پہلے اِسے پڑھ لیجیے!

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قرآن و سنَّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی، شیخِ طریقت، امیرِاہلسنَّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال  محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اپنے مخصوص انداز میں سنتوں بھر ے بیانات ، علم و حکمت سے معمور مَدَ نی مذاکرات اور اپنے تربیت یافتہ مبلغین کے ذریعے تھوڑے ہی عرصے میں لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں مدنی اِنقلاب برپا کر دیا ہے، آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی صحبت سے فائدہ اُٹھاتے  ہوئے کثیر اسلامی بھائی وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر ہونے والے مَدَنی مذاکرات میں مختلف قسم کے موضوعات  مثلاً عقائدو اعمال، فضائل و مناقب ، شریعت و طریقت، تاریخ و سیرت ،سائنس و طِبّ، اخلاقیات و اِسلامی معلومات، روزمرہ معاملات اور دیگر بہت سے موضوعات سے متعلق سُوالات کرتے ہیں اور شیخِ طریقت امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ انہیں حکمت آموز  اور  عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے جوابات سے نوازتے ہیں۔   

امیرِاہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ان عطا کردہ دِلچسپ اور علم و حکمت سے لبریز  مَدَنی پھولوں کی خوشبوؤں سے دُنیا بھرکے مسلمانوں کو مہکانے کے مقدّس جذبے کے تحت  المدینۃ العلمیۃ  کا شعبہ’’ فیضانِ مدنی مذاکرہ‘‘ ان مَدَنی مذاکرات کو کافی  ترامیم و اضافوں  کے ساتھ ’’فیضانِ مدنی مذاکرہ‘‘کے نام سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ ان تحریری گلدستوں کا مطالعہ کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ عقائد و اعمال اور ظاہر و باطن کی اصلاح، محبت ِالٰہی و عشقِ رسول  کی لازوال دولت کے ساتھ ساتھ مزید حصولِ علمِ دین کا جذبہ بھی بیدار ہو گا۔  

اِس رسالے میں جو بھی خوبیاں ہیں یقیناً ربِّ رحیم عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے محبوبِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی عطاؤں،اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام کی عنایتوں اور امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شفقتوں اور پُرخُلوص دُعاؤں کا نتیجہ ہیں اور خامیاں ہوں تو  اس میں ہماری غیر اِرادی کوتاہی کا دخل ہے۔

مجلس المدینۃ العلمیۃ

شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ

۲۶ذوالقعدۃ الحرام ۱۴۳۸؁ ھ/ 19اگست 2017ء


 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  وَالصَّلٰوۃُ  وَالسَّلَامُ  عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط

شریرجنَّات کو بَدی کی طاقت کہنا کیسا؟

(مع دِیگر دِلچسپ سُوال جواب)

شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ (۳۰ صفحات) مکمل پڑھ لیجیے

 اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔

دُرُود شریف کی فضیلت

سَردارِ دوجہان،محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے:مسلمان جب تک مجھ پر دُرُود شریف پڑھتا رہتا ہے فرشتے اُس پر رَحمتیں بھیجتے رہتے ہیں،اب بندے کی مرضی ہے کم پڑھے یا زیادہ ۔([1])   

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

شیطان یا شریرجنات کو بَدی کی طاقت کہنا کيسا؟

سُوال:شیطان یا شریر جنات کو بَدی کی طاقت کہنا کیسا ہے؟

جواب:شیطان یا شریر جنات کو بَدی کی طاقت کہنا دَرحقیقت ان کے جسمانی  وُجود کا اِنکار کرنا ہے  اور یہ کُفر ہے جیسا کہ صَدرُ الشَّریعہ، بَدرُ الطَّریقہ حضرتِ علَّامہ


 

مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں: (جِنّات ) کے وُجود کا اِنکار یا بَدی کی قوت کا نام جِنّ یا شیطان رکھنا کُفر ہے۔([2]) آج کل بعض نادان لوگ یہ کہتے سنائی دیتے  ہیں کہ ہم جنات کو نہیں مانتے، جنات کا وُجُود ہی نہیں ہے، یہ سب عقلی ڈھکوسلے (خرافات) ہیں ایسا کہنا کفر ہے کیونکہ قرآنِ پاک سے جنات کے وُجُود کا ثبوت ملتا ہے بلکہ قرآنِ پاک میں”سورۃُ الجِنّ“کے نام سے پوری ایک سورت ہے۔ جنات کے وُجُود کا اِنکار کرنا گویا قرآنِ پاک کی آیاتِ مبارکہ کا اِنکار کرنا ہے۔ پارہ 27 سُوْرَۃُ الذّٰرِیٰت کی آیت نمبر 56 میں خُدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا  فرمانِ عالیشان ہے:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)

ترجمۂ کنزُ   الایمان:اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی (یعنی اسی) لئے بنائے کہ میری بندگی کریں ۔

اور پارہ 14سورۃُ الحجر کی آیت نمبر 27 میں اِرشاد ہوتا ہے:

وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷)

ترجَمۂ کنزُ  الایمان:اور جِنّّ کو اس سے پہلے بنایا بے دھوئیں کی آگ سے۔

جِنّوں میں مذاہب

سُوال:کیا جِنّوں میں بھی مذاہب ہوتے ہیں؟

جواب:جی ہاں! جس طرح اِنسانوں میں مختلف مذاہب کے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح


 

 جنات میں بھی دِینِ اسلام کے ماننے اور نہ ماننے والے دونوں قسم کے گروہ موجود ہیں جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا محمد بن کعب عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّب فرماتے ہیں: جنات میں مؤمن بھی ہوتے ہیں اور کافر بھی۔([3]) اسی طرح جنات میں سُنّی بھی ہوتے ہیں اور بَدمذہب بھی نیز اَئمہ اَربعہ (امام اعظم ابو حنیفہ،امام شافعی،امام مالک اور امام اَحمد بن حنبلرَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن) کے پیروکار بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح  سَلاسلِ اَربعہ(یعنی قادری،چشتی ، نقشبندی اور سہروردی سلسلے) سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔([4])  

شبیہ والے مصلّے پر نماز پڑھنا کیسا؟

سُوال :جس مُصَلّے پر خانہ کعبہ یا گنبدِ خضرا کی شبیہ(یعنی تصویر) بنی ہو اس پر نماز پڑھنا دُرُست ہے یا نہیں ؟

جواب:خانہ کعبہ یا گنبدِ خضرا کی شبیہ(یعنی تصویر)والے مُصلوں پر نماز پڑھنا اگرتوہین کی نیت سے  نہ ہو تو جائز ہے اَلْبَتَّہ ان پر نماز پڑھنے سے بچنا بہتر ہے۔لوگ خانہ کعبہ یا گنبدِ خضرا کی تصاویر کی فریم بنوا کر گھروں میں آویزاں  کرتے،اُن کی


تعظیم و توقیر بجا لاتے ہیں اور اگر کہیں نیچے زمین پر رکھی ہوئی اِن کی  شبیہ (تصویر)نظر آ جائے  تو بڑے اَدَب کے ساتھ چوم کر بلند جگہ پر رکھ دیتے ہیں لیکن نماز کے  وقت ان کا خانہ کعبہ یا گنبدِ خضرا کی شبیہ والے مُصلے بچھا کر انہیں اپنے قدموں تلے رکھنا،ان  پر گھٹنے ٹیکنا،ان پر بیٹھنا اور نماز سے فارغ ہوتے  ہی مُصَلَّا لپیٹ کر ایک طرف پھینک دینا یہ قابلِ غور ہےکہ  ایک طرف تو  ان کا اتنا اَدب و اِحترام  کیا جاتا ہے اور دوسری طرف انہیں بچھا کر پاؤں کے نیچے رکھا جاتا ہے !   

(شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنَّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:)تبلیغِ قرآن و سُنَّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَعرضِ وجود میں آنے سے پہلے بھی میں خانہ کعبہ یا گنبدِ خضرا کی شبیہ والے مُصَلّے پر نماز پڑھنے سے اِجتناب کرتا تھا۔ یہ میری اپنی سوچ ہے کہ جب ہم ان مقدَّس مقامات  کی اتنی تعظیم کرتے ہیں تو پھر ان کی شبیہ والے مصلوں پر پاؤں رکھ کر کیسے کھڑے ہوں؟ میرے اس عمل  پر کسی سُنّی عالم نے میری مخالفت بھی نہیں  کی بلکہ ایک عالم صاحب کے پاس میرا آنا جانا تھا، اُن کے ہاں بھی شبیہ والے مُصَلّے بچھے ہوتے تھے، میں  نے بڑے اَدَب کے ساتھ ان کی توجُّہ اس طرف مبذول کروائی تو  انہوں  نے نہ صرف میری حمایت کی بلکہ وہ مُصَلّے بھی اُٹھوا دیئے۔


 

اِسی طرح لوگ مدینۂ منورہ زَادَھَا اللّٰہُ شَرْفًا وَّتَعْظِیْمًا کے مُصَلّے لا کر  گھروں میں اِستعمال کرتے ہیں۔خاکِ مدینہ کا تو اِس قدر اَدَب کرتے ہیں  کہ اسے پاؤں کے نیچے نہیں آنے دیتے،اگر انہیں خاکِ مدینہ مل جائے تو اُسے چومتے اور آنکھوں   میں  بطورِ سُرمہ لگاتے ہیں لیکن نماز کے وقت مدینے کے مُصَلّے پر پاؤں  رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں،اگرچہ یہ  جائز ہے  مگر میرا دِل گوارا نہیں  کرتا کہ کہاں مدینہ شریف کا بابرکت مُصَلَّا اور کہاں ہمارے گنہگار پاؤں دونوں میں کوئی تقابل ہی نہیں۔    ؎  

چِہ نِسْبَتْ خَاک رَا بَا عَالَمِ پَاک

یعنی  مٹی کو عالَمِ پاک سے کیا نسبت ہے

بہرحال شرعاً شبیہ والے اور مدینۂ منورہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً سے لائے گئے مُصَلّوں  پر نَماز پڑھنا جائز ہے لیکن اَدَب کا تقاضا یہی ہے کہ اِن  مُصَلّوں  کا بھی اِحترام کیا جائے۔حج و عمرہ سے واپس آنے والے بہت سے لوگ مجھے بطورِ تحفہ خانہ کعبہ اور گنبدِخضرا کی شبیہ والے مُصَلّے  دے جاتے  ہیں مگر میں ننگے فرش پر ہی  نماز پڑھنا پسند کرتا ہوں۔

بِلاحائل زمین پر نماز پڑھنا اَفضل ہے

سُوال : ننگے فرش پر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟


 

جواب:(شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  فرماتے ہیں:) میں ننگے فرش پر ہی  نماز پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ بغیر کچھ بچھائے ننگے فرش  پر نماز پڑھنا اَفضل ہے جیسا کہ مَراقی الفلاح میں ہے: زمین پر بِلاحائل (یعنی مُصلَّا، دَری یا  کپڑا وغیرہ بچھائے بغیر ) نماز پڑھنا اَفضل ہے۔([5]) حضرتِ سیِّدُنا عُمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْعَزِیْز صِرف مِٹّی ہی پر سجدہ کرتے تھے۔([6])اور زمین پر بِلاحائل نماز پڑھنا تو ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے بھی ثابِت ہےچُنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوسعید خُدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اپنی رِوایت کردہ طویل حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں:اِکّیس رَمَضانُ الْمُبارَک کی صُبح  کو میری آنکھوں نے مکّی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اِس حالت میں دیکھاکہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی پیشانی  مُبارک پر پانی والی گیلی مِٹّی کا نِشانِ عالی شان تھا۔([7]) اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ رسولِ پاک،صاحِبِ لَولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے خاک پر سجدہ ادا فرمایا جبھی تو خاک کے خوش نصیب ذَرَّات سرورِ کائنات،شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم


 

کی نورانی پیشانی سے بے تابانہ چمٹ گئے تھے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ مُصَلے عُمُوماً لمبائی اور چوڑائی میں کم ہوتے ہیں بعض اوقات جسم کو کچھ نہ کچھ سمیٹنا پڑتا ہے جس سے نماز میں  توجُّہ بٹتی ہے۔ مُصَلّے کی لمبائی کم ہونے کی وجہ سے اس کی کناری پر سجدہ کرنا پڑتا ہے اور نماز میں دری یا مُصَلّے  کی کناری پر جب میرا پاؤں پڑتا یا سجدے میں پیشانی لگتی ہے تو مجھے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ مسئلہ صرف مجھے ہی دَرپیش نہیں  بلکہ اوروں کو بھی اس سے واسطہ پڑتا ہو گا۔بالخصوص بھاری (Heavy) جسامت والے اسلامی بھائیوں کو اس کی کناریوں سے تکلیف ہوتی ہو گی ۔  

تیسری وجہ یہ ہے کہ دَریاں وغیرہ آگے پیچھے پھسلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے ان  پر صَف بھی دُرُست نہیں  بنتی لہٰذا جب تک ان کی حاجت نہ ہو  انہیں نہ بچھایا جائے تاکہ دَورانِ جماعت صفیں بھی دُرُست بنیں اور نماز میں خشوع و خضوع بھی حاصل ہو۔ اَلبتہ  جن علاقوں میں سردی ہو اور نمازیوں کو فرش سے تکلیف ہوتی ہو تو وہاں دَریاں بچھانے میں حرج نہیں بلکہ جہاں بہت زیادہ  سردی ہو وہاں سادہ پتلا قالین (Carpet) بچھانے میں بھی حَرج نہیں۔ دعوتِ اسلامی کے مدنی مراکز یا مَساجد و مدارس میں قالین (Carpet) متعلقہ ذِمَّہ داران کی اجازت سے ہی بچھایا جائے اور پھر اس کی دیکھ بھال اور صفائی وغیرہ  کے شرعی


 

تقاضے بھی پورے کیے جائیں ۔

نقش ونِگار والے مُصَلّوں پر نماز پڑھنا اچھا نہیں

سُوال :بعض مُصَلّوں اور کارپیٹ (Carpet) پر پھول ،محرابیں یا مَساجد وغیرہ کی تصاویر بنی ہوتی ہیں  ان پر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

جواب:نقش و نِگار والے مُصَلّوں پر نماز پڑھنے میں تو کوئی حرج نہیں مگر ان کا اِستعمال نہ ہی  ہو تو اچھا ہے کیونکہ  حالتِ نَماز میں  سجدے کے مقام پر نظر کرنا مستحب ہے اور یہ طے شدہ (Understood)بات ہے کہ جب نمازی سجدے کے مقام پر دیکھے گا تو مُصَلّےیا  کارپیٹ(Carpet) کی زیبائش اور چمک دَمک وغیرہ کی وجہ سے اس کی توجُّہ بٹے گی جیسا کہ مفتیٔ اعظم پاکستان،وقارُ المِلَّت حضرتِ مولانا مفتی محمد وَقار الدّین قادِری رَضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:نقش و نِگار والی جا نمازوں  پر نَماز پڑھنا اچھا نہیں  ہے کہ توجُّہ اِن کی طرف رہے گی اور خُشوع و خُضوع میں  فرق آئے گا۔([8])

مُصَلّوں سے چِٹ جُدا کر دیجیے

سُوال :آج کل عموماً مُصَلّوں کے ساتھ  چِٹ لگی  ہوتی ہے جس پر ان کوتیار کرنے والی کمپنی وغیرہ  کا نام لکھا     ہوتا ہے ایسے مُصَلّوں پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب:ایسے مُصَلّے جن پر کچھ لکھا ہوا ہو ان پر نماز نہ پڑھی جائے۔ ان  مُصَلّوں پر لگی


 

        ہوئی چِٹ کو جُدا کر کے انہیں اِستعمال میں لایا جائے۔ صَدرُالشَّریعہ، بَدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: بچھونے یا مصلّے پر کچھ لکھا ہوا ہو تو اس کو اِستعمال کرنا  ناجائز ہے،یہ عبارت اس کی بناوٹ میں ہو یا کاڑھی گئی ہو یا روشنائی سے لکھی ہو اگر چہ حُروفِ مُفْرَدَہ (یعنی جُدا جُدا حُروف) لکھے ہوں کیونکہ حروفِ مُفْرَدہ (یعنی جُدا جُدا لکھے ہوئے حروف) کا بھی اِحترام ہے۔ اکثر دَسترخوان پر عبارت لکھی ہوتی ہے ایسے دَسترخوانوں کو اِستعمال میں لانا ان پر کھانا کھانا نہ چاہیے۔ بعض لوگوں کے تکیوں پر اَشعار لکھے ہوتے ہیں ان کا بھی اِستعمال نہ کیا جائے۔([9])

مسجد کی دَریوں کا بےمحل  اِستعمال

سُوال : مسجد کی دَریاں وغیرہ اپنے ذاتی اِستعمال میں لانا کیسا ہے ؟

جواب:مسجد کی کسی بھی چیز کو اپنے ذاتی اِستعمال میں نہیں لا سکتے ۔بعض امام و   مؤذِّن صاحبان مسجد کی دَریاں اپنے حُجرے  میں  بچھا لیتے ہیں یہ  مسجد کی دَریوں کا بے محل اِستعمال ہے جو کہ جائز نہیں۔ صَدرُ الشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ  مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے  ہیں: مسجد کی اَشیا مثلاً لوٹا چٹائی وغیرہ کو کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کر سکتے مثلاً لوٹے میں پانی بھر کر اپنے گھر نہیں لے جا سکتے اگرچہ یہ اِرادہ ہو کہ پھر واپس کر جاؤں گا۔


 

اُس کی چٹائی اپنے گھر یا کسی دوسری جگہ بچھانا ناجائز ہے۔ یونہی مسجد کے ڈول رسی سے اپنے گھر کے ليے پانی بھرنا یا کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے موقع اور بےمحل اِستعمال کرنا       ناجائز ہے۔([10])

معتکفین کا مسجد کے وُضو خانے  پر کپڑے دھونا

سُوال :کیا معتَکف وُضو خانے پر کپڑے دھو سکتا ہے؟

جواب:  وُضو خانہ اگر فنائے مسجد میں ہے تو اس پر معتکف بِلاتکلف جا سکتا ہے مگر جہاں تک کپڑے دھونے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں  عرض ہے کہ وُضو خانے پر کپڑے  نہ دھوئے جائیں  کیونکہ مسجد کا پانی نمازیوں کی ضَروریات کے لیے ہوتا ہے۔ اگر ہر معتکف اپنے کپڑے یا چادریں  وغیرہ وضو خانے پر دھونا شروع کر دے تو جس مسجد میں پانی محدود ہو گا وہاں نمازیوں کو  دِقّت کا سامنا کرنا پڑے گا اور جن  نمازیوں کے  گھر مسجِد کے اَطراف میں نہیں  مسجد میں  پانی نہ ہو نے کے سبب وہ جماعت سے محروم رہ جائیں گے۔  

دعوت ِاسلامی کے زیرِ اِہتمام پورے رَمضانُ المبارک کے  تربیّتی اِعتکاف اورخصوصاً رَمضانُ المبارک کے آخری عَشْرے کے سُنّتِ اِعتکاف کی ترکیب ہوتی ہے۔اس میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہزاروں  اِسلامی بھائی اِعتکاف کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔اب اگر ہر معتکف اسلامی بھائی اپنے کپڑے مسجد کے وضو


 

خانے پر  دھونا شروع کر دے تو پانی ختم ہو جائے گا اور بالآخر خود معتکفین کو اور  عام نمازیوں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا معتکفین اِسلامی بھائیوں کو چاہیے کہ وہ اِعتکاف  بیٹھنے سے پہلے اپنے کپڑے دُھلوا لیں یا پھر لَانْڈرِی کے ذریعے دُھلوانے کی ترکیب بنائیں۔  

دَورانِ اِعتکاف کپڑے وغیرہ دھونے کی ترکیب نہ ہی بنائی جائے تو بہتر ہے تاکہ جو وقت کپڑے دھونے میں صرف ہو رہا ہے وہ بھی سیکھنے سکھانے اور عبادت کرنے میں صرف ہو،اَلبتہ اگر کسی کے  پاس کپڑوں  کے ایک یا  دو جوڑے ہوں  اور وہ  میلے یا ناپاک ہو گئے  ہوں اب  گھر  مسجِد کے قریب ہے  نہ کوئی دھو کر دینے والا اور نہ ہی پاس اتنے پیسےہیں  کہ لانْڈرِی سے  دُھلوا سکے  تو ایسی مجبوری کی حالت میں وہ وضو خانے پر  کپڑے دھو لے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ پانی کا ایک چھینٹا بھی مسجد کی  دَری یا فرش پر گرنے نہ پائے لہٰذا کسی بڑے برتن یا ٹب وغیرہ میں کپڑے  دھوئے جائیں۔ یوں ہی وضو کرتے وقت بھی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وضو کی کوئی چھینٹ مسجد میں نہ گرے۔ میرے آقااعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنت،مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اِمام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ ” اگر معتکف کسی معقول وجہ سے مسجد ہی میں وُضو کرے تو اسے اِجازت ہوگی؟“ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  


 

نے جواباً اِرشاد فرمایا :نہیں، مگر جبکہ وہ باحتیاط اِس طر ح وضو کرے کہ اُس کے وضو کی چھینٹ مسجد میں نہ گرے کہ اِس کی سخت ممانعت ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ فصیل (یعنی حوض کی دیوار)پر وضو کیا اور ویسے ہی ہاتھ جھٹکتے فرشِ مسجد میں پہنچ گئے ،یہ ناجائز ہے ۔   میں نے ایک بار بغیر برتن کے خاص مسجد میں و ضو جائز طور پرکیا ،وہ یوں کہ پانی موسلا دھار پڑ رہا تھا اور میں معتکف، جاڑوں کے دن تھے،میں نے تَوشک (یعنی روئی دار بستر) بچھا کر اور اِس پر لحاف ڈال کر وضو کر لیا۔ اس صورت میں ایک چھینٹ بھی مسجد کے فرش پر نہ پڑی ،پانی جتنا وُضو کا تھا توشک و لحاف نے جَذب کر لیا۔([11])

حالتِ اعتکاف میں  نہانے کا حکم

سُوال : معتکف غسل فرض ہونے کے عِلاوہ بھی نہا سکتا ہے یا نہیں؟نیز معتکف  کا وضو خانے پر صابن اِستعمال  کرنا کیسا ہے؟

جواب:اِستنجا  خانے اور غسل خانے عموماً فنائے مسجد ہی میں بنے ہوتے ہیں لہٰذا معتکف  بِلاتکلف اِن پر آ جا سکتا ہے،غسل بھی کر سکتا ہے اور صابن بھی اِستعمال کر سکتا ہے۔فرض غسل کے عِلاوہ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے یا سُنَّت یا مستحب غسل  کرنے سے بھی معتکف کے اِعتکاف پر کوئی  اَثر نہیں  پڑتا مگر فرض غسل کے عِلاوہ غسل کرتے وقت یہ ضَرور دیکھ لیا جائے کہ اس کے لیے مناسب وقت


 

اور پانی بھی موجود ہے یا نہیں۔اگر وقت ایسا  ہو کہ نہانے لگیں گے تو کسی بھی فرض  نماز کی جماعت یا خطبۂ جمعہ اور نمازِ جمعہ فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے یا سیکھنے سکھانے کے حلقوں میں شرکت نہیں ہو پائے گی  یا پانی ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو شدید مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا تو ایسی صورت میں سُنَّت یا مستحب غسل کرنے سے پرہیز کریں۔ویسے بھی مذہبِ حنفی میں  جمعہ کا غسل سنَّتِ غیرمؤ کدہ ہے جیسا کہ خَاتَمُ الْمُحَقِّقِیْن حضرتِ سیِّدُنا علّامہ ابنِ عابِدین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامی فرماتے ہیں:نمازِ جمعہ کے لیے غسل کرنا سُنَنِ زَوائِد (یعنی سنّتِ غیر مؤ کدہ)میں سے ہے،اِس کے ترک پر عتاب (یعنی ملامت) نہیں۔([12]) اگر  غسل خانے فنائے مسجد میں نہ ہوں بلکہ دُور ہوں تو  پھر معتکف فرض غسل کے عِلاوہ ٹھنڈک حاصل کرنے یا سُنَّت یا مستحب غسل  کرنے اور صابن کے ساتھ ہاتھ منہ دھونے کے لیے وہاں نہیں جا سکتا۔

علمِ دِین سے دُوری اور جہالت کے سبب بعض لوگ سُنَّت کے مطابق وُضو اور غسل کرنا بھی نہیں جانتے جس کی وجہ سے بہت زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے۔آج کل تو حالت يہ ہے کہ لوگ جب وُضو کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں  تو بیٹھتے ہی نَل کھول لیتے ہیں  پھر بڑے مزے سے آستین چڑھا کر وُضو  کرنا شروع کرتے ہیں تو اس طرح وُضو شروع کرنے سے پہلے ہی کافی پانی ضائع ہو چکا ہوتا ہے ۔اِسی


 

  طرح  مسواک کرتے وقت اور سر کا مسح کرتے وقت بھی  نَل کُھلا رہتا ہے تو یوں بھی  کافی مقدار میں  پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیے!جہاں آدھے چُلّوپانی سے کام چلتا ہو وہاں پورا چُلّو پانی لینا بھی اِسراف([13]) میں داخِل ہے جیسا کہ صَدرُ الشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ  مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ الْقَوِی  فرماتے ہیں:چُلّو میں پانی لیتے وقت خیال رکھیں کہ پانی نہ گرے کہ اِسراف ہو گا۔ایسا ہی جس کام کے لئے چُلّو میں پانی لیں  اُس کا اَندازہ رکھیں، ضرورت سے زیادہ نہ لیں مثلاً ناک میں  پانی ڈالنے کے لئے آدھا چُلّو کافی ہے تو پورا چُلّو نہ لے کہ اِسراف ہو گا۔ہاتھ، پاؤں،سینہ،پُشت پر بال ہوں تو ہڑتال وغیرہ سے صاف کر ڈالے یا تَرَشْوا لے، نہیں تو پانی زیادہ خرچ ہو گا۔([14])اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں نعمتوں کی قدر کرنے اور اِسراف سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم

مُرتد  ہونے کے بعدمسلمان ہونے والے کی قضا نمازوں  کا حکم

سُوال :اگر خدانخواستہ کوئی بدنصیب  کلمۂ کفر بک کر دائرۂ اِسلام سے خارج ہو جائے تو


 

تجدیدِایمان کے بعد کیا اُسے سابقہ نماز روزے   کی قضا  کرنی  ہو گی یا نہیں؟

جواب:مسلمان ہو نے کے بعد جو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ  مُرتد یعنی کافر ہو گیا تو اس کے سابقہ تمام نیک اَعمال مثلاً نماز،روزہ ،حج،زکوٰۃ اور صدقہ وخیرات وغیرہ  غارت (یعنی برباد) ہو گئے، صاحبِ اِستطاعت ہونے کی صورت میں حج دوبارہ کرنا ہو گا۔ اَلبتہ زمانۂ اسلام کی جو نمازیں اور روزے باقی تھے وہ اب بھی بدستور باقی ہیں لہٰذا ان کی اَدائیگی ضَروری ہے چنانچہ صَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  فرماتے  ہیں :زمانۂ اسلام میں  کچھ عبادات قضا  ہوگئیں  اور ادا کرنے سے پہلے مُرتد ہو گیا، پھر مسلمان ہوا تو ان عبادات کی قضا کرے اور جو ادا کر چکا تھا اگرچہ اِرتداد سے باطل ہو گئی مگر اس کی قضا نہیں اَلبتہ اگر صاحبِ اِستطاعت ہو تو حج دوبارہ فرض ہو گا۔([15]) حالتِ اِرتداد میں مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ  جتنے دن گُزرے ان  میں  نماز پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہے،  پڑھی  تو اس کا کوئی ثواب نہیں،نہ  پڑھی  تو اس کی قضا نہیں کیونکہ  حالتِ اِرتداد میں  نماز فرض ہی نہیں ہوتی ،نماز صرف مسلمان پر فرض ہوتی ہے۔

نمازی کی طرف مُنہ کرنا کیسا؟

سُوال :نمازی کی طرف مُنہ کر کے کھڑے ہونا یا بیٹھنا کیسا ہے ؟

جواب:نماز پڑھنے والے کے عین چہرے کی طرف مُنہ کر کے کھڑا ہونا یا بیٹھنا مکروہِ


 

تحریمی ہے ۔ ہاں  اگر کوئی پہلے سے اس طرف منہ کر کے کھڑا یا بیٹھا ہے اور  کسی نے آ کر اس کے سامنے نماز شروع کر دی  تو اب کراہت نماز شروع کرنے والے پر ہے  جیسا کہ فقہائے کرامرَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام فرماتے ہیں:کسی شخص کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھناایسے ہی مکروہ ہے جیسے نمازی کی طرف مُنہ کرنا، پس اگر مُنہ کرنا نمازی کی طرف سے ہو تو کراہت اس پر ہو گی ورنہ نمازی کی طرف چہرہ کرنے والے پر کراہت ہے۔([16])

 امام صاحبان کے لیے سلام پھیرنے کے بعد دائیں بائیں پھر جانا یا مقتدیوں کی طرف مُنہ کر لینا سنَّت ہے مگر مقتدیوں کی طرف مُنہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے  کہ کسی  مسبوق([17])  کی طرف مُنہ نہ ہو چنانچہ میرے آقا اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت،مجدِّدِ دِین وملّت مولانا شاہ اِمام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: (امام کے لیے)بعدِ سلام قبلہ رُو بیٹھا رہنا ہر نماز میں مکروہ ہے وہ شمال و جنوب و مشرق میں مختار ہے مگر جب کوئی مسبوق اس کے محاذات میں (یعنی سامنے)اگر چہ اَخیر صف میں نماز پڑھ رہا ہو تو مشرق یعنی جانبِ مقتدیان مُنہ نہ کرے۔ بہرحال پھرنا مطلوب ہے اگر نہ پھرا اور قبلہ رُو بیٹھا رہا تو


 

مبتلائے کراہت و تارکِ سنّت ہو گا۔([18])لہٰذا جما عت کا سلام پھر جانے کے بعد پیچھے نماز پڑھنے والوں  کی طرف چہرہ کر کے اُنہیں دیکھنے یا پیچھے جانے کے لیے اُن کی طرف منہ کر کے ان کی نماز ختم ہونے کا اِنتظار کرنے یا نمازیوں  کے سامنے کھڑے ہو کر اِعلان کرنے  یا  دَرس وبیان کرنے سے بچنا ہو گا۔اسی طرح  جمعۃ المبارک کے خطبے میں بھی اِحتیاط کرنی چاہیے ۔ اگر کسی سے یہ غَلَطیاں ہوئی ہوں تو اُسے توبہ کرنی چاہیے ۔

فنائے مسجد میں  دُنیوی باتیں کرنا اور قہقہہ لگانا

سُوال :فنا ئے مسجِد کسے کہتے ہیں؟نیز فنائے مسجد میں دُنیوی باتیں  کرنے اور قہقہہ لگانے کا کیا حکم ہے؟

جواب:فنائے مسجِد سے مُراد وہ جگہ ہے  جو ضَروریاتِ مسجِد  کے لئے بنائی گئی ہو اور مسجِد کی چار دیواری یا حدود کے اندر ہو نیز اس کے اور اَصل مسجِد کے درمیان راستہ نہ ہو جیسا کہ فقہائے کرامرَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام فرماتےہیں:فنائے مسجد وہ مکان ہے جو مسجِد سے متصل(یعنی مِلا ہوا) ہو اور دَرمیان میں راستہ نہ ہو۔([19])

رہی بات فنائے مسجد میں دُنیوی باتیں  کرنے اور قہقہے لگانے کی تو اس کے متعلق میرے آقا اعلیٰ حضرت  عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں:فصیلِ مسجد بعض


 

 باتوں  میں  حکمِ مسجِد میں ہے معتکف بِلا ضَرورت اس پر جا سکتا ہے اس پر تُھوکنے یا ناک صاف کرنے یا نَجاست ڈالنے کی اِجازت نہیں ، بیہودہ باتیں ،قہقہے سے ہنسنا وہاں  بھی نہ چاہئے اور بعض باتوں  میں  حکمِ مسجد نہیں  اس پر  اَذان دیں  گے ،اس پر بیٹھ کر وُضو کر سکتے ہیں۔ جب تک مسجد میں جگہ باقی ہو اس پر نَماز فرض میں مسجد کا ثواب نہیں،دُنیا کی جائز قلیل بات جس میں  چپقلش (جھگڑا)  ہو نہ کسی نَمازی یا ذاکِر (یعنی ذِکر کرنے والے)کی اِیذا (تو)اس میں حرج نہیں۔([20])

نمازی کے آگے سے گزرنے کی  وعیدات

سُوال : نمازی کے آگے سے گزرنا کیسا ہے ؟

جواب:نمازی کے آگے سے گزرنا  سخت گناہ ہے اَحادیثِ مُبارَکہ میں اس کی بہت سخت و عیدات  بیان ہوئی  ہیں چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا  زید بن خالد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو فرماتے سنا: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جانتا کہ اُس پر کیا ہے؟ تو چالیس برس کھڑے رہنے کو گزرنے سے بہتر جانتا۔([21])

حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:اگر کوئی جانتا کہ اپنے بھائی کے سامنے نماز میں


 

 آڑے ہو کر گزرنے میں  کیا ہے؟ تو سو برس کھڑا رہنا اس ایک قدم چلنے سے بہتر سمجھتا۔([22])

حضرتِسیِدُنا کعب ُالاحبار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:نمازی کے سامنے سے گُزرنے والا اگر جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے؟ تو  زمین میں  دَھنس جانے کو (نَمازی کے آگے سے)گُزرنے سے بہتر جانتا۔([23]) مُصَلِّی(نمازی)کے آگے ستُرہ ہو یعنی کوئی ايسی چیز جس سے آڑ ہو جائے، تو سُترہ کے بعد سے گُزرنے میں کوئی حَرج نہیں۔([24])

سُترہ کیسا ہونا چاہیے؟

سُوال : سُترہ کیسا ہونا چاہیے؟نیز نمازی کے آگے سے گُزرنے کے لیے کیا  چادر کا سُترہ کافی ہے ؟

جواب:سُترہ کم از کم ایک ہاتھ اونچا اور اُنگلی کے برابر موٹا ہو نا چاہیے لہٰذا جو چیز سُترہ بنائی جا رہی ہے اس کا کم ازکم ایک ہاتھ اونچا اور اُنگلی  برابر موٹا ہو نا ضَروری ہے اگر اس مِقدار سے کم ہو گی تو سُترہ نہیں ہو گا۔فقہِ حنفی کی مشہور و معروف کتاب


 

دُرِّمختار میں ہے:سُترہ ایک ہاتھ کی مِقدار اونچا اور اُنگلی برابر موٹا ہو۔([25])

رہی بات چادر کو سُترہ بنانے کی تو اگر کسی نے چادر کو اوپر سے پکڑ کر چھوڑ دیا اور نمازی کے آگے سے گزرا تو اس طریقے سے چادر کا سُترہ نہیں ہوسکتا اور گُزرنے والا گناہگار ہو گا۔

کینے کی تعریف اور سبب

سُوال:کینہ کسے کہتے ہیں؟نیز کینہ  پیدا     ہونے کا سبب کیا ہے؟

جواب: کینہ دِل کی چھپی ہوئی دُشمنی کو کہتے ہیں،یہ  ایک باطنی بیماری ہے ایسی باطنی بیماریوں کو مہلکات کہتے ہیں، ان کے بارے میں ضَروری اَحکامات کا جاننا مسلمان کے لیے فرضِ عین اور نہ جاننا گناہ ہے۔ کینہ پیدا ہونے کا بنیادی سبب

”غُصَّہ“ہے جیسا کہ حُجَّۃُ الْاِسْلَام حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  اللّٰہِ  الْوَالِی فرماتے ہیں :کینہ کا معنیٰ یہ ہے کہ ”انسان اپنے دل میں  کسی کو (بِلا اجازتِ شرعی) بوجھ سمجھے اور ہمیشہ کے لیے اس سے بغض و عداوت رکھے اور نفرت کرے ۔“ جب انسان کو غصَّہ آتا ہے اور وہ اس وقت اِنتقام لینے سے عاجز ہونے کی وجہ سے غصہ پینے پر مجبور ہوتا ہے تو اس کا یہ غُصّہ باطِن کی طرف چلا جاتا ہے اور قرار پکڑ لیتا ہے  پھر ” کینے“کی شکل اِختیار کر لیتا ہے۔([26])


 

بِلاوجہ شرعی بغض و کینہ رکھنے کا حکم

سُوال:کسی مسلمان کے متعلق اپنے دل میں بغض و کینہ رکھنا کیسا ہے ؟

جواب:مسلمان سے بِلاوجہ شرعی کینہ وبغض رکھنا حرام ہے۔([27]) لہٰذا ہر دَم اپنے سینے  کو مسلمانوں کے کینے سے پاک رکھیے۔حضرتِ سَیِّدُنا اَنس بن مالِک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے اِرشاد فرمایا:اے میرے بیٹے! اگر تم صُبْح و شام اس حال میں کرو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کینہ نہ ہو تو (ایسا ہی) کرو۔ پھر مجھ سے فرمایا: يَا بُنَيَّ وَذٰلِكَ مِنْ سُنَّتِيْ،وَمَنْ اَحْيَا سُنَّتِيْ فَقَدْ اَحَبَّنِيْ،وَمَنْ اَحَبَّنِيْ  كَانَ مَعِيَ   فِي الْجَنَّةِ اے میرے بیٹے! یہ میری سنَّت ہے اور جس نے میری سنَّت کو زندہ کیا اُس نے مجھ سے مَحبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔([28]) اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے سینوں کو مسلمانوں کے کینوں سے پاک و صاف فرمائے اور ہمیں اِس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم

کینۂ مسلم سے سینہ پاک کر

اِتباعِ صاحبِ لولاک کر                  (وسائلِ بخشش)


 

کینے سے بچنے کا طریقہ

سُوال:کینہ سے بچنے کا طریقہ بھی اِرشاد فرما دیجیے۔

جواب:کینے سے بچنے کے لیےاس کے بارے میں عِلم ہونا ضَروری ہے ،جب اس کے بارے میں عِلم ہو گا تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے بچنے کا بھی  ذِہن بنے گا۔فی زمانہ کینے کا مَرض بہت زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے،کسی کو اپنے ماں باپ سے کینہ ہے تو کسی کو اپنی اَولاد سے،کسی کو پڑوسیوں سے تو کسی کو عزیز و اقارب سے۔ ساس اور بہو کا کینہ تو مثالی  ہے ،عُموماً اِن کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی بُرائی (یعنی غیبت وغیرہ) کرتی اور آپس میں بدگمانی رکھتے ہوئے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایک دوسرے پر جادُو کے اِلزامات دھرتی ہیں۔ عُموماً خاندان میں ہر ایک یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ جادُو کرتا ہے، وہ جادُو کرتا ہے، فُلاں نے جادو کروا دیا ہے گویا  کہ سارا معاشرہ ہی جادُوگر ہو گیا ہے۔ پھر یہ لوگ عاملوں کے پاس چکر لگاتے  ہیں، عامِل بھی اِن کی  نفسیات کے مطابق یہی بتاتے ہیں کہ تم  پر جادُو کیاگیا ہے اور بسااوقات وہ جادُو کروانے والے کے نام کا پہلا حرف بھی  بتا دیتے  ہیں۔ اب اس نام کے بارے میں غور و فکر شروع ہو جاتا ہے کہ اس حَرف سے کس کا نام شروع ہو رہا ہے،اِتفاق سے جس پر شک ہو اُسی کے نام کا پہلا حَرف وہی  ہو جو عامِل نے


 

بتایا ہے تو اب اس کی شامت آ جاتی ہے اور اس کے بارے میں دِل میں کینہ جَنَم لینا شروع کر  دیتا ہے۔

کینے سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائیے اور یوں اپنا ذہن بنائیے کہ کینہ پَروَر شبِ بَراءَت (یعنی جہنم کی آگ سے چُھٹکارا پانے کی رات) میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نظرِ رَحمت اور مغفرت سے محروم رہتا ہے جیسا کہ نبیوں کے سلطان،رَحمتِ عالمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:میرے پاس جبریل(عَلَیْہِ السَّلَام)آئے اورکہا:یہ شعبان کی پندرہویں  رات ہے اِس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ  جہنم سے اِتنوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر کافر اور عداوت والے (کینہ پَرور)اور رِشتہ کاٹنے والے،(تکبر کرتے ہوئے ٹخنوں سے نیچے)کپڑا لٹکانے والے، والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرماتا۔([29])

یاد رکھیے!کینہ پَروَرْ بہت بڑا عبادت گزار ہی کیوں نہ ہو اُسے ڈر جانا چاہیے کہ یہ باطنی بیماری کہیں اس کی ساری نیکیوں پر پانی نہ پھیر دے کیونکہ پورے گودام کو جلانے کے لیے ایک چنگاری کافی ہوتی ہے،ایک تیلی جلا کر گودام میں ڈال دیجیے تو پورا  گودام  دیکھتے ہی دیکھتے جل کر راکھ بن جائے گا لہٰذا اپنے دِل کو


 

کینۂ مُسلِم سے پاک کیجیے اور جس کے بارے میں دِل میں کینہ ہو اُسے اپنے سے بہتر جانتے ہوئے یہ ذہن بنائیے کہ ہو سکتا ہے  وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہو۔ بہرحال کوئی بھی  ایسی ترکیب کی جائے کہ دِل کینۂ مُسلِم سے پاک ہو کر سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی محبت کا مدینہ بن جائے،اس ضمن میں ایک حِکایت مُلاحظہ کیجیے: حُجَّۃُ الْاِسْلَام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  اللّٰہِ  الْوَالِی کیمیائے سعادت میں نقل فرماتے ہیں:حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر کتانی قُدِّ سَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں:ایک شخص نے میرے ساتھ دوستی کی مگر میرے دل میں بوجھ رہا۔ میں نے اُسے تحفہ دیا تا کہ دِل  کی گِرانی دُور ہو مگر فائدہ نہ ہوا۔میں اُسے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا اور کہا:اپنا پاؤں میرے چہرےپر رکھو۔ اُس نے اِنکار کیا،میں نے کہا:تجھے ایسا کرنا ہی پڑے گا چنانچہ اس نے اپنا پاؤں میرے چہرے پر رکھا  تو میرے دل سےگِرانی دُور ہو گئی۔ ([30])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اگر ہم اِس طرح نہیں کر سکتے تو کم ازکم جس سے بغض و کینہ ہو اسے حقیر جاننے سے بچتے ہوئے سلام و مصافحہ کرنے اور تحفہ وغیرہ دینے  کی عادت بنانی چاہیے کہ اس سے بھی آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اور بغض وکینہ دُور ہوتا ہے جیسا کہ حُضورِ پُرنور ،شافِعِ یومُ النُّشُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا:تَصَافَحُوْا یَذْہَبُ الْغِلُّ وَ تَہَادَوْا تَحَابُّوْا وَتَذْہَبُ


 

الشَّحْنَاءُ یعنی مصافحہ کیا کرو کینہ دُور ہوگا اور تحفہ دیا کرو محبت بڑھے گی اور بُغْض دُور  ہو گا([31])۔ ([32])

نمازِ فجرکے ليے اُٹھنے میں سُستی کی وُجوہات

سُوال:نمازِ فجرکے لیے اُٹھنے میں بہت سُستی ہوتی ہےاس کی کیا وجہ ہے؟ نیز جلد بیدار ہونے کا نسخہ بھی اِرشاد فرما دیجیے۔

جواب:نمازِ فجرکے لیے بیدار ہونے میں سُستی کی ایک وجہ رات میں سیرہو کر کھانا کھانابھی ہے کیونکہ ڈَٹ کر کھانے سے نیند گہری آتی ہے لہٰذا کھانا کم کھائیں ، جب کھانا کم کھائیں گے تو نیند گہری نہیں آئے گی اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ صُبح آنکھ بھی جلد کُھلے گی۔

دوسری وجہ رات کو دیر سے سونا بھی ہے۔ اگر آپ رات دیر تک شاہراہوں پر گھومتے پھرتے رہیں گے یا رات میں نعت خوانی کے نام پر دو دو بجے تک بیٹھے رہیں گے پھرتین یا چار بجے جب سوئیں گے تو بھلا فجرمیں آنکھ کیسے کُھلے گی!

اگر آپ کی اِن کوتاہیوں کی وجہ سے نمازِ فجر قضا ہوئی تو آپ گناہگار ہوں گے


 

 بلکہ رات کا اکثر حصّہ گزر جائے اور نمازِ فجر جانے کا اندیشہ ہو تو اب سونے کی شرعاً اجازت  ہی نہیں جیسا کہ صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:دخولِ وقت کے بعد سو گیا پھر وقت نکل گیا تو قطعاً  گنہگار ہوا جبکہ جاگنے پر صحیح اِعتماد یا جگانے والا موجود نہ ہو بلکہ فجر میں دخولِ وقت سے پہلے بھی سونے کی اِجازت نہیں ہوسکتی جبکہ اکثر حصّہ رات کا جاگنے میں گزرا اور ظن ہے کہ اب سو گیا تو وقت میں آنکھ نہ کھلے گی۔ ([33]) لہٰذا  عشا  کی نَماز پڑھ کر حتَّی الامکان دو گھنٹے کے اندر اندر سو جایئے، یہ مدنی اِنعامات میں سے ایک مدنی اِنعام بھی ہے کہ” کیا آج آپ نے مدرسۃُ المدینہ (بالغان) میں پڑھا یا پڑھایا؟ نیز مسجدِ محلہ کی عشا کی جماعت کے وقت سے دو گھنٹے کے اندر اندر گھر پہنچ گئے ؟“

وقت پر بیدار ہونے کے لیے سوتے وقت اپنے سرہانے اَلارم والی گھڑی رکھ لیجیے جس سے آنکھ کُھل جائے مگر ایک عدد گھڑی پر بھروسا نہ  کیجیے کہ بسااوقات نیند میں ہاتھ لگ جانے یا سیل(Cell)ختم ہو جانے یا یوں ہی خراب ہو کر بند ہو جانے کااندیشہ ہے لہٰذا دو یا حسبِ ضَرورت زائد گھڑیاں ہوں تو بہتر ہے۔اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں: صرف ایک گھڑی پر اِعتماد نہیں کرنا چاہیے کہ بعض اوقات خود بخود آگے پیچھے


 

ہو جاتی ہے۔([34]) (شیخِ طریقت،اَمیرِاہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:)میں سوتے  وَقت حتَّی الامکان تین گھڑیاں اپنے  سرہانے رکھتا ہوں۔

اگر جذبہ ہو گا تو راہیں خود بخود  کھلتی چلی جائیں گی اور اگر  جذبہ نہیں  ہو گا تو  گھر کیا مساجد میں دورانِ اِعتکاف بھی کئی بدنصیب لوگ باجماعت نماز ادا کرنے سے محروم  رہ جاتے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ  ہمیں باعمل بنائے اور پانچوں نمازیں مسجد کی پہلی صف میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم

عمل کا ہو جذبہ عطا یاالٰہی

گناہوں سے مجھ کو بچا یاالٰہی

میں پانچوں نَمازیں پڑھوں باجماعت

ہو توفیق ایسی عطا یاالٰہی                             (وسائلِ بخشش)

جلد بیدار ہونے کا ایک  رُوحانی نسخہ یہ ہے کہ سُورۂ کَہف کی آخری چار آیتیں([35]) یعنی(اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) سے ختم سُورہ  تک رات میں یا صُبح جس


 

 وقت جاگنے کی نیّت سے پڑھیں آنکھ کُھلے گی۔( اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) ([36])

بےوقت نیند آنے کی وجہ مَع عِلاج

سُوال:بے وقت نیند آنے کی کیا  وجہ ہے؟نیز اس کا عِلاج بھی اِرشاد فرما دیجیے۔

جواب: بےوقت نیند عُمُوماً جگر اور گُردے کی خرابی کی وجہ سے آتی ہے۔اس کا عِلاج یہ ہے کہ ”ایک گلاس پانی(نیم گَرْم ہو تو زیادہ بہترہے اس)میں ایک چمچ شَہْد ملا کر نَہار مُنہ(یعنی صبح کچھ کھا نے سےقبل) اور روزہ ہو تو اِفطار کے وقت بِلا ناغہ مستقل استعمال کیجیے موٹاپے اور بَہت سی بیماریوں بالخصوص پیٹ کے اَمراض سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ حفاظت ہو گی۔  بہتر یہ ہے کہ اس میں ایک ورنہ  آدھا لیموں بھی نچوڑ لیا کریں تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ  فَوائد زائد ہو جائیں گے۔اگر مطالعہ کرتے کرتے یا اِجتماع وغیرہ میں بیٹھے بیٹھے بے وقت نیند چڑھتی ہو گی تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے بھی نَجات ملے گی۔“([37])اس علاج کے لیے کوئی وقت مقرّر نہیں ہے لیکن بہتر وقت نہار مُنہ ہی پینا ہے۔ کوئی بھی علاج شروع کرنے سے قبل اپنے مُعالج سے ضرور مشورہ کر لیجیے۔   

٭٭٭٭٭٭


 

 

فہرست

            عنوان

صفحہ

عنوان

صفحہ

دُرُود شریف کی فضیلت

2

مُرتد ہونے کے بعدمسلمان ہونے والے  کی قضا نمازوں  کا حکم

15

شیطان یا جنات کو بَدی کی طاقت کہنا کيسا؟

2

نمازی کی طرف مُنہ کرنا کیسا؟

16

جِنّوں میں مذاہب  

3

فنائے مسجد میں دُنیوی باتیں کرنا اور قہقہہ لگانا

18

شبیہ والے مصلّے پر نماز پڑھنا کیسا؟

4

نمازی کے آگے سے گزرنے کی  وعیدات

19

بِلاحائل زمین پر نماز پڑھنا اَفضل ہے

6

سُترہ کیسا ہونا چاہیے؟

20

نقش ونِگار والے مُصَلّوں پر نماز پڑھنا اچھا نہیں

9

کینے کی تعریف اور سبب

21

مُصَلّوں سے چِٹ جُدا کر دیجیے

9

بِلاوجہ شرعی بغض و کینہ رکھنے کا حکم

22

مسجد کی دَریوں کا بےمحل  اِستعمال

10

کینے سے بچنے کا طریقہ

23

معتکفین کا مسجد کے وُضو خانے  پر کپڑے دھونا

11

نمازِ فجرکے ليے اُٹھنے میں سُستی کی وُجوہات

26

حالتِ اعتکاف میں  نہانے کا حکم

13

بےوقت نیند آنے کی وجہ مَع عِلاج

29



[1]…… ابنِ  ماجه،کتاب اقامة  الصلا ة   والسنة  فیھا،باب الصلٰوة  علی النبی،۱/۴۹۰،حدیث:۹۰۷  دار المعرفة   بیروت 

[2]بہارِشریعت،۱/۹۷،حِصَّہ:۱مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

[3]…… کتاب العظمة ،ذکر الجن  و خلقھم،ص ۴۲۹،حدیث:۱۱۳۷ دار الکتب  العلمیة   بیروت

[4]…… جنات سے متعلق تفصیلی معلومات جاننے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 262 صفحات پر مشتمل  کتاب ”قومِ جنات اور امیر ِاہلسنَّت“ہدیۃً حاصل کر کے اس کا مطالعہ کیجیے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ  بیشمار معلومات کاخزانہ ہاتھ آئے گا۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ )

[5]…… نور الایضاح  مع  مراقِی الْفلاح،کتاب الصلٰوة،فصل فیما لا یکرہ  للمصلی،ص۱۹۰ مکتبة المدینه   باب المدینه کراچی

[6]……  مکاشفة القلوب ،الباب الثامن  والاربعون... الخ ،ص۱۸۱ دار الكتب العلمية  بيروت

[7]…… مشکاة المصابیح ،کتاب الصوم،باب لیلة القدر،الفصل الاول،۱/۳۹۳،حدیث:۲۰۸۶ دار الكتب العلمية  بيروت

[8]…… وقارُالفتاویٰ،٢/٥١٤ بزم وقار الدين باب المدينہ کراچی

[9]…… بہارِ شریعت ،۳/۶۵۲،حصہ:۱۶ 

[10]بہارِشرِیعت،۲/۵۶۱،حصہ :۱۰

[11]ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص ۲۳۶مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی  

[12]…… ردالمحتار ، کتاب الطھارة ، مطلب  فی رطوبة  الفرج،۱/۳۳۹  دار المعرفة   بیروت

[13]اِسراف کے بارے میں تفصیلات جاننے اور خود کو اس  سے بچانے کے لیے شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنَّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی 499 صَفحات پر مشتمل کتاب’’نماز کے اَحکام‘‘صفحہ48تا63 کا مطالعہ کیجیے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اِسراف سے بچنے کا ذہن بنے گا ۔  (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)

[14]بَہارِشرِیعت،۱/۳۰۲ ،حِصہ:۲

[15]…… بہارِشریعت ،۲/۴۵۸، حِصہ:۹  

[16]درمختار ،کتاب  الصلٰوة ،۲/۴۹۶  دار المعرفة  بیروت

[17]…… مسبوق وہ ہے کہ امام کی بعض رکعتیں پڑھنے کے بعد شامل ہوا اور آخر تک شامل رہا۔

 (بہارِ شریعت ،۱/۵۸۸، حصّہ:۳)

[18]…… فتاویٰ رضویہ ،۶/۲۰۵ رضا  فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور

[19]…… غنیةُ المتملی، فصل  فی  احکام المسجد ، مسائل متفرقة ، ص۶۱۴  مرکز الاولیا لاھور

[20]…… فتاویٰ رضویہ ، ١۶/٤٩٥

[21]…… مسند بزار، مسند زید بن خالد الجھنی،۹/۲۳۹،حدیث:۳۷۸۲ مکتبة العلوم والحکم المدینة  المنورة

[22]…… ابنِ ماجه ،کتاب اقامة الصلاة والسنة  فیھا،باب المرور  بین  یدی المصلی ،۱/۵۰۶، حدیث:۹۴۶ 

[23]…… موطا امام مالک ،کتاب قصر الصلاة  فی السفر، باب التشدید فی أن یمر... الخ، ۱/۱۵۴، حدیث:۳۷۱  دار المعرفة  بیروت

[24]بہارِشریعت ،۱/۶۱۵،حِصہ:۳

[25]…… دُرِّمختار، کتابُ الصَّلا ة، بابُ ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا،۲/۴۸۴ 

[26]احیاءُ  العلوم ،کتاب   ذم الغضب   و الحقد  و الحسد ، القول   فی   معنی  الحقد...الخ ،۳/۲۲۳  بتقدم   و تاخر دار   صادر   بیروت

[27]…… فتاویٰ رضویہ ،۶/۵۲۶

[28]…… ترمذی ،کتاب العلم، باب  ما جاء  فی الاخذ  بالسنة...الخ ،۴/۳۰۹،حدیث:۲۶۸۷ دار الفکر بیروت

[29]شعب الایمان، باب فی الصیام، ما جاء فی لیلة النصف من شعبان ،۳/۳۸۴،حدیث:۳۸۳۷  دار الکتب  العلمیة  بیروت

[30]کیمیائے سعادت ،رکن دوم ، معاملا تست، حق پنجم،۱ /۳۸۰  اِنتشارات گنجینه  تھران

[31]موطا امام مالک، کتاب  حسن  الخلق، باب ما جاء فی المھاجرة ،۲/۴۰۷، حدیث:۱۷۳۱

[32]…… مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارےمکتبۃ المدینہ کی  مطبوعہ  352 صفحات پر مشتمل کتاب ”باطنی بیماریوں کی معلومات “اور 83 صفحات پر مشتمل رسالے

       ”بغض وکینہ“  کا مطالعہ کیجیے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس باطنی بیماری سے بچنے کا ذہن بنے گا۔ 

(شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)

[33]…… بہارِ شریعت ،۱/۷۰۱، حصّہ:۴

[34]…… فتاویٰ رضویہ،۳۰/۱۲۴

[35]سُورۂ کَہف کی آخری چار آیات یہ ہیں:(اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(۱۰۷)خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(۱۰۸)قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا(۱۰۹)قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰))

[36]…… شجرۂ قادرِیّہ رضویہ ضیائیہ عَطّارِیّہ ،ص۳۲ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی   

[37]…… فیضانِ سُنَّت ،١/٧٢٢مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی