اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی، شیخِ طریقت، امیرِاہلسنَّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمّد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائیدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اپنے مخصوص انداز میں سنتوں بھر ے بیانات ، علم وحکمت سے معمور مَدَ نی مذاکرات اور اپنے تربیت یافتہ مبلغین کے ذریعے تھوڑے ہی عرصے میں لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں مدنی انقلاب برپا کر دیا ہے، آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی صحبت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کثیر اسلامی بھائی وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر ہونے والے مَدَنی مذاکرات میں مختلف قسم کے موضوعات مثلاً عقائدو اعمال، فضائل و مناقب ، شریعت و طریقت، تاریخ و سیرت ،سائنس و طِبّ، اخلاقیات و اِسلامی معلومات، روزمرہ معاملات اور دیگر بہت سے موضوعاٖت سے متعلق سُوالات کرتے ہیں اور شیخِ طریقت امیر اہلسنَّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ انہیں حکمت آموز اور عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے جوابات سے نوازتے ہیں۔
امیرِاہلسنَّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ان عطا کردہ دلچسپ اور علم و حکمت سے لبریز مَدَنی پھولوں کی خوشبوؤں سے دنیا بھرکے مسلمانوں کو مہکانے کے مقدّس جذبے کے تحت المدینۃ العلمیہ کا شعبہ’’ فیضانِ مدنی مذاکرہ‘‘ ان مَدَنی مذاکرات کو کافی ترامیم و اضافوں کے ساتھ’’فیضانِ مدنی مذاکرہ‘‘کے نام سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ان تحریری گلدستوں کا مطالعہ کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ عقائد و اعمال اور ظاہر و باطن کی اصلاح، محبت ِالٰہی و عشقِ رسول کی لازوال دولت کے ساتھ ساتھ مزید حصولِ علمِ دین کا جذبہ بھی بیدار ہو گا۔
اِس رسالے میں جو بھی خوبیاں ہیں یقیناً ربِّ رحیم عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے محبوبِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی عطاؤں،اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام کی عنایتوں اور امیراہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شفقتوں اور پُرخُلوص دُعاؤں کا نتیجہ ہیں اور خامیاں ہوں تو اس میں ہماری غیر ارادی کوتاہی کا دخل ہے۔
مجلس المدینۃ العلمیۃ
۲۸ شوال المکرم ۱۴۳۷ ھ/02 اگست 2016 ء
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
(مع دیگر دِلچسپ سُوال جواب)
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رسالہ(۳۲ صفحات) مکمل پڑھ لیجیے
اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
تاجدارِ رسالت ،شہنشاہِ نبوَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا:جو مجھ پر جمعہ کے دن اور رات 100مرتبہ دُرُود شریف پڑھے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا۔70 آخرت کی اور 30 دُنیا کی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایک فرشتہ مقرر فرما دے گا جو اس دُرُود ِپاک کو میری قبر میں یوں پہنچائے گا جیسے تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں،بِلا شُبہ میرا عِلم میرے وصال کے بعد ویسا ہی ہو گا جیسا کہ میری حیات میں ہے۔([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال :بیعت لینا اور بیعت کرنا کیسا ہے ؟نیز پیری مُریدی کی شرعی حیثیت بھی بیان
فرما دیجیے۔
جواب :بیعت کا لغوی معنیٰ بک جانا اور اِصطلاحِ شرع و تصوّف میں اس کی متعدد صورتیں ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ کسی پیرِکامل کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر گزشتہ گناہوں سے توبہ کرنے،آئندہ گناہوں سے بچتے ہوئے نیک اَعمال کا اِرادہ کرنے اور اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مَعْرِفَت کا ذریعہ بنانے کا نام بیعت ہے۔یہ سُنَّت ہے،آج کل کے عُرفِ عام میں اسے ”پیری مُریدی“ کہا جاتا ہے۔ بیعت کا ثبوت قرآنِ کریم میں موجود ہے چُنانچہ پارہ 15سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 71 میں خدائے رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ- ترجمۂ کنزالایمان:جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔
اِس آیتِ مُبارَکہ کے تحت مُفَسِّرِ شَہیر،حکیمُ الْامَّت حضرتِ مفتی احمد یا ر خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:اِس سے معلوم ہوا کہ دُنیا میں کسی صالح(نیک) کو اپنا امام بنا لینا چاہئے شریعت میں ’’تقلید‘‘ کر کے اور طریقت میں’’بیعت‘‘ کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو۔ اگر صالح(نیک) امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہو گا۔اس آیت میں تقلید،بیعت اور مُریدی سب کا ثبوت ہے۔([2])
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت،مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:بیعت بیشک سنَّتِ محبوبہ(پسندیدہ سنَّت)ہے، امام اَجل، شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عوارف شریف سے شاہ ولیُّ اﷲ دِہلوی کی”قولُ الجمیل“ تک اس کی تصریح اور اَئمہ و اکابر کا اس پر عمل ہے اور رَبُّ العزّت عَزَّ وَجَلَّ فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ- (پ۲۶،الفتح :۱۰)
ترجَمۂ کنزالایمان:وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللّٰہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہا تھوں پر اللّٰہ کا ہاتھ ہے۔
اور فرماتا ہے:
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (پ۲۶،الفتح :۱۸)
ترجَمۂ کنزالایمان:بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے۔
اور بیعت کو خاص بجہاد سمجھنا جہالت ہے،اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَكَ عَلٰۤى اَنْ لَّا یُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَسْرِقْنَ وَ لَا یَزْنِیْنَ
ترجَمۂ کنز الایمان:اے نبی جب تمہارے حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے کو کہ اللّٰہ کا شریک کچھ نہ
وَ لَا یَزْنِیْنَ وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَ لَا یَاْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَهٗ بَیْنَ اَیْدِیْهِنَّ وَ اَرْجُلِهِنَّ وَ لَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (پ۲۸،الممتحنة :۱۲)
ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ وہ بہتان لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان یعنی موضعِ ولادت میں اٹھائیں اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لو اور اللّٰہ سے ان کی مغفرت چاہو بیشک اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔([3])
سُوال :کیا احادیثِ مُبارَکہ میں بھی بیعت کا ذِکر آیا ہے؟
جواب: جی ہاں ! احادیثِ مُبارَکہ میں بھی بیعت کا ذِکر آیا ہے اور یہ بیعت مختلف چیزوں مثلاًکبھی تقویٰ و اِطاعت پر،کبھی لوگوں کی خیرخواہی اورکبھی غیر معصیت(یعنی گناہ کے علاوہ)والے کاموں میں اَمیر کی اِطاعت وغیرہ پر ہوا کرتی تھی۔اس کے علاوہ دِیگر کاموں پر بھی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا حضور سیِّدِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے بیعت ہونا ثابت ہے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عُبادَہ بِن صامِت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ہم نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے مشکل اور آسانی میں ،خوشی اور ناخوشی میں خود پر ترجیح دیئے جانے کی صورت میں ،سُننے اور اِطاعت کرنے پر بیعت کی اور اس پر بیعت کی کہ ہم کسی سے اس کے اِقتدار کے خلاف جنگ نہیں کریں گے اور ہم جہاں بھی ہوں حق کے سِوا کچھ نہ کہیں گے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بارے میں مَلامت کرنے وا لے کی مَلامت سے نہیں ڈریں گے۔([4])
حضرتِ سیِّدُنا عُبادَہ بِن صامِت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے سا تھ ایک مجلس میں تھے،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:تم لوگ مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے اور زِنا نہیں کرو گے اور چوری نہیں کرو گے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے قتل کرنا حرام کر دیا ہے اسے بے گناہ قتل نہیں کرو گے ،تم میں سے جس شخص نے اس عہد کو پورا کیا اس کا اَجر اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ہے اور جس نے ان محرمات میں سے کسی کا اِرتکاب کیا اور اس کو سزا دی گئی وہ اس کا کفّا رہ ہے اور جس نے ان میں سے کسی حرام کو کیا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اس کا پَردہ رکھا تو اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے سِپُرد ہے اگر وہ چا ہے تو اسے مُعاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔([5])
حضرتِ سیِّدُنا امام فخرُ الدِّین رازی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی تفسیرِ کبیر میں نقل فرماتے ہیں:جب مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً میں لَیْلَۃُ الْعُقْبَہ کو 70 صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے بیعت کی تو حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بِن رَواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! آپ اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے اور اپنی ذات کے لیے جو شرط چاہیں مَنوا لیں۔رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:تیرے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے یہ شرط ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے سا تھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور میرے لیے یہ شرط ہے کہ تم اپنی جانوں اور مالوں کو جن چیزوں سے باز رکھتے ہو ان سے مجھ کو بھی باز رکھنا (یعنی جس طرح اپنی جانوں اور مالوں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح میری حفاظت کرنا)تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم!جب ہم ایسا کر لیں گے تو ہمیں کیا صِلہ ملے گا؟ تو رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’جنّت۔‘‘صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: یہ تو نفع مند بیعت ہے،ہم اس بیعت کو نہ توڑیں گے اور نہ ہی توڑنے کا مُطالبہ کریں گے،اس موقع پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی،اللہ عَزَّ وَجَلَّ اِرشاد فرماتا ہے: (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-)(پ۱۱،التوبة:۱۱۱) ترجَمۂ کنز الایمان:بےشک اللہ نے
مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لئے جنّت ہے ۔([6])
سُوال :بیعت ہونے سے کیا کیا فَوائد و برکات حاصل ہوتے ہیں؟
جواب :کسی پیرِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت ہونے سے پیرِکامل سے نسبت حاصل ہو جاتی ہے جس کی بدولت باطِن کی اِصلاح کے ساتھ ساتھ نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ پیرِکامل کی صحبت اور اس کے فَوائد بیان کرتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا فقیہ عبدُالواحد بن عا شر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَادِر فرماتے ہیں:عارفِ کامل کی صحبت اِختیار کرو۔ وہ تمہیں ہلاکت کے راستے سے بچائے گا۔ اس کا دیکھنا تمہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی یاد دِلائے گا اور وہ بڑے نفیس طریقے سے نَفْس کا مُحاسَبہ کراتے ہوئے اور”خَطَراتِ قلْب“(یعنی دل میں پیدا ہونے والے شیطانی وَساوس)سے مَحفوظ فرماتے ہوئے تمہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ملا دےگا۔اس کی صحبت کے سبب تمہارے فرائض و نوافل محفوظ ہو جائیں گے۔”تصفیۂ قلب“(یعنی دل کی صفائی) کے ساتھ ”ذکرِ کثیر“کی دولت میسر آئے گی اور وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے متعلقہ سارے اُمور میں تمہاری مدد فرمائے گا۔([7])
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی
بارگاہ میں سُوال ہوا کہ”مُرید ہونا واجب ہے یاسنَّت؟نیز مُرید کیوں ہوا کرتے ہیں؟ مُرشِد کی کیوں ضرورت ہے اور اس سے کیا کیا فَوائد حاصل ہوتے ہیں؟“ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً اِرشاد فرمایا:مُرید ہونا سنَّت ہے اور اس سے فائدہ حضورسیِّدِعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سے اِتصالِ مسلسل۔ (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ )(پ۱،الفاتحہ :۶) ترجمۂ کنزالایمان:”راستہ ان کا جن پر تو نے اِحسان کیا۔“میں اس کی طرف ہدایت ہے،یہاں تک فرمایا گیا: مَن لَّا شَیْخَ لَہٗ فَشَیْخُہُ الشَّیْطٰن جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے۔([8]) صحتِ عقیدت کے ساتھ سلسلہ صحیحہ متصلہ میں اگر اِنتساب باقی رہا تو نظر والے تو اس کے بَرکات ابھی دیکھتے ہیں جنہیں نظر نہیں وہ نزع میں، قبر میں، حشر میں اس کے فوائد دیکھیں گے۔([9])
بیعت ہونے کے فَوائد میں سے یہ بھی ہے کہ یہ پیرانِ عظام یا اِن سلسلوں کے اَکابرین وبانیان اپنے مُریدین و متعلقین سے کسی بھی وقت غافل نہیں رہتے اور مشکل مقام پر ان کی مدد فرماتے ہیں چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا امام عبدُ الوہاب شعرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: بے شک سب اَئمہ و اولیا و عُلَمائے ربانیین(و مشائخِ کرامرَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام)اپنے پَیروکاروں اور مُریدوں کی شفاعت کرتے ہیں،جب ان کے مُرید کی روح نکلتی ہے ،جب منکر نکیر اس سے قبر میں سُوال کرتے ہیں،جب حشر میں اس کا نامۂ اعمال کھلتا ہے،جب اس سے حساب لیا جاتا ہے،جب اس کے اَعمال تولے جاتے ہیں اورجب وہ پل صِراط پر چلتا ہے تو ان تمام مَراحِل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی بھی جگہ اس سے غافل نہیں ہوتے۔([10])
ہے عصیاں کے بیمار کا دَم لبوں پر
خدارا لو جلدی خبر غوثِ اعظم
تمہیں میرے حالات کی سب خبر ہے
پریشاں ہوں میں کس قدر غوثِ اعظم (وسائلِ بخشش)
سُوال : نزع کے وقت پیرِ کامل کا اپنے مُرید کی مدد کرنے کا کوئی واقعہ ہو تو برائے کرم
بیان فرما دیجیے۔
جواب :جب نزع کا وقت ہوتا ہے تو اس مشکل ترین وقت میں شیطان اپنے چَیلوں کو مرنے والے کے دوستوں اور رِشتے داروں کی شکلوں میں لیکر آپہنچتا ہے جو اسے دینِ اسلام سے بہکانے کی کوشش کرتے ہیں ،اگر اِنسان کسی پیرِ کامل کا مُرید ہو تو شیطان کے ان حیلوں کو ناکام بناتے ہوئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت اور پیرِ کامل کی بَرکت سے اپنا اِیمان سلامت لے کر جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اِس ضِمن میں ایک حِکایت مُلاحظہ کیجیے چنانچہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 561 صفحات پر مشتمل کتاب”ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت“ صَفْحَہ493 پر ہے:”امام فخرُالدِّین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی نزع کا جب وقت آیا ،شیطان آیا کہ اس وقت شیطان پوری جان توڑ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اس (مرنے والے کا) کا اِیمان سلب ہوجائے (یعنی چھین لیا جائے)، اگر اس وقت پھرگیا تو پھر کبھی نہ لوٹے گا۔ اُس نے اِن سے پوچھا کہ تم نے عمر بھر مُناظروں مُباحثوں میں گزاری ،خدا کو بھی پہچانا؟ آپ نے فرمایا :بیشک خدا ایک ہے۔اس نے کہا:اس پر کیا دَلیل؟آپ نے ایک دلیل قائم فرمائی، وہ خبیث مُعَلِّمُ الْمَلَکُوْت (یعنی فرشتوں کا اُستاد)رہ چکا ہے اس نے وہ دلیل توڑ دی۔ اُنہوں نے دوسری دلیل قائم کی اُس نے وہ بھی توڑ دی۔ یہاں تک کہ ۳۶۰
دلیلیں حضرت نے قائم کیں اور اس نے سب توڑ دیں۔ اب یہ سخت پریشا نی میں اور نہایت مایوس۔ آپ کے پیر حضرت نجمُ الدین کبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہیں دُور دَراز مقام پر وُضو فرما رہے تھے، وہاں سے آپ نے آواز د ی” کہہ کیوں نہیں دیتا کہ میں نے خُدا کو بے دلیل ایک مانا ۔“اِس حِکایت سے معلوم ہوا کہ کسی مُرشِدِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیناچاہیے کہ ان کی باطنی توجہ وَسوسۂ شیطانی کو بھی دفع کرتی ہے اور اِیمان کی حفاظت کا بھی ایک مضبوط ذَریعہ ہے۔
دَمِ نَزع شیطاں نہ اِیمان لے لے حِفاظت کی فرما دُعا غوثِ اعظم
مُریدین کی موت توبہ پہ ہو گی ہے یہ آپ ہی کا کہا غوثِ اعظم
مِری موت بھی آئے توبہ پہ مُرشِد! ہوں میں بھی مُرید آپ کا غوثِ اعظم
کرم آپ کا گر ہوا تو یقیناً نہ ہو گا بُرا خاتِمہ غوثِ اعظم
سُوال :مُرید ہونے کا اصل مقصد بھی اِرشاد فرما د یجیے۔
جواب :مُرید ہونے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اِنسان مُرشدِ کامل کی رہنمائی اور باطنی توجّہ کی بَرکت سے سیدھے راستے پر چل کر اپنی زندگی شریعت وسنَّت کے مطابق گزار سکے اور اگر راہِ باطن ومعرِفت پر چلنا ہو تو پھر بیعت ہونا ضروری ہے
کیونکہ یہ راستہ اِنتہائی کٹھن اور باریک ہے جسے بغیر کسی رہبر کے طے کرنا اپنے آپ کو ہلاکت پر پیش کرنا ہے لہٰذا اس راستے کو کامیابی وکامرانی کے ساتھ طے کرنے کے لیے اِنسان کو مُرشدِ کامل کی ضَرورت ہوتی ہے۔ حُجَّۃُ الْاِسْلَام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں:مُرید کو کسی مُرشِد و اُستاد کی حاجت ہوتی ہے جو اس کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے کیونکہ دِین کا راستہ اِنتہائی باریک ہے جبکہ اس کے مقابلے میں شیطانی راستے بکثرت اور نمایاں ہیں تو جس کا کوئی مُرشد نہ ہو جو اس کی تربیت کرے تو یقیناً شیطان اسے اپنے راستے کی طرف لے جاتا ہے۔ جو پُر خطر وادیوں میں بغیر کسی کی رہنمائی کے چلتا ہے وہ خود کو ہلاکت پر پیش کرتا ہے جیسے خود بخود اُگنے والا پودا جلد ہی سُوکھ جاتا ہے اور اگر وہ لمبے عرصے تک باقی بھی رہے تو اس کے پتے تو نکل آئیں گے لیکن وہ پھل دار نہیں ہو گا۔ مُرید پر ضَروری ہے کہ وہ مُرشِد کا دَامن اس طرح تھام لے جس طرح اَندھا نہر کے کنارے اپنی جان نہر پار کرانے والے کے حوالے کر دیتا ہے اور اس کی اِتباع میں کسی قسم کی مخالفت نہیں کرتا اور نہ ہی اسے چھوڑتا ہے۔ ([11])
میٹھے میٹھےا سلامی بھائیو!معلوم ہوا کہ مُرید ہونے میں دِینی و اُخروی فوائد
پیشِ نظر ہونے چاہئیں مگر بدقسمتی سے فی زمانہ بیشتر لوگوں نے ’’پیری مُریدی‘‘ جیسے اَہم منصب کو بھی محض حُصولِ دُنیا کا ذَریعہ بنا رکھا ہے۔ لوگ پیرِ کامل کا مِعیار یہ سمجھتے ہیں کہ پیر تعویذات یا عملیات میں ماہر ہو جو ہر دُنیوی مشکل حل کر دیا کرے، اگرچہ پیرِکامل کی بَرکت سے بہت سارے دُنیوی مَسائل بھی حل ہوتے ہیں تاہم اسی چیز کو پیرِ کامل کا مِعیار سمجھ لینا اور جہاں کوئی مسئلہ حل نہ ہوا وہاں پیر صاحب کے کامِل ہونے میں شکوک و شبہات میں پڑ جانا سَرا سر جہالت و حماقت ہے لہٰذا مُرید ہوتے وقت مُرشِدِ کامِل کی حقیقی پہچان اور مُرید ہونے کے مَقاصد کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے ۔
ازپئے غوثُ الوریٰ یامصطَفٰے
میرے اِیماں کی حِفاظت کیجئے
از طفیلِ مُرشِدی دِل سے مِرے
دُور دُنیا کی مَحبَّت کیجئے (وسائلِ بخشش)
سُوال :مُرشِدِ کامل کہ جس کے ہاتھ پر بیعت کرنا دُرُست ہو اس کی کیا شَرائط ہیں ؟
جواب :مُرشدِ کامل کہ جس کے ہاتھ پر بیعت کرنا دُرُست ہو اس کی شَرائط بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن
فرماتے ہیں :بیعت لینے اور مسندِ اِرشاد پر بیٹھنے کے لئے چارشَرطیں ضَروری ہیں: ایک یہ کہ سُنّی صحیحُ العقیدہ ہو اس لئے کہ بدمذہب دوزخ کے کتے ہیں اور بدترین مخلوق، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔دوسری شرط ضَروری عِلم کا ہونا، اس لئے کہ بے علم خُدا کو پہچان نہیں سکتا۔تیسری یہ کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا اس لئے کہ فاسِق کی توہین واجب ہے اور مُرشِد واجبُ التعظیم ہے دونوں چیزیں کیسے اکھٹی ہوں گی۔چوتھی اجازتِ صحیح مُتَّصِل ہو جیسا کہ اس پر اہلِ باطن کا اِجما ع ہے۔جس شخص میں اِن شَرائط میں سے کوئی ایک شرط نہ ہو تو اس کو پیر نہیں پکڑنا چاہئے۔([12])
صَدرُ الشَّریعہ، بَدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :جب مُرید ہونا ہو تو اچھی طرح تفتیش کر لیں، ورنہ اگر (کسی ایسے کو پیر بنا لیا جو) بد مذہب ہوا تو اِیمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
اے بسا اِبلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست ([13])
کبھی اِبلیس آدمی کی شکل میں آتا ہے، لہٰذا ہر ہاتھ میں ہاتھ نہیں دینا چاہیے (یعنی ہر کسی سے بیعت نہیں کرنی چاہیے۔)
سُوال :کیا خط،ٹیلیفون یا اِجتماعِ عام میں لاؤڈ اسپیکر کے ذَریعے بیعت ہو سکتی ہے؟
جواب :فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 585 پر ہے:’’بذریعۂ قاصِد (نمائندہ)یا خط مُرید ہو سکتا ہے۔‘‘جب نُمائندے یا خط کے ذَریعے مُرید ہو سکتا ہے تو ٹیلی فون اور لاؤڈ اسپیکر پر تو بدرجۂ اَوْلیٰ بیعت ہو سکتی ہے۔
سُوال :اگر کسی سے کُفر سرزد ہو گیا ہو تو اسے اپنے کُفر سے توبہ کرنے کے بعد اپنے سابِقہ مُرشِد سے ہی تجدیدِ بیعت کرنا ضَروری ہے؟
جواب :کُفر بکنے سے جس طرح پچھلے تمام نیک اَعمال مثلاً نَماز، روزہ اور حج وغیرہ ضائِع ہو جاتے ہیں ایسے ہی بیعت بھی ختم ہو جاتی ہے، توبہ کرنے کے بعد سابقہ مُرشِد یا کسی بھی جامع شرائط پیر کا مُرید ہوا جا سکتا ہے،سابقہ مُرشِد سے ہی بیعت کرنا ضَروری نہیں۔
سُوال :زید کو اپنے پِیر صاحِب سے بَہُت عقیدت ہے لہٰذا جو کسی کے مُرید نہیں ہیں وہ اُنہیں اپنے پِیر صاحب سے بیعت ہونے کی ترغیب دِلاتا ہے۔ بکر اس پر زید کو بُرا بھلا کہتا ہے اور اِعتراض کرتا ہے کہ ترغیب نہ دِلاؤ جسے مُرید ہونا ہو گا وہ خود
ہی ہو جائے گا۔ دونوں میں حق بجانِب کون ہے؟
جواب :پیر اُمورِ آخِرت کے لیے بنایا جاتا ہے تاکہ اُس کی رہنمائی اور باطنی توجّہ کی بَرَکت سے مُرید اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے رسُول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ناراضی والے کاموں سے بچتے ہوئے ’’رِضائے رَبُّ الانام کے مَدَنی کام‘‘کے مطابق اپنی زندگی کے شب و روز گزار سکے۔ اب غور کر لیا جائے کہ یہ بات نیکی ہے یا بدی؟ اگر نیکی ہے اور یقیناً نیکی ہے تو اس کی ترغیب دِلانے والا نیکی کی دعوت دینے والا ہوا اور اس کا یہ فعل حکمِ قرآنی(وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-) (پ۶، اَلْمَائِدَة:۲) ترجمۂ کنزُ الایمان:’’اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘میں داخِل ہے لہٰذا زید ثواب کا مستحق ہے۔ اگر اس کے ترغیب دِلانے پر کوئی مُرید ہو کر نیکی کے راستے پر گامزن ہو گیا تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ زید کے لیے ثوابِ جارِیہ کا سامان ہو گا۔
سُوال :ایک پیر کے مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر سے بھی مُرید ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ نیز کسی دوسرے پیر صاحب سے طالِب ہونا کیسا ہے ؟
جواب :ایک پیر کے مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر سے مُرید نہیں ہو سکتے چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا علی بن وفار عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْغَفَّارفرماتے ہیں:جس طرح جہان کے دو
معبود نہیں ،ایک شخص کے دو دِل نہیں،عورت کے بیک وقت دو شوہر نہیں اسی طرح مُرید کے دو شیخ نہیں۔ ([14])البتہ دوسرے جامع شرائط پیر سے بیعتِ برکت کرتے ہوئے طالِب ہونے میں حرج نہیں ہے۔ اِسی طرح کے ایک سُوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:جوشخص کسی شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پربیعت ہو چکا ہو تو دوسرے کے ہاتھ پربیعت نہ چاہئے۔ اکابرِ طریقت فرماتے ہیں:”لَا یُفْلِحُ مُرِیدٌ بَیْنَ شَیْخَیْنِ جو مُرید دو پیروں کے دَرمیان مشترک ہو وہ کامیاب نہیں ہوتا۔“خصوصاً جبکہ اس سے کشُودِکار (یعنی مطلب کا حصول)بھی ہوچکا ہو،حدیث میں اِرشاد ہوا:مَنْ رُزِقَ فِيْ شَيْءٍ فَلْيَلْزَمْهُ جسے اللہتعالیٰ کسی شے میں رزق دے وہ اس کو لازم پکڑے۔ ([15])دوسرے جامع شرائط سے طلبِ فیض میں حرج نہیں اگرچہ وہ کسی سلسلۂ صریحہ کا ہو مگر اپنی اِرادت شیخِ اوّل ہی سے رکھے اور اس سے جو فیض حاصل ہو اسے بھی اپنے شیخ ہی کا فیض جانے۔([16])
ہاں! اگر کوئی سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت ہو تو اسے کسی اور سے طالِب ہونا ضَروری نہیں کیونکہ سلسلۂ عالیہ قادریہ تمام سَلاسِل سے اَفضل ہے اور تمام
سَلاسِل اسی کی طرف راجع ہیں۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے :ان(یعنی خاندانِ مداریہ والوں ) سے طالِب ہونا ہرگز کچھ ضرورنہیں، بلکہ جب اَفضلُ السَّلَاسِل سلسلہ علیہ، عالیہ، صحیحہ، متصلہ، قادریہ، طیبہ میں شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پرفخربیعت نصیب ہوچکاہے تو اسے دوسری طرف اصلاً توجہ وپریشان نظرہی نہ چاہئے۔([17]) اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنے پیر و مرشد کا ہمیشہ وفادار بنائے اور انہیں راضی رکھنے کی توفیق عطافرمائے ،اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم۔
سدا پیر و مُرشِد رہیں مجھ سے راضی
کبھی بھی نہ ہوں یہ خفا یاالٰہی
بنا دے مجھے ایک دَر کا بنا دے
میں ہر دَم رہوں باوفا یاالٰہی (وسائلِ بخشش)
سُوال :فیض کسے کہتے ہیں؟ نیزپیر و مُرشِد سے فیض حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟
جواب:فیض کی تعریف کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں: فیض بَرَکات اور نورانیت کا دوسرے پر اِلقاء فرمانا ہے۔([18]) فیض حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مُرید اپنے پیر و مُرشِد سے کامل مَحبَّت کرے۔
اُس کے اَحکام بجا لائے اور ہر وہ جائز کام کرے جس سے وہ خوش و راضی ہو۔ اُس کی کامل تعظیم و توقیر کرے اور اپنے اَقوال و اَفعال و حرکات و سکنات میں اُس کی ہدایات کے مطابق(جو شریعت کے خلاف نہ ہوں)پابند رہے تاکہ اُس سے فُیوض و بَرَکات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔
پیر و مُرشِد سے فیض حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مُرید ہمیشہ اپنے آپ کو کمالات سے خالی سمجھے اگرچہ کتنا ہی علم وفضل والا کیوں نہ ہو کہ کچھ ہونے کی سمجھ انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا شیخ سعدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کے فرمان کا خُلاصہ ہے:بھر لینے والے کو چاہیے کہ جب کسی چیز کے حاصل کرنے کا اِرادہ کرے تو اگرچہ کمالات سے بھرا ہوا ہو مگر کمالات کو دروازے پر ہی چھوڑ دے (یعنی عاجزی اِختیار کرے) اور یہ خیال کرے کہ میں کچھ جانتا ہی نہیں۔ خالی ہو کر آئیگا تو کچھ پائے گا اور جو اپنے آپ کو بھرا ہوا سمجھے گا تو یاد رہے کہ بھرے برتن میں کوئی اور چیز نہیں ڈالی جا سکتی۔ ([19])اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کی سچی محبت نصیب کرے اور ان کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے،اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم۔
جو ہو اللّٰہ کا ولی اُس کا
فیض دُنیا میں عام ہوتا ہے (وسائلِ بخشش)
سُوال :مُرید اور طالِب میں کیا فرق ہے؟
جواب:مُرید اور طالِب میں فرق بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت فتاویٰ رضویہ،جلد 26 صفحہ 558پرفرماتے ہیں:مُرید غلام ہے اور طالِب وہ کہ غیبتِ شیخ(یعنی مُرشِد کی غیر موجودگی)میں بضرورت یا باوجودِ شیخ کسی مَصْلِحَت سے، جسے شیخ جانتا ہے یا مُریدِ شیخ غیر شیخ سے اِستفادہ کرے۔ اسے جو کچھ اس سے حاصل ہو وہ بھی فیضِ شیخ ہی جانے۔ ([20])
سُوال :کُتا کپڑوں سے چُھو جائے تو کیا کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں؟
جواب : کُتا کپڑوں سے چُھو جائے تو کپڑے ناپاک نہیں ہوتے بشرطیکہ اس کے بدن پر نجاست نہ لگی ہو، ورنہ ناپاک ہو جائیں گے چنانچہ صَدرُ الشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: کُتّا بدن یا کپڑے سے چھو جائے، تو اگرچہ اس کا جسم تر ہو بدن اور کپڑا پاک ہے، ہاں اگر اس کے بدن پر نَجاست لگی ہو تو اور بات ہے یا اس کا لُعاب(تھوک) لگے تو ناپاک کر دے گا۔([21])
سُوال:کیا شوقیہ کُتّا پال سکتے ہیں؟
جواب : شوقیہ طور پر کُتّا نہیں پال سکتے۔حدیثِ پاک میں ہے:جس گھر میں کُتّا یا تصویر ہو اس میں(رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔([22]) شیخ الحدیث حضرتِ علّامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:بعض بچے کتوں کے بچوں کو شوقیہ پالتے اور گھروں میں لاتے ہیں ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو اس سے روکیں اور اگر وہ نہ مانیں تو سختی کریں حدیث میں جن کتوں کے گھر میں رہنے سے رحمت کے فرشتوں کے نہ آنے کا ذکر ہے ان کتوں سے مُراد وہی کتے ہیں جن کو پالنا جائز نہیں ہے۔([23])
معلوم ہوا کہ شوقیہ طور پر کتا نہیں رکھ سکتے ،اگر کسی نے رکھا تو اس کے عمل میں سے روزانہ ایک قیراط ثواب کم ہوگا ،اَلبتہ کھیتی اور بکریوں کی حفاظت اور شکار کرنے کے لیے رکھ سکتے ہیں جیسا کہ ہادی ٔ راہِ نجات،سرورِ کائناتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ نجات ہے:اگر کتّے ایک مخلوق نہ ہوتے تو میں انہیں قتل کرنے کا حکم دیتا پس ہر سیاہ کتّے کو مار دو اور جو لوگ گھروں میں کتا رکھتے ہیں ان کے عمل سے روزانہ ایک قیراط کم ہوتا ہے مگر شکار کا کُتّا، کھیتی کی
حفاظت اور بکریوں کی حفاظت کے لیے کُتّا( رکھ سکتے ہیں کہ ان کے رکھنے سے ثواب میں کمی نہیں ہوتی)۔ ([24])
فقہِ حنفی کی مشہور و معروف کتاب فتح القدیرمیں ہے:جانور،کھیتی،مکان کی حفاظت اور شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے مگر ان صورتوں میں بھی کتوں کو مکان کے اندر نہ رکھا جائے،ہاں! اگر چور یا دُشمن کا خوف ہو تو مکان کے اندر بھی رکھ سکتے ہیں۔([25])
سُوال:عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ جب کسی مصیبت،پریشانی یا بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو گھبرا کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف رُجوع کرتے ہیں،دُعا اور اَوراد و وَظائف کی کثرت کرتے ہیں،تو کیا ایسی حالت میںاللہ عَزَّ وَجَلَّ کو یاد کرنا زیادہ افضل ہے ؟
جواب :انسان کو مصیبت و راحت ،خوشحالی و بدحالی ہرحال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو یاد کرنا چاہیے بلکہ راحت وخوشحالی میں دُعا کی زیادہ کثرت کرے تاکہ سختی اور رَنج میں بھی دُعا قبول ہو چنانچہ بے چین دِلوں کے چَین،رحمتِ دارین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ چَین ہے:جسے یہ پسند ہو کہ مشکِلات کے وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی دُعا قبول فرمائے تو اُسے چاہیے کہ آسائش کے وَقت دُعا کی
کثرت کرے۔([26])مصیبت کے وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو یاد کرنا اور رَاحت و آسائش کے وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی یاد سے غافل ہو جانا مسلمانوں کا شیوہ نہیں بلکہ کفّار کا طریقہ ہے چنانچہ پارہ 11سورۂ یونس کی آیت نمبر 12 میں خُدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے :
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖۤ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآىٕمًاۚ-فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَاۤ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗؕ-
ترجمۂ کنز الایمان:اور جب آدمی (یعنی کافر ) کو تکلیف پہنچتی ہے ہمیں پکارتا ہے لیٹے اور بیٹھے اور کھڑےپھر جب ہم اس کی تکلیف دُور کر دیتے ہیں چل دیتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔
اِسآیتِ مُبارَکہ کے تحت حضرتِ علّامہ علاؤ الدِّین علی بن محمد بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللّٰہ ِالْہَادِیفرماتے ہیں:اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان بلا کے وقت بہت ہی بے صبرا ہے اور رَاحت کے وقت نہایت ناشکرا ، جب تکلیف پہنچتی ہے تو ہر حال میں دُعا کرتا ہے جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ تکلیف دُور فرما دے تو شکر بجا نہیں لاتا اور اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے،یہ حال غافل کا ہے۔مومن عاقل کا حال اس کے خلاف ہے وہ مصیبت و بلا پر صبر کرتا ہے، راحت و
آسائش میں شکر بجا لاتا ہے ، تکلیف و راحت کے جملہ اَحوال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حضور تضرُّع و زاری اور دُعا کرتا ہے اور ایک مقام اس سے بھی اعلیٰ ہے جو مومنوں میں بھی مخصوص بندوں کو حاصل ہوتا ہے کہ جب کوئی مصیبت و بلا آتی ہے تو اس پر وہ صبر کرتے ہیں ، قضاءِ الٰہی پر دل سے راضی رہتے ہیں اور تمام اَحوال پر شکر کرتے ہیں ۔([27])
رونا مصیبت کا مت رو تُو پیارے نبی کے دیوانے
کرب و بلا والے شہزادوں پر بھی تُو نے دھیان کیا
پیارے مبلغ معمولی سی مشکل پر گھبراتا ہے
دیکھ حسین نے دین کی خاطر سارا گھر قربان کیا (وسائلِ بخشش)
امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ایک مدنی مذاکرے میں اِرشاد فرمایا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میری کوشِش ہوتی ہے کہ بظاہِر کتنی ہی معمولی بیماری یا پریشانی ہومثلاً نَزلہ زُکام ہویا کوئی اور کام اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں بِہتری کے لیے رجوع کرتا ہوں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنی رحمت سے وہ بیماری یا پریشانی دور فرما دیتا ہے جیساکہ ایک بار ہمارا مَدَنی قافلہ آدھی رات کے وقت سندھ کے ایک شہر دادو پہنچا ، جس اسلامی بھائی کے گھر جانا تھا اُن کا فون نمبر تو تھا مگر رات میں پتا ڈھونڈنا مشکِل تھا۔
ہمارے ایک اسلامی بھائی نے ایک پیٹرول پمپ پر جا کر فون کے لیے درخواست کی تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ” فون پر تالا ہے اور چابی ہمارے پاس نہیں۔“بس کے اڈّے والے نے بھی فون نہیں کرنے دیا،اسی پریشانی کے عالَم میں ایک مسجِد کھلی نظر آئی ہم اس میں داخِل ہو گئے۔ دوگانہ(دو رکعت نفل نماز )ادا کر کے بارگاہِ خداوندی میں اپنا مسئلہ عرض کیا۔ پھر ہم نے باہَر نکل کر ہمّت کی اور دوبارہ پیٹرول پمپ والے کے پاس جاکر فون کی اجازت طلب کی تو وہ بَہت مہربان ہوگیااور اس نے فون کرنے کی اِجازت دے دی اور پیسے بھی نہیں لیے بلکہ کمال شَفْقَت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چائے کی دعوت بھی دی۔
نہ کر رَد کوئی اِلتجا یاالٰہی
ہو مقبول ہر اِک دُعا یاالٰہی
رہے ذِکر آٹھوں پَہَر میرے لب پر
تِرا یاالٰہی تِرا یاالٰہی (وسائلِ بخشش)
سُوال:دُعا مانگنے کی ترغیب و فضائل پر چند اَحادیثِ مُبارکہ بیان فرما دیجیے ۔
جواب :قرآن و حدیث میں دُعا مانگنے کی بہت ترغیب دِلائی گئی ہے چنانچہ پارہ 24 سورۃ
ُ المؤمن کی آیت نمبر 60 میں خُدائے رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے :
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-
ترجمۂ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دُعا کرو میں قبول کروں گا۔
اِسی طرح اَحادیثِ مُبارکہ میں بھی دُعا مانگنے کی بہت زیادہ ترغیب دِلائی گئی ہے نیز دُعا مانگنے کے فضائل و بَرکات بھی بیان فرمائے گئے ہیں چنانچہ دُعا مانگنے کی ترغیب و فضائل پر11فَرامینِ مصطفےٰ مُلاحظہ کیجیے:(۱)خدا کے بندو ! دُعا کو لازم پکڑو۔([28])(۲)اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے:اے فرزندِ آدم! تُو جب تک مجھ سے دُعا مانگے جائے گا اور اُمّید رکھے گا تیرے کیسے ہی گناہ ہوں بخشتا رہوں گا اور مجھے کچھ پَروا نہیں۔([29]) (۳) مجھ پر دُرُود بھیجو اور دُعا میں کوشش کرو۔([30]) (۴)دُعا میں کمی نہ کرو جو دُعا کرتا رہے گا ہرگز ہلاک نہ ہو گا۔([31])(۵)رات دن اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دُعا مانگو کہ دُعا مومن کا ہتھیار ہے۔([32])(۶)عافیت کی دُعا اکثر مانگ۔([33])(۷) دُعا کی کثرت کرو کہ دُعا قضائے مُبرم کو رَدکرتی ہے۔([34]) (۸)
جسے یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں میں اس کی دُعا قبول فرمائے تو وہ نرمی میں دُعا کرتا رہے۔([35]) (۹) جو اللہ تعالیٰ سے دُعا نہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرمائے گا۔([36]) (۱۰)اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے:میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں اور میں اُس کے ساتھ ہوں جب مجھ سے دُعا کرے۔([37])(۱۱)ایک بار حضورِ اکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دُعا کی فضیلت اِرشاد فرمائی ، تو ایک شخص نے عرض کی:’’اِذاً نُکْثِرُ یعنی ایسا ہے تو ہم دُعا کی کثرت کریں گے۔“ اِرشاد فرمایا:’’اَللّٰہُ اَکْثَرُ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا کرم بہت زیادہ ہے۔“([38])
سُوال :کیا دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھانا ضَروری ہے؟نیز نماز کے بعد ہاتھوں کو اُٹھا کر دُعا مانگنا اور ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا کیساہے ؟
جواب :دُعا بغیر ہاتھ اُٹھائے بلکہ بغیر زَبان ہِلائے بھی دِل ہی دِل میں مانگی جاسکتی ہے، اَلبتہ ”دُعا کے لیے ہا تھ اُٹھانا دُعا کےآداب میں سے ہے۔“ ([39]) لہٰذا دُعا کے
تمام تر آداب کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ہی دُعا مانگی جائے تاکہ دُعا قبولیت کے زیادہ قریب ہو۔ رہی بات نماز کے بعد ہاتھوں کو اُٹھا کر دُعا مانگنے اور انہیں چہرے پر پھیرنے کی تو اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنَّت، مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:نماز کے بعد دُعا مانگنا سُنَّت ہے اور ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنا اور بعدِ دُعا منہ پر ہاتھوں کو پھیر لینا یہ بھی سُنَّت سے ثا بت ہے ۔([40])
سُوال :دُعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرنے میں کیا حِکمت ہے؟
جواب :دُعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرنے میں یہ حکمت ہے کہ دُعا میں جو خیر و بَرَکت حاصِل ہوئی وہ چہرے سے مَس ہو جائے چنانچہ رَئِیْسُ الْمُتَکَلِّمِیْن حضرتِ علّامہ مولانا نقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان’’اَحْسَنُ الْوِعَاءِ لِآدَابِ الدُّعَاءِ‘‘ میں فرماتے ہیں:”بعدِ فراغ (یعنی دُعا سے فارِغ ہونے کے بعد) دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے کہ وہ خیر و برکت جو بذریعہ دُعا حاصل ہوئی اَشر فُ الْاعضاء یعنی چہرے سے مُلاقِی(یعنی مَس) ہو۔“اس کے حاشیے ’’ذَ یْلُ الْمُدَّ عَا ءِ لِاَحْسَنِ الْوِعَاءِ‘‘میں اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت حدیثِ پاک نقل فرماتے ہیں کہ
حضرتِ سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: جب تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں ہاتھ اُٹھا کر دُعا و سُوال کرو تو انہیں منہ پر پھیر لو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ شرم و کرم والا ہے۔ جب بندہ دونوں ہاتھ اُٹھاتا اور سُوال کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہاتھ خالی پھیرنے سے شرماتا ہے لہٰذا اس خیر کو اپنے چہرے پر مسح کرو۔([41])- ([42])
٭…٭…٭…٭…٭…٭
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں:(پیر ہونے کے لئے سیِّد اور آلِ رسول ہونے کو ضروری سمجھنا )یہ محض باطل ہے، پیر ہونے کے لئے وہی چار شَرطیں دَرکار ہیں،ساداتِ کرام سے ہونا کچھ ضَرورنہیں۔ہاں!ان شرطوں کے ساتھ سیِّدبھی ہو تو نُورٌ علیٰ نُور۔ باقی اسے شرط ضروری ٹھہرانا تمام سَلاسلِ طریقت کا باطل کرناہے۔ سلسلۂ عالیہ قادریہ سلسلۃُ الذہب میں سیِّدُنا امام علی رضا اور حضور سیِّدُنا غوثِ اعظمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے درمیان جتنے حضرات ہیں کوئی ساداتِ کرام سے نہیں اور سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں تو اَمیرُالمؤمنین مولیٰ علیکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بعد ہی سے امام حسن بصری(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی) ہیں کہ نہ سیِّد نہ قریشی نہ عربی اورسلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کا خاص آغاز ہی حضور سیِّدُنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے، اسی طرح دیگر سَلاسِل۔ (فتاویٰ رضویہ ، ۲۶/۵۷۶)
قرآنِ پاک |
٭…٭…٭ |
٭…٭…٭ |
٭…٭…٭ |
نام کتاب |
مطبوعہ |
نام کتاب |
مطبوعہ |
کنزالایمان |
مکتبۃ المدینہ۱۴۳۲ھ |
مسند ابی یعلیٰ |
دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۸ھ |
التفسیر الکبیر |
دار احیاءُ التراث العربی۱۴۲۰ ھ |
الحصن الحصین |
المکتبۃ العصریہ بیروت ۱۴۲۵ھ |
تفسیرِ خازن |
المطبعۃ المیمنیہ مصر ۱۳۱۷ھ |
فتح القدیر |
کوئٹہ |
نورُ العرفان |
پیر بھائی کمپنی مرکز الاولیا لاہور |
فتاویٰ رضویہ |
رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور |
صحیح البخاری |
دارا لکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۹ ھ |
بہارِ شریعت |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ كراچی |
صحیح مسلم |
دار ابنِ حزم بیروت ۱۴۱۹ھ |
جنتی زیور |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ كراچی |
سنن الترمذی |
دار الفکر بیروت۱۴۱۴ھ |
احیاء علوم الدین |
دار صادر بیروت۲۰۰۰ء |
سنن النسائی |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۶ھ |
المنن الکبریٰ |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۶ھ |
المستدرک |
دار المعرفہ بیروت۱۴۱۸ھ |
المیزان الکبریٰ |
دار الکتب العلمیہ بیروت۲۰۰۹ء |
جمع الجوامع |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ |
بوستانِ سعدی |
انتشارات عالمگیر کتابخانہ ایران |
شعب الایمان للبیہقی |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ |
آدابِ مرشدِ کامل |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ كراچی |
کنز العمال |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۹ھ |
فضائلِ دُعا |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
عنوان |
صفحہ |
عنوان |
صفحہ |
دُرُود شریف کی فضیلت |
2 |
مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پِیر کا مُرید ہونا |
17 |
پیری مُریدی کی شَرعی حیثیت |
2 |
پیر و مُرشِد سے فیض حاصل کرنے کا طریقہ |
19 |
اَحادیثِ مُبارَکہ میں بیعت کا ذِکر |
5 |
مُرید اور طالِب میں فرق |
21 |
بیعت ہونے کے فَوائد و بَرکات |
8 |
کُتا کپڑوں سے چُھو جائے تو...؟ |
21 |
پیرِ کامل کی بَرکت سے اِیمان سلامت رہا |
10 |
شوقیہ کُتّا پالنے کا نقصان |
22 |
مُرید ہونے کا مقصد |
12 |
ہرحال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو یاد کرنا چاہیے |
23 |
مُرشِدِ کامل کیلئے چار شَرائط |
14 |
دُعا مانگنے کی ترغیب و فضائل پر اَحادیثِ مُبارکہ |
26 |
خط یا ٹیلیفون کے ذَریعے بیعت |
16 |
کیا دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھانا ضَروری ہے؟ |
28 |
سابقہ مُرشِد سے تجدیدِ بیعت |
16
|
دُعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرنے میں حِکمت |
29 |
دوسروں کو اپنے پیر کی بیعت کی ترغیب دِلانا کیسا؟ |
16 |
ماخذ و مراجع
|
31 |
[1]…… جمع الجوامع ، قسم الاقوال ، حرف المیم،۷/۱۹۹،حدیث:۲۲۳۵۵
[2]…… نورُالعرفان، پ ۱۵، بنی اسرائیل ،تحت الآیۃ:۷۱
[3]…… فتاویٰ رضویہ ،۲۶/۵۸۶
[4]…… مسلم،کتاب الامارة ، باب وجوب طاعة الامراء...الخ ،ص۱۰۲۴،حدیث:۱۷۰۹
[5]…… مسلم،کتاب الحدود ، باب الحدود کفارات لأھلھا...الخ ،ص۹۳۹،حدیث:۱۷۰۹
[6]…… تفسیرِ کبیر، پ۱۱،التوبة ،تحت الآیة:۱۱۱،۶/۱۵۰
[7]…… آدابِ مرشدِ کامل،ص۸۲
[8]…… اس کی وضاحت کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں:ہر بد مذہب فَلاح سے دُور ہلاکت میں چُور ہے، مطلقا ًبے پیرا ہے اور اِبلیس ا س کا پیر، اگر چہ بظاہر کسی انسان کا مُرید ہوبلکہ خود پیر بنے راہِ سلوک میں قدم رکھے نہ رکھے ہر طرح لَا یُفْلِحُ وَشَیْخُہُ الشَّیْطَان (فلاح نہیں پائے گا اور اس کا پیر شیطان ہے۔ ) کامِصداق ہے۔ سُنِّی صحیح العقیدہ کہ راہِ سلوک نہ پڑا اگر فسق کرے فلاح پر نہیں مگر پھر بھی نہ بے پیرا ہے نہ اس کا پیر شیطان، بلکہ جس شیخ جامع شرائط کا مُرید ہو ا س کا مُرید ہے ورنہ مُرشدِ عام کا ۔ (یعنی کَلَامُ اللہ و کلام الرسول و کلامِ ائمہ شریعت و طریقت و کلامِ علمائے دین اہلِ رُشد و ہدایت ہے اسی سلسلۂ صحیحہ پر کہ عوام کا ہادی کلامِ علماء، علماء کا رہنما کلامِ ائمہ، ائمہ کا مُرشِد کلامِ رسول ، رسول کا پیشوا کلامُ اللہ جَلَّ وَعَلا وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم۔) (فتاویٰ رضویہ ،۲۱/۵۱۹-۵۰۵)
[9]…… فتاویٰ رضویہ ،۲۶/۵۷۰ ملتقطا
[10]…… میزانُ الکبریٰ ،۱/۶۵
[11]…… احیاءُ العلوم ،کتاب ریاضة النفس و تھذیب الاخلاق ، بیان شروط الارادة...الخ ،۳/۹۳
[12]…… فتاویٰ رضویہ،۲۱/۴۹۱
[13]…… بہارِ شریعت،۱/۲۷۷،حصّہ:۱
[14]…… المننُ الکبریٰ ،الباب الثامن ،ص۳۴۶
[15]…… شعب الایمان ، باب التوکل والتسلیم ،۲/۸۹،حدیث:۱۲۴۱
[16]…… فتاویٰ رضویہ ،۲۶/۵۷۹
[17]…… فتاویٰ رضویہ ،۲۶/۵۵۸
[18]…… فتاویٰ رضویہ ،۲۶/۵۶۴
[19]…… بوستانِ سعدی ،ص۱۴۰
[20]…… پیری مُریدی کے بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیےدعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 275 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’آدابِ مُرشدِ کامل‘‘ کا مطالعہ کیجیے۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
[21]…… بہارِ شریعت ،۱/۳۹۵،حصّہ :۲
[22]…… بخاری ،کتاب المغازی،باب ۱۲، ۳/۱۹،حديث: ۴۰۰۲
[23]…… جنتی زیور،ص۴۴۱
[24]…… ترمذی،کتابُ الاحکام والفوائد،باب ماجاء من أمسک...الخ ،۳/۱۵۹، حدیث:۱۴۹۵
[25]…… فتحُ القدیر،کتاب البیوع ، مسائل منثورہ ،۶/۲۴۶
[26]…… تِرمِذِی ،کتاب الدعوات ، باب ماجاء ان دعوة المسلم...الخ ، ۵/۲۴۸ ، حدیث:۳۳۹۳
[27]…… تفسیرِ خازن ، پ۱۱، یونس،تحت الآیة:۱۲ ،۲/۳۰۴
[28]…… تِرمِذِی ،کتاب الدعوات ، باب ما جاء فی دعاء النبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،۵/۳۲۱ ،حدیث:۳۵۵۹
[29]…… تِرمِذِی ،کتاب الدعوات ، باب فی فضل التوبة...الخ ،۵ /۳۱۸ ، حدیث:۳۵۵۱
[30]…… نَسائی ،کتاب السھو،باب کیف الصلاة...الخ ،ص/۲۲۱ ، حدیث:۱۲۸۹
[31]…… مستدرك حاكم،كتاب الدعاء...الخ ، باب لا يهلك مع الدعاء احد ،۲/۱۶۴،حدیث:۱۸۶۱
[32]…… مُسْنَد اَبِی یَعْلٰی ، مسند جابر بن عبداللّٰہ ،۲/۲۰۱، حدیث:۱۸۰۶
[33]…… مستدرک حاکم،کتاب الدعاء...الخ ، باب سوال العفو والعافیة ،۲ /۲۱۷،حدیث:۱۹۸۲
[34]…… کَنْزُالْعُمَّال ،کتاب الاذکار ،الباب الثامن فی الدعاء ،الجزء:۲،۱/۲۸،حدیث:۳۱۱۷
[35]…… تِرمِذِی ،کتاب الدعوات ، باب ما جاء ان دعوة المسلم...الخ ، ۵/۲۴۸،حدیث:۳۳۹۳
[36]…… تِرمِذِی ،کتاب الدعوات ، باب منہ (ت:۲)۵/۲۴۴،حدیث:۳۳۸۴
[37]…… مُسْلِم،کتاب الذکر...الخ ،باب فضل الذکر...الخ ، ص۱۴۴۲،حدیث:۲۶۷۵
[38]…… تِرمِذِی ،احادیث شتٰی ،باب فی انتظار...الخ ، ۵/۳۳۴ ، حدیث:۳۵۸۴
[39]…… الحصن الحصین ،آداب الدعاء ،ص۲۴
[40]…… فتاویٰ رضویہ،۶/۲۰۲
[41]…… فضائلِ دُعا ،ص۹۴
[42]…… دُعا کے فضائل و برکات اور اس کے آداب کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 318 صفحات پر مشتمل کتاب”فضائلِ دُعا“ کا مطالعہ کیجیے۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ )