اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی، شیخِ طریقت، امیرِاہلسنَّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمّد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اپنے مخصوص انداز میں سنتوں بھر ے بیانات ، علم وحکمت سے معمور مَدَ نی مذاکرات اور اپنے تربیت یافتہ مبلغین کے ذریعے تھوڑے ہی عرصے میں لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں مدنی اِنقلاب برپا کر دیا ہے، آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی صحبت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کثیر اسلامی بھائی وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر ہونے والے مَدَنی مذاکرات میں مختلف قسم کے موضوعات مثلاً عقائدو اعمال، فضائل و مناقب ، شریعت و طریقت، تاریخ و سیرت ،سائنس و طِبّ، اخلاقیات و اِسلامی معلومات، روزمرہ معاملات اور دیگر بہت سے موضوعات سے متعلق سُوالات کرتے ہیں اور شیخِ طریقت امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ انہیں حکمت آموز اور عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے جوابات سے نوازتے ہیں۔
امیرِاہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ان عطا کردہ دِلچسپ اور علم و حکمت سے لبریز مَدَنی پھولوں کی خوشبوؤں سے دُنیا بھرکے مسلمانوں کو مہکانے کے مقدّس جذبے کے تحت المدینۃ العلمیہ کا شعبہ’’ فیضانِ مدنی مذاکرہ‘‘ ان مَدَنی مذاکرات کو کافی ترامیم و اضافوں کے ساتھ ’’فیضانِ مدنی مذاکرہ‘‘کے نام سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ ان تحریری گلدستوں کا مطالعہ کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ عقائد و اعمال اور ظاہر و باطن کی اصلاح، محبت ِالٰہی و عشقِ رسول کی لازوال دولت کے ساتھ ساتھ مزید حصولِ علمِ دین کا جذبہ بھی بیدار ہو گا۔
اِس رسالے میں جو بھی خوبیاں ہیں یقیناً ربِّ رحیم عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے محبوبِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی عطاؤں،اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام کی عنایتوں اور امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شفقتوں اور پُرخُلوص دُعاؤں کا نتیجہ ہیں اور خامیاں ہوں تو اس میں ہماری غیر اِرادی کوتاہی کا دخل ہے۔
مجلس المدینۃ العلمیۃ
۱۴ رَجَبُ المرجب ۱۴۳۸ ھ/12اَپریل 2017ء
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ (۳۷ صفحات) مکمل پڑھ لیجیے
اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
سرکارِ مکۂ مکرَّمہ ، تاجدارِ مدینۂ منوَّرہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :جس نے مجھ پر روزِ جمعہ دو سو بار دُرُودِ پاک پڑھا اُس کے دو سو سال کے گناہ مُعاف ہوں گے۔([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال:بطورِ تبرک ”خاکِ مدینہ“ وَطن میں لانا کیسا ہے؟
جواب:بطورِتبرک ”خاکِ مدینہ“ وَطن میں لانا جائز ہے مگر مشورۃً عَرض ہے کہ نہ لائی جائے۔ خَاتَمُ الْمُحَدِّثِیْن حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدُ الحق مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:اکثر عُلَما کہتے ہیں کہ مدینۂ منوَّرہ اور مَکَّۂ مُکَرَّمَہ زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً کی خاک،اینٹ،ٹھیکری اور پتّھر نہ اُٹھائے۔عُلَمائے حنفیہ اور بعض شافعیہ
رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی جائز بھی کہتے ہیں۔ بہرصورت اگر تحفہ (مثل پھل و پانی وغیرہ) جس سے اَہلِ وطن کو خوشی ہو بےتکلف ہمراہ لے تو بہتر ہے۔ سفر سے اَہل و عیال کے لیے تحفہ لانا صحیح خبروں (یعنی حدیثوں)سے ثابت ہے۔([2])
مدینۂ منوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً کی خاک،اینٹ،ٹھیکری اورپتّھروغیرہ نہ اُٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں بھی سَرورِ کائنات،شاہِ موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مَحبَّت کرتی ہیں بلکہ ہر مُقَدَّس مقام سے نسبت رکھنے والے کنکر و پتّھر وغیرہ اُس مقام سے جُدا ہونا گوارا نہیں کرتے جیسا کہ حنفیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا علَّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں: جمادات (پتھر اور پہاڑ وغیرہ) کے اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،اَولیائے عُظَّام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام اور اللہ عَزَّوَجَلَّکے مطیع و فرمانبردار بندوں سے محبت کرنے کے وَصف (یعنی خوبی) کا اِنکار نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ کھجور کا تَنا سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کے فِراق (یعنی جُدائی) میں رویا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کے رونے کی آواز بھی سُنی۔اِسی طرح مکۂ مکرَّمہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِیْماً کا ایک پتھر سرکار عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر وحی نازِل ہونے سے پہلے سلام پیش کیا کرتا تھا۔ حضرت ِ سَیِّدُنا علّامہ طیبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:اُحُد پہاڑ اور مدینۂ منوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کے تمام اَجزاء سرکار عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے محبت کرتے ہیں
اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جُدا ہونےکی صورت میں آپ کی ملاقات کے لیے گِریہ کرتے ہیں یہ ایسی بات ہے کہ جس کا اِنکار نہیں کیا جا سکتا۔([3])لہٰذا جائز ہونے کے باوجود مَقاماتِ مقدَّسہ کی خاک اور کنکر وغیرہ تبرکات نہ اُٹھائے جائیں یہی بہتر ہے ۔
سُوال:مقاماتِ مقدَّسہ سے نسبت رکھنے والے کنکر و پتّھر وہاں سے جُدا ہونا گوارا نہ کرتے ہوں اِس قسم کے اگر واقعات ہوں تو بیان فرما دیجیے۔
جواب:کھجور کے تنّے کا سرکارِ عالی وقار ،مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کے فِراق میں رونے کا واقعہ بڑا ہی مشہور ہے ۔”مِنبر منوَّر“بننے سے پہلے سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کھجور کے ایک تنّے سے ٹیک لگا کر خُطبہ اِرشاد فرماتے تھے۔ جب مِنبرِ اَطہر بنایا گیا اور سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے اس پر تشریف فرما ہو کر خُطبہ اِرشاد فرمایا تو وہ تَنا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کے فِراق (یعنی جُدائی) میں پَھٹ گیا اور چیخیں مار کر رونے اور گابھن (یعنی حامِلہ) اُونٹنی کی طرح چلّانے لگا ، یہ حال دیکھ کر تمام حاضِرین بھی بے اختیار رونے لگے۔سرکارِبحرو بر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے مِنبرِ منوَّر سے اُتر کر
اُس کھجور کے تَنے پر دَستِ اَنور پھیر کر فرمایا:” تُو چاہے توتجھے تیری جگہ چھوڑ دوں جس حالت میں تو پہلے تھا ویسا ہی ہو جائے، اگر تو چاہے تو جنَّت میں لگا دوں تاکہ اَوْلِیَاءُ اللہ تیرا پھل کھائیں اور تو ہمیشہ رہے۔“لمحے بھر کے بعد سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی طرف مُتوجِّہ ہو کر فرمایا:”اِس نے جنَّت اِختیار کی۔“ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ الْقَوِی جب یہ واقِعہ بیان کرتے تو خُوب روتے اور فرماتے : اے اللہ کے بندو! جب کھجور کا ایک بےجان تَنا فِراقِ رَسُول (یعنی رسول ِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی جُدائی) میں رو سکتا ہے تو تم کیوں نہیں رو سکتے؟([4])
(شیخِ طریقت،اَمیرِ اہلسنَّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:) چند سال قبل مدینہ روڈ پر ’’نَوارِیہ‘‘ کے قریب مقامِ سَرِف پر واقع اُمُّ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سیِّدَتُنا مَیمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے مَزارِ فائِضُ الانوارپر میں نے حاضِری دی اور چند مُبارَک سنگریزے اُٹھا کر کلمہ شریف پڑھ کر اُن کو اپنے اِیمان کا گواہ کیا اور اسلامی بھائیوں سے کہا کہ ان کو تبرّکاً پاکستان میں اسلامی بھائیوں کو تحفۃً پیش کروں گا۔ جب اپنی قِیام گاہ پر آیا تو ایک سنگریزہ (یعنی پتھّر کا ٹکڑا) ایک جگہ سے نَم ہوگیا تھا،
کچھ دیر بعد اُس کی نَمی میں مَزید اِضافہ ہوگیا۔ میں نے اسلامی بھائیوں سے کہا: غالِباً یہ اُمُّ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سیِّدَتُنا مَیمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے فِراق میں رو رہا ہے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں اِن تمام سنگریزوں کو امّی جان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس پَہُنچا دوں گا۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ کچھ ہی دیر میں وہ خشک ہوگیا یعنی ڈھارس ملنے پر اُس نے رونا بند کر دیا۔بالآخر میں نے اُمُّ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدَتُنا مَیمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے دَربار میں حاضِری دی اور ان سنگریزوں کو بَصَد اَدَب وہاں رکھ دیا اور امّی جان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مُعافی بھی مانگی۔
منقول ہےکہ ایک بُڑھیا حج پر گئی۔رَمی جَمرات (یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے) کے بعد مُزْدَلفہ شریف کی چند کنکریاں بچ گئیں،وہ انہیں بطورِ یادگار اپنے ساتھ وَطن لیتی آئی اور ایک پاک کپڑے میں لپیٹ کر اَدَب کے ساتھ انہیں اَلماری میں رکھ دیا۔ ایک دِن اُس کی نظر کنکریوں کی جگہ پر پڑی تو دیکھاکہ وہاں نَمی ہے۔ اُس نے متعجب ہو کر کپڑے سے کنکریاں نکالیں تو یہ دیکھ کر اُس کی حیرت کی اِنتہا نہ رہی کہ وہ پانی ان کنکریوں سے نکل رہا تھا۔ گھبرا کر کسی سُنّی عالِم سے رابِطہ کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ یہ کنکریاں مزدَلفہ شریف کی مقدَّس سر زمین کے فِراق میں رو رہی ہیں ان کو وہیں بھجوا دیں چُنانچِہ کسی حاجی صاحِب کے ذَرِیعے اُن کو مُزْدَلفہ شریف پَہُنچا دیا گیا۔
سُوال:وطن میں خاکِ مدینہ تحفے میں ملنے پرآپ کیا کرتے ہیں؟
جواب:(شیخِ طریقت،اَمیرِ ا ہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:) اگر کوئی وطن میں خاکِ مدینہ تحفے میں دے تو اَوَّلاً قَبول کرنے سے ہی معذِرت کر لیتا ہوں کہ میں اِس کا اَدَب نہیں کر پاؤں گا۔ اگر لے بھی لُوں تو کوشِش یہی ہوتی ہے کہ کسی زائرِ مدینہ کے ذَریعے اِس خاکِ پاک کو دوبارہ مدینۂ منوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً پہنچا دیا جائے۔
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سیّدِ عالَم
اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا (حدائقِ بخشش)
سُوال:کیا مدینۂ پاک سے کوئی بھی چیز بطورِ تبرک وَطن میں نہیں لا سکتے؟
جواب:مدینۂ منوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً سے تبرکات لا سکتے ہیں مگر ان کااَدَب ملحوظ رکھا جائے۔(شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:) مجھے مدینۂ پاک کی چیزیں مثلاً لباس، چپل اور برتن وغیرہ وطن میں استِعمال کرتے ہوئے بے اَدَبی کا خوف غالِب رہتا ہے ،یہاں تک کہ مدینۂ منوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کی کھجوریں بھی مجھ سے وَطن میں نہیں کھائی جاتیں کیونکہ ہاتھ اور مُنہ پر کھجور کے اَجزاء لگ جاتے ہیں پھر ہاتھ دھونے اور کُلّی کرنے میں وہ اَجزاء گندی نالی میں
بہہ جانے کا خوف رہتا ہے۔ بس!انہیں خیالات کی وجہ سے میں مدینۂ پاک کی کھجوریں اِستِعمال کرنے سے بچتا رہتا ہوں حالانکہ مجھے وطن میں بہت ساری مدینۂ طیبہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کی کھجوریں ملتی رہتی ہیں تو میں انہیں کسی اور کے لیے آگے بڑھا دیتا ہوں۔
بہرحال مدینۂ طیبہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کی کھجوریں لانے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر کوئی مسلمان کھاتا ہے تو اس کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ یہ توہین کی نیت سے کھجوریں کھاتا ہے اور اگر کوئی نہیں کھاتا تو اسے بھی بُرا بھلا نہیں کہہ سکتے کہ یہ مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان مُقدَّس اَشیاء سے نفرت کرتا ہے کیونکہ اَعمال کا دارو مدار نیت پر ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر ایک کی نیت و اِرادے سےخبردار ہے۔ میرے اس فِعل پر شرعاً کوئی گرِفْت بھی نہیں۔میرے آقااعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت،مجدِّدِ دین ومِلَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:
طیبہ نہ سہی اَفضل مکّہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے (حدائقِ بخشش)
سُوال:نفلی حج اَفضل ہے یا صَدَقۂ نفل؟
جواب:نفلی صَدَقہ سے نفلی حج اَفضل ہے بشرطیکہ نفلی صَدَقہ کی زیادہ حاجت نہ ہو جیسا
کہ فقہِ حنفی کی مشہور و مَعروف کتاب دُرِّمختار میں ہے:مُسافر خانہ بنانا حجِ نفل سے اَفضل ہے اور حج ِنفل صَدَقہ سے اَفضل یعنی جبکہ اس کی زیادہ حاجت نہ ہو ورنہ حاجت کے وقت صَدَقہ حج سے اَفضل ہے۔([5]) اِس ضمن میں ایک ایمان اَفروز حِکایت مُلاحظہ کیجیے چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا علّامہ ابنِ عابِدین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نقل فرماتے ہیں:ایک صاحِب ہزار اَشرفیاں لے کر حج کو جا رہے تھے کہ ایک سیِّدانی صاحبہ تشریف لائیں اور اُنہوں نے اپنی ضَرورت ظاہِر فرمائی۔ انہوں نے ساری اَشرفیاں سیِّدانی صاحبہ کو نذر کر دیں اور یوں حج کو نہ جا سکے۔ جب وہاں کےحُجاج حج سے پلٹے تو ہر حاجی ان سے کہنے لگا:اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا حج قبول فرمائے۔انہیں تعجب ہوا کہ کیا مُعامَلہ ہے،میں تو حج کی سعادت سے محروم رہا ہوں مگر یہ لوگ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ خواب میں جنابِ رسالت مآبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے اور فرمایا: کیا تمہیں لوگوں کی بات سے تعجب ہوا ؟ عرض کی:جی ہاں یَارَسُوْلَ اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!فرمایا: تم نے میرے اہلبیت کی خدمت کی اس کے بدلے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری صورت کا ایک فِرِشتہ پیدا فرمایا جس نے تمہاری طرف سے حج کیا اور قِیامت تک حج کرتا رہے گا۔([6])
حضرتِسیِّدُنا اَبو نصر تمار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار فرماتےہیں:حضرت سیِّدُنا بِشْرحافی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِیکی خدمت میں ایک شخص حاضر ہو کر نصیحت کا طَلَب گار ہوا ، وہ(نفلی) سَفَرِ حج کا اِرادہ رکھتا تھا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:خرچ کے لیے کتنا مال رکھا ہے؟عرض کی:دو ہزار دِرہم۔ فرمایا:حج کرنے سے تیرا کیا مقصد ہے، دُنیا سے دُوری، بَیْتُ اللہ شریف کی زیارت یا رِضائے الٰہی کا حصول؟ عرض کی:رِضائے الٰہی کاحصول۔ فرمایا: کیا تمہیں اگر دو ہزار دِرہم خرچ کرنے پر گھر بیٹھے رِضائے الٰہی حاصل ہو جائے اور تمہیں اس کا یقین بھی ہو تو کیا تم ایسا کرو گے؟ اس نے کہا:ہاں! فرمایا: واپس لوٹ جا اور دو ہزار دِرہم ایسے 10اَفراد کو دے جن میں کوئی قرض دارہوتو اپنے قرض سے خُلاصی پائے، فقیرہوتو اپنی حالت دُرُست کرے ،عِیال دار ہو تو اپنے بال بچوں کی ضَرورت پوری کرے ،یتیم کی پَرورش کرنے والا ہو تو یتیم کو خوش کرے اگر تیرا دِل ایک ہی شخص کو دینا چاہے تو اسے ہی دے دینا کہ مسلمان کےدِل میں خُوشی داخِل کرنا،مَظلوم کی فَریاد رَسی کرنا ،اس کی تکلیف کو دُور کرنا اور کمزور کی مدد کرنا 100نفلی حج سے افضل ہے۔ جا ! اور اسے ویسے ہی خرچ کر جیسے میں نے کہا ہے ورنہ جو تیرے دل میں ہےوہ بتا دے۔اس نے کہا: اے ابو نصر!
میرے دل میں سفر کا ہی اِرادہ ہے۔ یہ سُن کرآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مسکرائے اور اس پر شفقت کرتے ہوئے فرمایا:جب تجارت اورمشتبہ ذَرائع سے مال جمع ہوتا ہے تو نفس خرچ تو اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہےلیکن نیک اَعمال کو آڑ بنا لیتا ہےمگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قسم اِرشاد فرمائی ہےکہ وہ صرف مُتَّقِیْن کے اَعمال قبول فرمائے گا۔([7])
سُوال:کسی نیک عمل میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اس عمل پر مطلع ہونے کی خَواہش کرنا کیسا ہے ؟
جواب:کوئی بھی نیک عمل ہو اس میں رضائے الٰہی پانے اور ثوابِ آخرت کمانے کی نیت ہونی چاہیے،لوگوں کو دِکھانے ، شُہرت پانے اور اپنی واہ وا کروانے کی نیت سے نیک عمل کرنا رِیاکاری ہے اور رِیاکاروں کے لیے تباہ کاری ہے۔حضرتِ سیِّدُنا طاؤس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یَانَبِیَّ اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں مَوقِفِ حج میں کھڑا ہوتا ہوں اور مقصود اللہ تعالیٰ کی رِضا ہوتی ہے اور میری یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ میرا یہاں کھڑا ہونا دیکھا جائے (یعنی لوگ مجھے دیکھ لیں)۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس شخص کی بات سُن کر کوئی جواب نہ دیا حتّٰی کہ یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی:
فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰) (پ۱۶،الکھف:۱۱۰) ([8])
ترجمۂ کنز الایمان:تو جسے اپنے ربّ سے ملنے کی اُمّید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے ربّ کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔
حضرتِ سَیِّدُنا کثیر بِن زِیاد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْجَوَاد فرماتے ہیں:میں نے حضرتِ سَیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِالْقَوِی سے اِس آیت کا مطلب پوچھا تو فرمایا:یہ مومن کے بارے میں نازِل ہوئی۔ میں نے کہا:کیا وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے؟ فرمایا:نہیں، لیکن عمل کے لیے شِرک کرتا ہے کیونکہ وہ اس عمل سے اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی رِضا چاہتا ہے۔اس وجہ سے وہ عمل قبول نہیں ہوتا۔([9])
حضرتِ سیِّدُنا ابُو سعید بن اَبو فَضالہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا:جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ شک و شُبہ سے پاک دن یعنی قیامت میں اَوَّلِین و آخرین کو جمع کرے گا تو ایک مُنادِی نِدا کرے گا: جس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے کیے جانے والے عمل میں کسی کو شریک کیا وہ اسی کے پاس اپنا ثواب تلاش کرے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ شُرَکا کے شِرک
سے بے نیاز ہے۔([10])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! لوگوں کو اپنے اَعمال دِکھانے، سُنانے اور اپنی شُہرت پانے کا شوق بہت بُرا ہے اور یہ شیطان کے واروں میں سے ایک وار ہے۔ شیطان لعین اَوَّلاً توکسی کو نیکی کی طرف مائِل ہی نہیں ہونے دیتا ، اگر کوئی اس کے وار سے بچ کر نیک عمل کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو رِیاکاری، تکبُّر، حُبِّ جاہ اورشُہرت وغیرہ میں مبتلا کر کے اس کے اَعمال بَرباد کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا بندے کو چاہیے کو وہ شیطان کی ان چالوں کو ناکام بناتے ہوئے خالصتاً اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و خوشنودی حاصِل کرنے کے لیے عمل کرے۔ ہاں!ایسا شخص جو لوگوں کا پیشوا ہو، لوگ اس سے عقیدت و محبت رکھتے اور نیک اَعمال میں اس کی پیروی کرتے ہوں تو ایسے شخص کے لیے لوگوں کی ترغیب کے لیے اپنے اَعمال کو ظاہِر کرنا نہ صرف جائز بلکہ اَفضل ہے جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا عبدُ اللّٰہ اِبنِ عُمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے رِوایت ہے کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا:پوشیدہ عبادت عَلانیہ عبادت سے اَفضل ہے اور جس کی لوگ پیروی کرتے ہوں اس کی عَلانیہ عبادت پوشیدہ عبادت سے افضل ہے۔([11])
سُوال:آخرت کے عمل سے دُنیا طلب کرنا یا شُہرت چاہنا کیسا ہے ؟
جواب:دُنیوی غَرض کے لیے نیک عمل کرنا یا نیک عمل کرنے کے بعداسے دُنیا طلبی اور شُہرت کا ذَریعہ بنانا مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دِین فَروشی اور اکثر صورتوں میں رِیاکاری ہے جس میں جہنم کی حقداری ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ حج وعمرہ کر آتے ہیں تو بِلاضَرورت جگہ جگہ اپنے حج وعمرہ کا اِعلان کرتے پھرتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے:جو آخِرت کے عمل سے دُنیا طلب کرے اُس کا چہرہ مسخ کر دیا جائے اور اُس کا ذِکر مٹا دیا جائے اور اس کا نام دوزخیوں میں لکھا جائے۔([12])
آخرت کے عمل سے دُنیا طلب کرنے والے ایک نادان آقا اور اس کے دانا غُلام کی عِبرت اَنگیز حِکایت مُلاحَظہ کیجیے اور عِبرت کے مدنی پھول چنیے چنانچہ حُجَّۃُ الْاِسْلَام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْوَالِی فرماتے ہیں:ایک غُلام اور آقا حج کر کے پلٹے،راہ میں نمک نہ رہا،نہ خرچ تھا کہ مول (قیمتاً) لیتے، ایک منزل پر آقا نے غُلام سے کہا: بقّال (سبزی فروش/ کھانے پینے کا سامان بیچنے والے) سے تھوڑا سا نمک یہ کہہ کر لے آؤ کہ ”میں حج سے آیا ہوں۔“چُنانچہ وہ گیا اور یہ کہہ کر تھوڑا سا نمک لے آیا۔ دوسری منزل پر آقا نے پھر بھیجا اور کہا: اس بار یوں کہو کہ”میرا آقا حج سے آیا ہے۔“چُنانچہ اس بار بھی غُلام یہ کہہ کر
تھوڑا سا نمک لے آیا ۔ تیسری منزل پر آقا نے پھر بھیجنا چاہا،تو غُلام(جوکہ حقیقتاً آقا بننے کے قابِل تھا اُس ) نے جواب دیا: پَرسوں نمک کے چند دانوں کے بدلے اپنا حج بیچا، کل آپ کا بیچا ،آج کس کا بیچ کر لاؤں؟([13])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقعی وہ غُلام بَہُت دانا تھا، اس نے اپنے آقا اور آج کل کے ہر حاجی صاحِب کو کتنی زبردست اور عِبرت اَنگیز بات بتائی کہ بِلاضَرورت اپنے حج کا اِعلان کر کے نمک وغیرہ حاصل کرنے سےکہیں ایسا نہ ہو کہ حج ہی برباد ہو جائے۔اَلبتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر کسی نے رِیاکاری کے لیے حج کیا تو اس کا فرض ادا ہو جائے گا مگر رِیاکاری کا گناہ ہو گا، ایسے حاجی کو چاہیے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اِخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے اور رِیاکاری کی تباہ کاری سے محفوظ فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم ([14])
سُوال:کیا پیدل سفرِ حج کی بھی کوئی فضیلت ہے؟
جواب:حج اگرچہ سُواری وغیرہ کی اِستطاعت ہونے پر ہی فرض ہوتا ہے مگر تاہم پیدل سفرِ حج کا بَہُت زیادہ ثواب ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا زَاذان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا شدید بیمار ہوئے تو اُنہوں نے اپنے بیٹوں کو بُلایا اور جمع کر کے فرمایا کہ میں نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ”جو مکّہ سے حج کے لیے پیدل چل کر جائے اور مکّہ لوٹنے تک پیدل ہی چلے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں لکھتا ہے اور ان میں ہر نیکی حَرم میں کی گئی نیکیوں کی طرح ہے۔“ان سے پوچھا گیا:”حَرم کی نیکیاں کیا ہیں؟“فرمایا:”ان میں سے ہر نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔“([15])
سُوال:پاکستان میں کاروباری طور پر مختلف ناموں سے حج و عمرے کے لیے کاروان تیار کیے جاتے ہیں ان میں بعض کا تشخص دعوتِ اسلامی والا ہوتا ہے،کیا دعوتِ اسلامی کے مَدَنی مرکز کی طرف سے انہیں کچھ حمایت حاصل ہے؟
جواب:حج و عمرے کے مختلف ناموں سے بنائے جانے والے کسی بھی کاروان کو تادمِ تحریر مَدَنی مَرکز کی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی حمایت حاصل نہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنا تشخص دعوتِ اسلامی والا نہ بنائیں تاکہ ان کی بےاحتیاطیوں سے لوگ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے بدظن نہ ہوں۔ بَہَرحال ایسے اِدارے چلانے والے اور ان کے ذَرِیعے حج و عمرے پر جانے والے
اپنے مُعاملات کے خود ہی ذِمَّہ دار ہیں۔
تبلیغِ قرآن و سُنَّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا پیغام تادمِ تحریر دُنیا کے تقریباً 200 مُمالِک میں پہنچ چکا ہے۔ لاکھوں لاکھ مسلمان اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ اِس مَدَنی تحریک سے وَابستہ ہیں۔اب اگر کوئی دعوتِ اسلامی کا تشخص اپنا کر کسی بھی قسم کی بَدعُنوانی کا مُرتکِب ہو تو اس بِنا پر پوری تحریک کو بُرا بھلا کہنا اور مدنی ماحول سے دُور ہو جانا اِنصاف کے خِلاف ہے کیونکہ ایک یا چند اَفراد کی غَلَطی کی وجہ سے ساری تحریک کو بُرابھلا نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنا خوف،اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سچّا عشق اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں اِستقامت عطا فرمائے اور ہر اُس عمل سے بچائے جس سے دعوتِ اسلامی کی دِینی خدمات کو نقصان پَہُنچے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اللہ! اِس سے پہلے، اِیماں پہ موت دے دے
نقصاں مِرے سبب سے ہو سنَّتِ نبی کا (وسائلِ بخشش)
سُوال:کیا ہَوائی جہازمیں بھی گناہوں کا خَطرہ ہوتا ہے؟
جواب:جی ہاں!ہوائی جہازمیں بھی گناہوں کا خطرہ رہتا بلکہ کئی گنا بڑھ جاتاہے۔ حَرَمَیْن
طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کا سفر چونکہ بڑا ہی مُبارک سفر ہے لہٰذا شیطان کسی صورت میں بھی نہیں چاہتا کہ یہ سفر گناہوں سے خالی ہو اس لیے وہ لوگوں کو گناہوں میں مبتلا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور بیشترلوگ بھی نفس و شیطان کے بہکاوے میں آکر اس مُبارک سفر میں بھی گناہوں کا سِلسلہ جاری رکھے ہوتے ہیں لہٰذا حجاجِ کرام کو چاہیے کہ اپنی نِگاہوں کی حفاظت کریں اور نمازوں کا بھی اِہتمام کریں۔ حجاج کو مُسلِم غیر مُسلِم فَلائٹس میں سفر کرنا پڑتا ہے تو اس حوالے سے نماز کے مَسائل مثلاً بلندی پراَوقاتِ نماز کی مَعلومات، قبلہ رُخ جاننے،طیّارے میں کیا کھا سکتے ہیں اور کیا نہیں کھا سکتے؟ نیز اِستنجا خانے کے اِستعمال وغیرہ کی اِحتیاط کا عِلم ہونا بھی ضَروری ہے۔
سُوال:بدنگاہی کرنے اور کروانے والیوں کے بارے میں کچھ اِرشاد فرما دیجیے۔
جواب:قصداً بدنگاہی کرنے اور کروانے والیاں گنہگار اور عذابِ نار کی حقدار ہیں اَحادیثِ مُبارَکہ میں ان کے لیے سخت وعیدیں آئی ہیں چنانچہ سَرورِ ذِیشان، مکی مدنی سُلطان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: دیکھنے والے پر اور اُس پر جس کی طرف نظر کی گئی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی لعنت۔([16]) لہٰذا کبھی بھی بدنگاہی نہ کیجیے،اگر اچانک نظر پڑ بھی جائے تو فوراً نظر پھیر لیجیے جیسا کہ
حدیثِ پاک میں ہے حضرتِ سیِّدُنا جَریر بن عبدُ اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیٔ مُکَرَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے اچانک نظر پڑجانے کے متعلق حکم دَریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے مجھے حکم دیا کہ فوراًنظر کو پھیر لو۔([17])
معلوم ہوا کہ بِلاقصد پڑ جانے والی پہلی نظر مُعاف ہےجبکہ فوراً نظر پھیر لی جائے۔ ہاں! اگر بِلاقصد نظر پڑی لیکن دیکھتے ہی رہے یا نظر ہٹا کر پھر دوبارہ دیکھا تو یہ ناجائز ہے کہ سرورِ کائنات،شاہِ موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے فرمایا:ایک نظر کے بعد دُوسری نظر نہ کرو (یعنی اگر اچانک بِلاقصد کسی عورَت پر نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹا لواور دوبارہ نظر نہ کرو)کہ پہلی نظر جائز ہے اور دوسری نظر جائز نہیں۔([18]) اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کی نیچی نیچی مُبارک نظروں کی حیا کا صَدْقہ ہمیں بھی اپنی نگاہوں کو نیچی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم
یا الٰہی رنگ لائیں جب مِری بےباکیاں
اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو (حدائقِ بخشش)
سُوال:کئی حُجاجِ کرام مسجدینِ کرِیمین میں دُنیوی باتیں کرتے،شُور و غُل مچاتے اور قہقہے لگاتے نظر آتے ہیں،ان کے بارے میں کچھ اِرشاد فرما دیجیے۔
جواب:مَساجد اللہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر ہیں،ان کا اَدَب و اِحترام کرنا اور انہیں ہر اس چیز سے بچانا جس کے لیے یہ نہیں بنائی گئیں ضَروری ہے۔ مَساجد میں دُنیوی باتیں کرنے،شُور و غُل مچانے اور قہقہے لگانے سے ان کا تقدُّس پامال ہوتا ہے اور یہ ایسے اُمُور ہیں جن کے لیے مَساجد نہیں بنائی گئیں لہٰذا ان کے اِرتکاب کرنے والوں کے لیے اَحادیثِ مُبارَکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں چنانچہ مسجد میں ہنسنے کے متعلق سلطانِ اِنس و جان،رَحمتِ عالمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عِبرت نشان ہے:مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا لاتا ہے۔([19]) آواز بلند کرنے والوں کے لیے اِرشادفرمایا: جو کسی کو مسجد میں بآوازِ بلند گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنیں تو وہ کہے: لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ فَاِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهٰذَا یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ وہ گمشدہ شے تجھے نہ ملائےکیونکہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئیں۔ ([20])جو مسجد میں دُنیا کی باتیں کرے اللّٰہ تعالیٰ اس کے چالیس سال کے اَعمال اَ کارَت (ضائع) فرما دے ۔([21]) مسجد میں مُباح باتیں نیکیوں
کو اس طرح کھا جاتی ہیں جس طرح آگ لکڑی کو۔([22])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ مَساجد میں دُنیوی باتیں کرنا، ہنسنا اور آوازیں بلند کرنا وغیرہ آخرت کے لیے کس قدر تباہ کن ہیں! مسجدینِ کریمین میں ایسا کرنے والے حجاج وغیرہ کو ڈر جانا چاہیے کہ جب عام مَساجد کے تقدُّس کو پامال کرنے کی یہ وعیدیں ہیں تو مسجدینِ کریمین کی بےحُرمتی کی وعیدیں تو ان مقدَّس مقامات کی عظمت کی وجہ سے اور زیادہ سخت ہیں کیونکہ مَسجدینِ کریمین تو دُنیا کی تمام مَساجد سے اَفضل و اعلیٰ ہیں جیسا کہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1250صفحات پرمشتمل کتاب، ’’بہارِ شریعت“جلد اوّل صَفْحَہ 649 پر ہے:سب مسجدوں سے اَفضل مسجدِ حرام شریف ہے، پھرمسجدِ نبوی، پھر مسجدِ قدس، پھرمسجدِ قبا،پھر اور جامع مسجدیں،پھر مسجدِ محلّہ،پھر مسجدِ شارع۔
سُوال:مسجدینِ کریمین (یعنی مسجد حرام اور مسجدِ نبوی شریف)میں کھانا پینا کیسا ہے ؟
جواب:مسجدینِ کریمین (یعنی مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی شریف) ہوں یا کوئی اور مسجد ان میں کھانا پینا اور سونا سِوائے معتکف کے کسی اور کے لیے شَرْعاً جائز نہیں۔ اگر کسی کو مسجد میں کھانے پینے اورسونے کی حاجت ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ نفلی اِعتکاف کی
نیت کر لے تو ضمناً کھانا پینا اور سونا بھی جائز ہو جائے گا۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:صحیح ومعتمد یہ ہے کہ مسجد میں کھانا پینا، سونا سِوا معتکف کے کسی کو جائز نہیں،مُسافر یا حَضَری (مقیم) اگر چاہتا ہے تو اِعتکاف کی نیت کیا دُشوار ہے اور اس کے لئے نہ روزہ شرط نہ کوئی مُدّت مقرر ہے، اعتکافِ نفل ایک ساعت کا (بھی) ہو سکتا ہے۔([23])
مزید فرماتے ہیں:ظاہر ہے کہ مسجدیں سونے کھانے پینے کو نہیں بنیں تو غیر معتکف کو ان میں ان اَفعال کی اِجازت نہیں اور بِلاشُبہ اگر ان اَفعال کا دروازہ کھولا جائے تو زمانہ فاسِد ہے اور قُلوب اَدَب وہیبت سے عاری، مسجدیں چو پال ہو جائیں گی اور ان کی بے حُرمتی ہو گی ،وَکُلُّ مَا اَدّٰی اِلٰی مَحْظُوْرٍ مَحْظُوْرٌ (اور ہر وہ شے جو ممنوع تک پہنچائے ممنوع ہو جاتی ہے۔)([24])
معتکف کو بھی مسجد میں کھانے پینے کی اسی صورت میں اِجازت ہے کہ اتنا زیادہ کھانا نہ ہو جو نماز کی جگہ گھیرے اور نہ ہی کھانے پینے کی کسی چیز سے مسجدآلودہ ہو ورنہ جائز نہیں چنانچہ فتاویٰ رضویہ جلد 8 صفحہ 94 پر ہے:”مسجد میں اتنا کثیر کھانا لانا کہ نماز کی جگہ گھیرے اور ایسا اَکل و شُرب (یعنی کھانا پینا) جس سے اس کی تلویث ہو مطلقاًناجائز ہے اگر چہ معتکف ہو۔“نیز رَدُّالمحتار میں ہے: ظاہر یہی ہے
کہ کھانا پینا جبکہ مسجد کو آلودہ نہ کرے اور نہ مسجد کی جگہ گھیرےتو یہ سونے کی طرح (جائز) ہے کیونکہ مسجد کو صاف ستھرا رکھنا واجب ہے۔([25])جب مسجد میں کھانا پینا ان دونوں باتوں سے خالی ہو تو معتکف کو بالاِتفاق بِلاکراہت جائز ہے۔
سُوال:اگراِلَائچی سالن وغیرہ میں پکا لی جائے تو کیا ایسا سالن مُحْرِم کے لیے کھانا جائز ہے ؟
جواب:اگرسالن یا مشروبات وغیرہ میں خُوشبو جیسے زعفران یا اِلَائچی وغیرہ کوملا کر پکایا لیا گیا تومُحْرِم کے لئے اس کا کھانا، پینا جائز ہے اور کھانے یا پینے والے مُحْرِم (اِحرام والے)پر کوئی دَم یا صَدقہ([26])نہیں کیونکہ پکانے سے ان کا وُجُود کھانے میں مل کر ختم ہو جاتا ہے لہٰذا اب ان کے وجود کا اِعتبار نہ رہا اور ان کا کھانا، پینا مُحْرِم کے لیے جائز ہو گیا۔([27])
سُوال:حالتِ احرام میں صابُن سے ہاتھ دھو سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:حالتِ احرام میں صابُن سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔حِجازِ مُقَدَّس کے ہوٹلوں میں
عموماً خُوشبو والا صابُن رکھا ہوتا ہےعُلمائے کرام کَثَّرَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام نے اس کے اِستعمال کو بھی جائز قرار دیا ہے لہٰذا مُحْرِم کے لیے خُوشبودار صابن کے اِستِعمال کرنے میں کوئی حَرج نہیں ۔ ([28])
سُوال: کیا حج کرنے والوں کے لیے حج کے اَحکام سیکھنا ضَروری ہیں؟
جواب:جی ہاں! حج کرنے والوں کے لیے حج سے متعلق ضَروری مَسائل و اَحکام سیکھنا فرض ہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے:طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔([29])اِس حدیثِ پاک سے اسکول کالج کی مُرَوَّجَہ دُنیوی تعلیم نہیں بلکہ ضَروری دِینی عِلم مُراد ہے لہٰذا سب سے پہلے اسلامی عقائد کا سیکھنا فرض ہے، اس کے بعدنَماز کے فرائِض و شَرائِط و مُفسِدات (یعنی نَماز کس طرح دُرُست ہوتی ہے اور کس طرح ٹوٹ جاتی ہے) پھر رَمَضانُ المبارک کی تشریف آوَری ہو تو جس پر روزے فرض ہوں اُس کے لیے روزوں کے ضَروری مَسائل،جس پر زکوٰة فرض ہو اُس کے لیے زکوٰة کے ضَروری مَسائل،اسی طرح حج فرض ہونے کی صورت میں حج کے، نکاح کرنا چاہے
تو اس کے،تاجِر کو تجارت کے، خریدار کو خریدنے کے، نوکری کرنے والے اور نوکر رکھنے والے کو اِجارے کے، وَعَلٰی ھٰذَا الْقِیَاس (یعنی اور اسی پر قِیاس کرتے ہوئے) ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مَرد و عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔اِسی طرح ہر ایک کے لیے مَسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے۔ نیز مَسائلِ قلب (باطِنی مَسائل) یعنی فرائض ِ قَلبِیہ (باطِنی فرائض) مَثَلًا عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اور ان کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلًا تکبُّر، رِیاکاری، حَسَد، بدگمانی، بغض و کینہ، شَماتَت (یعنی کسی کی مصیبت پر خوش ہونا) وغیرہا اور ان کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔([30])
اکثر حج و عمرہ پر جانے والے لوگ حج و عمرہ کے اَحکام پڑھتے ہی نہیں اگر پڑھ یا سُن لیں تو بھی حافظے کی کمزوری کے باعِث بھول جاتے ہیں اور اِس قدر اَغلاط کی کثرت کرتے ہیں کہ اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ! گناہوں پر گناہ اور کفّاروں پر کفّارے واجب ہوتے چلے جاتے ہیں مگر حقیقی ندامت نہ گناہوں سے بچنے کا صحیح معنوں میں ذِہن اور نہ ہی کفّاروں کی اَدائیگی کے لیے رقم خرچ کرنے کا جگر۔ یاد رکھیے!جَہالت(یعنی نہ جاننا)عُذر نہیں بلکہ جہالت بذاتِ خود گناہ ہے لہٰذا جس پر نَماز، روزہ ،زکوٰۃ اور حج فرض ہے اُس کے لیے ان کے متعلقہ ضَروری اَحکامات
کا سیکھنا بھی فرض ہے۔ جو خود عقائدِ صحیحہ اور حج کے مَسائلِ ضَروریّہ کا عِلم نہیں رکھتا اُسے تنہا یا عوامُ النَّاس کے قافلے میں سفرِ حج کرنے کے بجائے کسی قابلِ اطمینان مُتّقی اور محتاط فی الدِّین مُتَصَلِّب سُنّی عالِم کے ہمراہ سفر کرنا چاہیے۔([31])
سُوال:حج و عمرہ کےلیے خَریداری کرنے والوں کے لیے کچھ مدنی پھول اِرشاد فرما دیجیے۔
جواب:جس طرح سفرِ حج کرنے والوں کےلیے حج کے اَحکام سیکھنا فرض و ضَروری ہے یونہی خرید و فروخت کرنے والوں کے لیے خَرید و فروخت کے مَسائل سیکھنا بھی ضَروری ہے چاہے وہ خَرید و فروخت سفرِ حج کی ہو یا کوئی اور ۔ایک زمانہ وہ تھا کہ ہر مسلمان اتنا علم رکھتا تھاجو اس کی ضَروریات کو کافی ہوتا یہاں تک کہ اَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حکم فرما دیا تھا کہ ہمارے بازار میں وہی خَرید و فروخت کریں جو دِین میں فقیہ(عالم ) ہوں۔ ([32]) فی زمانہ علمِ دِین سے دُوری اور جہالت کے سبب لوگ خَریدوفروخت کے
مَسائل سے بھی ناواقف ہیں یہی وجہ ہے کہ خَرید و فروخت کے دوران بہت ساری خلافِ شرع باتوں کا اِرتکاب کر بیٹھتے ہیں ۔([33])
رہی بات سفرِ حج کے لیے خَریداری کرنے کی تو اس میں اور زیادہ اِحتیاط کی حاجت ہے۔کوئی چیز خَریدتے وقت اس کا بھاؤ کم کروانے کے لیے حُجَّت (Bargaining) کرنا سُنَّت ہے مگر سفرِ حج کے لیے جو چیز خَریدی جائے اس میں بھاؤ کم نہیں کروانا چاہیے کہ اعلیٰ حضرت،اِمامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:بھاؤکے لئے حُجَّت کرنا بہتر ہے بلکہ سُنَّت۔ سِوا اس چیز کے جو سفرِ حج کے لئے خریدی جائے۔ اس میں بہتر یہ ہے کہ جو مانگے دے دے۔([34]) خوش نصیب ہیں وہ حاجی جو اس مبارَک سفر کے لیے خَریدی جانے والی چیزوں کا بھاؤ کم کروانے کے بجائے مُنہ مانگی رقم ادا کر کے مانگنے والوں کو خوش کر دیا کرتے ہیں۔
اِسی طرح سرکارِ عالی وقار،مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے نام پر قربان کیے جانے والے جانور کی خَریداری میں بھی عُشَّاق کے اَنداز نرالے ہوتے ہیں۔ وہ اس جانور کے بھی دام کم کروانے کے بجائے مُنہ مانگے دام ادا
کرتے بلکہ بسااوقات مَزید بڑھا کر بھی پیش کرتے ہیں اور یہ کوئی دھوکا کھانا نہیں بلکہ عشق کی بات ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ ابنِ عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے ہر اُس غُلام کو آزاد فرما دیتے جو بکثرت عبادت کرتا لہٰذا غُلام بھی خوب عبادت کرتے اور رہائی پاتے۔کسی نے عرض کی کہ غُلام رہائی پانے کے لیے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے زیادہ عبادت کرتے ہیں۔فرمایا:اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر دھوکا دینے والے سے ہم دھوکا کھانے کے لیے تیار ہیں۔([35])
تِرے نام پر ہو قرباں مِری جان،جانِ جاناں
ہو نصیب سَر کٹانا مَدنی مدینے والے (وسائلِ بخشش)
سُوال: فرض حج ادا کرلینے کے بعد کسی عاشقِ زار کو بار بار حاضری کا شوق تڑپائے تو وہ کیا کرے؟
جواب:فرض حج ادا کرلینے کے باوجود اگر کسی عاشِقِ زار کو بار بار حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً کی حاضری کا شوق تڑپائے تو وہاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت کے بھروسے پر اس طرح تیاری کرے کہ دِل و دماغ، زَبان و آنکھ اور ہر عُضْو کا قُفلِ مدینہ لگائے یعنی اپنے تمام اَعضا کو گناہوں سے بچانے کی بھر پور سعی کرے۔اپنے اَندر اِخلاص پیدا کرے اور رِیاکاری لانے والے اَسباب سے بچے۔عاشقانِ رسول کے
ہمراہ سُنَّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافلوں میں سفر اور مَدَنی اِنعامات پرعمل بڑھانے اور اِستقامت پانے کے لیے فکرِ مدینہ کرتے ہوئے روزانہ مَدَنی اِنعامات کا رِسالہ پُر کرکے ہر مدنی ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنے ذِمَّہ دار کو جَمْع کروانے کا معمول بنا لے۔نفس کی خاطر کی جانے والی ذاتی دوستیاں ترک کر کے اچھی صحبت اِختیار کرے،کم بولنے اور نِگاہیں نیچی رکھنے کی خاص مشق کرے، حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً کےآداب سیکھے،اپنی بے مائیگی، نااَہلی اور گناہوں کا اعتِراف کرتے ہوئے اللّٰہرَبُّ العالمینجَلَّ جَلَالُہکی بارگاہ میں خوب اِستغفار کرے اور توفیقِ خیر کی خیرات مانگے۔رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیۡن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے رَحمت و اِستقامت کی بھیک طلب کرے۔ جب ظاہری اَسباب کا اِنتظام ہو جائے اور دل بھی مطمئن ہو کہ اب مکہ ٔمکرمہ اور مدینہ ٔمنوَّرہ زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً کا حتَّی الاِمکان اَدَب کر پاؤں گا اور قصداً گناہوں کا صُدُور بھی نہیں ہو گا تو اب حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کے سفر کی تیّاری کرے۔
اگر اَسباب نہ بن پائیں تو حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماًجانے والوں کو بنظرِ رَشک دیکھیں،ان سے ملاقات کا شرف حاصِل کریں اور ان سے سلامِ شوق عرض کرنے اور دُعائے مَغْفِرت و حاضری کی عاجزانہ اِلتجا کریں۔ اگر قریبی عزیز ہوں تو انہیں رُخصت کرنے جائیں تو اپنا یوں مدنی ذہن بنائیں کہ
اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کبھی تو کرم ہو گا ہم بھی مدینے جائیں گے۔
مدینے جانے والو! جاؤ جاؤ فی اَمَانِ اللّٰہ
کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بستر مدینے میں (وسائلِ بخشش)
سُوال:عمرے کے لیے جانے والوں کا حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً میں زیادہ دن قیام کرنا کیسا ہے ؟
جواب:عمرے کے لیے جانے والے اگر وہاں کے آداب بجا لاتے اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچا پاتے ہوں تو ان کے لیے زیادہ اَیّام گزارنا باعثِ سعادت ہے۔ زیادہ مُدَّت قِیام کرنے سے عموماً لوگوں کے دِلوں سے اَہمیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ گناہوں پر بے باک ہو جاتے ہیں لہٰذا ایسوں کو چاہیے کم سے کم مُدَّت قِیام کریں مثلاً عمرہ کے لیے جائیں تو ایک دِن میں عمرہ شریف ادا کریں، پھر فوراً سرکارِ ابدِ قرار ،مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور شَیخَیْن کَرِیْمَیْن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی بارگاہوں میں بغرضِ سلام ایک دِن کے لیے مدینہ ٔ منورہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً حاضِر ہوں۔ مسجدِنبوی شریف عَلٰی صَاحِبِھَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں نمازیں پڑھیں،سیِّدُ الشُّھَداء حضرت ِسیِّدُنا حمزہ و شُہدائے اُحُد رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی بارگاہوں میں سلام عرض کرنے جائیں۔جنَّتُ
البقیع شریف میں آرام کنندگان کی خِدمات میں بھی سلام عرض کریں۔ زیرِ گنبدِخضرا جلوۂ محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں موت سے ہم آغوش ہونے کی سعادت ملنے کی صورت میں بقیعِ پاک میں’’مُستقِل داخِلہ‘‘ کی اِجازت مل جائے تو زہے قسمت ورنہ بے اَدَبی اور گناہوں سے بچ نہ پانے کے باعِث اگر ضمیر ملامت کرتا ہو تو بقیع شریف پر حسرت بھری نظر ڈالتے ہوئے اَلوداعی سلام پیش کرکے روتے ہوئے وطن روانہ ہوں۔
میں شکستہ دِل لئے بوجھل قدم رکھتا ہوں
چل پڑا ہوں یا شَہَنْشاہِ مدینہ الوداع (وسائلِ بخشش)
حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً میں کم مدت کی حاضری کو ہرگز ہر گز کم تصوُّر نہ کیجیے۔ خُدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!وہاں کی حسین وادیوں میں گزرا ہوا ایک لمحہ دُنیا کے ظاہِری سر سبز و شاداب گلزار کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین ہے۔
وُہی ساعتیں تھیں سُرور کی وُہی دن تھے حاصلِ زندگی
بحُضُورِ شافعِ اُمَّتاں مِری جن دِنوں طَلَبی رہی
سُوال: حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماًیا کسی بھی جگہ پر طہارت خانوں کے صحیح نہ
بنے ہونے کی وجہ سے کپڑوں کا پاک رہنا مشکل ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر کسی نے ان کپڑوں میں ہی نماز پڑھ لی تو اس کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: طہارت خانوں کے واقعی صحیح نہ بنے ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو پاک رکھنا اور گناہوں سے بچانا بَہت مشکل ہوتا ہے۔ آج کل W.C کی جگہ’’کموڈ ‘‘نے لے لی ہے اس میں بھی کہیں قبلے کو پیٹھ ہوتی ہے تو کہیں مُنہ ہوتا ہے حالانکہ 45 ڈِگری کے زاویہ کے اَندر اَندر قبلہ کو مُنہ یا پیٹھ کر کے اِستنجا کرنا حرام ہے اور حرمِ مکّہ میں ایک بار کا کیا ہوا حرام کام لاکھ بار حرام کام کرنے کے مُترادِف ہے۔اگر حمّام میں فَوّارہ (Shower) ہو تو اسے اچھی طرح دیکھ لیجیے کہ اُس کی طرف منہ کر کے ننگا نہانے میں منہ یا پیٹھ قبلے شریف کی طرف تو نہیں ہو رہی۔ قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ 45 درجے کے زاویے کے اندر اندر ہو لہٰذا یہ اِحتیاط بھی ضَروری ہے کہ 45 ڈِگری کے زاویے (اینگلAngle ) کے باہر ہو۔ مَساجد کے حمام میں W.C ہوتے ہیں مگر رُخ دُرُست ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی نیز طہارت کے لیے لوٹے کے بجائے ’’پائپ سسٹم‘‘ ہوتا ہے جس کے باعث گندی چھینٹوں سے خود کو بچانا بے حد دُشوارہے۔
بہرحال اگر نَجاستِ غلیظہ” کپڑے یا بدن میں ایک دِرہَم سے زیادہ لگ جائے تو
اُس کا پاک کرنا فرض ہے، بےپاک کیے نَماز پڑھ لی تو ہو گی ہی نہیں اور قصداً پڑھی تو گناہ بھی ہوا اور اگر بہ نیتِ اِستِخفاف (یعنی نماز کو ہلکا جان کر ) ہے تو کُفر ہوا اور اگر دِرہَم کے برابر ہے تو پاک کرنا واجِب ہے کہ بے پاک کیے نَماز پڑھی تو مکروہِ تَحریمی ہوئی یعنی اَیسی نَماز کا اِعادہ واجِب ہوا اورقَصداً پڑھی تو گنہگار بھی ہوا اور اگر دِرہَم سے کم ہے تو پاک کرنا سُنَّت ہے کہ بے پاک کیے نَماز ہو گئی مگر خِلاف ِسنَّت ہوئی اور اس کا اِعادہ بہتر ہے ۔“ اور”نَجاستِ خفیفہ کا یہ حکم ہے کہ کپڑے کے حصّہ یا بدن کے جس عُضْوْ میں لگی ہے، اگر اس کی چوتھائی سے کم ہے (مثلاً دامن میں لگی ہے تو دامن کی چوتھائی سے کم، آستین میں اس کی چوتھائی سے کم ۔ یوہیں ہاتھ میں ہاتھ کی چوتھائی سے کم ہے) تو معاف ہے کہ اس سے نماز ہو جائے گی اور اگر پوری چوتھائی میں ہو تو بے دھوئے نماز نہ ہو گی۔“([36])
خیال رہے صرف نجاست لگنے کا شک ہونے سے کپڑے وغیرہ ناپاک نہیں ہو جاتے جب تک یقین نہ ہو جائے اور یقین ہو جانے کی صورت میں نماز کو ہلکا جانتے ہوئے ادا کرنا نماز کی توہین اور کفر ہے جیسا کہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارےمکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفحات پرمشتمل کتاب،’’بہارِ شریعت‘‘ جلد اوّل صَفْحَہ 282 پر ہے:نماز کے لئے طَہارت ایسی ضَروری چیز ہے کہ بے
(یعنی بغیر)اِس کے نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر بےطہارت نماز ادا کرنے کو عُلَماء کُفر لکھتے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ اِس بے وُضُو یا بےغسل نماز والے نے عبادت کی بے اَدَبی اور توہین کی۔([37])
سُوال: جو لوگ مَسْجِدَیْنِ کَرِیْمَیْن میں صفائی کے لیے مُلازمت اِختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں کچھ اِرشادفرما دیجیے۔
جواب:مسجدیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر ہیں ،انہیں صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسجد کی صفائی وستھرائی کرنے والا گویا اپنے دِل کی صفائی کر رہا ہے اور مَسْجِدَیْنِ کَرِیْمَیْن جو اَفضلُ المساجد ہیں ان کی صفائی کرنے والوں کی شان کے کیا کہنے! حضرتِ سیِّدُنا عُبَیْدُاللہ بن مَرزُوق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ مدینہ شریف میں ایک عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی۔ جب اس کا اِنتقال ہوا تو نبیٔ کریم،رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اس کے بارے میں خبر نہ دی گئی۔ ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اس کی
قبر کے قریب سے گزرے تو دَریافت فرمایا:یہ کس کی قبر ہے؟ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کیا: اُمِّ مِحْجَنْ کی۔اِرشاد فرمایا: وہی جو مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی؟ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:جی ہاں۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے لوگوں کو اس کی قبر پر صف بنانے کا حکم دیا اور اس کی نَمازِ جنازہ پڑھائی۔([38]) پھر اس عورت کو مخاطب کر کے فرمایا: تو نے کون سا کام سب سے افضل پایا؟صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:یَارَسُوْلَ اللہ! کیا یہ سُن رہی ہے؟ اِرشاد فرمایا: تم اس سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:اس نے میرے سُوال کے جواب میں کہا:مسجد کی صفائی کو۔([39])
حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً سے وقتاً فوقتاً اور بالخصوص حج کے موسِمِ بہار میں دُنیا کے مختلف ممالک سے چار ماہ کےلیے خُدَّام بُلائے جاتے ہیں، لوگ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پہنچتے ہیں۔ مَسْجِدَیْن کَرِیْمَیْن میں خدمت کا موقع مل جانا اسی صورت میں سعادت ہے جبکہ وہاں کے آداب اور تعظیم و توقیر میں فرق نہ آنے پائے اور نہ ہی کام میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی واقع ہو۔ ایک بار ایک نوجوان حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً کی زیارت کے شوق میں چار ماہ کے لیے بطورِ خادِم بھرتی ہو گیا، جب اُس نے وہاں کی بے اَدَبیاں اور بے باکیاں دیکھیں تو سمجھ گیا کہ یہ سب کچھ مجھ سے بھی صادِر ہوکر رہے گا تو وہ گھبرا گیا اور اُس پر گِریہ طاری ہو گیا۔ اس نے سارا کام کاج چھوڑ کر رونے کی’’ڈیوٹی‘‘سنبھال لی،یہاں تک کہ بُلانے والوں نے تنگ آکر خُروج لگوا کر اسے وطن روانہ کر دیا!!
سنبھل کر پاؤں رکھنا زائرو مکّے مدینے میں
کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بےکار ہو جائے
٭…٭…٭
٭…٭…٭…٭…٭
عنوان |
صفحہ |
عنوان |
صفحہ |
دُرُود شریف کی فضیلت |
2 |
ہَوائی جہاز میں گناہوں کا خطرہ |
17 |
خاکِ مدینہ وطن میں لانا کیسا؟ |
2 |
بدنگاہی کرنے اور کروانے والیاں |
18 |
4 |
مسجدینِ کرِیمین میں دُنیوی باتیں اور شُور و غل کرنا |
20 |
|
رونے والا سنگریزہ |
5 |
مسجدینِ کریمین میں کھانا پینا کیسا ؟ |
21 |
مُزدَلفہ کی اَشکبار کنکریاں |
6 |
سالن میں پکی ہوئی الائچی کھانے کا حکم |
23 |
خاکِ مدینہ کا تحفہ |
7 |
حالتِ احرام میں خُوشبودار صابُن کا اِستعمال |
23 |
تبرکات کا اَدب کیجیے |
7 |
حج کے اَحکام سیکھنا فرض ہیں |
24 |
نَفلی حج اَفضل ہے یا صَدَقۂ نفل؟ |
8 |
خَرید و فروخت کے مَسائل سیکھنا بھی فرض ہیں |
26 |
100نفلی حج سے اَفضل عمل |
10 |
باربار حاضری کا شوق تڑپائے تو کیا کرنا چاہیے؟ |
28 |
رضائے الٰہی کے ساتھ ساتھ دِکھاوے کے لیے عمل کرنا |
11 |
حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن میں زیادہ دن قیام کرنا کیسا؟ |
30 |
آخرت کے عمل سے دُنیا طلب کرنا |
14 |
ناپاک کپڑوں میں نماز کا حکم |
31 |
پیدل سفرِ حج کی فضیلت |
15 |
مَسْجِدَیْنِ کَرِیْمَیْن میں صفائی کے لیے مُلازمت اِختیار کرنا |
34 |
حج وعمرے کے کاروان اور دعوتِ اسلامی |
16 |
٭…٭…٭ |
|
[1]…… جمع الجوامع،حرف المیم،۷ /۱۹۹،حدیث:۲۲۳۵۳ دارالکتب العلمیة بیروت
[2]…جذبُ القلوب،ص۲۲۶ النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی مرکز الاولیا لاہور
[3]…… مِرقاةُ الْمفاتیح،کتابُ المناسک،باب حرم المدینة حرسھا اللّٰه تعالٰی،الفصل الاوّل، ۵/۶۲۶، تحت الحدیث:۲۷۴۵ دارالفکر بیروت
[4]…… وفاءُ الوفاء ،الفصل الرابع فی خبر الجذع...الخ ،۱/۳۸۸ -۳۹۰ ملخصاً داراحیاء التراث العربی بیروت
[5]…… بہارِشریعت،۱/۱۲۱۶،حصّہ:۶مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
[6]…… رَدُّالْمُحتار، کتاب الحج ، مطلب فی تفضیل الحج علی الصدقة ،۴/۵۵ دارالمعرفة بیروت
[7]…… قوت القلوب ،الفصل السادس والعشرون،۱/۱۶۵ دارالکتب العلمیة بیروت
[8]…… دُرِّمنثور،پ۱۶،الکھف،تحت الآیة:۱۱۰،۵/۴۶۹ دارالفکربیروت
[9]…… دُرِّمنثور،پ۱۶،الکھف،تحت الآیة:۱۱۰،۵/۴۷۰ دارالفکربیروت
[10]…… مُسْنَدِ اِمام اَحمد،مسند المکیین،حدیث أبی سعید بن أبی فضالة،۵/۳۶۹، حدیث:۱۵۸۳۸ دارالفکر بیروت
[11]…… شعبُ الایمان ، باب فی السرور بالحسنة...الخ ،۵/۷۶ ۳ ،حدیث:۷۰۱۲ دارالکتب العلمیة بیروت
[12]…… کنزالعمّال،کتاب الأخلاق،الجزء:۳،۲/۹۳،حدیث:۶۲۷۲ دارالکتب العلمیة بیروت
[13]…… فضائلِ دُعا،ص ۲۸۱ملخصاًمكتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
[14]…… مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ 106 صفحات پر مشتمل رسالے ”نیکیاں چھپاؤ“ کا مطالعہ کیجیے۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
[15]…… مستدرک حاکم،کتابُ المناسک،فضیلة الحج ماشیاً،۲/۱۱۴،حدیث:۱۷۳۵ دارالمعرفة بیروت
[16]…… شعبُ الایمان ،باب الحیاء،فصل فی الحمام ، ۶/۱۶۲،حدیث:۷۷۸۸
[17]…… مُسلِم،کتابُ الآداب،باب نظرالفجاة،ص۹۱۷،حدیث:۵۶۴۴ دارالکتاب العربی بیروت
[18]…… ابوداود،کتاب النکاح،باب ما یؤمربه...الخ،۲/۳۵۸،حدیث:۲۱۴۹ دار احیاء التراث العربی بیروت
[19]…… جامع صغیر،حرف الضاد ،ص۳۲۲،حدیث:۵۲۳۱ دارالکتب العلمیة بیروت
[20]…… مُسلِم،کتابُ المساجد ...الخ،باب النھی عن نشد الضالة...الخ،ص۲۲۴، حدیث:۱۲۶۰
[21]…… غمز عیون البصائر، الفن الثالث، القول فی أحکام المسجد،۱/۱۹۰ بابُ المدینه کراچی
[22]…… الاشباہ والنظائر،الفن الثالث ،القول فی اَحکام المسجد،ص ۳۲۱ دار الکتب العلمیة بيروت
[23]…… فتاویٰ رضویہ ،۸/۹۵ رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور
[24]…… فتاویٰ رضویہ،۸/۹۳
[25]…… رَدُّالْمُحتار،کتابُ الصوم ،بابُ الاعتکاف،۳/۵۰۷
[26]…… دَم:یعنی ایک بکرا۔ (اِس میں نَر، مادہ،دُنبہ،بَھیڑ،نیز گائے یا اُونٹ کا ساتواں حصَّہ سب شامل ہیں۔) صَدَقہ:یعنی صَدَقۂ فِطر کی مِقدار۔آج کل کے حساب سے صَدَقۂ فِطر کی مِقدار 2 کلو میں سے 80 گرام کم گندُم یا اُس کا آٹا یا اُس کی رقم یا اُس کے دُگنے جَو یاکھجور یا اُس کی رقم ہے۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
[27]…… اِحرام اورخُوشبودار صابن ،ص۲۳ ملخصاً مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
[28]…… مزید تفصیلات جاننے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ رسالے ”اِحْرام اور خُوشبودار صابن“ کا مطالعہ کیجیے۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
[29]…… اِبن ماجه،بابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلٰى طَلَبِ الْعِلْمِ،۱/۱۴۶،حدیث:۲۲۴ دارالمعرفة بیروت
[30]…… نیکی کی دعوت ،ص ۱۳۶مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی
[31]…… حج و عمرہ کے اَحکام سیکھنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘جلد اوّل کے چھٹے حصّے اور شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنَّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارقادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مایہ ناز تصانیف’’رفیقُ الحرمین“ اور ”رَفیقُ المعتمرین“ کا مطالعہ کیجیے، اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان کتابوں کا مُطالعہ سفرِ حج وعمرہ کے دوران شرعی رہنما ئی کے لیے بےحد مُفید ثابت ہو گا۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
[32]…… ترمذی،کتاب الوتر، باب ماجاء فی فضل الصلاة...الخ،۲/۲۹،حدیث:۴۸۷ دارالفکر بیروت
[33]…… خرید و فروخت کے تفصیلی مَسائل جاننے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد دُوُم کے حصّہ11اور جلد سوم کے حصّہ 16کا مطالعہ کیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ معلومات کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا ۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
[34]…… فتاویٰ رضویہ ،۱۷/۱۲۸
[35]…… تفسیرِکبیر،پ۸،الاعراف،تحت الآیة:۲۲،۵ /۲۲۰ دار احیاء التراث العربی بیروت
[36]…… بہارِشریعت،۱/۳۸۹،حصّہ:۲ ملتقطاً
[37]…… مزید تفصیل جاننے کے لیے شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنَّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رِسالہ”کپڑے پاک کرنے کا طریقہ مع نجاستوں کا بیان‘‘دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارےمکتبۃ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کر کے مُطالعہ کیجیے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ )
[38]…… مُفَسّرِشہیر، حکیمُ الاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: قبر پر نماز (جنازہ) جائز ہے جب غالب(گمان) یہ ہو کہ ابھی میت محفوظ ہو گی،گلی پھٹی نہ ہوگی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سارے مسلمانوں کے ولی (سرپرست) ہیں،ربّ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے:)اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ 'c((پ۲۱،الاحزاب:۶) ترجمۂ کنزُ الایمان:”یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے۔“اگر ولی کے عِلاوہ اور لوگ نماز پڑھ لیں تو ولی کو دوبارہ جنازہ پڑھنے کا حق ہے۔ دیکھو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اس میت پر نماز پڑھ لی تھی مگر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے دوبارہ پڑھی،ولی کے نماز پڑھ لینے کے بعد اور کسی کو جنازہ پڑھنے کا حق نہیں۔ (مرآۃُ المناجیح ،۲/۴۷۲-۴۷۳ ملتقطاً ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیا لاہور)
[39]…… الترغیب والترھیب،کتابُ الصلٰوة،الترغیب فی تنظیف المساجد...الخ، ۱/۱۲۲،حدیث:۴ دار الکتب العلمیة بيروت