اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
سرکارِنامدار،مدینےکےتاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ خُوشبودار ہے:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خاطر آپس میں محبت رکھنے والے جب باہم ملیں اور مصافحہ کریں اور نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرودِ پاک بھیجیں تو ان کے جُدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئيے جاتے ہیں ۔ ([1])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مختلف اَدْوار میں تبلیغِ دین اور اَمْرٌ بِا لْمَعْرُوْف وَ نَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَر (نیکی کا حکم دینے اوربرائی سےمنع کرنے)کےعظیم جذبےکی خاطرجن صوفیائےکرام اور اولیائے عظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُتَعَالٰی کی ایک بڑی تعداد نے برصغیر پاک وہند کی طرف ہجرت کی اور اپنی زبانی،قلمی اورعملی نیکی کی دعوت کے ذریعےمخلوقِ خدا کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی وحدانیت اورہمارے پیارے آقاحضرت محمدمصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت سے روشناس کروایا،معرفتِ الٰہی کا رستہ بتلایا،عشق ِرسول کا جام پلایااورحسنِ اخلاق کے اصولوں سے روشناس کروایاان میں سے ایکشیخُ الاصفیا ء،سلطانُ الاولیا حضرت
سلطان سخی سرورسیّد احمد کاظمی قادری سہروردی شہیدرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی ذات بابرکت بھی ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےفیضان سےآج شجرِ اسلام سرسبزو شاداب ہےاورسیکڑوں سال گزرجانے کے بعد بھی آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عقیدت و محبت لوگوں کے دلوں میں قائم ہے۔آئیے! حصولِ برکت اور نزولِ رحمت کے لیے آپ کا ذکرِ خیر کرتے ہیں۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتسَیِّدُنا سلطان سخی سرورعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر کے والدِ ماجدحضرت سَیِّدُنا زینُ العابدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن ولیٔ کامل اور زبردست عاشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے آپ بائیس برس تک سرکارِمکہ مکرَّمہ،سلطانِ مدینہ مُنَوَّرہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے روضۂ اقدس کی برکتوں سے فیض یاب ہوتےرہے۔ایک رات سوئےتو قسمت انگڑئی لے کرجاگ اُٹھی اور خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیں حاضر ہیں اورپیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ حکم ارشاد فرما رہے ہیں :”تم اب ہندوستان جاؤ اور وہاں خطۂ پنجاب میں قیام کرکے اسلام کی تبلیغ کرو،لوگوں کواللہتعالیٰ اوراللہ تعالٰی کے نبی برحق کا سیدھا راستہ بتاؤ۔“چنانچہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت سَیِّدُنا زینُ العابدین عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن ۵۲۰ھ مطابق
1128ء میں پنجاب تشریف لائے،مدینۃُ الاولیا(ملتان) کے قریب شاہ کوٹ([2]) نامی ایک گاؤں میں قیام فرمایا،حصول ِ رزق کے لئے زراعت کا پیشہ اختیار فرمایااورنیکی کی دعوت کے ذریعےبے شمُار لوگوں کو راہِ ہدایت سے رُوشناس اور اپنے فُیوض و برکات سے مُسْتفیض فرمایا۔([3])
جب حضر ت سَیِّدُنا زین ُالعابدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کوشاہ کوٹ کے مسلمانوں میں فیض عام کرتےہوئےدو سال کا عرصہ گزرا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی زوجہ ٔ محترمہ کاانتقال ہوگیا۔گاؤں والوں نےاس خوف سے کہ اگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہیں اور تشریف لے گئے تو ہم آپ کے فُیوض وبرکات سے محروم ہوجائیں گے لہٰذا انہوں نے باہمی مشورے کے بعدایک زمیند ار کی صاحبزادی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کانکاح کروادیا۔ دوسال بعدانہی کےبطنِ مبارک سے شیخُ الاصفیاء، سلطانُ الاولیاء حضرت سَیِّدُناسلطان سخی سرورعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَرکی ولادت باسعادت ہوئی ۔ ([4])
حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر بروز پیر صبح کی سُہانی گھڑیوں میں ۱۴
ذُو الحجۃ ۵۱۱ھ کو شاہ کوٹ (سروری کوٹ ضلع ڈیرہ غازی خان پنجاب پاکستان )میں پیدا ہوئے ۔ ([5])
آپ کا نام سَیِّداحمد بن سَیِّد زین العابدین بن سَیِّد عمر بن سَیِّدعبد اللطیف ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے القاب تو بہت ہیں مگرآپ ” سخی سرور “کے لقب سے مشہورو معروف ہیں۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلۂ نسب چند واسطوں سے سَیِّدُالشُہداء حضرت سَیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےجا ملتا ہے۔([6])
حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے اکثر اوقات والد ماجد سے شرعی مسائل سیکھتے رہتے۔ ان دنوں مرکزالاولیا (لاہور )میں مولانا سَیِّد محمد اسحاق لاہوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کے علم و فضل کا بڑا شہرہ تھا لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو عُلومِ ظاہری حاصل کرنے کے لئے لاہور بھیج دیاگیا۔ مولانا سَیِّد محمد اسحاق لاہوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی محبت اورتعلیم وتربیت کی بدولت حضرت سَیِّدُناسخی سروررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاُن تمام صلاحیتوں اور صفات سے مُتَصِّف ہوگئے جو ایک عالمِ دین کا خاصہ ہوتی ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے تحصیلِ علم کے بعد والدِ ماجد
کا پیشہ زراعت اختیار کیا لیکن زیادہ تر وقت یادِ الٰہی میں ہی بسر ہوتا،ظاہری علوم کے حصول کے بعدباطنی علوم حاصل کرنے کا جذبہ و اشتیاق میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ، والد ماجد اپنے ہونہار بیٹےکا شوق و ولولہ دیکھ کرایک مرشد کی طرح تربیت فرمانے لگے ۔([7])
بچپن ہی سے حضرت سَیِّدُنا سخی سرورعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر کی طبیعت میں فیاضی اور سخاوت کا عنصر موجود تھا چنانچہ ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے چند بکریاں لیں اور جنگل پہنچ کر انہیں چَرنے کےلئے چھوڑ دیااورخودایک درخت کے نیچے عبادتِ الٰہی میں مشغول ہوگئے اسی دوران چالیس فقیروں کا وہاں سے گزرہوا توانہوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے کھانا مانگا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: ”میرے پاس یہی بکریاں ہیں آپ انہیں ذبح کرکے کھالیں۔“ان فقیروں نے بکریاں ذبح کیں اورپکا کر اپنی بھوک مٹائی ۔جب سعادت مند بیٹے کی سخاوت وفیاضی کی خبر والدِ ماجد حضرت سَیِّدُنا زینُ العابدین عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن کوہوئی تو اسی وقت تشریف لائے اوراس کارِ خیر پردادِ تحسین دیتے ہوئے فرمایا:”بیٹا! تم نے فقیروں کو کھانا کھلاکر بہت اچھا کیا۔“پھر حضرت سَیِّدُنا زینُ العابدین عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن نے بکریوں کی ہڈیاں اور
کھالیں جمع کرکے اُن پر اپنی چادر ڈالی اوربارگاہ ِالٰہی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئیے ،دعا ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ چادر میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک ایک کرکے تمام بکریاں چادر کے نیچے سےزندہ سلامت نکل آئیں۔([8])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ حکایت میں بکریوں کاذبح ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اٹھ جاناا گرچہ عادۃً ممکن نہیں مگر یہ حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر کے والد ماجد کی کرامت([9]) تھی جو اللہعَزَّ وَجَلَّ کے مقبول بندوں سے صادر ہوتی رہتی ہیں نیز اس واقعے سے ہمیں راہ خدا میں صدقہ وخیرات کرنے کا بھی درس ملتا ہے۔یاد رکھئے! صدقہ و خیرات کرنا ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عظیم سنّت ہے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےدرِ جودو سخاوت سے کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ جاتا ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف یعنی بارگاہ ِ نبوت سے تربیت پانے والے صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین ، اولیائے کاملین و علمائے دین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْبھی صدقہ و خیرات کے ذریعے فقراء و مساکین کی مدد کرکے اس کی
برکات سے فیض یاب ہوتے رہے الغرض یہ سلسلہ صدیوں پر مُحیط ہے اور تا قیامِ قیامت جاری رہے گا۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
قرآنِ پاک میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے کئی مَقامات پر صَدقہ و خیرات کے فضائل اور اس پر ملنے والے اجرو ثواب کو بیان فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ 3سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 261میں ارشاد ہوتا ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱) (پ۳، البقرۃ: ۲۶۱)
ترجمۂ کنزالایمان:انکی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خَرْچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اُوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اوراللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہےاوراللہ وُسْعَت والا عِلْم والا ہے۔
حضرت سَیِّدُنا امام خازن ابو الحسن علاءُ الدين علی بن محمد بن ابراہیم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:راہِ خُدا میں خَرْچ کرنا خواہ واجِب ہو یا نَفْل، تمام اَبوابِ خیر کو عام ہے۔([10]) اورصَدرُ الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سَیِّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی فرماتے ہیں: کسی طالب عِلْم کو کتاب خرید کر دی جائے یا
کوئی شِفا خانہ بنادیا جائے یا مُردوں کے ایصالِ ثواب کے لئے تیجہ، دسویں، بیسویں، چالیسویں کے طریقے پر مساکین کو کھانا کھلایا جائے، سب راہِ خُدا میں خَرْچ کرنا ہی ہے۔ ([11])
اسی طرح عِلْمِ دین کی اشاعت میں حصّہ لینا، دینی مَدَارِس کی مَدَد کرنا،مَسَاجِد بنانا، دینی کُتُب کے لیے لائبریری بنانا، مُسافِر خانے بنانا،ضَرورت مندپڑوسیوں اور رِشتہ داروں کی مَدَد کرنا، محتاجوں،اَپاہجوں اور غریبوں کے علاج مُعالَجہ اور مَقْروضوں کےقرض کی ادائیگی کے لیے خَرْچ کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں کہ ان میں سے جس کام میں بھی خَرْچ کریں گے وہ راہِ خُدا میں خَرْچ کرنا ہی کہلائے گا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُنا سخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَرکے ناناجان ایک زمین دار تھے۔ ناناجان کے انتقال کےبعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی والدہ ماجدہ کو وراثت میں کافی جائداد ملی۔بعد ازتقسیم آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے حصے میں آنے والی زمین چونکہ بظاہر خراب و بنجر تھی لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےصبر وشکر کے ساتھ والدہ ماجدہ کے حکم سے اسی خراب و بنجر زمین پر کاشت شروع کردی اور فرمایا: اس
کھیت کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حوالے کیا ۔جب بارش ہوئی اور فصل پک کر تیار ہوگئی توفضلِ الٰہی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی فصل بہت زیادہ ہوئی جبکہ دیگررشتہ داروں کی فصل انتہائی ناقص تھی،یہ دیکھ کر وہ حسد کی آگ میں جل بُھن کر رہ گئے،پہلے تو انھوں نے زمین کی تقسیم پر اعتراض کیا اوراب آپ کی فصل سے حصہ مانگنے لگے ۔ ([12])
وہاں کا معمول تھا کہ جب کبھی غلے کے ڈھیر لگتے تو رات کو شیر آتا اورغلے کی حفاظت کرنے والے کو نقصان پہنچاتا ،چنانچہجب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی فصل کٹ گئی اور غلے کے ڈھیر لگ چکے تو خالہ زاد بھائیوں نےآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو نقصان پہنچانے کی غرض سے مشورہ دیا کہ زمین ہماری مشترکہ ہے لہٰذا غلے کی حفاظت کے لئے آپ کھیت میں ہی رات گزاریں ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ان کی یہ بات بھی مان لی ۔حضرت سیّدنا سخی سرور رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کھیت پہنچے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہےاسی دوران شیر آیا اور ساری رات آپ کی رکھوالی کرتا رہا،صبح ہوتے ہی شیر واپس جنگل چلا گیا ۔([13])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کسی مسلمان کا نقصان چاہنا اور جان بوجھ کر اسے غلط مشورہ دینا ناجائز وگناہ ہےایسےشخص کو حدیثِ پاک میں خائن(خیانت کرنے والا)
کہا گیا ہے۔چنانچہ رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا: جو اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ یہ جانتے ہوئےدے کہ درستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس سے خیانت کی۔([14])
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰناس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ کرے اور وہ دانستہ (جان بوجھ) غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو وہ مشیر (مشورہ دینے والا)پکا خائِن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی،راز، عزت،مشورے تمام میں ہوتی ہے۔([15])
اے ہمارےپاک پر وردگار عَزَّ وَجَلَّ!ہمیں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناور اولیائے عظام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکے صدقے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خوب خیر خواہی کرنے کاجذبہ عطا فرمااور مل جُل کر دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم
حاکم کو ٹیکس ادا کرنےکا وقت آیا توخالہ زاد بھائی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس پہنچے اورایک مرتبہ پھر نقصان پہنچانے کی نیت سے کہنے لگے:ہم ٹیکس ادا کرنے جارہے ہیں،آپ ہمارے ساتھ چلیں گے؟چنانچہ والد ماجد کی اجازت سے
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے خالہ زاد بھائیوں کے ہمراہ مدینۃُ الاولیاء(ملتان) روانہ ہوگئے۔ ادھر شہر کا حاکم گھنوں خان سیر کے لئے قلعہ کی فصیل پر آیا تو اچانک اس کی نظر کچھ ایسے افراد پر پڑی جو قلعہ کی جانب بڑھ رہے تھے، حاکم یہ دیکھ کر گھبرا گیاکہ یہ کون سی مصیبت گلے پڑ گئی اس نے سپاہیوں کو دوڑایاتو انہوں نے آکر خبر دی کہ فوج نہیں ہے پانچ زمینداروں کے ساتھ ایک سیّد صاحب تشریف لارہے ہیں اور انہی کے سر پر بادل نے سایہ کیا ہوا ہے۔حاکم سمجھ گیا کہ یہ ضرورکوئی وَلِیُّ اللہ ہیں جو کسی وجہ سےیہاں تشریف لائے ہیں۔([16])
حاکم نے وزیر سے کہاکہ ہمیں مزید دیکھنا چاہیے کہ یہ کامل ولی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ اس نے بطورآزمائش ملازموں کو حکم دیا کہ سیّد صاحب کے پاس ایک جگ اور کچھ خالی برتن ڈھک کر لے جائیں، اگریہ ولی کامل ہیں تو غیب سے ان کے لئے کھانا اورپانی آجائے گا۔ چنانچہ ملازم ڈھکے ہوئے خالی برتن اور جگ لے کر حضرت سَیِّدُنا سخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر کی خدمت میں پہنچےجونہی آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کپڑا ہٹایا تو جگ پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا اوربرتنوں میں مختلف اقسام کے کھانے موجود تھے جن کی خوشبو سے کمرہ مہک ا ُٹھا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے چند لقمے تناول فرمانے کے بعدملازموں سے فرمایا: اسے حاکم کے پاس لے جاؤ۔حاکم آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہکی یہ کرامت دیکھ کر حیران رہ گیا ۔([17])
اسی اَثنا میں بعض رشتہ داروں نے نقدی حاکم کو پیش کی اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں غلط بیانی کرنے لگے، یہ سُن کر حاکم ناراض ہوا کہ یہ لوگ ایک وَلِیُّ اللہ کے بارے میں غلط بات کررہے ہیں، چنانچہ اس نےآپ کے رشتہ داروں کو جیل میں بند کردیااورآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو عمدہ لباس و گھوڑا اور ڈھیر ساری نقدی دے کر رخصت کیا۔([18])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حاکم کے پاس سے فارغ ہوکر سیدھے قید خانے پہنچے اور فرمايا: جہاں ہمارے بھائی ہوں گے ہم بھی وہیں رہیں گے ،حاکم کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے فوراً آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےرشتہ داروں کی آزادی کا پروانہ جاری کردیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پھر فرمایا:دوسرے قیدی بھی ہمارے بھائی ہیں وہ جب تک قید ہیں ہم یہاں سے نہیں جائیں گے، بالآخر تمام قیدیوں کو رہائی نصیب ہوئی، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حاکم کی جانب سے ملی ہوئی ساری نقدی ان میں تقسیم فرمادی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے ہمارے اسلافِ کرام حسنِ اخلاق
اور عفوودرگزرکے کیسے اعلی مراتب پر فائز تھے کہ اگر کوئی ان کا براچاہتا تو یہ حضرات بدلے کی قدرت کے باوجود رضائے الہی کی خاطر اسے معاف فرمادیا کرتے۔اس واقعے میں ہمارے لئےیہ بھی درسِ عبرت ہے کہ جو کسی پر احسان کرتا ہے اس پر بھی احسان کیا جاتاہے اور جو دو سروں کی تباہی وبربادی کا خواہاں ہوتا ہے وہ خود ہی تباہ و بر باد ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی بزرگانِ دین کی سیرت پر چلتے ہوئے عفوودرگزراور حسنِ اخلاق سے پیش آنا چاہیے اورقرآن وحدیث میں بھی ہمیں اسی بات کی تعلیم دی گئی ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(۳۴)وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْاۚ-وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(۳۵) (پ ۲۴ ،حم سجدہ:۳۴،۳۵)
ترجمۂ کنزالایمان:اے سننے والے برائی کوبھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست اوریہ دولت نہیں ملتی مگر صابرو ں کو اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا ۔
حضرتِ سَیِّدُنا ابن عباس رِضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما’’ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ‘‘(ترجمۂ کنزالایمان: اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :اس سے مراد غصے کے وقت صبر کرنااوربرائی کے وقت معاف کردینا ہے، جب لوگ ایسا کریں گے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ
دشمنوں سے ان کی حفاظت فرمائے گا اور ان کے سامنے دشمنوں کو جھکا دے گا ۔([19])
حضرتِ سَیِّدُنا عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جس کے سبب اللہعَزَّ وَجَلَّ درجات کو بلند فرماتا ہے ؟صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نےعرض کیا: یارسُولَ اللہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور فرمائیے۔فرمایا:جو تمہارے ساتھ جہالت کا برتاؤ کرے اسکے ساتھ بردباری سے پیش آؤ اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو اورجوتمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم سے قطع تعلقی کرے اسکے ساتھ صلہ رحمی کرو۔([20])
حضرتِ سَیِّدُنا سہل بن معاذرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمااپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبیٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود غصہ پی لے اللہعَزَّ وَجَلَّ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا تاکہ اس کو اختیار دے کہ جنت کی حوروں میں سے جسے چاہے پسند کر لے۔([21])
حاکم آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کرامت اور حسنِ اخلاق سے بہت متاثر ہوااور
کہنے لگا:”میری بیٹی کو اپنے نکاح میں قبول فرمالیجئے۔“آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:میں اپنے والدین کی اجازت کے بغیر یہ نکاح نہیں کروں گا۔چنانچہ والدین کی رضا سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نکاح حاکمِ شہر کی صاحِبزادی سے ہوگیا۔([22])
میٹھے میٹھےاسلامی بھائیو!حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر کی سیرتِ مبارکہ سے ہمیں یہ مدنی پھول بھی ملاکہ نکاح جیسے اہم کام میں بھی والدین کی خوشنودی کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے ۔یاد رکھئے!اسلام میں نکاح ایک مُقَدس عہد وپیمان ہے جو مرد و عورت کے درمیان قائم ہوتا ہے،جس دینِ متین نے اس مقدس اور پاکیزہ رشتے کو قائم کرنے میں عاقل بالغ مرد وعورت کو اختیار دیا ہے اسی نے والدین کے ساتھ ادب واحترام، مہربانی اور حسنِ سلوک کا درس دیا ہےاور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی خواہش پوری کرنے کا حکم فرمایا ہے لہٰذا لڑکے یا لڑکی کا اپنی مرضی سے والدین اور خاندان والوں سے چُھپ کر نکاح کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں اور بعض صورتوں میں تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔جہاں عشقِ مجازی کے چکر میں پڑ کر خواب وخیال کی نئی دنیا بسانے کا سوچتے ہیں وہیں والدین کی عزت کی دھجیاں بکھیر کر انہیں ذلت و رسوائی کے کئی داغ دے جاتے ہیں جنہوں نےبچپن سے لے کر جوانی تک ناز اٹھائے، پال پوس کر جوان کیا بالآخرانہی کے حقوق پامال کرکے اپنے گلے میں احسان فراموشی کا طوق ڈال لیتے ہیں بلکہ خود اپنے لئے
دینی و دنیاوی مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کر لیتے ہیں اس معاملے میں اپنی چلانے والوں کو بدنام و رُسوا ہوتے ہی دیکھا گیا ہےاور جب عشقِ مجازی کا بھوت سر سے اترتاہے تو کفِ افسوس ملتے ہی دیکھا گیا ہے۔شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علامہ مولانا ابوبلال محمد اِلیاس عطّارؔ قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سوال وجواب کا انداز اختیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
سُوال:عشقِ مَجازی کرنے والے بعض نوجوان گھر والوں کی مخالَفَت کے باوُجُود کورٹ میں جا کر شادی کر لیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا مناسب ہے؟
جواب:ہرگز مُناسب نہیں بلکہ لڑکا اگر لڑکی کا کُفو([23]) نہ ہواور لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا ہو تویہ نکاح ہی باطِل ٹھہرے گا! بِالفَرض کُفوبھی مل گیا اور نکاح بھی مُنعَقِد ہو گیا تب بھی کورٹ میں جا کر شادی کرنے والوں سے ماں باپ کی سخت دل آزاری ہوتی، اہلِ خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگ جاتااور دیگر بھائی بہنوں کی شادیوں میں رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ نیز ایسا کرنے سے اکثر غیبتوں ، تہمتوں، عیب دریوں،بدگمانیوں اور دل آزاریوں وغیرہ وغیرہ گناہوں کا دروازہ کُھل جاتا ہے لہٰذا ہرگز ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہئے۔([24])
اللہعَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی نکاح اور دیگر جائز کاموں میں والدین کی رضا ملحوظِ خاطر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر والدِ ماجد حضرت سَیِّدُنا زینُ العابدین عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن کے زیرِ سایہ راہِ سلوک کی منازل طے کر رہے تھے کہ اُن کا انتقال ہوگیا، ایک طرف توشفیق والد کےسائبان سےمحرومی کاصدمہ تو دوسری جانب خالہ زاد بھائیوں کی بےمروتی بلکہ دشمنی اور ایذا رسانی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا دل شاہ کوٹ (سروری کوٹ)سے اُچاٹ ہوگیا کوئی چاہت نظر نہ آئی، ہر طرف اداسی ہی اداسی نظر آئی ۔لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سیاحت کا ارادہ کیا اورکسی ولی کامل کی بارگاہ میں حاضر ہوکر راہِ سلوک کی منازل طےکرنے کا فیصلہ کیا۔اس دورمیں عروسُ البلاد ”بغداد ِ مُعلّٰی“اسلامی علوم و فنون کا مرکز ومنبع سمجھا جاتاتھا جہاں دور دور سے لوگ اپنی علمی اور روحانی پیاس بجھانے آتے۔ پیرانِ پیر، روشن ضمیر ،حضور غوث ِاعظم شیخ عبدُ القادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی اس وقت بغدادِمُعلّی کی سرزمین پر رہ کر عالَمِ اسلام میں اپنا فیض لٹا رہے تھے۔([25])
حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر سفر کی تکالیف برداشت کرتے ہوئے اور مشکلات جھیلتے ہوئے بغداد شریف پہنچےاور حضور غوث پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دستِ اقدس پر بیعت کا شرف حاصل کیااور اکتسابِ فیض کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کچھ عرصے شیخُ الشُیُوخ حضرت سَیِّدُناشیخ شہابُ الدین سہروردی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی صحبت سے بھی مستفیض ہوئے۔([26])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسلسلہ عالیہ قادریہ کے عظیم بزرگ تھے پاک وہند میں آپ کی شہرت و مقبولیت ، ولایت اوربزرگی کا چرچا ہے لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کسی کو اپنا خلیفہ مقرر نہ فرمایا اس لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا سلسلہ مشہور نہ ہوا مگر اس کے باوجود آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عقیدت مندوں کا شمار نہیں،جس کا نظارہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے عرس کے موقع پرکیا جاسکتا ہے۔ ([27])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اولیائے کرام اللہعَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندے، تقویٰ و پرہیزگاری کے پیکر اور ہرمعاملے میں اطاعتِ الٰہی سے مُزیّن ہوتے ہیں۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے ان مقبول بندوں کو طرح طرح کے اختیارا ت سے نوازتا ہے اوران سے ایسی کرامات صادِر ہوتی ہیں جو عقلِ انسانی سے وَراء ُ الوَرا ہوتی ہیں ۔ آئیے!
حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر کی چند کرامات ملاحظہ کیجئے:
ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جنگل میں نماز پڑھ رہے تھے قریب ہی درخت کے نیچےایک غیرمسلم تھکا ہارابیٹھا تھا جس کے اکلوتے بیٹے کوجِن اٹھا کر لےگیا تھا اور یہ اس کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔اِس پریشان حال اور مصیبت کے مارے کی نظر جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پر پڑی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اورہاتھ جوڑ کر عرض گزار ہوا :حضور! میرا ایک ہی بیٹا تھا جو گم ہوگیا ہے ،اگر آپ اسے مجھ سے ملادیں تو میں مسلمان ہوجاؤں گا۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نےدعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دئیے،دعا سے فراغت کےبعدآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپناہاتھ آگے بڑھاکر زور سے جھٹکا تو وہ لڑکا آپ کے سامنے موجود تھا ۔لڑکے کے والد نے جیسے ہی اُسے دیکھا تو فرط ِ مَحَبَّت سے لپٹ کرخوب رونے لگا، جب سیل اشک رُک گیا تواس نے اپنےلختِ جگر سے پوچھا : تم کہاں چلے گئے تھے؟اس نے بتایا کہ ”ایک جِن مجھے اٹھاکر لے گیا تھاابھی انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر آپ کے سامنے کردیا ۔“اس کے بعد وہ غیر مسلم اپنے پورے خاندان سمیت مسلمان ہوگیا ۔([28])
ایک مرتبہ دہلی شہر میں ایسی وبا پھیلی کہ بہت سے لوگ اس کا شکار ہوکر
مرنے لگے۔دہلی میں ایک شریف گھرانہ ایسا بھی تھا جو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سےبے انتہا مَحَبَّت وعقیدت رکھتا تھا وہ بھی اس وبا کی زد میں آگیا ۔چنانچہ اس گھر کا سربراہ سیکڑوں میل کا سفر طے کرنے کے بعد حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر کی بارگاہ میں حاضرہوا اور اپنی پریشانی عرض کی۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے تھوڑا سا نمک دیا اور فرمایا:” گھر کے نمک میں ملاکر استعمال کرو۔“چنانچہ اس شخص نےگھر جاکر ایسا ہی کیا تو اللہعَزَّ وَجَلَّ نےاس کے اہلِ خانہ کو شفا عطا فرمادی ۔ ([29])
ایکدفعہ سوہدرہ کی حکومت کےایک افسر جن کا نام عمر بخش تھا سخت بیمار ہو گئے۔ان کے اہل خانہ نے علاج معالجے کی بہت کوششیں کیں لیکن وہ شفا یاب نہ ہو سکے، وہ لوگ حضرت سلطان سخی سرور رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دعا کی اِلتماس کرنےلگے، ابھی وہ بیماری اوراپنی پریشانی کا بتا ہی رہے تھےکہ حضرت سلطان سخی سرور رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے زمین سے تھوڑی سی مٹی اٹھا کر انہیں دی اورفرمایا :اس مٹی کی ایک خوراک مریض کو کھلادو!اہل خانہ نے وہ مٹی لے جاکر عمربخش کو کھلائی۔ مٹی کھانے کے بعد وہ حیرت انگیز طور پر فوراً صحت یاب ہوگئے اور اسی دن سے کام
کاج بھی شروع کردیئے ۔([30])
دھونکل میں متعین حکومتی افسر’’جوندا‘‘حضرت سلطان سخی سرور رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گذار ہوا:حضرت! میں نے اپنے بیٹے دھونکل کے نام پر اس علاقے کا نام رکھا ہے مگر میرا بیٹا چند دنوں سے لاپتہ ہے، بہت تلاش کیا مگر کچھ پتا نہیں چل رہا، دعا فرمائیں کہ میرا بیٹا واپس آجائے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:وہ آج آجائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس کا بیٹا اسی دن اپنے گھر لوٹ آیا۔([31])
ایکدن حضرت سلطان سخی سروررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہدھونکل میں خلوت نشین ہو کر مصروفِ عبادت تھے،آس پاس وضو کے لئے پانی نہیں تھا، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنا عصا زمین پر مارا تو وہاں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا ۔آپ نے لکڑی کا ایک کھونٹا زمین میں ٹھونک دیا، کچھ دنوں بعدوہ لکڑی خودبخود سرسبز ہوگئی۔جہاں آپ نماز پڑھتے تھےوہاں لوگوں نے
مسجد تعمیر کر دی ۔([32])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
واپسی پرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ شاہ کوٹ کے بجائے سوہدرہ تشریف لے گئے جو مرکز الاولیا(لاہور)سےتقریباًساٹھ سترمیل کے فاصلے پروزیرآباد(ضلع گوجرانوالہ) سے متصل ہے۔یہاں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے دریائے چناب کے کنارےرہائش اختیار کی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دن رات عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے،جو دعابارگاہ الٰہی میں کرتے وہ قبول ہوجاتی۔ چند ہی دن میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بزرگی اورولایت کے چرچے عام ہوگئے، شہرت اور مقبولیت کا یہ عالَم ہوگیا کہ لوگ دور دور سے آکرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے گرد پروانہ وار جمع ہوجاتے ،جو حاجت مند درِ اقدس پر پہنچ جاتا دامنِ مراد بھر کر لے جاتا، دکھ درد اور تکلیف کا مارا آتا تو سکھ چین لے کر لوٹتا، پریشان حال آتا تو خوش باش ہوکرجاتا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہلوگوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تربیت بھی فرماتے۔ لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں نذر و نیاز پیش کرتے تو آپ سب کچھ غریب ومستحق افراد میں تقسیم فرما دیتے ،کبھی ایسانہ ہوا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے لئے بھی کچھ بچا کر رکھا ہو۔اسی وجہ سےلوگوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو”لکھ داتا“اور”سخی سرور
“جیسے القاب سے یاد کرنا شروع کردیا۔([33])
سوہدرہ کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ” دھونکل“نامی گاؤں کو شرف ِ قیام بخشا اور مخلوقِ خدا کو فیض یاب کیا ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی آمد سے قبل مقامی لوگ پانی کی قلت کا شکار تھے چند دنوں کےبعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی عبادت گاہ کے قریب پانی کاچشمہ جاری ہوگیا ۔([34])
حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَر کی ذاتِ بابرکت تبلیغِ اسلام اور اصلاحِ خلق کےلئے وقف تھی اسی لئے کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں فرمایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جہاں بھی جاتے کثیر آبادی ان کی عقیدت مند بن جاتی اور فُیوض وبرکات سے مُسْتفیض ہوتی۔ آپ رَحْمَۃُ ا للہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے خصوصیت کے ساتھ مرکزالاولیا (لاہور)،مدینۃُ الاولیا (ملتان)، دھونکل، سوہدرہ، ایمن آباد(ضلع گوجرانوالہ) اور ڈیرہ غازی خان میں قیام فرمایا۔ ([35])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو وطن سے جد اہوئے کئی سال بیت چکے تھے لہٰذا فطری
طور پر وطن کی محبت دامن گیر ہوئی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے رختِ سفر باندھا اور شاہ کوٹ تشریف لے آئے ،مگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی تشریف آوری بعض رشتہ داروںکو ایک آنکھ نہ بھائی اور پرانی دشمنی لوٹ آئی، ہونا تو چاہیے تھا کہ ولیٔ کامل کی آمد پر اپنی آنکھیں بچھاتے مگر آنکھیں دِکھانے لگے ،ہاتھ چومتے مگر ہاتھ اُٹھانے لگے، زبان سے تعریف و توصیف کے پھول لٹاتے مگر زہر میں بجھے طعن و تشنیع کے تیر چلانے لگے، ہمدرد و غمگسار بن کراپنی آخرت سنوارتے مگر حسد و جلن کی پٹی اپنی آنکھوں سے نہ اتارسکے،ولیٔ کامل کی عظمتوں کا اعتراف کرکے اُخروی درجات کی بلندی چاہتے مگر دنیا کی محبت غالب آئی اوراُخروی عذاب کے امیدوار ہوئے،ایک طرف تو پورا خطہ حضرت سَیِّدُناسخی سرور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَ کْبَرکے حسنِ اخلاق اور کرامات سے متاثر ہوکر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاعقیدت مند ہوچکا تھا ،ہر ایک کے نزدیک آپ کی شخصیت محترم اور قابلِ تعظیم تھی مگر دوسری جانب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےاپنو ں نے ہی ستانا شروع کردیا تھا۔ جب بعض رشتہ داروں کی عداوت حد سے بڑھنے لگی توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مستقل ہجرت کا ارادہ فرمالیا اور اپنی تمام زمین و جائداد ان کے حوالے کرکے ڈیرہ غازی خان میں ”نگاہہ “کی جانب تشریف لے گئےاور باقی زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت اور رُشد وہدایت میں گزاردی ۔([36])
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اپنا سارا مال واسباب اور جائداد خالہ زاد بھائیوں کے سپرد کرکے شاہ کوٹ سے ہجرت فرماچکے تھے مگران کا خیال تھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ان کے خلاف ایک مضبوط جماعت تیار کرکے واپس آئیں گے اوراپنے اوپرہونے والے ظلم و زیادتی کا بدلہ لیں گے ۔چنانچہ بدباطن اور سفاک خالہ زادبھائیوں نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو شہید کرنے کا انتہائی گھناؤنا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل کرنے کے لئے لوگوں کو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے خلاف اُ کساکرایک مضبوط جماعت تیار کرلی ۔([37])اور۲۲ رجبُ المُرَجّب ۵۷۷ ھ مطابق1181ءکو انتہائی سخت حملہ کرکے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو شدید زخمی کردیاآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمالیا۔حاسدین نے اسی پر بس نہ کی بلکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زوجہ اوردو بیٹوں کو بھی شہید کردیا۔بوقتِ شہادت آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عمر مبارک ۵۳ سال تھی ۔آپ کا مزارمبارک ڈیرہ غازی خان(جنوبی پنجاب ) سے مغرب کی جانب ۲۲میل دورمقام بستی سخی سرورکوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے پر واقع ہے۔مشہور مغل بادشاہ ظہیرُ الدین بابر نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے مزار مبارک کی تزیین وآرائش پر لاکھوں روپیہ خرچ کیا اور اسے تعمیر کرواکر اپنے لئے خوش بختی
کے دروازے کھولے۔
ایک شخص قندھار سے ملتان جارہاتھا،راستے میں پاؤں پھسلنے سے اُس کا اونٹ لنگڑا ہوگیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزار مبارک قریب تھا لہٰذا وہ اپنی التجا لے کر مزار مبارک پر حاضر ہوا ،اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اس کی یہ مشکل آسان فرمادی ۔ آپ کا مزار آج بھی مرجعِ خلائق ہے، لوگ دور دراز سے سفر کرکے مزارِ اقدس پر حاضر ہوکر اپنی خالی جھولیاں من مانگی مرادوں سے بھر تے ہیں۔([38])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے،سنتوں کی خوشبو پھیلانے،عِلْمِ دین کی شمعیں جلانے اور لوگوں کے دلوں میں اولیاءُاللہ کی محبت و عقیدت بڑھانے میں مصروف ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ(تادمِ تحریر) دنیا کے کم وبیش 200ممالک میں اس کا مَدَنی پیغام پہنچ چکا ہے۔ساری دنیا میں مَدَنی کام کومنظم کرنے کےلئے تقریباً 103سے زیادہ مجالس قائم ہیں،انہی میں سے ایک’’مجلسِ مزاراتِ اولیا‘‘بھی ہے جودیگر مدنی کاموںکے ساتھ ساتھ درج ذیل خدمات انجام دے رہی ہے۔
1. یہ مجلس اولیائےکرامرَحِمَہُمُاللّٰہ ُالسَّلَامکےراستےپرچلتےہوئےمزاراتِ مبارکہ پرحاضر ہونے والے اسلامی بھائیوں میں مَدَنی کاموں کی دُھومیں مچانے کیلئے کوشاں ہے۔
2. یہ مجلس حتَّی المَقدُورصاحبِ مزارکے عُرس کے موقع پراِجتماعِ ذکرونعت کرتی ہے۔
3. مزارات سے مُلْحِقہ مساجِد میں عاشِقانِ رسول کے مَدَنی قافلے سفرکرواتی اوربالخصوص عُرس کے دنوں میں مزارشریف کے اِحاطے میں سنّتوں بھرے مَدَنی حلقے لگاتی ہے جن میں وُضو،غسل،تیمم،نمازاور ایصالِ ثواب کا طریقہ، مزارات پر حاضری کے آداب اوراس کا درست طریقہ نیز سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتیں سکھائی جاتی ہیں۔
4. عاشِقانِ رسول کو حسبِ موقع اچھی اچھی نیتوں مثلاًباجماعت نمازکی ادائیگی، دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وارسنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت،درسِ فیضانِ سنت دینے یا سننے،صاحبِ مزار کے اِیصالِ ثواب کیلئے ہاتھوں ہاتھ مدنی قافلوں میں سفراورفکرِ مدینہ کے ذَرِیعے روزانہ مَدَنی انعامات کارسالہ پُرکرکے ہر مَدَنی یعنی قمری ماہ کی ابتِدائی دس تاریخوں کے اندراندراپنے ذِمہ دارکوجمع کرواتے رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
5. ’’مجلسِ مزاراتِ اولیا‘‘ایامِ عُرس میں صاحبِ مزارکی خدمت میں ڈھیروں ڈھیرایصالِ ثواب کاتحفہ بھی پیش کرتی ہے اورصاحبِ مزاربُزرگ کے سَجادہ
نشین،خُلَفَااورمَزارات کے مُتَوَلِّی صاحبان سے وقتاًفوقتاًملاقات کرکے اِنہیں دعوتِ اسلامی کی خدمات،جامعاتُ المدینہ و مدارِسُ المدینہ اور بیرونِ ملک میں ہونے والے مَدَنی کام وغیرہ سےآگاہ رکھتی ہے۔
6. مَزارات پرحاضری دینے والےاسلامی بھائیوں کوشیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی عطاکردہ نیکی کی دعوت بھی پیش کی جاتی ہے۔
اللہعَزَّ وَجَلَّ ہمیں تا حیات اولیائےکرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام کا ادب کرتے ہوئے ان کے در سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان مبارک ہستیوں کے صدقے دعوتِ اسلامی کو مزید ترقیاں عطا فرمائے ۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حلقہ نمبر1:مزارات اولیاء پر حاضری کا طریقہ
حلقہ نمبر2:وضو ،غسل اور تیمم کا طریقہ
حلقہ نمبر 3:نماز کا سبق
حلقہ نمبر 4:نماز کا عملی طریقہ
حلقہ نمبر5:راہ ِخدا میں سفر کی اہمیت ( مدنی قافلوں کی تیاری)
حلقہ نمبر6:درست قرآن پاک پڑھنے کا طریقہ
حلقہ نمبر 7:نیک بننے اور بنانے کا طریقہ(مدنی انعامات)
ہدایات:مدنی حلقہ مزار کے احاطے کے قریب ہوجس میں دو خیر خواہ مقرر کیے جائیں جو دعوت دے کر زائرین کو حلقے میں شرکت کروائیں۔ہر حلقے کے اختتام پر انفرادی کوشش کی جائے اور اچھی اچھی نیتیں کروائی جائیں اور نام و نمبر زمدنی پیڈ پر تحریرکیے جائیں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ کو مَزار شریف پرآنا مبارک ہو ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ !تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی طرف سے سُنَّتوں بھرے مَدَنی حلقوں کا سِلْسِلہ جاری ہے ،یقیناًزندگی بے حد مختصر ہے ،ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں ،عنقریب ہمیں اندھیری قبرمیں اُترنا اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا پڑے گا،اِن اَنمول لمحات کو غنیمت جانئے اور آئیے! اَحکامِ الٰہی پر عمل کا جذبہ پانے،مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنَّتیں اور اللہ کے نیک بندوں کے مَزارات پر حاضری کے آداب سیکھنے سکھانے کے لئے مَدَنی حلقوں میں شامل ہوجائیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کودونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرمائے۔([39])
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم
صفحہ |
عنوان |
صفحہ |
|
دُرُود ِپاک کی فضیلت |
|
شاہ کوٹ سے جدائی |
|
والدِ ماجد کی پنجاب آمد |
|
غوثُ الاعظم سے شرفِ بیعت |
|
شاہ کوٹ میں مستقل قیام |
|
﴿1﴾غائب کو حاضر کردیا |
|
ولادتِ باسعادت |
|
﴿2﴾نمک سے شفا |
|
نام وسلسلہ نسب |
|
﴿3﴾ لاعلاج مرض سے شفایابی |
|
تعلیم و تربیت |
|
﴿4﴾گُم شدہ بیٹا واپس مل گیا |
|
سخی سرور کی سخاوت اور والد گرامی کی کرامت |
|
﴿5﴾عصا کی برکت سےپانی نکل آیا |
|
خراب و بنجر زمین پر کاشت کاری |
|
سوہدرہ میں قیام |
|
جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے |
|
دھونکل میں فیضِ عام |
|
سر پر بادل کا سایہ |
|
شاہ کوٹ واپسی |
|
غیب سے کھانا حاضر ہوگیا |
|
حضرت سخی سرور کی شہادت |
|
بعض رشتہ داروں کی غلط بیانی |
|
مجلس مزاراتِ اولیا |
|
برائی کے بدلے بھلائی |
|
ماخذ ومراجع |
|
نکاح میں والدین کی رضا |
|
|
|
فرمانِ مصطفٰے:اگر تم چاہتے ہوکہاللہ عَزَّ وَجَلَّتم سے محبت فرمائے تو دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو۔( سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الزھد فی الدنیا،۴/ ۴۲۳، حدیث:۴۱۰۲،بتغیر)
کنزالایمان |
مکتبۃ المدینہ ،باب المدینہ کراچی |
فتاویٰ رضویہ |
رضا فاؤنڈیشن ،مرکزالاولیا لاہور |
تفسیر خازن |
مطبعہ میمنیہ ،مصر۱۳۱۷ ھ |
تذکرہ حضرت سخی سرور |
محکمہ اوقاف حکومت پنجاب 2001ء |
خزائن العرفان |
مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی |
سیرت حضرت سخی سرور |
عظیم اینڈ سنز پبلشرز |
صحیح البخاری |
دارالكتب العلميۃ بيروت،۱۴۱۹ھ |
خزینۃ الاصفیاء |
مکتبہ نبویہ ، لاہور2010ء |
صحیح المسلم |
دار الکتاب العربی 2013 ء |
تذکرہ اولیائے عرب و عجم |
چشتی کتب خانہ ، فیصل آباد |
دار الفکربيروت،۱۴۱۴ھ |
بزرگ |
مکتبہ نبویہ ،مرکز الاولیا لاہور |
|
سنن ابوداؤد |
دار احياء التراث العربی بيروت، ۱۴۲۱ھ |
کرامات صحابہ |
مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی |
سنن ابن ماجۃ |
دار المعرفة بیروت،۱۴۲۰ھ |
مزراتِ اولیاء کی حکایات |
مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی |
مجمع الزوائد |
دار الفکربيروت،۱۴۲۰ھ |
پردے کےبارے میں سوال جواب |
مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی |
مراٰۃالمناجیح |
ضياء القرآن ،مرکزالاوليا لاہور |
حسد |
مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی |
اولیاء اللّٰہرَحِمَھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰیکے مزارات پر جانا باعثِ برکت اور رفعِ حاجات کا ذریعہ ہے۔ اس لیے بزرگانِ دین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اولیاءِ کرام کی قبور پرجاتے اوراللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی حاجات کیلئے دعا کرتے جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس بارے میں مقدمۂ ردُّ المحتار میں امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے نقل فرماتے ہیں:’’ میں امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے برکت حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر آتاہوں اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تودو رکعت پڑھتا ہوں اورانکی قبر کے پاس جاکراللّٰہ تعالٰیسے دعا کرتا ہوں تو جلد حاجت پوری ہوجاتی ہے۔‘‘(ردالمحتار ، مقدمة الکتاب، مطلب یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل،۱/۱۳۵)
[1] … مسند ابی یعلٰی، مسند انس بن مالک رضی الله عنه،۳/۹۵، حدیث:۲۹۵۱
[2] …اس کاموجودہ نام سروری کوٹ ہے جو پنچاب پاکستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں ہے۔
[3] …سیرت حضرت سخی سرور،ص۲۴،۲۵،تذکرہ حضرت سخی سرور،ص۱۰۲،۹۶
[4] …سیرت حضرت سخی سرور،ص۲۷،۲۸ملخصاً
[5] …تذکرہ اولیائے عرب و عجم،ص۳۳۶
[6] …سیرت حضرت سخی سرور،ص،۲۷،۳۱،خزینۃ الاصفیاء ،ص۱۹۰
[7] …تذکرہ اولیائے پاکستان ص:۱۲۸ملخصاً، خزینۃ الاصفیاء ،ص۱۹۰،تذکرہ حضرت سخی سرور، ص۱۰۴
[8] …تذکرۂ اولیائے عرب وعجم ،ص ۳۳۶
[9] …کرامت کی تعریف: مؤمن متقی سے اگر کوئی ایسی نادرالوجود وتعجب خیز چیز صادر وظاہر ہوجائے جو عام طور پر عادتاً نہیں ہواکرتی تو اس کو’’کرامت ‘‘کہتے ہیں ۔ اسی قسم کی چیزیں اگر انبیاء عَلَیْہِمُ ا لصَّلٰو ۃ وَالسَّلَام سے اعلانِ نبوت کرنے سے پہلے ظاہر ہوں تو ’’ارہاص‘‘اور اعلان نبوت کے بعد ہوں تو’’معجزہ‘‘ کہلاتی ہیں اوراگر عام مؤمنین سے اس قسم کی چیزوں کا ظہور ہوتو اس کو ’’معونت‘‘ کہتے ہیں اورکسی کافر سے کبھی اس کی خواہش کے مطابق اس قسم کی چیز ظاہر ہوجائے تو اس کو ’’اِستدراج‘‘ کہاجاتاہے۔(كرامات صحابہ، ص۳۶)
[10] …تفسیر خازن ، البقرۃ، تحت الآية:۲۶۱، ۱/ ۲۰۵
[11] …خزائن العرفان ،پ۳،البقرۃ، تحت الآیۃ:۲۶۱
[12] …تذکرہ اولیائے عرب وعجم ،ص۳۴۰ملخصاً،بزرگ،ص۱۳۳
[13] …تذکرہ اولیائے عر ب عجم ،ص ۳۴۱ وغیرہ
[14] …ابوداؤد،کتاب العلم ،التوقی فی الفتیا،۳/۴۴۹،حدیث:۳۶۵۷
[15] …مراۃ المناجیح،۱/٢١٢
[16] …تذکرہ اولیائے عرب وعجم ،ص۳۴۴ملخصاً
[17] …تذکرہ اولیائے عرب وعجم ،ص۳۴۴ملخصاً
[18] …تذکرہ اولیائے عرب وعجم ،ص۳۴۴ملخصاً
[19] …بخاری ،کتاب التفسیر، سورة حم السجدہ، ۳ / ۳۱۸
[20] …مجمع الزوائد، کتاب البرو الصلة،باب مکارم الاخلاق ...الخ ،۸/۳۴۵،حدیث: ۱۳۶۹۴
[21] …ابن ماجة، کتاب الزھد، باب الحلم ،۴/ ۴۶۲ ،حدیث:۴۱۸۶
[22] …تذکرہ اولیائے عرب وعجم ،ص۳۴۶
[23] …محاورہ عام (یعنی عام بول چال)میں فَقَط ہم قوم کوکُفو کہتے ہیں اور شرعاً وہ کفو ہے کہ نَسَب یا مذہب یا پیشے یا چال چلن یاکسی بات میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے نکاح ہونا اولیاء زن(یعنی عورت کے باپ دادا وغیرہ) کے لئے عُرفاً باعثِ ننگ و عار(یعنی شرمندگی و بدنامی کا سبب)ہو۔پردے کےبارے میں سوال جواب ص۳۶۱
[24] …پردے کےبارے میں سوال جواب ،ص ۳۵۷
[25] …سیرت حضرت سخی سرور،ص۴۷،وغیرہ
[26] …سیرت حضرت سخی سرور،ص ۴۸،۵۱ملخصا
[27] …سیرت حضرت سخی سرور،ص ۴۸ملخصا
[28] …تذکرہ اولیائے عرب وعجم ص: ۳۳۹ملخصاً
[29] …تذکرہ اولیائے عرب وعجم، ص۳۵۰ملخصاً
[30] …خزینۃ الاصفیاء،ص۱۹۱
[31] …خزینۃ الاصفیاء،ص۱۹۲
[32] …خزینۃ الاصفیاء،ص۱۹۲
[33] …سیرت حضرت سخی سرور،ص۵۵،۵۶وغیرہ
[34] …سیرت حضرت سخی سرور،ص۵۶،۵۷ملخصا
[35] …سیرت حضرت سخی سرور،ص ۱۳۷وغیرہ
[36] …سیرت حضرت سخی سرور،ص ۶۰ ملخصاً
[37] …سیرت حضرت سخی سرور،ص۱۳۶
[38] …تذکرہ اولیائے عرب وعجم، ص۳۵۳ملخصاً،خزینۃ الاصفیاء،ص۱۹۲
[39] …مزرات اولیاء کی حکایات، ص۳۲