اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
رَسولِ اکرم،شہنشاہ ِبنی آدَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جُمُعَہ تمہارے دِنوں میں سے سب سے اَفْضَل دن ہے، اسی میں حضرت آدَم (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) پیدا ہوئے، اسی دن صُور پھونکا جائے گا اور اسی دن قِیامَت آئے گی، لہٰذا اس دن مجھ پر کَثْرَت سے دُرُودِ پاک پڑھا کرو کیونکہ تمہارا دُرُودِ پاک مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک صحابی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عَرْض کی: یارسولَاللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ہمارا دُرُودِ پاک آپ تک کیسے پہنچے گا حالانکہ آپ کے وِصال کو مُدَّت ہو چکی ہوگی؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے زمین پر اَنۢبِیَائے کِرام(عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام )کے اَجسام کو کھانا حَرام فرما دیا ہے۔[1]
حکْمِ حَق ہے پڑھو دُرُود شریف |
چھوڑو مت غافِلو دُرُود شریف |
تحفہ روحِ نبی کو پہنچاؤ |
جتنا پہنچا سکو دُرُود شریف |
جا کے وہاں پیش ہوگا نام بنام |
جس قَدْر جس کا ہو دُرُود شریف |
خود خدا بھیجتا ہے ان پہ دُرُود |
تم بھی بھیجا کرو دُرُود شریف |
پائیں گے چار پُشْت تک بَرَکَت |
دل سے بھیجیں گے جو دُرُود شریف |
آخِرَت کے سَفَر کو اے بیدؔل |
توشہ تم لے چلو دُرُود شریف[2] |
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مَشْہُورصحابی حضرت سَیِّدُنا عمّار بن یاسِر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی والِدہ ماجِدہ حضرتِ سیِّدَتُنا سُـمَیّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا وہ شیر دِل خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے شَجَرِ اِسْلَام کی جڑوں کو مَضْبُوط کیا۔ یوں انہیں جہاں اِسلام کی شہیدۂ اوّل ہونے کا اِعزاز حاصِل ہوا تو وہیں یہ شَرَف بھی ملا کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا راہِ خُدا میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والی واحِدصحابیہ بن گئیں۔
آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا شَجَرِ اِسْلام کے ثمرات سے فیض یاب ہونا ہی آپ کا جُرْم بن گیا اور کُفْر کے اندھوں نے ان پر ظُلْم و سِتَم کے وہ پہاڑ توڑے کہ اَلْاَمَان وَالْحَـفِیْظ۔ چُنَانْچِہ مَرْوِی ہے کہ رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اپنے بیٹے حضرت سَیِّدُنا عمّار رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اور شوہر حضرت سَیِّدُنا یاسِر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سمیت مکّہ مُکَرَّمہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْمًا کے تپتے صَحْرَا میں مَقامِ اَبْطَح پر اِیذائیں پاتے دیکھتے تو اِرشَاد فرماتے: اے آلِ یاسِر! صَبْر کرو! تمہارے لیے جنّت کا وعدہ ہے۔[3] اہلِ مکّہ بِالْخُصُوص دشمنِ اسلام ابو جَہْل نے کون سا سِتَم ہے جو ان پر نہ کیا، اسے بس اسی بات سے سمجھ لیجئے کہ
آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو لوہے کی زِرہ پہنا کر سَخْت دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا۔[4]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!ذرا تَصَوُّر کیجئے کہ جب دھوپ کی گرمی سے لوہے کا لِباس تپنے لگتا ہوگا تو عَرَب میں سُورَج کی تَپِش اور اس پر لوہے کے آگ برساتے لِباس میں آپ کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ مگر قُربان جائیے اس شہیدۂ اوّل کی عَظَمَت و اِسْتِقَامَت پر! آپ کے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَحَبَّت اس طرح گھر کر چکی تھی کہ اتنی سَخْت تکالیف کے باوُجود آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے اسلام کا دامَن نہ چھوڑا، بلکہ ڈَٹ کر اِن مُشکِل حالات کا مُقَابَلَہ کیا اور اس سلسلے میں ان سردارانِ قریش کی عَظَمَت و برتری کا قطعاً لِـحَاظ نہ رکھا کہ جو ہر لمحہ انہیں دوبارہ کُفْر کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے، آپ کا صَبْر و اِسْتِقَامَت سے اسلام پر ڈٹ جانا ان سردارانِ قُرَیْش کے منہ پر گویا ایک طَمَانْچہ تھا، کیونکہ قُرَیْش کی عَظَمَت کا سِکَّہ تو پورے عرب پر تھا اور وہ اس بات کو کیسے بَرْدَاشْت کر سکتے تھے کہ انہی کی آزاد کردہ ایک نادار باندی ان کی غیرت کو یوں للکارے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس ہَزِیمَت (شِکَسْت)کو بَرْدَاشْت نہ کر سکے اور آپ کے خون سے سر زمینِ عَرَب کو سَیراب کر کے اپنے تئیں آپ کا قِصّہ تمام کر دیا، جس کا سَبَب کچھ یوں ہوا کہ ایک مرتبہ ابو جَہْل نے نیزہ تان کر انہیں دھمکاتے ہوئے کہا کہ تو کَلِمَہ نہ پڑھ ورنہ میں تجھے یہ نیزہ مار دوں گا۔ حضرت بی بی سُمَیّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے سینہ تان کر زور زور سے کَلِمَہ پڑھنا شروع کیا، ابو جَہْل نے غصّہ میں بھر کر ان کی ناف کے
نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑیں اور شہید ہوگئیں۔[5] اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحْمَت ہو اور ان کے صَدْقے ہماری بے حِساب مَغْفِرَت ہو۔اٰمین بجاہِ النبی الامینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
جب تری یاد میں دُنیا سے گیا ہے کوئی
جان لینے کو دُلہن بن کے قَضا آئی ہے[6]
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!دینِ اسلام کا یہ لہلہاتا کھیت ہمیں ایسے ہی نہیں ملا بلکہ اس کے لیے ہمارے اَسلاف نے بَہُت سی قربانیاں دیں،اپنی جان و مال، گھربار، بیوی بچے اور دیگر اَعِزّا و اَقْرِبا غَرَضْ کہ ہر چیز دِیْنِ اِسلام کی ترقّی اور اِعْلائے کلمۂ حَق (حَق کا کَلِمَہ بُلَند کرنے)کے لئے قربان کردی۔ بقولِ شاعِر ؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حَق تو یہ ہے کہ حَق اَدا نہ ہوا
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!دِیْنِ حَق کی سربلندی کے لیے مَردوں کی قُربانیاں اور شُجَاعَت و اِسْتِقَامَت کی داستانیں اپنی جگہ، مگر خواتین کی قُربانیوں کا باب بھی بَہُت وسیع
ہے۔ اَوَّلِین مسلمان خواتین نے اسلام کی خاطِر کیسی کیسی مَشَقَّتیں بَرْدَاشْت کیں اور اس راہ میں کیا کچھ قُربان کیا؟ تاریخ ان خواتین کی جُرْأَت و بے باکی پر آج بھی حیران ہے۔ یاد رہے! اس دین کی جڑوں کو مَضْبُوط کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک خاتون نے ہی اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ یہی نہیں بلکہ جب بھی دین کی خاطِر اپنی یا اپنے گھر والوں کی جان دینے یا کسی کی جان لینے کی ضَرورت پڑی تو مسلمان خواتین کے ماتھے پر شِکَن تک نہ اُبھری، انہوں نے گھر بار لُٹا دئیے، خون کے رشتوں کو خوشی خوشی موت کے حوالے کر دیا، اپنی آبائی سرزمین کو چھوڑ کر دُور کہیں جا کر بسنا پڑا تو بھی ان کے حَوصَلے کبھی پَسْت نہ ہوئے، انہیں تپتے صَحْرَاؤں میں لٹایا گیا، دہکتے کوئلوں پر بچھایا گیا، لوہے کے لِباس پہنا کر سُورَج کی تَمازَت (شدید گرمی)کا مزہ چکھایا گیا، ان کے بچوں اور اہلِ خانہ کو نظروں کے سامنے سُولی پر لٹکایاگیا، نیزوں، تلواروں، خنجروں اور کوڑوں کے ساتھ لَہُولُہَان کیا گیا، بھوکے پیاسے دھوپ میں باندھ کر رکھا گیا، گھربار، بہن بھائی، ماں باپ، آل اولاد اور ہر دلعزیز رشتوں سے جُدا کیا گیا اور وَطَنِ عزیز سے نکالا گیا۔ ظُلْم و جَبْر، اور سَفَّاکی کی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی گئی مگر تپتے صَحْرا اور اندھیری ٹھٹھرتی راتیں گواہ ہیں کہ اس صِنْفِ نازک کی اِسْتِقَامَت میں ذَرّہ برابر جُنْبِش نہ آئی اور ہمیشہ کے لئے اَوراقِ تاریخ کو ان کی قُربانیاں مَـحْفُوظ کرنا پڑیں۔ زمانے کے ظُلْم و سِتَم ان نُفُوسِ قُدْسِیَہ سے انکی دولت اِیمان نہ چھین سکے۔اس پر اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیْقَہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا یہ فرمان شاہِد ہے کہ
وَمَا نَعْلَمُ اَنَّ اَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ اِرْتَدَّتْ بَعْدَ اِيمَانِهَا یعنی ہم نہیں جانتیں کہ کسی مُہاجِرہ عورت نے ایمان لانے کے بعد اسلام سے منہ پھیرا ہو۔[7]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!حضرت سَیِّدَتُنا سُمَیّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بَہُت خوش قِسْمَت تھیں جن کے جہانِ فانی سے کُوچ کا سَبَب ان کا بَحْرِاسلام میں مُسْتَغْرَق ہونا بنا، آپ کے قَتْلِ ناحَق سے کفّارِ بَد اَطْوار کا مَقْصُود تو اگرچہ یہ تھا کہ اسلام کے نام لیوا کم ہو جائیں گے اور ڈر جائیں گے مگر یہ مَحْض ان کی خام خَیالی ہی ثابِت ہوئی، کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی شَہادَت نے عاشِقانِ رَسول کے دلوں میں ایک نئی رُوْح پھونک دی اور وہ سب جَنَّت کی اَبَدِی و سَرْمَدی نعمتوں کے حُصُول کی خاطِر کفّارِ مکہ کے ظُلْم و سِتَم کو ہنس ہنس کر سہنے لگے۔ اسلام لانے پر کفّار نے مَردوں پر تو ظُلْم و سِتَم کے جو پہاڑ ڈھائے تھے وہ اپنی جگہ، مگر ان ظالِموں نے عورتوں اور بچوں کو بھی مُعاف نہ کیا اور ان کے ساتھ ایسے ایسے ظالمانہ سُلُوک رَوا رکھے جن کی تصویر کشی سے قَلَم کا سینہ شَق ہو جاتا ہے۔آئیے!ذرا مُـخْتَصَر جائزہ لیتی ہیں کہ راہِ خُدا میں صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّپر کس طرح ظُلْم و سِتَم کے پہاڑ توڑے گئے اور انہوں نے ان مَظَالِم پر کیا طَرْزِ عَمَل اپنایا؟
ظُلْم و سِتَم کی ان آندھیوں کے آگے سینہ سِپَر ہوجانے والی ہستیوں میں حضرت سَیِّدَتُنا نَہدِیہ اور ان کی بیٹی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما بھی ہیں۔ یہ دونوں بَنُو عَبدُ الدَّار کی ایک عورت کی باندیاں تھیں جو انہیں سَخْت تکلیفیں دیا کرتی اور کہا کرتی کہ میں کبھی تمہیں آزاد نہ کروں گی اور یہی سُلُوک جاری رکھوں گی، اگر اس سے چھٹکارا چاہتی ہو تو توحید کا اِنْـکَار کر دو یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارا ہم مَذْھَب کوئی شخص تمہیں خرید کے آزاد کر دے۔ ایک مرتبہ حضرت سَیِّدُنا صِدّیقِ اکبر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ان کے پاس سے گزرے تو وہ عورت اس وَقْت بھی انہیں یہی کہہ رہی تھی،آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : اے اُمِّ فلاں! انہیں آزاد کر دو۔ وہ بولی: آپ نے ان دونوں کو بگاڑا ہے آپ ہی آزاد کریں۔چُنَانْچِہ آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں خرید کر آزاد کردیا۔[8]
حضرت سَیِّدَتُنا بی بی اُمّ عُبَیْس رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے بھی دین کی خاطِر بَہُت مَظَالِم بَرْدَاشْت کئے۔یہ بنی زُہْرہ کی باندی تھیں اور ان کو بھی کافِروں نے بَہُت ستایا،بے حد ظُلْم و سِتَم کیا۔بِالْخُصُوص اَسْوَد بن عبدِ یَغُوث آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو سَخْت تکالیف پہنچاتا اور ظُلْم و سِتَم ڈھاتا۔[9]
یہی نہیں بلکہ یہ بَدْبَخْت جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور دیگر عاشقانِ خدا و رسول کو دیکھتا تو مذاق اڑاتا۔ (آخر کار اس کا انجام یہ ہوا کہ)ایک دن یہ اپنے گھر سے نکلا تو گرْم جُھلس دینے والی ہوا نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا،جس سے اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا اور یہ حَبَشِی مَعْلُوم ہونے لگا۔ جب اپنے گھر لوٹا تو اہلِ خانہ نے پہچاننے سے اِنْـکَار کردیا اور دروازہ بند کرلیا۔وہاں سے حیران و پریشان واپَس لوٹا اور پھر اِدھر اُدھر ذلیل و خوار پھرتا رہا مگر کوئی اسے پہچانتا نہ کھانے پینے کو کچھ دیتا اور یونہی بھوکا پیاسا واصِلِ جہنّم ہوگیا۔[10]
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو وَحْدَہ لا شَریک ماننے اور حُضُور پُرنُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اِیمان لانے کی پاداش (جُرْم) میں اَذِیَّتوں کی سنگلاخ چٹانوں کا سامنا کرنے والی ایک صحابیہ حضرت سَیِّدَتُنا زِنّیرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی ہیں۔ آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاباندی تھیں۔ اَمِیرُ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدُنا ابوبکر صِدِّیْقرَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے خریدکر آزاد فرمایا اور کفّار کے ظُلْم و سِتَم سے نجات دلائی۔ چُنَانْچِہ،
مَرْوِی ہے کہ حضرت سَیِّدُنا عُمَر فَارُوقرَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ (جو کہ ابھی تک ایمان نہ لائے تھے) اور ابو جَہْل آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکو سَخْت تکالیف دیتے یہاں تک کہ آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ اس پر ابو جَہْل لعین نے کہا:تیری یہ حَالَت لات و عزّی (یعنی کفار مکہ کے بتوں) نے کی ہے۔ تو آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے صَبْر و اِسْتِقَامَت اور جُرْأَت
بھرا جواب دیتے ہوئے کہا: لات و عزّی تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی پوجا کون کرتا ہے؟ یہ آزمائش تو میرے رب کی طرف سے ہے اور میرا مالِک و پروردگار میری بینائی لوٹانے پر قادِر ہے۔ چنانچہ اگلی ہی صُبْح اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کی آنکھیں روشن فرما دیں۔[11]
دِیْنِ اِسْلَام کی خاطِر مصیبتوں کے پہاڑ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جانے والی ایک پاک طِینَت صحابیہ حضرت سَیِّدَتُنا لُبَیْنہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی ہیں۔ آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بَنِی مُؤَمَّل کی باندی تھیں۔ اِبْتِدَائے اِسْلَام میں ہی اِسْلَام کی حَقّانِیَّت کا نُور ان کے دِل میں چمک اُٹھا اور یہ دَامَنِ مصطفےٰ سے وَابَسْتہ ہو گئیں، کفّارِمکّہ نے ان پر بھی ظُلْم و سِتَم کی اِنْتِہا کر دی۔ چُنَانْچِہ مَنْقُول ہے کہ جب آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا مُشَرَّف بہ اِسْلَام ہوئیں تو حضرت سَیِّدُنا عُمَر فَارُوق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو دینِ اسلام چھوڑنے پر سَخْت سزائیں دیتے اور اتنا مارتے کہ مارتے مارتے خود تھک جاتےاور کہتے: میں تجھے کہیں کا نہ چھوڑوں گا۔تو آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا جواب میں کہتیں: اے عمر! اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سچے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔آخِر کار جب ظُلْم و سِتَم بڑھتے گئے تو حضرت سَیِّدُنا صِدّیقِ اکبر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکو بھی خرید کر آزاد کر دیا۔[12]
اِسْلَام قُبُول کرنے سے پہلے اَمِیرُ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدُنا عُمَر فَارُوق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اِیمان لانے والوں کے بَہُت خِلاف تھے۔ چُنَانْچِہ دَعْوَتِ اِسْلَامی کے اِشَاعتی اِدارے مَکْتَبَةُ الْـمَدِیْنَه کی مَطْبُوعَہ 679 صَفحات پر مُشْتَمِل کِتابجنتی زیور صَفْحَہ 518پر ہے: حضرت عمر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بہن (حضرت فاطمہ بنتِ خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا)اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ شروع ہی میں مسلمان ہوگئے تھے مگر یہ دونوں حضرت عمر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ڈر سے اپنا اسلام پوشیدہ رکھتے تھے حضرت عمر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ان دونوں کے مسلمان ہونے کی خَبَر ملی تو غصّہ میں آگ بگولا ہو کر بہن کے گھر پہنچے، کِواڑ (دروازے کے پَٹ) بند تھے مگر اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آ رہی تھی، دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرت عمر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی آواز سن کر سب گھر والے ادھر ادھر چھپ گئے، بہن نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ چِلّا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن! کیا تو نے بھی اِسْلَام قُبُول کر لیا ہے؟ پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر زمین پر پچھاڑ دیا اور مارنے لگے انکی بہن حضرت فاطِمہ بِنْتِ خَطَّاب رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے شوہر کو بچانے کے لئے حضرت عمر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو پکڑنے لگیں تو ان کو حضرت عمر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایسا طَمَانْچہ مارا کہ کان کے جھُومَر ٹوٹ کر گر پڑے اور چہرہ خون سے رنگین ہوگیا۔ بہن نے نہایت جُرْأَت کے ساتھ صاف صاف کہہ دیا کہ عمر!
سن لو تم سے جو ہوسکے کر لو مگر اب ہم اِسْلَام سے کبھی ہرگز ہرگز نہیں پھر سکتے۔ حضرت عمر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بہن کا جو لَہولُہان چہرہ دیکھا اور ان کا جوش و جذبات میں بھرا ہوا جملہ سنا تو ایک دَم ان کا دل نَرْم پڑ گیا، تھوڑی دیر چُپ کھڑے رہے پھر کہا کہ اَچّھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دِکھاؤ،بہن نے قرآن شریف کے ورقوں کو سامنے رکھ دیا، حضرت عمر نے سورۂ حدید کی چند آیتوں کو بغور پڑھا تو کانپنے لگے اور قرآن کی حَقّانِیَّت کی تاثیر سے دل بے قابو ہو کر تھرّا گیا جب اس آیَت پر پہنچے کہ اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ (پ۲۷، الحدید:۷) یعنی اللہ اور اس کے رسول پر اِیمان لاؤ تو پھر حضرت عمر ضَبْط نہ کرسکے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے بَدَن کی بوٹی بوٹی کانپ اٹھی اور زور زور سے پڑھنے لگے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـهَ اِلَّاا للهُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسولُهٗ،پھر ایک دم اٹھے اور حضرت زید بن اَرْقم رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مکان پر جاکر رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دامَنِ رَحْمَت سے چمٹ گئے اور پھر حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور سب مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور اپنے اِسْلَام کا اِعْلَان کر دیا۔ [13]
راہِ خُدا میں دَرْد ناک اَذِیَّتوں اور تکلیفوں کو بَرْدَاشْت کرنے والی ایک شیر دِل خاتون حضرت سَیِّدَتُنا حَمَامہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی ہیں۔ آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا مُؤَذِّنِ رَسول حضرت
سَیِّدُنا بلال حَبَشِی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی والِدہ ماجِدہ ہیں۔ اَمِیرُ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ان پر ہونے والے مَظَالِمِ کفّار بَرْدَاشْت نہ کر سکے تو آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں بھی خرید کر آزاد کر دیا۔[14]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّنے دین کی خاطِر جو تکالیف بَرْدَاشْت کیں بسا اَوقات ان کا یہ تکالیف سہنا دوسروں کے قُبُولِ اسلام کا سبب بھی بن گیا۔ چُنَانْچِہ مَرْوِی ہے کہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ شریک رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے دل میں جب اسلام کی عَظَمَت نے بسیرا کیا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو یہ فِکْر دامَن گیر ہوئی کہ یہ خود تو نَجاتِ اُخْرَوِی پا جائیں گی مگر ان کی جاننے والیاں کہیں جہنّم کا ایندھن نہ بن جائیں۔ چُنَانْچِہ انہوں نے اپنی جاننے والیوں کو بھی جہنّم کا ایندھن بننے سے بچانے کے لیے رات دن کوششیں شروع فرما دیں۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بڑی خاموشی اور اِسْتِقَامَت سے قریش کی خواتین تک نیکی کی دَعْوَت پہنچایا کرتی تھیں، اَہْلِ مکّہ کو جب خَبَر ہوئی توانہوں نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو پکڑ لیا اور کہنے لگے: اگر ہمیں تمہارے قبیلے کا لِـحَاظ نہ ہوتا تو تمہیں سَخْت سزا دیتے لیکن اب ہم تمہیں (یہاں اپنے پاس مکّہ میں نہیں رہنے دیں گے بلکہ) مسلمانوں کے پاس (مدینہ طیبہ)پہنچا کر ہی دَم لیں گے۔لہٰذا اُنہوں نے اِنہیں ایک ایسے
اُونْٹ پر سوار کیا جس پر کوئی کجاوہ تھا نہ کوئی کپڑا و زین وغیرہ۔ اس پر مزید یہ کہ جب بھی وہ کسی مَقام پر پڑاؤ ڈالتے تو انہیں باندھ کر دھوپ میں ڈال دیتے اور خود سائے میں جاکر بیٹھ جاتے۔ مسلسل تین دن تک ان کی یہی حَالَت رہی، وہ انہیں نہ کچھ کھلاتے نہ پلاتے۔ قُربان جائیں ان کی اِسْتِقَامَت پر !انہوں نے عَرَب کی اس چِلْچِلاتی دھوپ میں سَفَر کی صُعُوبتوں (تکلیفوں) کے عِلاوہ بھوک پیاس کی سختیاں بھی جھیلیں مگر لمحہ بھر کے لیے بھی صَبْر کا دامَن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔آخر جب یہ اپنے ہوش سے بیگانہ ہونے لگیں تو رَحْمَتِ خداوندی نے آگے بڑھ کر انہیں اپنی آغوش میں لے لیا اور ان پر کَرَم کی ایسی بارش برسائی کہ ان پر ظُلْم و سِتَم کرنے والے خود تائب ہو کر مسلمان ہو گئے گویا شکاری خود شکار ہو گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن جب قافلے والوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور انہیں باندھ کر حَسْبِ مَعْمُول دھوپ میں ڈال کر خود سائے میں چلے گئے تو اچانک انہوں نے اپنے سینہ پر کسی چیز کی ٹھنڈک مَحْسُوس کی، دیکھا تو وہ پانی کا ایک ڈول تھا جو آسمان کی وسعتوں سے نمودار ہوا تھا۔ انہوں نے بے تابی سے ابھی تھوڑا سا پانی پیا تھا کہ وہ بلند ہوگیا، کچھ دیر بعد ڈول پھر آیا انہوں نے اس بار بھی تھوڑا سا ہی پانی پیا تھا کہ اسے پھر اٹھا لیا گیا۔ کئی بار ایسا ہوا، جب تھوڑا تھوڑا کر کے پانی ان کے جِسْم میں گیا تو یہ قدرے جان میں آگئیں اور پھر وہ ڈول سارے کا سارا ہی ان کے حوالے کر دیا گیا، انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا اور باقی پانی اپنے جِسْم اور کپڑوں پر اُنڈیل لیا۔جب وہ لوگ آئے، ان پرپانی کا اَثَر پایا اور انہیں اَچّھی حَالَت میں دیکھا تو پوچھنے لگے:کیا تم
نے کھل کر ہمارے مشکیزوں سے پانی پیا ہے؟انہوں نے اِنْـکَار کرتے ہوئے جب انہیں اَصْل مَاجْرا بتایا تو انہیں قطعاً یقین نہ آیا، البتہ! کہنے لگے کہ اگر تم سچی ہو تو پھر تمہارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔لہٰذا جب انہوں نے اپنے مشکیزوں کو دیکھا اور انہیں ایسے ہی پایا جیسے انہوں نے چھوڑے تھے تو وہ سب مسلمان ہوگئے۔ [15]اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحْمَت ہو اور ان کے صَدْقے ہماری بے حِساب مَغْفِرَت ہو۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!بغیر ہمّت ہارے آپ بھی خوب خوب انفرادی کوشش کرتی رہئے اور اِس ضِمْن میں اگر کوئی بھی تکلیف پہنچے تو صَبْر و شِکِیبائی کا دامَن ہاتھ سے مَت چھوڑئیے بلکہ آنے والی مصیبت پر ہمیشہ صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی ان تکلیفوں اور اَذِیَّتوں کو یاد کر لیجئے جو انہوں نے راہِ خُدا میں بَرْدَاشْت کیں اور کبھی بھی صَبْر کا دامَن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے صَدْقے خُدا کا کَرَم ہو گا اور آپ کا ان تکالیف پر صَبْر کرنا آپ کے لیے بَہُت بڑی بھلائی کا پیش خَیمہ ثابِت ہوگا۔کیونکہ دِیْنِ اِسْلَام قُربانیوں سے پھیلاہے، ہم تو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں، دنیا میں آتے ہی کانوں میں اَذان گونجی، ہر طرح کی مذہبی آزادی مُیَسَّر، کوئی نَماز سے روکنے والا نہ کوئی کَلِمَہ پڑھنے پر ظُلْم ڈھانے والا۔ یہ سب نعمتیں انہی نُفُوسِ قُدْسِیَہ کی
قُربانیوں کا نتیجہ ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ لُٹا دیا مگر دین پر آنچ نہ آنے دی، بِلاشُبہ ان سب کی قُربانیوں کو کسی صُورَت فَرامَوش نہیں کیا جا سکتا کہ جو قومیں اپنے مُحْسِنوں کو بھول جاتی ہیں زوال ان کا مُقَدَّر ٹھہرتا ہے۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!خَیر و بھلائی حاصِل کرنے کا ایک بَہُت بڑا ذریعہ یہ بھی ہے کہ راہِ خُدا میں ہمیشہ ایسی چیز کا نذرانہ پیش کیا جائے جو پسندیدہ و مَحْبوب ہو۔ جیسا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے خود ہماری اس مُعَامَلے میں رَہْنُمائی کچھ یوں فرمائی ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﱟ (پ۴، آل عمران: ۹۲)
ترجمۂ کنز الایمان:تم ہر گز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خُدا میں اپنی پیاری چیز نہ خَرْچ کرو۔
اس اِعْتِبَار سے غور کریں تو مَعْلُوم ہو گا کہ تین ہی چیزیں ایسی ہیں جن سے انسان پیار کر سکتا ہے یعنی مال، جان یا خاندان۔ اگر صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی سیرت کی روشنی میں ان تینوں چیزوں کا جائزہ لیا جائے تو عَقْل دنگ رہ جاتی ہے کہ انہوں نے اسلام کی خاطِر مال تو مال اپنی یا اپنے خاندان والوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی کبھی دریغ نہ کیا۔ جب بھی جہاں بھی اسلام کے نام پر ان تینوں چیزوں میں سے کسی چیز کی حاجَت پیش آئی تو اسلام کی ان اَوّلین خواتین کے جذبۂ اِیمانی میں ان چیزوں کی قربانیوں سے اِضافہ ہی ہوا، کبھی کمی واقِع نہ ہوئی۔ کسی نے گویا کہ صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے اسی جذبۂ اِیمانی کو کیا خوب شعری صُورَت میں پیش کیا ہے:
تُندیِ بادِ مُخالِف سے نہ گھبرا اے عُقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
آئیے! ذیل میں صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکی راہِ خُدا میں مال، جان اور خاندان کے حوالے سے دی جانے والی چند قُربانیاں مُلَاحَظہ کرتی ہیں:
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!دینِ اسلام نے صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے جیسی بھی قُربانی مانگی ان نُفُوسِ قُدْسِیَہ نے فوراً پیش کر دی۔
ایک صحابیہ بارگاہِ رِسَالَت میں حاضِر ہوئیں تو ان کے ہاتھ میں سونے کے دو بڑے بڑے کنگن تھے جنہیں دیکھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دَرْیَافْت فرمایا: کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ عَرْض کی: نہیں!اِرشَاد فرمایا: تو کیا یہ پسند کرتی ہو کہ قِیامَت کے دن اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہیں (ان کی زکوٰۃ نہ دینے کے سَبَب ) آگ کے کنگن پہنائے؟ یہ سن کر اس نیک بَخْت صحابیہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فوراً وہ کنگن اُتار کر حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَت میں پیش کرتے ہوئے عَرْض کی: یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ہیں۔[16]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!اس صحابیہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی عَظَمَت پر قربان! جیسے ہی سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زبانِ حَق ترجمان سے حکْمِ شَریعَت اور عَذابِ الٰہی کی وَعِید سنی، فوراً کنگن رَسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے قَدَموں میں پیش کردئیے۔[17]صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکی سیرت کا مُطَالَعَہ کرنے سے یہ بات مَعْلُوم ہوتی ہے کہ راہِ خُدا میں مال خَرْچ کرنے میں انہوں نے کبھی بھی لیت و لَعْل(ٹال مَٹول)سے کام نہ لیا، بلکہ ان کے پیش نَظَر ہمیشہ رَضائے خُداوندی کا حُصُول رہا اور بسا اَوقات وہ مال و دولت کی فراوانی کو اپنے لیے بوجھ مَحْسُوس کیا کرتیں۔ چُنَانْچِہ،
ایک رِوایَت میں ہے کہ ایک بار اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیْقَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے قرابت دار حضرت سَیِّدُنا مُنْکَدِر بن عبداللہ رَحِمَہُ اللّٰہ نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی خِدْمَت میں حاضِر ہو کر اپنی کسی حاجَت کا ذِکْر کیا،(اس وَقْت آپ کے پاس کچھ نہ تھا، چُنَانْچِہ) آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے ان سے فرمایا:جو کچھ بھی مجھے ملا میں سب سے پہلے آپ کو ہی بھیجوں گی۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کسی نے دس ہزار دِرْہَم آپ کی خِدْمَت میں پیش کئے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے آپ سے فرمانے لگیں: اے عائشہ! کس قَدْر جَلْد تمہیں مال کی آزمائش میں مُبْتَلا کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا فوراً وہ تمام دِرْہَم حضرت سَیِّدُنا مُنْکَدِر بن عبداللہ رَحِمَہُ اللّٰہ کو بھجوا دئیے۔[18]
زِنْدَگی سے مَحبَّت اگرچہ ایک فطری عَمَل ہے مگر قُربان جائیے صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے عِشْقِ مصطفےٰ پر!انہیں اپنی جانوں سے زیادہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے مَحبَّت تھی۔ جیسا کہ ایک رِوایَت میں ہے کہ حضرت سَیِّدُنا اَمِیرِ مُعاوِیہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنہ کی خالہ حضرت سَیِّدَتُنا فاطِمہ بِنْتِ عُتْبَہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنہا ایک بار سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَتِ اَقْدَس میں حاضِر ہوئیں تو عَرْض کی: یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ایک وَقْت تھاجب میں چاہتی تھی کہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گھر کے عِلاوہ دنیا بھر میں کسی کا مکان نہ گِرے مگر اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اب میری خواہش ہے کہ دنیا میں کسی کا مکان رہے یا نہ رہے مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا مَکان ضَرور سلامَت رہے۔ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اس وَقْت تک کامِل مومِن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ مَحْبُوب نہ ہو جاؤں۔ [19]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَحبَّت صِرف کامِل و اَکمل اِیمان کی عَلامَت ہی نہیں بلکہ ہر اُمَّتی پر حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ حَق بھی ہے کہ وہ سارے جَہان سے بڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے
مَحبَّت رکھے اور ساری دنیا کو آپ کی مَحبَّت پر قُربان کر دے۔
محمد کی مَحبَّت دِیْنِ حَق کی شَرْطِ اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
محمد کی مَحبَّت ہے سَنَد آزاد ہونے کی
خُدا کے دامَنِ توحید میں آباد ہونے کی[20]
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!بلا شُبہ حضرت سَیِّدَتُنا سُـمَیّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا دِین پر مَر مٹنے والی خواتین کی سرخیل (امیر و سردار)ہیں، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے جس دَور میں اِسْلَام قبول کیا وہ وَقْت بڑا کڑا تھا، ہر طرف ظُلْم و سِتَم کی منہ زور آندھیاں چل رہی تھیں، مگر جب دین کو ایک مَضْبُوط عِمارَت کا سائبان مُیَسَّر آیا تودین کے رکھوالے ظُلْم و سِتَم کی ان آندھیوں کے سامنے اس طرح سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے کہ کُفْر کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہو گیا۔ چُنَانْچِہ جب دین پر مَر مٹنے کے لیے اپنی جان دینے اور کسی کی جان لینے کا مَرْحَلہ آیا تو مَردانِ حَق کی ہمّتوں اور اِرادوں کو مَضْبُوط سے مَضْبُوط تر بنانے میں جو کردار صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّنے ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔اس لیے کہ جب بھی کفّار کی یلغار کے وَقْت بَرسرِ پیکار عاشقانِ مصطفےٰ کے قَدَم لڑکھڑائے یا کبھی کسی مَوْقَع پر
انہوں نے کمزوری دِکھائی تو اِسْلَام کی یہ اَوَّلِین وبہادر خواتین اپنی نَزاکَت و نِسْوَانِیَّت کو بالائے طاق (الگ)رکھ کر میدانِ جِہاد میں اس طرح کُودیں کہ باطِل کو ہمیشہ اپنے منہ کی کھانا پڑی۔ یہ نازُک شیشیاں گُھمسان کی جنگ میں ننگی تلوار بن گئیں اور انہوں نے اپنے سامنے آنے والے ہر منہ زور و سرکش شیطان کو کاٹ کر رکھ دیا۔ ان کے دل میں کبھی باطِل قوتوں سے ٹکراتے وَقْت خوف نے جگہ لی نہ کبھی کسی لمحے یہ گھبرائیں، کیونکہ ان کے دل میں تو بَس ایک ہی بات سمائی ہوئی تھی کہ عَظَمَت و نامُوسِ رِسَالَت پر جان تو قُربان ہو سکتی ہے مگر اس کی شان و آن پر کوئی حَرْف و نِشان آئے ایسا ہو نہیں سکتا۔ دین پر قُربان ہو جانے کا جذبہ رکھنے والی ان نازُک کلیوں کو خون آشام (خونخوار)شیرنیوں کے رُوپ میں دھاڑتے دیکھ کر تاریخ عالَم آج بھی وَرْطَۂ حَیرت (حیرت کے بھَنْوَر و گرداب) میں ہے۔جیسا کہ اُحد کے میدان میں جب مسلمانوں کی صفوں میں اَبْتَری (بے ترتیبی)پیدا ہوئی اور کفّار کی یَلْغَار بڑھی تو اس عالَم میں حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عمّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بہادری کے جو جوہَر دِکھائے اسے ذیل کے اَشعار میں کیا ہی خوب بیان کیا گیا ہے:
اُحد میں خدمتیں جن کی بَہُت ہی آشکارا تھیں |
انہیں میں ایک بی بی حضرتِ اُمِّ عمّارہ تھیں |
پئے اِسلام دے کر اپنے فرزندوں کی قُربانی |
پِلاتی تھی یہ بی بی زَخْمِیانِ جنگ کو پانی |
نبی کی ذات پر جب جھک پڑے اِیمان کے دشمن |
ہوئے اس زِنْدَگیِ بَخْشِ جَہاں کی جان کے دشمن |
اسی شَمْعِ ہُدیٰ پر جب پَلَٹ کر آ گئی آندھی |
تو اس بی بی نے رَکھ دی مَشْک، چادَر سے کَمَر باندھی |
تھے اسکے شوہَر و فَرْزَند بھی مَصروفِ جَاں بازی |
رسولُ اللہ پر قُربان تھے اللہ کے غازِی |
ہوئی یہ شیر زَن بھی اب قِتال و جنگ میں شامِل |
سِپَر بن کر لگی پھرنے وہ گِردِ ہادِیِ کامِل |
یہ اپنی جان پر ہر زَخْم دامَن گیر لیتی تھی |
کوئی حِرْبَہ وُجُودِ پاک تک آنے نہ دیتی تھی |
نَظَر آئی نئی صُورَت جو حِرْزِ جَانِ پیغمبر |
کیا اِک لَخْت بڑھ کر حملہ ایک بَد کیش نے اس پر |
نہتی تھی مگر کرنے لگی پیکار دشمن سے |
مَروڑا اس کا بازو چھین لی تلوار دشمن سے |
اسی شَمشِیر سے اس نے سرِ شَمشِیر زَن کاٹا |
ہوا اس شیر زَن کے خوف سے اَعْدَا میں سنّاٹا |
جِدَھر بڑھتے ہوئے پاتی تھی وہ مَحْبُوبِ باری کو |
پہنچتی تھی وہیں اُمِّ عمّارہ جَاں نِثاری کو |
سَر و گردن پہ اس بی بی نے تیرہ زَخْم کھائے تھے |
مگر میدان سے اس کے قَدَم ہٹنے نہ پائے تھے |
یہ اُٹھی تھی نَمازِ صُبْح کو تَاروں کے سائے میں |
نَمازِ ظُہر تک قائم تھی تلواروں کے سائے میں |
یہی مائیں ہیں جن کی گود میں اِسلام پلتا ہے |
|
اسی غیرت سے اِنساں نُور کے سانچے میں ڈھلتاہے[21] |
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عمّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا یہ جذبۂ جِہاد و شوقِ شَہادَت صِرف دَورِ نبوی تک ہی مَحْدُود نہ رہا بلکہ جب مُسَیْلمَہ کذّاب نے تاج و تَختِ خَتْمِ نبوّت پر ڈاکا ڈالنا چاہا اور نبوّت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو اس کی سرکوبی کرنے والے لشکر میں آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی اپنے بیٹے حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ شامِل تھیں۔ اس جنگ میں آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا ایک ہاتھ مُبارَک مَفْلُوج ہوا اور جِسْم پر تلوار اور نیزے کے 12 زَخْم آئے۔[22] آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا ہاتھ مُبارَک چونکہ نامُوسِ
رِسَالَت کی حِفَاظَت میں مَفْلُوج ہوا تھا لہٰذا بارگاہِ خُداوندی میں آپ کی یہ قُربانی کچھ یوں مَقْبول ہوئی کہ آپ کے اس ہاتھ میں یہ بَرَکَت پیدا ہو گئی کہ آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنا یہ ہاتھ جس بھی مریض کو مَس کر کے اس کے لئے دُعا فرماتیں وہ شِفا پا جاتا۔[23]
اسی طرح جَنگِ یَرمُوک کے مَوْقَع پر جب مسلمانوں کی صَفوں میں کمزوری کی دراڑیں پڑنے لگیں تو خَواتِینِ اِسْلَام نے آگے بڑھ کر جو کارہائے نُمایاں سر اَنْجَام دیئے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، مثلاً صِرف حضرت سَیِّدَتُنا اَسما بِنْتِ یزید اَنصاریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے نو۹ کافِروں کو خیمے کی ایک لکڑی سے قَتْل کیا۔[24]
یہی نہیں بلکہ جب شام کے میدانِ اَجْنَادِین میں رُوم کی فوجیں صَف آرا ہونے لگیں تو مُلکِ شام میں مُـخْتَلِف جگہوں پر مَصروفِ جِہاد اِسْلَامی لشکر نے بھی ایک ہی جگہ جَمْع ہونے کا اِرَادہ کر لیا۔ اس وَقْت حضرت سَیِّدُنا ابو عُبَیْدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرت سَیِّدُنا خالِد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ دِمَشْق کا مُحاصَرَہ کیے ہوئے تھے، جب مُحاصَرَہ تَرْک کر کے وہ سب بھی اَجْنَادِین کی طرف روانہ ہوئے تو دِمَشْق میں مَوجُود مَحْصُور رُومیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔چونکہ وہ قلعہ کی دیوار سے اِسْلَامی لشکر کی روانگی کا یہ مَنْظَر دیکھ چکے تھے کہ لشکر کا ایک بڑا حِصّہ آگے آگے جبکہ ان کے پیچھے مَحْض ایک ہزار مُحافِظوں کی مَعِیَّت میں مال و اَسباب اور عورتوں اور بچوں کا قَافِلہ چل رہا ہے تو انہوں نے اس مَوْقَع کو غنیمت جانتے
ہوئے عَقَب (پیچھے)سے حملہ کر کے مال و اَسباب ہتھیانے کا پروگرام بنا لیا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے فاسِد اِرادوں کی تکمیل کے لیے 16 ہزار کے لشکر کو دو حصّوں میں تقسیم کیا اور چھ ہزار رُومیوں نے مُحافِظِین قَافِلہ پر حملہ کر دیا جبکہ دوسرے بڑے دس ہزار پر مُشْتَمِل حصّے نے عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا اور سب مال و اَسباب لوٹ کر چلتا بنا۔ مُحافِظِینِ قَافِلہ چونکہ دشمنوں کے ایک حصّے کے ساتھ بر سرِ پیکار تھے اور عورتوں بچوں کی رکھوالی کوئی نہیں کر رہا تھا، چُنَانْچِہ ایک مُحافِظ نے اس مُشکِل گھڑی میں آگے آگے جانے والے اِسْلَامی لشکر کو صُورَتِ حال سے آگاہ کرنے کے لیے اپنے گھوڑے کو ہوا کے دَوش پر دوڑانا شروع کر دیا۔
ادھر مال و اَسباب وغیرہ لُوٹنے والا رُومی لشکر فتح کی خوشی میں پھولا نہ سما رہا تھا اور ایک جگہ رک کر اپنے باقی ماندہ لشکر کا اِنتِظار کر رہا تھا، جب اس مُشکِل گھڑی میں خواتینِ اِسْلَام نے خود پر غور کیا تو حضرت سَیِّدَتُنا خَولہ بِنْتِ اَزْوَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے تمام عورتوں کو مُخاطَب کرتے ہوئے فرمایا: اِسْلَام کی بَہَادُر بیٹیو!کیا اس بات پر راضی ہو کہ رُومی ہم پر غالِب آ جائیں اور ہم ان مشرکوں کی باندیاں بن کر رہیں؟ ہماری وہ بَہَادُرِی کہ جس کا شُہْرہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے، کہاں چلی گئی؟ ہماری شُجَاعَت اور دانِش مَندی کو آج کیا ہو گیا ہے؟ اے اِسْلَام کی غیرت مند خواتین! ان مشرکوں کی باندی بن کر جینے سے مر جانا زیادہ بہتر ہے، ذِلَّت کی زِنْدَگی سے عزّت کی موت اَچّھی ہے، آج وَقْت کا تقاضا ہے کہ بَہَادُرِی کا مُظاہَرہ کرو اور ان رُومیوں سے لڑتے ہوئے جامِ شَہادَت نوش کرو۔ اس پر جب کسی نے
اپنے بے سر و سامان اور خالی ہاتھ ہونے کے مُتَعَلِّق عَرْض کی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا: خیموں کی چوبیں اور دیگر لکڑیاں لے کر ان رُومی ناکَسوں (ذلیلوں)پر حملہ کر دو، مُمکِن ہے کہ ہم ان پر غالِب آ جائیں، ورنہ کیاہو گا، یہی کہ مرتبۂ شَہادَت پا جائیں گی۔یہ سن کر سب خواتین نے خیموں کی چوبیں نِکال لیں اور ہاتھ میں ایک ایک چوب پکڑ کر یکبارگی رُومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔گویا کہ سراپا نَزاکَت نے پیکر شُجَاعَت کا رُوپ اِخْتِیار کر لیا، حضرت سَیِّدَتُنا خولہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سب سے پیش پیش تھیں، ایک چوب ان کے ہاتھ میں تھی اور ایک ایک کاندھے اور پشت پر باندھ رکھی تھی تاکہ ایک کے ٹوٹ جانے پر دوسری اِسْتِعمال میں لائی جا سکے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا چونکہ اِسْلَام کے بَطَلِ جلیل حضرت سَیِّدُنا ضِرار بن اَزْوَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ہمشیرہ تھیں اس لیے بَہَادُرِی و بے جگری آپ کے خون میں شامِل تھی۔ جب ایک رُومی سپاہی نے آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی کوشِش کی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس کے سر پر اس زور کی چوب ماری کہ اس کا سر تربوز کی طرح پھٹ گیا۔ پھر کیا تھا دیگر خواتین کی ہِمَّت اور بڑھ گئی اور یوں ان سب نے مل کر تقریباً 30 رومیوں کو واصِلِ جہنّم کر دیا۔ ادھر اِسْلَامی لشکر بھی چھ ہزار رومیوں میں سے 5900 کو تہِ تیغ کرنے اور 100 کو گِرِفتار کرنے کے بعد ان کی حِفَاظَت کے لیے آ گیا۔ اس دَستے کی قِیادَت حضرت سَیِّدُنا خالِد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرما رہے تھے، انہوں نے دُور سے رُومی لشکر میں اَبْتَری (بے ترتیبی) کے آثار دیکھے تو اَحْوَال سے آگاہی پانے کے لیے کسی
کو بھیجا،جب یہ حقیقت مَعْلُوم ہوئی کہ مسلمان خواتین نے رومیوں کو مار مار کر ان کا بُھرکَس (کچومر)نِکال دیا ہے تو خدا کا شکر ادا کیا اور فوراً آگے بڑھ کر ان پاک دامَن بی بیوں کو بُری نَظَر دیکھنے اور ان کی عِصْمَت و عزّت سے کھیلنے کا ناپاک خواب دیکھنے والوں کا نام صفحۂ ہستی سے مِٹا ڈالا۔[25]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!اِسْلَامی تاریخ ایسے بے شُمار واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب کبھی بھی اِسْلَام پر کوئی کڑا وَقْت آیا تو اِسْلَام کی اَوَّلِین خواتین نے جان دینے سے منہ موڑا نہ دُشمنانِ اِسْلَام کی جان لینے سے کبھی انہوں نے گریز کیا۔ بلاشُبہ ان کے مُتَعَلِّق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس شعر کی عملی صُورَت تھیں: ؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حَق تو یہ ہے کہ حَق ادا نہ ہوا
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے دین کی خاطِر اپنی ہر مَـحْبُوب چیز قُربان کر دی۔ بھلا ماں باپ، بہن بھائی اور اولاد سے بڑھ کر کون پیارا ہوسکتاہے، ان مُقَدَّس ہستیوں نے باغِ اِسْلَام کی آبیاری کے لئے اپنے جِگَر گوشوں تک کا خون پیش کردیا۔ آئیے!ان میں سے چند ایک کی قُربانیوں کا تَذْکِرہ مُلَاحَظہ کرتی ہیں۔چُنَانْچِہ،
دَعْوَتِ اِسْلَامی کے اِشَاعتی اِدارے مَکْتَبَةُ الْـمَدِیْنَه کے مَطْبُوعَہ 24 صَفحات پر مُشْتَمِل رسالے جوشِ ایمانی صَفْحَہ 5پر ہے: جنگِ قادِسِیہ (جو امیرُ الْمُومنین حضرتِ سیِّدنا عُمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دورِ خِلافَت میں لڑی گئی تھی) میں حضرتِ سیِّدَتُنا خَنسا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا چاروں شہزادوں سَمیت شریک ہوئی تھیں۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے جنگ سے ایک روز قَبْل اپنے چاروں شہزادوں کو اس طرح نصیحت فرمائی: میرے پیارے بیٹو! تم اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے اور اپنی ہی خوشی سے تم نے ہجرت کی، اس ذات کی قَسَم! جس کے سِوا کوئی مَعْبُود نہیں، تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو، میں نے تمہارے نَسَب کو خراب نہیں کیا، تمہیں مَعْلُوم ہے کہ اللہُ غَفَّار عَزَّ وَجَلَّ نے کُفّار سے مُقابَلہ کرنے میں مُجاہِدین کے لئے عظیمُ الشّان ثواب رکھا ہے۔ یاد رکھو! آخِرَت کی باقی رہنے والی زِنْدَگی دنیا کی فنا ہونے والی زِنْدَگی سے بَدَرَجہا بہتر ہے۔ سنو! سنو! قرآنِ پاک کے پارہ 4سورۂ آلِ عِمران کی آیَت نمبر 200 میں اِرشَاد ہوتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا- وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠(۲۰۰) (پ۴، آل عمران:۲۰۰)
ترجمۂ کنز الایمان:اے اِیمان والو! صَبْر کرو اور صَبْر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اِسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اس امّید پر کہ کامیاب ہو۔
صُبح کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ جنگ میں شِرْکَت کرو اور دشمنوں کے مُقابَلے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مَدَد طَلَب کرتے ہوئے آگے بڑھو اور جب تم دیکھو کہ لڑائی زور پر آگئی اور اس کے شُعلے بھڑکنے لگے ہیں تو اس شُعلہ زَن آگ میں کود جانا، کافِروں کے سردار کا مُقابَلہ کرنا،اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ عزّت و اِکرام کیساتھ جنّت میں رہو گے۔ جنگ میں حضرت ِسیِّدتُنا خَنسا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے چاروں شہزادوں نے بڑھ چڑھ کرکُفّار کا مُقابَلہ کیا اور یکے بعد دیگرے جامِ شَہادَت نوش کرگئے۔ جب ان کی والِدۂ محترمہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو ان کی شَہادَت کی خَبَر پہنچی تو اُنہوں نے بجائے واوَیلا مچانے کے کہا: اُس پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شُکْر ہے جس نے مجھے چار شہید بیٹوں کی ماں بننے کا شَرَف عَطا فرمایا۔ مجھے اللہ رَبُّ العزّت کی رَحْمَت سے اُمّید ہے کہ میں بھی ان چاروں شہیدوں کے ساتھ جَنّت میں رہوں گی۔ [26]
غلامانِ محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پروا نہیں کرتے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
غزوۂ اُحد کے مَوْقَع پر شیطانی اَفواہ سن کر قبیلہ بنی دِینار کی ایک صحابیہ جذبات پر قابو نہ رکھ پائیں اور اپنے گھر سے نِکَل کر میدانِ جنگ کی طرف چل پڑیں، راستے میں انہیں ان کے باپ، بھائی اور شوہَر کی شَہادَت کی خَبَر ملی مگر انہوں نے کوئی پَروا نہیں کی اور لوگوں
سے یہی پوچھتی رہیں:یہ بتاؤ ! میرے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیسے ہیں؟جب انہیں بتایا گیا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ!آپ ہر طرح بخیریت ہیں تو بھی ان کی تَسَلّی نہ ہوئی اور کہنے لگیں:تم لوگ مجھے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دِیدار کرا دو۔ جب لوگوں نے انہیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قریب لے جا کر کھڑا کر دیا اور انہوں نے جَمالِ نبوّت کو دیکھا تو بے اِخْتِیار زبان سے یہ جُملہ نِکَل پڑا:کُلُّ مُصِیْبَةٍ بَعْدَكَ جَلَلٌ۔یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ (معمولی) ہے۔
بڑھ کر اُس نے رُخِ اَنْوَر کو جو دیکھا تو کہا!
تو سَلامَت ہے تو پھر ہیچ ہیں سب رَنْج و اَلَم
میں بھی اور باپ بھی شوہَر بھی بَرادَر بھی فِدا
اے شہِ دیں!تِرے ہوتے کیا چیز ہیں ہم[27]
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اللہاکبر!اُن صحابیہ نے دین اور صاحِبِ دین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر شوہَر، باپ،بھائی، تینوں کو قُربان کردیا اور ان کے شہید ہونے سے دل پر صدمات کے تین۳ تین۳ پہاڑ بَرْدَاشْت کئے لیکن قربان جائیے ان کے عِشْقِ مصطفےٰ پر! عَرْض کرتی ہیں:یا رَسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ (معمولی)ہے۔
ان کے نِثار کوئی کيسے ہی رنج میں ہو
جب ياد آگئے ہيں سب غَم بُھلا ديے ہيں[28]
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!آج دیکھا جائے تو کسی کا ہلکا سا کاروباری نقصان ہو جائے یا کوئی فوت ہوجائے تو واوَیلا مچ جاتاہے۔نجانے کتنے دن تک آہ و فُغاں کی صَدائیں بُلَند ہوتی رہتی ہیں اور ایک صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّتھیں کہ سب کچھ قربان کر کے بھی شُکْرِ اِلٰہی بجا لاتی تھیں، ایک نہیں دو۲ نہیں تین۳ تین۳ رشتے دار راہِ خُدا میں قُربان ہو جاتے، مگر یہ نُفُوسِ قُدْسِیَہ پھر بھی راضی برضائے اِلٰہی رہتیں۔ انہی بُلَند حَوْصَلہ مُحِبِّ دِین ہستیوں میں سے ایک حضرت سَیِّدَتُنا حَمْنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی ہیں۔ چُنَانْچِہ مَرْوِی ہے کہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا مُصْعَبْ بن عُمَیر اور آپ کے 70 رُفَقا رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم كو شَہادَت نصیب فرمائی تو آپ کی زوجۂ محترمہ حضرت سَیِّدَتُنا حَمْنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بارگاہِ رِسَالَت میں حاضِر ہوئیں،آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اے حَمْنہ!اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ثواب کی اُمِّید رکھ۔ عَرْض کی: کس بات پر؟ فرمایا: تمہارے خالو حمزہ شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶)پڑھا اور عَرْض کی:انہیں شَہادَت مُبارَک ہو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان پر اپنی رَحْمَت فرمائے اور ان کی بَـخْشِش فرمائے۔ پھر آپصَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اے حَمْنہ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ثواب کی اُمِّید رکھ۔ عَرْض کی: کس بات پر؟اِرشَادفرمایا :تمہارا بھائی بھی شہید ہو گیا ہے۔ یہ سن کر آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے پھر اِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے عَرْض کی: انہیں بھی جنّت مُبارَک ہو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان پر بھی اپنی رَحْمَت فرمائے اور انہیں بَـخْشْ دے۔ اس کے بعد تیسری بار پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا:اے حَمْنہ!اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ثواب کی اُمِّید رکھ۔عَرْض کی:کس بات پر؟ اِرشَاد فرمایا: تمہارا شوہر بھی شہید ہو گیا ہے۔یہ سن کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے شِدَّتِ غم سے بے اِخْتِیار ہو کر جب دُکھ کا اِظْہَار کیا تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِرشَاد فرمایا: عورت کے دِل میں جو مَحبَّت اپنے شوہر کے لیے ہوتی ہے ویسی کسی اور کیلئے نہیں ہوتی۔ پھر اسی مَوْقَع پر دُکھ کے اِظْہَار کے مُتَعَلِّق اِسْتِفْسَار فرمایا تو عَرْض گزار ہوئیں:مُجھے بچّوں کی یتیمی یاد آگئی تھی، ہم پر نَظَر ِکَرَم فرمائیے۔ چُنَانْچِہ حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِن بچوں کے لیے بہترین کفیل ملنے کی دُعا فرمائی۔[29]
صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّنے بارگاہِ رِسَالَت سے دین کی خاطِر قُربانیوں اور پھر ان پر صَبْر و اِسْتِقَامَت کا جو جذبہ پایا تھا، یہ انہیں پاک بی بیوں کا حِصّہ تھاکہ وہ راہِ خُدا میں اپنے عزیزوں کی مُثْلہ شُدہ لاشوں (یعنی جس لاش کے ناک، کان اور دیگر اَعْضَا وغیرہ کاٹ دئیے جائیں،اس) کو دیکھ کر بھی کمال صَبْر کا مُظاہَرہ کرتیں۔ چُنَانْچِہ جب میدانِ اُحد میں
حضرت سَیِّدُنا حمزہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو بڑی بے دردی سے شہید کیا گیا اور ان کے ناک کان وغیرہ کا ٹ کر لاش مُبارَک کی بے حرمتی کی گئی تو آپ کی بہن حضرت سَیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کفن لے کر حاضِر ہوئیں تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے انہیں آگے آنے سے مَنْع کرنے کا حکْم اِرشَاد فرمایا، مَبادا (کہیں)آپ اپنے بھائی کی حَالَت دیکھ کر صَبْر کا دامَن ہاتھ سے کھو نہ بیٹھیں۔ چُنَانْچِہ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بیٹے حضرت سیِّدُنا زُبَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ سے عَرْض کی: امّی جان!اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کو واپَس جانے کا فرما رہے ہیں۔ اس پر آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے کہا: مجھے خَبَر مِل چکی ہے کہ میرے بھائی کا مُثْلہ کیا گیا ہے، چونکہ ایسا راہِ خُدا میں ہوا ہے، اس لیے میں اس سے راضِی ہوں اور صَبْر کروں گی۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔ لِہٰذا انہیں آگے جانے کی اِجازَت مل گئی[30] اور جب حضرت سَیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو کَفَن پہنانے لگے تو حضرت سَیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس مَوْقَع پر ایسے اِیثار کا مُظاہَرہ کیا جو رہتی دنیا تک اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّسنہرے حُرُوف سے لکھا جاتا رہے گا اور وہ یہ کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے عزیز بھائی کے کَفَن کے لیے دو کپڑے لائی تھیں مگر جب آپ کو کَفَن پہنایا گیا تو آپ کے ساتھ دَفْن ہونے والے صحابی کے کَفَن کے لیے کوئی کپڑا مُیَسَّر نہ تھا، چُنَانْچِہ آپ نے ایک کپڑا اس صحابی کو دیدیا اور ایک کپڑے سے اپنے بھائی کو کَفَن دیا۔[31]
حضرت سَیِّدَتُنا اَسما بِنْتِ اَبی بکر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے دِیْنِ اِسْلَام کی خاطِر جس قَدَر قُربانیاں دی ہیں زمانہ انہیں صُبْحِ قِیامَت تک یاد رکھے گا۔ مثلاً اپنی جوانی میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے دین کی خاطِر تھپڑ کھائے، چُنَانْچِہ آپ خود یہ واقعہ کچھ یوں بتاتی ہیں کہ جب رسولِ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور میرے والِدِ مُحْتَرَم حضرت سَیِّدُنا ابو بکر صِدِّیق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ہجرت کے اِرَادے سے نکلے تو قریش کا ایک گروہ ہمارے پاس آیا جس میں ابو جَہْل بن ہِشام بھی تھا۔ وہ لوگ ہمارے دروازے پر کھڑے ہو گئے، میں باہَر نکلی تو انہوں نے کہا: اےابو بکر کی بیٹی! تیرا باپ کدھر ہے؟ میں نےکہا: اللہ کی قَسم میں نہیں جانتی میرے والِدِ محترم کہاں ہیں۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ ابو جَہْل نے اس زور سے میرے گالوں پر تھپڑ مارا کہ میرے کان کی بالی دُور جا گری۔[32]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!بڑھاپے میں ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کا سہارا بنے، لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اس بندی نے عَین بڑھاپے کے عالَم میں بھی اپنے بیٹے کو دِین کی نامُوس پر قُربان ہونے کا دَرْس دیا اور اس نیک بخت بیٹے نے بھی ماں کا کہا سچ کر دِکھایا۔ چُنَانْچِہ مَرْوِی ہے کہ آپ کے شہزادے حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنی شَہادَت سے 10 دن قَبْل آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی عِیادَت کے لیے حاضِر ہوئے اور طبیعت کی ناسازی کے مُتَعَلِّق پوچھا۔ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے یہ جواب دیا
کہ ابھی بیمار ہی ہوں۔تو انہوں نے عَرْض کی:مرنے میں عَافِـیَّت ہے۔اس پر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بولیں:شاید تم میری موت پسند کرتے ہو،لیکن جب تک دو باتوں میں سے ایک نہ ہو جائے میں مرنا نہیں چاہتی:یا تو تم شہید ہو جاؤ اور میں صَبْر کروں یا دشمن کے مُقابلے میں کامیابی حاصِل کرو کہ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ چُنَانْچِہ جب حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن زبیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ(ظالِم و جابِر حکمران حجاج کا مُقَابَلَہ کرتے ہوئے)شہید ہو گئے اور حَجَّاج نے اِن کو سولی پرلٹکا دیا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا شدید بڑھاپے کے باوُجُود حَجَّاج کے مَـجْبُور کر دینے پر[33] وہاں تشریف لائیں اور یہ مَنْظَر دیکھ کر اسے مخاطَب کرتے ہوئے فرمایا: کیا ابھی اس سوار کےاترنے کا وَقْت نہیں آیا؟[34]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!ایک غیر ملکی تحقیقی اِدارے کی رپورٹ کے مُطابِق اس وَقْت دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے جو دنیا کی آبادی کا 23 فیصد حِصّہ ہے۔یعنی کہا جا سکتا ہے کہ تقریباً دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے،یہ تعداد کم ہونے کے بجائے دِن بَدِن مزید بڑھ رہی ہے جس کی روک تھام کے لیے کُفْر کے ایوانوں میں زلزلے بپا ہیں اور وہ ہر مُمکِن طریقے سے اس سیلابِ رَواں کے سامنے بند باندھنے کی کوشِشیں کر رہے ہیں۔ کہیں غَیُور ماؤں کے جواں سال بیٹوں کی سانسیں چھینی جا
رہی ہیں تو کہیں عِفَّت و عِصْمَت کی پیکر دوشیزاؤں کے مُحافِظ بھائیوں کا خاتِمہ کیا جا رہا ہے، کہیں پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی دُکھیاری اُمَّت کی پردہ نشین خواتین کے سُہاگ اُجاڑے جا رہے ہیں تو کہیں ان کی گود میں کھلنے والی نوخیز کلیوں کو مَسلا جا رہاہے۔ ظُلْم و سِتَم اور جَبْر و اِسْتِبْدَاد کا ایسا کون سا ذَرِیْعَہ ہے جو باقی چھوڑا جا رہا ہے؟آئے دِن نِت نئے ہتھکنڈوں کے ذریعے اِسْلَام کے اس لہلہاتے دَرَخْت کو صفحۂ ہستی سے مِٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ ایسے مَذمُوم اِرَادے رکھنے والوں کو مَعْلُوم نہیں :
دَورِ حَیات آئے گا قاتِل، قَضا کے بعد ہے اِبْتِدَا ہماری تِری اِنْتِہا کے بعد
قَتْلِ حسین اَصْل میں مَرگِ یزید ہے اِسْلَام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!ظُلْم و سِتَم کی مُنہ زَور آندھیوں سے گھبرائیے نہیں، بلکہ اپنی ہِمَّت بندھائے رکھئے اور جب بھی حَوصَلے پَسْت ہونے لگیں تو کربلا کی دوپہر کے بعد کا وہ لَرزہ خیز اور دَرْد ناک مَنْظَر اپنی نِگاہوں کے سامنے لائیے کہ جب صُبْح سے دوپہر تک خاندانِ نبوّت کے تمام چشم و چراغ اور دیگر عاشِقانِ اَہْلِ بَیت ایک ایک کر کے شہید ہو گئے، ان میں جِگَر کے ٹکڑے بھی تھے اور آنکھ کے تارے بھی، بھائی اور بہن کے لاڈلے بھی اور باپ کی نِشانیاں بھی۔ ذرا اس مَاحَول میں خاندانِ نُبوَّت کی ان خواتین کو بھی چَشْمِ تَصَوُّر سے دیکھئے جن میں سَرْوَرِ اَنۢبِیَا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بیٹیاں بھی ہیں تو سوگوار مائیں اور پریشان
حال بہنیں بھی۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کی گودیں خالی ہوچکی ہیں، جن کے سینے سے اولاد کی جُدائی کا زَخْم رِس رہا ہے، جن کی گود سے شِیرخوار بچہ بھی چھین لیا گیا ہے اور جن کے بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کی بے گور و کَفَن لاشیں سامنے پڑی ہوئی ہیں۔روتے روتے جن کی آنکھوں کا چشمہ سوکھ گیا ہے۔ عورت ذات کے دل کا آبگینہ یونہی نازُک ہوتا ہے ذرا سی ٹھیس جو بَرْدَاشْت نہیں کرسکتا آہ!!! اس پر آج پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!ذرا اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ہمارے یہاں ایک مَیّت ہوجاتی ہے تو گھر والوں کا کیا حال ہوتا ہے؟ غم گساروں کی بھیڑ اور چارہ گروں کی تلقینِ صَبْر کے باوُجُود آنسو نہیں تھمتے تو پھر کربلا کے میدان میں خاندانِ نبوّت کی ان سوگوارعورتوں پر کیا گزری ہوگی جن کے سامنے بیٹوں، شوہروں اور عزیزوں کی لاشوں کا اَنبار لگاہوا تھا،جو غمگساروں اور شریکِ حال ہمدردوں کے جُھرْمَٹ میں نہیں خونخوار دشمنوں اور سَفَّاک درندوں کے نرغے میں تھیں۔بِالْخُصُوص خاندانِ نبوّت کی ان شہزادیوں پر شامِ غریباں قِیامَت سے کم نہ تھی، ایک طرف یزیدی لشکر میں خوشیوں کا چراغاں تھا تو دوسری طرف حَرَم کے پاسبانوں کے ہاں اندھیرا تھا،ایک طرف فتح کے شادیانے تھے تو دوسری طرف فضا پر موت کے سناٹےتھے۔ زِنْدَگی کی یہ سوگوار اور اُداس رات کاٹے نہیں کٹ رہی تھی، رات بھر سسکیوں کی آواز آتی رہی،آہوں کا دھواں اٹھتا رہا اور رُوحوں کے قافلے اترتے رہے۔ آج پہلی رات تھی کہ خُدا کا گھر بسانے کے لئے اَہْلِ حَرَم نے سب کچھ لُٹا دیا تھا۔آہ!!! کلیجہ شَق کر دینے والے سارے اَسْبَاب اس رات میں جَمْع
ہوگئے تھے۔بڑی مُشکِل سے صُبْح ہوئی،اُجالا پھیلا اور دِن چڑھنے پر اونٹنی کی ننگی پیٹھ پر گلشنِ نبوّت کے ان مُرجھائے ہوئے پھولوں کو رسیوں سے خوب جکڑ کر بٹھایا گیا کہ جُنْبِش (حَرَکَت) تک نہ کر سکیں۔ پھر اَہْلِ بَیت کا یہ لُٹَا پِٹَا قَافِلہ جس وَقْت کربلا کے میدان سے رُخْصَت ہوا، وہ قِیامَت خیز مَنْظَر کیسا ہو گا!
قافلے اِسطرح دنیا میں بَہُت کم جاتے ہیں |
جسطرح آج کے دن اَہْلِ حَرَم جاتے ہیں |
قَافِلہ ہے مَدَنی لوگ ہیں اَولادِ علی |
ہاشمی خیل ہیں اور آلِ رَسولِ عربی |
اَہْلِ بَیتِ نبوی ہیں یہ اَسِیرانِ بَلا |
سر و سامان ہے یاں بے سر و سامانی کا |
آستین اَشک سے تَر جیب و گریبان سب چاک |
منہ پہ تھی گَردِ اَلَم آنکھیں تھیں خوں سے نمناک |
دن کو راحَت نہ کسی وَقْت نہ شب کو آرام |
ساتھ خیمہ نہیں جس میں کہ ہو راتوں کو مَقام |
غَمِ شبیر نہاں دل میں کیے جاتے تھے |
دَاغ غَم تحفۂ اَحباب لیے جاتے تھے |
رنج تازہ بھی جو آتے تھے پئے جاتے تھے |
جانِ غم دیدہ کو گو صبر دئیے جاتے تھے |
ضبط نالہ کریں تو سینہ پھٹا جاتا تھا |
نہ کریں گریہ تو دل غم سے جَلا جاتا تھا |
کیا کہیں آکے وہ اس دَشْت میں کیا کھو کے چلے |
گھر سے آئے تھے یہاں کیا اور کیا ہو کے چلے[35] |
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
خاندانِ رِسَالَت کا یہ تاراج قَافِلہ جب مَقْتَل کے قریب سے گزرنے لگا تو خواتِینِ اَہْلِ بَیت بے تاب ہوگئیں۔ ضَبْط نہ ہو سکا تو آہ و فریاد کی صدا سے کربلا کی زمین ہِل گئی۔ سیِّدہ
خاتونِ جنّت کی لاڈلی بیٹی حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا حال سب سے زیادہ رِقَّت انگیز تھا۔ کسی نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ان جذبات کو اَشعار کی شَکْل میں کچھ یوں نَقْل کرنے کی کوشِش فرمائی ہے:
سر میرے کوئی دوس نہ دیویں بہن تیری مجبور اے
کتھوں لیاواں کَفَن میں تیرا ایتھوں شہر مدینہ دور اے
تم سا کوئی غریب نہیں خَسْتَہ تن نہیں |
شہادت کے بعد گور نہیں اور کَفَن نہیں |
ہائے ہائے پرائی بستی ہے اپنا وطن نہیں |
واقِف یہاں کسی سے یہ بیکس بہن نہیں |
لا کر کَفَن پہناتی میں مَظْلُوم بھائی کو |
ہوتا اگر وَطَن تو میں دفناتی بھائی کو[36] |
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
صَدْمَۂ جانکاہ (جان کو گُھلانے والے صدمے) کی بے خودی میں حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے مدینے کی طرف رُخ کر لیا اور دل ہِلا دینے والی آواز میں اپنے نانا جان کو کچھ یوں مُخاطَب کیا: یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!!! آپ پر آسمان کے فرشتوں کا سلام ہو، یہ دیکھئے! آپ کا لاڈلا حسین کربلا کے میدان میں بے گور و کفن ہے، خاک و خون میں آلودہ ہے۔ ناناجان آپ کی تمام اولاد کو ان بدبختوں نے شہید کر دیا،آپ کی بیٹیاں قید ہیں، یہاں پردیس میں ہمارا کوئی شَناسا (جاننے والا) نہیں۔نانا جان اپنے یتیموں کی فریاد کو پہنچئے۔ابنِ جریر کا بیان ہے کہ دوست دشمن کوئی ایسا نہ تھا جو حضرت زینب رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے اس بیان پر آبدیدہ نہ ہو گیا ہو، اسیرانِ خاندانِ نبوّت کا قَافِلہ اَشک بار آنکھوں اور جِگَر گداز
سسکیوں کے ساتھ کربلا سے رُخْصَت ہوکر کوفے کی طرف روانہ ہوگیا۔
دوسرے دن ظہر کے وَقْت اَہْلِ بَیت کا لُٹا ہوا کارواں (قَافِلہ)کو فے کی آبادی میں داخِل ہوا، بازار میں دونوں طرف سنگدل تماشائیوں کے ٹَھٹ لگے ہوئے تھے، خاندانِ نبوّت کی بی بیاں شرم و غیرت سے گڑی جا رہی تھیں، سجدے میں سر جھکا لیا تھا کہ کسی غیر مَحْرَم کی نَظَر نہ پڑ سکے، وُفورِ غَم (غم کی زِیادَتی) سے آنکھیں اَشک بار تھی، دل رَو رہے تھے، اس اِحْسَاس سے زخموں کی ٹیس (تکلیف) اور بڑھ گئی تھی کہ کربلا کے میدان میں قِیامَت ٹُوٹنا تھی ٹُوٹ گئی، اب محمدِ عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نامُوس کو گلی گلی پھِرایا جا رہا ہے۔ کَلِمَہ پڑھنے والی اُمَّت کی غیرت دَفْن ہو گئی تھی۔ ابنِ زیاد کے بے غیرت سپاہی فتح کا نعرہ بُلَند کرتےہوئے آگے آگے چل رہے تھے۔ اَہْلِ بَیت کی سواری قلعہ کے قریب پہنچی تو خاندانِ نبوّت کی عورتیں اُتاری گئیں۔ اِمام زَیْنُ الْعَابِدِیْن اپنی والِدہ اور پھوپھی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، ادھر بُخار کی شِدَّت سے ضُعْف و ناتوانی اِنْتِہا کو پہنچ گئی تھی۔ اُونْٹ سے اُترتے وَقْت غَش آگیا اور بے حال ہو کر زمین پر گر پڑے، سر زَخمی ہو گیا،خون کا فوارہ چھوٹنے لگا، یہ دیکھ کر حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بے تاب ہوگئیں،ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ کہنے لگیں:آلِ فاطِمہ میں ایک ہی عابِد کا خون مَحْفُوظ رہ گیا تھا، چلو اَچھّا ہوا کوفے کی زمین پر یہ قَرْض بھی اَدا ہوگیا۔
دُوسرے دن یہ کارواں (قَافِلہ)دمشق روانہ ہوا تو جس آبادی سے گزرتا کُہْرَام برپا ہو
جاتا۔آخِر کار دمشق پہنچے تو سب سے پہلے زَحْر بن قَیس نے یزید کو فتح کی خبر سنائی۔پہلے تو فتح کی خوشخبری سن کر یزید جھوم اٹھا لیکن اس ہَلاکَت آفریں اَقدام کا ہولناک اَنْجَام جب نَظَر کے سامنے آیا تو کانپ گیا باربار چھاتی پیٹتا تھا کہ ہائے اس واقعہ نے ہمیشہ کے لئے مجھے ننگِ اِسْلَام بنا دیا۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!قاتِل کی پشیمانی مَقْتُول کی اَہَمِیَّت تو بڑھا سکتی ہے پر قَتْل کا الزام نہیں اٹھا سکتی۔ پھر یزید نے شام کے سرداروں سے مُشَاوَرَت کے بعد اگلے ہی دِن نعمان ابنِ بشیر کی سرکردگی(سرداری)میں مع 30 سواروں کے اَہْلِ بَیت کا یہ تاراج کارواں سُوئے طیبہ روانہ کر دیا۔پہاڑوں،صَحْرَاؤں اور ریگستانوں کو عُبُور کرتا ہوا یہ قَافِلہ مدینے کی طرف بڑھتا رہا،یہاں تک کہ جب حِجاز کی سَرْحَد شروع ہوئی تو اچانک سویا ہوا دَرْد جاگ اُٹھا، رَحْمَت و نُور کی شہزادیاں اپنے چمن کا موسم بہار یاد کرکے مچل گئیں کہ کربلا جاتے ہوئے انہی راہوں سے گزری تھیں، اس وَقْت اپنے تاجداروں اور ناز برداروں کی شَفْقَت و مہربانی کے سائے میں تھیں، ذرا چہرہ اُداس ہوا چارہ گروں کا ہُجُوم لگ گیا، پلکوں پہ ننھا سا قطرہ چمکا اور پیار کے ساگر میں طوفان اُمَنْڈنے لگا۔ اب اسی راہ سے لَوٹی ہیں تو قَدَموں کے نیچے کانٹے ہیں، تڑپ تڑپ کر قِیامَت بھی سر پہ اُٹھا لی تو کوئی تسکین دینے والا نہیں۔ لَبوں کی جُنْبِش (حَرَکَت) اور اَبْرو کے اِشاروں سے اَسیروں(قیدیوں) کی زنجیر توڑنے والے آج خود اَسِیْرِ کَرْب و بلا ہیں۔
آخِر جونہی مدینے کی آبادی چمکی، صَبْر کا پیمانہ چھلک اُٹھا، کلیجہ توڑ کر آہوں کا دھواں نکلا اور ساری فضا پہ چھا گیا۔ حضرت زینب، حضرت شہربانو اور حضرت عابِد بیمار اُبلتے ہوئے
جذبات کی تاب نہ لاسکے۔ خاندانِ نبوّت کے دَرْدناک نالوں سے زمین کانپنے لگی، پَتّھروں کا کلیجہ پَھٹ گیا۔کسی نے بجلی کی طرح سارے مدینے میں یہ خَبَر دوڑا دی کہ کربلا سے نبی زادوں کا لُٹا ہوا قَافِلہ آرہا ہے، شہزادۂ رَسول کا کٹا ہوا سَر بھی ان کے ساتھ ہے۔ یہ سنتے ہی ہر طرف کُہْرام مَچ گیا،قِیامَت سے پہلے قِیامَت آگئی، وُفُورِ غَم (غَم کی زِیادَتی)اور جذبۂ بے خودی میں اَہْلِ مدینہ باہَر نِکَل آئے۔ جیسے ہی آمنا سامنا ہوا اور نِگاہیں چار ہوئیں دونوں طرف شورِشِ غَم کی قِیامَت ٹوٹ پڑی، آہ و فُغاں کے شور سے آسمان دَہَل گیا،حضرت اِمام کا کٹا ہوا سَر دیکھ کر لوگ بے قابُو ہوگئے، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ حضرت زینب فریاد کرتی ہوئی مدینہ میں داخِل ہوئیں:نانا جان! اُٹھئے! اب قِیامَت کا کوئی دِن نہیں آئے گا، آپ کا سارا کنبہ لُٹ گیا، آپ کے لاڈلے شہید ہو گئے،آپ کے بعد آپ کی اُمَّت نے ہمارا سُہاگ چھین لیا، بے آب و دانہ آپ کے بچوں کو تڑپا تڑپا کے مارا،آپ کا لاڈلا حسین آپ کے نام کی دُھائی دیتا ہوا دنیا سے چل بسا،کربلا کے میدان میں ہمارے جِگَر کے ٹکڑے ہماری نِگاہوں کے سامنے ذَبْح کئے گئے۔ نانا جان!! یہ حسین کا کٹا ہوا سر لیجئے! آپ کے اِنتِظار میں اسکی آنکھیں اب تک کھلی ہوئی ہیں ذرا مَرْقَد (قَبْرِ مُبارَک) سے نِکَل کر اپنی آشفتہ نصیب بیٹیوں کا دَرْد ناک حال دیکھئے۔حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی اس پُکار سے سننے والوں کے کلیجے پَھٹ گئے۔
پھر اَہْلِ بَیت کا یہ تاراج کارواں جس دَم اپنے اِمام کا کٹا ہوا سر لئے روضۂ رَسول پر حاضِر ہوا، ہوائیں رُک گئیں، گردِشِ وَقْت ٹھہر گئی،پوری کائنات دَم بخود تھی کہ کہیں آج ہی قِیامَت نہ آجائے۔اس وَقْت کا دِل گداز (دل کو نرم کرنے والا)اور رُوح فرسا (تکلیف دِہ)مَنْظَر
ضَبْطِ تحریر سے باہَر ہے۔ قلم کو یارا(طاقت، حوصلہ) نہیں کہ درد و اَلَم کی وہ تصویر کھینچ سکے جس کی یاد اہلِ مدینہ کو صدیوں تڑپاتی رہی۔ خاندانِ نبوّت کے سِوا کسی کو نہیں مَعْلُوم کہ حجرۂ عائشہ میں کیا ہوا۔ کربلا کے فریادی اپنے نانا جان کی تُرْبَت (قبر مبارَک)سے کس طرح واپَس لوٹے؟اَشک بار آنکھوں پہ رَحْمَت کی آستین کس طرح رکھی گئی؟ کربلا کے پَسِ مَنْظَر میں مَشِیَّتِ اِلٰہی کا سَربَسْتہ راز کن لفظوں میں سمجھایا گیا؟ مَرْقَدِ رسول (حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مزار مُقَدَّس)سے سیِّدہ کی خواب گاہ بھی دو ہی قَدَم کے فاصلے پر تھی، کون جانتا ہے کہ لاڈلے کو سینے سے لگانے اور اپنے یتیموں کے آنسو آنچل میں جَذب کرنے کے لئے مامتا کے اِضْطِرَاب میں وہ بھی کسی مَـخْفِی گزرگاہ سے اپنے بابا جان کی حریمِ پاک (مُقَدَّس بارگاہ)تک آگئی ہوں۔تاریخ صِرف اتنا بتاتی ہے کہ حضرت زینب رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بِلَک بِلَک کر کربلا کی داستانِ زلزلہ خیز سنائی۔[37]
نانا تمہارے پاس کریں کیا بیان ہم
اَعدا کے ہاتھ سے ہوئے ہم پر ہیں کیا سِتَم
کیسے ذلیل و خوار کیے آلِ مصطفےٰ
رسوا کیا جہاں میں ہمیں وامُصِیبَتَاہ [38]
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!یہ بڑے ہی دل گردے کا کام ہے کہ جن گلیوں میں بچپن گزرا ہو، جہاں اپنوں کی رونقیں ہوں، جہاں ماں باپ بہن بھائیوں کا پیار مِلا ہو، اس جگہ اس شہر اور ان گلیوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جائے، وہ بھی یوں کہ سب سے ناطہ ہی ٹوٹ جائے، پھر اس پر مُسْتَزاد (مزید)یہ کہ ان لوگوں کے ظُلْم و سِتَم کی وجہ سے جانا پڑے جو کبھی مُشْفِق و مہربان اور عزّت و اِحْتِرام کرنے والے ہوں، یقیناً یہ ایک ایسی ذِہْنی اَذِیَّت ہے جسے بَرْدَاشْت کرنا اور صَبْر و اِسْتِقْلَال سے کام لینا بَہُت ہی بَہَادُرِی کا کام ہے۔ دینِ اسلام سے مُشَرَّف ہونے والوں کے ساتھ کفّارِمکّہ کی سب ہمدردیاں خَتْم کیا ہوئیں انہوں نے عاشقانِ خدا و مصطفےٰ پر ظُلْم و سِتَم کی سب حدیں توڑ ڈالیں۔ ان کی سَفَّاکی کی وجہ سے جب ہجرت کی اِجازَت ملی اور اپنے وطن کو چھوڑ دینے کا حکْم آیا تو صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی طرح بَہُت سی صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے بھی اس حکْم پر لَـبَّیْك کہتے ہوئے اپنے گھر بار اور وَطَنِ دِیار کو خیرباد کہہ دیا۔ البتہ! بعض صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو ہجرت کے وَقْت ایسے دَرْد ناک حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑا کہ آج بھی انہیں یاد کر کے دَرْد مَنْد دل خون کے آنسو رو پڑتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی دو واقعات کو مُلَاحَظہ فرمائیے:
حضرت سَیِّدَتُنا زینب رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا رسولاللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو اعلانِ نبوّت سے دس سال قبل مَکّہ مُکَرَّمَہ میں پیدا ہوئیں یہ
ابتدا ئے اسلام ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں اور جنگ بدر کے بعد حُضُورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو مکّہ سے مدینہ بلالیا تھا مکہ میں کافروں نے ان پر جو ظُلْم و سِتَم کے پہاڑ توڑے ان کا تو پوچھنا ہی کیا حد ہوگئی کہ جب یہ ہجرت کے ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہَر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا اور ایک بدنصیب کافِر ہِبار بن اَسْوَد جو بڑا ہی ظالِم تھا،نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا جس کے صَدْمَہ سے ان کا حَمْل ساقِط ہوگیا یہ دیکھ کر ان کے دیور کِنانہ کو جو اگرچہ کافِر تھا ایک دَم طیش آگیا اور اس نے جنگ کے لئے تیر کمان اُٹھا لیا یہ مَاجْرا دیکھ کر ابوسفیان نے درمیان میں پڑ کر رَاسْتَہ صاف کرا دیا اور یہ مدینہ مُنَوَّرہ پہنچ گئیں۔ حُضُور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلب کو اس واقعہ سے بڑی چوٹ لگی،چُنَانْچِہ آپ نے ان کے فضائل میں یہ اِرشَاد فرمایا کہ ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ یہ میری بیٹیوں میں اس اِعْتِبَار سے بہت فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔[39]
اسی طرح جب حضرتِ سیِّدُنا ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے مدینہ شریف کی طرف ہجرت کا پختہ اِرَادہ کیا تو اونٹ پر کَجاوہ باندھ کر اپنی زوجہ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اور اپنے بیٹے حضرت سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کو بھی کَجاوے میں بٹھا لیا۔ ابھی وہ اونٹ کی نَکیل پکڑ کر چلے ہی تھے کہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے میکے والوں یعنی بنو
مُغِیرَہ نے انہیں دیکھ لیا۔ چُنَانْچِہ وہ کہنے لگے: تمہیں تو ہم نہیں روک سکتے لیکن ہمارے خاندان کی اس لڑکی کے بارے میں تم کیا چاہتے ہو؟ ہم کیوں اسے تمہارے پاس چھوڑ دیں کہ تم اسے شہر بہ شہر لئے پھرو؟ یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی نَکیل ان سے چھینی اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ان سے علیحدہ کر دیا۔ اس پر حضرت سَیِّدُنا ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے خاندان یعنی بنو عَبْدُ الْاَسَد کے لوگوں کو طیش آ گیا اور انہوں نے غَضَب ناک ہو کر کہا: بخدا! جبکہ تم نے اُمِّ سلمہ کو اس کے شوہَر سے علیحدہ کر دیا ہے جو ہمارے خاندان میں سے ہیں تو ہم ہرگز ہرگز ابوسلمہ کے بیٹے سلمہ کو اس کے پاس نہیں رہنے دیں گے کیونکہ وہ بچّہ ہمارے خاندان کا ہے۔ پھر اسی تُو تکار میں بنی عَبْدِ الْاَسَد والے حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ کے بیٹے کو لے کر چل دیئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بنو مُغِیرَہ کے لوگوں نے اپنے پاس روک لیا۔ حضرت ابوسلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ چونکہ حکْمِ خدا و رسول پر لَـبَّیْك کہتے ہوئے ہجرت کا پختہ ارادہ فرما چکے تھے، چُنَانْچِہ انہوں نے اپنے بیٹے اور بیوی کا مُعَامَلہ سُپُردِ خدا کیا اور بیوی اور بچے دونوں کو چھوڑ کر تنہا سوئے مدینہ چل پڑے۔ ادھر حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا شوہر اور بچے کی جُدائی پر ہر صُبْح وادیِ مکّہ کے باہر بیٹھ کر روتی رہتیں۔ اسی طرح تقریباً ایک سال کا عرصہ گزَر گیا۔ ایک دن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا ایک چچا زاد بھائی آپ کے پاس سے گزرا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس کے دل میں آپ کے لیے نرم گوشہ پیدا فرمایا۔ لِہٰذا اس نے بنو مُغِیرَہ کو سمجھایا کہ تم نے اس مسکینہ کو اس کے شوہر اور بچے سے کیوں جدا کر رکھا
ہے اور اسے کیوں نہیں جانے دیتے...!! بالآخر بنو مُغِیرَہ نے اس پر رَضا مند ہوتے ہوئے حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے کہا: اگر چاہو تو اپنے شوہَر کے پاس چلی جاؤ۔ پھر حضرت ابوسلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کے خاندان والوں نے بچے کو حضرتِ اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے سُپُرد کر دیا۔ حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بچے کو گود میں لے کر اونٹ پر سوار ہوئیں اور تنہا جانِبِ مدینہ روانہ ہو گئیں۔ [40]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!ذیل میں چند صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے اَسمائے گرامی دَرْج ہیں کہ جنہوں نے راہِ خُدا میں ہجرت کی:
نبی رَحْمَت، شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جن اَزْوَاجِ مُطَہَّرات نے ہجرت فرمائی ان کے اَسمائے گرامی یہ ہیں:
(1)…اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا سودہ بِنْتِ زمعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا
(2)…اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ بِنْتِ ابو سفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا
(3)…اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ بِنْتِ ابو اُمَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا [41]
(4)…اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیْقَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا [42]
(5)…اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا حفصہ بنتِ عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا [43]
(6)…اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا زینب بِنْتِ جحش رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا۔[44]
ہجرت کرنے والی صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں سرکارمدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی چاروں شہزادیاں بھی شامِل ہیں،ان کے اَسمائے گرامی یہ ہیں:
(1)…حضرت سَیِّدَتُنا فاطِمَةُ الزَّهْرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا
(2)…حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا
(3)…حضرت سَیِّدَتُنا رُقَیّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا
(4)…حضرت سَیِّدَتُنا زینب رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا۔[45]
سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواجِ مُطَہَّرات اور شہزادیوں کے عِلاوہ جن دیگر صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے ہجرت فرمائی اور دین کی خاطِر اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑا۔ ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں:
٭اَسما بِنْتِ اَبِی بَكْر ٭اُمِّ اَيْمَن٭اُمِّ رُومَان[46] ٭سَهْلَة بِنْتِ سُہَيْل ٭لَیْلىٰ بِنْتِ اَبی حَثْمَہ ٭اَمِينَہ بِنْتِ خَلَف٭رَيْـطَہ بِنْتِ حَارِث٭رَمْلَہ بِنْتِ اَبِی عَوْف٭اَسْمَا بِنْتِ عُمَيْس٭اُمِّ كُلْثُوم بِنتِ سُہَيْل٭اُمِّ حَرْمَلَہ بِنْتِ عَبْدُ
الاَسْوَد٭فَاطِمَہ بِنْتِ مُـجَلَّل٭فُكَيْهَہ بِنْتِ يَسَار٭بَـرَكَہ بِنْتِ يَسَار[47] ٭قُهْطَم بِنْتِ عَلْقَمَہ[48] ٭اُمِّ يَـقَظہ بنتِ عَلْقَمہ[49] ٭خُـزَيْمَہ بنتِ جَهْم[50] ٭حَمْنہ بِنْتِ جَحْش٭اُمِّ حَبِيب بِنْتِ جَحْش٭جُذَامَہ بِنْتِ جَنْدَل٭اُمِّ قَيْس بِنتِمُـحْصَن٭اُمِّ حَبِيب بِنْت ثُمَامَہ٭آمِنَہ بِنْت رُقَيْش اور ٭ سَخْبَـرَة بِنْت تَمِيم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ۔[51]
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکی مَذْکُورہ بالا قُربانیوں سے ہمیں دَرْس حاصِل کرنا چاہیے،آج دنیا کے اَکْثَر خِطّوں میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو اس قَدْر آسانیاں مُیَسَّر ہیں کہ دِیْنِ اِسْلَام ان میں سے کسی سے گھر بار چھوڑنے کا تقاضا کرتا ہے نہ کسی سے خون کا نذرانہ مانگتا ہے، آج کسی کو دین کیلئے بہن بھائیوں اور دیگر اَعِزّا و اَقْرِبا کی ہمیشہ کے لیے جُدائی بَرْدَاشْت کرنے کی حاجَت ہے نہ دِین کی خاطِر ہجرت کر کے دِیار غیر کی صُعُوبتیں(تکلیفیں) جھیلنے کی کوئی ضَرورت۔لیکن اگر کبھی کوئی ایسا وَقْت آ جائے تو مسلمان قوم کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکی دین کی خاطِر دی گئی قُربانیوں کو پیشِ نَظَر رکھتے ہوئے ڈَٹ کر ان کا مُقَابَلَہ
کرنا چاہئے اور اگر جان بھی قُربان کرنا پڑے تو کبھی ماتھے پر پسینہ نہ آنا چاہئے۔
البتہ! آج دین کی کیا حَالَت ہے، اس کی کسی نے کیا ہی خُوب مَنْظَر کشی ہے:
اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وَقْتِ دُعا ہے |
اُمّت پہ تِری آ کے عَجَب وَقْت پڑا ہے |
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وَطَن سے |
پردیس میں وہ آج غریب الغُربا ہے |
جس دین کے مَدْعُوْ تھے کبھی قیصر و کسریٰ |
خود آج وہ مہمان سرائے فُقرا ہے |
وہ دین ہوئی بَزمِ جَہاں جس سے فَروزاں |
اب اس کی مَجالِس میں نہ بتی نہ دِیا ہے |
جو کچھ ہےوہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتُوت |
شِکوہ ہے زمانے کا نہ قِسْمَت کا گلہ ہے |
دیکھیں ہیں یہ دِن اپنی ہی غَفْلَت کی بدولت |
سچ ہے کہ بُرے کام کا اَنْجَام بُرا ہے |
فریاد اے کشتیِ اُمّت کے نگہباں |
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے |
کر حَق سے دُعا اُمّتِ مَرْحُوم کے حَق میں |
خطروں میں بَہُت اس کا جہاز آ کے گھِرا ہے |
اُمَّت میں تِری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن |
دِلْدَادہ تِرا ایک سے ایک ان میں سِوا ہے |
اِیماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے |
وہ تیری مَحبَّت تری عِتْرت کی وِلا ہے |
جو خاک تِرے در پہ ہے جارُوب سے اُڑتی |
وہ خاک ہمارے لئے دَارُوئے شِفا ہے |
جو شہر ہوا تیری وِلادَت سے مُشَرَّف |
اب تک وُہی قبلہ تِری اُمّت کا رہا ہے |
جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سَعَادَت |
مکے سے کشش اس کی ہر اِک دل میں سِوا ہے |
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو تِرے کیا |
اب تک تو تِرے نام پہ اِک ایک فِدا ہے |
ہم نیک ہیں یا بد ہیں بالآخِر ہیں تمہارے |
نِسْبَت بَہُت اَچّھی ہے مگر حال بُرا ہے |
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی |
ہاں ایک دُعا تیری کہ مَقبولِ خُدا ہے |
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!آج دین ہم سے فقط یہ تقاضا کررہا ہے:
٭…اے کاش! ہم اس کی خاطِر وَقْت کی قُربانی دینے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! ہم صِراطِ مستقیم پر چلنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! اپنے گھر والوں کو صِراطِ مستقیم پر چلانے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش!دُنْیَوی فُضُول رسم و رِواج کو قُربان کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! گناہوں سے قَطْع تَعَلّق کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! غُرُور و تکبّر اور اَنا کا گلا گھونٹنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! تَبْلِیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سِیاسی تحریک دَعْوَتِ اِسْلَامی کے مَدَنی مَاحَول سے وَابَسْتہ ہو کر اپنی آخِرَت کو سنوارنے کی فِکْر کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! جھوٹ اور غیبت جیسی دیگر جہنّم میں لے جانے والی باتوں کے خِلاف جنگ کو جاری رکھنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! حَسَد وغیرہ جیسے مُہْلِک گناہوں سے بچنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! نَفْس و شیطان کی مَکّاری سے بچنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! عِشْقِ خُدا و مصطفےٰ رکھنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! سنّتوں کی شیدائی بن جائیں۔
٭…اے کاش! سنّتوں کا پرچار کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! پردہ کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! فیشن کی نُحُوسَت سے بچنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! صَوم و صلوٰۃ کی پابندی کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! ماں باپ کی تابِعداری کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! شَرْم کا دامَن تار تار کرنے کے بجائے حَیا والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! گانے باجوں کا شوق رکھنے کے بجائے نَعْتِ رَسول پڑھنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش!فُضُول خرچی کرنے والیاں بننے کے بجائے قَناعَت کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! اپنی چادَر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کے بجائے اپنی چادَر دیکھ کر پاؤں پھیلانے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! مال سے مَحبَّت کرنے والیاں بننے کے بجائے راہِ خُدا میں مال خَرْچ کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش!اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمان بننے کے بجائے اس کی فرمانبردار بندیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصْلَاح کی حقیقی کوشِش کرنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی سیرت پر چلنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! اِیمان کی سلامتی چاہنے والیاں بن جائیں۔
٭…اے کاش! اِیمان پر خاتِمہ کا شَرَف پانے والیاں بن جائیں۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو! صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّنے جو قُربانیاں دی ہیں، اگرچہ ہمارا آج کا عَمَل اس کے ہزارویں حصّے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا، لیکن اگر ان نُفُوسِ قُدْسِیَہ کے نقش قَدَم پر چلتے ہوئے ہم دِیْنِ اِسْلَام کی پاسداری کریں اور شَریعَت کے مُطابِق زِنْدَگی بَسَر کریں تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّان کا فیضان ضَرور حاصِل ہوگا اور قَوِی اُمِّید ہے کہ دنیا سے رُخْصَت ہوتے وَقْت ہمارا اِیمان پر خاتِمہ ہو گا۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!تَبْلِیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دَعْوَتِ اِسْلَامی کے مہکے مہکے مَدَنی ماحول سے وَابَسْتہ رہ کر فِکْرِ آخِرَت کی مَدَنی سوچ ملتی ہے اور ایسی بَہُت سی مَدَنی بہاریں بھی مَوجُود ہیں کہ کئی اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کی بَوَقْتِ وِصَال اِیمان پر رُخْصَتی ہوئی۔ کیونکہ وہ خوش نصیب ہے جو اِس دنیا سے کَلِمَہ پڑھتے ہوئے رُخْصَت ہو۔ جیسا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنّت نشان ہے:جس کا آخِری کلام لَا اِلٰهَ اِلَّا للهُ (یعنی کَلِمَہ طَیِّبہ )ہو وہ داخِل جنّت ہو گا۔[52] چُنَانْچِہ،
سانگھڑ(باب الاسلام سندھ )کے ایک اسلامی بھائی کا حَلْفِیَہ بیان ہے کہ میری بہن بِنْتِ عبد الغفّار عطارِیّہ کو کَینْسَر (Cancer)کے مُوذِی مَرَض نے آلیا۔ آہستہ آہستہ حَالَت بگڑتی گئی۔ڈاکٹروں کے مَشْوَرَہ پر آپریشن کروایا،طبیعت کچھ سنبھلی مگر کم و بیش ایک سال بعد
مَرَض نے دوبارہ زور پکڑا تو راجپوتانہ اَسپتال (Hospital) (زمزم نگر (حیدرآباد)بابُ الاسلام سندھ)میں داخِل کر دیا گیا۔ ایک ہفتہ اَسپتال میں رہیں مگر حَالَت مَزید اَبْتَر (خراب)ہوتی چلی گئی۔اچانک انہوں نے بلند آواز سے کَلِمَہ طَیِّبہ کا وِرْد شروع کر دیا، کبھی کبھی درمیان میں اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ الله وَ عَلٰی اٰلِكَ وَاَصْحٰبِكَ يَا حَبِیْبَ الله بھی پڑھتیں۔ بُلند آواز سے لَا اِلٰهَ اِلَّا للهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ کا وِرْد کرنے سے پورا کمرہ گونج اٹھتا تھا، عجیب ایمان افرو مَنْظَر تھا،جو آتا مِزاج پُرسی کرنے کے بجائے انکے ساتھ ذِکْرُ اللہ شروع کر دیتا۔ ڈاکٹرز (Doctors) اور اَسپتال (Hospital) کا عَملہ حیرت زدہ تھا کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی کوئی مَقْبول بندی مَعْلُوم ہوتی ہے ورنہ ہم نے تو آج تک مریض کی چیخیں ہی سنی ہیں اور یہ شِکوَہ کرنے کے بجائے مسلسل ذِکْرُ اللہ میں مَصْرُوف ہیں۔ تقریباً 12گھنٹے تک یہی کَیْفِیَّت رہی، اَذانِ مَغْرِب کے وَقْت اسی طرح بُلَند آواز سے کَلِمَہ طَیِّبہ کا وِرد کرتے کرتے ان کی رُوْح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی۔[53]
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحْمَت ہو اور ان کے صَدْقے ہماری مَغْفِرَت ہو۔
فَضْل و کَرَم جس پر بھی ہُوا اُس نے مرتے دَم کَلِمَہ
پڑھ لیا اور جنّت میں گیا لَا اِلٰــهَ اِلَّا الله[54]
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اٰمین بجاہِ النبی الامینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتاب |
مطبوعہ |
کتاب |
مطبوعہ |
قرآن مجید |
٭٭٭٭٭ |
سیرت ابن ھشام |
دار الفجرمصر ۱۴۲۵ھ |
کنز الایمان |
مکتبة المدینه، باب المدینه ۱۴۳۲ھ |
معرفة الصحابة |
دارالوطن عرب شریف ۱۴۱۹ھ |
صحیح البخاری |
دار المعرفة بیروت ۱۴۲۸ھ |
الاستيعاب |
دار الفکر بیروت ۱۴۲۷ھ |
سنن ابن ماجة |
دار الکتب العلمية بيروت2009 ء |
الروض الأنف |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
سنن ابی داود |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۸ھ |
صفة الصفوة |
دار الکتب العلمية ۱۴۲۷ھ |
مسند احمد |
دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۹ھ |
اسد الغابة |
دار الکتب العلمیة بیروت۱۴۲۹ھ |
المعجم الکبیر |
دار الکتب العلمیة بیروت2007ء |
الاصابة |
المکتبة التوفیقیه مصر |
کتاب المغازی |
عالم الکتب بیروت ۱۴۰۴ھ |
تاریخ الخلفاء |
دار الکتب العلمیة بیروت 2008ء |
فتوح الشام |
دار الکتب العلمیة بيروت ۱۴۱۷ھ |
سبل الهدى والرشاد |
دار الکتب العلمیة بیروت۱۴۱۴ ھ |
شرح الزرقانی |
دار الکتب العلمیة بیروت۱۴۱۷ھ |
حدائق بخشش |
مکتبة المدینه، باب المدینه ۱۴۳۳ھ |
سیرت مصطفٰی |
مکتبة المدینه، باب المدینه ۱۴۲۹ھ |
ذوق نعت |
شبیر برادرز لاھور ۱۴۲۸ ھ |
شام کربلا |
ضياء القران پبلیکیشنز لاھور |
نور ایمان |
دار الاسلام لاهور ۱۴۳۳ھ |
صحابہ کرام کا عشق رسول |
مکتبة المدینه، باب المدینه ۱۴۲۹ھ |
شاھنامہ اسلام مکمل |
الحمد پبلی کیشنز 2006ء |
زلف و زنجیر |
زاھد بشیر پرنٹرز لاھور |
فیضان سنت |
مکتبة المدینه، باب المدینه ۱۴۲۸ھ |
جنتی زیور |
مکتبة المدینه، باب المدینه ۱۴۲۷ھ |
|
|
[1] ……… ابن ماجه،کتاب اقامة الصلاة...الخ، باب فی فضل الجمعة،ص۱۷۷، حدیث:۱۰۸۵
[2] ……… نورِ ایمان از عبد السمیع بیدؔل، ص ۳۹ ملتقطاً
[3]……… اصابه،۱۱۳۴۲- سميه بنت خباط،۸ / ۲۰۹
[6] ………ذوقِ نعت، ص۱۷۸
[7] ……… بخاری،کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد...الخ، ص۷۰۹، حدیث:۲۷۳۳
[16] ……… ابوداود، کتاب الزکوة، باب الکنز ماھو...الخ، ص ۲۵۴،حدیث:۱۵۶۳
[17] ……… صحابیات طیبات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی دین کیلئے مالی قربانیوں کا تفصیلی مطالعہ کرنے کیلئے المدینۃ العلمیہ کے شعبہ فیضان صحابیات کا پیش کردہ رسالہ ”صحابیات اور انفاق فی سبیل الله“ملاحظہ فرمائیے۔
[24] ……… معجم کبیر،باب الالف، اسماء بنت یزید…الخ، ۱۰/۲۳۱، رقم:۱۹۸۸۲
[25] ……… فتوح الشام،خوله بنت الازور، ۲/۴۴تا۵۰ ملتقطًا وملخصًا
[26] ……… اسد الغابه، ۶۸۸۳-خنساء بنت عمرو، ۷/ ۹۰-۹۱
1……… سیرتِ مصطفیٰ،ص۸۳۲بتصرف بحوالہ سیرت ابن ھشام، غزوہ احد، تحریض عمر لحسان... الخ،المجلد الثانی، ۳/۴۷
[29] ……… کتاب المغازی، غزوة احد،۱/۲۹۱مفھومًا
2……… سیرت ابن ھشام، ھجرة رسول الله، راحلة الرسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،المجلد الاول، ۲/۱۰۰
[35] ………شام کربلا،ص ۲۱۹ ملتقطاً
[36] ………شام کربلا،ص ۲۰۸
[37] ……… زلف و زنجیر، تاراج کارواں، ص ۵ تا ۲۲ ملخصاً و بتغیر
[38] ………شام کربلا،ص ۲۴۱
[40] ………سیرت ابن هشام،، ذكر المهاجرين الى المدينة، المجلد الاول، ۲/۸۵
[41] ……… سیرت ابن هشام، ذكر الهجرة الاولی الی ارض الحبشة،المجلد الاول، ۱/۲۰۶تا۲۱۱
[42] ……… شرح زرقانی،ذكربناء المسجد النبوی ...الخ، ۲/۱۸۶
[43] ……… اسد الغابه،۶۸۵۲-حفصة بنت عمر، ۷/۶۷
[44] ……… سیرت ابن هشام، ذكر المهاجرین الی المدینة،المجلد الاول،۲/ ۸۸
[45] ………شرح زرقانی،ذكربناء المسجد النبوی...الخ، ۲/۱۸۶
[46] ………شرح زرقانی،ذكربناء المسجد النبوی ...الخ، ۲/۱۸۶
[47] ………سیرت ابن هشام، ذكر الهجرة الاولی الی ارض الحبشة،المجلدالاول، ۱/۲۰۶تا۲۱۲
[48] ………اسد الغابه، ۷۲۲۸-قهطم بنت علقمه، ۷/۲۳۸
[49] ………اسد الغابه، ۷۶۳۵- ام يقظه بنت علقمه،۷/۳۹۹
[50] ………اسد الغابه، ۶۸۷۶-خزيمة بنت جهم، ۷/۸۷
[51] ………سیرت ابن هشام، ذكر المهاجرین الی المدینة،المجلد الاول،۲/۸۸
[52] ………ابو داود،کتاب الجنائز، باب فی التلقین، ص۵۰۳، حدیث:۳۱۱۶
[53] ………فیضان سنت، پیٹ کا قفل مدینہ، ص۶۵۳
[54] ………فیضان سنت، فيضان بسم الله، ص۳۹