(24)زُھد(دنیا سے بے رغبتی)

زُہد کی تعریف :

دنیا کو ترک کرکے آخرت کی طرف مائل ہونے یا غیرُاللہ کو چھوڑ کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف متوجہ ہونے کا نام زُہدہے۔([1])اور ایسا کرنے والے کو زاہد کہتے ہیں۔زُہد کی مکمل اور جامع تعریف حضرت سیدنا ابوسلیمان دارانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی کا قول ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’زُہد یہ ہے کہ بندہ ہر اس چیز کو ترک کردے جو اسے   اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دور کرے۔‘‘([2])

حقیقی زاہد کی تعریف:

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الوَالی فرماتے ہیں: ’’حقیقی زاہد تو وہ


 

ہے جس کی پاس دنیا ذلت کے ساتھ حاضر ہو،اس کے حصول کے لئے مشقت بھی نہ اٹھانی پڑےاور وہ کسی بھی قسم کا نقصان اٹھائے بغیر دنیا کو استعمال کرنے پر قادر ہو۔ مثلاً عزت میں کمی ، بدنامی یا کسی خواہِشِ نفس کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو لیکن وہ اس خوف سے دنیا کو ترک کردے کہ اسے اختیار کرکے میں اس سے مانوس ہوجاؤں گا اور یوں   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے علاوہ کسی اور سے مانوس ہونے اور محبت کرنے والوں نیز اس کی محبت میں غیر کو شریک کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں گا۔آخرت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے ملنے والے ثواب کو حاصل کرنے کی نیت سے دنیا کو ترک کرنے والا شخص بھی حقیقی زاہد ہے۔ جو شخص جنتی مشروبات کو پانے کے لئے دنیوی مشروبات سے نفع اٹھانے کو ترک کردے،حورانِ جنت کے اشتیاق میں دنیوی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو،جنتی باغات اوران کے درختوں پر نظر رکھتے ہوئے دنیا کے باغات سے نفع نہ اٹھائے،جنت میں زیب وزینت کے حُصُول کے لئے دنیا میں آرائش وزیبائش سے منہ موڑلے،جنتی میوہ جات کو پانے کیلئے دنیا کی لذیذ غذاؤں کو ترک کردےاس خوف سےکہ کہیں روزِ قیامت یہ نہ کہہ دیا جائے: (اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَاۚ- )(پ۲۶،الاحقاف:۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: ’’تم اپنے حصہ کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے اور انہیں برت چکے۔‘‘۔ الغرض جو شخص اس بات پر نظر رکھتے ہوئے کہ آخرت دنیا سے بہتر اور باقی رہنے والی ہے اور اس کے علاوہ دیگر ہر چیز دنیا ہے جس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہے،جنتی نعمتوں کو ان تمام چیزوں پر ترجیح دے جو اسے دنیا میں بغیر کسی مَشَقَّت کے بآسانی دستیاب ہیں حقیقت میں ایسا شخص زاہد کہلانے کا حق دار ہے۔([3])


 

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقارون کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے: (فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖؕ-قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُۙ-اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(۷۹)وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًاۚ-وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ(۸۰))(پ۲۰، القصص: ۷۹، ۸۰) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تو اپنی قوم پر نکلا اپنی آرائش میں، بولے وہ جو دنیا کی زندگی چاہتے ہیں کسی طرح ہم کو بھی ایسا ملتا جیسا قارون کو ملا بیشک اس کا بڑا نصیب ہے ، اور بولے وہ جنہیں علم دیا گیا خرابی ہو تمہاری اللہکا ثواب بہتر ہے اس کے لئے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے اور یہ انہیں کو ملتا ہے جو صبر والے ہیں۔‘‘حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’اِس آیت مقدسہ میں زُہد کو علماء کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور زاہدین کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ علم کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور یہ بات زُہد کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘([4])

(حدیث مبارکہ)زُہد اختیار کرنے والے کی فضیلت:

ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ ہم نے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: ’’یارسولَ اللہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’ہر وہ مؤمن جو دل کا صاف اور زبان کا سچا ہو۔‘‘ عرض کی گئی: ’’صاف دل والے سے کیا مراد ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’وہ متقی اور مخلص شخص جس کے دل میں خیانت، دھوکا،


 

 بغاوت اور حسد نہ ہو۔‘‘ پھر عرض کی گئی: ’’ایسے شخص کے بعد کون افضل ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص جو دنیا سے نفرت اور آخرت سے محبت کرنے والا ہو۔‘‘([5])

زُہد کا حکم:

زُہد نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم بن اَدہم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم  فرماتے ہیں: ’’اَحکام کے اعتبار سے زُہد کی تین اَقسام ہیں: (۱)فرض کہ بندہ اپنے آپ کو حرام چیزوں سے بچائے۔ (۲)نفل کہ بندہ اپنے آپ کو حلال چیزوں سے بھی بچائے۔(۳)احتیاط کہ بندہ شبہات سے اپنے آپ کو بچائے۔([6]) پھر زُہدکے تین درجات ہیں:(۱)جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّکے سوا ہر چیز حتی کہ جنت الفردوس سے بھی بے رغبتی اختیار کرے، صرف   اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کرے وہ زاہد مطلق ہے جو کہ زُہد کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔(۲) جو شخص تمام دُنیوی لذات سے بے رغبت ہو لیکن اُخروی نعمتوں مثلاً جنتی حوروں، محلات وباغات، نہروں اور پھلوں وغیرہ کی لالچ کرے وہ بھی زاہد ہے لیکن اس کا مرتبہ زاہد مطلق سے کم ہے۔(۳) جو شخص دُنیوی لذات میں سے بعض کو ترک کرے اور بعض کو نہیں مثلاً مال ودولت کو ترک کرے، مرتبے اور شہرت کو نہیں یا کھانے پینے میں وسعت کو ترک کردے زینت وآرائش کو نہیں، اس کو مطلقاً زاہد نہیں کہا جاسکتا۔ زاہدین میں ایسے شخص کا وہی مرتبہ ہے جیسے توبہ کرنے والوں میں اس شخص کا جو بعض گناہوں سے توبہ کرے اور بعض سے نہ کرے، جس طرح ایسے تائب کی توبہ صحیح ہے کیونکہ


 

 ممنوعہ چیزوں کو ترک کرنے کا نام توبہ ہے یوں ہی ایسے زاہد کا زُہد بھی صحیح ہے کیونکہ مباح لذتوں کا ترک کرنا زُہد کہلاتا ہے اور جس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص بعض ممنوعات کو ترک کرپاتا ہو اور بعض کو نہیں، اسی طرح جائز چیزوں میں بھی یہ ہوسکتا ہے۔‘‘([7])

(26)(حکایت)رسول خدا کا اختیار ی زُہد:

امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تودیکھا کہ دوجہاں کے سلطان رحمت عالمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کھجور کی چھال سے بُنی ہوئی چارپائی پر آرام فرماتھے، جس کے سبب مبارک پہلوؤ ں پرنشانات پڑگئےتھے۔یہ منظر دیکھ کرآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اشک بار ہو گئے۔ حضور نبی کریم، رءوف رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے استفسار فرمایا:’’اے عمر! کیوں روتے ہو؟‘‘عرض کی:’’مجھے اس بات نے رُلادیا کہ قیصر وکسریٰ جیسے بادشاہ تو دنیوی آسائشوں میں زندگی گزار رہے ہیں اورآپ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے محبوب وچنے ہوئے بندے اوررسول ہونے کے باوجود کھجور کی چھال سے بنی ہوئی ایک چارپائی پر آرام فرما ہیں۔ ‘‘آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’اے عمر!کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا اور ہمارے لئے آخرت ہو؟عرض کی: ’’یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں اس بات پر راضی ہوں۔‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تو پھر ایسا ہی ہے۔‘‘([8])‏(یعنی ان کے لئے دنیا اور ہمارے لئے آخرت ہے)


 

زُہد کا ذہن بنانے اور اختیار کرنے کے نو(9)طریقے:

(1) زُہد کے فضائل وفوائد پر غور کیجئے:چندفضائل وفوائد یہ ہیں:٭  اللہ عَزَّ وَجَلَّزُہد اختیار کرنے والے کے ارادوں کو مضبوط فرمادیتا ہے۔٭زاہد کے مال واسباب کی حفاظت فرماتا ہے۔٭زاہد کے دل میں دنیا سے بے نیازی پیدا فرمادیتا ہے۔ ٭زاہد کے پاس دنیا ذلیل ہوکر آتی ہے۔٭زاہد کو حکمت عطا کردی جاتی ہے۔ ٭زاہد سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ محبت فرماتا ہے۔جس دل میں ایمان اور حیا موجود ہوں اس میں زُہدا ورتقویٰ قیام کرتے ہیں۔٭زاہد کے دل کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّایمان سے منور فرمادیتا ہے۔٭زاہد کی زبان پر بھی حکمت جاری ہوجاتی ہے۔٭زاہد کو اللہ عَزَّ وَجَلَّدنیا کی بیماری اور اس کے علاج کی پہچان عطا فرمادیتا ہے۔٭زاہد کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّدنیا سے صحیح سلامت نکال کر سلامتی کے گھر یعنی جنت کی طرف لے جاتا ہے۔٭زُہد اختیار کرنا انبیائے کرام عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اور امام الانبیاء احمد ٘مجتبےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سنت ہے۔٭زاہد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا محبوب ہے۔٭زاہد کو بغیر سیکھے علم اور بغیر کوشش کے ہدایت نصیب ہوجاتی ہے۔ ٭ زاہد پر دنیا کی مصیبتیں آسان ہوجاتی ہیں۔([9])

(2)زُہدسے متعلق اَقوال بزرگانِ دِین پر غور کیجئے:چند اَقوال یہ ہیں:٭ حضرت سیدنا بشر حافی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْکَافِی  فرماتے ہیں: ’’دنیا سے زُہد اس چیز کا نام ہے کہ لوگوں سے بے رغبتی اختیار کی جائے۔‘‘٭حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ’’زُہد تو درحقیقت قناعت ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی


 

 فرماتے ہیں: ’’لمبی امید نہ لگانا زُہد ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں: ’’زاہد وہ شخص ہے جو کسی کو دیکھے تو کہے کہ یہ مجھ سے افضل ہے۔‘‘٭ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’رزقِ حلال کی تلاش زُہد ہے۔‘‘ ٭حضرت سیدنا یوسف بن اسباط رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’جو شخص تکلیفوں پر صبر کرے، شہوات کو ترک کردے اورحلال غذا کھائے تو بے شک اس نے حقیقی زُہد کو اختیار کرلیا۔‘‘([10])

(3) زُہد سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے:اس سلسلے میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد چہارم، صفحہ ۶۹۱ سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(4)فضیلتِ زُہد پر اَقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے:چنداقوال یہ ہیں:٭ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں: ’’دنیا سے بے رغبتی بدن اور دل کی راحت کا سبب ہے۔‘‘٭ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں: ’’ہم نے تمام اعمال کو کرکے دیکھا لیکن آخرت کے معاملے میں دنیا سے بے رغبتی سے زیادہ کسی عمل کو مؤثر نہ پایا۔‘‘٭حضرت سیدنا وہب بن منبہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں، جب اہل جنت ان میں سے داخل ہونا چاہیں گے تو دروازوں پر مقرر فرشتے کہیں گے: ہمارے رب  عَزَّ وَجَلَّکی عزت کی قسم! جنت کے عاشقوں اور دنیا سے بے رغبت رہنے والوں سے پہلے کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ ٭ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص کو زُہد کی دولت


 

حاصل ہواس کا دو رکعت نماز ادا کرنا اللہ عَزَّ وَجَلَّکو (غیرزاہد) عبادت گزاروں کی ہمیشہ کی عبادت سے زیادہ پسند ہے۔‘‘([11])

(5) سچے زاہد کی صفات اپنانے کی کوشش کیجئے:حضرت سیدنا یحییٰ بن معاذ رازی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں کہ سچے زاہد کی غذا وہ ہے جو مل جائے، لباس وہ جو سترپوشی کردے اور مکان وہ جہاں اسے رات ہو جائے۔ دنیا اس کے لیے قیدخانہ، قبر اس کا بچھونا، تنہائی اس کی مجلس، حصول عبرت اس کی فکر، قرآن اس کی گفتگو،   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کا انیس، ذکر اس کا رفیق، زہد اس کا ساتھی، غم اس کا حال، حیا اس کی نشانی، بھوک اس کا سالن، حکمت اس کا کلام، مٹی اس کا فرش، تقویٰ اس کا زادِ راہ، خاموشی اس کا مال، صبر اس کا تکیہ، توکل اس کا نسب، عقل اس کی دلیل، عبادت اس کا پیشہ اور جنت اس کی منزل ہوگی۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ([12])

(6) زُہد کی علامات پیداکرنے کی کوشش کیجئے: جب علامات پیدا ہوجائیں گی تو زُہد بھی خود بخود پیدا ہوجائے گا۔ زُہد کی تین علامتیں ہیں: ٭پہلی علامت:جو چیز موجود ہے اس پر خوش نہ ہو اور جو موجود نہیں اس پر غمگین نہ ہو۔٭دوسری علامت:  زاہد کے نزدیک مذمت اور تعریف کرنے والا برابر ہو۔٭تیسری علامت: زاہد کو صرف   اللہ عَزَّ وَجَلَّسے محبت ہو، اس کے دل پراللہ عَزَّ وَجَلَّکی عبادت واطاعت کی حَلاوَت ومِٹھاس غالِب ہو کیونکہ کوئی بھی دل محبت کی حَلاوَت سے خالی نہیں ہوتا تو اس میں محبتِ دنیا کی حَلاوَت ہوتی ہے یا پھر محبت اِلٰہی کی حَلاوَت۔   علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام  نے زُہد کی کئی اور علامات بھی


 

 بیان فرمائی ہیں، تفصیل کے لیے احیاء العلوم، جدچہارم، صفحہ ۷۲۹ کا مطالعہ کیجئے۔

(7) دنیا کوآخرت پرترجیح دینے کے نقصانات پر غور کیجئے:کہ جب بندے پر کسی چیز کا نقصان ظاہر ہوجاتا ہے تو عموماً اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، جب بندہ دنیا کو آخرت پرترجیح نہیں دے گا تو یقیناً آخرت کو دنیا پر ترجیح دے گا اور یہی زُہد ہے۔ حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ دو جہاں کے تاجور سلطانِ بحروبر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی   اللہ عَزَّ وَجَلَّاسے تین باتوں میں مبتلا فرمادے گا: (۱) ایسا غم جو کبھی اس کے دل سے جدا نہ ہوگا۔ (۲)ایسا فقر جس سے کبھی نجات نہ ملے گی اور (۳) ایسی لالچ جو کبھی ختم نہ ہوگی۔‘‘([13])

(8)آخرت کے لیے دنیا کو ترک کردینے کی اس مثال میں غوروتفکر کیجئے: اس سے بھی زُہد اختیار کرنے میں معاونت نصیب ہوگی۔حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں:’’آخرت کےلئے دنیا کو ترک کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ کے دروازے پر موجود کتا اندر جانے سے روک ‏دے،یہ شخص اس کتے کےآگے روٹی کا ایک لقمہ ڈال دے اورجب وہ اسے کھانے میں مشغو ل ہو تو یہ اندر داخل ہوجائے،پھر اسے بادشاہ کا قُرب نصیب ہوجائے یہاں تک کہ پوری سلطنت میں اس کا حکم جاری ہوجائے۔کیاتمہارے خیال میں وہ شخص بادشاہ پر اپنا احسان سمجھے گا کہ اس کا قرب پانے کے عوض میں نے اس کے کتےکے آگے روٹی کا لقمہ ڈالا تھا۔شیطان بھی ایک کتے کی طرح ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے دروازے پر موجود ہے اور لوگوں کو اندر داخل


 

 ہونے سے روکتا ہے اگرچہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے،پردے اٹھادئیے گئے ہیں اور ہر کسی کو داخلے کی اجازت ہے۔دنیا اپنی تمام تر نعمتوں سمیت روٹی کے ایک لقمے کی مانند ہے،اگر تم اسے کھالوتو اس کی لذت صرف چبانے کے وقت تک محدود ہے، حلق سے نیچے اترتے ہی اس کی لذت ختم ہوجاتی ہے، معدے میں اس کا بوجھ باقی رہتا ہے اور آخر کار یہ گندگی اور نجاست کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور انسان اسے اپنے جسم سے باہر نکالنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔جو شخص ایسی حقیر چیز کو بادشاہ کا قرب پانے کے لئے ترک کردے بھلا وہ دوبارہ اس کی طرف کیسے متوجہ ہوسکتا ہے؟کوئی شخص اگرچہ سو (100) سال تک زندہ رہے لیکن اسے دی جانے و الی دنیا کو آخرت میں ملنے والی نعمتوں سے وہ نسبت بھی نہیں ہے جو روٹی کے ٹکڑے اور بادشاہ کے قرب کی نعمت کے درمیان ہےکیونکہ متناہی چیز(یعنی جس کی کوئی انتہاہو)کو لامتناہی چیز(یعنی جس کی کوئی انتہا نہ ہو) سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔دنیاعنقریب ختم ہونے والی ہے، اگربالفرض یہ ایک لاکھ سال تک باقی رہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بالکل صاف شَفّاف بھی ہو اس میں کوئی میل کچیل نہ ہوتو بھی اسے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے کوئی نسبت نہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کی عُمر قلیل اور دُنیوی لذات آلودہ اور میلی ہوتی ہیں ،بھلا ایسی چیز کو آخرت سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔‘‘([14])

(9)زُہدکے مختلف درجات کی معلومات حاصل کرکے عمل کی کوشش کیجئے:٭ زُہدکے تین درجات یہ ہیں:(۱)پہلا درجہ:بندے کا مقصد عذابِ جہنم، عذابِ قبر، حساب


 

 کی سختی، پل صراط سے گزرنا اور ان دیگر مصائب وآلام سے چھٹکارے کا حصول ہو جن کا احادیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے،یہ سب سے ادنیٰ درجے کا زُہد ہے۔(۲) دوسرا درجہ: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ملنے والے ثواب، نعمتوں اور جنت میں جن انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے، مثلاً: محلات وغیرہ ان پر نظر رکھتے ہوئے زُہد اختیار کیا جائے۔ (۳) تیسرا درجہ:  بندہ صرف اور صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّکی محبت کے سبب اور اس کے دیدار کی دولت پانے کے لیے زُہد اختیار کرے، نہ تو اس کا دل اُخروی عذابوں کی طرف متوجہ ہو اور نہ ہی جنتی نعمتوں کی طرف متوجہ ہو، یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔([15])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (25)اُمیدوں کی کمی

اُمیدوں کی کمی کی تعریف :

 نفس کی پسندیدہ چیزوں یعنی لمبی عمر،صحت اور مال میں اضافے وغیرہ کی امید نہ ہونا ’’اُمیدوں کی کمی ‘‘کہلاتاہے۔([16]) اگر لمبی عمر کی خواہش مستقبل میں نیکیوں میں اضافے کی نیت کے ساتھ ہوتو اب بھی ’’اُمیدوں کی کمی‘‘ہی کہلائے گی۔([17])

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے:( ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۳)) (پ۱۴، الحجر: ۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’انہیں چھوڑو کہ کھائیں


 

اور برتیں اور امید انہیں کھیل میں ڈالے تو اب جانا چاہتے ہیں۔‘‘ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ’’اس میں تنبیہ ہے کہ لمبی امیدوں میں گرفتار ہونا اور لذاتِ دنیا کی طلب میں غرق ہو جانا ایماندار کی شان نہیں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا : لمبی امیدیں آخرت کو بُھلاتی ہیں اور خواہشات کا اِتباع حق سے روکتا ہے۔‘‘([18])

(حدیث مبارکہ)امیدوں میں کمی دخول جنت کا سبب:

سرکارِ دوعالم نورِ مجسم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک بار صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  سے دریافت فرمایا: ’’کیا تم سب جنت میں داخل ہونا پسند کرتے ہو؟‘‘ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:’’جی ہاں، یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!‘‘ ارشاد فرمایا: ’’امیدیں کم کرو اوراپنی موت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّسے حیا کرو جیسےاس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘([19])

امیدوں کی کمی کا حکم:

اُمیدوں کی کمی دنیا سے بے رغبتی اور فکرِآخِرت میں مشغول رکھنے، نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے، لہٰذا ہرمسلمان کو چاہیے کہ لمبی لمبی امیدیں باندھنے کی بجائے جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کے لیے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنا آخرت کی تیاری میںمشغول رہے۔

(27)(حکایت)صحت دھوکے میں مبتلا نہ کرے:

حضرت سیدنا عُبَیْدُاللہ بن شُمَیْط رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد


 

صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’اے لمبی صحبت سے دھوکا کھانے والو! کیا تم نے کسی کو بیماری کے بغیر مرتے نہیں دیکھا؟ اے لمبی مہلت ملنے سے دھوکا کھانے والو! کیا تم نےبغیر مہلت کے کسی کو گرفتار ہوتے نہیں دیکھا؟اگر تم اپنی لمبی عمر کے بارے میں سوچو گے تو پچھلی لذتیں بھول جاؤ گے، تمہیں صحت نے دھوکے میں ڈالا ہے یا لمبا عرصہ عافیت سے گزرنے پر اتراتے ہو یا موت سے بے خوف ہوچکے ہو یا پھر موت کے فرشتے پر دلیر ہو چکے ہو؟ جب موت کا فرشتہ آئے گا تو اسے تمہارا ڈھیر سارا مال روک سکے گا نہ لوگوں کی کثرت روک سکے گی، کیا تم نہیں جانتے کہ موت کا وقت انتہائی تکلیف دہ، سخت اور نافرمانیوں پر نادم ہونے کا ہے۔‘‘ پھر فرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّاس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے بعد کام آنے والے اَعمال کرے اور اس پر بھی رحم فرمائے جو موت آنے سے پہلے ہی اپنا محاسبہ کرلے۔‘‘([20])

امیدوں میں کمی کا ذہن بنانے اور کمی کرنے کے نو(9)طریقے:

(1)چھوٹی امید سے متعلق روایات کا مطالعہ کیجئے:چندروایات یہ ہیں: ٭ حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ارشاد فرمایا: ’’جب تم صبح کرو تو تمہارے دل میں شام کا خیال نہ آئے اور جب شام کرو تو صبح کی اُمید نہ رکھو اور اپنی تندرستی سے بیماری کے لیے اور زندگی سے موت کے لیے کچھ توشہ لے لو۔ اے عبدُاللہ! تم نہیں جانتے کہ کل کس نام سے پکارے جاؤ گے۔‘‘ ٭ حضرت سیدنا عبدُاللہبن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے طبعی حاجت سے فراغت حاصل کی اور پانی بہایا، پھر تیمم فرمایا تو میں نے عرض کی: ’’یارسولَ اللہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! پانی تو قریب ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’میں پانی تک پہنچنے کی از خود امید نہیں رکھتا۔‘‘٭ایک بار حضور نبی کریم رءوف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے پوچھا: ’’کیا تم سب جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی: ’’جی ہاں۔‘‘ تو ارشاد فرمایا: ’’اپنی امیدوں کو چھوٹا کرو، موت کو آنکھوں کے سامنے رکھو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّسے حیا کرنے کا حق ادا کرو۔‘‘([21])

(2)لمبی امیدوں کی ہلاکتوں پر غور کیجئے:تین روایات ملاحظہ کیجئے: ٭ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تین لکڑیاں لیں، ایک اپنے سامنے گاڑی، دوسری اس کے برابر میں جبکہ تیسری کچھ دور۔ پھر صحابہ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے ارشاد فرمایا: ’’تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کی:اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسولصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا: ’’ایک لکڑی انسان اور دوسری موت ہے، جبکہ دور والی امید ہے، انسان امید کی جانب ہاتھ بڑھاتا ہے مگر امید کی بجائے موت اسے اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔‘‘ ٭آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں، ایک حرص اور دوسری (لمبی)  امید۔٭اس امت کے پہلوں نے یقین کامل اور پرہیزگاری کے سبب نجات پائی جبکہ آخری زمانے والے بخل اور (لمبی) امید کے سبب ہلاک ہوں گے۔([22])

(3) اُمیدوں کی کمی سے متعلق اَقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے:چنداقوال یہ ہیں:


 

 ٭ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’میں اس شخص کی مانند ہوں جس کی پھیلی ہوئی گردن پر تلوار رکھی جاچکی ہے اور اسے انتظار ہے کہ کب اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔‘‘٭حضرت سیدنا داود طائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’اگر میں ایک مہینہ زندہ رہنے کی امید کروں تو تم دیکھو کے کہ یقیناً میں نے بڑا گناہ کیا اور میں یہ اُمید بھی کیسے رکھ سکتا ہوں حالانکہ میں دیکھتا ہوں کہ مصیبتوں نے دن ورات ہر گھڑی میں لوگوں کو گھیرا ہوا ہے۔‘‘([23])٭حضرت سیدنا قعقاع بن حکیم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْمُبِیْن فرماتے ہیں: ’’میں موت کے لیے 30سال سے تیاری کررہا ہوں، اگر وہ آجائے تو اتنی تاخیر بھی برداشت نہ کروں گا جتنی تاخیر کوئی چیز آگے پیچھے کرنے میں ہوتی ہے۔‘‘ ٭حضرت سیدنا عبدُاللہ بن ثعلبہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرمایا کرتے تھے: ’’حیرت ہے کہ تم ہنستے ہو جبکہ تمہارا کفن دھوبی کے پاس سے آچکا ہوتا ہے۔‘‘([24])

(4) اپنے اندر خوفِ خدا پیدا کیجئے: امیدوں کی کمی کا یہ ایک بہترین علاج ہے، کیونکہ جس کا دل خوف خدا سے معمور ہوتا ہے وہ لمبی لمبی امیدیں لگانے کی بجائے اپنے ربّ  عَزَّ وَجَلَّکی عبادت واطاعت میں مصروف ہوجاتا ہے، جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کے لیے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنا آخرت کے لیے تیاری کرتا ہے، اَحکامات شرعیہ کی پابندی کرتا ہے، گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔

(5)دل کو حب دنیا سے پاک کیجئے: لمبی امیدوں کا ایک بہت بڑا سبب دنیا کی محبت


 

بھی ہے، جب بندے کے دل میں دنیا کی محبت گھرکرجاتی ہے تو وہ لمبی لمبی امیدیں لگانے کی آفت میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے اندر طویل عرصے تک زندہ رہنے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے، لہٰذا دل کو حب دنیا سے پاک کیجئےکہ جو جتنا زیادہ لذَّتِ نفس کی خاطر راحتوں میں زندگی گزارتا ہے مرنے کے بعد اسےان آسائشوں کے چھوٹنے کا صدمہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

(6)امیدوں کی کمی وزیادتی، فوائد ونقصانات کی معلومات حاصل کیجئے:لمبی امیدوں کا ایک سبب جہالت بھی ہے کہ بندہ اپنی جوانی پر بھروسا کرکے یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ جوانی میں موت نہیں آئے گی اور بے چارہ اس بات پر غور نہیں کرتا کہ زیادہ تر لوگ جوانی میں ہی مَرجاتے ہیں، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ لمبی امیدوں کے نقصانات اور چھوٹی امیدوں کے فضائل وغیرہ کی تفصیلی معلومات حاصل کرے، اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ،حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ نازتصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد۵، صفحہ ۴۸۴سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(7)ہر وقت موت کو پیش نظررکھیے:  موت کی یاد اُمیدوں کی کمی کا بہت بڑا سبب ہے۔اِس کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنے جوان رشتہ داروں، دوستوںاورمحلے داروں کو یاد کرے جو ہنستے کھیلتے اچانک موت کا شکار ہو کر قبر کی اندھیری کوٹھری میں چلے گئے، وہ لوگ بھی موت کا شکار ہوگئے جنہوں نے کبھی موت کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا، مجھے بھی اچانک موت کا مزہ چکھنا ہوگا اور اندھیری قبر میں اترنا ہوگا اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا ہوگا، امید ہے یوں امیدوں کی کمی کا مدنی ذہن بنے گا۔

(8) نزع وقبر کے وحشت ناک ماحول کا تصور کیجئے:یوں تصور کیجئے کہ میری موت کا وقت


 

آپہنچاہے، مجھ پر غشی طاری ہو چکی ہے،زبان خاموش ہوچکی ہے،مجھے سخت پیاس محسوس ہو رہی ہے،میرے گرد کھڑے لوگ مجھے بے بسی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں، پھر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے جسم میں سوئیاں چبھودی گئی ہوں، میرے جسمانی اَعضاء ٹھنڈے ہونا شروع ہوگئے، میرے دل کی دھڑکن آہستہ ہوتے ہوتے بند ہوگئی، میری سانس بھی ختم ہوگئی، آہ میری موت واقع ہوگئی، مجھے غسل وکفن دیا گیا، جنازہ گاہ پہنچ کر میری نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور قبرستان لے جایا گیا،یہ وہی قبرستان ہے کہ جہاں دن کے اُجالے میں تنہا آنے کے تصور سے ہی میرا کلیجہ کانپتا تھا، یہ وہی قبر ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ جنت کا ایک باغ ہے یا دوزخ کا ایک گڑھا،یہ تو وہی جگہ ہے کہ جہاں دوخوف ناک شکلوں والے فرشتے سر سے پاؤں تک بال لٹکائے، آنکھوں سے شعلے نکالتے ہوئے انتہائی سخت لہجے میں مجھ سے تین سوال کریں گے، آہ! گناہوں کی نحوست کے سبب کہیں میری قبر دوزخ کا گڑھا نہ بنا دیا جائے۔ آہ ! میرا کیا بنے گا ؟ پھراپنے آپ سے مخاطب ہوکرکہیں کہ ابھی تومیں زندہ ہوں،ابھی میری سانسیں چل رہی ہیں،میں اُن حسرت آمیز لمحات کے آنے سے پہلے پہلے اپنی قبر کو جنت کا باغ بنانے کی کوشش میں لگ جاؤں گا، خوب نیکیاں کروں گا ، گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کروں گا تاکہ کل مجھے پچھتانا نہ پڑے، لمبی لمبی امیدیں باندھنے کی بجائے فکر آخرت میں مشغول ہوجاؤں گا ۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

(9)حشریعنی قیامت کی ہولناکیوں کا تصور کیجئے:یوں تصور کیجئے کہ میں نے قبر سے نکل کر بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّمیں حاضری کے لئے میدانِ محشر کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ہے،


 

سورج آگ برسا رہا ہے، لیکن اس کی تپش سے بچنے کے لئے کوئی سایہ میسر نہیں، ہر ایک کو پسینوں پر پسینے آرہے ہیں جس کی بدبو سے دماغ پھٹا جارہا ہے،ہر کوئی پیاس سے نڈھال ہے، زندگی بھر کی جانے والی نافرمانیوں کا سوچ کردل ڈوبا جارہا ہے،ان کے نتیجے میں ملنے والی جہنم کی ہولناک سزاؤں کے تصور سے کلیجہ کانپ رہا ہے، آہ صد آہ ! اپنے رب عزوجل کی نافرمانی کرکے اسی کی بارگاہ میں حاضر ہو کرزندگی بھر کے اعمال کا حساب کیسے دوں گا؟ دوسری طرف اپنی مختصر سی زندگی میں نیک اعمال اختیار کرنے والوں کو ملنے والے انعامات دیکھ کر اپنے کرتوتوں پرشدید افسوس ہو رہا ہے کہ وہ خوش نصیب تو سیدھے ہاتھ میں نامۂ اعمال لے کر شاداں وفرحاں جنت کی طرف بڑھے چلے جارہے ہیں، لیکن نہ جانے میرا کیا بنے گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جہنم میں جانے کا حکم سناکر الٹے ہاتھ میں اَعمال نامہ تھما دیا جائے اور سارے عزیز واقارب کی نظروں کے سامنے مجھے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے، ہائے میری ہلاکت!آہ میری رسوائی(مَعَاذَاللّٰہ) یہاں پہنچ کراپنی آنکھیں کھول دیجئے اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکر یوں کہے کہ گھبراؤ نہیں!ابھی مجھ پریہ وقت نہیں آیا ، ابھی میں زندہ ہوں ، یہ زندگی میرے لئے غنیمت ہے ،مجھے لمبی لمبی امیدیں لگانے کی بجائے اپنی آخر ت سنوارنے کی کوشش میں لگ جانا چاہے، میں اپنے ربّ تعالٰی کا اطاعت گزار بندہ بننے کے لئے اس کے اَحکامات پر ابھی اور اسی وقت عمل شروع کر دوں گا تاکہ کل میدانِ محشر میں مجھے پچھتانا نہ پڑے۔اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

 (26)صِدق (سچ بولنا)

صدق کی تعریف :

حضرت علامہ سید شریف جرجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی صدق یعنی سچ کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صدق کا لغوی معنی واقع کے مطابق خبر دینا ہے۔‘‘([25])

آیت مبارکہ:

٭اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید میں ارشاد فرماتاہے: (وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)) (پ۲۴، الزمر: ۳۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔‘‘اس آیت مبارکہ میں سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہیا تمام مؤمنین ہیں۔([26])٭ایک اور مقام پر اللہ عَزَّ وَجَلَّارشادفرماتا ہے: (مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ-)(پ۲۱، الاحزاب: ۲۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کر دیا جو عہد اللہسے کیا تھا ۔‘‘

(حدیث مبارکہ)سچ جنت کی طرف لے جاتا ہے:

اللہ عَزَّ وَجَلَّکے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’بے شک صدق (سچ)نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بے


 

 شک آدمی سچ بولتا رہتاہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ہاں صدیق (بہت بڑا سچا)لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک کذب (جھوٹ) گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ہاں کذاب (بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘([27])

سچ بولنے کا حکم:

ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دِینی ودُنیوی تمام معاملات میں سچ بولے کہ سچ بولنا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔

(28)(حکایت)سچ بولنے کی برکت:

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۰۶صفحات پر مشتمل کتاب ’’غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حالات‘‘ صفحہ ۳۷ پر ہے: سرکار بغداد، حضور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ جب میں علم دین حاصل کرنے کے لیے جیلان سے بغداد قافلے کے ہمراہ روانہ ہوا اور جب ہمدان سے آگے پہنچے تو ساٹھ (60)ڈاکو قافلے پر ٹوٹ پڑے اور سارا قافلہ لوٹ لیا لیکن کسی نے مجھ سے تعرض نہ کیا۔ ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا: ’’اے لڑکے! تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟‘‘ میں نے جواب میں کہا: ’’ہاں۔‘‘ ڈاکو نے کہا: ’’کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’چالیس دینار۔‘‘ اس نے پوچھا: ’’کہاں ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’گدڑی کے نیچے۔‘‘ ڈاکو اس راست گوئی کو مذاق تصور کرتا ہوا چلا گیا۔ اس کے بعد دوسرا ڈاکو آیا اور اس نے بھی اسی طرح کے سوالات کیے اور میں نے یہی


 

جوابات اس کو بھی دیے اور وہ بھی اسی طرح مذاق سمجھتے ہوئے چلتا بنا۔ جب سب ڈاکو اپنے سردار کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سردار کو میرے بارے میں بتایا تو مجھے وہاں بلا لیا گیا۔ وہ مال کی تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔ ڈاکوؤں کا سردار مجھ سے مخاطب ہوا: ’’تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’چالیس دینار ہیں۔‘‘ ڈاکوؤں کے سردار نے ڈاکوؤں کو حکم دیتے ہوئے کہا: ’’ اس کی تلاشی لو۔‘‘ تلاشی لینے پر جب سچائی کا اظہار ہوا تو اس نے تعجب سے سوال کیا کہ ’’تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘‘ میں نے کہا: ’’والدہ ماجدہ کی نصیحت نے۔‘‘ سردار بولا: ’’وہ نصیحت کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’میری والدہ محترمہ نے مجھے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین فرمائی تھی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سچ بولوں گا۔‘‘ تو ڈاکوؤں کا سردار رو کر کہنے لگا: ’’یہ بچہ اپنی ماں سے کیے ہوئے وعدے سے منحرف نہیں ہوا اور میں نے ساری عمر اپنے ربّ  عَزَّ وَجَلَّسے کیے ہوئے وعدے کے خلاف گزار دی ہے۔‘‘ اسی وقت وہ ان ساٹھ ڈاکوؤں سمیت میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور قافلے کا لوٹا ہوا مال واپس کردیا۔([28])

سچ بولنے کا ذہن بنانے اور سچ بولنے کے نو(9)طریقے:

(1)سچ کے فضائل کا مطالعہ کیجئے:تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: ٭’’سچائی کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جنت میں (لے جانے والے)ہیں اور جھوٹ سے بچتے رہو کیونکہ یہ گناہ کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جہنم میں (لے جانے والے )ہیں۔‘‘([29])٭’’جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا


 

ہے محفوظ ہوجاتا ہے اور جب محفوظ ہوجاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘([30]) ٭’’تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں:(۱) جب بولو تو سچ بولو(۲) جب وعدہ کرو تو اسے پورا کرو(۳) جب امانت لو تو اسے ادا کرو (۴) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (۵)اپنی نگاہیں نیچی رکھا کرو اور (۶) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ۔‘‘([31])

(2)سچ سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال کا مطالعہ کیجئے:چنداَقوال یہ ہیں: ٭ حضرت سیدنا عبدُاللہبن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: ’’چار باتیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی وہ نفع پائے گا: (۱)صدق(یعنی سچ) (۲) حیا (۳)حسن اخلاق اور (۴)  شکر۔‘‘٭ حضرت سیدنا ابوسلیمان دارانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’صدق (یعنی سچ) کو اپنی سواری، حق کو اپنی تلوار اور اللہ عَزَّ وَجَلَّکو اپنا مطلوب ومقصود بنالو۔‘‘ ٭ حضرت سیدنا محمد بن علی کتانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’ہم نے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے دِین کو تین اَرکان پر مبنی پایا: (۱)حق (۲) صدق (یعنی سچ)اور (۳)عدل۔ پس حق اَعضاء پر، عدل دِلوں پر اور صدق عقلوں پر ہوتا ہے۔‘‘([32])

(3)سچ کے دُنیوی واُخروی فوائد پر غور کیجئے:چندفوائد یہ ہیں:٭سچ بولنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حکم پر عمل کرتا ہے۔٭سچ بولنے والے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رضا حاصل ہوتی ہے۔ ٭سچ بولنے والے کی روزی میں برکت ہوتی ہے۔٭سچ بولنے والے کو مؤمن قرار دیا


 

گیا ہے۔ ٭ سچ بولنے والا نفاق سے دُور ہوجاتا ہے۔٭سچ بولنے والے کا دِل روشن ہو جاتاہے۔ ٭سچ بولنے والے کا ضمیر مطمئن ہوتاہے۔٭سچ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔٭سچ بولنے والے کا رحمت الٰہی سے خاتمہ بالخیر ہوگا۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ ٭سچ بولنے والے کو رحمت الٰہی سے قبر وحشر کی تکلیفوں سے امان ملے گی۔اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ ٭سچ بولنے والے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

(4)جھوٹ بولنے کی وعیدوں کو پیش نظر رکھیے:تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:٭’’جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتاہے اورجب گناہ کرتاہے توناشکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتاہے۔‘‘([33])٭’’منافق کی تین علامتیں ہیں: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (۳)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘([34]) ٭کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘([35])

(5)جھوٹ بولنے کے دُنیوی واُخروی نقصانات پر غور کیجئے:چندنقصانات یہ ہیں: ٭جھوٹ بولنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا نافرمان ہے۔٭جھوٹ بولنے والے پر اللہ عَزَّ وَجَلَّکی لعنت ہے۔٭جھوٹ بولنا منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔٭جھوٹ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا


 

جاتا۔٭جھوٹ بولنے والا مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ہے۔ ٭ جھوٹ بولنے والے کا ضمیر مطمئن نہیں ہوتا۔٭جھوٹ بولنے والے کی روزی سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔ ٭جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔٭جھوٹ بولنے والے کو قبروحشر کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

(6)اپنے دل میں خوفِ خدا پیدا کیجئے: خوفِ خدا تمام گناہوںسے بچنے کی اصل ہے، جب بندے کے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکا خوف پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو تمام گناہوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، خوفِ خدا پیدا کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۶۰صفحات پر مشتمل کتاب ’’خوفِ خدا‘‘ اور حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِیکی مایہ ناز تصنیف ’’اِحیاء العلوم‘‘ جلد۴، صفحہ ۴۵۱ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(7)اپنے دِل میں احترامِ مسلم پیدا کیجئے: کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے کاروباری معاملات میں جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں، اس کی ایک وجہ اِحترامِ مسلم کا نہ ہونا بھی ہے، جب بندے کے دل میں اپنے مسلمان بھائیوں کا احترام پیدا ہوجاتا ہے توہ ان سے جھوٹ بولنے، دھوکہ دہی سے کام لینے اور خیانت کرنے میں عار محسوس کرتا اور سچ بولتا ہے، لہٰذا دل میں احترام مسلم پیدا کیجئے کہ اس کی برکت سے جھوٹ سے بچنے اور سچ بولنے میں مدد ملے گی۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

(8)کسی کی ملامت کی پرواہ مت کیجئے:بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ اپنی عزت بچانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے کہ اگر سچ بولے گا تو لوگ ملامت کریں گے، برا بھلا کہیں گے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دُنیوی ذلت کے مقابلے میں جہنم کی اُخروی ذلت اور عذابات کو


 

 پیش نظر رکھے کہ دُنیوی ذلت تو چند لمحوں کی ہے اور عنقریب ختم ہوجائے گی لیکن اُخروی ذلت تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، لہٰذا کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کیجئے، ہمیشہ سچ بولیے۔

(9)اُخروی فائدے کو دُنیوی نقصان پر ترجیح دیجئے:بسا اوقات بظاہر تھوڑے سے دُنیوی فائدے کے پیش نظر بھی بندہ جھوٹ بول لیتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولنا فقط پہلی بار آسان ہوتا ہے اس کے بعد اس میں مشکل ہی مشکل ہوتی ہے، نقصان ہی نقصان ہوتا ہے، جبکہ سچ بولنا فقط پہلی بار مشکل ہوتا ہے بعد میں اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں،جھوٹ بولنے میں بعض وقتی دُنیوی فوائد مگر آخرت کے بہت نقصانات ہیں، جبکہ سچ بولنے میں کبھی ہوسکتا ہے کہ تھوڑا سا دُنیوی نقصان ہو مگر اس میں اُخروی طور پر فائدے ہی فائدے ہیں، لہٰذا ہمیشہ سچ بولیے، اللہ عَزَّ وَجَلَّاپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت سے سچ بولنے کی برکت سے بظاہر تھوڑے سے دُنیوی نقصان کو بھی نفع میں تبدیل فرمادے گا۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (27)ہمدردیٔ مسلم

ہمدردیٔ مسلم کی تعریف:

کسی مسلمان کی غمخو اری کرنا اور اس کے دکھ درد میں شریک ہونا ’’ہمدردیٔ مسلم‘‘ کہلاتاہے۔ہمدردیٔ مسلم کی کئی صورتیں ہیں، بعض یہ ہیں:(۱)بیمار کی عیادت کرنا (۲)انتقال پر لواحقین سے تعزیت کرنا (۳)کاروبار میں نقصان پر یا مصیبت پہنچنے پر اِظہارِ ہمدردی کرنا (۴)کسی غریب مسلمان کی مدد کرنا (۵)بقدرِ استطاعت مسلمانوں


 

سے مصیبتیں دور کرنا اور اُن کی مدد کرنا(۶)علم دِین پھیلانا (۷)نیک اَعمال کی ترغیب دینا (۸) اپنے لیے جو اچھی چیز پسند ہو وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیےبھی پسند کرنا۔ (۹)ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی مدد کرنا (۱۰) مقروض کو مہلت دینا یا کسی مقروض کی مدد کرنا(۱۱) دکھ درد میں کسی مسلمان کو تسلی اور دلاسہ دینا۔ وغیرہ

آیت مبارکہ:

  اللہ  عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ)(پ۲۸،الحشر:۹)ترجمہ کنزالایمان:’’اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو۔‘‘

صدرُالافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی  اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں ایک بھوکا شخص آیا، حضور نے ازواجِ مطہرات کے حجروں پر معلوم کرایا کیا کھانے کی کوئی چیز ہے؟ معلوم ہوا کسی بی بی صاحبہ کے یہاں کچھ بھی نہیں ہے، تب حضور نے اصحاب سے فرمایا: جو اس شخص کو مہمان بنائے ، اللہ تعالٰی اس پر رحمت فرمائے۔ حضرت ابوطلحہ انصاری کھڑے ہوگئے اور حضور سے اجازت لے کر مہمان کو اپنے گھر لے گئے ، گھر جا کر بی بی سے دریافت کیا: کچھ ہے ؟ انہوں نے کہا: کچھ نہیں، صرف بچّوں کےلئے تھوڑا سا کھانا رکھا ہے۔ حضرت ابوطلحہ نے فرمایا: بچّوں کو بہلا کر سُلادو اور جب مہمان کھانے بیٹھے تو چراغ درست کرنے اٹھو اور چراغ کو بجھادو تاکہ وہ اچھی طرح کھا لے۔ یہ اس لیے تجویز کی کہ مہمان یہ نہ جان سکے کہ اہلِ خانہ اس کے ساتھ نہیں کھارہے ہیں کیونکہ اس کو یہ معلوم ہوگا تو وہ اصرار


 

 کرے گا اور کھانا کم ہے بھوکا رہ جائے گا۔ اس طرح مہمان کو کھلایا اور آپ ان صاحبوں نے بھوکے رات گذاری۔ جب صبح ہوئی اور سیّدِعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حُضورِ اَقدس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’رات فلاں فلاں لوگوں میں عجیب معاملہ پیش آیا، اللہ تعالٰی ان سے بہت راضی ہے۔‘‘ اور یہ آیت نازل ہوئی۔([36])

(حدیث مبارکہ)مصیبت زدہ سے غمخواری کی فضیلت:

حضرت سیدنا جابربن عبداللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’جو کسی غمزدہ شخص سے غمخواری کرے گا   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحو ں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے غمخواری کرےگا   اللہ  عَزَّ وَجَلَّاسے جنت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے عطا کرےگا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔([37])

ہمدردیٔ مسلم کا حکم:

اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنت، مُجَدِّدِدِین وملت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ ہر فردِ اسلام کی خیرخواہی ہرمسلمان پرلازم ہے۔‘‘([38])

(29)(حکایت)مفتی اعظم ہند اور دکھیاروں کی غمخواری:

امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی کتاب ’’فیضان سنت‘‘ جلداول صفحہ111پر


 

فرماتے ہیں:حضور مفتیٔ اعظم (محمد مصطفےٰ رضا خان) رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  مسلمانوں کی غمخواری اور دلجوئی کرنے میں اپنی مثال آپ تھے، مسلمان کا دل توڑنے سے ہر دم اجتناب فرماتے، ان کو فائدہ پہنچانے کے بے حد حریص تھے اور حریص کیوں نہ ہوتے کہ جس مدنی آقا میٹھے میٹھے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے والہانہ عشق تھا انہی کا اِرشادِ حقیقت بنیاد ہے:’’خَیْرُ النَّاسِ اَنْفَعُھُمْ لِلنَّاسِیعنی بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔‘‘(1) اس حدیث پاک پر عمل کی مدنی جھلک پیش کرتی ہوئی ایک انوکھی حکایت ملاحظہ فرمائیے۔ چنانچہ حضور مفتی اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ایک خاص موقع پر مدرسہ فیض العلوم (دھتکی ڈیہہ جمشید پور، جھار کھنڈ الہند)میں مدعو کیے گئے۔ واپسی پر ریلوے اسٹیشن جانے کے لیے حضور مفتی اعظم ہند رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  رکشہ میں تشریف فرما ہوئے ہی تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے حاضر ہوکرعرض کی: حضور! فلاں پریشانی سے دوچار ہوں، تعویذ مرحمت فرمادیجئے، مدرسہ کے مہتمم رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری صاحب نے اس شخص سے فرمایا: گاڑی کا ٹائم ہو چکا ہے اور تم ابھی تعویذ کے لیے بول رہے ہو! حضور مفتی اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم نے علامہ زید مجدہ کو اس شخص کو روکنے سے منع فرمایا۔ علامہ صاحب نے عرض کی: حضور! گاڑی چھوٹ جائے گی۔ اس پر حضور مفتی اعظم ہند قُدِّسَ  سِرُّہ نے خوفِ خدا  عَزَّ وَجَلَّسے سرشار اوردکھیاری امت کی دلجوئی میں بے قرار ہوکر جو جواب دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔چنانچہ فرمایا: ’’چھوٹ جانے دو،دوسری ٹرین سے چلا جاؤں گا۔ کل قیامت کے دن اگر خداوند کریم جَلَّ جَلَالُہ نے پوچھ


 

 لیا کہ تونے میرے فلاں بندے کی پریشانی میں کیوں مدد نہیں کی؟ تو میں کیا جواب دوں گا!‘‘یہ فرما کر رکشہ سے سارا سامان اتروا لیا۔([39]) اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین

ہمدردی کا ذہن بنانےاور ہمدردی کی عادت اپنانے کے(7)طریقے:

(1)مسلمانوں سے ہمدردی کے فوائد کو پیش نظر رکھیے:فطری طور پرجب بندے کے سامنے کسی چیز کے فوائد ہوتے ہیں تو وہ اسے پانے میں جلدی کرتا ہے، مسلمانوں سے ہمدردی کرنے کے چند فوائد یہ ہیں:٭اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کا حصول ٭ دل جوئی ٭مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ٭ حوصلہ افزائی کرنا ٭حسن سلوک کرنا ٭خیر خواہی کرنا٭پریشان حال کی دعاؤں کی برکت سے تکالیف وپریشانی سے نجات ملنا٭رحمت الٰہی کے سبب حصولِ جنت۔وغیرہ وغیرہ

(2)حُسن اَخلاق کوپیش نظر رکھیے: کسی مسلمان سے ہمدردی کرنا اس کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے اَخلاق کا مظاہرہ ہے۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’میزانِ عمل میں حسن اَخلاق سے وزنی کوئی اورعمل نہیں۔‘‘([40])

(3) صلۂ رحمی کو پیش نظر رکھیے: عزیزواَقارِب، رشتہ دار تکلیف وپریشانی میں آجائیں تو اُن کے دکھ درد میں شامل ہونا ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرنا ہے اوررشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ صلۂ رحمی کا مدنی ذہن


 

 بنائے اور جب بھی کوئی رشتہ دار تکلیف وپریشانی میں مبتلا ہوجائے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرکے صلۂ رحمی کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ اسلام میں صلۂ رحمی کے بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔

(4)اِحترامِ مسلم کو پیش نظر رکھیے:ایک عام مسلمان کے ساتھ ہمدردی کرنے میں احترامِ مسلم بھی ہے، اسلام میں ایک مسلمان مؤمن کی حرمت کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، لہٰذا اپنے اندر احترامِ مسلم کا جذبہ بیدار کیجئے، کسی مسلمان کےتکلیف وپریشانی میں مبتلا ہونے کا پتا چلے تو اسی جذبے کے تحت اس کی ہمدردی کی سعادت حاصل کیجئے۔

(5)حق مسلم کی ادائیگی کی نیت سے ہمدردی کیجئے:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’ایک مؤمن کے دوسرے مؤمن پر چھ6حق ہیں: (۱)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (۲)جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں حاضر ہو(۳) جب وہ بلائے توحاضر ہو (۴)جب اس سے ملے تو سلام کرے (۵)جب چھینکے تو جواب دے اور (۶) موجودگی وغیر موجودگی میں اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘([41])

(6)بیمار کی عیادت کرکے ہمدردی کیجئے:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ہے: ’’جو کسی مریض کی عیادت کرتاہے یا رضائے الٰہی کے لئے اپنے کسی بھائی سے ملنے جاتاہے تو ایک منادی اسے مخاطب کرکے کہتاہے کہ خوش ہو جاکیونکہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے ۔‘‘([42])


 

(7)مریض کی دعائیں لینے کے لیے اس سے ہمدردی کیجئے: مریض کی دعا بھی مقبول ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہوتی ہے۔‘‘([43])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (28)رَجَا(رَحمتِ اِلٰہی سے اُمید)

رجا کی تعریف:

آئندہ کے لئے بھلائی اور بہتری کی اُمید رکھنا’’ رَجَا‘‘ہے۔مثلاً اگر کوئی شخص اچھا بیج حاصل کرکے نرم زمین میں بودے اور اس زمین کو گھاس پھوس وغیرہ سے صاف کردے اور وقت پر پانی اور کھاد دیتا رہے پھر اس بات کا امیدوار ہوکہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّاس کھیتی کو آسمانی آفات سے محفوظ رکھے گا تو میں خوب غلہ حاصل کروں گا تو ایسی آس اور امید کو ’’رَجَا‘‘ کہتے ہیں۔([44])

حقیقی امید:

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی ’’احیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں:’’جب بندہ ایمان کا بیج بوتا ہے اور اس کو عبادات کے پانی سے سیراب کرتاہے اور دل کو بُری عادات کے کانٹوں سے پاک کرتا ہے تو پھر وہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے فضل یعنی ان چیزوں پر مرتے دم تک قائم رہنے اور مغفرت کا سبب بننے والے حُسنِ خاتمہ کا


 

 منتظر رہتا ہے تو اس کا یہ انتظار حقیقی اُمید ہے جو فی نفسہٖ قابلِ تعریف ہے۔‘‘([45])

رِجا کی اقسام اور اُن کے احکام:

حضرت سیدنا ابنِ خُبَیق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:رَجا تین طرح کی ہے: (۱)کوئی شخص اچھا کام کرے اس کی قبولیت کی اُمید رکھے۔ (۲)کوئی شخص بُرا کام کرے پھر توبہ کرے اور وہ مغفرت کی اُمید رکھتا ہو۔ (۳)جھوٹا شخص جو گناہ کرتا چلا جائے اور کہے میں مغفرت کی اُمید رکھتا ہوں۔([46])

پہلی دوقسم کی رَجا محمود جبکہ آخری قسم کی رجا مذموم ہے جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: ’’اَلْاَ حْمَقُ مَنْ اَ تْبَعَ نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللہِ الْجَنَّةَ یعنی احمق وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرے پھر   اللہ  عَزَّ وَجَلَّسے جنت کی تمنّا رکھے۔‘‘([47])

آیت مبارکہ:

  اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ( (پ۲۴، الزمر:۵۳)ترجمۂ کنزالایمان:’’تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ۔‘‘اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:’’مشرکین میں سے چند آدمی سیّد عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی


 

عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ آپ کا دِین توبے شک حق اور سچاہے لیکن ہم نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں بہت سی معصیتوں میں مبتلا رہے ہیں کیا کسی طرح ہمارے وہ گناہ معاف ہوسکتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘([48])

(حدیث مبارکہ) اچھا گمان رکھتے ہوئےمرنا:

حضرت سیدنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے  ہیں کہ میں نے رسولُ ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو آپ کی وفات سےتین دن پہلے یہ فرماتے سناکہ:’’تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس طرح کہ سے اچھی اُمید رکھتا ہو۔‘‘([49])

مُفَسِّرِشَہِیر،حکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیث پاک کے تحت صوفیاء کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’نیک بختی کی نشانی یہ ہے کہ بندے پر زندگی میں خوفِ خدا غالب ہو اورمرتے وقت امید،نیک کار نیکیاں قبول ہونے کی امید رکھیں اور بدکارمعافی کی۔ امید کی حقیقت یہ ہے کہ انسان نیکیاں کرے اور اس کے فضل کا امیدوار رہے، بدکاری کے ساتھ امید رکھنا دھوکا ہے امید نہیں، اس حدیث کی بنا پربعض بزرگوں نے کہا کہ خوف کی عبادت سے امیدکی عبادت بہتر ہے۔‘‘([50])

رجا کا حکم:

  اللہ عَزَّ وَجَلَّسے اچھا گمان رکھنا واجب ہے۔([51])


 

(30)(حکایت)اچھی امید کے سبب مغفرت:

حضرت سیِّدُنا قاضی یحییٰ بن اَکثم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم  کےوصال کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھ كر پوچھا: مَا فَعَلَ اللہ بِکَ یعنی   اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ انہوں نے کہا:   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مجھےاپنی بارگاہِ عالی میں کھڑا کر کے فرمایا: ’’اے بد عمل بوڑھے! تو نے فلاں فلاں کام کیا۔‘‘فرماتے ہیں:مجھ پر اس قدر رُعب طاری ہوگیا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی جانتا ہے۔ پھر میں نے عرض کی: ’’اے میرے ربّ  عَزَّ وَجَلَّ! مجھے تیرایہ حال نہیں بتایاگیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’پھر میرے بارے میں کیابیان کیا گیا؟‘‘ میں نے عرض كی:مجھ سے حضرت عبد الرزاق نے ،ان سے حضرت معمر نے،ان سےحضرت امام زُہری نے اور ان سے حضرت سیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اور وہ تیرے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے اور انہوں نے حضرتِ جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کے حوالے سے بیان فرمایا کہ تُو فرماتا ہے:’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں تو وہ میرے ساتھ جو چاہے گمان رکھے۔‘‘([52]) میرا گمان یہ تھا کہ تُو مجھے عذاب نہیں دے گا، تو   اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے ارشاد فرمایا: ’’جبریل نے سچ کہا، میرے نبی نے سچ کہا، انس،زُہری،معمر ،عبد الرزاق نے بھی سچ کہا اور میں نے بھی سچ کہا۔‘‘ حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن اَکثم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم  فرماتے ہیں:پھر مجھے جنتی لباس پہنایا گیا اور جنت تک میرے آگے آگے غلام چلتے رہے تو میں نے کہا:واہ! یہ تو خوشی کی بات ہے۔([53])


 

رجا (یعنی اچھی اُمید)کا ذہن بنانے اور اس کے حصول کے پانچ(5)طریقے:

(1)رجا کے فضائل میں غوروفکر کیجئے:رحمت اِلٰہی کے متعلق تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : (۱) اللہ عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں اب وہ میرے متعلق جو چاہے گمان ركھے۔‘‘([54]) (۲) اللہ عَزَّ وَجَلَّبروزِ قیامت بندے سے اِستِفسار فرمائے گا : ’’جب تو نے برائی دیکھی توکس وجہ سے اسے نہیں روکا؟‘‘ اگر   اللہ  عَزَّ وَجَلَّاس کے ذہن میں جواب اِلقا فرمادے گا تو وہ عرض کرے گا:اے میرے ربّ  عَزَّ وَجَلَّ! مجھے تیری رحمت کی اُمید تھی اور لوگوں کا خوف تھا۔   اللہ  عَزَّ وَجَلَّارشاد فرمائے گا: ’’میں نےتیراگناہ معاف کیا۔‘‘([55]) (۳) ’’ایک شخص كوجہنم میں ڈال دیا جائے گا تو وہ وہاں ایک ہزار سال تک ’’یَاحَنَّان یَامَنَّان‘‘ کہہ کر اللہ  عَزَّ وَجَلَّکو پکارتا رہےگا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جبریل امین سے فرمائے گا: ’’جاؤ! میرے بندے کو لے کر آؤ۔‘‘ چنانچہ وہ اسے لے کر آئیں گے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں پیش کردیں گے۔ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اُس سے دریافت فرمائے گا: ’’تونے اپنا ٹھکانا کیسا پایا؟‘‘وہ عر ض کرے گا:’’بہت بُرا۔‘‘ اللہ  عَزَّ وَجَلَّارشاد فرمائے گا: ’’اسے دوبارہ وہیں لےجاؤ۔‘‘وہ جارہا ہوگا تو پیچھے مڑ کر دیکھے گا۔ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ فرمائے گا: کیا دیکھتا ہے؟ وہ عرض کرے گا:مجھے تجھ سےیہ اُمید تھی کہ ایک مرتبہ جہَنَّم سے نکالنے کے بعد مجھے دوبارہ اس میں نہیں بھیجے گا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرمائےگا: ’’اسے جنت میں لے جاؤ۔‘‘([56])


 

(2)رجا سےمتعلق بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے امام ابو القاسم قشیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی کتاب ’’رسالہ قشیریہ‘‘اور امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ جلدچہارم کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(3)رجا سےمتعلق روایات اور بزرگانِ دِین کے اَقوال میں غور کیجئے:رجاکے متعلق تین فرامین بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن :(۱) امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنےفرمایا: جس نےکوئی گناہ کیا اور   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے دنیا میں اس کی پردہ پو شی فرمائی تو   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکےکرم کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ آخرت میں اس کا پردہ اٹھا دے اور جس شخص کو دنیا میں اس کے گناہ کی سزا دے دی گئی ہوتو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عدل و انصاف کا تقاضایہ نہیں ہے کہ آخرت میں اپنے بندے کو دوبارہ سزا دے۔ (۲) حضرتِ سیِّدُناسُفیان ثوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:مجھے یہ پسند نہیں کہ میراحساب میرے والدین کے سِپُرد کردیا جا ئے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ میرے والدین سے بڑھ کر مجھ پر رحم کرنے والا ہے ۔(۳) حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار کی حضرتِ سیِّدُنا ابان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان سے ملاقات ہوئی تو ان سے پو چھا: آپ کب تک لوگوں کو اُمید اور رخصت کی احادیث سناتے رہیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا:اے ابویحییٰ!میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ بروزِقیامت   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےعفو وکرم کے ایسےمَناظر دیکھیں گے کہ خوشی کے سبب اپنے کپڑے پھاڑ دیں گے۔([57])

(4)رجا کے سبب بلند درجات اور مغفرت نصیب ہوتی ہے:کسی نے حضرت سیِّدُنا استادابوسہل صَعلوکی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کو انتقال کے بعد خواب میں ایسی عمدہ حالت میں


 

 دیکھا جسے بیان نہیں کیا جا سکتااور ان سے دریافت کیا کہ کس سبب سے آپ نے یہ مقام پایا؟ ارشاد فرمایا:اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی وجہ سے۔([58])   ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا، مالدار کے ساتھ نرمی کرتا اور تنگ دست کو مُعاف کردیتا۔ جب اس کی موت واقع ہوئی تو وہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّسے اس حال میں ملا کہ (مذکورہ اعمال کے علاوہ)اس نے کوئی بھی نیک عمل نہیں کیا تھا۔اللہ عَزَّ وَجَلَّنے ارشادفرمایا:ہم سے زیادہ معاف کرنے کا کون حق دار ہے؟‘‘یوں اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے اُسے عبادت کے مُعاملے میں مُفْلِس ہونے کے باجود حُسْنِ ظن اور اُمید رکھنے کے باعث بخش دیا۔([59])

(5)رجا نیک اَعمال کرنے کا باعث ہے:کہ اچھائی کی اُمید رکھنے والا اُس کے لیےعمل بھی کرتا ہے چنانچہ امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں:’’جو شخص اس بات کو جانتا ہے کہ زمین نمکین ہے اور پانی بھی کم ہے ،بیج بھی کھیتی اُگانے کی صلاحیت نہیں رکھتےتو وہ لازمی طور پر زمین کی نگرانی چھوڑدیتا ہے اور اس کی دیکھ بھا ل میں خود کو تھکاتا نہیں ہے ۔ اُمید اس لئے محمود ہے کہ وہ عمل پر اُ کساتی ہے اور مایوسی جو کہ اُمید کی ضد ہے اس لئے مذ موم ہے کہ وہ عمل سے روک دیتی ہے۔جسے اُمید کی حالت میسر ہو تی ہے وہ اَعمال کے ساتھ طویل مجا ہدہ کر لیتا ہے اور اُسےعبادات پر پابندی نصیب ہو جاتی ہے اگرچہ اَحوال میں تبدیلی ہو تی رہے۔‘‘([60])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 


 

(29)مَحَبَّتِ اِلٰہی

محبت اِلٰہی کی تعریف:

طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہوجانا محبت کہلاتا ہے۔([61]) اور محبت الٰہی سے مراد اللہ  عَزَّ وَجَلَّکا قرب اور اس کی تعظیم ہے۔([62])

حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی محبت الٰہی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’بندے کی اللہ عَزَّ وَجَلَّسے محبت وہ ایک صفت ہے جو فرماں بردار مؤمن کے دل میں ظاہر ہوتی ہے جس کا معنیٰ تعظیم وتکریم بھی ہےیہاں تک کہ بندہ محبوب کی رضا طلب کرنے میں لگا رہتا ہے اور اس کے دیدار کی طلب میں بے خبر ہوکر اس کی قربت کی آرزو میں بے چین ہوجاتا ہے اور اسے اُس کے بغیر چین وقرار حاصل ہی نہیں ہوتا۔اس کی عادت اپنے محبوب کے ذکر کے ساتھ ہو جاتی ہے اور وہ بندہ غیر کے ذکر سے دور اور متنفر رہتا ہے۔وہ تمام طبعی رغبتوں وخواہشوں سے جدا ہوکر اپنی خواہشات سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،وہ غلبَۂ محبت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہےاور خُدا کے حکم کے آگے سر جھکادیتا ہے اور اسے کمال اوصاف کے ساتھ پہچاننے لگتا ہے۔‘‘([63])

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-) (پ۲، البقرۃ: ۱۶۵) ترجمۂ کنزالایمان:’’ اور ایمان والوں کو اللہکے برابر کسی کی محبت نہیں۔‘‘


 

(حدیث مبارکہ)ایمان کیا ہے؟

حضرت سیدنا ابو رَزین عُقَیْلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ! ایمان کیا ہے؟ اِرشاد فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کا رسول تمہارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں۔‘‘([64])

محبت الٰہی کاحکم:

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’اُمت کا اِس بات پر اجماع ہے کہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّاور اس کے رسول سے محبت کرنا فرض ہے۔‘‘([65])

(31)(حکایت) سیدنا معروف کرخی عَلَیْہِ الرَّحمَہ  اور محبت الٰہی:

حضرت سیدنا ابو الحسن علی بن مُوَفَّق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  بیان کرتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ مجھے جنت میں داخل کیا گیا ہے تو میں نے وہاں ایک شخص کو دسترخوان پر بیٹھے ہوئے دیکھا جس کے دائیں بائیں دو فرشتے اُسے انواع واقسام کی چیزیں کھلارہے ہیں اور وہ کھارہا ہے اور ایک شخص کو دیکھا کہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہے لوگوں کے چہروں کو دیکھ کر بعض کو داخل ہونے دیتا ہے او ر بعض کو واپس لوٹا دیتا ہے پھر میں ’’حَظِیْرَۃُ الْقُدْس‘‘کی جانب بڑھا تو عرش کے خیموں میں سے ایک شخص نظر آیا جو دیدارِ الٰہی میں مستغرق تھا اور آنکھ نہیں جھپکتا تھا۔میں نے (خازن جنت) حضرت رِضوان عَلَیْہِ السَّلَام سے پوچھا:یہ کون ہیں؟ جواب دیا:یہ معروف کرخی ہیں جنہوں نے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی


 

 عبادت جہنم کے خوف اور جنت کے حصول کے لیے نہیں کی بلکہ محض اس کی محبت کی وجہ سے کی،لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّنے انہیں قیامت تک اپنی طرف دیکھنے کی اجازت عطا فرمادی ہے اور دیگر افراد کے بارے میں بتایا کہ وہ حضرت سیدنا بشر حافی اور حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا ہیں۔([66])

محبت الٰہی پیدا کرنےکے نو(9)طریقےاور اَسباب:

(1)وجود عطا فرمانے والی ہستی سے محبت:اِنسان دیکھے کہ اس کا کمال وبقاء محض اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے ہے ۔وہی ذات اس کو عدم سے وجود میں لانے والی،اس کو باقی رکھنے والی اور اس کے وجود میں صفات کمال ،ان کے اسباب اور ان کے استعمال کی ہدایت پیدا کرکے اسے کامل کرنے والی ہےتو ایسی ذات سے ضرور محبت رکھنی چاہئے۔

(2)اپنے محسن سے محبت:جس طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّکو پہچاننے کا حق ہے اگر بندہ اس طرح اُسے پہچانے تو ضرور جان جائے گا کہ اس پر احسان کرنے والا صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی ہےاور محسن سے محبت فطری ہوتی ہےلہٰذا   اللہ  عَزَّ وَجَلَّسے محبت رکھنی چاہئے۔

(3)جمال والے سے محبت: اللہ  عَزَّ وَجَلَّجمیل ہے جیساکہ حدیث پاک میں ہے: ’’اِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّجمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔‘‘([67])  اورجمال والے سے محبت فطری اور جبلی ہے لہٰذا   اللہ  عَزَّ وَجَلَّسے محبت کا یہ بھی ایک سبب ہے۔

(4)عیوب سے پاک ذات سے محبت: اللہ عَزَّ وَجَلَّتمام عیوب ونقائص سے منزہ 


 

ہےاور ایسی ذات سے محبت کرنا اسباب محبت میں سے ایک قوی سبب ہے۔

(5)محبت الٰہی کے متعلق بزرگان دِین کے اَقوال واَحوال کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے امام ابو القاسم قشیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی کتاب ’’رسالہ قشیریہ‘‘ اور امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی کتاب ’’اِحیاء العلوم‘‘جلدپنجمکا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(6) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی نعمتوں میں غور کیجئے : انسان دیکھے کہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ جو منعم حقیقی ہے تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور وہ ہر مخلوق کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔یہ اِحساس انسان کے اندر منعم حقیقی کی محبت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

(7)اللہ عَزَّ وَجَلَّکے عدل اور فضل ورحمت میں غور کیجئے: انسان غور کرے کہ تو اسے عدل وانصاف میں سب سے بڑھ کر ذات  اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی دکھائی دے گی اور وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کافروں اور گناہ گاروں پر بھی اس کی رحمت جاری ہے باجود یہ کہ وہ اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ غوروفکر انسان کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّسے محبت پر اُبھارے گا۔

(8)محبت کی علامتوں میں غور کیجئے : علمائے کرام فرماتے ہیں: ’’بندے کی   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّجس سے محبت کرتا ہے بندہ اسے اپنی محبوب ترین چیزپرترجیح دیتا ہے اوربکثرت اس کا ذکر کرتا ہے، اس میں کوتا ہی نہیں کرتا اور کسی دو سرے کام میں مشغول ہونے کے بجائے بندے کو تنہائی اور اللہ  عَزَّ وَجَلَّ سے مناجات کرنا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔‘‘([68])

(9) اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نیک بندوں کی صحبت اور اُن سے محبت:نیک بندوں کی صحبت اور


 

ان سے محبت بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّسے محبت کرنے کا ایک ذریعہ ہےکہ نیک بندے اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی محبت کا درس دیتے ہیں اور ان کی صحبت سے دلوں میں اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی محبت پیدا ہوتی ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(30)رِضائے اِلٰہی

رضائے الٰہی کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا چاہنا رضائے الٰہی ہے۔

آیت مبارکہ:

  اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-) (پ۲، البقرۃ: ۱۶۵) ترجمۂ کنزالایمان:’’ اور ایمان والوں کو اللہکے برابر کسی کی محبت نہیں۔‘‘

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر’’صراطُ الجنان‘‘ میں ہے:’’اللہ تعالٰی کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالٰی سے محبت کرتے ہیں۔ محبت ِ الٰہی میں جینا اورمحبت ِ الٰہی میں مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی خوشی پر اپنے ربّ کی رضا کو ترجیح دینا، نرم وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہِ نیاز میں سربسجود ہونا، یادِ الٰہی میں رونا، رضائے الٰہی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے ، اللہ تعالٰی کیلئے محبت کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور اسی کی خاطر کسی سے روک لینا، نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالٰی کے سپرد کردینا، احکامِ الٰہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالٰی کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالٰی کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ


 

تعالٰی کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالٰی کے سب سے پیارے رسول و محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالٰی کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالٰی کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت ِ الٰہی میں اِضافے کیلئے اُن کی صحبت اِختیار کرنا، اللہ تعالٰی  کی تعظیم سمجھتے ہوئے اُن کی تعظیم کرنا، یہ تمام اُمور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔([69])

(حدیث مبارکہ)جنت میں بھی رضائے الٰہی کا سوال:

حضرت سیدنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ رسول اکرم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ  عَزَّ وَجَلَّجنتیوں پر تجلی فرمائے گا اور ان سے کہےگا: مجھ سے مانگو۔جنتی کہیں گے: الٰہی!ہم تجھے سے تیری رضا کاسوال کرتے ہیں۔‘‘([70]) ایک حدیث پاک میں ہے کہ رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’اے گروہِ فقراء! دل کی گہرائیوں سے اللہ  عَزَّ وَجَلَّسے راضی رہو گے تو اپنے فقر کا ثواب پاؤگے ورنہ نہیں۔‘‘([71])

رضائے الٰہی کا حکم:

ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی رضا والے کام کرے اور اس کی ناراضی والے کاموں سے بچے۔


 

(32)(حکایت)رضائے الٰہی پر راضی:

حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ مستجاب الدعوات تھے (یعنی جو دعا کرتے قبول ہوتی)۔ ایک بار مکہ مکرمہ تشریف لائے اور اس وقت آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نابینا تھے ۔لوگ دوڑتے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور ہر ایک آپ سے دعا کی درخواست کرتا اور آپ سبھی کے لیے دعا کرتے۔حضرت سیدنا عبداللہ بن سائب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں حاضر ہوا ،اس وقت نوعمر تھا۔ میں نے ان سے اپنا تعارف کرایاتو وہ مجھے پہچان گئے اور فرمایا: تم مکہ والوں کے قاری ہو؟ میں نے عرض کی:جی ہاں۔ پھر کچھ اور باتیں ہوئیں،آخر میں میںنے ان سے عرض کی: چچاجان! آپ لوگوں کےلیے دعا کرتے ہیں اپنے لیے بھی دعا کریں تاکہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّآپ کی بینائی لوٹا دے۔تووہ مسکرادیئے اور ارشاد فرمایا:’’بیٹا!میرے نزدیک ربّ تعالٰی کی رضا میری بینائی سے زیادہ اچھی ہے۔‘‘([72])

اپنے عمل میں رضائے الٰہی چاہنے کےچار(4 )طریقے:

(1)رضائے الٰہی چاہنے کے لئے اس کے فوائد اور فضائل میں غور کیجئے: سرکارِ والا تبار،بے کسوں کے مددگار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’سن لو!   اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اولیاء وہ لوگ ہیں جو اُن پانچ نمازوں کو قائم کرتے ہیں جنہیں اُس نے اپنے بندوں پر فرض فرمایا ہے اور رمضان کے روزے خالص رضائے الٰہی کے لیےرکھتے ہیں اور اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے اپنے مال کی زکوٰۃ خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور ان کبیرہ


 

 گناہوں سے بچتے ہیں جن کے ارتکاب سے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے منع فرمایا ہے۔‘‘([73])

(2)رِضائے الٰہی چاہنے کے لئے بزرگانِ دِین کے اَقوال واَحوال کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے امام ابوطالب مکی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی کتاب ’’قوت القلوب‘‘ اور امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(3)اِخلاص کے ساتھ نیک اَعمال کیجئے: ریاکاری سے بچتے ہوئے اِخلاص کے ساتھ نیک اَعمال کرنا رضائے الٰہی چاہنے والوں کے لیے بہترین ذریعہ ہےکہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اخلاص کے ساتھ کئے جانے والے عمل کو پسند فرماتا ہے اور ایسے عمل کرنے پر اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے۔

(4)ربّ کی نافرمانی اورگناہوں سے بچئے: اپنے عمل سے رضائے الٰہی چاہنے کے لیے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی اور گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری ہےکہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی کے ہوتے ہوئے اس کی رضا کیسے ممکن ہے؟

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(31)شوقِ عبادت

شوقِ عبادت کی تعریف:

سستی کو ترک کرکے شوق اور چستی کے ساتھ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی عبادت کرنا شوقِ عبادت ہے۔

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ(۳۲))(پ۲۹،


 

 القلم:۳۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’ہم اپنے ربّ کی طرف رغبت لاتے ہیں۔‘‘

(حدیث مبارکہ)اُمور دنیا ربّ تعالٰی کے ذمہ کرم پر:

حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتاہے:’’جب میں بندے کے دل میں اپنی عبادت کا شوق دیکھتا ہوں تو اس کے اُمور ِ دنیا کو اپنے ذمہ کرم پر لے لیتا ہوں ۔‘‘ ([74])

شوقِ عبادت پر تنبیہ:

ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ عبادت میں سستی کو ترک کرکے شوق اور چستی کے ساتھ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرے۔

(33) (حکایت)عبادتِ الٰہی کے شوق میں تکلیف کا احساس نہ ہوا:

ایک بزرگ کے جسم کا کوئی حصہ گل گیا اور اسے کاٹنے کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن ممکن نہ تھا تو کہا گیا کہ کچھ بھی ہوجائے نماز میں مشغولیت کے وقت انہیں عبادت الٰہی کے شوق کی وجہ سے کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا ۔چنانچہ نماز کی حالت میں ان کے بدن کا وہ حصہ کاٹ دیا گیا۔([75])

شوقِ عبادت کا ذہن بنانے اور شوق پیدا کرنے کےسات( 7)طریقے:

(1)نیک اَعمال کی معلومات حاصل کیجئے: جب تک بندے کو نیک اَعمال کا علم نہیں ہوگا اُس وقت تک اسے اُن اَعمال کو بجالانے کا شوق و ذوق اور جذبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’جنت میں لے جانے والے اعمال‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔


 

(2)نیکیوں کی جزاؤں اور گناہوں کی سزاؤں پر غور کیجئے: نیکیوں کی جزاؤں اور گناہوں کی سزاؤں پر غور کرنے سے نیکیوں کی طرف رغبت اور گناہوں سے نفرت کا ذہن بنے گا ، شوقِ عبادت حاصل ہوگا۔اس کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(3)شوقِ عبادت سے متعلق بزرگانِ دِین کے واقعات کا مطالعہ کیجئے: اس سے بھی شوقِ عبادت کا مدنی ذہن بنے گا۔اس کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ان کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: حکایتیں اور نصیحتیں، خوفِ خدا، توبہ کی روایات وحکایات۔

(4)آسان نیکیوں کی معلومات حاصل کیجئے: آسان نیکیاں بھی شوقِ عبادت پیدا کرنے میں بہت معاون ہیں، آسان نیکیوں کی معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’آسان نیکیاں‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(5)شوقِ عبادت کے حصول کی بارگاہِ الٰہی میں دعا کیجئے: دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، شوقِ عبادت کے حصول کے لیے یوں دعا کیجئے: یا الٰہی! میں تیری رضا کے لیے نیک بندہ بننا چاہتا ہوں، تو اپنی عبادت کا مجھے شوق اور ذوق عطا فرما، اپنی عبادت میں میرا دل لگادے، تجھے تیرے ان نیک بندوں کا واسطہ جو ذوق اور شوق کے ساتھ ہر وقت تیری عبادت میں مشغول رہتے ہیں مجھے بھی شوقِ عبادت عطا کردے۔آمین

دے شوق تلاوت دے ذوق عبادت

رہوں باوُضو میں سدا یاالہی

(6)اپنے آپ کو باطنی امراض سے بچائیے: باطنی اَمراض اَحکامِ اِلٰہی پر عمل کرنے میں


 

 سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں، جو شخص باطنی اَمراض کا شکار ہوجاتا ہے اُس کے دل سے عبادت کی لذت اور شوق ختم ہوجاتا ہے۔باطنی اَمراض کی معلومات ، اسباب وعلاج کی تفصیل کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’باطنی بیماریوں کی معلومات‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(7)اپنے آپ کو بری صحبت سے بچائیے: بندہ جب بری صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کی نحوست سے عبادت کی لذت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی صحبت برا بنادیتی ہے، لہٰذا برے لوگوں کی صحبت سے بچیے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا مشکبار مدنی ماحول بھی اچھی صحبت فراہم کرتاہے، آپ بھی اس مدنی ماحول سے ہردم وابستہ رہیے، اپنے علاقے میں ہونے والے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں پابندیٔ وقت کے ساتھ شرکت فرمائیے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی برکت سے پابند سنت بننے، گناہوں سے نفرت کرنے اور نیکیوں کے لیے کُڑھنے کا مدنی ذہن بنے گا۔ ہر اسلامی بھائی اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشش کرنی ہے اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ۔ اپنی اصلاح کے لیے مدنی انعامات پر عمل اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کے لیے مدنی قافلوں میں سفر کرنا ہے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ

(32)غَنا (لوگوں سے بے نیازی)

غنا کی تعریف:

جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اُس سے نااُمید ہونا غنا ہے۔([76])


 

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں فرماتا ہے: (وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَ اَقْنٰىۙ(۴۸)) (پ۲۷، النجم: ۴۸) ترجمۂ کنزالایمان:’’ اور یہ کہ اُس نے غنٰی دی اور قناعت دی ۔‘‘

(حدیث مبارکہ)مختصر سی نصیحت:

حضرت سیدنا ابو ایوب اَنصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوااورعرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ! مجھے ایک مختصر سی نصیحت فرمایئے۔ ارشاد فرمایا:’’جب تم نماز پڑھو تو زندگی کی آخری نماز سمجھ کر پڑھواور ہرگز ایسی بات نہ کروجس سے تمہیں کل معذرت کرنی پڑےاور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے مکمل ناامید ہوجاؤ ۔‘‘([77])

غنا کے بارے میں تنبیہ:

مسلمان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی ذلیل دولت سے غَنا یعنی بے نیازی برتے اور قناعت اختیار کرے۔

(34)(حکایت)قناعت اور استغناء کی دولت:

حضرت سیدنا احمد بن حسین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:میں نے حضرت سیدنا ابو عبداللہ محاملی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِی کو یہ فرماتے سنا:’’عید الفطر کے دن نمازِ عید کے بعد میں نے سوچا کہ آج عید کا دن ہے، کیا ہی اچھا ہوکہ میں حضرت سیدنا داؤد بن علی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیکی بارگاہ میں حاضر ہوکر انہیں عید کی مبارکباد دوں ،آج تو خوشی کا دن ہے، اُن سے


 

ضرورملاقات کرنی چاہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیشِ نظر میں حضرت سیدنا داؤد بن علی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِیکے گھر کی جانب چل دیا۔وہ سادگی پسند بزرگ تھے اور ایک سادہ سے مکان میں رہتے تھے ۔ میں نے وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر آنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے مجھے اندر بلا لیا۔جب میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے سامنے ایک برتن میں پھلوں اورسبزیوں کے چھلکے اور ایک برتن میں آٹے کی بُور(یعنی بھوسی) رکھی ہوئی تھی اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اسے کھا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے انہیں عید کی مبارکباد دی اور سوچنے لگا کہ آج عید کا دن ہے، ہر شخص اَنواع و اَقسام کے کھانوں کا اہتمام کر رہا ہو گا لیکن آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  آج کے دن بھی اس حالت میں ہیں کہ چھلکے اور آٹے کی بھوسی کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔میں نہایت غم کے عالم میں وہاں سے رخصت ہوا اور اپنے ایک صاحب ثروَت دوست کے پاس پہنچا ،جس کانام ’’جرجانی‘‘ مشہور تھا۔جب اس نے مجھے دیکھا توکہنے لگا:حضور! کس چیز نے آپ کو پریشان کر دیا ہے،اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کی مدد فرمائے، آپ کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے، میرے لئے کیا حکم ہے ؟میں نے کہا :اے جرجانی !تمہارے پڑوس میں اللہ  عَزَّ وَجَلَّکا ایک ولی رہتا ہے، آج عید کا دن ہے لیکن اس کی یہ حالت ہے کہ کوئی چیز خرید کر نہیں کھا سکتا۔ میں نے دیکھا کہ وہ پھلوں کے چھلکے کھا رہے تھے، تم تو نیکیوں کے معاملے میں بہت زیادہ حریص ہو، تم اپنے اس پڑوسی کی خدمت سے غافل کیوں ہو ؟یہ سن کر اس نے کہا: حضور! آپ جس شخص کی بات کر رہے ہیں وہ دنیا دار لوگوں سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔ میں نے آج صبح ہی اسے ایک ہزار درہم بھجوائے اور اپنا ایک غلام بھی ان کی خدمت کے لئے بھیجا


 

لیکن انہوں نے میرے دراہم اور غلام کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ جاؤ اور اپنے مالک سے کہہ دینا کہ تم نے مجھے کیا سمجھ کر یہ درہم بھجوائے ہیں؟ کیا میں نے تجھ سے اپنی حالت کے بارے میں کوئی شکایت کی ہے؟ مجھے تمہارے ان درہموں کی کوئی حاجت نہیں،میں ہر حال میں اپنے پروردگار  عَزَّ وَجَلَّسے خوش ہوں، وہی میرا مقصود ِاصلی ہے، وہی میرا کفیل ہے اور وہ مجھے کافی ہے ۔اپنے دوست سے یہ بات سن کر میں بہت متعجب ہوا اوراس سے کہا: تم وہ درہم مجھے دو، میں ان کی بارگاہ میں یہ پیش کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ قبول فرما لیں گے۔اُس نے فوراًغلام کو حکم دیا:ہزار ہزار درہموں سے بھرے ہوئے دو تھیلے لاؤ۔ پھر اس نے مجھ سے کہا : ایک ہزار درہم میرے پڑوسی کے لئے اور ایک ہزار آپ کے لئے تحفہ ہیں۔ آپ یہ حقیر سا نذرانہ قبول فرما لیں۔میں وہ دو ہزار درہم لے کر حضرت سیدنا داؤد بن علی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیکے مکان پر پہنچااور دروازےپردستک دی، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  دروازے پر آئے اور اندر ہی سے پوچھا: اے ابو عبداللہ محاملی! تم دوبارہ کس لئے یہاں آئے ہو؟ میں نے عرض کی : حضور! ایک معاملہ درپیش ہے، اسی کے متعلق کچھ گفتگو کرنی ہے۔پس انہوں نے مجھے اندر آنے کی اجازت عطا فرمادی میں ان کے پاس بیٹھ گیا اورپھر درہم نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔یہ دیکھ کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: میں نے تجھے اپنے پاس آنے کی اجازت دی اور تم میری حالت سے واقف ہو گئے۔میں تو یہ سمجھا تھا کہ تم میری اس حالت کے امین ہو ۔میں نے تم پر اعتماد کیا تھا، کیا اس اعتماد کاصلہ تم اس دنیوی دولت کے ذریعے دے رہے ہو ؟جاؤ !اپنی یہ دنیوی دولت اپنے پاس ہی رکھو، مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ۔ حضرت سیدنا ابو عبداللہ محاملی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی


 

فرماتے ہیں:ان کی یہ شانِ استغناء دیکھ کر میں واپس چلا آیا اور اب میری نظروں میں دنیا حقیر ہو گئی تھی۔ میں اپنے دوست جرجانی کے پاس گیا اسے سارا ماجرا سنایااور ساری رقم واپس کر دینا چاہی تو ا س نے یہ کہتے ہوئے وہ درہم واپس کر دیئے کہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی قسم ! میں جو رقم   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی راہ میں دے چکا اسے کبھی واپس نہ لوں گا لہٰذا یہ مال تم اپنے پاس رکھو اور جہاں چاہو خرچ کرو۔ پھر میں وہاں سے چلا آیا اور میرے دل میں مال کی بالکل بھی محبت نہ تھی میں نے سوچ لیا کہ میں یہ ساری رقم ایسے لوگوں میں تقسیم کر دوں گا جو شدید حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ صبر و شکر سے کام لیتے ہیں اور اپنی حالت حتی الامکان کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔([78])اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رحمت ہواور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین

غنا پیدا کرنے اور اس کا ذہن بنانے کےآٹھ( 8)طریقے:

(1)غناکے فضائل کا مطالعہ کیجئے: غنا کے متعلق تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:(۱)’’امیری زیادہ مال و اسباب سے نہیں بلکہ امیری دل کی غِنا سے ہے۔‘‘([79]) (۲)حضرت سیدنا ابو ذرغفاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہيں کہ مجھ سے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمايا: ’’اے ابو ذر! کيا تم کثرتِ مال کو غنا سمجھتے ہو؟‘‘ ميں نے عرض کی: جی ہاں! یارسولَ اللہ! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمايا: ’’کيا تم مال کی کمی کو فقرسمجھتے ہو؟‘‘ ميں نے عرض کی: جی ہاں! یارسولَ اللہ! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ


 

وَسَلَّم نے فرمايا: ’’اصل غنا تو دل کی تونگری ہے۔‘‘([80]) (۳)’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہےتواس کے نفس میں غنا اور اس کے دل میں تقویٰ ڈال دیتا ہے۔‘([81])

(2)غناسے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال واَحوال پر غور کیجئے:اس کے لیے امام ابوطالب مکی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی کتاب ’’قوت القلوب‘‘ اور امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِیکی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ اور امام ابو القاسم قشیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی کتاب ’’رسالۂ قشیریہ‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(3)اللہ عَزَّ وَجَلَّپر کامل یقین رکھیے:دنیا اور آخرت میں کامیابی کا بنیادی اُصول   اللہ عَزَّ وَجَلَّپر کامل یقین رکھنا ہےکیونکہ بے یقینی کا ایک لمحہ کامیابی کے حصول کے لیے کئی سالوں کی جانے والی محنت پر پانی پھیر دیتا ہےجبکہ جو   اللہ عَزَّ وَجَلَّپر کامل اور پختہ یقین رکھتا ہے وہ دوسروں سے بے نیاز رہتا ہےاور یہ یقین اس میں غنا کا جذبہ بیدار کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے۔

(4)غنا کی دعا کیجئے: دعا مؤمن کا ہتھیار اور عبادت کا مغز ہے ،یوں دعا کیجئے:یا ربِّ کریم!حضور نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی مبارک غنا کے صدقے مجھے بھی غنا کی دولت عطافرما۔آمین

(5)زُہد وقناعت اختیار کیجئے: زُہد دنیاسے بے رغبتی دلاتا ہے جبکہ قناعت تھوڑے پر راضی ہونے پر اُبھارتا ہے اور یہ دونوں چیزیں غنا پر معاون ثابت ہوتی ہیں کہ آدمی زُہد


 

 وقناعت اختیار کرکے دوسروں سے بے نیازہوجاتاہےاور تھوڑے پر راضی رہ کر دنیاسے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے یوں وہ زُہد وقناعت کے ساتھ غنا کی دولت بھی سمیٹ لیتا ہے۔

(6)غنا اختیار کرنے والوں کی صحبت اختیار کیجئے:کہ جس طرح بُری صحبت اثر دکھاتی ہے یوں ہی اچھی صحبت بھی اثر دکھاتی ہے کہ آدمی جب اچھی صحبت میں رہتا ہے تو اسے بھی اچھے کام کرنے کا جذبہ ملتا ہے اور وہ اچھائی کا راستہ اختیار کرنے لگتا ہے۔

(7)مال ودولت کی حرص کو ختم کیجئے: مال ودولت کی حرص کو ختم کیجئے کہ یہ انسان کےلیے بہت ہی خطرناک ہے اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے تو بسا اوقات یہ دُنیوی بربادیوں کے ساتھ ساتھ اُخروی ہلاکتوں کی طرف بھی لے جاتی ہےاور اسے ختم کرکے ہی غنا کی دولت حاصل ہوسکتی ہے۔

(8)غنا کے فوائد پر نظر کیجئے:٭جس شخص کی نظر لوگوں کے مال واسباب پر نہیں ہوتی اور وہ لوگوں سے بے نیاز ہوتا ہے تو لوگ ایسے شخص کو پسند کرتے ہیں اور اس کے استغناء کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں۔٭غنا کی دولت اختیار کرنے والا مال ودولت کی حرص سے دور ہوجاتا ہے اور خوشدلی کے ساتھ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عبادت کرتا ہے۔٭غنا اختیار کرنے والا بآسانی اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عبادت کرتا ہےاور فضول کاموں سے اجتناب کرتا ہے۔ ٭غنا کے سبب آدمی میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔٭غنا کے باعث آدمی دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ کر صرف   اللہ  عَزَّ وَجَلَّپر بھروسہ کرنے لگتا ہے۔٭غنا کے سبب زُہد وقناعت کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے۔٭غنا کی وجہ سے آدمی بخل سے دُور ہوجاتا ہے۔٭غنا کے سبب سخاوت کی دولت نصیب ہوتی ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

 (33)قبولِ حق

قبول حق کی تعریف:

باطل پر نہ اَڑنا اور حق بات مان لینا قبولِ حق ہے۔

آیت مبارکہ:

اللہ  عَزَّ وَجَلَّقرآن پاک میں فرماتا ہے: (اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا(۳)) (پ۲۹،الدھر:۳) ترجمۂ کنزالایمان:’’بے شک ہم نے اسے راہ بتائی یا حق مانتا یا ناشکری کرتا۔‘‘

(حدیث مبارکہ)قبول حق پر مجبور کرنا:

حضرت سیدنا عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم! تم ضرور نیکی کی دعوت دیتے رہنا اوربُرائی سے منع کرتے رہنا۔ ظالم کاہاتھ پکڑکراسے حق کی طرف جھکا دینا اورحق بات قبول کرنے پر اسے مجبور کر دینا۔‘‘([82]) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جب تک تم نیک لوگوں سے محبت رکھوگے بھلائی پر رہو گے اور تمہارے بارے میں جب کوئی حق بات بیان کی جائے تواسے مان لیاکروکہ حق کو پہچاننے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہوتاہے۔‘‘([83])

قبولِ حق کے بارے میں تنبیہ:

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حق بات قبول کرےکہ حق بات معلوم ہونے کے باوجود


 

انانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا فرعونیوں کا طریقہ ہے۔چنانچہ قرآنِ پاک میں فرعونیوں کے متعلق ہے:(ف فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۷۶))(پ۱۱،یونس:۷۶) ترجمۂ کنزالایمان:’’تو جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا بولے یہ تو ضرور کھلا جادو ہے۔‘‘اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر’’صراط الجنان‘‘ میں ہے:’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق بات معلوم ہوجانے کے بعد نفسانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا اور اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جو دوسروں کے دلوں میں حق بات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں فرعونیوں کا طریقہ ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو حق جان لینےکے باوجود صرف اپنی ضد اور اَنا کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے اور اس کے بارے میں دوسرو ں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے یوں لگتا ہے کہ ان کا عمل درست ہے اور حق بیان کرنے والا اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔‘([84])

(35)(حکایت)قبولِ حق کی اعلٰی ترین مثال:

حضرت سیدنا عبداللہبن مُصْعَبْ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا:’’عورتوں کا حق مہر چالیس اَوقیہ سے زیادہ نہ کرو جو زیادہ ہوگا اسے بیت المال میں جمع کردیا جائے گا۔‘‘ایک عورت بولی:’’اے امیر المؤمنین !یہ آپ کیا فرمارہے ہیں حالانکہ قرآنِ پاک میں تو اللہ  عَزَّ وَجَلَّیوں ارشاد فرماتا ہے:اور تم ایک بی بی کے بدلے دوسری بدلنا چاہو اور اُسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔‘‘ یہ سن کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے قبول


 

حق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ایک عورت نے صحیح کہا اور مرد نے خطا کی۔‘‘([85])

کاش ہم سیرتِ فاروقی پر عمل کرنے والے بن جائیں:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کاش!ہم بھی سیرتِ فاروقی پر عمل کرنے والے بن جائیں، اگر کوئی ہماری بات سے درست اختلاف کرے تو فوراً قبول کرلیں۔اس معاملے میں امیر اہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا مبارک اَنداز دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی آپ کی بات سے اختلاف رائے کرتا ہے اور بالفرض وہ درست رائے رکھتا ہے تو آپ فوراً اسے قبول فرمالیتے ہیں بلکہ اس کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے جزائے خیر کی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں، اگر بالفرض اس کی رائے درست نہ ہوتو اَحسن طریقے سے اس کی ایسی اصلاح فرماتے ہیں کہ اسے اس بات کا اِحساس ہی نہیں ہوتا کہ میری بات کو قبول نہیں کیا گیا۔

قبول حق کاذہن بنانے اور اس کی رکاوٹوں کو دور کرنے کےآٹھ(8) طریقے:

(1)قبول حق کے فوائد پر نظر کیجئے:٭حق بات قبول کرنے والے کو لوگ پسند کرتے ہیں۔ ٭حق بات قبول کرنے والا تکبر سے دور ہوتا ہےکیونکہ کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے۔([86]) ٭قبول حق عاجزی کی علامت ہے۔٭قبول حق صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے۔ ٭قبول حق کے سبب آدمی فضول بحث ومباحثہ سے بچ جاتا ہے۔٭حق بات قبول کرنے والے کی لوگوں میں قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے۔٭حق


 

 بات قبول کرنے والا جھگڑے سے بچا رہتا ہے۔٭قبول حق کے سبب آدمی عنادِ حق اور اِصرارِ باطل سے بچ جاتا ہے۔

(2)حق بات قبول نہ کرنے کے نقصانات میں غور کیجئے: ٭حق بات قبول نہ کرنے والے کو لوگ حق کی تلقین کرنے سے رُک جاتے ہیں۔٭حق بات قبول نہ کرنے والوں کو لوگ ناپسند کرتے ہیں۔٭حق بات قبول نہ کرنے والا اصرارِ باطل اور عنادِ حق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔٭حق بات قبول نہ کرنے والا تکبر میں پڑ جاتا ہے۔ ٭حق بات نہ ماننے والا جھگڑے سے نہیں بچ پاتا۔٭حق بات قبول نہ کرنے والا فضول بحث ومباحثہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔٭حق بات نہ ماننے والے کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔

(3)قبولِ حق کے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال واَحوال کا مطالعہ کیجئے: قبولِ حق کے متعلق دو فرامین بزرگانِ دِین:٭حضرت سیدنا ذوالنون مصری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:”تین چیزیں عاجزی کی علامت ہیں: (۱)نفس کا عیب پہچان کراسے چھوٹا سمجھنا(۲)اسلام کی حرمت کے سبب لوگوں کی تعظیم کرنا اور(۳)ہر ایک سے حق بات اور نصیحت کو قبول کرنا۔‘‘([87])  ٭حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں :’’عاجزی یہ ہے کہ تم حق کے آگے جھک جاؤاور اس کی پیروی کرو اور اگرتم سب سے بڑے جاہل سے بھی حق بات سنو تواسے بھی قبول کرلو۔‘‘([88])

(4)صالحین اور حق قبول کرنے والوں کی صحبت اختیار کیجئے:صالحین اور حق قبول


 

 کرنے والوں کی صحبت کی برکت سے قبول حق کا جذبہ ملے گااور باطل پر اِصرار سے آدمی بچ جائے گا۔

(5)ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھئے:جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطرے میںپڑ جائیں گےجبکہ غلط کام پر اڑےرہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا تو وہ حق بات کو قبول کرنے سے رُک جاتا ہے لہٰذا قبول حق کے لیے ضروری ہے کہ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھا جائے۔

(6)تکبر کو ختم کیجئے: قبول حق میں ایک بڑی رکاوٹ تکبر ہے کہ متکبر انسان حق بات کو جان کر بھی اسے قبول کرنے سے کتراتا ہے اور اسے اپنی بے عزتی جانتا ہے لہٰذا قبولِ حق کے لیے ضروری ہے کہ تکبر کو ختم کیا جائے۔

(7)خود پسندی کو ختم کیجئے: جو اپنی رائے یا مشورے کو حتمی اور ناقابل رد سمجھتے ہیں بعض اوقات حق بات کی تائید کرنا اُن کے لیے مشکل ہوجاتا ہے اور وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بناکر حق بات کی مخالفت شروع کردیتے ہیں لہٰذا قبول حق کے لیے ضروری ہے کہ خودپسندی کو ختم کیا جائے۔

(8)حب جاہ اور طلب شہرت کو ختم کیجئے: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بات کا حق ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود مخالفت میں اپنا باطل اور غلط موقف پیش کیا جارہا ہوتا ہے جس کاسبب حب جاہ اور شہرت کا حصول ہوتا ہے لہٰذا قبولِ حق کے لیے حب جاہ اور طلب شہرت کو ختم کرنا ضروری ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

(34)مال سے بے رغبتی

مال سے بے رغبتی کی تعریف:

مال سے محبت نہ رکھنا اور اس کی طرف رغبت نہ کرنا مال سے بے رغبتی کہلاتا ہے۔

مال سے بے رغبتی کاکمال درجہ:

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’مال سے بے رغبتی کا کمال درجہ یہ ہے کہ بندے کے نزدیک مال اور پانی برابر ہوں، ظاہر ہے کہ کثیر پانی کا انسان کے نزدیک ہونا اسے نقصان نہیں دیتا جیساکہ ساحل سمندر پر رہنے والا شخص اور نہ ہی پانی کا کم ہونا ضرر دیتا ہے جبکہ بقدرِ ضرورت پانی دستیاب ہو۔پانی ایک ایسی چیز ہے جس کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے ،انسان کا دل نہ تو کثیر پانی سے نفرت کرتا ہے اور نہ ہی راہِ فرار اختیار کرتا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ میں اس سے اپنی حاجت کے مطابق پیوں گا،  اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے بندوں کو پلاؤں گااور اس میں بخل نہیں کروں گا۔ انسا ن کے نزدیک مال کی حالت بھی یہی ہونی چاہیے کہ اس کے ہونے نہ ہونے سے اسے کوئی فرق نہ پڑے۔‘‘([89])

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: (كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵)) (پ۳۰،التکاثر:۵)ترجمۂ کنزالایمان:’’ہاں!ہاں!اگریقین کا جاننا جانتے تو مال کی محبت نہ رکھتے۔‘‘


 

(حدیث مبارکہ)موت ناپسند کیوں؟

 ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں موت کو پسند نہیں کرتا؟آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا:’’کیا تمہارے پاس مال ہے؟‘‘اُس نے کہا:جی ہاں۔ فرمایا: ’’اپنا مال آگے بھیج دو (یعنی آخرت کے لیے صدقہ کرو)،کیونکہ مؤمن کا دل اپنے مال کے ساتھ ہوتا ہے اگر اس نے اسے آگے بھیج دیا تو اس سے ملنا چاہتا ہےاور اگر پیچھے چھوڑ دے تو اس کے ساتھ پیچھے رہنا چاہتا ہے۔‘‘([90])

مال سے بے رغبتی کے متعلق تنبیہ:

حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: جس قدر مال کی ضرورت ہوتی ہے اس کا حصول ممنوع نہیں ،مال ضرورت سے زیادہ ہوتو زہر قاتل ہےجبکہ ضرورت کی مقدار ہوتو نفع بخش دوا ہے اور ان دونوں کے درمیان مختلف درجات ہیں جن کے بارے میں شبہات ہیں۔مال کی وہ مقدار جو ضرورت سے زائد کے قریب ہو وہ اگرچہ زہر قاتل نہ ہو لیکن نقصان دہ ہے اور جو مقدار ضرورت کے قریب ہو وہ اگر نفع مند دوا نہ بھی ہو تو کم نقصان دہ ہے۔ زہر کا پینا حرام اور دوا کا استعمال ضروری ہے۔([91])

(36)(حکایت)امین الامہ اور حضرت معاذ کی مال سے بے رغبتی:

ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ایک تھیلی


 

میں چار سو دینار ڈال کر غلام کو دیے اور فرمایا:’’انہیں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس لے جاؤ پھر کچھ دیر وہاں ٹھہرنا اور دیکھنا کہ وہ انہیں کہاں صرف کرتے ہیں؟‘‘چنانچہ غلام وہ تھیلی لے کر اَمیْنُ الْاُمَّہ حضرت سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس حاضر ہوا اور عرض کی:امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایاہے کہ یہ دینار اپنی کسی ضرورت میں استعمال کر لیں۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کہا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّامیر المؤمنین پر رحم فرمائے۔‘‘پھر اپنی لونڈی کو بلایا اور فرمایا:’’یہ سات دینار فلاں کو،یہ پانچ فلاں کو اور یہ پانچ فلاں کو دے آؤ۔‘‘یہاں تک کہ وہ سب کے سب دینار ختم کر دیئے۔غلام نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی خدمت میں حاضر ہوکر ساری صورتِ حال بیان کردی۔ پھر امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اتنے ہی دینار ایک اور تھیلی میں ڈال کر غلام کے حوالے کیے اور فرمایا:’’یہ حضرت مُعاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس لے جاؤ اور کچھ دیر وہاں ٹھہرنا اور دیکھنا کہ وہ انہیں کہاں صَرف کرتے ہیں؟‘‘غلام نے تھیلی لی اور حضرت سیدنا مُعاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’امیر المؤمنین فرماتے ہیں کہ اس رقم سے اپنی کوئی حاجت پوری کرلیں۔‘‘ حضرت سیدنا مُعاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے کہا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّامیر المؤمنین پر رحم فرمائے۔‘‘ پھر اپنی لونڈی کو بلاکر فرمایا: ’’اتنے درہم فلاں کے گھر،اتنے فلاں کے گھر پہنچادو۔‘‘اسی اثنا میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی زوجہ کو اس بات کا علم ہوا تو عرض کی: ’’  اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی قسم!ہم بھی مسکین ہیں ہمیں بھی عطا فرمائیں۔‘‘ اس وقت تھیلی میں صرف دو دینار باقی بچے تھے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے


 

 وہ تھیلی دیناروں سمیت اپنی اہلیہ کی طرف اُچھال دی۔ غلام امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ سنایاجسے سن کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبہت خوش ہوئے۔([92])

مال سے بے رغبتی کا ذہن بنانے اور اسے اختیار کرنے کےنو( 9)طریقے:

(1)مال سے بے رغبتی کے فضائل میں غور کیجئے:٭حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے ارشاد فرمایا:’’اللہ  عَزَّ وَجَلَّسے فقیر ہونے کی حالت میں ملنا ،مال دار ہوکر نہ ملنا۔‘‘([93])٭ایک حدیث پاک میں ہےکہ’’جو شخص دنیا سے بے رغبتی اختیارکرتا ہےاللہ عَزَّ وَجَلَّاس کے دل میں حکمت داخل فرماکر اس کی زبان پر جاری فرمادیتا ہے، اسے دنیا کی بیماری اور اس کے علاج کی پہچان عطا فرماتا ہے اور اسے دنیا سے صحیح سلامت نکال کر سلامتی کے گھر (یعنی جنت کی طرف) لے جاتا ہے۔‘‘([94])

(2)مال سے بے رغبتی کےمتعلق اقوال بزرگانِ دین میں غورکیجئے: امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے اپنی ہتھیلی میں ایک درہم رکھا پھر فرمایا: ’’تو جب تک مجھ سے دور نہیں ہوگا مجھے نفع نہیں دے گا۔‘‘ ٭ حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی قسم!جو شخص روپے پیسے کی عزت کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّاسے ذلیل کرتا ہے۔٭حضرت سیدنا سمیط بن عجلان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:درہم اور دینار منافقوں کی لگامیں ہیں وہ ان کے ذریعے دوزخ کی طرف


 

 کھینچے جائیں گے۔([95])

(3)مال کی طرف رغبت کرنے کے نقصانات میں غور کیجئے:3فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: (۱)’’مال اور جاہ کی محبت دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی سبزی اُگاتا ہے۔‘‘([96])  (۲)’’بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑے گئے دو بھوکے بھیڑیئے اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا نقصان جاہ ومنصب اور مال کی محبت مسلمان آدمی کے دِین میں کرتی ہے۔‘‘([97]) (۳) ’’روپے پیسے کا پجاری ملعون ہے۔‘‘([98])

(4)مال سے بے رغبتی کے متعلق بزرگان ِ دین کے احوال کا مطالعہ کیجئے: ٭مروی  ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا زینب بنتِ جَحْشرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف عَطِیّات بھیجے، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ لانے والوں نے کہا: یہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے آپ کےلئے بھیجے ہیں۔ فرمایا:   اللہ عَزَّ وَجَلَّان کی مغفرت فرمائے، پھر ایک پردہ کھینچا اور اسے پھاڑ کر تھیلیاں بنائیں اور وہ تمام مال اپنےگھر والوں ، رشتہ داروں اور یتیموں میں تقسیم کردیا، اس کے بعد ہاتھ اٹھاکردعا مانگی: اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ!اس سال کے بعد مجھے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا عَطِیَّہ نہ پہنچے۔ لہٰذارسولِ اَکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے وِصال کے بعد ازواجِ مُطَہَّرات میں سب سے پہلے آپ کا انتقال ہوا۔([99])٭ایک


 

مرتبہ حضرت سیدنا کَعْب قُرَظَی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِی کو بہت مال ملا تو آپ سے کہا گیا: کیاہی اچھا ہو اگر آپ اپنے بعد اپنی اولاد کے لیےاسے ذخیرہ کر لیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں! بلکہ میں اسے اپنے لئے اپنے ربّ  عَزَّ وَجَلَّکے پاس ذخیرہ کروں گا اور اپنی اولاد کو اپنے ربّ  عَزَّ وَجَلَّکے سپرد کروں گا۔([100])

(5)مال سے بے رغبتی حضور خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا طریقہ ہے: حضرت سیدنا ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا:’’مجھےمیرے ربّ نے اس بات کی پیشکش کی کہ وہ میرے لیے وادیٔ مکہ کو سونے کا بنادے لیکن میں نے عرض کی:اے میرے ربّ  عَزَّ وَجَلَّ! میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانا کھاؤں،جس دن بھوکا رہوں اس دن تیری بارگاہ میں عاجزی اور دعا کروں اور جس دن کھانا کھاؤں اس دن تیری حمد وثنا اورشکربجا لاؤں۔‘‘([101])

(6)مال سے بے رغبتی کے فوائد میں غور کیجئے:٭مال سے بے رغبتی زہد وقناعت پیدا کرتی ہے۔٭مال سے بے رغبتی نیک اَعمال میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ ٭مال سے بے رغبتی کے باعث آدمی حرص وطمع سے بچ جاتا ہے۔٭مال سے بے رغبتی سادگی پیدا کرتی ہے۔٭مال سے بے رغبت شخص کو لوگ پسند کرتے ہیں۔٭مال سے بے رغبتی تقویٰ پر اُبھارتی ہے۔٭مال سے بے رغبتی انبیائے کرام عَلَیْہِ السَّلَام اور بزرگانِ دِین کا


 

طریقہ ہے۔٭مال سے بے رغبتی کے سبب آدمی بخل سے بچ جاتا ہے۔٭مال سے بے رغبتی  کے باعث آدمی مال جمع کرنے کی آفت سے بچ جاتا ہے۔

(7)مال سے بے رغبتی کے لئے اس کی آفات اور ہلاکتوں میں غور کیجئے: ٭ مال آدمی کو گناہ کے راستے پر ڈال دیتا۔٭ عموماً مال کےسبب آدمی عیش وعشرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔٭مال آخرت سے غافل کردیتا ہے۔٭مال کے باعث اِنسان حرص وطمع میں پڑجاتا ہے۔٭مالدار آدمی کو اپنے مال کی حفاظت کی فکر لگی رہتی ہے۔٭مال کے سبب آدمی لمبی امیدوں اور خواہشات کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے۔٭زیادہ مال والے کو اپنے مال کا حساب بھی زیادہ دینا پڑے گا۔٭زیادہ دیر تک میدان محشر میں کھڑا رہنا پڑے گا۔٭اپنے مال کی زکوٰۃنہ دینے والے کو آخرت میں طرح طرح کے عذابات کا سامناہوگا۔٭مال کی رغبت آدمی کو فعل حرام میں بھی مبتلا کردیتی ہے۔٭مالدار کے ذمہ لوگوں کے بہت سے حقوق ہوتے ہیں۔٭مالداری آدمی کو ناشکری میں ڈال دیتی ہے۔ ٭مالدار ی سرکشی کا باعث بھی بنتی ہے ۔

(8)مال ودولت کی حرص کا خاتمہ کیجئے:دُنیوی مال کی حرص مؤمن کے لئے بہت ہی خطرناک ہے اگر اس کی روک تھام نہ کی جائےتو بسا اوقات یہ دُنیوی بربادیوں کے ساتھ ساتھ اُخروی ہلاکتوں کی طرف بھی لے جاتی ہے ،لہٰذا اسے ختم کرکے مال سے بے رغبتی اور زُہد اختیار کیجئے۔

(9)قیامت کے حساب وکتاب سے خود کو ڈرایئے:ضرورت اور حاجت سے زائد مال کمانا اگرچہ جائز ہے لیکن یاد رکھیے جس کا مال جتنا زیادہ ہوگا قیامت کے روز اس کا


 

 حساب وکتاب بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔زیادہ مال ودولت والے کو کل بروزِ قیامت دُشواری اور تکلیف کا سامنا ہوگا اوراُسے دیر تک میدان محشر میں ٹھہرنا پڑے گا جبکہ کم مال والاجلدی جلدی حساب وکتاب سے فارغ ہوجائے گا،لہٰذا قیامت کے حساب وکتاب سے خود کو ڈرایئے ،اس سے بھی مال سے بے رغبتی اختیار کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (35)غِبْطَہ (رشک)

غبطہ کی تعریف:

کسی شخص میں کوئی خوبی یا اس کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ مجھے بھی یہ خوبی یا نعمت مل جائے اور اس شخص سے اس خوبی یا نعمت کے زوال کی خواہش نہ ہو تو یہ غبطہ یعنی رشک ہے۔([102])

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآن میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ فِیْ ذٰلِكَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَؕ(۲۶)) (پ۳۰، المطففین:۲۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اسی پر چاہیے کہ للچائیں للچانے والے۔‘‘

(حدیث مبارکہ)دو شخصوںپررشک:

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’دو آدمیوں کے علاوہ کسی پر حسد (یعنی رشک)  کرنا جائز نہیں، ایک وہ شخص جسے اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے مال عطا فرمایا اور اُسے صحیح راستے میں خرچ کرنے


 

 کی قدرت عطا فرمائی اور ایک وہ مرد جسے اللہ تعالٰی نے علم عطا کیا تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کی تعلیم دے۔‘‘([103])

غبطہ (رشک) کا حکم:

رشک بعض صورتوں میں واجب، بعض میں مستحب اور بعض میں مباح ہے۔٭ اگر کوئی نعمت دینی ہو اور واجب ہو مثلاً ایمان، نماز اور زکوٰۃ تو ایسی نعمت پر رشک کرنا بھی واجب ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ بندہ اپنے لیے بھی ایسی ہی نعمت پسند کرے اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ گناہ پر راضی ہوگا اور یہ حرام ہے۔٭ اگر نعمت ایسی ہو جو فضائل سے تعلق رکھتی ہو مثلاً اچھے کاموں میں مال خرچ کرنا اور صدقہ و خیرات وغیرہ کرنا تو ایسی نعمت پر رشک کرنا مستحب ہے۔ اگر نعمت ایسی ہو جس سے فائدہ اُٹھانا جائز ہو تو اس پر رشک کرنا مباح ہے۔ ان تمام صورتوں میں اس کا اِرادہ اس شخص کے مساوی ہونا اور نعمت میں اس کے ساتھ شریک ہونا ہے، نعمت کا اس کے پاس ہونا ناپسند نہیں۔گویا یہاں دو باتیں ہیں: ایک یہ کہ جس کے پاس نعمت ہے وہ نعمت کے سبب راحت میں ہے اور دوسری یہ کہ جو اِس نعمت سے محروم ہے وہ اِس کی وجہ سے نقصان میں ہے۔ رشک کرنے والا پہلی بات کو ناپسند نہیں کرتا بلکہ اپنا محروم ہونا اور پیچھے رہ جانا ناپسند کرتا اور نعمت والے کی برابری چاہتا ہے اور اِس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان مباح اشیاء میں اپنے نقصان اور پیچھے رہنے کو ناپسند جانے۔ البتہ اس طرح فضائل میں کمی ضرور آتی ہے کیونکہ اس طرح کی باتیں زُہد، توکل اور رضا کے خلاف اور اعلیٰ مقامات کے حصول میں رکاوٹ ہیں تاہم گناہ کا باعث نہیں۔([104])


 

(37)(حکایت)صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کا رشک:

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ فقراء مہاجرین رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر (مالدار مسلمانوں پر رشک کرتے ہوئے) بولے کہ مالدار بڑے درجے اور دائمی نعمت لے گئے۔ فرمایا: یہ کیسے؟ عرض کیا: جیسے ہم نمازیں پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں اور (مالدار ہونے کے سبب) وہ خیرات کرتے ہیں (لیکن فقراء ہونے کے سبب) ہم نہیں کرتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں، ہم نہیں کرتے۔ تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں وہ چیز نہ سکھاؤں جس سے تم آگے والوں کو پکڑلو اور پیچھے والوں سے آگے بڑھ جاؤ اور تم سے کوئی افضل نہ ہو سوائے اس کے کہ جو تمہاری طرح کرے۔عرض کی: جی ہاں یارسولَ اللہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ارشاد فرمایا: ”ہر نماز کے بعد ۳۳،۳۳ بار سُبْحَانَ اللہ،اَللہُ اَکْبَراوراَلْحَمْدُلِلّٰہکہہ لیا کرو۔‘‘([105])

رشک کرنے کے چار(4) مواقع:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کسی بھی مباح کام میں رشک کرنا حرام نہیں لیکن انسان کو ایسی چیزوں پر رشک کرنا چاہیے جس پر رشک کرنے سے اسے ثواب ملے۔مثلاً:

(1)اہل علم پر رشک کرنا چاہیے: علم ایک ایسی نعمت ہے جس کی بدولت انسان کو معاشرے میں امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے، انسان کو چاہیے کہ وہ علماء پر رشک کرے کیونکہ ان کے پاس وہ نعمت ہے جو خرچ کرنے سے بڑھتی ہے اور اسی نعمت کے سبب انسان


 

 اشرف المخلوقات ہے اور یہ نعمت دنیا و آخرت میں بندے کو سرفراز کرتی ہے تو جس کے پاس یہ نعمت ہے حقیقت میں وہی قابل رشک ہے۔

(2)سخاوت کرنے والے پر رشک کرنا چاہیے: دنیا میں مالداروں کی کمی نہیں لیکن ایسے مالدار لوگ بہت ہی کم ہیں کہ جو اپنے مال کو بخوشی   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی راہ میں خرچ کرتے ہوں۔ مسلمان کو چاہیے کہ سخاوت کرنے والوں پر رشک کرے کیونکہ حلال مال حاصل ہونا ایک نعمت ہے اور پھر اس مال کو کھلے دل سے اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی راہ میں خرچ کرنا دوسری نعمت، حلال مال تو بہت سوں کو مل جاتا ہے لیکن سخاوت کی نعمت خاص لوگوں کا ہی مقدر بنتی ہے۔

(3)اچھی صفات کے حامل شخص پر رشک کرنا چاہیے: دنیا کی ظاہری نعمتیں تو کئی افراد کو میسر ہوتی ہیں لیکن باطنی صفات کی نعمت ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی۔ اچھا لباس، بہترین رہائش، مال و دولت اور طرح طرح کی دنیاوی نعمتیں بہت سے لوگوں کے پاس ہیں مگر صبر، توکل، قناعت، عاجزی و انکساری، تواضع اور دیگر باطنی خصائل کی نعمت سے بہت کم لوگ متصف ہیں، اچھے لباس و سکونت اور دیگر دنیاوی نعمتوں پر رشک کرنا اگرچہ گناہ کا باعث نہیں لیکن اُن نعمتوں پر رشک کرنے سے فضائل میں کمی آتی ہے اور اُن نعمتوں سے دنیا میں فائدہ حاصل ہوتا ہے جبکہ صبر، توکل، قناعت وغیرہ ایسی صفات ہیں جن پر رشک کرنے سے انسان کا مرتبہ بلند ہوتا ہے اور یہ دنیا و آخرت میں بندے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔

(4)شہید پر رشک کرنا چاہیے: اس دار فانی سے ہر انسان کو کوچ کرنا ہے، بعض لوگوں کی موت تو بڑی عبرت ناک ہوا کرتی ہے، کچھ لوگ گناہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اُتار دئیے جاتے ہیں مگر بعض خوش نصیب اس طرح سفر آخرت پر روانہ ہوتے


 

ہیں کہ ہر ایک حسرت کرتا ہے کہ کاش! مجھے بھی اسی طرح موت آئے، شہادت کی موت بھی   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی ایسی عطا ہے جس کی ہر مسلمان تمنا کرتا ہے اور شہید کو  اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں جو اعلیٰ مقام حاصل ہے اس کے پیش نظر ہر مسلمان کو شہید پر رشک کرنا چاہیے۔

رشک کرنے کا جذبہ حاصل کرنے کے تین (3)طریقے:

(1)رشک کرنے کے ثواب پر غور کیجئے: دینی امور میں رشک کرنے کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے رشک کے اجر پر غور کرنا چاہیے کیونکہ بندہ جس نیک عمل پر سچے دل سے رشک کرتا ہے اسے اس پر ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ مثلاً: کسی کو حج پر جاتے ہوئے دیکھ کر رشک کرنا کہ مجھے بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّاتنا مال عطا فرمادے کہ میں بھی اس مسلمان بھائی کی طرح حج کرسکوں یا کسی غریب مسلمان کا کسی کو خیرات کرتا دیکھ کر رشک کرنا کہ  اللہ  عَزَّ وَجَلَّمجھے بھی مال عطا فرمادے تاکہ میں بھی اس مسلمان کی طرح راہ خُدا میں خرچ کر سکوں، اسی طرح ہر نیک کام پر رشک کرکے بندہ اپنے آپ کو اس کے ثواب کا مستحق بنا سکتا ہے۔حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: ’’ایک شخص وہ ہے جسے اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے مال اور علم عطا فرمایا اور وہ اس میں اپنے ربّ سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالٰی کے حق کو جانتا ہے، یہ شخص سب سے افضل مرتبہ میں ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جسے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے علم دیا، مال نہیں دیا، یہ شخص سچی نیت کے ساتھ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں کی طرح عمل کرتا پس یہ اس کی نیت ہے اور ان دونوں کا ثواب برابر ہے۔‘‘([106])

(2)اس بات پر غور کیجئے کہ رشک حسد سے بچاتا ہے: یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان


 

 جب کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی اس کے حصول کی خواہش پیدا ہوتی ہے اگر انسان دوسروں کو ملنے والی نعمتوں پر رشک نہیں کرے گا تو ممکن ہے کہ وہ حسد میں مبتلا ہو جائے اور حسد بہت بڑا گناہ ہے۔ رشک، حسد سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’رشک ایمان سے ہے اورحسد نفاق سے، مؤمن رشک کرتا ہے حسد نہیں کرتا اور منافق حسد کرتا ہے رشک نہیں کرتا۔‘‘([107])

(3)رشک کرنے کے سبب نیک اَعمال میں رغبت: انسان کسی چیز پر اسی حال میں رشک کرتا ہے جبکہ اس کے دل میں اس چیز کی اہمیت اور طلب ہوتی ہے اور انسان کے دل میں جس چیز کی اہمیت و طلب نہیں ہوتی وہ اس پر رشک بھی نہیں کرتا تو بندہ اپنے دل میں کسی کی اچھائی پر اسی صورت میں رشک کرے گا جبکہ اس کے دل میں اس اچھائی کی طلب ہوگی اور جب نیکی کی طلب ہوگی تو یقیناً پھر وہ اس نیک کام کو کرنے کی بھی خوب کوشش کرے گا اور اس طرح وہ مختلف نیک اَعمال کی طرف راغب ہوگا لہٰذا دوسروں کے نیک اَعمال پر رشک کرنا چاہیے تاکہ خود بھی وہ نیکیاں کرنے کا جذبہ بندے میں پیدا ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ نیک اَعمال کرنے کی کوشش کرتا رہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (36) محبت مسلم

محبت مسلم کی تعریف:

’’کسی بندے سے صرف اس لیے محبت کرے کہ ربّ تعالٰی اس سے راضی ہوجائے،


 

 اس میں دنیاوی غرض ریا نہ ہو، اس محبت میں ماں باپ، اولاد اہل قرابت مسلمانوں سے محبت سب ہی داخل ہیں جب کہ رضائے الٰہی کے لیے ہوں۔‘‘([108])

آیت مبارکہ:

اللہ  عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

(وَ  اعْتَصِمُوْا  بِحَبْلِ  اللّٰهِ  جَمِیْعًا  وَّ  لَا  تَفَرَّقُوْا۪-وَ  اذْكُرُوْا  نِعْمَتَ  اللّٰهِ  عَلَیْكُمْ  اِذْ  كُنْتُمْ  اَعْدَآءً  فَاَلَّفَ  بَیْنَ  قُلُوْبِكُمْ  فَاَصْبَحْتُمْ  بِنِعْمَتِهٖۤ  اِخْوَانًاۚ-)(پ۴، آل عمران:۱۰۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اللہ کی رسّی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں بٹ نہ جانا)اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا (دشمنی تھی) اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے۔‘‘

حُجَّۃُ الْاِسْلَامحضرتِ سَیِّدُنا امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: اس آیت مبارکہ میں ’’اِخْوَانًا یعنی بھائی ہونے‘‘سے مراد الفت و محبت قائم ہونا ہے۔([109])

(حدیث مبارکہ)محبت رکھنے والوں کا انعام:

(1)حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’اللہ  عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا: میرے جلال کی خاطر آپس میں محبت رکھنے والے کہاں ہیں؟ آج کے دن میں انہیں اپنے عرش کے سائے میں جگہ دوں گاجبکہ میرے عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہیں۔‘‘([110]) (2)حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمارشاد فرماتے ہيں


 

کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے ارشاد فرمایا: ’’میرے جلال کی خاطر آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نور کے ایسے منبر ہوں گے کہ انبیاء (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔‘‘([111])

محبت مسلم کا حکم:

رضائے الٰہی کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور دین کے خاطر بھائی چارہ قائم کرنا افضل ترین نیکی اور اچھی عادت ہے۔ البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں جن کی رعایت کرنے سے آپس میں دوستی رکھنے والے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی خاطر محبت کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ نیز ان شرائط کی رعایت کرنے سے بھائی چارہ کدورتوں کی آمیزش اور شیطانی وسوسوں سے پاک و صاف رہتا ہے جبکہ اس کے سبب انسان کو   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکا قرب حاصل ہوتا ہے اور ان پر محافظت کرنے سے اسے بلند اور اعلیٰ درجات حاصل ہوتے ہیں۔([112]) اللہکے واسطے کسی سے محبت کرنا بہترین نیکی ہے اور ایسی محبت اللہ تعالٰی کی محبت کا ذریعہ ہے۔([113])

)38((حکایت)اللہ کے لیے بھائی سے محبت کا صلہ:

حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشادفرمایا:’’ایک شخص اپنے ایک مسلمان بھائی سے ملاقات کے لیے دوسری بستی کی طرف چلا تو اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے اس کے راستے میں ایک فرشتہ مقرر فرمادیا جب وہ اس کے پاس پہنچا تو فرشتے نے پوچھا : کہاں کا اِرادہ ہے؟ اس نے کہا: اس بستی میں میرا ایک دینی بھائی ہے اس کے پاس جارہاہوں۔


 

 فرشتے نے کہا: کیا تجھ پر اس کا کوئی احسان ہے جس کابدلہ دینے جارہے ہو۔ اس نے کہا: نہیں، بلکہ میں اس سے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا کے لیے محبت کرتا ہوں۔ فرشتے نے کہا: ’’بے شک ! میں اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے تیرے لیے یہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تو اس سے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے لیے محبت کرتا ہے ایسے ہی اللہ  عَزَّ وَجَلَّبھی تجھ سے محبت فرماتاہے۔‘‘([114])

محبت مسلم کا جذبہ پیدا کرنے کے چار (4) طریقے:

(1)مسلمانوں سے محبت کے فضائل پر غور کیجئے: مسلمانوں سے محبت کرنے کاجذبہ پیدا کرنے کے لیے محبت مسلم کے فضائل پر غور کرنا چاہیے کیونکہ جب انسان کو کسی عمل کی فضیلت معلوم ہوتی ہے تو اس کا دل اس عمل کی طرف مائل ہوتا ہے اور وہ عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے لہٰذا اپنے دل میں مسلمانوں کی محبت پیدا کرنے کے لیے اس کے فضائل پر غور کیجئے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابو ادریس خولانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی نے حضرت سیدنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے عرض کی: ’’میں اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی رضا کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ حضرت سیدنا معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا: ”تمہیں مبارک ہو، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کویہ فرماتے سنا کہ ’’قیامت کے دن بعض لوگوں کے لیے عرش کے گِرد کُرسیاں نصب کی جائیں گی، ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوں گے، لوگ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے جبکہ انہیں کوئی گھبراہٹ نہ ہوگی، لوگ خوفزدہ ہوں گے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا، وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے دوست ہیں جن پر نہ کوئی اندیشہ ہے نہ کچھ غم۔‘‘ عرض کی گئی: ’’یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ! یہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا:


 

’’اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی رضا کے لیے آپس میں محبت کرنے والے۔‘‘([115])  

(2)سلام و مصافحہ کی عادت بنائیے: سلام و مصافحہ کرنا حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ایسی پیاری سنت ہے کہ جس پر عمل کرنے سے معاشرے میں محبت بڑھتی ہے اور دل ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں، حدیث پاک میں بھی سلام کو محبت پیدا کرنے کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ارشاد فرمایا: ’’تم جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ اور تم (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ ‘‘پھر ارشاد فرمایا: ’’آپس میں سلام کو عام کرو۔‘‘([116])

(3)حسن اَخلاق اپنائیے: حسن اَخلاق کےسبب باہم اُلفت و محبت اور موافقت پیدا ہوتی ہے جبکہ بداَخلاقی کے سبب آپس میں بغض و کینہ، حسد اور جدائی پیدا ہوتی ہے۔ حسن اَخلاق کی صفت سے متصف شخص سے ہر ایک میل میلاپ رکھنا پسند کرتا ہے جبکہ بداَخلاق سے ہر کوئی کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اگر بندہ حسن اَخلاق کا دامن چھوڑدے اور بداخلاقی سے پیش آئے تو اپنے بھی دوری اختیار کرلیتے ہیں لہٰذا مسلمانوں سے محبت کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔

(4)مسلمانوں سے کینہ رکھنے کی وعیدوں پر غور کیجئے: اپنے دل کو مسلمانوں کی محبت کا گلشن بنانے کے لیے مسلمانوں سے بغض و کینہ رکھنے کی وعیدوں پر غور کرنا چاہیے کیونکہ


 

 جب دل میں کینہ ہوتا ہے تو انسان حسد، غیبت اور بہتان تراشی جیسے کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا جب انسان کی نظر میں کینہ پروری کی وعیدیں ہوں گی تو وہ اپنے دل کو بغض و کینہ سے پاک رکھنے کی کوشش کرےگا اور جب دل بغض سے پاک ہوگا تو یقینی طورپر دل میں مسلمانوں کی محبت گھر کرے گی۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(37)اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا

اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّکے پوشیدہ اَفعال سے واقع ہونے والے بعض اَفعال کو اس کی خفیہ تدبیر کہتے ہیں اور اس سے ڈرنا اللہکی خفیہ تدبیر سے ڈرنا کہلاتا ہے۔([117]) 

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:) اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۠(۹۹) ( (پ۹،الاعراف:۹۹)ترجمۂ کنز الایمان: ’’کیا اللہکی خَفی تدبیر سے نڈر ہیں تو اللہ کی خَفی تدبیر سے نڈر نہیں ہوتے مگر تباہی والے۔‘‘

صَدرُالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس آیت مبارکہ تحت فرماتے ہیں: ’’اور اس کے مخلص بندے اس کا خوف رکھتے ہیں۔ ربیع بن خثیم کی صاحبزادی نے ان سے کہا: کیا سبب ہے میں دیکھتی ہوں سب لوگ سوتے ہیں اور آپ نہیں سوتے ہیں؟ فرمایا: ’’اے نورِ نظر! تیرا باپ شب کو سونے سے ڈرتا ہے


 

 یعنی یہ کہ غافل ہو کر سوجانا کہیں سبب عذاب نہ ہو۔‘‘([118])

(حدیث مبارکہ)گناہ پر قائم رہنے والے کے بارے میں خفیہ تدبیر:

حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ارشاد فرمایا: جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّاسے اس کی خواہش کے مطابق عطا فرماتاہے حالانکہ وہ اپنے گناہ پر قائم ہے تو یہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے ڈھیل ہے۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(۴۴)) (پ۷،الانعام:۴۴)) ترجمۂ کنزالایمان :پھر جب انہو ں نے بھلادیا جو نصیحتیں اُن کو کی گئیں تھیں ہم نے اُن پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جب خوش ہوئے اس پر جو انہیں ملاتو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیااب وہ آس ٹو ٹے رہ گئے۔([119])

اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کا حکم:

اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے گناہوں میں مستغرق ہوجانا اور اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہونا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘([120]) لہٰذا ہر مسلمان پر   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر سے ڈرنا واجب ہے۔

(39)(حکایت)اللہ کی خفیہ تدبیر سے پناہ:

حضرتِ سیدنا قاسم بن محمد بن ابوبکر عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْبَر سے منقول ہے کہ جنگ قادسیہ


 

کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے امیر المؤمنین، خلیفۃالمسلمین حضرتِ سیِّدُناعمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی طرف کسریٰ (یعنی ایران کے بادشاہ) کی تلوار، قمیص، تاج، پٹکا اور دیگر اشیاء بھیجیں۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرتِ سیِّدُناسُرَاقَہ بن مالِک بن جُعْشُم مُدْلِجِی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبھی موجود تھے، وہ بہت طاقتوراور طویل القامت تھے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا: ’’اے سُرَاقَہ! اٹھو اور یہ لباس پہن کر دکھاؤ ۔‘‘حضرتِ سیِّدُنا سُرَاقَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ میرے دل میں پہلے ہی خواہش تھی۔ چنانچہ میں کھڑا ہوا اور شاہِ ایران کا لباس پہن لیا۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے مجھے دیکھاتو فرمایا: ’’اب دوسری جانب منہ کرو۔‘‘ میں نے ایسا ہی کیا۔ فرمایا:’’ اب میری طرف منہ کرو۔‘‘ میں آپ کی طرف مُڑگیا توفرمایا: ’’واہ بھئی واہ ! قبیلہ مُدْلِج کے اس جوان کی کیا شان ہے! دیکھو تو سہی، شاہِ ایران کا لباس پہن کر، اس کی تلوارگلے میں لٹکا کر کیسالگ رہا ہے! اےسُرَاقَہ! اب جس دن تونے شاہِ ایران کا لباس پہنا وہ دن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے شرف والا تصور کیا جائے گا، اچھا! اب یہ لباس اُتار دو۔‘‘ پھر امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بارگاہِ خدا وندی  عَزَّ وَجَلَّ میں اس طرح عرض گزار ہوئے: ’’اے میرے پاک پروردگار  عَزَّ وَجَلَّ!تُونے اپنے نبی ورسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو اس (دُنیوی مال) سے منع فرمایا، حالانکہ وہ تیری بارگاہ میں مجھ سے کہیں زیادہ محبوب ہيں اور مجھ سے بہت زیادہ بلند وبالا ہیں۔ پھر تُونے امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو بھی اس (مال) سے منع فرمایا، حالانکہ وہ تیری بارگاہ میں مجھ سے زیادہ بلند مرتبے والے ہيں ۔پھر تُونے مجھے مال عطا فرما دیا۔ اے


 

 ميرے پاک پر وردگار عَزَّ وَجَلَّ! اگر تیری طر ف سے یہ خفیہ تدبیر ہے تومیں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن عَوْف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے فرمایا: ’’شام سے قبل اس تمام مال کو غرباء میں تقسیم کردو۔‘‘([121])

اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کا ذہن بنانے کے چھ (6)طریقے:

(1)انبیاء و اولیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے احوال پر غور کرنا چاہیے: اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر سے انبیاء کرام عَلَیْہِ السَّلَام ، فرشتے اور اولیاء کرام بھی خوف زدہ رہتے ہیں، اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے نبی اور فرشتے معصوم ہیں، ان سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی ممکن نہیں جبکہ ہم سراپا خطا ہیں، ہمارے جسم کا ہر ذرہ گناہوں سے آلودہ ہے، ہماری زندگی کا بہت بڑا حصہ غفلت میں گزر رہا ہے جبکہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام اور فرشتوں کا ہر لمحہ خدا کی بندگی میں بسر ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر سے غافل نہ ہوں اور ہم ہر وقت ربّ  عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی اور سرکشی میں منہمک ہونے کے باوجود اپنے بارے میں مطمئن رہیں، بلاشبہ یہ ہمارے لیے نہایت خطرے کی بات ہے، ہمیں ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ چنانچہ منقول ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   اور حضرت سیدنا جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّ وَجَلَّکے خوف سے رو رہے تھے، اللہ عَزَّ وَجَلَّنے وحی فرمائی کہ تم دونوں کیوں رو رہے ہو حالانکہ میں تمہیں امان دے چکا ہوں؟ عرض کی:’’اے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ! تیری خفیہ تدبیر سے کون بے خوف ہوسکتا ہے؟‘‘([122])


 

(2)بُرے خاتمے کا خوف کیجئے: ہر مسلمان کو بُرے خاتمے سے ڈرنا چاہیے کہ بُرے خاتمے کا خوف دل میں بٹھانے سے اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر کا خوف بھی دل میں بیٹھ جائے گا اور کوئی بھی اپنی موت کے معاملے میں کیسے مطمئن ہو سکتا ہے؟ کیونکہ کوئی شخص اس بات سے واقف نہیں کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا کفر پر اور انسان کی پوری زندگی کا دارو مدار خاتمے پر ہی ہے اسی لیے اگر کوئی شخص ساری زندگی کفر پر رہا مگر موت سے چند لمحے پہلے اسے ایمان کی دولت نصیب ہوگئی تو وہ بامُراد و کامیاب ہوگیا اور جو شخص ساری زندگی اسلام پر رہا اور خوب عبادت و ریاضت کرتا رہا لیکن مرنے سے کچھ دیر قبل مَعَاذَ اللّٰہ کافر و مرتد ہوگیا تو ایسا شخص تباہ و برباد اور ہمیشہ کے لیے نار جہنم کا مستحق ہے، برے خاتمے کا معاملہ تو اتنا نازک ہے کہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے معصوم نبی بھی اس سے خوف زدہ رہتے تھے اگرچہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے فضل سے اُن کا ایمان محفوظ تھا مگر پھر بھی وہ اس بارے میں بےحد متفکر رہا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت سیدنا سَہل بن عبداللہ تُستری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: خواب میں خود کو میں نے جنت میں پایا، جہاں میں نے300انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے ملاقات کی اور ان سب سے یہ سوال کیا کہ آپ حضرات دنیا میں سب سے زیادہ کس چیز سے خوف زدہ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ’’بُرے خاتمے سے۔‘‘([123])

(3)گزشتہ لوگوں کے واقعات پر غور کیجئے: اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر سے متعلق بہت سے واقعات اِسلامی کتب میں بیان کیے گئے ہیں جن میں ایسے لوگوں کا تذکرہ ہے کہ جنہوں نےاپنی ساری زندگی عبادت و ریاضت میں گزاری مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّنے کسی خاص گناہ کے


 

سبب اُن کی گرفت فرمالی اور اُن کا بہت بھیانک انجام ہوا۔ خود اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے قرآنِ کریم میں بلعم بن باعوراء کے بارے میں بیان فرمایا ہے، یہ بہت عابد و زاہد اور مستجاب الدعوات تھا مگر جب اس نے اپنی قوم کے کہنے پر اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے نبی حضرت سیدنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے بددعا کی تو اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے اس سے ایمان و معرفت کی دولت چھین لی اور یہ کفر پر مرا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن کا مطالعہ کرنے سے بندے کے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر کا خوف پیدا ہوتا ہے۔

(4)اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی بے نیازی پر غور کیجئے: انسان اپنے عمل سے اللہ تعالٰی کی ذات کو نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی ذات بے نیاز ہے، اس کے حکم میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا، وہ جس کی پکڑ کرنا چاہے اُسے کوئی چُھڑا نہیں سکتا، بندہ چاہے جتنے نیک اعمال کرلے مگر اس کی بخشش یقینی نہیں،   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکسی بھی خطا پر بندے کی گرفت فرما سکتا ہے، وہ ظلم سے پاک ہے اور اس کا ہر فیصلہ عدل پر مبنی ہے، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نیک اعمال پر بھروسہ نہ کرے بلکہ ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بے نیازی کو مدنظر رکھے اور اس کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا رہے اور اپنی عبادت و ریاضت پر ناز نہ کرے، شیطان نے ہزاروں سال عبادت کی مگر اسے تکبر نے آلیا اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔

(5)اپنی نعمتوں پر غور کیجئے: جس شخص پر اللہ عَزَّ وَجَلَّنے دنیا میں مال و دولت، روزی میں کثرت، فرمانبردار اولاد کی نعمت، اچھی صحت، عہدہ وزارت یا صدارت یا حکومت وغیرہ کے ذریعے فراخی فرمائی ہے اسے یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ آسائشیں اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر تو نہیں کہ مجھے دنیا میں یہ نعمتیں عطا کردی گئی ہیں اور آخرت میں مجھے ان نعمتوں سے


 

محروم کردیا جائے گا یا یہ نعمتیں میرے لیے غرور و تکبر، سرکشی، غفلت اور مختلف گناہوں کا سبب تو نہیں جن میں مشغول ہو کر میں اپنی آخرت خراب کردوں، اس طرح اپنی نعمتوں کے بارے میں غور و فکر کرنے سے بھی اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کا ذہن بنے گا۔ حضرت سَیِّدُنَا حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ  عَزَّ وَجَلَّجس پر وسعت فرمائے اوروہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیر ہے تو وہ بالکل بے عقل ہے۔‘‘([124])

(6)اپنی آزمائشوں پر غور کیجئے: شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: ’’سرمایہ داروں وغیرہ کے ساتھ ساتھ ناداروں،  بیماروں اور مصیبت کے ماروں کو بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خفیہ تدبیرسے ڈرنا لازمی ہے کہ ہو سکتا ہے ان آفتوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالاگیا ہو اور نا جائز گِلہ شکوہ ، غیرشرعی بے صبری اور غربت و مصیبت کو حرام ذرائع کے ذریعے ختم کرنے کی کوششیں آخرت کی تباہی کا سبب بن جائیں۔‘‘([125])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (38)اِحترامِ مسلم

اِحترامِ مسلم کی تعریف:

مسلمان کی عزت و حرمت کا پاس رکھنا اور اسے ہر طرح کے نقصان سے بچانے کی کوشش کرنا اِحترامِ مسلم کہلاتا ہے۔


 

آیت مبارکہ:

(1)ارشادِ باری تعالٰی ہے: (وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-) (پ۵،النساء:۳۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے۔‘‘

(2)فرمانِ باری تعالٰی ہے: (وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ) (پ۱۳،الرعد:۲۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور وہ کہ جو ڑ تے ہیں اُسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا۔‘‘

صَدرُالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی مذکورہ آیت کے تحت فرماتے ہیں: ”یعنی اللہ کی تمام کتابوں اور اس کے کل رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کو مان کر بعض سے منکِر ہو کر ان میں تفریق (جدائی)نہیں کرتے یا یہ معنی ہیں کہ حقوقِ قرابت کی رعایت رکھتے ہیں اور رشتہ قطع نہیں کرتے ۔ اسی میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم  کی قرابتیں اور ایمانی قرابتیں بھی داخل ہیں، سادات کرام کا احترام اور مسلمانوں کے ساتھ مودّت (پیار و محبت) و احسان اور ان کی مدد اور ان کی طرف سے مدافعت (دفاع) اور ان کے ساتھ شفقت اور سلام و دُعا اورمسلمان مریضوں کی عیادت اور اپنے دوستوں، خادموں، ہمسایوں، سفر کے ساتھیوں کے حقوق کی رعایت بھی اس میں داخل ہے اور شریعت میں اس کا لحاظ رکھنے کی بہت تاکیدیں آئی ہیں، بکثرت


 

 احادیثِ صحیحہ اس باب میں وارد ہیں۔‘‘([126])

(حدیث مبارکہ)اِحترامِ مسلم کی ترغیب:

ایک مرتبہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانسے ارشاد فرمایا:’’جانتے ہو مسلمان کون ہے؟‘‘ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  بہتر جانتے ہیں۔‘‘ تو ارشاد فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: ’’مؤمن کون ہے؟‘‘ارشاد فرمایا: ’’مؤمن وہ ہے کہ جس سے دوسرے مؤمن اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں۔‘‘([127])

اِحترامِ مسلم کا حکم:

اِحترامِ مسلم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر حال میں ہر مسلمان کے تمام حقوق کا لحاظ رکھا جائے اور بلا اجازتِ شرعی کسی بھی مسلمان کی دِل شِکنی نہ کی جائے۔ ہمارے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے کبھی بھی کسی مسلمان کا دل نہ دُکھایا، نہ کسی پر طنز کیا، نہ کسی کا مذاق اڑایا، نہ کسی کو دُھتکارا، نہ کبھی کسی کی بے عزتی کی بلکہ ہر ایک کو سینے سے لگایا۔([128])

(40)(حکایت)اِحترامِ مسلم کا عظیم جذبہ:

حضرت سیدنا شیخ ابو عبداللہ خیاط رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دُکان پر بیٹھ کر کپڑے سلائی کرتے تھے، ایک آتش پرست (آگ کی پوجا کرنے والا) آپ سے کپڑے سِلواتا اور ہر


 

 بار اُجرت میں کھوٹے سکے دے جاتا، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  خاموشی سے رکھ لیتے اور کھوٹے سکوں کے متعلق کچھ کہتے نہ ہی واپس لوٹا تے۔ ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کسی کام سے کہیں چلے گئے آپ کی غیر موجودگی میں وہ آتش پرست آیا، آپ کو نہ پاکر شاگرد کو کھوٹے سکے دے کر اپنا کپڑا مانگا۔ شاگرد نے کھوٹے سکے دیکھے تو لینے سے انکار کردیا۔ آپ واپس تشریف لائے تو شاگرد نے سارا ماجرا بیان کیا۔ یہ سُن کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے فرمایا: ’’تم نے بُرا کیا، یہ آتش پرست کئی سال سے مجھے کھوٹے سکے ہی دیتا آرہا ہے، میں اس نیت سے لے کر رکھ لیتا اور کنویں میں ڈال دیتا ہوں کہ کہیں وہ اِن سے دوسرے مسلمانوں کو دھوکا نہ دے۔‘‘([129])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِحترامِ مسلم بجالانے کے لیے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی بہت ضروری ہے، مسلمانوں کے بعض حقوق ایسے ہیں جو ہر مسلمان سے تعلق رکھتے ہیں یعنی چاہے گھروالے ہوں، رشتہ دار ہوں، والدین ہوں یا دوست احباب ہوں، ان کا تعلق ہر مسلمان سے ہے لہٰذا اِحترامِ مسلم کی ادائیگی کے لیے چند حقوق ملاحظہ کیجئے:

مسلمانوں کے حقوق کی تفصیل:

(1)جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، جو اپنے لیے ناپسند کرے وہی اپنے بھائی کے لیے ناپسند کرے۔ (2)اپنے قول وفعل سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچائے۔ (3) ہر مسلمان کے ساتھ عاجزی سے پیش آئے اور کسی پر تکبر نہ کرے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکسی متکبر اور اِترانے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (4) ایک دوسرے


 

کے خلاف باتیں نہ سنے اور نہ ہی کسی کی بات دوسروں تک پہنچائے۔ (5)جس مسلمان کے ساتھ جان پہچان ہے اگر اس کے ساتھ ناراضی ہو جائے تو تین دن سے زیادہ بول چال ترک نہ کرے۔(6)جس قدر ممکن ہو ہر مسلمان کے ساتھ اچھا سلوک کرے خواہ وہ حُسن سلوک کا مستحق ہو یا نہ ہو۔(7)کسی مسلمان کے ہاں اجازت لیے بغیرداخل نہ ہو بلکہ تین بار اجازت طلب کرے اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جائے۔(8)ہر ایک سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور ان کے مقام و مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے ان سے معاملات کرے کیونکہ اگر وہ جاہل کےساتھ علمی، ان پڑھ کے ساتھ فقہی اور کم پڑھے لکھے کے ساتھ فصاحت و بلاغت سے بھرپور گفتگو کرے گا تو انہیں بھی تکلیف دے گا اور خود بھی تکلیف اُٹھائے گا۔ (9)بڑوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئے اور بچوں پر شفقت و مہربانی کا معاملہ کرے۔ (10)تمام مخلوق کے ساتھ ہشاش بشاش نرم مزاج رہے۔ (11) کسی مسلمان کے ساتھ وعدہ کرے تو وفا کرے۔(12)لوگوں کے ساتھ اپنی طرف سے منصفانہ رویہ اپنائے اور انہیں وہ نہ دے جو خود نہیں لینا چاہتا۔(13)جس شخص کی ہیئت اور کپڑے اس کے بلند مرتبہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں اس شخص کی عزت و اکرام زیادہ کرے اور لوگوں کے ساتھ ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق پیش آئے۔ (14)جس قدر ممکن ہو مسلمانوں کے درمیان صلح کروائے۔ (15)مسلمانوں کی پردہ پوشی کرے۔ (16)تہمت کی جگہوں سے بچے تاکہ لوگوں کے دل اس کے بارے میں بدگمانی کا شکار نہ ہوں اور زبانیں اس کی غیبت کرنے سے محفوظ رہیں، کیونکہ جب لوگ اس کی غیبت کی وجہ سے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے تو وہ اس نافرمانی کا سبب


 

 ہونے کی وجہ سے اس میں شریک ہوگا۔(17)ہر حاجت مند مسلمان کی اپنی وجاہت کے باعث جائزسفارش کرے اور جس قدر ممکن ہو اس کی حاجت روائی کی کوشش کرے۔ (18)ہر مسلمان کے ساتھ بات کرنے سے پہلے سلام کرے اور سلام کے وقت مصافحہ کرے۔ (19)جہاں تک ممکن ہو اپنے مسلمان بھائی کی عزت اور اس کے جان و مال کو دوسروں کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھے۔ اپنی زبان اور ہاتھ کے ذریعے اس کا دفاع کرے اور اس کی مدد کرے کیونکہ اسلامی بھائی چارہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ (20)مسلمان کی چھینک کا جواب دے۔ (21) اگر کسی شریر سے سامنا ہو جائے تو تحمل مزاجی سے کام لے اور اس کے شر سے بچے۔ (22) اغنیاء کے ساتھ میل جول سے اجتناب کرے، مساکین کے ساتھ میل رکھے اور یتیموں کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آئے۔ (23)ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرے اور اس کے دل میں خوشی داخل کرنے کی کوشش کرے۔(24)مسلمان کی عیادت کرے۔ (25)مسلمانوں کے جنازے میں شرکت کرے۔ (26)قبورِ مسلمین کی زیارت کرے۔([130])

احترامِ مسلم کا جذبہ پیدا کرنے کے چار (4)طریقے:

(1)احترامِ مسلم کی فضیلت پر غور کیجئے: مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا اور ان کا احترام کرنا بہت فضیلت کی بات ہے، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ اسلامی رشتہ ہے جس کی وجہ سے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا اکرام کرے اور اس کی عزت کی حفاظت کرے اور ہمیشہ اس کی بے حرمتی سے بچتا رہے اور اگر کوئی دوسرا شخص مسلمان کی


 

بےعزتی کرے یا اُسے تکلیف پہنچائے تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرے اور اس کی عزت پامال نہ ہونے دے۔ چنانچہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کی   اللہ  عَزَّ وَجَلَّقیامت کے دن اس سے جہنم کا عذاب دور فرما دے گا۔‘‘ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: (وَ كَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۴۷)) (پ۲۱، الروم: ۴۷)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اورہمارے ذمۂ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔‘‘([131])

(2)مسلمان کی بے عزتی کرنے کی وعیدوں پر غور کیجئے: مسلمان کی بے عزتی کرنا بہت بُرا فعل ہے اور اُس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ بےعزتی کرنے کی مختلف صورتیں ہیں: مسلمان کا مذاق اُڑانا، گالی دینا، چغلی لگانا، بہتان تراشی کرنا، جہاں اس کی عزت کی جاتی ہو وہاں اسے ذلیل کرنا، غیبت کرنا یا اس کی غیبت ہورہی ہو تو قدرت کے باوجود نہ روکنا بھی بے عزتی میں شامل ہے۔ اگر کسی مسلمان کو ذلیل و رُسوا کیا جارہا ہو تو دوسرے مسلمان پر لازم ہے کہ اس کا دفاع کرے اگر قدرت کے باوجود اس کی حمایت نہیں کرے گا تو خود بھی گناہ گار ہوگا۔ (۱) حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا: ’’سود 70گناہوں کامجموعہ ہے اور ان میں سب سے کم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے اور سود سے بڑھ کرگناہ مسلمان کی بے عزتی کرنا ہے۔‘‘([132]) (۲) فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: ’’جس کے سامنے اس کے مسلمان


 

 بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد پر قادِر ہو اور مدد کرے،اللہ تعالٰی دنیا اور آخِرت میں اس کی مدد کرے گا اور اگر باوُجُودِ قدرت اس کی مدد نہیں کی تو اللہ تعالٰی  دنیا اورآخِرت میں اسے پکڑے گا۔‘‘([133])

(3)حقوق العباد ادا کرنےکا ذہن بنائیے: حقوق العباد کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اور ان کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اِحترامِ مسلم صحیح طورپر بجالانے کے لیے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور ان حقوق میں والدین، بہن بھائی، رشتہ دار، پڑوسی، دوست احباب کے حقوق بھی شامل ہیں اگر بندہ ان تمام حقوق کو کامل طورپر ادا کرنے کا ذہن بنائے تو اس کے سبب اس کے دل میں اِحترامِ مسلم کا جذبہ بیدار ہوگا کیونکہ یہ ہی وہ تمام حقوق ہیں جن کو پورا کرنے سے اِحترامِ مسلم ادا ہوتا ہے۔

(4)حُسن اخلاق اپنائیے: حُسن اخلاق ایسی صفت ہے کہ جو اِحترامِ مسلم کی اصل ہے کیونکہ حسن اخلاق اچھائیوں کی جامع ہے، حسن اخلاق سے متصف انسان ایثار، دل جوئی، سخاوت، بُردباری، تحمل مزاجی، ہمدردی، اخوت و رواداری جیسی اعلیٰ صفات سے متصف ہوتا ہے اور یہ ہی وہ صفات ہیں جن سے انسان میں اِحترامِ مسلم کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (39)مُخالفتِ شیطان

مخالفت شیطان کی تعریف:

اللہ تعالٰی کی عبادت کرکے شیطان سے دشمنی کرنا، اللہ تعالٰی کی نافرمانی میں شیطان


 

 کی پیروی نہ کرنا اور صدقِ دِل سے ہمیشہ اپنے عقائدو اَعمال کی شیطان سے حفاظت کرنا مخالفت شیطان ہے۔([134])

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّقرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے:) وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)( (پ۲، البقرۃ:۱۶۸) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کھلا دُشمن ہے۔‘‘ایک اور مقام پرفرمانِ باری تعالٰی ہے:  (اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-) (پ۲۲،فاطر:۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو۔‘‘

(حدیث)مبارکہ، شیطان کی مخالفت:

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہمیں سمجھانے کے لیے ایک لکیر کھینچی اور ارشاد فرمایا: ’’یہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا راستہ ہے، پھر اس لکیر کے دائیں بائیں متعدد لکیریں کھینچیں اور ارشاد فرمایا: ’’یہ مختلف راستے ہیں، ان میں سے ہر ایک پر ایک شیطان ہے جو لوگوں کو اس پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔‘‘ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: (وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ))(پ۸،الانعام:۱۵۳)ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلو اور، اور راہیں نہ چلو۔([135])


 

مخالفت شیطان کا حکم:

علامہ عبد الرحمٰن بن علی جوزی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’شیطان مردود کی مخالفت اللہ تعالٰی کے عذاب سے بچادیتی ہے اور اللہ تعالٰی کے اولیاء کے ساتھ جنت میں اعلیٰ مقام عطا کردیتی ہے اور اس مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ تم ربُّ العالمین کی زیارت کرسکو گے۔‘‘([136])

(41)(حکایت)موت کے وقت شیطان کی مخالفت:

زکریا نام کا ایک مشہور زاہد گزرا ہے، شدید بیماری کے بعد جب اس پر سکرات کا عالم طاری ہوا تو اس کے دوست نے اسے کلمہ کی تلقین کی مگر اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا، دوست نے دوسری مرتبہ تلقین کی لیکن اس نے اِدھر سے اُدھر منہ پھیر لیا، جب اس نے تیسری مرتبہ تلقین کی تو اس زاہد نے کہا:’’ میں نہیں کہتا۔‘‘ دوست یہ سنتے ہی بیہوش ہوگیا، کچھ دیر بعد جب زاہد کو کچھ افاقہ ہوا، اس نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا: تم نے مجھ سے کچھ کہا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے تم کو کلمہ کی تلقین کی تھی مگر تم نے دومرتبہ منہ پھیر لیا اور تیسری مرتبہ کہا: ’’میں نہیں کہتا۔‘‘ زاہد نے کہا: بات یہ ہے کہ میرے پاس شیطان پانی کا پیالہ لے کر آیا اور دائیں طرف کھڑا ہو کر مجھے وہ پانی دکھاتے ہوئے کہنے لگا تمہیں پانی کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا: ہاں! کہنے لگا: کہو:’’ عیسیٰ (عَلَیْہِ السَّلَام )اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘ میں نے منہ پھیر لیا تو دوسرے رخ کی طرف سے آکر کہنے لگا، میں نے منہ پھیر لیا، جب اس نے تیسری مرتبہ’’عیسیٰ (عَلَیْہِ السَّلَام ) اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘ کہنے کو کہا تو میں نے کہا: ’’میں نہیں کہتا۔‘‘ اس پر وہ پانی کا پیالہ زمین پر پٹخ کر بھاگ گیا۔ میں نے تو یہ لفظ شیطان


 

 سے کہے تھے، تم سے تو نہیں کہے تھے ۔پھر وہ کلمۂ شہادت کا ذکر کرنے لگا۔([137])

شیطان کی مخالفت پر اُبھارنے کے چھ (6)طریقے:

(1)شیطان کے مقاصد پر غور کیجئے: شیطان کی مخالفت پر کمربستہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس کے مقاصد معلوم ہوں کیونکہ جب ہمیں اس کے ناپاک عزائم کا علم ہوگا تو ہمارے دل میں اس کے لیے نفرت پیدا ہوگی اور اس کی مخالفت کا ذہن بنے گا۔ شیطان کے چند مقاصد ہیں: (۱) بندے سے اس کا ایمان چھیننا تاکہ وہ دائمی طورپر جہنم کا حقدار بن جائے، اگر ایمان نہ چھین سکے تو پھر اس کا مقصد ہوتا ہے کہ (۲) بندے کو فسق و فجور میں مبتلا کرے، اگر یہ اپنے اس مقصد میں بھی کامیاب نہ ہوتو پھر اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ (۳) بندےکو نیک اعمال سے روکے تاکہ وہ اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچ سکے۔ لہٰذا انسان کو شیطان کے مذموم مقاصد اپنے ذہن میں رکھنے چاہئیں تاکہ دل میں اس کی مخالفت کا جذبہ پیدا ہو۔([138])

(2) اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے محبت کیجئے: شیطان اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا دُشمن ہے اسی لیے وہ ہمارا بھی دُشمن ہے اور ہمیں اس کی مخالفت کرنی ہے، جب ہم   اللہ  عَزَّ وَجَلَّاور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے محبت کریں گے تو اُن کی اطاعت کریں گے اور اُن کی اطاعت ہی شیطان کی مخالفت ہے۔

(3)نیک لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے: صحبت انسان کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالتی ہے اگر بندہ گناہوں میں منہمک رہنے والے افراد کی صحبت میں بیٹھے گا تو اس کے لیے خود کو


 

گناہوں سے بچانا اور اچھے اعمال کرکے شیطان کی مخالفت کرنا بہت دُشوار ہوگا لیکن اگر بندہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا تو اس کے لیے نیکیاں کرنا اور بُرائیوں سے بچ کر شیطان کی مخالفت کرنا آسان ہوگا۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ بُرے لوگوں کی صحبت سے بچتا رہے اور ہمیشہ نیک پرہیزگار لوگوں کی صحبت اختیار کرے۔

(4)شیطان کے فریب کو جاننے کی کوشش کیجئے: شیطان کی مخالفت کرنے کے لیے اس کے مکر و فریب کو جاننا بہت ضروری ہے، بعض اوقات شیطان نیکی کی آڑ میں بُرائی کو پیش کرتا ہے کیونکہ جب وہ بظاہر بندے کو گناہ کی طرف بلانے پر قادر نہیں ہوتا تو گناہ کو نیکی کی صورت میں پیش کرتا ہے اور بندے کو گناہ میں مشغول ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً عالم کو نصیحت کے پیرا ئے میں کہتا ہے: کیا تم خلق خدا کی طرف نظر نہیں کرتے کہ وہ جہالت کی وجہ سے تباہ ہوئے جارہے ہیں اور غفلت کی وجہ سے ہلاکت کے قریب پہنچ گئے ہیں، کیا تم انہیں ہلاکت سے نہیں بچاؤ گے؟   اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے تمہیں علم، فصیح زبان اور بہترین انداز سے نوازا ہے تمہیں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنی چاہیے، اِس طرح پہلے وہ بندے کو نیکی دعوت دینے پر راضی کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس کے دل میں ریاکاری، خودپسندی، تکبر و غرور، حُبّ جاہ اور دیگر باطنی بُرائیاں پیدا کردیتا ہے اور اسے اس کا علم ہی نہیں ہوتا، بندہ اپنے گمان میں نیکی کررہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ گناہوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے، لہٰذا شیطان کی مخالفت کرنے کے لیے اس کے مکر و فریب کا علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ اس سے بچا جاسکے۔

(5اللہ  عَزَّ وَجَلَّکا ذکر کیجئے: شیطان کی مخالفت کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیے اس کے وسوسوں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے اور شیطانی وسوسوں سے نجات کا بہترین


 

 ذریعہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکا ذکر ہے۔حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان اِبن آدم کے دل پر اپنی سونڈ رکھے ہوئے ہوتا ہے اگر وہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّکا ذکر کرتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اگر   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کو بھول جائے تو فورًا اُس کے دل پر غالب آجاتا ہے۔([139])حضرت سیدنا قیس بن حجاج رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ میرے شیطان نے مجھ سے کہا: ’’میں تم میں داخل ہوتے وقت فربہ اونٹنی کی مانند تھا اور اب چڑیا کی طرح ہو گیا ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’ایسا کیوں؟‘‘ اس نے کہا: ’’تم ذِکرُاللہ کے ذریعے مجھے پگھلاتے رہتے ہو۔‘‘([140])

(6)بھوک سے کم کھائیے: پیٹ بھرکر کھانا شیطان کی مخالفت میں رُکاوٹ بنتا ہے کیونکہ کھانا اگرچہ حلال اور شبہ سے پاک ہو مگر اسے پیٹ بھرکر کھانے سے شہوات کو تقویت ملتی ہے اور شہوات شیطان کے ہتھیار ہیں۔ منقول ہے کہ زیادہ کھانے میں چھ خرابیاں ہیں: (۱) دل سے   اللہ عَزَّ وَجَلَّکا خوف نکل جاتاہے۔ (۲) دل میں مخلوق کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا کیونکہ وہ سبھی کو پیٹ بھرا گمان کرتا ہے۔ (۳) عبادت بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔ (۴) علم و حکمت کی بات سن کر دل میں رقت پیدا نہیں ہوتی۔ (۵) خود حکمت و نصیحت کی بات کرتا ہے تو لوگوں کے دلوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا اور (۶) اس کے سبب کئی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔([141])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

ماخذ ومراجع

قرآن مجید

کلامِ الٰہی

۔۔۔

نام کتاکنز الایمان

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ

مکتبۃ المدینہ، کراچی

تفسیرخزائن العرفان

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی، متوفی۱۳۶۷ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی

تفسیرنور العرفان

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

پیر بھائی کمپنی کراچی

تفسیرصراط الجنان

مفتی ابوالصالح محمد قاسم قادری عطاری

مکتبۃ المدینہ کراچی

مصنف عبد الرزاق  

امام ابو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع صنعانی، متوفی ۲۱۱ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۴ھ

مصنف ابن ابی شیبۃ

حافظ عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ کوفی، متوفی ۲۳۵ھ

دارالفکر بیروت۱۴۱۴ھ

مسند  امام احمد  

ابو عبد اللہ امام احمد بن محمد بن حنبل شیبانی، متوفی ۲۴۱ھ

دار الفکر بیروت۱۴۱۴ھ

صحیح البخاری  

امام ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل بخا ری ،متوفی ۲۵۶ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۹ھ

صحیح مسلم  

امام ابو حسین مسلم بن حجاج قشیری، متوفی ۲۶۱ھ

دار المغنی عرب شریف ۱۴۱۹ھ

 سنن ابن ماجہ  

امام ابو عبد اللہمحمد بن یز ید ابن ماجہ، متوفی ۲۷۳ھ

دار المعرفہ بیروت۱۴۲۰ھ

 سنن ابی داود  

امام ابو داود سلیمان بن اشعث سجستانی، متوفی ۲۷۵ھ

دار احیاء التراث العربی بیروت۱۴۲۱ھ

سنن الترمذی  

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، متوفی ۲۷۹ھ

دار الفکر بیروت۱۴۱۴ھ

سنن النسائی

امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی، متوفی۳۰۳ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۶ھ

السنن الکبری

امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی، متوفی۳۰۳ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۱ھ

سنن الدارمی

امام حافظ عبد اللہ بن عبدالرحمن دارمی، متوفی۲۵۵ھ

دارالکتاب العربی بیروت۱۴۰۷ھ

مسند ابی یعلی

شیخ الاسلام ابویعلی احمد بن علی بن مثنی موصلی، متوفی ۳۰۷ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۸ھ

نوادر الاصول

امام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن حسن حکیم ترمذی، متوفی ۳۲۰ھ

مکتبہ امام بخاری۱۴۲۹ھ

 صحیح ابن حبان  

حافظ ابو حاتم محمد بن حبان تميمي ، متوفى۳۵۴ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۷ھ

المعجم الاوسط   

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،متوفی ۳۶۰ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۰ھ

المستدرک

امام ابوعبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم نیشاپوری، متوفی۴۰۵ھ

دارالمعرفہ بیروت۱۴۱۸ھ

حلیۃ الاولیاء  

حافظ ابو نعیم احمد بن عبد اللہاصفہانی شافعی، متوفی ۴۳۰ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۸ھ

شعب الإیمان  

امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیہقی، متوفی ۴۵۸ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۱ھ

مسند الفردوس

حافظ ابوشجاع شیرویہ بن شہرداربن شیرویہ دیلمی، متوفی۵۰۹ھ

دارالفکر بیروت۱۴۱۸ھ

مشکاۃ المصابیح

علامہ ولی الدین خطیب تبریزی، متوفی ۷۴۲ھ

دارالکتب العلمیۃبیروت۱۴۲۴ھ

الادب المفرد

امام ابوعبد اللہمحمد بن اسماعیل بخا ری ،متوفی ۲۵۶ھ

تاشقند۱۳۹۰ھ

جامع العلوم والحکم

ابوالفرج عبدالرحمن ابن رجب حنبلی، متوفی۷۹۵ھ

المکتبۃ الفیصلیۃ،مکہ مکرمہ

غریب الحدیث

ابوعبید قاسم بن سلام بن عبد اللہ ھروی بغدادی، متوفی ۲۲۴ھ

دارالکتب العلمیۃبیروت۱۴۲۴ھ

مجمع الزوائد  

حافظ نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی، متوفی ۸۰۷ھ

دار الفکربیروت۱۴۲۰ھ

الجامع الصغیر  

امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکر سیوطی شافعی، متوفی ۹۱۱ھ

دارالکتب العلمیۃبیروت۱۴۲۵ھ

جامع الاحادیث

امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکر سیوطی شافعی، متوفی ۹۱۱ھ

دارالفکر بیروت۱۴۱۴ھ


 

کنز العمال  

علامہ علی متقی بن حسام الدین ہندی برہان پوری، متوفی ۹۷۵ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۹ھ

الترغیب والترھیب

امام زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی منذری، متوفی ۶۵۶ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۷ھ

کشف الخفاء

شیخ اسماعیل بن محمد عجلونی، متوفی۱۱۶۲ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۲ھ

فیض القدیر  

علامہ محمد عبد الرء وف مناوی، متوفی۱۰۳۱ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۲ھ

مرآۃ المناجیح

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ

ضیاء القرآن پبلی کیشنزلاہور

نزہۃ القاری

مفتی محمد شریف الحق امجدی متوفی۱۴۲۱ھ

فریدبک سٹال لاہور۱۴۱۹ھ

شرح اعتقاد اھل السنۃ

حافظ ابوالقاسم ھبۃ اللہ بن حسن طبری لالکائی، متوفی۴۱۸ھ

دارالبصیرۃ الاسکندریہ مصر

کتاب الشریعۃ

امام ابوبکر محمد بن حسین آجری، متوفی۳۶۰ھ

دارالوطن، عرب شریف۱۴۱۸ھ

رد المحتار مع الدرا لمختار 

محمد امین ابن عابدین شامی، متوفی ۱۲۵۲ھ

دار المعرفہ بیروت۱۴۲۰ھ

فتاوی ہندیہ

علامہ ہمام مولانا شیخ نظام متوفی۱۱۶۱ھ وجماعۃ من علماء الہند

دارالفکر بیروت۱۴۱۱ھ

فتاوی رضویہ (قدیم)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ

مکتبہ رضویہ کراچی۱۴۲۱ھ

فتاویٰ رضویہ

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ

رضا فاؤنڈیشن لاہور

بہارشریعت  

مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۹ھ

الموسوعۃ  لابن ابی الدنیا  

عبد اللہ بن محمد بغدادي معروف بابن ابي الدنيا ،متوفی۲۸۱ھ

المکتبۃ العصریہ بیروت۱۴۲۶ھ

قوت القلوب

شیخ ابوطالب محمدبن علی مکی، متوفی۳۸۶ھـ

مرکز اہلسنت ہند ۱۴۲۳ھـ

الرسالۃ القشیریۃ

امام ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن قشیری، متوفی ۴۶۵ھ

دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۸ھ

کشف المحجوب  

حضور داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری متوفی۵۰۰ھ

مرکز الاولیاء لاہور

 مکاشفۃ القلوب  

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت

 مکاشفۃ القلوب  

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۳۶ھ

إحیاء علوم الدین 

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ

دار صادر بیروت۲۰۰۰ء

لباب الاحیاء

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۹ھ

لباب الاحیاء

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ

دارالبیروتی دمشق، شام۱۴۲۴ھ

احیاء العلوم

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی

فیضان احیاء العلوم

المدینۃ العلمیۃ(شعبہ اصلاحی کتب)

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۳ھ

کیمیائے سعادت

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ

انتشارات گنجینہ تہران۱۳۷۹ھ

منہاج العابدین

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۳۶ھ

البروالصلۃ

ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزی، متوفی ۵۹۷ھ

مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، بیروت۱۴۱۳ھ

الزھد

امام ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل، متوفی ۲۴۱ھ

دارالغدالجدید۱۴۲۶ھ

کتاب الزھد

امام عبد اللہ بن مبارک مروزی، متوفی ۱۸۱ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت

الزھدالکبیر

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، متوفی ۴۵۸ھ

مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، بیروت۱۴۱۷ھ

الانوار القدسیۃ

امام عبدالوھاب بن احمد شعرانی، متوفی ۹۷۳ھ

دارالتقویٰ دمشق۱۴۲۸ھ

الطبقات الصوفیۃ

ابوعبدالرحمن محمد بن حسین السلمی، متوفی ۴۱۲ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۹ھ

نتائج الافکار القدسیۃ

شیخ الاسلام زکریا بن محمد الانصاری، متوفی ۹۲۶ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۰ھ

عیون الحکایات

امام ابوالفرج عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، متوفی۵۹۷ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی


 

عیون الحکایات

امام ابوالفرج عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، متوفی۵۹۷ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۴ھ

درۃ الناصحین

عثمان بن حسن بن احمد شاکر خوبوی

دارالفکر بیروت

حکایتیں اور نصیحتیں

شیخ شعیب حریفیش، متوفی ۸۱۰ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۹ھ

بستان الواعظین

امام ابوالفرج عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، متوفی۵۹۷ھ

دار الکتب العلمیہ بیروت۱۹۹۰ء

الزواجر عن اقتراف الکبائر  

ابو العباس احمد بن محمد بن علي بن حجر هيتمي متوفى۹۷۴ھ

دار المعرفہ بیروت۱۴۱۹ھ

  الحدیقۃ الندیۃ

عبدالغنی بن اسماعیل نابلسی، متوفی۱۱۴۳ھ

پشاور پاکستان

اِصلاحِ اعمال (الحدیقۃ  الندیۃ)

عبدالغنی بن اسماعیل نابلسی، متو فی۱۱۴۳ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۳۱ھ

اتحاف السادۃ المتقین 

 محمد بن محمد بن عبد الرزّاق معروف بمرتضى بيدي،متوفى۱۲۰۵ھ

دارالکتب العلمیۃبیروت۲۰۰۹ء

کشف المحجوب

علی بن عثمان ہجویری المعروف حضور داتا گنج بخش، متوفی ۴۶۵ھ

مرکز الاولیاء لاہور

التعریفات

علامہ سید شریف علی بن محمد بن علی جرجانی متوفی ۸۱۶ھ

دارالمنار للطباعۃ والنشر

التوقیف

علامہ محمد عبد الرء وف مناوی، متوفی۱۰۳۱ھ

عالم الکتب ، قاہرہ۱۴۱۰ھ

کتاب القلیوبی

علامہ احمد شہاب الدین قلیوبی۱۰۶۹ھ

باب المدینہ کراچی۱۳۹۱ھ

مثنوی مولانا روم

جلال الدین محمد بن محمد رومی، متوفی۶۷۰ھ

خدیجہ پبلیکیشنز لاہور۲۰۱۱ء

فیضان سنت

امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۷ھ

نماز کے احکام

امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری

مکتبۃ المدینہ کراچی

بھجۃ الاسرار

ابوالحسن نور الدین علی بن یوسف شطنوفی، متوفی۷۱۳ھ

دارالکتب العلمیۃبیروت۱۴۲۳ھ

الکامل فی التاریخ

ابن الاثیرابوالحسن علی بن ابوالکرم شیبانی الجزری، متوفی۶۳۰ھ

دارالکتب العلمیۃبیروت۱۴۱۸ھ

بدگمانی

المدینۃ العلمیۃ(شعبہ اصلاحی کتب)

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۸ھ

فضائل دعا

رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان، متوفی۱۲۹۷ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۳۰ھ

خو فِ خدا

المدینۃ العلمیۃ (شعبہ اصلاحی کتب)

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۶ھ

صفۃ الصفوۃ

امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی ابن جوزی، متوفی۵۹۷ھ

دارالکتب العلمیۃ بیروت۱۴۲۳ھ

وفیات الاعیان

ابوالعباس احمد بن محمد بن ابراہیم بن ابی بکربن خلکان، متوفی ۶۸۱ھ

دارالکتب العلمیہ بیروت۱۴۱۹ھ

فیضان صدیق اکبر

المدینۃ العلمیۃ(شعبہ فیضان صحابہ واہل بیت)

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۳۳ھ

توبہ کی روایات وحکایات

المدینۃ العلمیۃ (شعبہ اصلاحی کتب)

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۶ھ

احترام مسلم

امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری

مکتبۃ المدینہ کراچی

کرامات صحابہ

شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفےٰ اعظمی، متوفی۱۴۰۶ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۹ھ

سیدی قطب مدینہ

امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری

مکتبۃ المدینہ کراچی

کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۳۰ھ

۲۸کلمات کفر

امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری

مکتبۃ المدینہ کراچی

آنسوؤں کا دریا(بحرالدموع)

امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی جوزی، متوفی ۵۹۷ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۲۸ھ

ملفوظاتِ اعلی حضرت

مولانا مصطفےٰ رضاخان، متوفی ۱۴۰۲ھ

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۳۰ھ

فیضان ریاض الصالحین

المدینۃ العلمیۃ (شعبہ فیضان حدیث)

مکتبۃ المدینہ کراچی۱۴۳۴ھ

٭٭٭٭٭٭

 



...[1] احیاء العلوم، ۴/ ۶۴۷۔

...[2] احیاء العلوم، ۴/ ۶۸۴۔

...[3] احیاء العلوم، ۴/ ۶۵۳بتصرف قلیل۔

...[4] احیاء العلوم، ۴/ ۶۵۵۔

...[5] شعب الایمان للبیھقی، باب فی حفظ اللسان، ۴/ ۲۰۵، حدیث: ۴۸۰۰۔

...[6] احیاء العلوم، ۴/ ۶۸۵ملخصا۔

...[7] احیاء العلوم، ۴/ ۶۴۶۔

...[8] الادب المفرد للبخاری، باب الجلوس علی السریر، ص۳۱۱، حدیث: ۱۱۹۷۔

...[9] احیاء العلوم،۴/ ۶۵۷تا۶۶۹ماخوذا۔

...[10] احیاء العلوم، ۴/ ۶۸۲تا ۶۸۴ملخصا۔

...[11] احیاء العلوم، ۴/ ۶۶۹ تا۶۷۲ملخصا۔

...[12] احیاء العلوم، ۴/ ۶۹۳۔

...[13] احیاء العلوم،۴/ ۶۶۶۔

...[14] احیاء العلوم، ۴/ ۶۷۵۔

...[15] احیاء العلوم، ۴/ ۶۷۶تا ۶۷۷ملخصا۔

...[16] فیض القدیر، ۲/ ۷۰۹، تحت الحدیث: ۲۵۵۰ ماخوذا۔

...[17] الحدیقۃ الندیۃ،۲/ ۳۸۳ماخوذا۔

...[18] خزائن العرفان،پ۱۴،الحجر، تحت الآیۃ:۳۔

...[19] موسوعۃ ابن ابی دنیا،قصر الامل،۳/ ۳۱۰، حدیث: ۳۱۔

...[20] احیاء العلوم،۵/ ۴۹۱۔

...[21] احیاء العلوم، ۵/ ۴۸۹۔

...[22] احیاء العلوم، ۵/ ۴۹۳، ۴۹۴ملتقطا۔

...[23] احیاء العلوم، ۵/ ۴۸۹۔

...[24] احیاء العلوم، ۵/ ۴۹۳، ۴۹۴ملتقطا۔

...[25] التعریفات للجرجانی، باب الصاد، ص۹۵۔

...[26] خزائن العرفان، پ۲۴، الزمر، تحت الآیۃ: ۳۳۔

...[27] مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، باب قبح الکذب ۔۔۔الخ، ص۱۴۰۵، حدیث: ۲۶۰۷۔

...[28] بھجۃ الاسرار، ذکر طریقہ رحمۃ  اللہ تعالی علیہ، ص۱۶۸۔

...[29] ابن حبان، کتاب البر، باب الکذب،۷/ ۴۹۴، حدیث: ۵۷۰۴۔

...[30] مسندامام احمد، مسند عبداللہ ابن عمرو بن العاص ، ۲ / ۵۸۹، حدیث: ۶۶۵۲ملتقطا۔

...[31] ابن حبان، کتاب البروالاحسان ،باب الصدق ،۱/  ۲۴۵، حدیث: ۲۷۱ ۔

...[32] احیاء العلوم،۵/ ۲۸۹ملتقطا۔

...[33] مسندامام احمد، مسند عبداللہ ابن عمرو بن العاص ،۲/  ۵۸۹، حدیث: ۶۶۵۲۔

...[34] مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق، ص۵۰، حدیث: ۱۰۷۔

...[35] ابوداود، کتاب الادب، باب فی المعاریض،۴/ ۳۸۱، حدیث: ۴۹۷۱۔

...[36] خزائن العرفان، پ۲۸، الحشر،تحت الآیۃ:۹۔

...[37] معجم اوسط ،۶/ ۴۲۹،حدیث:۹۲۹۲ ۔

...[38] اویٰ رضویہ،۲۴/ ۷۱۸۔

...[39] مفتئ اعظم کی استقامت و کرامت، ص۱۲۰ ،۱۲۱۔

...[40] الادب المفرد ، باب حسن الخلق، ص۹۱،  حدیث:۲۷۳۔

...[41] نسائی، کتاب الجنائز،باب النھی عن سب الاموات، ص ۳۲۸، حدیث:۱۹۳۵۔

...[42] تر مذی ،کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی زیارۃ الاخوان ، ۳/  ۴۰۶، حدیث: ۲۰۱۵۔

...[43] ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی عیادۃ المریض، ۲/ ۱۹۱، حدیث: ۱۴۴۱۔

...[44] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجا، ۴/ ۱۷۴، ا۷۵ ملخصاً۔کیمائے سعادت، اصل سیم  در  خوف ورجاہ،حقیقت رجا،۲/ ۸۱۰ ملخصاً۔

...[45] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجا، ۴/ ۱۷۵۔

...[46] الرسالۃ القشیریۃ،باب الرجا، ص۱۶۸۔

...[47] غریب الحدیث لابن سلام، دین، ۱/ ۴۳۸۔

...[48] خزائن العرفان،پ۲۴،الزمر،تحت الآیۃ: ۵۳۔

...[49] مسلم، کتاب الجنة، وصفة نعیمھا، باب امر بحسن الظن باللّٰہ تعالٰی عند الموت، ص ۱۵۳۸،حدیث: ۲۸۷۷۔

...[50] مرآۃ المناجیح،۲/ ۴۳۹۔

...[51] خزائن العرفان، پ۲۶،الحجرات،تحت الآیۃ: ۱۲۔

...[52] ابن حبان،کتاب الرقائق،باب حسن الظن باللّٰہ تعالٰی،۲/ ۱۵، حدیث: ۶۳۴ ۔

...[53] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجاء، ۴ / ۱۷۸۔

...[54] دارمی ، کتاب الرقاق، باب حسن ظن باللّٰہ، ۲/ ۳۹۵، حدیث: ۲۷۳۱ ۔

...[55] ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب قولہ تعالٰی: یا ایھاالذین امنو،۴/ ۳۶۶، حدیث : ۴۰۱۷،دون:قدغفرتہ لک۔احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجاء، ۴/ ۱۷۸۔

...[56] موسوعة  ابن ابی الدنیا، کتاب حسن الظن باللّٰہ،۱/ ۱۰۵،حدیث: ۱۰۹۔

...[57] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان دواء الرجاء والسیل الذی یحصل منہ۔۔۔الخ،۴/ ۱۸۷۔

...[58] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان دواء الرجاء والسیل الذی یحصل منہ۔۔۔الخ، ۴/ ۱۸۹

...[59] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان فضیلۃ الرجاء والترغیب فیہ،۴/  ۱۷۸۔

...[60] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجا، ۴/  ۱۷۶۔

...[61] احیاء العلوم ، ۵/ ۱۶۔

...[62] الرسالۃ القشیریۃ،باب المحبۃ، ص۳۴۸۔

...[63] کشف المحجوب،باب المحبۃ ومایتعلق بھا،ص۳۳۸۔

...[64] مسند امام  احمد، مسند مدنیین، حدیث ابی رزین العقیلی،۵/ ۴۷۰، حدیث: ۱۶۱۹۴۔

...[65] احیاء علوم الدین، کتاب المحبۃ والشوق۔۔۔الخ، بیان شواھد الشرع فی حب العبد للّٰہ تعالٰی، ۵/ ۳۔

...[66] احیاء علوم الدین، کتاب المحبۃ والشوق۔۔۔الخ، بیان ان اجل اللذات واعلاھا معرفۃ اللہ۔۔۔الخ، ۵/ ۲۳۔

...[67] مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم الکبر وبیانہ،ص۶۰، حدیث:۹۱۔

...[68] لباب الاحیاء، الباب السادس والثلاثون فی المحبۃ ۔۔۔  الخ،فصل فی الشوق،ص۳۱۹۔

...[69] صراط الجنان، پ۲، البقرہ،تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۱/۲۶۴۔

...[70] حلیۃ الاولیاء،الفضل الرقاشی،۶/ ۲۲۶، حدیث: ۸۳۸۴۔

...[71] مسند الفردوس،۵/ ۲۹۱، حدیث: ۸۲۱۶۔

...[72] احیاء علوم الدین، کتاب المحبۃ والشوق ۔۔۔ الخ، بیان حقیقۃ الرضا۔۔۔الخ، ۵/ ۷۱۔

...[73] معجم  کبیر،  ۱۷/ ۴۸، حدیث:۱۰۱۔

...[74] مجموعۃ رسائل امام غزالی، منھاج العارفین،باب السجود ،ص۲۱۷۔

...[75] احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومھماتھا، حکایات واخبار فی صلاۃ الخاشعین رضی اللہ عنھم ، ۱/ ۲۳۲۔

...[76] معجم کبیر، ۱۰/ ۱۳۹، حدیث: ۱۰۲۳۹۔

...[77] ابن ماجہ،کتاب الزھد، باب الحکمۃ، ۴/ ۴۵۵،حدیث:۴۲۱۷۔

...[78] عیون الحکایات، الحکایۃ التاسعۃ والخمسون بعد المائۃ، ص۱۷۴۔

...[79] بخاری ،کتاب الرقاق، باب الغنی غنی النفس،۴/ ۲۳۳،حدیث:۶۴۴۶۔

...[80] ابن حبان، کتاب الرقائق، باب الفقر والزھد والقناعۃ، ۱/ ۳۷، حدیث: ۶۸۴۔

...[81] ابن حبان، کتاب التاریخ،باب بدء الخلق،ذکر سوال کلیم اللہ ۔۔۔الخ، ۸/ ۳۴، حديث۶۱۸۴۔

...[82] ابو داود، کتاب الملاحم، باب الامر والنھی، ۴/ ۱۶۲، حدیث: ۴۳۳۶۔

...[83] شعب الایمان ، باب فی مقاربۃومودۃ۔۔۔الخ، ۶/  ۵۰۳، حدیث:۹۰۶۳۔

...[84] صراط الجنان،پ۱۱، یونس،تحت الآیۃ:۷۶، ۴/ ۳۶۳۔

...[85] کنز العمال ،کتاب النکاح، الجزء: ۱۶، ۸/ ۲۲۶، حدیث:۴۵۷۹۲۔

...[86] مستدرک حاکم،کتاب اللباس ،باب ان اللّٰه جمیل یحب الجمال، ۵/ ۲۵۶، حدیث:۷۴۴۵۔

...[87] شعب الایمان ، باب فی حسن الخلق، فصل فی التواضع ۔۔۔الخ، ۶/ ۲۹۸، حدیث:۸۲۳۰۔

...[88] الزواجر عن اقتراف الکبائر ،الباب الاول فی الکبائر الباطنۃ وما یتبعھا، ۱/  ۱۶۳۔

...[89] احیاء علوم الدین،کتاب الفقر والزھد، بیان حقیقۃ الفقر ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۷۔

...[90] الزھد لابن مبارک،باب فی طلب الحلال، ص۲۲۴، حدیث: ۶۳۴۔

...[91] احیاء علوم الدین،کتاب الفقر والزھد،بیان تفصیل الزھد فیما ھو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۶۔

...[92] الزھد للامام احمد بن حنبل،اخبار الحسن بن ابی الحسن، ص۲۸۳، حدیث: ۱۵۶۲۔

...[93] مستدرک حاکم،کتاب الرقاق،باب الف اللہ فقیرا،۵/  ۴۵۰،حدیث:۷۹۵۷ ۔

...[94] شعب الایمان،باب فی الزھد وقصر الامل،۷/ ۳۴۶، حدیث:۱۰۵۳۲۔

...[95] احیاء علوم الدین، کتاب ذم البخل و ذم حب المال،بیان ذم المال وکراھۃ حبہ ،۳/ ۲۸۸۔

...[96] الزواجر عن اقتراف الکبائر،الکبیرۃ الثالثۃ والخمسون بعد المائتین، ۲/ ۴۹۔

...[97] ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی اخذ المال،۴/ ۱۶۶، حدیث: ۲۳۸۳۔

...[98] ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی اخذ المال،۴/ ۱۶۶، حدیث: ۲۳۸۲۔

...[99] احیاء علوم الدین،کتاب ذم البخل و ذم حب المال،بیان ذم المال وکراھۃ حبہ ،۳/ ۲۸۸ ۔

...[100] احیاء علوم الدین،کتاب ذم البخل و ذم حب المال،بیان ذم المال وکراھۃ حبہ ،۳/ ۲۸۹۔

...[101] ترمذی،کتاب الزھد عن رسول اللہ، باب ماجاء فی الکفاف والصبرِ علیہ،۴/ ۱۵۵، حدیث۲۳۵۴۔

...[102] بہار شریعت،حصہ شانزدہم،۳/ ۵۴۲ ملخصا۔

...[103] بخاری،کتاب العلم،باب الاغتباط فی العلم و الحکمۃ، ۱/ ۴۳،حدیث:۷۳۔

...[104] احیاء العلوم،۳/ ۵۸۶ملتقطا ۔

...[105] مسلم، کتاب المساجد۔۔۔الخ، باب استجاب الذکر۔۔۔الخ، ص۳۰۰، حديث: ۵۹۵۔

...[106] ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء مثل الدنیا مثل اربعۃ نفر،۴/ ۱۴۶،حدیث:۲۳۳۲۔

...[107] حلیۃ الاولیاء،الفضیل بن عیاض،۸/ ۹۸،رقم:۱۱۴۸۷۔

...[108] مرآۃ المناجیح، ۶/۵۸۴۔

...[109] احیاء العلوم،۲/ ۵۷۱۔

...[110] مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب،باب فی فضل الحب فی اللہ ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۸، حدیث:۲۵۶۶۔

...[111] ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی الحب فی اللہ، ۴/ ۱۷۴، حدیث: ۲۳۹۷۔

...[112] احیاء العلوم، ۲/ ۵۶۸۔

...[113] مرآۃ المناجیح،۶/ ۵۸۸ ملخصًا۔

...[114] مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فی فضل الحب فی اللہ، ص۱۳۸۸، حدیث:۲۵۶۷۔

...[115] قوت القلوب ،۲/ ۳۶۴۔

...[116] مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انہ لایدخل الجنۃ الا المؤمنون۔۔۔الخ، ص۴۷، حدیث:۵۴۔

...[117] احیاء العلوم، ۴/ ۵۰۴، ۵۰۵ماخوذا۔

...[118] خزائن العرفان، پ۹،الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۹۔

...[119] معجم اوسط، ۶/ ۴۲۲، حدیث:۹۲۷۲۔

...[120] الزواجر عن اقتراف الکبائر، الکبیرۃ التاسعۃ والثلاثون،۱/ ۱۸۵۔

...[121] عیون الحکایات،حصہ دوم، ص۳۷۳۔

...[122] احیاء العلوم،۴/ ۵۰۳۔

...[123] احیاء العلوم، ۴/ ۵۲۵۔

...[124] الزواجر عن اقتراف الکبائر،الکبیرۃ التاسعۃ والثلاثون، ۱/ ۱۸۵۔

...[125] فیضان سنت ، پیٹ کا قفل مدینہ،ص۶۸۳۔

...[126] خزائن العرفان، پ۱۳، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱۔

...[127] مسند امام احمد،مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص،۲/ ۶۵۴،حدیث:۶۹۴۲۔

...[128] احترام مسلم، ص۲۶۔

...[129] احیاء العلوم،۳/ ۲۱۸۔

...[130] احیاء العلوم،۲/ ۷۰۴ تا ۷۶۰ملتقطا۔

...[131] الترغیب والترھیب ،کتاب الادب وغیرہ،باب الترھیب من الغیبۃ ۔۔۔ الخ، ۳/ ۴۰۸، حدیث: ۴۳۷۱۔

...[132] موسوعہ ابن ابی الدنیا،کتاب الصمت۔۔۔الخ،باب الغیبۃ و ذمھا، ۷/ ۱۲۴، حدیث:۱۷۳۔

...[133] مصنف عبد الرزاق، باب الاغتیاب والشتم، ۱۰/ ۱۸۸، حدیث: ۴۷۷۵۔

...[134] مکاشفۃ القلوب، ص۱۱۰ماخوذا۔

...[135] سنن کبری للنسائی، کتاب التفسیر، باب سورۃ الانعام، ۶/ ۳۴۳، حدیث: ۱۱۱۷۴۔

...[136] بستان الواعظین، مجلس فی الاستعاذۃ، ص۲۷۔

...[137] مکاشفۃ القلوب ، ص۱۲۴۔

...[138] اصلاح اعمال، ۱/ ۱۹۷ ماخوذا۔

...[139] موسوعہ ابن ابی الدنیا،کتاب مکائد الشیطان، ۴/ ۵۳۶، حدیث: ۲۲۔

...[140] احیاء العلوم،۳/ ۹۵۔

...[141] احیاء العلوم،۳/ ۱۰۲۔