اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

فیضانِ   پیر پٹھان

 دُرُود شریف کی فضیلت

حضرتِسیِّدُنا عبداﷲ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سےروایت ہے:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےرسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمان ہے:بروزِ قیامت لوگوں میں میرے قریب تَروہ ہوگا جس نے مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔(1)

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                         صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

یہ بچہ بارگاہِ الہی میں مقبول ہے

کو ہِ درگ میں ایک  صاحب ِکشف ٭بزرگ رہا کرتے تھے،جب بذریعہ  کشف انہیں معلوم ہوا کہ  اس علاقے  میں  ایک بچہ  ہے جومُسْتَقْبِل میں  زمانے کا غوث بنے  گاتوانہوں نے اس بچے کی  خدمت  اپنے معمولات میں شامل کرلی ،جب کسی نےاس کی  حکمت پوچھی تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےارشاد فرمایا: ”تم  اس  بچے کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہو،یہ بچہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول اور محبوب لوگوںمیں  سے ہوگا اور اس پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ  تمام جہاں  اس کے نور  سے مُنّور ہوگا ، یہ


بچہ اولین  اورآخرین کافخر  ہوگا نیز میرا  جنازہ بھی یہی پڑھائے گااورحق تعالٰی  اس کی برکت سے میری مغفرت فرمائے گا ۔“وہ شخص یہ بات سُن کر بہت حیران ہوا۔ جب  صاحبِ کشف بزرگ کا انتقال ہوااورآپ کوغسل  دے کر نماز جنازہ  کے لئے لایا گیا تو امام صاحب کا انتظار ہونے لگا۔سُوال  کرنے والے کے دل میں یہ خیال آیا کہ  ان بزرگ نے کیسے  کہا تھا  کہ  وہ بچہ  میرا جنازہ  پڑھائے گا  ؟جنازہ تو تیار ہے مگر اس کا  نام ونشان تک نہیں  ۔ ابھی وہ  یہ سوچ ہی  رہا تھا کہ ایک  نوجوان   کا یہ سُوال  کانوں سے ٹکرایا : یہ جنازہ  کس کا  ہے ؟نوجوان کو بتایا گیا  کہ  یہ وہ بزرگ ہیں جو بچپن میں  آپ کی  خدمت کیا کرتے تھے یہ سُن کر نوجوان خود ہی آگے بڑھااورنمازِجنازہ پڑھائی۔ بزرگ کی پیش گوئی  کی صداقت  دیکھ  کر سوال  کرنے  والا بھی  اس نوجوان  کی عظمت  کا مُعْترِف ہوگیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھبزرگ کی تمام پیش گوئیاں  درست ثابت ہوئیں اورزمانے نے اس نوجوان  کے   بلند مقام  و مرتبے  کو  ملاحظہ کیا۔(2)

میٹھے  میٹھے اسلامی بھائیو!بلند مقام  مرتبہ   پاکر اولین  و آخرین  کے فخر کا مصداق بننےوالی وہ شخصیتسلطانُ العَارِفِین،برہانُ  العارفین،دلیلُ  الوَاصِلِیْن پیرپٹھان حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ “ہیں اور جس بزرگ نے ان کے بلند رُتبہ ہونے کی خوش خبری بچپن میں  دی تو وہ اُس زمانے کے عَارِف بِاللہتھے ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


ولادتِ با سعادت

غوثِ زماںحضرت خواجہ  سلیمان چشتی نظامی تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت باسعادت۱۱۷۴ھ مطابق71۔1770ءمیں گڑگوجی،ضلع لورالائی (بلوچستان، پاکستان) میں ہوئی۔(3)آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی ولادت سےقبل ایک مجذوب نے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی پیدائش،غوث ِ زماں اورآپ کی ذات ِ بابرکات  سے مخلوقِ   خدا کے فیض یاب ہونے کی بشارت  دی تھی ۔(4)

نام و نسب اور حلیہ  مبارک

آپ کا نام”محمد سلیمان“ہے لوگ آپ کو“پیرپٹھان” کے نام سے پکارتے ہیں۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاتعلق افغانی قوم”جعفر“کےقبیلۂ رمدانی سے ہے۔(5) آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کارنگ گندمی،چہرہ گول اورچاندکی طرح  چمک دار تھا، پیشانی  کُشادہ تھی جس پر سجدوں کی کثرت  کانشان نمایاں تھا،ناک زیادہ باریک تھی،ابرو باہم ملے ہوئے نہ تھے،آنکھیں بہت خوب صورت تھیں جن میں سرمہ لگانے سے حُسن میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔دونوں گال بھرے ہوئےتھے،ہونٹ سُرخ، دندان مبارک متوازن اور داڑھی گھنی تھی،آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دراز قد تھے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی شکل وصورت پیرانِ پیر غوثِ اعظم محی  الدین حضرت سیّدنا عبد القادر جیلانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ملتی جلتی  تھی۔(6)

والدین کریمین

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےوالدِ ماجد کااسمِ گرامی”زکریا“اور والدہ  کا مبارک


نام”زلیخا“ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے  والدِ محترم   علم و فضل کے مالک تھے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےبچپن میں ہی والدِمحترم  کا انتقال ہوگیا تھااسی لئےآپ کی تعلیم وتربیت والدہ محترمہ کے زیرِ سایہ ہوئی۔(7)

تعلیم و تربیت

والدہ ٔ ماجدہ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو چار برس کی عمر میں تعلیم ِ قرآن کے کےلئےمدرسےمیں   داخل  کیا ،حفظ و ناظرہ کی تکمیل کے بعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تونسہ تشریف لےگئےاورحضرت میاں حسن علی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔مزیدتعلیم کےلئے”لانگھ“٭اور پھر علم وحکمت کے مرکز”کوٹ مٹھن شریف (ضلع رحیم یار خان) کاسفرکیااورکوٹ مٹھن شریف میں شیخِ طریقت حضرت قاضی محمدعاقل چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ٭کے صاحبزادےحضرت


 علامہ خواجہ احمد علی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ٭کے زیرِانتظام درسگاہ میں داخل ہوکر  علمِ دین حاصل کرنے میں مصروف ہوگئے اور اساتذہ  کی    شفقت  اور رات دن کی کوشش سےمروّجہ علوم  پر دسترس حاصل کی ۔(8)

استاذِ گرامی کی  وصیت

آپرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےاستاذِگرامی(جنہیں حاجی صاحب کہاجاتاتھا) زبردست عالِم دین اور بہت  بڑے ولیٔ  کامل تھے۔حضرت محمدخواجہ سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کچھ  عرصہ  اُن سے پڑھا۔حاجی صاحب نے  کشف کے ذریعے  اپنے  اس  بلند رُتبہ  شاگر د کی زندگی  کے حالات جانےاور ایک روز زندگی کے یہ مَرَاحِل  آپ کے سامنے بیان کردیئے:”آپ پہلے تونسہ شریف پھرلانگھ اور اس کے  بعد کوٹ مٹھن جاکر علم حاصل  کریں گے وہاں ”مہار“سے ایک  کامل بزرگ آئیں گے، آپ ان سے بیعت  کریں گے  وہ آپ کو خلافت  عطا کریں گے اور آپ پھر  تونسہ  شریف آکر خلقِ خدا کوحق  تعالٰی  کا راستہ بتائیں گے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ  کو بلند مرتبہ اور اعلیٰ درجہ عطافرمائےگا۔“پھرحاجی صاحب  نے اپنے بیٹے کےمتعلق یہ تین وصیتیں فرمائیں:”(1)  میرے بیٹے کوتعلیم دینا۔(2) جب تک یہ زندہ  رہے  اس کی ضروریات


 کا خیال رکھنا۔(3)میرےبیٹے کےنزع کے وقت  حاضر ہوکر  اس کے ایمان کو شیطان  لعین سے بچا لینا۔“آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  استادِ محترم  کی  اس  وصیت کو قبول  فرمایا ۔ استاذِ گرامی  کے زبان سے نکلی  ہوئی  ہر بات  حرف بہ  حرف درست ثابت ہوئی ۔(9)

یہ  خیانت ہے

انسان  کی تربیت میں  استاد کا کردار بہت اہم  ہےکیوں کہ استاد انسان کی علمی ترقی  اور اخلاق  و کردار  سنوارنے کا سبب بنتا ہے جس کی  بدولت  انسان  معاشرے میں  بلند مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہےاسی لئےایسےمُحسن  کی بے  ادبی  دنیا و آخرت  دونوں  کے لئے  نقصان  دہ  ہے۔حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی مبارک  سیرت کا ایک روشن  پہلو استاد گرامی  کا ادب بھی ہے،آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنا اساتذہ  کرام  کا نہایت ادب کرتے،اگر اُن کی جانب سے کوئی  کام سُپرد کیا جاتا تو اُسے  ان کے فرمان  کے مطابق بجالاتے اوراس میں  معمولی سی  کوتاہی  یا اکتاہٹ کو خیانت سے تعبیر فرماتے  چنانچہ

ایک دن  ا ٓپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے استادِ گرامی  حضرت مولانا  ولی   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ  اورآپ کے ہم سبق صالح محمد قریشی کو درختوں سے بیر لا نے  کے لئے بھیجا چنانچہ  دونوں  بیر توڑنے  چلے گئےجب بیر توڑ چکے تو  آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے  رفیق نےکہا:پکے ہوئے بیر ہم کھا لیتے ہیں اورکچےبیراستاد صاحب کے لئےلے جاتےہیں ورنہ  روزانہ استاد صاحب کی یہ (یعنی  بیر توڑ کر لانے کی )فرمائش رہے گی۔


آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےیہ تجویز  قبول نہ کی اوراُس سے طویل مُباحثہ کرنے کے بجائے ایک جملے میں  اپنے رفیق کی اصلاح  فرمائی:یہ خیانت ہے۔(10)

لوگ اُ س وقت دیانت دار تھے

کفارِ مکہ اگرچہ رحمت ِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بدترین دشمن تھےمگر اس کےباوجود حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس امانت رکھتے تھےاور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری کی یہ شان تھی کہ آپ نے اس وقت بھی ان کفار کی امانتیں  واپس پہنچانے کا انتظام فرمایا جب وہ جان کے دشمن بن کر آپ کے مُقَدّس مکا ن کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔(11)جب حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کازمانۂ طالب علمی تھا تو اس وقت دیانت داری کی اِس عظیم سُنّت  پر لوگ عمل پیرا تھےچنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتےہیں:جس وقت ہم  تونسہ  شریف  کی بگی مسجد میں  اپنے استاد  میا ں  حسن  علی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس پڑھتے تھے  وہ  بارہویں  صدی تھی  اُ س وقت  لوگوں میں دنیا کی اس قدرمحبت نہ تھی  جو  اب  تیر ہویں صدی میں ہے  نیزبدگمانی ، فریب،مکر ،بددیانتی ،امانت  میں خیانت  اتنی نہ تھی  جتنی آج کل ہے ۔پھرآپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے لوگوں کی  دیانت داری  کی یہ حکایت بیان فرمائی : ہم چند لڑکےاس  مسجد میں پڑھتے تھے ،ایک دن  ایک شخص آیا اوراس نے یہ کہہ کر اپنی رقم ہماری جانب بڑھائی :میں کہیں جارہا ہوں  میری یہ امانت آپ کے پاس


 رہے گی ۔ ہم نے کہا :اپنی  رقم  مسجد کے طاق میں رکھ دو ۔ چنانچہ  وہ   رقم  وہاں رکھ  کر چلا گیا جب کافی  عرصے  بعد وہ  آیا  اور اس طاق سے  رقم لے کر گنی  تو وہ اُتنی ہی تھی  جتنی  وہ چھوڑ کر گیا تھا۔(12)

میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو!آج ہمارے معاشرے میں بےچینی،بے اعتمادی اور بےبرکتی عام ہونے کابہت  بڑا سبب دیانت داری کی کمی اور خیانت میں اضافہ ہے۔یاد رکھئے!خیانت منافقت کی علامات میں سے ایک ہےچنانچہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کےسرورصَلَّی  اللہُ       تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاارشادِحقیقت بنیاد ہے:’’تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ منافق ہوگا:(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3)جب امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے۔‘‘(13)لہٰذاخیانت  سے بچنے  اور دیانت داری اپنانے کی نیّت کیجئے، اس کی بدولت ذہنی اور قلبی سکون میسرآئے گا  اور یہ  مبارک عادت دنیاوآخرت میں  نجات کا سبب بن جائے  گی۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ   وَجَلَّ

خواجہ نورمحمد مہاروی چشتی نظامی    کا ذکرِ خیر

حضرت خواجہ نورمحمدمہاروی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت  ۱۴ رمضانُ المبارک۱۱۴۲ھ مطابق 2اپریل1730ء کوہوئی۔(14) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  مادر زاد ولی تھے اسی لئے شیرخوارگی کےباوجود رمضانُ المبارک میں  دن کے وقت دودھ نوش نہیں فرمایا۔(15)حفظ ِقرآن کے  بعد آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مزید تعلیم  کے لئے پاکپتن شریف،مرکزالاولیالاہور اور دہلی کا سفر کیا۔ دہلی پہنچ


کرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےحضرت خواجہ فخرالدین چشتی نظامی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کےمدرسے میں داخل ہوئےکر تمام مروجہ علوم کی تکمیل کی ۔سفرِ دہلی  کے دوران آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت خواجہ فخرالدین چشتی نظامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ شب وروز مرشدِ کریم کی  خدمت میں رہا کرتے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکامعمول تھا کہ  چھ ماہ  مہار شریف (نزد چشتیاں، ضلع بہاولنگر) میں قیام فرماتے  اور چھ ماہ دہلی   میں  مرشد پاک کی بارگاہ میں گزارتے(16) ایک مرتبہ حضرت شاہ فخرالدین  چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے  آپ  سے ارشاد فرمایا تھا: نورمحمد!اللہ  کی مخلوق ایک دن  تجھ سے بہت کچھ حاصل کرے گی ۔“وہ وقت بھی آیا کہ ہزاروں  طالبانِ حق نے آپ کے درِ دولت سے فیض پایااورسینکڑوں نے  آپ کی  بدولت بلند مقام و مرتبہ حاصل کیا۔دلوں کے حالات جان لینا آپ کی امتیازی  خصوصیت تھی۔جلیلُ القدر صوفیاءآپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے زیرِ تربیت رہےاور ان  کے ذریعے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا فیضان دور دور تک پھیلا۔(17) ۳ذوالحجۃ الحرام۱۲۰۵ھ کو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ہوا۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا مزار مبارک مہارشریف میں  انوار  وتجلیات کی  بارش برسا رہا ہے۔(18)

 شرفِ بیعت سے سرفراز ہوئے

جب حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کوٹ مٹھن شریف میں   زیر ِ تعلم  تھےتو ہر سال کی طرح  اس سال بھی قبلۂ عالم  خواجہ نورمحمدمہاروی چشتی  نظامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اوچ شریف تشریف لائے یہ خبر ملتے ہی قاضی  محمد


عاقل   چشتی  نظامی  اور آپ کے فرزندحضرت مولانا احمدعلی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَابھی زیارت کے لئے طلبہ کے  ہمرا ہ حاضر ہوئے ۔اس دوران قبلۂ عالمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پرخصوصی  کرم نوازی فرمائی اورآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکوحضرت سیّد جلالُ الدّین حسین بخاری سہروردیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ٭کے مزارِ اقدس کے سرہانے شرفِ بیعت سے نوازا۔ بیعت کے وقت آپ کی عمرپندرہ سال تھی۔(19)

مرید کامل کی تلاش

فخرِ جہاں حضرت مولانا خواجہ فخرُالدّین  شاہجہاں آبادی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ٭اپنےخلیفۂ اعظم حضرت خواجہ نورمحمدچشتی مہارویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 


سے پہلے ہی ایک مرید کامل مقام  و مرتبے اور  شخصی علامات  سےآگا ہ کرکے  اشارہ فرماچکے تھے کہ یہ”اوچ شریف “میں  ملے گایہی وجہ تھی  کہ  ہر سال حضرت خواجہ نورمحمدمہاروی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اوچ شریف تشریف لاتے اورمرشد ِ کریم کے حکم  کے مطابق اس مرید ِ کامل  کو تلاش فرماتےچنانچہ  ایک مرتبہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  اپنے ایک  مرید  حضرت  مولانامحمد حسین  چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےارشاد فرمایا:”اے محمد حسین! تمہیں معلوم ہے کہ میں  یہاں ہر سال کیوں آتا ہوں ؟ پھر  اس کی  یہ وجہ بیان فرمائی :مَیں  ایک شہباز کے  شکار  کے لئے آتا ہوں  شاید  وہ  کسی  طرح دام (جال)میں آجائےاوریہ پیرومرشدحضرت مولانا خواجہ فخرالدین  شاہجہاں آبادی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   کا حکم ہے،میں  نے اسی  لئے   یہ  سفر اختیار کیا ہوا ہے آپ بھی دعا کیجئے  کہ  اللہ عَزَّ وَجَلَّ   اس شہباز  کو میرے  دام  میں لےآئے۔“جب حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیعت ہو گئےتوآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےارشادفرمایا:مولانا صاحب! ہمیں  مبارک باد دیجئے  اس  سال وہ شہباز ہمارے  دام  میں  آگیا ہے ۔(20)

مرشد کاحکم

قبلۂ عالم حضرت خواجہ  نورمحمد چشتی مہارویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے  تین جلیلُ القدرخلفاحضرت مولانا نور محمدثانی چشتی نظامی ،حضرت محمد قاضی   عاقل  چشتی نظامی


  اورحضرت علامہ حافظ جمالُ الدین ملتانی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کولے کرپیرومرشد حضرت مولانا خواجہ فخرُالدّین  شاہجہاں آبادی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی  بارگاہ میں دہلی  حاضر ہوچکے تھے جب حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  بیعت ہوئے  تو چند دن  بعد پیر و مرشد  نےآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو حکم فرمایا:”دہلی میں  اپنے دادا پیر(یعنی حضرت مولانا خواجہ فخرُالدّین  شاہجہاں آبادی چشتی نظامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) کی زیارت کے لئے جائیے ۔“لہٰذاآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہدہلی  روانہ ہوگئے۔(21)

قلم دینے کی وصیّت

 مرشد کے  حکم کی  تعمیل   میں آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ طویل اور کٹھن سفر  کرتے ہوئے جب دہلی  پہنچے  تو معلوم ہوا  کہ چند روز  قبل ہی  حضرت خواجہ فخرُالدّین  چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وصال فرماچکے ہیں۔وصال سےقبل آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےاپنے ایک مریدِ خاص کو یہ  وصیت فرماچکے تھے:”مىاں نورمحمدمہاروى کاایک مرید”سلىمان“ مجھ سے ملاقات کے لئے آرہا ہے، تقدىر مىں ظاہری ملاقات نہىں ہےلہٰذامىرا سلام  پہنچانااورمىراىہ فولادى قلم انہىں دے دینا۔“چنانچہ جب حضرت خواجہ سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہدہلى پہنچےتو مرید خاص نے دادا مرشد کی بیان کردہ علامات آپ میں  پاکر وہ فولادی قلم آپ کے سپر د کردیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دادا مرشد کے مزار پُرانوار پر  حاضردی اور کچھ دن وہاں قیام فرمایا۔(22)


پیر و مرشد  کی  زیرِ تربیت

دہلی سےواپس آکرآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنےپیرومرشدحضرت نورمحمد چشتی مہارویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورکم وبیش پانچ سال  اِسْتِفَادہ  کرتے رہے۔مرشد کی  ہدایت کے مطابق  مجاہد ے کرتے ۔ تمام  رات  ذکر  میں مصروف رہتے،مرشد ِکامل سے تصوّف کی کتابوں مثلافقرات،لوائح،عشرۂ کاملہ، آداب الطالبین اور فُصُوص الحکم کا درس لیتے، مسجد ہی میں قیام  فرماتے  اورکبھی  کبھی  مرشد   کریم   آپ سے ملاقات کےلئے  خود بھی  تشریف لے جاتے۔ (23)

معرفت کی دیگ کامالک

حضرت قبلۂ عالم خواجہ نورمحمد مہاروی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنواب غازى الدّىن خان کےیہاں قىام فرما تھے،نواب صاحب حضرت قبلہ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پىر بھائى اوررازدارتھے،ایک روزآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرماىا:’’نواب صاحب! نبى کرىم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےمعرفت سے بھرى ہوئى اىک دىگ حضرت على المرتضىٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکوعطا فرمائى تھى پھرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے وہ دیگ حضرت خواجہ حسن بصرى رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو عطا فرمائی یوں آگے سلسلہ بہ سلسلہ چلتى ہوئى حضرت مولانا خواجہ فخرُالدّین  شاہجہاں آبادی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تک پہنچى تھى،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےاس فقىر کو عناىت فرمائی۔ مىں نے اس دىگ کو بہت خرچ  کىا، اور تمام جہان والوں کو عطا کىا مگر اس دىگ مىں کوئى کمى نہ


 ہوئى اسى طرح بھرى ہوئى ہے۔‘‘نواب صاحب نے عرض کىا:آپ  کے بعد اس دىگ کا مالک آپ کے مرىدوںمىں سے کون ہوگا؟ارشادفرماىا:’’اللہ عَزَّ وَجَلّ کا حکم ہے کہ ىہ دىگ محمد سلىمان روہیلہ٭کو دى جائے، مىں اس  حکم مىں مجبور ہوں، اب ىہ دىگ ان کى قسمت میں ہے۔ ‘‘نواب صاحب نے عرض کىا:وہ روہىلہ مجھے بھى دکھائىے۔چنانچہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےحضرت خواجہ سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کو بلوالیا ۔جب آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحاضر ہوئے تو   انہیں مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا:مىاں صاحب !وہ کتاب فقرات جو آپ کو مطالعہ کے لئے دى تھى حفاظت سے رکھئے گا، اىسا نہ ہو کہ گم ہوجائے ،و ہ کتاب  پیرومرشدحضرت مولانا خواجہ فخرُالدّین  شاہجہاں آبادی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا تبّرک ہےانھوں نے مجھے عطا کى تھى۔حضرت خواجہ  سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے عرض کی:مىں اس کتاب کو حفاظت سے رکھوں گا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرماىا :بس ىہى بات کہنے کے لئے آپ کو بلاىا تھا۔ جب  آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہواپس چلے گئے تو حضرت قبلۂ عالمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےارشاد فرماىا: نواب صاحب !مىرى اس دىگ کا مالک ىہى روہىلہ ہے۔(24)

حضرت خواجہ نورمحمدچشتی مہارویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنےمریدکی تربیت فرماتے ،آپ کے روز و شب کے معمولات پر نظر رکھ کر قابلِ اصلاح پہلو کی  جانب


 توجہ  فرماتے  اور مقصد پر نظر رکھنے کی نصیحت فرماتے ۔اس سلسلے میں  ایک حکایت ملاحظہ کیجئے:

یہاں کس لئے آئےہو؟

حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:ایک روز مہار شریف (نزد چشتیاں شریف)قیام کے  دوران  اىک کتاب کا مطالعہ کررہاتھا،کھانے کوکچھ میسّر نہ ہونے  کی وجہ سے چنددن سےکھانا نہیں کھایا تھا،اچانک  میری نظر صحن میں دانہ  چگنے والے کبوتروں پر پڑی  میں نے  ایک سنگریزہ ماراخدا کا کرنا ایساہوا   کہ وہ سنگریزہ ایک کبوتر کو لگا اور وہ وہیں تڑپنے لگا ،میں  نے جلدی سے اُسے پکڑا ، ذبح کیا اور بھوننے کے لئے تندورمیں ڈال دیا ۔اتنے میں  مجھے پیرو مرشد کی بارگاہ سے بلاوا آگیا جب میں بارگاہِ مرشد میں پہنچاتوآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےمجھےمخاطب کرکے فرمایا:’’اےروہىلہ!ىہاں ىادِ خدا کےلئےآئےہوىا پرندوں کا گوشت کھانےکےلئے؟‘‘مىں نےشرمندگى سےسرجھکالىا،ارشادفرماىا:جاؤاورمطالعہ مىں مصروف ہوجاؤ۔ ‘‘جب مىں واپس آىا تو وہ کبوتر تندور مىں جل چکا تھا۔(25)

دیدارِ مرشد کے ذریعے شفایابی

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہدیدار ِ مرشد کی بدولت شفا پانے  کا ایک  واقعہ بیان فرماتےہیں:اىک دفعہ مجھے مہار شرىف مىں بخار ہوگىا، چند دن تک  بخارا رہنے کی وجہ سے کمزوری آگئی اورمىرا رنگ زرد ہوگىا، آخر مرض کى شدت، بے خوابى اور کم


 خورى کى وجہ سے مىرى حالت بہت خراب ہوگئى، مىں مسجد سے باہر آکر قبلۂ عالم حضرت خواجہ نورمحمد چشتی مہاروی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کى گزر گاہ پر یہ امىدلے کر بىٹھ گىاکہ زیارت ِ مرشد کی بدولت شفانصیب ہوگی۔جب قبلۂ عالمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تشریف لائے، مرض کی شدت ملاحظہ کرکے ارشاد فرمایا:’’اے روہىلہ! تمہیں کىا ہوگىا ہے۔‘‘مىں نے عرض کىا :”کئى دنوں سے مجھے بخار ہے۔“فرماىا:’’تمہارے وطن مىں بخارکا کىا علاج کرتے ہىں۔‘‘میں نےعرض کىا: روغنِ زرد  کو بکری کی کھال میں پکاکرپلاتے ہىں ۔“فرماىا:’’تم بھى اىسا ہى کرو۔‘‘ مگر  اپنے پاس سے کوئى دوا دى ، نہ کسى سے فرماىا کہ روغنِ زرد مہىا کىا جائے۔حضرت قبلہ ٔعالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے جانے کے بعد مىرا بخار اُتر گىااور مىں بالکل تندرست ہوگىا، آپ کى زىارت سے مىرى بىمارى ختم ہوگئی۔(26)

بے قرار والدہ کی خبر دی

ایک روز حضرت خواجہ نور محمد مہاروی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےفرمایا:”اے روہىلہ! تمہارى والدہ تمہارى جدائى و فراق کے درد مىں دن رات روتى ہے، اوراُن کےغمزدہ سىنے سے آہىں نکلتى ہىں، آپ اپنى والدہ کے پاس جائىے مگر دىکھنا وہاں جا کر باغى نہ ہوجانا، اپنى والدہ سے ملاقات کرکے اور چند روز ان کى خدمت مىں رہ کر ان کى تسلى کرکےپھرمىرےپاس آجانا۔‘‘چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنى والدہ صاحبہ کى خدمت مىں روانہ ہوگئے۔(27)


مرشد کی عطائیں

حضرت خواجہ سلیمان  تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بارگاہ ِ مرشد   سے ملنے والی عطاؤں کا یوں تذکرہ فرمایا:حضرت قبلۂ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےہم پراس قدر عنایت فرمائی ہے کہ ظاہری و باطنی  نعمتیں ہمیں حاصل ہیں بلکہ  روزبروز آپ   کافیض  ہم  پر زیادہ ہی ہورہاہےہمیں کسی چیز کی محتاجی نہیں ہے۔(28)

پیرو مرشد کے دستِ مبارک کی برکت

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےایک مرتبہ ذکرِمرشد کرتےہوئےارشادفرمایا:حضرت قبلۂ عالم خواجہ نورمحمدچشتی مہاروی رَحْمَۃُ  اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےدستِ مبارک میں عجیب تاثیر تھی کہ جو کوئی آپ کا ہاتھ پکڑتا ابتداء سے انتہاء تک حق تعالی کی یاد میں مشغول رہتا تھا اوراگر کوئی ہمیشہ کی پاپندی نہ کرسکتا  تو آخرکارضرور تائب ہوکر اپنے کام میں لگ جاتا۔ اس وقت خاص لوگوں میں سے ایساشخص کوئی بھی نہیں(جس کے ہاتھ میں ایسی تاثیر ہو)یہ قحط الرجال کا زمانہ ہے۔(29)

وطن واپسی اور نکاح

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےپیر و مرشد کی  بارگاہ  میں رہ کر چھ سال  اکتسابِ فیض کیا اور پیر ومرشد نے کرم نوازی فرماتے ہوئےاورآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کوخلافت سے نوازا۔جب  ۱۲۰۵ہجری  میں مرشدِِکریم کا وصال ہوگیا  تو  آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


  وطن واپس آگئے  اور یہاں رہ   کر  فیوض  و برکات لُٹانے لگے۔والدہ  ماجدہ  کی خواہش پر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا نکاح عمرخان کی صاحبزادی بی بی صاحبہ  سے ہوا ۔(30)

نیک سیرت  زوجہ

آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی زوجہ بی  بی صاحبہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نہایت نیک سیرت خاتون تھیں تلاوتِ قرآن پاک،درودوسلام کی مشہور کتاب دلائلُ  الخیرات کا ورد،تہجد اور اشراق  و چاشت  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا کےمعمولات میں  شامل تھا۔ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نےآپ کوسخاوت کی اعلیٰ صفت سے نوازا تھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نے عورتوں  کے  لئے لنگر جاری  فرمایا اور لنگر کی تقسیم کاری کے لئے بی بی ناظمہ کو مقرر فرمایا۔(31)

اپنا زیور پیش کردیا

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنمازِاشراق وچاشت کی ادائیگی کےبعد ناشتے  کے لئے گھرتشریف لارہے تھے کہ راستے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےملاحظہ فرمایاکہ لنگر خانہ سرد پڑا ہے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  لنگر کے انتظام  پر مقرّر خدابخش کو طلب  فرماکر وجہ پوچھی تو  انہوں نے غلّہ دینے  والے کا یہ پیغام  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں عرض کیا:جب تک  گزشتہ قرض ادا نہیں ہوجاتا اس وقت تک غلہ  نہیں دیا جائے گا۔یہ سُن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  گھر تشریف لےگئے ۔بی بی صاحبہ نےناشتہ پیش کیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے ارشاد


فرمایا:”آج نہیں کھاؤں گا کیوں کہ میرے  فقیر بھوکے ہیں ۔“پھر  بھوکے ہونے کاسبب بھی بیان کردیا ۔بی بی صاحبہ نے آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی  پریشانی  کے ازالے کی یہ صورت نکالی کہ  اپنا تمام زیور  لا کر آپ کی  خدمت میں پیش کردیا  اور عرض کی :”اسے فقراء کے  لنگر میں  خرچ کردیجئے۔“آپرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بہت خوش ہوئے،کھاناتناول فرمایا،باہر تشریف لائےاورزیورخدابخش کےسپردکرکے لنگر جاری کرنےکاحکم دیا۔(32)

اس حکایت سے وہ  اسلامی بہنیں  درس حاصل کریں جو مال کی  محبت کی وجہ صدقہ  وخیرات نہیں کرتیں  بلکہ  اس سبب سے زکوٰۃ   کی  ادائیگی میں  کوتاہی  کرتی ہیں اس سلسلے میں ایک  روایت ملاحظہ کیجئےچنانچہ نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی ،جس کے ہاتھ میں سونے کے موٹے موٹے کنگن تھے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس عورت سے پوچھا:”کیا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟“اس عورت نے عرض کی:”جی نہیں۔“ارشاد فرمایا: کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ قیامت کے دن اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہیں ان کنگنوں کے بدلے آگ کے کنگن پہنا دے؟یہ سنتے ہی اس نے وہ کنگن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے آگے ڈال دئیےاورکہا :”یہ اللہ اور اس کے رسول(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے لئے ہیں۔ “(33)


  غیبی اشارہ

حضرت قبلۂ عالم خواجہ نورمحمد مہارویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےخلافت حاصل کرنےکےبعدکچھ عرصے تک کسی کو بھی بیعت نہیں کیاجب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو مرید کرنے اور مرید وں کی  بخشش کا غیبی اشارہ ملا تو آپ  نے مرید کرنا شروع کردیا ۔(34)

بروزِ قیامت مریدوں کو کیسے پہچانیں گے؟

ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بارگاہ میں عرض کی گئی:آپ کے تو لاکھوں مرید ہیں سب کو امىد ہے کہ بروزِ قىامت آپ وسىلہ بنىں گے، شفاعت کرىں گےاوراپنےمرىدوں کو نجات دلائىں گے۔آپ قىامت کےدن اس مخلوق کے ہجوم مىں اپنے غلاموں اورمرىدوں کو کىسے پہچانیں گے؟ارشاد فرمایا:تم نے نہىں دىکھا کہ سات آٹھ چرواہے اپنى اپنى بھىڑوں کواىک دوسرےکى بھىڑوں کے ساتھ ملا کرچراگاہ مىں چراتے ہىں،تمام بھىڑیں بالکل اىک طرح کى ہوتى ہیں مگراندھیری رات کے وقت وہى چرواہےکس طرح اپنى اپنى بھىڑوں کو اىک دوسرے سے جدا کرکے اپنے اپنے گھرلے جاتے ہىں اسى طرح  مىں بھى اپنے مرىدوں کى شناخت کرکےدوسروں سے جدا کرکے اپنے پاس لے جاؤں گا۔(35)

بارگاہ ِرسالت میں  مقام و مرتبہ

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بارگاہِ رسالت میں بھی اعلیٰ   مقام و مرتبے پر فائز تھے چنانچہ اىک دفعہ سىداحمد مدنى خلىفہ حرم کو نبیٔ اکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خواب میں  زیارت ہوئی اورتونسہ شرىف جاکرحضرت خواجہ محمد سلىمان


  تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے بىعت کرنے  کا حکم ہوا۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسى وقت روانہ ہو کرسنگھڑ شرىف پہنچےاورآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےمرید ہوئے اور مدىنۂ منورہ زَادَھَااللہُ شَرْفا ً  وَتَعْظِیْمًاکے بہت سے تبرکات  پیش کئے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےسىداحمدمدنى رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکوعلم وفضل اوراعلیٰ اوصاف کا پیکر پاکر خلافت سےنوازا اورمدىنۂ مُنوّرہ زَادَھَااللہُ شَرْفا ً  وَتَعْظِیْمًا روانہ کردىا۔(36)

خواجۂ اجمیر کا حکم

ایک شخص  اجمیر شریف سے حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اورعرض کی :” میں نے اجمیر شریف حاضر ہوکرسات دن حضرت خواجہ  مُعِیْنُ الدِّین سیّدحسن چشتی اجمیریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی  بارگاہ میں اپنی حاجت بیان کی،ساتویں  روز  خواب میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تشریف لائے اور یہ حکم ارشاد فرمایا:”سنگھڑ چلے جاؤ، وہاں جاکر خواجہ سلیمان کی خدمت میں عرض کرو،وہ تمہاری حاجت  پوری کریں گے ۔“اور میر ی حاجت یہ ہے کہ  میر ا قرض ادا ہوجائےاورمجھےبیعت بھی کرلیں۔چنانچہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے مرید کرنےکےبعدفرمایا:”ادائے قرض کی نیّت سےنمازِعشاء کےبعدتین  بار سورۂ مزمّل پڑھا کرو اور یہ  عمل ہمیشہ  جاری رکھو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  قرض ادا ہوجائے گا۔(37)


پیرِ  کامل کی تلاش

شمسُ العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے استاد ِمحترم حضرت مولانا محمد علی مکھڈوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے دورکےبہت بڑے عالمِ دین اور صاحبِ دل بزرگ تھے،آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اگرچہ ظاہراً درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے  لیکن باطناً محبتِ الٰہی کے جوش سے رات دن اشکباری فرماتے۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو ایسے پیرِ  کامل کی تلاش تھی جو دل  کی دُنیا کو معرفتِ الٰہی کے جلوؤ ں سےآبادکر کے دولتِ سکون سے مالا مال کر دے ۔ ایک دن کسی نےآپ رَحْمَۃُ  اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےسامنےسلطانُ العارِفین،شہبازِ طریقت، پیرپٹھان حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ    کا ذکرِ خیر کچھ اس اندازسے کیا کہ آپ کا دل اِن کی زیارت کے لئے بے قرار ہو گیا۔ اس وقت  حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عمر اٹھارہ سال تھی،علم ِحدیث و فقہ حاصل کر چکے تھے اور دل میں باطنی تعلیم کا بھی ذوق شوق تھا۔چنانچہ اُستادِ محترم نے اپنے شاگردِرشید(حضرت خواجہ شمس الدین سیالویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَا  لٰی    عَلَیْہ)کو ساتھ لیااورحضرت خواجہ محمد سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔حضرت  خواجہ محمد سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دونوں کو مریدکر لیا۔کچھ عرصہ قیام کےبعد استاد و شاگرد واپس مکھڈشریف(ضلع اٹک) آگئے۔(38)


مسلمانوں کے خیرخواہ

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نیک  بندے دوسروں کے دکھ، درد اور تکلیف میں مددکرتے ہیں  اوردوسروں کو اپنی ذات  پر ترجیح دے کر دلجوئی اوردادرسی کےذریعےمسلمانوں کےساتھ خیرخواہی کرتےہیں، خیرخواہی  سے بھرپور یہ سلوک  معاشرے کو حسین  وجمیل بناتااوراِن اعلیٰ اوصاف کی  حامل شخصیات کو صدیوں تک  ذہنوں میں بساتا ہے ۔حضرت خواجہ  محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی  مبارک ذات  بھی خیرخواہی میں بے مثال تھی،كبھی تو  اس خیر خواہی کا اظہار  ایثار کی صورت  میں  یوں ہوتا  کہ  جب کابل  و قندھار  وغیرہ سےآنے والے پستہ ، کشمش، بادام ،انگوراوردیگر طرح  طرح  کے   میوے آپ کی  بارگاہ میں پیش کئے جاتے توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وہ تمام کے تمام  درویشوں میں تقسیم فرمادیتے،آپ کی مبارک ذات  سے شانِ بے نیازی جھلکتی تھی ۔سخاوت وفیاضی  کا عالم یہ تھا کہ  ہزار وں  کی مہمان نوازی  اور  قیام کی  سہولت  فراہم کرنے کی ذمہ داری  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے لے رکھی  تھی ۔ان اعلیٰ  صفات کی وجہ سےآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی شخصیت  عوام و خواص دو نوں میں مقبول  تھی ۔(39)

افضل کیا ہے ؟

ایک  مرتبہ کسی شخص نے  عرض  کی : کم بولنے اور خاموش رہنے میں افضل کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا: علما کے لئے  بولنا اچھا ہے اور در ویشں کے لئے  خاموش رہنا


بہترہے کیوں کہ  قیامت کے دن  ہر ایک  سے اس کےاعمال  کی  پُرسِش ہوگی علما سے علم اور صوفیا سے  پردہ  پوشی اور خاموشی  کے متعلق پوچھا جائے گا ۔(40)

سنّت کے مطابق میں  زندگی گزارتے

حضرت خواجہ شمس الدین سیالویرَحْمَۃُاللہِتَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےتمام اخلاق و عادات اور اقوال و افعال  سنّتِ نبوی  کے مطابق تھے ۔(41)

ظلم و ستم کا انجام

جب لوگ والیٔ سنگھڑنواب اسد خان کےظلم وستم سےتنگ آگئے توحضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی  خدمت میں اُس کی شکایت کی،آپ  رَحْمَۃُ  اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اُسے اپنی بارگاہ میں طلب کیا اورارشاد فرمایا:تمہاری حکومت میں ہمیں صرف اتنا فائدہ ہے کہ اذان کی آواز سُن لیتے ہیں،ظلم وستم روک دے ورنہ میں تو سکھوں کی فوج کو یہاں دیکھ رہا ہوں۔ لیکن نواب  اسد خان ظلم سے باز نہ آیا،تھوڑے دنوں میں سکھوں کا لشکر آگیااور جس ٹیلہ کی طرف آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاشارہ کیا تھا وہیں آکرڈیرہ ڈالا۔بعدمیں جب لوگوں نےاس بارےمیں عرض کیاتو فرمایا:اَعْمَالُکُم عُمّالُکم(یعنی تمہارے اعمال ہی تمہارے حاکم ہیں) تم نے جب شریعت کی پابندی چھوڑ دی ہے تواللہ عَزَّ وَجَلَّنے تم پرکافروں کو مُسَلّط کر دیا ہے۔(42)


     افسوس صد افسوس !آج کل مسلمان اپنے اَنْجام سے بے خوف ہوکر ظلم وزیادتی کرنے،دھمکیاں دے کر لوگوں سے رقم کا مُطالبہ کرنے،ان کے مال و جائیدادپرقبضہ کرنے،چوری،ڈکیتی دہشت گردی اورقتل  و غارتگری جیسے گناہوں میں مبتلا ہوکرنہ جانے کس کس طرح مسلمانوں کے حقوق پامال کررہے ہیں۔ یادرکھئے!ظلم کا انجام بہت ہی بھیانک اور خطرناک ہے، ظالم شَخْص  آخرت میں تو عذاب کا شکار ہوتا ہی ہے ،لیکن یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایساشخص دنیا میں بھی کئی دردناک حالات سے دوچار ہوتا ہے۔حضرتِ ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت ہے،سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ عَزَّ   وَجَلَّ ظالم کو مہلت دیتا ہے،یہاں تک کہ جب اس کو اپنی پکڑ میں لیتا ہے تو پھر اس کو نہیں چھوڑتا۔(43)یہ فرما کرسرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پارہ 12 سورۂ ہُود کی آیت نمبر 102 تلاوت فرمائی:

وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ(۱۰۲)

تَرجَمَۂ کنزُالایمان:اورایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر، بے شک اس کی پکڑدردناک کرّی (سخت) ہے

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ہمیں مسلمانوں  کے ساتھ حُسنِ سُلُوک سے پیش آنے اور ان پر کسی بھی طرح  سے ظلم وزیادتی  سے بچنے کی   توفیق عطافرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ


اُسے ایمان جانے  کاخوف نہیں؟

ایک شخص نے عرض کی :میری  بیوی لوگوں  کے  ساتھ فریب کرتی ہےاور غلّےمیں مٹی  ملادیتی ہے۔حضرت خواجہ سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:اُس عورت کو اپنا ایمان  چلےجانے کا خوف نہیں ہے؟اگراس کواپنے ایمان کا خوف ہوتاتو ہرگز لوگوں کے ساتھ  دھوکا نہ کرتی ۔(44)

کون سی  کتاب نہیں پڑھنی چاہئے؟

ایک  موقع پر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا:جو کتابیں بدمذہبوں نے تصنیف کی ہیں ان  کو نہیں پڑھنا چاہئے ۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے یہ بات ذہن  نشین کرانے کے لئے ارشاد فرمایا:حضرت مخدوم  بہاء الدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے  اپنے بیٹے  کو اُس کتاب کے پڑھنےسےمنع فرمایاجس کا مُصنّف معتزلی٭ تھا ۔(45)

اچھے اور برے اعمال کا نتیجہ

اچھے اور برے اعمال کے نتیجےکے بارے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:سالک کو چاہئےکہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرے کیوں  کہ قیامت کے  دن  جنّت کو طرح طرح کے میووں،نہروں،حوروں  اور محلات سے  ہر ایک  کے نیک اعمال  کی مقدار میں پُر کیا جائے گا اسی  طرح  دوزخ کو بچھوؤں،سانپوں اور آگ سے


 ہر ایک  کے بُرے اعمال کے مطابق پُر کیا جائے گااُس روز ہر ایک کو  اس کے عمل  کے مطابق اجر دیاجائے گا ۔(46)

طلبِ دنیا کی مذمت

بہاول خان ثانی نے  نظام ِ سلطنت سنبھالتے  ہی  بڑی رقم آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں پیش کی،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دو  روز میں یہ  رقم مسکینوں ،یتیموں ، بیوہ عورتوں ،علمااورسادات میں تقسیم کروادی ۔ بعض  لوگوں نے  ایک  دوسرے  سے  رقم  نہ ملنے یا کم  ملنے  کی شکایت  کی   اور اس کی اطلاع   جب آپ کی بارگاہ میں پہنچی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشادفرمایا:ایک لوہار کو حق تعالٰی نے اتنا ملکہ دیا ہے کہ وہ معلوم کرسکتا ہے کہ اس لوہےسے ہتھیار بن سکتا ہے اوراس لوہے سے فلاں چیز بن سکتی ہے اسی طرح بڑھئی کو لکڑی کی پہچان کا علم دیا اورکسان کو زمین کی شناخت کا کہ اس زمین  میں فلاں فلاں چیز کاشت کی جاسکتی ہے۔ہمارے پاس آدمیوں کی دکان ہے کسی کا حال میرے علم وشناخت سے خارج نہیں ہے۔(47)

بارگاہِ مرشد  میں  عرض پیش کرنے کا حکم

  حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے  پیر و مرشدحضرت خواجہ نور محمد چشتی نظامی  مہاروی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   کے عرس میں ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مہارشریف تشریف لائے ہوئے تھے،اس  سال قحط سالی کی  وجہ  سے قیمت  کے بدلے اناج ملنا دشوار ہوگیا تھا ان حالات سے پریشان ہوکر مولانا خدا بخش


رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  آپ کی  بارگاہ میں حاضر ہوئے  اور  تمام  صورت ِ حال عرض کی، آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاس مسئلےکایہ حل  ارشاد فرمایا:حضرت قبلۂ عالمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی  خانقاہ  پر جاکر  یہ عرض کیجئے : ”ہم  آپ کے  مہمان ہیں  اور ہمیں    قیمت دے کر بھی  غلہ  میسّر نہیں  ہر شخص  اپنے  مہمان  کی خاطر داری  کرتا ہے۔“اب آپ جائیے۔چنانچہ مولاناخدابخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحکم کی تعمیل کرتے ہوئے مزار  شریف حاضر ہوئے  اور  جب عرض  پیش کرکے  واپس پلٹے  تو  عرض  کا  اثر  ہاتھوں ہاتھ یوں دیکھاکہ باجرے  وغیرہ  سے لدے ہوئے  اونٹوں  کی قطار یں  آرہی ہیں لہٰذا  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے   وہ  تمام غلّہ خرید لیا۔(48)

بلند مرتبہ کیسے ملا؟

ایک  مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مہار شریف جارہے  تھے وہاں پہنچ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہاں اپنی سواری  کھڑی کردی  اور اپنے سینۂ بے کینہ سے آہِ سردبھرتے  ہوئےیہ ارشاد فرمایا: یہ دوسرا راستہ سیدھاہمارا راستہ  ہےاسی  راستے  سے قبلہ ٔ عالم حضرت خواجہ نورمحمد چشتی  مہاروی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی زندگی میں جایاکرتا تھا،اس راستے  کی وجہ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےمجھےاس مرتبے تک پہنچایا ہے  کہ اگر  اپنے لنگر میں  سونے اور چاندی  کی روٹی  تقسیم  کرنا چاہوں  تو پیرو مرشد حضرت قبلۂ عالم  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے طفیل  تقسیم کرسکتاہوں ۔(49)


تصوّرِ شیخ کا معمول

آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نماز ِ مغرب اور نماز ِ تہجد کی  ادائیگی کے بعد کسی  کپڑے کا دامن گلے میں ڈالےہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتےبڑی نیاز مند ی  سے امداد طلب کرتے،سوبار”یاشیخ حضرت خواجہ نورمحمد“،سوبار”یامولیٰناحضرت خواجہ نورمحمد“

اور چند بار”کُن لِی مَدَداًیاشیخ“پڑھتے۔(50)

صحبتِ مرشد کی اہمیت

ایک موقع پر حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے صحبتِ مرشد کی اہمیت کو یوں اُجاگر فرمایا:سالک(یعنی مرید) کو چاہئے  کہ مرشد کامل کا دامن پکڑ کر ہمیشہ  اس کی صحبت میں رہے تاکہ اس کو وُصُول اِلیٰ اللہ کا مرتبہ نصیب ہو جو لوگ شیخِ کامل  کی صحبت کے بغیر ریاضت اورزہدد وورع میں کوشش کرتے ہیں ان کو شریعت کی پابندی کا اہتمام نہیں رہتا اوریہ ایک بہت بڑا نقص ہے۔(51)

کیا اولیاسے فیض ملتا ہے ؟

ایک مرتبہ حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےخادمِ خاص نے عرض  کی :مزاراتِ اولیاسےفیض ملتا ہے؟ارشاد فرمایا:اگر کوئی  مزارات  سے فیض  کا پوچھے(تو میں جواب دوں گاکہ)میں اپنے  پیر کی  صحبتِ ظاہر ی پانچ (چھ سال)سال  حاصل کرسکا  مگر  باقی  تمام (فیض )مزار حضرت قبلہ  عالمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


کی صحبت  و فیض  سے حاصل کیا  اور جو کچھ  مجھے حضرت قبلۂ عالم   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے  مزار مبارک  سے حاصل ہوا  ہے میں ہی جانتا ہوں ۔(52)

 دو مرتبہ  اجمیر شریف حاضری

آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےدومرتبہ  اجمیر شریف(راجستھان ہند) میں حضرت  خواجہ معین  الدین سیّدحسن چشتی اجمیر ی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے مزار پُر انوار پر حاضری دی۔(53)

شب وروز  کے معمولات

 حضرت خواجہ محمد سلىمان تونسوىرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے اوقات کے بے حد پابند تھے، اور اپنےمعمولات کا سفرو  حضر مىں بڑا خىال رکھتے تھے، عادتِ مبارکہ تھى کہ فجر کى سنتىں اپنے حجرے مىں پڑھ کر مسجد تشرىف لے جاتے،باجماعت نمازِ فجرادا فرماتے پھر تنہائی مىں اپنے مصلے پر بىٹھ جاتے اوراورادووظائف مىں مشغول رہتے،اس کے بعد اشراق و چاشت کے نوافل  ادا فرماتے،دلائلُ الخىرات پڑھتے اس دوران  حجرہ  بند  رہتا صرف حاجت مند کو آنے کی اجازت ہوتی ۔پھر آپ ناشتہ فرماتے پھر لوگوں کے درمیان تشریف لاتے ،تصوّف کی کُتب احیاء العلوم، فوائد الفواد ،فتوحاتِ مکیہ،فصوص  الحکم  اور نفحاتُ الانس کی تدریس کا سلسلہ ہوتا۔ درس و تدریس سے فراغت کے بعد قیلولہ فرماتے،نمازِ ظہر کے لئے بیدار ہوتے  وضو کرکے  نمازِ باجماعت ادافرماتے ، اوراد و وظائف پڑھتے،نمازِ عصر تک شرعی مسائل بیان کرنے  کا سلسلہ ہوتا، عصر کى نماز ادا فرمانے کے بعد اکثر مراقبہ اور


استغراق مىں مشغول  رہتے۔نمازِ مغرب تازہ وضو سے ادا فرماتےپھر صلوۃُ الاوابین ادا فرماتے ۔پھر حجرے میں تشریف لاکر کھانا تناول فرماتے،اس کے بعد وعظ و نصیحت کا سلسلہ ہوتا،پھرختمِ خواجگان پڑھتےالبتہ  رمضان المبارک میں ختمِ خواجگان بعد نمازِ عصر پڑھتے۔نمازعشاء کے لئے تشریف لاتے اور باجماعت  نمازادا فرماتے ، عشاء کے بعد کسى سے بات چىت کرنا ناپسند فرماتے،سونے سے قبل سرمہ لگاتے اورپھر آرام کے لئے لیٹ جاتے ۔پھر تہجد میں بیدار ہوکر بارہ رکعت ادا فرماتےاوراوراد و وظائف میں مشغول ہوجاتے۔نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد تشریف لے جاتے ۔سالہاسال تک آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا یہی معمول رہا ۔(54)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی  عَلَیْہکےشب و روز کے معمولات  کا نمایاں پہلو”استقامت“ہے۔حضرت سیِّدُنا ابو علی جوزجانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’استقامت اختیار کرو، کرامت کے طلب گار نہ بنو کیونکہ تمہارا نفس کرامت کی طلب میں متحرک ہے حالانکہ تمہارا ربّ  عَزَّ   وَجَلَّتم سے استقامت کا مطالبہ فرماتا ہے۔‘‘(55)بزرگا ن ِ دین عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن نے کئی کئی بَرَس مسلسل روزے بھی رکھے روزانہ تین تین سو، پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار نوافل ادا کیے۔ روزانہ پورا قرآنِ پاک تلاوت کرلیتے، کئی کئی ہزار مرتبہ دُرودِ پاک پڑھا کرتے۔ یہ سب کیسے ہوجاتا اور پابندی کے ساتھ ایسے عَظِیْمُ الْمَرْتَبَت اُمور کس طرح انجام دے لیتے تھے؟ آخر وہ کون سی طاقت تھی؟وہ استقامت کا


انعام تھا جو شیطان کے ہر وار کو ناکام بنادیتا تھا  ،اگر آپ بھی اپنے اندر استقامت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ان مدنی پھولوں پر عمل کیجیے :

(۱)مثبت ذہن رکھئے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس کا ذہن منفی خیالات  کی پناہ گاہ ہوتا ہےاس کادماغ کسی بھی طرح سکون نہیں پاتااورنہ ہی اچھی سوچ اس ذہن میں پروان چڑھتی ہے ۔ اس کی نحوست   سے بندہ بےجا فکروں میں  گھِر ا رہتا ہے اوربسااوقات جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ایسی صورت میں بندہ نیکیاں نہیں کرپاتااوراگر نیکیاں اختیار کرلےتو  ان پر استقامت نہیں ملتی۔  لہٰذا استقامت پانے کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ   مثبت ذہن رکھئے۔

(۲)اصلاح خندہ پیشانی سے قبول کیجئے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس طرح کسی درخت کی  خوب صورتی وقتا فوقتا اس کی کانٹ چھانٹ  سے ہوتی ہے ایسے ہی انسان کی ذاتی خوبیوں کو نکھارنے کےلیے اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اگرکسی کام میں اصلاح کا مدنی پھول  پیش کیا جائے  تو  ہمت ہارنے ،وہ کام چھوڑدینےاوراصلاح کرنے والے سے اُلجھنے کے بجائے  اصلاح قبول کیجئے اس کی بدولت آپ کی کارکردگی  اور صلاحیت میں  کئی گنا اضافہ ہوگا ۔

(۳) نیک بننے کے نسخے اپنائیے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نیکیوں پر استقامت نہ ملنے کی  بہت بڑی


 وجہ  نیک  بننےکےنسخےنہ اپنا نا بھی ہے  کیوں کہ کسی بھی خامی کودور کرنے کے لئے اس کا علاج  بہت ضروری  ہوتا ہے اور استقامت جیسی خوبی پیدا کرنے کےلئے نیک بننے کے نسخے اپنا نابےحدمفید ہے ۔نیک اعمال پر استقامت پانے کا ایک مدنی نسخہ یہ بھی ہے کہ آپ عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے، اپنے علاقے میں ہونے والے  دعوتِ اسلامی  کےہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کیجئے، امیر اہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے عطا کردہ عظیم مدنی مقصد ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔‘‘ کے  تحت خود بھی مدنی انعامات پر عمل کیجئے اور دیگر اسلامی بھائیوں کو بھی اس کی ترغیب دلائیے، مدنی مرکز کے دئیے ہوئے جدول کے مطابق ہرماہ تین دن مدنی قافلے میں سفر کو اپنا معمول بنالیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ    وَجَلَّ اس کی برکت سے پابند سنت بننے، گناہوں سے بچنے، نیک اَعمال کرنے، اُن پر استقامت حاصل کرنے اور آخرت کے لیے کڑھنے کا مدنی ذہن بنے گا۔

ایمان پہ رب رحمت دے دے تو استقامت                 دیتا ہوں واسطہ میں تجھ کو ترے نبی کا

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خوراک

حضرت خواجہ  شمس الدین  سیالوی  چشتی نظامی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : حضرت  خواجہ محمدسلیمان تونسوی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی  خوارک  نہایت سادہ اور


 مختصر تھی ، آپ اکثر  گرم  سادہ روٹی گوشت کے شوربے  کے ساتھ تناول فرماتے  جس میں گھی  کی  بہت  معمولی  مقدار شامل ہوتی ۔کھانا کھاتے  وقت  پانی  سے بھرا پیالہ  بھی موجود ہوتا ایک  لقمہ   تھوڑا ساچباتے بعدمیں پانی  نوش فرماتے یوں کھانا بہت کم  مقدار میں کھایا جاتا ۔(56)

مصیبت و بلا دور کرنے والے دو عمل

حضرت پیرپٹھان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نےغم،پریشانی اور مصیبت  و بلا سے چھٹکارا پانے کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے ارشاد فرمایا: ہر مصیبت وبلا جو لوگوں پر نازل ہوتی ہے اسے درود شریف دفع (دور)کر دیتا ہے ۔دوسرے اپنی توفیق کے مطابق صدقہ دینا کیونکہ صدقہ بلا کو دور کرتاہے۔“(57)

دلجوئی بھی اور داد رسی بھی

قاضی  نور محمد  کی دو بیٹیاں تھیں  اولادِ نرینہ  کے خواہش مند تھے ،ایک بار حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی  بارگا ہ میں حاضر ہو کر اولادِ نرینہ  کے لئے عرض  کی ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےارشادفرمایا:”اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہیں بیٹا عطا فرمائے گا۔“اللہ عَزَّ وَجَلَّ  نے قاضی  صاحب کو بیٹے  کی نعمت عطافرمائی  لیکن  جب  وہ دو سال کا ہوا  تو اسے چیچک  ہو گئی اور آنکھیں درد کرنے لگیں جس کی وجہ سے بینائی  چلے جانے کا خطرہ ہوا،قاضی  صاحب   آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی بارگاہ میں  حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے :غریب نواز! میں نے  نابینا بیٹا نہیں مانگا تھا  یہ آپ کا بیٹا حاضر  ہے  یا تو اس کی  آنکھیں ٹھیک کردیجئے  یا اسے اپنے پاس رکھئے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ


 تَعَالٰی عَلَیْہ  نے  قاضی  صاحب سے فرمایا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ  شفاعطا فرمائے گا ۔ پانچ  دن  گزرنے  کے  باوجود بیٹے کی  حالت  جوں  کی توں رہی  تو   قاضی صاحب  نے حاضر ہوکر مراد پوری  نہ ہونے کی شکایت کی  اس مرتبہ آپ رَحْمَۃُ  ا للہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  بچے کی آنکھوں  پر دم کیااورارشادفرمایا:”جائیے!اللہتعالٰی اُسے شفا عطا فرمائے گا۔“قاضی صاحب نے (ناز میں)عرض کی: ایسا نہ ہو مجھے اس کام کے لئے  دوبار آنا پڑے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےتسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کا م کے لئے دوبارہ نہیں  آنا پڑے گا ۔قاضی  صاحب واپس  گھر آگئے اور اللہ تعالٰی نے اُسی  روز  ان کے بیٹے  کو شفا یاب فرمادیا ۔(58)

درودِپاک باعثِ نجات

ایک مرتبہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہغمگین اورافسردہ  تھے جب آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی  عَلَیْہ سے اس کی وجہ  پوچھی گئی تو آپ  نے ارشاد فرمایا:آج بارہویں صدی  کا پہلا دن ہے اِ س وجہ سے غمگین ہوں  کہ  یہ دور  ایسا زبوں  ہے کہ اس دور میں لوگوں کا ایمان کم رہ جائے گامگر صرف وہ بچیں گے  جو اللہ  والوں کا دامن  پکڑلیں گے اور  وہی  ہوں گے جن کو زوالِ ایمان کا خطرہ  نہ ہوگا  جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر کثرت سے درود پڑھے گا  اس کا ایمان سلامت رہے گا۔(59)

عام و خاص میں فرق

ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے عام  و خاص کا فرق بیان کرتے ہوئے


 ارشاد فرمایا:ایک عام اور خاص شخص کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ جو کوئی اللہ  عَزَّ وَجَلَّکے دیئے ہوئے رزق پر قناعت کرتا ہے اوراس کے دل میں زیادتی کی طلب  وحرص  نہیں ہوتی وہ خواص میں سے ہوتا ہےاورجس کا حال اس کے  برعکس وہ عوام میں سے ہوتا ہے ۔(60)

فہم  و فراست  کو خطا سے محفوظ رکھنے  کا نسخہ 

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے فہم و فراست   کو بچانے  کا یہ نسخہ ارشاد فرمایا:جو کوئی اپنی آنکھ محارم(حرام کردہ چیزوں)سے بند رکھتا ہے(یعنی بدنگاہی نہیں کرتا)اوراپنے نفس کو خواہشات اورشہوات سے روکتا ہے،اپنے باطن کو دوامِ مُرَاقبہ سے اوراپنے ظاہر کو اتباع سُنّت سے سنوارتا ہے اس کی فراست کبھی خطا نہیں کرتی ۔ (61)

دعا قبول نہ ہونے کی حکمت

ایک شخص نےآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےصاحبزادےحضرت مولاناگل محمد چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے وصال کے بعد عرض کی:آپ نےاپنے بیٹے کی شفایابی اورزندگی  کے لئے بارگاہِ الہٰی میں  کیوں عرض نہیں کی؟اللہ   عَزَّ     وَجَلَّ تو اپنے بندوں کی دعا قبول فرماتا ہے رد نہیں فرماتا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: یہ کام ہر وقت درویش کے اختیار میں نہیں ہوتا دعاکرنا بندے کا کام ہے اورقبول کرنا نہ کرنا اس کی مشیت پر موقوف ہےوہ ذات پاک مَالِکُ الْمُلک ہے جو چاہتی ہے کرتی ہےکسی کواس کی جناب میں دم مارنے کا حوصلہ نہیں ہے۔(62)


 انسان کاسب سےسخت دشمن

نَفْس انسان  کا پوشیدہ دُشمن ہے  اور جو دُشمن نِگاہوں  سے اَوجھل ہوتا ہے وہ نظر آنے والے دُشمن سے کہیں  زِیادہ مُوذِی و خطرناک ہوتا ہے ۔نفس  پرمہربانی  اُسے مزید دشمنی پر اُبھارتی ہے  چنانچہ حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : انسان کا نفس اس کے تمام دشمنوں سےزىادہ سخت دشمن ہےکىونکہ جس دشمن کے ساتھ بھى مہربانى کى جائے وہ فرمانبردار ہوجاتا ہےبخلافِ نفس کے ،اس کے ساتھ جس قدر مہربانى کرو گے زىادہ دشمنى کرے گا۔(63)

ایمان کے  زوال کا  سبب

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی  عادت ِ مبارکہ تھی کہ  بدمذہبوں  کی صحبت سے بچنے  کا ذہن دیتے  چنانچہ ایک شخص بدمذہبوں کے یہاں ملازم تھاجب وہ  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضرہوا توآپ نےاسے تنبیہہ  کرتے ہوئےاشاد فرمایا:”تم اورتمہارا بھائی ملازمت  کی وجہ سے ہر وقت  بدمذہبوں کی صحبت میں رہتے ہو اس لئے ڈرتے رہا کرو کہیں اُن کی صحبت سے متاثر نہ ہو جاؤ۔“جب  وہ بدمذہبوں کی ملازمت چھوڑ کردوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہواتوآپ نےبدمذہبیت کی نحوست ذہن نشین کراتےہوئےارشاد فرمایا:”بدمذہبوں  کی صحبت  میں رِہ کر طرح طرح کی نعمتیں  حاصل کرنے سے بھوکا مرجانا بہتر ہے کیوں کہ اس قسم  کی صحبت ایمان کے زوال کا باعث ہوتی ہے۔(64)


کامیاب کون؟

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کامیابی کانسخہ  عطا فرماتے ہوئےارشادفرماتےہیں:دین ودنیا میں کامیابی صرف ان لوگوں نے حاصل کی ہےجنہوں نےاللہ اللہ کیاہےاوراس پر ہمیشگی اختیارکی ہے۔(65)

دنیا داروں کی مثال

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :دنىا داروں کى مثال گدھے کى ہے جو کہ بوجھ کو پىٹھ پر اٹھاتا رہتا ہے اسى طرح اہل دنىا ، دنىا کى طلب مىں( جو کہ نجاست اور گندگى کے بوجھ کےسوا اور کچھ نہىں ہے) ہمىشہ حىران و سرگرداں رہتے ہىں،قناعت نہىں کرتے اور دنىا جمع کرتے رہتے ہىں، آخر کار دنىا کو چھوڑ کر خالى ہاتھ ىہاں سے جاتے ہىں۔(66)

”غیبت“چوری سے زیادہ بری ہے

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  غیبت کی  مذمت و برائی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: غىبت کرنا چورى کرنے سے زىادہ برا ہے، کىونکہ چورى کرنے سے  تو چور چورى کى ہوئى چىز سے کچھ فائدہ بھى اٹھا لىتا ہے، لىکن غىبت مىں کوئى ظاہرى فائدہ بھى نہىں ، بلکہ غىبت کرنے والے کے تمام نیک اعمال برباد ہوجاتے ہىں۔(67)

غیبت کی تباہ کاریاں ایک نظر میں

امیر اہل سُنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  تحریر فرماتے ہیں :قرآن و حدیث اور


 اقوالِ بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین سے منتخب کردہ غیبت کی 20 تباہ کاریوں پر ایک سرسری نظر ڈالئے، شاید خائفین کے بدن میں جُھر جھری کی لہر دوڑ جائے!جگر تھام کر مُلاحَظہ فرمایئے:٭غیبت ایمان کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے٭غیبت بُرے خاتمے کا سبب ہے٭بکثرت غیبت کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی٭غیبت سے نَماز روزے کی نورانیَّت چلی جاتی ہے ٭غیبت سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں٭غیبت نیکیاں جلا دیتی ہے٭غیبت کرنے والا توبہ کر بھی لے تب بھی سب سے آخِرمیں جنَّت میں داخِل ہوگا، اَلغَرض غیبت گناہِ کبیرہ، قطعی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے٭غیبت زنا سے سخت تر ہے٭مسلمان کی غیبت کرنے والا سُود سے بھی بڑے گناہ میں گرفتار ہے٭غیبت کو اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر بدبُو دار ہو جائے٭غیبت کرنے والے کو جہنَّم میں مُردار کھانا پڑے گا٭ غیبت مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مُترادِف ہے٭غیبت کرنے والا عذابِ قبر میں گرفتار ہو گا! ٭غیبت کرنے والاتانبے کے ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینے کو بار بار چھیل رہا تھا٭ غیبت کرنے والے کو اُس کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کاٹ کر کِھلایا جا رہا تھا٭غیبت کرنے والا قیامت میں کتّے کی شکل میں اٹھے گا ٭غیبت کرنے والا جہنَّم کا بندر ہو گا٭غیبت کرنے والے کو دوزخ میں خود اپنا ہی گوشت کھانا پڑے گا٭غیبت کرنے والا جہنَّم کے کھولتے ہوئے پانی اور آگ کے درمیان موت مانگتا دوڑرہا ہو گا اور اس سے جہنَّمی بھی بیزار ہوں گے٭ غیبت کرنے والا سب سے پہلے


 جہنَّم میں جائے گا۔(68)

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ربِّ کریم  کی  ایک  صفت کا تذکرہ

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:بندہ جب کسی  کاکوئی گناہ دىکھتا ہے تو  وہ اس کی وجہ سےاُسےذلىل و خوار کرتا ہے،مگراللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے فضل سے ستّارى کرتا ( گناہ چھپاتا)ہے اور معاف فرمادیتا ہے ۔ (69)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دوسروں کی عیب پوشی کرتے ہوئے  اپنے عیبوں پرنظر رکھنی چاہیے۔جب کبھی دوسرے کے عیب بیان کرنے کو جی چاہے اُس وقت اپنے عُیُوب کی طرف مُتَوجِّہ ہوکرانہیں  دُورکرنے میں لگ جانا چاہیےکہ یہ بہت بڑی سعادت مندی ہےچنانچہ نبیٔ رحمت،شفیعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کافرمان عالی شان ہے: اُس شخص کے لیے خوشخبری ہے جسے اس کے عیوب نے لوگوں کی عیب جوئی سے پھیر دیا۔(70)لہٰذااگر کسی کے  عیبوں پر نظر پڑ جائے  تو  اپنے عیبوں کو یاد کیجئے اور صرفِ نظر کیجئے اس سلسلے میں دو  روایات  ملاحظہ فرمائیے: (1)جو مسلمان کی عیب پوشی کرےگااللہ عَزَّ    وَجَلَّ دنیاوآخرت میں اس کے عیب چھپائےگا۔‘‘(71)(2)حضرتِ سیِّدُناعبدُاللہاِبنِ عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکا فرمان ہے:جب تو  کسی کے عُیُوب بیان کرنے کا اِرادہ کرےتو اپنے عیبوں کو یاد کر لیا کر۔(72)


چیونٹی کی حرص

ایک  بارحضرت پیر پٹھانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: چىونٹى اىک سال مىں گندم کا اىک دانہ کھاتى ہے لىکن حرص کے سبب رات دن سرگرداں رہتى ہے اورآرام نہىں کرتى، سالک کو چاہىے کہ قانِع(قناعت کرنے والا) اور شاکر (شکرکرنے والا)ہو چىونٹى کى طرح حرىص نہ ہو۔(73)

مردہ لڑکا اُٹھ کر بیٹھ  گیا

 ایک بوڑھی عورت  حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی بارگاہ میں  گریہ  و زاری  کرتےہوئے حاضر ہوئی اور کہنے لگی : میرا ایک ہی بیٹا تھاجو اب  مرگیا ہے ۔اس بوڑھی عورت کی داد رسی کے لئے  آپ اس کے گھر تشریف لےگئے۔لڑکا مردہ پڑا تھا،آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےخادم کو نبض دیکھنے کا حکم دیا، خادم نے نبض دیکھی مگر اسے کچھ سمجھ نہ آیا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآگے بڑھے، اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کرقلبی  توجہ  فرمائی  جس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ وہ لڑکااُٹھ کر بیٹھ گیا اور بوڑھی عورت کے آنسو تھم گئے۔(74)

کرم نوازی اور انکساری کے پیکر

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  خانقاہ میں جلوہ  افروز تھے کہ احمد نامی شخص پانی سے بھرا برتن لے کر حاضر ہوا اور عرض کی :حضور!میں نے کنواں کھدوایا ہےیہ اسی کا پانی ہے   نوش  فرماکر ارشاد فرمائیے کہ کیسا ہے؟ آپ


رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاس کی دلجوئی کےلئےپانی پیااورخوش ہوکرفرمایا:تمہارے کنویں کا پانی تو دادو والے  کنویں کے پانی سے زیادہ میٹھا ہے ۔اس نے عرض کی: حضور!یہ سب آپ ہی کی مہربانی  ہے،اگر آپ دو سو روپے عطانہ فرماتے تو میں یہ کنواں نہیں کھدواسکتا تھا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےیہ سُن کرفرمایا:دینے اور دلانے والااللہ ہے ”میں“درمیان میں کہاں سے آگیا۔(75)

ولی کے تصور نےجان دی

ایک مرتبہ حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگا ہ میں ایک سپاہی حاضر ہوا تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے  ارشاد فرمایا: تم گزشتہ دنوں خونریز لڑائیوں میں   حصہ لیتے رہے پھر بھی بچ کر یہاں آگئے ؟اس نے عرض کی :حضور!بے شمار دشمن تلواریں لئے مجھےمارنے کے درپے تھے ،میں نے فوراًدل میں  آپ  کا تصور کیا ،اس وقت یوں لگا کہ مجھے دشمن  کے نرغے سے نکال کر پہاڑی کے پیچھے پھینک دیا گیا ہے ۔اپنی جان بچنے پر ہی آپ کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوا ہوں۔(76)

مشکل کشائی  کا سلیمانی  نسخہ

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا معمول تھا کہ اگر کسى کو کوئى مشکل پىش آتى تو اسے فرماتے:قبلۂ عالم حضرت  خواجہ  نور محمد چشتی مہاروی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےاىصالِ ثواب کےلئے اىک گائے ذبح کرکے خىرات کرواور اگر گائے موجود نہ ہوتى تواسے فرماتے کہ گائے کى قىمت پانچ چھ روپىہ ادا کرو، تاکہ


 کہىں سے خرىد کر حضرت قبلہ عالم کى خانقاہ شرىف مىں ذبح کى جائے۔(اور خانقاہ کے فقرا و مساکىن مىں گوشت بطورِ خىرات تقسىم کىا جائے)ایسا کرنے سے بیماریاں دور ہوتیں اور مشکلات حل ہوجایا کرتیں ۔ (77)

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دنیا دار کی دوستی کا اعتبار نہیں

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجس طرح دنیاسےبے رغبتی اپنانے کی  ترغیب دیا کرتے اسی طرح  دنیا داروں سے دور رہنے کی  نصیحت فرمایا کرتے تھےچنا نچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہارشاد فرماتے ہیں:اللہ  والوں کى دوستى دونوں جہانوں مىں کام آتى ہے، لىکن دنىا داروں کى دوستى کا کوئى اعتبار نہىں۔(78)

ایک  روٹی کم کروادی

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےجاری کردہ لنگر شریف  سے ہر درویش کے لئے  دو روٹیاں مقرر تھیں ۔ایک دن  اشراق و چاشت ادا فرمانے کےبعدآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ گھرتشریف لےجارہے تھے کہ راستے میں دو درویشوں   کو باہم  دست و گریبان  دیکھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےلنگر کی  ذمہ داری  پرمتعین  فرد  کو بلا کر ارشادفرمایا:ان درویشوں کو میں روٹی  یادِخدا کے لئے دیتا ہوں جب پیٹ  بھر کر کھاتے ہیں  تو  طاقت آنے پر  آپس میں  لڑتے ہیں ،آج کے بعد ایک روٹی  دینا تاکہ  بھوکے رہیں  اور کسی کو لڑائی یاد نہ آئے ۔جو کوئی  خدا کا طالب ہے  اور میر ی


محبت میں مبتلا ہے تووہ یہاں رہے گااورجو صرف نفس کا طالب ہے اورصرف روٹی کے لئے پڑا ہے  وہ خود بھوکا رہ کرچلاجائےگا۔(79)

رشوت خور قاضی کی قبر میں ڈال دوں گا!

ایک  مرتبہ آپ کی  بارگاہ  میں سنگھڑ  سے بارش  کی  دعا  کرانےکےلئے  لوگ حاضر ہوئے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: تم  میں  سے کوئی  اُٹھے  اور بادل کو میرا یہ پیغام دے :اگر ابھی  بارش ہوجائے اور پہاڑی نالہ  میں پانی  آجائے تو بہترورنہ تمہیں رشوت  خورقاضی کی قبر میں ڈال دوں گا ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا  اسی وقت  بادل آئے ،خوب بارش  ہوئی جس سےتمام  علاقہ  سیراب ہوگیا ۔(80)

 مقامِ محبوبیت پر فائز

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے ایک مریدحاجی خان  کاتب فرماتے ہیں :مَیں  ایک دن پاک پتن  شریف حضرت بابا فرید الدین گنج شکر  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عرس میں حاضر تھا  حضرت میاں محمد باقر چشتی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  بھی تشریف لائے ہوئے  تھے میں  ان کی  زیارت کے لئے حاضر ہوا  تو انہوں نے پوچھا :تم کون ہو؟ جب میں نے  اپنا تعارف حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا مرید ہونے کی  حیثیت سے کرایا  تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:”جانتے ہو تمہارے پیر کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟عرض کیا:آپ  ہی  ارشاد فرمادیجئے ۔فرمایا:حق تعالٰی نے  تمہارے پیر کو درجۂ محبوبیت عطا کیا ہے کہ قطبیت وغوثیت کے تمام مقامات طے  کرکے  مقام ِ محبوبیت پر پہنچ گئے ہیں ۔“(81)


دینی خدمات

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اشاعتِ دین کو اپنی حیاتِ طیبہ کی اصل قرار دیا، عمر بھر مسندِ علم وحکمت بچھائے رکھی،عُلُوم ومَعَارِف کی تَرْوِیج وترقی کے لئے مصروفِ عمل رہے،آپ کی جلائی ہوئی شمع کے گرد،دُور دُور سے پروانے جمع ہوئے،آپ کے فیضان سے ہزاروں ارادت مندوں نے فیض پایا،آپ کی آمد سے تونسہ شریف (ضلع ڈیرہ غازی خان)مرجعِ اَنام اور مرکزِ علم وعرفان بن گیا، طالبانِ حق سینکڑوں میل طے کر کےتحصیلِ فیض کے لئے تونسہ شریف کی خاک کو چومنے پہنچے۔ اسلام کے عالمگیر پیغام سے انسانیت کو روشناس کرانے اوراس کی ابدی سچائیوں کو انسانی قلوب واذہان میں راسخ  کرنے کے لئے جو کار نامہ اور عملی نمونہ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے پیش کیا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ (82)

اولادوامجاد

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےتین  شہزادے تھے:(1)حضرت خواجہ گل محمد چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ(2)حضرت خواجہ درویش محمدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (3) غوثِ زماں حضرت عبداللہمعصوم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ۔ان تینوں شہزادوں کا انتقال آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ظاہری حیات ہی میں ہوگیا تھا۔(83)

خلفائے عظام

حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے فیضان سےبےشمارلوگ


  فیض یاب  ہوئے  جن میں عوام و خواص دونوں  شامل تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دینِ اسلام کی اشاعت کے لئے  جس  کو اہل پایا اُسے اپنی صحبت سے نواز کرمزید تراشہ اور خلافت عطافرما کر فیضان ِ اسلام عام کرنے لئے   بھیج دیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے خلفائے عظام کی  تعدادستّر ہے(84) اُن میں سے چند کا تذکرہ  ملاحظہ کیجئے :

 (1)حضرت صاحبزادہ خواجہ گل محمد چشتی نظامی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت خواجہ سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بڑے فرزنداورمریدوخلیفہ ہیں،آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہعاجزی و انکساری  کے پیکر اورمخلوق ِ خدا پر  شفیق تھے ،آپ کے دریائے سخاوت سے ہر ایک فیضیاب ہوتا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال والدِگرامی  کی حیات میں ۱۱رمضان المبارک۱۲۶۰ ہجری کو ہوا۔(85)

(2)نبیرۂ پیرپٹھان حضرت خواجہاﷲبخش تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

آپرَحْمَۃُ اللہِتَعَالٰی عَلَیْہحضرت خواجہ سلیمان تونسویرَحْمَۃُ  اللہِ   تَعَالٰی   عَلَیْہکے پوتے اورحضرت خواجہ گل محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے شہزادے ہیں،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت  ماہِ ذوالحجۃ۱۲۴۱ہجری میں  ہوئی ،ظاہری تعلیم سے فراغت کے بعد باطنی تعلیم اپنے دادا حضورسے حاصل کی ۔حضرت خواجہ محمدسلیمان  تونسوی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو خلافت حاصل تھی ،دادا حضور کے وصال  کے بعد


 آپ ہی  جانشین مقرر ہوئے ۔پنجاب،ہنداور خراسان کےسینکڑوں  لوگ آپ  کے دامن سے وابستہ ہوکر  فیضیاب ہوئے ۔عارِف کامل حضرت خواجہ  احمد میروی چشتی نظامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ٭حضرت پیر پٹھان  خواجہ محمد سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مرید تھےاورحضرت خواجہ  اللہ بخش تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےاجازت و خلافت حاصل تھی ۔ علامہ فضلِ حق خیر آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے لختِ جگر شمسُ العلماءعلامہ عبدالحق خیرآبادی اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ احمد بخش صادق (مہتمم مدرسہ محمودیہ تونسہ شریف)رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَابھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےمرید تھے۔حضرت پیر پٹھان  خواجہ محمد سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اصلاحِ اعمال   کے لئےخوب کوشش فرمائی نہایت ملنسار اور خوش اخلاق،غریب نواز تھے غریبوں  کوقریب رکھتے،دنیاداروں سے کنارہ کش رہتے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے مساجد، مدارس اورلنگرخانے تعمیر کروائے۔ علاقہ مکینوں کی قراءتِ قرآن درست کروانے   کا اہتمام،حرمین طیبین اور پاک پتن شریف کی خدمت آپ   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی


 عَلَیْہ کے خصوصی  فضائل میں شامل ہے۔ جب قادیانیت کا فتنہ اٹھا تو اس کی  سرکوبی کےلئےبھی آپرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےنہایت اہم کرداراداکیا۔13ستمبر1901ءمطابق ۲۹جمُادی الاولیٰ۱۳۱۹ھ کو آپ کا وصال ہوا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ  تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزار مبارک تونسہ شریف میں ہے۔حضرت خواجہ حافظ محمد موسیٰ تونسوی،حضرت خواجہ حافظ محمود تونسوی (بانی مدرسہ محمودیہ تونسہ شریف)اورحضرت خواجہ حافظ احمد تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنآپ کے صاحبزادے ہیں۔(86)

 (3)حضرت مولانا محمد علی مکھڈوی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

      آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی ولادت۱۱۶۴ھ مطابق1750ء میں ہوئی ،اپنے وقت کے جلیل القدر اساتذہ سے تعلیم  و تربیت حاصل کی،آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مکھڈشریف میں  درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا توشائقینِ علم پاک و ہند، کابل، قندھار اور بخارا سے کھنچے چلے آئے اور اِس چشمۂ  فیض سے مستفیض  ہونے لگے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت خواجہ سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےمرید ہوئے اورخلافت سے نوازے گئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے فیوض و برکات سے مخلوقِ خدا  فیضیاب ہوئی ۔۲۹رمضان المبارک مطابق1837ءکوآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ہوا،آپ کا مزار مکھڈ شریف ،ضلع اٹک  میں مرجع ِ خلائق ہے۔(87)

 (4)حضرت حافظ سیّد محمد علی خیر آبادی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ۱۱۹۲ھ کو ہوئی،علم و فضل میں آپ کے


 خاندان کو شہرت حاصل تھی بچپن ہی سے آپ کی  طبیعت عبادت و ریاضت کی جانب مائل تھی،اپنے علاقے سے ابتدائی تعلیم   حاصل کرنے کے بعدعلمِ حدیث کےلئے دہلی  پھر حرمین طیبین کا رُخ کیا جب کہ صحیح مسلم  کا سِماع حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے کیا ۔علامہ فضل ِ حق خیرآبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے فُصُوصُ الِحکم کا درس لیا۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے  مرید ہوئے اور اجازت و خلافت  حاصل کی۔خیرآباد میں  آپ کی  خانقاہ علم  و فضل کا مرکز اور فُیُوض و بَرَکات کا منبع تھی۔اودھ  اوردکن میں سلسلہ چشتیہ نظامیہ کی اشاعت  میں اس خانقاہ کا کردار نہایت اہم ہے ۔۱۸ذیقعدہ ۱۲۶۶ھ کو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ہوا۔(88)

(5)شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

حضرت خواجہ شمس العارفینرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکی ولادت با سعادت  ۱۲۱۴ھ مطابق 1799ء کوموضع سیال،ضلع گلزارِطیبہ(سرگودھا،پنجاب)میں ہوئی۔(89) ظاہری علوم کی تکمیل کے بعدآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسلطان ُالعارِفین خواجہ محمد سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت ہوئے ۔ (90) آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی عمر مبارک تقریباً 36 سال  ہوئی تو آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےخلافت سے نوازا اور ہدایت فرمائی کہ بیعت کا کام بڑے اہتمام سے کرنا، اپنے اشغال (ذکر و فکر)میں مصروف ہو


 کر اس کو نظر انداز نہ کردینا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دستِ اقدس پرسب سے پہلے آپ کے  والدین کریمین نے بیعت کی پھر دیگر لوگ مرید ہوئے۔ (91)  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآسمانِ علم وعرفان پر مہر وماہ بن کرچمکے ،مسندِ رشد وہدایت بچھائی،علم کے پیاسوں کے لئے درس گاہ قائم فرمائی، ظاہری وباطنی علوم کے دروازے کھول دیئے،خلقِ خدا پروانہ وار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی، تسکینِ دل وجان اورمنزلِ مراد پائی،آپ نے رشد وہدایت کا پیغام اعلیٰ پیمانے پر خواص وعوام تک پہنچایا،اپنے روحانی فیض وکمال سے ایک عالَم کو سیراب کیا، بے شمار مریدین کو دَرَجَۂ کمال تک پہنچایا،حضرت سیّدغلام حیدرشاہ جلالپوری اور حضرت پیر سیّدمہر علی شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا آپ کے مشہورخلفاء  میں سے ہیں ۔(92) آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا فیضان جلال پورشریف، گولڑہ شریف،معظم آباد شریف کی خانقاہوں سے دنیا بھر  میں عام ہوا۔(93)  ۲۴صفر المظفر۱۳۰۰ ہجری کووصال ہوا۔(94) آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزارپرانوار سیال شریف ضلع گلزارِ طیبہ (سرگودھا) صوبہ پنجاب پاکستا ن میں مَرجَعِ خَلائِق ہے۔(95)

علم و حکمت بھرے ملفوظات

حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےملفوظات علم  و حکمت سے بھرپور ہوا کرتے،چند ملفوظات ملاحظہ کیجئے:

٭…اکثر  لوگوں کی صورتیں   انسانوں  جیسی ہیں  لیکن انسانوں کی سی


  عادات و خصائل سے عاری ہیں ،آدمیت اور انسانیّت تو عمدہ اخلاق  اور اچھے اعمال کا نام ہے۔

٭…سالک دل میں  دنیا کی محبت رکھ کرخدا تک  نہیں  پہنچ سکتا۔

 ٭…جودنیا کے پیچھے پڑتاہےرات دن  دنیوی خیالات  میں مُسْتَغْرَق  ہے  اور ذلیل و خوار ہورہا ہے۔

٭…بعض لوگ  مظہر خیر ہوتے ہیں ان سے ہمیشہ اچھائی ہی ظاہر  ہوتی ہے اور بعض لوگ  مظہر ِ شر ہوتے ہیں ان سے برائی ہی  ظاہر ہوتی ہے۔

٭…آدمیوں کو لاحق ہونے  والا  رنج و غم  ان کے برے اعمال کی  شامت ہے۔

٭…حرام کھانے والا تنگ دستی  کا شکار رہتا ہے۔

٭…خود کو سب سے زیادہ گناہ گار سمجھنے والا”نیک آدمی“ اور خود کوسب سے زیادہ نیک سمجھنے والا”برا آدمی “ہے۔

٭…دنیا کے  موجود ہونے میں ہزاروں آفتیں ہیں  اور اس کے نہ ہونے میں  دونوں جہانوں  کی عافیت ہے ۔

٭…اچھے  اعمال”رحمتِ الہٰی“اور بُرے اعمال”قہرِ الہٰی“ نازل ہونے کا سبب ہیں۔

٭…مخلوق کی محتاجی میں ذِلّت ہے ۔


٭…عالِم اور جاہل  میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ”سونے “اور ”مٹی “میں ، علم  تمام اوصاف حمیدہ(اچھی صفات) میں  اعلیٰ صفت ہے اور جہالت اوصافِ رزیلہ(برائیوں) میں  بدتر صفت ہے۔

٭…برے لوگوں کی  صحبت سے  پرہیز کرنا چاہئے  کیوں کہ صحبتِ بدانسان کو خراب کردیتی ہے ۔

٭…علم  بغیر ہدایت کے کچھ  فائدہ نہیں دیتا۔

٭…قناعت  وہ خزانہ  ہے جو خرچ کرنے سے ختم  نہیں ہوتا۔(96)

اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکی سیرت و کردارکو اپنانے اور ان کے علم و حکمت بھرے ملفوظات  پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

کرامات

حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  باکرامت بزرگ تھے چند کرامات ملاحظہ کیجئے:

(۱)مکڑیوں نے  نقصان پہنچانا چھوڑ دیا

باجرے کی تیار فصل کو مکڑیوں نےبہت نقصان پہنچایا تو لوگ آپ کی بارگاہ میں اس آزمائش سے نجات کے لئے فریاد لے کر حاضر ہوئےآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


نےاُن لوگوں سےارشاد فرمایا:ایک  مکڑی پکڑکراُسےمیری جانب سے  کہو:”اے مکڑی!تجھے  تونسہ والا فقیر کہتا ہے کہ تو بھی  خدا کی مخلوق ہےہم بھی خدا  کی مخلوق ہیں  تمہارا رزق  یہ گھا س ہے اِسے کھاؤ،ہمارا  رزق باجرہ ہے  وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمارے لئے  پیدا کیا ہے  اُ سے  ہم کھاتے ہیں  پس ہمارے  رزق میں  کیوں دست درازی  کرتی ہو ۔اگر باجرےسے باز آجاؤ تو بہتر ہے ورنہ تمہیں  ماردوں گا۔

چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے بتائے  طریقے پر عمل کی برکت سے  مکڑیوں نے  باجرے کو نقصان پہنچانا چھوڑ دیا۔(97)

(۲)گم شدہ بیٹا مل گیا

 ایک  شخص حسن علی  رات دن اپنے کھیتوں میں  کام  کیا  کرتااور کبھی دو اور کبھی تین  دن بعد  گھر آتا، اس کام میں  بارہ سالہ بیٹایار محمدبھی اس کاہاتھ بٹایا کرتا ۔ ایک دن حسن  علی  کےبیٹے یار محمد  کو اپنی  والدہ کی یاد آئی  تو  وہ   اپنے  والد سے اجازت لے کر   گھر چلا گیا ۔ جب تین  دن  بعد  حسن علی گھر واپس آیا تو اُسے  معلوم  ہو ا کہ اُس کا بیٹا یار محمد گھر پہنچا ہی نہیں۔لہٰذا وہ اپنے  بیٹے کی تلاش  میں  دوڑ پڑا  ، شہر کا چپہ چپہ   اور اطراف کے  تمام  گاؤں  میں تلاش  کیا مگر کوئی  نتیجہ  نہ  نکلا آخر کار تھک  ہار  کر حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی  چشتی نظامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور گریہ و زاری  کرتے ہوئے  اپنی مشکل  یوں بیان کی : میرا  بیٹا کھو گیا ہے ، بہت تلاش کیا مگر  کوئی  نتیجہ نہ نکلا،اب ایک  آپ ہی  کی ذات  گرامی  وسیلہ ہے


  خدارا!میرا بیٹا مجھ سے ملا دیجئے ۔چنانچہ  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےاس پر یشان  حال کو  تسلی دی  پھر یوں  دعا فرمائی:  اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تمام  امور کا آغاز و انجام بخیرہو اور ہمارے  تمام کاموں کی انتہاء بھی  بخیر ہو۔ پھر آپ نے  سورۂ فاتحہ پڑھنا شروع کی، اسی دوران کسی نے حسن علی  کو بتایا کہ تیرا بیٹا آ گیا ہے  اور باہر کھڑا ہے،فاتحہ  کےاختتام پرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے  بغیر ادھر اُدھر دیکھے  ارشاد فرمایا:حسن علی ! تمہارا بیٹا آگیا ہے ۔عرض کی:حضور!یہ آپ کی توجہ سے آگیا ہےچنانچہ یار محمد  آیا، سلطان العارفین  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قدموں میں گر گیا ۔حضرت سے اجازت لے کر گھر واپسی ہوئی  تو حسن علی  نے اپنے بیٹے  سے پوچھا :واپس کس طرح آئے۔ اس نے بتایا: بابا! میں طلب ِ علم  کے ارادے سے  دہلی  کی طرف  روانہ ہوگیا تھا جب قریہ عبدالرحمٰن  میں پہنچا تو وہاں کشتی  نہ تھی  تین  دن کشتی کے انتظار میں رہا  اور آج میں اسی شہر  کے لڑکوں کے ساتھ کھیل  رہا تھا تو  ایک سوار نے  میرے نزدیک آکر کہا : اے  بچے! تو یہاں  کھیل  رہا ہے اور تیرا باپ تیرے فراق میں گریہ و زاری کر رہاہے میرے ساتھ  آ، تاکہ میں تجھے تیرے گھر پہنچا دوں ۔یہ کہہ کر میرا بازو پکڑا ، گھوڑے پر بٹھا یا اور یہاں  تونسہ  لاکر اُتار دیا۔(98)

 (۳)ویرانے میں دستگیری  فرمائی

حکیم میاں  محمد بخش   چشتیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبادشاہ  شجاع الملک کے  لشکر سے بچھڑ گئے  یہ بھی خوف تھا  کہ  آپ کو خراسانی   گرفتار  نہ کرلیں ،جب جان  پہ بن آئی


  تو حکیم صاحب نے اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بارگا ہ میں اِسْتَغَاثہ پیش کیا ،ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ  یکایک  پہاڑ کی  اوٹ  سے ایک گھڑ سوار  برآمد ہوا  اوراُن سے کہنے لگا: کہاں جاؤ گے ؟آپ نے کہا:میں  بادشاہ شجاع الملک  کے لشکر میں شامل تھا لیکن راستے میں بچھڑ گیا  ہوں  آپ کون  ہیں؟ گھڑ سوار نے  اپنا تعلق  بھی  شجاع الملک کے لشکر سے بتایااورحکیم صاحب کو ان کے لشکر تک پہنچادیا۔(99)

(۴)چیونٹیاں   گھر سے چلی گئیں

ایک  مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہقبلۂ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی  چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےمزار کی زیارت کے لئےمہارشریف تشریف لارہے تھے جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجہان پور پہنچے توآپ کا ایک  مرید عبد الوہاب  بارگاہ میں حاضر ہوا اور یوں عرض کی:میرے گھر میں بڑی چیونٹیوں نے سوراخ کردیا ہے،دن رات گھر میں گھومتی  رہتی ہیں ایک لمحہ آرام نہیں ہے ،دعافرمائیے کہ یہ دفع ہوجائیں۔ اس کی عرض سُن کر آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاپنےایک  مرید سےفرمایا:جائیے اور میری طرف سے کہہ دیجئےکہ فلاں  شخص تمہیں کہتا ہےکہ میرے  گھر  سے چلے جاؤ ورنہ  تمہیں بہاولا لانگڑی والا مارے گا۔جب یہ  پیغام چیونٹیوں کو پہنچایا گیا  تو فوراً وہ گھرسے چلی گئیں۔(100)

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


وصال

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ۷صفرالمظفر۱۲۶۷ھ مطابق12دسمبر 1850ء کو وصال فرمایا اور آپ کامزار مبارک تونسہ شریف(ضلع ڈیرہ غازی خان) میں مرجعِ خلائق ہے۔ آپ کے مزار پر نواب بہاولپور ثالث (1825ء تا 1852ء) مرید خواجہ تونسوی نے 85 ہزار روپے کی لاگت سے ایک عالیشان مقبرہ 1270ء میں مکمل کرایا۔(101)آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاسالانہ عرسِ مقدس 5-6-7صفر المظفرکو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے،جس میں نہ صرف پاکستان ،بلکہ افغانستان،ہندوستان اور ایران سے زائرین جوق در جوق حاضری دینے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

مجلس مزاراتِ اولیا

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے،سنتوں کی خوشبو پھیلانے،عِلْمِ دین کی شمعیں جلانے اور لوگوں کے دلوں میں اولیا ءُاللہ کی محبت و عقیدت بڑھانے میں مصروف ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ(تادمِ تحریر) دنیا کے کم وبیش 200ممالک میں اس کا  مَدَنی پیغام پہنچ چکا ہے۔ساری دنیا میں مَدَنی کام کومنظم کرنے کےلئے تقریباً 103سے زیادہ مجالس قائم ہیں،انہی میں سے ایک ’’مجلسِ مزاراتِ اولیا‘‘بھی ہے جودیگر مدنی کاموںکے ساتھ ساتھ درج ذیل خدمات انجام دے رہی ہے۔


1.       یہ مجلس اولیائےکرامرَحِمَہُمُاللّٰہ ُالسَّلَامکےراستےپرچلتےہوئےمزاراتِ مبارکہ پرحاضر ہونے والے اسلامی بھائیوں میں مَدَنی کاموں کی دُھومیں مچانے کیلئے کوشاں ہے۔

2.       یہ مجلس حتَّی المَقدُورصاحبِ مزارکے عُرس کے موقع پراِجتماعِ ذکرونعت کرتی ہے۔

3.       مزارات سے مُلْحِقہ مساجِد میں عاشِقانِ رسول کے مَدَنی قافلے سفرکرواتی اوربالخصوص عُرس کے دنوں میں مزارشریف کے اِحاطے  میں سنّتوں بھرے مَدَنی حلقے لگاتی ہے جن میں وُضو،غسل،تیمم،نمازاور ایصالِ ثواب کا طریقہ، مزارات پر حاضری کے آداب اوراس کا درست طریقہ  نیز سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنّتیں سکھائی جاتی ہیں۔

4.       عاشِقانِ رسول کو حسبِ موقع اچھی اچھی نیتوں مثلاًباجماعت نمازکی ادائیگی، دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وارسنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت،درسِ فیضانِ سنت دینے یا سننے،صاحبِ مزار کے اِیصالِ ثواب کیلئے ہاتھوں ہاتھ مدنی قافلوں میں سفراورفکرِ مدینہ کے ذَرِیعے روزانہ مَدَنی انعامات کارسالہ پُرکرکے ہر مَدَنی یعنی قمری ماہ کی ابتِدائی دس تاریخوں کے اندراندراپنے ذِمہ دارکوجمع کرواتے رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

5.       ’’مجلسِ مزاراتِ اولیا‘‘ایامِ عُرس میں صاحبِ مزارکی خدمت میں ڈھیروں


 ڈھیرایصالِ ثواب کاتحفہ بھی پیش کرتی ہے اورصاحبِ مزاربُزرگ کے سَجادہ نشین،خُلَفَااورمَزارات کے مُتَوَلِّی صاحبان سے وقتاًفوقتاًملاقات کرکے اِنہیں دعوتِ اسلامی کی خدمات،جامعاتُ المدینہ و مدارِسُ المدینہ اور بیرونِ ملک میں ہونے والے  مَدَنی کام وغیرہ سےآگاہ رکھتی ہے۔

6.       مَزارات پرحاضری دینے والےاسلامی بھائیوں کوشیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی عطاکردہ نیکی کی دعوت بھی پیش کی جاتی ہے۔

اللہعَزَّ  وَجَلَّ  ہمیں تا حیات اولیائےکرامرَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام کا ادب کرتے ہوئے ان کے در سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان مبارک ہستیوں کے صدقے دعوتِ اسلامی کو مزید ترقیاں عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                                                       صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

مزارات اولیا پر لگائے جانے والے تربیتی حلقوں کے موضوعات

حلقہ نمبر1:مزارات اولیاپر حاضری کا طریقہ    

حلقہ نمبر2:وضو ،غسل اور تیمم کا طریقہ

حلقہ نمبر 3:نماز کا سبق    

        حلقہ نمبر 4:نماز کا عملی طریقہ

حلقہ نمبر5:راہِ خدا میں سفر کی اہمیت ( مدنی قافلوں کی تیاری)


حلقہ نمبر6:درست قرآن پاک پڑھنے کا طریقہ

 حلقہ نمبر 7:نیک بننے اور بنانے کا طریقہ(مدنی انعامات)

ہدایات:مدنی  حلقہ مزار کے احاطے کے قریب ہوجس میں دو خیر خواہ مقرر کیے جائیں جو دعوت دےکرزائرین کو حلقے میں شرکت کروائیں۔ہرحلقے کے اختتام پر انفرادی کوشش کی جائے اور اچھی اچھی نیتیں کروائی جائیں اور نام و نمبرز مدنی  پیڈ پر تحریرکیے جائیں۔

مزاراتِ اولیاپر  مدنی حلقوں میں دی جانے والی نیکی کی دعوت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ کو مَزار شریف پرآنا مبارک ہو ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ ! عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کی طرف سے سُنَّتوں بھرے مَدَنی حلقوں کا سِلْسِلہ جاری ہے ،یقیناًزندگی بے حد مختصر ہے ،ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں ،عنقریب ہمیں اندھیری قبرمیں اُترنا اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا پڑے گا،اِن اَنمول لمحات کو غنیمت جانئے اور آئیے! اَحکامِ الٰہی پر عمل کا جذبہ پانے،مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنَّتیں اور اللہ کے  نیک بندوں کے مَزارات پر حاضری کے آداب سیکھنے سکھانے کے لئے مَدَنی حلقوں میں شامل ہوجائیے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کودونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرمائے۔(102) اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حوالہ جات:

(1)ترمذی،کتاب الوتر،باب ماجاء في فضل الصلاۃ علی النبی ، ۲/۲۷،حدیث:۴۸۴(2)مناقب المحبوبین، ص ۲۸۴بتغیرقلیل(3)المصطفیٰ والمرتضیٰ،ص۴۷۷،مناقب المحبوبین،ص۲۷۹(4)مناقب المحبوبین،ص۲۸۱(5) نزھۃالخواطر،۷/۲۲۷(6)مناقب المحبوبین،ص۵۵۶،۵۵۷(7)مناقب المحبوبین،ص۲۷۹، انسائیکلو پیڈیا اولیائے کرام،۴/۱۴۱(8)مناقب المحبوبین،ص۳۲۷ (9)مناقب المحبوبین،ص۲۸۴(10)مناقب المحبوبین، ص۲۹۴  (11) صراط الجنان،۷/۱۱۸(12)مناقب المحبوبین،ص۲۸۹(13)مسلم،کتاب الایمان ،باب بیان خصال المنافق، ص ۵۳، حدیث:۲۱۱(14)مناقب المحبوبین،ص۱۳۸(15)مناقب المحبوبین،ص۱۳۹،۱۴۲(16)مناقب المحبوبین، ص۱۵۰ (17) مناقب المحبوبین،ص۱۴۳،خزینۃ الاصفیاء،۲/۴۷۹ تا۴۸۲(18)مناقب المحبوبین،ص۱۹۴،المصطفٰی و المرتضیٰ، ص ۴۷۲ (19)مناقب المحبوبین،ص۲۹۹،۵۷۳(20)مناقب المحبوبین، ص۲۹۶(21)مناقب المحبوبین،ص۳۰۴ (22) مناقب المحبوبین، ص۳۰۴(23)مناقب المحبوبین ،ص۵۴۳،۳۱۴ (24)مناقب المحبوبین،ص۳۱۶ (25)مناقب المحبوبین،ص۳۲۳ (26)مناقب المحبوبین،ص۳۲۶ (27)مناقب المحبوبین،ص۳۲۸ (28)نافع السالکین، ص۳۵۹(29)نافع السالکین،ص۵۹(30)مناقب المحبوبین، ص۵۷۴،۵۷۵(31)مناقب المحبوبین، ص،۵۷۵ (32)مناقب المحبوبین، ص،۵۷٦(33)ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الکنزماھو؟،۲/۱۳۷، حدیث: ۱۵۶۳ (34)مناقب المحبوبین،ص۳۵۷(35)مناقب المحبوبین، ص۳۶۸ (36)مناقب المحبوبین، ص۳۸۶ (37)مناقب المحبوبین، ص۴۵۷، نافع السالکین،ص۲۳۵(38)تاریخ مشائخ چشت ،ص ۵۳۴ملخصاً،تذکرہ اکابر اہل سنت،ص۱۷۶ ملخصاً (39) مرات العاشقین، ص۱۵۲، ۱۵۹ ،انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام، ۴/۱۴۳(40)مرات العاشقین، ص۱۵۷ (41) مناقب المحبوبین، ص ۴۵٧ (42)مناقب المحبوبین،ص ۴۱۵(43)بخاری، ۳/۲۴۷، حدیث:۴۶۸۶(44)نافع السالکین، ص۳۳۳(45)نافع السالکین،ص۳۳۴(46)نافع السالکین،ص۸۹(47)نافع السالکین،ص۱۴۲(48)مناقب المحبوبین، ص۵۱۱(49)مناقب المحبوبین،ص۴۲۸(50)نافع السالکین،ص ۲۷۳(51)نافع السالکین،ص۶۳ (52)مناقب المحبوبین، ص۵۴۳(53)مناقب المحبوبین،ص۵۱۱(54)مناقب المحبوبىن،ص۵۵۸ (55) الرسالۃ القشیریۃ، باب الاستقامۃ،ص۲۴۰ (56)مرات العاشقین ،ص۱۵۱(57)نافع السالکین، ص۸۰ ( 58) مناقب المحبوبین،ص ۴۵۶(59)مناقب المحبوبین،ص۴۳۲(60)نافع السالکین،ص٨٩(61)نافع السالکین،ص١٠٣ (62) نافع السالکین، ص١٤٦(63)نافع السالکین،ص۲۱۰(64)نافع السالکین،ص۵۲(65)نافع السالکین، ص۵۴ (66) نافع السالکین، ص۱۷۶(67)نافع السالکین،ص۱۷۸(68)غیبت کی تباہ کاریاں،ص۲۶ (69) نافع السالکین،ص۱۸۱ (70)فِرْدوسُ الْاخبار، باب الطاء ،۲/۴۶ ، حدیث:۳۷۴۲(71)سنن ابن ماجہ،کتاب الحدود، باب الستر علی المؤمن، ۳/۲۱۸، حدیث:۲۵۴۴ (72)موسوعة ابنِ اَبِی الدُّنْیا،کتاب العقوبات ، باب الغیبة  وذمھا ،۴ / ۳۵۷ ، رقم:  ۵۶(73) نافع السالکین، ص۱۹۱ (74)حضرت سلیمان تونسوی کے سو واقعات،ص۵۰(75)حضرت سلیمان تونسوی کے سو واقعات، ص۵۸ (76)حضرت سلیمان تونسوی کے سو واقعات،ص۵۹(77)نافع السالکین،ص۱۹۱(78)نافع السالکین، ص۲۰۱ (79) نافع السالکین،ص۲۱۸(80)مناقب المحبوبین،ص۴۷٤(81)مناقب المحبوبین،ص۴۸۰(82)المصطفیٰ والمرتضیٰ، ص۴۷۷ملخصا،تاریخ مشائخ چشت،ص۴۷۴ (83)مناقب المحبوبین،ص  ۵۷۸تا۵۸۶(84)تاریخ مشائخ چشت، ص۵۰۳(85)مناقب المحبوبین،ص۵۷۸(86)مناقب المحبوبین،ص۵۸۷،تاریخِ مشائخ ِچشت،ص۵۴۷، انسائیکلو پیڈیااولیائے کرام،۴ / ۲۲۶،۲۹۷، تذکرۂ کاملان رامپور،ص۲۰۰ (87)انسائیکلوپیڈیااولیائے کرام،۴/ ۱۲۶ ملخصاً ( 88)مناقب المحبوبین، ص۲۳۹،نافع السالکین، ص۲۵،تاریخ مشائخ چشت،ص۵۰۷ ملخصاً(89)تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت ،ص۱۷۵،  انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام ، ۴/۱۸۷(90)ملفوظات حیدری ،ص ۶۰ملخصا(91)تاریخ مشائخ چشت ،ص ۵۳۵ ملخصاً(92)تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت ،ص۱۷۷ ملخصا، سیرت حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی،ص۱۵۳ملخصاً (93)المصطفیٰ و المرتضیٰ،ص۵۲۲(94)تذکرۂ علماء و مشائخ پاکستان و ہند، ۱/۴۶۳(95)سیرت حضرت شمس الدین سیالوی ،ص۱۵۸، سیرت حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی ،ص۱۵۶ ( 96)نافع السالکین،  ص۲۰۳،۲۰۴، ۲۰۷،۲۲۸،۲۳۶،۲۳۹،۲۴۸،۲۶۰، ۲۶۶،۲۶۷،۲۷۵،۲۷۷،۳۰۵،۱۰۱(97)مناقب المحبوبین،ص۴۹۳(98)مناقب المحبوبین،ص۴۸۹(99) مناقب المحبوبین ،ص ۴۴۸ ( 100)مناقب المحبوبین،ص۴۳۱ (101) المصطفیٰ والمرتضیٰ، ص۴۷۷ملخصا،مناقب المحبوبین،ص۵۲۹ (102) مزارات اولیاکی حکایات،ص۳۸


ماخذ ومراجع

کنزالایمان

مکتبۃ المدینہ ،باب المدینہ کراچی

خزینۃ الاصفیاء

مکتبہ نبویہ،مرکزالاولیالاہور،2001ء

صراط الجنان

مکتبۃ المدینہ ،باب المدینہ کراچی

تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت

فرید بک اسٹال ، مرکزالاولیا لاہور، 2000ء

صحیح بخاری

دارالكتب العلميۃ  بيروت،۱۴۱۹ھ

انسائیکلو پیڈیا اولیائے کرام

عبداللہ اکیڈمی ،مرکزالاولیا لاہور، 2015ء

صحیح مسلم

دار الكتاب العربی بیروت، 2013ء

المصطفیٰ و المرتضیٰ

ضیاء ا لقرآن ، مرکز الاولیالاہور، 2003ء

سنن ترمذی

دار الفکربيروت،۱۴۱۴ھ

حضرت خواجہ سلیمان تونسوی کے سو واقعات

اکبر بک سیلرز ،مرکزالاولیاء لاہور

سنن  ابوداؤد

دار احياء التراث العربی بيروت، ۱۴۲۱ھ

سیرت حضرت شمس الدین سیالوی

اکبر بک سیلرز ،مرکزالاولیاء لاہور

سنن ابن ماجۃ

دار المعرفة بیروت،۱۴۲۰ھ

مراٰت العاشقین مترجم

تصوف فاؤندیشن، لاہور،1998ء 

فردوس الاخبار

دار الفکر بیروت،۱۴۱۸ھ

ملفوظات حیدری

ادارہ   حزب اللہ،آستانہ عالیہ جلالپور

موسوعة ابنِ اَبِی الدُّنْیا

المکتبۃالعصریۃبیروت، ۱۴۲۶ھ

تاریخ مشائخ چشت

زاویہ پبلشرز  مرکز الاولیاء لاہور،2014ء

الرسالۃ القشیریۃ

دارالكتب العلميۃ  بيروت،۱۴۱۸ھ

نزھۃالخواطر

مدینۃ الاولیا ملتان شریف

تذکرۂ کاملان رامپور

خدا بخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ، 1986

تذکرہ علماء و مشائخ  پاکستان  و ہند

پروگیسوبکس   مرکز الاولیاء لاہور،2013

مناقب المحبوبین

چشتیہ اکیڈمی،فیصل آباد،1987ء

مزارات  اولیاکی حکایات

مکتبۃ المدینۃ،باب المدینۃ کراچی

نافع السالكین

جہلم

غیبت کی تباہ کاریاں

مکتبۃ المدینۃ،باب المدینۃ کراچی

 



٭ اشیاء جس طرح واقع اور حقیقت میں ہیں اسی طرح ان کے متعلق خبر دیناکشف ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۱/ ۵۵۱ماخوذا)

 

٭ لانگھ  مقام تونسہ سے پانچ کوس مشرق کی جانب دریائے سندھ کے کنارے واقع تھا۔

٭ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت۱۱۴۹ہجری مطابق 1736ء میں ہوئی ،آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نسباً”فاروقی“ہیں،آپ کے خاندان کو علم و عمل،زہد و تقویٰ اورشرافت و دیانت میں  امتیازی مقام حاصل ہے،خواجہ نورمحمد مہاروی چشتی نظامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےمرید و خلیفہ ہیں نیز دادا مرشدحضرت خواجہ فخرالدین چشتی نظامی  سے بھی خلافت حاصل ہے۔درس و تدریس،عبادت و ریاضت،مہمان نوازی  اور طلبہ کی خیرخواہی آپ کے معمولات  میں شامل تھی ۔۸صفرالمظفر۱۲۲۹ھ مطابق24جنوری1813ء میں وصال ہوا۔مزار مبارک کوٹ مٹھن ضلع ڈیرہ غازی خان میں مرجع ِخاص و عام ہے۔(انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام، ۴/۱۰۹ تا۱۱۳ ملخصا)

٭ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہعاجزی  وانکساری کے پیکر،اعلیٰ درجے کے متقی  اور ظاہری و باطنی  علوم  میں دسترس رکھنے والے بزرگ تھے ۔آپ  نے اپنے آباء واجداد کی  قائم  کرد ہ درسگاہ  کو اس قدر ترقی دی کہ برعظیم پاک ہند کے  کونے  کونے سےعلمِ دین کےشائقین اس درسگاہ کی جانب کھنچے چلے آئے۔(انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام، ۴/۱۱۴تا۱۱۶ ملخصا)

٭ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی ولادت۵۹۵ھ میں بخارا(ازبکستان)  میں ہوئی۔تاحیات اعلائے کلمۃ الحق میں کوشاں،تبلیغِ دین میں مشغول،خلقِ خدا کی رشد وہدایات میں مصروف رہے، بے شمارخلق آپ سے مستفیض ہوئی،ہزارہا لوگوں نے آپ سے راہِ ہدایت پائی،سینکڑوں اقوام حلقہ بگوشِ اسلام ہوئیں، اسلام کی بے پناہ اشاعت ہوئی،اوچ میں خانقاہ بخاریہ کی بنیاد رکھی۔آپ نے۱۹جمادی الاولی۶۹۰ھ کو وصال فرمایا،آپ کا مزارمبارک اوچ شریف(ضلع بہاول پورجنوبی پنجاب)پاکستان میں قبلہ ٔ حاجات  ہے۔(بہاء الدین زکریا، ص، ۱۰۳،۱۰۶،اخبارالاخیار،ص۶۱،تذکرہ اولیائے پاکستان، ۲/۲۴۳)

٭ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی ولادت۱۱۲۶ھ مطابق1717ء کواورنگ آباد(حیدر آباد دکن ،ہند)میں ہوئی، والد گرامی حضرت شاہ نظام الدین  اورنگ آبادی چشتی نظامی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اور دیگر اساتذہ  سے  تعلیم و تربیت حاصل کی ،والد ِگرامی سے بیعت ہوئے اور خلافت سے نوازے گئے۔حضرت خواجہ نور محمدمہاروی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آپ کے مشہور خلیفہ ہیں۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکاوصال۲۷جمادی الاخری مطابق 1784ء کوہوا۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے قریب ہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزار مبارک ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام،۴/۸۹تا۹۵ملخصاً،تاریخ مشائخ چشت،ص۳۹۰)

٭ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  افغان تھے اسی  لئےآپ کو”روہیلہ“کہہ کر بلایا جاتا تھا۔(تاریخ مشائخ چشت،ص۴۶۲)

٭ عارِف کامل حضرت خواجہ احمد میروی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی  ولادت ۱۲۵۰ مطابق 1834ھ میں بلوچستان کے کوہستانی علاقے میں ہوئی ۔حفظ و ناظرہ کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے وقت کے جلیلُ  القدر اساتذہ سے علم دین حاصل کیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عبادت و ریاضت میں یگانۂ روز اور حلم و بردباری کے پیکر تھےمسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے مساجد،مسافر خانےاورلنگر خانے تعمیر فرمائے ۔بروز بدھ ۵محرم الحرام۱۳۳۰ھ مطابق27دسمبر1911ء کوآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاوصال میرأشریف(تحصیل پنڈی گھیپ، ضلع اٹک)میں آپ کا مزار مرجعِ خاص و عام ہے ۔(تذکرۂ اکابر اہلسنّت، ص ۳۸، انسائیکلوپیڈیااولیائے کرام،۴/۲۹۶تا۳۰۳)