اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

صحابیات اور شوقِ عِلْمِ دین

دُرُودِ پاک کی فضیلت

خَاتَمُ الْـمُرْسَلِین،جنابِ صادِق واَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ بَـخْشِشْ نِشان ہے:جس نے کِتاب میں مجھ پر دُرُودِ پاک لکھا تو جب تک میرا نام اُس میں رہے گا فرشتے اُس کے لیے اِسْتغفار(یعنی بَـخْشِشْ کی دُعا) کرتے رہیں گے۔[1]

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!           صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!فرشتوں سے بَـخْشِشْ کی دُعا چاہتی ہیں تو اپنی عادَت بنا لیجئے کہ جب بھی آقائے دو۲ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نامِ مُبارَک لکھیں ساتھ میں دُرودِ پاک ضَرور لکھئے، کیونکہ درودِ پاک کی جگہ ”صلعم“وغیرہ لکھنا کافی نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت، عظیم البَرَکت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:تحریر میں ہزار جگہ نامِ پاک حُضُورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم آئے ہر جگہ پورا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم لکھا جائے ہرگز ہر گز کہیں صلعم وغیرہ نہ ہو عُلَما نے اس سے سَخْت مُمانَعَت فرمائی ہے۔[2] نیز بہارِ شَریعَت میں ہے:بعض لوگ براہِ اِخْتِصار ”صلعم“ یا” ؐ“ لکھتے ہیں، یہ مَحْض ناجائز و


 

 حَرام ہے۔[3]

حُکْمِ حَق ہے پڑھو دُرُود شریف               چھوڑو مَت غافِلو دُرُود شریف

حضرتِ مصطفےٰ کا پیارا نام                           جب سنو تب پڑھو دُرُود شریف[4]

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!           صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خواتین کی بحر علم سے سیرابی

دَورِ جَاھِلیَّت میں عربوں پر چھائے جَہَالَت وگمراہی کے اندھیرے میں خال خال (بَہُت کم)ہی نُورِ عِلْم سے مُنَوَّر کوئی شخص نَظَر آتا۔ اِسلام نے عربوں کو جہاں دیگر مُتَمَدِّن قوموں کی طرح تہذیب و تَمَدُّن سے رُوشناس کرایا وہیں انہیں زیورِ عِلْم سے بھی آراستہ کیا جس کے لیے مُعَلِّمِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودَات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بَہُت سے اَقدامات کئے۔ ان ہی میں سے ایک سلسلۂ دَرْس و بیان بھی تھا۔اس کی بدولت مَرد حضرات تو عِلْم کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے سیراب ہونے لگے مگر ہَنُوز (ابھی تک) خواتین کی تِشْنَگی کا الگ سے کوئی مَعْقُول و مُنَاسِب اِنْتِظام نہ ہو سکا۔ بلکہ وہ اپنی عِلْمی پیاس بجھانے کیلئے خاص خاص مَوَاقِع مثلاً عِیْدَیْن وغیرہ میں حاضِری کی مُنْتَظِر رہتیں۔ یہی وجہ تھی کہ صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی عِلْمی تِشْنَگی روز بروز بڑھتی گئی اور ان کے دِلوں میں یہ خواہش شدید اَنگڑائیاں لینے لگی کہ ان کے لیے بھی ایسی مَحَافِل مُنْعَقِد ہونی چاہئیں جن میں صِرف


اور صِرف اِنہی کی تعلیم و تَربِیَت کا اِہتِمام ہو۔ اس آرزو کا اِظْہَار اس وَقْت سامنے آیا جب ایک صحابیہ [5] نے خِدْمَتِ اَقْدَس میں حاضِر ہو کر باقاعدہ عَرْض کی کہ ان کے لیے بھی کچھ وَقْت خاص ہونا چاہئے جس میں وہ دین کی باتیں سیکھ سکیں۔ چُنَانْچِہ بقولِ مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْمَنَّان اس صحابیہ نے عَرْض کی:(اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!)مَردوں نے آپ کا فَیضِ صُحْبَت بَہُت حاصِل کیا، ہر وَقْت آپ کی اَحادِیْثِ (مُبارَکہ) سنتے رہتے ہیں،ہم کو حُضُور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی خِدْمَت میں حاضِری کا اتنا مَوْقَع نہیں ملتا،مہینہ میں یا ہفتہ میں ایک دِن ہم کو بھی عَطا فرمائیں کہ اس میں صِرف ہم کو وَعْظ و نصیحت فرمایا کریں۔[6] اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں وہ کچھ سکھائیں جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ کو سکھایا ہے۔ چُنَانْچِہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں مَخْصُوص جگہ پر مَخْصُوص دن جَمْع ہونے کا حُکْم اِرشَاد فرمایا۔[7]

خواتین میں علم کی محبت کیسے پیدا ہوئی؟

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو! اس رِوایَت میں صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی دین سیکھنے سکھانے کے بارے میں کڑھن ان کی عِلْمِ دین سے مَحبَّت کا منہ بولتا ثُبُوت ہے۔


آخِر ان میں یہ شُعُور کیسے پیدا ہوا ؟ اگر غور کریں تو مَعْلُوم ہو گا کہ یہ سب حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہی نَظَرِ شَفْقَت کا نتیجہ تھا، کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس بات کا بخوبی اِدْرَاک تھا کہ عورت پر پوری نسل کی تعلیم و تَرْبِیَت کا اِنْحِصَار ہے۔ چُنَانْچِہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواتین کو مُعَاشَرے میں جہاں بـحَیْثِـیَّت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے عَظَمَت بخشی اور ان کے حُقُوق مُقَرَّر کیے وہیں ان کیلئے بہترین تعلیم و تَرْبِیَت کا اِہتِمام بھی فرمایا تا کہ یہ اپنی ذِمَّہ داریوں سے کَمَا حَقُّہٗ عُہْدَہ بَرآ ہوں اور ان کی گود میں ایک صِحَّت مند نسل تیّار ہو کہ بلاشبہ ماں کی گود بچے کی اَوَّلِین درسگاہ ہے۔ حالانکہ قَبْل از اِسْلَام عورت کیا حَیْثِـیَّت رکھتی تھی، اس کی چند جھلکیاں مُلَاحَظہ فرمائیے:

عورت کی زبوں حالی

اِسْلَام سے قَبْل عورت ظُلْم و سِتَم کا شِکار تھی،اس کی کسی حَیْثِـیَّت کا کوئی لِـحَاظ نہ تھا، ماں ہو یا بیٹی، بہن ہو یا بیوی سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا۔ اس کی وَقْعَت اس کھلونے کی تھی جو مَردوں کی تسکینِ جان کا باعِث تھا، عربوں کے ہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تو برصغیر میں ہندوؤں کے ہاں بیوہ کو مَرد کی چِتا (لکڑیوں کا وہ ڈھیر جس پر ہِندو مُردے کو جلاتے ہیں)میں زندہ ڈال دیا جاتا۔دیگر اَقوامِ عالَم میں بھی اسے پاؤں کی جوتی سے زیادہ اَہَمِیَّت حاصِل نہ تھی۔ بلکہ بعض اَوقات تو بطورِ مال مویشی اس کی خرید و فَرَوخْت کو بھی عیب نہ جانا جاتا، نان نفقہ کے عِوَض اس سے غلاموں جیسا سُلُوک کیا جاتا۔ یہ صِنْفِ نازُک تھی تو مَرد


کی طرح ذی شُعُور مگر اسکے ساتھ برتاؤ انتہائی نازیبا ہوتا،اسے تمام فَسادات کی جَڑ اور اِنسان کی بدبختیوں کا سَر چشمہ گردانا جاتا۔ چوٹی کے نَامْوَر فلسفی اس کے اِنسان ہونے کو ہی مشکوک جانتے۔ ہزاروں برس سے ظُلْم و سِتَم کی ماری یہ دُکھیاری عورت ذات اپنی بے کسی و لاچاری پر روتی و بلبلاتی اور آنسو بہاتی رہی مگر اسے اپنے زخموں پر مَرْہَم رکھنے اور ظُلْم و اِسْتِبْدَاد کے پنجے سے نجات دِلانے والا کوئی مسیحا کہیں نہ ملا۔

اسلام میں عورت کامقام

آخِر کار جب رسولِ رَحْمَت،شافِعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا کی طرف سے دِیْنِ اِسْلَام لے کر تشریف لائے تو دنیا بھر کی ستائی ہوئی عورتوں کی قِسْمَت کا سِتارہ چمک اُٹھا اور اِسْلَام کی بَدَوْلَت ظُلْم و سِتَم کا شِکار عورتوں کا دَرَجَہ اس قَدْر بُلَند و بالا ہوا کہ عِبادات و مُعَامَلات بلکہ زِنْدَگی اور موت کے ہر مَرْحَلَے اور ہر موڑ پر عورتوں کے بھی حُقُوق مُقَرَّر کر دئیے گئے۔چُنَانْچِہ،

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!مَردوں کی طرح ان کے مَعَاشِی و مُعَاشَرْتی حُقُوق مُقَرَّر ہوئے تو وہ مالی حُقُوق حاصِل ہونے پر اپنے مہر کی رقم اور جائداد کی مالِک بنا دی گئیں، اَلْغَرَضْ وہ عورتیں جو مَردوں کی جوتیوں سے زیادہ ذلیل و خوار اور انتہائی مجبور و لاچار تھیں وہ مَردوں کے دِلوں کا سُکُون اور ان کے گھروں کی مالِکہ بن گئیں۔ عورتوں کو دَرَجات و مَرَاتِب کی اتنی بُلَند مَنْزِلُوں پر پہنچا دینا یہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وہ اِحْسَانِ عظیم ہے کہ تمام دنیا کی عورتیں اگر اپنی زِنْدَگی کی آخِری سانس تک اس اِحْسَان کا شکریہ اَدا کرتی رہیں پھر بھی وہ


اس عَظِیمُ الشَّان اِحْسَان کی شکر گزاری کے فَرْض سے سبک دوش نہیں ہو سکتیں۔[8]

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!      صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اسلام میں علم کی اہمیت

اِسْلَام دنیا كا وہ واحِد دین ہے جس کو یہ شَرَف حاصِل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کیلئے عِلْم حاصِل کرنا فَرْض قرار دیا،یہی وجہ ہے کہ کائناتِ عالَم کے سب سے پہلے اِنسان حضرت سَیِّدُنا آدَم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اَوّلاً اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عِلْم کی بدولت ہی تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی۔چُنَانْچِہ اِرشَاد ہوتاہے:

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (پ۱، البقرة:۳۱)       ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ تعالٰی نے آدم کو تمام اَشیا کے نام سکھائے۔

اسی طرح سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر غارِ حرا میں سب سے پہلی نازِل ہونے والی وَحِی بھی عِلْم کی اَہَمِیَّت کا بَیِّن ثُبُوت ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲)اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ(۳)الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ۳۰، العلق:۱ تا۵)

ترجمۂ کنز الایمان:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم،جس نے قلم سے لکھنا سکھایا،آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔


 

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!ان آیَاتِ مُبارَکہ میں جہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رب اور خالِق ہونے کا ذِکْر ہے وہیں عُلُوم کی بعض اَہَم شاخوں یعنی عمرانیات،تخلیقات، حَیاتیات اور عِلْمِ اَخلاقیات کی طرف بھی اِشارہ ہے۔اَلْغَرَضْ ان آیاتِ کریمہ کے ہر ہر لَـفْظ سے عِلْم کی اَہَمِیَّت اُجاگَر ہو رہی ہے، نیز ان آیاتِ مُبارَکہ میں جہاں دو۲ بار عِلْم حاصِل کرنے کا حُکْم ہے وہیں اس اِحْسَان کا اِظْہَار بھی ہے کہ یہ اسی کا کَرَم ہے کہ اس نے انسان کو عِلْم عَطا فرمایا اور لکھنا بھی سکھایا۔نیز عِلْم حاصِل کرنے کا حُکْم دینے کے علاوہ قرآن نے کئی مَقامات پر عِلْم و اَہْلِ عِلْم کی عَظَمَت و فضیلت اور جَہَالَت کی سَخْت مَذمَّت بیان فرمائی۔ جیسا کہ ایک مَقام پر اِرشَاد ہوتا ہے:

هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- (پ۲۳، الزمر:۹)    ترجمۂ کنز الایمان:کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔

عُلَمائے کرام اَنۢبِیَائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے وَارِث ہوتے ہیں جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:بے شک عُلَما ہی اَنۢبِیَا کے وَارِث ہیں، اَنۢبِیَاعَلَیْہِمُ السَّلَام  دِرْہَم ودینار کا وارِث نہیں بناتے بلکہ وہ نُفُوسِ قدسیہ عَلَیْہِمُ السَّلَام  تو صِرف عِلْم کا وارِث بناتے ہیں، تو جس نے اسے حاصِل کرلیا اس نے بڑا حِصّہ پالیا۔[9]جبکہ عُلَما کے عِلْمِ نبوَّت کے وَارِث ہونے کی وَضَاحَت قرآنِ کریم میں یوں فرمائی گئی ہے:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا                   ترجمۂ کنز الایمان:پھر ہم نے کِتاب کا وارِث کیا


 

مِنْ عِبَادِنَاۚ-(پ۲۲، فاطر:۳۲)          اپنے چُنے ہوئے بندوں کو۔

ان آیاتِ کریمہ کی تشریح میں عِلْم کی اَہَمِیَّت کے اِظْہَار اور ایک مسلمان کو سچا اور پختہ مسلمان بنانے کے لئے رسولِ پاک عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔[10] عِلْم حاصِل کرنا ہر مسلمان (مَرد اور عورت) پر فَرْضِ عین ہے۔ ایک بار اِرشَاد فرمایا: اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّیْنِ۔[11] عِلْم حاصِل کرو چاہے چین سے ہو۔جبکہ ایک قول میں ہے:اُطْلُبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ[12] عِلْم حاصِل کرو پیدائش سے لے کر قَبْر میں جانے تک۔

تعلیم نسواں کیوں ضروری ہے؟

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو! یہ ایک مُسَلَّمَہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم یا مِلّت کو اس کی آئندہ نسلوں کی مذہبی و ثقافتی تَرْبِیَت کرنے اور اسے ایک مَخْصُوص قومی و مِلّی تَہْذِیب و تَمَدُّن اور کلچر (Culture)سے بہرہ وَر کرنے میں اس قوم کی خواتین نے ہمیشہ بُنْیَادِی و اَساسی کِردار ادا کیا ہے۔کیونکہ ایک عورت ہر مُعَاشَرے میں بَطَورِ ماں،بہن،بیوی اور بیٹی کے زِنْدَگی گزارتی ہے اور اپنی ذات سے وَابَسْتہ اَفراد پر کسی نہ کسی طرح ضَرور اَثَر انداز ہوتی ہے،[13]لِہٰذا اِسْلَام نے عورتوں کی اس بُنْیَادِی اَہَمِیَّت کے پیشِ نَظَر اس کی ہر حَیْثِـیَّت کے


 مُطابِق اس کے حُقُوق و فَرَائِض کا نہ صِرف تَعَیُّن کیا بلکہ اسے مُعَاشَرے کا ایک اَہَم اور مُفِید فرد بنانے کے لیے اس کی تعلیم و تَرْبِیَت پر بھی خُصُوصِی تَوَجُّہ دی۔ جیسا کہ ذیل میں مَوجُود فرامینِ مصطفےٰ سے ظاہِر ہے۔

علم سیکھو کے آٹھ حروف کی نسبت سے اسلامی بہنوں کی تعلیم و تربیت پر مبنی (8)فرامینِ مصطفٰے

مُعَلِّمِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودَات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِسْلَامی بہنوں کی تعلیم وتَرْبِیَت کے حوالے سے جو مُـخْتَلِف مَوَاقِع پر فرامین اِرشَاد فرمائے، ان میں سے آٹھ۸ پیشِ خِدْمَت ہیں:

(1 )عورتوں کو چرخہ کاتنا سکھاؤ اور انہیں سورۂ نُور کی تعلیم دو۔ [14]

(2 )عِلْمِ دِین سیکھنے کی غَرَضْ سے آئے ہوئے صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے اِرشَاد فرمایا: جاؤ اپنے بیوی بچوں کو دِین کی باتیں سکھاؤ اور ان پر عَمَل کا حُکْم دو۔[15]

(3 )اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے سورۂ بقرہ کو دو۲ ایسی آیات پر خَتْم فرمایا ہے جو مجھے اس کے عَرْشی خزانے سے عَطا ہوئی ہیں، لہٰذا انہیں خود سیکھو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی سکھاؤ کہ یہ دونوں نَماز، قرآن اور دُعا (کا حِصّہ) ہیں۔[16]


 

(4 )باندیوں کے لیے اچھّی تعلیم و تَرْبِیَت کا اِہتِمام کر کے انہیں آزاد کرنے کے بعد ان سے شادی کرنے والوں کو دوہرے ثواب کا مُژْدَہ سنایا۔[17] اس رِوایَت کی شَرْح میں حضرت علّامہ مولانا بَدْرُ الدِّین عینی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی تحریر فرماتے ہیں: اچھّی تَرْبِیَت کرنے اور عِلْمِ دین سکھانے کا حُکْم صِرف باندی کے لیے خاص نہیں بلکہ اس حُکْم میں سب شامِل ہیں۔[18]

(5 ) سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سَیِّدَتُنا شِفا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے اِرشَاد فرمایاکہ وہ اُمُّ الْمُومنین حضرت سَیِّدَتُنا حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو نملہ (چیونٹی) کا دم کیوں نہیں سکھاتی جیسے انہیں لکھنا سکھایا ہے۔[19] مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن لفظِ نملہ کے معنیٰ کی وَضَاحَت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:نملہ باریک دانے ہوتے ہیں جو بیمار کی پسلیوں پر نمودار ہوتے ہیں جس سے مریض کو بَہُت سَخْت تکلیف ہوتی ہے اسے تمام جِسْم پر چیونٹیاں رینگتی مَحْسُوس ہوتی ہیں اس لیے اسے نملہ کہتے ہیں۔بعض کا خَیال ہے کہ اس کا نام موتی جھرہ ہے مگر یہ دُرُسْت نہیں کہ موتی جھرہ تمام جِسْم پر ہوتا ہے حضرت شِفا (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا)مکہ معظمہ میں اس مرض کا بہترین دَم کرتی تھیں آپ وہاں اس دَم کی وجہ سے مَشْہُور تھیں۔ [20]


 

(6 )اپنی اولادکو تین۳ باتیں سکھاؤ (۱) اپنے نبی کی مَحبَّت (۲) اَہْلِ بیْت کی مَحبَّت اور (۳) قرأتِ قرآن۔ [21]

(7 )اپنی اولاد کے ساتھ نیک سُلُوک کرو اور انہیں آدابِ زِنْدَگی سکھاؤ۔[22]

(8 )جس نے تین۳ بچیوں کی پروش کی، انہیں اَدَب سکھایا، ان کی شادی کی اور اَچھّا سُلُوک کیا اس کے لیے جنّت ہے۔ [23]

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!      صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عَمَلی عِلْمی اَقدامات

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابیات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے عملی طور پر بھی ان کی تعلیم و تَرْبِیَت کا حد دَرَجَہ اِہتِمام فرمایا۔

حُصُولِ عِلْم کی چُونکہ عام طور پر دَرْج ذَیل صورتیں ہوتی ہیں:

(1)اُسْتَاذ علم سکھانے کیلئے کسی مَخْصُوص وَقْت پر شاگرد کو اپنے پاس بلائے۔

(2)شاگرد کے گھر جا کر اسے پڑھائے اور اس کی تَرْبِیَت کرے۔

(3)کوئی ایسی جگہ مُقَرَّر کر دے جو اس کا اور اس کے شاگرد کا گھر نہ ہو۔


 

(4)جو لوگ کسی وجہ سے اُسْتَاذ کی خِدْمَت میں حاضِر ہو سکیں نہ اُسْتَاذ ان کے پاس جا سکے تو انہیں زیورِ عِلْم سے مالا مال کرنے کیلئے اُسْتَاذ علم حاصِل کرنے والوں کو یہ ذِمَّہ داری سونپے کہ کسی وجہ سے شریکِ مَـحْفِل نہ ہونے والوں تک یہ عِلْمی فیضان پہنچائیں۔

نوٹ: بہتر یہ ہے کہ شاگرد اُسْتَاذ کے پاس جاکر سیکھے،جیسا کہ (حضرت سَیِّدُنا) موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام (حضرت سَیِّدُنا) خضر عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس عِلْم سیکھنے گئے تھے،(حضرت سَیِّدُنا)خضر عَلَیْہِ السَّلَام آپ کے پاس نہ آئے تھے۔[24] لِہٰذا اس اِعْتِبَار سے اگر سرورِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے عملی اَقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ تمام صورتیں بَدَرَجَۂ اَتم نَظَر آتی ہیں۔چُنَانْچِہ،

حصولِ علم کی پہلی صورت

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے عِلْمِ دین سیکھنے کے بارے میں نہ صِرف ہر مَوْقَع پر صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی حَوْصَلہ افزائی فرمائی بلکہ مُـخْتَلِف مَوَاقِع پر انہیں اس کی ترغیب بھی دِلائی۔چونکہ اس وَقْت حُصُولِ عِلْم کا واحِد ذریعہ ذاتِ نبوی تھی اور ہر مَـحْفِل میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تَرْبِیَت و اصلاح کے بیش قیمت مَدَنی پھول اِرشَاد فرماتے رہتے تھے، جیسا کہ حضرت سیِّدَتُنا ہند بنتِ اُسَید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں:رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قرآنی اَلْفَاظ میں خِطاب فرماتے تھے۔ میں نے سورہ ق آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مِنْبَر پر بَکَثْرَت سُن کر


 یاد کی تھی۔[25] یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی تَرْبِیَت فرما رہے تھے اور صَحَابِیّات طَیِّبَات عَلَیْہِنَّ الرِّضْوَان بھی باپردہ ایک طرف مَوجُود تھیں تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ مَحْسُوس فرمایا کہ شاید صحابیات کو بات سمجھ میں نہیں آئی چُنَانْچِہ ان کے قریب آ کر دوبارہ از سرِ نو وَعْظ و نصیحت اِرشَاد فرمایا۔[26] ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے عید کے مَوْقَع پر تمام خواتین کو شِرْکَت کا پابند بنایا، حَالَتِ پاکی تو کجا، ناپاکی کی حَالَت میں بھی آنے کی تاکید فرمائی، یہی نہیں بلکہ اوڑھنی کے نہ ہونے پر بھی انہیں مَعْذُور نہ جانا اور حاضِری کی سَخْت تاکید فرمائی۔ جیسا کہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہم نو عمر لڑکیوں، حیض والیوں اور پردے والیوں کو حُکْم دیا کہ عیدَین پر (نَماز کے لیے)گھر سے نکلیں مگر حیض والیاں نَماز میں شامِل نہ ہوں،بلکہ بھلائی کے کاموں اور مسلمانوں کی دُعا میں شریک ہوں۔ میں نے عَرْض کی: یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ہم میں سے بعض کے پاس تو جِلْبَاب (برقع یا بڑی چادر) نہیں ۔تو آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: اس کی بہن اسے اپنی جِلْبَاب (بڑی چادر کا کچھ حِصّہ)اوڑھا لے۔[27]

حج اور عمرہ کے مَوْقَع پر بھی صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّبارگاہِ رِسَالَت


میں حاضِر رہیں اور یوں حج وغیرہ کے مُتَعَلِّق بھی  بَہُت سے اَہَم اور بُنْیَادِی مَسَائِل ہم تک انہی کے ذریعے پہنچے۔ جیسا کہ اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیْقَہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے مَرْوِی ہے کہ آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے بارگاہِ رِسَالَت میں عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!کیا عورتوں پر بھی جِہاد فَرْض ہے؟تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے  اِرشَاد فرمایا: ہاں!مگر ان پر جو جِہاد فَرْض ہے اس میں قِتال نہیں اور وہ حج و عمرہ ہے۔[28]اسی طرح صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے بعض صورتوں میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس بات کی صَراحَت بھی حاصِل کر لی کہ مَردوں کی طرح وہ بھی نیکی و خیر کے بعض کام کر سکتی ہیں مَثَلًا مَعْذُور[29] اور فوت شدہ[30] کی طرف سے وہ  بھی حج ادا کر سکتی ہیں۔

اَلْغَرَضْ زِنْدَگی کے کئی شعبوں میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے خواتین کو شِرْکَت کے مَوَاقِع فَرَاہَم کیے اور ان کی نہ صِرف حَوْصَلہ اَفزائی فرمائی، بلکہ عِبادات سے لے کر سماجی اور مُعَاشَرْتی تمام مَسَائِل و مَراحِل میں ان کی خصوصی تَرْبِیَت کا اِہتِمام بھی فرمایا، یہاں تک کہ دورِ نبوی میں چند مَوَاقِع ایسے بھی آئے جب صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی عِلْمی فراست کو ہر ایک نے تسلیم کیا۔ چُنَانْچِہ مَرْوِی ہے کہ حَجَّةُ  الْوَدَاع کے مَوْقَع


پر صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اس مسئلہ میں تشویش کا شِکار ہو گئے کہ عَرَفہ (یعنی نو ذو الحجۃ الحرام) کے دن روزہ رکھا جائے گا یا نہیں؟تو حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ فَضْل بِنْتِ حارِث رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس مَوْقَع پر صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے اس اِخْتِلاف کو کچھ یوں دُور فرمایا کہ دودھ کا ایک پیالہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَتِ اَقْدَس میں بھیجا جسے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے ہی نوش فرما لیا۔[31] اور یوں صحابہ کرام کی تشویش دور ہو گئی۔ اسی طرح ایک دن سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صَحابہ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے سوال کیا: عورت کیلئے سب سے بہتر کون سی چیز ہے؟ تو کسی صحابی کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سیدہ خاتونِ جنّت حضرت فاطمۃ الزہرا رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس آئے اور ان سے اس سوال کا جواب پوچھا تو انہوں نے کچھ یوں جواب اِرشَاد فرمایا: عورت کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ نہ وہ کسی مَرد کو دیکھے اور نہ کوئی مَرد اسے دیکھے۔ لِہٰذا حضرت سَیِّدُنا علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے بارگاہِ رِسَالَت میں جب یہ جواب عَرْض کیا تو سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دَرْیَافْت فرمایا: (اے علی!) یہ جواب تمہیں کس نے بتایا؟ عَرْض کی: آپ کی شہزادی فاطمہ (رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا) نے۔ تو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: فاطمہ نے سچ کہا ہے، فاطمہ تو میرے بَدَن کا ٹکڑا ہے۔ [32]


 

حصولِ علم کی دوسری صورت

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!حُصُولِ عِلْم کی دوسری صُورَت سے مُراد یہ ہے کہ اُسْتَاذ خود چل کر شاگرد کے ہاں جائے اور اسے عِلْم کی دولت سے مالا مال کرے۔ جب ہم اس تَناظُر میں مَحْبُوبِ خُدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی حَیاتِ طیبہ پر نَظَر ڈالتے ہیں تو ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بَہُت سی صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے گھروں میں بھی تشریف لے جایا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان خاص مَوَاقِع کی تفصیلات خاص اسی گھر کی میزبان خواتین سے آج ہم تک پہنچی ہیں۔ ذیل میں اس کی پانچ۵ مثالیں پیشِ خِدْمَت ہیں:

(1 )ایک مرتبہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سائب یا اُمِّ مسیّب کے ہاں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ آپ پر کپکپی طاری ہے۔حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِسْتِفْسَار فرمایا: اے اُمِّ سائب یا اُمِّ مسیّب! کیوں کپکپا رہی ہو؟ عَرْض کی: بُخار کی وجہ سے۔ پھر فوراً کہنے لگیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس میں بَرَکَت نہ عَطا فرمائے تو ان کے اس جملے پر سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: بُخار کو بُرا مت کہو! یہ تو ابنِ آدم کی خطاؤں کو یوں دُور کرتا ہے جیسے لوہار کی بھٹی لوہے کی میل کو دور کرتی ہے۔ [33]

(2 )حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے شوہر حضرت سَیِّدُنا ابو سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی


 

 عَنْہ کی وفات کے بعد سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تَعْزِیَت کیلئے آپ کے پاس تشریف لائے تو اُس وَقْت آپ نے اپنے چہرے پرمُصَبَّر (ایلوا)کا لیپ کیا ہوا تھا، سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ دیکھ کر دَرْیَافْت فرمایا: اُمِّ سَلَمَہ یہ کیا ہے؟ تو گویا آپ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!عِدَّت میں چونکہ خوشبو لگانا مَنْع ہے اور ایلوے میں خوشبو نہیں ہوتی، اس وجہ سے میں نے اس کا لیپ کرلیا۔اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے  اِرشَاد فرمایا:اس سے چہرے میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے، اگر لگانا ہی ہے تو رات میں لگا لیا کرو اور دن میں صاف کر دیا کرو۔(یعنی عِدَّت میں صِرف خوشبو ہی مَـمْنُوع نہیں بلکہ زِیْنَت بھی مَـمْنُوع ہے، ایلوا خوشبودار تو نہیں مگر چہرے کا رنگ نِکھار دیتا ہے اسے رنگین بھی کردیتا ہے،لہٰذا زِیْنَت ہونے کی وجہ سے اس کا لیپ مَـمْنُوع ہے، اگر لیپ کی ضَرورت ہی ہو تو رات میں لگا لیا کرو کہ وہ وَقْت زِیْنَت کا نہیں اور دن میں دھو ڈالا کرو۔) پھر اِرشَاد فرمایا:خوشبو اور مہندی سے بھی بال نہ سنوارو۔(یعنی زمانۂ عِدَّت میں خوشبودار تیل بدن کے کسی حِصّہ خصوصًا سر میں اِسْتِعمال نہ کرو اور ہاتھ پاؤں اور سر میں مہندی نہ لگاؤ کہ مہندی میں بھینی خوشبو بھی ہے رَنگت بھی۔)عَرْض کی: کنگھا کرنے کے لیے کیا چیز سر پر لگاؤں؟(یعنی عورت کو سر دھونے کنگھی کرنے کی ضَرورت ہوتی ہے جب یہ چیزیں مَـمْنُوع ہوگئیں تو یہ ضَرورت کیسے پوری کروں؟)فرمایا: بیری کے پتّے سر


 

 پر تھوپ لیا کرو پھر کنگھا کرو۔[34]

(3 )سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بسا اَوقات حضرت سَیِّدَتُنا شفا بنت عبداللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر قیلولہ فرمایا کرتے تھے، چُنَانْچِہ انہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے لیے ایک بِسْتَر اور چادَر کو مَخْصُوص کر رکھا تھا کہ جب کبھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دوپہر میں ان کے گھر قیلولہ فرماتے تو یہی بِسْتَر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لیے بچھایا کرتیں۔ یہ بستر ہمیشہ آپ کے پاس رہا یہاں تک کہ جب مَروان بن حکم کا دور آیا تو اس نے لے لیا۔[35]

(4 )فتح مکہ کے دن سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اَمِیرُ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدُنا علی المرتضی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی سگی بہن حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ ہانی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے مکان پر غسل فرمایا،پھر نَمازِ چاشت ادا فرمائی۔[36]تو اس کی تفصیلات اسی طرح ایک مرتبہ ان کے ہاں تشریف لائے تو دَرْیَافْت فرمایا: کچھ (کھانےکو) ہے؟ عَرْض کی:سوکھی روٹی اور سرکہ کے سوا کچھ نہیں۔ اِرشَاد فرمایا: لے آؤ! جس گھر میں سرکہ ہے، اس گھر والے سالَن کے مُحتَاج نہیں۔[37]

(5 )حضرت سَیِّدُنا حمزہ بن عبد المطلب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی زوجہ حضرت سَیِّدَتُنا خولہ


 

 بنت قیس رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: ایک مرتبہ سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے ہاں تشریف لائےتو میں نے کھانا تیّار کیا،تَناوُل فرمانے کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: کیا میں گناہوں کو مِٹانے والی چیز کی طرف تمہاری رَہْنُمائی نہ کروں ؟ عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اِرشَاد فرمائیے۔فرمایا:مشقتوں کے باوُجُود پورا وُضو کرنا(یعنی سردی یا بیماری وغیرہ کی حالت میں جب وضو مُکَمَّل کرنا بھاری ہو تب مُکَمَّل کرنا[38])،مَسْجِد میں کَثْرَت سے جانا، ایک نَماز کے بعد دوسری نَماز کا اِنتِظار کرنا گناہوں کو مِٹاتا ہے۔[39]

حصولِ علم کی تیسری صورت

حُصُولِ عِلْم کی اس تیسری صُورَت سے مُراد یہ ہے کہ اُسْتَاذ شاگرد کو اپنے پاس بلائے نہ اس کے ہاں جائے، بلکہ کسی خاص جگہ کا تَعَیُّن کر کے وہاں عِلْم کی مَـحْفِل سجائے۔ اس اِعْتِبَار سے بھی سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی تعلیم و تَرْبِیَت کا اِہتِمام فرمایا۔ جیسا کہ اِبْتِدَا میں بیان ہو چکا ہے کہ ایک صحابیہ نے بارگاہِ نبوّت میں حاضِر ہو کر جب یہ عَرْض کی کہ ہم کو مَردوں کی طرح حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَت میں حاضِری کا اتنا مَوْقَع نہیں ملتا،لہٰذا ایک دِن ہم کوبھی عَطا فرمائیں تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں مَخْصُوص جگہ پر مَخْصُوص دن جَمْع ہونے


 کا حُکْم اِرشَاد فرمایا۔[40]

مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان اس حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئے مراٰۃ المناجیح میں فرماتے ہیں: تبلیغ وغیرہ کے لیے دِن مُقَرَّر کرنا بِالْکُل جائز بلکہ سنّت ہے۔آج مدرسوں میں تعلیم،تعطیل،اِمْتِحَان کے لیے دن مُقَرَّر ہوتے ہیں ان سب کا ماخذ یہ حدیث ہے۔ اسی طرح مِیلاد شریف،گیارھویں شریف،عُرْسِ بزرگان کے لیے دن مُقَرَّر کرنا جائز ہے کہ ان سب میں دین کی تبلیغ ہوتی ہے اور تبلیغ کیلئے دن کا تَعَیُّن دُرُسْت ہے۔حُضُور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے کسی عورت پر پردہ فَرْض نہ تھا کہ حُضُور اُمَّت کیلئے مِثْلِ والِد کے ہیں پھر بھی حُضُور بَہُت اِحْتِیاط فرماتے تھے۔[41]

حصولِ علم کی چوتھی صورت

صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے حُصُولِ عِلْم کی چوتھی صُورَت کچھ یوں بنی کہ مُعَلِّمِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودَات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنی خِدْمَت میں اَکْثَر مَوجُود رہنے والے صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو اس بات کا پابند بنایا کہ وہ دینی اَحْکام اپنے گھر والوں بِالْخُصُوص خواتین کو بھی سکھایا کریں۔جیسا کہ گزَشْتَہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے عِلْمِ دِین سیکھنے کی غَرَضْ سے آئے ہوئے صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے اِرشَاد فرمایا: جاؤ اپنے بیوی بچوں کو دِین کی باتیں سکھاؤ اور ان پر عَمَل کا


حُکْم  دو۔[42] ایک رِوایَت میں فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے سورۂ بقرہ کو دو۲ ایسی آیات پر خَتْم فرمایا ہے جو مجھے اس کے عَرْشی خزانے سے عَطا ہوئی ہیں، لہٰذا انہیں خود سیکھو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی سکھاؤ کہ یہ دونوں نَماز، قرآن اور دُعا (کا حِصّہ) ہیں۔[43]ایک رِوایَت میں اِرشَاد فرمایا: باندیوں کے لیے اچھّی تعلیم و تَرْبِیَت کا اِہتِمام کر کے انہیں آزاد کرنے کے بعد ان سے شادی کرنے والوں کے لیے دوہرا ثواب ہے۔[44] ایک مرتبہ کسی صحابیہ[45]نے بارگاہِ رِسَالَت میں عَرْض کی: اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں اپنی جان آپ کو ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ جواب کے انتظار میں کافی دیر کھڑی رہیں تو ایک صحابی اٹھے اور یوں عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اگر آپ کو ضَرورت نہ ہو تو ان کی مجھ سے شادی فرما دیجئے۔ دَرْیَافْت فرمایا: تمہارے پاس مہر میں دینے کے لیے کچھ ہے؟ عَرْض کی: سوائے اس تہبند کے کچھ نہیں۔ اِرشَاد فرمایا: تلاش تو کر! اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔ انہوں نے جستجو کی مگر کچھ نہ پایا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: کیا تجھے قرآن آتا ہے؟ عَرْض کی: جی فلاں فلاں سورتیں آتی ہیں۔ اِرشَاد فرمایا: (ٹھیک ہے)جاؤ!


 

 میں نے تمہارا نِکاح اس سے کردیا اسے قرآن سکھاؤ[46]۔[47]

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!دیکھا آپ نے!اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عورتوں کی تعلیم و تَرْبِیَت کے لیے ہر اِعْتِبَار سے عَمَلی اَقدامات فرمائے،یہی وجہ ہے کہ دین کی تعلیمات سے کَمَا حَقُّہٗ آشنا ان صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے ایسے مردانِ حَق پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی ان اَوَّلِین درسگاہوں سے اِسْلَام کی حقانیت پر مَر مٹنے کا ایسا جذبۂ لا زوال پایا کہ اس کے ثمرات آج بھی ظاہِر ہیں۔ اِسْلَام کی یہی وہ پاکدامن بی بیاں تھیں جنہوں نے ہمیشہ کڑے وَقْت میں اِسْلَام کی ڈگمگاتی کشتی کو سہارا دینے والے بازو مہیا کئے۔ بلا شبہ اِسْلَام کے اس ہرے بھرے دَرَخْت کی جڑوں کو مَضْبُوط سے مَضْبُوط تر کرنے کی خاطِر ان پاک طینت بیبیوں نے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے جگر گوشوں کا خون دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ تاریخ کے اوراق صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ 


 

تَعَالٰی عَنْہُنَّکے ایسے ان گنت واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ ان میں سے صِرف ایک واقعہ پیشِ خِدْمَت ہے:

رات کا پچھلاپہر تھا،سارے کا سارا مدینہ نُور میں ڈوبا ہوا تھا۔ اَہْلِ مدینہ رَحْمَت کی چادَر اَوڑھے مَحوِ خواب تھے، اتنے میں مُؤَذِّنِ رسول حضرتِ سیِّدُنا بِلال حبشی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی پُر کیف صدا مدینۂ منوَّرہ کی گلیوں میں گونج اٹھی: آج نَمازِ فَجْر کے بعد مجاہِدین کی فوج ایک عظیم مُہِم پر روانہ ہورہی ہے۔ مدینۂ منوَّرہ کی مقدَّس بیبیاں اپنے شہزادوں کو جنَّت کا دولھا بنا کر فوراً دربارِ رِسَالَت میں حاضِر ہو جائیں۔

ایک بیوہ صحابیہ اپنے چھ۶ سالہ یتیم شہزادے کو پہلو میں لٹائے سو رہی تھیں۔ حضرتِ سیِّدُنا بِلال رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا اِعْلَان سن کر چونک پڑیں! دِل کا زَخْم ہرا ہوگیا،یتیم بچّے کے والِدِ گرامی گُزَشتہ برس غزوۂ بدر میں شہید ہو چکے تھے۔ ایک بار پھر شَجرِ اِسْلَام کی آبیاری کیلئے خون کی ضَرورت درپیش تھی مگر ان کے پاس چھ۶ سالہ مَدَنی مُنّے کے عِلاوہ کوئی اور نہ تھا۔ سینے میں تھما ہوا طُوفان آنکھوں کے ذَرِیعے اُمنڈ آیا۔ آہوں اور سسکیوں کی آواز سے مَدَنی مُنّے کی آنکھ کُھل گئی، ماں کو روتا دیکھ کر بیقرار ہوکر کہنے لگا:ماں!کیوں رو تی ہو ؟ ماں مَدَنی مُنّے کو اپنے دل کا دَرْد کس طرح سمجھاتی! اس کے رونے کی آواز مزید تیز ہوگئی۔ ماں کی گِریہ و زاری کے تَأَثُّرسے مَدَنی مُنّا بھی رونے لگ گیا۔ ماں نے مَدَنی مُنّے کو بہلانا شروع کیا، مگر وہ ماں کا دَرْد جاننے کیلئے بَضِد تھا۔ آخِرکار ماں نے اپنے جذبات پر بکوشِش تمام قابو پاتے ہوئے کہا: بیٹا! ابھی ابھی حضرتِ سیِّدُنا بِلال رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اِعْلَان کیا ہے، مجاہِدین


 کی فوج میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہو رہی ہے۔ آقائے نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے جاں نثار طَلَب فرمائے ہیں۔کتنی بخت بیدار ہیں وہ مائیں جو آج اپنے نوجوان شہزادوں کا نذرانہ لیے دربارِ رِسَالَت میں حاضِر ہو کر اشکبار آنکھوں سے التجائیں کر رہی ہوں گی:یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ہم اپنے جگر پارے آپ کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہیں،آقا! ہمارے اَرمانوں کی حقیر قربانیاں قَبول فرما لیجئے، سرکار! عمر بھر کی محنت وُصُول ہو جائے گی۔اتنا کہہ کر ماں ایکبار پھر رونے لگی اور بَھرّائی ہوئی آواز میں کہا: کاش! میری گود میں بھی کوئی جوان بیٹا ہوتا اور میں بھی اپنا نذرانۂ شوق لے کر آقا کی بارگاہ میں حاضِر ہو جاتی۔ مَدَنی مُنّا ماں کو پھر روتا دیکھ کر مچل گیا اور اپنی ماں کوچُپ کرواتے ہوئے جوشِ ایمانی کے جذبے کے ساتھ کہنے لگا: میری پیاری ماں! مَت رو،مجھی کو پیش کر دینا۔ ماں بولی: بیٹا!تم ابھی کمسن ہو، میدانِ کار زار میں دشمنانِ خونخوار سے پالا پڑتا ہے، تم تلوار کی کاٹ بَرْدَاشْت نہیں کرسکو گے۔ مَدَنی مُنّے کی ضِد کے سامنے بِالآخِر ماں کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ نَمازِ فَجْر کے بعد مَسْجِدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِھَاالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے باہَر میدان میں مُجاہِدین کا ہُجوم ہو گیا۔ ان سے فارِغ ہو کر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمواپَس تشریف لا ہی رہے تھے کہ ایک پردہ پوش خاتون پر نظر پڑی جو اپنے چھ۶ سالہ مَدَنی مُنّے کو لیے ایک طرف کھڑی تھی۔ شاہِ شیریں مَقا ل،صاحِبِ جُود و نَوال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت ِسیِّدُنا بِلال رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو آمد کا سَبَب دَرْیَافْت کرنے کیلئے بھیجا۔ سیِّدُنا بِلال رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے قریب جا کر نِگاہیں جھکائے آنے کی وجہ دَرْیَافْت کی۔


 

خاتون نے بَھرّائی ہوئی آواز میں جواب دیا: آج رات کے پچھلے پَہر آپ اِعْلَان کرتے ہوئے میرے غریب خانے کے قریب سے گزرے تھے، اِعْلَان سُن کر میرا دِل تڑپ اُٹھا۔ آہ! میرے گھر میں کوئی نوجوان نہیں تھا جس کا نذرانۂ شوق لے کر حاضِر ہوتی فَقَط میری گود میں یِہی ایک چھ۶ سالہ یتیم بچّہ ہے جس کے والِد گزَشْتَہ سال غَزوۂ بدر میں جامِ شَہادَت نوش کر چکے ہیں میری زِنْدَگی بھر کی پونجی یہی ایک بچّہ ہے، جسے سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہوں۔ حضرتِ سیِّدُنا بلال رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پیار سے مَدَنی مُنّے کو گود میں اُٹھا لیا اور بارگاہِ رِسَالَت میں پیش کرتے ہوئے سارا ماجرا عَرْض کیا۔ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مَدَنی مُنّے پر بَہُت شَفْقَت فرمائی۔ مگر کمسِنی کے سَبَب میدانِ جِہاد میں جانے کی اِجازَت نہ دی۔[48]

کس علم کا حصول ضروری ہے؟

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!اِسْلَام نے عِلْم حاصِل کرنے کو ہر چیز پر ترجیح دی ہے اور اِسْلَام قطعاً یہ اِجازَت نہیں د یتا کہ کوئی بھی مسلمان خود کو عِلْم سے مَحْرُوم رکھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون سا عِلْم ہے جس کا حاصِل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فَرْض قرار دیا گیا ہے اور اگر اس کے حُصُول میں چین جیسے دُور دراز ملک میں جانے کی مَشَقَّت اور تکلیف بھی اُٹھانا پڑے تو ضَرور اُٹھائے مگر عِلْم حاصِل کرے۔[49]اس ضِمْن میں شَیْخِ طَرِیْقَت، اَمِیْـرِ اَھْلِسُنّت،


  بانیِ دعوتِ اِسْلَامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ تحریر فرماتے ہیں:(فَرْض عِلْم سے)اسکول کالج کی دُنیوی تعلیم نہیں بلکہ ضَروری دینی عِلْم مُراد ہے۔لہٰذا سب سے پہلے بنیادی عقائد کا سیکھنا فَرْض ہے، اس کے بعد نَماز کے فرائض و شرائط و مُفْسِدَات،پھر رَمضانُ المبارَک کی تشریف آوری پر فَرْض ہونے کی صُورَت میں روزوں کے ضَروری مَسَائِل، جس پر زکوٰۃ فَرْض ہو اُس کے لئے زکوٰۃ کے ضَروری مَسائل، اسی طرح حج فَرْض ہونے کی صُورَت میں حج کے، نِکاح کرنا چاہے تو اس کے،تاجِر کو خرید و فَرَوخْت کے،نوکری کرنے والے کو نوکری کے،نوکر رکھنے والے کو اِجارے کے،و علٰی ھٰذا الْقیاس (یعنی اوراسی پر قِیاس کرتے ہوئے)ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مَرد و عورت پر اُس کی موجودہ حَالَت کے مُطابِق مسئلے سیکھنا فَرْضِ عَین ہے۔ اِسی طرح ہر ایک کے لئے مَسَائِلِ حَلال و حَرام بھی سیکھنا فَرْض ہے۔ نیز مَسَائِلِ قلب (باطِنی مَسَائِل) یعنی فرائضِ قَلْبِیہ (باطِنی مسائل) مَثَلاً عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اوران کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلًا تکبُّر، ریاکاری،حَسَد وغیرہا اور ان کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر اَہَم فرائض سے ہے۔مُہْلِکات یعنی ہَلاکَت میں ڈالنے والی چیزوں جیسا کے جھوٹ، غیبت،چغلی، بُہْتَان وغیرہ کے بارے میں ضَروری مَعْلُومَات حاصِل کرنا بھی فَرْض ہے تاکہ ان گنا ہوں سے بچا جا سکے۔ [50]


 

علم سیکھنے میں آج کی عورت کا حال

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!عِلْمِ دین سیکھنا کسی خاص گروہ یا طبقے کا کام نہیں، بلکہ ہر ایک پر اپنی ضَرورت کے مُطابِق عِلْم سیکھنا فَرْض ہے۔ مگر اَفْسَوس! آج ہماری اَکْثَرِیَّت عِلْم سے دُور دِکھائی دیتی ہے۔ عرصۂ دَراز تک نَماز پڑھنے والیوں کو وُضو تک کا دُرُسْت طریقہ مَعْلُوم نہیں ہوتا۔ چہ جائیکہ اس کے فرائض وواجبات سے آگاہی ہو۔ کثیر اِسلامی بہنیں رمضان کے روزے، حج و زکوٰۃ کے ضَروری مَسَائِل سے ناآشنا ہیں۔ اسی طرح حَسَد، بُغْض و کینہ، تکبُّر، غیبت، چُغْلِی، بُہْتَان،شُماتَت جیسے کئی ایسے اُمُور ہیں جن کا جاننا فَرْض ہے۔ لیکن ایک تعداد ہے جنہیں ان کی تعریف تک نہیں آتی بلکہ انہیں تو یہ بھی مَعْلُوم نہیں کہ یہ وہ باتیں ہیں جن کا عِلْم حاصِل کرنا فَرْض ہے۔ لِہٰذا عِلْمِ دِین سیکھ کر ان تمام اُمُور سے بچنا بے حد ضَروری ہے، مگر اَفْسَوس صد اَفْسَوس!ہم عِلْمِ دِین سیکھنے سے دُور ہیں۔

علم سیکھنے میں صحابیات کا حال

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو جب بھی کوئی دینی یا دُنْیَاوِی الجھن در پیش ہوتی فوراً بارگاہِ نبوی میں خود حاضِر ہو کر یا کسی کے ذریعے اس کا حل مَعْلُوم کر لیتیں اور دینی مَسَائِل سیکھنے میں کبھی حَیا کو آڑے نہ آنے دیتیں، جیسا کہ اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیْقَہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے اَنصاری خواتین کی تعریف کرتے ہوئے اِرشَاد فرمایا: انصاری خواتین کتنی اچھّی ہیں کہ دینی مَسَائِل سیکھنے میں حَیا نہیں کرتیں۔[51]


بسا اَوقات اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو اپنے ذاتی مَسَائِل کا حل پوچھنے کی ترغیب بھی دلایا کرتے تھے، جیسا کہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ کثیر انصاریہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں:میں اور میری بہن سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَت میں حاضِر ہوئیں تو میں نے حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عَرْض کی:میری بہن آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہے مگر وہ پوچھنے میں حَیا کرتی ہے۔تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِرشَاد فرمایا: اسے پوچھنا چاہیے کیونکہ عِلْم حاصِل کرنا فَرْض ہے۔[52]

صحابیات طیبات کے پوچھے گئے سوالات

آئیے! صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے چند سوالات مُلَاحَظہ کرتی ہیں جو انہوں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مُـخْتَلِف اَوقات میں پوچھےیا ان کی مَوجُودَگی میں پوچھے گئےاور انہوں نے انہیں رِوایَت کیا۔

پاکی و طَہَارَت کے متعلق سوالات

دینِ اِسلام میں پاکی و طَہَارَت کو جو اَہَمِیَّت حاصِل ہے اس کی مِثال دنیا کے کسی بھی مَذْھَب میں نہیں ملتی۔ تمام عِبادات کا دار و مَدار پاکی و طَہَارَت پر ہی ہے۔ صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّنے اس کے بارے میں کبھی مَسَائِل دَرْیَافْت کرنے میں حَیا مَحْسُوس نہ کی۔ چُنَانْچِہ ذیل میں صِرف چار۴ مثالیں پیشِ خِدْمَت ہیں:


 

(1)اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیْقَہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: ایک مرتبہ حضرت سَیِّدَتُنا اَسما بِنْتِ شَکْل رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا حُضُور پرنور، شافِع یومُ النُّشور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خِدْمَتِ اَقْدَس میں حاضِر ہو کر یوں عَرْض گزار ہوئیں: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!جب ہم میں سے کوئی عورت حَیض سے پاک ہو تو وہ غسل کیسے کرے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا:وہ بیری کے پتوں والا پانی لے کر وضو کرے،پھر مَل مَل کر سر دھوئے تاکہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، اس کے بعد تمام جسم پر پانی بہائے، پھر ایک روئی کا ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصِل کرے۔عَرْض کی: رُوئی سے کیسے پاکی حاصِل کروں؟ فرمایا:بس اس سے پاکی حاصِل کرو۔اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیْقَہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بات سمجھ گئی پھر میں نے اسے سمجھایا کہ اس پاکی حاصِل کرنے سے مُراد خون کے نشانات کو صاف کرنا ہے۔[53]

(2)حضرت سَیِّدَتُنا خولہ بِنْتِ حکیم رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: میں نے جنابِ محبوبِ باری صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خِدْمَت میں عَرْض کی: اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میرے پاس ایک ہی لِباس ہے جو حیض کے دوران خون آلود ہو جاتا ہے،اس صُورَت میں میرے لیے کیا حُکْم ہے؟ اِرشَادفرمایا:


 

 اِنْقِطَاعِ حیض (یعنی حیض کے خَتْم ہونے)پر اسے دھو کر نَماز پڑھ لیا کرو۔ میں نے عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! دھونے کے باوُجُود خون کا اَثَر باقی رہ جاتا ہے۔[54] اِرشَاد فرمایا: کوئی حَرَج نہیں۔[55]

(3) خادِمِ رسول حضرت سَیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی والِدہ ماجِدہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سُلَیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بارگاہِ نبوی میں عَرْض کی:یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اللہ عَزَّ وَجَلَّ حَق بیان کرنے سے حَیا نہیں فرماتا،کیا جب عورت کو اِحْتِلام ہو تو اس پر غُسْل واجِب ہے؟ اِرشَاد فرمایا: (ہاں!) جب وہ پانی (مَنی) دیکھے۔ وہاں مَوجُود اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے (حَیا کے سَبَب)اپنا چہرہ چھپا لیا اور عَرْض کی: کیا عورت کو بھی اِحْتِلام ہوتا ہے؟ اِرشَاد فرمایا: ہاں! اگر ایسا نہ ہو تو بچہ کس وجہ سے ماں کے مُشَابِہ ہوتا ہے۔[56]

(4)حضرت سَیِّدَتُنا فاطمہ بِنْتِ ابو حُبَیش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بارگاہِ رِسَالَت میں عَرْض کی: مجھے اَیّامِ حَیض سے زیادہ اس قَدْر خون آتا ہے کہ کبھی پاک نہیں رہتی، تو کیا


 

 میں نَماز چھوڑ دوں؟ اِرشَاد فرمایا: نہیں، یہ تو ایک رَگ کا خون ہے، حَیض نہیں۔[57] جب حَیض کے دن آیا کریں تو نَماز چھوڑ دیا کرو اور جب وہ گزَر جائیں تو خون دھو کر نَماز پڑھ لیا کرو[58]۔ [59] یہی مسئلہ مسلم شریف میں اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ بِنْتِ جحش رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا[60]سے اور اُسْدُ الْغَابَہ میں حضرت سَیِّدَتُنا بادیہ بِنْتِ غَیلان رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا [61]سے بھی مَرْوِی ہے۔

نماز کے متعلق سوالات

(1)حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ فَرْوَہ انصاریہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: تاجدارِ رِسَالَت،


 

شہنشاہِ نبوّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے سوال کیا گیاکہ کونسا عَمَل اَفضل ہے؟ اِرشَاد فرمایا:اَوَّل وَقْت میں نَماز ادا کرنا۔[62]

(2)حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بارگاہِ رِسَالَت میں عَرْض کی: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول! میری ایسے عَمَل پر رہنمائی فرمائیے جس پر اللہ تعالٰی مجھے اَجَر و ثواب عَطا فرمائے؟ اِرشَادفرمایا:اے اُمِّ رافِع!جب نَماز پڑھنے کا ارادہ کرو ہو تو دس دس مرتبہ تَسْبِیْح (سُبْحٰنَ الله تَهْـلِیْل(لَا اِلٰهَ اِلَّا الله)، تَحْمِیْد (اَلْحَمْدُ لِلّٰه)اور تَکْبِیْـر (اَللهُ اَكْبَر) کہو اور دس مرتبہ اِسْتِغْـفَار کرو(یعنی اَسْتَغْفِرُ الله کہو)،جب تم تَسْبِیْح، تَهْـلِیْل، تَحْمِیْد اور تَکْبِیْر کہو گی اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرمائے گا:یہ میرے لیے ہے  اور جب اِسْتِغْفار کرو گی اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرمائے گا: میں نے تمہیں بخش دیا۔[63]

روزہ کے متعلق سوال

(1) ایک صحابیہ نے عرض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صَدَقَہ میں دی تھی اب وہ فوت ہوگئی ہیں(اوروہ باندی بطورِ میراث مجھے مِل رہی ہے آیا اسے لوں یا نہ لوں یاکسی اور کو خیرات دیدوں[64])اِرشَاد فرمایا:


 

 تمہارا ثواب تمہیں مل چکا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں واپَس لوٹا دی ہے۔ عَرْض کی:میری ماں پر ایک مہینہ کے روزے تھے کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا: ہاں ان کی طرف سے روزے رکھو! [65]عَرْض کی: انہوں نے کبھی حج بھی نہیں کیا تھاکیا میں ان کی جانِب سے حج ادا کروں؟ فرمایا: ہاں ان کی طرف سے حج ادا کردو[66]۔[67]

عمرہ و حج کے متعلق سوالات

(1)حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ طلیق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عَرْض کی: کون سی عِبَادَت حج کے


 

 برابر ہے ؟اِرشَاد فرمایا:ماہِ رَمَضَانُ الْمُبَارَک  میں عمرہ کرنا۔[68]

(2) قبیلہ جُهَیْنَہ کی ایک عورت نے بارگاہِ رِسَالَت میں حاضِر ہو کر یہ سوال کیا: میری ماں نے یہ نَذْر مانی تھی کہ وہ حج کریں گی مگر حج کیے بغیر فوت ہوگئی ہیں، تو کیا اب میں اِن کی طرف سے حج ادا کروں؟اِرشَاد فرمایا:ہاں! تم اس کی طرف سے حج ادا کرو، بتاؤ! اگر تمہاری ماں پر کچھ قَرْض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ عَرْض کی: جی ہاں۔تو اِرشَاد فرمایا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا قَرْض ادا کرو کیونکہ اللہ تعالٰی اس بات کا سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قَرْض ادا کیا جائے۔[69]

(3) حجۃ  الْوَدَاع کے مَوْقَع پر قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَت میں حاضِر ہوکر یوں عَرْض گزار ہوئی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے بندوں پر حج فَرْض فرمایا ہے مگر میرے والِد اس قَدْر بوڑھے ہیں کہ سواری پر بھی بیٹھ نہیں سکتے، کیا میں ان کی جانِب سے حج کروں تو ادا ہو جائے گا؟ حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: ہاں(ہوجائے گا)۔ [70]

(4) سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب حجۃ الْوَدَاع کے لیے تشریف لے


 

جارہے تھے تو مَقامِ روحا میں ایک قَافِلہ سے مُلَاقَات ہوئی، وہاں کسی عورت نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَت میں ایک چھوٹا سا بچہ پیش کرتے ہوئے عَرْض کی:کیا اس کا بھی حج ہوسکتا ہے؟(یعنی اگر میں اس کا اِحْرَام بندھوا دوں اور اسے گود میں لے کر سارے ارکانِ حج ادا کروں تو کیا میرے حج کے ساتھ اس کا حج بھی ہو جائے گا؟) فرمایا:ہاں!اور تجھے بھی اس کا ثواب ملے گا(یعنی بچہ کو بھی حج کا ثواب ملے گا حج کرنے کا اور تجھے بھی اس کے حج کا ثواب ملے گا حج کرانے کا)[71]۔ [72]

صدقہ و خیرات کے متعلق سوالات

(1)ایک مرتبہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ بُجَيْد رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بارگاہِ رِسَالَت میں یوں عَرْض گزار ہوئیں: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کوئی غریب میرے دروازہ پر کھڑا ہوتا ہے  مگر پاس کچھ ہوتا نہیں جو اسے دوں(تو ایسی کشمکش میں


 

 کیاکروں)؟ اِرشَاد فرمایا:اگر تمہارے پاس سوائے جلے ہوئے کھر کے اور کچھ نہ ہو تو وہی اسےدے دو۔[73]

(2)حضرت سَیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بارگاہِ بے کس پناہ میں عَرْض  گزار ہوئیں: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ہمیں صَدَقہ کے مُتَعَلِّق کچھ بتائیے؟ اِرشَاد فرمایا:جو رضائے الٰہی کی خاطِر صَدَقہ کرے یہ اس کے لیے جہنّم سے رُکاوَٹ ہے۔ عَرْض کی: کتے کی قیمت کے بارے میں وَضَاحَت فرمائیے! فرمایا: یہ جَاھِلیَّت کی کمائی ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس سے بے نیاز کردیا ہے۔عَرْض کی: عَذابِ قَبْر پر کچھ بیان کیجئے! فرمایا: عذابِ قَبْر پیشاب کی چھینٹوں سے بھی ہوتا ہے،جسے یہ پڑ جائیں وہ پانی سے دھو لے۔[74]

(3)حضرت سَیِّدَتُنا اسماء بنت صدیقرَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے شوہر حضرت سَیِّدُنا زُبیر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی آمدنی سے صَدَقَہ کرنے کے مُتَعَلّق عَرْض کی: یا نَبِیَّ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میرے پاس سوائے زبیر کی آمدنی کے کچھ نہیں ہوتا،اگر میں اس سے کچھ صَدَقَہ کروں تو کوئی حَرَج تو نہیں؟اِرشَاد فرمایا:جس قَدْر ہو سکے اتنا صَدَقَہ دو اور مال کو اپنے پاس روک کر نہ رکھو، ورنہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی تجھ سے اپنا رِزْق روک لے گا۔[75]


 

(4)حضرت سَیِّدُنا عبداللہ بِن مَسْعُود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی زوجۂ محترمہ حضرتِ سَیِّدَتُنا زینب ثقفیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ سرکارِ والا تَبار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا:اے عورتو! صَدَقہ کیا کرو اگرچہ اپنے زیورات ہی سے کرو۔ تو میں اپنے شوہر کے پاس گئی اور کہا: آپ ایک تنگدست شخص ہیں اور رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیں صَدَقہ کرنے کا حُکْم دیا ہے، جائیے اورحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پوچھئے کہ اگر میں آپ پر صَدَقہ کروں تو کیا میری طرف سے ادا ہو جائے گا اگر نہیں تو کسی اور پر خرچ کردوں۔ تو سَیِّدُنا عبداللہ بِن مَسْعُود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مجھ سے فرمایا:تم خودہی چلی جاؤ۔لِہٰذا میں بارگاہِ نبوی میں حاضِر ہوئی تو دیکھا کہ انصار کی ایک عورت بھی یہی سوال کرنے کے لئے درِ دولت پر حاضِر ہے۔ ہم حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مَرْعُوب رہتی تھیں، چُنَانْچِہ جب حضرتِ سَیِّدُنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ہماری طرف آئے تو ہم نے ان سے کہا: خدمتِ اقدس میں جا کر عَرْض کیجئے کہ دو۲ عورتیں دروازے پر اس سوال کے لئے کھڑی ہیں کہ اگر وہ اپنے شوہر اور زیرِ کفالت یتیموں پر صَدَقہ کریں تو کیا انکی طرف سے ادا ہوجائے گا؟ اور اے بلال! یہ نہ بتائیے گا ہم کون ہیں۔ چُنَانْچِہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بارگاہِ رِسَالَت میں حاضِر ہوکر یہ سوال کیا تو سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِسْتِفْسَار


 

 فرمایا:وہ عورتیں کون ہیں؟ عَرْض کی: اَنصار کی ایک عورت اور زینب ہے۔ فرمایا: کونسی زینب؟عرض کی:عبداللہ بِن مَسْعُود کی زوجہ۔اِرشَادفرمایا: ان دونوں کے لئے دُگنا اجر ہے، ایک رشتہ داری کا اوردوسرا صَدَقے کا۔[76]

دعا کے متعلق سوالات

(1)سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بَکَثْرَت یہ دُعا فرمایا کرتے تھے: یَامُقَلِّبَ الْـقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْـنِكَ۔ یعنی اے دِلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کواپنے دین پرقائم رکھ۔حضرت سَیِّدَتُنا اسماء بنت یزید رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس کے مُتَعَلِّق کچھ یوں عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا دِل اُلَٹ پَلَٹ ہو جاتا ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِرشَاد فرمایا: ہاں!ہر انسان کا دِل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُنگلیوں میں سے دو۲ انگلیوں کے درمیان ہے،[77] اگر چاہے سیدھا رکھے اگر چاہے ٹیڑھاکر دے۔چُنَانْچِہ ہم اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو ہِدَایَت کے بعد ٹیڑھا نہ کرے اور ہمیں اپنی


 

رَحْمَت عَطا فرمائے، وُہی سب سے زیادہ عَطا کرنے والا ہے۔عَرْض کی:یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے کوئی ایسی دُعا سکھائیے جو میں اپنے لئے مانگا کروں؟ اِرشَاد فرمایا:یہ دُعا مانگا کرو:اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذَنْبِیْ، وَاَذْهِبْ غَيْظَ قَلْبِیْ، وَاَجِرْنِی مِنْ مُّضِلَّاتِ الْفِتَنِ۔ یعنی اے اللہ!میرے گناہ مُعاف فرما، میرے دِل کی سختی دُور فرما اور مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بچا لے۔[78]

نکاح کرنے کے متعلق سوالات

(1) ایک خَثْعَمِیَّہ خاتون نے بارگاہِ رِسَالَت میں عَرْض کی:یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں غیر شادی شدہ عورت ہوں، مجھے بتائیں کہ شوہَر کا عورت پر کیا حَق ہے تا کہ اگر میں اُس کے اداکی طاقت دیکھوں تو نکاح کروں ورنہ یوں ہی بیٹھی رہوں۔ اِرشَاد فرمایا: بیشک شوہر کا زَوجہ پر حق یہ ہے کہ عورت کجاوہ[79] پر بیٹھی ہو اور مرد اُسی سواری پر اس سے نزدیکی چاہے تو انکار نہ کرے اور مرد کا عورت پر یہ بھی حَق ہے کہ اس کی اِجازَت کے بغیر نَفْلی روزہ نہ رکھے، اگر رکھے گی تو بے کار بُھوکی پیاسی رہی، روزہ قبول نہ ہوگا اور گھر سے اس کی اِجازَت کے بغیر بھی کہیں نہ جائے، اگر جائے گی تو آسمان اور رَ حمت و عذاب کے فرشتے سب اُس پر لعنت کریں گے جب تک کہ پَلَٹ کر نہ آئے۔ یہ سُن کر عَرْض کرنے


 

 لگیں:پھر تو میں کبھی نکاح نہ کروں گی۔[80]

(2)ایک اور صحابیہ نے بارگاہِ رِسَالَت میں اپنے چچا کے بیٹے کے مُتَعَلِّق عَرْض کی کہ اس نے مجھے پیامِ نکاح دیا ہے۔ لِہٰذا مجھے بتائیے کہ شوہر کا عورت پر کیا حَق ہے؟ اگر اس کی ادائیگی میرے بَس میں ہوتو میں اُس سے نکاح کرلوں۔اِرشَاد فرمایا:مرد کا ایک ادنیٰ حق یہ ہے کہ اگر اُس کے دونوں نتھنے خون یا پیپ سے بہتے ہوں اور عورت اُسے اپنی زَبان سے چاٹے تو بھی شوہر کے حَق سے بری نہ ہوئی، اگر آدمی کا آدمی کو سجدہ رَوا ہوتا تو میں عورت کو حُکْم دیتا کہ مَرد جب باہَر سے اس کے سامنے آئے، اسے سجدہ کرے کہ خدا (عَزَّ وَجَلَّ)نے مرد کو فضیلت ہی ایسی دی ہے۔یہ اِرشَاد سُن کر وہ بولیں:قسم اس کی جس نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حَق کے ساتھ بھیجا! میں رہتی دنیا تک نِکاح کا نام نہ لوں گی۔ [81]

(3)ایک صحابی اپنی صاحبزادی کو لے کر بارگاہِ نبوی میں حاضِر ہوئے اور عَرْض کی: میری یہ بیٹی نِکاح کرنے سے اِنْـکَار کر رہی ہے۔ حُضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے اِرشَاد فرمایا:اَطِیْعِی اَبَاكِ۔یعنی اپنے باپ کا حُکْم مان۔ تو اُس لڑکی نے عَرْض کی: قسم اُس کی جس نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو حق کے ساتھ بھیجا!میں(اس وَقْت تک) نکاح نہ کروں گی جب تک آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم 


 

مجھے یہ نہ بتائیں کہ خاوَند کا عورت پر کیا حق ہے۔ اِرشَاد فرمایا: شوہر کا حَق عورت پر یہ ہے اگر اس کے کوئی پھوڑا ہو عورت اسے چاٹ کر صاف کرے یا اس کے نتھنوں سے پیپ یا خون نکلے عورت اسے نگل لے تو بھی مرد کا حق ادا نہ ہوا۔اس پر اس نے قسم کھائی کہ میں کبھی شادی نہ کروں گی تو حُضُور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا:عورَتوں کا نکاح نہ کرو جب تک ان کی مرضی نہ ہو۔[82]

حسن سلوک کےمتعلق سوال

(1) حضرت سَیِّدَتُنا اسماء بنت ِ ابی بکرصدیق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے مُعَاہَدہ کیا تھا میری مشرکہ ماں میرے پاس آئی، میں نے عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میری ماں آئی ہے اور وہ دین سے دور ہے، کیا میں اس سے صِلہ رحمی کروں؟اِرشَاد فرمایا:ہاں اس کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آؤ[83]۔[84]


 

خانگی معاملات کےمتعلق سوال

(1) ایک مرتبہ حضرت سَیِّدَتُنا حَولاء عطارہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بارگاہِ مصطفےٰ میں اپنے شوہر کی شِکایَت کرتے ہوئے عرض کی:میں رضائے الٰہی کی خاطر ہر روز اپنے شوہر کے لیے دلہن کی طرح خوشبو لگاتی اور بناؤ سنگار کرتی ہوں،اس کے باوُجُود وہ مجھ میں رَغْبَت نہیں رکھتے، بلکہ ان کے پاس جاتی ہوں تو وہ اپنا چہرہ پھیر لیتے ہیں،اب تو مجھے یہ مَحْسُوس ہونے لگا ہے کہ وہ مجھے پسند ہی نہیں کرتے۔اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں سمجھاتے ہوئے اِرشَاد فرمایا:جا کر اپنے شوہر کی اِطَاعَت کرتی رہو۔عَرْض کی: اس میں میرے لیے کیا اجر ہے؟تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے بتایا کہ میاں بیوی جب ایک دوسرے کے حُقُوق ادا کرتے ہیں تو بَہُت زیادہ اَجَر کے مُسْتَحِقٹھہرتے ہیں،پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حمل کی تکالیف اور وِلادَت سے دودھ چھڑانے تک کے تمام مُعَامَلات میں ملنے والے اَجَر کا بھی ذِکْر فرمایا۔[85]

(2) حضرت سَیِّدَتُنا ہند بنت عتبہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے شوہر حضرت سَیِّدُنا ابو سفیان رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مُتَعَلِّق بارگاہِ رِسَالَت میں عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ابوسفیان کم خَرْچ کرنے والے آدمی ہیں اتنا خَرْچ نہیں دیتے


 

 جو مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو،تو کیا میں ان کی لاعلمی میں کچھ لے سکتی ہوں؟ اِرشَاد فرمایا: تم اتنا لے سکتی ہو جو دَسْتُور کے مُطابِق تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو۔[86]

(3)جب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عورتوں سے بَـیْعَت لی تو ایک عورت نے کھڑے ہو کر عَرْض کی: یانَبِیَّ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ہم تو اپنے باپ، دادا، اولاد اور خاوندوں پر بوجھ ہیں (یعنی یہ لوگ ہمیں ہمارے حق پورے نہیں دیتے ہم پر خَرْچ کرتے گھبراتے ہیں۔[87])۔ہمیں ان کے مالوں سے کس قَدْر حَلال ہے؟ اِرشَاد فرمایا: تر کھانا جسے تم کھا لو اور ہدیہ دے سکو(یعنی پکے ہوئے کھانے، تر میوے جو زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے انہیں خود بھی کھاؤ اور ہدیہ بھی دو، ہر وَقْت علیحدہ اِجازَت لینے کی ضَرورت نہیں کیونکہ ان چیزوں کے ہدیہ کی عرفًا اِجازَت ہوتی ہے[88])۔[89]

(4)حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ مُنْذِر سلمیٰ بِنْتِ قَیس رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: ہم عورتوں نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے یہ بَـیْعَت کی کہ ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گی اور اپنے شوہروں کو دھوکا نہیں دیں گی۔ لیکن بَـیْعَت کے بعد جب ہم واپَس آنے لگیں تو میں نے ایک عورت کو کہا:تم واپَس جاؤ


 

 اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دَرْیَافْت کرو کہ شوہر کو دھوکا دینے سے کیا مُراد ہے؟ چُنَانْچِہ اس نے بارگاہِ رسالت میں جب یہ عَرْض کی تو اِرشَاد ہوا: شوہر کا مال کسی کو تحفہ دینا دھوکا ہے۔[90]

خریدو فروخت کےمتعلق سوال

(1)حضرت سَیِّدَتُنا قَیْلَہ اُمِّ بنی اَنمار رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عمرہ کے مَوْقَع پر مَقامِ مروہ کے قریب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَت میں عَرْض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں ایک خرید و فروخت کرنے والی عورت ہوں جب میں کوئی چیز خریدنے لگتی ہوں تو جتنی قیمت دینے کا اِرادہ ہوتا ہے اس سے کم بتاتی ہوں اورآہستہ آہستہ بڑھاتی جاتی ہوں یہاں تک کہ جتنے میں خریدنے کا اِرَادہ ہوتا ہے اس قیمت تک پہنچ جاتی ہوں اور جب کوئی چیز بیچنے لگتی ہوں تو جتنی قیمت کا اِرَادہ ہوتا ہے اس سے زِیادَہ بتاتی ہوں،پھر کم کرتے کرتے مطلوبہ قیمت پر آجاتی ہوں۔(تو ایسا کرنا کیسا ہے؟) اِرشَاد فرمایا:اے قَیْلَہ! ایسا نہ کیا کر!بلکہ جب کچھ خریدنا چاہو تو مطلوبہ قیمت بتا دو،اب اس کی مرضی ہے چاہے وہ دے یا نہ دے،اسی طرح جب کوئی شے بیچو تو بھی مطلوبہ قیمت بتا دو اب خریدار کی مرضی ہے چاہے خریدے یا نہ خریدے۔[91]


 

پر فتن زمانے کے متعلق سوال

(1) ایک مرتبہ رسولِ اَکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زمانۂ قریب میں ہونے والے فتنے کا ذِکْر کیا تو حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ مالِک بَہزیہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اس وَقْت لوگوں میں بہترین انسان کون ہوگا؟ اِرشَاد فرمایا: جو اپنے جانوروں کے حُقُوق ادا کرے اور اپنے رب کی عِبَادَت کرے اور جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے دشمن کو ڈرائے اور دشمن اسے ڈرائیں۔[92]

ثواب کمانے کے متعلق سوال

(1)ایک مرتبہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ رِعْلہ قُشَیْرِیَّہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے تاجدارِ رِسَالَت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَت میں یوں عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ پر سلام اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمتیں و بَرَکتیں ہوں، ہم گھروں میں رہنے والی پردہ نشین عورتیں ہیں جو جِہاد نہیں کرتیں۔لِہٰذا ہمیں ایسا عَمَل بتایئے جس سے قُرْبِ اِلٰہی نصیب ہو۔ اِرشَاد فرمایا: دن رات اللہ کا ذِکْر کرو، نظریں جھکا کر رکھو اور آوازیں پست کرو۔ دوبارہ عَرْض گزار ہوئیں: میں ایک ایسی عورت ہوں جو دوسری عورتوں کے بناؤ سنگھار کا کام کرتی ہوں اور انہیں ان کے شوہروں کے لیے زیب و زینت دیتی ہوں۔ کیا یہ گناہ کا کام ہے تاکہ اس


 

 سے باز آجاؤں؟ اِرشَاد فرمایا: اے اُمِّ رِعْلہ! جب ان کی خوبصورتی ماند پڑ جائے تو انہیں زیب وزینت سے آراستہ و پیراستہ کر دیا کرو۔[93]

(2) ایک مرتبہ حضرت سَیِّدَتُنا اَسْما بنت یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بَہُت سی عورتوں کی نمائندہ بن کربارگاہِ رِسَالَت میں حاضِر ہوئیں اور عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اللہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، ہم بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر ایمان لائی ہیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیروی کا عہد کیا ہے مگر صُورَتِ حال یہ ہے کہ ہم پردہ نشین بناکر گھروں میں بٹھا دی گئی ہیں اور اپنے شوہروں کی خواہشات پوری کرتی، ان کے بچوں کو گود میں لئے پھرتی، ان کے گھروں کی رکھوالی کرتی اور ان کے مالوں اور سامانوں کی حِفَاظَت کرتی ہیں،ادھر مرد حضرات جنازوں اور جہادوں میں شِرْکَت کر کے اجرِ عظیم حاصِل کرتے ہیں،تو کیا ان کے ثواب میں سے کچھ حِصّہ ہم عورتوں کو بھی ملے گا یا نہیں؟یہ سن کر حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا: دیکھو اس عورت نے اپنے دین کے بارے میں کتنا اَچھّا سوال کیا ہے! پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا:اے اَسْما! تم سن لو اور جا کر دیگر عورتوں سے بھی کہہ دو کہ عورتیں اگر اپنے شوہروں کی خِدْمَت گزاری کر کے ان کو خوش رکھیں


 

اور ہمیشہ اپنے شوہروں کی خوشنودی طَلَب کرتی رہیں اور انکی فرمانبرداری کرتی رہیں تو مَردوں کے اَعمال کے برابر ہی عورتوں کو بھی ثواب ملے گا۔ یہ سنکر حضرت اَسْما بنت یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا (مارے خوشی کے) نعرۂ تکبیر لگاتی ہوئی باہَر نکلیں۔[94]

عقیقہ کے متعلق سوال

(1)حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عَجْرَد خزاعیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عَرْض کی:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جو کام ہم زمانۂ جَاھِلیَّت میں کرتے تھے کیا زمانۂ اسلام میں بھی کر سکتے ہیں؟آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِسْتِفْسَار فرمایا: کون سے کام؟عَرْض کی:جیسے عقیقہ۔ اِرشَاد فرمایا: عقیقہ کرو،مگر لڑکے کی طرف سے سال بھر کی دو۲ بکریاں اور لڑکی کی طرف ایک بکری۔[95] اسی طرح حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سِباع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے جب اولاد کی طرف سے عقیقہ کرنے کے مُتَعَلِّق رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عَرْض کی تو اِرشَاد فرمایا: ہاں لڑکے کی طرف سے دو۲ بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔[96]

(2) حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ کُرْز خُزاعیہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بھی بار گاہِ رِسَالَت میں عقیقہ کے مُتَعَلِّق سوال کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہی اِرشَاد فرمایا: لڑکے


 

 کی طرف سےسال بھر کی دو۲ بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک۔[97]

خواب کی تعبیر کے متعلق سوال

(1)مدینہ مُنَوَّرہ کے ایک تاجِر کی بیوی نے بارگاہِ رِسَالَت میں حاضِر ہو کر یوں عَرْض کی:یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرا شوہر مجھے اُمِّید سے چھوڑ کر تِجَارَت کے لیے گیا ہوا ہے۔میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرے گھر کا ستون گر گیا ہے اور میں نے ایسا بچہ جنا ہے جس کی آنکھوں کی سفیدی اور سیاہی بَہُت نُمایَاں ہے۔ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:فکر نہ کر!اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّتیرا خاوند صحیح سالِم واپَس آئے گا اور تو لڑکا جنے گی۔[98]

دم کرنے و کروانے کے متعلق سوال

(1) حضرت سَیِّدَتُنا شفا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا زمانۂ جَاھِلیَّت میں نملہ [99] کا دم کیا کرتی تھیں۔ چُنَانْچِہ جب انہوں نے بارگاہِ رِسَالَت میں اس دم کی اِجازَت حاصِل کرنے کے لیے عَرْض کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اسے خود بھی کیا کرو اور (حضرت سَیِّدَتُنا) حفصہ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا) کو بھی سکھا دو۔[100]


 

(2)حضرت سَیِّدَتُنا اسما بنت عُمیسرَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! جعفر کی اولاد کو نَظَر بَہُت جَلْدی لگ جاتی ہے۔تو کیا میں ان کودم کردوں؟فرمایا: ہاں۔کیونکہ اگر تقدیر پر کوئی چیز سَبْقَت کرنے والی ہوتی تو وہ نَظَر ہوتی۔[101]

میت پر رونے و بَین کرنے کے متعلق سوال

(1)حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ بنت یزید رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَتِ اَقْدَس میں عَرْض کی:کوئی ایسا عَمَل بتائیے! جس میں آپ کی نافرمانی نہ ہو۔ اِرشَاد فرمایا: نوحہ[102] مت کرو۔اس پر میں نے عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! فلاں قبیلے والوں نے میرے چچا کی وفات پر نوحہ کرنے میں میری مَدَد کی تھی اب میرے لیے ان کا بدلا ادا کرنا ضَروری ہے (اب میں کیا کروں؟)۔ پہلے تو حُضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ


 

 وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مَنْع فرما دیا، پھر میرے اِصْرَار پر اِجازَت عَطا فرما دی۔ لیکن اس کے بعد میں نے کبھی کسی مَیَّت پر  نوحہ نہ کیا۔ [103]

برزخی زندگی سے متعلق سوال

(1) حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ ہانی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے تاجدارِ رِسَالَت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دَرْیَافْت کیا: ہم مرنے کے بعد ایک دوسرے سے مُلَاقَات کریں گے اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟اِرشَاد فرمایا:رُوح پرندے کی صُورَت میں (جنتی) درختوں سے لٹکتی رہے گی اور جب قِیامَت قائم ہوگی تو ہر روح اپنے جِسْم میں داخِل ہو جائے گی۔[104] ایسی ہی ایک رِوایَت حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ قَیس اَنصاریہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے بھی مَرْوِی ہے۔[105]

مذکورہ سوالات کا مختصر جائزہ

پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے مذکورہ تمام سوالات کا جائزہ لیں تو یہ 17 موضوعات  پر کل 35 سوالات بنتے ہیں۔ یاد رکھئے! یہاں صِرف نمونے کے طور پر چند سوالات پیش کیے گئے ہیں، صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے پوچھے گئے تمام سوالات کا اِحاطَہ نہیں کیا گیا۔چُنَانْچِہ اگر آپ بھی عِلْم حاصِل


 کرنا چاہتی ہیں تو اَہْلِ عِلْم سے سوالات پوچھا کریں کہ اَمِیرُ الْمُومِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مَروی ہے:عِلْم خزانہ ہے اور سُوال اس کی چابی ہے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  تم پر رحم فرمائے سُوال کیا کرو کیونکہ اس (یعنی سوال کرنے کی صُورَت) میں چار۴ اَفراد کو ثواب دیا جاتا ہے۔سُوال کرنے والے کو،جواب دینے والے کو، سننے والے اور ان سے مَحبَّت کرنے والے کو۔[106]اس کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ دعوتِ اِسْلَامی کے مہکے مہکے مدنی مَاحَول سے وَابَسْتہ ہو  جائیے، یہاں آپ کو نیکیاں کرنے کا ذہن ہی نہیں ملے گا بلکہ قدم قدم پر عِلْم کے موتی چننے کو بھی ملیں گے۔اس مَدَنی ماحول کی برکتوں کے بھی کیا کہنے! اس نے ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ اِسْلَامی بہنوں کی زندگیوں میں مَدَنی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ چُنَانْچِہ،

جَامِعَةُ الْـمَدِیْـنَه میں داخلہ لے لیا

بابُ المدینہ(کراچی)میں قائم جَامِعَةُ الْـمَدِیْنَه  للبنات میں زیرِ تعلیم ایک اِسْلَامی بہن کے بیان کا خُلاصہ ہے : اعلیٰ دُنْیَاوِی تعلیم حاصِل کرنے کا مجھے جُنُون کی حد تک شوق تھا۔ صوم و صلوٰۃ سے غافِل، نیکیاں کمانے سے کاہِل، دینی مَعْلُومَات سے جاہِل میں اپنی زِنْدَگی کے قیمتی لمحات برباد کر رہی تھی۔ میرا اندازِ گفتگو بالکل بازاری تھا اور اَخلاقیات جیسی اَنمول صِفَات سے بھی ناآشنا تھی۔ اِنٹر کے امتحانات کے بعد علاقے کی ایک اِسْلَامی بہن نے مجھ پر


اِنفرادی کوشش کرتے ہوئے مجھے مَخَارِج کے ساتھ قرآنِ پاک پڑھنے کا ذِہْن دیا تو میں نے مَدْرَسَةُ الْـمَدِیْنَه بالغات میں تجوید وقرأت کے مُطابِق قرآنِ پاک پڑھنے کی سَعَادَت حاصِل کرنے کے لئے داخِلہ لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی میں شَیْخِ طَرِیْقَت،اَمِیْـرِ اَھْلِسُنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے دستِ مبارک پر بَـیْعَت بھی ہو گئی، اسی دوران ایک اِسْلَامی بہن کے ترغیب دِلانے پر میں نے جَامِعَةُ الْـمَدِیْنَه للبنات میں دینی تعلیم حاصِل کرنے کا پکا اِرَادہ کر لیا حالانکہ میں N.E.D یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ کی تیاری مُکَمَّل کر چکی تھی ۔ چُنَانْچِہ میں نے دُنْیَاوِی تعلیم کو چھوڑ کر جَامِعَةُ الْـمَدِیْنَه  لِلْبَنات میں داخلہ لے لیا ۔ یہاں کا تعلیمی طریقۂ کار مجھے بَہُت اَچھّا لگا ۔ یوں میں دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مشکبار مَدَنی مَاحَول سے وَابَسْتہ ہو گئی ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  عَزَّ  وَجَلَّ اس مَدَنی مَاحَول کی بَرَکَت سے مجھے پردے جیسی عظیم نِعْمَت حاصِل ہو گئی اور میں مَدَنی بُرْقَع پہننے لگی،ٹی وی پر فلمیں ڈرامے دیکھنے جیسی بُرائی سے بھی نجات حاصِل ہوگئی ۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا کروڑہا کروڑ اِحْسَان کہ اس نے اس پرفتن دور میں دَعْوَتِ اِسْلَامی کی صُورَت میں ہمیں ایک عظیم نِعْمَت عَطا فرمائی ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  عَزَّ  وَجَلَّ!تادمِ تحریر حلقہ مُشَاوَرَت ذِمَّہ دارہ کی حَیْثِـیَّت سے میں مَدَنی کاموں میں مَصْرُوف ہوں ۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  دَعْوَتِ اِسْلَامی کے مہکے مہکے مشکبار مَدَنی مَاحَول کو دن پچیسویں اور رات چھبیسویں ترقیاں عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

    ٭٭٭
  ماخذ و مراجع

کتاب

مطبوعہ

کتاب

مطبوعہ

قرآن مجید

٭٭٭

مرقاة المفاتيح

دار الکتب العلمیة بیروت 2007ء

کنز الایمان

مکتبة المدینه، باب المدینه کراچی ۱۴۳۲ھ

مراٰة المناجیح

نعیمی کتب خانه گجرات

روح البیان

دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۳۰ھ

الشمائل المحمديه

دار الیسر السعودیه ۱۴۲۸ھ

صحیح البخاری

دار المعرفة بیروت ۱۴۲۸ھ

الطبقات الکبری

دار الکتب العلمية بيروت۱۴۳۳ھ

صحیح مسلم

دار الکتب العلمية بيروت

معرفة الصحابة

دارالوطن  الریاض۱۴۱۹ھ

سنن الترمذی

دار الکتب العلمیة بیروت

الاستيعاب فی معرفة  الاصحاب

دار الفکر بیروت۱۴۲۷ھ

سنن ابن ماجة

دار الکتب العلمية بيروت 2009 ء

الاصابة فی تمييز الصحابة

المکتبة التوفیقیہ مصر

سنن ابی داود

دار الکتب العلمية بيروت ۱۴۲۸ھ

اسد الغابة

دار الکتب العلمیة بیروت۱۴۲۹ھ

المستدرك علی الصحیحین

دار المعرفة  بیروت۱۴۲۷ھ

قوت القلوب(مترجم)

مکتبة المدینه،  باب المدینه کراچی۱۴۳۴ھ

المعجم الکبیر

دار الکتب العلمیة بیروت 2007ء

غیبت کی تباہ کاریاں

مکتبة المدینه،  باب المدینه کراچی۱۴۳۰ھ

المعجم الاوسط

دارالفکر عمان۱۴۲۰ھ

بہار شریعت

مکتبة المدینه، باب المدینه کراچی ۱۴۲۹ھ

شعب الایمان

دار الکتب العلمية بيروت۱۴۲۹ھ

فتاوی رضویه

رضا فاؤنڈیشن لاهور

مشکاة المصابيح

دار الکتب العلمیة  بیروت ۱۴۲۸ھ

اسلامی بہنوں کی نماز

مکتبة المدینه، باب المدینه کراچی ۱۴۲۹ھ

كنز العمال

دار الکتب العلمية بيروت ۱۴۱۹ھ

کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

مکتبة المدینه، باب المدینه کراچی ۱۴۳۰ھ

مجمع الزوائد

دارالکتب العلمیة بیروت ۱۴۲۲ھ

عمل الیوم والیلة  لابن السنی

دار ارقم  بیروت۱۴۱۸ھ

جنتی زیور

مکتبة المدینه،  باب المدینه کراچی۱۴۲۷ھ

الجامع الصغیر

دارالکتب العلمیة بیروت ۱۴۳۳ھ

زلف و زنجیر

زاہد بشیر پرنٹرز  لاھور

عمدة القاری

دار الفکر  بیروت۱۴۲۶ھ

جوش ایمانی

مکتبة المدینه،  باب المدینه کراچی۱۴۳۵ھ

فتح الباری

دار السلام  الرياض ۱۴۲۱ھ

نور ایمان

دار الاسلام لاهور ۱۴۳۳ھ

٭٭٭٭٭٭


 

 

شعبہ فیضان صحابیات و صالحات کے عنقریب آنے والے رسائل

1.   عالمہ صحابیات و صالحات مع فروغ علم میں دعوت اسلامی کا کردار

2.   صحابیات و صالحات اور صبر

3.   صحابیات و صالحات اور حسن اخلاق

4.   صحابیات و صالحات کی کرامات

5.   مستجاب الدعوات صحابیات و صالحات

6.   صحابیات و صالحات کی احتیاطیں

7.   صحابیات و صالحات اور محبت قرآن

8.   صحابیات اور شوہر کی اِطَاعَت

9.   صحابیات اور شوہر کی خدمت

10.  صحابیات اور امور خانہ داری

11.  صحابیات اور انفاق فی سبیل اللہ

12.  صحابیات اور بچوں کی تربیت

13.  صحابیات اور دین کے بنیادی عقیدے


 



[1]  ……… معجم اوسط، باب الالف، من اسمه احمد، ۱/۴۹۷، حدیث:۱۸۳۵

[2]  ……… فتاویٰ رضویہ، ۶/۲۲۱

[3]  ……… بہارِ شریعت، عقائد  متعلقۂ نبوت، ۱/۷۷

[4]  ……… نورِ ایمان، ص۳۹

[5]  ……… حضرت سَیِّدُنا ابنِ حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں کہ یہ صحابیہ حضرت سَیِّدَتُنا اَسما بِنْتِ یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا تھیں۔(فتح الباری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب تعلیم النبی...الخ، ۱۳/۳۵۸، تحت الحدیث:۷۳۱۰)

[6]  ………مِرْاٰۃ المناجیح، میت پر رونا، تیسری فصل، ۲/۵۱۶

[7]  ………بخاری،کتاب الاعتصام...الخ، باب تعلیم النبی...الخ، ص۱۷۶۹، حدیث:۷۳۱۰ مفهومًا

[8]  ……… جنتی زیور، ص۴۱تا۴۳ملتقطاً بتصرف

[9]  ……… ترمذی، ابواب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقه...الخ،ص۶۳۱، حدیث:۲۶۸۲

[10]  ……… ابن ماجه، المقدمة، باب فضل العلماء...الخ،ص۴۹، حدیث:۲۲۴

[11]  ……… جامع صغیر، حرف الهمزة، ص ۷۲، حدیث:۱۱۱۰،۱۱۱۱

[12]  ……… روح البیان،پ۱۵،الکھف،تحت الآیة:۶۶،۵/۲۷۵

[13]  ………اس کی مثالیں دَعْوَتِ اِسْلَامی کے اِشَاعتی اِدارے مَکْتَبَةُ الْـمَدِیْنَه کی مَطْبُوعَہ 144 صفحات پر مُشْتَمِل کتاب صحابیات اور نصیحتوں کے مدنی پھول میں مُلَاحَظہ کی جا سکتی ہیں۔

[14] ……… شعب الایمان، ۱۹-باب فی تعظیم القرآن، ذکر سورة الحج و سورة النور، ۲/۴۷۷، حدیث:۲۴۵۳

[15]  ……… بخاری، کتاب الادب، باب رحمة الناس والبهائم، ص۱۴۹۹، حدیث:۶۰۰۸

[16]  ………شعب الایمان، ۱۹-باب فی تعظیم القرآن، تخصیص خواتم سورة البقرة بالذكر، ۲/۴۶۱، حدیث:۲۴۰۳

[17]  ……… بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امته واھله، ص۹۹، حدیث:۹۷ مفھومًا

[18]  ……… عمدة القاری،کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امته واھله، ۲/۱۶۷، تحت الحدیث:۹۷ مفھومًا

[19]  ……… ابو داود، کتاب الطب، باب ماجاء فی الرقی، ص۶۱۲، حدیث:۳۸۸۷

[20]  ……… مِرْاٰۃ  المناجیح، دواؤں اور دعاؤں کا بیان، دوسری فصل، ۶/۲۴۲

[21]  ……… جامع صغیر، حرف الهمزة، ص۲۵، حدیث:۳۱۱

[22]  ……… ابن ماجه، كتاب الادب، باب بر الوالد...الخ،ص۵۹۱، حدیث:۳۶۷۱

[23]  ……… ابو داود، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیما، ص۸۰۳، حدیث:۵۱۴۷

[24]  ……… مِرْاٰۃ المناجیح، میت پر رونے کا باب، تیسری فصل، ۲/۵۱۶ بتغیر

[25] ……… اسد الغابه،کتاب النساء،حرف الهاء،۷۳۴۲-هند بنت اسید،۷/۲۷۷

[26]  ……… بخاری، كتاب العلم، باب عظة الامام النساء و تعلیمهن، ص۹۹، حدیث:۹۸ ماخوذًا

[27] ………مسلم،کتاب صلاة العیدین، باب ذکراباحة ...الخ، ص۳۱۷، حدیث:۱۲-(۸۹۰)

[28] ………ابن ماجه، کتاب المناسك، باب الحج جهاد النساء، ص ۴۷۱، حديث: ۲۹۰۱

[29] ………بخاری،کتاب جزاء الصید، باب الحج عمن لا یستطیع...الخ، ص۴۹۳، حدیث:۱۸۵۴

[30] ………بخاری،کتاب جزاء الصید، باب الحج و النذور عن المیت...الخ، ص۴۹۳، حدیث:۱۸۵۲

[31] ………بخاری،کتاب الحج، باب الوقوف علی الدابة بعرفة، ص ۴۵۳، حدیث: ۱۶۶۱ مفھومًا

[32]  ………کنز العمال،کتاب النکاح،باب فی ترغیبات النساء … الخ،المجلد الثامن،۱۶/۲۵۳، حدیث:۴۶۰۰۳

نوٹ: یہ روایت ما بعد صفحات میں تفصیل کے ساتھ  مُلَاحَظہ کی جا سکتی ہے۔

[33] ………اصابه،کتاب النساء، فصل فیمن عرف بالکنیة ...الخ، حرف السین، ۱۲۰۴۳-ام السائب ، ۸/۴۴۹

[34] ………مِرْاٰۃ المناجیح،مع متن حدیث،عدت کا بیان،دوسری فصل، ۵/۱۵۳-۱۵۴

[35] ……… استیعاب،کتاب النساء وکناھن،باب الشّین ، ۳۴۰۸-الشفاء أم سلیمان،۲/۵۳۷

[36] ……… بخاری،کتاب تقصیر الصلوة،باب من تطوع...الخ،ص۳۲۳، حدیث:۱۱۰۳

[37] ………شمائل محمديه،باب ما جاء فی صفة ادام رسول الله،ص۲۸۵،حدیث:۱۷۳

[38] ………مِرْاٰۃ المناجیح، کتاب الطہارۃ، پہلی فصل، ۱/۲۳۳

[39] ………اصابه،كتاب النساء، حرف الخاء، ۱۱۱۳۲-خولة بنت قیس بن قهد،۸/ ۱۳۰

[40]  ……… بخاری،کتاب الاعتصام...الخ، باب تعلیم النبی...الخ، ص۱۷۶۹، حدیث:۷۳۱۰ مفهومًا و ملخصًا

[41]  ……… مِرْاٰۃ المناجیح، میت پر رونے کا باب، تیسری فصل، ۲/۵۱۶ ملتقطاً

[42]  ……… بخاری، کتاب الادب، باب رحمة الناس والبهائم، ص۱۴۹۹، حدیث:۶۰۰۸

[43]  ……… شعب الایمان، ۱۹-باب فی تعظیم القرآن، فصل فی فضائل السور والآیات،تخصیص خواتم سورة البقرة بالذكر، ۲/۴۶۱، حدیث:۲۴۰۳

[44]  ……… بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امته واھله، ص۹۹، حدیث:۹۷مفھومًا

[45]  ……… ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں: یہ صحابیہ میمونہ بنت حارث، زینب بنت خزیمہ، اُمِّ شریک بنتِ جابر یا خَولہ بنتِ حکیم میں سے کوئی ایک تھیں۔ (مرقاة،کتاب النکاح، باب الصداق،۶/۳۲۶، تحت الحدیث:۳۲۰۲)

[46]  ………مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْمَنَّان اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: خیال رہے کہ اس حدیث کی بنا پر بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ مہر کی کوئی مِقْدَار مُقَرَّر نہیں مگر یہ غَلَط ہے،یہ حدیث اس کی تائید نہیں کرتی کیونکہ کسی امام کے نزدیک قرآن مہر نہیں بن سکتا، سب کے ہاں مہر مال ہونا چاہیے، ہاں مال کی ادنیٰ مِقْدَار میں اِخْتِلاف ہے اور یہاں قرآن پر نِکاح کیا گیا۔مَعْلُوم ہوا کہ مہر نکاح کا یہاں ذِکْر نہیں۔(مِرْاٰۃ المناجیح، مہرکا بیان، پہلی فصل۵/۶۷)اسی طرح بہارِ شریعت میں ہے: جو چیز مال مُتَقَوَّم نہیں وہ مَہر نہیں ہو سکتی اور مہر مثل واجب ہوگا، مثلاً مہر یہ ٹھہرا کہ شوہر عورت کو قرآنِ مجید یا عِلْمِ دین پڑھا دے گا یا حج و عمرہ کرا دے گا تو ان سب صورتوں میں مہرِ مثل واجب ہوگا۔ (بہار شریعت، مہرکا بیان، مسائل فقہیہ، ۲/ ۶۵)

[47]  ……… مشکاة المصابیح، کتاب النکاح، باب الصداق، الفصل الاول، ۱/۵۸۷، حدیث:۳۲۰۲ ملتقطًا

[48]  ……… جوشِ ایمانی، ص۲ بحوالہ  زلف و زنجیر، ص۲۳۶

[49]  ……… بہار شریعت، اسلام اور علم کی اہمیت، ۳/۱۰۲۹

[50]  ……… غیبت کی تباہ کاریاں، ص۵،مزیدتفصیل کیلئے دیکھئے فتاویٰ رضویہ،۲۳/۶۲۳تا ۶۲۴، قوت القلوب مترجم۱/۶۱۳تا۶۱۹

[51]  ……… مسلم،کتاب الحیض، باب استحباب استعمال...الخ، ص۱۳۶، حديث:۶۱-(۳۳۲)

[52]  ………اصابه،کتاب النساء، فیمن عرف بالکنیة، حرف الکاف،۱۲۲۲۰-ام کثیر بنت یزید ، ۸/۵۱۶

[53]  ……… ابوداود،کتاب الطهارة، باب الاغتسال من الحیض، ص۶۵، حدیث:۳۱۴

[54]  ……… اگر نَجاست دُور ہو گئی مگر اس کا کچھ اَثَر رنگ یا بُو باقی ہے تو اسے بھی زائل کرنا لازِم ہے ہاں اگر اس کا اَثَر بَدِقّت(یعنی دُشواری سے) جائے تو اثر دُور کرنے کی ضَرورت نہیں تین۳ مرتبہ دھولیا پاک ہو گیا،صابون یا کھٹائی یا گرم پانی(یا کسی قسم کے کیمیکل وغیرہ) سے دھونے کی حاجَت نہیں۔(اسلامی بہنوں کی نماز،نجاستوں کا بیان، ص۲۵۸)

[55]  ………معجم کبیر،مسانید النساء، باب الخاء،خولة بنت حكيم،۱۰/۲۷۷، حدیث: ۲۰۰۸۲ ملخصًا

[56]  ……… بخاری، کتاب العلم، باب الحیاء فی العلم، ص۱۰۸، حدیث:۱۳۰ مفهومًا

[57]  ……… یعنی رحم کے قرب کی کوئی رگ کھل گئی ہے جس سے یہ خون جاری ہوگیا ہے رحم کا خون نہیں ہے، لِہٰذا اس کے اَحْکام حیض و نفاس کے سے نہیں۔(مِرْاٰۃ المناجیح، مستحاضہ کا باب، پہلی فصل، ۱/۳۵۴)

[58]  ……… یعنی اِستحاضہ کی بیماری لگنے سے پہلے تمہیں جن تاریخوں میں حیض آتا تھا وہ ہی تاریخیں اب بھی حیض کی مانو،ان میں نَماز وغیرہ چھوڑ دو اور ان تاریخوں کے بعد خون استحاضہ کاشمارکرو اور نَماز وغیرہ شروع کردو اور جس عورت کو بالِغہ ہوتے ہی اِستحاضہ شروع ہوجائے،حیض کی تاریخیں مُقَرَّر نہ ہونے پائیں وہ ہر مہینہ کے اوّل دس دن حیض شُمار کرے اور بیس دن اِستحاضہ کے کہ اسی میں اِحْتِیاط ہے۔یہاں خون دھو ڈالنے سے مُراد اگر حیض کا خون ہے تب تو دھو ڈالنے سے مُراد غسل کرنا ہے کیونکہ حیض جانے پر غسل فَرْض ہے اور اگر اِستحاضہ کا خون مُراد ہے تو مَطْلَب یہ ہے کہ اپنے بَدَن وکپڑے سے اِستحاضہ کاخون دھو کر پھر وُضُو کرکے نَماز پڑھ لیا کرو۔اس میں غسل واجِب نہیں۔ (مِرْاٰةالمناجیح، مستحاضہ کا باب، پہلی فصل، ۱/۳۵۴)

[59]  ……… مسلم، کتاب الحيض، باب المستحاضة و غسلھا وصلاتھا، ص۱۳۶، حدیث:۳۳۳

[60]  ……… مسلم، کتاب الحيض، باب المستحاضة و غسلھا وصلاتھا، ص۱۳۶، حدیث:۳۳۴

[61]  ……… اسد الغابه،كتاب النساء، حرف الباء،۶۷۶۲-بادیة بنت غیلان، ۷/۳۳

[62]  ……… اسد الغابه، الكنی من النساء، حرف الفاء،۷۵۶۴-ام فروة الانصارية، ۷/۳۶۵

[63]  ……… عمل الیوم والیلة لابن السنی، باب ما یقول اذا قام الی الصلاة، ص۸۴، حدیث:۱۰۷

[64]  ……… مِرْاٰۃ المناجیح، باب کون شخص صدقہ واپس نہ لے،پہلی فصل، ۳/۱۳۲

[65]  ……… پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو! یاد رکھئے! روزہ خالص بدنی عبادت ہے جس میں نیابت(قائم مقامی) ناجائز ہے،رب تعالیٰ فرماتاہے:mG–¤É2sÍ-·۔ترجمۂ کنز الایمان:آدمی نہ پائے گا مگر اپنی کوشش۔(پ۲۷، النجم:۳۹)اور فرماتا ہے:`¤_ ترجمۂ کنز الایمان:ان کےلیے ان کی کمائی۔(پ۱، البقرة: ۱۴۱) اور فرماتا ہے: œ&&Q£%ú$?>"ò6 ترجمۂ کنز الایمان:اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا۔(پ۲، البقرة:۱۸۴) حضور انور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اِرشَاد فرماتے ہیں: نہ کوئی کسی کی طرف سے نَماز پڑھے،نہ روزے رکھے۔ یہاں (اس حدیث پاک میں)روزوں کا کفارہ دینا مُراد ہے یعنی تم اپنی ماں کے روزوں کا فدیہ دے دو جو حکمًا روزہ ہے۔(مراۃ المناجیح، باب کون شخص صدقہ واپس نہ لے، پہلی فصل، ۳/۱۳۲)

[66]  ……… تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ قریب الفنا بیمار یا بوڑھے کی طرف سے اور میت کی طرف سے حجِ بدل کرنا جائز ہے کیونکہ حج خالِص بدنی عِبَادَت نہیں بلکہ بدنی اور مالی کا مجموعہ ہے جو سخت مجبوری اور معذوری کی حَالَت میں دوسری کے ادا کردینے سے ادا ہوسکتا ہے۔(مِرْاٰۃ المناجیح، باب کون شخص صدقہ واپس نہ لے، پہلی فصل، ۳/۱۳۲)

[67]  ……… مسلم، کتاب الصیام، باب قضاء الصیام عن المیت، ص۴۱۵، حدیث:۱۵۷-(۱۱۴۹)

[68]  ……… عمدة القاری، كتاب العمرة، باب عمرة فی رمضان،۷/۴۱۵، تحت الحدیث:۱۷۸۲

[69]  ……… بخاری، کتاب جزاء الصید، باب الحج و النذور عن المیت...الخ، ص۴۹۳، حدیث:۱۸۵۲

[70]  ……… بخاری، کتاب جزاء الصید، باب الحج عمن لا یستطیع...الخ، ص۴۹۳، حدیث: ۱۸۵۴ مفهومًا

[71]  ……… مذکورہ رِوایَت میں قوسین میں مَوجُود عِبارت مراٰۃ المناجیح سے لی گئی ہے، جبکہ اس رِوایَت کی شرح میں مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں: فقہا فرماتے ہیں کہ اگرچہ نابالغ بچہ کا حج ثواب کے لِـحَاظ سے تو ہو جائے گا مگر اس سے حجۃالاسلام ادا نہ ہوگا،بالغ ہونے پر پھر حج کرنا پڑے گا لیکن اگر فقیر یا غلام حج کرے تو ان کا حجۃ الاسلام ادا ہوجائے گا کہ امیر ی یا آزادی کے بعد انہیں دوبارہ حج کرنا ضَروری نہیں کہ ہر شخص مکہ معظمہ پہنچ کر وہاں کا ہی مانا جاتا ہے،مکہ کا فقیر یا غلام حج اسلام کرسکتا ہے مگر (مکہ) معظمہ کے چھوٹے بچوں کے حج سے حجۃ الاسلام ادا نہیں ہوتا۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کی نیکیوں کا ثواب ماں باپ کو بھی ملتا ہے لہٰذا انہیں نَماز روزہ کا پابند بناؤ۔(مِرْاٰۃالمناجیح، حج کا بیان، پہلی فصل، ۴/۸۸)

[72]  ……… مسلم، کتاب الحج، باب صحة حج الصبی … الخ، ص۴۹۹، حدیث:۴۰۹-(۱۳۳۶)ملتقطًا

[73]  ……… ترمذی، کتاب الزکاة، باب ماجاء فی حق السائل، ص۱۸۹، حدیث:۶۶۵

[74] ……… معرفة الصحابة،ذکر الصحابیات...الخ،۴۰۱۵-میمونة ... الخ، ص۳۴۴۵، حدیث:۷۸۴۲

[75] ……… مسلم، کتاب الزکاة، باب الحث علی ...الخ، ص ۳۶۹، حدیث:۸۹-(۱۰۲۹)مفهومًا

[76]  ……… مسلم، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة والصدقة علی...الخ، ص۳۶۰، حدیث:۱۰۰۰

[77]  ……… مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن اس مفہوم کی حدیث پاک کی وضاحت میں فرماتےہیں: یہ عبارت متشابہات میں سے ہے کیونکہ رب تعالیٰ انگلیوں، ہاتھوں وغیرہ اَعْضَا سے پاک ہے،مَقْصَد یہ ہے کہ تمام کے دل اللہ کے قبضہ میں ہیں کہ نہایت آسانی سے پھیر دیتا ہے،جیسے کہا جاتا ہے تمہارا کام میری انگلیوں میں ہے،یا میں سوالات کا جواب چٹکیوں سے دے سکتا ہوں۔ (مِرْاٰۃ المناجیح، باب القدر، پہلی فصل، ۱/۹۹)

[78]  ……… معجم کبیر، مسانيد النساء، عبد الحمید بن بھرام...الخ، ۱۰/۸۹، حدیث:۱۹۲۳۷

[79]  ……… کَجاوہ یعنی اونٹ کی کاٹھی جس پر دو۲ افراد آمنے سامنے بیٹھتے ہیں۔

[80]  ……… مجمع الزوائد، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المراة، ۴/۴۰۳، حدیث:۷۶۳۸

[81]  ……… مستدرك، کتاب النکاح، ۱۱۴۸-حق الزوج علی زوجته، ۲/۵۴۷، حديث:۲۸۲۲

[82]  ……… مجمع الزوائد، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المراة، ۴/۴۰۳، حدیث:۷۶۳۹

[83]  ……… مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِالْقَوِی اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: کافرومشرک ماں باپ کی بھی خِدْمَت اولاد پر لازِم ہے۔فقہا فرماتے ہیں کہ مُشرک باپ کو بت خانہ لے نہ جائے مگر جب وہاں پہنچ چکا ہو تو وہاں سے گھر لے آئے کہ لے جانے میں بت پرستی پر مدد ہے اور لے آنے میں خدمت ہے،دوسرے عزیز و قرابت داربھی اگر مشرک و کافر ہو مگر محتاج ہوں تو ان کی مالی خدمت کرے۔(مِرْاٰۃ المناجیح، بھلائی وسلوک کابیان، پہلی فصل، ۶/۵۱۷)

[84]  ……… مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل النفقة...الخ، ص۳۶۱، حدیث:۵۰-(۱۰۰۳)

[85]  ……… اسد الغابه،كتا ب النساء، حرف الحاء،۶۸۶۷-الحولاء العطارة،۷/۷۷

[86]  ……… بخاری، کتاب النفقات، باب اذالم ینفق الرجل...الخ، ص۱۳۷۵، حدیث:۵۳۶۴

[87]  ……… مِرْاٰۃ المناجیح، خاوند کے مال سے بیوی کی خیرات، دوسری فصل، ۳/۱۲۹

[88]  ……… مِرْاٰۃ المناجیح، خاوند کے مال سے بیوی کی خیرات، دوسری فصل، ۳/۱۳۰

[89]  ……… ابو داود، کتاب الزکاة، باب المراة تتصدق...الخ، ص۲۷۵، حدیث:۱۶۸۶

[90]  ……… اصابه، کتاب النساء، حرف السین، ۱۱۳۲۴-سلمی بنت قیس، ۸/۲۰۴مفهومًا

[91]  ……… ابن ماجه، كتاب التجارات، باب السوم، ص۳۵۲، حديث:۲۲۰۴

[92]  ……… ترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء کیف یکون الرجل...الخ، ص۵۲۵، حدیث:۲۱۷۷

[93]  ………اصابه،کتاب النساء، فیمن عرف بالکنیة، حرف الراء، ۱۲۰۲۵-ام رعلة، ۸/۴۳۹

[94]  ……… استیعاب،کتاب النساء و کناھن،باب الالف،۳۲۴۵-اسماء بنت یزید،۲/۴۸۶

[95]  ……… اسد الغابه،الكنی من النساء، حرف العین، ۷۵۳۸-ام عجرد، ۷/۳۵۵

[96]  ……… طبقات کبری،تسمیة غرائب نساء العرب...الخ، ۴۲۶۰-ام سباع، ۸/۲۳۳

[97]  ……… اسد الغابه،الكنی من النساء، حرف الکاف،۷۵۷۸-ام کرز خزاعیة، ۷/۳۷۲

[98]  ……… کنزالعمال،کتاب المعیشة والعادات، التعبير، المجلد الثامن،۱۵/۲۲۱، حدیث:۴۲۰۱۴

[99]  ……… نملہ باریک دانے ہوتے ہیں جو بیمار کی پسلیوں پر نمودار ہوتے ہیں جس سے مریض کو بہت سخت تکلیف ہوتی ہے اسے تمام جسم پر چیونٹیاں رینگتی محسوس ہوتی ہیں اس لیے اسے نملہ کہتے ہیں۔(مِرْاٰۃ المناجیح، داؤں اور دعاؤں کا بیان، ددسری فصل، ۶/۲۴۲)

[100] ……… اسد الغابه،کتاب النساء، حرف الشین،۷۰۴۵-الشفا بنت عبد الله،۷/۱۶۲مفهومًا

[101]  ……… ترمذی، کتاب الطب، باب ماجاء فی الرقیة من العین، ص۴۹۷، حدیث:۲۰۵۹

[102]  ……… نوحہ یعنی میِّت کے اَوصاف(خوبیاں)مُبالَغہ کے ساتھ (خوب بڑھا چڑھا کر) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو بَین(بھی) کہتے ہیں بالاِجماع حَرام ہے۔یوہیں واوَیلا، وامُصیبتاہ (یعنی ہائے مصیبت) کہہ کر چلّانا۔گَرِبیان پھاڑنا، مُنہ نوچنا، بال کھولنا، سر پر خاک ڈالنا، سینہ کُوٹنا،ران پر ہاتھ مارنایہ سب جَاھِلیَّت کے کام ہیں اور حَرام۔ آواز سے رونا مَنْع ہے اور آواز بُلَند نہ ہو تو اس کی مُمانَعت نہیں، بلکہ حُضورِ اَقْدَس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے (اپنے لَخْتِ جِگَر)حضرتِ ابراہیم رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی وفات پر بُکا فرمایا(یعنی آنسو بہائے)۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص۴۹۶ بحوالہ بہار شريعت، سوگ اور نوحہ کا ذکر، ۱/۸۵۴-۸۵۵ملتقطاً)

[103]  ……… ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة الممتحنة، ص۷۶۲، حدیث:۳۳۰۷

[104]  ……… اسد الغابه، الکنی من النساء، حرف الهاء، ۷۶۱۹-ام هانی الانصارية، ۷/۳۹۲

[105]  ……… اصابه،کتاب النساء، فیمن عرف بالکنیة، حرف الکاف،۱۲۲۱۴-ام قیس، ۸/۵۱۴

[106]  ……… الفردوس بماثور الخطاب،۳/۶۸، حدیث:۴۱۹۲