اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
حضرتِ سیِّدنا ابوبکر شبلی بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی فرماتے ہیں: میں نے اپنے مرحوم پڑوسی کو خواب میں دیکھ کر پوچھا: مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ؟ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعَامَلہ فرمایا؟ وہ بولا: میں سخت ہولناکیوں سے دوچار ہوا، منکرنکیر کے سوالات کے جوابات بھی مجھ سے نہیں بن پڑ رہے تھے، میں نے دل میں خیال کیا کہ مجھ پر یہ مصیبت کیوں آئی ہے...؟ کیا میرا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا...؟ اتنے میں آواز آئی: دنیا میں زبان کے غیر ضروری اِسْتِعمال کی وجہ سے تجھے یہ سزا دی جا رہی ہے۔ اب عذاب کے فِرِشتے میری طرف بڑھے۔ اتنے میں ایک صاحِب جو حسن وجمال کے پیکر اور معطر معطر تھے وہ میرے اور عذاب کے درمیان حائل ہو گئے اور انہوں نے مجھے منکرنکیر کے سوالات کے جوابات یاد دِلا دئیے اور میں نے اُسی طرح جوابات دے دیئے۔ میں نے ان بزرگ سے عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ پر رَحْم فرمائے، آپ کون ہیں؟ فرمایا: تیرے کثرت کے ساتھ دُرُوْد شریف پڑھنے کی برکت سے میں پیدا ہوا ہوں اور مجھے ہر مصیبت کے وَقْت تیری اِمداد پر مَامُوْر کیا گیا ہے۔([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
خوشی اور غم دُنیوی زندگی کے دو۲ اہم اور لازِمی جُز ہیں لیکن ان میں سے کسی کو دَوام (ہمیشگی) نہیں، ایک پَل مصیبت ہے تو دوسرے پَل راحت، کرتے کرتے یوں ہی عمر بسر ہو جاتی ہے۔ البتہ خوشی کے لمحات چاہے جس قدر بھی طویل ہوں غیر محسوس طور پر ایسے گزر جاتے ہیں گویا ایک آن کے لیے تھے۔ اس کے برعکس رنج ومصیبت کا چند پل کا وقفہ بھی صدیوں کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ایک عام انسان جس کی نظر فقط دنیا اور اس کی آسائشوں پر ہوتی ہے، تنگی وپریشانی اور آزمائش کی معمولی سی گھڑی بھی اس کے لیے سوہانِ روح (اذیت ناک) بن جاتی ہے اور وہ بےصبری کا مُظَاہَرہ کر بیٹھتا ہے مگر مؤمِنِ کامِل جو دنیا کی فانی آسائشوں کے دھوکے میں کھو کر آخرت کی یاد سے غافِل نہیں ہوتا، جس کا مقصد دُنیا اور اس کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونا نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا وخوشنودی کا حُصُول ہوتا ہے، اس کی نظر میں ان مَصَائِب ومشکلات کی کچھ حیثیت نہیں ہوتی، وہ ہر مصیبت اور پریشانی کا خنداں پیشانی کے ساتھ اِسْتِقبال کرتا ہے اور صبر واستقامت کے سہارے ہر آزمائش میں پورا اُترتا ہے۔ یاد رکھئے! ہمارا پیارا دینِ اسلام ہمیں اسی بات کی تعلیم دیتا ہے اور یہی ہمارے اسلاف کا طرزِ عمل رہا ہے۔
اُس وَقْت کی بات ہے جب سرزمینِ مدینہ آفتابِ رسالت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نُورانی تجلیوں سے مُنَوَّر ہونا شروع ہوئی، نور والے آقا، دو عالَم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے جسمِ نورانی کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہوئے اور اس کے در ودیوار آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور کی شعاعوں سے جگمگانے لگے۔ یہ نورانی تجلیاں صِرْف ظاہِر
پر ہی نہ پڑیں بلکہ باطِن تک بھی ان کا اثر پہنچا اور دلوں سے جاہلیت کی غیرت وحمیت اور قبائلی وعلاقائی عصبیت ختم ہو کر اس کی جگہ اسلامی محبت واُخُوَّت کا رشتہ قائم ہوا۔
اس پاک سر زمین میں آباد قبیلہ بنی نجار کا ایک سعادت مند گھرانا، صبر ورِضا کی پیکر باکردار، بلند حوصلہ اور نیک سیرت بی بی، ان کے جواں ہمت شوہر اور کم سن شہزادے بھی آفتابِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نورانی تجلیوں سے مُنَوَّر ہو چکے تھے۔ ”پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بعض اوقات ان کے ہاں قدم رنجہ فرمايا کرتے تھے (جسے یہ اپنی خوش نصیبی جانتے ہوئے حسبِ اِسْتِطَاعَت خوب بڑھ چڑھ کر خدمت کرتے اور) خاص آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لیے کوئی چیز تیار کر کے بارگاہِ اقدس میں نذر پیش کرتے۔“([2]) ایک روز جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے تو ان کے چند سال کے چھوٹے مدنی منّے کو جسے ابوعمیر کہہ کر پکارا جاتا تھا، دل شکستہ اور افسردہ حالت میں دیکھا۔ دَرْیَافت کرنے پر عرض کی گئی: یارسول اللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)! اس کی چڑیا مر گئی ہے جس کے ساتھ یہ کھیلا کرتا تھا۔ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے ساتھ خوش طبعی فرمایا کرتے تھے چنانچہ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ان کی اس حالت کے بارے میں بتایا گیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی دل جُوئی کرتے ہوئے فرمایا: يَا اَبَا عُمَيْرٍ، مَاتَ النُّغَيْرُ، اَتَى عَلَيْهِ الدَّهْرُ یعنی اے ابو عمیر! چڑیا مر گئی، اس کا وَقْت آ گیا تھا۔([3]) دوسری رِوَایَت میں
ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا: یَا اَبَا عُمَیْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ ابوعمیر! چڑیا کا کیا ہوا؟([4])
زندگی کے دن اس طرح راضی خوشی بسر ہو رہے تھے۔ ننھے ابوعمیر کی وجہ سے ان کا آنگن (صحن) خوشیوں سے بھرا ہوا تھا۔ بچے ہوتے ہی گھر کی رونق ہیں، انسان دن بھر کے کام کاج سے تھکا ماندہ جب شام کو واپس گھر آتا ہے تو بچوں کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹ دیکھ کر اور چند پل ان کے ساتھ گُزَار کر ہی اس کی ساری تھکن دُور ہو جاتی ہے اور ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے، یہ خوشی مال ودولت سے نہیں خریدی جا سکتی جو بچوں کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر حاصِل ہوتی ہے۔ اس گھر کی رونق بھی یہ مدنی منّے ابوعمیر تھے جن سے یہ گھر فرحت وانبساط کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ باپ کو اپنے اس مدنی منّے سے بہت پیار تھا۔ منظورِ الٰہی ہوا کہ اس مدنی منّے کے ذریعے ان کا امتحان لیا جائے چنانچہ ”ایک روز یہ مدنی منّے بہت سخت بیمار پڑ گئے۔ والِدَین کو اس سے بہت فکر لاحِق ہوئی، خاص طور پر والِد صاحب کو دِلی طور پر اس کا اس قدر صدمہ پہنچا کہ اس صدمے کی وجہ سے وہ خود کمزور ہو گئے۔“([5]) یہ ان کا فطری ردِّ عمل تھا کیونکہ فطری طور پر اولاد کو پہنچے والی تکلیف والِدَین کے دل گھائل کر دیتی ہے جس کا اثر دیگر اَعْضا پر پڑتا ہے تو وہ سست اور کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس فطری ردِّ عمل کے عِلاوہ یہ حضرات رِضائے الٰہی میں راضی تھے لہٰذا کبھی زبان پر حرفِ شکایت لائے اور نہ کبھی دل میں اسے جگہ دی،
فرائضِ الٰہیہ کی بجا آوری میں بھی ہمیشہ مستعد وتیار رہے۔
ان دنوں میں بھی مدنی منّے کے والِدِ محترم کا یہ مَعْمُول رہا کہ صبح جب نمازِ فجر کے لیے بیدار ہوتے وُضُو کر کے سرکارِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ بےکس پناہ میں حاضِر ہو جاتے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیچھے نماز ادا کرتے اور قریباً نِصْفُ النَّہار تک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت میں رہتے ہوئے دیدار کے شربت سےآنکھیں سیراب کرتے پھر گھر واپس آ کر کھانا تَنَاوُل کرتے اور قیلولہ فرماتے، جب ظہر کی جماعَت کا وَقْت ہوتا تو تیاری کر کے پھر بارگاہِ اقدس میں حاضِر ہو جاتے اور پھر نمازِ عشا کے بعد ہی گھر واپس آتے۔ ایک دن یہ حسبِ معمول بارگاہِ اقدس میں حاضِری کے لیے گئے ہوئے تھے کہ ان کے مدنی منّے کا انتقال ہو گیا۔([6]) مدنی منّے کی والِدَہ جو صبر ورضا کی پیکر نیک سیرت بی بی تھیں انہوں نے اس موقعے پر بہت ہمت وحوصلے سے کام لیا اور آہ وفُغاں کرنے اور زبان پر بےصبری کا کوئی کلام لانے کے بجائے ”انہیں غسل و کفن دے کر کپڑا اوڑھایا اور گھر کے ایک کونے میں لِٹا دیا۔“([7]) انہوں نے سوچا کہ دن بھر کے تھکے ماندے اس کے والِد گھر آئیں گے اور انتقال کی خبر سنیں گے تو نہ کھانا کھائیں گے اور نہ آرام کر سکیں گے([8]) اس لیے انہوں نے گھر والوں کو روک دیا کہ کوئی ان کے والِد کو ان کی وفات کے بارے میں نہ بتائے میں خود ہی انہیں اس بارے میں بتاؤں گی۔([9])
مروی ہے کہ اس دن مدنی منّے کے والِدِ محترم نے روزہ رکھا ہوا تھا، شام کے وَقْت تھکے ماندے گھر واپس آئے([10]) اور بیٹے کا حال دَرْیافت کیا۔ نیک سیرت بی بی صاحبہ نے جواب دیا: جب سے بیمار ہوا ہے آج سے پہلے اتنے سُکُون میں نہیں آیا۔ اس پر انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا۔([11]) پھر کھانا پیش کیا گیا اور یہ کھانا کھا کر تازہ دم ہو گئے۔ اس کے بعد بستر پر تشریف لے گئے اور حقِ زوجیت ادا فرمایا۔([12]) جب تمام کاموں سے فارِغ ہو کر خوب مطمئن ہو گئے تو بی بی صاحبہ مُخَاطب ہو کر کہنے لگیں: یہ ارشاد فرمائیے کہ اگر آپ کا ہمسایہ عاریۃً آپ کو کوئی چیز دے، آپ اسے اپنے اِسْتِعْمال میں رکھیں، پھر وہ اپنی چیز واپس لینے کا ارادہ کرے تو کیا آپ اسے لوٹا دیں گے؟ فرمایا: ہاں، خدا کی قسم میں اسے ضرور لوٹا دوں گا۔ کہا: خوش دلی سے لوٹائیں گے؟ فرمایا: ہاں خوش دلی سے۔کہا: تو بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا اور جب تک چاہا اسے آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھا، اب اس کی روح قبض کر لی گئی ہے لہٰذا آپ اس پر ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کیجئے۔یہ سن کر مدنی منّے کے والد نے کلماتِ اِسترجاع یعنی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور (واویلا مچانے کے بجائے) صبر اختیار کیا۔([13]) دیگر رِوَایات کے مُطَابِق جب انہیں بیٹے کے انتقال کا عِلْم ہوا تو اس بات کا انہیں بہت افسوس ہوا کہ میرے بیٹے کی مَیِّت گھر میں پڑی تھی اور میں نے کھانا کھا لیا اور عملِ اِزْدِوَاج بھی کر لیا پھر یہ سرکار رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضِر ہوئے اور
سارا ماجرا عَرْض کیا۔ اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں دُعا سے نوازتے ہوئے فرمایا: ”بَارَكَ اللهُ لَكُمَا فِی غَابِرِ لَيْلَتِكُمَا یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری اس گزاری ہوئی رات میں برکت عطا فرمائے۔“([14]) اس دُعَائے نبوی کا یہ اثر ظاہِر ہوا کہ اُسی رات ان کی بی بی صاحبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اُمید سے ہو گئیں۔([15]) اور کچھ عرصے بعد ایک چاند سے چہرے والے مدنی منّے کی وِلادت ہوئی جس سے ان کے آنگن میں وہ خوشیاں پِھر سے لوٹ آئیں جو کبھی ننھے ابوعمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وجہ سے ہوا کرتی تھیں۔
یہ غزوۂ حنین کے بعد کا واقعہ ہے۔([16]) جبکہ یہ دونوں صابِر وشاکِر حضرات سرکارِ نامدار، مکّے مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہم راہی میں کسی سفر سے واپس مدینہ طَیِّبہ کی طرف آ رہے تھے۔ ابھی مدینہ شریف کی حُدود شروع ہونے میں کچھ فاصِلہ باقی تھا کہ آثارِ وِلادت ظاہِر ہوئے جس کی وجہ سے انہیں یہیں راستے میں ہی ٹھہرنا پڑا۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عادَتِ کریمہ یہ تھی کہ جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو رات کے وَقْت مدینہ شریف میں داخِل نہیں ہوتے تھے (اور ابھی رات ہونے کے قریب تھی) اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آگے بڑھتے رہے۔([17])
یہ حضرات سفر وحَضَر میں رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رہا کرتے تھے، اب جبکہ مجبوراً قافلے سے علیحدہ ہو کر انہیں یہاں پڑاؤ کرنا پڑا تو فِراقِ رسول کے غم میں ان کے دلوں کی حالت زیر وزبر ہونے لگی، ان کا جذبۂ عقیدت اور عشقِ رسول اس بات کی تاب نہ رکھتا تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ مدینہ شریف میں داخل ہونے کے شرف سے محروم ہو جائیں، بِالآخِر فرطِ اَلَم سے دِلوں کو ایسی ٹھیس پہنچی کہ جذبات قابو سے باہر ہو گئے اور کسی ٹوٹے ہوئے گھائل شخص کی طرح بارگاہِ الٰہی میں عرض گزار ہوئے: اِنَّكَ لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ اِنَّهُ يُعْجِبُنِي اَنْ اَخْرُجَ مَعَ رَسُولِكَ اِذَا خَرَجَ وَاَدْخُلَ مَعَهُ اِذَا دَخَلَ وَقَدِ احْتَـبَسْتُ بِمَا تَرَى اے مالِک، اے پاک پروردگار! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں تیرے رسول کے ساتھ (مَدِیْنَہ مُنَوَّرَہ سے) نکلوں اور ان کے ساتھ ہی داخِل ہوں اور تجھے معلوم ہے کہ میں کس مجبوری میں پھنس گیا ہوں۔
یہ عرض کرنا تھا کہ وہ کیفیت جاتی رہی جس کی وجہ سے انہیں رُکنا پڑا تھا چنانچہ یہ آگے بڑھ كر قافلے کے ساتھ مل گئے اور سرکارِ ذی وقار، محبوبِ ربِّ غفار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہم راہی میں مدینہ طَیِّبہ کی پُربہار فِضَاؤں میں داخِل ہوئے۔([18]) گھر پہنچ کر رات کے آخری پہر (جبکہ صبح ہونے کے قریب تھی اس وَقْت) ان کے ہاں مدنی منّے کی وِلادت ہوئی۔([19]) وِلادت کے بعد نیک سیرت بی بی صاحبہ نے اپنے بڑے بیٹے حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مُخَاطب کر کے فرمایا کہ اس کا خیال رکھنا، اسے کوئی چیز کِھلائی پلائی نہ جائے، جب صبح ہو تو اسے لے
کر نَبِیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضِر ہو جانا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کی تحنیک([20]) فرمائیں۔ فرمانبردار بیٹے نے حکم کی تعمیل کی اور صبح کے وَقْت اسے لے کر بارگاہِ رِسالت مآب عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حاضِر ہو گئے۔ اس وَقْت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک باغ میں تشریف فرما تھے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حُرَیثیَّہ کمبل اوڑھ رکھا تھا اور اس سواری پر نشان لگا رہے تھے جس پر سوار ہو کر فتح مکہ کے دن تشریف لے گئے تھے۔([21]) مُسْلِم شریف کی رِوَایَت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں دیکھ کر بچے کے بارے میں دریافت فرمایا اور وہ اَوْزار ایک طرف رکھ دیا جس کے ساتھ جانور پر نشان لگا رہے تھے پھر بچے کو گود میں لیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینہ شریف کی عجوہ کھجور طَلَب فرمائی اور اسے منہ میں ڈال کر چبایا حتی کہ (جب وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لُعَاب مُبَارَک کے ساتھ مِل کر پتلی اور) بہنے کے قابِل ہو گئی تو اسے بچے کے منہ میں ڈال دیا۔ بچہ اسے چوسنے لگا، یہ دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: انصار کی کھجور سے محبت دیکھو! نیز آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس بچے کے چہرے پر اپنا دستِ انور پھیرا اور اس کا نام ”عَـبْدُ الله“ رکھا۔([22]) یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز داخِل ہوئی وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مُبَارَک لُعَاب ہے۔ اس لُعَاب مُبَارَک اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ان کے چہرے پر دستِ انور پھیرنے نیز ان کے لیے دُعا فرمانے کی برکت سے انہوں نے بہت اچھی تربیت پائی اور کثیر فضائل وکمالات
کے حامِل ہوئے اور ”ان کی اولاد میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بڑے بڑے عُلَما اور صلحا (نیک لوگ) پیدا فرمائے۔“([23])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! دُنیا دَارُ الْاِمْتِحان (یعنی آزمائش کی جگہ) ہے جہاں انسان کو بسا اَوْقات قدم قدم پر اِمْتِحانات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے لیکن ایک ایمان دار شخص جس کے دل میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت راسخ ہوتی ہے اور دُنیوی زیبائش وآرائش اس کی نظر میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ایسے مَوَاقِعْ پر وہ ہمت نہیں ہارتا بلکہ صبر کے سہارے ہر امتحان اور آزمائش میں پورا اُترتا ہے جیسا کہ اس واقعے میں نیک سیرت بی بی صاحبہ اور ان کے شوہرِ نامدار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے طرزِ عمل سے ظاہِر ہوا، جب ان کے لختِ جگر چند روز بیمار رہنے کے بعد انتقال فرما گئے، اس پر انہوں نے کوئی بےصبری کا کام نہیں کیا بلکہ کلماتِ ترجیع یعنی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور صابِر وشاکِر ہو رہے۔
؎ زباں پر شکوۂ رنج و اَلَم لایا نہیں کرتے
نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے
کیا آپ کو مَعْلُوم ہے کہ یہ نیک سیرت بی بی صاحبہ کون تھیں جنہوں نے اپنے لختِ جگر کی وفات پر نہ صرف خود بےمثال ہمت وحوصلے سے کام لیا بلکہ اپنے شوہر کو بھی رنج وغم سے بچانے کی خاطِر نہایت اچھی تدبیر اختیار کی اور ایک خوب صورت مثال کے ذریعے انہیں بیٹے کی وفات کی خبر دی تاکہ یہ ذہنی طور پر پہلے سے ہی اس کے لیے تیار ہو جائیں اور صدمہ
برداشت کرنا آسان ہو، یہ نیک سیرت بی بی صاحبہ حضرت سیِّدَتنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہیں اور ان کے یہ شوہر نامدار حضرت سیِّدنا ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان بی بی صاحبہ کو بہت سارے اَوْصَاف وکمالات سے نوازا تھا جن میں سے آپ کی حکمت ودانائی، صبر واِستقلال، ایثار وسخاوت، اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر (یعنی نیکی کا حکم کرنا اور بُرائی سے منع کرنا) اور خاص طور پر آپ کا عشقِ رسول، رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ اور دشمنانِ خدا ومصطفےٰ عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نفرت وبیزاری بہت نمایاں ہیں۔ یہاں جو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی سیرت طیبہ کا واقعہ نقل کیا گیا اس سے ہمیں بہت سے مدنی پھول چننے کو ملتے ہیں مثلاً یہ کہ
· بُزُرگوں کی خدمت کرنا اور ان کی بارگاہ میں نذر پیش کرنا سعادت کی بات ہے اور یہ صحابۂ کِرَام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے عمل مُبَارَک سے ثابِت ہے جیساکہ پیچھے اس بات کا ذِکْر گزرا کہ سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بعض اوقات حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گھر تشریف لے جاتے اور کچھ دیر آرام فرماتے تو یہ حضرات اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہوئے خاص آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لیے کوئی چیز تیار کر کے بارگاہِ اقدس میں نذر پیش کرتے۔
· بچوں کے ساتھ شفقت، پیار اور محبت کے ساتھ پیش آنا اور ان کی دل جُوئی کرنا ہمارے پیارے آقا، دو عالَم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَخْلَاقِ حسنہ کا حصّہ ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مَدَنی منّے حضرت سیِّدنا ابوعمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ازراہِ شفقت خوش طبعی فرماتے تھے نیز جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں شکستہ دل اور افسردہ حالت میں دیکھا تو ان کی دل جُوئی بھی فرمائی۔
· انسان کو کسی بھی حالت میں شریعت کے احکام بجا لانے سے رخ نہیں موڑنا چاہئے۔ یہ مَدَنی پھول مَدَنی منّے کے والِدِ محترم حضرت سیِّدنا ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عمل مُبَارَک سے حاصِل ہوا، جب ان کے لختِ جگر حضرت سیِّدنا ابوعمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار ہو گئے تو باوُجود یہ کہ انہیں اپنے اس بیٹے سے شدید محبت تھی اور ان کی اس بیماری کی وجہ سے یہ اندر ہی اندر گھل کر خود کمزور اور ناتواں ہو گئے تھے لیکن حکمِ شریعت سے اِنحراف (یعنی شریعت کی نافرمانی کرنا) ہرگز گوارا نہ کیا، پانچوں نمازوں کے وَقْت مَسْجِدُ النَّبَوِیِّ الشَّرِیْف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حاضِر ہوتے اور سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِقتدا میں باجماعت نماز پڑھنے کی سعادت حاصِل کرتے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سبق مَوْجُود ہے جو مَعْمُولی مَعْمُولی بیماری یا وَقْت کی کمی وغیرہ کی وجہ سے مسجدوں میں حاضِری اور جماعَت کے ساتھ نماز پڑھنے سے محروم رہتے ہیں، دیکھئے! ہمارے اَسْلَاف کس قدر کٹھن اَوْقَات میں بھی نمازِ باجماعت کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
· جب بھی کوئی مصیبت آئے اور پریشانی کا سامنا ہو، صبر کرتے ہوئے اَجْر کمانا چاہئے، شکوہ وشکایت اور واویلا کر کے صبر کا اجر ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔
؎ ٹوٹے گو سر پہ کوہِ بَلا صبر کر
اے مسلماں! نہ تُو ڈگمگا صبر کر
لب پہ حرفِ شکایت نہ لا صبر کر
کہ یہی سنّتِ شاہِ اَبرار ہے
دیکھئے! حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے لختِ جگر کی وفات پر کیسی ہمت سے کام لیا اور کیسے عظیم ضبط کا مُظَاہَرہ کیا...اور...ان کے شوہر نامدار حضرت سیِّدنا ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی کیسے حوصلے کا مُظَاہَرہ کیا کہ جب انہیں بیٹے کی وفات کے بارے میں مَعْلُوم ہوا تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور صبر کیا۔ ہاں! یہ ضرور ہوا کہ دل میں اس بات کی خلش پیدا ہوئی کہ میرے بیٹے کی مَیِّت گھر میں پڑی رہی اور میں نے کھانا کھا لیا اور آرام کیا۔ اس خلش کو دُور کرنے کے لیے انہوں نے سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضِر ہو کرسارا ماجرا بیان کر دیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں دُعَاؤں سے نوازا۔
· جو بندہ مَصَائب وآلام میں صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھتا ہے بسا اوقات دنیا میں بھی اسے صبر کا ایسا زبردست اجر عطا ہوتا ہے کہ زمانہ اس کی قسمت پر ناز کرنے لگ جاتا ہے جیسا کہ یہاں ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دُعا قبول فرماتے ہوئے انہیں ایک نیک وصالح فرزند سے نوازا اور پھر ان کے اس فرزند کی اولاد میں بھی بڑے بڑے عُلَما اور صلحا پیدا فرمائے جو اپنے نیک اعمال کے باعث ان کے لیے ثوابِ جاریہ کا ذریعہ بنے۔
· نومولود کی تحنیک (گھٹی دینا) سنّت ہے۔([24]) حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ہاں جب بیٹے کی وِلادت ہوئی تو انہوں نے اسے کچھ کِھلانے پِلانے سے روک دیا تاکہ سب سے پہلے اسے سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ میں پیش کر کے
تحنیک کروائی جائے اور اسے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لُعَاب مُبَارَک سے برکتیں حاصِل ہوں۔ آئیے! اسی ضمن میں تحنیک کا طریقہ بھی مُلَاحظہ کیجئے چنانچہ
تحنیک کا طریقہ: یہ ہے کہ تحنیک کرنے والا کھجور لے کر چبائے حتی کہ جب اس قدر پتلی اور بہنے والی ہو جائے جسے بچہ نگل سکے تو اسے بچے کے منہ میں ڈال دے۔([25]) پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے مَدَنی منّے حضرت عَبْدُ اللہ بن ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی تحنیک اسی طرح فرمائی۔
بچے کی تحنیک کے حوالے سے دو۲ مستحب عمل: (۱)...مستحب یہ ہے کہ تحنیک کھجور کے ساتھ ہو لیکن اگر اس میں کوئی دشواری ہو تو کسی بھی میٹھی چیز (مثلاً شہد) کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ (۲)...یہ بھی مستحب ہے کہ تحنیک کرنے والا نیک پرہیزگار شخص ہو جس سے لوگ فیض حاصِل کرتے ہیں خواہ وہ نیک شخص مرد ہو یا عورت اور اگر وہ بچے کی وِلادت کے وَقْت پاس مَوْجُود نہ ہو تو بچے کو اس کے پاس لے جایا جائے۔([26]) تاکہ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے کسی اللہ والے کا لُعَاب جائے جس سے اسے برکتیں حاصِل ہوں۔([27]) تفسیر رُوْحُ الْبَیَان میں ہے کہ بچے میں پہلی گھٹی دینے والے کا اثر آتا ہے اور اس کی سی عادات پیدا ہوتی ہیں۔([28])
· بچے کا نام رکھنے کا اختیار بزرگوں کو دے دینا تا کہ وہ اپنی پسند کے مُطَابِق نام کا اِنتخاب فرمائیں، مستحب ہے۔([29])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے والِد کا نام مِلْحَان اور والدہ کا نام مُلَیْکَہ ہے۔ والِد کی طرف سے نسب اس طرح ہے: اُمِّ سُلَیْم بِنْتِ مِلْحَان بن خَالِد بن زَيْد بن حَرَام بن جُنْدُب بن عَامِر بن غنم بن عَدِیّ بن نَجَّار([30]) (تَیْمُ الله) بن ثَعْلَبَه بن عمرو بن خَزْرَج ([31]) اور والِدہ کی طرف سے یہ ہے: اُمِّ سُلَیْم بِنْتِ مُلَيْكَة بِنْتِ مالِك بن عَدِیّ بن زَيْد مناة بن عَدِیّ بن عمرو بن مالِك بن نَجَّار۔([32])
آپ کے نام کے بارے میں بہت اَقوال ہیں مثلاً سَھْلَہ یا رُمَیْلَہ یا رُمَیْصَاء یا غُمَیْصَاء وغیرہ۔([33])
آپ کی مشہور کنیت اُمِّ سُلَیْم ہے اس کے عِلاوہ ایک کنیت اُمِّ اَنَس بھی آئی ہے۔([34])
مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَہَا اللہُ شَرۡفًا وَّ تَعۡظِیۡمًا کی سرزمین پر دو بڑے قبیلے ایک اَوْس اور دوسرا خَزْرَج آباد تھے۔ ”انہیں اور ان کے حلیف قبیلوں کو رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انصار کا لقب عطا فرمایا تھا۔“([35]) ان دونوں میں سے ہر ایک کی آگےبہت شاخیں ہیں۔ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا تعلق قبیلہ خَزْرَج کی ایک شاخ بنو نجَّار سے ہے، اس لحاظ سے ”آپ خزرجیہ نجَّاریہ ہیں۔“([36])
بنو نجَّار بڑا قدر ومنزلت کا حامِل قبیلہ ہے کیونکہ اس کی فضیلت میں خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے فرامین وارِد ہیں جیساکہ بخاری شریف میں حضرت سیِّدنا ابوحُمَیْد ساعِدی رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا: بےشک انصار کے گھرانوں میں بہترین گھرانہ بنو نجار کا ہے،اس کے بعد عَبْدُالْاَشہل کا پھر بنو حارث کا اور پھر بنو ساعِدہ کا الغرض انصار کے سب گھرانے ہی بہترین ہیں۔([37])نیز یہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے دادا جان کا ننہال بھی ہے یعنی حضرت سیِّدنا عَبْدُ الْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والِدہ اسی قبیلے سے تھیں اور جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم (ہجرت فرما کر) مدینہ طَیِّبہ تشریف لائے تو اسی قبیلے (کے ایک صحابی حضرت ابواَیُّوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
شرفِ میزبانی سے نوازا تھا۔([38]) اس کے عِلاوہ کئی مشہور اور جلیل القدر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا تَعَلُّق بھی اسی قبیلے سے تھا۔ یہاں ان میں سے چند کا ذِکْر کیا جاتا ہے:
· حضرت سیِّدنا حسّان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ ([39]): جلیل القدر صحابی اور دربارِ رِسالت کے مشہور شاعِر ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے اَشْعَار میں گستاخانِ رسول کی گستاخیوں کا ردّ فرماتے اور سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مدح میں اشعار نظم کرتے تھے۔
· حضرت اُبَیّ بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ([40]): کاتِبِ وحی اور بہت بڑے قاری ہیں۔ اُن چھ۶ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں سے ہیں جنہوں نے زمانۂ نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں قرآن مجید حِفظ کیا اور ان فقہا صحابہ میں سے ہیں جو زمانۂ نبوی میں فتویٰ دیتے تھے۔ نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کو سیِّدُ الْاَنْصَار (انصار کے سردار) کے خطاب سے نوازا۔([41]) بدر اور دیگر غزوات میں شریک ہوئے، امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ آپ کو سَیِّدُ الْمُسْلِمِیْن (مسلمانوں کے سردار) کے لقب سے پکارتے تھے۔([42])
· حضرت ابو اَیُّوب خالِد بن زید انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ ([43]): یہی وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں سرکارِ رِسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینہ شریف آمد
کے بعد شرفِ میزبانی سے نوازا تھا۔([44])
· حضرت مُعَاذ اور حضرت مُعَوِّذ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُمَا([45]): یہ اسلام کے وہ شاہین صفت کم سن مُجَاہِدین ہیں جنہوں نے غزوۂ بدر میں شریک ہو کر لشکرِ کفار کے سپہ سالار ابوجہل کو موت کے گھاٹ اتارا تھا، چنانچہ بخاری شریف کی روایت میں ہے، سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا: ”کِلَاکُمَا قَتَلَہٗتم دونوں نے اسے قتل کیا۔“([46])
· حضرت سَہْل اور حضرت سُہَیل رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُمَا([47]): یہ دونوں مَدِیْنَہ مُنَوَّرَہ کے ننھے یتیم مدنی منّے ہیں۔ زمین کا وہ مُبَارَک ٹکڑا جسے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے مسجدِ نبوی شریف کی تعمیر کے لیے خرید فرمایا، ان ہی دونوں بھائیوں کی مِلک تھا۔([48])
مفسر شہیر، حکیم الاُمَّت حضرت علّامہ مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی نقل فرماتے ہیں: (حضرت اُمِّ سُلَیْم اور ان کی بہن) حضرت اُمِّ حرام (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کی مَحرمہ ہیں اس پر سب کا اتفاق ہے۔گفتگو اس میں ہے کہ مَحرمہ کیوں تھیں یا تو آپ کی رضاعی خالہ ہیں یا حضرت عَبْدُالله کی خالہ ہیں یا عَبْدُالْمُطَّلِب کی کیونکہ عَبْدُاللہ اور
عَبْدُ الْمُطَّلِب بنونجَّار کے رشتہ دار ہیں۔([49])
قبولِ اسلام سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا نِکاح قبیلہ بنو نجَّار ہی کے ایک شخص مالِک بن نَضَر سے ہوا تھا([50]) اور اس سے آپ کے دو بیٹوں بَراء اور اَنَس کا ذِکْر ملتا ہے۔([51]) ان دونوں نے بھی اسلام قبول کرنے کی سَعَادت حاصل کی اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحابیت کا شرف پایا۔
· حضرت بَراء بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: غزوۂ اُحُد، خندق اور بعد کے غزوات میں سرکارِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ شریک ہوئے، جنگ میں بہت بہادری سے لڑا کرتے تھے اور دشمن پر غالب آتے تھے۔([52]) پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ”بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس کتنے ضعیف لوگ ہیں جنہیں بہ ظاہِر کمزور و ناتُواں سمجھا جاتا ہے لیکن اگر وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر قسم کھا لیں تو ضرور اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان کی قسم کو پورا فرما دے گا، بَرا بن مالِک بھی انہی لوگوں میں سے ہے۔“([53])
؎ بکھرے بال، آزردہ صورت ہوتے ہیں کچھ اہلِ محبت
بدر! مگر یہ شان ہے ان کی بات نہ ٹالے رَبُّ العزت
· حضرت اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: مشہور صحابی اور حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے خادمِ خاص ہیں، کنیت ابو حمزہ ہے، خلافتِ فاروقی میں بصرہ منتقل ہو گئے تھے اور وہیں انتقال فرمایا، آپ بصرہ کے آخری صحابی ہیں، بوقتِ وفات عمر مُبَارَک ننانوے برس یا ایک سو تین برس تھی۔ آپ کی کثیر اولاد ہوئی، بہت مخلوق نے آپ سے روایات لیں۔([54]) کہا گیا ہے کہ آپ سے ایک ہزار دو سو چھیاسی (1286) احادیث مروی ہیں جن میں سے ایک سو اڑسٹھ (168) حدیثیں مُتَّفَق عَلَیْہ (یعنی بخاری و مُسْلِم دونوں میں ) ہیں اور 83 احادیث صرف بخاری میں اور 71 صرف مُسْلِم میں ہیں۔([55])
مروی ہے کہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے اسلام قبول کرنے کے وَقْت مالِک بن نَضَر ان کے پاس موجود نہیں تھا، جب وہ آیا (اور اسے ان کے اسلام قبول کرنے کی خبر ملی تو) کہنے لگا: کیا تم بے دین ہوگئی ہو؟ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: میں بے دین نہیں ہوئی بلکہ اس شخص (یعنی سیِّدِ انس و جاں، رحمتِ عالمیاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم) پر ایمان لے آئی ہوں۔([56]) اسلام قبول کرنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اپنی اولاد کو بھی اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے میں مصروف ہو گئیں چنانچہ رِوَایَت ہے کہ آپ حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو
(جو اس وَقْت بہت کم عمر تھے) کلمۂ شہادت کی تلقین کرتے ہوئے فرماتیں، کہو: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ، کہو: اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ تو حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسی طرح کہنے لگے۔ یہ دیکھ کر ان کے والِد مالِک بن نَضَر نے آپ سے کہا کہ میرے بیٹے کو مت بگاڑ۔ فرمایا: میں اسے بگاڑ نہیں رہی۔([57]) اس واقعے کے بعد مالِک بن نَضَر ملک شام کے سفر پر روانہ ہوا،([58]) تو راستے میں کسی دشمن سے ٹکڑاؤ ہو گیا اور اُس نے اِسے قتل کر ڈالا۔([59])
مالِك بن نَضَر کے قتل کے کچھ عرصے بعد جبکہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا عِدَّت گزار چکی تھیں تب حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ کو نکاح کا پیغام دیا۔ ان کا تَعَلُّق بھی قبیلہ بنونجَّار سے تھا لیکن ابھی تک انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اس لئے حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے انکار کر دیا اور شادی کے لئے اسلام قبول کرنے کی شرط لگا دی۔([60])مروی ہے کہ آپ نے ان سے فرمایا: اے ابو طلحہ! تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارا معبود جس کی تم عبادت کرتے ہو محض ایک درخت ہے جو زمین سے اُگا اور فلاں قبیلے کے حبشی نے اسے تراش (کر کسی بت کی شکل میں بدل) دیا؟ ابو طلحہ نے کہا: ہاں! کیوں نہیں۔ فرمایا: تو کیا زمین سے اگنے والی ایک لکڑی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے تمہیں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی جسے فلاں قبیلے کے حبشی نے تراش (کر بت کی شکل میں بدل) دیا ہے...!! پھر فرمایا: لہٰذا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سِوا کوئی عِبادت کے لائق نہیں اور حضرت مُحَمَّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کے رسول ہیں (اگر تم ایسا کرو) تو میں تم سے شادی کر لوں گی اور اس کے عِلاوہ کچھ مہر بھی نہیں مانگوں گی۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سوچنے کی مہلت مانگی اور واپس چلے گئے، پھر جب آئے تو ایمان ان کے دل میں سرایت کر چکا تھا اور کہنے لگے: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور
حضرت مُحَمَّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم اس کے رسول ہیں۔
اس کے بعد حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا ان کے ساتھ نِکاح ہو گیا۔([61])
حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا نام زید ہے لیکن کنیت سے مشہور ہیں، اعلیٰ درجے کے تیر انداز تھے۔ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ لشکر میں ابوطلحہ کی صرف آواز بڑی جماعت سے بہتر ہے۔ بیعت عقبہ میں ستر انصاریوں کے ساتھ آپ آئے تھے پھر غزوۂ بدر وغیرہ تمام غزوات میں شامِل ہوئے۔([62])
اس نکاح سے بھی حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اولاد کی نعمت سے بہرہ مند ہوئیں، حضرتِ ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ سے آپ کے دو۲ شہزادوں ابوعمیر اور عَبْدُ الله کا ذِکْر ملتا ہے، دونوں نے حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحابیت کا شرف پایا اور بڑے فضائل وکمالات کے حامِل ہوئے۔
· حضرت ابوعمیر بن ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا: ان کا نام كبشہ ہے۔([63]) حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم ان پر بہت شفقت فرماتے تھے اور ازراہِ لطف وعنایت بعض اوقات خوش طبعی بھی فرمایا کرتے تھے۔ کم عمری میں ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا، جس کا پورا واقعہ شروع میں بیان ہو چکا ہے۔
· حضرت عَبْدُ اللہ بن ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا: حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چھوٹے شہزادے ہیں۔ غزوۂ حنین کے بعد پیدا ہوئے۔ حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے خود ان کی تحنیک([64]) فرمائی۔ ایک قول کے مطابق انہوں نے 84ھ میں مَدِیْنَہ مُنَوَّرَہ میں انتقال فرمایا۔([65]) ان کی اولاد میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بڑے بڑے عُلَما اور صلحا (نیک وپرہیزگار افراد) پیدا فرمائے۔
حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے عزیز واقارب میں سے جن افراد کو سروَرِ عالم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحابیت کا عظیم شَرَف نصیب ہوا ان میں سے چند کے نام اور مختصر تَعَارُف یہاں ذِکْر کیا جاتا ہے، ملاحظہ کیجئے:
· حضرت مُلَیْکَہ بنتِ مالِک انصاریہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا: حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی والِدہ ہیں۔([66]) ايك بار پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کی دعوت پر ان
کے گھر تشریف لائے اور کھانا تَنَاوُل فرمانے کے بعد دو رکعت نماز پڑھائی چنانچہ حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ان کی نانی حضرت مُلَیْکَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کھانے پر بُلایا جو آپ کے لئے تیار کیا تھا۔ آپ نے تَنَاوُل فرمایا پھر فرمایا کہ کھڑے ہوجاؤ تا کہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔ حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: میں اپنی ایک چٹائی کی طرف اُٹھا جو زیادہ عرصہ گزر جانے کے باعث کالی ہو گئی تھی۔ میں نے اس پر پانی چھڑکا۔ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کھڑے ہو گئے تو میں نے اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے صف بنا لی اور بوڑھی امّاں ہمارے پیچھے تھیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر تشریف لے گئے۔([67])
· حضرت سُلَیْم بن ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے سگے بھائی ہیں۔([68]) غزوۂ بدر اور اُحُد میں شرکت کی۔([69]) انصار کے 70 قُرَّاء صحابہ میں سے ہیں۔ حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ فرماتے ہیں: ان 70 کا حال یہ تھا کہ جب رات ہوتی تو مدینہ طَیِّبہ میں اپنے مُعَلِّم کے پاس چلے جاتے اور ساری رات قرآن پاک سیکھنے میں گزار دیتے اور دن میں جو طاقت ور تھے وہ لکڑیاں جمع کرتے اور پانی بھر کر لاتے اور صاحبِ حیثیت بکریاں چرا کر گزر بسر کرتے اور صبح ہوتے ہی پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے حجرۂ مُبَارَکہ کے قریب جمع ہو جاتے۔([70]) حضرت سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ
نے ان 70صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سمیت سانحہ بئرِ معونہ([71]) میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
· حضرت زید بن ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: یہ بھی حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے سگے بھائی ہیں۔([72]) غزوۂ اُحُد میں شرکت کی([73]) اور جنگِ جِسْر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔([74]) جنگ جِسْر رَمَضَانُ الْمُبَارَک کے آخر میں 13 ہجری کو لڑی گئی۔([75]) یہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ کا دورِ خلافت تھا۔
· حضرت حرام بن ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے سگے
بھائی ہیں۔([76]) غزوۂ بدر اور اُحُد میں شرکت کی۔([77]) انصار کے 70 قُرَّاء صحابہ میں آپ بھی ہیں اور انہیں کے ساتھ سانحہ بئرِ معونہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔
نوٹ: آپ کے ایک اور بھائی کا ذِکْر بھی ملتا ہے ان کا نام عبّاد ہے۔([78]) ان کے بارے میں تفصیل معلوم نہ ہو سکی۔
· حضرت اُمِّ حَرام بنت ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا: حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی سگی بہن ہیں۔([79]) حضرت سیِّدنا عُبَادَہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ کی اہلیہ ہیں۔([80]) ایک روز سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم ان کے ہاں محوِ آرام تھے کہ اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، انہوں نے مسکرانے کا سبب پوچھا تو فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ مجھے دکھائے گئے جو راہِ خدا میں جہاد کے لیے اس سمندر (یعنی بحیرۂ عرب) کے سینے پر ایسے سوار ہوں گے جیسے بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: حُضُور! اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ان کے لیے دُعا فرمائی۔([81]) چنانچہ سمندری راستے سے اسلام کا سب سے پہلا لشکر امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں روم کی طرف روانہ ہوا اس میں حضرت اُمِّ حَرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی اپنے شوہر کے ساتھ شریک تھیں اور اسی دوران ایک سواری سے گِر کر آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
· یہ 28 ہجری کا واقعہ ہے۔([82]) آپ کا مزارِ اقدس قبرص کے مقام پر واقع ہے۔([83])
· حضرت اُمِّ عَبْدُ الله بنتِ ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا: حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بہن ہیں۔ اسلام قبول کیا اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحابیت کا شرف پایا۔([84])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی پاکیزہ زندگی اعلیٰ اوصاف وکمالات اور بےشمار اخلاقی خوبیوں کی جامع ہے۔ اسلام قبول کرنے سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک آپ نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو حرزِ جاں (جان سے زیادہ عزیز) بنائے رکھا اور اپنے قول، فعل اور کردار سے لوگوں کو اِتباعِ سنّت کا درس دیا۔ ایک اسلامی بہن کو بطور ماں کیسا ہونا چاہئے...بطور بیوی اسے کیسا رَوَیَّہ اپنانا چاہئے...اسی طرح اور رشتوں کے اعتبار سے اسے کیسا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے...اس کے لئے آپ کی سیرت سے بہت راہ نما مدنی پھول چننے کو ملتے ہیں۔ جنہیں اپنے اوپر نافذ کر کے اسلامی بہن دین ودنیا میں فلاح وکامرانی سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔ یہاں آپ کے چند ایسے ہی اوصاف وکمالات ذِکْر کیے جاتے ہیں، مُلَاحظہ کیجئے:
ایثار سخاوت کی بہت اعلیٰ قسم ہے۔ اپنی خواہش و حاجت کو روک کر دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کو ایثار کہتے ہیں۔ حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا میں یہ وَصْف بدرجۂ
کمال موجود تھا جیسا کہ حضرت سیِّدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی اس روایت سے ظاہِر ہوتا ہے کہ ایک شخص سروَرِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضِر ہوا اور عرض کیا: میں بھوکا ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی کسی زوجۂ مطہرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا۔ انہوں نے عرض کیا: اس کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہمارے پاس پانی کے سِوا کچھ نہیں پھر دوسری کے پاس بھیجا، انہوں نے بھی اسی طرح کہااور سب نے اسی طرح کہا۔ تب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان) سے فرمایا: اسے کون مہمان بنائے گا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے؟ انصار میں سے ایک صحابی جنہیں ابوطلحہ کہا جا تا تھا انہوں نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ! میں حاضِر ہوں، چنانچہ وہ انہیں اپنے گھر لے گئے اور بچوں کی امّی سے دریافت کیا: تمہارے پاس کچھ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: بچوں کی خوراک کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ فرمایا: تم بچوں کو کسی چیز سے بہلا پھسلا کر سُلا دینا، جب ہمارا مہمان (کھانے کے لئے) آئے تو انہیں دِکھانا کہ ہم کھا رہے ہیں، جب وہ اپنا ہاتھ کھانے کے لئے بڑھائے تو تم چراغ کی طرف ٹھیک کرنے کے بہانے کھڑی ہونا اور اسے بجھا دینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا: یہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھا لیا، انہوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری، جب صبح ہوئی حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضِر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں مرد اور عورت سے راضی ہوا۔([85]) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا: تمہارے
رات کے عمل سے اللہ عَزَّوَجَلَّ بہت خوش ہے اور اس نے یہ آیت اتاری ہے:([86])
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ٢٨، الحشر:٩) ترجمۂ کنز الایمان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔
سُبْحٰنَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!...پیاری پیاری اسلامی بہنو! اس مدنی حکایت سے حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور آپ کے شوہر نامدار حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایثار کا وَصْف بہت نمایاں طور پر مَعْلُوم ہوتا ہے کہ باوجود شدید حاجت کے کھانا خود تَنَاوُل نہ فرمایا بلکہ مہمان کے لئے ایثار کر دیا اور خود بھوکے رہ کر رات گزاری۔ اس حکایت میں اسلامی بہنوں کے لئے جہاں ایثار کا درس پایا جاتا ہے وہیں شوہر کی اِطَاعَت وفرمانبرداری اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کی مدد کرنے کا سبق بھی موجود ہے کہ اس قدر عسرت (تنگ دستی) کے موقعے پر جب حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مہمان کو گھر لے آئے تو مہمان کو دیکھ کر حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی پیشانی پر شکن (یعنی بَل) نہیں پڑے نہ انہوں نے کسی قسم کی ناراضی کا اِظْہَار فرمایا بلکہ کشادہ روئی کے ساتھ مہمان کی مہمان نوازی اور خاطِر مدارات کی۔
اسی سے پیارے آقا،مکّی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سادگی اور قناعت پسندی کے بارے میں بھی معلوم ہوا، غورکیجئے! جس در سے دو جہاں کی نعمتیں تقسیم ہو رہی ہیں، قدرت کے خزانوں کی کنجیاں جن کے قبضہ واختیار میں ہیں، ساری دنیا جن کے لنگر سے پل
رہی ہے، ان کی سادگی اور قناعت پسندی کا عالَم کیا ہے کہ کسی زوجۂ مطہرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گھر سے رات کو کھانا برآمد نہ ہوا کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تَوَکُّل کا عالَم یہ تھا کہ دوسرے دن کے لئے کھانا بچا کر نہ رکھتے تھے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں: ”رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (اور ہم) نے کبھی بھی مسلسل تین۳ دن تک پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا حالانکہ اگر ہم چاہتے تو کھا سکتے تھے مگر (کھانے کے بجائے) ایثار کر دیا کرتے تھے۔“([87])
؎ مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مصیبت اور آزمائش کے موقعے پر صبر کرنا اور ہمیشہ رضائے الٰہی میں راضی رہنا وہ بہترین وَصْف ہے جسے خدا کے مقبول بندوں نے اختیار کیا اور کبھی کسی بڑی سے بڑی آزمائش سے گھبرا کر زبان پر حرفِ شکایت نہیں لائے اور نہ کبھی دل میں ہی اسے جگہ دی۔ اس حوالے سے حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا کردار بھی مثالی ہے۔ آپ نے ہمیشہ ہر مُعَامَلے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کو مُقَدَّم رکھا۔ غور کیجئے! جب آپ نے اسلام قبول کیا اور اس پر آپ کو شوہر کی شدید مُخَالَفَت کا سامنا کرنا پڑا اور جب آپ کے ننھے مدنی منّے حضرت ابوعمیر بن ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا انتقال ہو
گیا، یہ آپ کے لئے کتنے پُر آزمائش موقعے تھے لیکن آپ کمال ضبط کا مُظَاہَرہ کرتے ہوئے ایسے تمام واقعات پر صابِر رہیں اور ربّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کی رضا میں راضی رہتے ہوئے اس کی شکر گزار بندی بنی رہیں۔ اللہ رَبُّ الْعِزّت کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
علمی فضل وکمال اور حکمت ودانائی کے اعتبار سے بھی آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے، اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ آپ سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَحرمہ ہیں اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کثرت کے ساتھ آپ کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ جس سے آپ کو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اِکتسابِ عِلْم (یعنی عِلْم حاصِل کرنے) کے بہت مَوَاقِع میسر آئے اور آپ کی علمی بلندیوں میں روز بہ روز اِضَافہ ہوتا گیا حتی کہ آپ کا شمار ان جلیل القدر صحابیات طَیِّبات میں ہوتا ہے جو عِلْم وفضل اور حکمت ودانائی میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ علّامہ جَمَالُ الدِّین یُوسُف بن عَبْدُ الرَّحمٰن کلبی عَلَیۡہِ رَحۡمَۃُ اللہِ الۡقَوِیۡ آپ کے اس وَصْف کا ذِکْر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”کَانَتْ مِنْ عُقَلَاءِ النِّسَاءِ وَفُضَلَائِھِنَّ یعنی حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا دانش مند اور صاحب فضل وکمال عورتوں میں سے تھیں۔“([88]) آپ کے شوقِ عِلْمِ دین اور احکامِ شریعت سیکھنے کی لگن کااندازہ مزید اس بات سے لگائیے کہ ایک بار آپ نے سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مسئلہ دریافت کیا جس پر اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے انہیں کچھ سرزنش کی تو جواب دیا: ”اِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحِي مِنَ الْحَقِّ وَاِنَّا اِنْ نَسْأَلِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم عَمَّا
اَشْكَلَ عَلَيْنَا خَيْرٌ مِنْ اَنْ نَّـكُونَ مِنْهُ عَلَى عَمْيَاءَ یعنی بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ حق بیان فرمانے سے نہیں شرماتا، بےشک ہمیں جو اشکال پیش آئے اس کے متعلق نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم سے دَرْیَافت کر لینا لاعِلْم رہنے سے بہتر ہے۔“([89])
یقیناً عِلْمِ دین سیکھنا اور جو مسئلہ نہ معلوم ہو اسے عِلْم والوں سے پوچھ لینا لاعِلْم رہنے سے بہتر ہے۔ حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی سیرت سے ہمیں اس بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔ اے کاش! ان کے صدقے ہمیں بھی عِلْم حاصل کرنے کا جذبہ اور شوق نصیب ہو جائے۔
؎ زندگی ہو مِری پروانے کی صورت يا ربّ!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت يا ربّ!([90])
شجاعت بھی ایک عمدہ وَصْف ہے اور بہت سارے خَصَائِلِ حمیدہ کا سرچشمہ ہے۔ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اس وَصْف میں بھی امتیازی شان کی حامِل تھیں، آپ نے متعدد غزوات میں شریک ہو کر پانی پلانے، زخمیوں کا علاج کرنے اور مختلف طرح کے اُمُور سرانجام دئیے۔ مسلم شریف میں حضرت سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوَایت ہے کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت اُمِّ سُلَیْم اور کچھ انصاری بیبیوں کو لے کر جہاد فرماتے تھے جب آپ جہاد کرتے تو یہ بیبیاں پانی پلاتیں اور زخمیوں کا علاج کرتیں۔([91])
حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا غزوۂ اُحُد میں بھی شریک ہوئی ہیں، اس غزوے میں
آپ اور آپ کے شوہر حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی خدمات بہت نمایاں ہے چنانچہ حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ اُحُد میں جب لوگ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو چھوڑ کر دُور نکل گئے تھے تو حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے لیے ڈھال کی طرح بن کر رہے۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بڑے اچھے تیر انداز تھے اور ان کی کمان کی تانت([92]) بڑی سخت تھی۔ اس روز ان کی دو۲ یا تین۳ کمانیں ٹوٹی تھیں۔ جب کوئی شخص ترکش لے کر ادھر سے گزرتا تو رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے: تیروں کو ابوطلحہ کے آگے ڈال دو۔ ایک مرتبہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سر اونچا کر کے مُعَاینہ فرمانے لگے تو حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عرض گُزَار ہوئے: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان، سر اونچا کر کے نہ دیکھئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کافِروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے، میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے (ڈھال) ہے۔
اور میں نے اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ اور حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو دیکھا کہ دونوں نے اپنے پائنچے کچھ اوپر کئے ہوئے تھے جس سے پاؤں کے زیور نظر آتے تھے اور اپنی پیٹھ پر مشکیں لاد کر لا رہی تھیں اور پیاسے مسلمانوں کو پانی پِلانے میں مصروف تھیں پھر واپس جانا اور پانی لے کر آنا، یہی ان کا معمول رہا۔([93])
اسی طرح غزوۂ حنین میں بھی آپ کے شریک ہونے کا ذِکْر ملتا ہے، اس میں آپ ایک
اونٹ پر سوار تھیں اور اپنے پاس خنجر رکھا ہوا تھا جیسا کہ آپ ہی کے شہزادے حضرت سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے جنگ حنین کے دن ایک خنجر لیا جو ان کے پاس تھا، حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے وہ خنجر دیکھ لیا، انہوں نے کہا: یَارَسُولَ اللہ! یہ اُمِّ سُلَیْم ہیں اور ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے دَرْیَافت فرمایا کہ یہ خنجر کیسا ہے؟ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کیا: میں نے یہ خنجر اس لئے لیا ہے کہ اگر کوئی مُشْرِک میرے قریب آیا تو میں اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسکرانے لگے۔([94])
محبتِ رسول ایمان کی جان ہے، اس کے بغیر ایمان کا مکمل ہونا اتنا ہی دشوار ہے جتنا بغیر روح کے جسم کا زندہ ہونا، بلاشبہ جس دل میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے عشق کی شمع فروزاں نہ ہو وہ لاکھ ایمان کے دعوے کرے کبھی سچا پکا مؤمن ہرگز نہیں ہو سکتا، نہ ایمان کی حلاوت پا سکتا ہے۔بخاری شریف کی حدیثِ طَیِّبہ ہے کہ رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْن یعنی تم میں سے کوئی اس وَقْت تک مومن نہیں ہو سکتاجب تک اس کے والِدَین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر میں اس کا محبوب نہ ہو جاؤں۔“([95]) اسی لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے:
؎ محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
پیاری پیاری اسلامی بہنو! صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان محبتِ رسول کے سب سے بلند مقام پر فائز تھے اور حقیقت میں سرکارِ رِسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم انہیں اپنے والِدَین، اولاد، مال، جان، عزت وآبرو غرض ہر شے سے بڑھ کر محبوب تھے جس کا واضح ثبوت انہوں نے اپنے عمل اور کردار سے پیش کیا؛ ہجرت کا کٹھن موقع ہو یا بدر وحنین کی آزمائشیں، تبلیغِ دین کی خاطر مال و جان کی ضرورت پیش آئی ہو یا کفارِ بد اطوار نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہوں، کبھی ان فدایانِ رسول کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ اپنا سب کچھ اپنے آقائے کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں پر قربان کر دیتے اور زبان حال سے گویا یوں کہہ رہے ہوتے :
؎ مِرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رحمتِ عالَم
میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لئے
ان کی محبتِ رسول کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ چیزیں جنہیں پیارے کریم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ والا سے کچھ تعلق اور نسبت ہوتی ان کی تعظیم وتوقیر اور ادب واحترام بھی یہ اپنے اوپر لازِم جانتے تھے، اسلام کی روشن وتابناک تاریخ ان حضرات کے ایسے عشق ومحبت سے لبریز جذبات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے لیکن یہاں موضوع کی مُنَاسَبَت سے فقط حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی حیاتِ مُبَارَکہ کے چند واقعات بیان کیے جاتے ہیں، مُلَاحظہ کیجئے:
حضرت اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میری والِدہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے گھر تشریف لا کر نماز ادا فرمانے کی درخواست کی تا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نماز ادا فرمانے کی جگہ کو مصلّی بنا لیں (اور آیندہ حُصُولِ برکت کے لئے گھر والے وہیں نماز ادا کیا کریں)۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے درخواست قبول فرمائی اور گھر تشریف لے آئے۔ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا ایک چٹائی کی جانب بڑھیں اور اس پر پانی کا چھڑکاؤ کر (کے گرد وغبار صاف کر) دیا پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (اس پر) نماز ادا فرمائی اور آپ کے ساتھ (یعنی آپ کی اقتداء میں) گھر والوں نے بھی نماز پڑھی۔([96])
حضرتِ سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے ہی ایک اور روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے اور ایک یتیم نے ہمارے گھر میں سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کی اِقْتِدا میں نماز ادا کی اور میری والِدہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہم سے پیچھے تھیں۔([97]) خیال رہے کہ یہ یتیم جن کا اس روایت میں ذکر ہوا حضرت ضمیرہ بن ابوضمیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہیں، ان دونوں نے یعنی حضرت ضمیرہ اور ان کے والِد حضرت ابو ضمیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے سركار عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحابیت کا شرف پایا۔([98])
ایک روز تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، صاحِبِ معطر پسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ہاں تشریف لائے اور ان کے بچھونے پر آرام فرما ہوئے۔ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو جا کر بتایا گیا کہ نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کے گھر میں آپ کے بچھونے پر آرام فرما ہیں۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا آئیں تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پسینہ آیا ہوا تھا اور کچھ پسینہ چمڑے کے بستر پر ایک جگہ اکٹھا ہوا تھا۔ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنا ڈبہ کھولا اور (اس میں ایک شیشی نکال کر) پسینہ مُبَارَک پونچھ کر شیشی میں نچوڑنے لگیں۔ (اس دوران) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیدار ہو گئے، دریافت فرمایا: اے اُمِّ سُلَیْم! کیا کر رہی ہو؟ عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! (یہ آپ کا مُبَارَک پسینہ ہے) ہم اس کے ذریعے اپنے بچوں کے لئے برکت کے حُصُول کی امید رکھتے ہیں تو نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔([99])
ایک روایت میں ہے کہ سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے پاس تشریف لاتے تھے تو ان کے پاس قیلولہ کرتے تھے وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے چمڑے کا بستر بچھا دیتی تھیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس پر آرام کرتے تھے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پسینہ بہت آتا تھا تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پسینہ مُبَارَک جمع کر لیتی تھیں اسے خوشبو اور شیشیوں میں ڈال لیتی تھیں تو نبیِّ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اے اُمِّ سُلَیْم! یہ کیا ہے؟ عرض کیا: (حُضُور!) یہ
آپ کا پسینہ مُبَارَک ہے جسے ہم اپنی خوشبو میں مِلا لیتے ہیں۔([100])
ایک بار سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم حضرت اُمِّ سُلَيم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے گھر تشریف لائے، گھر میں ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے اس کے منہ سے (اپنا دَہَنِ اقدس لگا کر) پانی نوش فرمایا تو حضرت اُمِّ سُلَيم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے مشکیزے کا وہ حصہ کاٹ کر اپنے پاس محفوظ کر لیا اور فرمایا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے (اس سے دَہَنِ اقدس لگا کر پانی نوش فرمانے کے) بعد اب کوئی بھی اسے منہ لگا کر پانی نہیں پیئے گا۔([101])
حضرت سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس عِیْدان کا ایک پیالہ تھا جس کے بارے میں آپ فرماتی ہیں کہ میں نے پانی، شہد، دودھ اور نبیذ ہر طرح کا مشروب اس پیالے میں رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں پیش کیا ہے۔([102])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! حُضُور سیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے تَعَلُّق اور نسبت رکھنے والی چیزیں سنبھال کر رکھنا اور ان سے تبرک (یعنی برکت حاصِل
کرنا) بِلاشبہ جائز ومستحسن (یعنی اچھا عمل) ہے جو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے زمانۂ اقدس سے لے کر آج تک مسلمانوں میں رائج ومعمول ہے۔ یہاں یہ بات بھی خیال میں رہے کہ جن چیزوں کو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسبت وتَعَلُّق ہو ان کی تعظیم حقیقت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہی تعظیم ہے چنانچہ شِفا شریف میں ہے: ”حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم وتوقیر میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تمام چیزیں جو حُضُور سے نسبت رکھتی ہیں ان کی تعظیم کی جائے اور مَکَّہ مُکَرَّمَہ و مَدِیْنَہ مُنَوَّرَہ کے جن مقامات کو آپ نے شرف بخشا ان کا بھی ادب واحترام کیا جائے اور جن جگہوں میں آپ نے قیام فرمایا اور وہ ساری چیزیں کہ جن کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مس فرمایا (یعنی چھوا) یا جو آپ کی طرف منسوب ہونے کی شہرت رکھتی ہیں ان سب کی تعظیم وتکریم کی جائے۔“([103]) اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یہاں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تبرکاتِ مقدسہ کی تعظیم کے لئے کسی یقینی قطعی ثبوت کی حاجت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے فقط یہی کافی ہوتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نام پاک سے معروف اور مشہور ہوں جیسا کہ ابھی شِفا شریف کی عبارت گزری اس میں واضح لفظوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جو چیزیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف منسوب ہونے کی شہرت رکھتی ہیں ان سب کی تعظیم وتکریم کی جائے۔ آئیے! اس سے متعلق اعلیٰ حضرت، اِمام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کا کلام مُلَاحظہ کیجئے، آپ فرماتے ہیں کہ ایسی جگہ ثبوتِ یقینی یا سَنَدِ مُحَدِّثانہ کی اصلاً حاجت نہیں، اس کی تحقیق وتنقیح کے
پیچھے پڑنا اور بغیر اس کے تعظیم وتبرُّک سے باز رہنا سخت محرومی کم نصیبی ہے، ائمہ دین نے صرف حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے نام سے اس شے کا معروف ہونا کافی سمجھا ہے۔([104]) مزید فرماتے ہیں کہ تعظیم کے لئے نہ یقین درکار ہے نہ کوئی خاص سند بلکہ صرف نامِ پاک سے اس شے کا اشتہار (مشہور ہونا) کافی ہے، ایسی جگہ بے اِدْرَاکِ سَنَد تعظیم سے باز نہ رہے گا مگر بیمار دل، پُر آزار دل جس میں نہ عظمتِ شانِ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم بَروَجْہِ کافی نہ ایمان کامِل۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
وَ اِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْؕ- (پ٢٤، المؤمن:٢٨)
اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر اور اگر سچا ہے تو تمہیں پہنچ جائیں گے بعض وہ عذاب جن کا وہ تمہیں وعدہ دیتا ہے۔
اور خصوصاً جہاں سند بھی موجود ہو پھر تو تعظیم واِعْزَاز وتکریم سے باز نہیں رہ سکتا مگر کوئی کھلا کافِر یا چُھپا مُنَافِق، وَالْعِیَاذُ بِاللہِ تَعَالٰی۔ اور یہ کہنا کہ آج کل اکثر لوگ مصنوعی تبرُّکات لئے پھرتے ہیں مگر یوہیں مجمل بِلاتعیینِ شخص ہو یعنی کسی شخصِ مُعَیَّن پر اس کی وجہ سے اِلْزَام یا بدگمانی مقصود نہ ہو تو اس میں کچھ گناہ نہیں اور بِلاثبوت شرعی کسی خاص شخص کی نسبت حکم لگا دینا کہ یہ انہیں میں سے ہے جو مصنوعی تبرُّکات لئے پھرتے ہیں، ناجائز وگناہ وحرام ہے کہ اس کا منشا صرف بدگمانی ہے اور بدگمانی سے بڑھ کر کوئی جھوٹی بات نہیں۔([105])
پیاری پیاری اسلامی بہنو! حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے رگ وریشہ میں جس
طرح رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت سرایت کی ہوئی تھی اس کا اظہار آپ کے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں تحفے اور ہدایا نذر کرنے سے بھی ہوتا ہے، یہاں اس تَعَلُّق سے آپ کے چند واقعات پیش کئے جاتے ہیں چنانچہ
آپ ہی کے جگر پارے حضرت سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ جب رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم (ہجرت فرما کر) مدینہ طَیِّبہ تشریف لائے تو میری ماں میرا ہاتھ پکڑے حُضُورِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کی خدمت میں حاضِر ہوئیں اور عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم! انصار میں سے کوئی مرد وعورت باقی نہیں رہا جس نے آپ کی بارگاہ میں تحفہ نہ پیش کیا ہو، میرے پاس بارگاہِ اقدس میں پیش کرنے لائق کوئی شے نہیں البتہ یہ میرا بیٹا ہے، اسے قبول فرما لیجئے، یہ آپ کے مُعَامَلات میں خدمت کیا کرے گا۔([106]) سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں قبول فرما لیا اور یہ حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دنیا سے پردۂ ظاہِری فرمانے تک خدمت گزاری کا شَرَف حاصِل کرتے رہے۔
حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے فرمایا: میں نے رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز سنی ہے جس میں ضعف محسوس ہوتا ہے، میرے خیال میں یہ بھوک کی وجہ سے ہے،
کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اِثْبَات (یعنی ہاں) میں جواب دیا اور چند جو کی روٹیاں نِکال لائیں، پھر اپنا ایک دوپٹہ نِکالا اور اس کے ایک پلے میں روٹیاں لپیٹ دیں پھر روٹیاں میرے (یعنی حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے) سپرد کر کے باقی دوپٹہ میرے سر پر لپیٹ دیا اور مجھے رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس بھیج دیا۔ میں روٹیاں لے کر گیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مسجد میں پایا، آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے۔ میں ان کے پاس کھڑا ہو گیا تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: کھانا دے کر؟ پھر عرض کیا: جی ہاں۔ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان لوگوں سے فرمایا جو آپ کے ساتھ تھے: اُٹھو! پھر آپ چل پڑے۔ میں ان سے آگے چل دیا اور حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آ کر انہیں خبر دی ۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اے اُمِّسُلَیْم! رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کو لے کر (غریب خانے پر) تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں کِھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں۔ پھر حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چل پڑے حتی کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس جا پہنچے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انہیں اپنے ساتھ لئے گھر تشریف لائے اور حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے فرمایا: اے اُمِّ سُلَیْم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آؤ۔ انہوں نے وہی روٹیاں حاضِرِ خدمت کر دیں۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے ٹکڑے کئے ۔ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کُپّی نچوڑ کر سارا گھی بطور سالن نکال لیا۔ رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس پر وہی کچھ پڑھا جو خدا نے چاہا پھر فرمایا کہ دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو۔ انہیں اجازت دی گئی، انہوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور چلے گئے پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو۔ انہیں اجازت دی گئی، انہوں نے بھی سیر ہو کر کھانا کھایا اور چلے گئے اور پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہی فرمایا کہ دس
آدمیوں کو آنے کی اجازت دو، یوں تمام افراد نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا۔ یہ ستر یا اسّی آدمی تھے۔([107])
حضرتِ سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں کہ جب رحمتِ عالَم، شفیع مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمایا تو (والِدۂ ماجِدہ) حضرتِ اُمِّ سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے مجھ سے فرمایا: کاش! ہم حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کریں۔ میں نے عرض کی: ایسا ہی کیجئے۔ پس اُنہوں نے کھجوریں، گھی اور پنیر لیا اور انہیں ہانڈی میں ڈال کر حلوہ تیار کیا اور پھر اسے میرے ہاتھ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بھیج دیا۔ میں اسے لے کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضِر ہو گیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: اسے رکھ دو۔ پھر حکم دیتے ہوئے فرمایا: فلاں فلاں آدمیوں کو بلا لاؤ اور اِن کے عِلاوہ اور جتنے ملیں اُنہیں بھی۔ حضرتِ سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں: میں نے وہی کیا جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حکم فرمایا تھا، جب میں لوٹ کر واپس آیا تو اس وَقْت کاشانۂ اقدس آدمیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں نے رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس حلوے پر اپنا
دستِ اقدس رکھا اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے چاہا اس کے ساتھ کلام فرمایا۔ پھر آپ نے اس میں سے کھانے کے لئے دس دس آدمیوں کو بلایا اور اُن سے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا نام لے کر کھاؤ اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے۔([108]) مسلم شریف کی رِوَایَت میں ہے، حضرتِ اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے سیر ہو کر کھایا حتی کہ جب سب کھا چکے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: اے اَنَس! اِسے اُٹھا لو۔جب میں نے اُٹھایا تو معلوم نہیں رکھتے وَقْت زیادہ تھا یا اُٹھاتے وَقْت۔([109]) حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ان لوگوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ تین سو کے قریب تھے۔([110])
حضرت حُمَیْد رباعی رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ سے رِوَایت ہے کہ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے مِکْتَل ( یعنی کھجور کے پتوں سے بنی ٹوکری ) میں تر کھجوریں رکھ کر حضرت اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ کے ہاتھ بارگاہِ رسالت میں بھیجیں۔ (جب یہ کھجوریں لے کر پہنچے تو معلوم ہوا کہ) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم گھر پر موجود نہیں ہیں، قریب کسی غلام نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمکو کھانے کی دعوت پیش کی ہے(وہاں تشریف لے گئے ہیں) حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ بھی وہیں حاضِر ہو گئے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کھانا شروع فرما چکے تھے، انہیں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ساتھ بلا لیا، غلام نے گوشت اور کدّو شریف سے بنی ثَرِید پیش کی تھی، حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کو کدّو شریف بڑی رغبت سے کھاتے دیکھا توکدو کے قاشے اٹھا
اٹھا کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے قریب کرنے لگے۔ فراغت کے بعد جب کاشانۂ اقدس پر تشریف لائے تو حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ نے کھجوریں پیش کیں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم اس میں سے تَنَاوُل بھی فرماتے رہے اور تقسیم بھی کرتے گئے حتیٰ کہ تمام کھجوریں ختم ہو گئیں۔([111])
حضرت اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ سے مروی ہے کہ حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ان کے ہاتھ ایک تھالی میں کھجوریں رکھ کر بارگاہِ رسالت میں بھجوائیں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ان میں سے ایک مٹھی کھجوروں کی بھر کر بعض ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس بھیج دیں پھر ایک اور مٹھی بھری اور وہ بھی بعض دیگر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس بھیج دی پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف فرما ہوئے اور بقیہ کھجوریں آپ نے خود رغبت کے ساتھ تَنَاوُل فرمائیں۔([112])
مروی ہے کہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس ایک بکری تھی، آپ نے اس کے دودھ سے گھی نکال کر ایک مشکیزے میں جمع کرنا شروع کیا۔ جب وہ بھر گیا تو اسے رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کی بارگاہ میں بطور تحفہ بھیج دیا۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے شرفِ قبولیت سے نوازا اور گھی نکلوا کر مشکیزہ واپس بھجوا دیا۔ لانے والے نے اسے گھر میں رکھ دیا۔ جب حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے
دیکھا تو وہ لبالب بھرا ہوا تھا اور گھی باہر ٹپک رہا تھا۔ آپ نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضِر ہو کر سارا واقعہ عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جیسے تم اللہ کے نبی (عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کو کھانے پیش کرتی ہو اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی تمہیں کھلاتا ہے، اسے خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔([113])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بےشمار اوصاف وکمالات اور فضائل ومناقب کی حامِل جلیل القدر صحابیہ ہیں، خاص طور پر بارگاہِ رسالت میں آپ کو اور آپ کے گھرانے کو جو شرفِ باریابی حاصل تھا اور عنایت وکرم کی جو نسبت انہیں ملی تھی ایسا شرف اور ایسی نسبت بہت کم افراد کو ملی ہے چنانچہ حضرت علّامہ شیخ مُلَّا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی ان کے شوہر حضرت سیِّدنا ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذِکْر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے اَہْلِ خانہ کو تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں جو زائد خُصُوصیت اور محبت کی نسبت حاصل تھی وہ کسی اور انصاری صحابی بلکہ بہت سارے مُہَاجِرِیْنِ ابرار کو بھی حاصِل نہ ہو سکی۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہی تھے جنہوں نے (حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے پردۂ ظاہِری فرمانے کے بعد) قبر مُبَارَک تیار کر کے اس میں لحد بنائی اور اس میں مٹی کی کچی اینٹیں لگائیں اور آپ ہی تھے جنہیں سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی پیاری شہزادی حضرت اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی تدفین کے لئے خاص فرمایا حالانکہ ان کے شوہر حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہ بھی وہیں موجود تھے۔ ([114])
پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ان پر خاص لطف وعنایت میں سے یہ بات بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیشتر اوقات ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ بخاری شریف میں حضرت سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ نبیِّ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گزر جب حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے قریب سے ہوتا تو آپ ان کے گھر تشریف لا کر سلام فرماتے۔([115])
یہ بھی مروی ہے کہ سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، خَاتَمُ النَّبِیِّیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ شریف میں حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور اپنی ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے سِوا اور کسی کے گھر (کثرت سے) تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس بارے میں (یعنی حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گھر کثرت سے تشریف لے جانے کے بارے میں) پوچھا گیا تو فرمایا کہ مجھے اس پر ترس آتا ہے کیونکہ اس کا بھائی شہید ہو گیا ہے([116]) جو میرے ساتھ تھا (یعنی میری اطاعت میں تھا)۔ ([117])
رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ان پر لطف وعنایت کا ایک یہ منظر بھی دیکھئے کہ
(حجۃ الوداع کے موقعے پر) جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سرِ اقدس کا حَلْق کروایا، پہلے دائیں جانب کے موئے مبارک اتروائے اور ارد گرد موجود صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں (ایک ایک دو دو کر کے) بانٹ دئیے پھر بائیں جانب کے موئے مُبَارَک اتروائے اور وہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو عطا فرما دئیے۔([118])
آپ نے متعدد سفروں میں سرورِ کائنات، شہنشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہمراہی کا شرف پایا۔ یہ شرف انہیں کس قدر عزیز تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کسی سفر سے واپسی پر جب انہیں دردِ زہ شروع ہوا اور قافلےسے علیحدہ ہو کر راستے میں ہی ٹھہرنا پڑا تو یہ بات ان پر سخت گراں گزری اور ان کے شوہر حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا: اے پاک پروردگار! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں تیرے رسول کے ساتھ (مَدِیْنَہ مُنَوَّرَہ سے) نکلوں اور ان کے ساتھ ہی داخِل ہوں اور تجھے معلوم ہے کہ میں کس مجبوری میں پھنس گیا ہوں۔ یہ عرض کرنا تھا کہ وہ کیفیت جاتی رہی جس کی وجہ سے انہیں رُکنا پڑا تھا چنانچہ یہ آگے بڑھ كر قافلے کے ساتھ مل گئے اور سرکارِ ذی وقار، محبوبِ ربِّ غفار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہم راہی میں مدینہ طَیِّبہ کی پُربہار فِضَاؤں میں داخِل ہوئے۔
اس کے علاوہ غزوۂ خیبر سے واپسی کے سفر میں بھی حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا ذکر ملتا ہے۔ سفر کے دوران جب مقامِ صہبا میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قیام فرمایا
تو اس جگہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ہی ام المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے کنگھی وغیرہ کرنے کی خدمت سرانجام دی۔([119])
ایک بار پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ہاں تشریف لائے تو انہوں نے کھجوریں اور گھی پیش کیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: گھی کو اس کی مشک میں اور کھجوروں کو اس کے برتن میں واپس ڈال دو کیونکہ میں روزے سے ہوں۔اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم گھر کے ایک گوشے میں کھڑے ہوئے اور نفل نماز پڑھی اور حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اور ان کے گھر والوں کے لیے دعا فرمائی۔ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ! میرا ایک خاص بچہ ہے (اس کے لئے خصوصی دعا فرما دیجئے)۔ دریافت فرمایا: اُمِّ سُلَیْم! وہ کون ہے؟ عرض کیا: آپ کا خادم اَنَس۔ (حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ فرماتے ہیں:) چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے میرے لئے آخرت اور دنیا کی ہر بھلائی کی دعا فرما دی، (جس کے بعض الفاظ یہ ہیں:) اَللّٰهُمَّ ارْزُقْهُ مَالًا وَّوَلَدًا وَبَارِكْ لَهٗ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! اَنَس کو مال اور اولاد دے اور اسے برکت عطا فرما۔([120])
حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ ایک بار جب
سرکار اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جنت میں تشریف لے گئے تو وہاں حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو بھی مُلَاحظہ فرمایا چنانچہ بخاری شریف میں حضرت سیِّدنا جابر بن عَبْدُ اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”رَاَيْتُنِي دَخَلْتُ الجَنَّةَ فَاِذَا اَنَا بِالرُّمَيْصَاءِ امْرَاَةِ اَبِي طَلْحَةَ میں نے (خواب میں) خود کو دیکھا کہ جنت میں داخل ہوا ہوں، وہاں میں نے ابو طلحہ کی بیوی رُمَیْصا (یعنی حضرتِ اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) کو دیکھا۔([121])
حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے متعدد احادیث روایت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت سیِّدنا امام شمس الدِّین محمد بن احمد ذَہبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ آپ نے 14 احادیث روایت کیں جن میں سے ایک حدیث شریف مُتَّفَق عَلَیْہ (یعنی بخاری ومُسْلِم دونوں میں) ہے، ایک صرف بخاری میں اور دو صرف مُسْلِم میں ہیں۔([122])
حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے صحابہ وتابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن ہر دو طبقات
کے جلیل القدر افراد نے احادیث روایت کی ہیں، ان میں سے کچھ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
(۱)...اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ (۲)...اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ
(۳)...حضرت خولہ بنتِ حکیم (۴)...حضرت اَنَس بن مالِک([123])
(۵)...حضرت زید بن ثابت اور (۶)...حضرتِ عَبْدُ اللہ بن عبّاس([124])
رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن
اور تابعین میں سے حضرت ابوسلمہ بن عَبْدُ الرَّحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا([125]) جیسے فقیہہ، عابِد اور متقی شخص بھی شامِل ہیں۔
یہاں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی روایت کی گئی فقط تین۳ احادیث ذکر کی جاتی ہیں، مُلَاحظہ کیجئے:
حضرت عَمرو بن عُمر انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُسے مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بیان کرتی ہیں: میں نے تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کو فرماتے سنا کہ جن دو۲ مسلمان میاں بیوی کے تین۳ بچے بالغ ہونے سے قبل وفات پا جائیں (اور وہ اس پر صبر کریں تو) اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے فضل و رحمت سے انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا: اور دو۲ ہوں تو؟ فرمایا: دو۲ ہوں(تب بھی یہی اجر ہے)۔ ([126])
حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ سے رِوَایَت ہے: حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ جب شراب کے حرام ہونے کا حکم نازِل ہوا تو رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے مُنَادِی کو حکم فرمایا کہ وہ (گلی کوچوں میں) یہ اِعْلان کر دے: ”خبردار! بےشک شراب حرام کر دی گئی ہے، پس نہ اسے خریدو...! نہ بیچو...!! جس کسی کے پاس شراب موجود ہے وہ اسے بہا دے۔“ ([127])
حضرت مربع رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم میں عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم! مجھے نصیحت فرمائیے...!!آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا: گناہ چھوڑ دو، یہ سب سے بہترین ہجرت ہے، فرائض کی مُحَافَظَت کرو، یہ افضل ترین جہاد ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کثرت سے کرو ، بے شک تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں کوئی ایسی چیز لے کر حاضِر نہیں ہو سکتی جو اسے کثرتِ ذِکْر سے زیادہ محبوب ہو۔([128])
حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے زندگی کا طویل حصہ زمانۂ اسلام میں بسر کیا اور ایمان لانے کے بعد اپنے ہر عمل اور فعل سے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے محبوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رِضا
کے حُصُول کے لیے کوشاں رہیں بالآخر خلیفۂ ثالث، امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دَورِ خِلافت میں آپ کا اِنتقال ہو گیا۔ آپ کی پوری زندگی عشقِ رسول سے عبارت ہے بلکہ انتقال فرمانے کے بعد بھی آپ کے ترکے سے اسی کا درس ملتا ہے کیونکہ آپ کے ترکہ میں بجائے دُنیوی مال ومتاع کے صرف اور صرف نَبِیِّ آخِرُ الزّماں، شہنشاہِ کون ومکاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آثارِ مُبَارَکہ وتبرکاتِ شریفہ تھے چنانچہ آپ کے لختِ جگر حضرت سیِّدنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ اس کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
میری والِدہ ماجِدہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے سِوائےان چند چیزوں کے کچھ وراثت نہ چھوڑی:
(۱)...رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کی چادر مُبَارَک۔
(۲)...پیالہ جس میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم (پانی وغیرہ) پیا کرتے تھے۔
(۳)...آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے خیمہ مُبَارَک کا بانس۔
(۴)...سِل جس پر آپ رامک نامی شے کو رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے مُبَارَک پسینے سے (مخلوط کر کے) گوندھ (کر محفوظ کر) لیتی تھیں۔([129])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ! دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول ایسا پاکیزہ اور پیارا ماحول ہے جس کی برکت سے لاکھوں لاکھ اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کی زندگیوں میں مدنی انقلاب برپا ہو گیا ہے اور وہ گناہوں کی دلدل سے نکل کر نیکیوں کے سفر
میں جانب مدینہ رواں دواں ہو گئے ہیں، آئیے! آپ بھی اس خوشبودار اور پاکیزہ مدنی ماحول سے منسلک ہو جائیے، ترغیب وتحریص کے لئے ایک اسلامی بہن کی مدنی بہار پیش کی جاتی ہے جو پہلے مخلوط تفریح گاہوں کی شوقین تھی، T.V اور Cable network کے ذریعے فلمیں ڈرامے دیکھنا اور زندگی کے قیمتی لمحات گناہوں میں بسر کرنا جس کی زندگی کا معمول تھا پھر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل وتوفیق سے اسے مدنی ماحول میسر ہوا تو اس کی زندگی میں نیکیوں کے نور سے مُنَوَّر ایک نئی صبح کا آغاز ہوا مزید کرم بالائے کرم یہ ہوا کہ آفتابِ رِسالت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دیدارِ پرانوار بھی نصیب ہو گیا چنانچہ
پنجاب ( پاکستان ) کے شہر گلزارِ طیبہ ( سرگودھا ) کی مقیم اسلامی بہن کی تحریر کا خلاصہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے پہلے میری عملی حالت انتہائی ابتر تھی۔ ماڈرن سہیلیوں کی صحبت نے مجھے فیشن و مخلوط تفریح گاہوں کا شوقین بنا دیا تھا۔ نماز پڑھتی نہ روزے رکھتی اور برقع سے تو ( مَعَاذَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ) کَوسَوں دور بھاگتی تھی۔ بس T.V اور V.C.R ہوتا اور میں۔ خود سر اتنی تھی کہ اپنے سامنے کسی کی چلنے نہیں دیتی تھی۔ ان دنوں میں کالج میں فرسٹ ائیر کی طالبہ تھی۔ ایک روز مجھے کسی نے امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے بیان کی کیسٹ بنام ”وُضُو اور سائنس“ تحفے میں دی۔ بیان معلوماتی اور دلچسپ تھا۔ اس بیان کو سن کر میں اتنی متاثر ہوئی کہ میں نے علاقے میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے اسلامی بہنوں کے سنّتوں بھرے اجتماع میں جانا شروع کر دیا۔ مدنی ماحول کا نور میری تاریک زندگی کو مُنَوَّر کرنے لگا۔ وَقْت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اپنی بُری عادَتوں سے
چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہونے کی برکت سے کچھ ہی عرصے میں مدنی برقع پہننے لگی۔ میرے گھر والے، رشتے دار اور میری سہیلیاں اس حیرت انگیز تبدیلی پر بہت حیران تھے۔ انہیں یہ سب خواب لگ رہا تھا مگر یہ سو فیصد حقیقت تھی۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! اب میں اپنے گھر میں فیضانِ سنّت سے درس دیتی ہوں۔ دیگر اسلامی بہنوں کے ساتھ مل کر مدنی کام کرنے کی سعادت سے بھی بہرہ مندہوتی ہوں۔ روزانہ فکرِ مدینہ کے ذریعے مدنی اِنْعَامات کے رسالے کے خانے پُر کر کے ہر ماہ جمع کروانا میرا معمول ہے۔ ایک روز مجھ پرربّ عَزَّ وَجَلَّ کا ایسا کرم ہوا جس کا میں جتنا بھی شکر کروں کم ہے۔ ہوا یوں کہ ایک رات میں سوئی تو میری قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ دعوتِ اسلامی کا سنّتوں بھرا اجتماع ہو رہا ہے، میں جس جگہ بیٹھی ہوں وہاں کھڑکی سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔ میں بے ساختہ کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھتی ہوں تو آسمان پر بادل نظر آتے ہیں۔ میں بے اختیار یہ سلام پڑھنا شروع کر دیتی ہوں:
؎ اے صبا مصطفےٰ سے کہہ دینا
غم کے مارے سلام کہتے ہیں
اچانک میرے سامنے ایک حسین وجمیل اور نورانی چہرے والے بزرگ سفید لباس میں ملبوس سر پر سبز عمامہ سجائے تشریف لے آئے۔ ان کے مقدس چہرے پر تبسم کے آثار تھے۔ ابھی میں یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی کہ کسی کی آواز سنائی دی: ” یہ حُضُورِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم ہیں۔“ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ میں اپنی سعادتوں کی
معراج پر شدتِ جذبات سے رونے لگی۔دل چاہتا تھا کہ آنکھیں بند کروں اور بار بار وہی منظر دیکھوں۔ اب بھی ہر رات اسی امید پر دُرودِ پاک پڑھتے پڑھتے سوتی ہوں کہ کاش میری دوبارہ قسمت جاگ اٹھے۔
؎ سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں
میرے گھر میں بھی ہو جائے چراغاں یا رسول اللہ!([130])
٭…٭…٭…٭…٭…٭
· شہزادے: پیارے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تین۳ شہزادے تھے، جن کے اسمائے مُبَارَکہ یہ ہیں:
(۱)...حضرت سیِّدنا قاسِم (۲)...حضرت سیِّدنا ابراہیم
(۳)...طَیِّب وطاہِر حضرت سیِّدنا عبد الله رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ
· شہزادیاں: مصطفےٰ جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم كی چار۴ شہزادیاں تھیں، جن کے اسمائے مُبَارَکہ یہ ہیں:
(۱)...حضرت سیِّدَتُنا زینب (۲)...حضرت سیِّدَتُنا رُقَیَّہ
(۳)...حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ کلثوم (۴)...حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ
(المواهب اللدنية، الفصل الثانى فى ذكر اولاد الكرام، ١/٣٩١)
القرآن الكريم |
كلامِ بارى تعالىٰ |
||
كتاب |
ناشر و سنِ اشاعت |
کتاب |
ناشر و سنِ اشاعت |
كنزالايمان |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ، ۱۴۳۲ھ |
صحيح البخارى |
دار المعرفہ بیروت، ۱۴۲۸ھ |
صحيح مسلم |
دار الکتب العلمیہ بیروت، 2008ء |
سنن ابن ماجة |
دار الکتب العلمیہ بیروت، 2009ء |
سنن النسائى |
دار الکتب العلمیہ بیروت، 2009ء |
مسند احمد |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴۲۹ھ |
المعجم الكبير |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴٢۸ھ |
المعجم الاوسط |
دار الفکر عمان، ۱۴۲۰ھ |
صحيح ابن حبان |
دار المعرفہ بيروت، ۱۴۲٥ھ |
مسند ابى يعلٰى |
دار الفکر بيروت ، ۱۴۲٢ھ |
المستدرك للحاكم |
دار المعرفہ بیروت، ۱۴۲۷ھ |
مشكاة المصابيح |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴۲٨ھ |
مسند ابى داؤد |
دار ہجر مصر، ۱۴۲۰ھ |
مسند ابن الجعد |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴١٧ھ |
مسند شهاب |
مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ۱۴۰۵ھ |
مرقاة المفاتيح |
دار الکتب العلمیہ بیروت،۱۴٢۸ھ |
العلل الكبير |
عالم الکتب بیروت، ۱۴۰۹ھ |
الترغيب والترهيب |
دار المعرفہ بيروت، ۱۴۲٩ھ |
عمدة القارى |
دار الفکر بيروت ، ۱۴۲۵ھ |
فتح البارى |
عرب شریف، ۱۴۲۱ھ |
شرح مسلم للنووى |
دار الفیحاء دمشق، ۱۴۳۱ھ |
مرآۃ المناجیح |
نعیمی کتب خانہ گجرات |
الشفاء |
دار الفکر بيروت ، ۱۴٣١ھ |
المواهب اللدنية |
دار الکتب العلمیہ بیروت، 2009ھ |
اسد الغابة |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴٢٩ھ |
القول البدیع |
دار الکتاب العربی بیروت، ۱۴۰۵ھ |
اجمال ترجمہ اکمال |
نعیمی کتب خانہ گجرات |
الاصابة فى تمييز الصحابة |
المکتبۃ التوفیقیہ مصر |
الاكمال فى اسماء الرجال |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴۲۸ھ |
تهذيب الكمال |
مؤسسۃ الرسالہ بیروت، ۱۴۱۵ھ |
حلية الاولياء |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴۲۷ھ |
طبقات الكبرىٰ |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴۳۳ھ |
معرفة الصحابة |
دار الکتب العلمیہ بیروت، ۱۴۲٢ھ |
سير اعلام النبلاء |
دار الفکر بيروت ، ۱۴١٧ھ |
نسب معد و اليمن الكبير |
عالم الکتب بیروت، ۱۴۰۸ھ |
الجوهرة فى نسب النبى صلى الله عليه وسلم |
دار الرفاعی عرب شریف، ۱۴۰۳ھ |
فتاویٰ رضویہ |
رضا فاؤنڈیشن لاہور |
اسلامی زندگی |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ، ۱۴۲۷ھ |
فتوح البلدان |
مؤسسۃ المعاف بیروت، ۱۴۰۷ھ |
جنّتی زیور |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ، ۱۴۲۷ھ |
کلیاتِ اقبال |
استقلال پریس لاہور، ۱۴۱۰ھ |
میں نے مدنی برقعہ کیوں پہنا؟ |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ |
عنوان |
صفحہ نمبر |
عنوان |
صفحہ نمبر |
کثرتِ دُرُوْد کے سبب نجات |
1 |
کنیت |
15 |
مدینہ میں آفتابِِ رسالت کی تجلیاں |
2 |
قبیلہ |
16 |
ایک سعادت مند گھرانا |
3 |
قبیلے کی قدر و منزلت |
// |
آزمائش کا دَور |
4 |
حضرت حسَّان بن ثابِت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ |
17 |
بیٹے کی وِلادت |
7 |
حضرت اُبَیّ بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ |
// |
نیک سیرت بی بی صاحبہ |
10 |
حضرت ابو اَیُّوب خالِد بن زید انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ |
// |
تحنیک کا طریقہ |
14 |
||
بچے کی تحنیک کے حوالے سے دو مستحب عمل |
// |
حضرت مُعَاذ اور حضرت مُعَوَّذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا |
18 |
نام ، نسب اور کُنْیَت |
15 |
||
حضرت اُمِّ سُلَیْم کا نسب |
// |
حضرت سہل اور حضرت سہیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا |
// |
نام |
// |
حضرت اُمِّ سُلَیْم کی رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم سے رشتہ داری |
18 |
نوٹ |
26 |
حضرت ام حرام بنت ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا |
// |
||
نکاح اور خاندان |
19 |
حضرت اُمِّ عَبْدُ الله بنتِ ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا |
27 |
پہلا نِکاح اور اولاد |
// |
||
حضرت بَراء بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ |
// |
حضرت اُمِّ سُلَیْم کے اوصاف |
// |
حضرت اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ |
20 |
(۱)...ایثار |
// |
مالِک بن نضر کا قتل |
// |
قاسِمِ نعمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی سادگی |
29 |
حضرت اُمِّ سُلَیْم کا دوسرا نکاح |
21 |
||
حضرت ابو طلحہ کا مختصر تَعَارُف |
22 |
(۲)...صبر و تحمل |
30 |
اس نکاح سے اولاد |
// |
(۳)...عِلْم و حکمت |
31 |
حضرت ابو عمیر بن ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا |
23 |
(۴)...شجاعت و بہادری |
32 |
حضرت عَبْدُ اللہ بن ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا |
// |
غزوۂ اُحُد میں شرکت |
// |
چند اور شرفِ صحابیت پانے والے رشتہ دار |
// |
غزوۂ حنین میں شرکت |
33 |
حضرت مُلَیْکَه بنتِ مالِک انصاریہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا |
// |
رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم سے محبّت و عقیدت |
34 |
حضرت سُلَیْم بن ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ |
24 |
(۱)...حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کے نماز پڑھنے کی جگہ سے تبرک |
36 |
حضرت زید بن ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ |
25 |
||
حضرت حرام بن ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ |
// |
(۲)...پسینہ مُبَارَکہ سے شیشی بھرنے کا واقعہ |
37 |
(۳)...مشکیزے کا منہ کاٹ کر بطورِ یادگار رکھنے کا واقعہ |
38 |
حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی ہمراہی کا شرف |
48 |
مال و اولاد کی دُعا |
49 |
||
(۴)...بابرکت پیالہ |
// |
جنت کی بشارت |
// |
کیا تبرکات کی تعظیم کے لئے یقینی ثبوت درکار ہے؟ |
39 |
حضرت اُمِّ سُلَیْم سے مروی احادیث |
50 |
مروی احادیث کی تعداد |
// |
||
بارگاہِ رِسالت میں تحائف پیش کرنے کا سلسلہ |
40 |
روایت کرنے والے حضرات |
// |
بیٹے کو خدمت گزاری کے لئے پیش کرنا |
41 |
چند مروی رِوایات |
51 |
جَو شریف کی روٹیوں کا تحفہ |
// |
(۱)...اولاد کی وفات پر صبر کرنے کی فضیلت |
// |
کھجور کے حلوے کا تحفہ |
43 |
(۲)...شراب کی حرمت |
52 |
کھجوروں کا تحفہ |
44 |
(۳)...رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نصیحت |
// |
تھالی بھر کھجوروں کا تحفہ |
45 |
||
گھی سے بھرے مشکیزے کا تحفہ |
// |
سفرِ آخرت |
// |
متفرق فضائل و مناقب |
46 |
حضرت اُمِّ سُلَیْم کا ترکہ |
53 |
خاص لطف وعنایت |
47 |
سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کا دیدار نصیب ہو گیا |
54 |
موئے مُبَارَک کا تحفہ |
// |
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: خاموشی حکمت ہےا ور اس پر عمل کرنے والے کم ہیں۔ (مسند شهاب، الصمت حكم وقليل فاعله، ١/١٦٨، حديث:٢٤٠)
[1]...القول البديع، الباب الثانى فى ثواب الصلوة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ص١٢٧.
[2]...المعجم الاوسط، باب الالف، باب من اسمه ابراهيم، ٢/٦٦، حديث:٢٥٣٥.
[3]...مسند ابى داود، ما اسند انس بن مالك الانصارى، الافراد ، ٣/٦٠٦، حديث:٢٢٦١.
[4]...مسند امام احمد، مسند انس بن مالك رضى الله تعالٰى عنه، ٥/٣٢١، حديث:١٢٤٦٦.
[5]...صحيح ابن حبان، كتاب اخباره صلى الله عليه وسلم عن مناقب الصحابه...الخ، ذكر وصف تزوج ابى طلحة ام سليم، ص١٩٢٥، حديث:٧١٨٧ ،بتغير.
[6]...مسند امام احمد، مسند انس بن مالك رضى الله تعالٰى عنه، ٥/٥١٦، حديث:١٣٢٠٢.
[7]...عمدة القارى، كتاب الجنائز، باب من لم يظهر حزنه عند المصيبة، ٦/١٣٥، تحت الحديث:١٣٠١، ملتقطًاو بخارى، كتاب الجنائز، باب من لم يظهر حزنه عند المصيبة، ص٣٦٨، حديث:١٣٠١.
[8]... جنتی زیور، تذکرۂ صالحات، حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا، ص۵۱۵، بتغیر قلیل.
[9]... مسند ابى يعلٰى، مسند انس بن مالك، ثابت البنانى عن انس، ٣/١٣٣، حديث:٣٣٩٨.
[10]...مسند ابى يعلٰى، مسند انس بن مالك، ثابت البنانى عن انس، ٣/١٣٣، حديث:٣٣٩٨.
[11]...صحيح ابن حبان، كتاب اخباره صلى الله عليه وسلم عن مناقب الصحابة...الخ، ذكر وصف تزوج ابى طلحة ام سليم، ١٩٢٥، حديث:٧١٨٧.
[12]...مسند امام احمد، مسند انس بن مالك رضى الله تعالٰى عنه، ٥/٥١٦، حديث:١٣٢٠٢.
[13]...صحيح ابن حبان، كتاب اخباره صلى الله عليه و سلم عن مناقب الصحابة...الخ،ذكر وصف تزوج ابى طلحة ام سليم، ص١٩٢٥، حديث:٧١٨٧.
[14]... مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل ابى طلحة، ص٩٥٧، حديث:٢١٤٤.
[15]...شرح نووى، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل ابى طلحة، الجزء السادس عشر، ٦/١٥، تحت الحديث:٢١٤٤.
و مسندامام احمد، مسند انس بن مالك رضى الله تعالٰى عنه، ٥/٥١٧، حديث:١٣٢٠٢.
[16]...الاصابة، القسم الثانى من حرف العين، العين بعدها الباء، عبد الله بن ابى طلحة...الخ، ٥/١٢.
[17]...مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل ابى طلحة، ص٩٥٧، حديث:٢١٤٤.
[18]... مسلم، كتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل ابى طلحة، ص٩٥٧، حديث:٢١٤٤.
[19]... معجم كبير، باب من يعرف من النساء بالكنى...الخ، خبر ام سليم فى موت ابنها...الخ، ١٠/٤٥٧، حديث:٢٠٧٩٦.
[20]...شہد یا کوئی میٹھی چیز پہلے پہل (نوزائیدہ بچے کے) منہ میں دینا۔
[21]... بخارى، كتاب اللباس، باب الخميصة السوداء، ص١٤٦٧، حديث:٥٨٢٤.
[22]... مسلم،کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل ابى طلحة الانصارى، ص٩٥٧، حديث:٢١٤٤.
[23]...عمدة القارى، كتاب العقيقة، باب تسمية المولود...الخ، ١٤/٤٦٦، تحت الحديث:٥٤٧٠.
[24]... شرح نووی، كتاب الآداب، باب استحباب تحنيك المولود...الخ، الجزء الرابع عشر، ٥/١٤٠، تحت الحديث:٢١٤٤.
[25]... شرح نووی، كتاب الآداب، باب استحباب تحنيك المولود...الخ، الجزء الرابع عشر، ٥/١٣٩.
[26]... شرح نووی، كتاب الآداب، باب استحباب تحنيك المولود...الخ، الجزء الرابع عشر، ٥/١٣٩، ملتقطًا.
[27]... شرح نووی، كتاب اللباس والزينة، باب جواز وسم الحيوان...الخ، الجزء الرابع عشر، ٥/١١٣، تحت الحديث:٢١١٩.
وعمدة القارى، كتاب اللباس، باب الخميصة السوداء، ١٥/٣٤، تحت الحديث:٥٨٢٤.
[28]...اسلامی زندگی، پہلا باب بچہ کی پیدائش، اسلامی رسمیں، ص۲۱.
[29]... شرح نووی، كتاب الآداب، باب استحباب تحنيك المولود...الخ، ٥/١٤٠، تحت الحديث:٢١٤٤.
[30]...طبقات ابن سعد، و من نساء بني عدى بن النجّار، ام سليم بنت ملحان، ٨/٣١٢.
[31]...الجوهرة فى نسب النبى، عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف، ٢/٥.
[32]... طبقات ابن سعد، ومن نساء بني عدى بن النجّار، ام سليم بنت ملحان، ٨/٣١٢.
[33]...عمدة القارى، كتاب الاذان، باب المرأة وحدها تكون صفا، ٤/٣٦٤، تحت الحديث:٧٢٧.
[34]...اس کے لئے دیکھئے: [بخاری، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب فضل المنيحة، ص٦٧٥، حديث:٢٦٣٠].
[35]... عمدة القارى، كتاب مناقب الانصار، باب مناقب الانصار، ١١/٤٩٥.
[36]...اسد الغابة، حرف السين، ام سليم بنت ملحان، ٧/٣٣٣.
[37]... بخارى، كتاب مناقب الانصار، باب فضل دور الانصار، ص٩٥٥، حديث:٣٧٨٩.
[38]... فتح البارى، كتاب مناقب الانصار، باب فضل دور الانصار، ٧/١٤٧، تحت الحديث:٣٧٨٩.
[39]...نسب معد واليمن الكبير، نسب الاشعريين، بنو النجار بن ثعلبة، ١/٣٩١.
[40]...نسب معد واليمن الكبير، نسب الاشعريين، بنو النجار بن ثعلبة، ١/٣٩٢.
[41]...الاكمال، الباب الاول...الخ، حرف الهمزة، فصل فى الصحابة، ٢٤-ابى ابن كعب، ص٧.
[42]... الاصابة، حرف الالف، باب الالف بعدها موحدة،ابى بن كعب،١/٢٧، ملتقطًا.
[43]...نسب معد واليمن الكبير، نسب الاشعريين، بنو النجار بن ثعلبة، ١/٣٩٢.
[44]...نسب معد واليمن الكبير، نسب الاشعريين، بنو النجار بن ثعلبة، ١/٣٩٢.
[45]...نسب معد واليمن الكبير، نسب الاشعريين، بنو النجار بن ثعلبة، ١/٣٩٤.
[46]...بخارى، كتاب فرض الخمس، باب من لم يخمس الاسلاب...الخ، ص٨٠٥،حديث:٣١٤١.
[47]...نسب معد واليمن الكبير، نسب الاشعريين، بنو النجار بن ثعلبة، ١/٣٩٥.
[48]...نسب معد واليمن الكبير، نسب الاشعريين، بنو النجار بن ثعلبة، ١/٣٩٥.
[49]...مراٰۃ المناجیح،باب علامات النبوۃ،الفصل الاول،۸/۱۲۳.مرقاة المفاتيح، كتاب الفضائل والشمائل، باب علامات النبوة، الفصل الاول، ١٠/٥٣٦، تحت الحديث:٥٨٥٩، ملتقطًا.
[50]...طبقات ابن سعد، و من نساء بني عدی بن النجّار، ام سليم بنت ملحان، ٨/٣١٢.
[51]...طبقات ابن سعد، تسمية من نزل البصرة من اصحاب...الخ، انس بن مالك، ٧/١٢.
[52]... طبقات ابن سعد، تسمية من نزل البصرة من اصحاب...الخ، براء بن مالك، ٧/١١.
[53]...مستدرك، كتاب معرفة الصحابة، ذكر شهادة البراء بن مالك، ٤/٣٤١، حديث:٥٣٢٥.
[54]...الاكمال، الباب الاول...الخ، حرف الهمزة، فصل فى الصحابة، ص٥، بتغير قليل.
[55]...اجمال، حالات صحابہ وتابعین، باب الالف، صحابۂ کرام، ص۱، بتغیر قلیل.
[56]...طبقات ابن سعد، و من نساء بنى عدى بن النجّار، ام سليم بنت ملحان، ٨/٣١٢.
[57]...طبقات ابن سعد، ومن نساء بنى عدى بن النجار، ام سليم بنت ملحان، ٨/٣١٢.
[58]...الاصابة، حرف السين، القسم الاول، ام سليم بنت ملحان، ٨/٤٦٠.
[59]...طبقات ابن سعد، و من نساء بنى عدى بن النجار، ام سليم بنت ملحان، ٨/٣١٢.
[60]...طبقات ابن سعد، و من نساء بنى عدى بن النجار، ام سليم بنت ملحان، ٨ /٣١٣.
[61]...طبقات ابن سعد، و من نساء بنى عدى بن النجار، ام سليم بنت ملحان، ٨/٣١٤.
[62]...اجمال، حالات صحابہ وتابعین، باب طا، صحابۂ کرام، ص۴۳، ملتقطًا.والاكمال، الباب الاول ...الخ، حرف الطاء، فصل فى الصحابة، ابو طلحة، ص٥٥، ملتقطًا
[63]...مراٰۃ المناجیح، کتاب الاداب، باب المزاح، الفصل الاول، ۶/۴۹۴، بتغیر قلیل.
[64]...شہد یا کوئی میٹھی چیز پہلے پہل (نوزائیدہ بچے کے) منہ میں دینا، اس کا طریقہ اسی رسالے کے صفحہ 14 پر ملاحظہ کیجئے۔
[65]...الاصابة، القسم الثانى من حرف العين، عبدالله بن ابى طلحة...الخ، ٥/١٢، ملخصًا.
[66]...الاصابة، حرف الميم، القسم الاول، مليكه الانصارية، ٨/٣٥٥.
[67]...بخارى، كتاب الصلاة، باب الصلاة على الحصير، ص١٦٩، حديث:٣٨٠.
[68]...الاصابة، كتاب النساء، حرف الميم، القسم الاول ، مليكة الانصارية، ٨/٣٥٥.
[69]...طبقات ابن سعد، طبقات البدريين من الانصار، سليم بن ملحان، ٣/٣٩١.
[70]...حلية الاولياء، ذكر الصحابة من المهاجرين، عبد الله ذوالبجادين، ١/١٧٠.
[71]...یہ سانحہ ماہِ صفر 4ھ میں پیش آیا، واقعہ یہ تھا کہ ابو براء عامِر بن مالک ایک روز بارگاہِ رِسالت میں حاضِر ہوا اور چند صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو اپنے ساتھ اپنی بستی میں لے جانے کی درخواست کی تاکہ قبیلے والوں کو دعوتِ اسلام دی جائے اور انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے، اس کی درخواست پر سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے 70منتخب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو جنہیں قُرّاء کہا جاتا تھا، اس کے ساتھ بھیج دیا۔وہاں پہنچ کر بجائے اس کے کہ یہ دعوتِ اسلام دینے میں ان کی مدد کرتا اور خود تبلیغی فرائض سر انجام دیتا، اس نے رَعل و ذَکْوان وغیرہ چند قبائل میں سے ایک لشکر تیار کیا اور دھوکے سے مُعَزَّز صحابیوں کو شہید کر ڈالا، حُضُورِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کو اس واقعے سے ایسا شدید رنج و صدمہ پہنچا کے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم ایک ماہ تک نمازِ فجر میں ان قبائل کے لیے دُعَائے ضَرَر فرماتے رہے۔ [سیرتِ مصطفےٰ ﷺ، ص۲۹۴-۲۹۶، ملخصًا] یہ واقعہ بئرِ معونہ کے مقام پر پیش آیا تھا اس لیے تاریخ میں اسے اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
[72]...الاصابة، كتاب النساء، حرف الميم، القسم الاول ، مليكة الانصارية، ٨/٣٥٥.
[73]...اسد الغابة، باب الزاء والياء، زيد بن ملحان، ٢/٣٧٦.
[74]...الاصابة،حرف الزاء، القسم الاول،من اسمه زيد، زيد بن ملحان، ٢/٥٢٣.
[75]...فتوح البلدان، يوم قس الناطف وهو يوم الجسر، ص٣٥٢.
[76]...الاصابة، كتاب النساء، حرف الميم، القسم الاول ، مليكة الانصارية، ٨/٣٥٥.
[77]...طبقات ابن سعد، طبقات البدريين من الانصار، حرام بن ملحان، ٣/٣٩٠.
[78]...الاصابة، كتاب النساء، حرف الميم، القسم الاول، مليكة الانصارية، ٨/٣٥٥.
[79]...الاصابة، كتاب النساء، حرف الميم، القسم الاول ، مليكة الانصارية، ٨/٣٥٥.
[80]...الاصابة، كتاب النساء، فصل فيمن عرف بالكنية من النساء، حرف الحاء، ام حرام بنت ملحان، ٨/٤٢١.
[81]...بخاری، كتاب الجهاد والسير، باب الدعا بالجهاد والشهادة...الخ، ص٧٢٥، حديث:٢٧٨٩، ملخصًا
[82]...عمدة القارى، كتاب الجهاد و السير، باب الدعاء بالجهاد...الخ، ١٠/٨٨، تحت الحديث:٢٧٨٩، ملتقطًا.
[83]...الاصابة، كتاب النساء، حرف الحاء، القسم الاول، ام حرام بنت ملحان، ٨/٤٢١.
[84]...طبقات ابن سعد، و من نساء بنى عدى بن النجّار، ام عبد الله بنت ملحان، ٨/٣٢٠.
[85]...مشكاة المصابيح، كتاب المناقب، باب جامع المناقب، الفصل الثالث، ٢/٤٥٧، الحديث:٦٢٦١.
[86]...بخارى، كتاب مناقب الانصار، باب: ﴿وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ...الخ﴾، ص٩٥٧، الحديث:٣٧٩٨.
[87]...الترغيب والترهيب، کتاب التوبة والزهد، الترغيب فى الزهد فى الدنيا...الخ، ص١٠٢٢، الحديث:٨٦
[88]...تهذيب الكمال، کتاب النساء، باب الكنى من كتاب النساء، ام سليم بنت ملحان، ٣٥/٣٦٥.
[89]...مسند امام احمد، مسند النساء، حديث ام سليم رضى الله عنها، ١١/١٩٥، حديث:٢٧٨٧٩.
[90]...کلیات اقبال، بانگ درا، حصَّہ اوَّل، بچے کی دعا، ص۶۵.
[91]...مسلم، كتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال، ص٧٢٥، حديث:١٨١٠.
[92]... ایک قسم کا دھاگہ جو کمان کے دونوں کناروں پر باندھ کر تیر چلانے کے کام آتا ہے۔
[93]...بخارى، كتاب مناقب الانصار، باب مناقب ابى طلحة، ص٩٦٠، حديث:٣٨١١.
[94]...مسلم، كتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال، ص٧٢٤، حديث: ١٨٠٩.
[95]...بخاری، كتاب بدء الايمان، باب حب الرسول صلى الله عليه وسلم من الايمان، ص٧٤، حديث:١٥
[96]...العلل الكبير، ابواب الصلاة، فى الرجل يصلی ومعه...الخ، ص٦٧، حديث:٩٦.و معجم الاوسط، من اسمه محمد، ٥/٢٩، حديث:٦٤٨١.
[97]...بخاری، كتاب الاذان، باب المراة وحدها تكون صفا، ص٢٣٩، حديث:٧٢٧.
[98]...عمدة القارى، كتاب الاذان، باب المراة وحدها تكون صفا، ٤/٣٦٣، تحت الحديث:٧٢٧.
[99]...مسلم، كتاب الفضائل، باب طيب عرق والتبرك به، ص٩١٣، حديث:٢٣٣١.
[100]...مسلم، كتاب الفضائل، باب طيب عرق والتبرك به، ص٩١٣، حديث٢٣٣٢.
[101]...مسند ابن الجعد، الجزء التاسع، عبد الكريم بن مالك الجزری، ص٣٢٩، حدیث:٢٢٥٥، ملتقطًا.
[102]...نسائی، كتاب الاشربة، ذكرالاشربة المباحة، ص٩٠٤، حديث:٥٧٦٤.
[103]... شفا، القسم الثانى، الباب الثالث، فصل و من اعظامه واكباره، الجزء الثانى، ص٤٧.
[104]...فتاویٰ رضویہ، ۲۱/۴۱۲.
[105]...فتاویٰ رضویہ، ۲۱/۴۱۵.
[106]...مسند ابى يعلى، مسند انس بن مالك...الخ، شريك عن انس، ٣/١٩٤، حديث:٣٦٢٤، ملتقطًا.
[107]...بخاری، كتاب المناقب، باب علامات النبوة فى الاسلام، ص٩١١، حديث:٣٥٧٨.
[108]...بخارى، كتاب النكاح، باب الهدية للعروس، ص١٣٢٨، حديث:٥١٦٣.
[109]...مسلم، كتاب النكاح، باب زواج زينب...الخ، ص٥٣٥، حديث:١٤٢٨.
[110]...مسلم،كتاب النكاح، باب زواج زينب...الخ، ص٥٣٥، حديث:١٤٢٨.
[111]...ابن ماجة، كتاب الاطعمة، باب الدباء، ص٥٣٧، حديث:٣٣٠٣.
[112]...مسند امام احمد، مسند المكثيرين من الصحابه، مسند انس بن مالك،٥/٣٥٥، حديث:١٢٦٠٠.
[113]...مسند ابى يعلى، مسند انس بن مالك...الخ، ابو عمران الجونى، ٣/٣٥٣، حديث:٤٢١٣، ملخصًا.
[114]...مرقاة المفاتيح، كتاب المناسك، باب الحلق، الفصل الاول، ٥/٥٥٦، تحت الحديث:٢٦٥٠.
[115]...بخارى، كتاب النكاح، باب الهدية للعروس، ص١٣٢٨، حديث:٥١٦٣.
[116]...سانحۂ بئر معونہ میں حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کےبھائی حضرت حرام بن ملحان اور حضرت سُلَیْم بن ملحان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا شہید ہوئے جیسا کہ پیچھے بیان ہوا۔
[117]...بخارى، كتاب الجهاد و السير، باب فضل من جهز غازيا...الخ، ص٧٣٧، حديث:٢٨٤٤.
[118]...مسلم، كتاب الحج، باب بيان ان السنة يوم النحر...الخ، ص٤٨٥، حديث:١٣٠٥، ملخصًا.
[119]...طبقات ابن سعد، ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم...الخ، صفيه بنت حيى، ٨/٩٦، ملتقطًا.
[120]...بخارى، كتاب الصوم، باب من زار قوما فلم يفطر عندهم، ص٥٢١، حديث:١٩٨٢.
[121]...بخارى، كتاب فضائل اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب مناقب عمر بن الخطاب...الخ، ص٩٣٣، حديث:٣٦٧٩.
[122]...سير اعلام النبلاء، ام سليم بنت ملحان، ٣/٥٤١.
[123]... معرفة الصحابة، ذكر الصحابيات من البنات...الخ، باب الراء، ٥/٢٣٦.
[124]... الاصابة، حرف السين، القسم الاول، ام سليم بنت ملحان، ٨/٤٦٢.
[125]...الاصابة، حرف السين، القسم الاول، ام سليم بنت ملحان، ٨/٤٦٢.
[126]...معجم کبیر، باب الياء، ما اسندت ام سليم، ١٠/٤٦٢، حديث:٢٠٨١٣.
[127]...معجم الاوسط، باب العين، من اسمه على، ٣/١٦٥، حديث:٤٢٠٠.
[128]...معجم الاوسط، باب الميم، من اسمه محمد، ٥/١٠٥، حديث:٦٧٣٥.
[129]...كنز العمال، كتاب الشمائل من قسم الافعال، شمائل متفرقة، الجزء السابع، ٤/٨٥، حديث:١٨٦٨٣
[130]...میں نے مدنی برقعہ کیوں پہنا، ص۲۱.