(13)توبہ

توبہ کی تعریف:

جب بندے کو اس بات کی معرفت حاصل ہوجائے کہ گناہ کا نقصان بہت بڑا ہے، گناہ بندے اور اس کے محبوب کے درمیان رکاوٹ ہے تو وہ اس گناہ کے ارتکاب پر ندامت اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قصد واِرادہ کرتا ہے میں گناہ کو چھوڑ دوں گا، آئندہ نہ کروں گا اور جو پہلے کیے ان کی وجہ سے میرے اعمال میں جو کمی واقع ہوئی اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا تو بندے کی اس مجموعی کیفیت کو توبہ کہتے ہیں۔ علم ندامت اور اِرادے ان تینوں کے مجموعے کا نام توبہ ہے لیکن بسا اوقات ان تینوں میں سے ہر ایک پر بھی توبہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔([1])

آیت مبارکہ:

  اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں ارشادفرماتا ہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-)(پ۲۸، التحریم: ۸)ترجمۂ کنز الایمان: ’’اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے۔‘‘صدرالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:’’ توبۂ صادِقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو، اُس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمورہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب(یعنی بچتا) رہے۔امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاور دوسرے اَصحاب نے فرمایا کہ توبۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔‘‘([2])

(حدیث مبارکہ)توبہ کرنے والاربّ تعالی کو پسند ہے:

سردارِ دو جہان، محبوبِ رحمن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمان عالیشان ہے: ’’بے شک   اللہ عَزَّ وَجَلَّتوبہ کرنے والے ،آزمائش میں مبتلا مؤمن بندے کو پسند فرماتا ہے۔‘‘([3])

توبہ کا حکم:

ہرمسلمان پر ہر حال میں ہر گناہ سے فوراً توبہ کرنا واجب ہے، یعنی گناہ کی معرفت


 

ہونے کے بعداس پر ندامت اختیار کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کرنا اور گزرے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی اور افسوس کرنا بھی واجب ہے اور وجوبِ توبہ پر اِجماعِ اُمت ہے۔([4])

گناہوں سے توبہ کرنے کا طریقہ:

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’سچی توبہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے رَبّ  عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کر‏فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میںہوبجا لائے۔مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب (ناجائز قبضہ)، سرقہ(چوری)، رشوت، ربا(سود)سے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق (یعنی صدقہ)کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا۔‘‘([5])


 

(13)(حکایت)توبہ واستغفار ومجاہدہ کے سبب روح پرواز کرگئی:‏

ایک دن حضرت سیدنا منصوربن عمار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار لوگوں کو وَعظ ونصیحت کرنے کے لئے منبرپرتشریف لائے اوراُنہیں عذابِِ اِلٰہی سے ڈرانے اور گناہوں پر ڈانٹنے لگے۔ قریب تھاکہ لوگ شدتِ اِضطراب سے تڑپ تڑپ کر مَرجاتے۔ اس محفل میں ایک گنہگار نوجوان بھی موجُود تھاجو اپنے گناہوں کی وَجہ سے قبر میں اُترنے کے متعلق کافی پریشان تھا۔ جب وہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے اِجتماع سے واپس گیا تویوں لگتاتھا جیسے بیان اس کے دل پر بہت زیادہ اَثراَنداز ہوچکاہے۔وہ اپنے گناہوں پر نادِم ہو کر اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: ’’اے میری ماں!آپ چاہتی تھیں کہ میں شیطانی لہو ولعب اور خدائے رحمن  عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی چھوڑ دوں لہٰذا آج سے میں اسے تَرک کرتا ہوں۔‘‘ اوراس نے اپنی ماں کو یہ بھی بتایا کہ میں حضرت سیدنا منصوربن عمار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار کے اِجتماعِ پاک میں حاضر ہوا اور اپنے گناہوں پر بہت نادِم ہوا۔ چُنانچہ ماں نے کہا: ’’اے میرے بیٹے! تمام خُوبیاں   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے تجھے بڑے اچھے اَنداز سے اپنی بارگاہ کی طرف لوٹایا اور گُناہوں کی بیماری سے شِفا عطا فرمائی اور مجھےقوی اُمید ہے کہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّمیرے تجھ پر رونے کے سبب تجھ پر ضرور رَحم فرمائے گا اور تجھے قبول فرماکر تجھ پر اِحسان فرمائے گا۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: ’’اے بیٹے! نصیحت بھرا بیان سنتے وَقت تیرا کیا حال تھا؟ تو اس نے جواب میں چند اَشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے :‏’’میں نے توبہ کے لئے اپنا دامن پھیلا دیا ہے اوراپنے آپ کو مَلامت کرتے ہوئے مطیع ‏وفرمانبردار بن گیا ہوں۔جب بیان کرنے والے نے میرے دِل کو اِطاعت خداوَندی کی طرف بُلایا تو


 

 میرے دل کے تمام قفل(یعنی تالے) کھل گئے۔اے میری ماں! کیا میرا مالک ومولیٰ  عَزَّ وَجَلَّ میری گنا ہوں بھری زندگی کے باوجُود مجھے قبول فرمالے گا۔ہائے اَفسوس!اگر میرا مالک مجھے ناکام ونامُرادواپس لوٹادے یا اپنی بارگاہ میں حاضرہونے سے روک دے تو میں ہلاک ہو جاؤں گا ۔‘‘پھر وہ نوجوان دن کو روزے رکھتا اور راتوں کو قیام کرتا یہاں تک کہ اس کا جسم لاغر وکمزور ہو گیا، گوشت جھڑ گیا، ہڈیاں خشک ہو گئیں اور رَنگ زَرد ہو گیا۔ایک دن اس کی ماں اس کے لئے پیالے میں ستولے کر آئی اور اِصرار کرتے ہوئے کہنے لگی: ’’میں تجھے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم دے کر کہتی‏ہوں کہ یہ پی لو، تمہاراجسم بہت مَشَقَّت اُٹھا چکا ہے۔‘‘ چنانچہ ماں کی بات مانتے ہوئے جب اس نے پیالہ ہاتھ میں لیا توبے چینی وپریشانی سے رونے لگااور اللہ عَزَّ وَجَلَّکےاس فرمان کو یاد کرنے لگا:﴿یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَایَكَادُ یُسِیْغُهٗ﴾(پ۱۳، ابراھیم: ۱۷)ترجمۂ کنز الایمان: ’’بمشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے گا اورگلے سے نیچے اُتارنے کی اُمید نہ ہوگی۔‘‘پھر اس نے زور زور سے رونا شروع‏کردیا اور زمین پر گرگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی رُوْح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین([6])

توبہ میں تاخیر کی سات (7)وجوہات اور ان کا حل:

(1)گناہوں کے انجام سے غافل رہنا:اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اپنا یوں ذہن بنائے کہ محض ایک ڈاکٹر کی بات پر اعتبار کرکے آئندہ نقصان سے بچنے کے لئے کئی اشیاء کو ان کی تمام تر لذت کے باوجود چھوڑ دیتا ہوں تو کیا یہ نادانی نہیں ہے کہ میں نے ایک


 

 بندے کے ڈرانے پر اپنی لذتوں کو چھوڑ دیا لیکن تمام کائنات کے خالق  عَزَّ وَجَلَّکے وعدۂ عذاب کو سچا جانتے ہوئے اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کو ترک نہیں کرتا ۔

(2) دل پر گناہوں کی لذت کا غلبہ ہونا: اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس طرح سوچ وبچار کرے کہ جب میں زندگی کے مختصر ایام میں ان لذتوں کو نہیں چھوڑ سکتا تو مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لذتوں(یعنی جنت کی نعمتوں)سے محرومی کیسے گوارہ کروں گا؟جب میں صبر کی آزمائش برداشت نہیں کرسکتا تو نارِ جہنم کی تکلیف کس طرح برداشت کروں گا ؟

(3) طویل عرصہ زندہ رہنے کی امید ہونا:اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس طرح غور کرے کہ جب موت کا آنا یقینی ہے اور مجھے اپنی موت کے آنے کا وقت بھی معلوم نہیں تو توبہ جیسی سعادت کو کل پر مو قوف کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے ؟جس گناہ کو چھوڑنے پر آج میرا نفس تیار نہیں ہورہا کل اس کی عادت پختہ ہوجانے پر میں اس سے اپنادامن کس طرح بچاؤں گا؟اوراس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ میں بڑھاپے میں پہنچ پاؤں گا یا نوکری سے ریٹائر ہونے تک میں زندہ رہوں گا ؟

(4)رحمت الٰہی کے بارے میں دھوکے کا شکار ہونا: اللہ عَزَّ وَجَلَّبڑا غفوررحیم ہے، ہمیں اللہکی رحمت پر بھروسہ ہے وہ ہمیں عذاب نہیں دے گا۔اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ اللہ  تعالٰی کے رحیم وکریم ہونے میں کسی مسلمان کو شک وشبہ نہیں ہوسکتا لیکن جس طرح یہ دونوں اس کی صفات ہیں اسی طرح قہار اور جبار ہونا بھی ربّ  عَزَّ وَجَلَّکی صفات ہیں اور یہ بات بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ کچھ نہ کچھ مسلمان جہنم میں بھی جائیں گے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ مسلمان تو غضب ِ الٰہی  عَزَّ وَجَلَّکا شکار ہوں اور


 

 جہنم میں جائیں لیکن مجھ پر رحمت الٰہی کی چھماچھم برسات ہو اور مجھے داخل جنت کیا جائے؟([7])

(5) بعد توبہ استقامت نہ ملنے کا خوف ہونا:اس کا حل یہ ہے کہ یہ سراسر شیطانی وسوسہ ہے کیونکہ آپ کو کیا معلوم کہ توبہ کرنے کے بعد آپ زندہ رہیں گے یا نہیں ؟ ہوسکتا ہے کہ توبہ کرتے ہی موت آجائے اور گناہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ وقت توبہ آئندہ کے لئے گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ ہونا ضروری ہے ، گناہوں سے بچنے پر استقامت دینے والی ذات تو ربّ العالمین کی ہے ۔اگر ارتکاب ِگناہ سے محفوظ رہنا نہ بھی نصیب ہوا تو بھی کم از کم گذشتہ گناہوں سے تو جان چھوٹ جائے گی اور سابقہ گناہوں کا معاف ہوجانا معمولی بات نہیں ۔اگر بعد توبہ گناہ ہو بھی جائے تو دوبارہ پُرخلوص توبہ کرلینی چاہيے کہ ہوسکتا ہے یہی آخری توبہ ہو اور اسی پر دنیا سے جانا نصیب ہو ۔

(6)کثرتِ گناہ کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوجانا:اس کا حل یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہے، رحمت خداوندی کس طرح اپنے امیدوارکو آغوش میں لیتی ہے ،اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہےکہ مکی مدنی سرکار، جناب احمد مختار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’حق تعالٰی اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے، جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر شفقت کرتی ہے۔‘‘([8])

(7)توبہ کرنے میں شرم وجھجک محسوس کرنا: توبہ کرنے کے بعد جب میرا اندازِ زندگی تبدیل ہوگا مثلاً پہلے میں نمازیں قضا کردیا کرتا تھا مگر بعد ِ توبہ پانچ وقت مسجد کا رُخ کرتے


 

دکھائی دوں گا ، پہلے میں شیوڈ تھا بعد ِ توبہ میرے چہرے پر سنت مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمیعنی داڑھی شریف سجی ہوئی نظر آئے گی تو لوگ مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھیں گے اور مجھے شرم محسوس ہوگی۔ یاد رکھیے! یہ بھی شیطانی وسوسہ ہے، ذرا سوچئے تو سہی کہ آج ان لوگوں کی پرواہ کرتے ہوئے اگر آپ نیکی کے راستے پر چلنے سے کتراتے رہے اور سنتوں سے منہ موڑتے رہے لیکن کل جب قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اپنا نامۂ اعمال پڑھ کر سنانا پڑے گااور اگر اس میں گناہ ہی گناہ ہوئے تو کس قدر شرم آئے گی ۔ لہٰذا آخرت میں شرمندہ ہونے سے بچنے کے لئے دنیاکی عارضی شرم وجھجھک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوراً توبہ کی سعادت حاصل کرلینی چاہيے ۔

توبہ کرنے کا ذہن بنانے کےچھ (6)طریقے:

(1)توبہ نہ کرنے کے نقصانات پر غور کیجئے:جو بندہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے توبہ کی طرف نہیں بڑھتا تو اسے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر گناہوں کی سیاہی تہہ درتہہ جمتی رہتی ہے حتی کہ زنگ سارے دل کو گھیر لیتا ہے اور گناہ عادت وطبیعت بن کر رہ جاتا ہے اور پھر وہ صفائی کو قبول نہیں کرتا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ اُسے بیماری یا موت آگھیرتی ہے اور اُسے گناہ کے اِزالے کی مہلت نہیں مل پاتی۔ اسی لیے روایت میں آیا ہے: ’’دوزخیوں کی زیادہ چیخ وپکار توبہ میں ٹال مٹول کے سبب ہوگی۔‘‘([9])

(2)اَچانک آنے والی موت کو یاد رکھیے:کئی ہنستے بولتے انسان اچانک موت کا شکار ہوکر اندھیری قبر میں پہنچ جاتے ہیں، انہیں توبہ کا موقع ہی نہیں ملتا، جب بندہ اچانک آنے


 

والی موت کو یاد رکھے گا تو امید ہے اسے توبہ کا مدنی ذہن نصیب ہوگا۔ اسی لیے حکمت ودانائی کے پیکر حضرت سیدنا حکیم لقمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت فرمائی: ’’بیٹا! توبہ میں تاخیر نہ کرنا کیونکہ موت اچانک آتی ہے۔‘‘([10])

(3)خود کو عذابِ جہنم سے ڈرائیے:  خدانخواستہ بغیر توبہ کے انتقال ہوگیا اور ربّ تعالٰی ناراض ہوگیا تو جہنم کا سخت عذاب میرا مقدر ہوگا، جہنم کا عذاب سہنے کی کس میں طاقت ہے، جہنم کا سب سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ جہنمی کو آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی اور سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا شخص یہ تصور کرے گا کہ شاید جہنم میں سب سے زیادہ اور شدید عذاب مجھے ہی ہورہا ہے۔امید ہے کہ بندہ جب خود کو جہنم کے عذاب سے ڈرائے گا تو اس کا گناہوں سے توبہ کرنے کا مدنی ذہن بنے گا۔

(4) توبہ کرنے والے کورحمت الٰہی سے جو دُنیوی واُخروی فوائد ملنے کی امید ہے اُن کو پیش نظر رکھیے۔ مثلاً: ٭گناہ سے توبہ کرنے والے کا ایسا ہونا جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں٭رب عَزَّ وَجَلَّ کا پسند یدہ بندہ ہونا٭رحمت الٰہی کا متوجہ ہونا٭  اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رضا وخوشنودی حاصل ہونا٭شیطان کو ناراض کرنا ٭ رحمت الٰہی سے ایمان پر خاتمہ ہونا ٭کل بروزِ قیامت سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شفاعت نصیب ہونا ٭حوضِ کوثر سے جام پینا ٭بروزِ قیامت حساب وکتاب میں آسانی ہونا ٭ رحمت الٰہی سے جنت میں داخلہ نصیب ہونا۔

(5)بزرگانِ دِین کے توبہ کے واقعات کا مطالعہ کیجئے: اس کے لیے مکتبۃ المدینہ کی


 

مطبوعہ ۱۲۴صفحات پر مشتمل کتاب ’’توبہ کی روایات وحکایات‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(6)اُخروی لذات کو دُنیوی لذات پرترجیح دیجئے: یہ بھی توبہ پر مائل کرنے میں بہت معاونت کرتا ہے، عموماً شیطان بندے کا یہ ذہن بناتا ہے کہ تو نے توبہ کرلی تو فلاں فلاں دُنیوی چیزوں سے محروم ہوجائے گا، فلاں معاملے میں تجھے دنیوی ترقی نہیں مل سکے گی، اس شیطانی وسوسے کی یوں کاٹ کیجئے کہ اگر اچانک مجھے موت آجائے توبھی یہ ساری دُنیوی نعمتیں چھن جائیں گی اور توبہ نہ کرنے کے سبب ربّ تعالٰی کی ناراضی کے ساتھ دنیا سے رخصتی ہوگی، کیوں نہ میں گناہوں سے توبہ کرکے ربّ تعالٰی کی رضا کے ساتھ دنیا سے رُخصت ہوجاؤں تاکہ ہمیشہ کی اُخروی نعمتیں نصیب ہوں۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جودنیا سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے تو (اے مسلمانو!) فنا ہونے والی چیز (یعنی دنیا) کو چھوڑ کر باقی رہنے والی چیز (یعنی آخرت) کو اختیار کرلو۔‘‘([11])

توبہ پر استقامت پانے کے چھ (6)طریقے:

(1)روزانہ سونے سے قبل صلاۃ التوبہ ادا کیجئے:توبہ پر استقامت پانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ بندہ سونے سے قبل اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرکے سوئے اور دو رکعت نماز صلاۃ التوبہ بھی ادا کرلے، امید ہے کہ اس طرح توبہ پر استقامت پانے میں آسانی ہوگی۔

(2)گناہ سے توبہ کرنے کے فوراً بعد کوئی نیکی کرلیجئے:توبہ پر استقامت پانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہےکہ کسی بھی گناہ سے توبہ کرنے کے بعد فوراً بعد کوئی نیکی کرلیجئے کہ وہ


 

 نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی اور آئندہ بھی توبہ پر توفیق نصیب ہوگی۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’گناہ کے بعد نیکی کرلو یہ اسے مٹادے گی۔‘‘([12])

(3)توبہ کرنے والوں کی صحبت اختیار کیجئے:جب بندہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا جو گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں تو امید ہے کہ اسے بھی توبہ کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب ہوجائے گی، اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں بھی وقتاً فوقتاً توبہ کرنے کی ترغیب دلائی جاتی بلکہ توبہ کروائی جاتی اور توبہ پر استقامت کی ترغیب دلائی جاتی ہے، آپ بھی دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے، رحمت الٰہی سے توبہ پر استقامت نصیب ہوجائے گی۔امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہارشاد فرماتے ہیں: ’’توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ نرم دل ہوتے ہیں۔‘‘([13])

(4) خود کو خوش فہمی کا شکار مت ہونے دیجئے: بندہ جب اس خوش فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ میں تو ایک بار توبہ کرچکا ہوں لہٰذا اب مجھے توبہ کرنے کی حاجت نہیں تو اسے توبہ پر استقامت نصیب نہیں ہوتی۔ اس خوش فہمی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنی توبہ پر غور کرے کہ کیا میں نے سچی توبہ کرلی ہے؟ کیا مجھےسابقہ گناہوں پر ندامت ہے؟ کیا ان کے ازالے کی بھی کوشش کرلی ہے؟ اگر بالفرض توبہ میں یہ تمام شرائط پائی بھی جائیں تو کیا مجھے یہ معلوم ہے کہ میری توبہ بارگاہِ رَبّ العزت میں قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں؟


 

(5)اجتماعات میں شرکت کا معمول بنالیجیے:‏گناہوں کی ہلاکتوں ،جنت کی نعمتوں اور جہنم کی تباہ کاریوں کو بار بار سننانہ صرف تو بہ پر استقامت فراہم کرتا ہے بلکہ اس کی برکت سے نیکیاں کرنے کا جذبہ بھی بڑھتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ تو بہ پر استقامت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دعوت اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کو اپنا معمول بنالیجیے ۔

(6) مدنی انعامات پر عمل اور مدنی قافلوں میں شرکت کیجئے:مدنی انعامات دراصل شیخ طریقت امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی طرف سے عطا کردہ مختلف نیک اعمال کا بصورتِ سوالات مجموعہ ہے،یہ دونوں اُمور توبہ پر استقامت پانے میں بہت ہی معاون ہیں کہ ان دونوں میں توبہ پر استقامت کی نہ صرف ترغیب دلائی جاتی ہے بلکہ عملی طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔

گناہوں سے توبہ کرنے کا طریقہ:

کلی طور پر گناہوں کی چھ اقسام ہیں، گناہوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے توبہ بھی مختلف طریقے سے ہوگی، تفصیل کچھ یوں ہے:(1) بعض گناہوں کاتعلق حقوقُ اللہ سے ہوتا ہے۔جیسے نماز ، روزہ، حج، قربانی اورزکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی میں سستی کرنا، بدنگاہی کرنا، قرآنِ پاک کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا ، فحش گانے سننا وغیرھا۔ حقوق اللہسے تعلق رکھنے والے گناہ اگر کسی عبادت میں کوتاہی کی وجہ سے سرزد ہوں تو توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان عبادات کی قضا بھی واجب ہے۔ مثلاً اگر نمازیں فوت ہوئی ہوں یا رمضان کے روزے چھوٹے ہوں تو ان کا حساب لگائے اور ان کی قضا کرے ،اگر زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی ہو تو حساب لگا کر ادائیگی کرے، اگر حج فرض ہوجانے کے باوجود


 

 ادا نہیں کیا تھا تو اب ادا کرےاور اگر گناہوں کا تعلق عبادات میں کوتاہی سے نہ ہومثلاً بدنگاہی کرنا، شراب نوشی کرنا وغیرہ ،تو اِن پر ندامت وحسرت کا اِظہار کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرے اور نیکیاں کرنے میں مشغول ہو جائے۔

(2) بعض ایسے گناہ ہوتے ہیں جن کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہوتا ہے۔ جیسے چوری، غیبت ،چغلی ،اذیت دینا ، ماں باپ کو ستانا ،امانت میں خیانت کرنا،قرض لے کر دبا لینا وغیرھا۔بندوں کے حقوق سے متعلق گناہ اگر ان کی عزت وآبرو میں دست اندازی کی وجہ سے سرزد ہوئے ہوں۔ مثلاً کسی کوگالی دی تھی یا تہمت لگائی تھی یا ڈرایا دھمکایا تھا تو توبہ کی تکمیل  اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس مظلوم سے معافی طلب کرنے سے ہوگی۔ اور اگر مالی معاملے میں شریعت کی خلاف ورزی کی وجہ سے گناہ واقع ہوا تھا۔مثلاً امانت میں خیانت کی تھی یا قرض لے کر دبا لیا تھا تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس مظلوم سے معافی طلب کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اس کا مال بھی لوٹائے اور اگر وہ شخص انتقال کر گیا ہو تو اس کے ورثاء کو دے دے یا پھر اس شخص سےیااس کے نہ ہونے کی صورت میں اس کے ورثاء سے معاف کروا لے، اگر اس شخص کا علم نہیں، نہ ہی اس کے ورثاء کا، تو اتنا مال اس مظلوم کی طرف سے اس نیت کے ساتھ صدقہ کردے کہ اگر وہ شخص یا اس کے ورثاء بعدمیں مل گئے اور انہوں نے اپنے حق کا مطالبہ کیا تو میں انہیں ان کا حق لوٹا دوں گا اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا رہے۔

(3) بعض گناہوں کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہوتا ہے ،مثلاً قتل کرناوغیرہ اور بعض وہ ہوں گے جن کا تعلق انسان کے باطن سے ہوتا ہے مثلاً بدگمانی کرنا ، کسی سے حسد کرنا ، تکبر میں مبتلا ہونا وغیرہ ۔ظاہری گناہوں سے توبہ کا طریقہ تو اوپر گزر چکا لیکن باطنی


 

 گناہوں سے بھی توبہ کرنے سے ہرگز غفلت نہ کرے ۔چنانچہ اپنے دل پر غور کرے اور اگر حسد ، تکبر ، ریاء کاری، بغض، کینہ ، غرور، شماتت اوربدگمانی جیسےگناہ دکھائی دیں تو نادم وشرمسار ہوکر بارگاہ ِ الٰہی میں معافی طلب کرے ۔

(4) بعض گناہ صرف توبہ کرنے والے کی ذات تک محدود ہوتے ہیں۔مثلاً خود شراب پینا اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف اس شخص نے کسی دوسرے کوراغب کیا ہوگا ،اسے گناہِ جاریہ بھی کہتے ہیں۔ مثلاً کسی کو شراب نوشی کی ترغیب دینا یا فحش ویب سائٹ دیکھنے کی ترغیب دینا وغیرہ۔جو گناہ اس کی ذات تک محدود ہوں ان سے مذکورہ طریقے کے مطابق توبہ کرے اور اگر گناہِ جاریہ کا ارتکاب کیا ہو توجس طرح اس گناہ سے خود تائب ہوا ہے اس کی ترغیب دینے سے بھی توبہ کرے اور دوسرے شخص کو جس طرح گناہ کی رغبت دی تھی اب توبہ کی ترغیب دے ، جہاں تک ممکن ہو نرمی یا سختی سے سمجھائے، اگر وہ مان جائے تو ٹھیک ورنہ یہ بری الذمہ ہوجائے گا۔([14])

(5) بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو پوشیدہ طورپر کیے۔ مثلاً اپنے کمرے میں فحش فلمیں دیکھنا جبکہ کچھ گناہ وہ ہوں گے جو اعلانیہ کیے مثلاًداڑھی منڈانا، سرعام شراب پیناوغیرہ۔ جو گناہ بندے اور اس کے رب  عَزَّ وَجَلَّکے درمیان ہو یعنی کسی پر ظاہر نہ ہوا ہو تو اس کی توبہ پوشیدہ طور پر کرے یعنی اپنا گناہ کسی پر ظاہر نہ کرے اور اگر گناہ اعلانیہ کیا ہو تو اس کی توبہ بھی اعلانیہ کرے۔([15])


 

(6)کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیںجن کے ارتکاب پر آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوکر کافر ہوجاتا ہے ۔مثلاً   اللہ عَزَّ وَجَلَّکو ظالم کہنا ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں گستاخی کرنا۔ اگر مَعَاذَ اللّٰہ  کلمۂ کفر یا کوئی ایسا فعل صادر ہوجائے جس سے انسان کافرہو جاتا ہے تو فوراً توبہ کر کے تجدیدایمان کر لینی چاہيے۔

تجديداِيمان کا طريقہ:

دِل کی تصديق کے بغيرصرف زبانی توبہ کافی نہيں ہو تی۔مثلاً کسی نے کفربک ديا، اس کو دوسرے نے بہلا پھسلا کر اس طرح توبہ کروا دی کہ کفر بکنے والے کو معلوم تک نہيں ہوا کہ ميں نے فلاں کفر کيا تھا ،يوں توبہ نہيں ہو سکتی،اس کا کفر بدستور باقی ہے۔ لہٰذاجس کفر سے توبہ مقصود ہو وہ اسی وقت مقبول ہو گی جبکہ وہ اس کفر کو کفر تسليم کرتا ہو اور دل ميں اس کفر سے نفرت و بيزاری بھی ہو جو کفر سرزد ہواتوبہ ميں اس کا تذکرہ بھی ہو ۔ مثلاً جس نے ويزا فارم پر اپنے آپ کو عيسائی لکھ ديا وہ اس طرح کہے:’’يا اللہ عزوجل!ميں نے جو ويزا فارم ميں اپنے آپ کو عيسائی ظاہر کيا ہے اس کفر سے توبہ کرتا ہوں ۔لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہیعنی   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہيں اور محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ وَجَلَّکے رسول ہيں۔‘‘ اس طرح مخصوص کفر سے توبہ بھی ہو گئی اور تجديد ايمان بھی۔ اگر مَعَاذَ اللّٰہ  کئی کفريات بکے ہوں اور ياد نہ ہو کہ کيا کيا بکا ہے تو يوں کہے:’’  یَااللہ  عَزَّ وَجَلَّ! مجھ سے جو جو کفريات صادر ہوئے ہيں ميں ان سے توبہ کرتا ہوں ۔‘‘پھر کلمہ پڑھ لے، (اگر کلمہ شريف کا ترجمہ معلوم ہے تو زبان سے ترجمہ دہرانے کی حاجت نہيں )اگر يہ معلوم ہی نہيں کہ کفر بکا بھی ہے يا نہيں تب بھی اگر احتياطا توبہ کرنا چاہيں تو اس طرح کریں: ’’یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ!اگر


 

مجھ سے کوئی کفر ہو گيا ہو تو ميں اس سے توبہ کرتا ہوں ۔‘‘يہ کہنے کے بعد کلمہ پڑھ ليں۔([16])

توبہ کرنے کا ایک طریقہ:

توبہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تنہائی میں دورکعت صلوٰۃ التوبہ پڑھے پھر اپنی نافرمانیوں اور رب تعالٰی کے احسانات ، اپنی ناتوانی اور جہنم کے عذابات کو یاد کر کے آنسو بہائے ،اگررونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت ہی بنا لے ۔ اس کے بعدتوبہ کی شرائط کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے ربّ تعالٰی کی بارگاہ میں معافی طلب کرے اور کچھ اس طرح سے دعا کرے: ’’اے میرے مالک  عَزَّ وَجَلَّ! تیرا یہ نافرمان بندہ جس کا رُواں رُواں گناہوں کے سمندر میں ڈوباہواہے ، تیری پاک بارگاہ میں حاضر ہے ،  یَا اللہ  عَزَّ وَجَلَّ! میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے دن کے اجالے میں رات کے اندھیرے میں ، پوشیدہ اوراعلانیہ ، دانستہ اور نادانستہ طور پر تیری نافرمانیاں کی ہیں ، یقیناً میں نے تجھے ناراض کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اے مولا عَزَّ وَجَلَّ! تُو غفور ورحیم ہے، تو بندے پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر شفقت کرتی ہے، اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ! اگر تُو نے میرے گناہوں پر پکڑ فرمائی تو مجھے نارِ جہنم میں جلنا پڑے گا جس کا عذاب لمحہ بھرکے لئے بھی سہنے کی مجھ میں طاقت نہیں، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں صدقِ دل سے تیری بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں، یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میری ناتوانی پر رحم فرما،اے میرے پرورد گار عَزَّ وَجَلَّ!میرے گناہوں کو معاف فرمادے، اے میرےپرورد گار عَزَّ وَجَلَّ!میرے گناہوں کومعا ف فرمادے،اے میرے پروردگار  عَزَّ وَجَلَّ! میرے گناہوں کو معاف فرمادے ، اے میرے مولا عَزَّ وَجَلَّ! مجھے سچی توبہ کی


 

 توفیق دے ، جو عبادات ادا ہونے سے رہ گئیں انہیں ادا کرنےکی ہمت دے دے ، جن بندوں کے حقوق میں نے تلف کئے ان سے بھی معافی مانگنے کا حوصلہ عطا فرما ، اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تُو ہرشے پر قادر ہے ، تُو انہیں مجھ سے راضی فرمادے ،   یَااللہ  عَزَّ وَجَلَّ!مجھے آئندہ زندگی میں گناہوں سے بچنے پر استقامت عطا فرما ، اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما!آمین۔اس کے بعد اس جگہ سے اس یقین سے اٹھے کہ رحیم وکریم پروردگار  عَزَّ وَجَلَّنے اس کی توبہ قبول فرما لی ہے ۔پھر ایک نئے عزم کے ساتھ نئی اور پاکیزہ زندگی کا آغاز کرے اور سابقہ گناہوں کی تلافی میں مصروف ہوجائے ۔اللہ تعالٰی ہمارا حامی و ناصر ہو ۔     آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (14)صَالِحِیْن سے محبت

صالحین سے محبت کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضاکے لیے اس کے نیک بندوں سے محبت رکھنا،ان کی صحبت اختیار کرنا، ان کا ذکر کرنا اور ان کا ادب کرنا ’’صالحین سے محبت ‘‘کہلاتا ہے کیونکہ محبت کا تقاضا یہی ہے جس سے محبت کی جائے اس کی دوستی وصحبت کو محبوب رکھا جائے، اس کا ذکر کیا جائے، اس کا ادب واحترام کیا جائے۔

آیات مبارکہ :

اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتاہے: (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(۹۶))(پ۱۶،مریم :۹۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بیشک وہ جو ایمان لائے


 

 اور اچھے کام کئے عنقریب ان کے لئے رحمٰن محبّت کر دے گا ۔‘‘

اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ’’یعنی اپنا محبوب بنائے گا اور اپنے بندوں کے دل میں ان کی محبت ڈال دے گا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالٰی کسی بندے کو محبوب کرتا ہے تو جبریل سے فرماتا ہے کہ فلانا میرا محبوب ہے جبریل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر حضرت جبریل آسمانوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی فلاں کو محبوب رکھتا ہے سب اس کو محبوب رکھیں تو آسمان والے اس کو محبوب رکھتے ہیں پھر زمین میں اس کی مقبولیت عام کر دی جاتی ہے ۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مومنینِ صالحین و اولیائے کاملین کی مقبولیتِ عامہ ان کی محبوبیت کی دلیل ہے جیسے کہ حضور غوثِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاور حضرت سلطان نظام الدین دہلوی اور حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر حضرات اولیائے کاملین کی عام مقبولیتیں ان کی محبوبیت کی دلیل ہیں ۔‘‘([17])٭اللہ عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتا ہے: (وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-) (پ۱۰،التوبۃ :۷۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘ اور باہم دینی محبت و موالات (دوستانہ تعلقات) رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔([18])٭اللہ عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتاہے: ( قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰى(۶۵))(پ۱۶،طہ: ۶۵) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں۔‘‘ خزائن العرفان میں


 

 ہے:ابتداء کرنا جادو گروں نے ادباً حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی رائے مبارک پر چھوڑا اور اس کی برکت سے آخر کار اللہ تعالٰی نے انہیں دولت ایمان سے مشرف فرمایا۔([19])

اَحادیث مبارکہ :

چار فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:٭ جب تک تم نیک لوگوں سے محبت رکھوگے بھلائی پر رہو گے اور تمہارے بارے میں جب کوئی حق بات بیان کی جائے تواسے مان لیاکروکہ حق کو پہچاننے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہوتاہے۔([20]) ٭آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔([21])  ٭نیک لوگوں کا ذکر گناہوں کے لئے کفّارہ ہے۔([22]) ٭  اللہ عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:وہی لوگ میری محبت کے حقدار ہیں جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں، جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔([23])

صالحین سے محبت کا حکم:

مطلق صالحین یعنی نیک لوگوں سے محبت کرنا، ان کا ذکر کرنا، صحبت اختیار کرنا، اورادب واحترام کرنا شرعاً جائز ونیک ، باعث اَجروثواب وجنت میں لے جانے والا کام ہے۔حضور نبی کریم رءوف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی محبت فرض، عین اِیمان بلکہ


 

 اِیمان کی جان ہے، اس کے بغیر کوئی مؤمن مؤمن نہیں، کوئی مسلمان مسلمان نہیں۔تمام صحابہ کرام ، اَہل بیت اَطہار، اَزواجِ مطہرات رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی محبت بھی عین سعادت ورحمت الٰہی سے خاتمہ بالخیر کی ضمانت ہے۔

(14)(حکایت)نیک لوگوں کی صحبت کے احوال:

  حضرتِ سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں کہ میں ایسے ایسے نیک لوگوں کی صحبت میں رہا جن میں سے بعض حضرات پر پچا س پچا س ایسے سال گزر گئے کہ انہوں نے نہ کبھی اپنے لئے بستر بچھائے اور نہ کبھی آرام کے لئے چادریں تہہ کیں اورنہ ہی کبھی گھر سے کھانا پکوایا، ان میں سے کوئی ایک لقمہ ہی کھاتامگرپھر بھی اس کی خواہش ہوتی کہ اس لقمے کی جگہ اپنے منہ میں پتھرڈال لیتا ،نہ تو وہ دنیا ملنے پر خوش ہوتے اورنہ اس کے چلے جانے پر غمزدہ ہوتے، تم جس مٹی کو اپنے پیرو ں تلے روندتے ہو ان کے نزدیک دنیا کی حقیقت اور حیثیت اس مٹی سے بھی کم تھی۔ ان کے بالکل قریب میں حلال مال ہونے کے باوجود جب ان میں کسی سے کہا جاتا کہ اس میں سے قدرِ کفایت ہی لے لیں۔ تو جواب ملتا: ’’خدا  عَزَّ وَجَلَّکی قسم! میں ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے اس میں سے کچھ لے لیا تو یہ میرے دل ودین کے بگاڑ کا سبب بن جائے گا۔‘‘  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رحمت ہوا ور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین ([24])

(15)(حکایت)سیدنا اُویس قرنی سے محبت اور ان کی صحبت:

حضرت سیدنا ہرم بن حیان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْحَنَّان فرماتے ہیں کہ جب مجھ تک یہ حدیث


 

پہنچی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایک شخص (یعنی حضرت اُویس قرنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی )کی شفاعت سے میری امت کے قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر کے برابر لوگو ں کوجنت میں داخل فرمائے گاتو میں فوراً کو فہ کی طر ف روانہ ہوا ۔میرا وہاں جانے کا صرف یہی مقصد تھا کہ حضرت سیدنااویس قرنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی کی زیارت کرلوں اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہوسکوں، کوفہ ' پہنچ کرمیں انہیں تلاش کرتا رہا۔ بالآخر میں نے انہیں دوپہر کے وقت نہرفرات کے کنارے وضو کرتے پایا ۔ جو نشانیاں مجھے ان کے متعلق بتائی گئی تھیں ان کی وجہ سے میں نے انہیں فوراً پہچان لیا۔ اُن کا رنگ انتہائی گندمی ،جسم دبلا پتلا،سر گرد آلوداور چہرہ انتہائی بارعب تھا۔ میں نے قریب جاکر انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیااور میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا:اے اویس!   اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ پر رحم فرمائے، آپ کیسے ہیں؟‘‘اُن کو اس حالت میں دیکھ کراور اُن سے شدید محبت کی وجہ سے میری آنکھیں بھر آئیں اور میں رونے لگا۔ مجھے روتا دیکھ کر وہ بھی رونے لگے اور مجھ سے فرمایا:’’ اے میرے بھائی ہرم بن حیان!   اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کو سلامت رکھے، آپ کیسے ہیں ؟ اورمیرے بارے میں آپ کو کس نے بتا یا کہ میں یہاں ہوں؟‘‘ 'میں نے جواب دیا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مجھے آپ کی طر ف راہ دی ہے۔‘‘ یہ سن کرآپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ اور سُبْحٰنَ اللہِ کی صدائیں بلند کیںاور فر مایا:’’بے شک ہمارے ربّ  عَزَّ وَجَلَّکا وعدہ ضرور پورا ہونے والا ہے۔‘‘

(پھر تھوڑی گفتگو کے بعد)میں نے ان سے کہا :’’ اے میرے بھائی! مجھے کچھ نصیحت فرمائیے تا کہ میں اسے یاد رکھوں۔ بے شک میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے صرف   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہوں۔‘‘یہ سن کر حضرت سیدنااویس قرنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی نے میرا


 

ہاتھ پکڑااورسورۂ دخان کی دوآیتیں تلاوت فرمائیں،پھر ایک زور دار چیخ ماری، میرے گمان کے مطابق شاید آپ بے ہوش ہوگئے تھے۔

جب کچھ افاقہ ہوا تو وعظ ونصیحت کے مدنی پھول عطا فرمائے۔پھر فرمایا: ’’اے میرے بھائی! تو اپنے لئے بھی دعا کرنا اور مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھنا۔‘‘اس کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں دعا کرنے لگے :’’اے پرور دگار  عَزَّ وَجَلَّ! ہرم بن حیان کا گمان ہے کہ یہ مجھ سے تیری خاطر محبت کرتا ہے اور تیر ی رضاہی کی خاطرمجھ سے ملاقات کرنے آیا ہے۔ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے جنت میں اس کی پہچان کرادینا اور جنت میں بھی میری اس سے ملاقات کرادینا۔یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ! جب تک یہ دنیا میں باقی رہے اس کی حفاظت فرما اور اسے تھوڑی ہی دنیا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما،یَااللہ عَزَّ وَجَلَّاسے جو نعمتیں تو نے عطا کی ہیں ان پر شکر کرنے والا بنادے، ہماری طر ف سے اسے خوب بھلائی عطا فرما ۔‘‘ پھر مجھ سے فرمایا:’’اے ابن حیان! تجھ پر اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رحمت ہو اور خوب برکت ہو، آج کے بعد میں تجھ سے ملاقات نہ کرسکوں گا،بے شک میں شہرت کو پسند نہیں کرتا۔جب میں لوگو ں کے درمیان ہوتا ہوں تو سخت پریشان اور غمگین رہتا ہوں۔بس مجھے توتنہائی بہت پسند ہے۔آج کے بعد تو میرے متعلق کسی سے نہ پوچھنا اور نہ ہی مجھے تلاش کرنا۔میں ہمیشہ تجھے یاد رکھوں گا، اگر چہ تم مجھے نہ دیکھو گے اور میں تجھے نہ دیکھ سکوں گا۔ میرے بھائی! تم مجھے یا در کھنا،میں تمہیں یا د رکھوں گا۔ میرے لئے دعا کرتے رہنا۔   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے چاہا تو میں تجھے یاد رکھوں گا اور تیرے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ اب تو اس سمت چلا جا اور میں دوسری طر ف چلا جاتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ایک طر ف


 

 چل دیئے۔ میں نے خواہش ظاہر کی کہ کچھ دُو رتک آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ساتھ چلوں، لیکن آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے انکار فرمادیا اور ہم دونوں روتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔میں بار بار آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کو مڑمڑ کر دیکھتا یہاں تک کہ آپ ایک گلی کی طر ف مڑگئے۔ اس کے بعد میں نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کوبہت تلاش کیا لیکن آپ مجھے نہ مل سکے، اور نہ ہی کوئی ایسا شخص ملا جو مجھے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے متعلق خبر دیتا۔ہاں!   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مجھ پر یہ کرم کیا مجھے ہفتے میں ایک دو مرتبہ خواب میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی زیارت ضرور ہو تی ہے۔ (  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رحمت ہواور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین) ([25])

صالحین سے محبت پیدا کرنے کےچار(4) طریقے:

(1)اللہ والوں کی باتوں کا مطالعہ کیجئے: صالحین سے محبت پیدا کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ان کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: عجائب القرآن مع غرائب القرآن، کراماتِ صحابہ، صحابہ کرام کا عشق رسول، اَخلاق الصالحین، شاہراہِ اولیاء،فیضانِ سنت، فیضانِ ریاض الصالحین، اللہ والوں کی باتیں، حکایتیں اور نصیحتیں، خوفِ خدا، عیون الحکایات، اِحیاء العلوم۔ وغیرہ

(2)نیک لوگوں سے محبت کرنے والوں کی صحبت اِختیار کیجئے: صحبت اثر رکھتی ہے، جب بندہ نیک لوگوں سے محبت کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھے گا تو رحمت الٰہی سے اسے بھی نیک لوگوں کی محبت نصیب ہوجائے گی۔


 

(3)بدمذہبوں کی صحبت سے بچیے:وہ تمام لوگ جو انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ دین، اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے خلاف زبان طعن دراز کرتے ہیں ، ان کی صحبت سے بچیے کہ یہ دین کو ایسے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو جلا کر راکھ کردیتی ہے، بدمذہبوں کے ساتھ بیٹھنے والا لعنت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’بد مذہب کے ساتھ مت بیٹھ کیوں کہ مجھے تجھ پر لعنت اُترنے کا خوف ہے۔‘‘([26]) حضرت سیدنا یحی بن ابی کثیر عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْعَزِیز  فرماتے ہیں:’’اگر کسی راستے پر بدمذہب سے سامنا ہوجائے تو وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرو۔‘‘([27])

(4)مدنی مذاکروں میں شرکت کا معمول بنا لیجئے: مدنی مذاکروں میں شیخ طریقت امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نہ صرف مختلف سوالات کے جوابات عطا فرماتے ہیں بلکہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان، تابعین تبع تابعین، اولیائے عظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام  کی محبت بھی پلاتے ہیں، آپ کی صحبت میں بیٹھنے والا رحمت الٰہی سے کبھی بدعقیدہ نہ ہوگا، بلکہ ہمیشہ نیک لوگوں کا گرویدہ ہوگا۔اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

(15)اللہ و رسول کی اِطاعت

اللہ ورسول کی اطاعت کی تعریف:‏

  اللہ عَزَّ وَجَلَّاو راس کے رسو ل صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرنا اور جن سے منع فرمایا ان کو نہ کرنا ’’اللہ ورسول کی اطاعت‘‘ کہلاتا ہے۔

آیت مبارکہ:

  اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے:(  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ) (پ۵، النساء: ۵۹)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا ۔‘‘

احادیث مبارکہ:

تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:٭’’جس نے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اطاعت چھوڑدی وہ قیامت کے دن اللہ عَزَّ وَجَلَّسے اِس حال میں ملے گا کہ اُس کے پاس (عذاب سے بچنے کی) کوئی حجت نہ ہو گی، اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت کا پٹا نہ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘([28])٭’’جس نے میری اطاعت کی اس نے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی کی۔‘‘([29])٭’’جو مجھ پر اِیمان لایااورمیری اطاعت کی اور پھر ہجرت کی میں اسے جنت کے کنارےاور وسط میںایک ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں تو جو یہ کام کرے اور نہ تو خیر کا کوئی موقع ہاتھ


 

 سے جانے دے اور نہ ہی برائی سے بھاگنے کا کوئی موقع گنوائے تو(یہی اس کے لئے کافی ہے) وہ جہاں چاہے مرے۔‘‘([30])

اللہ ورسول کی اطاعت کا حکم:

ہرمسلمان پر   اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اطاعت لازم ہے یعنی   اللہ عَزَّ وَجَلَّاو راس کے رسو ل صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرے اور جن سے منع فرمایا ہےان سے بچے۔

(16)(حکایت)ساری عمر اِطاعت میں گزاردی مگر۔۔۔!

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۶۰صفحات پر مشتمل کتاب ’’خوفِ خدا‘‘ صفحہ۹۳پر ہے:حضرت سیدنا مسروق بن اجدع تابعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  اتنی لمبی نماز ادا فرماتے کہ ان کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے اور یہ دیکھ کر ان کے گھر والوں کو ان پر ترس آتا اور وہ رونے لگتے۔ ایک دن ان کی والدہ نے کہا: ’’میرے بیٹے!تو اپنے کمزور جسم کا خیال کیوں نہیں کرتا؟ اس پر اتنی مشقت کیوں لادتا ہے ؟ تجھے اس پر ذرا رحم نہیں آتا ؟ کچھ دیر کے لئے آرام کر لیا کرو ، کیا اللہ تعالٰی نے جہنم کی آگ صرف تیرے لئے پیدا کی ہے کہ تیرے علاوہ کوئی اس میں پھینکا نہیں جائے گا ؟‘‘انہوں نے جواباً عرض کی:’’امی جان! انسان کو ہر حال میں مجاہدہ کرنا چاہے کیونکہ قیامت کے دن دو ہی باتیں ہوں گی، یا تو مجھے بخش دیا جائے گا یا پھر میری پکڑ ہوجائے گی،اگر میری مغفرت ہوگئی تو یہ محض اللہ تعالٰی کا فضل اور اس کی رحمت ہوگی اور اگر میں پکڑا گیا تو یہ اس


 

 کا عدل ہو گا ، لہٰذا اب میں آرام نہیں کروں گا اور اپنے نفس کو مارنے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا ۔‘‘جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے گریہ وزاری شروع کر دی۔ لوگوں نے پوچھا:’’آپ نے تو ساری عمر مجاہدوں اور ریاضتوں میں گزاری ہے ، اب کیوں رو رہے ہیں؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’مجھ سے زیادہ کس کو رونا چاہيے کہ میں ستر (70)سال تک جس دروازے کو کھٹکھٹاتا رہا ،آج اسے کھول دیا جائے گا لیکن یہ نہیں معلوم کہ جنت کا دروازہ کھلتا ہے یا دوزخ کا؟کاش! میری ماں نے مجھے جنم نہ دیا ہوتا اور مجھے یہ مشقت نہ دیکھنا پڑتی ۔‘‘

قبر محبوب کے جلوؤں سے بسا دے مالکیہ کرم کردے تو میں شاد رہوں گا یارب

گر تو ناراض ہوا میری ہلاکت ہوگیہائے میں نار جہنم میں جلوں گا یارب

عفو کر اور سدا کے لیے راضی ہو جاگر کرم کردے تو جنت میں رہوں گا یارب

اطاعت کا جذبہ پیدا کرنے، اطاعت کرنے کے نو(9)طریقے:

(1)نیکیوں اور نیک اعمال کی معلومات حاصل کیجئے:جب تک بندے کو اس بات کا علم نہ ہوگا کہ نیک اعمال کون کون سے ہیں، اس وقت تک ان اعمال کو بجالانا بہت دشوار ہوگااور یہی اطاعت کا سب سے بڑا رکن ہے کہ بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بتائے ہوئے نیک اَعمال کو بجا لائے۔ اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ اِن کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: ٭احیاء العلوم ٭مکاشفۃ القلوب٭ منہاج العابدین٭ بہارِشریعت٭ جنت میں لے جانے والے اَعمال٭نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں ٭نیکی کی دعوت۔وغیرہ


 

(2) برائیوں اور گناہوں کی معلومات حاصل کیجئے:یہ بات بھی مُسَلَّمَہ (طے شدہ) ہےکہ بیماری کی تشخیص کے لیے اس کی معلومات ہونا بہت ضروری ہیں، جب تک معلومات نہ ہوں گی اس وقت تک تشخیص نہیں ہوسکتی اور جب تشخیص نہ ہوگی تو علاج بھی نہ ہوسکے گا۔ نیز اطاعت کا دوسرا بڑا رکن بھی یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے بندہ ان سے بچے۔اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ان کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے:٭اِحیاء العلوم٭ بہار شریعت ٭ جہنم میں لے جانے والے اعمال٭باطنی بیماریوں کی معلومات ٭ نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں٭گناہوں کی نحوست ٭ برے خاتمے کے اسباب۔ وغیرہ

(3)اطاعت گزار لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے:‏اِطاعت الٰہی کا جذبہ پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ اطاعت گزار لوگوں کی صحبت بھی ہے کہ بندہ جیسے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ ویسا ہی بن جاتا ہے،جب بندہ اپنے ہی جیسے افراد کو نیکیاں کرتے اور گناہوں سے بچتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی ذات میں بھی نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنےکا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔

(4) اِطاعت کے دُنیوی واُخروی فوائد پر غور کیجئے:چند فوائد یہ ہیں:٭اطاعت گزار کو تھوڑے مال پر قناعت عطا کردی جاتی ہے۔٭اطاعت گزار لوگوں کے مال سے بے نیاز کردیا جاتا ہے۔٭اطاعت گزار کو صبر وشکر کی دولت عطا کردی جاتی ہے۔٭ اطاعت گزار کی عزت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے۔٭ اطاعت گزار کا خاتمہ رحمت الٰہی سے بالخیر ہوگا۔٭اطاعت گزار کو قبر کے سوالات میں آسانی ہوگی۔٭


 

 اطاعت گزار کو کل بروزقیامت حساب میں بھی آسانی ہوگی۔٭اطاعت گزار حشر کی تکلیفوں سے محفوظ رہے گا۔٭اطاعت گزار ربّ کی رحمت سے عذاب سے بھی محفوظ رہے گا۔٭اطاعت گزار کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔٭الغرض اِطاعت گزار کو دنیا وآخرت کی کثیر بھلائیاں عطا کی جاتی ہیں۔

(5)نافرمانی کی ہلاکتوں پر غور کیجیے:چندہلاکتیں یہ ہیں:٭ نافرمان شخص کی دنیا میں ذلت و رُسوائی ہوگی۔ ٭ نافرمان شخص کو طرح طرح کی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٭کبھی مالی تنگی سے دوچارہوتا ہے۔٭کبھی گھریلو ناچاقیوںسے پالاپڑتا ہے۔ ٭  اسے طرح طرح کی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔٭نافرمان شخص کے برے خاتمے کا بھی خوف ہے۔٭نافرمان شخص کو قبر کے سوالات میں بھی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ٭نافرمان شخص کو حشر میں بھی حساب وکتاب میں مشکل ہوسکتی ہے۔ ٭ نافرمان شخص سے   اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کا رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمناراض ہوتے ہیں اور یقیناً یہ تمام نقصانات میں سب سے بڑا نقصان اور بدنصیبی ہے۔

(6)ہر ہرمعاملے میں شریعت کو ملحوظ رکھیے:چاہے اس کا تعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حقوق سے ہو یا اپنی ذات، والدین، آل اولاد ورشتہ داروں،پڑوسیوں یا دیگرحقوق العباد سے ہو۔ اپنی زندگی کے ہر ہر معاملے میں شریعت کے مطابق گزارنے کے لیے صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  کی مایہ ناز تصنیف ’’بہارشریعت‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے، اس کتاب میں اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دُنیوی واُخروی کئی معاملات کے بارے میں تفصیلی شرعی رہنمائی کی گئی ہے۔


 

(7)اطاعت کی راہ میں حائل اسباب کو دور کیجئے:جب اسباب دور ہوجائیں گے تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم سے اطاعت بھی نصیب ہوجائے گی، اطاعت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے چند اسباب یہ ہیں:٭علم دِین حاصل نہ کرنا٭دِین دار لوگوں کی صحبت اختیار نہ کرنا٭برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا٭دنیوی محبت کو دل میں بسا لینا٭لمبی لمبی امیدیں لگالینا٭موت کو بھول جانا٭فکرآخرت سے غافل ہوجانا٭گناہوں میں مبتلا ہوجانا۔وغیرہ

(8)مدنی انعامات پر عمل کیجئے:مدنی انعامات دراصل شیخ طریقت، امیراہلسنت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولاناابوبلال محمد اِلیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی طرف سے عطا کردہ مختلف سوالات کی صورت میں کئی نیک اعمال کا مجموعہ ہے، ان نیک اعمال کو بجالانے سے دنیا وآخرت کی کثیر بھلائیاں حاصل کی جاسکتی ہیں، مدنی انعامات   اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت کرنے میں بہترین معاون ہیں۔

(9)مدنی قافلوں میں سفر اختیار کیجئے: جب بندہ راہِ خدا میں نکل کر نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی مدد خصوصی طور پر اس کے شامل حال ہوتی ہے، بلکہ نیک اعمال کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، مدنی قافلوں میں اکثر وقت مسجد اور عبادت وریاضت میں گزارا جاتا ہے جو یقیناً   اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اطاعت میں بہترین معاون ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

(16)دل کی نرمی

دل کی نرمی کی تعریف:

دل کا خوفِ خدا کے سبب اِس طرح نرم ہونا کہ بندہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے اور نیکیوں میں مشغول کرلے، نصیحت اُس کے دل پر اَثر کرے، گناہوں سے بے رغبتی ہو، گناہ کرنے پر پشیمانی ہو، بندہ توبہ کی طرف متوجہ ہو، شریعت نے اس پر جو جو حقوق لازم کیے ہیں ان کی اچھے طریقے سے ادائیگی پرآمادہ ہو، اپنے آپ، گھربار، رشتہ داروں وخلق خدا پر شفقت ورحم و نرمی کرے، کلی طور پر اس کیفیت کو ’’دل کی نرمی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

آیت مبارکہ :

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪- ) (پ۴، آل عمران: ۱۵۹) ترجمۂ کنز الایمان:’’تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتےتو وہ ضرور تمہارے گِرد (آس پاس)سے پریشان ہو جاتے۔‘‘

(احادیث مبارکہ)نرم دل پاک دامن غنی کی فضیلت:

حضرتِ سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ سرورِ کونین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’بیشک اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نرم دل ،پاک دامن غنی کو پسند فرماتا ہے اور سنگدل بدکردار سائل کو نا پسند فرماتاہے ۔‘‘([31])حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ


 

 تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں دل کی‏سختی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مساکین کو کھانا کھلا۔‘‘([32])

دل کی نرمی کا حکم:

وہ اُمور جو دل کی سختی دور کرنے اور دل میں نرمی پیدا کرنے کا سبب بنیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

(17)(حکایت)دُعا کی برکت سے دل کی سختی دُور ہوگئی:

حضرت سیدنا سری سقطی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتے ہیں کہ میں دل کی سختی کے مرض میں مبتلاتھا اور مجھے حضرت سیِّدُنا معروف کرخی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  کی دعا کی برکت سے چھٹکارا مل گیا۔ہوا یوں کہ میں نمازِ عید پڑھنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا کہ حضرت سیِّدُنامعروف کرخی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کو دیکھا ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے ساتھ ایک بچہ بھی تھاجس کے بال اُلجھے ہوئے تھے۔دل ٹوٹنے کے سبب رو ئے جارہاتھا۔میں نے عرض کی:’’یاسیدی! کیا ہوا؟‘‘ آپ کے ساتھ یہ بچہ کیوں رورہا ہے؟‘‘ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے جواب دیا:’’میں نے چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھالیکن یہ بچہ ایک طرف کھڑا ہوا تھا۔ان بچو ں کے ساتھ نہ کھیلنے کی وجہ سے اس کا دل ٹوٹ گیاہے ۔میں نے بچے سے پوچھاتواس نے بتایا: میں یتیم ہوں، میرا باپ انتقال کر گیاہے، میرا کوئی سہارا نہیں اور میرے پاس کچھ رقم بھی نہیں کہ میں اَخروٹ خرید کر اِن بچوں کے ساتھ کھیل سکوں۔‘‘


 

چنانچہ میں اس کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں تاکہ اس کے لئے گُٹھلیاں اکٹھی کروں جن سے یہ اخروٹ خرید کر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل سکے۔‘‘میں نے عرض کی:’’آپ یہ بچہ مجھے دے دیں تاکہ میں اس کی حالت بدل سکوں۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: ’’چلو اس کو پکڑ لو، اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہارا دل ایمان کی برکت سے غنی کرے اوراپنے راستے کی ظاہری و باطنی پہچان عطا فرما دے۔‘‘ حضرت سیِّدُناسری سقطی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیںکہ میں اس بچے کو لے کر بازار چلاگیااور اچھے کپڑے پہنائے، اخروٹ خرید کر دیئے اور وہ عید کے دن دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے چلا گیا۔دوسرے بچوں نے پوچھا:’’تجھ پر یہ احسان کس نے کیا؟‘‘اس نے جواب دیا:’’حضرت سیِّدُنا معروف کرخی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  اورسری سقطی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی نے۔‘‘جب بچے کھیل کود‏کے بعد چلے گئے تو وہ بچہ خوشی خوشی میرے پاس آیا۔میں نے اس سے پوچھا:’’بتاؤ! عید کا دن کیسا گزرا؟‘‘ اس نے کہا: ’’اے میرے محترم! آپ نے مجھے اچھا کپڑاپہنایا،مجھے خوش کر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا ، میرے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا،   اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کو اپنی بارگاہ میں حاضری کی کمی پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے لئے اپنا راستہ کھول دے۔‘‘ حضرت سیدنا سری سقطی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتے ہیں:’’ مجھے بچے کے اس کلام سے بے حد خوشی ہوئی جس نے عید کی خوشیاں دوبالا کردیں۔‘‘([33])

د ل میں نرمی پیدا کرنے کے دس (10)طریقے:

(1)دل کی سختی کے ممکنہ نقصانات پر غور کیجئے:چند نقصانات یہ ہیں:٭دل کی سختی عمل


 

 کو ضائع کردینے کا ایک سبب ہے۔ ٭سخت دلی سے بے رحمی کا اندیشہ ہے۔ ٭سخت دل شخص عموماً رحم کرنے کی طرف بہت کم مائل ہوتا ہے۔ ٭سخت دل لوگ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو ناپسند ہیں۔ ٭سخت دل لوگوں کی صحبت بری صحبت کہلاتی ہے۔ ٭سخت دل لوگ کل بروزِ قیامت غضب اِلٰہی کا شکار ہوسکتےہیں۔ ٭اُن کو حساب میں دشواری کا بھی اندیشہ ہے۔ ٭ربّ تعالٰی کی ناراضی کی صورت میں انہیں جہنم کا عذاب کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔٭سخت دلی اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے قہروغضب کی علامت ہے۔ ٭سخت دل لوگ دنیا وآخرت کی کثیر بھلائیوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ

(2)نرم دلی کے فوائد پر غور کیجئے:چند فوائد یہ ہیں: ٭نرم دل شخص رحم دل ہوتا ہے،٭ سب پر رحم کرتا ہے، ٭نرم دل لوگ  اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو پسند ہیں، ٭نرم دلی   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بہت بڑی نعمت ہے، ٭نرم دلی خوش بختی کی علامت ہے، ٭نرم دل شخص کی عزت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے۔٭جسے نرم دلی عطا کی جاتی ہے اسے دنیا وآخرت کی کثیر بھلائیاں عطا کردی جاتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

(3)بھوک سے کم کھائیے:‏ اس سے دل نرم ہوتا ہے، پیٹ بھر کر کھانے سے دل کی سختی پیدا ہوتی ہے۔ بعض صالحین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن  کا فرمان ہے:’’بھوک ہمارا سرمایہ ہے۔‘‘اِس قول کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں جو فراغت، سلامتی، عبادت، حلاوت، علم اور عملِ نافع وغیرہ نصیب ہوتا ہے وہ سب بھوک کے سبب اور صبر کی برکت سے ہوتا ہے۔حضرتِ سیدناسفیان ثوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں:’’دل کی سختی کے دو اَسباب ہیں: (۱)پیٹ


 

بھر کر کھانا(۲)زِیادہ بولنا۔‘‘([34])

(4)فضول گفتگوسے پر ہیز کیجیے:فضول گوئی سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے، یوں دل نہ تو کسی پہ رحم کرنے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں،کسی کے بارے میں جس قدر منفی‏(غیبت،چغلی ،تہمت پر مشتمل)گفتگو کی جاتی ہے اسی قدر دل میں نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ سب فضول گوئی کی بری عادت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا دل میں نرمی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو زبان کو فضول گفتگو سے بچاتے ہوئے قفل مدینہ لگائیے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’ذکرُاللہ کے بغیر زیادہ کلام نہ کرو کیونکہ ذکرُاللہ کے بغیر زیادہ کلام دل کی سختی ہے اور سخت دل لوگ   اللہ عَزَّ وَجَلَّ(کی رحمت وعنایت) سے سب سے زیادہ دور ہیں۔‘‘([35]) حضرتِ سیدنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں :’’ اگر تو اپنے دل میں سختی یااپنے بدن میں سستی یا اپنے رزق میں محرومی دیکھے تو یقین کرلے کہ تو نے کوئی فضول گفتگو کی ہے۔‘‘([36])

(5)گناہوں کے خلاف اِعلان جنگ کردیجئے: گناہ خواہ ظاہر ی ہو یا باطنی ،دونوں ہی دل کی سختی کا سبب ہیں اور جن کے دل نرم ہوتے ہیں اس کے پیچھے یہ راز پوشیدہ ہوتا ہے کہ وہ گناہوں سے ہر صورت بچتے ہیں ۔لہٰذا دل میں نرمی پیدا کرنے کے لیے آپ بھی گناہوں کے خلاف اِعلانِ جنگ کردیجیے، گناہوں اور ان کے اسباب وعلاج کی معلومات حاصل کیجئے، خود کو گناہوں سے بچائیے۔گناہوں کی معلومات، ان کے اسباب وعلاج کے


 

لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ان کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: ٭ احیاء العلوم ٭جہنم میں لے جانے والے اعمال ٭باطنی بیماریوں کی معلومات۔

(6)یتیم و مسکین کی خیر خواہی کیجیے:دل میں نرمی پیدا کرنے کا ایک نسخہ یہ بھی ہے کہ یتیم و مسکین کے ساتھ خیرخواہی کی جائے کہ ایک شخص نے حضورنبی کریم، رءوف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں سخت دلی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’اگر تو دل کی نرمی چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔‘‘([37])

(7)موت کو کثرت سے یاد کیجیے: موت دل کی نرمی کا بہترین نسخہ ہے۔ چنانچہ ایک عورت نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے اپنے دل کی سختی کے بارے میں شکایت کی تو انہوں نے فرمایا: ’’موت کو زیادہ یاد کرو اس سے تمہارا دل نرم ہوجائے گا۔‘‘اس عورت نے ایسا ہی کیا تو دل کی سختی جاتی رہی، پھر اس نے ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا   کا شکریہ ادا کیا۔([38])

(8)زِیارتِ قبور کیجیے:زِیارتِ قبور دل کی سختی کا ایک بہترین علاج اور دل کی نرمی میں بہت معاون ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، اب تم قبر وں کی زیارت کیا کرو کیو نکہ زیارتِ قبور دل کی نرمی ، اَشک باری (رونے کا سبب)اور آخرت کی یاد دلانے والی ہے۔‘‘([39])


 

(9)اللہ والوں کی صحبت اختیار کیجیے :‏مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں: ’’جیسے لوہا نرم ہوکر اوزار اور سونا نرم ہوکر زیور اورمٹی نرم ہوکر کھیت یا باغ،آٹا نرم ہوکر روٹی وغیرہ بنتے ہیں ایسے ہی اِنسان دل کا نرم ہوکر ولی، صوفی،عارف وغیرہ بنتا ہے۔ دل کی نرمی اللہ کی بڑی نعمت ہے،یہ نرم دل بزرگوں کی صحبت اور اُن کے پاک کلمات سے نصیب ہوتی ہے۔‘‘([40]) اسی طرح حضرت سیدنا احمد بن ابوالحواری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:’’جب تو اپنے دل میں سختی محسوس کرے تو ذکر کرنے والوں کی مجلس میں بیٹھ جا،دنیا سے بے رغبت لوگوں کی صحبت اختیار کر،اپنا کھانا کم کرلے ،اپنی مراد (خواہش)سے اجتناب کر، برے کاموں سے خود کو روک لے۔‘‘([41]) لہٰذا اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنے کی برکت سے دل نرم ہوتاہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ شیخ طریقت، اَمیراہلسنت بانیٔ دعوتِ اِسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ بھی ایک عظیم علمی ورُوحانی شخصیت ہیں، کئی ایسے لوگ ہیں جن کی سخت دلی نے انہیں بہت سے گناہوں اور سنگین جرائم میں مبتلا کردیا تھا، نیکیوں سے کوسوں دور کردیا تھا، انہیں شیخ طریقت امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مبارک صحبت عطا ہوئی، آپ کے بیانات کو سنا، دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوئے، ہفتہ وار اجتماعات میں شرکت اور مدنی انعامات پر عمل شروع کردیا، مدنی قافلوں میں سفر کی سعادت حاصل کی، مدنی مذاکروں میں شرکت کو اپنا معمول بنالیا،   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے


 

 فضل وکرم سے انہیں دل کی نرمی نصیب ہوگئی، گناہوں سے نفرت مل گئی، نیکیوں سے محبت کا عملی جذبہ بیدار ہوگیا، آپ بھی دل کی نرمی چاہتے ہیں تو شیخ طریقت امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت اختیار کریں، بیانات سنیں، مدنی مذاکروں میں شرکت کریں، اس کی برکت سے ڈھیروں بھلائیاں حاصل ہوں گی۔اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

(10)دل کی نرمی کی بارگاہِ الٰہی میں دعا کیجئے: دعا مؤمن کا ہتھیار اور عبادت کا مغز ہے۔ ایک شخص نے حضرت سیدنا معروف کرخی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:’’دعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ میرے دل کو نرم کر دے۔‘‘تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے اس دعا کی تلقین فرمائی:’’یَامُلَیِّنَ الْقُلُوْبِ! لَیِّنْ قَلْبِیْ قَبْلَ اَنْ تُلَیِّنَہ عِنْدَ الْمَوْتِ یعنی اے دلوں کونرم فرمانے والے !میرے دل کو بھی نرم کر دے اس سے پہلے کہ تو موت کے وقت اسے نرم کرے۔‘‘ (آمین) ([42])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (17)خلوت وگوشہ نشینی

خلوت وگوشہ نشینی کی تعریف :

٭خلوت کے لغوی معنیٰ ’’تنہائی ‘‘کے ہیں اور بندے کا اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا حاصل کرنے، تقویٰ وپرہیزگاری کے درجات میں ترقی کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیے اپنے گھر یا کسی مخصوص مقام پر لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اس طرح معتدل انداز میں نفلی عبادت کرنا ’’خلوت وگوشہ نشینی‘‘کہلاتا ہے کہ حقوقُ اللہ (یعنی فرائض وواجبات


 

 وسنن مؤکدہ) اور شریعت کی طرف سے اس پر لازم کیے گئے تمام حقوق کی ادائیگی، والدین، گھروالوں، آل اَولاد ودیگر حقوق العباد (بندوں کے حقوق)کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ ٭ صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام  کے نزدیک لوگوں میں ظاہری طور پر رہتے ہوئے باطنی طور پر ان سے جدا رہنا یعنی خودکو ربّ تعالٰی کی طرف متوجہ رکھنا خلوت وگوشہ نشینی ہے۔

آیت مبارکہ :

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:) وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاؕ(۸) ( (پ۲۹، المزمل: ۸)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو ر ہو۔‘‘اس آیت کے تحت صدرالافاضل مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں:’’یعنی‏عبادت میں اِنقطاع کی صفت ہو کہ دل اللہ تعالٰی کے سوا اور کسی طرف مشغول نہ ہو، سب علاقہ (تعلقات) قطع‏(ختم)ہوجائیں، اسی کی طرف توجہ رہے۔‘‘([43]) ٭  اللہ عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتا ہے: (وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَۘ-اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ(۱۶))(پ۱۶، مریم: ۱۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب اپنے گھر والوں سے پورب (مشرق)کی طرف ایک جگہ الگ گئی۔‘‘اس آیت مبارکہ میں حضرت سیدتنا مریم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا کی خلوت کا ذکر ہے کہ وہ اپنے مکان میں یا بیت المقدس کی شرقی جانب میں لوگوں سے جدا ہو کر عبادت کے لئے خلوت میں بیٹھ گئیں۔([44])


 

(حدیث مبارکہ)خلوت وگوشہ نشینی ذریعۂ نجات ہے:

حضرت سیدنا عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے عرض کی:’’نجات کا ذریعہ کیا ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تم کو تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطاؤ ں پر روؤ۔‘‘([45])  مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتے ہیں: ’’یعنی بلا ضرورت گھر سے باہر نہ جاؤ، لوگوں کے پاس بلاوجہ نہ جاؤ، گھر سے نہ گھبراؤ، اپنے گھر کی خلوت کو غنیمت جانو کہ اس میں صدہا (سینکڑوں)آفتوںسے امان ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ سکوت،لزوم بیوت اور قناعت بالقوت اِلٰی اَنْ یَّمُوْتامان کی چابی ہے یعنی خاموشی،گھر میں رہنا،ربّ کی عطا پر قناعت،موت تک اس پر قائم رہنا۔‘‘([46])

خلوت وگوشہ نشینی کے اَحکام:

(1)مطلقاً خلوت رِضائے الٰہی پانے، خود کو نیکیوں میں لگانے،گناہوں سے بچانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔ہرمسلمان کو چاہیے کہ رضائے الٰہی کے حصول اور عبادات میں پختگی حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت خلوت اختیار کرے،البتہ مختلف اَفراد کے مختلف اَحوال کی وجہ سے اس کے اَحکام بھی مختلف ہیں، بعض کے لیے خلوت افضل اور بعض کے لیے جلوت (یعنی لوگوں میں رہنا)افضل۔ (2)ایسا عالم دین جس سے لوگ علم دِین حاصل کرتے ہوںاور اگر یہ خلوت اختیار کر لے تو لوگ شرعی مسائل سے


 

 محروم ہوکر گمراہی میں جا پڑیں گے تو ایسے عالم کے لیے کلیۃً خلوت اِختیار کرناناجائز وممنوع ہے البتہ ایسا صاحب علم شخص جس کے پاس اپنی ضرورت کا علم موجود ہے اور اس کے خلوت اختیار کرنے سے لوگوں کا بھی کوئی نقصان نہیں تو ایسے شخص کے لیے خلوت اختیار کرنا جائز ہے۔(3)ایسا شخص جو ضروریاتِ دِین (فرائض وواجبات وسنن مؤکدہ)سے ناواقف ہو، اگر علم حاصل نہ کرے گا تو نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر گمراہی کے گڑھے میں گرجا ئے گا ایسے شخص کے لیے خلوت اختیار کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے بلکہ اس پر لازم ہے کہ فرض علوم کوحاصل کرے۔(4) اگر کسی شخص کو اچھی صحبت میسرنہیں ہے اور وہ خلوت اختیار نہیں کرے گا توگناہوں میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ حقوق اللہ وحقوق العباد (اللہ تعالٰی اور بندوں کے حقوق)کی ادائیگی کرتے ہوئے بقدرِ ضرورت خلوت اختیار کرے اور خود کو گناہوں سے بچا کر عبادت میں مصروف ہو جائے۔ مرآۃ المناجیح میں ہے: صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام  فرماتے ہیں کہ ’’اب اس زمانہ میں جلوت (لوگوں میں رہنے)سے خلوت افضل،بری صحبت سے تنہائی افضل۔‘‘([47]) برے لوگوں کی صحبت سے خلوت افضل اور خلوت سے اچھے لوگوں کی صحبت افضل۔ (5)اگر خلوت اختیار کرنے میں کسی بھی طرح حقوق اللہ یا حقوق العباد کی تلفی ہوتی ہو تو ایسی خلوت اختیار کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔ مثلاً کوئی شخص گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر اس طرح ذکر واَذکار وعبادت وغیرہ میں مصروف ہوجائے کہ جماعت بھی ترک کردے، جمعہ وعیدین میں بھی سستی ہوجائے،کسب حلال ترک کر دے اور اسے یا اس کے گھروالوں کو اس خلوت


 

 کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے تو ایسی خلوت ناجائز وحرام ہے۔حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں:’’مسلمان دو قسم کے ہیں: ایک وہ جنہیں خلوت بہتر ہے، بعض وہ جن کے لیے جلوت افضل، ان دونوں میں جلوت والے افضل ہیں کیونکہ خلوت والے صرف اپنی اِصلاح کرتے ہیں اور جلوت والے دوسروں کوبھی درست کرتے ہیں۔ حضرت علی (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) فرماتے ہیں کہ تم دنیا میں اپنے دوست زیادہ بناؤ کہ کل قیامت میں مؤمن دوست شفاعت کریں گے اور آپ نے اپنی تائید میں یہ‏آیت پڑھی: (فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَۙ(۱۰۰)وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ(۱۰۱)) (پ۱۹، الشعراء: ۱۰۰، ۱۰۱)کفارِ مکہ اپنے لیے شفیع اور دوست نہ ملنے پر افسوس کریں گے مگر خیال رہے کہ بعض لوگوں کے لیےبعض حالات میںبعض مقامات پر خلوت افضل ہوتی ہے، اگر جلوت میں خود اپنے آپ کےگناہوں میں مشغول ہوجانے کا اندیشہ ہو تو خلوت بہتر۔ حضرت وہب (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ) فرماتے ہیں کہ حکمت دس حصے ہیں: نو خاموشی میں، ایک خلوت میں۔ بہتر یہ ہے کہ کبھی خلوت اختیارکرے کبھی جلوت: خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا(سب سے بہتر کام میانہ روی والا ہوتا ہے)عربی میں تنہائی کو عُزْلَۃٌ کہتے ہیں، عارفین فرماتے ہیں کہ عُزْلَۃ میں اگر علم کا ’’عین‘‘ نہ ہو تو ذلت ہے اور اگر زُہد کی‏’’ز‘‘ نہ ہو تو نری علت ہے یعنی خلوت وہ اختیار کرے جس کے پاس علم بھی ہو زُہد بھی۔‘‘([48])٭اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ اِمام اَحمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن سے جب خلوت نشینی کے متعلق سوال ہوا تو آ پ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے ارشاد فرمایا:’’آدمی تین قسم کے ہیں: (۱) مُفِیْد


 

(۲) مُسْتَفِیْد (۳) مُنْفَرِد۔ مفید وہ کہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے، مستفیدوہ کہ خو دد وسرے سے فائدہ حاصل کرے، منفرد وہ کہ دوسرے سے فائدہ لینے کی اسے حاجت نہ ہو اور نہ دوسرے کو فائدہ پہنچاسکتا ہو۔ مفید اور‏مستفید کو عزلت گز ینی (یعنی خلوت)حرام ہے اور منفرد کو جائز بلکہ واجب۔‘‘ اِمام اِبن سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا واقعہ بیان فرما کر ارشاد فرمایا: ’’وہ لوگ جو پہاڑ پر گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گئے تھے وہ خود فائدہ حاصل کیے ہوئے تھے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی اُن میں قابلیت نہ تھی اُن کو گوشہ نشینی جائز تھی او ر امام اِبن سیرین (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) پر عزلت (یعنی خلوت)حرام تھی۔‘‘([49])

دل میں ہو یاد تیری گوشۂ تنہائی ہوپھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

سارا عالم ہو مگر دیدہ دل دیکھے تمہیںانجمن گرم ہو اور لذت تنہائی ہو

(18)(حکایت)خلوت کے فوائد خلوت نشین راہب کی زبانی:

حضرت سیدنا عبد الواحد بن یزید  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْمَجِیْد  فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں ایک راہب کے پاس سے گزرا جو لوگو ں سے الگ تھلگ اپنے صومعہ (یعنی عبادت خانہ) میں رہتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا:’’اے راہب !تو کس کی عبادت کرتا ہے؟‘‘ کہنے لگا:’’میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے اور تجھے پیدا کیا۔‘‘میں نے پوچھا:’’اس کی عظمت وبزرگی کا کیاعالم ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’وہ بڑی عظمت ومرتبت کا مالک ہے، اس کی عظمت ہر چیزسے بڑھ کر ہے۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’اِنسان کو دولت عشق کب نصیب ہوتی ہے ؟‘‘ تو وہ کہنے لگا:’’جب اُس کی محبت بے غرض ہو اور وہ اپنے معاملہ میں


 

مخلص ہو۔‘‘ میں نے پوچھا:’’محبت کب خالص وبے غرض ہوتی ہے ؟‘‘ اُس نے جواب دیا:’’جب غم کی کیفیت طاری ہو اور وہ محبوب کی اِطاعت میں لگ جائے۔‘‘میں نے کہا:’’محبت میں اِخلاص کی پہچان کیا ہے ؟‘‘ کہنے لگا: ’’ جب غمِ فُرقت (جدائی کے غم)کے علاوہ کوئی اور غم نہ ہو۔‘‘میں نے پوچھا:’’ تم نے خلوت نشینی کو کیوں پسند کیا؟‘‘کہنے لگا:’’اگر توتنہائی وخلوت کی لذت سے آشنا ہوجائے توتجھے اپنے آپ سے بھی وَحشت محسوس ہونے لگے ۔‘‘ میں نے پوچھا:’’انسان کو خلوت نشینی سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟‘‘ راہب نے جواب دیا:’’ لوگو ں کے شر سے امان مل جاتی ہے اور ان کی آمد ورفت کی آفت سے جان چھوٹ جاتی ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’مجھے کچھ اور نصیحت کر۔‘‘ تووہ کہنے لگا: ’’ہمیشہ حلال رزق کھاؤ پھر جہاں چاہوسوجا ؤ تمہیں غم وپریشانی نہ ہوگی۔‘‘میں نے پوچھا:’’راحت وسکون کس عمل میں ہے ؟‘‘ اس نے کہا:’’ خلافِ نفس کام کرنے میں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’انسان کو راحت وسکون کب میسر آئے گا ؟ ‘‘تووہ کہنے لگا:’’ جب وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔‘‘میں نے پوچھا:’’ اے راہب! تو نے دنیا سے تعلق توڑ کر اس صومعہ (یعنی عبادت خانہ) کو کیوں اختیار کرلیا؟‘‘ کہنے لگا:’’جو شخص زمین پر چلتا ہے وہ اوندھے منہ گر جاتا ہے اور دنیا داروں کو ہروقت چوروں کا خوف رہتا ہے،پس میں نے دنیا داروں سے تعلق ختم کرلیا اور دنیا کے فتنہ وفساد سے محفو ظ رہنے کے لئے اپنے آپ کواس ذات کے سپرد کردیا جس کی بادشاہی زمین و آسمان میں ہے، دنیا دار لوگ عقل کے چور ہیں پس مجھے خوف ہوا کہ یہ میری عقل چُرا لیں گے اور حقیقی بات یہ ہے کہ جب انسان اپنے دل کو تمام خواہشاتِ نفسانیہ اور بر ائیوں سے پاک کرلیتا ہے تو اس کے لئے زمین تنگ ہو


 

جاتی ہے ( یعنی اسے دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے) پھر وہ آسمانوں کی طر ف بلندی چاہتا ہے اور قُربِ الٰہی  عَزَّ وَجَلَّکا متمنی (خواہش کرنے والا) ہوجاتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ ابھی فوراً اپنے مالک حقیقی عزوجل سے جا ملے۔‘‘ پھر میں نے اس سے پوچھا:’’ اے راہب! تو کہا ں سے کھاتا ہے ؟‘‘ کہنے لگا:’’ میں ایسی کھیتی سے اپنا رزق حاصل کرتاہو ں جسے میں نے کاشت نہیں کیا بلکہ اسے تو اس ذات نے پیدا فرمایا ہے جس نے یہ چکّی یعنی داڑھیں میرے منہ میں نصب کیں،میں اسی کا دیا ہوا رزق کھاتا ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’ تم اپنے آپ کو کیسا محسو س کرتے ہو؟‘‘ کہنے لگا:’’ اس مسافر کا کیا حال ہوگا جو بہت دشوار گزار سفر کے لئے بغیر زادِراہ کے روانہ ہوا ہو ، او راس شخص کا کیا حال ہوگا جو اندھیری اور وحشت ناک قبر میں اکیلا رہے گا، وہاں کوئی غم خوار ومو نِس نہ ہوگا پھر اس کا سامنا اس عظیم و قہار ذات سے ہوگا جواَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنہے جس کی بادشاہی تمام جہانوں میں ہے۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد وہ راہب زار وقطار رونے لگا۔ میں نے پوچھا:’’ تجھے کس چیز نے رلایا ؟‘‘ کہنے لگا:’’مجھے جوانی کے گزرے ہوئے وہ ایام رُلا رہے ہیں جن میں،میں کچھ نیکی نہ کرسکا اور سفرِ آخرت میں زادِ راہ کی کمی مجھے رُلا رہی ہے، کیا معلوم میرا ٹھکانا جہنم ہے یا جنت؟‘‘میں نے پوچھا:’’ غریب کون ہے ؟‘‘ کہنے لگا: ’’غریب اور قابلِ رحم وہ شخص نہیں جو روزی کے لئے شہربہ شہر پھرے بلکہ غریب (اور قابلِ رحم) تو وہ شخص ہے جو نیک ہو اور فاسقوں میں پھنس جائے ۔بار بارصرف (زبان سے) استغفار کرنا (اور دل سے توبہ نہ کرنا) توجھوٹو ں کا طریقہ ہے، اگر زبان کو معلوم جاتا کہ کس عظیم ذات سے مغفرت طلب کی جارہی ہے تو وہ منہ میں خشک ہوجاتی۔ جب کوئی دنیا سے تعلق قائم کرتا ہے توموت اس کا تعلق ختم کردیتی


 

ہے ۔‘‘ پھرکہنے لگا:’’اگر انسان سچے دل سے تو بہ کرے تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بھی معاف فرمادیتا ہے اور جب بندہ گناہوں کو چھوڑنے کا عزمِ مصمم (پختہ اِرادہ)کرلے تو اس کے لئے آسمانوں سے فتوحات اُترتی ہیںاور اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں او ر ان دعاؤں کی برکت سے اس کے سارے غم کافور (دُور)ہوجاتے ہیں۔‘‘راہب کی حکمت بھری باتیں سن کرمیں نے اس سے کہا:’’میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں،کیا تم اس بات کو پسند کر وگے ؟‘‘تو وہ راہب کہنے لگا:’’میں تمہارے ساتھ رہ کر کیا کروں گا،مجھے تو اس خدا  عَزَّ وَجَلَّکا قرب نصیب ہے جو رزاق ہے اور رُوحوں کو قبض کر نے والا ہے ،وہی موت وحیات دینے والا ہے، وہی مجھے رزق دیتا ہے،کوئی اور ایسی صفات کا مالک ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘(یعنی مجھے وہ ذات کا فی ہے ، میں کسی غیر کا محتاج نہیں) ([50])

خلوت اِختیار کرنے کے نو(9) طریقے:

(1)خلوت سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال کا مطالعہ کیجئے:چند اَقوال یہ ہیں: ٭حضرت سیدنا سہل رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’خلوت، حلال کھانے کے ساتھ درست ہوتی ہے اور حلال کھانا اس وقت درست ہوتا ہے جب   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا حق ادا کیا جائے۔‘‘٭حضرت سیدنا جریری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’گوشہ نشینی یہ ہے کہ تم لوگوں کے ہجوم میں داخل ہو جاؤ اور اپنے باطن کو ان کی مزاحمت (سامنے آنے)سے محفوظ رکھو، اپنے نفس کو گناہوں سے الگ رکھو اور تمہارا باطن حق کے ساتھ مربوط (وابستہ) ہو۔‘‘ ٭ کہا گیا ہے کہ ’’جس نے گوشہ نشینی کو ترجیح دی اس نے حق کو پالیا۔‘‘ ٭ حضرت سیدنا


 

ذوالنون مصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’میں نے خلوت سے بڑھ کر کوئی چیز اِخلاص کی ترغیب دینے والی نہیں دیکھی۔‘‘٭حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں: ’’گوشہ نشینی کی مشقت برداشت کرنا لوگوں کے میل جول اور مُدَارات (اچھی  طرح پیش آنے)سے زیادہ آسان ہے۔‘‘ ٭حضرت سیدنا مکحول رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’اگر مخلوق سے میل جول میں بھلائی ہے تو گوشہ نشینی میں سلامتی ہے۔‘‘ ([51])

(2)آدابِ خلوت کی معلومات حاصل کیجئے:خلوت یعنی گوشہ نشینی کے بھی کچھ آداب ہیں، جب تک بندہ اُن آداب کو نہ بجالائے اُس وقت تک خلوت اِختیار نہ کرے کہ اِس سے نقصان کا اندیشہ ہے، چند آداب یہ ہیں:(۱)خلوت وگوشہ نشینی اِختیار کرنے والے کو چاہیے کہ اَوّلاًدرست عقائد کا علم حاصل کرے تاکہ شیطان اُسے وسوسوں کے ذریعے بہکا نہ سکے، پھر ضروری اَحکامِ شرعیہ کی تفصیلی معلومات حاصل کرے تاکہ اس کے ذریعے فرائض وواجبات کی اچھے طریقے سے ادائیگی کرسکے اور خلوت کا مقصد حقیقی (یعنی رِضائے الٰہی وعبادت پر اِستقامت)حاصل ہو۔ علم عقائد و مسائل کے بغیر خلوت اِختیار کرنے والا ایسا ہے جیسے ٹیڑھی بنیاد پر عمارت کھڑی کرنے والا کہ وہ چاہے جتنی بھی خوبصورت عمارت قائم کرلے وہ کبھی سیدھی نہ ہوگی اور ہمیشہ اس کے گرنے کا خطرہ ہی رہے گا، اس طرح بغیر علم کے خلوت اختیار کرنے والا بھی کبھی نہ کبھی نفس و شیطان کے شکنجے میں آکر گمراہی کے عمیق (گہرے)گڑھے میں گر سکتاہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم نخعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِینے ایک گوشہ نشین سے فرمایا: ’’پہلے علم حاصل کروپھر گوشہ نشینی اختیار کرو۔‘‘ ([52]) (۲) خلوت اور


 

گوشہ نشینی درحقیقت بری خصلتوں سے دُور رہنے کا نام ہے پس اس کی غرض اپنے اَعمال میں تبدیلی لانا ہےنہ کہ اپنی ذات سے ہی دُور ہوجانا، اسی لیے جب پوچھا گیا کہ عارِف کون ہے؟ تو صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام  نے جواباً ارشادفرمایا: ’’جو ظاہر میں مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے اور باطنی اِعتبار سے اُن سے جدا ہوتا ہے۔‘‘ (۳) حضرت سیدنا ابو عثمان مغربی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں: ’’جو شخص صحبت پر خلوت کو ترجیح دیتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ذکر کے علاوہ تمام اَذکار کو چھوڑ دے اور اپنے ربّ کی رضا کے علاوہ تمام اِرادوں سے خالی ہوجائے اور اگر نفس تمام اَسباب کا مطالبہ کرے تو اُس سے بھی الگ ہو جائے، اگر یہ صورت پیدا نہیں ہوتی تو اُس کی خلوت اُسے فتنے یا آزمائش میں ڈال دے گی۔‘‘(۴)حضرت سیدنا یحییٰ بن معاذ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’یہ دیکھو کہ تمہیں خلوت کے ساتھ اُنس (محبت)ہے یا خلوت میں تمہارا اُنس   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ ہے؟ اگر تمہارا اُنس خلوت کے ساتھ ہے تو جب تم خلوت سے نکلو گے تو تمہارا اُنس ختم ہوجائے گا اور اگر تمہیں خلوت میں اپنے ربّ  عَزَّ وَجَلَّکے ساتھ اُنس ہوگا تو تمہارے لیے صحرا اور جنگل تمام جگہیں برابر ہوں گی۔‘‘([53]) (۵)خلوت اختیار کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ دل سے ان تمام وسوسوں کو نکال دے جو   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ذکر سے دوری کا سبب بنتے ہیں۔ (۶)تھوڑے رزق پر قناعت کرے۔ (۷)نیک عورت سے شادی کرے یا نیک شخص کی صحبت اختیار کرے تاکہ دن بھرذکرو اذکار میں مشغولیت کے بعد کچھ وقت ان کے ذریعے نفس کو آرام پہنچا سکے۔ (۸)لمبی زندگی کی آس نہ لگائے، صبح اس حال میں کرے


 

 کہ شام کی امید نہ ہواور شام اس حال میں کرے کہ صبح کی امید نہ ہو۔(۹)تنہائی وگوشہ نشینی سے جب دل گھبرائے تو موت اور قبر کی تنہائی کو کثرت سے یاد کرے۔([54])

(3)خلوت سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال وواقعات کا مطالعہ کیجئے: خلوت کے بارے میں مطالعہ کرنے سے خلوت وگوشہ نشینی اختیارکرنے اور اس کا ذہن بنانے میں معاونت ملے گی۔ اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف احیاء العلوم، ج۲، ص۷۹۹کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(4)خلوت اختیار کرنے کی اچھی اچھی نیتیں کرلیجئے:چند نیتیں یہ ہیں:٭لوگوں کو اپنے شرسے بچاؤں گا۔٭خود کو شریروں کے شرسے محفوظ رکھوں گا۔٭ مسلمانوں کے حقوق پورا نہ کرنے کی آفت سے چھٹکارا حاصل کروں گا۔ ٭تمام وقت خالصتاً   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہوں گا۔امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’ان نیتوں کے ساتھ گوشہ نشین ہونے کے بعد انسان کو چاہیے کہ مستقل علم وعمل اور   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ذکر وفکر میں مشغول رہے تاکہ گوشہ نشینی کے ثمرات حاصل کرسکے۔‘‘([55])

(5)برے لوگوں کی صحبت کے نقصانات پر غور کیجیے :  جب کوئی بری صحبت کے نقصانات پر غور کرے گا تو ان سے دور رہنے اورخلوت اختیار کرنے کا مدنی ذہن بنے گا۔برے لوگوں کی صحبت کے‏چند نقصانات یہ ہیں:٭بندہ آہستہ آہستہ ظاہری وباطنی گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔٭جھوٹ، غیبت، چغلی، حسد، تکبر، وعدہ خلافی، ریاکاری،


 

بغض وکینہ، محبت دنیا، طلب شہرت، تعظیم اُمراء، تحقیر مساکین، اِیذائے مسلم، اِتباعِ شہوات، حرص، بخل، خیانت، اور قساوتِ قلبی (دل کی سختی)جیسے خطرناک اَمراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔٭بسا اوقات بندہ فرائض وواجبات وسنن مؤکدہ کی ادائیگی بھی نہیں کر پاتا۔٭ برے لوگوں کے ساتھ رہنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ٭برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے والے کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٭برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے والے کوبھی ان میں شمار کیا جاتا ہے۔٭برے لوگوںکی صحبت اختیار کرنے والےاور گناہوں میں مبتلا ہونے والے پر برے خاتمے کا بھی خوف ہے کیونکہ گناہوں میں مبتلا ہونا برے خاتمے کے اسباب میں سے ہے۔٭ برے لوگوں کی صحبت اللہ عَزَّ وَجَلَّکی ناراضی کا سبب ہے۔٭برے لوگوں کی صحبت قبر وحشر کی تکالیف اور مشکلات کو دعوت دیتی ہے۔٭برے لوگوں کی صحبت ایمان کو تباہ وبرباد کرنے والی ہے۔٭الغرض برے لوگوں کی صحبت دنیا وآخرت کی بے شمار تباہیوں وبربادیوں کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا اِن تمام نقصانات سے بچنے کے لیے خلوت اختیار کرنا بہتر ہےکہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا فرمان ہے: ’’گوشہ نشینی میں برے ساتھی سے نجات ہے۔‘‘([56])

(6)خلوت کے دِینی ودُنیوی فوائد پیش نظر رکھیے:‏چند دینی فوائد یہ ہیں:٭ خلوت میں بندہ جلوت سے بسا اوقات زیادہ عبادت کرلیتا ہے۔ ٭خلوت سے عبادت پر اِستقامت نصیب ہوتی ہے۔٭خلوت میں بندہ جلوت کے گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔٭  خلوت


 

میں گویا بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی صحبت اختیار کرلیتا ہے۔٭خلوت میں بندہ فضول گفتگو سے بچ جاتاہے۔٭خلوت میں بندہ کئی ظاہری وباطنی گناہوں سے بچ جاتا ہے۔٭ خلوت میں بندہ حقوق العباد کی تلفی سے بھی بچ جاتا ہے۔٭خلوت میں ذوق وشوق کے ساتھ مطالعہ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔٭ حضرت سیدنا شعیب بن حرب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ میں کوفہ میں حضرت سیدنا مالک بن‏مسعود رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بارگاہ میں حاضر ہوا وہ اپنے گھر میں تنہا تھے۔میںنے عرض کی: ’’آپ تنہائی میں وحشت محسوس نہیں فرماتے ؟‘‘ارشاد فرمایا: ’’میر ی سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّکی صحبت میں وَحشت کیسے محسوس کر سکتا ہے؟‘‘ ([57])

چند دُنیوی فوائد یہ ہیں:٭بندہ دنیا کی خوبصورتی کی طرف دیکھنے سے بچ جاتا ہے۔٭لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔٭وہ لوگوں کے مال میں  خواہش نہیں  رکھتا۔٭لوگ اس کے مال میں خواہش نہیں رکھتے۔٭میل جول کی وجہ سے ختم ہونے والی مروت (لحاظ ورِعایت)باقی رہتی ہے۔٭ہم نشین کی بداَخلاقی سے بندہ بچ جاتا ہے۔٭بندہ لڑائی جھگڑے اور فتنہ وفساد سے بچ جاتا ہے۔([58])

(7)حب جاہ، حب مدح اور طلب شہرت سے بچیے :‏مقام ومرتبے،اپنی تعریف، واہ واہ اور لوگوں میں مشہور ہونے کی خواہشات یہ تینوں وہ باطنی امراض ہیں جو بندے کو خلوت اختیار نہیں کرنے دیتے، بندہ اپنے گرد لوگوں کے ہجوم کو پسند کرتا ہے، اپنی تعریف پر پھولا


 

 نہیں سماتا، ان کی وجہ سے بندہ تکبر میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے، الغرض خلوت اختیار کرنے کے لیے ان تینوں امراض سے بچنا نہایت ضروری ہے، ان کی تفصیلی معلومات، اَسباب وعلاج کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’باطنی بیماریوں کی معلومات‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(8)خاموش مبلغ بننے کا ذہن بنا لیجیے :‏ باعمل مسلمان خاموش مبلغ ہوتا ہے کیوں کہ اس کا عمل ہی دوسروں کے لیے ترغیب کا سبب ہے ،اس کے اخلاق اور کردار ہر ایک کے لیے وہ آئینہ ہوتے ہیں جس میں اپنی ظاہر ی اور باطنی خامیوں کو دیکھ کر سنوار ا جاسکتا ہے ۔خاموش مبلغ بننے کا ایک فائد ہ یہ بھی ہے کہ بندہ لوگوں کے عیوب میں غور و فکر کرکے ہلاکت میں پڑنے سے بچ جاتا ہے کیوں کہ اس کی نظر صر ف اپنی خامیو ں پر ہوتی ہے اور انہیں دور کر نے ‏کے لیے وہ ہر کوشش کرتا ہے اورایسا مبلغ نیکی کی دعوت دیتا ہے تو لوگوں کے دل اسے بہت جلد قبول کرلیتے ہیں،اسےاپنی گفتگو میں تکلف کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، اس کے چند جملے ہی لوگوں کی زندگی بدلنے کے لیے کافی ہوتے ہیں لہٰذا اگر آپ خلوت اختیار کرنا چاہتے ہیں تو خاموش مبلغ بن جائیے، اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی کثیر برکتیں حاصل ہوں گی۔

(9)اپنی ذات کو نظا م الاوقات کا پابند کیجیے : ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کرلیجئے اور پھر اسے اس وقت پر انجام دینے کی بھرپور کوشش کیجئے، جو بندہ اپنے آپ کو نظام الاوقات کا پابند نہیں بناتا، ہر کام کو اس کے وقت میں کرنے کا عادی نہیں بنتا، پھر اس کے تمام کام ادھورے رہ جاتے ہیں اور اس کے لیے خلوت اختیار کرنا بہت دشوار ہوجاتا ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

(18)تَوَکُّل

توکل کی تعریف:

٭توکل کی اِجمالی تعریف یوں ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہتبارَک وتعالٰی پر اِعتماد وبھروسہ کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔ ٭ حضرت سیدنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی نے توکل کی تفصیلی تعریف بھی بیان فرمائی ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:توکل دراصل علم، کیفیت اور عمل تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔یعنی جب بندہ اس بات کو جان لے کہ فاعل حقیقی صرف   اللہ عَزَّ وَجَلَّہے، تمام مخلوق، موت وزندگی، تنگدستی ومالداری، ہرشے کو وہ اکیلا ہی پیدا فرمانے والا ہے، بندوں کے کام سنوارنے پر اسے مکمل علم وقدرت ہے، اس کا لطف وکرم اور رحم تمام بندوں پر اجتماعی اعتبار سےاور ہربندے پر انفرادی اعتبارسے ہے، اس کی قدرت سے بڑھ کر کوئی قدرت نہیں، اس کے علم سے زیادہ کسی کا علم نہیں ، اس کا لطف وکرم اور مہربانی بے حساب ہے، اس علم کے نتیجے میں بندے پر یقین کی ایسی کیفیت طاری ہوگی کہ وہ ایک   اللہ عَزَّ وَجَلَّہی پر بھروسہ کرے گا، کسی دوسرے کی جانب متوجہ نہ ہوگا، اپنی طاقت وقوت اور ذات کی جانب توجہ نہ کرے گا کیونکہ گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت فقط   اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی طرف سے ہے، تو اس علم ویقین،اس سے پیدا ہونے والی کیفیت اور اس نتیجے میں حاصل ہونے والے بھروسے کی مجموعی کیفیت کا نام ’’توکل‘‘ ہے۔([59])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

آیت مبارکہ :

٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:) وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ-( (پ۲۸، الطلاق:۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔‘‘٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:  (وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۳) )پ۶، المائدۃ: ۲۳)ترجمۂ کنز الایمان: ’’اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔‘‘

(حدیث مبارکہ)ربّ تعالٰی پر کامل توکل کرنے کا انعام:

دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکافرمانِ عظمت نشان ہے: ’’اگر تم   اللہ عَزَّ وَجَلَّپر اس طرح بھروسہ کرو جیسے اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے، تو وہ تمہیں اس طرح رزق عطا فرمائے گاجیسے پرندوں کو عطافرماتاہے کہ وہ صبح کے ‏وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اورشام کو سیر ہوکر لوٹتے ہیں۔‘‘([60])

توکل کے اَحکام:

اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنت مولانا شاہ اِمام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’  اللہ عَزَّ وَجَلَّپر (مطلق)توکل کرنا فرضِ عین ہے۔‘‘([61]) واضح رہے کہ اَسباب اور تدابیر کو ترک کرکے گوشی نشینی اِختیارکرلینے اور کسب (یعنی رِزقِ حلال کمانا) ترک کردینے کی شرعاً اِجازت نہیں ہے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’توکل ترکِ اَسباب کا نام


 

 نہیں بلکہ اِعتماد علی الاسباب کا ترک (توکل) ہے۔‘‘([62])  یعنی اَسباب کو چھوڑ دینا توکل نہیں بلکہ اسباب پر اعتماد نہ کرنے (وربّ تعالٰی پر اعتماد کرنے)کا نام توکل ہے۔

پھرمتوکل کے اَعمال کی مختلف صورتیں اور اُن کے مختلف اَحکام ہیں:٭اگر کوئی شخص ایسے یقینی اَسباب کو ترک کرے جو   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حکم سے چیزوں کے ساتھ قائم ہوچکے ہیں اور اُن سے جدا نہیں ہوں گے تو وہ متوکل نہیں، مثلاً سامنے کھانا رکھا ہو، بھوک بھی ہو اور کھانے کی ضرورت بھی ہو لیکن بندہ اپنا ہاتھ اس کی طرف نہ بڑھائے اور یوں کہے: ’’میں توکل کرتا ہوں ۔‘‘تو ایسا کرنا بے وقوفی اور پاگل پن ہے۔٭ ایسے غیریقینی اسباب کو ترک کردینا جن کے بارے میں غالب گمان ہے کہ چیزیں ان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں، مثلاً کوئی شخص شہروں اور قافلوں سے جدا ہو کر سنسان راستے پر سفر کرے جن پر کبھی کبھار ہی کوئی آتا ہے تو اگر اس کا سفر بغیر زاد راہ کے ہو تو یہ (عام شخص کے لیے) توکل نہیں ہے کیونکہ بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن  کا طریقہ یہ رہا ہے کہ ایسے راستوں پر زادِ راہ لے کر سفر کرتے اور توکل بھی باقی رہتا کیونکہ ان کا اعتماد زادِ راہ پر نہیں بلکہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل پر ہوتا، اگرچہ زاد راہ کے بغیر سفر کرنا بھی جائز ہے لیکن یہ توکل کا بلند ترین درجہ ہے اور اسی مرتبہ پر فائز ہونے کی وجہ سے حضرت سیدنا ابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا سفر بغیر زادِ راہ کے ہوتا تھا۔ ٭اگر کوئی شخص کمانے کی بالکل تدبیر نہ کرے تو یہ توکل نہیں بلکہ یہ چیز توکل کو بالکل ختم کردیتی ہے۔٭البتہ اگر وہ اپنے گھر یا مسجد میں ایسی جگہ بیٹھ جائے جہاں لوگ اس کی خبرگیری کرتے ہیں تو یہ توکل کے خلاف نہیں۔٭سنت کے مطابق


 

رِزقِ حلال کماناتوکل کے خلاف نہیں جبکہ اُس کا اِعتماد سامان اور مال وغیرہ پر نہ ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ مال کے چوری یا ضائع ہونے پر غمزدہ نہ ہو۔٭عیال دار شخص کا اپنے اہل خانہ کے حق میں توکل کرنا درست نہیں، ان کے لیے بقدر حاجت کمانا ضروری ہے، اسی طرح سال بھر کے لیے کھانا وغیرہ جمع کرکے رکھنا بھی توکل کے منافی نہیں۔البتہ توکل کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ بندہ اس وقت کے لیے ضرورت کے مطابق رکھ لے اور بقیہ مال ذخیرہ نہ کرے بلکہ فقراء میں تقسیم کردے۔ ٭اپنے آپ کو تکلیف دہ چیزوں سے بچانا بھی توکل کے خلاف نہیں۔([63])  

(19)(حکایت)توکل بہترین چیز ہے:

حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا کہ آئیے ہم اورآپ یہ عہد کریں کہ ہم دونوں میں سے جس کا بھی پہلے انتقال ہوگا وہ خواب میں آکر دوسرے کو اپنا حال بتائے گا۔ میں نے کہا: ’’کیا ایسا ہوسکتاہے ؟‘‘تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا: ’’ہاں! مؤمن کی روح آزاد رہتی ہے، روئے زمین میں جہاں چاہے جاسکتی ہے ۔‘‘ بعدازاں حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا وصال ہوگیا۔ میں ایک دن قیلولہ کر رہا تھاتو اچانک (خواب میں)حضرت سلمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ میرے سامنے آگئے اوربلند آوازسے سلام کیا، میں نے سلام کا جواب دیا اور ان سے دریافت کیا کہ وصال کے بعد آپ پر کیا گزری؟ اورآپ کس مرتبے پر ہیں؟‘‘انہوں نے فرمایا:’’میں بہت ہی اچھے حال میں


 

 ہوں اورمیں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اللہ عَزَّ وَجَلَّپر توکل کرتے رہیں کیونکہ توکل بہترین چیز ہے، تو کل بہترین چیز ہے، توکل بہترین چیز ہے۔‘‘([64])

توکل کا ذہن بنانے اور توکل پیدا کرنے کے گیارہ (11)طریقے:

(1)توکل کی معلومات حاصل کیجئے:جب تک بندے کو کسی چیز کے بارے میں تفصیلی معلومات نہ ہوں اس چیز کو اختیار کرنا یا اس کا ذہن بنانا بہت مشکل ہے، توکل کا ذہن بنانے اور اسے اختیار کرنے کے لیے بھی توکل کی معلومات ہونا ضروری ہے۔ توکل کی معلومات کے لیے احیاء العلوم، جلد۴، ص۷۳۲(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)، مکاشفۃ القلوب، ص۵۱۲(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(2) توکل ومتوکل سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال کا مطالعہ کیجئے:چنداقوال یہ ہیں:٭حضرت سیدنا سہل رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: ’’متوکل کی تین علامات ہیں: سوال نہیں کرتا، جب کوئی اسے چیز دے تو رد نہیں کرتا اور جب چیز پاس آجائے تو اسے جمع نہیں کرتا۔‘‘خلیفہ اعلیٰ حضرت، مرشد امیراہلسنت، قطب مدینہ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اسی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے: ’’طمع نہیں، منع نہیں، جمع نہیں۔‘‘([65]) ٭حضرت سیدنا حمدون رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’توکل   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ساتھ مضبوط تعلق کا نام ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا سہل بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’توکل کا پہلا مقام یہ ہے کہ بندہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سامنے اس طرح ہو


 

 جس طرح مردہ غسل دینے والے کے سامنے ہوتا ہے، وہ اسے جس طرح چاہے الٹ پلٹ کرتا ہے۔‘‘٭ حضرت سیدنا ابو عبداللہ قرشی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے فرمایا: ’’ہر وقت   اللہ عَزَّ وَجَلَّسے تعلق قائم رہنا توکل ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا اِبن مسروق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’  اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فیصلے اور احکام کے سامنے سرجھکانا توکل ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا ابو عثمان حیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّپر اعتماد کرتے ہوئے اسی پر اکتفا کرنا توکل ہے۔‘‘([66])

(3)ربّ تعالٰی کی قدرت ِ کاملہ پر یقین رکھیے:‏بندہ رِزق اور دیگر ضروریات کے متعلق   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ضامن اور کفیل ہونے کا تصور رکھے اور   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے کمالِ علم، اس کی کمالِ قدرت کا تصور کرے اور اِس بات پر یقین رکھے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّخلافِ وعدہ ، بھول ، عجز اور ہر نقص سے منزہ اورپاک ہے، جب ہمیشہ ایسا تصور ذہن میں رکھے گا تو ضرور اُسے رِزق کے بارے میں ربّ تعالٰی پر توکل کی سعادت نصیب ہوجائے گی۔‘‘([67])

(4)متوکل کے آداب کا مطالعہ کیجئے:حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی نے متوکل کے لیے گھریلو سامان سے متعلق درج ذیل 6آداب بیان فرمائے ہیں:(۱)پہلا ادب: دروازہ بند کردے،البتہ زیادہ حفاظتی انتظامات نہ کرے جیسے تالا لگانے کے باوجود پڑوسی کو دیکھ بھال کا کہنا یا کئی تالے لگا دینا۔ (۲) دوسرا ادب: گھر میں ایسا سامان نہ رکھے جو چوروں کو چوری پر آمادہ کرے کہ یہ ان کے گناہ میں پڑنے کا سبب


 

 ہوگا یا ان کی دل چسپی کا باعث ہوگا۔(۳) تیسرا ادب: بحالت مجبوری کوئی چیز چھوڑکر جانا پڑے تو یہ نیت کرے کہ چور کو مسلط کرنے کا جو فیصلہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے فرمایا ہے اس پر راضی ہوں اور یوں کہے: ’’چور جو مال لے گا وہ اس کے لیے حلال ہے یا وہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا کے لیے مباح ہے اور اگر چور فقیر ہوا تو اس پر صدقہ ہے، بہتر یہ ہے کہ فقیر کی شرط نہ لگائے۔ (۴)چوتھا ادب: جب لوٹ کر آئے اور مال چوری پائے تو غم نہ کرے بلکہ ممکن ہو تو خوش ہو کر یہ کہے: ’’اگر چوری ہونے میں بہتری نہ ہوتی تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّمال واپس نہ لیتا۔‘‘ اگر مال وقف نہ کیا تھا تو اسے زیادہ تلاش نہ کرے، نہ کسی مسلمان پر بدگمانی کرے۔اگر وقف کی نیت کے بعد وہ مال مل جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے قبول نہ کرے اور اگر قبول کربھی لیا تو فتوی کی رو سے جائز ہے کیونکہ فقط نیت کرنے سے ملکیت ختم نہیں ہوتی، البتہ متوکلین کے نزدیک یہ عمل ناپسندیدہ ہے۔(۵)پانچواں ادب:چور کے لیے بددعا نہ کرے، اگر بددعا کرے گا تو توکل ختم ہوجائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے چوری ہونے کو ناپسند کیا اور افسوس کیا یوں اس کا زُہد ختم ہوگیا اور اگر بددعا کی تووہ ثواب بھی نہ ملے گا جو اس مصیبت پر ملتا، فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جس نے اپنے اوپر ظلم کرنے والے کو بددعا دی اس نے بدلہ لے لیا۔‘‘([68]) (۶)چھٹا ادب: اس بات پر غمگین ہو کہ چور چوری کرکے گناہ گار ہو اور عذابِ الٰہی کا مستحق ٹھہرا اور اس بات پر   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا شکر ادا کرے کہ وہ ظالم کے بجائے مظلوم بنا اور اسے دنیا کا نقصان پہنچا دِین کا نہیں۔([69])


 

(5)ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّسے پناہ مانگئے:‏کہ یہ عمل توکل اور اس میں پختگی پیدا کرنے میں بہت معاون ہے۔حضرت سیدنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’شیطان خبیث ہے اور تیری عداوت پر ہر وقت کمر بستہ ہے، تو اس لعین کتے سے بچنے کے لیے ہر وقت   اللہ عَزَّ وَجَلَّسے پناہ مانگتا رہے اور کسی وقت بھی اس کی مکاریوں اور عیاریوں سے غافل نہ ہو، بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ذکر سے اس کتے کو بھگا دے، جب تو مردانِ خدا جیسا عزم و یقین اپنے اندر پیدا کرلے گا تو بفضل خدا اِس لعین کے دائو تجھے کچھ ضرر نہیں پہنچاسکیں گے۔ جیساکہ پارہ۱۴سورۃ النحل آیت ۹۹ میں ربّ تعالٰی نے خود فرمایا ہے: ) اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(۹۹)( ترجمۂ کنز الایمان: ’’بیشک اس کا کوئی قابو اُن پر نہیں جو ایمان لائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی ’’وہ شیطانی وسوسے قبول نہیں کرتے ۔‘‘([70])

(6)توکل کے فوائد اور فضائل پر غور کیجیے :‏چند یہ ہیں:٭توکل کرنے والا اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے فرمان پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ ٭توکل کرنے والا لوگوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔٭توکل کرنے والے کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّغیب سے رز ق عطا فرماتا ہے۔٭توکل کرنے والے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکو پسند ہیں۔٭توکل کرنے والے کو دنیا وآخرت کی بے شمار بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں۔ ٭توکل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ایمان محفوظ ہوجاتا ہے، کیونکہ شیطان جب کسی کے ایمان پر حملہ آورہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا   اللہ عَزَّ وَجَلَّپر یقین اور بھر وسہ کمزور کردیتا ہے۔ لہٰذا گر آپ اپنے


 

 ایمان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّپرکامل بھر وسہ رکھیے۔چنانچہ ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ میری ایک نیک آدمی سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا: ’’کیا حال ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’حال تو اُن کا ہے جن کا ایمان محفوظ ہے اور وہ صرف متوکلین ہی ہیں جن کا اِیمان محفوظ ہے۔‘‘([71])

(7)متوکلین کے واقعات کا مطالعہ کیجئے:کہ جب بندہ متوکلین کے واقعات کا مطالعہ کرے گا تو اس کا بھی توکل کرنے کا ذہن بنے گا، اس سلسلے میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد۴، صفحہ ۸۰۷(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)سے مطالعہ کیجئے۔

(8) متوکلین کی صحبت اختیار کیجئے:کہ صحبت اثر رکھتی ہے، جب بندہ توکل کرنے والوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کا بھی توکل کا ذہن بن جاتا ہے اور جو ناشکرے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی بن جاتا ہے، لہٰذا توکل کی دولت حاصل کرنے کے لیے متوکلین کی صحبت اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ شیخ طریقت، امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت بھی ایک متوکل ولیٔ کامل کی صحبت ہے، آپ بھی دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائے، ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات اورمدنی مذاکروں میں شرکت کیجئے، امیر اہلسنتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت اختیار کیجئے اوررحمت الٰہی سے توکل کی دولت پائیے۔

(9)مخلوق کی محتاجی سے بچنے کا عز م کرلیجیے :‏کہ اس طرح بندہ مخلوق سے بے نیاز ہو


 

 کر فقط خالق  عَزَّ وَجَلَّہی پر بھروسہ کرے گاکیونکہ توکل کی بے شمار برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ مخلوق کی محتاجی سے بچ جاتا ہے ۔جیسا کہ حضرت سیدنا سلیمان خواص رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص صدق نیت سے اللہ ‏سُبحانہ وتعالٰی پر توکل کرے، تو اُمراء اور غیر اُمراء سب اُس کے محتاج ہوجائیں گے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مالک  عَزَّ وَجَلَّغنی وحمید ہے۔‘‘([72])

(10)پرسکون اور خوشحال زندگی پر نظر رکھیے :‏ہماری کامیابی میں ذہنی اور قلبی سکون کا بہت بڑا کردارہے، ذہنی اور قلبی طور پر مطمئن شخص عموماً پرسکون اور خوشحال زندگی گزارتا ہے اور توکل سے ذہنی وقلبی سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ‏فرماتے ہیںکہ میرے شیخ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اکثر مجلس میں فرمایا کرتے تھے:’’ اپنی تدبیر اُس ذات کے سپرد کردے جس نے تجھے پیدا فرمایا ہے (یعنی فقط اللہ رَبّ العزت پر توکل کر) توراحت پائے گا۔‘‘([73])

(11) ربّ تعالٰی کی بارگاہ میں توکل کی دعا کیجئے:کہ اس کی رحمت بہت بڑی ہے، اس سے جو مانگو وہ اپنے فضل سے عطا فرماتا ہے، توکل کی یوں دعا مانگئے: ’’اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے حبیب، ہم گناہگاروں کے طبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے وسیلہ سے توکل کی دولت عطا فرما، مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرنا، مجھے ہر ہر معاملے میں بس تیری ہی ذات پر بھروسہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ‘‘آمین

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

 (19)…خشوع‏

خشوع کی تعریف:

بارگاہِ اِلٰہی میں حاضری کے وقت دِل کا لگ جانا یا بارگاہِ اِلٰہی میں دلوں کو جھکا دینا ’’خشوع‘‘ کہلاتا ہے۔([74])

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:) اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ- ((پ۲۷،الحدید:۱۶)ترجمۂ کنز الایمان: ’’کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لئے جو اُترا۔‘‘ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:)قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)((پ۱۸، المؤمنون: ۱،۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے، جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔‘‘ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ’’بعض مفسرین نے فرمایا کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہوا اور دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشۂ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے نہ ہوں اور انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کے حرکات سے باز رہے۔ بعض نے فرمایا کہ خشوع یہ ہے کہ آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے۔‘‘([75])


 

(حدیث مبارکہ)جس دل میں خشوع نہ ہو اس سے پناہ:

حضرت سیدنا زید بن اَرقم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رءوف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں اس دل سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس میں خشو ع نہ ہو۔‘‘([76])

خشوع کا حکم:

٭خشوع یعنی دل کا حاضر ہونا   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بہت بڑی نعمت ہے، خشوع رِضائے الٰہی پانے، نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے، جسے اپنے اعمال میں خشوع حاصل ہوجائے گویا اسے اخلاص نصیب ہوگیا۔حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’خشوع یعنی دل کی حاضری نماز کی رُوح ہے اور کم ازکم مقدار جس سے رُوح باقی رہے وہ تکبیر تحریمہ کے وقت دل کا حاضر ہونا ہے اور اس قدر سے بھی کم ہوتو ہلاکت ہے، اس سے زیادہ جس قدر حضورِ قلب ہوگا اسی قدر روح نماز کے اجزاء میں پھیلے گی اور کتنے ہی زندہ لوگ ہیں جو حرکت نہیں کرسکتے، وہ مردوں کے قریب ہیں، پس تکبیر تحریمہ کے علاوہ غافل اس زندہ کی مثل ہے جس میں حرکت نہیں۔‘‘([77])٭واضح رہے کہ خشوع کو عموماً نماز کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے لیکن یہ عام ہے۔ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’جان لیجئے کہ خشوع ایمان کا پھل اور   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے جلال سے حاصل ہونے والے یقین کا نتیجہ ہے۔ جسے یہ حاصل ہوجائے وہ


 

 نماز سے باہر بلکہ تنہائی میں بھی خشوع اپناتا ہے، کیونکہ خشوع کا موجب (سبب وعِلَّت)اس بات کی پہچان ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّبندے پر مطلع ہے، نیز بندہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے جلال اور اپنی کوتاہی کی معرفت رکھتا ہے، انہی باتوں کی پہچان سے خشوع حاصل ہوتا ہے اور یہ نماز کے ساتھ خاص نہیں اسی لیے بعض بزرگوں کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے حیا کرتے اور اس سے ڈرتے ہوئے 40سال تک آسمان کی طرف سر نہیں اٹھایا۔([78])

)20((حکایت)ہروقت خشوع میں ڈوبے رہتے:‏

منقول ہے کہ حضرت سیدنا ربیع بن خیثم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہہمیشہ سر اور آنکھیں جھکائے رکھتے تھے حتی کہ بعض لوگ آپ کو نابینا سمجھتے، آپ ۲۰سال حضرت سیدنا عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے گھر حاضر ہوتے رہے، جب حضرت سیدنا ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی کنیز انہیں آتے دیکھتی تو کہتی: ’’آپ کے نابینا دوست تشریف لائے ہیں۔‘‘ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاس کی بات سن کر مسکرا دیتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  جب دروازہ بجاتے، کنیز باہر نکلتی تو انہیں سراور آنکھیں جھکائے دیکھتی، حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہجب انہیں دیکھتے تو یہ آیت مبارکہ تلاوت فرماتے:) وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ(۳۴)((پ۱۷، الحج:۳۴)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اے محبوب! خوشی سنادو ان تواضع والوں کو۔‘‘اور فرماتے: ’’خدا  عَزَّ وَجَلَّکی قسم! اگر حضورِ اَنور شافع محشر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتمہیں دیکھتے تو تم سے خوش ہوتے۔‘‘([79])


 

)21((حکایت) نماز میں خشوع وخضوع:

حضرت سیدنا عامر بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نہایت ہی خشوع سے نماز پڑھتے تھے، جب آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو اکثر آپ کی بیٹی دف بجاتی اور گھر میں آنے والی عورتوں سے باتیں کرتی لیکن آپ نہ اُن کی باتیں سنتے اور نہ ہی سمجھ پاتے۔ ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے پوچھا گیا: ’’کیا آپ نماز میں اپنے نفس سے کوئی بات کرتے ہیں؟‘‘ تو فرمایا: ’’ہاں یہ بات کہ میں   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے سامنے کھڑا ہوں اور میں نے دو گھروں میں سے ایک گھر میں لَوٹنا ہے۔‘‘ عرض کی گئی: ’’کیا ہماری طرح آپ بھی نماز میں اُمورِ دنیا میں سے کچھ پاتے ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’مجھے نماز میں دنیا کے خیالات پیدا ہونے سے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ مجھ پر تیروں سے حملہ کیا جائے۔‘‘([80])

اَعمال میں خشوع پیدا کرنے کے سات (7)طریقے:

(1) خشوع کے فضائل کا مطالعہ کیجئے: چندفضائل یہ ہیں:٭خشوع والوں کی فضیلت قرآن میں بیان کی گئی ہے۔٭خشوع سے نماز ادا کرنے والے کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔٭خشوع سے نماز پڑھنے والے کی نماز کامل ہے۔ ٭خشوع سے نماز ادا کرنے والے کی نماز مقبول ہے۔٭نماز میں خشوع کی خود حضور نبی کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْمنے ترغیب دلائی۔٭خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والا ربّ تعالٰی کے قریب ہوجاتا ہے۔٭خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والے کی نماز کی طرف ربّ تعالٰی نظر رَحمت فرماتا ہے۔٭خشوع کے ساتھ دو رکعت ادا کرنا بغیر خشوع کے پوری


 

رات قیام کرنے سے افضل ہے۔([81])

(2) اَعضاء میں خشوع پیدا کیجئے:کہ یہ دل کے خشوع پر دلالت کرتا ہے، سرکار مدینہ منورہ سردار مکہ مکرمہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک شخص کو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیلتے دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا۔‘‘([82])

(3)خشوع سے متعلق بزرگانِ دِین کے واقعات کا مطالعہ کیجئے: ایسے واقعات پڑھنے سے اَعمال میں خشوع پیدا کرنے کا مدنی ذہن بنے گا، ایسے واقعات جاننے کے لیے حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد۱، صفحہ ۵۲۹ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)سے مطالعہ کیجئے۔

(4)دل میں نر می پیدا کیجیے :‏موت سے غفلت اورزیادہ کھانے سے پیٹ بھرنے کے سبب قساوتِ قلبی (دل میں سختی) پیدا ہوجاتی ہے اوریہی سختی اَعمال میں خشوع کو روکتی ہے، لہٰذا خشوع پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے دل میں نرمی پیدا کرے، دل میں نرمی پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بندہ دل کی سختی کے اَسباب وعلاج کی معلومات حاصل کرے، اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۳۵۲صفحات پر مشتمل کتاب ’’باطنی بیماریوں کی معلومات‘‘ صفحہ۱۸۶ کا مطالعہ بہت مفید ہے ۔

(5)نماز میں جنت وجہنم کا تصور قائم کیجئے:جنت وجہنم کا تصوربھی خشوع پیدا کرنے کا


 

ایک بہترین طریقہ ہے، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت سیدنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم  سے کسی نے ان کی نماز کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: ’’جب نما ز کا وقت آتا ہے تو میں کامل وضوکرتا ہوں، پھر جس جگہ نماز پڑھنے کا اِرادہ ہوتا ہے وہاں آکر بیٹھ جاتا ہوں یہاں تک کہ میرے تمام اَعضاء جمع ہوجاتے ہیں، پھر یہ تصور باندھ کر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں کہ کَعْبَۃُ اللہِ الْمُشَرَّفَہ میرے سامنے، پل صراط پاؤں تلے، جنت میرے دائیں جانب، جہنم بائیں طرف اور ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام میرے پیچھے ہیں اور گمان کرتا ہوں کہ یہ میری آخری نماز ہے۔ پھر امید وخوف کی درمیانی حالت میں ہوتا ہوں، پھر حقیقتاً تکبیر تحریمہ کہتا، ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتا، عاجزی کے ساتھ رکوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں، پھر اخلاص سے کام لیتا ہوں، اس کے بعد میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں۔‘‘([83])

(6)آنکھوں کا قفل مدینہ لگائیے: اپنی آنکھوں کو ہرغیر شرعی منظر دیکھنے سے بچائیے کہ بندہ جو جو مناظر دیکھتا ہے وہ اس کے دل میں نقش ہوجاتے ہیں،دل غفلت کا شکار ہوجاتا ہے، بندہ جب بھی کوئی نیک عمل کرنے لگتا ہے تو وہ مناظر سامنے آجاتے ہیں اور اس عمل میں خشوع پیدا نہیں ہو پاتا ، لہٰذا اعمال میں خشوع پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی آنکھوں کی حفاظت کیجئے۔

(7)قلبی خیالات کو دور کرنے کی کوشش کیجئے:بسا اوقات دل میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں جو خشوع پیدا نہیں ہونے دیتے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ اُن قلبی خیالات کے اَسباب پر غور کرے اور انہیں دُور کرنے کی کوشش کرے کہ جب اَسباب دُور


 

 ہوجائیں گے تو قلبی خیالات بھی دُور ہوجائیں گے۔ نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے مگر جب کھلی رہنے میں خشوع نہ ہوتا ہو تو بند کرنے میں حرج نہیں بلکہ آنکھیں بند کرنا بہتر ہے۔ ([84])  یا تاریک کمرے میں نماز پڑھے یا اپنے سامنے کوئی ایسی چیز نہ رہنے دے جو اس کے حواس کو مشغول کرے یا دیوار کے قریب نماز پڑھے تاکہ نظر زیادہ دُور تک نہ جائے اور راستوں میں نماز پڑھنے سے بچے، اسی طرح نقش ونگار والی جگہوں اور رنگ دار فرش پر بھی نماز نہ پڑھے، امید ہے اس طرح قلبی خیالات سے کافی حد تک حفاظت ہوگی۔([85])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(20)ذِکرُ اللہ

ذِکرُ اللہ کی تعریف :

٭ذِکرکے معنی یاد کرنا،یاد رکھنا،چرچا کرنا،خیرخواہی اورعزت و شرف کے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ذِکر اِن تمام معنوں میں آیا ہوا ہے۔   اللہ عَزَّ وَجَلَّکو یادکرنا، اسے یاد رکھنا، اس کا چرچا کرنا اور اس کا نام لیناذِکرُاللہ کہلاتا ہے۔([86])

ذِکرُاللہ کی مختلف اقسام:

٭ ذِکرُﷲکی تین قسمیںہیں:(۱)ذِکر لسانی کہ بندہ زبان سے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا ذِکر کرے، اس میں تسبیح، تقدیس، ثنا، حمد، مدح، خطبہ، توبہ، اِستغفار، دُعا وغیرہ داخل ہیں۔


 

(۲)ذِکر قلبی کہ بندہ دل سے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا ذکر کرے، اس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی نعمتوں کو یاد کرنا، اس کی عظمت وکبریائی اور اس کے دلائل قدرت میں غور کرنا، علمائے کرم رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام  کا اِستنباط مسائل (قرآن وحدیث سے مسائل اَخذ کرنے) میں غور وفکر کرناداخل ہے ۔ (۳) ذِکر بالجوارح کہ بندہ مختلف اَعضائے جسم سے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا ذکر کرے۔جیسے حج کے لیے سفر کرنا، آنکھ کا خوفِ خدا میں ر ونا، کان کا ربّ تعالٰی کا نام سننا۔نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے: تسبیح وتکبیر ثناء وقراءت تو ذکرلسانی ہے اور خشوع وخضوع اِخلاص ذِکر قلبی اور قیام رکوع وسجود وغیرہ ذِکر بالجوراح ہے۔ ٭ ذِکرُﷲ بالواسطہ بھی ہوتا ہے اور بلاواسطہ بھی۔(۱)تعالٰی کی ذات و صفات کا تذکرہ بلاواسطہ ذِکرُﷲ ہے۔(۲) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوبوں کا محبت سے چرچا کرنا، اس کے دشمنوں کا برائی سے ذِکر کرنا سب بالواسطہ ذِکرُﷲ ہیں۔ سارا قرآنِ پاک ذِکرُﷲہے مگر اس میں کہیں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّکی ذات و صفات مذکور ہیں،کہیں حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اَوصاف و محامد(تعریفیں)، کہیں کفار کے (بطورِ مذمت)تذکرے۔٭ذِکرُﷲبہترین عبادت ہے اسی لیے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس کا تاکیدی حکم ارشاد فرمایا ہے۔ ٭ پھر ذِکر کی مزید دو صورتیں بھی ہیں:(۱)ذِکرخفی کہ بندہ دل میں یا آہستہ آوازسے ذِکرُاللہکرے۔ (۲) ذِکر جلی یا ذِکر بالجہر کہ بندہ بلند آوازسے ذِکرُاللہ کرے۔بعض علماء کے نزدیک ذِکر خفی افضل تو بعض کے نزدیک ذِکر جلی افضل۔([87])


 

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ(۴۱) ((پ۲۲، الاحزاب:۴۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو اللہکو بہت یاد کرو۔‘‘

(حدیث مبارکہ)سب سے زیادہ محبوب عمل:

حضرت سیدنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے عرض کی: ’’  اللہ عَزَّ وَجَلَّکو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’مرتے دم تک تمہاری زبان ذِکرُاللہ سے تررہے۔‘‘([88])

ذِکرُ اللہ کا حکم:

٭اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذِکر میں دِلوں کا اطمینان ہے، ذِکر الٰہی مُنْجِیَات یعنی نجات دلانے والے اَعمال میں سے ہے، ہرمسلمان کو چاہیے کہ ہروقت اپنی زبان کو اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے ذِکر سے تررکھے، ہر جائز کام کی ابتداء اللہ عَزَّ وَجَلَّکے مبارک نام سے کرے۔ ٭ حرام وناجائز کام سے قبل بِسْمِ اللہ شریف ہرگز،ہرگز،ہرگزنہ پڑھی جائے، حرامِ قطعی کام سے پہلے بِسْمِ اللہپڑھنا کفر ہے۔ چُنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’شراب پیتے وَقت، زِنا کرتے وَقت یا جُوا کھیلتے وَقت بِسْمِ اللہ کہناکُفرہے۔‘‘([89])٭یاد رکھئے!زَبان سے ذِکر و درود باعث اجر و ثواب بھی ہے اور بعض صورَتوں میں ممنوع بھی۔ مثلاً مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ


 

بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ۵۳۳پرہے: گاہک کو سودا دکھاتے وَقت تاجِر کا اِس غر ض سے دُرُود شریف پڑھنا یا سُبْحٰنَ اللہکہنا کہ اس چیز کی عمدگی خریدار پر ظاہرکرے ناجائز ہے۔ یونہی کسی بڑے کو دیکھ کر اس نیت سے درود شریف پڑھنا کہ لوگو ں کو اس کے آنے کی خبر ہوجائے تا کہ اس کی تعظیم کو اٹھیں او رجگہ چھوڑ دیں ناجائز ہے۔([90])

)22((حکایت)ایک ’’یااللہ‘‘ میں سو(100) ’’لَبَّیْک‘‘:

ایک شخص رات کو ذِکرُاللہ میں مشغول تھااور اس کی زبان پر اللہ ،اللہ کا ورد جاری تھا۔شیطان نے اُس کو جھڑک کر کہا:’’ اے کمبخت ! کب تک اللہ،اللہ کی رَٹ لگائے جائے گا۔اُدھر سے تو کوئی جواب نہیں مِلتا اور تو ہے کہ مسلسل اُسی کو پکارے جارہا ہے۔‘‘ شیطان کی بات سُن کر اُس شخص کا دل ٹوٹ گیا۔ سرجھکایا تو نیند آگئی۔ عالم خواب میں دیکھا کہ حضرتِ سیدنا خضر عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  تشریف لائے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ ’’اے نیک بخت ! تو نے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا ذِکر کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ اُس نے کہا کہ ’’بارگاہِ الٰہی سے مجھے کوئی جواب نہیں ملتا۔ اس لیے فکر مند ہوں کہ کہیں میرے ذِکرُاللہ کو رَد ہی نہ کر دیا گیا ہو۔‘‘حضرتِ سیدنا خضر عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  نے فرمایا کہ ’’بارگاہِ اِلٰہی  عَزَّ وَجَلَّ سے مجھ کو حکم ہوا کہ تیرے پاس جائوں اور تجھ کو بتائوں کہ تو جو   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا ذکر کرتا ہے، وہی ہمارا جواب ہے۔ تیرے دل میں جو سوز و گداز پیدا ہوتا ہے، وہ ہمارا ہی تو پیدا کیا ہوا ہے۔ اور یہ ہمارا ہی کام ہے کہ تجھ کو ذِکرُاللہ میں مشغول کردیا ہے، تیرے ہر ’’ یااللہ‘‘ کہنے میں ہماری سو’’لَبَّیْک‘‘ پوشیدہ ہیں۔‘‘([91])


 

ذِکرُاللہ کا ذہن بنانےاورکرنے کے تیرہ(13)طریقے:

(1) ذِکرُاللہ کے فضائل وفوائد کا مطالعہ کیجئے:چندفضائل یہ ہیں:٭ذِکرُاللہ کرنے والا خشک جنگل میں سرسبز درخت کی طرح ہے۔٭ذِکرُاللہکرنے والا مجاہد کی طرح ہے۔٭رحمت الٰہی بندے کے ساتھ ہوتی ہے جب تک وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکا ذکر کرتا رہتا ہے اور اس کے ہونٹ ذِکرُاللہسے ہلتے رہتے ہیں۔٭ذِکرُاللہ سے بڑھ کر عذابِ اِلٰہی سے نجات دلانے والا عمل کوئی نہیں۔٭ذِکرُاللہکی کثرت کرنے والے کے لیے باغِ جنت میں آسودگی کی خوشخبری ہے۔٭سب سے افضل عمل ذِکرُاللہ ہے۔ ٭صبح و شام ذِکرُاللہسے اپنی زبان کو تررکھنے والا گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ ٭ذِکرُاللہ کرنے والے کے تمام اُمور کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّسنوار دیتا ہے، اُسے اپنی رحمت عطا فرماتا اور اپنا دوست بنالیتا ہے۔([92])

(2) اجتماعی ذِکرکے فضائل کا مطالعہ کیجئے:چندفضائل یہ ہیں:٭جو لوگ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکا ذِکر کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، فرشتے انہیں گھیر لیتے اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّفرشتوں کے سامنے ان کا چرچا کرتا ہے۔٭جو لوگ محض رضائے الٰہی کے لیے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا ذِکر کرنے بیٹھتے ہیں تو آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ مغفرت یافتہ ہو کر لوٹ جاؤ تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیے گئے ہیں۔٭جن گھروں میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذِکر ہوتا ہے اہل آسمان ان گھروں کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے تم ستاروں کو دیکھتے ہو۔([93])


 

(3) ذِکرُاللہ والے اِجتماعات میں شرکت کیجئے:اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّتبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت ہرجمعرات کو بعد نمازِ مغرب عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی اور دنیا بھر کے مختلف مدنی مراکز ومساجد میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں، اسی طرح گیارہویں، شریف، بارہویں شریف، شب معراج، شب براءت اور رمضان المبارک میں تو تقریباً ہر رات ہی ذِکرُاللہ والے اِجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں، یہ تمام اِجتماعات   اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ذِکر پر مشتمل ہوتے ہیں، خود بھی ان میں شرکت کیجئے اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیے۔

(4)کلمۂ طیبہ کے ذریعے ذِکرُاللہ کیجئے: اَحادیث مبارکہ میں اس کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں، چند فضائل یہ ہیں:٭’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘پڑھنے والے کو قبروحشر میں کوئی وحشت نہ ہوگی۔٭جو شخص کامل وضو کرکے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کہے: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ‘‘تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں جس سے چاہے داخل ہو جائے۔٭جو شخص روزانہ 100بار یہ کلمات پڑھتا ہے: ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ‘‘تو اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے، اس کے نامۂ اعمال میں100نیکیاں لکھی جاتی اور 100گناہ مٹادیے جاتے ہیں، وہ اس دن شام تک شیطان سے محفوظ رہتا ہے اور اس سے بڑھ کر کسی اور کا عمل نہیں ہوتا مگر یہ کہ کوئی شخص اس سے زیادہ کلمات پڑھے۔٭سچے دل سے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘پڑھنے والا


 

اگر زمین بھر گناہ لے کر آئے پھر بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کی مغفرت فرمادے گا۔٭جس نے اخلاص کے ساتھ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘کہا وہ داخل جنت ہوا۔([94])

(5) سُبْحٰنَ اللہ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ اور اَللہُ اَکْبَر وغیرہ اذکار پڑھیے: ان کے بھی احادیث میں بہت فضائل وارد ہوئے ہیں۔چند فضائل یہ ہیں:٭جس نے ہرنماز کے بعد 33بار سُبْحٰنَ اللہ، 33بار اَلْحَمْدُلِلّٰہ، 33بار اَللہُ اَکْبَر  کہا، پھر 100کا عدد پورا کرنے کے لیے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ لَاشَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٍ کہا تو اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے، اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔٭جو ایک دِن میں 100بار سُبْحٰنَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ پڑھتا ہے اس کے گناہ مٹادیے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔٭جب بندہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہتا ہے تو یہ کلمہ زمین وآسمان کے درمیان کو بھردیتا ہے، جب دوسری مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہتا ہے تو ساتویں آسمان سے لے کر تحت الثریٰ کو بھردیتا ہے اور جب تیسری مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہتا ہے تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتا ہے: ’’سوال کر تجھے عطا کیا جائے گا۔‘‘([95])

(6)اللہ تعالٰی کی  حمد اور رسولِ خدا کی نعتیں پڑھیے: یہ بھی ذِکرُاللہ اور باعث خیر وبرکت ہے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت اِمامِ اہلسنت مجدددین وملت پروانہ شمع رسالت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰنکے منظوم کلام کا مجموعہ ’’حدائق بخشش‘‘ اور عاشق اعلیٰ حضرت امیراہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس


 

عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے منظوم کلام کا مجموعہ ’’وسائل بخشش‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(7) بارگاہِ اِلٰہی میں توبہ واِستغفار کیجئے:کہ یہ بھی ذِکرُاللہ کی ایک قسم ہے، قرآن واَحادیث میں اس کی ترغیب دلائی گئی ہے، جو اِستغفار کی کثرت کرتا ہے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّاس کی ہرپریشانی کو دور فرمائے گا، ہرتنگی سے اس کے لیے نجات کی راہ نکالے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گاجہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔یوں توبہ واستغفار کیجئے: ’’اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہُ عَمَدًا اَوْ خَطَأً سِرًّا اَوْ عَلَانِیَّۃً وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ لَا اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم یعنی میں اپنے ربّ اللہ عَزَّ وَجَلَّسے تمام گناہوں کی معافی مانگتا ہوں جو میں نے جان بوجھ کر کیے، یا غلطی سے کیے، چھپ کر کیے، یا علانیہ کیے اور میں اس کی بارگاہ میں ان تمام گناہوں سے بھی توبہ کرتا ہوں جنہیں میں جانتا ہوں اور ان گناہوں سے بھی جنہیں میں نہیں جانتا، اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ! بے شک تو غیبوں کو جاننے والا اور عیبوں کو چھپانے والا اور گناہوں کو بخشنے والا ہے اور نیکی کرنے کی قوت اور گناہوں سے بچنے کی طاقت نہیں مگر   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے جو بہت بلند عظمت والا ہے۔‘‘

(8)بارگاہِ الٰہی میں دعا کیجئے: دعا بھی ذِکرُاللہ کی ایک قسم ہے، دعا عبادت کا مغز ہے، بارگاہِ الٰہی میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، دعا سے یا تو بندے کا گناہ معاف کردیا جاتا ہے یا اسے بھلائی عطا کردی جاتی ہے یا اس کے لیے بھلائی جمع کردی جاتی ہے۔ دعا کے فضائل، آدابِ دعا، دعا کی قبولیت کے اَسباب، دعا کی قبولیت کے اَوقات، دعا کی


 

 قبولیت کے مقامات، دعا کی قبولیت کے اَلفاظ، دعا مانگنے میں ممنوعہ اَلفاظ ودیگر تفصیلی معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۳۲۱صفحات پرمشتمل کتاب ’’فضائل دعا‘‘ اور ۱۱۳۰ صفحات پر مشتمل کتاب ’’اِحیاء العلوم‘‘ جلد اوّل کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(9)جسمانی اَعضاء کے ذریعے ذِکرُاللہ کیجئے:جسمانی اعضاء سے ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام فرض نمازوں، واجبات وسنن ونوافل کی اچھے طریقے سے ادائیگی کیجئے کہ نماز ذِکر بالجوارح یعنی اَعضاء کے ساتھ  اللہ عَزَّ وَجَلَّکا ذِکر کرنے پر مشتمل ہے، زکوۃ ادا کیجئے، فرض روزے رکھیے، اِستطاعت ہونے کی صورت میں حج کی ادائیگی کیجئے، نیکیاں کیجئے، اپنے آپ کو تمام ظاہری وباطنی گناہوں سے بچائیے، یہ تمام اُمور بھی ذِکرُاللہ میں شامل ہیں۔

(10)تلاوتِ قرآن کیجئے: تلاوت قرآن  اللہ عَزَّ وَجَلَّکا بہترین ذِکر ہے، تلاوت کے بے شمار فضائل قرآن واَحادیث میں بیان فرمائے گئے ہیں، چند فضائل یہ ہیں: ٭اس اُمت کی افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔٭تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔٭حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے: جسے تلاوت قرآن نے مجھ سے مانگنے اور سوال کرنے سے مشغول رکھا میں اسے شکر گزاروں کے ثواب سے افضل عطا فرماؤں گا۔٭دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، دلوں کی صفائی تلاوت قرآن اور موت کی یاد سے ہوگی۔ ٭قرآنِ پاک پڑھو بے شک تمہیں اس کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں دی جائیں گی میں یہ نہیں کہتا کہ ’’الٓمّ‘‘ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔٭قرآنِ پاک کی ہر آیت


 

مبارکہ، جنت کا ایک درجہ اور تمہارے گھروں کا چراغ ہے۔([96])

(11)ذِکرصالحین کے ذریعے بالواسطہ ذِکرُاللہ کیجئے:انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامخصوصاامام الانبیاء، نبی الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ، اہل بیت اَطہار، اَزواجِ مطہرات، دیگر صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، حضور داتا گنج بخش ،حضور غوثِ پاک، خواجہ غریب نواز ودیگر تمام بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن  کا ذِکر بھی بالواسطہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّہی کا ذکر ہے، اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ اِن کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: عجائب القرآن مع غرائب القرآن، سیرت مصطفےٰ، فیضانِ صدیق اکبر، فیضانِ فاروقِ اعظم، صحابہ کرام کا عشق رسول، کراماتِ صحابہ، اُمہات المؤمنین۔ وغیرہ وغیرہ

(12)روزانہ کچھ نہ کچھ اَورادووَظائف پڑھنے کی عادت بنائیے:روزانہ کچھ نہ کچھ اوراد پڑھنابھی ذِکرُ اللہ کی ایک صورت ہے اور اس کی بھی بہت ترغیب دلائی گئی ہے، مختلف نمازوں کے اَوراد ووظائف کی تفصیلی معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ اِن کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: قوت القلوب، جلداوّل، اِحیاء العلوم، جلداوّل۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ شیخ طریقت امیراہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے شجرۂ قادریہ رضویہ عطاریہ میں بھی اپنے مریدین وطالبین کے لیے مختلف اَوقات ومختلف نمازوں کے کئی وظائف ذِکر فرمائے ہیں، آپ بھی ان و ظائف کو اپنے معمولات میں شامل کرکے کثیر ثواب کمائیے۔


 

(13)درودِ پاک کی کثرت کیجئے:درودِ پاک بھی نہایت افضل ذِکر ہے، خود   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قرآنِ پاک میں دُرودوسلام کا حکم ارشاد فرمایا ہے، کثیر اَحادیث مبارکہ میں حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے درودِ پاک کے فضائل بیان فرمائے ہیں، درودِ پاک پڑھنے والے کو دنیا وآخرت کی بے شمار بھلائیاں عطا کردی جاتی ہیں، درود شریف پڑھنے والے کو تمام اوراد ووظائف سے کفایت کردی جاتی ہے، کل بروزِ قیامت اسے شفاعت نصیب ہوگی، جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ مزید فضائل کے لیے حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلداول، صفحہ ۹۲۴کا مطالعہ کیجئے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (21)راہِ خُدا میں خرچ کرنا

راہِ خدا میں خرچ کرنے کی تعریف :

اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رِضا اور اَجروثواب کے لیے اپنے گھروالوں، رشتہ داروں، شرعی فقیروں، مسکینوں، یتیموں، مسافروں، غریبوںو دیگر مسلمانوں پر اور ہرجائز ونیک کام یا نیک جگہوں میں حلال وجائز مال خرچ کرنا ’’راہِ خدا میں خرچ کرنا‘‘ کہلاتا ہے۔

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ ((پ۳، البقرہ: ۲۵۴) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو اللہ کی راہ میں ہمارے


 

 دیئے میں سے خرچ کرو ۔‘‘

(حدیث مبارکہ)راہِ خدا میں خرچ کرنے والاقابل رشک ہے:

حضرت سیدنا سالم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’حسد (یعنی رشک) نہیں مگر فقط دو آدمیوں کے معاملے میں: پہلا وہ شخص جسے   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے قرآن عطا فرمایا اور وہ دن رات اس کے ساتھ قائم رہے۔ دوسرا وہ شخص جسے   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مال عطا فرمایا اور وہ دن رات (راہِ خدا میں)خرچ کرتا رہے۔‘‘([97])

راہِ خدا میں خرچ کرنے کا حکم:

راہِ خدا میں اپنا جائز اور حلال مال خرچ کرنا بعض صورتوں میں فرض، بعض میں واجب اور بعض میں مستحب ہے۔

(23)(حکایت)سیدنا صدیق اکبر کاراہ خدا میں مال خرچ کرنا:

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ۷۲۳صفحات پر مشتمل کتاب ’’فیضانِ صدیق اکبر‘‘ صفحہ۲۶۹سے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کے راہِ خدا میں خرچ کرنے کے حوالے سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:غزوۂ تبوک کے موقع پر   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب دانائے غیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اپنا مال راہِ خدا میں جہاد کے لیے صدقہ کرو۔‘‘اس فرمانِ عالیشان کی تکمیل میں صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  نے حسب توفیق اپنا


 

اپنا مال راہِ خدا میں تصدق کیا۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے دس ہزار مجاہدین کا سازو سامان تصدق کیا اور دس ہزار دینار خرچ کیے، اس کے علاوہ نو سو اونٹ اور سو گھوڑے مع سازوسامان فرمانِ حبیب خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر لبیک کہتے ہوئے بارگاہِ رِسالت میں پیش کر دیے۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’میرے پاس بھی مال تھا، میں نے سوچا کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ہردفعہ ان معاملات میں مجھ سے سبقت لے جاتے ہیں، اس بار زیادہ سے زیادہ مال صدقہ کرکے ان سے سبقت لے جاؤں گا۔‘‘ چنانچہ وہ گھر گئے اور گھرکا سارا مال اکٹھا کیا ، اس کے دو حصے کیے، ایک گھروالوں کے لیے چھوڑا اور دوسرا حصہ لے کر بارگاہِ رسالت میں پیش کردیا۔ سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے استفسار فرمایا: ’’اے عمر! گھروالوں کے لیے کیا چھوڑ کے آئے ہو؟‘‘ عرض کیا: ’’یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آدھا مال گھروالوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ اتنے میں عاشق اکبر، یارِ غارِ مصطفےٰ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاپنا مال لے کر بارگاہ رسالت میں اس طرح حاضر ہوئے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک بالکل سادہ سی قبا پہنی ہوئی تھی، جس پر ببول کے کانٹوں کے بٹن لگائے ہوئے تھے۔   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے محبوب دانائے غیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور استفسار فرمایا: ’’اے ابوبکر! گھروالوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ ‘‘بس محبوب کا یہ پوچھنا تھا کہ گویا عاشق صادق کا دل عشق ومحبت کی مہک سے جھوم اٹھا، فورا ہی سمجھ گئے کہ بات کچھ اور ہے، کیونکہ محبوب تو جانتا ہے کہ میرے عاشق صادق نے تو اس


 

 وقت بھی اپنی جان، مال، آل اولاد سب کچھ قربان کردیا تھا جب مکہ مکرمہ میں حمایت کرنے والے نہ ہونے کے برابر تھے بلکہ اکثر لوگ جانی دشمن بن گئے تھے اور محبوب کے کلام کو کیوں نہ سمجھتے کہ یہ تو وہ عاشق تھے جو ہر وقت اس موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ بس محبوب فرمائیں! سب کچھ قدموں میں لا کر قربان کردیں، گویا:

کیا پیش کریں جاناں کیا چیز ہماری ہے

یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے

یہ تو وہ عاشق صادق تھے، جنہوں نے کبھی اپنے مال کو اپنا سمجھا ہی نہیں، بلکہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا اسے محبوب کی عطا سمجھتے اور کیوں نہ سمجھتے کہ:

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب ومحب میں نہیں میرا تیرا

سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ   فوراً سمجھ گئے کہ محبوب کی چاہت کچھ اور ہے، غالباً محبوب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اے میرے عاشق! میں تو تیرے عشق کو جانتا ہوں، آج دنیا کو بتادے کہ عشق کسے کہتے ہیں، بس آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے محبت بھرے لہجے میں یوں عرض کیا: ’’یَارَسُوْلَ اللہ! اَبْقَیْتُ لَھُمُ اللہَ وَرَسُوْلَہُیعنی اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں اپنے گھر کا سارا مال لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں اور گھروالوں کے لیے اللہ اور اُس کا رسول ہی کافی ہے۔‘‘ حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہیہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے: ’’میں کبھی بھی ابوبکر صدیق سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘


 

پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس

صدیق کے لیے ہے خدا اور رسول بس

 راہِ خدا میں خرچ کا ذہن بنانے اور خرچ کرنے کے چودہ(14)طریقے:

(1)راہِ خد امیں خرچ کرنے کے دُنیوی واُخروی فوائد پیش نظر رکھیے:راہِ خدا میں مسلمانوں پر اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ وخیرات کرکے خرچ کرنے والوں کے لیے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰننے اَحادیث مبارکہ سے تقریباً ۲۵فوائد ذکر فرمائے ہیں:(۱)  اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حکم سے بُری موت سے بچیں گے، ستر دروازے بُری موت کے بند ہوں گے۔(۲)عمریں زیادہ ہوں گی۔(۳)اُن کی گنتی (تعداد)بڑھے گی۔(۴)رِزق میں وُسعت مال کی کثرت ہوگی، اِس کی عادت سے کبھی محتاج نہ ہوں گے۔(۵)خیروبرکت پائیں گے۔ (۶)آفتیں بلائیں دُور ہوں گی، بُری قضا ٹلے گی، ستر دروازے برائی کے بند ہوں گے، ستر قسم کی بلا دور ہوگی۔(۷)اُن کے شہر آباد ہوں گے۔(۸)شکستہ حالی دور ہوگی۔(۹)خوفِ اندیشہ زائل اور اطمینانِ خاطر حاصل ہوگا۔(۱۰)مددِالٰہی شامل ہوگی۔(۱۱)رحمت الٰہی اُن کے لیے واجب ہوگی۔ (۱۲)ملائکہ اُن پردرود (دعائے رحمت)بھیجیں گے۔ (۱۳)رِضائے الٰہی کے کام کریں گے۔(۱۴)غضب اِلٰہی اُن پر سے زائل ہوگا۔ (۱۵) اُن کے گناہ بخشے جائیں گے، مغفرت اُن کے لیے واجب ہوگی، اُن کے گناہوں کی آگ بجھ جائے گی۔ (۱۶)خدمت اہل دِین میں صدقہ سے بڑھ کر ثواب پائیں گے۔ (۱۷) غلام آزاد کرنے سے زیادہ اَجرلیں گے۔(۱۸)اُن کے ٹیڑھے کام درست ہوں گے۔ (۱۹) آپس میں محبتیں بڑھیں


 

 گی جو ہر خیروخوبی کی متبع(یعنی ان کے پیچھے پیچھے چلنے والی) ہیں۔ (۲۰)تھوڑے خرچ میں بہت کا پیٹ بھرے گا کہ تنہا کھاتے تو ڈبل خرچ آتا۔ (۲۱)  اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حضور درجے بلند ہوں گے۔ (۲۲) مولیٰ تبارک وتعالٰی ملائکہ سے اُن کے ساتھ مباہات (فخر)فرمائے گا۔ (۲۳)روزِ قیامت دوزخ سے امان میں رہیں گے، آتش دوزخ اُن پر حرام ہوگی۔ (۲۴) آخرت میں اِحسانِ الٰہی سے بہرہ مند ہوں گے کہ نہایتِ مقاصِد وغایتِ مرادَات (مقصدوں ومرادوں کی انتہاو اَنجام)ہے۔(۲۵)خدا نے چاہا تو اُس مبارک گروہ میں شامل ہوں گے جو حضور پرنور سید عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نعل اَقدس کے تَصَدُّق میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا۔([98])

(2) بزرگانِ دِین کے واقعات کا مطالعہ کیجئے:بندہ جب بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کے واقعات کا مطالعہ کرے گا کہ وہ کیسے راہِ خدا میں خرچ کرتے تھے تو اُسے بھی راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جذبہ نصیب ہوگا، اِس کے لیے حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’اِحیاء العلوم‘‘ جلدسوم، ص ۷۴۱(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(3) بخل کی مذمت، اَسباب اور علاج کا مطالعہ کیجئے:راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے کا ایک سبب بخل (کنجوسی)بھی ہے، جب بندہ بخل کی مذمت، اَسباب اور اُن کے علاج کا مطالعہ کرے گا تو بخل سے بچنا آسان ہوجائے گا اور اُسے راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جذبہ نصیب ہوگا۔ اِس کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ اِن کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: اِحیاء العلوم، جلدسوم، باطنی


 

بیماریوں کی معلومات،ص۱۲۸، جہنم میں لے جانے والے اَعمال۔ وغیرہ وغیرہ

(4) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:  والدین پر خرچ کرنے کا حکم خود قرآنِ پاک میں دیا گیا ہے، چنانچہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتاہے: ) یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ- ( (پ۲،  البقرہ: ۲۱۵) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لئے ہے ۔‘‘

(5) اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرتے ہوئے راہِ خدا میں خرچ کیجئے: صلۂ رحمی کا حکم بھی خود ربّ تعالٰی نے قرآنِ پاک میں اِرشاد فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ آیت مبارکہ گزری۔نیز اَحادیث مبارکہ میں بھی اِس کے بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ صدقہ کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرنے سے رِزق میں وُسعت اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جو چاہتا ہے کہ اس کے رِزق میں وُسعت، مال میں برکت ہو وہ اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرے۔‘‘([99]) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’بے شک صدقہ اور صلۂ رحم اِن دونوں سے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّعمر بڑھاتا ہے اور بُری موت کو دفع کرتا ہےاور مکروہ اوراندیشہ کو دور کرتا ہے۔‘‘([100])

(6) اپنے اہل وعیال کی کفالت کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے: اہل خانہ پر خرچ


 

کرنے کے اَحادیث مبارکہ میں بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔٭جو ثواب کی نیت سے اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ ٭بندے کے میزان میں سب سے پہلے اہل وعیال پر خرچ کیے گئے مال کو رکھا جائے گا۔ ٭سب سے افضل دینار وہ ہے جسے بندہ اپنے گھروالوں پر خرچ کرے۔([101])

(7) یتیموں مسکینوں سے حسن سلوک کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے (شہادت کی انگلی اور بیچ والی انگلی کی طرح)اکھٹے ہوں گے۔‘‘([102])ایک اور حدیث پاک میں فرمایا: ’’بیوہ اور مسکین کی اِمداد وخبرگیری کرنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّکی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘([103])

(8) اِیصالِ ثواب کرکےراہِ خدا میں خرچ کیجئے:اِیصالِ ثواب بھی راہِ خدا میں خرچ کرنے کا ایک بہترین مَصْرَف ہے۔ حضرت سیدنا سعد بن عبادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی والدہ کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: ’’سعد کی ماں کا انتقال ہوگیا (میں ایصالِ ثواب کے ليے کچھ صدقہ کرنا چاہتا ہوں) تو کون سا صدقہ افضل ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’پانی۔‘‘ اُنہوں نے ایک کنواں کھدوا دیا اور کہا:’’یہ اُمّ سعد کے ليے ہے۔‘‘([104])(یعنی اس کا ثواب میری ماں کو پہنچے۔)اِیصالِ ثواب کے لیے خرچ کرنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں: ٭ اپنے مرحومین کی اَرواح کے لیے کسی بھی نیک اور جائز کام میں خرچ کرنا ٭ مسجد


 

میں پیسے دے دینا ٭مدرسۃ المدینہ، جامعۃ المدینہ وغیرہ میں پیسے دے دینا ٭ گھر میں فاتحہ خوانی ٭ بارہویں شریف ٭ گیارہویں شریف٭رجب میں کونڈے ٭گھر یا علاقے میں اجتماع ذکرونعت ٭ بزرگانِ دِین کے اَعراس ٭ گھر میں قرآن خوانی ٭غریبوں، یتیموں، مسکینوں ، ناداروں میں کھانا تقسیم کرنا ٭کسی بیوہ ومجبور کی مدد٭مسافروں کی خیرخواہی ٭مدنی قافلے میں سفرکرنا یا کسی کو سفر کروا دینا ٭ دینی کتب ورسائل خرید کر وقف کردینا ٭کسی بیمار کا علاج کروادینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام اِیصالِ ثواب کی مختلف صورتیں ہیں، اِن میں خرچ کرنا راہِ خدا میں ہی خرچ کرنا ہے۔

(9) صدقہ وخیرات کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:مطلق صدقہ وخیرات کرکے راہ خدا میں خرچ کیجئے: کہ اس کے کثیر فضائل وفوائد احادیث مبارکہ میں بیان فرمائے گئے ہیں، تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپیش خدمت ہیں: ٭’’صدقہ دیا کرو بے شک صدقہ تمہارے لیے جہنم سے بچاؤ کا ایک ذریعہ ہے۔‘‘([105])٭’’صدقہ بری موت سے بچاتا ہےاور نیکی عمر بڑھاتی ہے۔‘‘([106]) ٭’’صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے۔‘‘([107])

(10) خفیہ طور پر صدقہ کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:چھپا کر راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب خود قرآنِ پاک میں دلائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:) اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَۚ-وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْؕ-وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْؕ-( (پ۳، البقرہ: ۲۷۱) ترجمۂ کنز الایمان: ’’اگر خیرات


 

 علانیہ دو تو وہ کیا ہی اچھی بات ہے اور اگر چُھپا کر فقیروں کو دو یہ تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اور اس میں تمہارے کچھ گناہ گھٹیں گے۔‘‘فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: ’’بے شک مخفی صدقہ ربّ تعالٰی کے غضب کو بجھاتا ہے۔‘‘([108])

(11) کھانا کھلا کر، پانی پلا کر راہِ خدا میں خرچ کیجئے:فرمان مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:’’جو اپنے (مسلمان )بھائی کو روٹی کھلائے یہاں تک کہ اُس کا پیٹ بھر جائے اور اُسے پانی پلائے یہاں تک کہ اُس کی پیاس بجھ جائے تو اللہ تعالٰی اُسے دوزخ سے ایسی سات خندقوں کے برابر دور کردےگا جن میں سے ہردو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہو'۔‘‘([109])

(12)قرض دے کرراہِ خدا میں خرچ کیجئے: قرض دینا بھی راہِ خدا میں صدقہ کرنے اور خرچ کرنے جیسا ہے بلکہ قرض کا کئی گناہ اجر دیا جاتا ہے۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’شب معراج میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا: صدقہ دس گنا اور قرض اٹھارہ گنا (زیادہ اَجر رکھتا)ہے۔‘‘([110])

(13)تنگدست پر آسانی کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:تنگ دست پر آسانی کرنے سے اجروثواب کی امید ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جو کسی تنگدست پر آسانی کرے تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّدنیا وآخرت میں اُس پر آسانی فرمائے گا۔‘‘([111])


 

(14)مسجد تعمیر کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے: تعمیر مسجد میں خرچ کی بھی بہت فضیلت ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جو اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا کے لیے مسجد بنائے گا تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘([112]) اسی طرح مدرسے یا کسی بھی دینی عمارت وغیرہ کی تعمیر میں خرچ کرنا بھی راہِ خدا میں ہی خرچ کرنا ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (22)اللہ کی رضا پر راضی رہنا

اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی تعریف :‏

خوشی، غمی، راحت، تکلیف، نعمت ملنے ،نہ ملنے، الغرض ہراچھی بری حالت یا تقدیر پر اس طرح راضی رہنا، خوش ہونا یا صبر کرنا کہ اس میں کسی قسم کا کوئی شکوہ یا واویلا وغیرہ نہ ہو ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا پر راضی رہنا‘‘ کہلاتا ہے۔

رضاسے متعلق مختلف صورتیں:

٭دعا مانگنا، گناہوں سے نفرت کرنا، گناہوں سے بچنے کی دعا کرنا، مغفرت طلب کرنا، گناہ کے مرتکب سے ناراض ہونا، اسباب گناہ کو برا جاننا، اس پر راضی نہ ہونا، امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنا، گناہوں والی سرزمین سے بھاگنا اور اس کی مذمت کرنا، دِین پر معاونت کرنے والے اسباب کو اختیار کرنا،یہ تمام امور رضا کے خلاف نہیں۔٭شکوہ کے طور پر مصیبت کا اظہار کرنا، دل سے   اللہ عَزَّ وَجَلَّپر ناراض ہونا، کھانے کی اشیاء کو برا کہنا اور ان میں عیب نکالنا، یہ تمام امور رضا


 

کے خلاف ہیں۔ ٭اس طرح کہنا کہ ’’فقر آزمائش ہے، اہل وعیال غم اور تھکاوٹ کا باعث ہیں، پیشہ اختیار کرنا تکلیف اور مشقت ہے۔‘‘ یہ تمام باتیں رضا میں خلل ڈالتی ہیں بلکہ بندے کو چاہیے کہ وہ تدبیر اور مملکت کو اس کے مدبر اور مالک کے سپرد کردے اور وہ کہے جو امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا تھاکہ: ’’مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ تونگری (مالداری)کی حالت میں صبح کروں یا فقر کی حالت میں کیونکہ میں  نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے میرے لیے کونسی حالت بہتر ہے۔‘‘([113])

آیت مبارکہ:

٭  اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:) رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۱۹)( (پ۷، المائدہ: ۱۱۹)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ ہے بڑی کامیابی ۔‘‘٭  اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚ(۶۰)) (پ۲۷،الرحمن:۶۰)ترجمۂ کنزالایمان: ’’نیکی کا بدلہ کیا ہے مگر نیکی۔‘‘حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’اِحسان کی انتہا یہ ہے کہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّاپنے بندے سے راضی ہو اور یہ وہ ثواب ہے جو بندے کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّسے راضی ہونے کی صورت میں ملتا ہے۔‘‘([114])

(حدیث مبارکہ)رِضائے الٰہی پر راضی رہنے والے مؤمن:

رسولِ اَکرم شفیع معظم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کی ایک


 

جماعت سے استفسار فرمایا: ’’تم لوگ کیا ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی: ’’ہم مؤمن ہیں۔‘‘ اِستفسار فرمایا: ’’تمہارے اِیمان کی کیا نشانی ہے؟‘‘ عرض کی: ’’ہم آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، آسودگی میں شکر الٰہی بجالاتے ہیں اور ربّ تعالٰی کی تقدیر پر راضی رہتے ہیں۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ربّ کعبہ کی قسم! تم مؤمن ہو۔‘‘([115])

اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا حکم:

ہرمسلمان پر لازم ہے کہ ہرحال میں   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا پر راضی رہے، رضائے الٰہی پر راضی رہنا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔

(24)(حکایت)صبرورضا نے گرفتاری سے بچالیا:

حضرت سیدنا ابوعکاشہ مسروق کوفی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  بیان کرتے ہیںکہ ایک شخص جنگل میں رہتا تھا، اس کے پاس ایک کتا، ایک گدھا اور ایک مرغ تھا۔ مرغ تو گھروالوں کو نماز کے لیے جگایاکرتا تھا اور گدھے پر وہ پانی بھرکر لاتا اور خیمے وغیرہ لادا کرتا اور کتا ان کی پہرہ داری کرتا تھا۔ ایک دن لومڑی آئی اور مرغ کو پکڑ کر لے گئی، گھروالوں کو اس بات کا بہت رنج ہوا مگر وہ شخص نیک تھا،اس نے کہا: ’’ہوسکتا ہے اسی میں بہتری ہو۔‘‘پھر ایک دن بھیڑیا آیا اور گدھے کا پیٹ پھاڑ کر اس کو مار دیا، اس پر بھی گھروالے رنجیدہ ہوئے مگر اس شخص نے کہا: ’’ممکن ہے اسی میں بھلائی ہو۔‘‘ پھر ایک دن کتا بھی مرگیا تو اس شخص نے پھر بھی یہی کیا: ’’ممکن ہے اسی میں بہتری ہو۔‘‘ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ ایک صبح انہیں معلوم ہوا کہ اُن کے اَطراف میں آباد تمام لوگوں کو قید کرلیا گیا ہے اور صرف


 

یہ ہی محفوظ رہے ہیں۔ حضرت سیدنا مسروق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’دیگر تمام لوگ کتوں، گدھوں اور مرغوں کی آوازوں کی وجہ سے ہی پکڑے گئے۔ پس تقدیر الٰہی کے مطابق اُن کے حق میں بہتری اِن جانوروں کی ہلاکت میں تھی۔‘‘([116])

اللہ کی رضا پر راضی رہنے کے نو (9)طریقے:

(1)رضائے الٰہی پر راضی رہنے کے فضائل پر غور کیجئے: تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپیش خدمت ہیں:(۱)’’خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس کو اسلام کی ہدایت دی گئی اور اس کا رزق بقدر کفایت ہے اور وہ اس پر راضی ہے۔‘‘ (۲) ’’جو شخص تھوڑے رزق پر اللہ عَزَّ وَجَلَّسے راضی رہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّبھی اس کے تھوڑے عمل پر راضی ہو جاتا ہے۔‘‘ (۳) ’’جب   اللہ عَزَّ وَجَلَّکسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے پس اگر بندہ صبر کرے تو وہ اس کو چن لیتا ہے اور اگر راضی رہے تو اس کو برگزیدہ بنالیتا ہے۔‘‘([117])

(2)رضائے الٰہی پر راضی رہنے سے متعلق اقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے: چند اَقوال یہ ہیں:٭حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں: ’’بروزِ قیامت سب سے پہلے ان لوگوں کو جنت کی طرف بلایاجائے گا جو ہر حال میں   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکا شکر کرتے ہیں۔‘‘٭حضرت سیدنا میمون بن مہران عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’جو تقدیر پر راضی نہیں اس کی حماقت کا کوئی علاج نہیں۔‘‘ ٭حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ


 

اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا: ’’میں کسی انگارے کو زبان سے چاٹوں اور وہ جلادے جو جلادے اور باقی رہنے دے جو باقی رہنے دے، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ جوکام ہوچکا اس کے بارے میں کہوں: کاش نہ ہوتا یا نہ ہونے والے کام کے بارے میں کہوں: کاش ہوجاتا۔‘‘ ٭حضرت سیدنا ابودرداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں: ’’اِیمان کی سربلندی حکم الٰہی پر صبر کرنا اور تقدیر پرراضی رہنا ہے۔‘‘([118])

(3)رضائے الٰہی پر راضی رہنے سے متعلق حکایاتِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے:    اس کے بارے میں حکایات پڑھنے سے بھی رِضائے اِلٰہی پر راضی رہنے کا مدنی ذہن بنے گا۔اس سلسلے میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلدپنجم، صفحہ ۱۷۰ سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(4) ’’کیوں‘‘ اور’’ کیسے‘‘ کو اپنی زندگی سے نکال دیجئے: ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ دونوں اَلفاظ رضا پر راضی رہنے کے خلاف ہیں، ایک مشہور حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:’’میں نے خیر اور شرکو پیدا کیا تو اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کو میں نے خیر کے لیے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر خیر کو جاری کیا اور اس شخص کے لیے خرابی ہے جس کو میں نے شر کے لیے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر شر کوجاری کیا اور اس شخص کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے جو کہے: کیوں اور کیسے؟‘‘([119])

(5) ’’اگر‘‘ اور ’’کاش‘‘ کو بھی اپنی زندگی سے نکال دیجئے:’’اگر‘‘ اور ’’کاش‘‘یہ


 

 دونوں الفاظ بھی رضا پر راضی رہنے میں بہت بڑی رُکاوٹ ہیں۔کئی لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے، کوئی مالی نقصان پہنچتا ہے تو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’اگر میں یوں کرلیتا تو نقصان نہ ہوتا، یا کاش! میں یوں کرلیتا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ عقلمندی اسی میں ہے کہ بندہ ہرکام کو سوچ سمجھ کر کرے، اس کے فوائد اور نقصانات پر پہلے ہی غوروفکر کرلے، پھر اس کے کرنے پر نفع ہو یا نقصان اسے تقدیر الٰہی جانتے ہوئے راضی رہے، اس پر شکوہ شکایت نہ کرے، واویلا نہ مچائےبلکہ ظاہری اسباب کو اختیار کرتے ہوئے آئندہ کے لیے کوشش کرے۔

(6)تکلیف پر ملنے والے ثواب پر غور کیجئے: تکلیف پر ملنے والے ثواب پر غور کرنے سے رِضائے الٰہی پر راضی رہنے میں مدد ملے گی، فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’مسلمان کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے حتی کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہ مٹادیے جاتے ہیں۔‘‘([120])  منقول ہے کہ حضرت سیدنا فتح موصلی کی زوجۂ محترمہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا   کا پاؤں پھسلا اور اُن کا ناخن ٹوٹ گیا تو وہ مسکرانے لگیں، اُن سے عرض کی گئی: ’’کیا آپ کو تکلیف نہیں پہنچی؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’ثواب کی لذت نے میرے دل سے تکلیف کی کڑواہٹ کو زائل کردیا ہے۔‘‘([121])

(7)بڑی مصیبت کو پیش نظر رکھیے: جب بھی کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچے تو اس سے بڑی مصیبت یا تکلیف کو پیش نظر رکھیے، مثلاً ہاتھ پر زخم ہوجائے تو یوں ذہن بنائیے کہ


 

 میرے ہاتھ پر فقط زخم ہوا ہے، اگر پورا ہاتھ ہی کٹ جاتا تو میری کیفیت کیا ہوتی؟ فقط پاؤں میں تکلیف ہے، اگر پوری ٹانگ ہی کٹ جاتی تو میری کیفیت کیا ہوتی؟ دنیوی نقصان پہنچے تو یوں ذہن بنائے کہ فقط دنیا کا نقصان ہوا ہے میرا دین تو سلامت ہے،وغیرہ وغیرہ۔ امید ہے کہ اس سے بھی رضائے الٰہی پر راضی رہنے کا مدنی ذہن بنے گا۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

(8)نیک لوگوں کی صحبت اِختیار کیجئے: صحبت اثررکھتی ہے، بندہ جب ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے جن کی زبان ہر وقت شکوہ شکایت سے تررہتی ہے تو اِس پر بھی اُن کا اثر ہوجاتا ہے اور یہ بھی اُس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے، جبکہ صبر وشکر کرنے اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے والے لوگوں کی صحبت اسے صابروشاکر اور راضی رہنے والا بنادیتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول بھی اچھی صحبت فراہم کرتاہے، اس مدنی ماحول میں صبر وشکر و رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے، آپ بھی اس مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے، اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ صبر وشکر و رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی دولت نصیب ہوگی۔

(9)رضائے الٰہی پر راضی رہنے کے مقامات کی معلومات حاصل کیجئے:جب تک بندے کو رضائے الٰہی پر راضی رہنے کے مقامات کا علم نہیں ہوگا کہ جہاں رضائے الٰہی پر راضی رہنا چاہیے تو اس کے لیے رضاکو اختیار کرنا بہت دشوار ہے۔چند مقامات یہ ہیں: ‏(۱) جب کسی عزیز کا انتقال ہو جائے کہ اس موقع پر لوگ عموماً نہایت بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ بعض جاہل افراد تو مَعَاذَ اللہ کفریہ کلمات تک بک دیتےہیں،جس سے ایمان برباد ہوجاتا ہے۔ (۲) کاروبار میں نقصان ہو جائے۔ (۳) ایکسیڈنٹ ہو جائے۔


 

 (۴) کوئی قدرتی آفت نازل ہو جائے۔ (۵) کسی بھی طرح کی بیماری لگ جائے۔ (۶) اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہو جائے یا کسی کو تکلیف پہنچے۔ (۷) گھر یا دُکان میں چوری یا ڈکیتی ہو جائے۔ (۸) بلا وجہ نوکری سے نکال دیا جائے۔ (۹) دوران سفر جیب کٹ‏جائے۔(۱۰) موبائل فون یا گاڑی وغیرہ چھن جائے۔ (۱۱) کوئی چیز گم ہو جائے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (23)خوفِ خدا

خوفِ خدا کی تعریف :

خوف سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ   تعالٰی کی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔([122])

آیت مبارکہ:

٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ) (پ۲۲، الاحزاب: ۷۰) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو۔‘‘  اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: (وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶)) (پ۲۷، الرحمن: ۴۶)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔‘‘


 

(حدیث مبارکہ)حکمت کی اصل خوفِ خدا ہے:

٭حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’حکمت کی اصل اللہ عَزَّ وَجَلَّکا خوف ہے۔‘‘([123])٭سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے فرمایا: ’’اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد بھی   اللہ عَزَّ وَجَلَّسے بہت ڈرتے رہنا۔‘‘([124])

خوفِ خدا کا حکم:

خوفِ خدا تمام نیکیوں اور دنیا وآخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے، خوفِ خدا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔ پھر خوف کے تین درجات ہیں: (۱) ضعیف: (یعنی کمزور) یہ وہ خوف ہے جو انسان کو کسی نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو، مثلاً جہنم کی سزاؤں کے حالات سن کر محض جھرجھری لے کر رہ جانا اور پھرسے غفلت ومعصیت (گناہ)میں گرفتار ہوجانا۔(۲) معتدل: (یعنی متوسط) یہ وہ خوف ہے جو انسان کو نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتا ہو، مثلاً عذابِ آخرت کی وعیدوں کو سن کر ان سے بچنے کے لیے عملی کوشش کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ ربّ تعالٰی سے اُمید رحمت بھی رکھنا۔ (۳) قوی: (یعنی مضبوط) یہ وہ خوف ہے جو انسان کو ناامیدی، بے ہوشی اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کردے، مثلاً اللہ تعالٰی کے عذاب وغیرہ کا سن کر اپنی مغفرت سے ناامید ہوجانا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اِن سب میں بہتر درجہ


 

 ’’معتدل‘‘ ہے کیونکہ خوف ایک ایسے تازیانے (کوڑے)کی مثل ہے جو کسی جانور کو تیز چلانے کے لیے مارا جاتا ہے، لہٰذا اگر اس تازیانے کی ضرب (چوٹ)اتنی ضعیف (کمزور) ہو کہ جانور کی رفتار میں  ذرہ بھر بھی اضافہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر یہ اِتنی قوی ہو کہ جانور اس کی تاب نہ لاسکے اور اتنا زخمی ہوجائے کہ اس کے لیے چلنا ہی ممکن نہ رہے تو یہ بھی نفع بخش نہیں اور اگر یہ معتدل ہو کہ جانور کی رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوجائے اور وہ زخمی بھی نہ ہو تو یہ ضرب بے حد مفید ہے۔([125])

(25)(حکایت)خوفِ خدا کے سبب انتقال کرنے والاجوان:

حضرت سیدنا منصور بن عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں کوفہ میں رات کے وقت ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک درد بھری آواز میری سماعت سے ٹکرائی ، اس آواز میں اتنا کرب تھا کہ میرے اٹھتے ہوئے قدم رک گئے اور میں ایک گھر سے آنے والی اس آواز کو غور سے سننے لگا ۔ میں نے سنا کہ اللہ تعالٰی کا کوئی بندہ اِن الفاظ میں اپنے ربّ  عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میںمناجات کر رہا تھا:’’اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تو ہی میرا مالک ہے ! تو ہی میرا آقاہے ! تیرے اس مسکین بندے نے تیری مخالفت کی بنا پر سیاہ کاریوں اور بدکاریوں کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ نفس کی خواہشات نے مجھے اندھا کر دیا تھا اور شیطان نے مجھے غلط راہ پر ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے میں گناہوں کی دلدل میں پھنس گیا، اے اللہ! اب تیرے غضب اور عذاب سے کون مجھے بچائے گا؟‘‘ (یہ سن کر)میں نے باہر کھڑے کھڑے یہ آیت کریمہ پڑھی: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا


 

النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶)) (پ۲۸، التحریم: ۶)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سخت کرّے (یعنی طاقتور) فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں ۔ ‘‘جب اس نے یہ آیت سنی تو اس کے غم کی شدت میں اور اضافہ ہوگیا اور وہ شدتِ کرب سے چیخنے لگا اور میں اسے اسی حالت میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا ۔ دوسرے دن صبح کے وقت میں دوبارہ اس گھر کے قریب سے گزرا تو دیکھا کہ ایک میت موجود ہے اور لوگ اس کے کفن ودفن کے انتظام میں مصروف ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ’’یہ مرنے والا کون تھا؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ’’مرنے والا ایک نوجوان تھا جو ساری رات خوفِ خدا کے سبب روتا رہا اور سحری کے وقت انتقال کر گیا۔‘‘([126])

خوفِ خدا پیدا کرنے کے آٹھ (8)طریقے:

(1)ربّ تعالٰی کی بارگاہ میں سچی توبہ کرلیجئے:جس طرح طویل دنیاوی سفر پر تنہا روانہ ہوتے وقت عموماًہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہی سامان ساتھ رکھیں جو مفید ہو نقصان دہ اشیاء ساتھ نہیں رکھتےتاکہ ہمارا سفر قدرے آرام سے گزرے اور ہمیں زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کر نا پڑے، بالکل اسی طرح سفرِ آخرت کو کامیابی سے طے کرنے کی خواہش رکھنے والے کو چاہیے کہ روانگی سے قبل گناہوں کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنے کی کوشش کرے کہ کہیں یہ بوجھ اسے تھکا کر کامیابی کی منزل پر پہنچنے سے محروم نہ کر دے۔ اس بوجھ


 

سے چھٹکارے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں سچی توبہ کرے کیونکہ سچی توبہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتی ہے جیسے کبھی کیے ہی نہ تھے ۔ چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسےاس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘([127])

(2)خوفِ خدا کے لیے بارگاہ ربّ العزت میں دعا کیجئے:یوں دعا کیجئے: اے میرے مالک  عَزَّ وَجَلَّ! تیرا یہ کمزور وناتواں بندہ دنیا وآخرت میں کامیابی کے لئے تیرے خوف کو اپنے دل میں بسانا چاہتاہے۔ اے میرے ربّ  عَزَّ وَجَلَّ! میں گناہوں کی غلاظت سے لتھڑا ہوا بدن لیے تیری پاک بارگاہ میں حاضر ہوں۔اے میرے پرورد گار  عَزَّ وَجَلَّ!مجھے معاف فرمادے اور آئندہ زندگی میں گناہوں سے بچنے کے لئے اس صفت کو اپنانے کے سلسلے میں بھرپور عملی کوشش کرنے کی توفیق عطافرمادے اور اس کوشش کو کامیابی کی منزل پر پہنچادے۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!مجھے اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما ۔آمین

یارب ! میں تیرے خوف سے روتا رہوں ہر دم

دیوانہ شہنشاہِ مدینہ کا بنا دے

(3)خوفِ خدا کے فضائل پیش نظر رکھیے: فطری طور پر انسان ہر اس چیز کی طرف آسانی سے مائل ہوجاتا ہے جس میں اسے کوئی فائدہ نظر آئے۔ اس تقاضے کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ قرآن واحادیث میں بیان کردہ خوفِ خدا کے فضائل پیش نظر رکھیں، چند


 

 فضائل یہ ہیں:٭خوفِ خدا رکھنے والوں کے لیے دو جنتوں کی بشارت دی گئی ہے۔ ٭خوفِ خدا رکھنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی نوید (خوشخبری)سنائی گئی ہے۔٭ خوفِ خدا رکھنے والوں کو جنت کے باغات اور چشمے عطا کیے جائیں گے۔ ٭ خوفِ خدا رکھنے والے آخرت میں امن کی جگہ پائیں گے۔ ٭خوفِ خدا رکھنے والوں کو مددوتائید الٰہی حاصل ہوتی ہے۔٭خوفِ خدا رکھنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے پسندیدہ بندے ہیں۔ ٭خوفِ خدا اَعمال میں قبولیت کا ایک سبب ہے۔٭خوفِ خدا رکھنے والے بارگاہ الٰہی میں مکرم ہیں۔٭خوفِ خدا رکھنے والے دنیا وآخرت میں کامیاب وکامران ہیں۔ ٭ خوفِ خدا جہنم سے چھٹکارے کا سبب ہے۔٭ خوفِ خدا ذریعہ نجات ہے۔([128])

(4) خوفِ خدا کی علامات پر غور کیجئے: جب کسی چیز کی علامات پائی جائیں گیں تو وہ شے بھی خود بخود پائی جائے گی۔ حضرت سیدنا فقیہ ابواللیث سمرقندی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں:  اللہ عَزَّ وَجَلَّکے خوف کی علامت آٹھ چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے: (۱) انسان کی زبان میں، اس طرح کہ ربّ تعالٰی کا خوف اس کی زبان کو جھوٹ، غیبت، فضول گوئی سے روکے گا اور اسے ذکرُاللہ، تلاوتِ قرآن اور علمی گفتگو میں مشغول رکھے گا۔(۲)اس کے شکم میں، اس طرح کہ وہ اپنے پیٹ میں حرام کو داخل نہ کرے گا اور حلال چیز بھی بقدرِ ضرورت کھائے گا۔(۳)اس کی آنکھ میں، اس طرح کہ وہ اسے حرام دیکھنے سے بچائے گا اور دنیا کی طرف رغبت سے نہیں بلکہ حصولِ عبرت کے لیے دیکھے گا۔(۴)اس کے ہاتھ میں، اس طرح کہ وہ کبھی بھی اپنے ہاتھ کو حرام کی جانب نہیں بڑھائے گا بلکہ ہمیشہ اِطاعت


 

 الٰہی میں استعمال کرے گا۔ (۵) اس کے قدموں میں، اس طرح کہ وہ انہیں   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی میں نہیں اٹھائے گا بلکہ اس کے حکم کی اِطاعت کے لیے اٹھائے گا۔(۶)اس کے دل میں، اس طرح کہ وہ اپنے دل سے بغض، کینہ اور مسلمان بھائیوں سے حسد کرنے کو دور کردے اور اس میں خیرخواہی اور مسلمانوں سے نرمی کا سلوک کرنے کا جذبہ بیدار کرے۔ (۷)اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں، اس طرح کہ وہ فقط  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رِضا کے لیے عبادت کرے اور رِیاء ونفاق سے خائف رہے۔(۸) اس کی سماعت میں، اس طرح کہ وہ جائز بات کے علاوہ کچھ نہ سنے۔([129])

(5)جہنم کے عذابات پر غوروتفکر کیجئے:جہنم کے عذابات پر غور کرنے کے لیے پانچ فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپیش خدمت ہیں:٭دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہوگا اسے آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔ ([130])٭دوزخیوں میں بعض وہ لوگ ہوں گے جن کے ٹخنوں تک آگ ہوگی اور بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے زانوؤں تک آگ کے شعلے پہنچیں گے اور بعض وہ ہوں گے جن کی کمرتک ہوگی اور بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے گلے تک آگ کے شعلے ہوں گے۔([131]) ٭ اگر اس زرد پانی کا ایک ڈول جو دوخیوں کے زخموں سے جاری ہوگا، دنیا میں ڈال دیاجائے تو دنیا والے بدبودار ہوجائیں۔([132])٭دوزخ کی آگ ہزار سال تک بھڑکائی


 

 گئی یہاں تک کہ سرخ ہوگئی، پھر ہزار سال تک بھڑکائی گئی یہاں تک کہ سفید ہوگئی، پھر ہزار سال تک بھڑکائی گئی یہاں تک کہ سیاہ ہوگئی، پس اب وہ نہایت سیاہ ہے۔([133]) ٭دوزخ میں بختی اونٹ کے برابر سانپ ہیں، یہ سانپ ایک بارکسی کو کاٹے تو اس کا درد اور زہر چالیس برس تک رہے گا اور دوزخ میں پالان باندھے ہوئے خچروں کی مثل بچھو ہیں تو اُن کے ایک بار کاٹنے کا درد چالیس سال تک رہے گا۔([134])

(6)خوفِ خدا کے بارے میں بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے: چند اَحوال پیش خدمت ہیں:٭حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر گریہ وزاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے اُن کے سینے میں ہونے والی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی۔ ٭ ایک دن حضرت سیدنا داود عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  لوگوں کو نصیحت کرنے اور خوفِ خدا دِلانے کے لیے گھرسے باہر تشریف لائے تو آپ کے بیان میں اس وقت چالیس ہزار لوگ موجود تھے، جن پر آپ کے پُراَثر بیان کی وجہ سے ایسی رقت طاری ہوئی کہ تیس ہزار لوگ خوفِ خدا کی تاب نہ لاسکے اور انتقال کر گئے۔ ٭ حضرت سیدنا یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی کے ڈھیلے بھی آپ کے ساتھ رونے لگتے۔ ٭ حضرت سیدنا شعیب عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  خوفِ خدا سے اتنا روتے تھے کہ مسلسل رونے کی وجہ سے آپ کی اکثر بینائی رخصت ہوگئی۔([135])


 

٭ایک بار حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمایک جنازے میں شریک تھے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمقبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اَقدس (مبارک آنکھوں)سے نکلنے والے آنسوؤں سے مٹی نم ہوگئی، پھر فرمایا: اے بھائیو! اس قبر کے لیے تیاری کرو۔([136])

٭حضرت سیدنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک بار بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: جب سے   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے جہنم کو پیدا فرمایا ہے، میری آنکھیں اس وقت سے کبھی اس خوف کے سبب خشک نہیں ہوئیں کہ مجھ سے کہیں کوئی نافرمانی نہ ہوجائے اور میں جہنم میں نہ ڈال دیا جاؤں۔([137])

(7)خود اِحتسابی کی عادت اپناتے ہوئے فکرمدینہ کیجئے:اپنی ذات کا محاسبہ کرلینے کی عادت اپنا لینے سے بھی خوفِ خدا کے حصول کی منزل پر پہنچنا قدرے آسان ہوجاتا ہے، فکرمدینہ کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ انسان اُخروی اعتبار سے اپنے معمولات زندگی کا محاسبہ کرے، پھر جو کام اس کی آخرت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں، انہیں درست کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور جو اُمور اُخروی اِعتبار سے نفع بخش نظر آئیں، اِن میں بہتری کے لیے اِقدامات کرے، مدنی اِنعامات پر عمل کرے۔

(8)خوفِ خدا رکھنے والوں کی صحبت اِختیار کیجئے: ایسے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا بھی بندے کے دل میں خوفِ خدا بیدار کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ ہر صحبت اپنا


 

اثر رکھتی ہے، مثال کے طور پر اگر آپ کو کبھی کسی میت والے گھر جانے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں کی فضا پر چھائی ہوئی اداسی دیکھ کر کچھ دیر کے لئے آپ بھی غمگین ہوجائیں گے اور اگر کسی شادی پر جانے کا اتفاق ہوا ہو تو خوشیوں بھرا ماحول آپ کو بھی کچھ دیر کے لئے مسرور کر دے گا ۔بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص غفلت کا شکارہو کر گناہوں پر دلیرہوجانے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے گا ،تو غالب گمان ہے کہ وہ بھی بہت جلد انہی کی مانندہوجائے گا اور اگر کوئی شخص ایسے لوگوں کی صحبت اختیارکرے گا جن کے دل خوفِ خدا سے معمور ہوں، اُن کی آنکھیں اللہ تعالٰی کے ڈر سے روئیں تو امید ہے کہ یہی کیفیات اس کے دل میں بھی سرایت کر جائیں گی ۔اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد



...[1] اِحیاء العلوم، ۴/ ۱۱ ملخصا،

...[2] خزائن العرفان، پ ۲۸، التحریم ، تحت الآیۃ: ۸۔

...[3] مسند امام احمد،مسند علی بن ابی طالب،۱/ ۱۷۴، حدیث: ۶۰۵۔

...[4] احیاء العلوم، ج۴، ص۱۷ماخوذا۔

...[5] فتاوی رضویہ،۲۱/ ۱۲۱۔

...[6] حکایتیں اور نصیحتیں، ص ۳۶۳۔

...[7] توبہ کی روایات وحکایات، ص۲۱ماخوذا۔

...[8] مسلم،  کتاب التو بۃ ،باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالی ، ص ۱۴۷۲، حدیث:۲۷۵۴ ۔

...[9] احیاء العلوم،۴/ ۳۸۔

...[10] احیاء العلوم،۴/ ۳۸۔

...[11] مسند امام احمد، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷/ ۱۶۵، حدیث: ۱۹۷۱۷۔

...[12] مسند امام احمد، حدیث معاذ بن جبل،۸/ ۲۴۵، حدیث: ۲۲۱۲۰۔

...[13] مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الزھد، کلام عمر بن الخطاب، ۸/ ۱۵۰، حدیث: ۲۴۔

...[14] فتاویٰ رضویہ قدیم، ۱۰ /۹۷ماخوذا۔

...[15] فتاویٰ رضویہ ،۲۱/ ۱۴۲۔

...[16] کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص۶۲۲، ۲۸کلمات کفر، ص۹۔

...[17] خزائن العرفان، پ۱۶، مریم، تحت الآیۃ: ۹۶۔

...[18] خزائن العرفان، پ۱۰، التوبۃ، تحت الآیۃ:۷۱۔

...[19] خزائن العرفان، پ۱۶، طہ، تحت الآیۃ: ۶۵۔

...[20] شعب الایمان للبیھقی، باب فی ‏مقاربۃ اھل الدین ۔۔۔الخ، ۶/ ۵۰۳، حدیث: ۹۰۶۳۔

...[21] بخاری، کتاب  الادب، باب علامۃ حب اللہ عزوجل،۴/ ۱۴۷،  حدیث: ۶۱۶۸۔

...[22] کشف الخفاء،۱/ ۳۷۱، تحت الحدیث: ۱۳۴۳۔

...[23] مسند  امام احمد، حدیث عمرو بن عبسۃ، ج۷، ص۱۱۳، حدیث: ۱۹۴۵۵ ۔

...[24] آنسووں کا دریا، ص۱۰۵۔

...[25] عیون الحکایات، حصہ اول، ص۵۵۔

...[26] شر ح اعتقاد اھل السنۃ اللکائی ،۱/ ۱۳۳، رقم: ۲۶۲۔

...[27] الشریعۃ للاجری، باب ذم الجدال و الخصومات فی ‏الدین،۱/ ۴۵۸۔

...[28] مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین ۔۔۔الخ، ص۱۰۳۰،  حدیث: ۱۸۵۱۔

...[29] مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء۔۔۔الخ، ص۱۰۲۱، حدیث: ۱۸۳۵۔

...[30] نسائی، کتاب الجھاد، باب مالمن اسلم وھاجر ۔۔۔ الخ، ص۵۰۹، حدیث:۳۱۳۰ ملتقطا۔

...[31] مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب فی الشیخ الجعول والبذئ والفاجرک،حدیث: ۱۳۰۲۷۔

...[32] مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب فی الشیخ الجعول والبذئ والفاجرک،حدیث: ۱۳۰۲۷۔

...[33] مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب فی الشیخ الجعول والبذئ والفاجرک،حدیث: ۱۳۰۲۷۔

...[34] فیضان سنت، پیٹ کا قفل مدینہ، ص۶۷۸۔

...[35] ترمذی، کتاب الزھد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴/ ۱۸۴، حدیث: ۲۴۱۹۔

...[36] آنسوؤں کا دریا، ص۲۳۹۔

...[37] البر والصلۃ لابن جوزی،الباب الخمسون فی کفایۃ الیتیم، ص۲۳۳، حدیث: ۴۰۳۔

...[38] احیاء العلوم، ج۵، ص۴۸۰۔

...[39] مسند امام احمد، مسند انس بن مالک،۴/ ۴۷۳، حدیث: ۱۳۴۸۷۔

...[40] مرآۃ المناجیح،۷/ ۲۔

...[41] الطبقات الصوفیۃ،الطبقۃ الاولی، ص۹۴۔

...[42] حکایتیں اور نصیحتیں، ص۳۵۳۔

...[43] خزائن العرفان، پ۲۹،المزمل، تحت الآیۃ: ۸۔

...[44] خزائن العرفان، پ۱۶،مریم، تحت الآیۃ: ۱۶ ماخوذا۔

...[45] ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی حفظ اللسان،۴ / ۱۸۲،حدیث:۲۴۱۴۔

...[46] مرآۃ المناجیح،۶/ ۴۶۴۔

...[47] مرآۃ المناجیح، ج۵، ص۱۳۷۔

...[48] مرآۃ المناجیح،۶/ ۶۴۷۔

...[49] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص۳۷۳۔

...[50] عیون الحکایات، حصہ اوّل، ص۱۰۵۔

...[51] الرسالۃ القشیریۃ،باب الخلوۃ والعزلۃ، ص۱۳۹، ۱۴۰۔

...[52] احیاء العلوم،۸/ ۲۰۰۔

...[53] الرسالۃ القشیریۃ، باب الخلوۃ والعزلۃ، ص۱۳۹۔

...[54] الرسالۃ القشیریۃ، باب الخلوۃ والعزلۃ، ص۱۳۹۔

...[55] الرسالۃ القشیریۃ، باب الخلوۃ والعزلۃ، ص۱۳۹۔

...[56] احیاء العلوم، ۲/ ۸۴۷۔

...[57] الرسالۃ القشیریۃ، باب الخلوۃ والعزلۃ، ص۱۴۰۔

...[58] احیاء العلوم، ۲/ ۸۱۷ ماخوذا۔

...[59] احیاء العلوم، ۴/ ۷۴۵ ،۷۸۰ ملخصا۔

...[60] ترمذی، ابواب الزھد، باب فی التوکل علی اﷲ، ۴/ ۱۵۴،حدیث:۲۳۵۱۔

...[61] فضائل دعا، ص۲۸۷۔

...[62] فتاویٰ رضویہ‏،۲۴/۳۷۹۔

...[63] احیاء العلوم، ۴/ ۷۹۴، ۷۹۵، لباب الاحیاء، ص۳۴۶، ۳۴۷ملخصا۔

...[64] کراماتِ صحابہ،‏ص۲۲۰۔

...[65] سیدی قطب مدینہ، ص۱۲۔

...[66] الرسالۃ القشیریۃ، باب التوکل، ص۲۰۰۔

...[67] منہاج العابدین، ص ۲۸۹۔

...[68] ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی، ۵/ ۳۲۴، حدیث: ۳۵۶۳۔

...[69] احیاء العلوم، ۴/ ۸۳۸ ملخصا۔

...[70] خزائن العرفان، پ۱۴، النحل، تحت الآیۃ:۹۹۔

...[71] منہاج العابدین، ص۱۰۶۔

...[72] منہاج العابدین، ص۱۰۴۔

...[73] منہاج العابدین ص۱۱۳۔

...[74] الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الثالث و الاربعون،۲/ ۱۱۷ماخوذا۔

...[75] خزائن العرفان، پ۱۸، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۔

...[76] مسلم،کتاب الذکر و الدعا ۔۔۔ الخ، باب تعوذ من شرما عمل۔۔۔ الخ، ص۱۴۵۸،حدیث:۲۸۲۲۔

...[77] احیاء العلوم،۱/ ۵۰۱۔

...[78] احیاء العلوم،۱/ ۵۲۹۔

...[79] احیاء العلوم، ۱/ ۵۲۹۔

...[80] احیاء العلوم،۱/ ۵۳۰۔

...[81] احیاء العلوم،۱/ ۴۶۷، ۴۷۳ماخوذا۔

...[82] نوادر الاصول، الاصل السابع والاربعون والمائتان، ص۱۰۰۷، حدیث: ۱۳۱۰۔

...[83] احیاء العلوم،۱/ ۴۷۲۔

...[84] بہارشریعت،۱/ ۶۳۴،حصہ سوم۔

...[85] احیاء العلوم، ۱/ ۵۰۷ملخصا۔

...[86] مرآۃ المناجیح، ۳/۳۰۴ملخصا۔

...[87] خزائن العرفان، پ۲، البقرہ، تحت الآیۃ: ۱۵۲، مرآۃ المناجیح، ۳/  ۳۰۴ماخوذا۔

...[88] شعب الایمان للبیھقی، باب فی محبۃ اللہ، فصل فی ادامۃ ذکر اللہ،۱/  ۳۹۳،  حدیث: ۵۱۶۔

...[89] فتاوی ھندیۃ،۲/ ۲۷۳۔

...[90] رد المحتار،کتاب الصلاۃ، ۲/ ۲۸۱۔

...[91] مثنوی مولانا رُوم،دفتر سوم،ص:۳۲۔

...[92] احیاء العلوم،۱/ ۸۸۸ ماخوذا۔

...[93] احیاء العلوم، ۱/ ۸۹۱ماخوذا۔

...[94] احیاء العلوم، ۱/ ۸۹۳، ۸۹۴ملخصا۔

...[95] احیاء العلوم، ۱/ ۸۹۶ملخصا۔

...[96] احیاء العلوم،۱/ ۸۲۳تا۸۲۵ ماخوذا۔

...[97] مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن۔۔۔الخ، ص۴۰۷، حدیث: ۸۱۵۔

...[98] فتاوی رضویہ، ۲۳/ ۱۵۳بتصرف قلیل۔

...[99] بخاری، کتاب الادب، باب من یبسط لہ فی الرزق۔۔۔الخ، ۴/ ۹۷، حدیث: ۵۹۸۵۔

...[100] مسند ابی یعلی، مسند انس بن مالک، ۳/ ۳۹۷، حدیث: ۴۰۹۰۔

...[101] فیضان ریاض الصالحین،۱/ ۸۶۔

...[102] بخاری، کتاب الادب، باب فضل من یعول یتیما،۴/ ۱۰۱، حدیث: ۶۰۰۵۔

...[103] بخاری، کتاب الادب، باب الساعی علی المسکین، ۴/ ۱۰۲، حدیث: ۶۰۰۷۔

...[104] ابوداود، کتاب الزکاۃ، باب فی فضل سقی الماء،۲/ ۱۸۰، حدیث: ۱۶۸۱۔

...[105] شعب الایمان، باب فی الزکاۃ، فصل فی التحریص علی صدقۃ التطوع،۳/ ۲۱۴، حدیث: ۳۳۵۵۔

...[106] مسند امام احمد، حدیث رافع بن مکیث، ۵/ ۴۴۱، حدیث: ۱۶۰۷۹۔

...[107] معجم کبیر ،۴/ ۲۷۴، حدیث: ۴۴۰۲۔

...[108] معجم کبیر، ۱۹/ ۴۲۱، حدیث: ۱۰۱۸۔

...[109] مستدرک حاکم، کتاب الاطعمۃ، باب فضیلۃ اطعام الطعام، ۵/ ۱۷۸، حدیث: ۷۶۵۴۔

...[110] ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب القرض، ۳/ ۱۵۴، حدیث: ۲۴۳۱۔

...[111] ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب انظار المعسر،۳/ ۱۴۶، حدیث: ۲۴۱۷۔

...[112] بخاری، کتاب الصلاۃ،  باب من بنی مسجدا،۱/ ۱۷۱، حدیث: ۴۵۰۔

...[113] احیاء العلوم، ۵/ ۱۸۱ تا ۱۹۰ماخوذا۔

...[114] احیاء العلوم،۵/ ۱۵۷۔

...[115] معجم اوسط،۶/ ۴۶۷، حدیث: ۹۴۲۷ بتغیر قلیل، احیاء العلوم،۵/ ۱۵۸۔

...[116] احیاء العلوم،۵/ ۱۷۳۔

...[117] احیاء العلوم،۵/ ۱۵۹۔

...[118] احیاء العلوم،۵/ ۱۶۴، ۱۶۵بتصرف قلیل۔

...[119] ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب من کان مفتاحا للخیر،۱/ ۱۵۵، حدیث: ۲۳۷، ۲۳۸، معجم کبیر،۱۲/ ۱۳۴، حدیث: ۱۲۷۹۷، احیاء علوم الدین، کتاب المحبۃ والشوق۔۔۔الخ، بیان فضیلۃ الرضا، ۵/ ۶۵۔

...[120] مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما۔۔۔الخ، ص۱۳۹۱، حدیث: ۲۵۷۲۔

...[121] احیاء العلوم،۵/ ۱۶۷۔

...[122] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، باب بیان حقیقۃ الخوف، ۴/ ۱۹۰ ماخوذا،خوف خدا، ص۱۴۔

...[123] شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالی،۱/ ۴۷۰، حدیث: ۷۴۳۔

...[124] احیاء العلوم،۴/ ۴۷۲۔

...[125] احیاء العلوم،۴/ ۴۷۲۔

...[126] شعب الایمان،باب فی الخوف من اللہ تعالٰی، ۱/ ۵۳۰،حدیث: ۹۳۷بتصرف۔

...[127] ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ، ۲/ ۴۹۱، حدیث: ۴۲۵۰۔

...[128] خوف خدا، ص۲۶ملخصا۔

...[129] درۃ الناصحین، المجلس الثلاثون، ص۱۰۹، خوف خدا، ص۱۹۔

...[130] بخاری،کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، ۲/ ۲۶۲، حدیث: ۶۵۶۱۔

...[131] مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا، باب فی شدۃ حر نار جھنم۔۔۔الخ، ص۱۵۲۴، حدیث: ۲۸۴۵۔

...[132] ترمذی، کتاب صفۃ الجھنم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اھل النار، ۴/ ۲۶۳، ص۲۶۳، حدیث: ۲۵۹۴۔

...[133] ترمذی، کتاب صفۃ الجھنم، ۴/ ۲۶۶، حدیث: ۲۶۰۰۔

...[134] مشکوۃ، کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق، باب صفۃ النار،۳/ ۲۴۳،  حدیث: ۵۶۹۱۔

...[135] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، باب بیان احوال الانبیاء۔۔۔الخ، ۴/ ۲۲۴ تا۲۲۶ ملتقطا۔

...[136] ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الحزن والبکاء، ۴/ ۴۶۶، حدیث: ۴۱۹۵۔

...[137] شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالی، ۱/ ۵۲۱، حدیث: ۹۱۵،  خوف خدا، ص۱۴۲ تا ۱۴۶ ملخصا۔