکمت عملی سے کام لینا بہادری سے بڑھ کر ہے۔

       مکی مدنی سلطانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”اَلْحَرْبُ خَدْعَةٌ یعنی لڑائی دھوکا ہے([71])۔“([72])

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے نزدیک پسندیدہ قطرہ:

       حضورنبی رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے نزدیک سب سے پسندیدہ قطرہ اُس  خون کا ہے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے راستے میں بہے یا وہ آنسو کا قطرہ پسندیدہ ہے جو اللہ  عَزَّ   وَجَلَّ کے خوف سے رات کے درمیانی حصے میں بہے۔ ([73])


 

جنت تلواروں کے سائے میں ہے:

       حضرت سیِّدُناعبداللہبن قیسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتےہیں کہ حضوررحمت عالَم، نُورِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:”اِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوْفِیعنی بےشک جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔([74])ایک شخص نے عرض کی: اےابو موسیٰ!کیاآپ نےحضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکویہ فرماتے سنا ہے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:جی ہاں ۔ وہ شخص اپنے ساتھیوں کی طرف گیا اور کہا: میں تمہیں الوداعی سلام کہتا ہوں ، پھر اس نے اپنی تلوار کی میان توڑکر پھینک دی اورتلوار لے کر دشمنوں کی طرف گیا اور ان سےجنگ کرنےلگا حتّٰی کہ شہید ہوگیا۔

شہیدکا خون قیامت کے دن نور ہوگا:

       حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کولکھا: جان لو کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی جانب سے تم پر کچھ  مدد کرنے والے مقرر ہیں جو تمہارا خیال رکھتے ہیں اور تمہیں دیکھتے ہیں ۔لہٰذا تم موت پر حریص ہوجاؤ تمہیں سلامتی ہی ملے گی اور شہدا کے خون کو  مت دھونا کیونکہ شہید کا خون قیامت کےدن اس کے لئے نور ہوگا۔

       حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے  ہیں کہ جب ہم خیبر پہنچے تو حضور نبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اَللہُ اَکْبَر!خیبر ویران ہوا، ہم جب کسی قوم کے صحن میں اُترتے ہیں تو ڈرائےہوؤں کی صبح بہت بُری ہوتی ہے۔([75])

دنیا ومافیہاسے بہتر:

       حضرت سیِّدُنا انس بن مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:صبح یا شام اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی راہ میں چلنا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے۔([76])

شہدا کی  ارواح کا مسکن:

       حضرت سیِّدُنا ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم، نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک شہداکی ارواح سبز پرندوں کے پوٹوں میں عرش کے ساتھ معلق قندیلوں میں رہتی ہیں ، جنت میں


 

 جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں اور پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں ۔([77])

سیّدُنا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شہادت:

      حضرت سیِّدُنا انس بن مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکےچچاحضرت سیِّدُنااَنَس بن نَضْررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہجنگ بدر میں حاضر نہ ہو سکےتو ہر وقت حسرت سے کہا کرتےتھے: ہائے افسوس !میں رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ پہلے معرکے میں حاضر نہ ہوسکا، پھر جب جنگ اُحد شروع ہوئی تو کہنے لگے: میں اُحد پہاڑ سے جنت کی خوشبو پاتا ہوں اور دشمنوں سے قتال کرنے لگے حتّٰی کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ شہید ہوگئے۔ ان کے جسم پر نیزےاور تلوار کے اسّی سے زائد زخم تھے، ان کی بہن حضرتِ سیِّدَتُنا ربیع بنت نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے بھائی کو ان کی انگلی سے پہچانا تھا۔

شہید کا عمل بڑھتا رہتا ہے:

      حضرت سیِّدُنافَضالَہ بن عُبَیْدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ آقائے نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:ہر مرنے والے کے عمل پر مہر لگا دی جاتی ہےسوائے اسلامی سرحد کی نگہبانی کرنے  والے کےاوراس  کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے۔([78])

سچی نیت سےشہادت کا  سوال:

      حضرت سیِّدُناسہل بن حُنَیْفرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتےہیں کہ حضورنبی رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جوسچی نیت سےشہادت کاسوال کرتاہےاللہ عَزَّ   وَجَلَّاسےشہدا کے مرتبے تک پہنچا دے گا اگرچہ وہ اپنے بستر پر مرے۔([79])

      ہماللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں شہادت کی موت عطا فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں سے کر دے جن کے لئے کثیر بھلائیاں ہیں ۔

 

قولِ سفیان ثوریعَلَیْہِ الرَّحْمَہ:علم عمل کوپکارتاہےسن لےتوٹھیک ورنہ علم چلاجاتاہے۔(جامع بیان العلم،ص۲۵۸)

دوسری فصل:                           بہادری،اس کے ثمرات،جنگ اور اس کی تدابیر

      جان لو کہ بہادری فضائل کا ستون ہے اور جس میں بہادری نہ ہو اُس میں کوئی فضیلت کامل نہیں ۔ بہادری کو صبر اور قوتِ نفس سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

جنگی تدابیرکا قرآنی حکم:

      اللہ عَزَّ  وَجَلَّجنگی تدابیر کے متعلق ارشاد فرماتا  ہے:

وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ (پ۱۰،الانفال:۶۰)

 ترجمۂ کنزالایمان:اوران کےلئےتیاررکھوجوقوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ اِن سےاُن کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن ہیں ۔

               یہ فرمانِ باری تعالیٰ:” مَّا اسْتَطَعْتُمْ “اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بندہ اپنی طاقت کے مطابق جنگ کا سامان، آلات اورحیلہ اختیار کرے۔

تفسیر نبوی:

      حضور نبی کریم، رؤوفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی قوت کی تفسیر فرمائی چنانچہ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تیر چلانے والے لوگوں کے پاس سے گزرےتو فرمایا:” اَلَا اِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ اَلَا اِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ اَلَا اِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ یعنی سنو! قوت تیر اندازی ہے، سنو! قوت تیر اندازی ہے، سنو! قوت تیر اندازی ہے۔“([80])

جہاد کی بہترین تیاری:

      جہاد کی بہترین تیاری  یہ ہے کہ اچھے اعمال اختیار کرے مثلاً صدقہ کرنا، روزے رکھنا، ظلم نہ کرنا، صلہ رحمی کرنا، اخلاص کے ساتھ دعا کرنا، نیکی کی دعوت دینا، برائی سے منع کرنا اور اسی طرح کے دیگر کام کرنا۔

      ساری کی ساری شان قیادت کا فریضہ انجام دینے والوں ،سپہ سالاروں  کا انتخاب کرنے والوں اور ان لوگوں کی ہے جن کو ترجیح دی جاتی ہے۔


 

      عجم کےکسی داناکاقول ہے:ایک شیرکا100لومڑیوں کی قیادت کرنابہترہےاس سےکہ ایک لومڑی100شیروں کی قیادت کرے۔

لشکر کے آگے کیسا شخص ہو؟

      لشکر کے آگے وہی شخص رہے جو جرأت و بہادری والا ہو، لشکر کو ثابت قدم رکھنے والا ہو، ارادے کا پکا ہو، بہادری میں یکتا ہو،  جو جنگ کے درمیان مردوں کی ہمت بڑھاتا ہو اور  وہ اس کی ہمت بڑھاتے ہوں ، دو افراد سے ایک ساتھ لڑتا ہو، بہادری سے شمشیر زنی کرتا ہو، پانی کی جگہوں کو جاننے والا ہو،لشکر کے دائیں ، بائیں اور وسط سے  خبر دار ہو، جب وہ شخص ایسا ہو گا تو تمام لوگ اس کی رائے پر عمل کریں گے  ۔

سپہ سالار میں کیسی صفات ہوں ؟

      تمام عقلا کے نزدیک جنگ دھوکاہے۔ ترک سردار کہتے ہیں : قیادت کرنے والے عقلمند شخص میں مختلف جانوروں والی صفات ہوں مثلاً مرغ کی طرح بہادر ہو، مرغی کی طرح جستجوکرنے والا ہو، شیر والا دل ہو، خنزیر کی طرح حملہ کرتا ہو، لومڑی کی طرح چال باز ہو، زخمی ہونے  میں کتے کی طرح صبر کرتا ہو، سارس (ایک آبی پرندہ) کی طرح محافظ ہو، بھیڑیئے کی طرح غارت گری کرنے والا ہو اور  محنت کرنے میں نُغَیر کی طرح ہو، یہ ایک چھوٹا سا پرندہ ہے جو خراسان میں پایا جاتا ہے اور خوب محنت و مشقت کرتا ہے۔

10سخت چیزیں :

      روایت  ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے دس چیزیں بہت سخت پیدا کی ہیں : (۱) پہاڑ(۲) لوہا کہ پہاڑ کو توڑ دیتا ہے (۳)آگ کہ لوہے کو کھا جاتی ہے(۴) پانی کہ آگ کو بجھا دیتا ہے(۵) بادل کہ پانی کو اٹھا لیتا ہے (۶) ہوا کہ بادل پر تصرف کرتی ہے(۷) انسان کہ ہوا پر غالب آجاتا ہے(۸) نشہ کہ انسان کو گرا دیتا ہے (۹) نیند کہ نشے کو ختم کر دیتی ہے اور(۱۰) فکر مندی کہ نیند کو اڑا دیتی ہے۔([81])

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ان دسوں میں سب سے سخت فکر مندی کو پیدا کیا ہے، اے اللہ! ہم فکر مندی اور غم سے تیری پناہ چاہتے ہیں ۔


 

جنگی چالیں :

      جنگ کی چالوں میں سے ہے کہ دشمن کے لشکر میں جاسوس بھیجے جائیں تاکہ ان کے بارے میں معلومات ملیں ، جاسوس ان کے سرداروں اور بہادروں کے دل اپنی طرف مائل کرلیں ، خود کو ان سے بچا کر رکھیں اور انہیں اچھی امیدیں دلائیں ، ان کی لالچ کو بڑے  مرتبے اور مال و دولت کے شوق میں مزید بڑھائیں ۔ جب جاسوس دیکھے کہ ان کے چہروں پر تحفوں کے لئے تڑپ ہے تو ان سے اسی وقت جُدا ہو جائے یا لڑائی کے وقت الگ ہوجائے اورمعلومات تیر پر لکھ کر اپنے لشکر کی طرف پھینک دے۔

      یہ بات یاد رکھو کہ یہ حیلہ وغیرہ قضا و قدر کو نہیں ٹالتے اورحکومت جب زائل ہوجائے تو ان کا کیا ہوا حیلہ ان کے لئے وبال بن جاتا ہے اور  جب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کسی مصیبت کو داخل ہونے کا حکم دیتا ہے تو وہ اس حیلے میں بھی داخل ہوجاتی ہے۔

حکایت: ایک بہادر مجاہد

      حضرت سیِّدُنا ابو بکر طرطوشی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیبیان کرتے ہیں : میں نے اپنے استاذ قاضی ابو ولید یحییٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے سنا کہ  ایک مرتبہ حاکم اندلس منصور بن ابو عامر کسی جنگ میں ایک اونچی جگہ کھڑا ہوا اور اس نے اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لشکر کو ملاحظہ کیا جس نے ہموار زمین اور پہاڑوں کو گھیر رکھا تھا ۔ منصور لشکر کے سپاہ سالار کی طرف گیا جو ابنِ مُضْجَعِی کے نام سے جانا جاتا تھا اور اُس سے کہا: اے وزیر! تم اس لشکر کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ وزیر نے کہا: یہ بہت بڑا اور عظیم لشکر ہے۔  منصور نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے اس لشکر میں ایک ہزار بہادر شہسوار لڑنے والے ہوں گے؟ ابنِ مضجعی خاموش رہا تو منصور  نے کہا: تم خاموش کیوں ہو؟ کیا اس لشکر میں ایک ہزار لڑنے والے بہادر نہیں ہیں ؟ ابنِ مضجعی نے کہا: نہیں ۔ منصور بڑا متعجب ہوا، پھر منصور نے کہا: کیا ان میں گنے چنے پانچ سو بہادر ہیں ؟ ابن مضجعی نے کہا: نہیں ۔منصور بڑا غضب ناک ہوا، پھر کہا: کیا ان میں بہادری سے لڑنے والے سوبھی نہیں ؟ ابن مضجعی نے کہا: نہیں ۔ منصور نے کہا: کیا پچاس بہادر بھی نہیں ؟ ابن مضجعی نے کہا: نہیں ۔  منصور نے اسے بُرا بھلا کہا اور اس پرشدید غضب ناک ہوتے ہوئے اُسے عہدے سے برطرف کردیا اور اسی ناراضی کی حالت میں وہاں سے چلا آیا۔ جب لشکر روم کے شہر پہنچا تو رومی جمع ہوگئے اور دونوں لشکروں کا سامنا ہواتو رومیوں کی صف میں سے ایک مضبوط شخص نکلا جس نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اور وہ یہ پکار رہا تھا:”ہے کوئی مقابلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کی صف میں سے ایک


 

 شخص مقابلے کے لئے نکلا، کچھ دیر ان کا مقابلہ ہوا اور رومی نے مسلمان کو شہید کردیا تو مشرکین خوشی منانے اور چیخنے لگےاور وہ رومی صفوں میں پھرنے لگا اور پکارنے لگا:ہے کوئی مقابلہ کرنے والا؟ہے کوئی دوسرا مقابلہ کرنے والا؟ مسلمانوں میں سے ایک شخص اور مقابلے کے لئے آیا، کچھ دیر ان میں مقابلہ ہوا اور رومی نےدوسرے مسلمان کوبھی  شہید کردیا اور پھر سے پکارنے لگا:ہے کوئی مقابلہ کرنے والا؟ ہے کوئی تیسرا مقابلہ کرنے والا؟ مسلمانوں میں سے ایک اورشخص نکلا اور رومی نے اسے بھی شہید کردیا تو مشرکین شور مچانے لگے اور مسلمانوں کو شرمندگی اٹھانا پڑی، قریب تھا کہ مسلمانوں کی ہمت ٹوٹ جاتی کہ کسی نے منصور سے کہا: اب اس کا مقابلہ ابن مُضْجَعِی ہی کرسکتا ہے۔ ابن مضجعی کو بلا کر منصور نے کہا: تم نے دیکھا آج اس رومی کتے نے کَیا کِیا؟ ابن مضجعی نے کہا: جی ہاں ! میں نے دیکھا ہے، آپ اب کیا چاہتے ہیں ؟ منصور نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس کے شر سے بچایا جائے۔ ابن مضجعی نے کہا: اب اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کے شر سے مسلمان بچ جائیں گے۔ پھر وہ اپنی پہچان والے لوگوں کی طرف گیا ، اہل ثغور کا ایک شخص گھوڑےپر سوار اپنے آگے پانی کا مشکیزہ لئے اس کے سامنے آیا۔ اس نے جنگی لباس پہنا ہوا تھا اور اُس پر خودپسندی کے آثار نہ تھے۔ ابنِِ مضجعی نے اس سے کہا: تو نے دیکھا اس رومی نے آج کَیا کِیا؟ اس نے کہا: جی ہاں ! دیکھا ہے، آپ کیا چاہتے ہیں ؟ ابن مضجعی نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ مسلمان اس کے شر سے بچیں ۔ اس نے کہا: ایسا ہی ہوگا، پھر اس نے مشکیزہ زمین پر رکھا اور پروا کئے بغیر اسے للکارتا ہوا اس کی جانب گیا، کچھ دیر مقابلہ ہوا اور لوگوں نے دیکھا کے مسلمان شخص وہاں سے بھاگتا ہوا آگیا اب وہاں کچھ نہ تھا اور اس رومی کا سر مسلمان شخص ہاتھوں میں لئے کھیل رہا تھا، پھر اس نے رومی کا سر لاکرمنصور کے قدموں میں ڈال دیا۔ابن مضجعی نے منصور سے کہا:ان لوگوں کے بارے میں آپ کو میں خبر دے چکا تھا۔منصور نے یہ سن کر ابن مضجعیکو اُس کے عہدے پر بحال کردیااور اس کا اکرام کیا، اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے مسلمان لشکر کو فتح و کامیابی عطا فرمائی۔

مشہور شہسوار ابن فتحون:

      منقول ہے کہ عرب میں ایک شہسوار تھا جسے ابنِ فَتْحُون کے نام سے جانا جاتا تھااور وہ  اپنے زمانے میں عرب و عجم میں سب سے زیادہ بہادر تھا۔عباسی خلیفہ مُسْتَعِن بِاللہ اس کی بہت عزت و تکریم کرتا تھا اور اس کے لئے ہر عطیہ میں 500 دینار بھیجتا تھا، یہ کفار  کے لئے خوف کی علامت تھا، شجاعت کے نام سے جانا جاتا تھا،  دشمن اس سے مقابلہ کرنے سے خوفزدہ رہتے تھے۔


 

منقول ہے کہ رومی اگر اپنے گھوڑے کو پانی پلاتا اور وہ پانی نہ پیتا تو رومی گھوڑے سے کہتا: تُو ہلاک ہو! پانی کیوں نہیں پیتا؟ کیا پانی میں ابن فتحون نظر آ گیا ہے؟

      سلطان کی ابن فتحون پرنظر،عنایات  اور مرتبہ دیکھ کر حاسدوں نے خلیفہ مُسْتَعِینسے شکایات کیں اور اسے ابن فتحون سے دور کردیا اور انعامات سے روک دیا۔مستعین نے روم والوں سے جہاد کیا اور جب مسلمان اور مشرک آمنے سامنے ہوئے  تو ایک رومی میدان میں آیا اور پکارکر کہا:ھَلْ مِنْ مُّبَارِز یعنی ہے کوئی مقابلہ کرنے والا؟ مسلمانوں میں سے ایک مجاہد مقابلے کے لئے گیا، کچھ دیرمقابلہ ہوا اور رومی نے مسلمان کو شہید کردیا، مشرک خوشی سے شور کرنے لگے اور مسلمانوں کے دل  ٹوٹنے لگے، وہ رومی کتا صفوں کے درمیان گھومنے لگا اور پکارنے لگا: ہے کوئی دوسرا مقابلہ کرنے والا؟ مسلمانوں میں سے ایک  اور مجاہد نکلا اور رومی نے اسےبھی شہیدکردیا، مشرک خوشی سے شور کرنے لگے اور مسلمانوں کے دل  ٹوٹنے لگے، وہ رومی کتا صفوں کے درمیان گھومنے لگا اور پکارنے لگا: ہے کوئی تیسرا مقابلہ کرنے والا؟ مسلمانوں میں سے کسی میں بھی ہمت نہ ہوئی کہ اس سے مقابلہ کرتا، لوگ حیرت میں پڑ گئے، سلطان سے کہا گیا: اس کا مقابلہ صرف ابو ولیدبن فتحون ہی کرسکتا ہے۔  سلطان نے ابن فتحون کو بلوایا اورنرمی برتتے ہوئے اس سے کہا: اے ابوولید! تم نے دیکھا اس رومی نے کَیا کِیا؟ ابن فتحون نے کہا: ہاں میں نے دیکھا ہے۔ سلطان نے کہا: اس کے بارے میں کیا حیلہ ہے؟ ابن فتحون نے کہا: میں ابھی اس کے شر سے مسلمانوں کو بچاتا ہوں ، پھر ابن فتحون کتان کی قمیص پہن کر بغیر ہتھیار کے گھوڑے کی زین پر بیٹھ گیا اور ہاتھ میں ایک لمبا کوڑا پکڑ لیا جس کے کنارے پر گرہ لگی  ہوئی تھی اور نصرانی کو للکارا۔ نصرانی یہ دیکھ کر بڑا متعجب ہوا پھر دونوں میں مقابلہ ہونے لگا، نصرانی نے ابن فتحون کی زین پر وار کیا مگر ابن فتحوں گھوڑے کی گردن سے لٹکتا ہوا زمین پر اتر آیا پھردوبارہ زین پر آکر بیٹھ گیا اور اس رومی کو کوڑے سے مارنے لگا اور کوڑا اس کی گردن میں پھنسا کرزور سے جھٹکا دیا اور اس کی گردن توڑ دی اور اسے گھسیٹتے ہوئے لاکر خلیفہ مستعین کے قدموں میں ڈال دیا۔خلیفہ مستعین نے جان لیا کہ اس نے ابوولید بن فتحون کے معاملے میں غلطی کی تھی تو اس نے ابن فتحون سے معذرت کی اور اسے انعام و اکرام دیا اور اسے وہی مرتبہ پھر سے دے دیا، ابنِ فتحون مستعین کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والا تھا۔

سردارِ لشکر کے لئے احتیاطیں :

      لشکر کے سردار کو چاہئے کہ اپنی اس علامت کو چھپائے جس سے وہ مشہور ہوکیونکہ دشمن اسے پہچان جائیں گے۔ رات


 

 دن اپنے خیمہ میں نہ رہے اور اپنے انداز اور اپنی جگہ کو بدلتا رہے تاکہ دشمن اسے تلاش نہ کرسکیں ۔ جب جنگ ختم ہو جائے تو اپنی قوم کی چھوٹی سی جمعیت کے ساتھ لشکر کے باہر نہ چلے کیونکہ دشمنوں کے جاسوس اس کی جستجو میں ہوتے ہیں ۔ افریقہ کی فتح کے وقت کفار کے لشکر کو مسلمانوں نے اسی طرح شکست دی تھی کہ ان کا بادشاہ لشکر سے آگے آگیا تھا اور ممتاز ہوگیا تھا، اس کی خبر عبداللہ بن ابو سرح کو ملی تو اس نے اپنے معتمد ساتھیوں کے ساتھ دشمنوں پر حملہ کردیا اور ان کے بادشاہ کو قتل کردیا یوں مسلمانوں کو فتح ملی۔

چھ لاکھ کے لشکر سے بارہ ہزار کا مقابلہ:

      اسی طرح کا ایک کارنامہ ترکی کے بادشاہ اَلْپ اَرسلان کا بھی ہے۔  روم کے بادشاہ نے لوگوں کو جمع کیا  اور اتنا بڑا لشکر تیار کیا شایدہی اس کے بعد کسی نے اتنا بڑا لشکر جمع کیا ہو،اس  کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی اور یہ اتنا بڑا اور اتنا ملا ہوا لشکر تھا کہ نگاہ اس کا احاطہ نہ کرسکتی تھی اور نہ ہی اس کا شمار ہوتا تھا۔ آلات جنگ میں بھی ہر طرح کے سامان سے لیس تھا، انہوں نےاتنے قلعے فتح کئے کہ ان کا شمار نہیں ، انہوں نے لشکر کو مسلمانوں کے شہروں شام، عراق، مصر، خُراسان اور دیگر شہروں کی طرف تقسیم کردیا اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ سب شہروں میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے شہروں کی طرف پیش قدمی کی اور تواتر کے ساتھ مسلمانوں کے شہروں میں یہ خبریں آنے لگیں ۔ مسلمان ممالک ان خبروں سے مضطرب ہوگئے اور بادشاہ اَلْپ اَرسلان کے پاس جمع ہوگئے۔ الپ ارسلان عادل بادشاہ کے نام سے مشہور تھا ،اس نے اصفہان شہر کے لوگوں کو جمع کیا اور جتنا ہوسکا تیاری کی اور انہیں لے کر نکلا حتّٰی کہ مسلمانوں کے اول دستے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جمع ہونے لگے۔ لوگوں نےایک جگہ الپ ارسلان سے کہا: کل یہاں اور گروہ بھی آجائیں گے تو مسلمانوں نے جمعہ کی رات وہاں پڑاؤ کیا۔ رومیوں کی تعداد اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے علاوہ کوئی شمار نہیں کرسکتا تھا جبکہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور جو تھے وہ بھی ان کے اتنے بڑے گروہ کو دیکھ کر خوفزدہ تھے۔ جب جمعہ کی صبح ہوئی اور مسلمانوں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو دشمنوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر مسلمان خوفزدہ گئے۔ الپ ارسلان نےحکم دیا کہ مسلمانوں کی تعداد شمار کرو۔  جب شمار کیا گیا تو 12 ہزار تھی اور یہ تعداد دشمنوں کے مقابل ایسی تھی جیسے کالے بیل پر کوئی چھوٹا سا سفید دھبہ ہو۔ الپ ارسلان نے لشکر میں سے اہل رائے، تدبیر کرنے والے اور مسلمانوں پر شفقت کرنے والوں کو جمع کیا اور درست رائے کے لئے ان سے مشورہ کیا توسب دشمنوں سے لڑنے کے مشورے پر متفق


 

 ہو گئے۔ اور مسلمانوں کو حوصلہ دیا، نصیحتیں کیں اور دشمنوں سے ڈرنے پر ڈرایا اور الپ ارسلان سے کہا: ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا نام لے کر دشمنوں پر حملہ کرتے ہیں ۔ الپ ارسلان نے کہا: اے گروہ مسلمین! رُک جاؤ، آج جمعہ کا دن ہے اور مسلمان منبروں پر خطبے دے رہے ہوں گےاور مشرق ومغرب میں ہمارے لئے دعائیں ہو رہی ہوں گی لہٰذا  جب سورج ڈھل جائےاور ہم یہ جان لیں کہ مسلمان جمعہ کی نماز پڑھ چکے ہیں اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے دین اسلام کی فتح مانگ رہے ہیں تو اس وقت ہم دشمنوں پر حملہ کریں گے۔ اسی دوران الپ ارسلان روم کے بادشاہ کا خیمہ معلوم کرچکا تھا کہ اس کی نشانی کیا ہے اس کا گھوڑا کون سا ہے پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم میں سے ہر شخص وہی کرے جو میں کروں اور میرے پیچھے ہی رہنا اور اسی طرف تیر اور تلوار چلانا جس طرف میں تیر اور تلوار چلاؤں ، پھر ان سب نے شخص واحد کی طرح روم کے بادشاہ کے خیمے پر حملہ کردیا اور جو آگے آیا اسے ہلاک کردیا حتّٰی کہ روم کے بادشاہ کو گرفتار کرلیا اور رومیوں کی زبان میں اعلان کرنے لگے کہ بادشاہ قتل ہوگیا، بادشاہ قتل ہوگیا۔ رومیوں نے جب سنا کہ بادشاہ قتل ہوگیا تو ان میں بھگدڑ مچ گئی اور سارا لشکر بکھر گیا اور مسلمانوں نے غنیمت کے طور پر مال و اسباب اکھٹا کر لیا۔ قیدی بادشاہ کو گردن میں رسی ڈال کر الپ ارسلان کے سامنے لایا گیا تو الپ ارسلان نے روم کے بادشاہ سے پوچھا: اگر تو مجھے قیدی بنا لیتا تو میرے ساتھ کیا کرتا؟ روم کے بادشاہ نے جواب دیا: میں تجھے قتل کروا دیتا۔ الپ ارسلان نے کہا: میری نظر میں تیری ایسی کوئی حیثیت نہیں کہ میں تجھے قتل کرواؤں ۔ غلاموں سے کہا: اسے لے جاؤ اور جو اس کی قیمت سب سے زیادہ دے اسے بیچ دو۔  غلام بادشاہ کی گردن میں رسی ڈال کر لے گئے اور آواز لگانے لگے: روم کے بادشاہ کو کون خریدے گا؟پھر مسلمانوں کے خیموں اور گھروں کے اطراف میں چکر لگاتے ہوئے درہموں اور سکوں کے بدلے اسے خریدنے کی صدائیں لگاتے رہے، کسی نے بھی اسے نہیں خریدا بالآخر انہوں نے اسے ایک شخص کو کتے کے بدلے بیچ دیا اور اس سے کتا لے لیا اور ان دونوں کو الپ ارسلان کے پاس لے آئے اور کہا: ہم نے سارے لشکر کا چکر لگایا مگر کسی نے بھی اسے نہیں خریدا سوائے اس شخص کے جس نے اسے کتے کے بدلے خریدا ہے۔ الپ ارسلان نے کہا: تو نے انصاف کیا ہے یہ کتا اس سے بہتر ہے۔ پھر الپ ارسلان نے اُسے چھوڑنے کا حکم دیا تو وہ قُسْطَنْطِیْنِیَہ(استنبول)چلا گیا۔اہل روم نے اُسے اپنے سے الگ کردیا اور اس کی آنکھوں میں آگ کی سلائیاں پھیر دیں ۔

دیکھاآپ نے  جو بادشاہ جنگ کی چالوں اور ہیر پھیر سے واقف ہو وہ کیا کرتا ہے۔


 

اَللّٰهُمَّ انْصُرْ جُيُوْشَ الْمُسْلِمِيْنَ وَعَسَاكِرَ الْمُوَحِّدِيْنَ وَاَهْلِكِ الْكَفَرَةَ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَانْصُرِ الْمُسْلِمِيْنَ نَصْرًا عَزِيْزًا بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمْ الرَّاحِمِيْنَ وَصَلَّى اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَیعنی اے اللہ! مسلمانوں کےلشکروں کی مدد فرما اور کفار و مشرکین کو ہلاک فرما، اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! اپنی رحمت کے صدقے مسلمانوں کو غلبہ و فتح عطا فرمااوردرود وسلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر اور آپ کی آل واصحاب پراور تمام تعریفیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے لئے ہیں جو تمام جہانوں  کا رب ہے۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر 41:                                         بہادروں اور  شہسواروں کے نام، طبقات و واقعات،

                             بزدلوں کا ذکر،ان کے قصے اور  بزدلی کی مذمت

پہلا طبقہ(ان لوگوں کا ذکر جنہوں نے زمانَۂ اسلام اور جاہلیت دونوں کو پایا)

سیِّدُناحمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ:

      حضرت سیِّدُناحمزہ بن عبدالمطلبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہحضورجان عالَم،نُورِمُجَسّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےچچاتھے، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اوراس کےرسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےشیرتھے،غزوہ اُحدمیں شہید ہوئے،حضرت سیِّدُناجبیربن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکےغلام حضرت سیِّدُناوحشیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے(قبولِ اسلام سےقبل) جنگ اُحد میں نیزہ  مار کر انہیں شہید کیا۔ایسےبہادراورشہسوارتھےجن کا دفاع کرنا یا روکنا ممکن نہ تھا۔ ان کی شہادت حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئےبہت بڑا سانحہ تھا۔

سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم:

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلی بن ابوطالبکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْماللہ عَزَّ  وَجَلَّکی نشانیوں میں سےایک نشانی اوررسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےمعجزات میں سےایک معجزہ ہیں جنہیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی تائیدحاصل ہے۔آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ تکلیف وپریشانی دور کرنے والےاور احکام اسلام پرمضبوطی سے جمے رہنے والےہیں اوربغیر کسی  اختلاف کے ہر بہادر سے مقدم ہیں ۔


 

تلوار کے ہزار زخم آسان ہیں :

      منقول ہےکہ حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے دست قدرت میں ابنِ ابو طالب کی جان ہے! بستر پر موت آنے سے تلوار کے ہزار زخم کھانا مجھ پر آسان ہے۔

      منقول ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا: جب آپ گھوڑے پر سوار ہو کر نکلتے ہیں تو ہم آپ کو کہاں تلاش کریں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: جہاں مجھے چھوڑو وہیں تلاش کرو۔

شیر خدا کا اندازِ مقابلہ:

      منقول ہےکہ حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا:آپ بہادروں سے کیسے مقابلہ کر لیتے ہیں ؟ فرمایا: میں جب بھی کسی شخص سے لڑتا ہوں تو اگر میں اس سے طاقتور ہوتا ہوں تو اسے قتل کردیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے طاقتور ہو تو بھی میں اسے قتل کردیتا ہوں اور میں خود کو اور اس شخص کی ذات کو اسی کے خلاف مددگار بناتا ہوں ۔

سینے پر وار:

      حضرت سیِّدُنا مصعب بن زبیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جنگ میں بہت چوکنا اور بہت تیز حرکت کرنے والے تھے کہ دشمن کا ان کے قریب آنا ممکن نہیں ہوتا تھا اور وہ دشمن کے سینے پر وار کرتے تھے پیٹھ پر نہیں ۔

      منقول ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا: آپ کو اس بات سے خوف نہیں آتا کہ کوئی آپ کی پیٹھ پر وار کرے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: میری پیٹھ پر وار کرنے والے دشمن نے اگر مجھ پر حملہ کیا اور میں بچ گیا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُسے باقی نہیں رکھے گا۔

ابن ملجم نے شیر ِخداکوشہیدکیوں  کیا؟

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو عبدالرحمٰن بن مُلْجَممُرادی ملعون نے فجر کے وقت دھوکے سے شہید کیا۔ شہید کرنے کا سبب یہ بنا کہ عبدالرحمٰن بن ملجم نےایک  خارجیہ قَطام بنت شجنہ سے شادی کی۔قطام نے کہا: میں اس وقت تک خود کو تیرے سپرد نہیں کروں گی جب تک تو میرا حق مہر


 

ادا نہیں کرتا اور میرا حق مہر تین ہزار درہم، ایک غلام اور لونڈی ہے اور حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو شہید کرنا ہے۔ ابنِ ملجم نے قطام سے کہا: علی بن ابو طالب کے علاوہ باقی تو میں نے تجھے دے دیا  لیکن علی کے بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟ قطام نے کہا: تو اچانک ان کو قتل کردے اگر تو بچ گیا تو لوگوں کو اس کے شر سے راحت دے گااور اپنے اہل کے ساتھ رہے گا اور اگر تو ہلاک ہوگیا تو جنت میں داخل ہوگا([82])۔

       منقول ہے کہ  ابن ملجم نےتلوار سے اُس وقت وار کیاجب امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فجر کے اول وقت مسجد میں داخل ہورہے تھے۔

       یہ واقعہ 19رمضان 40 ہجری میں پیش آیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوجامع مسجد کوفہ کے دروازوں میں سے ایک دروازے کندہ کے قریب دفن کیا گیا۔

جان کے بدلے ایک ہی جان:

       ملعون ابنِ ملجم نے جب امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمپر حملہ کیا تو حضرت سیِّدُنا حسن، حضرت سیِّدُنا حسین اور حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ طیش میں آگئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو تھام لیا۔حضرت سیِّدُنا مغیرہ بن نوفل بن حارث  بن عبدالمطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ابن ملجم کو پکڑ لیا۔ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت سیِّدُنا مغیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اشارہ کیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ قبیلہ ہمدان کے لوگ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: اے امیرالمؤمنین! اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اب ان میں سے کوئی نہیں بچے گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: تم لوگ ایسا نہ کرنا، ایک جان کے بدلے ایک ہی جان ہے۔

سیّدناامام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہکا خطبہ:

        حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی شہادت کی صبح حضرت سیِّدُناامام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پرتشریف فرما ہوئے،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کلام کرنے کا ارادہ فرمایا تو رونے کی وجہ سے کلام نہ کرسکے پھر ارشاد فرمایا:ہمیں جو اچھائی یا برائی پہنچے سب پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی حمد ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے


 

سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ  وَجَلَّکےبندےاوررسول ہیں ۔میں اپنے جَدِّ اعلیٰرسولُاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے فرمان کے ذریعے اپنی مصیبت پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے اجر طلب کرتا ہوں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:”جب کسی کو مصیبت پہنچے تو اسے چاہئے کہ وہ میری مصیبت یاد کرے کہ یہ سب سے بڑی آزمائش ہے۔“([83])اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،جس نےاپنے بندے حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر قرآن نازل فرمایا،  گزشتہ رات اس شخص کا انتقال ہوگیاجو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد  پہلے والوں اور بعد والوں پر سبقت لےگیا([84])،ہم پر اور تمام اُمّت پر جو مصیبت آئی ہے اس کےمتعلق ہم صبر کر کےاللہ عَزَّ  وَجَلَّسے اجر کی توقع رکھتے ہیں ۔ خدا کی قسم! میں آج جو بھی کہوں گا حق ہی کہوں گاکہ آج تمام بندوں ،شہروں ، درختوں اور جانوروں پر مصیبت نازل ہوئی ہے۔آج کی رات جس میں حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی شہادت ہوئی ہے یہ وہی رات ہے جس میں حضرت سیِّدُنا عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِمَا السَّلَام کو آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا،حضرت سیِّدُنا موسٰی بن عمران اور حضرت سیِّدُنا یوشع بن نون عَلَیْہِمَا السَّلَام کا وصال ظاہری ہوا اورحضور نبی پاک،صاحب لولاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپرقرآن نازل کیاگیا([85])۔حضورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمحضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو جنگ کے لئے بھیجتے تو دائیں جانب حضرت سیِّدُنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اوربائیں جانب حضرت سیِّدُنا میکائیل عَلَیْہِ السَّلَام چلا کرتے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ان کو فتح سے سرفراز فرماتا۔

       حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے600درہم کے سوا ترکہ میں کچھ نہ چھوڑااوران کا ارادہ تھا کہ وہ  ان درہموں سے اپنے گھروالوں کے لئے کوئی خادم خریدیں ۔سنو!اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے امور اسی طرح چلتے رہیں گے جو اچھا کام ہوگا وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی جانب سے ہے اور جو بُرا کام ہوگا وہ ہماری اپنی کوتاہی سے ہے۔  قریش کے کچھ لوگ شیطان کے ہاتھ میں اپنی لگام دے کر رسوا ہوئے اور شیطان نے انہیں جہنم کی طرف ہانکا ۔  قریش میں سے جنہوں نے حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جنگ کا ارادہ کیا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ان کوآپ پر ظاہر فرما دیا اور جنہوں نے اپنے  دل میں بغض رکھا تو انہوں نے اس نفاق پر مددگار بھی پالئے ۔ کتاب اٹھ گئی اور قلم خشک ہوگیااور   جن امور کا فیصلہ لوح محفوظ میں کیا گیا وہ


 

ہو چکے، پھر حضرت سیِّدُنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خاموش ہوگئے اور لوگ شدت سے رونے لگے، پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنی تلوار کو برہنہ کیا اور ابن ملجم کو بلوایا۔ ابن ملجم اکڑ کر چلتا ہوا آیا اس حال میں کہ اس کے کان بالوں میں چھپے ہوئے تھے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا:  اے حسن! میں نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے جو بھی عہد کیا اسے پورا کیا اور میں نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے عہد کیا تھا کہ تیرے والد کو قتل کروں گا اور وہ میں نے کردیا، اگر تم مجھے چھوڑ دو تو میں معاویہ کو قتل کروں گا، اگر میں نے اسے قتل کردیا تو خود کو تمہارے حوالے کردوں گا اور اگر میں خود مارا گیا تو تم جو چاہے کرنا۔ حضرت سیِّدُنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:خدا کی قسم! تیرے بچنے کا اب کوئی راستہ نہیں ، پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کھڑے ہوئے اور تلوار سے اس پر وار کیا۔ ابن ملجم ہاتھ کے ذریعے وار سے بچ گیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پھر تیزی سے وار کیا اور اسے قتل کردیا۔

سیّدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ عَنْہ:

       ان شہسواروں میں حضرت سیِّدُنا خالد بن ولید مخزومی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی ہیں ،یہ اللہ عَزَّ   وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تلوار ہیں ، بہت بہادر ہیں اور زمانَۂ جاہلیت اور اسلام کے بڑے مشہور شہسوار ہیں ۔انہوں نے ملعون مسیلمہ کذاب کو قتل کیا اور مالک بن نویرہ بھی ان کے ہاتھوں قتل ہوا۔

       حضرت سیِّدُنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جنگ یمامہ، دمشق اور شام کے اکثر شہروں کے فاتح ہیں اور روم کے خلاف آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بہت بڑے بڑے کارنامے ہیں جن کے ذریعے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی اورآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی وفات بستر پر ہوئی۔

       آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرمایا کرتے تھے: میں فلاں فلاں جنگوں میں حاضر رہا، میرے جسم میں ایک بالش بھی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں تیر،تلوار یا نیزے کے زخم نہ ہوں ، آہ!!! میں بستر پر مر رہا ہوں البتہ میں بُزدلی کی نیند نہیں سو رہا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جنگ میں یہ رجزیہ شعر پڑھا کرتے تھے:

لَا تَرْعَبُوْنَا بِالسُّيُوْفِ الْمُبْرَقَه                                                                                                     اِنَّ السِّهَامَ بِالرَّدِىِّ مُفْرِقَہ

وَالْحَرْبُ وَرْھَاءِ الْعِقَالِ مُطْلَقَہ                                                          وَخَالِدٌ مِّنْ دِيْـنِهٖ عَلٰی ثِقَہ

       ترجمہ: تم ہمیں نئی چمکدار تلواروں سے نہ ڈراؤ، بے شک پرانی تیز تلواریں بھی فرق کر دیتی ہیں ۔جنگ آندھی اوربےمہاراونٹنی


 

کی مانندہےاورخالداپنےدین میں پختہ ہے۔

سیّدنا زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ عَنْہ:

      حضرت سیِّدُنا زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھی اور آپ کی پھوپھی جان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے بیٹے ہیں ایسے بہادر کہ ان کا کوئی مقابل نہیں اور ایسے ذہین کہ ان کو کوئی گھیر نہ سکے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو عمرو بن جرموز نے نماز کی حالت میں دھوکے سے شہید کیا۔

سیّدنا عمرو بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ عَنْہ:

      حضرت سیِّدُنا عمرو بن معد یکرب زبیدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ زمانہ جاہلیت کے شہسواروں میں سے ایک شہسوار ہیں ، لڑائی اور جنگی چالوں میں بڑے مشہور تھے، اسلام لائے پھر مرتد ہوگئے اور پھر دوبارہ اسلام کی طرف لوٹ آئے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بہت سی جنگوں میں شرکت کی اور ان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے۔

      امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب انہیں دیکھتے تو فرمایا کرتے: تمام تعریفیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے لئے جس نے ہمیں اور عمرو کو پیدا کیا۔

جنگ میں کون سا ہتھیار بہتر ہے؟

      منقول ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے  حضرت سیِّدُنا عمرو بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے پوچھا: اے عمرو! جنگ میں کون سا ہتھیار سب سے بہتر ہے؟ حضرت سیِّدُنا عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: آپ کس ہتھیار کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں ؟ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پوچھا:تیر کے بارے میں کیا کہتے ہو؟  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواب دیا: کوئی نشانے پر نہیں لگتا اور کوئی لگتا ہے۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پوچھا: نیزے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواب دیا: تمہارا دوست ہے اور کبھی خیانت بھی کرتا ہے۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پوچھا: ڈھال کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواب دیا: یہ خود بھی آزمائش ہے اور اس پر بھی آزمائشیں آتی ہیں ۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پوچھا: تلوار کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواب دیا: وہ تو شدت کے وقت تیار ہوتی ہے۔


 

حیرت انگیز بہادری:

      منقول ہےکہ حضرت سیِّدُناعمروبن معدیکربرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہجنگ قادسیہ میں نہرکےقریب اترےاوراپنے ساتھیوں سے کہا: میں اس پُل کو پار کرنے والا ہوں ، اگر تم مجھ تک اتنی جلدی پہنچ جاؤ جتنی دیر میں اونٹ کونحر کیاجاتا ہے تو مجھے تلوار کے ذریعےدشمنوں سے لڑتا پاؤ گے اور اگر تم نے سُستی کی تو مجھے ان کے درمیان شہید پاؤ گے، پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ دشمن قوم پر حملہ کرنے کے لئے ان کے درمیان کود پڑے۔

      بنو زبید میں سے کسی شخص نے کہا: اے بنو زبید! تم اپنے ساتھی(حضرت سیِّدُنا عمرو بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) کو کیوں پکارتے ہو؟ خدا کی قسم! ہمیں نہیں لگتا کہ تم انہیں زندہ پاؤ گے، بنو زبید کے لوگوں نے حملہ کیا اور حضرت سیِّدُنا عمرو بن معدیکربرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہتک پہنچے تو دیکھا کہ وہ گھوڑے پر سوار نہیں ہیں اور انہوں نے ایک عجمی شخص کے گھوڑے کی ٹانگ پکڑی ہوئی ہے۔ عجمی شہسوار نے گھوڑے کو مارا مگر گھوڑا اس بات پر قادر نہ ہوسکا کہ حرکت کرے۔یہ دیکھ کرہم اُن کے پاس پہنچے تو وہ شخص گھوڑا خالی چھوڑ کر بھاگ نکلا اور حضرت سیِّدُناعمرو بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس پر سوار ہوگئے اور فرمانے لگے: میں ابو ثور ہوں بخدا!قریب  تھا کہ تم مجھے نہ پاتے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھیوں نے پوچھا: آپ کا گھوڑا کہاں ہے؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواب دیا: اسے ایک تیر انداز نے تیر مارا تو اس نے مجھے گرا دیا۔

رستم کا قتل:

      منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمرو بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جنگ قادسیہ میں رستم پر حملہ کیا۔ رستم فارس کے بادشاہ یَزدَجَرْد کی طرف سے جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے آیا تھا، جب رستم کا سامناحضرت سیِّدُنا عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ہوا تو اس وقت رستم ہاتھی پر سوار تھا۔ حضرت سیِّدُنا عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے تلوار سے ہاتھی کی کوچیں کاٹ دیں ،  رستم نیچے گرااور ہاتھی رستم کے اوپر گر گیا اور ساتھ ہی اس پر موجود40 ہزار دینار بھی نیچے گرے، حضرت سیِّدُنا عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رستم کو قتل کردیا اور عجمی شکست کھاگئے۔

      حضرت سیِّدُنا عمرو بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنہاوند کی جنگ میں شہید ہوئے اور اس وقت آپ کی عمر کافی ہوچکی تھی۔



[1]…لونڈی(خادمہ)کواس کی اجازت ہوگی۔(علمیہ)

[2] دلائل النبوة للبیھقی، کتاب جماع ابواب وفودالخ ، باب وفد  طیءالخ ، ۵/ ۳۴۱

[3]المدخل الی السنن الکبری،باب توقیر العالم والعلم ،ص۳۹۴،حدیث:۷۰۱،۷۰۰  ۔عیون الاخبار،کتاب العلم والبیان،۲/ ۱۳۹

[4]…اُخروی سعادت مندی کےلئےایمان واخلاص شرط ہے۔(علمیہ)

[5]ابو داود، کتاب الزکاة،باب فی الشح،۲/ ۱۸۵، حدیث: ۱۶۹۸

[6]حدی یا حدا وہ گانا ہے جس سے اونٹ کو مستی دلا کر چلایا جاوے اونٹ گانے کا عاشق ہے جیسے سانپ خوش آواز کا،جب اونٹ تھک جاتا ہے تو خوش آوازی سے اسے گانا سنایاجاتا ہے جس سے مست ہوکر خوب تیز دوڑتا ہے اس گانے کو حدی اور گانے والے کو حاد کہتے ہیں ۔بعض خوش الحان بدوی کے حدی پر انسانوں کو وجد آجاتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح، ۶/ ۴۴۲،ملتقطاً)

[7]دانق درہم کے چھٹے حصہ کو کہتے ہیں ۔

[8]مسند الشھاب،۲/ ۱۰۶، حدیث: ۹۸۱،،۹۸۰

[9]موسوعة ابن ابی الدنیا،کتاب الشکر،۱/ ۴۸۲ ، حدیث:۵۳

[10]اخلاق النبی واٰدابہ لابی الشیخ ،ماروی فی اکلہ اللحم،ص۱۱۸، حدیث: ۵۹۷

[11]ابن ماجہ ،کتاب الاطعمة،باب اللحم،۴/ ۲۸، حدیث: ۳۳۰۵

[12]احیاء علوم الدین ،بیان اخلاق واٰدابہ فی الطعام، ۲/ ۴۵۶

[13]ابن ماجہ،کتاب الاطعمة،باب الدباء،۴/ ۲۷، حدیث: ۳۳۰۲

[14]الفوائد الشھیر بالغیلانیات لابی بکر الشافعی،باب فی اکل النبی القرع،۲/ ۷۰۱، حدیث: ۹۵۶

[15]فتح الباری لابن حجر ،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول اللّٰہ :وان یونس لمن المرسلین،۶/ ۳۷۴،تحت الحدیث:۳۴۱۶

[16]معرفة الصحابة لابى نعيم،۳/ ۲۹۲،رقم:۴۶۸۹،عبد الرحمن بن دلھم

[17]مسند الفردوس، ۲/ ۶۳، حدیث: ۳۸۷۶

[18]ایک پھل کا نام جو ناشپاتی کے مشابہ ہوتا ہے۔

[19]آٹے کا حلوہ جو گھی اورشکرکو  ملاکر بنایا جاتا ہے۔

[20]مستدرک حاکم،کتاب الاطعمة،باب کرامة الخبزان لاینتظر،۵/ ۱۶۸، حدیث: ۷۲۲۷

[21]مسندامام احمد،مسند السیدة عائشة، ۹/ ۳۴۴، حدیث: ۲۴۴۷۵،تاریخ ابن عساکر،باب ذكر تقلله وزهده وتبتله فی العبادة وجده ،۴/۱۰۱

[22]شعب الایمان،باب فی المطاعم والمشارب،فصل لایعیب طعاما قدم، ۵/ ۸۵، حدیث:۵۸۷۲

[23]مصنف ابن ابی شیبة،کتاب الاطعمة،باب فی التسمية علی الطعام ، ۵/ ۵۶۳، حدیث:۲

       الاصابة فى تمييز الصحابة،۸/ ۴۷۲،رقم:۱۲۲۴۹،ام محمد الانصاریة

[24]معجم ابن عساکر،بھرام،۱/ ۱۹۵،حدیث:۲۲۴

[25]ابو داود،کتاب اللباس،باب مایقول  اذا لبس ثوبا جدیدا،۴ / ۶۰، حدیث:۴۰۲۳

[26]ابو داود،کتاب الاطعمة،باب التسمية علی الطعام،۳ / ۴۸۷، حدیث:۳۷۶۷

[27]ابو داود،کتاب الاطعمة،باب الاکل بالیمین،۳ / ۴۹۰، حدیث:۳۷۷۶

[28]معجم کبیر، ۸ / ۲۴۹، حدیث:۷۹۷۷

[29]مسلم،کتاب الاشربة،باب کراهية الشرب قائما، ص۱۱۱۹، حدیث:۲۰۲۴

[30]مصنف ابن ابی شیبة،کتاب الاشربة،باب من کرہ النفخ فی الطعام والشراب، ۵ /۵۲۲، حدیث:۴

[31]شعب الایمان،باب فی المطاعم والمشارب، ۵/ ۹۴، حدیث:۵۹۱۲عن صھیب

[32]بخاری،کتاب المناقب،باب صفة النبى، ۲/ ۴۹۰، حدیث:۳۵۶۳

[33]عیون الاخبار،کتاب الطعام،اٰداب الاکل والطعام،۳/ ۲۴۳،کنزالعمال،کتاب المعيشة والآداب،الباب الاول،الفصل الاول،۵/ ۱۱۱، حدیث:۴۰۸۱۷

[34]کنز العمال،کتاب المعيشة والآداب من قسم الاقوال،الباب الاول،الفصل الاول، ۱۵/ ۱۱۱، حدیث:۴۰۸۱۸،بنحوہ

[35]معرفة الصحابة، ۴/ ۵۱۷،حدیث:۶۹۵۰،رقم:۳۳۳۳،ابو عمر مولی عمر بن الخطاب ،عن ابی عمر

[36]تاریخ ابن عساکر،۶/ ۳۷۹،حدیث:۱۵۶۳،رقم:۳۸۷،ابواسحاق ابراھیم بن حاتم البلوطی

[37]احیاء علوم الدین،کتاب کسر الشھوتین،بیان فضیلة الجوع وذم الشبع،۳/ ۱۰۰

[38]نھاية الارب فی فنون الادب،القسم الثالث من الفن الثانی،الباب الثانی، ۳/ ۳۱۲

[39]شعب الایمان،باب فی المطاعم والمشارب، الفصل الثانی فی ذم کثرة الاكل،۵/ ۳۱، حدیث:۵۶۶۱

[40]آٹے گھی اوردودھ سے تیار کردہ حلوہ۔

[41]سنن کبری للنسائی،کتاب عشرة النساء،الانتصار،۵/ ۲۹۱، حدیث:۸۹۱۷

[42]بخاری،کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان،۴/ ۲۴۰، حدیث:۶۴۷۵بتقدم وتاخر

[43]روح البیان،سورة النور،تحت الاٰية:۶۱ ،الجزء الثامن عشر،۶/ ۱۸۲

[44]…ایساکرناظلم ہےشرعاًاس کی اجازت نہیں ۔(علمیہ)

[45]…بعد نماز عشا دنیا کی باتیں کرنا، قصے کہانی کہنا سننا مکروہ ہے، ضروری باتیں اور تلاوت قرآن مجید اور ذکر اور دینی مسائل اور صالحین کے قصے اور مہمان سے بات چیت کرنے میں حرج نہیں ۔(بہارشریعت،حصہ۳،۱/۴۵۳)

[46]ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی معیشة اصحاب النبى صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،۴/ ۱۶۳،حدیث:۲۳۷۶

       احیاء علوم الدین،کتاب الاکل،الباب الثالث،اٰداب  الدخول للطعام،۲/ ۱۳

[47]یہ اس صورت میں ہےجب اسے یقین ہوکہ دوست اس کے کھانے سے خوش ہوگا ۔(احیاء علوم  الدین،۲/۱۳)

[48]احیاء علوم الدین،کتاب الاکل،الباب الثالث،ااٰداب  الدخول للطعام،۲/ ۱۳

[49]…یہ جھوٹ ہےشرعاًاس کی اجازت نہیں ۔(علمیہ)

[50]احناف کے نزدیک:شطرنج کھیلنا ناجائز ہے۔(بہارشریعت،حصہ ۱۶،۳/۵۱۱)

[51]…شرعاًاسے ایساکرنےکی اجازت نہیں ۔(علمیہ)

[52]مسند الفردوس ، ۱/ ۴۰۵، حدیث: ۳۰۱۱

[53]الزھد لھناد،باب الحلم والعفو ،۲/۶۰۴،حدیث:۱۲۸۷بتغیر

[54]الزھد لھناد،باب الحلم والعفو ،۲/۶۰۴،حدیث:۱۲۸۸

[55]مساوئ الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی فضل العلمالخ ، ص: ۱۶۲، حدیث: ۳۴۲

[56]مسند امام احمد، حدیث معاذ بن انس الجھنی، ۵/ ۳۰۹، حدیث: ۱۵۶۱۹

[57]مشکاة المصابيح،كتاب الاٰداب،باب الرفق والحیا وحسن الخلق،الفصل الثانی، ۲/ ۲۳۰، حدیث :۵۰۸۹

[58]مسند امام احمد، مسند السیدة عائشة، ۹/ ۲۸۲، حدیث: ۲۴۱۴۵

[59]بخاری، کتاب الایمان، باب علامة المنافق، ۱/ ۲۴، حدیث: ۳۳

[60]کاہنوں اورجوتشیوں سےہاتھ دکھاکرتقدیرکابھلابُرادریافت کرنااگربطوراعتقادہویعنی جویہ بتائیں حق ہےتوکفرخالص ہے۔ اسی کوحدیث میں فرمایا:فَقَدْکَفَرَبِمَانَـزَلَ عَلٰی مُحَمَّدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمبےشک اس سےانکارکیاجوکچھ حضورعَلَیْہِ الصلوۃ والسَّلَام پراُتاراگیا۔اوراگربطوراعتقادو تَیَـقُّن نہ ہومگرمیل ورغبت کےساتھ ہوتوگناہ کبیرہ ہے۔اسی کوحدیث میں فرمایا:لَمْ یَقْبَلِ اللہُ لَہٗ صَلٰوۃَ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًااللہتعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازقبول نہ فرمائیگا۔اوراگرہزل واستہزاء ہوتوعبث ومکروہ حماقت ہے۔ہاں اگربقصدتعجیز(یعنی مقصوداس کےعجزکااظہار)ہوتوحرج نہیں ۔

(فتاوٰی رضویہ،۲۱/ ۱۵۵)

[61]یہ مال ضائع کرناہےجوشرعاًناجائزوحرام ہے۔چنانچہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ1250 صفحات پرمشتمل کتاب بہارشریعت،حصہ4،جلد1،صفحہ816پرصَدْرُالشَّرِیْعَہ،بَدْرُالطَّرِیْقَہحضرت علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی

……فرماتےہیں :بعض جگہ دستورہےکہ عموماًمیّت کےغسل کےليےکورےگھڑےبدھنے (یعنی مٹی کےنئےمٹکے،لوٹے) لاتے ہیں اس کی کچھ ضرورت نہیں ، گھر کے استعمالی گھڑے لوٹے سے بھی غسل دے سکتے ہیں اور بعض یہ جہالت کرتے ہیں کہ غسل کے بعد توڑ ڈالتے ہیں ، یہ ناجائز و حرام ہے کہ مال ضائع کرنا ہے اور اگر یہ خیال ہو کہ نجس ہو گئے تو یہ بھی فضول بات ہے کہ اولاً تو اُس پرچھینٹیں نہیں پڑتیں اورپڑیں بھی تو راجح یہ ہے کہ میّت کاغسل نجاسَتِ حکمیہ دُور کرنے کے ليے ہے تو مستعمل پانی کی چھینٹیں پڑیں اور مستعمل پانی نجس نہیں ، جس طرح زندوں کے وضو و غسل کاپانی اور اگر فرض کیاجائے کہ نجس پانی کی چھینٹیں پڑیں تو دھو ڈالیں ، دھونے سے پاک ہو جائیں گے اور اکثر جگہ وہ گھڑے بدھنے مسجدوں میں رکھ دیتے ہیں اگر نیت یہ ہو کہ نمازیوں کو آرام پہنچے گا اور اُس کا مُردے کو ثواب تو یہ اچھی نیت ہے اور رکھنا بہتر اور اگر یہ خیال ہو کہ گھر میں رکھنا نحوست ہے تو یہ نری حماقت اور بعض لوگ گھڑے کا پانی پھینک دیتے ہیں یہ بھی حرام ہے۔

[62]اسلام میں اتنی سی بات پرکسی کوقتل کرنےکی اجازت نہیں ۔اللہعَزَّ  وَجَلَّقتل ناحق کی مذمت میں ارشادفرماتاہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳)ترجمۂ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کرقتل کرے تواس کابدلہ جہنم ہےکہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔(پ۵،النساء:۹۳) حضورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:ایک مومن کاقتل کیاجانااللہ عَزَّ وَجَلَّکےنزدیک دُنیاکےتباہ ہوجانےسےزیادہ بڑا ہے۔

(نسائی ،کتاب تحریم الدم،باب تعظیم الدم ،ص۶۵۲،حدیث:۳۹۹۲)

[63]معجم کبیر، ۲۰/ ۹۴، حدیث: ۱۸۳

[64]ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب البغی، ۴/ ۴۷۴، حدیث: ۴۲۱۲

[65]مستدرک حاکم، کتاب الاھوال، باب تحشر ھذہ الامةالخ ، ۵/ ۸۳۳، حدیث: ۸۸۳۱عن انس بن مالک

[66]بدری حضرت سیِّدُناثعلبہ بن حاطب بن عَمْروبن عُبَیْدانصاری ہیں رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ۔اوریہ شخص جس کےباب میں یہ آیت (پ۱۰،التوبة: ۷۵تا۷۷)اتری ثعلبہ ابن ابی حاطب ہےاگرچہ یہ بھی قوم اَوس سےتھا۔اوربعض نےاس کانام بھی ثعلبہ ابن حاطب کہا۔مگروہ بدری خود زمانَۂ اَقدس حضورپرنورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّممیں جنگ اُحد میں شہیدہوئے۔ اوریہ منافق زمانَۂ خلافت امیرالمؤمنین عثمان غنیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمیں مرا۔ جب اس نے زکوٰۃ دینے سے انکارکیا اورآیَۂ کریمہ  اس کی مذمَّت میں اتری۔(فتاوٰی رضویہ،۲۶/ ۴۵۳)

[67]معجم کبیر،۸/ ۲۱۸، حدیث : ۷۸۷۳

[68]الزھد الکبیر، الجزء الثانی، ص ۱۵۶، حدیث: ۳۴۳

[69]معجم کبیر، ۲۰/ ۹۴، حدیث: ۱۸۳

[70]ابو داود، کتاب الادب، باب فی الحسد، ۴/ ۳۶۰، حدیث: ۴۹۰۳عن ابی ھریرة

[71]…مُفَسِّر شہیر ،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس کی شرح میں مراٰۃ المناجیح،جلد5، صفحہ 517پر فرماتے ہیں :یعنی جنگ کی جان دشمن کو دھوکہ میں رکھنا ہے کہ اسے ہمارے اصلی ارادہ اور اصلی حال پر خبر نہ ہونے پائے،اپنی تھوڑی سی جماعت کو بہت ظاہر کیا جائے تھوڑے سامان کو بے شمار دکھایا جائے یہ جنگی کمال اور مجاہد کی چال ہے۔کسی میدان کو خالی چھوڑ دینا کہ دشمن اسے خالی جان کر اپنی فوج لے آوے پھر داہنے بائیں اور پیچھے سے نکل کر اس کی فوج کو گھیر لینا جس سے ساری فوج ہتھیار ڈال دے،یہ ہے دھوکہ اس دھوکہ سے مراد جھوٹ اور ناجائز مکروفریب نہیں اب بھی جنگوں میں ایسی چالیں بہت چلی جاتی ہیں ۔

[72]… بخاری، کتاب الجھاد، باب الحرب خدعة،۲/ ۳۱۸، حدیث:۳۰۲۹

[73]الزھد لابن مبارک، باب ماجاء فی  الشح، ص ۲۳۵، حدیث: ۶۷۲بتغیرقلیل

[74]بخاری، کتاب الجھاد، باب الجنة تحت بارقة السیوف ، ۲/ ۲۵۹، حدیث: ۲۸۱۸

[75]بخاری، کتاب الصلاة، باب ما یذکر فی الفخذ، ۱/ ۱۴۸، حدیث: ۳۷۱

[76]بخاری، کتاب الجھاد، باب الغدوة و الروحةالخ، ۲/ ۲۵۱، حدیث: ۲۷۹۲

[77]دارمی، کتاب الجھاد، باب ارواح الشھداء، ۲/ ۲۷۱، حدیث: ۲۴۱۰

[78]ترمذی، کتاب فضائل الجھاد، باب ماجاء فی فضلالخ، ۳/ ۲۳۲، حدیث: ۱۶۲۷

[79]مسلم، کتاب الامارة، باب استحباب طلب الشھادةالخ، ص ۱۰۵۷، حدیث: ۱۹۰۹

[80]مسلم، کتاب الامارة، باب فضل الرمیالخ، ص ۱۰۶۱، حدیث: ۱۹۱۷

[81]معجم اوسط،۱/ ۲۶۱، حدیث: ۹۰۱

[82]…یہ اس خارجیہ عورت کاغلط نظریہ تھا۔(علمیہ)

[83]معرفة الصحابة، باب السین، رقم ۱۳۵۸: سابط بن ابی حمیضة، ۲/ ۵۴۰، حدیث: ۳۶۶۶

[84]…یہاں جزوی فضیلت مرادہے۔(علمیہ)

[85]…مرادرمضان کامہینہ ہے۔(علمیہ)